95 / 1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اﷲ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لِکُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ يَدْعُوْ بِهَا، وَأُرِيْدُ (وفي رواية : إِنْ شَاءَ اﷲُ) أَنْ أَخْتَبِيئَ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي فِي الْآخِرَةِ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ وَمَالِکٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَغَيْرُهُمْ.
1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الدعوات، باب : لکل نبي دعوة مستجابة، 5 / 2323، الرقم : 5945، وأيضاً في کتاب : التوحيد، باب : في المشيئة والإرادة، 6 / 2718، الرقم : 7036، ومسلم في الصحيح، 1 / 188، کتاب : الإيمان، باب : إختباء النبي صلی الله عليه وآله وسلم دعوة الشفاعة لأمته، الرقم : 198، ومالک في الموطأ، 1 / 212، الرقم : 494، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 381، الرقم : 8959، إسناده صحيح، رجاله ثقات رجال الصحيح غير علي بن بحر بن محمد، وهو ثقة، وأيضاً في، 2 / 486، الرقم : 10311، وابن حبان في الصحيح، 14 / 374، الرقم : 6461، وأبو عوانه في المسند، 1 / 86، الرقم : 256، والقضاعی في مسند الشهاب، 2 / 133، الرقم : 1041. 1042، والبيهقی في شعب الإيمان، 2 / 163، الرقم : 1444، وابن منده في الإيمان، 2 / 862، الرقم : 902.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کو ایک خاص دعائے مستجاب کا حق ہوتا ہے جو وہ کرتا ہے، میں چاہتا ہوں کہ اِن شاء اﷲ اپنی اس خاص دعا کو آخرت میں اپنی امت کی شفاعت کے لیے مؤخر کر کے رکھوں۔‘‘
اسے امام بخاری، مسلم، مالک، احمد بن حنبل، ابنِ حبان اور دیگر ائمہ حدیث نے روایت کیا ہے۔
96 / 2. عَنْ أَنَسٍ رضی اﷲ عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : کُلُّ نَبِيٍّ سَأَلَ سُؤْلًا، أَوْ قَالَ : لِکُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ قَدْ دَعَا بِهَا فَاسْتُجِيْبَ، فَجَعَلْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
2 : أخرجه البخاری في الصحيح، کتاب : الدعوات، باب : لکل نبي دعوة مستجابة، 5 / 2323، الرقم : 5946، والقضاعی في مسند الشهاب، 2 / 132، الرقم : 1038، وأَبو نُعَيم الأصبهانی في حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 7 / 259.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا، یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کے لیے ایک مقبول دعا ہوتی ہے جسے اس نے کیا تو قبول کر لی گئی، پس میں نے اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے مخصوص کر دی ہے۔‘‘
اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
97 / 3. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لِکُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ، فَتَعَجَّلَ کُلُّ نَبِيٍّ دَعْوَتَه وَإِنِّي اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ. فَهِيَ نَائِلَةٌ، إِنْ شَاءَ اﷲُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لَا يُشْرِکُ بِاﷲِ شَيْءًا.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَةَ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
3 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : إختباء النبي صلی الله عليه وآله وسلم دعوة الشفاعة لأمته، 1 / 189، الرقم : 199، والترمذی في السنن، کتاب : الدعوات، باب : فضل لا حول ولا قوة إلَّا باﷲ، 5 / 580، الرقم : 3602، وابن ماجة في السنن، کتاب : الزهد، باب : ذکر الشفاعة، 2 / 1440، الرقم : 4307، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 426، الرقم : 9504، والبيهقی في السنن الکبری، 10 / 190.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کو ایک خاص دعائے مستجاب کا حق ہوتا ہے پس ہر نبی نے اپنی دعا میں جلدی کی جبکہ میں نے اپنی اس دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے مخصوص کردیا ہے۔ وہ اِن شاء اللہ میری امت کے ہر اس فرد کو پہنچنے والی ہے جو اس حال میں فوت ہوا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو۔‘‘
اسے امام مسلم، ترمذی اورابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے، امام ترمذی نے کہا ہے : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
98 / 4. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اﷲ عنه أَنَّ نَبِيَّ اﷲِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لِکُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ دَعَهَا لِأُمَّتِهِ. وَإِنِّی اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ. إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.
4 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : إختباء النبي صلی الله عليه وآله وسلم دعوة الشفاعة لأمته، 1 / 190، الرقم : 200، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 218، الرقم : 13281، وابن حبان في الصحيح، 14 / 76، الرقم : 6196، وأبو يعلی في المسند، 5 / 229، 340، الرقم : 2842، 2970، وابن منده في الإيمان، 2 / 866، الرقم : 915، والقضاعی في مسند الشهاب، 2 / 134، الرقم : 1043، 1044.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کے لیے مقبول دعا تھی جسے اس نے اپنی امت کے حق میں کیا۔ بے شک میں نے اپنی اس دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے مخصوص کر دیا ہے۔‘‘
اسے امام مسلم، احمد اور ابنِ حبان نے روایت کیا ہے۔ اس حدیث کی اِسناد صحیح ہے۔
99 / 5. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لِکُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ قَدْ دَعَا بِهَا فِي أُمَّتِهِ، وَخَبَأْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُو يَعْلَی وَالطَّبَرَانِيُّ.
5 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : إختباء النبي صلی الله عليه وآله وسلم دعوة الشفاعة لأمته، 1 / 190، الرقم : 201، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 384، الرقم : 15116، وابن حبان في الصحيح، 14 / 373، الرقم : 6460، وأبو يعلی في المسند، 4 / 166، الرقم : 2237، والطبرانی في المعجم الأوسط، 3 / 243، الرقم : 3043.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کے لیے ایک خاص مقبول دعا تھی جسے اس نے اپنی امت کے حق میں کیا جبکہ میں نے اپنی دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے مخصوص کر دیا ہے۔‘‘
اسے امام مسلم، احمد، ابنِ حبان، ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
100 / 6. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لِکُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ يَدْعُوْ بِهَا. فَيُسْتَجَابُ لَه فَيُؤْتَهَا، وَإِنِّي اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ رَاهَوَيْه وَابْنُ منده. إسْنَادُهُ حَسَنٌ.
6 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : إختباء النبي صلی الله عليه وآله وسلم دعوة الشفاعة لأمته، 1 / 189، الرقم : 198، وابن راهويه في المسند، 1 / 233، الرقم : 191، وابن منده في الإيمان، 2 / 864، الرقم : 911، و أبو نعيم الأصبهانی في المسند المستخرج علی صحيح الإمام مسلم، 1 / 273، الرقم : 494.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کو ایک خاص قبول کی جانے والی دعا کا حق ہوتا ہے جو وہ کرتا ہے پس اسے قبول کرکے وہی عطا کر دیا جاتا ہے، جبکہ میں نے اپنی اس دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے مخصوص کردیا ہے۔‘‘
اسے امام مسلم، ابنِ راہویہ اور ابنِ مندہ نے روایت کیا ہے۔ اس کی اِسناد حسن ہے۔
101 / 7. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لِکُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ دَعَا بِهَا فِي أُمَّتِه فَاسْتُجِيْبَ لَه. وَإِنِّي أُرِيْدُ، إِنْ شَاءَ اﷲُ أَنْ اُؤَخِّرَ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
7 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : إختباء النبي صلی الله عليه وآله وسلم دعوة الشفاعة لأمته، 1 / 190، الرقم : 199، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 313، الرقم : 8132، وأبو نعيم في المسند المستخرج علی صحيح الإمام مسلم، 1 / 273، الرقم : 495.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کے لیے ایک مقبول دعا ہوتی ہے جسے اس نے اپنی امت کے حق میں کیا تو اسے قبول کرليا گیا جبکہ میں چاہتا ہوں اِن شاء اللہ اپنی اس دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے مؤخر کر دوں۔‘‘
اسے امام مسلم اور احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔
102 / 8. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اﷲ عنه قَالَ لِکَعْبِ الْأَحْبَارِ : إِنَّ نَبِيَّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لِکُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ يَدْعُوْهَا. فَأَنَا أُرِيْدُ، إِنْ شَاءَ اﷲُ، أَنْ أَخْتَبِيئَ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِِأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ. فَقَالَ کَعْبٌ لِأَبِي هُرَيْرَةَ : أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَ أَبُوْ هُرَيْرَةَ : نَعَمْ!
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ منده وَالْبَيْهَقِيُّ وَالْقَضَاعِيُّ. إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
8 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : إختباء النبي صلی الله عليه وآله وسلم دعوة الشفاعة لأمته، 1 / 189، الرقم : 198، وابن منده في الإيمان، 2 / 860، الرقم : 897، والبيهقی في السنن الکبری، 10 / 190، وأيضاً في شعب الإيمان، 5 / 477، الرقم : 7328، والقضاعی في مسند الشهاب، 2 / 133، الرقم : 1040، والأصبهانی في المسند المستخرج علی صحيح مسلم، 1 / 272، الرقم : 492.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کعب احبار سے کہا کہ یقیناً حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کو ایک خاص مقبول دعا کا حق ہوتا ہے جسے وہ کرتا ہے۔ میں چاہتا ہوں اِن شاء اﷲ اپنی اس دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے مؤخر کر کے رکھوں۔ حضرت کعب نے حضرت ابوہریرہ سے کہا : کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا؟ انہوں نے کہا : جی ہاں!‘‘
اسے امام مسلم، ابنِ مندہ، بیہقی اور قضاعی نے روایت کیا ہے۔ اس کی اِسناد حسن ہے۔
103 / 9. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اﷲ عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ لِکُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةً دَعَا بِهَا. وَأَنِّي أُرِيْدُ أَنْ أَدَّخِرَ دَعْوَتِي إِنْ شَاءَ اﷲُ شَفَاعَةً لِأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ رَاهَوَيْه وَابْنُ الْجَعْدِ.
9 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 430، الرقم : 9553، وابن راهويه في المسند، 1 / 139، الرقم : 68، وابن الجعد في المسند، 1 / 177، الرقم : 1137، وابن منده في الإيمان، 2 / 863، الرقم : 909.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کے لیے ایک خاص دعا تھی جسے اس نے کیا۔ یقیناً میں چاہتا ہوں اِن شاء اللہ کہ اپنی اس دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے ذخیرہ کر لوں۔‘‘
اسے امام احمد، ابنِ راہویہ اور ابنِ جعد نے روایت کیا ہے۔
104 / 10. عَنْ أَبِي نَضْرَةَ قَالَ : خَطَبَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ رضی اﷲ عنه عَلَی مِنْبَرِ الْبَصْرَةِ فَقَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّهُ لَمْ يَکُنْ نَبِيٌّ إِلَّا لَهُ دَعْوَةٌ قَدْ تَنَجَّزَهَا فِي الدُّنْيَا، وَإِنِّي قَدِ اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلَی.
10 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 281، الرقم : 2546، وأبو يعلی في المسند، 4 / 215. 216، الرقم : 2328، والهيثمی في مجمع الزوائد، 10 / 372، والعجلوني في کشف الخفاء، 1 / 16، الرقم : 11، واللالکائی في شرح أصول إعتقاد أهل السنة، 3 / 487، الرقم : 843.
’’ابو نضرہ سے روایت ہے کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے بصرہ کے منبر پر ہمیں خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہر نبی کے لیے ایک خاص مقبول دعا ضرور تھی جسے اس نے پورا ہونے کا دنیا میں اصرار کیا۔ بے شک میں نے اپنی دعا کو اپنی امت کی شفاعت کے لیے مخصوص کر دیا ہے۔‘‘
اسے امام احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
105 / 11. عَنِ القَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ : إِجْتَمَعَ أَبُوْ هُرَيْرَةَ رضی اﷲ عنه وَکَعْبٌ، فَجَعَلَ أَبُو هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ کَعْبًا عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، وَکَعْبٌ يُحَدِّثُ أَبَا هُرَيْرَةَ عَنِ الْکُتُبِ، قَالَ أَبُوْ هُرَيْرَةَ قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لِکُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ، وَإِنِّی اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ. إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.
11 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 275، الرقم : 7714، وابن منده في الإيمان، 2 / 861، الرقم : 900، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 16.
’’قاسم بن محمد فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور کعب (الاحبار تابعی) ایک جگہ جمع ہوئے تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کعب کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مرویات بیان کرنے لگے جبکہ کعب، ابو ہریرہ کو کتبِ سابقہ سے مرویات بیان کرنے لگے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہر نبی کو ایک خاص مقبول دعا کا حق تھا، اور بے شک میں نے اپنی دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے مخصوص کردیا ہے۔‘‘
اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ اس کی اِسناد صحیح ہے۔
106 / 12. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اﷲ عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : قَدْ أُعْطِيَ کُلُّ نَبِيٍّ عَطِيَةً فَکُلٌّ قَدْ تَعَجَّلَهَا، وَإِنِّي أَخَّرْتُ عَطِيَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَأَبُو يَعْلَی. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
12 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 20، الرقم : 11148، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 310، الرقم : 31683، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 283، الرقم : 903، وأبويعلی في المسند، 2 / 293، الرقم : 1014، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 371.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کو ایک خاص عطیہ (دعائے مستجاب کی شکل میں) دیا گیا اور ہر ایک نے اس کے حصول میں جلدی کی۔ بے شک میں نے اپنے اس عطیے کو قیامت کے دن امت کی شفاعت کے لیے مؤخر کردیا ہے۔‘‘
اسے امام احمد، ابنِ ابی شیبہ، عبد بن حميد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے کہا ہے : اس کی اِسناد حسن ہے۔
107 / 13. عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضی اﷲ عنه قَالَ : فَقَدَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم لَيْلَةً أَصْحَابُهُ، وَکَانُوْا إِذَا نَزَلُوْا أَنْزَلُوْهُ أَوْسَطَهُمْ فَفَزِعُوْا وَظَنُّوْا أَنَّ اﷲَ إِخْتَارَ لَهُ أَصْحَابًا غَيْرَهُمْ فَإِذَا هُمْ بِخَيَالِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَکَبَّرُوْا حِيْنَ رَأَوْهُ، قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! أَشْفَقْنَا أَنْ يَکُوْنَ اﷲُ إِخْتَارَ لَکَ أَصْحَاباً غَيْرَنَا؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَاَبلْ أَنْتُمْ أَصْحَابِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، إِنَّ اﷲَ يْقَظَنِي، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ! إنِّي لَمْ أَبْعَثْ نَبِيًّا وَلَا رَسُوْلًا إِلَّا وَقَدْ سَأَلَنِي مًسْأَلَةً أَعْطَيْتُهَا يَاهُ، فَاسْأَلْ يَا مُحَمَّدُ! تُعْطَ، فَقُلْتُ : مَسْأَلَتِي شَفَاعَةٌ لِأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ. فَقَالَ أَبُوْبَکْرٍ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! وَمَا الشَّفَاعَةُ؟ قَالَ : أَقُوْلُ : يَا رَبِّ، شَفَاعَتِي الَّتِي اخْتَبَأْتُ عِنْدَکَ، فَيَقُوْلُ الرَّبَُتبَارَکَ وَتَعَالٰی : نَعَمْ! فَيُخْرِجُ رَبِّيَتبَارَکَ وَتَعَالٰی بَقِيَةَ أُمَّتِي مِنَ النَّارِ فَيَنْبِذُهُمْ فِي الْجَنَّةِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.
13 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 325 - 326، الرقم : 22771، والطبرانی في مسند الشاميين، 2 / 156، الرقم : 1101، وابن أبی عاصم في السنة، 2 / 391، الرقم : 822، والهيثمی في مجمع الزوائد، 10 / 367.
’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات صحابہ نے(سفر میں قیام کے دوران) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (اپنے درمیان) نہ پایا، ان کا معمول تھا کہ وہ جب کسی مقام پر پڑاؤ کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے درمیان کر لیتے تھے لہذا وہ اس صورتحال سے گھبرا گئے اور انہوں نے گمان کیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ان کے علاوہ دوسرے اصحاب کو چن ليا ہے۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسی خیال میں گم تھے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تشریف لاتے دیکھ کر بلند آواز سے تکبیر کہی، اور عرض کیا : یا رسول اللہ! ہم اس بات سے ڈر گئے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ہمارے علاوہ دیگر اصحاب کو چن ليا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں! بلکہ تم دنیا اور آخرت میں میرے صحابہ ہو۔ (ہوا یہ کہ) اللہ تعالیٰ نے مجھے جگا کر فرمایا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! میرے ہر بھیجے ہوئے نبی اور رسول نے مجھ سے خاص سوال کیا اور میں نے اس کا مانگا ہوا عطا کر دیا، لہذا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! آپ بھی مجھ سے کوئی سوال کرلیں آپ کو عطا کیا جائے گا تو میں نے عرض کیا : میرا سوال قیامت کے دن امت کی شفاعت کا ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! شفاعت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں(قیامت کے روز) عرض کروں گا : اے میرے رب! میری شفاعت (کا سوال) جو میں نے تیرے ہاں ذخیرہ کیا ہوا ہے؟ اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائے گا : ہاں! (مجھے یاد ہے) پس میرا رب تبارک وتعالیٰ میری بقیہ (گناہ گار) امت کو جہنم سے نکال کر جنت میں ڈال دے گا۔‘‘
اسے امام احمد، طبرانی اور ابنِ ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔
108 / 14. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِي عَقِيْلٍ الثَّقَفِيِّ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَدِمْتُ عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي وَفْدِ ثَقِيْفٍ فَعَلَقْنَا طَرِيْقاً مِنْ طُرُقِ الْمَدِيْنَةِ حَتَّی أَنَخْنَا بِالْبَابِ، وَمَا فِي النَّاسِ رَجُلٌ أَبْغَضَ إِلَيْنَا مِنْ رَجُلٍ نَلِجُ عَلَيْهِ مِنْهُ، فَدَخَلْنَا وَسَلَّمْنَا وَبَيَعْنَا، فَمَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِه حَتَّی مَا فِي النَّاسِ رَجُلٌ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْ رَجُلٍ خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِه، فَقُلْتُ : يَارَسُوْلَ اﷲِ! أَلَا سَأَلْتَ رَبَّکَ مُلْکاً کَمُلْکِ سُلَيْمَانَ؟ فَضَحِکَ، وَقَالَ : لَعَلَّ لِصَاحِبِکُمْ عِنْدَ اﷲِ أَفْضَلُ مِنْ مُلْکِ سُلَيْمَانَ، إِنَّ اﷲَ لمْ يَبْعَثْ نَبِيًّا إِلاَّ أَعْطَاهُ دَعْوَةً فَمِنْهُمْ مِّنْهُ اتَّخَذَ بِهَا دُنْيَا فَأُعْطِيَهَا وَمِنْهُمْ مَّنْ دَعَا بِهَا عَلَی قَوْمِه فأُهْلِکُوْا بِهَا، وَأَنَّ اﷲَ تَعَالَی أَعْطَانِي دَعْوَةً فَاخْتَبَأْتُهَا عِنْدَ رَبِّي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ. إِسْنَادُهُ جَيِّدٌ.
14 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 1 / 138، الرقم : 226، وقال : وقد احتج مسلم بعلي بن هاشم وعبد الرحمن بن أبي عقيل الثقفي صحابي قد تحتج به أئمتنا في مسانيدهم، فأما عبد الجبار بن العباس فإنه من يجمع حديثه ويعد مسانيده في الکوفيين، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 318، الرقم : 31740، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 393، الرقم : 824، وأيضاً في الآحاد والمثاني، 3 / 239، الرقم : 1600، والحارث في المسند، 2 / 1010، الرقم : 1134، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 234، الرقم : 5499، وقال : رواه الطبراني والبزار بإسناد جيد، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 371، وقال : رواه الطبراني والبزار ورجالهما ثقات.
’’حضرت عبد الرحمن بن ابی عقیل ثقفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں وفدِ ثقیف میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو ہم مدینہ کے راستہ پر چلتے رہے یہاں تک کہ (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازہ پر پہنچ گئے۔ لوگوں میں سے کوئی شخص بھی ہمیں ان سے بڑھ کر مبغوض نہیں تھا جن کے پاس ہم داخل ہورہے تھے۔ ہم نے گھر میں داخل ہوکر (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو) سلام کیا اور بیعت کی، تو جس وقت ہم ان کے پاس سے باہر نکلے تو لوگوں میں سے کوئی شخص بھی ہمیں ان سے بڑھکر محبوب نہیں تھا جن کے پاس سے ہم باہر نکلے۔ (بعد میں) میں نے عرض کیا : یارسول اللہ! آپ اپنے رب سے حضرت سلیمان علیہ السلام جیسی بادشاہت کا سوال کیوں نہیں کرتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسکرا کر ارشاد فرمایا : تمہارے صاحب (نبی) کا مقام اللہ کے ہاں سلیمان علیہ السلام کی بادشاہت سے بھی افضل ہے۔ اللہ نے ہر نبی کو ایک خاص دعا کے ساتھ مبعوث فرمایا تو ان میں سے کسی نے اس کے ذریعے دنیا مانگی جو اسے دیدی گئی اور ان میں سے کسی نے اپنی امت کے خلاف اس کے ساتھ دعا کی تو انہیں اس کے سبب ہلاک کر دیا گیا۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے خاص دعا عطا کی تو میں نے اس کو اپنے رب کے ہاں قیامت کے دن امت کی شفاعت کے لیے مخصوص کردیا ہے۔‘‘
اسے امام حاکم، ابنِ ابی شیبہ اور ابنِ ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔ اس کی اِسناد ٹھیک ہے۔
109 / 15. عَنْ اُمِّ حَبِيْبَةَ رضي اﷲ عنها عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أنَّهُ قَالَ : رَيْتُ مَا تَلْقَی اُمَّتِي بَعْدِي وَسَفْکَ بَعْضِهِمْ دِمَاءَ بَعضٍ وَسَبَقَ ذٰلِکَ مِنَ اﷲِ تَعَالَی کَمَا سَبَقَ فِي الْاُمَمِ، فَسَأَلْتُه أَنْ يُوَلِّيَنِي شَفَاعَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيْهِمْ فَفَعَلَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ. وَصَحَّحَهُ الْحَاکِمُ وَالْهَيْثَمِيُّ.
15 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 427، الرقم : 27410، والحاکم في المستدرک، 1 : 138، الرقم : 227، والهيثمی في مجمع الزوائد، 7 / 224، وإسماعیل الأصبهانی في دلائل النبوة، 1 / 224، الرقم : 312، وابن عبد البر في التمهيد، 19 / 68، الرقم : 173.
’’حضرت امِ حبیبہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں نے وہ احوال دیکھے جو میرے بعد میری امت کرے گی، ان کا ایک دوسرے کو قتل کرنا اور اس امر کا حتمی و قطعی فیصلہ علمِ الٰہی میں ہو چکا ہے جیسا کہ پہلی امتوں کے متعلق عذاب کے حتمی فیصلے علمِ الٰہی میں ہو چکے تھے۔ لہذا میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ التجاء کی کہ وہ مجھے میری امت کے حق میں قیامت کے دن حق شفاعت عطا فرمائے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی کیا(میری التجاء قبول فرما لی)۔‘‘
اسے امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم اور ہیثمی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
110 / 16. عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضي اﷲ عنها زَوْجِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : رَيْتُ مَا تَعْمَلُ أُمَّتِي بَعْدِي، فَاخْتَرْتُ لَهُمُ الشَّفَاعَةَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. رَوَاهُ أَبُوْيَعْلَی وَابْنُ الْمُبَارَکِ وَالدَّيْلَمِيُّ.
16 : أخرجه أبو يعلی في المسند، 12 / 382، 435، الرقم : 7002، وابن المبارک في الزهد، 1 / 564، الرقم : 1622، والديلمی في الفردوس بمأثور الخطاب، 1 / 399، الرقم : 1614، والهيثمی في مجمع الزوائد، 10 / 371.
’’ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں نے وہ احوال دیکھے جو میرے بعد میری امت کرے گی لہذا میں نے قیامت کے دن ان کے لیے شفاعت کو اختیار کیا۔‘‘
اسے امام ابو یعلی، ابنِ مبارک اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
111 / 17. عَنْ أُمِّ حَبِيْبَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أُرِيْتُ مَا يَلْقَی أُمَّتِي مِنْ بَعْدِي وَسَفْکَ دِمَائِهَا، فَسَأَلْتُ اﷲَ أَنْ يُوَلِّيَنِي فِيْهِمْ شَفَاعَةً فَفَعَلَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.
17 : أخرجه الطبرانی في المعجم الکبير، 23 / 222، الرقم : 410.
’’حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مجھے دکھایا گیا جو میرے بعد میری امت کرے گی اور اپنا خون بہائے گی۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ وہ مجھے میری امت کے حق میں قیامت کے دن حق شفاعت عطا فرمائے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی کیا (میری التجاء قبول کر لی)۔‘‘
اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
112 / 18. عَنْ أُمِّ حَبِيْبَةَ رضي اﷲ عنها عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أُرِيْتُ مَا تَلْقَی أُمَّتِي مِنْ بَعْدِي وَسَفْکَ بَعْضَهُمْ دِمَاءَ بَعْضٍ فَأَحْزَنَنِي وَشَقَّ ذَلِکَ عَلَيَّ وَسَبَقَ کَمَا سَبَقَ ذَلِکَ مِنَ الْأُمَمِ قَبْلَهَا، فَسْأَلْتُ اﷲَ تَعَالَی أَنْ يُوَلِّيَنِي شَفَاعَتَهُمْ فِيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَفَعَلَ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ. قَالَ الْأَلْبَانِيُّ : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.
18 : أخرجه ابن أبی عاصم في السنة، 1 / 96، الرقم : 215، وأيضاً في 2 / 372، الرقم : 800، وأيضاً في الأحاد والمثانی، 5 / 421، الرقم : 3077، والمنذری في الترغيب والترهيب، 4 / 233، الرقم : 5497.
’’حضرت امِ حبیبہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مجھے دکھایا گیا جو میرے بعد میری امت کرے گی اور ایک دوسرے کا خون بہائے گی، جس نے مجھے غمگین کر دیا اور مجھ پر گراں گزرا، اور اس امر کا حتمی و قطعی فیصلہ علم الٰہی میں ہو چکا ہے جیسا کہ پہلی امتوں کے متعلق حتمی فیصلے علم الٰہی میں ہو چکے تھے۔ لہذا میں نے اللہ تعالیٰ سے التجاء کی کہ وہ مجھے ان کے حق میں قیامت کے دن حقِ شفاعت عطا فرمائے، پس اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی کیا (میری التجاء قبول فرمالی)۔‘‘
اسے امام ابنِ ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔ البانی نے کہا ہے : اس حدیث کی اِسناد شیخین کی شرط پر صحیح ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved