43 / 1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ فَأُکْسَی الْحُلَّةَ مِنْ حُلَلِ الْجَنَّةِ، ثُمَّ أَقُوْمُ عَنْ يَمِيْنِ الْعَرْشِ، لَيْسَ أَحَدٌ مِنَ الْخَلَا ئِقِ يَقُوْمُ ذَالِکَ الْمَقَامَ غَيْرِي.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
1 : أخرجه الترمذي في السنن، أبواب المناقب، باب : في فضل النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 585، الرقم : 3611.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ہی وہ پہلا شخص ہوں جس پر سب سے پہلے زمین شق ہوگی پس مجھے جنت کے لباس میں سے ایک پوشاک پہنائی جائے گی۔ اس کے بعد میں عرش کے دائیں جانب اعلیٰ مقام پر کھڑا ہوں گا جہاں میرے سوا مخلوق میں سے کوئی دوسرا کھڑا نہیں ہو گا۔‘‘
اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
44 / 2. عَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضی اﷲ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : يُبْعَثُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَکُوْنُ أَنَا وَأُمَّتِي عَلَی تَلٍّ، وَيَکْسُوْنِي رَبِّي تَبَارَکَ وَتَعَالَی حُلَّةً خَضْرَاءَ ثُمَّ يُؤْذَنُ لِي، فَأَقُوْلُ : مَا شَاءَ اﷲُ أَنْ أَقُوْلَ : فَذٰکَ الْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
2 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 456، الرقم : 15783، إسناده صحيح علی شرط مسلم، وابن حبان في الصحيح، 14 / 399، الرقم : 6479، والحاکم في المستدرک، 2 / 395، الرقم : 3383، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 336، الرقم : 8797، وفي المعجم الکبير، 19 / 72، الرقم : 142، وابن أبی عاصم في السنة، 2 / 364، الرقم : 785، والهيثمی في مجمع الزوائد، 7 / 51.
’’حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اور میری امت روز قیامت ایک ٹیلے پر جمع ہوں گے، پس میرا پروردگار مجھے سبز رنگ کا لباس فاخرہ پہنائے گا (امام طبرانی کی ’’المعجم الکبير‘‘ میں سرخ لباس کا ذکر ہے) پھر مجھے اِذن دیا جائے گا تو میں اللہ رب العزت کی منشاء کے مطابق حمدو ثنا کروں گا پس یہی مقامِ محمود ہے۔‘‘
اسے امام احمد، ابنِ حبان، حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے کہا ہے : شیخین کی شرط پر یہ حديث صحيح ہے، اور امام ہیثمی نے کہا ہے : اس حدیث کے اشخاص صحیح حدیث کے رِجال ہیں۔
45 / 3. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ سَلَامٍ رضی اﷲ عنه قَالَ : إِذَا کَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ جِيئَ بِنَبِيِّکُمْ صلی الله عليه وآله وسلم فَأُقْعِدَ بَيْنَ يَدَيِ اﷲِ عَزَّوَجَلَّ عَلَی کُرْسِيِّهِ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالْخَلَّالُ وَابْنُ جَرِيْرٍ وَالآجُرِّيُّ.
3 : أخرجه ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 365، الرقم : 786، والخلال في السنة، 1 / 211 - 212، الرقم : 237 - 238، وابن جرير الطبري في جامع البيان، 15 / 148، والآجري في کتاب الشريعة، 6 / 1609، الرقم : 1097، والذهبي في العلو للعلي الغفار، 1 / 93، الرقم : 223، والعسقلاني في فتح الباري، 11 / 427، وبدر الدين العيني في عمدة القاري، 23 / 123، وأحمد بن إبراهيم في توضيح المقاصد وتصحيح القواعد، 1 / 233.
’’حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن تمہارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (عظیم شان و شوکت کے ساتھ) لایا جائے گا تو انہیں اﷲ عزوجل کے سامنے اس کی کرسی پر بٹھایا جائے گا۔‘‘
اس روایت کو امام ابنِ ابی عاصم، خلال، ابنِ جریر طبری اور آجری نے بیان کیا ہے۔
46 / 4. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اﷲ عنه أَنَّهُ قَالَ فِي قَوْلِ اﷲِ عزوجل : (عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) قَالَ : يُجْلِسُهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ جِبْرِيْلَ عليه السلام، وَيَشْفَعُ لِأُمَّتِهِ. فَذَلِکَ الْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
4 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 61، الرقم : 12474، والسيوطي في الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 5 / 328.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضي اﷲ عنھما اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان : (یقیناً آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا) کے بارے میں فرماتے ہیں : اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے اور حضرت جبریل علیہ السلام کے درمیان بٹھائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کی شفاعت فرمائیں گے۔ یہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقامِ محمود ہو گا۔‘‘
اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
47 / 5. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اﷲ عنه فِي قَوْلِه : (عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) قَالَ : يُقْعِدُهُ عَلَی الْعَرْشِ. رَوَاهُ الْخَلَّالُ وَابْنُ الْجَوْزِيِّ.
5 : أخرجه الخلال في السنة، 1 / 252، الرقم : 295، وابن الجوزي في زاد المسير، 5 / 76، والذهبي في العلو للعلي الغفار، 1 / 131، الرقم : 359.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضي اﷲ عنھما نے اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان : (یقیناً آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا ) کے بارے میں فرمایا : اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا۔‘‘
اس حدیث کو امام خلال اور ابن جوزی نے روایت کیا ہے۔
48 / 6. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : (عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) قَالَ : يُجْلِسُنِي مَعَهُ عَلَی السَّرِيْرِ.
رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.
6 : أخرجه الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 3 / 58، الرقم : 4159، والسيوطي في الدر المنثور فی التفسير بالمأثور، 5 / 328، والشوکاني في فتح القدير، 3 / 255.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضي اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی : (یقیناً آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ رب العزت مجھے اپنے ساتھ پلنگ (خصوصی نشست) پر بٹھائے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
49 / 7. عَنْ مُجَاهِدٍ رحمه اﷲ تعالی فِي قَوْلِهِ : (عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo)، قَالَ : يُقْعِدُهُ عَلَی الْعَرْشِ.
وَفِي رِوَيَةٍ : قَالَ : يُجْلِسُهُ عَلَی عَرْشِهِ.
وَفِي رِوَيَةٍ : قَالَ : يُقْعِدُهُ مَعَهُ عَلَی الْعَرْشِ.
وَفِي رِوَيَةٍ : قَالَ : يُجْلِسُهُ مَعَهُ عَلَی عَرْشِهِ.
رَوَاهَا ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْخَلَّالُ وَابْنُ جَرِيْرٍ الطَّبَرِيُّ وَالْآجُرِّيُّ وَالسَّمْعَانِيُّ وَالْبَغَوِيُّ وَابْنُ الْجَوْزِيِّ وَغَيْرُهُمْ.
7 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 305، الرقم : 31652، والخلال في السنة، 1 / 213.214، الرقم : 241.244، 246، وابن جرير الطبري في جامع البيان، 15 / 145، والآجري في کتاب الشريعة، 6 / 1614. 1615، الرقم : 1101 - 1105، والسمعاني في التفسير، 3 / 269، والبغوي في التفسير، 3 / 132، وابن الجوزي في زاد المسير، 5 / 76، وفخر الدين الرازي في التفسير الکبير، 21 / 27، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 10 / 311، والعسقلاني في فتح الباري، 11 / 426، وبدر الدين العيني في عمدة القاري، 23 / 123، والقسطلاني في المواهب اللدّنية، 3 / 448.450، والسيوطي في الدر المنثور، 5 / 328، والشوکاني في فتح القدير، 3 / 252، وجمال الدين القاسمي في محاسن التأويل، 6 / 491 - 495.
’’حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان : (یقیناً آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا) کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا۔‘‘
ایک روایت میں ہے، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : ’’اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے عرش پر بٹھائے گا۔‘‘
ایک روایت میں ہے، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : ’’اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھائے گا۔‘‘
ایک روایت میں ہے، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : ’’اﷲ رب العزت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ساتھ اپنے عرش پر بٹھائے گا۔‘‘
ان روایات کو امام ابنِ ابی شیبہ، ابنِ جریر طبری، آجری، سمعانی، بغوی، ابنِ جوزی اور دیگر ائمہ نے بیان کیا ہے۔
50 / 8. عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی اﷲ عنه أَنَّهُ قَرَأَ هَذِهِ الْيَةَ : (عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo)، وَقَالَ : يُقْعِدُهُ عَلَی الْعَرْشِ.
رَوَاهُ ابْنُ الْجَوْزِيِّ وَالْخَازِنُ.
8 : أخرجه ابن الجوزي في زاد المسير، 5 / 76، والخازن في تفسيره، 3 / 177، والقسطلاني في المواهب اللدّنية، 3 / 448 - 450.
’’حضرت ابو وائل حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے آیتِ مبارکہ پڑھی : (یقیناً آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا) تو فرمایا : اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا۔‘‘
اس روایت کو امام ابن جوزی اور خازن نے بیان کیا ہے۔
51 / 9. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ سَلَامٍ رضی اﷲ عنه فِي قَوْلِهِ : (عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo)، قَالَ : يُقْعِدُهُ عَلَی الْکُرْسِيِّ.
رَوَاهُ السَّمْعَانِيُّ وَالْبَغَوِيُّ وَالْخَازِنُ.
9 : أخرجه السمعاني في التفسير، 3 / 269، والبغوي في تفسيره، 3 / 132، والخازن في تفسيره، 3 / 177.
’’حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اللہ عنہ اﷲ تعالیٰ کے فرمان : (یقیناً آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا) کے بارے میں فرماتے ہیں : اﷲ رب العزت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خصوصی کرسی پر بٹھائے گا۔‘‘ اسے امام سمعانی، بغوی اور خازن نے روایت کیا ہے۔
52 / 10. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : بَيْنَا أَنَا عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَقْرَأُ عَلَيْهِ حَتَّی بَلَغْتُ : (عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) قَالَ : يُجْلِسُنِي عَلَی الْعَرْشِ. رَوَاهُ الذَّهَبِيُّ.
10 : أخرجه الذهبي في العلو للعلي الغفار، 1 / 93، الرقم : 222.
’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنھما فرماتے ہیں : میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھا تلاوت کرتے ہوئے جب اﷲ تعالیٰ کے فرمان : (یقیناً آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا ) پر پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ عزوجل مجھے عرش پر بٹھائے گا۔‘‘
53 / 11. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اﷲ عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَرَأَ : (عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo) قَالَ : يُجْلِسُهُ عَلَی السَّرِيْرِ.
رَوَاهُ السَّيُوْطِيُّ.
11 : أخرجه السيوطي في الدر المنثور، 5 / 326.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضي اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی : (یقیناً آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا)، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ آپ کو خصوصی نشست پر فائز فرمائے گا۔‘‘
54 / 12. قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ : يُجْلِسُهُ عَلَی الْعَرْشِ لِيَرَی الْخَلَائِقُ کَرَامَتَهُ عَلَيْهِ ثُمَّ يَنْزِلُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَی أَزْوَاجِهِ وَجَنَّاتِهِ.
12 : أخرجه الخلال في السنة، 1 / 219، الرقم : 252.
’’امام ابو جعفر محمد بن مصعب کہتے ہیں : اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرش پر اس لئے بٹھائے گا تاکہ ساری مخلوق اﷲ کے نزدیک آپ کے مقام و مرتبہ کو دیکھے پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ازواج اور اپنے باغات کی طرف تشریف لے جائیں گے۔‘‘
55 / 13. قَالَ سَلْمُ بْنُ جَعْفَرٍ الْبَکْرَاوِيُّ، فَقُلْتُ : يَا أَبَا مَسْعُوْدٍ الْجَرِيْرِيَّ، فَإِذَا أَجْلَسَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ (عَلَی کُرْسِيِّهِ) فَهُوَ مَعَهُ؟ قَالَ : وَيْلَکَ! مَا سَمِعْتُ حَدِيْثاً قَطُّ أَقَرَّ لِعَيْنِي مِنْ هَذَا الْحَدِيْثِ حِيْنَ عَلِمْتُ أَنَّهُ يُجْلِسُهُ مَعَهُ.
13 : أخرجه الخلال في السنة، 1 / 211 - 212، الرقم : 237 - 238، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 365، الرقم : 786، والآجري في کتاب الشريعة، 6 / 1609، الرقم : 1097، والذهبي في العلو للعلي الغفار، 1 / 93، الرقم : 223.
سلم بن جعفر البکراوی کہتے ہیں : میں نے ابو مسعود الجریری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا : جب اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے سامنے (اپنی کرسی پر) بٹھائے گا پھر تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی ہو گا؟ انہوں نے فرمایا : تیری خرابی ہو، میں نے آج تک کوئی بھی ایسی حدیث نہیں سنی جو اس حدیث سے بڑھ کر میری آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والی ہو جب سے مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ساتھ بٹھائے گا۔‘‘
56 / 14. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ وَاصِلٍ : مَنْ رَدَّ حَدِيْثَ مُجَهِدٍ فَهُوَ جَهْمِيٌّ.
14 : أخرجه الخلال في السنة، 1 / 214، الرقم : 243.
’’امام محمد رحمۃ اللہ علیہ بن احمد بن واصل نے کہا : جس شخص نے امام مجاہد کی بیان کردہ حدیث کو جھٹلایا وہ (باطل فرقہ جہمیہ کا معتقد) جہمی ہے۔‘‘
57 / 15. قَالَ أَبُو دَاوُدَ السَّجِسْتَانِيُّ ’صَاحِبُ السُّنَنِ‘ : مَنْ أَنْکَرَ هَذَا فَهُوَ عِنْدَنَا مُتَّهَمٌ، وَقَالَ : مَا زَالَ النَّاسُ يُحَدِّثُوْنَ بِهَذَا يُرِيْدُوْنَ مُغَيَظَةَ الْجَهْمِيَةِ، وَذَلِکَ أَنَّ الْجَهْمِيَةَ يُنْکِرُوْنَ أَنَّ عَلَی الْعَرْشِ شَيْئٌ.
15 : أخرجه الخلال في السنة، 1 / 214، الرقم : 244، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 10 / 311، وابن جماعة في إیضاح الدليل في قطع حجج أهل التعطيل، 1 / 31، والعسقلاني في فتح الباري، 11 / 427، وبدر الدين العيني في عمدة القاري، 23 / 123، والشوکاني في فتح القدير، 3 / 252.
’’امام ابو داود سجستانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب السنن نے فرمایا : جو شخص اِس حدیث یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عرش پر تشریف فرما ہونے کا انکار کرے وہ ہمارے نزدیک تہمت زدہ ہے۔ اور آپ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی فرمایا : لوگ فرقہ جہمیہ کے غیظ و غضب کے باعث اس حدیث کو بیان کرتے آ رہے ہیں، یہ اس وجہ سے ہے کہ جہمیہ عرش پر کسی بھی چیز کے ہونے کا انکار کرتے ہیں۔‘‘
58 / 16. قَالَ أَبُو بَکْرٍ يَحْيَی بْنُ أَبِي طَالِبٍ : مَنْ رَدَّهُ فَقَدْ رَدَّ عَلَی اﷲِ عَزَّوَجَلَّ، وَمَنْ کَذَبَ بِفَضِيْلَةِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَدْ کَفَرَ بِاﷲِ الْعَظِيْمِ.
16 : أخرجه الخلال في السنة، 1 / 215، الرقم : 246.
’’امام ابو بکر رحمۃ اللہ علیہ یحییٰ بن ابی طالب نے فرمایا : جس شخص نے اس حدیث مجاہد کو جھٹلایا اس نے درحقیقت اﷲ عزوجل کو جھٹلایا اور جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت کو جھٹلایا اس نے درحقیقت اﷲ رب العزت کا انکار کیا۔‘‘
59 / 17. قَالَ أَبُو بَکْرِ بْنُ حَمَّادٍٍ الْمُقْرِيُّ : مَنْ ذُکِرَتْ عِنْدَهُ هَذِهِ الْأَحَادِيْثُ فَسَکَتَ فَهُوَ مُتَّهِمٌ عَلَی الْإِسْلَامِ، فَکَيْفَ مَنْ طَعَنَ فِيْهَا.
17 : أخرجه الخلال في السنة، 1 / 217، الرقم : 250.
’’امام ابو بکر بن حماد المقری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : جس شخص کے پاس اِن احادیث کا تذکرہ کیا گیا اور وہ خاموش رہا (اس کا چہرہ خوشی کے باعث نہ کھلا) تو وہ اسلام پر تہمت لگانے والا ہے، پس جس نے ان احادیث کو طعن کا نشانہ بنایا تو اس کی بدبختی کا عالم کیا ہوگا۔‘‘
60 / 18. قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ الدَّقِيْقِيُّ : مَنْ رَدَّهَا فَهُوَ عِنْدَنَا جَهْمِيٌّ وَحُکْمُ مَنْ رَدَّ هَذَا أَنْ يُتَّقَا.
18 : أخرجه الخلال في السنة، 1 / 217، الرقم : 250.
’’امام ابو جعفر الدقیقی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : جس شخص نے ان احادیث کو جھٹلایا وہ ہمارے نزدیک جہمی ہے، اور اس کو جھٹلانے والے کا حکم یہ ہے کہ اس سے بچا جائے۔‘‘
61 / 19. قَالَ عَبَّاسٌ الدَّوْرِيُّ : لَا يَرُدُّ هَذَا إِلَّا مُتَّهَمٌ.
19 : أخرجه الخلال في السنة، 1 / 217، الرقم : 250.
’’امام عباس الدوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : تہمت زدہ شخص ہی اس حدیث کو جھٹلاتا ہے۔‘‘
62 / 20. قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ رَاهَوَيْهِ : الْيْمَانُ بِهَذَا الْحَدِيْثِ وَالتَّسْلِيْمُ لَهُ. وقَالَ أَيْضاً : مَنْ رَدَّ هَذَا الْحَدِيْثَ فَهُوَ جَهْمِيٌّ.
20 : أخرجه الخلال في السنة، 1 / 217، الرقم : 250.
’’امام اسحاق رحمۃ اللہ علیہ بن راہویہ نے فرمایا : اس حدیث پر ایمان رکھنا اور اسے تسلیم کرنا ہی حق ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی کہا : جس شخص نے اس حدیث مجاہد کو جھٹلایا وہ جہمی ہے۔‘‘
63 / 21. قَالَ عَبْدُ الْوَهَابِ الْوَرَّاقُ لِلَّذِي رَدَّ فَضِيْلَةَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم يُقْعِدُهُ عَلَی الْعَرْشِ : فَهُوَ مُتَّهِمٌ عَلَی الْإِسْلَامِ.
21 : أخرجه الخلال في السنة، 1 / 217، الرقم : 250.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عرش پر تشریف فرما ہونے کا انکار کرنے والے سے امام عبد الوہاب الوراق رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : درحقیقت وہ اسلام پر تہمت باندھنے والا ہے۔‘‘
64 / 22. قَالَ إِبْرَهِيْمُ الْأَصْبَهَانِيُّ : هَذَا الْحَدِيْثُ حَدَّثَ بِهِ الْعُلَمَاءُ مُنْذُ سِتِّيْنَ وَمِائَةَ سَنَةٍ وَلَا يَرُدُّهُ إِلَّا أَهْلُ الْبِدَعِ.
22 : أخرجه الخلال في السنة، 1 / 217.218، الرقم : 250.
’’امام ابراہیم اصبہانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : علماء اس حدیث کو ایک سو ساٹھ (160) سال سے بیان کرتے آ رہے ہیں، اور اس کو سوائے اہل بدعت کے کوئی نہیں جھٹلاتا۔‘‘
65 / 23. قَالَ حَمْدَانُ بْنُ عَلِيٍّ : کَتَبْتُ هَذَا الْحَدِيْثَ مُنْذُ خَمْسِيْنَ سَنَةً، وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا يَرُدُّهُ إِلَّا أَهْلُ الْبِدَعِ.
23 : أخرجه الخلال في السنة، 1 / 218، الرقم : 250.
’’امام حمدان رحمۃ اللہ علیہ بن علی نے فرمایا : میں نے پچاس سال سے اس حدیث کو لکھ رکھا ہے، اور میں نے اہلِ بدعت کے علاوہ کسی کو اسے جھٹلاتے ہوئے نہیں دیکھا۔‘‘
66 / 24. قَالَ هَارُوْنُ بْنُ مَعْرُوْفٍ : هَذَا حَدِيْثٌ يَسْخَنُ اﷲُ بِهِ أَعْيُنَ الزَّنَادِقَةِ.
24 : أخرجه الخلال في السنة، 1 / 218، الرقم : 250.
’’امام ہارون رحمۃ اللہ علیہ بن معروف فرماتے ہیں : اس حدیث کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ زنادِقہ کی آنکھوں کو تپش دے رہا ہے۔‘‘
67 / 25. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيْلَ السُّلَمِيُّ : مَنْ تَوَهَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا صلی الله عليه وآله وسلم لَمْ يَسْتَوْجِبْ مِنَ اﷲِ عَزَّوَجَلَّ مَا قَالَ مُجَهِدٌ، فَهُوَ کَافِرٌ بِاﷲِ الْعَظِيْمِ.
25 : أخرجه الخلال في السنة، 1 / 218، الرقم : 250.
’’امام محمد بن اسماعیل السلمی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : جس شخص نے یہ وہم وگمان کیا کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ مقام حاصل نہیں ہوگا جو امام مجاہد نے کہا ہے، وہ اﷲ رب العزت کا منکر ہے۔‘‘
68 / 26. قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ : قَدْ تَلَقَّتْهُ الْعُلَمَاءُ بِالْقُبُوْلِ.
26 : أخرجه الذهبي في العلو للعلي الغفار، 1 / 170، الرقم : 461، وأحمد بن إبراهيم في توضيح المقاصد وتصحيح القواعد، 1 / 233.
’’امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اس قول (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عرش پر تشریف فرما ہونے) کو علماء کے ہاں تلقی بالقبول حاصل ہے۔‘‘
69 / 27. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْآجُرِّيُّ : وَأَمَّا حَدِيْثُ مُجَهِدٍ فِي فَضِيْلَةِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَتَفْسِيْرُهُ لِهَذِهِ اليَةِ أَنَّهُ يُقْعِدُهُ عَلَی الْعَرْشِ، فَقَدْ تَلَقَّاهَا الشُّيُوْخُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالنَّقْلِ لِحَدِيْثِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، تَلَقَّوْهَا بِأَحْسَنِ تَلَقٍّ، وَقَبِلُوْهَا بِأَحْسَنِ قَبُوْلٍ، وَلَمْ يُنْکِرُوْهَا، وَأَنْکَرُوْا عَلَی مَنْ رَدَّ حَدِيْثَ مُجَهِدٍ إِنْکَارًا شَدِيْدًا، وَقَالُوْا : مَنْ رَدَّ حَدِيْثَ مُجَهِدٍ فَهُوَ رَجُلٌ سُوْءٌ.
27 : بيّنه الآجري في کتاب الشريعة، 6 / 1612 - 1613.
’’امام محمد بن حسین آجری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : فضیلتِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حدیثِ مجاہد اور سورۃ بنی اسرائیل کی آیتِ مبارکہ میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر کہ اﷲ عزوجل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا، ان احادیث کو اکابر اہلِ علم و نقل نے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بناء پر احسن طریقہ سے سیکھا ہے اور قبول کیا ہے اور انہوں نے ان کا انکار نہیں کیا۔ بلکہ انہوں نے حدیثِ مجاہد کا رد کرنے والے شخص کی شدید مخالفت کی ہے اور کہا ہے : جس شخص نے حدیث مجاہد کو جھٹلایا وہ برا شخص ہے۔‘‘
70 / 28. قَالَ ابْنُ تَيْمِيَةَ : إذا تبيّن هذا فقد حدث العلماء المرضيون وأولياؤه المقبولون أنّ محمدا رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يجلسه ربّه علی العرش معه.
روی ذلک محمد بن فضيل عن ليث عن مجاهد في تفسير (عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) وذکر ذلک من وجوه أخری مرفوعة وغير مرفوعة.
28 : أخرجه ابن تيمية في مجموع الفتاویٰ، 4 / 374.
’’جب یہ بات واضح ہو گئی تو معروف علماء اور اﷲ تعالیٰ کے مقبول اولياء نے بیان کیا ہے کہ رسول اﷲ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُن کا رب اپنے ساتھ عرش پر بٹھائے گا۔
’’اِس بات کو محمد بن فضیل رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت لیث رحمۃ اللہ علیہ سے اور انہوں نے حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے (عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) کی تفسیر کے ذیل میں نقل کیا ہے اور اسے کئی دیگر مرفوع اور غیر مرفوع طرق سے بھی روایت کیا ہے۔‘‘
71 / 29. قَالَ العسقلاني في قول مجاهد ’يجلسه معه علی عرشه‘ : ليس بمدفوع لا من جهة العقل ولا من جهة النظر.
وقال أيضاً في قوله تعالی (عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) : ويمکن ردّ الأقوال کلّها إلی الشّفاعة العامّة، فإن إعطاء ه لواء الحمد، وثناء ه علی ربه، وکلامه بين يديه، وجلوسه علی کرسيه، وقيامه أقرب من جبريل، کل ذلک صفات للمقام المحمود الذي يشفع فيه ليقضي بين الخلق.
29 : أخرجه العسقلاني في فتح الباري بشرح صحيح البخاري، 11 / 426.427.
امام عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے قولِ مجاہد کہ ’’اﷲ عزوجل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھائے گا‘‘ کے متعلق فرمایا : اس قول کی صحت کا عقلی اور نقلی دونوں طریقوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا.
امام عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے آیتِ مبارکہ (عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) میں ’مقامِ محمود‘ کے مختلف معانی بیان کرنے کے بعد خلاصۃً فرمایا :
’’ان تمام اقوال کو شفاعتِ عامہ پر منطبق کیا جا سکتا ہے، بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوائے حمد کا عطا کیا جانا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرنا اور اپنے رب کی بارگاہ میں کلام کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کرسی پر تشریف فرما ہونا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جبریل علیہ السلام سے بھی زیادہ اﷲ تعالیٰ کے قریب قیام فرما ہونا، یہ تمام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقامِ محمود کی صفات ہیں۔ جن پر فائز ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شفاعت فرمائیں گے تاکہ مخلوق کے درمیان فیصلہ کیا جائے۔‘‘
72 / 30. قَالَ القسطلاني في قوله تعالی (عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) : قيل : هو إجلاسه صلی الله عليه وآله وسلم علی العرش، وقيل علی الکرسي، روي عن ابن مسعود رضی اﷲ عنه أنّه قال : يقعد اﷲ تعالٰی محمدا صلی الله عليه وآله وسلم علی العرش، وعن مجاهد أنّه قال : يجلسه معه علی العرش.
30 : أخرجه القسطلاني في المواهب اللدّنية بالمنح المحمّديّة، 3 / 448.
’’امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ اﷲ تعالیٰ کے فرمان : (یقیناً آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا) کے بارے میں فرماتے ہیں : کہا گیا کہ اس سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عرش پر بٹھایا جانا ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کرسی پر بٹھایا جانا ہے۔ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کیا گیا کہ انہوں نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا جب کہ حضرت مجاہد التابعی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھائے گا۔‘‘
73 / 1. قَالَ ابْنُ جَرِيْرٍ الطَّبَرِيُّ : أن اﷲ يقعد محمدا صلی الله عليه وآله وسلم علی عرشه قول غير مدفوع صحته ولا من جهة خبر ولا نظر، وذلک لأنه لا خبر عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ولا عن أحد من أصحابه ولا عن التابعين بإحالة ذلک.
1 : أخرجه ابن جرير الطبري في جامع البيان، 15 / 147.
’’امام ابنِ جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا۔ اس قول کی صحت کا نقلی اور عقلی دونوں طریقوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور تابعین رحمھم اﷲ تعالیٰ کی کوئی روایت یا قول اس چیز (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عرش پر بٹھائے جانے کا) ناممکن ہونا بیان نہیں کرتا۔‘‘
74 / 2. قَالَ أبو المظفر السمعانيُّ : عن مجاهد أنه قال : يجلسه علی العرش، وعن غيره : يقعده علی الکرسي بين يديه. وقال بعضهم : يقيمه عن يمين العرش.
2 : أخرجه السمعاني في تفسيره، 3 / 269.
’’امام ابو مظفر سمعانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا : اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا۔ کسی اور نے کہا : اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے سامنے خصوصی کرسی پر بٹھائے گا، اور بعض ائمہ نے کہا : اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرش کے دائیں جانب کھڑا فرمائے گا۔‘‘
75 / 3. قَالَ الْبَغَوِيُّ : عن مجاهد في قوله تعالی : (عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا)، قال : يجلسه علی العرش. وعن عبد اﷲ بن سلام رضی اﷲ عنه قال : يقعده علی الکرسي.
3 : أخرجه البغوي في تفسيره، 3 / 132.
’’امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت مجاہد التابعی رضی اللہ عنہ نے اﷲ تعالیٰ کے فرمان : (یقیناً آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا) کے متعلق بیان کیا : اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا۔ حضرت عبد اﷲ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خصوصی کرسی پر بٹھائے گا۔‘‘
76 / 4. قَالَ الْقاضي أبو محمد ابن عطية الأندلسي في قوله تعالی : (عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) : وحکی الطبري عن فرقة منها مجاهد، أنها قالت : المقام المحمود هو أن اﷲ تعالٰی يجلس محمدا صلی الله عليه وآله وسلم معه علی عرشه، وروت في ذلک حديثاً. وعَضَد الطبريّ في جواز ذلک بشططٍ من القول.
4 : أخرجه ابن عطية الأندلسي في المحرر الوجيز في تفسير الکتاب العزيز، 3 / 479.
’’قاضی ابو محمد ابنِ عطیہ اندلسی رحمۃ اللہ علیہ نے مقامِ محمود کے بارے میں فرمایا : طبری نے ایک فرقہ کا موقف درج کیا ہے جن میں امام مجاہد بھی ہیں، وہ کہتے ہیں : ’’مقام محمود سے مراد ہے کہ اﷲ تعالیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ساتھ اپنے عرش پر بٹھائے گا۔‘‘ اس بارے میں اس گروہ نے احادیث بھی روایت کی ہیں۔ نیز طبری نے متعدد اقوال سے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔‘‘
77 / 5. قَالَ ابن الجوزي في قوله تعالی : (عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) : والثاني : يجلسه علی العرش يوم القيامة. روی أبو وائل عن عبداﷲ رضی الله عنه أنه قرأ هذه الآية وقال : يقعده علی العرش. وکذلک روی الضحاک عن ابن عباس رضی الله عنه، وليث عن مجاهد.
5 : أخرجه ابن الجوزي في زاد المسير، 5 / 76.
امام ابنِ جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مقامِ محمود کے بارے میں دوسرا قول یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روز قیامت عرش پر بٹھائے گا۔ حضرت ابو وائل رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنھما سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا : اﷲ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا۔ یہی الفاظ حضرت ضحاک رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبداﷲ بن عباس رضي اﷲ عنھما سے اور حضرت لیث رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مجاہد التابعی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیے ہیں۔‘‘
78 / 6. قَالَ الْقُرْطَبِيُّ في قوله تعالی : (عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) : القول الثالث : ما حکاه الطبري عن فرقة، منها مجاهد، أنها قالت : المقام المحمود هو أن يُجلس اﷲ تعالٰی محمدا صلی الله عليه وآله وسلم معه علی کرسيّه، وروت في ذلک حديثاً. وعَضَد الطبريّ جواز ذلک بشططٍ من القول. وذکر النقاش عن أبي داود السجسْتَانيّ أنه قال : من أنکر هذا الحديث فهو عندنا مُتَّهَمٌ، ما زال أهل العلم يتحدّثون بهذا، من أنکر جوازه علی تأويله. قال أبوعمر ومجاهد : وإن کان أحد الأئمة يتأوّل القرآن فإن له قولين مهجورين عند أهل العلم : أحدهما هذا والثاني في تأويل قوله تعالی : (وُجُوْهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌo إِلٰی رَبِّهَا نَاظِرَةٌo) [القيامة : 22، 23] قال : تنتظر الثواب، ليس من النظر.
قلت : ذکر هذا في باب ابن شهاب في حديث التنزيل، وروي عن مجاهد أيضاً في هذه الآية قال : يُجلسه علی العرش. وهذا تأويل غير مستحيل، لأن اﷲ تعالی کان قبل خلقه الأشياء کلَّها والعرشَ قائماً بذاته، ثم خلق الأشياء من غير حاجة إليها، بل إظهاراً لقدرته وحکمته، وليُعرف وجوده وتوحيده وکمال قدرته وعلمه بکل أفعاله المحکمة، وخلق لنفسه عرشاً استوی عليه کما شاء من غير أن صار له مماساً، أو کان العرش له مکاناً. قيل : هو الآن علی الصفة التي کان عليها من أن يخلق المکان والزمان، فعلی هذا القول سواء في الجواز أقعد محمدا صلی الله عليه وآله وسلم علی العرش أو علی الأرض، لأن استواء اﷲ تعالی علی العرش ليس بمعنی الانتقال والزوال وتحويل الأحوال من القيام والقعود والحال التي تشغل العرش، بل هو مستو علی عرشه کما أخبر عن نفسه بلا کيفٍ. وليس إقعاده محمداً صلی الله عليه وآله وسلم علی العرش موجباً له صفة الربوبية أو مُخرجاً له عن صفة العبودية، بل هو رفع لمحله وتشريف له علی خلقه. وأما قوله في الإخبار : ’’معه‘‘ فهو بمنزلة قوله : (اِنَّ الَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّکَ) [الأعراف : 206]، (رَبِّ ابْنِ لِيْ عِنْدَکَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ) [التحريم : 11]، (وَاِنَّ اﷲَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ) [العنکبوت : 69] ونحو ذلک. کل ذلک عائد إلی الرتبة والمنزلة والحُظْوة والدرجة الرفيعة، لا إلی المکان.
6 : أخرجه القرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 10 / 311، 312.
’’امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے مقام محمود کے بارے میں ’’تیسرا قول‘‘ درج کرتے ہوئے فرمایا : طبری نے ایک فرقہ کا موقف درج کیا ہے جن میں امام مجاہد بھی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ’’مقامِ محمود سے مراد ہے کہ اﷲ تعالیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ساتھ اپنی مخصوص کرسی پر بٹھائے گا۔‘‘ اس بارے میں احادیث روایت کی گئی ہیں۔ طبری نے متعدد اقوال سے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ نقاش نے امام ابو داود سجستانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب السنن سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : ’’جو اِس حدیث یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عرش پر تشریف فرما ہونے کا انکار کرے وہ ہمارے نزدیک تہمت زدہ ہے۔‘‘ اہلِ علم آج تک اس کو روایت کرتے آ رہے ہیں۔ جس نے اس کا تاویل کی بناء پر انکار کیا تو ان کے بارے میں ابو عمر اور مجاہد فرماتے ہیں : اگر کوئی امام قرآنِ مجید کی آیات کی تاویل کرے تو اہلِ علم کے ہاں دو آیات کے بارے میں قول متروک ہیں : ایک تو اس آیت مقام محمود کے بارے میں دوسرا اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان۔ (وُجُوْهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌo اِلٰی رَبِّهَا نَاظِرَةٌo) [القيامۃ، 75 : 22، 23]۔ کی تاویل میں کہتے ہیں کہ لوگ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اجر و ثواب کا انتظار کریں گے نہ کہ اُس کی نظر کا۔
میں کہتا ہوں : یہ تمام تاویلات ابنِ شہاب سے حدیثِ تنزیل کی بحث میں ذکر کی گئی ہیں اور حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے اس آیت کے تحت یہ قول ذکر کیا گیا ہے کہ ’’اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا۔‘‘ یہ تاویل ناممکن نہیں ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ عرش اور دیگر تمام اشیاء کی تخلیق سے بھی پہلے بذات خود قائم تھا۔ پھر اُس نے تمام اشیاء کو پیدا کیا لیکن اس میں اس کی ذاتی کوئی حاجت شامل نہ تھی بلکہ یہ اپنی قدرت و حکمت کے اظہار کے لیے کیا تاکہ اس کے وجود، توحید اور کمالِ قدرت و علم کو اس کے تمام پُر حکمت افعال کے باعث پہچانا جا سکے۔ پھر اُس نے اپنے لیے عرش تخلیق کیا اور اُس پر متمکن ہوا جیسا اس نے چاہا بغیر اس کے کہ وہ عرش اُس کے ساتھ ہی خاص ہو جائے یا اُس کی جائے قرار بن جائے۔ کہا گیا ہے کہ وہ آج بھی اپنی انہی صفات کے ساتھ قائم ہے جن کے ساتھ وہ زمان و مکان کی تخلیق سے پہلے تھا۔ پس اس بناء پر یہ بات برابر ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرش پر بٹھایا جائے یا فرش پر، کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا عرش پر استواء فرمانا وہ اس پر قیام و قعود، اس پر آنے جانے اور اُس سے نیچے اُترنے اور وہ تمام معاملات جو عرش سے متصل ہیں ان سے عبارت نہیں ہے، بلکہ اﷲ رب العزت تو بغیر کسی کیفیت کے عرش پر حالتِ استواء میں ہے جیسا کہ اُس نے اپنے بارے میں خبر دی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرش پر بٹھانا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے صفتِ ربوبیت ثابت کرنے کے لیے نہیں ہے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صفت عبدیت سے نکالنے کے لیے ہے، بلکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و تکریم کو دیگر مخلوق سے بلند تر کرنے کے لیے ہے۔ رہا حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا ’’مَعَہُ‘‘ فرمانا۔ کہ اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ساتھ بٹھائے گا۔ تو وہ اﷲ تعالیٰ کے ان فرامین کے بمعنی ہے :
اِنَّ الَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّکَ.
الأعراف، 7 : 206
’’بے شک جو (ملائکہ مقربین) تمہارے رب کے حضور میں ہیں۔‘‘
رَبِّ ابْنِ لِيْ عِنْدَکَ بَيْتًا فِی الْجَنَّةِ.
التحريم، 66 : 11
’’اے میرے رب! تُو میرے لیے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا دے۔‘‘
وَاِنَّ اﷲَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَo
العنکبوت، 29 : 69
’’اور بیشک اﷲ صاحبانِ احسان کو اپنی معیّت سے نوازتا ہے۔‘‘
’’اس طرح کی دیگر تمام آیات رتبہ، قدر و منزلت کی بلندی اور اعلیٰ درجات کی طرف اشارہ کرتی ہیں نہ کہ کسی مخصوص مقام کی طرف۔‘‘
79 / 7. قَالَ الْخَازِنُ : روی أبو وائل عن ابن مسعود رضی اﷲ عنه أنّه قال : إنّ اﷲ اتّخذ إبراهيم خليلًا وإنّ صاحبکم خليل اﷲ وأکرم الخلق عليه. ثم قرأ : (عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) قال : يقعده علی العرش. وعن مجاهد مثله.
وعن عبد اﷲ بن سلام رضی اﷲ عنه قال : يقعد علی الکرسي.
7 : أخرجه الخازن في تفسيره، 3 / 177.
’’امام خازن بیان کرتے ہیں : حضرت ابو وائل حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا دوست بنایا ہے جب کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اﷲ کے دوست ہیں اور تمام مخلوق سے بڑھ کر اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مکرم ہیں۔ پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی : (یقیناً آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا) اور فرمایا : اﷲ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا۔ حضرت مجاہد التابعی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح روایت ہے۔
’’اور حضرت عبد اﷲ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خصوصی کرسی پر بٹھایا جائے گا۔‘‘
80 / 8. ذکر القاضي محمد ثناء اﷲ الپاني بتي في تفسيره مِثْلَ ما ذَکَرَ البغوي والخازن.
8 : أخرجه القاضي ثناء اﷲ في التفسير المظهري، 4 / 272.
’’قاضی ثناء اﷲ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں تفسیر بغوی اور خازن کی عبارت درج کی ہے۔‘‘
81 / 9. قَالَ الشَّوْکَانِيُّ في قوله تعالی : (عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) : القول الثالث : أن المقام المحمود هو أن اﷲ تعالٰی يجلس محمدا صلی الله عليه وآله وسلم معه علی کرسيّه، حکاه ابن جرير عن فرقة منهم مجاهد، وقد ورد في ذلک حديث، وحکی النقاش عن أبي داود السجسْتَانيّ أنه قال : من أنکر هذا الحديث فهو عندنا مُتَّهَمٌ، ما زال أهل العلم يتحدّثون بهذا الحديث.
9 : أخرجه الشوکاني في فتح القدير، 3 / 252.
علامہ شوکانی مقامِ محمود کے بارے میں تیسرا قول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’مقامِ محمود یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ساتھ اپنی کرسی پر بٹھائے گا۔‘‘ اس قول کو ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ نے مفسرین کے ایک گروہ سے روایت کیا ہے جن میں حضرت مجاہد التابعی رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل ہیں۔ اس باب میں حدیث بھی وارد ہوئی ہے۔ نقاش نے حضرت ابو داود رحمۃ اللہ علیہ کا قول بیان کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : ’’جس نے اس حدیث کا انکار کیا وہ ہمارے نزدیک تہمت زدہ ہے۔‘‘ اہل علم کثرت سے اس حدیث کو روایت کرتے آئے ہیں۔‘‘
82 / 10. قَالَ الألوسي : عن مجاهد أنه قال : المقام المحمود أن يجلسه معه علی عرشه.
10 : أخرجه الألوسي في روح المعاني، 15 / 142.
’’امام آلوسی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں : حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : مقامِ محمود یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ساتھ اپنے عرش پر بٹھائے گا۔‘‘
83 / 11. ذَکَرَ العَلّامة جمالُ الدين القاسميّ في تفسيره ’’محاسن التأويل‘‘ في قوله تعالی : (عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) بحثاً طويلًا. ونحن نذکر هنا ذلک البحث من تفسيره. قال :
11 : تفسير القاسمي المسمی محاسن التأويل، 6 / 2639 - 2643.
’’علامہ جمال الدین قاسمی نے اپنی تفسیر محاسن التاویل میں اﷲ تعالیٰ کے فرمان۔ (یقیناً آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گاo)۔ پر تفصیلی بحث کی ہے۔ ہم ان کی تفسیر سے اس بحث کو مِن و عَن درج کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا :
قال ابن جرير : ذهب آخرون إلی أن ذلک المقام المحمود، الذي وعد اﷲ نبيه صلی الله عليه وآله وسلم أن يبعثه إياه، هو أن يجلسه معه علی عرشه، رواه ليث عن مجاهد، وقد شنّع الواحديّ علی القائل به، مع أنه رواه عن ابن مسعود رضی اﷲ عنه أيضاً وعبارته. علی ما نقلها الرازيّ. وهذا قول رذل موحش فظيع، ونص الکتاب ينادي بفساد هذا التفسير ويدلّ عليه وجوه :
الأوّل : أن البعث ضد الإجلاس، يقال : بعثت النازل والقاعد فانبعث، ويقال : بعث اﷲ الميت، أي أقامه من قبره، فتفسير البعث بالإجلاس تفسير للضد بالضد وهو فاسد.
الثاني : أنه تعالی قال : (مقاماً محموداً) ولم يقل مقعداً، والمقام موضع القيام لا موضع القعود.
الثالث : لو کان تعالی جالساً علی العرش، بحيث يجلس عنده محمد صلی الله عليه وآله وسلم، لکان محدوداً متناهياً، ومن کان کذلک فهو محدث.
الرابع : يقال : إن جلوسه مع اﷲ علی العرش ليس فيه کثير إعزاز، لأن هؤلاء الجهال والحمقی يقولون ’’في کل أهل الجنة‘‘ : إنهم يزورون اﷲ تعالی وإنهم يجلسون معه وإنه تعالی يسألهم عن أحوالهم التي کانوا عليها في الدنيا، وإذا کانت هذه الحالة حاصلة عندهم لکل المؤمنين، لم يکن لتخصيص محمد صلی الله عليه وآله وسلم بها مزيد شرف ورتبة.
الخامس : أنه إذا قيل : السلطان بعث فلاناً، فهم منه أنه أرسله إلی قوم لإصلاح مهماتهم، ولا يفهم منه أنه أجلسه مع نفسه، فثبت أن هذا القول کلام رذل سقط، لا يميل إليه إلا إنسان قليل العقل عديم الدين. انتهی کلام الواحديّ.
’’ابنِ جریر نے کہا ہے : بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ جس مقامِ محمود کا اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں اس پر فائز فرمائے گا، وہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھائے گا۔ اس قول کو حضرت لیث رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے۔ واحدی نے اس کے کہنے والے کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا ہے، اس نے حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی اس روایت کو درج کیا ہے اس کی عبارت کو امام رازی نے نقل کیا ہے۔ (واحدی کہتے ہیں) یہ قول گھٹیا، متروک اور قبیح ہے، نص کتاب اس تفسیر کے فساد کا اعلان کرتی ہے اور یہ کئی وجوہات کی وجہ سے ہیں :
پہلا اعتراض : بعث (کھڑا ہونا) یہ اجلاس (بٹھانے) کی ضد ہے۔ جیسے کہتے ہیں : بعثت النازل والقاعد فانبعث ’’میں نے آنے والے اور بیٹھنے والے کو کھڑا کیا تو وہ کھڑا ہو گیا‘‘۔ اسی طرح کہتے ہیں : بعث اﷲ المیت ’’اللہ نے میت کو قبر سے کھڑا کیا‘‘۔ لہذا بعث کی اجلاس کے ساتھ تفسیر کرنا یہ ضد کی ضد کے ساتھ تفسیر ہے جو فاسد ہے۔
دو سرا اعتراض : اﷲ تعالیٰ نے مقاماً محموداً فرمایا ہے نہ کہ مقعداً (اگر بٹھانا مقصود تھا تو مقعداً محموداً فرمایا جاتا)۔ مقام کھڑے ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں نہ کہ بیٹھنے کی جگہ کو۔
تیسرا اعتراض : اگر اﷲ تعالیٰ عرش پر بیٹھا ہوا ہو اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اﷲ تعالیٰ کے ساتھ بیٹھے ہوں تو اللہ تعالیٰ محدود اور متناہی ہو جائے گا اور جو ایسا ہوگا وہ حادث ہے (حالانکہ اللہ تعالیٰ حادث نہیں قدیم ہے)۔
چوتھا اعتراض : کہا جاتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اﷲ تعالیٰ کے ساتھ عرش پر تشریف فرما ہونے میں کثرتِ اعزاز نہیں ہے کیونکہ یہی جاہل بیوقوف ’’تمام اہلِ جنت ‘‘ کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی زیارت کریں گے اور اس کے ہمراہ بیٹھیں گے اور اللہ تعالیٰ ان سے ان کے دنیا میں گزرے ہوئے احوال پوچھے گا۔ جب ان کے نزدیک یہ حال تمام مسلمانوں کو حاصل ہے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اس کی تخصیص کرنا اس میں کوئی زیادہ شرف اور رتبہ نہیں۔
پانچواں اعتراض : جب یہ کہا جائے کہ بادشاہ نے فلاں شخص کو مبعوث (تقرر) کیا ہے تو اس سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ بادشاہ نے اسے کسی قوم کے مسائل حل کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ اس سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ بادشاہ نے اسے اپنے ساتھ بٹھا ليا ہے تو ثابت ہوا کہ یہ قول گھٹیا اور ساقط الاعتبار ہے۔ اس کی طرف وہی انسان مائل ہو سکتا ہے جو کم عقل اور بے دین ہو۔ واحدی کے اعتراضات ختم ہوئے۔‘‘
وليته اطلع علی ما کتبه ابن جرير حتی يمسک من جماح يراعه ويبصر الأدب مع السلف مع المخارج العلمية لهم، وهاک ما قاله ابن جرير رحمه اﷲ. بعد ما نقل عن مجاهد قوله المتقدم. :
وأولی القولين بالصواب، ما صح به الخبر عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أنه مقام الشفاعة. ثم قال. وهذا وإن کان هو الصحيح في القول، في تأويل المقام المحمود، لما ذکرنا من الرواية عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وأصحابه والتابعين، فإن ما قاله مجاهد من أن اﷲ يقعد محمداً صلی الله عليه وآله وسلم علی عرشه، قول غير مدفوع صحته، لا من جهة خبر ولا نظر، وذلک لأنه لا خبر عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، ولا عن أحد من أصحابه، ولا عن التابعين، بإحالة ذلک، فأما من جهة النظر فإن جميع من ينتحل الإسلام إنما اختلفوا في معني ذلک علی أوجه ثلاثة :
’’کاش واحدی کو پتہ ہوتا کہ ابن جریر نے کیا لکھا ہے تاکہ اس قسم کے خطرناک تبصرہ سے باز آتا اور بزرگانِ سلف کے علمی مرتبہ اور مقام کو ملحوظ رکھ کر ادب کا راستہ اختیار کرتا۔ یہاں امام ابنِ جریر نے حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا قولِ مذکور نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے :
’’دونوں باتوں میں صحیح تر وہی بات ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحیح خبر وارد ہوئی ہے کہ اس سے مراد مقامِ شفاعت ہے۔ پھر فرمایا : مقامِ محمود کا معنی متعین کرنے میں یہ قول اگرچہ صحیح ہے کیونکہ ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے، آپ کے صحابہ سے اور تابعین سے روایتیں نقل کر دی ہیں، پھر بھی جو مجاہد نے کہا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے عرش پر بٹھائے گا‘‘۔ یہ بھی کوئی غلط بات نہیں، نہ خبر کی رو سے نہ نظر کی رو سے۔ اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور کسی صحابی و تابعی سے اس کا محال اور ناممکن ہونا مروی نہیں ہے۔ جہت فکر و نظر سے دیکھا جائے تو تمام اہلِ اسلام نے اس کی توجیح اور تفسیر میں تین وجوہات کی بناء پر اختلاف کیا ہے :
فقالت فرقة منهم : اﷲ عزوجل بائن من خلقه، کان قبل خلقه الأشياء، ثم خلق الأشياء فلم يماسّها، وهو کما لم يزل، غير أن الأشياء التي خلقها، إذا لم يکن هو لها مماسًّا، وجب أن يکون لها مبايناً، إذ لا فعّال للأشياء إلا وهو مماس للأجسام أو مباين لها، قالوا : فإذ کان ذلک کذلک، وکان اﷲ عزوجل فاعل الأشياء، ولم يجز في قولهم أنه يوصف بأنه مماس للأشياء، وجب بزعمهم أنه لها مباين. فعلی مذهب هؤلاء سواء أقعد محمداً صلی الله عليه وآله وسلم علی عرشه أو علی الأرض،. إذا کان من قولهم إن بينونته من عرشه وبينونته من أرضه بمعنی واحد في أنه بائن منهما کليهما غير مماس لواحد منهما.
’’ان میں سے ایک جماعت نے کہا : اللہ رب العزت اپنی مخلوق سے جدا اور ممتاز ہے جیسے اشیاء کو تخلیق کرنے سے پہلے تھا۔ پھر اس نے اشیاء پیدا کیں اور وہ اُن سے مس نہیں کرتا، یہ صورت ہمیشہ سے ہے۔ جب وہ اشیاء کو پیدا کرکے انہیں چُھوتا نہیں تو لازم ہے کہ وہ ان سے الگ تھلگ ہو کیونکہ جو اشیاء کو بناتا ہے یا توان سے مَس کرے گا یا الگ تھلک ہوگا۔ ان علماء نے کہا : پس وہ جس طرح تھا اسی طرح ہے حالانکہ اللہ رب العزت تمام چیزوں کا بنانے والا ہے، ان علماء کے قول کے مطابق یہ کہنا صحیح نہیں کہ یوں کہا جائے : اللہ تعالیٰ اشیاء کو مس کرتا ہے۔ اُن کے نزدیک لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق سے الگ تھلگ ہو۔ لہذا ان لوگوں کے مذہب کے مطابق برابر ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے عرش پر بٹھائے یا زمین پر کیونکہ ان کا یہ کہنا ہے کہ اس کا عرش سے الگ ہونا اور زمین سے الگ ہونا دونوں کا مطلب ایک ہی ہے چنانچہ وہ ان دونوں سے الگ تھلگ ہے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی مس نہیں کرتا۔‘‘
وقالت فرقة أخری : کان اﷲ تعالی ذکره قبل خلقه الأشياء، لا شيء يماسه ولا شيء يباينه، ثم خلق الأشياء فأقامها بقدرته وهو کما لم يزل قبل خلقه الأشياء لا شيء يماسه ولا شيء يباينه، فعلي قول هؤلاء أيضاً سواء أقعد محمداً صلی الله عليه وآله وسلم علی عرشه أو علی أرضه. إذ کان سواء علی قولهم عرشه وأرضه في أنه لا مماس ولا مباين لهذا، کما أنه لا مماس ولا مباين لهذه.
’’علماء کی دوسری جماعت کا کہنا ہے : اللہ تبارک وتعالیٰ کے مخلوق کو پیدا کرنے سے قبل ہی کوئی شے نہ تو اللہ کو مس کرتی تھی اور نہ جدا تھی، پھر اس نے مخلوق کو پیدا کرکے اپنی قدرت سے انہیں قائم کیا اور اللہ کی شان ویسی ہی ہے جیسے مخلوق پیدا کرنے سے پہلے تھی کہ نہ کوئی چیز اسے مس کرتی ہے اور نہ کوئی شے اس سے جدا ہے۔ ان لوگوں کے قول کے مطابق بھی برابر ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے عرش پر بٹھائے یا زمین پر کیونکہ وہ نہ اس (عرش) سے مس کرتا ہے اور نہ جدا ہے جس طرح کہ وہ نہ اس (زمین) سے مس کرتا ہے اور نہ جدا ہے۔‘‘
وقالت فرقة أخری : کان اﷲ عز ذکره قبل خلقه الأشياء لا شيء يماسه ولا شيء يباينه، ثم أحدث الأشياء وخلقها، فخلق لنفسه عرشاً استوي عليه جالساً وصار له مماسًّا، کما أنه قد کان قبل خلقه الأشياءَ لا شيء يرزقه رزقاً ولا شيء يحرمه ذلک، ثم خلق الأشياء فرزق هذا وحرم هذا وأعطي هذا ومنع هذا، قالوا : فکذلک کان قبل خلقه الأشياء، لا شيء يماسه ولا يباينه، وخلق الأشياء فماسّ العرش بجلوسه عليه دون سائر خلقه، فهو مماسّ ما شائَ من خلقه ومباين ما شاء منه، فعلي مذهب هؤلاء أيضاً سوائٌ أقعد محمداً صلی الله عليه وآله وسلم علی عرشه أو أقعده علی منبر من نور، إذ کان من قولهم : أن جلوس الرب علی عرشه ليس بجلوس يشغل جميع العرش، ولا في إقعاد محمد صلی الله عليه وآله وسلم موجباً له صفة الربوبية، ولا مخرجه من صفة العبودية لربه، کما أن مباينة محمد صلی الله عليه وآله وسلم ما کان مبايناً له من الأشياء غير موجبة له صفة الربوبية ولا مخرجته من صفة العبودية لربه من أجل أنه موصوف بأنه مباين له، کما أن اﷲ عزوجل موصوف. علی قول قائل هذه المقالة. بأنه مباين لها، هو مباين له، قالوا : فإذا کان معني ’’مباين ومباين‘‘ لا يوجب لمحمد صلی الله عليه وآله وسلم الخروج من صفة العبودية، والدخول في معني الربوبية، فکذلک لا يوجب له ذلک قعوده علی عرش الرحمن.
’’تیسری جماعت کا کہنا ہے : اللہ تعالیٰ مخلوق کے پیدا کرنے سے پہلے اس حال میں تھا کہ نہ کوئی شے اسے مس کرتی تھی اور نہ اس سے جدا تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور اپنی ذات کے لئے عرش بنا کر اس کے اوپر بیٹھ گیا تو وہ اس سے مس ہو گیا جیسے اشیاء کو پیدا کرنے سے قبل نہ وہ کسی چیز کو رزق دیتا تھا اور نہ کسی چیز کو اس رزق سے محروم کرتا تھا پھر اس نے اشیاء کو پیدا کر کے کسی کو رزق دیا اور کسی کو اس رزق سے محروم کر دیا، کسی کو عطا فرما دیا اور کسی سے اپنی عطا کو روک ليا (یعنی جسے جو چاہا دیا اور جسے جو چاہا نہ دیا)۔ اِن لوگوں کا کہنا ہے : یہی حال اشیاء کو پیدا کرنے سے پہلے تھا کہ نہ کوئی چیز اُس کو مس (Touch) کرتی تھی اور نہ کوئی اس سے الگ تھی (کیونکہ تھا ہی کچھ نہیں)، پھر اس نے اشیاء کو پیدا کیا اور عرش پر بیٹھ کر اس کو مس کیا اس کے علاوہ باقی مخلوق پر نہ بیٹھا (نہ کسی کو مس کیا)۔ لہذا وہ اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہے مس کرے اورجس سے چاہے الگ رہے۔ ان لوگوں کے مذہب کے مطابق بھی برابر ہے کہ’’اللہ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے عرش پر بٹھائے یا نور کے منبر پر بٹھائے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ رب کا اپنے عرش پر بیٹھنے سے تمام عرش استعمال نہیں ہوتا، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس پر بٹھانے سے نہ ان کے لئے صفتِ ربوبیت ثابت ہوتی ہے اور نہ ہی وہ اپنے رب کی عبودیت سے خارج ہوتے ہیں (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عرش پر بیٹھنے سے نہ تو وہ رب ہوں گے اور نہ بندگی سے نکلیں گے، اللہ تعالیٰ اپنی جگہ خالق رہے گا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی جگہ مخلوق ہوں گے)۔ جیسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مخلوق سے (ارفع مرتبہ ہونے کی وجہ سے ان سے) الگ تھلگ ہونا ان کے لئے صفتِ ربوبیت کو ثابت نہیں کرتا اور نہ وہ صفت عبودیت سے باہر ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کی ذات تو بدرجہ اولیٰ آپ سے (الوہیت میں) جدا ہے جس طرح کے اللہ موصوف ہے۔ اس قائل کے قول کے مطابق اللہ تعالیٰ مخلوق سے الگ تھلگ ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ سے الگ تھلگ ہیں۔ ان علماء کا کہنا ہے کہ جب دونوں معنی الگ الگ ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے یہ ثابت نہ ہوگا کہ صفتِ عبودیت سے باہر نکل کر ربوبیت میں داخل ہو جائیں اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عرشِ رحمن پر بیٹھنے سے بھی یہ خرابی پیدا نہیں ہوگی۔‘‘
فقد تبيّن إذاً بما قلنا أنه غير محال في قول أحد ممن ينتحل الإسلام ما قاله مجاهد، من أن اﷲ تبارک وتعالی يقعد محمداً صلی الله عليه وآله وسلم علی عرشه، فإن قال قائل : فإنا لا ننکر إقعاد اﷲ محمداً صلی الله عليه وآله وسلم علی عرشه، وإنما ننکر إقعاده معه. ’’حدثني‘‘ عباس بن عبد العظيم قال : حدثنا يحيی بن کثير عن الجريري عن سيف السدوسيّ عن عبد اﷲ بن سلام رضی اﷲ عنه قال : إن محمداً صلی الله عليه وآله وسلم يوم القيامة علی کرسي الرب بين يدي الرب تبارک وتعالی.
’’اس بحث سے یہ واضح ہوا کہ کسی مسلمان کی نظر میں مجاہد کا قول محال نہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے عرش پر بٹھائے گا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا بلکہ اس بات کا انکار ہے کہ اللہ تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھائے گا۔ مجھ سے عباس بن عبدالعظیم نے حدیث بیان کی، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، انہوں نے جریری سے، انہوں نے سیف السدوسی سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت کے دن رب تعالیٰ کے حضور اللہ تعالیٰ کی کرسی پر بیٹھیں گے۔‘‘
وإنما ينکر إقعاده إياه معه قيل : أفجائز عندک أن يُقعده عليه لا معه؟ فإن أجاز ذلک صار إلی الإقرار بأنه إما معه أو إلی أنه يقعده، واﷲ للعرش مباين، أوْ لا مماسٌّ ومباين، وبأيّ ذلک قال، کان منه دخولاً في بعض ما کان ينکره، وإن قال : ذلک غير جائز منه، خروجاً من قول جميع الفرق التي حکينا قولهم، وذلک فراق لقول جميع من ينتحل الإسلام : إذ کان لا قول في ذلک إلا الأقوال الثلاثة التي حکيناها، وغير محال في قول منها ما قال مجاهد في ذلک. انتهی کلام ابن جرير(1) رحمه اﷲ.
(1) تفسير ابن جرير، 15 / 147 - 148.
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اللہ کے ساتھ بٹھائے جانے کا انکار کیا جاتا ہے۔ سوال ہے کہ کیا تمہارے نزدیک یہ جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے عرش پر بٹھائے اور ساتھ نہ بٹھائے؟ اگر اس نے یہ جائز قرار دیا تو گویا اس نے اقرار کر ليا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہے اللہ کے ساتھ ہوں یا اﷲ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (عرش پر) بٹھائے۔ (دو ہی باتیں ہیں) اللہ عرش سے الگ ہے یا نہ مس کرتا ہے نہ الگ ہے، قائل کون سا قول کہے گا؟ وہ انکار کرنے کے باوجود اس کے بعض میں داخل ہو جائے گا۔ اگر ہمارے بیان کردہ جماعتوں کے اقوال کو رد کرتے ہوئے کہے کہ اللہ سے ایسا جائز نہیں ہے مطقاً انکار کرے تو اس کا مذہب سب سے علیحدہ ہو گیا کیونکہ اِن تین اقوال کے علاوہ اور کوئی قول نہیں ہے، اور مجاہد کے قول میں کوئی استحالہ نہیں۔ ابنِ جریر رحمۃ اللہ علیہ کی بات ختم ہوئی۔‘‘
وأقول : لک أن تجيب أيضاً عن إيرادات الواحديّ الخمسة التي أفسد بها قول مجاهد.
أما جواب إيراده الأول : فإن مجاهدا لم يفسر مادة البعث وحدها بالإجلاس، وإنما فسر بعثه المقام المحمود بما ذکر.
وعن الثاني : بأن المقام هو المنزلة والقدرة والرفعة، معروف ذلک في اللغة.
وعن الثالث : بدفع اللازم المذکور، لأنه کما اتفق علی أن له ذاتاً لا تماثلها الذوات، فکذلک کل ما يوصف به مما ورد في الکتاب والآثار، فإنه لا يماثل الصفات، ولا يجوز قياس الخالق علی المخلوق.
وعن الرابع : بأنه مکابرة، إذ کل أحد يعرف. في الشاهد. لو أن ملکًا استدعی جماعة للحضور لديه، ورفع أفضلهم علی عرشه أن المرفوع ذو مقام يفوق به الکل.
وعن الخامس : بأنه من واد آخر غير ما نحن فيه، إذ لا بعث لإصلاح المهمات في الآخرة، وإنما معنی الآية : إنه يرفعک مقاماً محموداً، وذلک يصدق ما قاله مجاهد، وما قاله الأکثر : فتأمل وأنصف.
’’(علامہ جمال الدین قاسمی کہتے ہیں :) میں کہتا ہوں : آپ کا حق ہے کہ واحدی کے پانچ سوالوں کے جوابات دیں جنہوں نے حضرت مجاہد کے قول کو غلط قرار دیا ہے۔
پہلا جواب : حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے لفظِ ’’بعث‘‘ کی صرف ’’بٹھانے‘‘ کی تفسیر نہیں کی بلکہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقامِ محمود پرفائز ہونے کی تفسیر کی ہے۔ (بیٹھنے اور کھڑے ہونے کی بات ہی نہیں کی۔)
دوسرا جواب : مقام کا معنی اور مفہوم مرتبہ، قدرت اور بلندی لغت میں مشہور ہیں۔
تیسرا جواب : یہ اعتراض ہم نہیں مانتے۔ اس لئے کہ جیسے اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات جیسی کوئی ذات نہیں اسی طرح قرآن و حدیث میں اﷲ تعالیٰ کی جو بھی صفات بیان کی گئی ہیں ان صفات میں وہ مخلوق کے مماثل نہیں ہے اور خالق کو مخلوق پر قیاس کرنا جائز نہیں۔
چوتھا جواب : یہ اعتراض ضد بازی اور تعصب ہے۔ ہر ایک کے مشاہدے میں یہ بات ہے کہ بادشاہ اگر ایک جماعت کو اپنے پاس بلائے اور ان میں سے افسر کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھائے تو یہ بات قرین قیاس ہے کیونکہ بلند مقام پر فائز ہونے والا شخص اس مقام و مرتبہ کا مالک ہے کہ جس بناء پر اُسے ہر ایک پر فوقیت حاصل ہوگی۔
پانچواں جواب : اس آیت میں جس جہاں کی بات ہو رہی ہے وہ ہماری اس دنیا سے مختلف ہے۔ آخرت میں مہمات کو حل کرنے کیلئے کسی کو مقرر نہیں کیا جائے گا۔ جب کہ آیت کا معنی یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا اور یہ اس تفسیر پر صادق آتا ہے جو حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے کی اور جس پر اکثر کی رائے ہے۔ پس تو غور کر اور انصاف کر۔‘‘
وقد أنشد الحافظ الذهبي في کتابه ’’العلوّ ﷲ العظيم‘‘ للإمام الدار قطني في ترجمته، قولَه :
حديث الشفاعة في أحمد
إلی أحمد المصطفیٰ نُسْنِدُه
وأما حديثٌ بإقعاده
علی العرش أيضاً فلا نَجْحَدُه
أمِرُّوا الحديثَ علی وجههِ
ولا تُدخلوا فيه ما يُفْسِدُه
’’حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’العلوّ للّٰہ العظیم‘ میں امام دار قطنی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات زندگی میں یہ اشعار درج کیے ہیں :
(ہم حدیثِ شفاعت کو احمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہی منسوب کرتے ہیں۔ رہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرش پر بٹھانے کی روایت تو ہم اس کا بھی انکار نہیں کرتے۔ حدیث کو اس کے اصل معنی پر قائم رکھو اور اس میں ایسی چیزیں داخل نہ کرو کہ اُس کا اصل معنی فاسد ہو جائے۔)‘‘
وقال الذهبي في کتابه المنوه به ترجمة ’’محمد بن مصعب‘‘ العابد شيخ بغداد ما مثاله : وقال المروذيّ : سمعت أبا عبد اﷲ الخفاف، سمعت ابن مصعب وتلا : (عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) قال : نعم يقعده علی العرش. ذکر الإمام أحمد، محمد بن مصعب، فقال : قد کتبت عنه. وأيّ رجل هو!
’’اس کے بعد امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مذکورہ کتاب میں شیخ بغداد عبادت گزار محمد رحمۃ اللہ علیہ بن مصعب کے حالاتِ زندگی بیان کیے اور اُن سے مقامِ محمود کی یہ تفسیر بیان کی ہے : ’’مروذی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو عبد اﷲ الخفاف رحمۃ اللہ علیہ سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابنِ مصعب رحمۃ اللہ علیہ سے سنا : انہوں نے اس آیت (عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) کی تلاوت کی اور فرمایا : ہاں اﷲ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ بغداد محمد رحمۃ اللہ علیہ بن مصعب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : میں نے اُن سے احادیث نقل کی ہیں (یعنی وہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ بن حنبل کے اساتذہ میں سے ہیں)۔‘‘ وہ شخص کتنا بلند رتبہ ہوگا!‘‘
قال الذهبي : فأما قضية قعود نبيّنا علي العرش، فلم يثبت في ذلک نص، بل في الباب حديث واه، وما فسر به مجاهد الآية، کما ذکرناه، فقد أنکره بعض أهل الکلام، فقام المروذيّ وقعد بالغ في الانتصار لذلک وجمع فيه کتاباًَ وطُرقَ قول مجاهد من رواية ليث بن أبي سليم، وعطاء بن السائب، وأبي يحيی القتات وجابر بن زيد، وممن أفتی في ذلک العصر، بأن هذا الأثر يُسَلَّم ولا يعارض، أبوداود السجستاني صاحب السنن وإبراهيم الحربيّ وخلْق.
’’امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عرش پر بیٹھنے کا مسئلہ کسی قرآن کی نص سے ثابت نہیں بلکہ اس باب میں کمزور حدیث ہے۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے جو آیتِ مبارکہ کی تفسیر کی ہے جیسا کہ ہم نے اس کا ذکر کیا ہے بعض اہلِ کلام نے اس کا انکار کیا ہے۔ امام مروذی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عرش پر تشریف فرما ہونے کو ثابت کرنے کے لیے تحقیق کی اور اس پر ایک کتاب مرتب کی جس میں حضرت مجاہد کے اس قول۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عرش پر بٹھائے جانے۔ کو لیث بن ابی سلیم، عطاء بن السائب، ابو یحییٰ القتات اور جابر بن زید کے طرق سے جمع کیا ہے۔ اس کے علاوہ جن ائمہ نے اُس زمانے میں فتویٰ دیا کہ قولِ مجاہد کو تسلیم کیا جائے گا اور اس کی مخالفت نہیں کی جائے گی، ان کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان میں امام ابو داود سجستانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب السنن، ابراہیم حربی رحمۃ اللہ علیہ اور بہت سے علماء شامل ہیں۔‘‘
بحيث إن ابن الإمام أحمد قال عقيب قول مجاهد : أنا منکرٌ علی کلّ من ردّ هذا الحديث، وهو عندي رجل سوء متّهم. سمعته من جماعة، وما رأيت محدّثًا ينکره، وعندنا إنّما تنکره الجهميّة.
’’امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : جس شخص نے اس حدیث کا انکار کیا میں اُس کا منکر ہوں اور وہ شخص میرے نزدیک تہمت زدہ اور ناپسندیدہ ہے۔ میں نے اس حدیث کو محدّثین کی ایک جماعت سے سنا ہے اور میں نے کسی محدّث کو اس کا منکر نہیں پایا۔ ہمارے ہاں اس کا انکار صرف جہمیہ (باطل فرقہ کے پیروکار) کرتے ہیں۔‘‘
وقد حدّثنا هارون بن معروفٍ، ثنا محمد بن فضيل عن ليث، عن مجاهد في قوله : (عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) قال : يقعده علی العرش. فحدّثت به أبي رحمه اﷲ فقال : لم يُقَدَّرْ لي أن أسمعه من ابن فضيل. بحيث إن المروذيّ روی حکايةً بنزولٍ، عن إبراهيم بن عرفة، وسمعت ابن عمير يقول : سمعت أحمد بن حنبل يقول : هذا قد تلقته العلماء بالقبول.
’’ہمیں ہارون بن معروف نے حدیث بیان کی، ان سے محمد بن فضیل نے بیان کی انہوں نے حضرت لیث سے اور انہوں نے حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ انہوں نے اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان۔ (عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) کی تفسیر میں فرمایا : اﷲ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا۔ میں نے یہ حدیث اپنے والدِ گرامی (امام احمد رحمۃ اللہ علیہ بن حنبل) سے بیان کی تو انہوں نے فرمایا : میری قسمت میں نہ تھا کہ میں یہ حدیث ابنِ فضیل سے سن سکوں۔ امام مروذی، ابراہیم بن عرفہ کے طریق سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابنِ عمیر سے سنا وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل کو یہ فرماتے ہوئے سنا : اس قول (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عرش پر تشریف فرما ہونے) کو علماء کے ہاں تلقی بالقبول حاصل ہے۔‘‘
وقال المروذيّ : قال أبو داود السجستانيّ : ثنا ابن أبي صفوان الثّقفيّ، ثنا يحيی بن أبي کثير، ثنا سلم بن جعفر، وکان ثقة، ثنا الجريريّ، ثنا سيف السدوسيّ عن عبد اﷲ بن سلام رضی اﷲ عنه قال : إذا کان يوم القيامة جيء بنبيّکم صلی الله عليه وآله وسلم حتّی يجلس بين يدي اﷲ عزوجل علی کرسيّه... الحديث. وقد رواه ابن جرير في تفسيره، أعني قول مجاهد، وکذلک أخرجه النقاش في تفسيره، وکذلک رد شيخ الشافعية ابن سريج علی من أنکره.
’’امام مروذی بیان کرتے ہیں کہ امام ابو داود سجستانی نے فرمایا : ہمیں ابن ابی صفوان الثقفی نے حدیث بیان کی، انہیں یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، وہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں سلم بن جعفر نے حدیث بیان کی، اور یہ ثقہ ہیں، وہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں الجریری نے حدیث بیان کی، وہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں سیف الدوسی نے حضرت عبد اﷲ بن سلامص سے روایت بیان کی کہ انہوں نے فرمایا : ’’روزِ قیامت تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لایا جائے گا حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲ عزوجل کے سامنے اﷲ تعالیٰ کی کرسی پر جلوہ افروز ہوں گے۔‘‘ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کو امام ابنِ جریر نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے اور اسی طرح نقاش نے اسے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے، اسی طرح شیخ الشافعیہ ابنِ سریج نے اس قول کے منکر کا رد کیا ہے۔‘‘
بحيث إن الإمام أبا بکر الخلّال قال في ’’کتاب السنة‘‘ من جمعه : أخبرني الحسن بن صالح العطار عن محمد بن عليّ السّراج، قال : رأيت النّبيّ صلی الله عليه وآله وسلم في النّوم فقلت : إنّ فلانًا الترمذيّ يقول : إنّ اﷲ لا يقعدک معه علی العرش. ونحن نقول : بل يقعدک. فأقبل (صلی الله عليه وآله وسلم) عليّ شبه المغضب وهو يقول : بلی، واﷲ! بلی، واﷲ! يقعدني علی العرش. فانتبهت.
’’اس قول کی تائید میں امام ابو بکر الخلال رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’السنۃ‘ میں (ایک خواب) بیان کرتے ہیں : مجھے حسن بن صالح العطار نے، انہوں نے محمد بن علی السراج سے خبر دی وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا تو میں نے عرض کیا : (یارسول اﷲ!) فلاں ترمذ کا رہنے والا شخص کہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو عرش پر نہیں بٹھائے گا جب کہ ہم کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو بٹھائے گا۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلال بھرے چہرے کے ساتھ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : ہاں، اﷲ کی قسم!، ہاں، اﷲ کی قسم! اﷲ تعالیٰ مجھے عرش پر بٹھائے گا۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔‘‘
بحيث إن الفقيه أبا بکر أحمد بن سليمان النجاد المحدّث قال :. فيما نقله عنه القاضي أبو يعلی الفراء. لو أنّ حالفًا حلف بالطّلاق ثلاثاً، إنّ اﷲ يقعد محمدا صلی الله عليه وآله وسلم علی العرش. واستفتاني، لقلت له : صدقت وبررت.
’’قاضی ابویعلی الفراء رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا کہ محدّث و فقیہ ابو بکر احمد بن سلیمان النجاد رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں : اگر کوئی شخص اس بات پر حلف اٹھائے : ’’اگر یہ بات غلط ہو کہ اﷲ تعالیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا تو میری بیوی کو تین طلاقیں‘‘ اور وہ مجھ سے فتویٰ لینے آئے تو میں اس سے کہوں گا : تُو نے حق اور سچ بات کہی۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved