امام جلال الدین سیوطی اپنے فتاويٰ ’’الحاوی للفتاوٰی‘‘ میں علامہ نووی کے حوالے سے بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
27. أن البدعة لم تنحصر في الحرام و المکروه، بل قد تکون أيضاً مباحة و مندوبة و واجبة. قال النووي رحمة الله عليه في تهذيب الأسماء واللُّغات، البدعة في الشرع هي إحداث ما لم يکن في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهي منقسمة إلي حسنة و قبيحة، وقال الشيخ عز الدين بن عبدالسلام رحمة الله عليه في القواعد : البدعة منقسمة إلي واجبة و محرمة و مندوبة و مکروهة و مباحة قال : والطريق في ذلک أن نعرض البدعة علي قواعد الشريعة فإذا دخلت في قواعد الإيجاب فهي واجبة أوفي قواعد التحريم فهي محرمة أو الندب فمندوبة أو المکروه فمکروهة أو المباح فمباحة، وذکر لکل قسم من هذه الخمسة أمثلة إلي أن قال : و للبدع المندوبة أمثلة، منها أحداث الربط والمدارس وکل إحسان لم يعهد في العصر الأول، ومنها التراويح والکلام في دقائق التصوف وفي الجدل، ومنها جمع المحافل للإستدلال في المسائل إن قصد بذلک وجه اﷲ تعالي.
’’بدعت حرام اور مکروہ تک ہی محصور نہیں ہے بلکہ اسی طرح یہ مباح، مندوب اور واجب بھی ہوتی ہے جیسے کہ امام نووی اپنی کتاب ’’تہذیب الاسماء و اللغات‘‘ میں فرماتے ہیں کہ شریعت میں بدعت اس عمل کو کہتے ہیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں نہ ہوا ہو اور یہ بدعت، بدعت حسنہ اور بدعت قبیحۃ میں تقسیم ہوتی ہے اور شیخ عزالدین بن عبدالسلام اپنی کتاب ’’القواعد الاحکام‘‘ میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ بدعت کی تقسیم واجب، حرام، مندوب، مکروہ اور مباح کے اعتبار سے ہوتی ہے اور فرماتے ہیں کہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم بدعت کو شریعت کے قواعد پر پیش کریں اگر وہ بدعت قواعدِ ایجاب کے تحت داخل ہو تو واجب ہے اور اگر قواعد تحریم کے تحت داخل ہو تو حرام ہے اور اگر قواعدِ اِستحباب کے تحت داخل ہو تو مستحب ہے اور اگر کراہت کے قاعدہ کے تحت داخل ہو تو مکروہ اور اباحت کے قاعدہ میں داخل ہے تو مباح ہے اور انہوں نے ان پانچ اقسام کی مثالیں بیان کی ہیں جیسے کہ بدعت مندوبہ کی مثال سرائے اور مدارس وغیرہ کا تعمیر کرنا اور ہر وہ اچھا کام جو پہلے زمانے میں نہیں ہوا جیسے کہ نماز تراویح اور علم التصوف کے متعلق گہری معلومات اور مجادلہ سے متعلق معلومات وغیرہ اور اسی میں سے رضائے الٰہی کے لئے مسائل میں استدلال کے لئے محافل کا انعقاد کرنا ہے وغیرہ وغیرہ۔‘‘
1. سيوطي، الحاوي للفتاويٰ، 1 : 192
2. سيوطي، شرح سنن ابن ماجه، 1 : 6
3. سيوطي، الديباج علي صحيح مسلم بن الحجاج، 2 : 445
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ کے ذیل میں نماز تراویح کو بدعت حسنہ قرار دیتے ہوئے علامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں :
28. عن عمر أنه قال في التراويح : نعمت البدعة هذه(1) والتي ينامون عنها أفضل فسماها بدعة. يعني بدعة حسنة. و ذلک صريح في أنهالم تکن في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، و قد نص علي ذلک الإمام الشافعي و صرح به جماعات من الأئمة منهم الشيخ عز الدين بن عبد السلام حيث قسم البدعة إلي خمسة أقسام و قال : ومثال المندوبة صلاة التراويح و نقله عنه النووي في تهذيب الأسماء و اللغات، ثم قال و روي البيهقي بإسناده في مناقب الشافعي عن الشافعي قال : المحدثات في الأمور ضربان، أحدهما ما أحدث مما خالف کتابا أو سنة أو أثرا أو اجماعا فهذه البدعة الضلالة. والثاني ما أحدث من الخير و هذه محدثة غير مذمومة و قد قال عمر في قيام شهر رمضان : نعمت البدعة هذه. يعني أنها محدثة لم تکن. (2)
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے تراویح کے بارے میں فرمایا یہ کتنی اچھی بدعت ہے اور رات کا وہ حصہ جس میں لوگ سو جاتے ہیں یہ حصہ اس سے بہتر ہے آپ نے اسی وجہ سے اسے بدعت کا نام دیا یعنی بدعت حسنہ۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ چیز آقا علیہ السلام کے زمانے میں نہیں تھی۔ اور اس پر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے نص پیش کی ہے اور پھر ائمہ کی جماعتوں نے بھی اس کی وضاحت کی ہے۔ ان میں سے ایک شیخ عز الدین بن عبد السلام ہیں جنہوں نے بدعت کو پانچ قسموں میں تقسیم کیا ہے اور انہوں نے کہا کہ جیسے مندوب کی مثال نماز تراویح ہے اور ان سے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’تہذیب الاسماء و اللغات‘‘ میں نقل کیا ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ امام بیہقی نے بھی اپنی سند کے ساتھ مناقب شافعی میں بیان کیا ہے۔ امام شافعی سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا محدثات الامور کی دو قسمیں ہیں ان میں سے ایک احداث ایسا ہے جو کہ کتاب، سنت، اثر صحابہ (یعنی قول صحابہ) اور اجماع کے مخالف ہے وہی بدعت ضلالہ ہے اور دوسرا احداث جو کہ خیر میں سے ہے اور یہ احداث غیر مذموم ہے جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ماہ رمضان میں قیام (یعنی نماز تراویح) کے بارے میں کہا ’’نعمتِ البدعَۃ ھَذِہِ‘‘یہ کتنی اچھی بدعت ہے، یعنی یہ ایسا محدثہ ہے جو پہلے نہیں تھا۔‘‘
1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266
4. زرقاني، شرح الزرقاني علي مؤطا الامام مالک، 1 / 340
سيوطي، الحاوي للفتاوي، 1 / 348
علامہ شہاب الدین احمد قسطلانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان ’’نعم البدعۃ ہذہ‘‘ کے ضمن میں بدعت کی تعریف اور تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
29. نعم البدعة هذه(1) سماها بدعة لأنه صلي الله عليه وآله وسلم لم يسن لهم الاجتماع لها ولا کانت في زمن الصديق ولا أول الليل ولا کل ليلة ولا هذا العدد. و هي خمسة واجبة و مندوبة و محرمة و مکروهة و مباحة و حديث ’’کل بدعة ضلالة‘‘(2) من العام المخصوص و قد رغب فيها عمر بقوله نعم البدعة و هي کلمة تجمع المحاسن کلها کما أن بئس تجمع المساوي کلها و قيام رمضان ليس بدعة لأنه صلي الله عليه وآله وسلم قال اقتدوا باللذين من بعدي ابي بکر و عمر(3) (رضي اﷲ عنهما) و إذا أجمع الصحابة مع عمر رضی الله عنه علي ذلک زال عنه اسم البدعة. (4)
’’نعم البدعۃ ہذہ‘‘ کے تحت نماز تراویح کو بدعت کا نام دیا گیا کیونکہ آقا علیہ السلام نے تراویح کے لئے اجتماع کو مسنون قرار نہیں دیا۔ اور نہ ہی اس طریقے سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تھی اور نہ ہی (پابندی کے ساتھ) رات کے اِبتدائی حصے میں تھی اور نہ ہی مستقلاً ہر رات پڑھی جاتی تھی اور نہ ہی یہ عدد متعین تھا اور بدعت کی درج ذیل پانچ اقسام واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروھہ، اور مُبَاحہ ہیں اور جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ’’کل بدعۃ ضلالہ‘‘ یعنی ہر بدعت گمراہی ہے یہ حکم عام ہے مگر اس سے مراد مخصوص قسم کی بدعات ہیں اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے قول ’’نعم البدعۃ ہذہ‘‘ سے اس (بدعت حسنہ) کی ترغیب دی ہے۔ اوریہ کلمہ (یعنی لفظ نعم) اپنے اندر تمام محاسن سموئے ہوئے ہے جس طرح کہ لفظ بئس اپنے اندر تمام برائیاں سموئے ہوئے ہے۔ اور رمضان المبارک میں (نماز تراویح) کا قیام بدعت نہیں ہے کیونکہ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے بعد حضرت ابوبکر اور عمر رضی اﷲ عنہما کی پیروی کرنا اور جب صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ قیام رمضان پر اتفاق کیا تو اس طرح قیام رمضان سے بدعت کا اطلاق ختم ہوگیا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 2 : 707، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، رقم
: 1906
2. مالک، المؤطا، 1 : 114، رقم، 2 : 250
3. ابن خزيمة، الصحيح، 2 : 155، رقم : 1100
1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة،
رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم
: 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب عن الرسول صلي الله عليه وآله
وسلم ، باب مناقب ابي بکر و
عمر، 5 / 609، رقم : 3662
2. ابن ماجه، السنن، باب في فضل اصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 / 37، رقم : 97
3. حاکم، المستدرک، 3 / 79، رقم : 4451
قسطلاني، ارشاد الساري لشرح صحيح البخاري، 3 : 426
امام محمد بن یوسف صالحی شامی اپنی معروف کتاب ’’سبل الھدی والرشاد‘‘ میں علامہ تاج الدین فاکہانی کے اس مؤقف ’’ان الابتداع فی الدین لیس مباحًا‘‘ کا محاکمہ کرتے ہیں اور اس ضمن میں بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
30. أن البدعة لم تنحصر في الحرام والمکروه، بل قد تکون أيضاً مباحة و مندوبة و واجبة. قال النووي رحمة الله عليه في تهذيب الأسماء واللُّغات : البدعة في الشرع : هي ما لم يکن في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهي منقسمة إلي حسنة و قبيحة. وقال الشيخ عز الدين بن عبدالسلام رحمة اﷲ تعالٰي في القواعد : البدعة منقسمة إلي واجبة و إلي محرمة و مندوبة و مکروهة و مباحة.
’’ بدعت کا انحصار صرف حرام اور مکروہ پر نہیں ہے بلکہ بدعت اسی طرح مباح مندوب اور واجب بھی ہوتی ہے۔ اِمام نووی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’’تہذیب الاسماء واللغات‘‘ میں فرماتے ہیں شریعت میں بدعت اس عمل کو کہتے ہیں جو عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہ ہوا ہو اور یہ بدعتِ حسنہ اور بدعت قبیحہ میں تقسیم کی جاتی ہے شیخ عزالدین بن عبدالسلام اپنی کتاب قواعد الاحکام میں فرماتے ہیں بدعت واجب، حرام، مندوب، مکروہ اور مباح میں تقسیم ہوتی ہے۔‘‘
صالحي، سبل الهدي والرشاد، 1 : 370
امام عبد الوھاب بن احمد علی الشعرانی اپنی کتاب ’’الیواقیت و الجواہر فی بیان عقائد الاکابر‘‘ میں ایک استفتاء کے جواب میں بدعت حسنہ کے شرعی حکم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
31. (فإن قلت) : فهل يلحق بالسنة الصحيحة في وجوب الإذعان لها ما ابتدعه المسلمون من البدع الحسنة؟ (فالجواب) : کما قاله الشيخ في الباب الثاني و الستين و مائتين : إنه يندب الإذعان لها ولا يجب کما أشار إليه قوله تعالي : (وَرَهبَانِيّة أبْتَدَعُوها مَا کَتَبْنٰها عَلَيْهِم) (الحديد، 57 : 27) وکما أشار إليها قوله صلي الله عليه وآله وسلم : (من سن سنة حسنة، (1) فقد أجاز لنا ابتداع کل ما کان حسناً وجعل فيه الأجر لمن ابتدعه ولمن عمل به مالم يشق ذلک علي الناس). (2)
’’اگر تو اعتراض کرے کہ بدعت حسنہ میں سے جو نئی چیز مسلمانوں نے اختیار کی ہے کیا وہ وجوب اقرار میں سنت صحیحہ کے ساتھ (درجہ میں) مل جاتی ہے؟ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اس نئی چیز یعنی بدعت حسنہ کا اقرار کرنا مندوب ہے نہ کہ واجب جیسا کہ اس چیز کی طرف اللہ تعاليٰ کا یہ قول اشارہ کرتا ہے ’’ورھبانیۃ ابتدعوھا ما کتبنٰھا علیھم‘‘ (الحدید، 57 : 27) ’’انہوں نے اس رہبانیت کو از خود شروع کر لیا تھا یہ ہم نے ان پر فرض نہیں کی تھی‘‘ اور جیسا کہ اسی چیز کی طرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان اشارہ کرتا ہے (من سن سنۃ حسنۃ) ’’جس نے کوئی اچھا طریقہ شروع کیا اور ہر وہ چیز جو اچھی ہو اسے شروع کرنا ہمارے لیے جائز ہے اور اس میں شروع کرنے والے کے لئے اور اس پر عمل کرنے والے کے لئے اجر رکھ دیا گیا ہے جب تک اس اچھی چیز پر عمل کرنا لوگوں کو مشقت میں نہ ڈالے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359
5. ابن حبان، الصحيح، 8 : 101، 102، رقم : 3308
6. دارمي، السنن، 1 : 141، رقم : 514
شعراني، اليواقيت والجواهر في بيان عقائد الأکابر، 2 : 288
اِمام ابن حجر مکی ’’الفتاويٰ الحدیثیہ‘‘ میں ایک سائل کا جواب دیتے ہوئے رقمطراز ہیں :
32. و قول السائل نفع اﷲ به وهل الاجتماع للبدع المباحة جائز جوابه نعم هو جائز قال العزالدين بن عبدالسلام رحمه اﷲ تعالي البدعة فعل مالم يعهد في عهد النبي صلي الله عليه وآله وسلم و تنقسم إلي خمسه أحکام يعني الوجوب والندب الخ وطريق معرفة ذلک أن تعرض البدعة علي قواعد الشرع فأي حکم دخلت فيه فهي منه فمن البدع الواجبة تعلم النحو الذي يفهم به القرآن والسنة ومن البدع المحرمة مذهب نحو القدرية ومن البدع المندوبة احداث نحو المدارس والاجتماع لصلاة التراويح ومن البدع المباحة المصافحة بعد الصلاة ومن البدع المکروهة زخرفة المساجد والمصاحف أي بغير الذهب والا فهي محرمة وفي الحديث ’’کل بدعة ضلالة و کل ضلالة في النار‘‘(1) وهو محمول علي المحرمة لا غير. (2)
’’اور سائل کا یہ قول (اللہ تعاليٰ اس سائل کو نفع دے) کہ کیا بدعت مباحہ کے لئے اجتماع جائز ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں ایسا کرنا جائز ہے، شیخ عز الدین بن عبدالسلام فرماتے ہیں : بدعت ایسا فعل ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ تھا اور بدعت کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی واجب اور ندب۔ ۔ ۔ الخ، اور اس کی پہچان کا طریقہ کار یہ ہے کہ بدعت کو قواعد شرعیہ پر پرکھا جائے گا پس جس حکم میں وہ بدعت داخل ہو گی تو وہ حکم اس پر لاگو ہو گا الغرض بدعت واجبہ میں سے نحو کا علم سیکھنا ہے جس سے قرآن اور سنت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، اور بدعت محرمہ میں سے نئے مذہب کا بنانا جیسے قدریہ، اور بدعت مندوبہ میں سے قیام مدارس اور نماز تراویح جماعت کے ساتھ ادا کرنا، اور بدعت مباحہ میں نماز کے بعد مصافحہ کرنا، اور بدعت مکروہہ میں سے مساجد اور قرآن کی تزئین و آرائش کرنا یعنی سونا استعمال کئے بغیر بصورت دیگر یہ بدعت محرمہ ہوگی اور حدی۔ رضی اللہ عنھم میں جو یہ الفاظ ہیں کہ ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ اور ’’کل ضلالۃ فی النار‘‘ اس سے مراد بدعت محرمہ ہے اس کے علاوہ اور کچھ مراد نہیں ہے۔‘‘
1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة،
رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم
: 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5
ابن حجر مکي، الفتاويٰ الحديثية : 130
دسویں صدی ھجری کے معروف شافعی عالم دین الشیخ محمد شمس الدین الشربینی الخطیب اپنی کتاب ’’مغنی المحتاج الی معرفۃ معانی الفاظ المنہاج‘‘ میں لفظ ’’وَتُقْبَلُ شَهادَة مُبْتَدِعٍ لاَ نُکَفِّرُه‘‘ کے ذیل میں شیخ عزالدین بن عبد السلام کے حوالے سے لکھتے ہیں :
33. البدعة منقسمة إلي واجبة و محرمة و مندوبة و مکروهة و مباحة. قال و الطريق في ذلک أن تعرض البدعة علي قواعد الشريعة، فان دخلت في قواعد الإيجاب فهي واجبة کالاشتغال بعلم النحو أو في قواعد التحريم فمحرمة کمذهب القدرية و المرجئة و المجسمة و الرافضة. قال والرد علي هؤلاء من البدع الواجبة : أي لأن المبتدع من أحدث في الشريعة مالم يکن في عهده صلي اﷲ عليه وسلم، أو في قواعد المندوب فمندوبة کبناء الربط و المدارس و کل إحسان لم يحدث في العصر الأول کصلاة التراويح، أو في قواعد المکروه فمکروه کزخرفة المساجد و تزويق المصاحف، أو في قواعد المباح فمباحة کالمصافحة عقب الصبح و العصر و التوسع في المآکل والملابس، و روي البيهقي بإسناده في مناقب الشافعي رضي اﷲ تعالي عنه : أنه قال : المحدثات ضربان : أحدهما ما خالف کتابا أو سنة أو إجماعا فهو بدعة و ضلالة : و الثاني ما أحدث من الخير فهو غير مذموم.
’’بدعت واجبہ، محرمہ، مندوبہ، مکروھۃ اور محرمہ کے تحت تقسیم ہوتی ہے اور انہوں نے کہا اس کا طریقہ یہ ہے کہ بدعت کو قواعد شریعت کے مطابق پرکھا جائے گا۔ اگر وہ وجوب کے قواعد میں داخل ہوئی تو وہ بدعت واجبہ ہو گی جیسے علم النحو کے حصول میں مشعول ہونا یا وہ بدعت قواعد تحریم میں داخل ہو گی تو پھر وہ بدعت محرمہ ہو گی جیسے مذہب قدریہ، مرجئہ، مجسمہ اور رافضہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام (باطل مذاہب) کا رد کرنا بدعت واجبہ میں سے ہے کیونکہ مبتدع (بدعتی) نے شرعیت میں ایسی چیز ایجاد کی ہے جو کہ حضور علیہ السلام کے زمانے میں نہ تھی یا پھر وہ مستحب کے قواعد میں داخل ہو گئی تو وہ بدعت مستحبہ ہو گی جیسے سرائے اور مدارس وغیرہ تعمیر کرنا اور ہر وہ اچھی چیز جو پہلے زمانے میں ایجاد نہ ہوئی ہو جیسے نماز تراویح وغیرہ. یا پھر وہ قواعد مکروہ میں داخل ہو گی تو وہ بدعت مکروہ ہو گی جیسے مسجدوں کی تزئین اور مصاحف پر نقش نگار کرنا یا وہ قواعد مباح میں داخل ہو گی تو وہ مباح کہلائے گی۔ جیسے (نماز) فجر اور عصر کے بعد مصافحہ کرنا، کھانے اور پینے میں وسعت (اختیار) کرنا اور اسی طرح امام بیہقی نے اپنی سند کے ساتھ مناقب شافعی میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محدثات کی دو قسمیں ہیں ان میں سے ایک وہ جو کتاب و سنت یا اجماع کے مخالف ہے وہی بدعت ضلالہ ہے اور دوسری وہ جو خیر میں سے ایجاد کی گئی ہو پس وہی بدعت غیر مذموم ہے۔‘‘
شربيني، مغني المحتاج الي معرفة معاني ألفاظ المنهاج، 4 : 436
اِمام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب مرقاۃ شرح مشکاۃ میں بدعت کی اقسام اور ان کی تفصیلات نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
34. قال الشيخ عزالدين بن عبدالسلام في آخر کتاب القواعد البدعة أما واجبة کتعلم النحو لفهم کلام اﷲ و رسوله و کتدوين اصول الفقه و الکلام في الجرح و التعديل، وأما محرمة کمذهب الجبرية والقدرية والمرجئة والمجسمة والرد علي هؤلاء من البدع الواجبة لأن حفظ الشريعة من هذه البدع فرض کفاية، و أما مندوبة کاحداث الربط والمدارس وکل إحسان لم يعهد في الصدر الأول و کالتراويح أي بالجماعة العامة و الکلام في دقائق الصوفية. و أما مکروهة کزخرفة المساجد و تزويق المصاحف يعني عند الشافعية و أما عند الحنفية فمباح، وأما مباحة کالمصافحة عقيب الصبح والعصر أي عند الشافعية ايضًا وإلا فعند الحنفية مکروه والتوسع في لذائذ الماکل والمشارب والمساکن وتوسيع الاکمام.
’’شيخ عزالدین بن عبد السلام ’’القواعد البدعۃ‘‘ کے آخر میں فرماتے ہیں۔ بدعت واجبہ میں قرآن اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام کو سمجھنے کے لیے نحو کا سیکھنا، اصول فقہ کی تدوین کرنا اور علم جرح و التعدیل کا حاصل کرنا ہے، جبکہ بدعت محرمہ میں نئے مذاہب کا وجود ہے جیسے جبریہ، قدریہ، مرجئہ اور مجسمہ اور ان تمام کا رد بدعت واجبہ سے کیا جائے گا۔ کیوں کہ اسی بدعت سے شریعت کی حفاظت کرنا فرض کفایہ ہے، جبکہ بدعت مندوبہ میں سرائے اور مدارس کا قیام اور ہر قسم کی نیکی کا فروغ جو اسلام کے ابتدائی دور میں نہ تھی جیسے باجماعت نماز تراویح اور تصوف کے پیچیدہ نکات و رموز پر گفتگو کرنا شامل ہیں۔
بدعت مکروھہ میں شوافع کے ہاں مساجد اور قرآن کی تزئین و آرائش کرنا ہے جبکہ احناف کے ہاں یہ مباح ہے، اور بدعت مباحہ میں شوافع کے ہاں فجر اور عصر کے بعد مصافحہ کرنا اور احناف کے نزدیک یہ مکروہ ہے اور اسی طرح لذیذ کھانے، پینے اور گھروں اور آستینوں کو وسیع کرنا (بھی بدعت مباحہ )میں شامل ہے۔‘‘
1. ملا علي قاري، مرقاة شرح مشکوٰة، 1 : 216
1. اِمام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی، 1014ھ) حدیث مبارکہ ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
35. أي کل بدعة سيئة ضلالة، لقوله عليه الصلوة والسلام ’’من سنّ في الاسلام سنّة حسنة فله اجرها و أجر من عمل بها‘‘(1) و جمع أبوبکر و عمر القرآن و کتبه زيد في المصحف و جدد في عهد عثمان رضی الله عنهم.(2)
’’یعنی ہر بری بدعت گمراہی ہے۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے ’’ جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اس کو اس عمل کا اور اس پر عمل کرنے والے کا اجر ملے گا۔‘‘ اور یہ کہ حضرت شیخین ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کو جمع کیا اور حصرت زید رضی اللہ عنہ نے اس کو صحیفہ میں لکھا اور عہد عثمانی میں اس کی تجدید کی گئی۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359
ملا علي قاري، مرقاة، شرح مشکاة، 1 : 216
2. اِمام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی، 976ھ) اِسی حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
36. و في الحديث کل بدعة ضلالة و کل ضلالة في النار(1) و هو محمول علي المحرمة لا غير. (2)
’’اور جو حدیث میں ہے کہ ’’ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی‘‘ اس حدیث کو بدعت محرمہ پر محمول کیا گیا ہے، اس کے علاوہ اور کسی پر نہیں۔‘‘
1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة،
رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم
: 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5
6. طبراني، مسند الشاميين، 1 : 446، رقم : 786
7. طبراني، المعجم الکبير، 18 : 249، رقم : 624
(3) ابن حجر مکي، الفتاوي الحديثيه : 130
علامہ شیخ عبد الحمید الشروانی اپنی کتاب ’’حواشی الشروانی‘‘ میں بدعت کا حکم اور اس کی تفصیلات نقل کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :
37. (قوله لا نکفره ببدعته) قال الزرکشي و لا نفسقه بها (فائدة) قال ابن عبد السلام البدعة منقسمة إلي واجبة و محرمة و مندوبة و مکروهة و مباحة قال والطريق في ذلک أن تعرض البدعة علي قواعد الشريعة فان دخلت في قواعد الإيجاب فهي واجبة کالاشتغال بعلم النحو أو في قواعد التحريم فمحرمة کمذهب القدرية والمرجئة والمجسمة والرافضة قال والرد علي هؤلاء من البدع الواجبة أي لان المبتدع من أحدث في الشريعة ما لم يکن في عهده صلي اﷲ عليه وسلم أو في قواعد المندوب فمندوبة کبناء الربط والمدارس و کل إحسان لم يحدث في العصر الأول کصلاة التراويح أو في قواعد المکروه فمکروهة کزخرفة المساجد و تزويق المصاحف أو في قواعد المباح فمباحة کالمصافحة عقب الصبح و العصر والتوسع في المأکل و الملابس وروي البيهقي بإسناده في مناقب الشافعي رضي الله عنه أنه قال المحدثات ضربان أحدهما ما خالف کتابا أوسنة أو اجماعا فهو بدعة و ضلالة و الثاني ما أحدث من الخير فهو غير مذموم.
’’شارح علامہ عبدالحمید الشروانی مبتدع کے بارے میں مؤلف کی عبارت ’’لا نکفرہ ببدعہ‘‘ اور امام زرکشی کے الفاظ ’’ولا نفسقہ بھا‘‘ کے حوالے سے بدعت کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عزالدین بن عبدالسلام نے کہا ہے کہ بدعت واجبہ، محرمہ، مندوبہ، مکروھۃ اور محرمہ کے تحت تقسیم ہوتی ہے اور انہوں نے کہا اس کا طریقہ یہ ہے کہ بدعت کو قواعد شریعت کے مطابق پرکھا جائے گا۔ اگر وہ وجوب کے قواعد میں داخل ہوئی تو وہ بدعت واجبہ ہو گی جیسے علم النحو کے حصول میں مشعول ہونا یا وہ بدعت قواعد تحریم میں داخل ہو گی تو پھر وہ بدعت محرمہ ہو گی جیسے مذہب قدریہ، مرجئہ، مجسمہ اور رافضہ (کا بنانا بدعت محرمہ) ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام (باطل مذاہب) کا رد کرنا بدعت واجبہ میں سے ہے کیونکہ مبتدع (بدعتی) نے شرعیت میں ایسی چیز ایجاد کی ہے جو کہ حضور علیہ السلام کے زمانے میں نہ تھی یا پھر وہ مستحب کے قواعد میں داخل ہو گئی تو وہ بدعت مستحبہ ہو گی جیسے سرائے اور مدارس وغیرہ تعمیر کرنا اور ہر وہ اچھی چیز جو پہلے زمانے میں ایجاد نہیں ہوئی ہو جیسے نماز تراویح وغیرہ یا پھر وہ قواعد مکروہ میں داخل ہو گی تو وہ بدعت مکروہہ ہو گی جیسے مسجدوں کی تزئین اور مصاحف پر نقش نگار کرنا یا وہ قواعد مباح میں داخل ہو گی تو وہ چیز مباح کہلائے گی جیسے (نماز) فجر اور عصر کے بعد مصافحہ کرنا، کھانے پینے میں وسعت (اختیار) کرنا اور اسی طرح امام بیہقی نے اپنی سند کے ساتھ مناقب شافعی میں بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ محدثات کی دو قسمیں ہیں ان میں سے ایک وہ جو کتاب و سنت یا اجماع کے مخالف ہے وہی بدعت ضلالہ ہے اور دوسری وہ جو خیر میں سے ہو پس وہی پسندیدہ ہے۔‘‘
شرواني، حواشي الشرواني، 10 : 235
امام محمد عبدالرؤوف المناوی اپنی کتاب ’’فیض القدیر شرح الجامع الصغیر‘‘ میں بدعت کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
38. المراد بالبدعة هنا اعتقاد مذهب القدرية أو الجبريه أو المرجئه أو المجسمة و نحوهم فإن البدعة خمسة أنواع وهي هذه واجبة و هي نصب أدلة المتکلمين للرد علي هؤلاء و تعلم النحو الذي به يفهم الکتاب والسنة و نحو ذلک و مندوبة کإحداث نحو رباط و مدرسة وکل إحسان لم يعهد في الصدر الأول و مکروهة کزخرفة مسجد و تزويق مصحف و مباحة کالمصافحة عقب صبح و عصر و توسع في لذيذ مأکل و مشرب و ملبس و مسکن و لبس طيلسان و توسيع أکمام ذکره النووي في تهذيبه.
’’بدعت سے مراد مذہب قدریہ، جبریہ، مرجئہ، مجسمہ اور دیگر مذاہب باطلہ کے عقائد ہیں۔ بے شک بدعت کی پانچ اقسام ہیں اور وہ یہ ہیں پہلی بدعت واجبہ ہے اور وہ یہ کہ ان تمام مذاہب کو رد کرنے کے لئے متکلمین کے دلائل پیش کرنا اور اسی طرح علم نحو کا سیکھنا تاکہ قرآن و سنت کو سمجھا جا سکے اور اس جیسے دیگر علوم کا حاصل کرنا بدعت واجبہ میں سے ہے اور اسی طرح سرائے اور مدارس وغیرہ بنانا اور ہر اچھا کام جو کہ زمانہ اول میں نہ تھا اسے کرنا بدعت مستحبہ میں شامل ہے اور اسی طرح مسجد کی تزئین اور قرآن مجید کے اوراق کو منقش کرنا بدعت مکروھہ میں شامل ہے اور اسی طرح (نماز) فجر اور عصر کے بعد مصافحہ کرنا اور لذیذ کھانے، پینے، پہننے، رہنے اور سبز چادر استعمال کرنے میں توسیع کرنا اور آستینوں کا کھلا رکھنا بدعت مباحہ میں سے ہے۔ اس کو امام نووی نے اپنی تہذیب میں بیان کیا ہے۔‘‘
مناوي، فيض القدير شرح الجامع الصغير، 1 : 439
شیخ عبدالحق محدث دہلوی اپنی کتاب ’’اشعۃ اللمعات‘‘ میں بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
39. بعض بدعتہا ست کہ واجب است چنانچہ تعلم و تعلیم صرف و نحو کہ بداں معرفت آیات و احادیث حاصل گردد و حفظ غرائب کتاب و سنت و دیگر چیز ہائیکہ حفظ دین وملت برآں موقوف بود، و بعض مستحسن و مستحب مثل بنائے رباطہا و مدرسہا، وبعض مکروہ مانند نقش و نگار کردن مساجد و مصاحف بقول بعض و بٍعض مباح مثل فراخی در طعامہائے لذیذہ و لباسہاے فاخرہ بشرطیکہ حلال باشند و باعث طغیان و تکبر و مفاخرت نشوند، و مباحات دیگر کہ در زمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبودند چنانکہ بیری و غربال و مانند آن، و بعض حرام چنانکہ مذاہب اہل بدع و اہو ابر خلاف سنت و جماعت و انچہ خلفاے راشدین کردہ باشند۔
’’بعض بدعتیں ایسی ہیں جو کہ واجب ہیں مثلاً علمِ صرف و نحو کاسیکھنا اور سکھانا کہ ان کے ذریعے آیات و احادیث کے معانی کی صحیح پہچان ہوتی ہے، اسی طرح کتاب و سنت کے غرائب اور دوسری بہت سی چیزوں کو حفظ کرنا جن پر دین و ملت کی حفاظت موقوف ہے۔ اور کچھ بدعات مستحسن اور مستحب ہیں جیسے سرائے اور دینی مدرسے تعمیر کرنا، اور بعض بدعات بعض علماء کے نزدیک مکروہ ہیں جیسے مساجد اور قرآن حکیم کی آرائش و زیبائش کرنا۔ بعض بدعات مباح ہیں جیسے کھانے پینے کی لذیذ چیزوں اور لباس فاخرہ کی فراوانی کا حسب ضرورت استعمال، لیکن شرط یہ ہے کہ حلال ہو اور سرکشی، تکبر و رعونت اورفخر کا باعث نہ ہو، اور دوسری ایسی مباحات جوکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ تھیں جیسے کہ آٹے کو چھلنی سے چھاننا وغیرہ۔ بعض بدعات حرام ہیں ان میں اہل بدعت کے نفسانی خواہشات کی اتباع میں نئے مذاہب ہیں جو سنت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، جماعت اور خلفائے راشدین کے طریقوں کے خلاف ہیں۔
عبدالحق محدث دهلوي، اشعة اللمعات، باب الاعتصام بالکتاب والسنة، 1 : 125
علامہ علاؤ الدین محمد حصکفی بھی بدعت کی تقسیم حسنہ اور سیئۃ میں کرتے ہیں لہٰذا اذان کے بعد سلام پڑھنے کو بدعتِ حسنہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
40. التسليم بعد الأذان حدث في ربيع الاخر سنة سبعمائة واحدي و ثمانين في عشاء ليلة الإثنين ثم يوم الجمعة ثم بعد عشر سنين حدث في الکل الا المغرب ثم فيها مرتين وهو بدعة حسنة.
’’اذان کے بعد سلام پڑھنے کي ابتداء سات سو اکیاسی ہجری (781ھ) کے ربیع الآخر میں پیر کی شب عشاء کی اذان سے ہوئی، اس کے بعد جمعہ کے دن اذان کے بعد سلام پڑھا گیا اس کے دس سال بعد مغرب کے سوا تمام نمازوں میں دو مرتبہ سلام پڑھا جانے لگا اور یہ بدعت حسنہ ہے۔‘‘
حصکفي، در مختار علي هامش الرد، 1 : 362
اِمام محمد عبدالباقی زرقانی حدیث ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ کے ذیل میں بدعت کا مفہوم اور اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
41. سماها بدعة لانه صلي الله عليه وآله وسلم لم يسن الإجتماع لها، و هو لغة ما أحدث علي غير مثال سبق، و تطلق شرعاً علي مقابل السنة و هي مالم يکن في عهده صلي الله عليه وآله وسلم ثم تنقسم إلي الأحکام الخمسة و حديث کل بدعة ضلالة(1) عام مخصوص وقد رغب فيها عمر. (2)
’’باجماعت نماز تراویح کو بدعت سے اس لیے موسوم کیا جاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے لئے اجتماع سنت قرار نہیں دیا اور لغوی اعتبار سے بدعت اس عمل کو کہتے ہیں جو مثالِ سابق کے بغیر ایجاد کیا گیا ہو اور شرعی طور پر بدعتِ سيّئۃ کو سنت کے مقابلے میں بولا جاتا ہے اور اس سے مراد وہ عمل ہوتا ہے جسے عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہ کیا گیا ہو پھر بدعت کی پانچ قسمیں بیان کی جاتی ہیں اور حدیث ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘عام مخصوص ہے اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس (نماز تراویح) کی ترغیب دی ہے۔‘‘
1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة،
رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم
: 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
زرقاني، شرح المؤطا، 1 : 238
علامہ مرتضيٰ زبیدی حنفی معروف ماہر لغت ہیں وہ اپنی شہرہ آفاق لغت ’’تاج العروس من جواہر القاموس‘‘ میں بدعت کی تعریف اور تقسیم نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
42. و قال ابن السکيت : البدعَة : کُلُّ محدثة و في حديثِ قِيامِ رَمَضَانَ (نعمت البدعة هذِه)(1) و قال ابن الأثير البدعة بدعتان : بدعة هدًي، و بدعة ضلال، فما کان في خلاف ما أمر اﷲ به فهو في حيز الذّم والإنکار، وما کان واقعا تحت عموم ما ندب اﷲ إليه و حضَّ عليه أو رسوله فهو في حيز المدح، وما لم يکن له مثال موجود کنوع من الجود والسخاء و فعل المعروف فهو من الأفعال المحمودة، ولا يجوز أن يکون ذلک في خلاف ما ورد الشرع به؛ لأن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قد جعل له في ذٰلک ثوابا فقال من سنّ سُنة حسنة کان له أجرها و أجر من عمل بها وقال في ضِدّه ومن سنّ سنة سيّئة کان عليه وزرُها ووِزرُ من عمل بها(2) و ذٰلک إذا کان في خلاف ما أمر اﷲ به ورسوله صلي الله عليه وآله وسلم قال : ومن هذا النوع قول عمر رضی الله عنه : نِعمت البدعة هذه. لمَّا کانت من أفعال الخير وداخلة في حيز المدح سماها بدعة ومدحها؛ لأن النبي صلي الله عليه وآله وسلم لم يسُنَّها لهم، و إنما صلّاها ليالي ثم ترکها، ولم يحافظ عليها، ولا جمع الناس لها، ولا کانت في زمن أبي بکر رضی الله عنه، وإنما عمر رضی الله عنه جمع الناس عليها و ندبهم إليها، فبهذا سمّاها بدعة، وهي علي الحقيقة سنَّة، لقوله صلي الله عليه وآله وسلم (عليکم بسنَّتي و سنَّة الخلفاء الراشدين من بعدي)(3) وقوله صلي الله عليه وآله وسلم (اقتدوا باللذين من بعدي أبي بکر و عمر)(4) و علي هذا التأويل يحمل الحديث الآخر (کل محدثة بدعة) إنما يريد ما خالف أصول الشريعة ولم يوافق السُّنَّة. (5)
’’ابن سِکِّیت نے کہا ہے کہ بدعت ہر نئی چیز کو کہتے ہیں اور جیسا کہ حدیث قیام رمضان میں ’’نعمتِ البدعۃ ھذہ‘‘ ہے اور ابن اثیر نے کہا ہے بدعت کی دو قسمیں ہیں : بدعت ھدی اور بدعت ضلال جو کام اللہ عزوجل کے احکام کے خلاف ہو وہ مذموم اور ممنوع ہے، اور جو کام کسی ایسے عام حکم کا فرد ہو جس کو اللہ تعاليٰ نے مستحب قرار دیا ہو اور اللہ تعاليٰ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر برانگیختہ کیا ہو اس کام کا کرنا محمود ہے اور جن کاموں کی مثال پہلے موجود نہ ہو جیسے جود و سخاء کی اقسام اور دوسرے نیک کام، پس وہ اچھے کاموں میںسے ہیں بشرطیکہ وہ خلاف شرع نہ ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے کاموں پر ثواب کی بشارت دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس شخص نے اچھے کام کی ابتداء کی اس کو اپنا اجر بھی ملے گا اور جو لوگ اس کام کو کریں گے ان کے عمل کا اجر بھی ملے گا جو برے کام کی ابتداء کرے گا اس کے بارے میں فرمایا : جس شخص نے برے کام کی ابتداء کی اس پر اپنی برائی کا وبال بھی ہو گا اور جو اس برائی کو کریں گے ان کا وبال بھی اس پر ہو گا اور یہ اس وقت ہے جب وہ کام اللہ تعاليٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو۔ اور اِسی قسم (یعنی بدعتِ حسنہ) میں سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ ہے پس جب کوئی کام افعالِ خیر میں سے ہو اور مقام مدح میں داخل ہو تو اسے (لغوی اعتبار سے) بدعت کہا جائے گا مگر اس کی تحسین کی جائے گی کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس (باجماعت نماز تراویح کے) عمل کو ان کے لئے مسنون قرار نہیں دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند راتیں اس کو پڑھا پھر (با جماعت پڑھنا) ترک کردیا اور (بعد میں) اس پر محافظت نہ فرمائی اور نہ ہی لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا اور بعد میں نہ ہی یہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں (با جماعت) پڑھی گئی پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اس پر جمع کیا اور ان کو اس کی طرف متوجہ کیا پس اس وجہ سے اس کو بدعت کہا گیا درآں حالیکہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول ’’علیکم بسنّتی و سنۃ الخلفاء الراشدین من بعدی‘‘ اور اس قول’’اقتدوا باللذین من بعدی ابی بکر و عمر‘‘ کی وجہ سے حقیقت میں سنت ہے پس اس تاویل کی وجہ سے حدیث ’’کل محدثۃ بدعۃ‘‘ کو اصول شریعت کی مخالفت اور سنت کی عدم موافقت پر محمول کیا جائے گا۔‘‘
1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359
5. ابن ابي شيبه، المصنف، 2 : 350، رقم : 9803
6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 4 : 175، رقم : 7531
1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة،
رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم
: 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب عن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم ، باب مناقب ابي بکر و عمر،
5 / 609، رقم : 3662
2. ابن ماجه، السنن، باب في فضل اصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 / 37، رقم : 97
3. حاکم، المستدرک، 3 / 79، رقم : 4451
مرتضيٰ زبيدي، تاج العروس من جواهر القاموس، 11 : 9
علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی اپنی کتاب ’’رد المختار علی درالمختار‘‘ میں لفظ ’صاحب بدعۃ‘ کا مفہوم و مراد واضح کرتے ہوئے اور بدعت کی متعدد اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
43. (قوله أي صاحب بدعة) أي محرمة وإلّا فقد تکون واجبة کنصب الأدلة للرد علي أهل الفرق الضالة و تعلم النحو المفهم للکتاب والسنة و مندوبة کإحداث نحو رباط و مدرسة و کل إحسان لم يکن في الصدر الأول و مکروهة کزخرفة المساجد و مباحة کالتوسع بلذيذ المآکل والمشارب و الثياب کما في شرح الجامع الصغير للمناوي عن تهذيب النووي و مثله في الطريقة المحمدية للبرکلي.
’’(قولہ ای صاحب بدعۃ) ان کے قول صاحب بدعت سے مراد بدعت محرمہ ہے اور اگر یہ مراد نہ ہو تو پھر بدعت واجبہ مراد ہے جیسے گمراہ فرقوں کے رد میں دلائل قائم کرنا اور علم النحو کا سیکھنا جو کہ کتاب و سنت کو سمجھانے کا باعث ہے اور اسی طرح بدعت مندوبہ ہوتی ہے جیسے سرحدی چوکیوں، مدارس اور وہ اچھے کام جو پہلے زمانہ میں نہ تھے ان کا ایجاد کرنا وغیرہ اور اسی طرح مساجد کی تزئین کرنا بدعت مکروہ ہے۔ اور اسی طرح لذیذ کھانے مشروبات اور پہننے وغیرہ کی چیزوں میں وسعت اختیار کرنا بدعت مباحہ ہے اور اسی طرح امام مناوی کی ’’جامع الصغیر‘‘ میں، امام نووی کی ’’تہذیب‘‘ میں اور امام برکلی کی ’’الطریقہ المحمدیہ‘‘ میں بھی ایسے ہی درج ہے۔
ابن عابدين شامي، رد المحتار علي درالمختار، 1 : 414
یمن کے معروف غیر مقلد عالم شیخ شوکانی حدیث عمر ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ کے ذیل میں فتح الباری کے حوالے سے اقسام بدعت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
44. البدعة أصلها ما أحدث علي غير مثال سابق و تطلق في الشرع علي مقابلة السنة فتکون مذمومة والتحقيق إنها إن کانت مما يندرج تحت مستحسن في الشرع فهي حسنة وإن کانت مما يندرج تحت مستقبح في الشرع فهي مستقبحة و إلَّا فهي من قسم المباح و قد تنقسم إلي الأحکام الخمسة.
’’لغت میں بدعت اس کام کو کہتے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو اور اصطلاح شرع میں سنت کے مقابلہ میں بدعت کا اطلاق ہوتا ہے اس لیے یہ مذموم ہے اور تحقیق یہ ہے کہ بدعت اگر کسی ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں مستحسن ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور اگر ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تو یہ بدعت سیئہ ہے ورنہ بدعت مباحہ ہے اور بلا شبہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں۔‘‘
شوکاني، نيل الاوطار شرح منتقي الأخبار، 3 : 63
ابو الفضل شہاب الدین سید محمود آلوسی بغدادی اپنی تفسیر ’’روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی‘‘ میں علامہ نووی کے حوالے سے بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
45. و تفصيل الکلام في البدعة ما ذکره الإمام محي الدين النووي في شرح صحيح مسلم. قال العلماء : البدعة خمسة أقسام واجبة، و مندوبة، و محرمة، و مکروهة، ومباحة فمن الواجبة تعلم أدلة المتکلمين للرد علي الملاحدة والمبتدعين و شبه ذلک، ومن المندوبة تصنيف کتب العلم وبناء المدارس والربط و غير ذلک، ومن المباحة التبسط في ألوان الأطعمة و غير ذلک، والحرام والمکروه ظاهران، فعلم أن قوله صلي الله عليه وآله وسلم (کل بدعة ضلالة)(1) من العام المخصوص.
و قال صاحب جامع الاصول : الابتداع من المخلوقين إن کان في خلاف من أمر اﷲ تعالي به و رسوله صلي الله عليه وآله وسلم فهو في حيز الذم والانکار وإن کان واقعاً تحت عموم ما ندب اﷲ تعالي إليه و حض عليه أو رسوله صلي الله عليه وآله وسلم فهو في حيز المدح وإن لم يکن مثاله موجوداً کنوع من الجود والسخاء و فعل المعروف، و يعضد ذلک قول عمر بن الخطاب رضي الله عنه في صلاة التراويح : نعمت البدعة هذه. (2)
1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة،
رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم
: 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
5. بيهقي، شعب الايمان، 6 : 67، رقم : 7516
6. حاکم، المستدرک، 1 : 174، رقم : 329
آلوسي، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، 14 : 192
’’بدعت کي تفصیلی بحث امام محی الدین النووی نے اپنی کتاب شرح صحیح مسلم میں کی ہے اور دیگر علماء نے کہا ہے بدعت کی پانچ اقسام بدعتِ واجبہ، بدعتِ مستحسبۃ، بدعتِ محرمۃ، بدعتِ مکروھۃ اور بدعتِ مباحۃ ہیں۔ بدعتِ واجب میں سے یہ ہے کہ ملحدین، مبتدعین اور اس جیسے دیگر شبہات کو رد کرنے کے لیے علم الکلام کا حاصل کرنا۔ اور بدعت مستحب کی دلیل یہ ہے کہ کوئی علمی کتاب تصنیف کرنا، مدرسے بنانا، سرائے یا اس جیسی دیگر چیزیں بنانا اس میں شامل ہے اور بدعتِ مباحۃ جیسے رنگ برنگے کھانے اور اس طرح کی چیزوں میں اضافہ وغیرہ جبکہ حرام اور مکروہ دونوں واضح ہیں۔ پس یہ جان لینا چاہئے کہ حضور علیہ السلام کے قول ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ میں عام سے خاص مراد ہے۔ اور صاحب جامع الاصول فرماتے ہیں کہ بدعات کی چند اقسام ہیں جو کام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو وہ مذموم اور ممنوع ہے اور جو کام کسی ایسے عام حکم کا فرد ہو جس کو اللہ تعاليٰ نے مستحب قرار دیا ہو یا اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر برانگیختہ کیا ہو اس کام کا کرنا محمود ہے اور اگر کسی (کام) کی مثال پہلے موجود نہ ہو جیسے جود و سخا کی اقسام اور دوسرے نیک کام اور جس طرح صلاۃ التراویح میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول سے تقویت ملتی ہے کہ یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔‘‘
مولانا احمد علی سہارنپوری صحیح بخاری کے حاشیہ میں بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
46. البدعة أصلها ما أحدث علي غير مثال سابق و يطلق في الشرع في مقابلة السنة فتکون مذمومة والتحقيق إنها إن کانت مما تندرج تحت مستحسن في الشرع فهي حسنة و إن کانت مما تندرج تحت مستقبح في الشرع فهي مستقبحة وإلّا فهي من قسم المباح و قد تنقسم الي احکام خمسة قاله في الفتح اي واجبة و مندوبة و محرمة و مکروهة و مباحة کذا في الکرماني قال محمد في المؤطا لا باس في شهر رمضان ان يصلي الناس تطوعا و قد روي عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم ما راه المسلمون حسنا فهو عنداﷲ حسن وما راه المسلمون قبيحا فهو عنداﷲ قبيح(1). و في الفتح قال ابن التين وغيره استنبط عمر ذلک من تقرير النبي صلي الله عليه وآله وسلم من صلي معه في تلک الليالي و ان کان کره ذلک لهم فانما کرهه خشية ان يفرض عليهم و کان هذا هوا السر في ايراد البخاري لحديث عائشة عقب حديث عمر فلما مات صلي الله عليه وآله وسلم حصل الامن من ذلک. (2)
’’بدعت سے مراد وہ عمل ہے جو مثال سابق کے بغیر کیا جائے شریعت میں عام طور پر اسے سنت کے مقابلے میں بیان کیا جاتا ہے لہٰذا اس صورت میں یہ مذموم ہوتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ شریعت کے مستحسنات کے تحت آ جائے تو اسے بدعت حسنہ کہیں گے اور اگر یہ شریعت کے مستقبحات کے تحت آ جائے تو اسے بدعت مستقبحۃ کہیں گے اور اگر یہ دونوں کے تحت نہ آئے تو اسے بدعت مباحہ میں شمار کیا جائے گا اور بے شک یہ پانچ اقسام میں تقسیم ہوتی ہے جیسا کہ صاحب فتح الباری نے کہا کہ یہ واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروہہ اور مباحہ ہیں اور اسی طرح شرح کرمانی میں ہے امام محمد نے موطا میں ذکر کیا ہے کہ لوگوں کے ماہ رمضان میں نوافل پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ جو کام مسلمانوں کی نظر میں اچھا ہے وہ اﷲ تعاليٰ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جو کام مسلمانوں کی نظر میں قبیح ہو وہ اﷲ تعاليٰ کے ہاں بھی برا ہے۔ فتح الباری میں مذکور ہے کہ ابن متین اور دیگر ائمہ نے کہا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی حضور علیہ السلام کی تقریر سے اسی طرح کا استنباط کرتے ہوئے کہا کہ جس نے بھی ان راتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور اگر اس میں ان کے لئے کراہت تھی تو وہ اس ڈر سے کراہت تھی کہ کہیں وہ (نماز) ان پر فرض نہ ہوجائے اور یہ وہ راز تھا جسے امام بخاری نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے بعد حضرت عائشہ کی حدیث سے مراد لیا ہے، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا تو اس (نماز کی فرضیت) کا خوف جاتا رہا۔‘‘
1. بزار، المسند، 5 : 213، رقم : 1816
2. طيالسي، المسند، 1 : 33، رقم : 246
3. طبراني، المعجم الکبير، 9 : 112، رقم : 8583
4. ابن رجب، جامع العلوم والحکم، 1 : 254
5. بيهقي، الاعتقاد، 1 : 322
سهارنپوري، حاشيه بخاري، 1 : 269
غیر مقلدین کے نامور عالم دین نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے واضح طور پر لکھا ہے کہ ہر نئے کام کو بدعت کہہ کرمطعون نہیں کیا جائے گا بلکہ بدعت صرف اس کام کو کہا جائے گا جس سے کوئی سنت متروک ہو اور جو نیا کام کسی امرِ شریعت سے متناقص نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ مباح اور جائز ہے شیخ وحید الزماں اپنی کتاب ہدیۃ المہدی کے صفحہ 117 پر بدعت کے حوالے سے علامہ بھوپالی کا یہ قول نقل کرتے ہیں :
47. البدعة الضلالة المحرمة هي التي ترفع السنة مثلها والتي لا ترفع شيئا منها فليست هي من البدعة بل هي مباح الاصل.
’’بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے۔‘‘
وحيد الزمان، هدية المهدي : 117
مشہور غیر مقلد عالم دین مولانا وحید الزمان بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
48. اما البدعة اللغوية فهي تنقسم إلي مباحة ومکروهة و حسنة و سيئة قال الشيخ ولي اﷲ من أصحابنا من البدعة بدعة حسنة کالأخذ بالنواجذ لما حث عليه النبي صلي الله عليه وآله وسلم من غير عزم کالتراويح ومنها مباحة کعادات الناس في الأکل والشرب واللباس وهي هنيئة قلت تدخل في البدعات المباحة استعمال الورد والرياحين والأزهار للعروس ومن الناس من منع عنها لاجل التشبه بالهنود الکفار قلنا إذا لم ينو التشبه أوجري الأمر المرسوم بين الکفار في جماعة المسلمين من غير نکير فلا يضر التشبه ککثير من الاقبية والالبسة التي جاء ت من قبل الکفار ثم شاعت بين المسلمين وقد لبس النبي صلي الله عليه وآله وسلم جبة رومية ضيقة الکمين و قسم الا قبية التي جاءت من بلاد الکفار علي أصحابه و منها ما هي ترک المسنون و تحريف المشروع وهي الضلالة وقال السيد البدعة الضلالة المحرمة هي التي ترفع السنة مثلها والتي لا ترفع شيئا منها فليست هي من البدعة بل هي مباح الأصل.
’’باعتبار لغت کے بدعت کے حسب ذیل اقسام ہیں : بدعت مباحہ، بدعت مکروھہ، بدعت حسنۂ اور بدعت سیئہ. ہمارے اصحاب میں سے شیخ ولی اللہ نے کہا کہ بدعات میں سے بدعت حسنہ کو دانتوں سے پکڑ لینا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو واجب کیے بغیر اس پر برانگیختہ کیا ہے جیسے تراویح۔ بدعات میں سے ایک بدعت مباحہ ہے جیسے لوگوں کے کھانے پینے اور پہننے کے معمولات ہیں اور یہ آسان ہے۔ میں کہتا ہوں کہ دولہا، دلہن کے لئے کلیوں اور پھولوں کا استعمال (جیسے ہار اور سہرا) بھی بدعات مباحہ میں داخل ہے بعض لوگوں نے ہندوؤں سے مشابہت کے سبب اس سے منع کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص تشبّہ کی نیت نہ کرے یا کفار کی کوئی رسم مسلمانوں میں بغیر انکار کے جاری ہو تو اس میں مشابہت سے کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ قباء اور دوسرے لباس کفار کی طرف سے آئے اور مسلمانوں میں رائج ہو گئے اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تنگ آستینوں والا رومی جبہّ پہنا ہے اور کفار کی طرف سے جو قبائیں آئی تھیں ان کو صحابہ میں تقسیم فرمایا ہے اور بدعات میں سے ایک وہ بدعت ہے جس سے کوئی سنت متروک ہو اور حکم شرعی میں تبدیلی آئے اور یہی بدعت ضلالہ (سیئہ) ہے۔ نواب صاحب (نواب صدیق حسن بھوپالی) نے کہا ہے کہ بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے۔‘‘
وحيد الزمان، هدية المهدي : 117
مولانا عبدالرحمن مبارکپوری بدعت لغوی اور بدعت شرعی کی تقسیم بیان کرتے ہوئے تحفۃ الاحوذی میں لکھتے ہیں :
49. بقوله کل بدعة ضلالة(1) والمراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له في الشريعة يدل عليه واما ما کان له أصل من الشرع يدل عليه فليس ببدعة شرعا و إن کان بدعة لغة فقوله صلي الله عليه وآله وسلم کل بدعة ضلالة من جوامع الکلم لا يخرج عنه شئ وهو أصل عظيم من أصول الدين واما ما وقع في کلام السلف من استحسان بعض البدع فإنّما ذلک في البدع اللغوية لا الشرعية فمن ذلک قول عمر رضی الله عنه في التراويح (نعمت البدعة هذه)(2) و روي عنه أنه قال إن کانت هذه بدعة فنعمت البدعة ومن ذٰلک أذان الجمعة الأول زاده عثمان رضي الله عنه لحاجة الناس إليه و اقره عليٌّ واستمر عمل المسلمين عليه و روي عن ابن عمر أنه قال هو بدعة و لعله اَراد ما أراد ابوه في التراويح. (3)
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ (ہر بدعت گمراہی ہے) میں بدعت سے مراد ایسی نئی چیز ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے اور وہ چیز جس کی اصل شریعت میں موجود ہو جو اس پر دلالت کرے اسے شرعاً بدعت نہیں کہا جا سکتا اگرچہ وہ لغتاً بدعت ہو گی کیونکہ حضور علیہ السلام کا قول ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ جو امع الکلم میں سے ہے اس سے کوئی چیز خارج نہیں ہے۔ یہ دین کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اور اسلاف کے کلام میں جو بعض بدعات کو مستحسنہ قرار دیا گیا ہے تو یہ بدعت لغویہ ہے، شرعیۃ نہیں ہے۔ اور اسی میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نماز تراویح کے بارے میں فرمان ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ ہے اور آپ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت کیا گیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’ان کانت ھذہ بدعۃ فنعمت البدعۃ‘‘ (اگر یہ بدعت ہے تو یہ اچھی بدعت ہے) اور جمعہ کی پہلی اذان بھی اسی میں سے ہے جسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی ضرورت کے پیش نظر شروع کیا تھا اور اسے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے قائم رکھا اور اسی پر مسلمانوں نے مداومت اختیار کی۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ بدعت ہے کا شاید ان کا ارادہ بھی اس سے وہی تھا جو ان کے والد (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) کا نماز تراویح میں تھا (کہ با جماعت نما زتراویح ’’نعمت البدعۃ‘‘ ہے)۔‘‘
1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة،
رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم
: 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266
مبارکپوري، جامع الترمذي مع شرح تحفة الاحوذي، 3 : 378
مولانا شبیر احمد عثمانی ’’فتح الملہم شرح صحیح مسلم‘‘ میں حدیث ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ کی شرح کرتے ہوئے اقسام بدعت کے حوالے سے لکھتے ہیں :
50. قال علي القاري قال في الازهار أي کل بدعة سيئة ضلالة لقوله عليه الصلوة والسلام (من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها و أجر من عمل بها)(1) و جمع ابوبکر و عمر القرآن و کتبه زيد في المصحف و جُدد في عهد عثمان رضي الله عنه قال النووي البدعة کل شئ عمل علي غير مثال سبق و في الشرع إحداث مالم يکن في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و قوله کل بدعة ضلالة(2) عام مخصوص. (3)
’’ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ الازھار میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘ سے ہر بدعت سيّئَہ کا گمراہی ہونا مراد ہے اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قول دلیل ہے کہ ’’من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجرھا و اجر من عمل بہا جیسا کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما نے قرآن کو جمع کیا حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اسے مصحف میں لکھا اور عہد عثمان رضی اللہ عنہ میں اس کی تجدید کی گئی امام نووی فرماتے ہیں کہ بدعت ہر اُس عمل کو کہتے ہیں جس کو مثال سابق کے بغیر عمل میں لایا جائے اور اِصطلاح شرع میں ہر وہ نیا کام جو عہد نبوی میں نہ ہوا ہو بدعت کہلاتا ہے اور حدیث کل بدعۃ ضلالۃ عام مخصوص ہے۔‘‘
ائمہ و محدثین کی طرف سے بدعت کی اس تقسیم کے بعد معلوم ہوا کہ اگر بدعت شریعت کے مستحسنات کے تحت آجائے تو وہ بدعت حسنہ ہے اور اگر مستقبحات کے تحت آجائے (یعنی مخالف دلیل ہو) تو بدعت سیئہ ہے اور اگر ان دونوں میں نہ آئے تو وہ بدعت مباحہ ہے۔
1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359
5. ابن حبان، الصحيح، 8 : 101، 102، رقم : 3308
1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة،
رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم
: 42
4. طبراني، المعجم الکبير، 18 : 249، رقم : 624
عثماني، فتح الملهم شرح صحيح مسلم، 2 :
مولانا محمد زکریا کاندھلوی ’’اوجز المسالک اِلی مؤطا مالک‘‘ میں ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ کے ذیل میں بدعت کا معنی و مفہوم اور تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
51. والبدعة الممنوعة تکون خلاف السنة، و هذا تصريح منه بأنه أول من جمع الناس في قيام رمضان علي إمام واحد بالجماعة الکبري، لأن البدعة ما ابتدأ بفعلها المبتدع، ولم يتقدمه غيره، و أراد بالبدعة : اجتماعهم علي إمام واحد لا أصل التراويح أو الجماعة، فإنهم کانوا قبل ذلک يصلون أوزاعا لنفسه ومع الرهط.
’’بدعتِ ممنوعہ خلافِ سنت ہوتی ہے۔ اور یہ اس کی وضاحت میں سے ہے کیونکہ یہ (سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ) پہلے شخص تھے جنہوں نے قیام رمضان کے سلسلے میں بڑی جماعت کے لئے لوگوں کو ایک امام کے پیچھے جمع کردیا۔ کیونکہ بدعت وہ ہوتی ہے جس کی ابتداء کسی بدعتی نے کی ہو اور اس سے پہلے اس کے علاوہ کسی اور نے اس کا اجراء نہ کیا ہو پس اس حدیث میں بدعت سے مراد ایک امام کے پیچھے لوگوں کو مجتمع کرنا ہے نہ کہ نفس تراویح یا نفس جماعت کا آغاز کرنا کیونکہ صحابہ اس سے قبل الگ الگ یا گروہ کی شکل میں نماز پڑھا کرتے تھے۔‘‘
کاندهلوي، أوجز المسالک الي مؤطا مالک، 2 : 297
عصر قریب میں مملکت سعودی عرب کے معروف مفتی شیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز نے سعودی حکومت کے شعبہ ’’الافتاء والدعوہ والارشاد‘‘ کے زیر اہتمام چھپنے والے اپنے فتاويٰ جات کے مجموعہ ’’فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحُوث العلمیۃ والافتاء‘‘ میں بدعت حسنہ اور بدعت سیہ کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :
52. أولاً : قسم العلماء البدعة إلي بدعة دينية و بدعة دنيوية، فالبدعة في الدين هي : إحداث عبادة لم يشرعها اﷲ سبحانه و تعالي وهي التيي تراد في الحديث الذي ذکر وما في معناه من الأحاديث. و أما الدنيوية : فما غلب فيها جانب المصلحة علي جانب المفسدة فهي جائزة وإلا فهي ممنوعة ومن أمثلة ذلک ما أحدث من أنواع السلاح والمراکب و نحو ذلک.
ثالثاً : طبع القرآن و کتابته من وسائل حفظه و تعلمه و تعليمه و الوسائل لها حکم الغايات فيکون ذلک مشروعاً و ليس من البدع المنهي عنها؛ لأن اﷲ سبحانه ضمن حفظ القرآن الکريم و هذا من وسائل حفظه.
’’علماء کرام نے بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت دنیویہ میں تقسیم کیا ہے، بدعت دینیہ یہ ہے کہ ایسی عبادت کو شروع کرنا جسے اللہ تبارک و تعالی نے مشروع نہ کیا ہو اور یہی اس حدیث سے مراد ہے جو ذکر کی جا چکی ہے اور اس طرح کی دیگر احادیث سے بھی یہی مراد ہے اور دوسری بدعت دنیوی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس میں مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب ہو اور وہ جائز ہے اور اگر ایسا نہ ہو (یعنی مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب نہ ہو) تو وہ ممنوع ہے۔ اس کی مثالوں میں مختلف اقسام کا اسلحہ سواریاں اور اس جیسی دیگر چیزیں بنانا اسی طرح قرآن پاک کی طباعت و کتابت اس کو حفظ کرنے، اسے سیکھنے اور سکھانے کے وسائل اور وہ وسائل جن کے لیے غایات (اھداف) کا حکم ہے پس یہ ساری چیزیں مشروع ہیں اور ممنوعہ بدعات میں سے نہیں ہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک کے حفظ کی ضمانت دی ہے اور یہ (سب اس کے) وسائل حفظ میں سے ہے۔‘‘
ابن باز، فتاويٰ اللجنة، 2 : 325
ایک اور سوال کے جواب میں ابن باز بدعت دینیۃ اور بدعت عادیۃ کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
53. البدعة تنقسم إلي بدعة دينية و بدعة عادية، فالعادية مثل کل ما جد من الصناعات والاختراعات والأصل فيها الجواز إلا ما دل دليل شرعي علي منعه.
أما البدعة الدينية فهي کل ما أحدث في الدين مضاهاة لتشريع اﷲ.
’’بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت عادیہ میں تقسیم کیا جاتا ہے پس بدعت عادیہ سے مراد ہر وہ نئی چیز جو کہ مصنوعات یا ایجادات میں سے ہو اور دراصل میں اس پر جواز کا حکم ہے سوائے اس چیز کے کہ جس کے منع پر کوئی شرعی دلیل آ چکی ہو اور پھر بدعت دینی یہ ہے کہ ہر نئی چیز جو دین میں ایجاد کی جائے جو اللہ تعاليٰ کی شرع کے متشابہ ہو (یہ ناجائز ہے)۔‘‘
ابن باز، فتاويٰ اللجنة، 2 : 329
بدعت کی لغوی تعریف کے بعد بدعت خیر اور بدعت شر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے علامہ ابن باز لکھتے ہیں :
54. البدعة هي کل ما أحدث علي غير مثال سابق، ثم منها ما يتعلق بالمعاملات و شؤون الدنيا کإختراع آلات النقل من طائرات و سيارات و قاطرات وأجهزة الکهرباء وأدوات الطهي والمکيفات التي تستعمل للتدفئة والتبريد وآلات الحرب من قنابل وغواصات و دبابات إلي غير ذلک مما يرجع إلي مصالح العباد في دنياهم فهذه في نفسها لا حرج فيها ولا إثم في إختراعها، أما بالنسبة للمقصد من اختراعها وما تستعمل فيه فإن قصد بها خير واستعين بها فيه فهي خير، وإن قصد بها شر من تخريب و تدمير وإفساد في الأرض واستعين بها في ذلک فهي شر و بلاء.
’’ہر وہ چیز جو مثال سابق کے بغیر ایجاد کی جائے بدعت کہلاتی ہے۔ پھر ان میں سے جو چیزیں معاملات اور دنیاوی کاموں میں سے ہوں جیسے نقل و حمل کے آلات میں سے جہاز، گاڑیاں، ریلوے انجن، بجلی کا سامان، صنعتی آلات اور ایئرکنڈیشنرز جو کہ ٹھنڈک اور حرارت کے لئے استعمال ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ، اور اسی طرح جنگی آلات میں سے ایٹم بم، آبدوزیں اور ٹینک یا اس جیسی دیگر چیزیں جن کو لوگ اپنی دنیاوی مصلحت کے پیش نظر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں ایسی ہیں کہ فی نفسہ ان کی ایجادات میں نہ تو کوئی گناہ ہے اور نہ ہی کسی قسم کا حرج ہے مگر ان چیزوں کے مقصد ایجاد کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ اگر تو ان چیزوں کے استعمال کا مقصد خیر و سلامتی ہے تو ان چیزوں سے خیر کے معاملے میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے تو یہ ایک بھلائی ہے اور اگر ان چیزوں کا مقصد ایجاد زمین میں شر، فساد، تخریب کاری اور تباہی ہے تو پھر ان چیزوں سے مدد حاصل کرنا تباہی و بربادی ہے اور یہ ایک شر اور بلاء ہے۔‘‘
ابن باز، فتاويٰ اللجنة، 2 : 321
مکہ مکرمۃ کے معروف عالم دین الشیخ السید محمد بن علوی المالکی الحسنی رحمۃ اللہ علیہ بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ کی تقسیم کو لازمی قرار دیتے ہیں، لہٰذا وہ اپنی کتاب ’’مفاہیم یجب ان تصحح‘‘ میں بدعت کی تفصیلات کا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
55. أن روح الشريعة الإسلامية توجب علينا أن نميز بين أنواع البدعة و أن نقول : إن منها البدعة الحسنة و منها البدعة السيئة، وهذا ما يقتضيه العقل النير والنظر الثاقب.
وهذا ما حققه علماء الأصول من سلف هذه الأمة رضي الله عنهم کالإمام العز بن عبد السلام والنووي والسيوطي والمحلي وابن حجر.
ومن أمثلة ذلک هذا الحديث : کل بدعة ضلالة. فلا بد من القول : أن المراد بذلک البدعة السيئة التي لا تدخل تحت أصل شرعي.
وهذا التقييد وارد في غير هذا الحديث کحديث :
(لا صلاة لجار المسجد إلَّا في المسجد) (1)
فهذا الحديث مع أنه يفيد الحصر في نفي صلاة جار المسجد إلَّا أن عمومات الأحاديث تفيد تقييده بأن لا صلاة کاملة و کحديث : (لا صلاة بحضرة الطعام)(2) قالوا : أي صلاة کاملة
وکحديث : (لا يؤمن أحدکم حتي يحب لأخيه ما يحب لنفسه)(3)
قالوا : أي إيمانا کاملا
وکحديث : (واﷲ لا يؤمن واﷲ لا يؤمن واﷲ لا يؤمن، قيل : من يا رسول اﷲ؟ قال : من لم يأمن جاره بوائقه) (4)
وکحديث : (لا يدخل الجنة قتات)(5) (ولا يدخل الجنة قاطع رحم)(6) (و عاق لوالديه) (7)
فالعلماء قالوا : إنه لا يدخل دخولا أوليا أو لا يدخل إذا کان مستحلا لذلک الفعل.
الحاصل أنهم لم يجروه علي ظاهره و إنما أولوه بأنواع التأويل.
وحديث البدعة هذا من هذا الباب فعمومات الأحاديث وأحوال الصحابة تفيد أن المقصود به البدعة السيئة التي لا تندرج تحت أصل کلي.
وفي الحديث : (من سن سنة حسنة کان له أجرها وأجر من عمل بها إلي يوم القيامة) (8)
وفي الحديث : (عليکم بسنتي و سنة الخلفاء الراشدين) (9)
و يقول عمر في صلاة التراويح : نعمت البدعة هذه. (10)
ينتقد بعضهم تقسيم البدعة إلي حسنة و سيئة، و ينکر علي من يقول ذلک اشد الإنکار، بل ومنهم من يرميه بالفسق والضلال، و ذلک لمخالفة صريح قول الرسول صلي الله عليه وآله وسلم : [کل بدعة ضلالة](11) و هذا اللفظ صريح في العموم و صريح في وصف البدعة بالضلالة، ومن هنا تراه يقول : فهل يصح بعد قول المشرع صاحب الرسالة : أن کل بدعة ضلالة يأتي مجتهد أو فقيه مهما کانت رتبته فيقول : لا. لا. ليست کل بدعة ضلالة، بل بعضها ضلالة و بعضها حسنه و بعضها سيئة، و بهذا المدخل يغترّ کثير من الناس فيصيح مع الصّائحين و ينکر مع المنکرين و يکثر سواد هؤلاء الذين لم يفهموا مقاصد الشريعة، ولم يذوقوا روح الدّين الإسلامي.
ثم لا يلبث إلا يسيرا حتي يضطر إلي إيجاد مخرج يحل له المشاکل التي تصادمه، و يفسّر له الواقع الذي يعيشه، إنه يضطر إلي اللجوء إلي اختراع وسيلة أخري، لولاها لما يستطيع أن يأکل ولا يشرب ولا يسکن، بل ولا يلبس ولا يتنفس ولا يتزوج ولا يتعامل مع نفسه ولا أهله ولا إخوانه ولا مجتمعه، هذه الوسيلة هي أن يقول باللفظ الصريح : إن البدعة تنقسم إلي بدعة دينية ودنيوية، يا سبحان اﷲ لقد أجاز هذا المتلاعب لنفسه أن يخترع هذا التقسيم أو علي الأقل أن يخترع هذه التسمية ولو سلّمنا أن هذا المعني کان موجودا منذ عهد النبوة لکن هذا التسمية : دينية ودنيوية لم تکن موجودة قطعا في عهد التشريع النبوي فمن أين جاء هذا التقسيم؟ ومن أين جاء ت هذه التسمية المبتدعة؟ فمن قال : إن تقسيم البدعة إلي حسنة وسيئة لم يأت من الشارع نقول له : وکذا تقسيم البدعة إلي دينية غير مقبولة، و دنيوية مقبولة هو عين الابتداع والاختراع.
فالشارع يقول : (کل بدعة ضلالة) هکذا بالاطلاق، وهذا يقول : لا. لا ليست کل بدعة ضلالة بالاطلاق، بل إن البدعة تنقسم إلي قسمين : دينيه وهي الضلالة، ودنيوية وهي التي لا شئي فيها.
ولذا لا بد أن نوضح هنا مسألة مهمة وبها ينجلي کثير من الإشکال، ويزول اللبس إن شاء اﷲ.
وهو أن المتکلم هنا هو الشارع الحکيم، فلسانه هو لسان الشرع، فلا بد من فهم کلامه علي الميزان الشرعي الذي جاء به، وإذا علمت أن البدعة في الأصل هي : کل ما أحدث واخترع علي غير مثال فلا يغيب عن ذهنک أن الزيادة أو الإختراع المذموم هنا هو الزيادة في أمر الدين ليصير من أمر الدين، والزيادة في الشريعة ليأخذ صبغة الشريعة، فيصير شريعة متبعة منسوبة لصاحب الشريعة، وهذا هو الذي حذر منه سيدنا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بقوله : (من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد)(12) فالحد الفاصل في الموضوع هو قوله : (في أمرنا هذا).
ولذلک فإن تقسيم البدعة إلي حسنة وسيئة في مفهومنا ليس إلا للبدعة اللغوية التي هي مجرد الاختراع والاحداث، ولا نشک جميعا في أن البدعة بالمعني الشرعي ليست إلا ضلالة وفتنة مذمومة مردودة مبغوضة، ولو فهم أولئک المنکرون هذا المعني لظهر لهم أن محل الاجتماع قريب موطن النزاع بعيد.
وزيادة في التقريب بين الأفهام أري أن منکري التقسيم إنما ينکرون تقسيم البدعة الشرعية بدليل تقسيمهم البدعة إلي دينية ودنيويه، وإعتبارهم ذلک ضرورة.
وأن القائلين بالتقسيم إلي حسنة وسيئة يرون أن هذا إنما هو بالنسبة للبدعة اللغوية لأنهم يقولون : إن الزيادة في الدين والشريعة ضلالة وسيئة کبيرة، ولا شک في ذلک عندهم فالخلاف شکلي، غير أني أري أن إخواننا المنکرين لتقسيم البدعة إلي حسنة وسيئة، والقائلين بتقسيمها إلي دينية ودنيوية لم يحالفهم الحظ في دقة التعبير،
وذلک لأنهم لما حکموا بأن البدعة الدينية ضلالة. وهذا حق. وحکموا بأن البدعة الدنيوية لا شييء فيها قد أساؤا الحکم لأنهم بهذا قد حکموا علي کل بدعة دنيوية بالإباحة، وفي هذا خطر عظيم، وتقع به فتنة ومصيبة، ولا بد حينئذ من تفصيل واجب و ضروري للقضية، وهو أن يقولوا : إن هذا البدعة الدنيوية منها ما هو خير و منها ما هو شر کما هو الواقع المشاهد الذي لا ينکره إلاَّ أعمي جاهل، وهذه الزيادة لا بد منها، ويکفي في تحقيق هذا المعني بدقة قول من قال : بأن البدعة تنقسم إلي حسنة وسيئة، و معلوم أن المراد بها اللغوية کما تقدم، وهي التي عبر عنها المنکرون بالدنيوية، وهذا القول في غاية الدقة والإحتياط، وهو ينادي علي کل جديد بالانضباط والإنصياع لحکم الشرع وقواعد الدين، ويُلزم المسلمين أن يعرضوا کل ما جدّ لهم و أحدث من أمورهم الدنيوية العامة والخاصة علي الشريعة الإسلاميه ليري حکم الإسلام فيها مهما کانت تلک البدعة، وهذه لا يتحقق إلا بالتقسيم الرائع المعتبر عن أئمة الأصول. (13)
’’شریعت اسلامیہ کی تعلیمات نے ہم پر لازم کیا ہے کہ ہم انواعِ بدعت میں تمیز و فرق سے کام لیں اور یہ کہیں کہ بعض بدعتِ حسنہ ہیں اور بعض بدعتِ سیئہ ہے، عقل اور نظرثاقب بھی اسی کو چاہتی ہے۔ اس امت کے علماء سلف میں سے علماء اصول رضی اللہ عنھم نے اسی کو ثابت کیاہے جیسا کہ امام عزالدین بن عبدالسلام و علامہ نووی و سیوطی و محلی و ابنِ حجر رحمہم اﷲ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
اس کی ایک مثال حدیث وَکُلُّ بِدْعَۃ ضَلاَلَۃ ہے تو یہ کہنا پڑے گا کہ اس سے مراد وہ بدعتِ سیئہ ہے جو اصلِ شرعی کے تحت داخل نہ ہو۔ یہ قید اور اس طرح کی دیگر قیودات دیگر احادیث میں بھی بکثرت وارد ہوئی ہیں جیسا کہ یہ حدیث مبارکہ لَا صَلٰوۃ لِجَارِ الْمَسْجِدِ اِلاَ فِی الْمَسْجِدِ، مسجد کے پڑوسی کی نماز صرف مسجد ہی میں ہوتی ہے۔ اس حدیث پاک میں حصر کے ساتھ مسجد کے پڑوسی کی نماز کی نفی وارد ہوئی مگر احادیث کثیرہ کے عموم سے یہ قید اس کے ساتھ مستفاد ہوتی ہے کہ لَا صَلٰوۃ کَاملَۃ نفی کمال کی ہے نہ اصل نماز کی اور جیسا کہ حدیثِ پاک ہے ’’لاصلوۃ بحضرۃ طَعَامٍ‘‘ علماء کرام نے فرمایا اس میں بھی نفی کمال کی ہے بمعنی لَا صَلٰوۃ کَاملَۃ اور تیسری حدیث پاک لا یومن احدکم حتی یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ اس میں بھی علماء کرام نے فرمایا کہ مراد لا یؤمنُ ایمانًا کاملاً نفی کمال کی ہے اور چوتھی روایت :
واﷲ لا يؤمن واﷲ لا يؤمن واﷲ لا يؤمن، قيل : من يا رسول اﷲ؟ قال : من لم يأمن جاره بوائقه.
خدا کی قسم مومن نہیں خدا کی قسم مومن نہیں، خدا کی قسم مؤمن نہیں، عرض کیا گیا کہ کون یارسول اﷲ؟ آپ نے فرمایا جس کا پڑوسی اس کے ظلم سے مامون نہ ہو۔
اس میں بھی نفی کمال کی ہے اور پانچویں حدیث :
لا يدخل الجنة قتات. . . ولا يدخل الجنة قاطع رحم. . . و عاق لوالديه. . .
جنت میں چغل خوری کرنے والا داخل نہ ہو گا اور جنت میں قطع رحمی کرنے والا اور ماں باپ کا نافرمان داخل نہ ہوگا۔
علماء کرام نے فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ لا یدخل دخولاً اوَّلیا یعنی دخول اولی کی نفی ہے۔ یاپھریہ ہے کہ بالکل جنت میں داخل نہ ہوگا اگر ان افعال کو حلال سمجھ کر کرے گا۔
حاصل کلام یہ ہے کہ علماء کرام نے ان احادیث کوظاہر پر محمول نہیں کیا اور کسی نہ کسی قسم کی تاویل کی ہے اور کل بدعۃ ضلالۃ والی حدیث بھی اسی قبیل سے ہے۔ احادیث شریفہ کے عموم اور احوال صحابہ سے یہ بات مستفاد ہوتی ہے کہ اس بدعت سے مراد بدعتِ سیئہ ہے جو کسی حاصلِ کلی کے تحت مندرج نہ ہو۔ اور ایک حدیث پاک میں تو یہ ارشاد فرمایا :
من سن سنة حسنة کان له أجرها وأجر من عمل بها إلي يوم القيامة ولا ينقص من اجرها شيئٌ.
’’جو شخص کوئی بھی اچھا طریقہ جاری کردے تو اس کو اس کا اجرو ثواب اور ان لوگوں کا اجرو ثواب ملے گا جو قیامت تک اس پر عمل کریں گے اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔‘‘
اور دوسری حدیثِ پاک میں ہے :
عليکم بسنتي وسنة الخلفآءِ الرَّاشدينَ.
لازم پکڑو میری سنت کو اورخلفاء راشدین رضی اللہ عنھم کی سنت کو۔
اور صلاۃ التراویح کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
نعمت البدعة هذهِ
یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے
بعض لوگ بدعت کی تقسیم حسنہ اور سیئہ کرنے پر تنقید کرتے ہیں اور اس کے قائلین پر بہت شدت سے رد کرتے ہیں بلکہ بعض ان میں سے ایسے بھی ہیں جو ان پر فسق اور گمراہی کے فتوے لگاتے ہیں اور یہ رد اس لئے کرتے ہیں کہ اس تقسیم سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صریح قول اور واضح ارشاد وَکُلُّ بِدْعَۃ ضَلاَلَۃ کی مخالفت ہوتی ہے جبکہ یہ قول صراحۃ ہر بدعت کو شامل ہے اور اس کی گمراہی پر بھی صریح ہے۔ اسی وجہ سے تم ان کو یہ کہتا دیکھو گے کیا صاحبِ شریعت صاحب رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے بعد ہر بدعت گمراہی ہے کسی مجتہد یا فقیہ یا جو بھی اس کا رتبہ ہو یہ کہنا صحیح ہوسکتا ہے کہ نہیں نہیں ہر بدعت گمراہی نہیں بلکہ بعض بدعتیں گمراہی ہیں؟ بعض اچھی اور بعض بری ہیں۔
اور اس طرح کے اعتراضات کی وجہ سے بہت سے لوگ دھوکہ میں آجاتے ہیں اور وہ بھی ان معترضین کے ساتھ چیخ اٹھتے ہیں اور منکرین کے ساتھ وہ بھی انکار کر بیٹھتے ہیں چنانچہ ان لوگوں کی جماعت بڑھتی جاتی ہے جنہوں نے نہ مقاصدِ شرعیہ کو سمجھا اور نہ دین اسلام کی روح کو چکھا۔
پھر چند روز ہی گزرتے ہیں کہ یہی معترضین ایسی مشکل میں پڑجاتے ہیں جس سے بچنے کی راہ نکالنا ان کے لئے دشوار ہوتاہے اور ان کی روز مرہ کی معیشت اس کی واضح دلیل ہے۔ لازماً وہ ایسے حیلہ کی پناہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ جس کے بغیر ان کے لئے کھانا پینا اور رہنا سہنا بلکہ لباس پہننا اور سانس لینا تک مشکل ہوجائے اور جس حیلہ کے بغیر نہ تو وہ ذاتی اور خانگی معاملات طے کرسکتے ہیں۔ اور نہ اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں سے کوئی معاملہ کرسکتے ہیں۔ اور وہ حیلہ یہ ہے کہ وہ واضح لفظوں میں کہہ اٹھتے ہیں کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں، بدعتِ دینیہ اور بدعتِ دنیویہ.
ہاے اﷲ ان کھلاڑیوں نے کیسے اپنے نفس کے لئے یہ تقسیم گھڑلی یا کم از کم یہ نام کس طرح گھڑ لیا۔ اور اگرتسلیم بھی کرلیا جائے کہ یہ چیزیں عہدِ رسالت میں موجود تھیں تو یہ بدعت کی تقسیم دینیہ اور دنیویہ کی توعہدرسالت میں ہرگز موجود نہ تھی، تو پھر یہ تقسیم کہاں سے آگئی؟ اور یہ نو ایجاد بدعتی نام کہاں سے آگیا؟
لہٰذا جولوگ یہ کہتے ہیں کہ بدعت کو حسنہ اور سیئہ کی طرف منقسم کرنا شارع کی طرف سے نہیں ہے اس لئے غلط ہے تو ہم ان کو جواب میں کہتے ہیں کہ بالکل اسی طرح بدعت کو ناپسندیدہ بدعت دینیہ اور پسندیدہ بدعتِ دنیویہ کی طرف منقسم کرنا بھی اختراع اور بدعت ہے۔ اس لئے کہ شارع علیہ السلام تو علی الاطلاق فرماتے ہیں کہ وَکُلُّ بِدْعَۃ ضَلاَلَۃ اور یہ کہتے ہیں کہ نہیں نہیں، ہر بدعت مطلقاً گمراہی نہیں بلکہ بدعت کی دو قسمیں ہیں بدعتِ دینیہ اور وہ گمراہی ہے اور بدعتِ دنیویہ جس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے۔
اس لئے ضروری ہے کہ ہم ایک اہم مسئلہ کی وضاحت کردیں جس کی روشنی میں بہت سے اشکالات حل ہوجائیں گے اور بہت سے شبہات دور ہوجائیں گے۔ ان شاء اﷲتعاليٰ.
وہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کُلُّ بِدْعَۃ ضَلاَلَۃ کے قول کے متکلم شارع حکیم ہیں۔ ان کا فرمان شرعی فرمان ہے اس لئے نہایت ضروری ہے کہ ان کے فرمان کو انہی کے لائے ہوئے شرعی میزان میں پرکھا جائے۔ اور جب یہ معلوم ہوگیا کہ بدعت اصلاً ہر نو پیداوار اور نو ایجاد چیز کو کہا جاتا ہے تو تمہارے ذہن میں یہ بات بھی رہنی چاہیے کہ زیادتی اور نئی ایجاد وہ ممنوع ہے جو زیادتی دین میں کی جائے اور دینی چیز قرار دینے کے لئے ہو اور شریعت میں شرعی رنگ دینے کے لئے کی جائے۔ تاکہ وہ زیادتی قابل اتباع شرعی چیز بن کر صاحبِ شریعت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب ہوجائے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس سے ہمارے آقا اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے قول کے ذریعہ ڈرایا ہے کہ :
من احدث في امرنا هذا ماليس منه فهورد
جو ہمارے اس دین میں ایسی بات ایجاد کرے جو درحقیقت دین سے نہ ہو وہ مردود ہے۔
اس لئے اس موضوع میں حدِ فاصل آپ کا یہ قول ’’فی امرنا ھذا‘‘ ہے اور اسی لئے ہمارے نزدیک بدعت کی تقسیم حسنہ اور سیئہ کی طرف کرنا صرف اور صرف لغوی اعتبار سے ہے (اور بدعتِ لغوی کا مفہوم نوپیداور نوایجاد ہے) بلاشبہ ہم بدعت کے شرعی مفہوم کے اعتبار سے معترضین کے ساتھ متفق ہیں کہ وہ بدعت گمراہی اور فتنہ ہے، جو مذموم، مردود اور انتہائی ناپسندیدہ ہے اور اگر معترضین اس حقیقت کو سمجھ لیتے تو ان پر خود روشن ہوجاتا کہ ہمارا آپس میں تقریباً اتفاق ہی ہے اور جھگڑنے والی کوئی بات نہیں۔
اور میرے ذہن میں ایک اور بات بھی ہے جس سے دونوں قسم کی فکریں ایک معلوم ہوتی ہیں۔ وہ یہ ہے کہ جو لوگ بدعت کی تقسیم کے منکر ہیں وہ صرف بدعتِ شرعیہ کی تقسیم کا انکار کرتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے خود ہی بدعت کو دینیہ اور دنیویہ کی طرف منقسم کردیا ہے اور اس پر اعتبار کرنا ان کی ضرورت ہے۔
اور جو لوگ بدعت کی تقسیم حسنہ اور سیئہ کی طرف کرتے ہیں وہ بدعت لغویہ کے اعتبار کرتے ہیں کیونکہ ان کا یہ بھی تو کہنا ہے کہ دین اور شریعت میں زیادتی کرنا گمراہی اور گناہِ کبیرہ ہے۔ اور یہ بات ان کے نزدیک بلاشبہ ثابت ہے اس لئے یہ ایک صوری اختلاف ہے (حقیقۃ نہیں)۔
اگرچہ میرے خیال میں ہمارے بھائی بدعت کی تقسیم حسنہ اور سیئہ کرنے کے منکر ہیں اور بدعت کو دینیہ اور دنیویہ پر تقسیم کرتے ہیں ان کی بات زیادہ باریک بینی اور احتیاط پر مبنی نہیں، کیونکہ جب انہوں نے بدعتِ دینیہ کو گمراہی کہا (اور یہ بات حق بھی ہے) اور بدعتِ دنیویہ پر یہ حکم لگایا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں تو ان کی یہ بات کوئی اچھی نہیں کیونکہ اس طرح تو انہوں نے ہربدعت دنیویہ کو مباح کہہ دیا جب کہ اس میں بہت عظیم خطرہ ہے اور اس سے تو بڑا فتنہ اور مصیبت واقع ہوسکتی ہے جس کی بناء پر بہت ضروری ہوا کہ اس قضیہ کے ساتھ یہ تفصیل بھی وہ بیان کریں کہ ’’بدعتِ دنیویہ میں بھی بعض امور خیر ہیں اور بعض امور شر ہیں۔ کوئی اندھا اور جاہل ہوگا جو ان امور شر کا نظارہ نہ کرتا ہو اس لئے اس تفصیل کا بیان بہت ضروری ہوا۔
اور جو لوگ بدعت کو حسنہ اور سیئہ پر منقسم کرتے ہیں اور یہ بات متحقق ہے کہ ان کی مراد اس سے بدعتِ لغویہ ہے جیسا کہ پہلے (کلام) گزر چکا ہے (اور اس تقسیم کے منکرین اسی کو بدعتِ دنیویہ سے تعبیر کرتے ہیں) ان لوگوں نے اس مفہوم کو بہت مختصراً اور دقیق انداز میں بیان کیا ہے اور ان کا یہ قول انتہائی باریک بینی اور احتیاط پر مبنی ہے۔ اور یہ قول ہر نو ایجاد چیز کو شرعی احکام اور دینی قواعد کا پابند کر رہا ہے اور تمام مسلمین پر یہ لازم کر رہا ہے کہ ان کے سامنے جب بھی کوئی بدعت آئے اور کسی بھی نو ایجاد چیز سے ان کو واسطہ پڑے عموماً دنیاوی امور میں اور خصوصاً شرعی امور میں تو وہ اس میں شرعی حکم معلوم کریں اور یہ مفہوم جب ہی ہو گا کہ بدعت کو ائمہ اصول کے قول کے مطابق عمدہ اور معتبر طور پر تقسیم کیا جائے۔
1. عبدالرزاق، المصنف، 1 : 497، رقم : 1915
2. ازدي، مسند الربيع، 1 : 108، رقم : 256
3. حاکم، المستدرک، 1 : 373، رقم : 898
4. طحاوي، شرح معاني الآثار، 1 : 394
1. مسلم، الصحيح، کتاب المساجد، باب کراهة الصلاة، 1 : 393، رقم : 560
2. ابن خزيمه، الصحيح، 2 : 66، رقم : 933
3. بيهقي، السنن الکبري، 3 : 73، رقم : 4816
4. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 6 : 6
1. بخاري، الصحيح، کتاب الايمان، باب من الايمان، 1 : 14، رقم : 13
2. مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب الدليل علي ان من خصال الايمان، 1 : 68، رقم
: 45
3. نسائي، السنن، کتاب الايمان، باب علامة الايمان، 8 : 155، رقم : 5016
4. ابن ماجه، السنن، باب في الايمان، 1 : 26، رقم : 66
1. بخاري، الصحيح، کتاب الادب، باب اثم من لايامن جاره، 5 : 2240، رقم : 5670
2. حاکم، المستدرک، 1 : 53، رقم : 21
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 169
4. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 336، رقم : 8413
1. بخاري، الصحيح کتاب الادب، باب ما يکره من النميمة، 5 : 2250، رقم : 5709
2. مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب بيان غلظ تحريم النميمة، 1 : 101، رقم : 105
3. ترمذي، الجامع الصحيه، کتاب البر والصلة، 4 : 375، رقم : 2026
4. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 328، رقم : 23295
1. بخاري، الصحيح، کتاب الادب، باب اثم القاطع، 5 : 2231، رقم : 5638
2. مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة، باب صلة الرحم، 4 : 1981، رقم : 2556
3. طبراني، المعجم الاوسط، 4 : 32، رقم : 3537
1. عبدالرزاق، المصنف، 7 : 454، رقم : 13859
2. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 19، رقم : 2335
3. بيهقي، شعب الايمان، 6 : 191، رقم : 7873
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 5 : 75
1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359
1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة،
رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم
: 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 : 116، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 : 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 : 105، رقم : 250
4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم الحکم، 1 : 266
1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة،
رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم
: 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
1. مسلم، الصحيح، 3 : 1343، کتاب الاقضية، باب نقض الاحکام الباطلة، رقم : 1718
2. ابن ماجه، السنن، المقدمه الکتاب، 1 : 7، باب تعظيم حديث رسول الله، رقم
: 14
3. احمد بن حنبل، المسند : 6 : 270، رقم : 26372
علوي المالکي، مفاهيم يجب ان تصحح : 102. 106
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved