گزشتہ باب میں یہ اَمر ثابت ہو چکا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے علم بالکشف کو یہ کہہ کر ردّ نہیں کرسکتے کہ یہ صرف معجزات تھے۔ اس لیے کہ ان کو معجزہ صرف عنوان کے طور پر کہہ سکتے ہیں جب کہ اپنی ماہیت میں وہ کشف ہے۔ مکاشفات کی یہ کیفیات بطور خیرات حضور نبی اکرم ﷺ کے اُمتیوں کو بھی عطا ہوئی ہیں۔ اس باب میں ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اولیاء عظام کے علم بالکشف کا مطالعہ کریں گے۔
انبیاء کرام علیہم السلام کے معجزات کے بیان کے بعد اب غیر نبی کے مکاشفات کا ذکر کرتے ہیں اور سب سے پہلے اس طبقہ کا ذکر کرتے ہیں کہ جو خود بھی صاحبِ ہدایت ہیں اور ان کی اقتداء کرنے والے بھی ہدایت یافتہ ہیں؛ یعنی اس باب کا آغاز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مکاشفات سے کرتے ہیں۔
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے غابہ نامی وادی میں انہیں کھجور کے چند درخت ہبہ کیے تھے، جن کی آمدن بیس وسق کھجوریں تھیں۔ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے فرمایا: اے میری پیاری بیٹی، اللہ کی قسم! تمام لوگوں میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جس کا اپنے بعد غنی ہونا مجھے تمہارے غنی ہونے سے زیادہ پسند ہو اور اپنے بعد مجھے کسی کی مفلسی بھی تمہارے مفلس ہونے سے زیادہ گراں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے تمہیں کھجور کے کچھ درخت دیئے تھے جن سے بطور آمدن بیس وسق کھجوریں آتی تھیں۔ اگر تم نے ان پر قبضہ کیا ہوتا تو اس وقت وہ تمہارے ہو جاتے، لیکن اب وہ میراث کا مال ہے اور تمہارے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ لہٰذا تم اس مال کو اللہ کی کتاب کے حکم کے مطابق تقسیم کر لینا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: ابا جان! مال خواہ کتنا ہی زیادہ ہوتا میں چھوڑ دیتی، لیکن میری بہن تو صرف حضرت اَسماء ہیں، دوسری کون ہے؟ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ذُوْ بَطْنِ بِنْتِ خَارِجَةَ، أُرَاھَا جَارِیَةً.
وَفِي رِوَایَةِ ابْنِ سَعْدٍ: فَوَلَدَتْ أُمَّ کُلْثُوْمٍ.
وہ (میری زوجہ) بنت خارجہ کے پیٹ میں ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ لڑکی ہے۔
ابن سعد کی ایک روایت میں اضافہ ہے کہ پھر حضرت اُم کلثوم پیدا ہوئیں۔
یہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا کشف ہے کہ جس سے آپ نے معلوم کر لیا کہ پیدا ہونے والی بیٹی ہو گی۔
یہاں ضمناً عرض کرتے چلیں کہ یہ دونوں عنوان بنیادی طور پر ایک ہی شے کے دو نام ہیں۔
امام تاج الدین سبکی نے اپنی تصنیف طبقات الشافعیة الکبریٰ کی جلد اوّل میں حضور نبی اکرم ﷺ کے احوال کو بیان کیا ہے اور پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے صادر ہونے والی کرامات کو بھی تحریر کیا ہے۔ امام سبکی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مذکورہ واقعہ بیان کرنے سے قبل کرامت کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں:
إِعْلَمْ أَوَّلًا أَنَّ کُلَّ کَرَامَةٍ ظَهَرَتْ عَلٰی یَدِ صَحَابِيٍّ أَوْ وَلِيٍّ قَدْ تُظْھَرُ إِلٰی یَوْمٍ یَقُوْمُ النَّاسُ إِلٰی رَبِّ الْعَالَمِیْنِ، فَإِنَّھَا مُعْجِزَة لِلنَّبِيِّ ﷺ لِأَنَّ صَاحِبُھَا إِنَّمَا نَالَهَا بِالْاِقْتِدَائِ بِهٖ.
سبکی، طبقات الشافعیة الکبریٰ، 2: 321
جان لو! قیامت کے دن لوگوں کے رب العالمین کی بارگاہ میں کھڑے ہونے تک، کسی صحابی یا ولی کے ہاتھ پر جو بھی کرامت صادر ہو گی وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے معجزہ کا تسلسل ہوگا، کیوں کہ انہیں یہ مقام آپ ﷺ کی اقتداء اور پیروی کرنے کے باعث ہی ملا ہے۔
گویا انہوں نے یہ دلیل قائم کر دی کہ کوئی شخص اگر کسی ولی کی کرامت کا انکار کرتاہے تو وہ معجزئہ رسول ﷺ کا منکر ہے کیونکہ ہر ولی کی کرامت نبی کے معجزے کا تسلسل ہے۔ وہ حضور ﷺ کا جاری معجزہ ہے، چونکہ اسے یہ مرتبۂ کرامت اپنے نبی کی اتباع کی برکت میں ہی نصیب ہوا ہے۔ اگر وہ حضور ﷺ کی اتباع نہ کرتا تو اس مرتبۂ کرامت تک نہ پہنچتا۔ لہٰذا صاحب کرامت ہونا اتباعِ نبوت کی برکت اور اس کا پھل ہے اور وہ کرامت حضور ﷺ ہی کا معجزہ تصور کی جائے گی۔
امام تاج الدین سبکی کرامت کے مفہوم کو واضح کرنے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے صادر ہونے والی کرامات کا ذکر کرتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ درج بالا واقعہ میں ان کے کشف کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے کیسے دیکھ لیا کہ ان کی زوجہ کے بطن میں ان کی ایک اور بیٹی بھی ہے۔
اس روایت کا انکار پوری اسلامی تاریخ میں کسی نے نہیں کیا۔ تمام ائمہ اور محدثین خواہ وہ احناف تھے، مالکی تھے، شافعی تھے، حنبلی تھے، سلفی تھے، مقلد تھے یا غیر مقلد، کسی مکتب فکر کے علماء نے بھی اس روایت کا انکار نہیں کیا۔ سب نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اسی کرامت سے اپنی تصنیفات میں کرامات کے باب کا آغاز کیا ہے۔
امام سبکی بیان کرتے ہیں کہ اس واقعہ میں دو کرامتیں موجود ہیں:
ایک کرامت تو یہ کہ وصال سے قبل آپ نے کشف سے جان لیا کہ ان کی زوجہ کے پیٹ میں بیٹا نہیں بلکہ بیٹی ہے۔ پورے یقین اور وثوق کے ساتھ دو ٹوک کہا کہ اے عائشہ! تیرے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں یعنی تمہارے سمیت کل پانچ بہن بھائی ہیں۔ اللہ کے احکام کے مطابق ان میں مالِ وراثت تقسیم کرنا۔
اس میں دوسری کرامت یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنی اسی مرض میں وفات پا جانے کی خبر بھی دے دی۔ آدمی بیسیوں بار بیمار ہوتا ہے، پھر شفایاب ہو جاتا ہے لیکن آپ کا یہ فرمان:
وَإِنَّمَا ھُوَ الْیَوْمَ مَالُ وَارِثٍ.
(لیکن) اب وہ میراث کا مال ہے۔
یعنی اب یہ مال میرا نہیں رہا، بلکہ وارثوں کا ہوگیا ہے۔ وراثت کا اشارہ کر کے آپ نے بتا دیا ہے کہ اب میری وفات ہونے والی ہے، میں اس مرض سے صحت یاب نہیں ہو پائوں گا۔
امام احمد بن حنبل اور کثیر ائمہ و محدثین نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے کشف پر مبنی ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر روانہ کیا اور اس کا سپہ سالار ساریہ نامی شخص کو مقرر کیا۔ اس دوران ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں لوگوں سے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، دوران خطبہ آپ منبر پر ہی بلند آواز میں پکارنے لگے:
یَا سَارِيَ الْجَبَلَ، یَا سَارِيَ الْجَبَلَ.
1۔ أحمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 1: 269، رقم: 355
2۔ لالکائی، شرح أصول اعتقاد أہل السنة، 7: 1330-1331، رقم: 2537-2538
3۔ آجری، الشریعة، 4: 1888، رقم: 1360
4۔ بیہقی، دلائل النبوة، 6: 370
5۔ بیہقی، الاعتقاد: 314
6۔ أبو نعیم، دلائل النبوة، 1: 579، رقم: 526
7۔ ابن عساکر، تاریخ مدینة دمشق، 44: 336
8۔ ابن کثیر، البدایة والنہایة، 7: 131، ابن کثیر نے کہا ہے: اس کی سند حسن جید ہے۔
9۔ خطیب تبریزی، مشکاة المصابیح، 3: 1678، رقم: 1
اے ساریہ! پہاڑ کی اُوٹ لو۔ اے ساریہ! پہاڑ کی اُوٹ لو۔
اسی واقعہ کو حضرت عمرو بن حارث نے زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ منبر پر جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اچانک خطبہ ادھورا چھوڑ کر آپ رضی اللہ عنہ نے بلند آواز میں پکارنا شروع کر دیا: ’اے ساریہ! پہاڑ کی اوٹ لو‘۔ آپ رضی اللہ عنہ نے دوران خطبہ یہ جملہ دو یا تین بار ارشاد فرمایا۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا خطبہ جمعہ جاری رکھا اور اسے مکمل کیا۔ وہاں موجود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے گمان کیا کہ شاید حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر دورانِ خطاب جوش و جنون کی کیفیت طاری ہوگئی تھی جس میں انہوں نے بلند آواز میں ساریہ کو پکارا ہے۔ نماز سے فارغ ہو کر حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ان کے پاس حاضر ہوئے اور تمام ماجرا دریافت کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
إِنِّي، وَاللهِ، مَا مَلَکْتُ ذَالِکَ، رَأَیْتُهُمْ یُقَاتِلُوْنَ عِنْدَ جَبَلٍ، یُؤْتَوْنَ مِنْ بَیْنِ أَیْدِیْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ، فَلَمْ أَمْلِکْ أَنْ قُلْتُ: یَا سَارِیَةُ الْجَبَلَ، لِیَلْحَقُوْا بِالْجَبَلِ.
اللہ کی قسم! یقینا میں اُنہیں پہاڑ کے پاس لڑتے ہوئے دیکھ رہا تھا، ان پر آگے پیچھے سے حملہ کیا جا رہا تھا تو میں نے بے اختیار ہو کر پکارا: اے ساریہ! پہاڑ (کی اوٹ لو)، تاکہ وہ پہاڑ کی اوٹ لے (کر دشمن کا مقابلہ کر سکیں)۔
کچھ دنوں کے بعد حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کا قاصد خط لے کر حاضر ہوا اور اُس نے اس بات کی تصدیق کی کہ جمعہ کے روز جب سورج چمک رہا تھا تو ہم نے کسی پکارنے والے کی آواز سنی: اے ساریہ! پہاڑ کی اوٹ لو۔ پھر ہم پہاڑ کی اوٹ لے کر دشمن پر قہر بن کر ٹوٹ پڑے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح سے سرفراز فرمایا۔
یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دوران خطبہ کشف سے اس جنگ کا مشاہدہ کیا اور اپنے فوجیوں کی راہ نمائی کی۔ ایسا نہیں ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کشف کے لیے بیٹھ کر مراقبہ کر رہے ہیں، بلکہ وہ جمعہ کا خطبہ دے رہے ہیں۔ سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے وہ مقام عطا کر دیا تھا جسے مقامِ تحدیث کہتے ہیں کہ سارے پردے آپ سے اُٹھا دیے گئے تھے۔
مذکورہ واقعہ کے ذیل میں امام ابن ملقّن انصاری نے فرمایا ہے:
فِیْهِ کَرَامَتَانِ لَهٗ: بُلُوْغُ صَوْتِهٖ وَکَشْفُهٗ لَهٗ عَنْهُ.
ابن الملقن، حدائق الأولیاء، 2: 497
اس واقعہ میں (حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی) دو کرامات بیان ہوئی ہیں: حضرت ساریہ تک میدان جنگ میں ان کی آواز کا پہنچنا اور میدان جنگ کا انہیں وہیں سے کشف ہونا (یعنی میدان جنگ دکھا دیا جانا)۔
ملا علی قاری نے ’مرقاة المفاتیح‘ میں بیان کیا ہے:
{فَبَیْنَمَا عُمَرُ یَخْطُبُ} أَيْ فِي مَسْجِدِ الْمَدِیْنَةِ عَلٰی رُؤُوْسِ الْأَشْهَادِ مِنْ أَکَابِرِ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِیْنَ، مِنْهُمْ عُثْمَانُ وَعَلِيٌّ رضوان الله علیهم اجمعین فَهٰذِهٖ کَرَامَة عَظِیْمَة، وَمَنْقَبَة جَسِیْمَة، دَالَّة عَلٰی مَزِیَّةِ جَـلَالَتِهٖ، وَصِحَّةِ خِـلَافَتِهٖ … فِیْهِ أَنْوَاعٌ مِنَ الْکَرَامَةِ لِعُمَرَ رضی الله عنه، کَشْفُ الْمَعْرِکَةِ، وَإِیْصَالُ صَوْتِهٖ، وَسَمَاعُ کُلٍّ مِنْهُمْ لِصَیْحَتِهٖ، وَفَتْحُهُمْ وَنَصْرُهُمْ بِبَرَکَتِهٖ.
ملا علي القاری، مرقاة المفاتیح، 11: 99، رقم: 5954
(مذکورہ موقع پرجب حضرت عمر رضی اللہ عنہ خطاب فرما رہے تھے) یعنی مسجد نبوی میں جلیل القدر صحابہ اور تابعین کی موجودگی میں جن میں حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما (جیسے اکابر صحابہ) بھی تھے، یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک عظیم کرامت اور عالی شان منقبت ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کی جلالتِ شان اور خلافت کے برحق ہونے پر (بھی) دلالت کرتا ہے۔ … اس واقعہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کئی کرامات کا ثبوت ہے۔ (مثلاً) آپ کو (مسجد نبوی کے منبر پر کھڑے کھڑے) جنگ کا کشف (و مشاہدہ) ہونا، اپنی آواز کو (میدان جنگ میں موجود) ان (اصحاب) تک پہنچانا، اہل معرکہ میں سے ہر ایک کا آپ کی پکار کو سننا اور بالآخر آپ کی برکت سے ان کا فتح یاب و کامران ہونا۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے غیب کے تمام پردے اٹھا دیے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں منبر رسول ﷺ پر کھڑے ہوئے ایران میں ہونے والی جنگ کا کشف و مشاہدہ فرما لیا اور آپ کی آواز کو صرف حضرت ساریہ نے ہی نہیں بلکہ پورے لشکر کے ہزاروں صحابہ نے سنا: ’اے ساریہ! پہاڑ کی اُوٹ لو۔‘
یہاں ضمناً اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ صاحبِ کشف تو تھے ہی لیکن ان کے تصرفات کا بھی کوئی تصور نہیں کر سکتا۔
(1) امام تاج الدین سبکی نے اپنی کتاب ’طبقات الشافعیة الکبری (2: 324)‘ میں امام الحرمین الجوینی کی کتاب الشامل سے بیان کیا ہے کہ آپ کے زمانہ اقدس میں ایک بار زلزلہ آ گیا، جب شدید زلزلہ آیا تو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ تھرتھراہٹ محسوس کرکے اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ کے ہاتھ میں اکثر درّہ ہوتا تھا۔ آپ نے درّہ زمین پر مارا اور کہا:
أَقِرِّي أَلَمْ أَعْدِلْ عَلَیْکِ؟ فَاسْتَقَرَّتْ مِنْ وَقْتِھَا.
اے زمین! ٹھہر جا؟ کیا میں تمہارے اوپر عدل نہیں کر رہا؟ (آپ کے اس عمل سے ) اُسی وقت زلزلہ ختم ہو گیا اور زمین تھم گئی۔
یہ آپ رضی اللہ عنہ کا تصرف اور روحانی مقام ہے۔ اس واقعہ میں غور طلب بات یہ ہے کہ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا دھیان فی الفور اس امر کی طرف کیوں گیا کہ کیا زمین پر عدل نہیں ہو رہا؟ گویا آپ نے اپنے اس فرمان سے یہ بھی واضح کر دیا کہ زلزلے اُسی سرزمین پر زیادہ آتے ہیں جس پر عدل ختم ہو جاتا ہے۔ جہاں نظامِ عدل حقیقی معنوں میں نافذ نہیں ہوتا، جہاں انسانی حقوق برباد ہوتے ہیں، لوگوں کے خون بہتے ہیں، عزتیں لٹتی ہیں، لوٹ مار ہوتی ہے، بدعنوانیاں ہوتی ہیں، تباہی، بربادی ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکام توڑے جاتے ہیں، وہاں زلزلے آتے ہیں۔ معلوم یہ ہوا کہ جہاں زلزلے کے مادّی اسباب ہیں وہاں روحانی اسباب بھی ہیں۔
1۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پر اپنی شہادت و تدفین کا مقام وفات سے قبل ہی منکشف ہوگیا تھا۔
امام مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب کبھی حضرت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ باغِ کوکب کے قریب سے گزرتے تو فرماتے:
لَیُدْفَنُ ھَاھُنَا رَجُلٌ صَالِحٌ.
1۔ طبراني، المعجم الکبیر، 1: 78، رقم: 109
2۔ ابن سعد، الطبقات الکبری، 3: 77
3۔ ابن عبد البر، الاستیعاب، 3: 1047
4۔ ابن عساکر، تاریخ مدینة دمشق، 39: 532
5۔ مزی، تہذیب الکمال، 19: 457
6۔ ہیثمي نے ’مجمع الزوائد (9: 95)‘ میں کہا ہے کہ اس کے تمام رجال ثقہ ہیں۔
یہاں ایک نیک انسان دفن کیا جائے گا (چنانچہ آپ خود وہاں دفن کیے گئے)۔
2۔ امام تاج الدین سبکی طبقات الشافعیة الکبری میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جھرمٹ میں تشریف فرما تھے۔ ایک شخص آپ کی مجلس میں آیا۔ وہ شخص جب گھر سے نکلا تو راستے میں اسے ایک خاتون نظر آئی، اس نے اسے فقط گھور کر دیکھا تھا۔ معاملہ صرف اس حد تک ہی تھا۔ وہ شخص جونہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مجلس میںداخل ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ اُس شخص کو دیکھ کر بولے:
یَدْخُلُ أَحَدُکُمْ وَفِي عَیْنَیْهِ أَثَرُ الزِّنَا.
ایک ایسا شخص تمہاری مجلس میں آیا ہے جس کی آنکھوں میں بدکاری کا اثر نظر آ رہا ہے۔
یعنی اس شخص کی آنکھیں بدکاری کر کے آئی ہیں۔ وہ سمجھ گیا، لرز گیا، اور پوچھا: کیا حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد بھی وحی کے اترنے کا سلسلہ جاری ہے کہ جو آپ بتا رہے ہیں کہ میں کیا کر کے آیا ہوں؟ گویا اس نے حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ پر منکشف ہونے والی بات کی تصدیق کر دی اور اپنے عمل کا اعتراف کرلیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں، وحی تو بند ہوگئی اب یہ نور ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندئہ مومن کے قلب میں اتارتا ہے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اُس حدیث نبوی کی طرف اشارہ کیا جس میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اِتَّقُوْا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللهِ ثُمَّ قَرَأَ: {إِنَّ فِي ذٰلِکَ لَآیَاتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِیْنَ (الحجر، 15: 75)} أَي الْمُتَفَرِّسِیْنَ.
مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہے پھر آپ ﷺ نے یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی: ’بیشک اس میں اہلِ فراست کے لیے نشانیاں ہیں‘۔
1۔ دلائل النبوة میں امام ابو نعیم الاصبہانی أصبغ بن نباتہ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اپنے دورِ خلافت میں جنگ صفین کے لیے کوفہ سے شام کی طرف تشریف لے جا رہے تھے کہ جب میدان کربلا میں پہنچے تو اس موقع پر شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ اور واقعہ کربلا کے رونما ہونے سے کئی سال پہلے ہی ارشاد فرما دیا:
هٰهُنَا مَنَاخُ رِکَابِهِمْ، وَمَوْضِعُ رِحَالِهِمْ، وَمُهْرَاقُ دِمَائِهِمْ، فِتْیَة مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ یُقْتَلُوْنَ بِهٰذِهِ الْعَرْصَةِ. تَبْکِي عَلَیْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ.
یہاں ان( حسینی لشکر) کی سواریاں بیٹھیں گی اور یہیں وہ اپنا سامانِ سفر رکھیں گے۔ یہیں ان کا خون بہے گا، وہ آل محمد ﷺ کے نوجوان ہوں گے، جو اس جگہ پرشہید کیے جائیں گے اور ان پر آسمان و زمین روئیں گے۔
سانحۂ کربلا کا واقعہ 61 ہجری میں ہوا ہے اور جنگ صفین 37 ہجری میں وقوع پذیر ہوئی ہے۔ لیکن عالم یہ ہے کہ تئیس چوبیس سال قبل حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک ایک جگہ پر ہاتھوں کے نشان لگا کر بتا دیا کہ کہاں کیا ہوگا؟ یہ کشف ہے۔
2۔ اسی طرح حسن بن کثیر اپنے والد - جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا زمانہ بھی پایا تھا- سے روایت کرتے ہیں، اُنہوں نے فرمایا:
خَرَجَ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ إِلَی الْفَجْرِ، فَأَقْبَلْنَ الْوَزُّ، یَصِحْنَ فِي وَجْهِهٖ، فَطَرَدُوْهُنَّ عَنْهُ۔ فَقَالَ: ذَرُوْهُنَّ، فَإِنَّهُنَّ نَوَائِحُ۔ فَضَرَبَهُ ابْنُ مُلْجِمٍ.
حضرت علی رضی اللہ عنہ فجر کی نماز کے لیے تشریف لائے تو مرغابیاں شور کرتی ہوئی ان کی طرف بڑھیں، لوگوں نے انہیں آپ سے پیچھے ہٹا دیا، آپ نے فرمایا: انہیں چھوڑ دو یہ نوحہ کناں ہیں۔ پھر (اسی صبح) ابن ملجِم نے آپ پر وار کیا (اور آپ کو شدید زخمی کر دیا)۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی بذریعہ کشف اس بات سے مطلع تھے کہ آپ کی شہادت کا وقت قریب آ گیا ہے، اسی لیے مرغابیوں کے بارے میں فرمایا کہ یہ نوحہ کناں ہیں اور اس سے آپ کی مراد یہ تھی کہ وہ آپ کے وصال فرما جانے پر غم زدہ ہیں۔
3۔ ایک اور روایت میں جعفر بن محمد اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ دو آدمی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں آپ کی بارگاہ میں پیش کیے گئے۔ آپ (فیصلہ فرمانے کے لیے وہیں) دیوار کی بنیاد کے ساتھ بیٹھ گئے۔ ایک آدمی نے کہا: اے امیر المومنین! دیوار گرنے لگی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
إِمْضِ، کَفٰی بِاللهِ حَارِسًا، فَقَضٰی بَیْنَهُمَا، وَقَامَ، ثُمَّ سَقَطَ الْجِدَارُ.
اپنی بات جاری رکھو، اللہ تعالیٰ کی حفاظت ہی کافی ہے۔ پھر آپ ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرما کر وہاں سے اٹھ گئے۔ بعد ازاں دیوار گر پڑی۔
4۔ حضرت سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ کے قبرستان میں داخل ہوئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کی قبر پر تشریف لے گئے، جبکہ بقیہ لوگ (ادھر اُدھر) چلے گئے۔… پھر آپ نے ندا دی: اے مومن اہلِ قبور! تم ہمیں اپنی خبریں بتاؤ گے یا چاہو گے کہ ہم تمہیں تمہاری خبریں بتائیں؟ تم پر سلامتی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر ہم نے ایک آواز سنی:
وَعَلَیْکَ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَکَاتُهٗ، یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ، خَبِّرْنَا عَمَّا کَانَ بَعْدَنَا. فَقَالَ عَلِيٌّ: أَمَّا أَزْوَاجُکُمْ فَقَدْ تَزَوَّجُوْا وَأَمَا أَمْوَالُکُمْ فَقَدِ اقْتَسَمُوْهَا، وَأَوْلَادُکُمْ فَقَدْ حُشِرُوْا فِي زُمْرَةِ الْیَتَامٰی، وَالْبِنَائُ الَّذِي شَیَّدْتُمْ، فَقَدْ سَکَنَهَا أَعْدَاؤُکُمْ. فَهٰذِهٖ أَخْبَارُکُمْ عِنْدَنَا. فَمَا أَخْبَارُ مَا عِنْدَکُمْ؟ فَأَجَابَهٗ مَیِّتٌ: قَدْ تَخَرَّقَتِ اْلأَکْفَانُ، وَانْتَثَرَتِ الشُّعُوْرُ، وَتَقَطَّعَتِ الْجُلُوْدُ، وَسَالَتِ اْلأَحْدَاقُ عَلَی الْخُدُوْدِ، وَسَالَتِ الْمَنَاخِرُ بِالْقَیْحِ وَالصَّدِیْدِ. وَمَا قَدَّمْنَاهُ وَجَدْنَاهُ، وَمَا خَلَّفْنَاهُ خَسَرْنَاهُ، وَنَحْنُ مُرْتَهِنُوْنَ بِالْأَعْمَالِ.
اے امیر المؤمنین! آپ پر بھی سلام، اللہتعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں، ہمیں یہ بتائیں کہ ہمارے بعد کیا ہوا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رہی تمہاری بیویاں تو انہوں نے شادیاں کر لیں، اور رہے تمہارے اموال تو وہ تمہارے ورثا نے آپس میں تقسیم کر لیے، اور تمہاری اولادیں یتیموں کے زمرہ میں داخل کر دی گئیں، اور جو مضبوط عمارتیں تم نے تعمیر کی تھیں، ان میں اب تمہارے دشمن رہتے ہیں۔ یہ تمہاری خبریں تھیں جو ہمارے پاس تھیں۔ اب تمہارے ہاں جو کچھ ہے اس کی کیا خبریں ہیں؟ ایک میت نے انہیں جواب دیا: کفن پھٹ چکے ہیں، بال بکھر چکے ہیں، جلدیں (چمڑے) پھٹ چکے ہیں، آنکھوں کے ڈھیلے رخساروں پر بہہ چکے ہیں، نتھنوں سے پیپ بہہ رہی ہے، (اعمال میں سے) جو کچھ ہم نے آگے بھیجا اسے ہم نے پا لیا اور جو (مال و متاع) پیچھے چھوڑ آئے اس پر پچھتاوا ہے، بے شک ہم اپنے اعمال کے مرہون ہیں۔
گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے کشف سے اہل قبور سے کلام کیا اور ان کا جواب بھی سنا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اُنہیں اپنے احوال سے آگاہ کیا اور ان کے احوال کی خبر گیری کی۔ یہ سارے واقعہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ آپ کے ساتھ موجود دیگر ساتھیوں نے بھی دیکھا اور انہوں نے بھی صاحبانِ قبر کی آواز سنی۔
حضرت اُمّ سلمیٰ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے مرضِ وصال میں تھیں تو میں ان کی تیمارداری کیا کرتی تھی۔ میں نے علالت کے عرصہ کے دوران دیکھا کہ ایک دن ان کی حالت قدرے بہتر ہوئی۔ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے۔ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے مجھے فرمایا: امی جان! میرے لیے غسل کا انتظام کریں۔ سیدہ اُم سلمی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اُن کے لیے غسل کا پانی رکھا اور اُنہوں نے اچھی طرح غسل کیا، پھر فرمایا: امی جان! مجھے نیا لباس پہنائیں۔ میں نے انہیں نئے کپڑے دیئے جو انہوں نے زیب تن فرمائے اور کہا: امی جان! میرے لیے گھر کے درمیان بستر لگا دیں۔ میں نے ایسا ہی کیا، پھر وہ قبلہ رخ ہو کر لیٹ گئیں اور اپنا ہاتھ رخسار مبارک کے نیچے رکھ لیا۔ پھر فرمایا:
یَا أُمَّهْ، إِنِّي مَقْبُوْضَة الْآنَ، وَقَدْ تَطَھَّرْتُ فَـلَا یَکْشِفْنِي أَحَدٌ.
ماں جی! اب میری وفات ہو جائے گی۔ میں (غسل کر کے) پاک ہو چکی ہوں۔ لہٰذا اس کے بعد کوئی مجھے (غسل کے لیے) بے حجاب نہ کرے۔
چنانچہ تھوڑی دیر بعد اُسی جگہ ان کی وفات ہوگئی۔ حضرت اُمّ سلمیٰ بیان کرتی ہیں: پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میں نے انہیں ساری بات بتا دی۔۔
سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا اپنی وفات سے قبل از وقت باخبر ہونا ان کا کشف تھا۔
جہاد کی مہمات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دائیں جانب جبریل علیہ السلام اور بائیں جانب حضرت میکائیل علیہ السلام رہا کرتے تھے جنہیں امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما دیکھا کرتے تھے۔
حضرت عاصم بن ضمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا تو حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے خطبہ ارشاد فرمایا:
یَا أَھْلَ الْکُوْفَةِ، أَوْ یَا أَھْلَ الْعِرَاقِ، لَقَدْ کَانَ بَیْنَ أَظْھُرِکُمْ رَجُلٌ، قُتِلَ اللَّیْلَةَ، أَوْ أُصِیْبَ الْیَوْمَ، لَمْ یَسْبِقْهُ الأَوَّلُوْنَ بِعِلْمٍ، وَلَا یُدْرِکْهُ الآخَرُوْنَ. کَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا بَعَثَهٗ فِي سَرِیَّةٍ کَانَ جِبْرِیْلُ علیہ السلام عَنْ یَمِیْنِهٖ وَمِیْکَائِیْلُ علیہ السلام عَنْ یَسَارِهٖ، فَـلَا یَرْجِعُ حَتّٰی یَفْتَحَ اللهُ عَلَیْهِ.
اے اَہلِ کوفہ ! یا اے اہلِ عراق! آج تمہارے درمیان وہ شخص شہید کر دیا گیا جس سے علم میں (اُمت کے) اولین بھی سبقت نہیں لے سکے اور آخرین میں سے بھی کوئی ان کے مقام کو نہ پہنچ سکے گا۔ حضور نبی اکرم ﷺ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی جہاد کی مہم پر روانہ فرماتے تو آپ کی دائیں جانب جبرائیل علیہ السلام اور بائیں جانب میکائیل علیہ السلام رہا کرتے، چنانچہ آپ کبھی بھی فتح حاصل کیے بغیر نہیں لوٹتے تھے۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب غزوۂ احد کا وقت قریب آیا تو میرے والد حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے مجھے رات کے وقت بلایا اور فرمایا:
مَا أَرَانِي إِلَّا مَقْتُوْلًا فِي أَوَّلِ مَنْ یُقْتَلُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَإِنِّي لَا أَتْرُکُ بَعْدِي أَعَزَّ عَلَيَّ مِنْکَ غَیْرَ نَفْسِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، فَإِنَّ عَلَيَّ دَیْنًا، فَاقْضِ، وَاسْتَوْصِ بِأَخَوَاتِکَ خَیْرًا.
میں (کشف سے) یہی دیکھتا ہوں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے صحابہ میں سب سے پہلے میں شہید کیا جائوں گا اور (دیکھو) میں اپنے بعد رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ کے سوا تم سے بڑھ کر کوئی (اور) عزیز نہیں چھوڑ کر جا رہا۔ (لہٰذا تمہارے لیے یہ میری وصیت ہے کہ) مجھ پر کچھ قرض ہے اسے ادا کر دینا اور اپنی بہنوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ صبح ہوئی تو سب سے پہلے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ ہی شہید کیے گئے اور ایک دوسرے شہید کے ساتھ ایک ہی قبر میں دفن کیے گئے۔ بعدازاں میرا دل اس پر رضامند نہ ہوا کہ انہیں قبر میں کسی دوسرے کے ساتھ چھوڑے رکھوں۔ لہٰذا چھ ماہ کے بعد میں نے ان کا جسدِ اقدس نکالا تو وہ اسی طرح تر و تازہ تھا جیسے دفن کرنے کے روز تھا، سوائے ایک کان کے جو دورانِ جنگ شہید ہو گیا تھا۔
امام مسلم نے ’الصحیح‘ میں روایت کیا ہے کہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ہمیشہ اپنی زندگی میں ملائکہ کو دیکھا کرتے تھے اور ملائکہ ان سے مصافحہ بھی کیا کرتے تھے۔ مستند کتب حدیث و سیر میں ہے کہ تیس سال تک ملائکہ ان کے گھر میں ان کے حجرے اور صحن میں آتے جاتے تھے اور گھر والے ان کی آوازیں بھی سنتے تھے۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ خود بیان کرتے ہیں:
قَدْ کَانَ یُسَلِّمُ عَلَيَّ.
مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب جاز التمتع، 2: 899 رقم: 1226
فرشتے مجھے سلام کیا کرتے ہیں۔
امام نووی ’صحیح مسلم‘ کی اسی حدیث کی شرح میں بیان کرتے ہیں:
وَکَانَتِ الْمَلَائِکَةُ تُسَلِّمُ عَلَیْهِ.
نووی، المنھاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج، کتاب الحج، باب جواز التمتمع، 8: 206
انہیں ملائکہ سلام کیا کرتے تھے۔
امام حاکم اپنی ’المستدرک‘ میں صحیح روایت کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ ہمیشہ ملائکہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ پر آ کر سلام کیا کرتے تھے، وہ خود بیان کرتے ہیں:
إِنَّهٗ کَانَتْ تُسَلِّمُ الْمَلَائِکَةُ عَلَيَّ عِنْدَ رَأْسِي، وَعِنْدَ الْبَیْتِ، وَعِنْدَ بَابِ الْحِجْرِ.
حاکم، المستدرک، 3: 536، رقم: 5994
بے شک فرشتے میرے سر کی طرف سے مجھے سلام کرتے تھے، میرے گھر کے اندر بھی سلام کرتے تھے، میرے دروازے پر بھی سلام کرتے تھے۔
بلکہ یہاں تک فرمایا کہ جب علالت ہوئی تو انہوںنے ایک خاص طریقے سے علاج کروایا، جو ان کے مقامِ تقویٰ کے لیے مناسب نہ تھا۔ فرماتے ہیں کہ اس سے ملائکہ نے سلام کرنا اور آ کر ملنا چھوڑ دیا۔ مجھے پریشانی لاحق ہوئی کہ ملائکہ کیوں ہٹ گئے ہیں۔ بعد ازاں میں نے وہ علاج ترک کر دیا۔ جیسے ہی علاج ترک کیا، ملائکہ پھر واپس آگئے اور سلام کرنے لگے۔ اس کے بعد یہ سلسلہ تا دمِ وفات جاری رہا۔
حضرت قتادہ (تابعی) روایت کرتے ہیں:
إِنَّ الْمَلَائِکَةُ کَانَتْ تُصَافِحُ عِمْرَانَ بْنَ حُصَیْنٍ.
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 4: 288
ملائکہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے ساتھ آ کر مصافحہ کیا کرتے تھے۔
حضرت یحییٰ بن سعید الکتان فرماتے ہیں:
مَا قَدِمَ عَلَیْنَا الْبَصْرَةَ مِنَ الصَّحَابَةِ أَفْضَلُ مِنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ رضی اللہ عنہ، أَتَتْ عَلَیْهِ ثَـلَاثُوْنَ السَّنَةَ تُسَلِّمُ عَلَیْهِ الْمَلَائِکَةُ مِنْ جَوَانِبِ بَیْتِهٖ.
1۔ أبو إسحاق شیرازی، طبقات الفقھاء: 33
2۔ سیوطی نے ’الخصائص الکبریٰ (2: 157)‘ میں کہا کہ اسے امام ابو نعیم نے بھی روایت کیا ہے۔
بڑے بڑے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بصرہ میں آئے مگر حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی شان والا کوئی صحابی بصرہ میں وارد نہیں ہوا، ان کی شان یہ تھی کہ تیس سال تک ملائکہ ان کے پاس آتے، مصافحہ کرتے، سلام کرتے اور ان کے گھروں کے چاروں اطراف سے سلام کیا کرتے تھے۔
یہی بات امام بیہقی نے ’دلائل النبوة‘ میں بھی روایت کی ہے، ان کے اہلِ خانہ کہتے:
وَنَسْمَعُ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ، وَلَا نَرٰی أَحَدًا.
ہم السلام علیکم کی آوازیں سنتے تھے، (لیکن السلام علیکم کہنے والا) کوئی نظر نہیں آتا تھا۔
یہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کا مقام کشف تھا کہ آپ کو فرشتوں کی زیارت ہوتی اور آپ ان سے مصافحہ بھی کرتے۔ وہ آپ کو السلام علیکم کہتے، آپ انہیں جواب دیتے اور یہ آواز ان کے علاوہ ان کے اہل خانہ بھی سنتے تھے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے ایک قبر پر اپنا خیمہ لگایا جبکہ انہیں معلوم نہ تھا کہ یہ قبر ہے۔ انہیں اچانک پتہ چلا کہ یہ قبر ہے اور اس میں کوئی آدمی سورة الملک پڑھ رہا ہے، یہاں تک کہ پڑھنے والے نے قبر کے اندر مکمل سورة الملک پڑھی۔ وہ صحابی رضی اللہ عنہ حضورنبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے اور سارا واقعہ گوش گزار کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ھِيَ الْمَانِعَةُ، ھِيَ الْمُنْجِیَةُ، تُنْجِیْهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ.
یہ (سورت عذاب کو) روکنے والی اور عذابِ قبر سے نجات دلانے والی ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے صحابی کی بات سن کر یہ نہیں فرمایا کہ قبر کے اندر موجود میت تو نظر نہیں آتی، وہ تو غیب ہوتا ہے اور تجھ پر غیب کیسے منکشف ہوگیا! بلکہ آپ ﷺ نے اس کی بات کے تسلسل میں فرمایا کہ ہاں سورة الملک پڑھنے سے عذاب قبر سے نجات مل جاتی ہے۔ آپ ﷺ جانتے تھے کہ بہت سے لوگ ہیں کہ جنہیں بذریعہ کشف علم حاصل ہوتا ہے۔
1۔ ہاشم بن محمد عمری حضرت عمر بن علی کی اولاد میں سے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: مدینہ منورہ میں جمعہ کے روز فجر اور سورج کے طلوع ہونے کے درمیان میرے والد مجھے شہداء اُحد کی قبروں کی زیارت کے لیے لے گئے۔ میں ان کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ جب وہ قبروں کے پاس پہنچے تو انہوں نے بلند آواز سے کہا:
سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ، فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ، قَالَ: فَأُجِیْبَ: وَعَلَیْکَ السَّلَامُ، یَا أَبَا عَبْدِ اللهِ.
تم پر سلامتی ہو تمہارے صبر کرنے کے صلہ میں، پس (اب دیکھو) آخرت کا گھر کیا خوب ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں: (انہیں) جواب دیا گیا: وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ یَا أَبَا عَبْدِ اللهِ!
ہاشم بن محمد عمری نے بتایا کہ سلام کا جواب سننے کے بعد میرے والد گرامی میری طرف متوجہ ہوئے اور مجھ سے پوچھا: اے میرے بیٹے، کیا میرے سلام کا جواب تم نے دیا ہے؟ میں نے کہا: نہیں! وہ بیان کرتے ہیں: یہ سنتے ہی میرے والد نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنی دائیں طرف کر لیا، اور ان شہداء پر دوبارہ سلام بھیجا۔ پھر جب بھی وہ انہیں سلام کرتے تو انہیں جواب ملتا، یہاں تک کہ انہوں نے یہ عمل تین مرتبہ دہرایا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد یہ رحمتِ الٰہی دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکر بجا لائے۔
2۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن ابی فروہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اُحد کے مقام پر شہداء کی قبروں کی زیارت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! بے شک تیرا بندہ اور تیرا نبی گواہی دیتا ہے کہ یہ شہداء ہیں اور قیامت کے دن تک جو شخص بھی ان کی زیارت کرے گا یا انہیں سلام کہے گا یہ اس کا جواب دیں گے۔
عطاف کہتے ہیں کہ میری خالہ نے مجھے بتایا کہ اس نے شہداء اُحد کی قبروں کی زیارت کی اور کہا کہ میرے ساتھ صرف دو غلام تھے جو میری سواری کی حفاظت کر رہے تھے۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے جب ان شہداء کو سلام کیا تو خود ان کے سلام کا جواب سنا۔ انہوں نے فرمایا:
وَاللهِ، إِنَّا نَعْرِفُکُمْ، کَمَا یَعْرِفُ بَعْضُنَا بَعْضًا، قَالَتْ: فَاقْشَعْرَرْتُ وَقُلْتُ: یَا غُـلَامُ، أَدْنِ بَغْلَتِي، فَرَکِبْتُ.
1۔ حاکم نے ’المستدرک، کتاب المغازي والسرایا، 3: 31، رقم: 4320)‘ میں فرمایا ہے کہ یہ مدنی سند صحیح ہے۔
2۔ بیہقي، دلائل النبوة، 3: 307
3۔ سیوطي، الخصائص الکبری، 1: 364
اللہ تعالیٰ کی قسم! ہم تمہیں ایسے ہی جانتے ہیں جیسے ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ (یہ سن کر) میں کانپ اٹھی اور میں نے (اپنے غلاموں میں سے ایک کو) کہا: اے غلام! میرا خچر میرے قریب لاؤ۔ پھر میں اس پر سوار ہوگئی۔
3۔ ایک روایت میں حضرت عطاف بن خالد بیان کرتے ہیں کہ میری خالہ ہمیشہ شہدائِ اُحد کی قبروں کی زیارت کیا کرتی تھیں۔ وہ بیان کرتی ہیں: ایک دن میں حسب معمول شہدائِ اُحد کی قبروں کی طرف گئی؛ میں حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر کے قریب اپنی سواری سے اتری اور نفل نماز کی اتنی رکعات پڑھیں جتنی اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی۔ اس وقت اس وادی میں نہ کوئی پکارنے والا تھا اور نہ ہی کسی کی پکار کا کوئی جواب دینے والا تھا، سوائے میرے غلام کے جو میری سواری کی لگام پکڑے کھڑا تھا۔ دریں حال جب میں اپنی نماز سے فارغ ہوئی تو میں نے اپنے ہاتھ سے یوں اشارہ کرتے ہوئے اَلسّلامُ عَلَیْکُمْ کہا۔ وہ کہتی ہیں کہ جیسے ہی میں نے سلام کیا:
فَسَمِعْتُ رَدَّ السَّلَامِ عَلَيَّ یَخْرُجُ مِنْ تَحْتِ الْأَرْضِ، أَعْرِفُهٗ کَمَا أَعْرِفُ کَمَا أَعْرِفُ أَنَّ اللهَ خَلَقَنِي، وَکَمَا أَعْرِفُ اللَّیْلَ مِنَ النَّهَارِ، فَاقْشَعَرَّتْ کُلُّ شَعْرَةٍ مِّنِّي.
میں نے اپنے سلام کا جواب سنا جو زمین کے نیچے سے آ رہا تھا۔ (یقینا) میں اس آواز کو یوں (ہی) پہچانتی ہوں جیسا کہ میں یہ جانتی ہوں کہ اللہتعالیٰ نے مجھے پیدا کیا اور جیسا کہ میں دن کے مقابلہ میں رات کو جانتی ہوں۔ چنانچہ (ان کا جواب سن کر) میرے جسم کا بال بال کانپ اٹھا۔
4۔ حضرت فاطمہ خزاعیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں سورج کے غروب ہونے کے بعد شہداء اُحد کی قبور کے پاس تھی اور میرے ہم راہ میری بہن بھی تھی۔ میں نے اسے کہا: آئو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر پر سلام کرتے ہیں۔اس نے کہا: ٹھیک ہے۔ ہم نے ان کی قبر پر کھڑے ہو کر کہا:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ، یَا عَمَّ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، فَسَمِعْنَا کَـلَامًا رَدَّ عَلَیْنَا: وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللهِ. قَالَتْ: وَمَا قُرْبَنَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ.
بیہقي، دلائل النبوة، 3: 309
اے رسول اللہ ﷺ کے چچا جان! آپ پر سلامتی ہو۔ (یہ کہنا تھا کہ) پھر ہم نے وہ کلام سنا جو انہوں نے ہمیں جواباً فرمایا (اور وہ یہ تھا: ) وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللهِ (اور تم پر بھی سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو)۔ اس وقت لوگوں میں سے ہمارے آس پاس کوئی شخص بھی نہ تھا۔
2۔ حضرت ابو حمزہ ثمالی بیان کرتے ہیں کہ وہ امام زین العابدین علی بن حسین d کی خدمت میں ملاقات کے لیے حاضر ہوے تو مجھے ناگوار گزراکہ میں آپ کے دروازہ پر دستک دے کر آپ کو باہر آنے کی زحمت دوں۔ لہٰذا میں وہیں انتظار میں بیٹھ گیا، حتی کہ آپ باہر تشریف لائے تو میں نے آپ کو سلام عرض کیا۔ آپ نے میرے سلام کا جواب دیا اور میرے لیے دعائیہ کلمات کہے۔ پھر آپ اپنے گھر کی ایک دیوار کے پاس رک گئے اور مجھ سے فرمایا: ابو حمزہ! اس دیوار کو دیکھتے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، اے ابن رسول اللہ! فرمایا: میں ایک دن پریشانی کے عالم میں اس دیوار سے ٹیک لگائے ہوئے تھا تو اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ ایک خوب صورت چہرے اور صاف ستھرے کپڑوں والا شخص میری طرف دیکھے جا رہا ہے۔ پھر وہ مجھ سے کہنے لگا: اے علی بن حسین! میں تمہیں پریشان اور غمگین دیکھ رہا ہوں، کیا بات ہے؟ کیا دنیا کے متعلق پریشان ہو؟ وہ تو موجود رزق ہے جسے ہر نیک و بد کھا رہا ہے۔
میں نے کہا: میں اس پر غمگین نہیں ہوں اس لیے کہ بات وہی ہے جو آپ نے کی ہے۔ پھر وہ شخص پوچھنے لگا: کیا آخرت کے متعلق کوئی پریشانی ہے؟ اس کے متعلق وعدہ سچا ہے۔ اس میں قہار بادشاہ فیصلہ کر دے گا۔ میں نے کہا: نہیں! آخرت کے لیے بھی پریشان نہیں ہوں کیوں کہ یقینا وہ اسی طرح ہے جیسے آپ کہہ رہے ہیں۔ پھر اس نے کہا: اے علی بن حسین! پھر آپ کی اداسی کی کیا وجہ ہے؟ میں نے کہا کہ میں ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی آزمائش سے خوف زدہ ہوں کیونکہ یزید ان کے بھی مخالف ہوگیا ہے۔ پھر اس نے مجھ سے کہا: اے علی! کیا آپ نے کسی کو دیکھا ہے جس نے اللہ تعالیٰ سے مانگا ہو اور مالکِ کون و مکاں نے اسے نہ دیا ہو؟ میں نے کہا: نہیں۔ پھر اس نے کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرا ہو اور وہ اس کے لیے کافی نہ ہوا ہو؟ میں نے کہا: نہیں، یہ کہہ کر وہ شخص میرے سامنے سے غائب ہوگیا ۔ پھر مجھے بتایا گیا:
هٰذَا الْخَضِرُ علیه السلام نَاجَاکَ.
(اے علی!) یہ خضر علیہ السلام تھے جو آپ سے سرگوشی کر رہے تھے۔
2۔ حضرت ابو حمزہ ثمالی بیان کرتے ہیں کہ میں امام علی بن حسین d کے پاس موجود تھا کہ چڑیاں ان کے ارد گرد آکر اڑنے لگیں اور وہ آوازیں نکال رہی تھیں۔ انہوں نے فرمایا کہ ابوحمزہ! جانتے ہو یہ چڑیاں کیا کہہ رہی ہیں؟ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے فرمایا:
فَإِنَّهَا تُقَدِّسُ رَبَّهَا ل، وَتَسْأَلُهٗ قُوْتَ یَوْمِهَا.
أبو نعیم، حلیة الأولیاء، 3: 140
یہ اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی بیان کر رہی ہیں اور اس سے اپنے آج کے دن کا رزق مانگ رہی ہیں۔
1۔ حضرت ریاح بن عبیدہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے ہاتھوں کا سہارا لے کر چلتے ہوئے دیکھا۔ میں نے اپنے دل میں کہا: بے شک یہ آدمی بے ادب ہے۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے ان سے پوچھا: یہ آدمی کون تھا جو ابھی ابھی آپ کے ہاتھ کا سہارا لیے ہوئے تھا؟ آپ نے فرمایا:
فَهَلْ رَأَیْتَهٗ، یَا رِیَاحُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ. قَالَ: مَا أَحْسِبُکَ إِلَّا رَجُـلًا صَالِحًا. ذَاکَ أَخِي الْخَضِرُ. بَشَّرَنِي أَنِّي سَأُوَلّٰی وَأَعْدِلُ.
() 1۔ لالکائي، کرامات الأولیاء: 168-169، رقم: 123
2۔ فسوی، في المعرفة والتاریخ، 1: 321
3۔ آجری، في أخبار أبي حفص عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ : 52
4۔ أبو نعیم، حلیة الأولیاء، 5: 254
5۔ ابن عساکر، تاریخ مدینة دمشق، 16: 432
6۔ ذہبي، میزان الاعتدال، 3: 175
7۔ ذہبي، تذکرة الحفاظ، 1: 120
8۔ عسقلاني نے ’فتح الباری (6: 435)‘ میں کہا ہے: یہ سند جید کے ساتھ خبر ہے، اثر نہیں ہے۔
9۔ عسقلاني، الزہر النضر في أخبار الخضر: 150
10۔ أبو الحسن الکناني، تنزیہ الشریعة، 1: 236، رقم: 19
11۔ مبارکپوری نے ’تحفة الأحوذي (6: 433)‘ مبارکپوری نے ’تحفة الأحوذی‘ میں کہا ہے کہ اس کے راویوں میں کوئی عیب نہیں ہے۔ میرے پاس آج تک کوئی خبر اور اثر اتنی عمدہ سند کے ساتھ نہیں آئی جتنی عمدہ سند کے ساتھ یہ روایت آئی ہے۔
اے ریاح! کیا تو نے اسے دیکھا ہے؟ میں نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: میںتمہیں ایک نیک شخص ہی گمان کرتا ہوں، وہ میرے بھائی خضر علیہ السلام تھے۔ انہوں نے مجھے خوش خبری دی کہ بے شک عنقریب مجھے خلافت سے نوازا جائے گا اور میں عدل کروں گا۔
امام ابو الحسن کِنانی نے فرمایا ہے کہ حافظ ابن حجر عسقلانی کے بیان کے مطابق ریاح بن عبیدہ کی یہ حدیث حضرت خضر علیہ السلام کی بقاء (عمر جاوداں) کے باب میں وارد ہونے والی احادیث میں سے صحیح ترین ہے۔ میں کہتا ہوں کہ حضرت ریاح کے بارے میں اگرچہ ابن مبارک نے کلام کیا ہے، لیکن ابن معین، ابو زرعہ، نسائی اور ابن حبان نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے اور اللہ تعالیٰ بہتر جاننے والا ہے۔
أبو الحسن الکناني، تنزیہ الشریعة، 1: 236، رقم: 19
2۔ حضرت رجاء بن حیوہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے اپنے مرض وفات میں کہا: تو ان لوگوں میں شریک ہونا جو مجھے غسل دیں گے، مجھے کفن پہنائیں گے اور میری قبر میں اتریں گے۔ جب تم مجھے میری لحد میں اتار دو تو میرے کفن کی گرہیں کھول دینا اور پھر میرے چہرے کو دیکھنا۔ حضرت رجاء بن حیوہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک میں نے حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ سے قبل تین اُمراء سلطنت کو دفنایا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کو جب میں نے لحد میں رکھا اور گرہ کھولی، پھر اس کے چہرے کو دیکھا تو اس کا چہرہ سیاہ اور قبلہ کے علاوہ کسی اور سمت میں تھا۔ رجاء نے کہا:
فَکُنْتُ فِیْمَنْ غَسَّلَ عُمَرَ وَکَفَّنَهٗ، وَدَخَلَ فِي قَبْرِهٖ. فَلَمَّا حَلَلْتُ الْعُقْدَةَ، نَظَرْتُ إِلٰی وَجْهِهٖ، فَإِذَا وَجْهُهٗ کَالْقَرَاطِیْسِ إِلَی الْقِبْلَةِ.
میں ان لوگوں میں شریک تھا جنہوں نے حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کو غسل دیا، کفن پہنایا اور ان کی قبر میں داخل ہوئے، چنانچہ جب میں نے ان کے کفن کی گرہ کھول کر ان کے چہرہ کو دیکھا، تو ان کا چہرہ مصحف کے اوراق کی طرح روشن اور قبلہ رخ تھا۔
شام کے محدث اور فقیہ حضرت سعید بن عبد العزیز سے روایت ہے کہ جب ایامِ حرّہ (جن دنوں یزید نے مدینہ منورہ پر حملہ کروایا تھا) کا واقعہ پیش آیا تو مسجد نبوی میں تین دن تک اذان اور اقامت نہیں کہی گئی تھی۔ جبکہ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ نے (جو جلیل القدر تابعی ہیں اور جنہوں نے مسجدِ نبوی میں پناہ لی ہوئی تھی، تین دن تک) مسجد نہیں چھوڑی تھی۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی لحد مبارک سے آنے والی اذان کی آواز سے آپ کو نماز کے اوقات کا علم ہو جاتا تھا۔ روایت کے الفاظ ہیں:
وَکَانَ لَا یَعْرِفُ وَقْتَ الصَّـلَاةِ إِلَّا بِھَمْھَمَةٍ، یَسْمَعُھَا مِنْ قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ.
وہ نماز کا وقت ایک دھیمی آواز کے ذریعے ہی جان پاتے تھے جسے وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی قبر انور سے سنتے تھے۔
ایک روایت میں حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا:
لَمْ أَزَلْ أَسْمَعُ الْأَذَانَ وَالإِقَامَةَ فِي قَبْرِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَیَّامَ الْحَرَّةِ، حَتّٰی عَادَ النَّاسُ.
میں ایام حَرّہ کے دوران مسلسل رسول اللہ ﷺ کی قبرِ اَنور سے اَذان اور اِقامت کی آواز سنتا رہا، یہاں تک کہ لوگ معمول کی صورت حال پر واپس لوٹ آئے (یعنی مسجد نبوی میں باقاعدہ اَذان و اِقامت شروع ہوگئی)۔
یہ حضرت سعید بن مسیب کا کشف تھا، جو اُنہیں عطا کیا گیا۔
ابو عبد اللہ نے بیان کیا ہے کہ ایک آدمی حضرت سفیان ثوری کے پاس حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: آپ امام اوزاعی کو لکھیں کہ وہ مجھے حدیث روایت کریں۔ حضرت سفیان ثوری نے بذریعہ کشف دیکھ لیا کہ امام اوزاعی کے وصال کا وقت قریب آ چکا ہے اور اس شخص کی ان سے ملاقات نہ ہو پائے گی۔ آپ نے اس لیے اسے جواب دیا:
أَمَا إِنِّي أَکْتُبُ لَکَ إِلَیْهِ وَلَا أَرَاکَ تَجِدُهٗ إِلاَّ مَیْتًا، لِأَنِّي رَأَیْتُ رَیْحَانَةً رُفِعَتْ مِنْ قِبَلِ الْمَغْرِبِ۔ وَلَا أُرَاهُ إِلاَّ لِمَوْتِ الأَوْزَاعِيِّ، فَأَتَاهُ فَإِذَا هُوَ قَدْ مَاتَ.
میں انہیں تمہارے لیے لکھ دیتا ہوں، لیکن میرا نہیں خیال کہ تم انہیں زندہ پا لو گے، کیونکہ میں نے ایک گلدستہ دیکھا جو مغرب کی طرف سے اٹھا لیا گیا ہے: میرے خیال میں یہ اوزاعی کی موت کی طرف اشارہ ہے، پھر وہ شخص امام اوزاعی کے پاس آیا تو آپ وفات پا چکے تھے۔
محمد بن مبارک صوری سے مروی ہے کہ میں بیت المقدس جاتے ہوئے حضرت ابراہیم بن ادھم کے ساتھ تھا۔ ہم نے قیلولہ کے وقت انار کے درخت کے نیچے پڑاؤ ڈالا اور نماز کی چند رکعات ادا کیں۔ تھوڑی دیر بعد چھوٹے قد والے انار کے درخت کی جڑ سے میں نے آواز سنی: اے ابو اسحاق! مہربانی فرما کر میرا کچھ پھل کھا لو! یہ سن کر ابراہیم بن ادھم نے اپنا سر نیچے کر لیا۔ اس درخت نے یہی بات تین بار دہرائی، پھر اس نے کہا: اے محمد! میری سفارش کر دیں کہ میرا تھوڑا سا پھل کھا لیں۔ میں نے کہا: اے ابو اسحاق! میں نے سن لیا ہے، چنانچہ آپ نے اُٹھ کر دو انار لیے۔ ان میں سے ایک خود کھایا اور دوسرا مجھے دے دیا۔ میں نے کھایا، تو وہ انار ترش تھا۔ کچھ عرصہ بعد واپسی پر ہم وہاں سے گزرے اور اس انار کے پودے کو دیکھا:
فَإِذَا هِيَ شَجَرَة عَالِیَة، وَرُمَّانُهَا حُلْوٌ۔ وَهِيَ تُثْمِرُ فِي کُلِّ عَامٍ مَرَّتَیْنِ۔ وَسَمُّوْھَا ’رُمَّانَةَ الْعَابِدِیْنَ‘ وَیَأْوِي إِلٰی ظِلِّهَا الْعَابِدُوْنَ.
1۔ قشیری، الرسالة: 504
2۔ یافعي، مرأة الجنان، 1: 350
3۔ سبکي، طبقات الشافعیة الکبری، 2: 339
4۔ ابن الملقن نے ’حدائق الأولیاء (2: 514-515)‘ میں کہا ہے کہ یہ مشہور حکایت ہے۔
وہ ایک بلند درخت (بن چکا) تھا اور اب اس کے انار میٹھے تھے اور اس پر سال میں دو بار پھل لگتا تھا۔ لوگ اسے رمان العابدین (عابدوں کا انار) کہتے اور عابد لوگ اس کے سایہ میں پناہ لیتے۔
اس روایت سے جہاں حضرت ابراہیم بن ادھم کے صاحب کشف کا ثبوت ملتا ہے کہ آپ بذریعہ کشف پودوں کی آواز سن اور سمجھ لیتے تھے، وہاں ایک یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اہل اللہ یعنی حضرت ابراہیم بن ادھم کی برکت سے اس پودے کی نہ صرف نشوونما میں اضافہ ہوا بلکہ اس کے پھل کا ذائقہ بھی ترش سے شیریں ہوگیا۔
امام ابو الحسین نوری اپنے دور کے ممتاز بزرگوں میں سے ہوئے ہیں، جنہیں تمام مشائخ نے عظمت و مرتبت کے اعتبار سے امیر القلوب کا خطاب عطا کیا۔ آپ حضرت سری سقطی کے شیخ اور حضرت جنید بغدادی کے ہم عصر تھے۔
فاطمہ جو کہ ابو حمزہ محمد بن ابراہیم، جنید بن محمد اور ابو الحسین نوری کی خادمہ ہیں اور جس کو زیتونہ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا، بیان کرتی ہیں: میں ایک دن ابو الحسین النوری کے پاس آئی اور وہ سخت سردی اور تیز ہوا والا دن تھا، میں نے انہیں مسجد میں تنہا بیٹھے ہوئے پایا، تو میں نے انہیں کہا: میں آپ کے پاس کھانے کے لیے کوئی چیز لے آؤں؟ آپ نے کہا: ہاں، لاؤ، میں نے کہا: آپ کیا پسند کریں گے تاکہ میں آپ کے لیے وہی لے کر آؤں؟ آپ نے فرمایا: روٹی اور دودھ۔ میں نے کہا: اس طرح کا ٹھنڈا دن کہ آپ جمنے کے قریب ہیں، میں آپ کے لیے کوئی اور چیز لے آتی ہوں، آپ نے فرمایا: ہر چیز تمہاری طرف سے فالتو ہوگی، جو میں نے تمہیں کہا ہے وہی لے کر آؤ، میں ان کے لیے ایک پیالے میں دودھ اور روٹی لے کر آئی اور اسے آپ کے سامنے رکھتے ہوئے ساتھ ہی آگ کی انگیٹھی بھی رکھ دی۔ وہ اپنے ہاتھ سے آگ کو پلٹتے اور تاپتے، پھر انہوں نے روٹی کو دودھ کے ساتھ کھانا شروع کر دیا، جب لقمہ پکڑتے تو دودھ ان کی کلائی پر گر جاتا، اور پھر آپ اپنی کلائی سے دھوئیں کی سیاہی کو صاف کرتے، میں نے اپنے دل میں کہا: اے میرے رب! تیرے اولیاء کتنے میلے کچیلے ہیں، تو ان میں سے کسی کو صاف لباس اور بدن والا نہیں دیکھے گا۔
میں ان کے پاس سے نکلی اور حضرت ابراہیم خواص کی مسجد کے قریب ایک دکان پر بیٹھ گئی، اور اس کی ایک طرف قریب ہی پولیس افسر کی چوکی تھی۔ جب میں وہاں بیٹھی تھی، تو اچانک ایک عورت نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور کہا: میری گٹھڑی تو نے ابھی ابھی میرے سامنے سے اٹھا لی ہے، اور تیرے علاوہ کسی نے نہیں اٹھائی۔ لوگ ہمارے ارد گرد جمع ہوگئے، اور وہ عورت چلا رہی تھی، میری گٹھڑی اس کے علاوہ کسی نے نہیں اٹھائی، بات پولیس افسر تک پہنچ گئی، پولیس والے آئے اور مجھے اٹھا لیا اور وہ عورت میرے ساتھ چمٹی ہوئی تھی، پولیس والا ہمیں حاکم (جج) کے پاس لے گیا اور یہ بات حضرت ابو الحسین النوری تک بھی پہنچ گئی، لہٰذا وہ مسجد سے نکلے اور ہمارے پیچھے پیچھے چلے آئے۔ جب ہم حاکم کے سامنے تھے اور عورت مجھ پر اپنی گٹھڑی چوری کرنے کا دعویٰ کر رہی تھی، تو امام نوری اندر داخل ہوئے اور حاکم سے کہا: اس عورت کو کچھ نہ کہنا، بے شک یہ بے قصور ہے۔ حکمران کو ابوالحسین النوری کا تعارف کرایا گیا تو وہ چیخ کر بولا: چونکہ اس کے ساتھ اس کی مدعیہ موجود ہے اس لیے میں اس معاملے میں بے بس ہوں۔ پھر امام نوری نے اسے کہا: میں نے تمہیں حقیقت بتا دی اب تو بہتر جانتا ہے، یہ کہہ کر آپ چلے گئے۔ ابھی ان کا معاملہ اسی طرح چل ہی رہا تھا کہ اچانک ایک سیاہ فام باندی آگے بڑھی اور کہنے لگی: اے عورت! اس خاتون کو چھوڑ دو کیوں کہ وہ گٹھڑی میں اٹھا کر اپنے گھر لے گئی تھی۔ مدعیہ عورت نے پوچھا کہ تو نے وہ کہاں سے لی تھی؟ سیاہ فام باندی نے جواب دیا: میں نے وہ گٹھڑی تمہارے سامنے سے ہی اٹھائی تھی۔ حضرت نوری کی باندی فاطمہ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:
قُوْلِي أَنْتِ: مَا أَوْضَرَ أَوْلِیَائَکَ.
اب کہو: (اے اللہ!) تیرے اولیاء کتنے میلے کچیلے ہیں (اللہ نے تمہیں اپنے اولیاء سے نفرت کی سزا دی ہے)۔
امام ابو الحسین نوری نے بذریعہ کشف جان لیا کہ ان کی باندی بے قصور ہے اسی لیے انہوں نے اس کی بے گناہی کی گواہی دی۔ دوسری اہم بات جو اس واقعہ میں بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اولیاء اللہ کی شان میں گستاخی اللہ تعالیٰ کو بھی گوارا نہیں ہوتی۔ اسی لیے امام نوری کی باندی کو گستاخی کی سزا یہ ملی کہ اس پر چوری کا الزام لگا اور اسے جج کے سامنے پیش ہونا پڑا۔
1۔ شیخ اسماعیل بن محمد الحضرمی شافعی عالم، محدث اور اولیاء اللہ میں سے ہیں۔ آپ جلیل القدر تابعی ہیں۔ امام محب طبری نے روایت کیا ہے کہ شیخ اسماعیل حضرمی سے مروی ہے، جب وہ یمن کے علاقے زبید کے قبرستان میں تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ صاحب قبر مجھے کہہ رہا ہے:
أَنَا فُلَانُ ابْنُ فُلَانٍ مِنْ حَشْوِ الْجَنَّةِ.
میں فلاں بن فلاں جنت کے وسط میں سے ہوں۔
امام سیوطی فرماتے ہیں کہ امام یافعی نے محب طبری جو کہ شوافع کے ائمہ میں سے ایک امام ہیں اور ’التنبیہ‘ کے شارح ہیں، سے روایت کیا ہے کہ وہ شیخ اسماعیل الحضرمی کے ساتھ زبید کے قبرستان میں تھے، محب بیان کرتے ہیں کہ آپ نے مجھے فرمایا: اے محب الدین! کیا تو فوت شدگان کے کلام پر ایمان رکھتا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: یہ قبر والا مجھے کہہ رہا ہے: میں جنت کے بیچ میں سے ہوں۔
2۔ ایک روایت میں ہے: آپ قبرستان میں سے گزر رہے تھے اور آپ کے ساتھ لوگوں کی ایک جماعت بھی تھی، تو آپ بہت زیادہ روئے، پھر فوراً ہنسنے لگے۔ آپ سے اس بارے میں پوچھا گیا، توآپ نے فرمایا: میںنے اس قبرستان والوں کو دیکھا کہ انہیں عذاب دیا جا رہا ہے، لہٰذا میں رو دیا، پھر میں نے اپنے رب تعالیٰ سے سوال کیا کہ وہ میری شفاعت ان کے حق میں قبول فرمائے، اس نے میری شفاعت قبول فرمائی۔ - اور آپ نے ایک پرانی کھودی ہوئی قبر کی طرف اشارہ کیا - اور اس قبر والی نے کہا:
وَأَنَا مَعَھُمْ یَا فَقِیْهُ إِسْمَاعِیْلُ، أَنَا فُـلَانَةُ الْمُغَنِّیَةُ، فَضَحِکْتُ وَقُلْتُ: وَأَنْتِ مَعَھُمْ۔ قَالَ: ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَی الْحَفَّارِ، وَقَالَ: هٰذَا قَبْرُ مَنْ؟ فَقَالَ: قَبْرُ فُـلَانَةَ الْمُغَنِّیَةِ.
اے فقیہ اسماعیل! میں فلاں مغنیہ (گانے بجانے والی) بھی ان کے ساتھ ہوں، اس پر میں ہنس پڑا اور کہا: تو بھی ان کے ساتھ ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر آپ نے گورکن کو بلا بھیجا اور فرمایا: یہ قبر کس کی ہے؟ اس نے کہا: فلاں مغنیہ (گانے بجانے والی) کی۔
1۔ شیخ عزالدین اَحمد بن عمر الفاروقی بیان کرتے ہیں کہ شیخ شہاب الدین السہروردی نے فرمایا: میں نے ارادہ کیا کہ میں علم کلام میں سے کچھ پڑھوں لیکن میں متردد تھا کہ میں امام الحرمین الجوینی کی کتاب الإرشاد کا مطالعہ کروں یا شہرستانی کی نھایة الإقدام کا، یا پھر اپنے شیخ کی کتاب پڑھوں۔ چنانچہ میں اپنے ماموں اور شیخ حضرت ابونجیب کے ساتھ شیخ جیلان رضی اللہ عنہ کے پاس گیا جو شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے پاس بلا ناغہ نماز پڑھا کرتے تھے۔ فرماتے ہیں: شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے توجہ فرمائی اور مجھے فرمایا:
یَا عُمَرُ، مَا هُوَ مِنْ زَادِ الْقَبْرِ، مَا هُوَ مِنْ زَادِ الْقَبْرِ، فَرَجَعْتُ عَنْ ذَلِکَ.
اے عمر! اس کا تعلق قبر کے زادِ راہ سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق قبر کے زادِ راہ سے نہیں ہے۔ لہٰذا میں نے اس کام سے (یعنی کتبِ علم الکلام پڑھنے سے) رجوع کرلیا۔
علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
فَأَخْبَرَ أَنَّ الشَّیْخَ کَاشَفَهٗ بِمَا کَانَ فِي قَلْبِهٖ، وَنَهَاهُ عَنِ الْکَلَامِ، الَّذِي کَانَ یَنْسُبُ إِلَیْهِ الْقُشَیْرِيُّ وَنَحْوُهٗ.
ابن تیمیة، الاستقامة: 87
انہوں نے بتایا کہ شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے جو کچھ ان کے دل میں تھا اس کا مکاشفہ کیا اور انہیں اس کلام سے روک دیا جو قشیری اور دیگر آپ کی طرف منسوب کرتے تھے۔
2۔ اسی طرح ابو محمد بن خشاب نحوی بیان کرتے ہیں: جب میں جوانی میں نحو پڑھا کرتا تھا۔ اس وقت لوگوں سے شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے حسنِ کلام کی تعریف سنا کرتا تھا، اس لیے میں چاہتا تھا کہ آپ کو سنوں، لیکن وقت مجھے اجازت نہ دیتا تھا۔ ایک روز اچانک میں آپ کے درس میں حاضر ہوگیا۔ جب آپ نے کلام کیا تو مجھے آپ کی گفتگو میں نہ حسن نظرآیا اور نہ میں اسے اچھی طرح سمجھ پایا۔ لہٰذا میں نے اپنے دل میں کہا کہ میرا آج کا دن ضائع ہوگیا، آپ نے میری قلبی کیفیات پر مطلع ہو کر میری طرف توجہ فرمائی اور فرمایا:
وَیْلَکَ تُفَضِّلُ النَّحْوَ عَلٰی مَجَالِسِ الذِّکْرِ وَتَخْتَارُ ذٰلِکَ؟ اِصْحَبْنَا نُصَیِّرْکَ سِیْبَوَیْهِ.
افسوس، تو محافلِ ذکر پر نحو کو فضیلت دیتا ہے اور اُسے اختیار کرتا ہے؟ تو ہماری صحبت اختیار کر ہم تجھے (نحو کا امام) سیبویہ بنا دیں گے۔
3۔ ابو بکر العماد بیان کرتے ہیں: میں اصولِ دین (یعنی علم العقیدہ والکلام) کے اسباق پڑھتا تھا کہ اس دوران میرے دل میں عقیدے کے حوالے سے کچھ خلش پیدا ہوئی۔ میں نے سوچا کہ شیخ عبد القادر کے درس میں جاتا ہوں چونکہ ان کے متعلق مشہور ہے کہ وہ قلبی اَحوال جانتے ہیں۔ لہٰذا میں آپ کی مجلس میں حاضر ہوا۔ آپ نے کلام کرتے ہوئے فرمایا: ہمارا عقیدہ وہی ہے جو سلف صالحین اور صحابہ کا ہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا: یہ جملہ آپ نے اتفاقیہ بولا ہے، آپ نے پھر گفتگو کرتے ہوئے میری سمت متوجہ ہو کر اپنا جملہ دہرایا۔ میں نے پھر سوچا: واعظ اِدھر اُدھر توجہ کیا ہی کرتا ہے۔ آپ نے تیسری مرتبہ میری طرف توجہ کر کے فرمایا:
یَا أَبَا بَکْرٍ! فَأَعَادَ الْقَوْلَ ثُمَّ قَالَ: قُمْ قَدْ جَاءَ أَبُوْکَ، وَکَانَ غَائِبًا. فَقُمْتُ مُبَادِرًا وَإِذَا أَبِي قَدْ جَاءَ.
ابو بکر! اور اپنا (وہی) جملہ ارشاد فرمانے کے بعد کہا: جاؤ، تمہارا باپ آ گیا ہے۔ جو (کافی عرصہ سے گھر سے) غائب تھا، میں جلدی جلدی کھڑا ہوا اور جا کر دیکھا تو میرے والد (گھر واپس) آ چکے تھے۔
1۔ ابراہیم بن شیبان بیان کرتے ہیں: ایک مرید میرے پاس آیا اور میرے ہاں بیمار پڑگیا، پھراسی دوران وہ فوت ہوگیا، جب میں اس کی قبر میں اترا تو میں نے ارادہ کیا کہ اس کے رخسار کو ننگا کروں اور اسے مٹی پر عاجزی و انکساری کے ساتھ رکھ دوں، شاید اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے۔ وہ میری طرف دیکھ کر مسکرایا اور مجھے کہا:
تُذَلِّلُنِي بَیْنَ یَدَي مَنْ یُدَلِّلُنِيْ، قَالَ: قُلْتُ: لَا، یَا حَبِیْبِي، أَحَیَاة بَعْدَ الْمَوْتِ؟ فَأَجَابَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ أَحِبَّائَ هٗ لَا یَمْلِکُوْنَ، وَلٰـکِنْ یُنْقَلُوْنَ مِنْ دَارٍ إِلٰی دَارٍ.
کلاباذی، التعرف لمذہب أھل التصوف: 158
آپ مجھے اس کے سامنے بے وقعت کر رہے ہیں جو میرے ناز اٹھا رہا ہے! میں نے کہا: نہیں میرے دوست (یہ بات نہیں)، کیا موت کے بعد بھی زندگی ہے؟ اس نے جواب دیا: بے شک اس کے دوست کسی چیز کے مالک نہیں، لیکن وہ ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل کر دیے جاتے ہیں۔
2۔ ایک روایت میں حضرت ابو علی روذباری بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک فقیر آیا اور فوت ہوگیا۔ میں نے اس کی تجہیز و تکفین کی، جب قبر میں رکھنے کے لیے میں نے اس کا چہرہ کھولا کہ اس کو عاجزی و انکساری کی خاطر مٹی پر رکھ دوں، تاکہ اللہ تعالیٰ اس کی غریب الوطنی پر رحم فرمائے۔ اس نے اچانک آنکھیں کھولیں اور کہا:
یَا أَبَا عَلِيٍّ، أَتُذَلِّلُنِي بَیْنَ یَدَي مَنْ دَلَّلَنِي؟ فَقُلْتُ: یَا سَیِّدِي، أَحَیَاة بَعْدَ مَوْتٍ؟ فَقَالَ لِي: بَلٰی، أَنَا حَيٌّ، وَکُلُّ مُحِبٍّ لِلّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ، حَتیّٰ لَأَنْصُرَنَّکَ غَدًا بِجَاهِي یَا رُوْذَبَارِيُّ.
ابو علی! کیا تو مجھے اس رب کے سامنے بے وقعت کرنا چاہتا ہے، جس نے میرے ناز اٹھائے ہیں۔ میں نے کہا: جناب عالی! کیا موت کے بعد بھی زندگی؟ اس نے جواب دیا: میں زندہ ہوں اور اللہ عز وجل کا ہر محب زندہ ہوتا ہے۔ (اللہ کے ہاں) اپنی جاہ و منزلت کے ذریعہ میں قیامت کے دن تمہاری مدد کروں گا۔
3۔ حضرت ابو یعقوب سوسی بیان کرتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں ایک مرید میرے پاس آیا اور کہا: اے استاد! میں کل ظہر کے وقت فوت ہو جاؤں گا، یہ دینار لے لیں، آدھے سے میرے لیے قبر کھدوائیں اور آدھے پیسوںسے مجھے کفن پہنائیں، چنانچہ جب دوسرا دن ہوا، اس نے آ کر خانہ کعبہ کا طواف کیا اور پھر دور ہٹ کر فوت ہوگیا۔ میں نے اسے غسل دیا، کفن پہنایا اور لحد میں رکھ دیا۔ اسی دوران اس نے آنکھیں کھولیں: میں نے کہا: کیا موت کے بعد بھی زندگی ہے؟ اس نے جواب دیا:
أَنَا مُحِبٌّ، وَکُلُّ مُحِبٍّ لِلّٰهِ حَيٌّ.
(ہاں) میں زندہ ہوں اور اللہ کا ہر محب زندہ ہوتا ہے۔
4۔ امام ابو الحسین قیروانی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو الخیر اقطع تیناتی کی زیارت کے لیے گیا۔ جب میں ان کے پاس سے روانہ ہونے لگا، تو وہ میرے ساتھ مسجد کے دروازے تک نکل کر آئے اور فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ آپ اپنے ساتھ کوئی چیز نہیں رکھتے، مگر یہ دو سیب اپنے ساتھ لے جاؤ۔ میں نے انہیں لے کر اپنی جیب میں رکھ لیا اور چل پڑا، جب تین دن تک مجھے کوئی چیز نہ ملی، تو میں نے ایک سیب نکال کر کھا لیا۔ پھر کچھ دیر بعد دوسرا نکالنا چاہا، تو دیکھا دونوں سیب میری جیب میں موجود تھے۔ سو موصل کے دروازے تک میں ان دونوں سیبوں میں سے کھاتا رہا اور دونوں ویسے کے ویسے رہے، اس پر میں نے دل میں کہا کہ یہ سیب تو میری توکل کی حالت کو خراب کر دیں گے۔ کیونکہ مجھے ان کا حال معلوم ہو چکا ہے۔ میں نے ان دونوں کو ایک ہی دفعہ جیب سے نکال لیا اور ادھر ادھر دیکھا، تو ایک فقیر چادر میں لپٹا ہوا دکھائی دیا، جو یہ کہہ رہا تھا کہ مجھے اس سیب کی خواہش ہے۔ چنانچہ میں نے دونوں سیب اسے دے دیئے۔ جب میں آگے نکل گیا۔
وَقَعَ لِي أَنَّ الشَّیْخَ إِنَّمَا بَعَثَهِمَا إِلَیْهِ، وَکُنْتُ فِي رَفْقَةٍ فِي الطَّرِیْقِ، فَانْصَرَفْتُ إِلَی الْفَقِیْرِ فَلَمْ أَجِدْهُ.
میرے دل میں خیال آیا کہ شیخ نے یہ سیب تو اسی آدمی کے لیے بھیجے تھے۔ اس وقت میرے ساتھ اور ساتھی بھی تھے، میں لوٹ کر اس فقیر کی طرف آیا تو اسے وہاں موجود نہ پایا۔
5۔ ابو العباس حضرت خضر علیہ السلام سے روایت کیا گیا ہے کہ ابدال میں سے کسی نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے درجے میں اپنے سے بڑھ کر کوئی ولی اللہ بھی دیکھا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، میں مدینہ منورہ میں رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں داخل ہوا تو امام عبد الرزاق کو دیکھا کہ ان کے گرد لوگوں کی ایک جماعت مسجد میں رسول اللہ ﷺ کی احادیث سن رہی تھی۔ ایک نوجوان اپنے گھٹنوں پہ اپنا سر رکھ کے بیٹھا ہوا تھا، میں نے اس سے کہا: اے نوجوان! کیا تو لوگوں کو نہیں دیکھ رہا کہ وہ امام عبد الرزاق سے رسول اللہ ﷺ کی احادیث سن رہے ہیں، ان کے ساتھ تم کیوں نہیں سن رہے؟ اس نے میری طرف سر اٹھایا اور میری طرف توجہ کی، پھر اس نے کہا: کچھ ایسے بھی ہیں جو عبد الرزاق سے سنتے ہیں، اور کچھ ایسے بھی ہیں جو براهِ راست رزاق (ربّ تعالیٰ) سے سنتے ہیں، اس کے بندوں سے نہیں سنتے۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا: میں نے اس سے کہا: جو کچھ تو کہہ رہاہے سچ ہے، تو پھر یہ بتاؤ میں کون ہوں؟ اس نے اپنا سر اٹھایا اور میری طرف دیکھ کر کہا: اگر فراست حق ہے، تو آپ حضرت خضر ہیں۔ حضرت خضر علیہ السلام فرماتے ہیں:
فَعَلِمْتُ أَنَّ لِلّٰهِ أَوْلِیَاءَ لَا أَعْرِفُھُمْ لِعُلُوِّ رُتْبَتِھِمْ.
تب میں جان گیا کہ اللہ تعالیٰ کے بعض اولیاء ایسے بھی ہیں، جن کے علو مرتبت کے باعث میں بھی انہیں نہیں جانتا۔
6۔ حضرت ابراہیم خواص بیان کرتے ہیں کہ میں نے بصرہ کے بازار میں ایک غلام کو دیکھا جس پر یہ ندا لگائی جا رہی تھی: اس غلام کو کون خریدے گا؟ میں نے بیچنے والے سے کہا: یہ غلام کتنے کا ہے؟ اس نے کہا: جو آپ دے دیں، کیونکہ یہ پاگل ہے۔ میں نے اس کی قیمت ادا کر دی اور اپنے دل میں کہا: اے اللہ! میں نے اسے تیری رضا کے لیے آزاد کیا۔ اچانک وہ میری طرف متوجہ ہوا اور کہا:
یَا إِبْرَاهِیْمُ، إِنْ کُنْتَ أَعْتَقْتَنِي فِي الدُّنْیَا فَقَدْ أَعْتَقَکَ اللهُ فِي الْآخِرَةِ مِنَ النَّارِ، ثُمَّ غَابَ عَنِّي، فَلَمْ أَرَهٗ.
ابن الملقن، حدائق الأولیاء، 2: 555
اے ابراہیم! اگر تو نے مجھے دنیا میں آزاد کیا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے آخرت میں آگ سے آزاد کرے گا، پھر وہ مجھ سے غائب ہوگیا، اس کے بعد میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔
7۔ امام ابن ناصر الدین دمشقی بیان کرتے ہیں کہ مجھے اس شخص نے بتایا ہے جس نے ابن رجب کی قبر کھودی تھی کہ شیخ زین الدین بن رجب اپنی وفات سے چند روز قبل میرے پاس تشریف لائے اور مجھے کہا: میرے لیے قبر کھود دو، اور اپنے ہاتھ سے زمین کے اس ٹکڑے کی طرف اشارہ کیا جس میں وہ آج مدفون ہیں۔ اس نے بیان کیا کہ جب میں ان کے لیے قبر کھود کر فارغ ہوا تو آپ قبر میں اُترے اوراس میں لیٹ گئے، انہیں قبر پسند آئی اور فرمایا: یہ اچھی ہے۔ پھر باہر نکل آئے۔ وہ شخص بیان کرتا ہے:
فَوَاللهِ، مَا شَعَرْتُ بَعْدَ أَیَّامٍ إِلَّا وَقَدْ أُتِيَ بِهٖ مَیِّتًا مَحْمُوْلًا فِي نَعْشِهٖ فَوَضَعْتُهٗ فِي ذٰلِکَ اللَّحْدِ وَوَارَیْتُهٗ فِیْهِ.
اللہ کی قسم! چند دن ہی دن گزرے تھے کہ ان کا جنازہ اٹھا کر لایا گیا۔پس میں نے انہیں اسی قبر میں اتارا اور دفن کر دیا۔
8۔ محمد بن معاذ العنبری بیان کرتے ہیں کہ میں منیٰ کی مسجد میں موجود تھا، اچانک لوگوں کا رش ہونے لگا، میں نے کہا: یہ کون ہے جس کے لیے لوگ ہجوم کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: ابن سماک ہیں۔ میں ان کے قریب گیا، تو دیکھا کہ ایک بزرگ گھٹنے کھڑے کر کے، ہاتھوں کو ان کے گرد لپیٹ کر بیٹھے ہیں۔ میں نے انہیں فرماتے ہوا سنا:
کَأَنَّا قَدْ عَایَنَّا أَخْبَارَ السَّمَائِ بِأَبْصَارِنَا، وَسَمِعْنَا أَصْوَاتَ الْمَلَائِکَةِ بِآذَانِنَا، فَقِیْلَ لِلْمُصَفِّیْنَ أَعْمَالَهُمْ: أَبْشِرُوا بِالْمُقَامِ الْعَجِیْبِ مِنَ الْحَبِیْبِ الْقَرِیْبِ، قَطَعَ قُلُوْبَ الْعَارِفِیْنَ بِاللهِ ذِکْرُ الْخَالِدَیْنِ: الْجَنَّةِ وَالنَّارِ.
ابن قدامة، الرقة والبکاء: 194، رقم/284
ہم نے آسمان کے واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور فرشتوں کی آوازوں کو اپنے کانوں سے سنا، پرخلوص اعمال والوں سے کہا جا رہا تھا: تمہیں اپنے محبوب سے قرب والے انوکھے مقام کی خوش خبری ہو، عارف باللہ لوگوں کے دلوں کو ہمیشہ رہنے والی دو چیزوں کے ذکر نے کاٹ کر رکھ دیا ہے، (اور وہ دوچیزیں) جنت اور دوزخ ہیں۔
راوی بیان کرتے ہیں: لوگوں میں سے ایک نے زور سے چیخ ماری اور وہ فوت ہو کر گر گیا۔
درج بالا واقعات سے ثابت ہوا کہ کشف کا سلسلہ صرف انبیاء کرام علیہم السلام تک محدود نہیں، بلکہ یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اولیاء عظام کو بھی نصیب ہوتا ہے۔ درج بالا واقعات اس پر صداقت کی سند ثبت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved