گزشتہ باب میں قرآن مجید کی متعدد آیاتِ کریمہ کی روشنی میں کشف، مکاشفہ اور مشاہدہ کو بیان کیا گیا۔ اس باب میں ہم حیاتِ نبوی سے کشف کے اِثبات کا مطالعہ کریں گے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں بھی کشف کے بہت سے مظاہر ملتے ہیں۔ آپ ﷺ کی سیرتِ مبارکہ سے شرعی دلیل کے طور پر بنیاد میسر آتی ہے کہ کشف ایک ذریعۂ علم ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کو عطا فرماتا ہے اور ان کی وساطت سے اپنے اولیاء عظام کو بھی عطا فرماتا ہے۔ جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام کی اُمت میں آصف بن برخیا نامی ولی اللہ کو ملا، حضرت خضر علیہ السلام کو ملا۔ اِسی طرح اُمت مسلمہ میں ہزارہا اولیاء کرام حضور نبی اکرم ﷺ کے طفیل صاحبان کشف و کرامت ہو گزرے ہیں۔
ذیل میں چند احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں جن سے حیاتِ نبوی ﷺ سے بھی ہمیں کشف کا ثبوت ملتا ہے۔
ایک طویل روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہمیں ابو سفیان کے قافلہ کی شام سے واپس آنے کی خبر پہنچی تو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ فرمایا۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! شاید آپ ہماری رائے جاننا چاہتے ہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر آپ ہمیں سمندر میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دیں تو ہم سمندر میں بھی گھوڑے ڈال دیں گے اور اگر آپ ہمیں برکِ غِماد پہاڑ سے گھوڑوں کے سینے ٹکرانے کا حکم دیں تو ہم ایسا ہی کریں گے۔ تب رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو غزوۂ بدر کی طرف بلایا تو لوگ روانہ ہوئے اور وادیِ بدر میں پڑاؤ ڈالا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ھٰذَا مَصْرَعُ فُـلَانٍ۔ قَالَ: وَیَضَعُ یَدَهٗ عَلَی الْأَرْضِ، ھَاهُنَا وَھَاھُنَا. قَالَ: فَمَا مَاطَ أَحَدُھُمْ عَنْ مَوْضِعِ یَدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ.
یہ فلاں کافر کے (قتل ہو کر) گرنے کی جگہ ہے۔ آپ ﷺ زمین پر اِس جگہ اور کبھی اُس جگہ دستِ اقدس رکھتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر (دوسرے دن) کوئی کافر بھی (قتل ہو کر) رسول اللہ ﷺ کی بتائی ہوئی جگہ سے ذرا برابر اِدھر اُدھر نہیں گرا۔
دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
هٰذَا مَصْرَعُ فُـلَانٍ غَدًا.
کل فلاں کافر کی لاش گرنے کی یہ جگہ ہے۔
گویا حضور نبی اکرم ﷺ نے میدانِ بدر میں جنگ ہونے سے پہلے ہی مشرکین مکہ کے مقتل کی نشان دہی فرما دی تھی۔ اگلے دن جب جنگ ہوئی تو حضور نبی اکرم ﷺ نے جس شخص کا جہاں نام لیا تھا، عین اُس جگہ پر اُس کی لاش گری۔ اس کی لاش کا ایک تھوڑا سا حصہ بھی اُس نشان سے ہٹ کر نہیں گرا تھا۔
یہ واقعہ اتنا واضح اور صریح ہے کہ اِس پر کسی تبصرہ کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ کشف ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ پر یہ پردے اِس طرح اُٹھے تھے کہ جو کچھ بعدمیں ہونے والا تھا ایک ایک شے کو دیکھ کر پہلے ہی بیان فرما رہے ہیں۔ وہ سارے کفار جو بدر میں واصلِ جہنم ہوئے اُن کی موت کی خبر بھی دے دی اور یہ بھی واضح طور پر بتا دیا کہ مر کر ان کی لاشیں کہاں کہاں گریں گی؟ یہ کشف کا اعلیٰ ترین مرتبہ ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے جنگِ موتہ کے لیے لشکر روانہ فرمایا۔ ملکِ شام میں میدان جنگ میں گھمسان کی جنگ ہو رہی ہے اور آپ ﷺ مدینہ طیبہ کی مقدس سرزمین پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مجلس میں بیٹھے وہاں کے حالات تفصیل سے بیان فرما رہے ہیں۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَعٰی زَیْدًا وَجَعْفَرًا وَابْنَ رَوَاحَۃَ رضوان اللہ علیهم اجمعین لِلنَّاسِ قَبْلَ أَنْ یَأْتِیَھُمْ خَبَرُھُمْ، فَقَالَ: أَخَذَ الرَّایَۃَ زَیْدٌ، فَأُصِیْبَ، ثُمَّ أَخَذَ جَعْفَرٌ، فَأُصِیْبَ، ثُمَّ أَخَذَ ابْنُ رَوَاحَۃَ، فَأُصِیْبَ. وَعَیْنَاهُ تَذْرِفَانِ حَتّٰی أَخَذَ الرَّایَۃَ سَیْفٌ مِنْ سُیُوْفِ اللهِ، حَتّٰی فَتَحَ اللهُ عَلَیْهِمْ.
(جنگِ موتہ کے موقع پر) حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت زید، حضرت جعفر اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی (مدینہ میں) خبر آنے سے پہلے ہی اُن کے شہید ہو جانے کے متعلق لوگوں کو بتا دیا تھا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: اب زید نے جھنڈا سنبھالا ہوا ہے لیکن وہ شہید ہوگئے۔ پھر جعفر نے جھنڈا سنبھال لیا ہے اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ پھر ابنِ رواحہ نے جھنڈا سنبھالا ہے اور وہ بھی جامِ شہادت نوش کرگئے۔ یہ فرماتے ہوئے آپ ﷺ کی چشمانِ مبارک اَشک بار تھیں۔ (پھر آپ ﷺ نے فرمایا:) یہاں تک کہ اب اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار (یعنی خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ) نے جھنڈا سنبھال لیاہے، حتیٰ کہ اُس کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے کافروں پر فتح عطا فرمائی ہے۔
آپ ﷺ مدینہ منورہ میں موجود ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ملکِ شام میں موتہ کے مقام پر ہونے والی اس جنگ کی لمحہ بہ لمحہ کی صورتِ حال سے آگاہ فرما رہے ہیں۔ یہ واقعہ چونکہ حضور نبی اکرم ﷺ سے صادر ہو رہا ہے، لہٰذا یہ معجزہ تو ہے مگر یہ واقعہ اپنی ماہیت کے اعتبار سے کشف ہے۔ اِحیاء موتی، پتھروں کو کلمہ پڑھانا، کھجوروں کو بڑھانا، مردوں کو زندہ کرنا، چاند کو دو ٹکڑے کرنا اور ڈوبے ہوئے سورج کو پلٹانا یہ سب واقعات معجزہ ہیں، مگرہر ایک واقعہ کی ماہیت جدا جدا ہے۔ جنگِ موتہ کے مذکورہ واقعہ کی ماہیت کشف، مکاشفہ اور مشاہدہ کی ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
تمام ائمہ کا اس پر مکمل اتفاق ہے کہ نبی کی مطابعت و ابتاع کے باعث اُس کی امت کے اولیاء کو کرامات بھی ملتی ہیں، صرف بعض ایسے معجزات ہوتے ہیں جو اولیاء کرام کو بطورِ کرامت نہیں دیے جاتے، جیسے چاند کا ٹکڑے کرنا اور ڈوبے سورج کو پلٹا دینا۔ چند استثنائی صورتوں کے علاوہ نبی کے ہاتھ سے بطورِ معجزہ صادر ہونے کے تسلسل میں اُن کی اُمت کے اولیاء کو اکثر نوے فی صد خرقِ عادات بطور کرامت عطا کیے جاتے ہیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی پنج گانہ نماز میں بھی کشف کے احوال رونما ہوتے تھے۔
1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب دورانِ نماز صف میں کھڑے ہوتے تو مقتدی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو فرماتے:
أَتِمُّوا الرُّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهٖ، إِنِّي لَأَرَاکُمْ مِنْ بَعْدِ ظَهْرِي إِذَا مَا رَکَعْتُمْ وَإِذَا مَا سَجَدْتُمْ.
رکوع اور سجود پوری طرح ادا کیا کرو، کیونکہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! بے شک میں تمہیں اپنی پشت کے پیچھے بھی دیکھتا ہوں جبکہ تم رکوع کر رہے ہوتے ہو یا سجدہ کر رہے ہوتے ہو۔
یعنی آپ ﷺ پر یہ سب کچھ کشف کے ذریعے عیاں رہتا تھا کہ جس طرح آپ ﷺ آگے دیکھتے تھے، عین اُسی طرح پیچھے سے بھی دیکھتے تھے۔
واضح رہے کہ آپ ﷺ کا آگے کی جانب دیکھنا حواسِ خمسہ اور عادت کے ذریعے تھا جبکہ پشت کی جانب دیکھنا کشف کے ذریعے تھا۔
2۔ ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
ھَلْ تَرَوْنَ قِبْلَتِي ھَاهُنَا؟ فَوَ اللهِ، مَا یَخْفٰی عَلَيَّ خُشُوْعُکُمْ وَلَا رُکُوْعُکُمْ، إِنِّي لَأَرَاکُمْ مِنْ وَرَائِ ظَھْرِي.
کیا تم یہ سمجھ رہے ہو کہ چونکہ قبلہ اِدھر ہے (اور میں حالت نماز میں قبلہ رخ کھڑا ہوں اور تم یہی سمجھ رہے ہو کہ میرا چہرہ قبلہ رُخ ہے، سو میں پیچھے کچھ نہیں دیکھ سکتا۔ بے شک میرا چہرہ قبلہ رخ ہے لیکن) اللہ کی عزت کی قسم! تمہارے خشوع اور رکوع بھی میری آنکھوں سے مخفی نہیں۔ بے شک میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔
آپ ﷺ نے واضح فرما دیا کہ رکوع اور سجود تو جسمانی حرکت ہے، میں تمہارے رکوع اور سجود میںموجود خشوع و خضوع اور تمہارے قلب کی کیفیت تک جانتا ہوں کہ وہ اللہ کی طرف کتنے متوجہ ہیں؟ یعنی میرا کشف صرف تمہارے جسموں اور پچھلی سمت دیکھنے تک نہیں ہے، بلکہ میرا کشف تمہارے جسموں کے پار تمہارے قلب و روح کی کیفیات تک بھی ہے، تمہارے باطن پر بھی ہے۔ تمہارے ظاہر، باطن آگے، پیچھے اور دائیں بائیں کی جہات کے سارے پردے میرے سامنے اُٹھ گئے ہیں۔
3۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک روز جماعت کرانے کے بعد رخِ انور ہماری طرف پھیرا، پھر ایک شخص کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:
یَا فُـلَانُ، أَ لَا تُحْسِنُ صَلَاتَکَ؟ أَلاَ یَنْظُرُ الْمُصَلِّي إِذَا صَلّٰی کَیْفَ یُصَلِّي؟ فَإِنَّمَا یُصَلِّي لِنَفْسِهٖ، إِنِّي، وَ اللهِ، لَأُبْصِرُ مِنْ وَرَائِي کَمَا أُبْصِرُ مِنْ بَیْنِ یَدَيَّ.
اے فلاں شخص! (آپ ﷺ نے نام لیا) تم نے نماز اچھی طرح ادا کیوں نہیں کی؟ کیا نمازی نماز ادا کرتے وقت غور نہیں کرتا کہ وہ کس طرح نماز پڑھ رہا ہے؟ وہ محض اپنے لیے نماز پڑھتا ہے۔ خدا کی قسم! میں تمہیں اپنی پشت کے پیچھے بھی ایسے ہی دیکھتا ہوں جیسا کہ اپنے سامنے دیکھتا ہوں۔
یہ واقعہ کسی ایک وقت کا نہیں کہ کوئی کہہ دے کہ کسی خاص وقت میںایسا ہوگیا ہے، نہیں! ایسا نہیں ہے۔ بلکہ حضور نبی اکرم ﷺ کو ہمہ وقت مکاشفہ، مشاہدہ، معائنہ سب سے اعلیٰ اور ارفع مقام پر اور عمدہ کیفیت میں میسر رہتا تھا۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو نہیں جانتے تھے کہ اُس نے کیسے نماز پڑھی؟ لیکن آپ ﷺ نے جب سلام پھیرا تو اُس شخص کا باقاعدہ نام لے کر بلایا۔
یہ چند احادیثِ نبوی ہیں جن میں آپ ﷺ نے خود اپنی زبان مبارک سے اپنے کشفِ تام، مشاہدۂ کاملہ کی کیفیت اور معائنہ تامہ کی دائمی کیفیت کو بیان فرمایا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نہ صرف احوالِ قلوب کی خبر رکھتے تھے، بلکہ جنت و دوزخ سے بھی آپ ﷺ کے لیے پردے اُٹھا لیے گئے تھے۔ آپ ﷺ اُن کا براہ راست معائنہ فرماتے تھے، جو مکاشفہ اور مشاہدہ سے بھی بڑھ کر ہے۔
1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں:
خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَصَلّٰی قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللهِ، رَأَیْنَاکَ تَنَاوَلْتَ شَیْئًا فِي مَقَامِکَ ثُمَّ رَأَیْنَاکَ تَکَعْکَعْتَ۔ قَالَ: إِنِّي أُرِیْتُ الْجَنَّۃَ فَتَنَاوَلْتُ مِنْهَا عُنْقُوْدًا وَلَوْ أَخَذْتُهٗ لَأَکَلْتُمْ مِنْهُ مَا بَقِیَتِ الدُّنْیَا.
رسول اللہ ﷺ کے عہدِ مبارک میں سورج گرہن لگا تو آپ ﷺ نے نمازِ کسوف ادا فرمائی۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے (دورانِ نماز) اپنی جگہ پر کوئی شے پکڑی تھی؟ پھر ہم نے دیکھا کہ آپ پیچھے ہٹے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے جنت دیکھی تو اس میں سے ایک انگوروں کا خوشہ پکڑنے لگا تھا اور اگر میں اسے لے لیتا تو تم اس میں سے رہتی دنیا تک کھاتے رہتے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور کثیر کتب معتمدہ و صحیحہ میں آئی ہے۔ اِس حدیث مبارک سے صریحاً ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ حالتِ نماز میں مصلّٰی پر کھڑے ہیں اور اس دوران آپ ﷺ جنت کا بغور نظارہ کر رہے ہیں۔ قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ آپ ﷺ کو جنت کی تصویر دکھائی گئی ہو یا عکس نظر آیا ہو۔ اگر وہ جنت کی تصویر یا عکس ہوتا تو حضور ﷺ یہ سمجھ جاتے کہ یہ عکس ہے یا تصویر ہے اور کبھی دست مبارک بڑھا کر انگوروں کے خوشے کو نہ تھامتے۔ آپ ﷺ نے انہیں مکمل طور پر حقیقی جانا کہ وہ جنت ہی ہے اور انگوروں کا خوشہ ہی ہے، تبھی آپ ﷺ نے کسی مغالطے کے بغیر اُن کی طرف ہاتھ بڑھایا اور انہیں پکڑا۔ اگر ایسا گمان ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی عرض کر دیتے کہ یا رسول اللہ ! کیا وہ واقعی جنت تھی؟ کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ اُس کی تصویر یا کوئی عکس ہو۔ آپ ﷺ جواب دیتے تم کیا سمجھتے ہو کہ محض تصویر دیکھ کر میں ہاتھ بڑھا کر وہاں سے انگور پکڑنا چاہوں گا؟ نہیں، قطعاً ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد فرمانا کہ اگر میں چاہتا تو اس خوشے میں سے انگور توڑ کر لے آتا اور تم رہتی دنیا تک انہیں مسلسل کھاتے رہتے۔ یہ سارا کلام اُس جنتی انگوروں کے خوشے کے حقیقی وجود پر دلالت کرتا ہے۔
2۔ ’صحیح بخاری‘ کی کتاب النکاح میں یہ حدیث کچھ الفاظ کے اضافہ کے ساتھ دوبارہ آئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہی راوی ہیں، وہ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا:
یَا رَسُولَ اللهِ، رَأَیْنَاکَ تَنَاوَلْتَ شَیْئًا فِي مَقَامِکَ هٰذَا، ثُمَّ رَأَیْنَاکَ تَکَعْکَعْتَ.
یا رسول اللہ! ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ اپنی جگہ سے آگے بڑھے اور کسی چیز کو پکڑا، پھر ہم نے دیکھا کہ آپ پیچھے ہٹ گئے؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
إِنِّي رَأَیْتُ الْجَنَّۃَ أَوْ أُرِیْتُ الْجَنَّۃَ، فَتَنَاوَلْتُ مِنْهَا عُنْقُوْدًا، وَلَوْ أَخَذْتُهٗ لَأَکَلْتُمْ مِنْهُ مَا بَقِیَتِ الدُّنْیَا وَرَأَیْتُ النَّارَ فَلَمْ أَرَ کَالْیَوْمِ مَنْظَرًا قَطُّ.
بخاری، الصحیح، کتاب النکاح، باب کُفْرانِ العَشِیرِ وهو الزَّوْج وهو الخلیط من المعاشرۃ فیہ عن أبِي سعید عن النّبِيّ ﷺ، 5: 1994، رقم: 4901
میں نے مصلّی پر جنت دیکھی یا مجھے دکھائی گئی، اور اُس کے اندر انگوروں کا ایک خوشہ پکڑا۔ اگر میں اُس خوشے سے انگور توڑ کر لے آتا تو تم رہتی دنیا تک اسے کھاتے رہتے (کیونکہ جنتی پھل کبھی ختم نہیں ہوتا۔ بہشت کی کسی بھی چیز پر کبھی فنا نہیں آتی)۔ میں نے دوزخ بھی دیکھی ہے اور (جنت و جہنم کے) اتنے واضح اور صاف مناظر اس سے پہلے نہیں دیکھے تھے۔
3۔ اسی واقعہ کو مزید تفصیل کے ساتھ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ آپ ﷺ نے نمازِ کسوف پڑھانے کے بعد فرمایا:
إِنَّهٗ عُرِضَ عَلَيَّ کُلُّ شَيئٍ تُوْلَجُوْنَهٗ، فَعُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ حَتّٰی لَوْ تَنَاوَلْتُ مِنْهَا قِطْفًا أَخَذْتُهٗ أَوْ قَالَ: تَنَاوَلْتُ مِنْهَا قِطْفًا، فَقَصُرَتْ یَدِي عَنْهُ وَعُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ، فَرَأَیْتُ فِیْهَا امْرَأَةً مِنْ بَنِي إِسْرَائِیلَ تُعَذَّبُ فِي هِرَّةٍ لَهَا رَبَطَتْهَا، فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْکُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ، وَرَأَیْتُ أَبَا ثُمَامَۃَ عَمْرَو بْنَ مَالِکٍ یَجُرُّ قُصْبَهٗ فِي النَّارِ، وَإِنَّهُمْ کَانُوْا یَقُوْلُوْنَ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا یَخْسِفَانِ إِلَّا لِمَوْتِ عَظِیْمٍ، وَإِنَّهُمَا آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللهِ یُرِیْکُمُوْهُمَا فَإِذَا خَسَفَا فَصَلُّوا حَتّٰی تَنْجَلِيَ.
مسلم، الصحیح، کتاب الکسوف، باب ما عرِض علی النّبِيّ ﷺ في صلاۃ الکسوف من أمرِ الجنۃ والنّارِ،2: 622 رقم: 904
مجھ پر وہ تمام چیزیں پیش کی گئیں جن میں تم داخل ہوگے، مجھ پر جنت پیش کی گئی حتیٰ کہ اگر میں اس سے کوئی خوشہ لینا چاہتا تو لے لیتا لیکن میں نے اپنا ہاتھ اس سے روک لیا۔ مجھ پر جہنم پیش کی گئی۔ میں نے جہنم میں بنی اسرائیل کی ایک عورت کو دیکھا جسے بلی کی وجہ سے عذاب ہو رہا تھا، اس عورت نے بلی کو باندھ کر رکھا، نہ اسے خود کچھ کھانے کو دیا نہ ہی اسے کھلا چھوڑا کہ وہ زمین میں اِدھر اُدھر سے کچھ کھا لیتی۔ میں نے جہنم میں ابو ثمامہ عمرو بن مالک کو دیکھا (جس نے بت پرستی کا آغاز کیا تھا) کہ وہ جہنم میں اپنی آنتیں گھسیٹ رہا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ کسی بڑے آدمی کی موت کی وجہ سے سورج یا چاند کو گرہن لگ جاتا ہے، حالانکہ سورج اور چاند کا گرہن لگنا اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، جو اللہ تعالیٰ تمہیں دکھاتا ہے۔ جب سورج یا چاند کو گرہن لگے تو تم نماز پڑھا کرو حتیٰ کہ وہ روشن ہو جائیں۔
آپ ﷺ نے اس ایک ہی جملے ’عُرِضُ عَلَيَّ کُلُّ شَيئٍ تُوْلَجُوْنَهٗ‘ میں اپنے پورے کشف کو بیان فرما دیا کہ ’مجھ پر وہ تمام چیزیں پیش کی گئیں جن میں تم داخل ہو گے‘ یعنی جنت و جہنم اور دیگر روز قیامت کے دیگر مقامات کا آپ ﷺ نے اپنے مصلی پر قیام کی حالت میں ہی مشاہدہ فرما لیا۔ یہ کشفِ نبوی ہے بلکہ کشف کا بھی یہ بلند ترین درجہ معائنہ ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے دوزخ کا اس قدر باریک معائنہ فرمایا کہ وہاں موجود افراد کی حالت اور جن اعمال کی وجہ سے انہیں سزا ہو رہی تھی، اُسے بھی بیان فرما دیا۔
4۔ اِسی کی مزید تفصیل ’صحیح مسلم‘ میں مروی ایک حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
وَرَأَیْتُ فِي النَّارِ امْرَأَةً حِمْیَرِیَّةً سَوْدَائَ طَوِیْلَةً.
مسلم، الصحیح، کتاب الکسوف، باب ما عرِض علی النّبِيّ ﷺ في صلاۃ الکسوف من أمر الجنّۃ والنّار، 2: 623، رقم: 904
میں نے جہنم میں ایک لمبی کالی حمیری عورت کو دیکھا۔
آپ ﷺ نے دوزخ کے اس مشاہدہ کے دوران جہاںبنی اسرائیل کی ایک عورت کو دیکھا وہیں یمن کے قبیلہ حمیر کی خاتون کو بھی دیکھا اور اُس کی رنگت اور قد و قامت تک کو بیان فرما دیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ دونوں آپ ﷺ کی امت کے افراد نہیں ہیں، اس کے باوجود آپ ﷺ ان کے حال پر مطلع ہو رہے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ ﷺ کی امت میں جو لوگ فوت ہوں گے، وہ جنت میں جائیں یا دوزخ میں جائیں، حضور ﷺ کا اُن کے بارے مشاہدہ کا عالم کیا ہوگا؟ اگر حضور ﷺ نے گزری ہوئی قوموں میں سے بنی اسرائیل، یمن اور حمیر کی عورتوں تک کو دیکھا ہے اور دورِ جاہلیت کے مرد کو دیکھا ہے اور پھر اُن کے عذاب کے اسباب بھی بیان فرما دیے ہیں؛ تو پھر آپ ﷺ کے مشاہدہ اور معائنہ سے باقی کیا رہ گیا ہوگا؟
اس موقع پر آپ ﷺ نے جنت کا مشاہدہ بھی کیا اور اس میں سے انگوروں کے خوشہ کو بھی لینا چاہا مگر پھر فرمایا کہ مجھے یہ خیال آیا کہ اگر میں یہ خوشہ لے گیا تو یہ انگور تو قیامت تک ختم نہیں ہوں گے۔ اگر جنت کا پھل تمہارے ہاتھ آگیا تو تم محنت، کام کاج، مزدوری اور روزگار کمانے کا عمل چھوڑ دو گے اور تمہیں جب بھی بھوک لگے گی تم اس جنت کے پھل کو کھاتے رہو گے۔ لہٰذا تم اپنے سب کام کاج چھوڑ دو گے۔ اللہ تعالیٰ نے کسبِ معاش کا جو نظام بنایا ہے وہ جاری رہے اور تم محنت کرکے اپنا کسبِ معاش کرو، اسی بنا پر میں نے اپنا ارادہ بدل لیا۔ آپ ﷺ نے ان تمام مشاہدات و معائنہ کو بیان کرنے کے بعد آخر پر پھر دہرایا:
فَمَا مِنْ شَيئٍ تُوْعَدُوْنَهٗ إِلَّا قَدْ رَأَیْتُهٗ فِي صَلَاتِي هٰذِهٖ.
تم سے وعدہ کی گئی چیزوں میں سے کوئی ایسی شے نہیں ہے جو میرے کشف سے رہ گئی ہو اورجس کا آج میں نے اپنی اس نماز میں مشاہدہ اور معائنہ نہ کیا ہو۔
اتنا عظیم کشف صرف شانِ نبوت محمدی ﷺ کے شایانِ شان ہے۔ یہ آپ ﷺ کی عظمتِ بے مثال کا ایک منفرد اظہار ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کا کشف مبارک اتنا جامع تھا کہ آپ ﷺ نے حالتِ نماز میں اُس مقام پر کھڑے کھڑے جنت اور دوزخ دونوں کا مشاہدہ اور معائنہ کر لیا۔ اسی ضمن یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ جنت اور دوزخ کہاں واقع ہیں اور ان کی ماہیت کیا ہے؟
جنت کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ فِي الْجَنَّةِ مِائَۃَ دَرَجَةٍ أَعَدَّهَا اللهُ لِلْمُجَاهِدِیْنَ فِي سَبِیْلِهٖ، کُلُّ دَرَجَتَیْنِ مَا بَیْنَهُمَا کَمَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ، فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللهَ فَسَلُوْهُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّهٗ أَوْسَطُ الْجَنَّةِ وَأَعْلَی الْجَنَّةِ، وَفَوْقَهٗ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ، وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ.
جنت میں سو درجے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کر رکھے ہیں۔ ہر دو درجوں کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا زمین اور آسمان کے درمیان۔ لہٰذا جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کیا کرو کیونکہ یہ جنت کا درمیانی اور سب سے اونچا حصہ ہے اور اس سے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔
ائمہ نے جنت کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ ساتویں آسمان کے اُوپر ہے اور دوزخ کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ وہ زمین کی تحت الثریٰ سے بھی نیچے ہے۔ یعنی جہاں ساری زمینیں ختم ہو جاتی ہیں اُن کے نیچے دوزخ ہے۔
وَقَدْ ثَبَتَ بِالْأَدِّلَةِ أَنَّ الْجَنَّۃَ فَوْقَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ وَأَنَّ النَّارَ تَحْتَ الْأَرْضِ السَّابِعَةِ.
یہ بات دلائل سے ثابت ہوچکی ہے کہ جنت ساتوں آسمانوں سے اوپر اور دوزخ ساتوں زمینوں سے بھی نیچے ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو مادی کائنات اللہ تعالیٰ نے بنائی، ان میں سب سے نیچے تحت الثریٰ ہے اور دوزخ اس سے بھی نیچے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی کائنات کی وسعتوں کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یعنی کائنات کے اسفل ترین کنارے پر دوزخ ہے اور کائنات کا سب سے اونچا کنارہ عرش الٰہی ہے، اس کے بعد تو پھر لامکاں ہے۔ عرش الٰہی جنت کی چھت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عالم مکاں کا سب سے اونچا کنارہ جنت اور اس کا سب سے نچلا کنارہ دوزخ ہے۔
دیگر واقعات کی طرف بڑھنے سے پہلے اِسی دن کے کشف کا ایک اور واقعہ بھی اس موقع پر بیان کرنا خالی از فائدہ نہیں ہوگا۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما اس حدیث کی راویہ ہیں۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے اِس حدیث میں صرف اُسی خطبہ کو روایت کیا ہے، جو حضور نبی اکرم ﷺ نے نماز سے فارغ ہو کر ارشاد فرمایا ہے۔ امام بخاری اسے ’باب صلاۃ النساء مع الرجال فی الکسوف‘ میں بھی لائے ہیں اور یہ مسئلہ بھی اخذکر رہے ہیں کہ جب صلاۃ الکسوف ہو تو عورتیں بھی مردوں کے ساتھ نماز میں شریک ہوں۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے نماز کسوف کی ادائیگی کے بعد خود خطبہ سنا۔ لہٰذا روایت کر رہی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے صلوٰۃ الکسوف کے بعد سلام پھیرا، خطبہ ارشاد فرمایا اور اسی خطبہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:
مَا مِنْ شَيئٍ کُنْتُ لَمْ أَرَهُ إِلَّا قَدْ رَأَیْتُهٗ فِي مَقَامِي ہٰذَا حَتَّی الْجَنَّۃَ وَالنَّارَ. وَلَقَدْ اُوُحِيَ اِلَيَّ أَنَّکُمْ تُفْتَنُوْنَ فِي الْقُبُوْرِ.
کوئی چیز ایسی نہیں جو میں نے نہیں دیکھی تھی مگر اس جگہ پر دیکھ لی حتیٰ کہ جنت اور دوزخ بھی؛ اور مجھ پر وحی کی گئی ہے کہ قبروں میں تمہارا امتحان ہوگا۔
اس خطبہ کا جو متعلقہ (relev ﷺ nt) حصہ بطور حوالہ یہاں پیش (quote) کیا جارہا ہے، بڑا توجہ طلب ہے۔ اِس میں مزید دو نکتے ہیں:
ایک بیانِ کشف ہے اور ساتھ ہی متصلاً اگلے جملے میں بیانِ وحی ہے۔ اب اِس سے کوئی یہ التباس پیدا نہیں کر سکتا اور کسی کو ہونا بھی نہیں چاہیے کہ یہ جو مشاہدہ ہو رہا ہے یہ بھی وحی تھی۔ اس ضمن میں واضح رہے کہ یہ وحی نہیں ہے۔ وحی اور چیز ہے۔ وحی میںاطلاع دی جاتی ہے، خبر دی جاتی ہے، آواز دی جاتی ہے اور علم دیا جاتاہے۔ اوپر جو بیان کیا جا رہا ہے یہ مکاشفہ اور مشاہدہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ اپنی آنکھوں سے براهِ راست جو مشاہدہ فرما رہے اور دستِ مبارک سے چیزوں کو پکڑ رہے اور تیزی سے پیچھے ہٹ رہے ہیں، یہ وحی نہیں بلکہ مشاہدہ اور مکاشفہ کی کیفیات ہیں۔
1۔ پہلے جملے میں ارشاد فرمایاکہ آج تک جو چیز میرے مشاہدے سے رہ گئی تھی، وہ بھی میں نے دیکھ لی۔ آج آفاق، پوری کائنات، تحت الثریٰ سے عرشِ معلی تک ساری کائناتی وسعتوں کا میرا مشاہدہ و مکاشفہ مکمل ہوگیا اور جو چیز بچ گئی تھی، میںنے نہیں دیکھی تھی وہ بھی آج دیکھ لی ہے۔ حتیٰ کہ عالم مکان کے آخری کنارے تک یعنی جنت کی چھتوں تک کو بھی دیکھ لیا اور تحت الثریٰ کے نچلے کنارے تک یعنی دوزخ کے احوال بھی دیکھ لیے۔
2۔ دوسرا جملے میں آپ ﷺ نے واضح فرمایا کہ یہ بات مجھے وحی کی گئی ہے۔ گویا اِن دو باتوں یعنی کشف اور وحی میں آپ ﷺ نے واضح فرق سمجھایا کہ پہلا مشاہدہ اور مکاشفہ تھا۔ وہ کشف تھا جس کے ذریعے پوری کائنات کے مخفی حقائق کا علم اور ادراک ہو رہا ہے اور دوسرا جملہ کہ قبروں میں ہر ایک سے سوال جواب ہوں گے اور ہر ایک کا امتحان ہوگا، آزمایا اور پوچھا جائے گا، اُس کی اطلاع حضور ﷺ کو بذریعہ وحی فرمائی گئی ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے ارشادِ گرامی سے پہلی چیز یہ ثابت ہوتی ہے کہ نبی کا علم بھی ہر آن اور ہر لمحہ ارتقاء پذیر رہتا ہے خواہ وہ علم بالمکاشفہ ہو یا علم بالمشاہدہ ہو۔ مغیبات (غیب) کا علم ہے، یا اطلاع اور علم دینے کے اور طریقوں سے ہے جو اللہ تعالیٰ انہیں عطا کرتا ہے۔ خواہ وہ اخبار کے طریقے ہیں یا وحی کے، خواہ وہ قرآن کی شکل میں وحی جلی ہے یا وحی خفی یا جو آپ ﷺ کے قلبِ مبارک پر القاء کیا جاتا ہے؛ خواہ علم فرشتے کے ذریعے دیا جاتا ہے یا فرشتے اور واسطے کے بغیر دیا جاتا ہے۔ علم کی ساری اشکال جن جن طریقوں سے اللہ کے نبی کو عطا کی جاتی ہیں، اُن تمام طریقوں سے حاصل ہونے والے علم میں ہر پل ترقی ہوتی رہتی ہے۔ علم نبوت، نبی کی معلومات، نبی کی اطلاعات، نبی کے علوم اور نبی کے معارف میں ہر آن ارتقاء جاری رہتا ہے یعنی وہ علومِ حسیّہ ہوں یا علومِ غیبیہ ہوں، اِس دنیا سے متعلق علوم ہوں یا آخرت سے متعلق علوم ہوں، ماضی کے حقائق کی اطلاعات ہوں یا مستقبل کے حقائق کی اطلاعات ہوں، جو بھی علم جس شکل اور جس طریقے سے اللہ کے اَنبیاء اور خصوصاً حضور نبی اکرم ﷺ کو عطا کیا گیا، عطا کیا جاتا رہا اور عطا کیا جاتا ہے، وہ ہمیشہ ارتقاء میں رہتا ہے، وہ مرحلہ وار ترقی کرتا اور بڑھتا چلا جاتاہے۔
ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ سارے مغیبات (جس کو ہم غیب کہتے ہیں) ایک ہی وقت میں عطا کرتے ہوئے اُس کی اطلاع دے دی گئی۔ اللہ تعالیٰ رفتہ رفتہ ( رضی اللہ عنہ r ﷺ du ﷺ lly) علم عطا فرماتا ہے۔ بتدریج نبی کا علم بڑھتا رہتا ہے، پردے اُٹھائے جاتے ہیں اور کشف ہوتا رہتا ہے۔ اطلاع ہوتی رہتی ہے، علم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے حتیٰ کہ آپ ﷺ کو وصال سے قبل ایک مقام ایسا بھی حاصل ہواہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی شے نہیں چھوڑی جس کا علم اور اطلاع اپنے محبوب ﷺ کو عطا نہ کر دی ہو۔
مذکورہ حدیث اس امر پر واضح دلیل ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جو کچھ میں نے پہلے نہیں دیکھا تھا وہ آج سب دیکھ لیا ہے۔ ثابت ہوا کہ اُمورِ غیبیہ میں سے پہلے زمانے میں جو دکھایا اور بتا دیا گیا تھا، اُس کا علم ہوگیا اور جو کچھ باقی رہ گیا تھا وہ آج دکھا دیا گیا ہے۔ اِس طرح آپ ﷺ کی رؤیت اُس دن جائے نماز پر کامل ہوگئی۔ آپ ﷺ کا مکاشفہ اور مشاہدہ مکمل ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو علم طریقِ رؤیت، طریقِ مکاشفہ اور طریقِ مشاہدہ سے عطا کرنا مقصود تھا، وہ سارا علم اپنے تکمیل کے مرحلے کو پہنچ کر مکمل ہوگیا۔
اِس حدیث مبارک سے دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ حضور نبی اکرم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے اور وہاں بھی مشاہدے کرائے گئے۔ واقعۂ معراج کے موقع پر آقائے دو جہاں ﷺ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ فرما رہے تھے، لہٰذا وہ معائنہ اور مشاہدہ تھا، وہ مکاشفہ نہیں تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ پردہ اُٹھا دیا گیا ہو اور کشف کے ذریعے دور سے دیکھ لیا ہو۔ اس لیے کہ کشف کے لیے یہ شرط ہے کہ آپ عادی طریق سے، اپنی اِس نگاہ سے معمول میں نہ دیکھ سکتے ہوں اور پردہ اٹھایا جائے تو آپ دور سے بھی دیکھ لیں۔
یہاں ایک اور نکتہ سمجھ لیں کہ آپ ﷺ نے جائے نماز پر کھڑے کھڑے جنت اور دوزخ کا مشاہدہ فرمایا جبکہ حسّی طور پر نہ جنت وہاں پر موجودہے اور نہ ہی وہاں دوزخ ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ جنت عرش کے نیچے ہے اور دوزخ تحت الثریٰ میں ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جو فاصلے تھے وہ بھی آپ ﷺ کے لیے سمیٹ دیے گئے۔ جب پردہ اٹھایا جاتا ہے تو فاصلے نہیں رہتے، قرب اور بُعد کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ سارے بُعد قرب میں بدل جاتے ہیں اور دوریاں نزدیکیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ زمانہ بھی ایک پردہ ہے۔ جو واقعات ہمارے پیدا ہونے سے سو سال قبل ہوگئے تو ایک صدی کا یہ زمانہ ہمارے لیے پردہ ہے، اُس وقت کے لوگ دیکھ رہے تھے، مگر ہم ان واقعات کو نہیںدیکھ سکتے۔
قیامِ پاکستان کی مثال لے لیجیے۔ 1947ء میں یہ تاریخی واقعہ پیش آیا، جو لوگ اس موقع پر موجود نہیں تھے، اُنہوں نے تو ہندوستان کے بٹوارے کے وقت دی گئی قربانیوں کے متعلق صرف سنا ہے کہ اِس طرح خون بہا، اِس طرح جان و مال کی قربانیاں دی گئیں، اِس طرح گھر بار اور سب کچھ لُٹائے گئے۔ یہ سب ہم نے نہیں دیکھا، مگر جو لوگ اُس وقت موجود تھے، ہجرت کر رہے تھے، اُن کے لیے یہ غیب نہیں تھا اور نہ ہی یہ کشف تھا۔ اُن پر تو یہ سب کچھ بیت رہا تھا اور ہمارے لیے وہ ماضی ہوگیا، اُن کے لیے وہ حال تھا۔
آج اگر ہم میں سے کسی پر پردہ اُٹھ جائے تو وہ قیامِ پاکستان کے واقعات کو اپنی آنکھوں سے وقوع پذیر ہوتا دیکھنے لگے گا کہ نہتے مسلمان قتل ہو رہے ہیں، ہرطرف خون بہہ رہا ہے، تقسیم ہو رہی ہے، اِدھر سے ہندو اور سکھ نقل مکانی کر کے اُدھر جا رہے ہیں اور اُدھر سے مسلمان ہجرت کر کے اِدھر آرہے ہیں۔ جیسا کہ آج کل ہم ٹی وی پر replay کا آپشن دیکھتے ہیں۔
جس طرح ہم ٹی وی سکرین پر گزر ے ہوئے واقعہ کو replay کی شکل میں دوبارہ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک ولی اللہ کے قلب سے جب ماضی کا پردہ اٹھتا ہے تواُس کے لئے بھی سب کچھ replay ہو جاتا ہے۔ وہ اُس کو اِسی طرح دیکھتا ہے جیسے ہم ٹی وی سکرین پر دیکھتے ہیں۔ پردہ کا اٹھنا اُس کے لیے اسی طرح ہے جس طرح سکرین پر تمام مناظر عیاں ہو جاتے ہیں اور وہ دور بیٹھا ان کا مشاہدہ کر رہا ہوتا ہے۔ اگر یہاں بیٹھ کر کوئی بغداد، شام، امریکہ کو دیکھے تو اِس کا مطلب ہے کہ فاصلے کا پردہ اٹھ گیا ہے۔ پردے کا تصور ذہن میں رکھ لیں کہ یہ پردہ کوئی کپڑے یا کسی اور مادے کا بنا ہوا نہیں ہوتا بلکہ فاصلہ، وقت، اَعمالِ سیاہ بذاتِ خود پردہ ہیں، جسے حجاب کہتے ہیں۔
جنت اور دوزخ تو موجود ہیں مگر اُس کا عینی مشاہدہ لوگوں کو قیامت کے دن کے بعد ہوگا۔ موت آئے گی، قبروں میں جائیں گے، دوبارہ جی اٹھنا ہوگا، پھر محشر میں جائیں گے، حساب و کتاب ہوگا، قیامت کے دن کے پچاس ہزار سال کا عرصہ گزرے گا۔ یومِ حشر سے گزر کر جنتی جنت میں جائیں گے اور دوزخ میں جانے والے اپنے برے ٹھکانے پر پہنچیں گے۔ یہ سب کچھ اُس وقت جا کر عیاں ہوگا۔ اِس وقت وہ سب کچھ پردئہ غیب میں ہے لیکن اُس وقت یہ اُمور غیب نہیں رہیں گے۔ سو آج نہ قیامت بپا ہوئی، نہ قیامت کے دن کا خاتمہ ہوا اور نہ جنت و دوزخ عیاں ہوئی ہیں۔ جب کہ آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سو برس قبل حضور نبی اکرم ﷺ اپنے زمانۂ اقدس میں حالت نماز کے دوران مصلّی پر کھڑے قیامت کو دیکھ رہے ہیں، جنت اور دوزخ کا معائنہ کر رہے ہیں۔ اگلی بات مزید دل چسپ ہے کہ جہنم میں کس نے جلنا ہے اور جنت میں کس نے جانا ہے؟ یہ واقعہ بھی قیامت کے دن کے بعد رونما ہوگا جب دوزخی دوزخ میں ڈال دیے جائیں گے اور جنتی جنت میں بھیج دیے جائیں گے۔ ابھی تو جہنمی قبر میں عذاب جھیل رہے ہیں اور جنتی قبر میں آرام سے ہیں۔ عین دوزخ میں ڈالا جانا تو یوم قیامت کے ختم ہونے کے بعد ہوگا۔ حساب و کتاب کے بعدپتہ چلے گا کہ کون جہنم میں جل رہا ہے اور کون جنت کے مزے لے رہا ہے۔ اِس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ابھی کوئی جہنم میں جلنے کا واقعہ پیش نہیں آیا، ابھی یہ فیصلہ صرف علمِ الٰہی میں ہے۔ مگر حضور نبی اکرم ﷺ اِن تمام امور کو ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ یہ بڑی اہم بات ہے۔ یہ کشف در کشف ہے، جس کی مثال کوئی اور نفس، کوئی اور شخص کائنا ت میں نہیں بن سکتا۔
گویا کشف دو طرح کا ہوا:
1۔ گزرے ہوئے واقعہ پر کشف ہو نا اور اسے دیکھنا۔
2۔ واقعہ ابھی رونما ہی نہیں ہوا، ابھی وہ علمِ الٰہی میں ہے مگر اُس واقعہ کو بھی وقوع پذیر ہوتا ہوا دیکھ لینا۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے کشف اور علم کا عالم یہ ہے کہ جو بات علمِ الٰہی میں مستقبل میں ہونا ہے اُس کو بھی عین حسّی اور مادی واقعے کی طرح اپنی آنکھوں سے کشف اور مشاہدہ فرما رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے مستقبل کی جو چیزیں بیان فرمائیں وہ ساری یا تو کشف کی ہیں یا وحیِ خفی کی ہیں یا آپ ﷺ کی اطلاع اور اعلام کی ہیں۔ سب کی صورتِ حال اِسی طرح ہے۔
وحی کے ذریعے جو اطلاع دے دی گئی، آنکھوں سے نہیں دیکھا، اُس پر تو کوئی کلام نہیں ہے، اس لیے کہیہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے کہ جو بعد میں ہونے والا ہے اللہ تعالیٰ نے فرشتے کے ذریعے یا براهِ راست (directly) اپنے نبی کو اُس کا علم عطا فرما دیا ہے۔ مستقبل کے واقعات کا علم ہو جائے یہ الگ موضوع ہے مگر کشف کے ذریعے اللہ کا نبی یا کوئی ولی، اُس واقعہ کو جو ابھی اِس مادی کائنات میں ہوا ہی نہیں اور اسے ابھی وجود بھی نہیں ملا، مگر پھر بھی اُس واقعے کو دیکھ لینا ایسا کشف ہے جو عام تصور سے بھی باہر ہے۔ اُس کشف کی بات ہو رہی ہے۔ آپ ﷺ جب جنت و دوزخ کے دیکھنے کی بات کرتے ہیں تویہی وہ کشف ہے جسے سمجھانا مقصود ہے۔
مجزۂ معراج کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ معجزہ معراج اللہ تعالیٰ کی قدر ت ہے۔ اگرکوئی اس کا انکار کرے تو گویا اُس نے متفق علیہ حدیث اور علمِ یقینی کا انکار کرتے ہوئے کفر کا ارتکاب کیا ہے۔ گویا اُس نے حضور نبی اکرم ﷺ کے معجزات اور آپ ﷺ کی نبوت کا انکار کر دیا۔ متفق علیہ حدیث قطعیت کی حامل ہوتی ہے، علم کے اعتبار سے وہ قرآن مجیدکی آیات کی طرح علمِ یقینی کا فائدہ دیتی ہے۔ معجزۂ معراج کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اِس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے معراج کی رات جو کچھ نظارے کیے، وہ مکاشفات نہیںبلکہ مشاہدات اور معائنات تھے یعنی اپنی چشمانِ مقدس سے معائنہ کیا تھا۔ آپ ﷺ پہلے القدس، مسجد اقصیٰ گئے وہاں انبیاء کرام علیہم السلام کو نماز پڑھائی، پھر آپ ﷺ اپنے جسدِ اقدس اور روحِ مبارک سمیت اوپر تشریف لے گئے۔ اِس لیے فرمایا گیا:
سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِهٖ.
الإسراء، 17: 1
وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو لے گئی۔
اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اُن کی روح کو سیر کرائی یا اُنہیں خواب دکھایا، نہیں بلکہ بِعَبْدِهٖ فرمایا یعنی وہ ذات اپنے برگزیدہ بندے کو لے گئی۔ ’عبد‘ کا اطلاق روح اور جسم دونوں پر ہوتا ہے۔ خالی جسم کو بھی عبد نہیں کہا جاتا اور خالی روح کو بھی عبد نہیں کہا جاتا بلکہ عبد روح اور جسم دونوں کے مجموعہ کو کہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ’سبحٰن‘ کے لفظ کے ذریعے اپنی قدرت کا بیان فرما رہا ہے۔ اگر خواب میں سیر کرائی ہوتی تو اُس میں کون سی قدرت کے اظہار کی ضرورت ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ چونکہ تمام مقامات پر گئے، ساتوں آسمانوں اوراُن میں موجود مقامات کا مشاہدہ فرمایا، سدرۃ المنتہیٰ کو دیکھا، ملائکہ کو دیکھا، انبیاء کو دیکھا، حتیٰ کہ عرشِ الٰہی کو بھی دیکھا۔ جب مکہ سے بیت المقدس کی طرف براق پر محوِ پرواز تھے تو اس دوران حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر مبارک کے اوپر سے گزرے اور انہیں اپنی قبر میں مصروفِ صلاۃ دیکھا۔ (اُس صلاۃ سے مراد کیا تھی؟ آیا کوئی نماز تھی یا آپ کے گزرنے پر استقبال کرتے ہوئے حضور ﷺ پر درود و سلام پڑھ رہے تھے، اس لئے کہ درود و سلام پڑھنا بھی صلوٰۃ ہے۔ یہ الگ بحث ہے اور یہاں ہمارے موضوع کا حصہ نہیں ہے۔) آپ ﷺ کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اُن کی قبرمیں دیکھنا بھی کشف ہے۔ اُس سفر میں مشاہدات بھی ہو رہے تھے اور مکاشفات بھی ہو رہے تھے۔ جو کچھ عیاں آنکھوں کے سامنے دکھائی دینے کے قابل تھا وہ تو مشاہدہ ہو رہا تھا اور جو سر کی آنکھوں سے دیکھا جانے والا نہ تھا اور آپ ﷺ دیکھ رہے تھے، وہ مکاشفہ اور معائنہ ہو رہا تھا۔ پھر سدرۃ المنتہیٰ سے گزرے، مقام قاب قاسین تک گئے، حتیٰ کہ جلوئہ حق دیکھا اور اس وقت کیفیت کیا تھی۔ ارشاد ہوتا ہے:
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰیo
النجم، 53: 17
اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)۔
آپ ﷺ اس پورے سفر کے دوران مشاہدات کرتے آئے اور آیاتِ کبریٰ دیکھیں۔ اسی لئے فرمایا:
لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰـتِنَا.
الإسراء، 17: 1
کہ ہم انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں۔
یعنی ہم انہیں سماوی کائنات میں لے جا رہے ہیں اور عرش، فوق العرش، عالم مکاں، لامکاں اور مقامِ قاب قوسین سے أو أدنٰی تک کا سارا سفر اِس لیے کروا رہے ہیں کہ ہم اپنی نشانیاں دکھائیں اور ان نشانیوں کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔
معراج کی رات تو حضور نبی اکرم ﷺ نے اُن مقامات پر جا کر یہ مشاہدات و معائنات فرمائے مگر مدینہ منورہ میں حالتِ نماز میں مصلیٰ پر کھڑے ہو کر آپ ﷺ نے جو کچھ دیکھا وہ الگ منظر ہے۔ یہاں آپ ﷺ نے آسمانی سفر نہیں فرمایا، عرش تک نہیں گئے، بلکہ سورج گرہن کی نماز پڑھا رہے ہیں اور یہاں رسول اللہ ﷺ کی شان نرالی ہے کہ جو معراج کی رات وہاں سب کچھ جا کر دیکھا وہ یہاں مسجد نبوی میں مصلّی پر کھڑے ہو کر دیکھ لیا۔ حجابات اٹھ گئے اور تحت الثریٰ سے عرشِ معلی تک اور جنت و دوزخ سب کچھ دیکھ لیا۔
اس حدیث مبارک سے یہ چیز بھی ثابت ہوئی کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے لیے اور اللہ تعالیٰ کی برگزیدہ ہستیوں کے لیے کوئی ایک یا دو طریقے یا ذرائع علم محصور و مقید نہیں اور منحصر نہیں ہے کہ بس اس طریقے پر ہی وہ دیکھ سکتے ہیں کہ جائیں تو دیکھیں، لے جایا جا ئے تو دیکھیں، ایسا ہر گز نہیں ہے۔ یہ اللہ کی قدرت اور اپنے حبیب ﷺ کے ساتھ اس کا تعلق ہے۔ وہ جو چاہے جس مقام پر جتنے وقت میں جتنا چاہے دکھا دے۔ وہ مشاہدہ جو شاید صدیوں میں کوئی نہ کر سکے، آپ ﷺ نے دو رکعت نماز میں تحت الثریٰ سے عرش معلی تک کر لیا۔ معلوم ہوا کہ عالمِ علوی، عالمِ سفلی، عالمِ ملکوت اور عالمِ ناسوت سب کچھ حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک نماز میں دیکھ لیا۔ اُس کے بعدآگے جو کچھ قیامت کے بعد ہونے والا ہے، جنت و دوزخ میں جو واقعہ ابھی تک صادر نہیں ہوا، عالمِ حسّی میں اُس کے صادر ہونے اور اُس واقعہ کو وجود ملنے سے بھی پہلے آپ ﷺ نے دیکھ لیا۔ یہ مشاہدہ و مکاشفہ تھا۔
صلوٰۃ الکسوف سے متعلقہ زیرِ بحث حدیث میں ایک اور اہم چیز بیان کی گئی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
وَلَقَدْ أُوْحِيَ إِلَيَّ اَنَّکُمْ تُفْتَنُوْنَ فِي الْقُبُوْرِ.
بخاری، الصحیح، کتاب الوضوء، باب من لم یتوضّأ إِلاّ من الغشی المثقلِ، 1:79، رقم: 182
اب مجھ پر وحی کی گئی ہے کہ تم میں سے ہر ایک سے اُس کی قبر میں سوال کیا جائے گا۔
اس میں ایک بڑی عجیب حکمت اور معرفت ہے۔ حالتِ نماز میں جنت و دوزخ کا دکھایا جانا وحی نہیں تھی بلکہ مکاشفہ اور مشاہدہ تھا، پردے اٹھا کر سب کچھ دکھا دینا تھا۔ اب حضور ﷺ فرما رہے ہیں کہ مجھ پر وحی کی گئی ہے اور میرے قلبِ اطہر پر یہ علم وارد اور اِلقاء کیا ہے کہ ہر شخص کا قبروں میں امتحان لیا جائے گا اور وہ امتحان یہ ہے کہجب لوگ دفن کر کے واپس پلٹ آئیں گے تو فرشتے اس میت سے آکر پوچھیں گے:
مَا عِلْمُکَ بِهٰذَا الرَّجُلِ؟
بخاری، الصحیح، کتاب الوضوء، باب من لم یتوضّأ إِلاّ من الغشیِ المثقلِ، 1:79، رقم: 182
اس شخصیت کے بارے میں تمہارا علم کیا کہتا ہے؟
حضور نبی اکرم ﷺ نے بڑے لطیف اشارے میں بات فرما دی۔ فرمایا: میںسامنے ہوں گا، میری طرف اشارہ کر کے یہ پوچھا جائے گا کہ اِس شخصیت کے بارے میں تمہارا عقیدہ کیا تھا؟ احادیث کی کتب میں یہ حدیث کثرت کے ساتھ آئی ہے۔ ایک حدیث کے الفاظ ہیں کہ پوچھا جائے گا:
مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِي هٰذَا الرَّجُلِ؟
بخاری، الصحیح، کتاب الجنائز، باب المیت یسمع خفق النعال، 1: 448، رقم: 1273
تو ان ﷺ کے متعلق زندگی میں کیا کہا کرتا تھا؟
حضور نبی اکرم ﷺ کے بارے میں سب کچھ پوچھا جائے گا۔ آپ ﷺ کی شان، عظمت، معرفت اور علوِ مرتبت کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ اِن کے متعلق تیرا عقیدہ کیا تھا اور تو کیا کہا کرتا تھا؟ لہٰذا تمام مسلمان، آپ ﷺ کے کلمہ گو اور اللہ کے سب بندوں کو میری نصیحت ہے کہ آخرت کو بہتر کرنے کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ کی معرفت کو مضبوط کریں۔ واضح رہے کہ آپ ﷺ کی معرفت بہتر کیے بغیر کسی کی آخرت بہتر نہیں ہوگی۔ آپ ﷺ کی شانِ اقدس کو حقیقی طور پر جاننے اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ آپ ﷺ کی شان کو کاملاً تو کوئی بھی سمجھ نہیں سکتا مگر جتنی ہماری سمجھ ہے، اُسی قدر معرفت ہوگئی تو ہماری نجات یقینی ہے۔
اِس حدیث کے اگرچہ بہت سے گوشے ہیں، لیکن یہاں صرف کشف کے پہلو کو بیان کیا جا رہا ہے۔ مومن فرشتوں کے اس سوال کے جواب میں کہتا ہے :
هُوَ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ جَائَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَالْهُدٰی فَأَجَبْنَا وَآمَنَّا وَاتَّبَعْنَا.
یہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ ہمارے پاس اللہ کی واضح نشانیاں، معجزات اور ہدایت لے کر آئے۔ ہم نے انہیں لبیک کہا، ہم ان پر ایمان لے آئے اور ہم نے ان کی اتباع اور پیروی کی۔
جب مومن کو آپ ﷺ کی معرفت نصیب ہوگی تو وہ آپ ﷺ کو پہچان لے گا اور پھر فرشتے اسے کہیں گے کہ اب تو سو جا۔ اب تجھے کوئی پریشان نہیں کرے گا۔ پھر اُس کی نیند شروع ہو جائے گی اور وہ قیامت تک آرام سے سوئے گا۔
یہ حدیث صحیح بخاری، صحیح مسلم، مسند احمد، سنن ابی داؤد، سنن نسائی؛ الغرض کثیر کتب حدیثمیں آئی ہے اور سب کے الفاظ یہ ہیں:
هٰذَا الرَّجُلِ.
اِس ہستی (کے بارے میں تو کیا کہا کرتا تھا)؟
یہ بات طے شدہ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں اور نہ ہی ہونا چاہیے کہ ہٰذَا اسمِ اشارہ قریب کے لیے بولا جاتا ہے۔ جب تک کوئی قریب نہ ہو، بالکل آنکھوں کے سامنے نہ ہو تو ہٰذَا استعمال نہیں کرتے۔ اب یہ کہنا:
مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِي هٰذَا الرَّجُلِ؟
یا
مَا عِلْمُکَ بِهٰذَا الرَّجُلِ؟
تو اِس سے مراد ذاتِ مصطفی ﷺ ہی ہے۔ اس میں کسی قسم کے شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کوئی آدمی اِدھر اُدھر کی بات کرے تو صرف گم راہی، نادانی اور جہالت و بے خبری ہے۔ اس سوال پر بندہ اُن کو دیکھ کر، ان کی زیارت کرتے ہوئے جواب میں کہہ رہا ہے:
هُوَ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ ﷺ.
وہ اللہ کے رسول محمد مصطفی ﷺ ہیں۔
اس حدیث مبارک سے دو چیزیں متحقق (established) ہو گئیں:
1۔ حضور نبی اکرم ﷺ ہر شخص کو قبر کے اندر سامنے نظر آئیں گے، بالکل قریب ہوں گے اور قبر والا اُن کی زیارت کررہا ہوگا۔
2۔ دوسرا یہ امر متحقق ہو گیا کہ یہ رؤیت بالعین ہوگی۔ یعنی وہ قبر میں لیٹا ہوا شخص اپنی آنکھوں سے زیارتِ رسول ﷺ سے بہرہ یاب ہوگا۔
متفق علیہ روایت میں ہے کہ جب لوگ مردے کو قبر میں دفنا کر واپس لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز بھی سن رہا ہوتا ہے یعنی اسے زندہ کرکے اس کی روح دوبارہ لوٹا دی جاتی ہے، اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر کہتے ہیں:
مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِي ھٰذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ ﷺ؟
تو اس ہستی سیدنا محمد مصطفی ﷺ کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟
حدیث مبارک کے ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بندہ اپنی قبر میں زندہ ہے، اُس کا فہم بھی پلٹ آتا ہے، اُس کی عقل بھی پلٹ آتی ہے، اس کے حواس بھی پلٹ آتے ہیں، آنکھیں دیکھنے لگتی ہیں، کان سننے لگتے ہیں، تب ہی تو فرشتوں کا سوال سن رہا ہے۔ زبان بولنے لگتی ہے، تب ہی تو وہ جواب دینے کے قابل ہوا ہے۔ آنکھیں دیکھنے اور پہچاننے کے قابل ہو جاتی ہیں تب ہی تو وہ پوچھتے ہیں کہ اس ہستی کے بارے میں تو کیا کہتا تھا؟ تیرا کیا عقیدہ تھا؟ ہر شخص خواہ وہ مومن ہے یا کافر اپنی آنکھوں سے حضور نبی اکرم ﷺ کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ موت کے بعد اُس کافر (غیر مومن) کی آنکھوں کو بھی یہ صلاحیت عطا فرما دیتا ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیسے دیکھتا ہے؟ اس بارے میں ہم صرف توجیہ ہی کر سکتے ہیں، کیونکہ حدیث مبارک میں حضور نبی اکرم ﷺ نے یہ بیان نہیں فرمایا کہ وہ کیسے دیکھتے ہیں؟ محدثین، شارحین، علماء، فقہاء اور صاحبِ دانش افراد نے اس کی شرح فرمائی ہے اور واضح کیا ہے کہ وہ کیسے دیکھتے ہیں؟
ایک شخص کی وفات امریکہ میںہو رہی ہے، کسی کی موت افریقہ میں ہورہی ہے، کسی کی مصر میں، کسی کی پاکستان میں، کسی کی بھارت میں، کسی کی شام میں، کسی کی یمن میں، کسی کی آسٹریلیا میں اور کسی کی وفات کینیڈا میں ہو رہی ہے،، جب کہ آپ ﷺ کا روضۂ انور مدینہ منورہ میں ہے۔ بالفرض بیک وقت دنیا کے مختلف ممالک میں ایک وقت میں ایک ہزار آدمی وفات پا گئے۔ وہ سب کے سب ایک ہی وقت میں دفنائے گئے اور ایک ہی وقت میں فرشتے ان سب کے پاس پہنچ گئے۔ دنیا کے مختلف بر اعظموں کے مختلف ممالک میں جب ایک ہی وقت میں دفنائے گئے تو ایک ہی وقت میں ان سب سے سوال ہوا۔ یہ نہیں ہو سکتا کے اس میں وقت کا تضاد (time difference) آجائے کہ ایک فوت شدہ شخص سے سوال کے بعد منکر نکیر دوسرے سے سوال کریں گے۔ اگر وہ ایسے انتظار کرتے رہیں پھر تو سوال جواب کی باری ہی نہ آئے، ایسا ہر گز نہیںہے بلکہ جس لمحے کوئی فوت شدہ دفن ہوا، عین اُسی لمحے فرشتے ہر ایک کی قبر میں پہنچتے ہیں اور ہر ایک سے سوالات پوچھتے ہیں۔
الغرض! ایک وقت میں اگر لاکھوں لوگ بھی فوت ہو جائیں تو ہر ایک کی قبر میں حضور نبی اکرم ﷺ ان کے سامنے ہوں گے اور ہر ایک سے فرشتے پوچھیں گے: اس ہستی کے بارے میں تو کیا کہا کرتا تھا (یعنی تیرا عقیدہ کیا تھا)؟
اس موقع پر یہ نکتہ بھی ذہن نشین کر لیں کہ آپ ﷺ کی جو بھی زیارت کرتا ہے خواہ قبر میں کرتا ہے، خواہ خواب میں کرتا ہے، خواہ عالمِ بیداری میں کرتا ہے، جہاں بھی کرتا ہے وہ جسدِ حقیقی نہیں ہوتا۔ آپ ﷺ کا جسدِ حقیقی گنبدِ خضریٰ کے نیچے موجود ہے جہاں آپ ﷺ آرام فرما ہیں۔ زیارت میں دکھائی دینے والا جسم مبارک آپ ﷺ کا جسدِ مثالی ہوتا ہے۔
اس طرح باقی اولیاء میں سے بھی اگر کسی کی کوئی زیارت کرتا ہے تو وہ جہاں مدفون ہیں ان کا اصل جسم وہیں ہوتا ہے، زیارت میں اُن کا جسدِ مثالی ہوتا ہے۔ عین اسی طرح جیسے ملائکہ جسدِ مثالی کے ساتھہمیں دکھائی دیتے ہیں۔ عالم مثال کی کئی مثالیں ہم گزشتہ باب میں پڑھ چکے ہیں۔ خواب میں ہم جسے بھی دیکھتے ہیں حضور نبی اکرم ﷺ کی زیارت ہو، انبیائے کرام میں سے کسی کی زیارت ہو، صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی کی زیارت ہو یا اولیاء اللہ میں سے کسی کا دیدار ہو، یاد رکھ لیں کہ وہ خواب کی صورت میں ان کا جسدِ مثالی ہوتا ہے۔
اِس پر ائمہ و محدثین اور خاص طور پر امام جلال الدین سیوطی اور دیگر ائمہ کے احوال میں اس کا ذکر موجود ہے۔ زیارت خواہ خواب میں ہو یا میت کو قبر میں ہو، جب بھی کسی کو زیارت ہوتی ہے تو وہ جسدِ مثالی ہوتا ہے۔ نہ تو روح مبارک مدینہ منورہ سے چل کر آتی ہے اور نہ ہی جسم اقدس چل کر آتا ہے۔
عالمِ مثال میں اس دنیا کے ہر وجود کو ایک مثالی شکل حاصل ہے۔ ہر ایک وجود جو اس دنیا عالم شہادت اور عالم اجسام میں ہے اس کا ایک مثالی وجود ہے۔ جیسا کہ عالم ارواح میں ایک روحانی وجود ہے، روح کا ایک مثالی وجود ہے۔ گزشتہ باب میں ہم قرآن مجید کی آیت کا مطالعہ کر چکے جس میں فرمایا گیا کہ جب حضرت مریم علیہا السلام کے پاس جبریل امین علیہ السلام آئے تو قرآن مجید نے کہا:
فَاَرْسَلْنَـآ اِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّاo
مریم، 19: 17
تو ہم نے ان کی طرف اپنی روح (یعنی فرشتہ جبرائیل) کو بھیجا سو (جبرائیل) ان کے سامنے مکمل بشری صورت میں ظاہر ہوا۔
حضرت جبریل امین علیہ السلام کو حضرت مریم علیہا السلام کے پاس پورے انسانی و بشری وجود کے ساتھ بھیجا تو اُن کا وجود مثالی تھا۔
اسی طرح قرآن مجید میں ہاروت اور ماروت کا قصہ ذکر ہوا ہے۔ یہ دونوں فرشتے تھے جو جسدِ مثالی کے ساتھ زمین پر تشریف لائے تھے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس جبریل امین علیہ السلام کے حاضر ہونے کی ایک صورت اُن کا جسدِ مثالی کے ساتھ آنا تھا۔ مسجد نبوی کے ایک باب کا نام بابِ جبریل اسی لیے ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں پیش ہونے کے لئے اکثر و بیشتر جبریل امین علیہ السلام اُس جگہ سے داخل ہوتے اور سلام عرض کر کے بیٹھ جاتے تھے۔
ان مثالوں سے سمجھانا یہ مقصود ہے کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ سے متعلق ہر قبر والے سے پوچھا جائے گا تو وہاں دیکھنے کی صورت کیا ہوگی؟ تمام ائمہ و محدثین، شارحین اور اکابر نے اس بارے جو کچھ لکھا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس حوالے سے دو امکانات ہیں:
1۔ پہلا امکان یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ ہر ایک کی قبر میں جسدِ مثالی کے ساتھ تشریف لائیں گے اور قبر والا حضور ﷺ کی زیارت کرے گا۔
یہ وہ عظیم معجزہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو عطا فرمایا اور اتنے بڑے روحانی تصرف سے نوازا ہے۔ اگر بالفرض دس لاکھ آدمی وفات پا جائیں اور ایک وقت میں دس لاکھ قبروں میں بھی زیارت کرانی ہو تو اجسادِ مثالیہ کے ساتھ ہر جگہ حضور ﷺ کی زیارت ہو سکتی ہے۔
2۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ قبر میں جسدِ مثالی میں بھی تشریف نہیں لاتے۔ زیادہ وقیع، زیادہ وزنی اور آپ ﷺ کی شان و ادب کے زیادہ لائق، مقامِ نبوت کے ادب کے شانِ شایان اور ارجح و درست شرح یہی ہے کہ آپ ﷺ جسدِ مثالی سے ہر قبر میں تشریف نہیں لاتے بلکہ قبر والے کی آنکھوں سے پردہ اُٹھا دیا جاتا ہے اور وہ روضۂ انور میں موجود آپ ﷺ کے جسد مثالی زیارت کرتا ہے۔
اسی کو کشف کہتے ہیں۔ یہی بات بیان کرنے کے لیے مذکورہ حدیث مبارک بیان کی گئی ہے۔ اُس کی تشریح سے یہ واضح ہوا کہ فوت شدہ شخص کو کو کشف کرایا جاتا ہے اور وہ کشف مومن و کافر ہر ایک کے لیے اللہ تعالیٰ یکساں کر دیتا ہے، چونکہ اُس کی آخرت کا فیصلہ کرنا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ گنبدِ خضریٰ میں آرام فرما ہیں، وفات پانے والے خواہ تعداد میں ہزاروں ہوں، ہر کسی سے قبر میں جب فرشتے سوال کرتے ہیں تو اُس کی آنکھ سے پردہ اُٹھا دیا جاتا ہے اور وہ وہیں اپنی قبر سے حضور ﷺ کا دیدار کرتا ہے۔ اُسے یہ دیدار بذریعہ کشف کروایا جاتا ہے۔ جب پردہ اُٹھتا ہے تو نہ صرف قبر کی دیوار کا حجاب اٹھتا ہے بلکہ فاصلے اور زمانے کا بھی پردہ اُٹھ جاتا ہے۔ اس لیے یوں لگتا ہے جیسے حضور نبی اکرم ﷺ بالکل آنکھوں کے سامنے قبر کے اندر ہی تشریف فرما ہیں۔ اسی کیفیت کا نام کشف ہے۔
آئیے! صحیح بخاری کی ایک اور حدیث مبارکہ سے کشفِ مصطفی ﷺ پر استدلال کرتے ہیں۔ امام بخاری نے یہ حدیث مختلف مقامات پر بار بار مختلف سندوںسے روایت کی ہے۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ ایک روز میدانِ اُحد میں تشریف لے گئے اور شہداء اُحد پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر نمازِ جنازہ پڑھی جاتی ہے۔ پھر آپ ﷺ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا:
إِنِّي فَرَطٌ لَکُمْ، وَأَنَا شَھِیْدٌ عَلَیْکُمْ، وَإِنِّي وَ اللهِ، لَأَنْظُرُ إِلٰی حَوْضِي الْآنَ، وَإِنِّي أُعْطِیْتُ مَفَاتِیْحَ خَزَآئِنِ الْأَرْضِ، أَوْ مَفَاتِیْحَ الْأَرْضِ، وَإِنِّي وَ اللهِ، مَا أَخَافُ عَلَیْکُمْ أَنْ تُشْرِکُوْا بَعْدِي وَلٰـکِنْ أَخَافُ عَلَیْکُمْ أَنْ تَتَنَافَسُوْا فِیْھَا.
بے شک میں تمہارا پیش رو اور تم پر گواہ ہوں۔ اللہ کی قسم! میں اپنے حوضِ کوثر کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں، بے شک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں - یا فرمایا: روئے زمین کی کنجیاں - عطا کر دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرنے لگو گے، بلکہ مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ تم دنیا کی محبت (یعنی مال و دولت کی حرص) میں مبتلا ہو جاؤ گے۔
حضور ﷺ کا یہ فرمان مبارک قیامت تک آنے والی پوری اُمت کے لیے ہے:
أَنَا شَهِیْدٌ عَلَیْکُمْ.
میں تم سب پر گواہ ہوں۔
تمہارے اعمال، احوال اور افعال کو دیکھ رہا ہوں اور میں نے اس کی گواہی دینی ہے کہ تم میں سے کون نیک اعمال کرتا رہا اور کون برے اعمال کرتا رہا ہے۔ قرآن مجید نے اسی بات کو یوں بیان فرمایا:
فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍم بِشَھِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآءِ شَھِیْدًاo
النساء، 4: 41
پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے۔
ایک اور مقام پر فرمایا گیا:
وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَهِیْدًا.
البقرة، 2: 143
اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول ( ﷺ ) تم پر گواہ ہو۔
یعنی روزِ قیامت حضور نبی اکرم ﷺ صرف اپنی اُمت پر گواہ نہیں ہوں گے بلکہ اول و آخر، ماضی و حال کی ساری اُمتوں، اَقوام اور سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کی اُمتوں پر گواہ ہوں گے۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ کوئی شخص مشاہدے کے بغیر گواہی نہیں دے سکتا۔ آپ عدالت میں چلے جائیں اور کہیں کہ میں اس واقعہ پر گواہ ہوں، تو جج پوچھے گا کہ کیا آپ موقع پر موجود تھے؟ کیا آپ نے سارا وقوعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے؟ کیا آپ اس واقعہ کے عینی شاہد ہیں؟ اس کے جواب میں اگر آپ کہیں کہ میں تو وہاں موجود نہیں تھا اور نہ ہی میں نے یہ سب کچھ آنکھوں سے دیکھا ہے تو ایسی صورت میں جج آپ کی گواہی قبول نہیں کرے گا۔
گواہ کو عربی میں ’شہید‘ اور ’شاہد‘ کہتے ہیں۔ یہ شہود اور مشاہدہ سے ہے۔ جو آنکھوں سے دیکھے وہی گواہ ہوتا ہے، یا پھر اللہ کی طرف سے عطا کردہعلم بالوحی ہو، یعنی جسے یقینی علم ہو وہ گواہ ہوتا ہے۔ اب اُمتی کے ایک ایک عمل پر گواہی دینا اور نہ صرف اپنے اُمتی بلکہ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام کی امتوں کے احوال و اعمال کی گواہی دینا چہ معنی دارد؟ قرآن مجید نے تو ان تمام کے احوال بیان نہیں کئے۔ معلوم ہوا کہ قرآنی وحی کے ذریعے ان کا علم نہیں ملا۔ یہ علوم وحی خفی کے ذریعے عطا ہوئے ہیں یا پردے اُٹھائے گئے اور ماضی و حال کے مشاہدے نصیب ہوئے ہیں، تیسرا کوئی راستہ موجود ہی نہیں ہے۔ قرآنِ مجید میں بھی صرف چھبیس انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات بیان ہوئے ہیں۔ سوا لاکھ انبیاء اور ان کی امتوں کے ساتھ کیا بیتا، قرآن مجید میں تو تمام انبیاء کے نام تک نہیں آئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نہ صرف اُن پر بلکہ اُن سب کی اُمتوں پر بھی گواہ ہوں گے۔ جب اُن انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کی امتوں کا ذکر قرآن مجید نے نہیں کیا اور قرآنی وحی میں ان کا ذکر نہیں تو پھر اس اطلاع کے دو ہی راستے رہ گئے ہیں:
1۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنی وحی کے علاوہ حضور نبی اکرم ﷺ کو وحی خفی کے ذریعے جو الہام کئے اور علم مغیّبات عطا کئے ہیں، ان کے ذریعے ماضی اور مستقبل کے اس علم کی خبر ہوئی اور آپ ﷺ اُن امتوں پر بھی گواہ بنے۔
2۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کی چشمانِ مقدس سے ماضی اور حال کے زمانوں کے تمام پردے اُٹھا دیے گئے اور کشف اتنا قوی ہوگیا کہ آپ ﷺ ہر چیز اس طرح بیان کرتے ہیں جس طرح گواہ اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے والے واقعہ پر گواہی دیتا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے فرمانِ مبارک - أَنَا شَھِیْدٌ عَلَیْکُمْ - سے مراد یہ بھی ہے گویا حضور نبی اکرم ﷺ فرما رہے ہیں کہ ہر روز تمہارے اعمال مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں۔ اس کی تائید حضرت سعید بن مسیب کے اس قول سے ہوتی ہے، وہ بیان کرتے ہیں:
لَیْسَ مِنْ یَوْمٍ إِلَّا تُعْرَضُ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ أُمَّتُهٗ غُدْوَةً وَعَشِیَّةً، فَیَعْرِفُھُمْ بِسِیْمَاھُمْ وَأَعْمَالِھِمْ فَلِذَالِکَ یَشْھَدُ عَلَیْھِمْ.
کوئی دن ایسا نہیں کہ جس میں صبح و شام حضور نبی اکرم ﷺ پر آپ ﷺ کی ساری اُمت پیش نہ کی جاتی ہو۔ آپ ﷺ اُن کی ظاہری علامات اور اعمال سے اُنہیں پہچانتے ہیں، اسی لیے تو آپ ﷺ ان پر (روزِ قیامت) گواہی دیں گے۔
گویا حضور ﷺ کو کشف عطا کیا جاتا ہے، پردے اُٹھائے جاتے ہیں اور ہر اُمتی خواہ وہ مشرق میں ہے یا مغرب میں اس کے اعمال ہر روز آپ ﷺ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں اور آپ ﷺ انہیں صبح و شام ملاحظہ فرماتے ہیں۔ اسی لیے آپ ﷺ اُن پر گواہی دیں گے۔
یہ جلیل القدر تابعی سیدنا سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کا عقیدہ ہے جو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد ہیں۔ اُنہوں نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے علم حاصل کیا اور اُسی سے یہ عقیدہ اور تفسیر بیان کی ہے۔ اس قول کو حضرت عبد اللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ اور امام قرطبی نے بھی روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اسی وجہ سے فرمایا گیا:
فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍم بِشَھِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآءِ شَھِیْدًاo
النساء، 4: 41
پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گےo
حضور نبی اکرم ﷺ کا یہ مشاہدہ فرمانا کشف کے ذیل میں آتا ہے، اسی کشف کی بناء پر آپ ﷺ نہ صرف اپنی اُمت پر بلکہ دیگر اُمتوں پر بھی گواہی دیں گے۔
شہداء اُحد کے قبرستان میں منعقدہ اجتماع میں آپ ﷺ نے یہ جملہ بھی ارشاد فرمایا:
وَإِنِّي وَ اللهِ، لَأَنْظُرُ إِلٰی حَوْضِي الْآنَ.
اللہ کی قسم! میں اپنے حوضِ کوثر کو اس وقت بھی ( اپنی آنکھوں سے ) دیکھ رہا ہوں۔
یعنی شہدائے اُحد کے مزارات کے پاس منبر پر کھڑے ہو کر حضور نبی اکرم ﷺ حوضِ کوثر کو بھی دیکھ رہے ہیں، حالانکہ حوضِ کوثر روزِ قیامت آپ ﷺ کو عطا کیا جائے گا۔ گویا مستقبل سے بھی پردے اُٹھ گئے اور آپ ﷺ کو اس کا بھی کشف عطا کر دیا گیا۔ وہی حوضِ کوثر جسے اللہ تعالیٰ نے اِنَّآ اَعْطَیْنٰـکَ الْکَوْثَرَ کے فرمان کے ذریعے حضور ﷺ کو عطا کئے جانے کی نوید سنائی۔ حضور نبی اکرم ﷺ اس حوض سے جام بھر بھر کر اپنے امتی غلاموں کو پلائیں گے۔ ابھی تو اس حوض کا ظہور نہیں ہوا، لیکن ظہور سے پہلے، وقوعِ محشر سے پہلے آپ ﷺ قیامت کو بھی دیکھ رہے ہیں، اور جنت میں آپ ﷺ کو عطا کیے جانے والے حوض کوثر کا مشاہدہ بھی فرما رہے ہیں۔
پہلے بھی بیان ہو چکا ہے اور اس موقع پر پھر توضیح و تصریح کرنا چاہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ پر جو وحی اترتی تھی اُس کی دو شکلیں ہوتی تھیں:
جو قرآن مجید کی صورت میں آئی ہے۔
وہ وحی جس کا نزول آپ ﷺ پر جبریل امین علیہ السلام کے ذریعے نہیں، بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بلا واسطہ آپ ﷺ کے قلبِ اَطہر پر علم، خبر اور کسی چیز کا حکم القاء فرمایا ہے۔ وہ طریقہ الہام کا بھی ہے اور طریقہ اعلام کا بھی ہے۔ وہ طریقہ کسی بھی صورت میں ہو وہ اخبارِ الٰہی ہے اور اُسی کو ہم بنیاد بنا کر سنت اور حدیث کی حجیت کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ یہ سورۃ النجم میں ارشاد فرمائے گئے اس فرمان کی تفصیل ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰیo اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیo
النحم، 53: 3-4
اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔
معلوم ہوا آپ ﷺ کی زبان اقدس سے صادر ہونے والا ایک ایک لفظ وحی ہے۔ اگر وہ وحی حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کے ذریعے اتری ہو تو قرآن بن جاتا ہے، اگر فرشتے اور جبرائیل امین علیہ السلام کے واسطے کے بغیر براهِ راست آپ ﷺ کے قلب اطہر پر اُس کا علم القاء ہوا ہو تو وہ وحی خفی بن جاتی ہے۔ قرآن وحی جلی کے زمرے (category) میں آتا ہے اور آپ ﷺ نے سنت اور تمام احادیث مبارکہ میں جو علم، اطلاعات، خبریں اُمت کو دیں وہ سب علم وحی خفی میں آتے ہیں۔
کشف حضور ﷺ کا ایک اور مرتبہ ہے۔ یہ وہ مقامِ علم ہے جس میں حجابات اٹھا دیے جاتے تھے۔ پھر یہ کشف کرامت کی صورت میں حضور ﷺ کی امت کے صلحاء، اولیاء اور اہلِ صفائے قلب کو بھی نصیب ہوتا ہے۔ ایسے واقعات جن میں آپ ﷺ نے کسی چیز کا مشاہدہ کرنے کا ذکر فرمایا، ان میں آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھے اس چیز کے بارے میں خبر دی گئی ہے یا یہ علم میرے قلب پر القاء ہوا ہے یا اللہ تعالیٰ نے مجھے خاص طریقے سے مطلع فرمایا ہے۔ شہداء اُحد پر نماز پڑھنے والی زیر بحث حدیث مبارک میں بھی آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھے مطلع کیا گیا ہے کہ قیامت والے دن حوضِ کوثر بھی ہوگا جہاں سے آپ ﷺ اپنے امتیوں کو سرمدی جام بھر بھر کر پلائیں گے بلکہ فرمایا: میں اس وقت حوضِ کوثر کو دیکھ رہا ہوں۔ اِس علم کا مصدر، منبع، ذریعہ (Source) اور وسیلہ الگ ہے۔
اسی طرح جب حضور ﷺ اپنی امت کو فرماتے ہیں کہ أَنَا شَھِیْدٌ عَلَیْکُمْ کہ قیامت کے دن میں تمہارے اوپر گواہی دینے والا ہوں۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ اُس وقت یہ نہیں فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ میں قیامت کے دن تمہارے اوپر گواہی دے رہا ہوں۔ بلکہ فرمایا أَنَا شَھِیْدٌ عَلَیْکُمْ ’میں تمہارے اوپر گواہی دینے والا ہوں۔‘ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کو اپنے اس مرتبے کی آگاہی اللہ تعالیٰ نے بطریقِ اعلام اور بطریقِ وحی فرما ئی۔
لہٰذا اگر حضور ﷺ فرما دیں کہ مجھے اس کی خبر دی گئی ہے، یا مجھے آگاہ کیا گیا ہے کہ ایسا ہوگا تو اس کا مطلب ہے وہ اعلام و اخبار کا طریقہ ہے، قرآنی وحی ہے یا حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتے کے ذریعے آپ ﷺ کو جن علوم سے آگاہ فرما دیا اُن میں سے ہے، لیکن جب فرما دیں کہ میں دیکھ رہا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے براہ راست بذریعہ مکاشفہ اور مشاہدہ آپ ﷺ کو علم عطا کیا ہے۔ یہ صورت مختلف ہوگئی اور یہی کشف ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے کشف کی ایک مثال شاهِ حبشہ نجاشی کے انتقال کی خبر اور ان کی نمازِ جنازہ پڑھانا بھی ہے۔ جب شاهِ حبشہ نجاشی کا حبشہ (Abyssinia، جسے آج کل ایتھوپیا کہتے ہیں) میں انتقال ہوا تو حضور نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ میں تھے۔ آپ ﷺ نے عین اُسی لمحے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ان کی وفات کی خبر سنائی اور مدینہ طیبہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صفیں قائم کروا کر ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ ان معلومات کا ظاہری ذریعہ (source of information) کچھ نہیں تھا بلکہ یہ صرف حضور نبی اکرم ﷺ کا کشف تھا کہ آپ ﷺ نے حبشہ میں شاہ نجاشی کے انتقال کو مدینہ منورہ میں موجود ہوتے ہوئے جان لیا۔ گویا یہ ایک ایسا علم ہے جو آپ ﷺ کو بطریقِ کشف عطا ہو رہا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ نَعَی النَّجَاشِيَّ فِي الْیَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِیْهِ خَرَجَ إِلَی الْمُصَلّٰی، فَصَفَّ بِهِمْ وَکَبَّرَ أَرْبَعًا.
رسول اللہ ﷺ نے نجاشی کے فوت ہونے کی اُسی روز خبر دی جس روز انہوں نے وفات پائی۔ آپ ﷺ جناز گاہ کی طرف نکلے، لوگوں نے صفیں بنائیں اور آپ ﷺ نے چار تکبیریں کہیں۔
کوئی اس واقعہ اور اس جیسے دیگر سیکڑوں واقعات کے بارے میں کہہ سکتا ہے کہ یہ تو حضور نبی اکرم ﷺ کے معجزات ہیں۔ اس کی وضاحت میں عرض ہے کہ بلا شک و شبہ یہ آپ ﷺ کا معجزہ بھی ہے اور اس کا تعلق کشف کے ساتھ بھی ہے۔ معجزہ ہونے پر نہ بحث ہے اور نہ ہی انکار ہے کیونکہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں اور نبی کی ذات سے جو کوئی بھی خرقِ عادت، خلافِ عادت واقعہ صادر ہوگا تو اُسے معجزہ ہی کا ٹائٹل دیں گے۔ مگر کسی واقعہ کے معجزہ ہو جانے سے اس کے کشف ہو جانے کا انکار نہیں ہو جاتا، یا اس کے کشف قرار پانے سے معجزہ ہو جانے کا انکار نہیں ہو جاتا۔ لفظ معجزہ اُس واقعہ کے بارے میں بولا جاتا ہے جو خرقِ عادت اور خلافِ عادت ہو، لیکن جب اس واقعہ کی ماہیت پر بات کریں گے کہ اس کی ماہیت کیا ہے؟ کیسے ہوا؟ تو اس کا جواب ہوگا کہ یہ کشف سے ہوا۔ اگر پوچھا جائے کہ یہ واقعہ کیا ہے اور اسے کیا کہیں گے؟ تو جواب ہوگا کہ یہ معجزہ ہے۔ ’کیا‘ کے جواب میں ’معجزہ‘ کہیں گے اور ’کیسے‘ کے جواب میں ’کشف‘ کہیں گے۔ اُس واقعہ کی ماہیت، طریقے اور وقوع پذیر ہونے کے طریق کو کشف کہا جاتا ہے۔
ایسے ہی کشف حضور ﷺ کی اُمت کے اولیاء کو بھی ہوتے تھے، ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے اور ان سے ثابت ہیں اور یہ عقیدے کا حصہ ہے۔ اشاعرہ، ماتریدیہ، تمام مذاہب، تمام اہل سنت اور اہل تشیع، سلفی، غیر سلفی، حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی بغیر کسی تخصیص کے اُمت کے چودہ سو سال کے عرصہ میں کسی ایک طبقہ نے بھی کشف کے وجود، اس کی حقیقت اور اس کے قائم ہونے اور باقی رہنے کا انکار نہیں کیا۔ اس پر کامل اتفاق اور اجماع ہے۔
اگر حضور نبی اکرم ﷺ کے اِن مکاشفات کو محض معجزہ کہیں اور صرف نبی کی ذات تک اسے محدود رکھیں تو پھر اس سوال کا جواب ہوگا کہ خلفاء راشدین سمیت دیگر اکابر صحابہ کرام، اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اولیاء کرام کو بھی اسی طرح کے واقعات درپیش رہتے تھے کہ فاصلے اور وقت کے پردے اُن کے سامنے سے اُٹھا دیئے جاتے تھے۔ اگر کوئی کشف کی حقیقت، ماہیت، اُس کے وجود، اُس کے ثبوت اور اُس کے موجود (exist) ہونے کا انکار کرنا چاہے اور اس کی سمجھ میں نہ آئے اور وہ یہ کہہ دے کہ یہ تو معجزہ ہے۔ تو وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے اسی طرح کے واقعات پر کیا کہے گا؟ اُن کے لیے تو معجزہ نہیں کہیں گے۔ یہی بات واضح کرنا مقصود ہے کہ معجزہ ٹائٹل ہے اور جب کشف کہتے ہیں تو یہ علم کے حصول کی نوعیت ہے کہ یہ علم حاصل کیسے ہوا؟ دیکھا کیسے؟ ’کیسے‘ کا جواب ’کشف‘ ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کے نبی کے ہاتھ پر صادر ہوا تو معجزہ کہیں گے اور اگر اللہ کے ولی کے ہاتھ سے صادر ہوتا یا ہو تو اسے کرامت کہیں گے۔
کشف غیر مومن کے ہاتھ سے اور غیر مسلم کی آنکھوں سے بھی صادر ہو سکتا ہے۔ ہندو جوگی ریاضت اور مجاہدہ کرنے والوں کے بھی کشف ہوتے ہیں۔ کشف تو کفار کو بھی ہو سکتا ہے۔ یہ ریاضت اور مجاہدے سے پردے کا اٹھنا ہے۔ اگر یہ کسی فاسق و فاجر، غیر مومن یا غیر مسلم کو ہو جائے تو اسے ’استدراج‘ کہیں گے، مگر وہ بھی کشف ہی ہے۔ جب نوعیت کی بات ہوگی تو کشف کہیں گے، جب ٹائٹل دیں گے تو استدراج کہیں گے۔ لہٰذا واقعہ ایک، نوعیت ایک، ماہیت ایک اور اُس علم کے حصول کا طریقہ کار بھی ایک ہی ہے مگر افراد بدل رہے ہیں تو نسبت کے اعتبار سے ٹائٹل بھی بدل گیا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی خلافِ معمول واقعہ نبی سے صادر ہوا تو معجزہ ہوا، ولی سے صادر ہوا تو کرامت ہوئی اور کسی فاسق و فاجر حتیٰ کہ غیر مسلم سے صادر ہوگیا تو اُسے استدراج کہا جائے گا۔ یوں شخصیات کے بدلنے سے ٹائٹل بھی بدل جائے گا۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّهُمَا لَیُعَذَّبَانِ وَمَا یُعَذَّبَانِ فِي کَبِیْرٍ. أَمَّا أَحَدُهُمَا فَکَانَ لَا یَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَکَانَ یَمْشِي بِالنَّمِیْمَةِ، ثُمَّ أَخَذَ جَرِیْدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا بِنِصْفَیْنِ، ثُمَّ غَرَزَ فِي کُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً. فَقَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللهِ، لِمَ صَنَعْتَ هٰذَا؟ فَقَالَ: لَعَلَّهٗ أَنْ یُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ یَیْبَسَا.
ان دونوں (قبر والوں) کو عذاب ہو رہا ہے اور انہیں کسی کبیرہ گناہ کے باعث عذاب نہیں ہو رہا۔ بلکہ ان میں سے ایک تو پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا لوگوں کی بہت چغلیاں کیا کرتا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے ایک سبز ٹہنی لی اور اس کے دو حصے کر کے ہر قبر پر ایک حصہ گاڑ دیا۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں گی تو ان کے عذاب میں کمی ہوتی رہے گی۔
غور فرمائیں! قبروں کے پاس سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی گزرے اور حضور نبی اکرم ﷺ بھی گزرے۔ صحابہ نہیں دیکھ سکے مگر آپ ﷺ نے دیکھا۔ آپ ﷺ کو یہ کشف اس حد تک ہوا کہ آپ ﷺ نے کشف سے سببِ عذاب بھی جان لیا کہ ایک کو پیشاب کی ناپاکی کے باعث عذاب ہو رہا ہے اور دوسرے کو چغلی اور غیبت کی عادت کے باعث عذاب ہو رہا ہے۔
المختصر یہ کہ دونوں قبروں کے معاملات کو جاننا یہ آپ ﷺ کا کشف تھا۔
حضورنبی اکرم ﷺ کے کشف کی شان یہ ہے کہ آپ ﷺ کا کشف نہ تو زمانوں کا محتاج ہے اور نہ ہی فاصلوں کا محتاج ہے۔ نہ واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کا محتاج ہے اور نہ ہی کسی حقیقت کے عالم حسی اور عالم وجود میں ظاہر ہو جانے کا محتاج ہے۔ آپ ﷺ کا کشف نہ کسی بندے یا کسی شے کے وقوع کا محتاج ہے، نہ کسی کے ظہور کا محتاج ہے۔ ماضی کے زمانے کا محتاج ہے نہ مستقبل کا محتاج ہے، نہ حال کا محتاج ہے، نہ قریب کا محتاج ہے اور نہ بعید کا محتاج ہے۔ اُس چیز کو ظاہری وجود بھی نہ ملا ہو تب بھی حضور ﷺ کے کشف میں وہ نظر آتی ہے اورحضور ﷺ اسے دیکھتے ہیں۔
یہ حضور نبی اکرم ﷺ کا وہ مقامِ علم ہے کہ جس کی کوئی مثال کائنات میں نہ تو کوئی نبی دے سکتا ہے نہ کوئی رسول، نہ پیغمبر اور نہ ہی کوئی ولی۔ اولیاء اللہ کو ان کی شان و مراتب کے مطابق آپ ﷺ کے معجزات کے تسلسل اور تتبع میں کشفِ محمدی ﷺ سے ایک بڑا بطور خیرات نصیب ہوتاہے۔ جسے کرامت اور کشف کہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں علم باطن کے ذرائع و وسائل کا فہم و معرفت اور انبیاء و اولیاء کو حاصل علم باطن کے طرق کی آگہی عطا فرمائے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved