کشف سے مراد پردے کا اٹھ جانا ہے۔ اِسی سے مکاشفہ ہے۔ بندہ جیسے جیسے نفس کی کدورتوں، رزائل اور کثافتوں سے پاک ہوتا چلا جاتاہے ویسے ویسے قلب کا تصفیہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کیفیت میں مومنین اور صالحین کو صفائے قلب نصیب ہوتا ہے اور دل کا آئینہ گناہوں کی گرد و غبار سے اجلا ہو کر حق کی تجلیوں کا مرکز بن جاتا ہے۔ قرآن مجید میں کشف کا لفظ کچھ اس معنی میں آیا ہے:
لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰذَا فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآئَکَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌo
قٓ، 50: 22
حقیقت میں تُو اِس (دن) سے غفلت میں پڑا رہا سو ہم نے تیرا پردۂِ (غفلت) ہٹا دیاپس آج تیری نگاہ تیز ہے۔
آیت مبارکہ میں مذکور وہ پردہ کیا ہے جس کے ہٹانے کو قرآن لفظِ کشف کے ذریعے بیان کر رہا ہے؟ آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
گزشتہ ابواب میں ہم حجابات کی مختلف اقسام کا مطالعہ کر چکے کہ حجابات مختلف اقسام کے پردے ہیں جو انسان کے دل پر پڑے ہوئے ہیں۔ اِن حجابات کو دور کئے بغیر روحانی ترقی ممکن نہیں ہوتی۔ اِن حجابات کے علاوہ مختلف انواع کی سیاہیاں بھی ہیں جو اَعمال سیئہ اور برے اخلاق کے نتیجے میں دل کو سیاہ کرتی ہیں۔ ان سیاہیوں کے علاوہ دل کے درج ذیل زنگ بھی ہیں جو انسانی دل پر چھائے ہوئے ہیں:
یہ دِل پر چھانے والے زنگ میں سے ہلکی قسم ہے، جس میں دل پر چھوٹی موٹی گرد و غبار پڑ جاتی ہے۔ یہ نہایت ہلکا حجاب ہوتاہے۔
یہ غین سے زیادہ کثیف حجاب ہوتا ہے۔
غیم سے کثیف حجاب کو رَین اور ران کہتے ہیں۔
اِن حجابات کا ذکر قرآن مجید اور احادیثِ نبوی میں مختلف حوالوں سے آیاہے۔ ان حجابات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بندے کو علم ہو کہ دل پر چھانے والا حجاب کس نوعیت کا ہے؟ وہ حجاب کتنا پتلا اور کتنا زیادہ سخت ہے۔ حجابات کے اٹھنے کے عمل کورفعِ حُجب کہتے ہیں۔ جب ہماری آنکھوں کے سامنے ایک پردہ بھی پڑا ہو تو ہمیں واضح نظر نہیں آتا۔ سادہ سی بات ہے کہ اگر پردہ اٹھا دیں تو کیا ہو تاہے؟ جو کچھ ورائے حجاب یعنی پردے کے پیچھے تھا وہ سب کچھ نظر آنے لگ جاتاہے۔ یہ پردے کیسے اُٹھتے ہیں؟ دراصل یہ سب کشف ہی کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے۔
گزشتہ صفحات میں ہم اِس پر تفصیل سے گفتگو ( علیہما السلام iscuss) کر آئے ہیں کہ جس طرح جسمانی کان، آنکھیں اور زبان ہوتے ہیں، عین اِسی طرح قلب کی بھی آنکھیں، کان اور زبان ہیں۔ قلب اپنی زبان سے اللہ کا ذکر کرتاہے۔ قلب اپنے کانوں سے مخاطبات اور فرشتوں کے کلمات کو سنتاہے۔ اِسی طرح قلب اپنی آنکھوں سے مغیّبات یعنی غیب کی چیزوں کو واضح طور پر دیکھتا ہے جنہیں سر کی آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں۔ قلب (دل) پر چونکہ چھوٹے، بڑے، ظاہری اور باطنی گناہوں، برے عقائد و خیالات، بری باتوں، شہوات اور طرح طرح کے حجابات پڑے ہوئے ہوتے ہیں، حتیٰ کہ غفلتوں، اعلیٰ کاموں کو چھوڑ کر ادنیٰ کام کرنے اور مباحات کی کثرت جیسے اعمال کے پردے حائل ہوتے ہیں؛ لہٰذا جیسے جیسے ریاضات و مجاہدات اور اعمالِ صالحہ کے نتیجے میں گناہوں کی سیاہی دھلتی چلی جاتی ہے، ویسے ویسے دل سے پردے اور حجابات بھی اُٹھتے چلے جاتے ہیں۔
قرآن مجید میںاللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا.
العنکبوت، 29: 69
اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (یعنی مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیںاپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں۔
راستوں کے کھول دینے سے مراد انہی حجابات کا اٹھا دینا اور انہی راستوں کا کھلنا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جب پردے اٹھتے ہیں تو تبھی راستے کھلتے ہیں۔ سو اس بنیادی تصور کا نام ہی ’کشف‘ اور ’مکاشفہ‘ ہے۔
قرآن مجید میں کشف کو جن معانی میں استعمال کیا گیا ہے، آئیے! ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
قرآن مجید نے سورۃ ق کی آیت نمبر 22 میں اِس لفظ کو پردۂ غفلت اُٹھا دینے کے معنی میں استعمال فرمایا ہے:
لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰذَا فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآئَکَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌo
قٓ، 50: 22
حقیقت میں تُو اِس (دن) سے غفلت میں پڑا رہا سو ہم نے تیرا پردۂِ (غفلت) ہٹا دیاپس آج تیری نگاہ تیز ہے۔
اس آیتِ مبارکہ میں غفلت اور کشف کے درمیان ایک تناسب بیان کیا گیا ہے کہ غفلت دراصل قلب پر پردے ڈالتی ہے اور کشف اُن پردوں کو اٹھا دیتا ہے۔ اِس آیت کریمہ میں ان دونوں چیزوں کا ورود ہوا ہے کہ انسان حقیقت میں یوم حشر سے غفلت میں پڑا ہوا تھا اور اس غفلت نے اس کے دل کو اندھا کر دیا تھا کہ اُس کا دل آنے والے روزِ قیامت کو اللہ کے حضور پیش ہونے کو دیکھ سکے، سمجھ سکے اور اُس کی معرفت حاصل کر سکے۔ پھر کیا ہوا؟ اس سے غفلت کے پردہ کو ہٹا دیا گیا۔ یعنی کل تک جو کچھ پنہاں تھا، غفلت کا پردہ اٹھ جانے کے بعد آج وہ ہر چیز کو عیاں دیکھ کر اس کا مشاہدہ کر رہا ہے۔
قرآن مجید نے قیامت کے دن کے احوال کا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّیُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ فَـلَا یَسْتَطِیْعُونَo
القلم، 68: 42
جس دن ساق (یعنی اَحوالِ قیامت کی ہولناک شدت) سے پردہ اٹھایا جائے گا اور وہ (نافرمان) لوگ سجدہ کے لیے بلائے جائیں گے تو وہ (سجدہ) نہ کر سکیں گے۔
روزِ محشر وہ دن ہو گا جس دن ساق سے پردہ اُٹھایا جائے گا۔ یہاں احوالِ قیامت کی ہولناکیوں اور شدتوں کو ’ساق ‘کہا گیا ہے۔ ان سے انسان پریشان ہوں گے۔ تاحال جو کچھ وہ نہیں دیکھ سکتے تھے اب اُنہیں واضح نظر آنے لگ جائے گا۔ اُنہیں دعوت دی جائے گی کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤ مگر وہ سجدہ نہ کر سکیں گے۔
حضرت قتادہ التابعی نے بیان کیا ہے کہ قیامت کے دن کا کشف (یعنی پردے کا اُٹھنا) قیامت کی ہولناکیوں، شدائد اور مشکلات سے ہوگا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین نے ’ساق‘ کے کئی اور معانی بھی بیان کیے ہیں۔ امام بخاری نے ’صحیح بخاری‘ کی کتاب التفسیر میں ’بَابُ یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ‘ کے عنوان سے باب قائم کیا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
یَکْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهٖ.
بخاری، الصحیح، کتاب التفسیر، باب: {یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ}، 4: 1871، رقم: 4635
ہمارا رب اُس دن اپنی ساق سے پردہ اُٹھا دے گا۔
یعنی کشف کر دیا جائے گا۔ لوگوں کی آنکھوں سے پردے اٹھ جائیں گے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ’ساق‘ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ (القلم، 68: 42)، قَالَ: عَنْ نُوْرٍ عَظِیْمٍ یَخِرُّوْنَ لَہٗ سُجَّدًا.
جس دن ساق سے پردہ اٹھایا جائے گا۔ فرمایا: اس سے مراد ایک عظیم نور (نورِ الٰہی) ہے جسے دیکھتے ہی سب (مؤمنین) سجدے میں گر جائیں گے۔
عظیم نور سے مراد جلوۂ حق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اَنوار و تجلیات اُنہیں غفلت اور کفر و فسق کے پردے کی وجہ سے نظر نہیں آرہے ہوں گے۔ چنانچہ پردہ اُٹھتے ہی وہ نورِ حق کا جلوہ کریں گے۔
اِس کے علاوہ ’صحیح بخاری‘، ’صحیح مسلم‘ اور صحاح ستہ کی کتب میں کئی احادیث موجود ہیں جہاں لفظِ کشف سے مراد اللہ تعالیٰ کے چہرئہ قدرت اورجمالِ حق سے پردہ اٹھنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ کبھی نورِ ربانی نظر آنے کے لیے پردے کا اٹھانا اور کشف کے لفظ کا ذکر آیا ہے۔ گویا کشف کا معنیکسی چیز سے پردہ اٹھانا ہے۔ وہ پردہ سر کی آنکھوں سے بھی اٹھایا جا سکتا ہے اور دل کی آنکھوں سے بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ کشف ہونے سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ دل دیکھنے سے قاصر تھا، پردہ اٹھ جانے سے وہ چیز واضح نظر آجائے۔
کشف کے لغوی معنی کے بعد اب کشف کی اصطلاحی تعریف پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
امام جرجانی ’التعریفات‘ میں کشف کی اصطلاحی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ھُوَ الِاْطِّـلَاعُ عَلٰی مَا وَرَاءَ الْحِجَابِ مِنَ الْمَعَانِيَّ الْغَیْبِیَّةِ وَالْأُمُوْرِ الْحَقِیْقِیَّةِ وُجُوْدًا وَشُهُوْدًا.
الجرجانی، التعریفات، 1: 237
کشف سے مراد وہ علم ہے جو غیب کے معانی سے پردہ اُٹھا دے، جو حقیقت میں موجود ہوں اور ظاہر بھی ہوں۔
اِس تعریف میں چار چیزیں قابل توجہ ہیں:
1۔ غیبی معانی
2۔ اُمور حقیقیہ
3۔ وجود
4۔ شہود
قرآن مجیدکے غیبی معانی سے پردہ اُٹھ جائے تو یہ بھی کشف ہے۔ جیسا کہ پہلے کئی روایات بیان ہوئی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے قرآن مجید کی آیات کریمہ کے بارے میں فرمایا:
لِکُلِّ آیَةٍ مِنْهَا ظَهْرٌ وَبَطْنٌ.
ہر ایک آیت کا ایک ظاہری معنی ہے اور ایک باطنی معنی ہے۔
ابتدائی مقامات پر فائز اولیاء، عرفاء، اصحابِ کشف، اصحابِ علمِ لدنی باطنی معنی کی اس ابتدا تک رسائی حاصل کرتے ہیں، جب کہ معارف اور اسرار و رموز کے اعلیٰ درجے کے منتہی اولیاء، عرفاء، اہل کشف اور اہلِ علمِ لدنی باطنی معنی کی اس انتہا تک رسائی رکھتے ہیں۔ گویا قرآن مجید، احادیث نبویہ اور احکام شرعیہ کے اندر چھپے ہوئے اسرار و رموز، معارف اور آیات کے مختلف معانی سے پردہ اُٹھ جانا کشف کہلاتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کسی کے قلب اور نفس کو تزکیہ اور تصفیہ عطا کر کے اُس کے قلب کے وہ تمام پردے یوں اٹھا دے کہ اُس پر مخفی اور غیبی معانی آشکار ہو جائیں۔ یہ کوئی مادی اجسام اور چیزوں کا کشف نہیں ہو رہا بلکہ قرآنِ حکیم کے باطنی معانی کا عظیم کشف ہو رہا ہے۔
یہ امر ذہن نشین رہے کہ یہ تعریف علامہ جرجانی کی کتاب ’التعریفات‘ سے پیش کی جا رہی ہے جو کہ شرعی علوم کے اندر اصطلاحات کی تعریفات پر مبنی سب سے معتمد اور معتبر کتاب ہے۔ بعد ازاں جس کسی نے بھی علمی، دینی، فنی، شرعی اور اسلامی اصطلاحات پر بات کی ہے، اُس نے اِنہی پر اعتماد کیا ہے۔
علامہ جرجانی کہتے ہیں کہ بنیادی چیز تویہ ہے کہ حجاب کے پیچھے جو کچھ ہے اس پر مطلع ہو جانے کو کشف کہتے ہیں۔ وہ بطریقِ الہام، بطریقِ علمِ لدنی اور بطریقِ رفعِ حجاب بھی مُطلع ہو سکتا ہے۔ دوسرا وہ بیان کرتے ہیں کہ قرآن مجید ہو، احادیثِ نبوی ہوں یا احکامِ دین ہوں، اُن کے غیبی معانی، اسرار و رموز اور پوشیدہ معارف جو الفاظ کی صورت میں ظاہری علوم کے عالم کو معلوم نہیں ہوتے، اُن معانی کا ادراک ہو جانے کو بھی کشف کہتے ہیں کیونکہ بندے کے قلب کی رسائی اُن کے غیبی معانی تک ہو جاتی ہے۔
مذکورہ تعریف میں علامہ جرجانی مزید فرماتے ہیں کہ پردہ اُٹھنے سے حقیقی اُمور پر ادراک ہو جائے تو اِسے بھی کشف کہتے ہیں، خواہ وہ وجود سامنے آجائے یا اُس کا مشاہدہ، صفات اور تفصیلات کے ساتھ ہونے لگے۔
کشف کے ذریعے علومِ خفیہ بھی منکشف ہوجاتے ہیں یعنی اب تک جو کچھ مخفی اور پردۂ غیب میں تھا، وہ علومِ غیبیہ بھی قلب پر آشکار ہوجاتے ہیں اور قلب ان کی حقیقت پر آگاہ ہوجاتا ہے۔
کشف کیسے ہوتا ہے؟ اس امر کو جاننے کے لیے یہ ذہن نشین رہے کہ بندے کو صفائے قلب کے بعد اللہ تعالیٰ جب بندے کے دل سے پردے اٹھاتا ہے تو اُسے صفا اور شرحِ صدر نصیب ہوتا ہے اور نورِ اِلٰہی سے ہر شے روشن ہو جاتی ہے۔ سالک کو کبھی اللہ تعالیٰ کے افعال، کبھی اللہ کی صفات، کبھی اللہ کی ذات اور کبھی اللہ کے اسماء کا نور اور تجلیات نصیب ہوتی ہیں۔ اِن تمام تجلیات کا حاصل ہونا صاحبِ کشف ولایت، صاحبِ مرتبہ اور صاحبِ صفائے قلب کے درجہ کی بلندی پر منحصر ہے۔
یہ امر ملحوظِ خاطر رہے کہ مکاشفہ یا کشف اُن حقائق کا ہوگا جن تک حواسِ خمسہ کی رسائی نہیں ہے۔ وہ چیز جو سر کی آنکھیں دیکھ رہی ہوں، اُسے کشف نہیں کہتے۔ عام آدمی کے کان جو کچھ سن رہے ہیں، اگر یہی سنائی دے تو اُسے کشف نہیں کہتے۔ گویا وہ حقائق جو حواسِ خمسہ ظاہری اور عقل کے ادرا ک اور فہم سے ماورا ہیں، ان کا حصول کشف ہے۔ نیز یہ بھی ضروری ہے کہ یہ فیضِ بارگهِ اُلوہیت سے نصیب ہو اور نورانیت کے طورپر اللہ تعالیٰ سے حاصل ہونے والے نور کے ذریعے نصیب ہو، اس کیفیت کو ہی کشف کہتے ہیں۔
اس ضمن میں شیخ عبد الرزاق کاشانی ’لطائف الاعلام‘ میںبیان کرتے ہیں:
اَلْمُکَاشَفَةُ فِي الْعُرْفِ الْعَامِ: عِبَارَةٌ عَنْ کَشْفِ النَّفْسِ لما غَابَ عَنِ الْحَوَاسِ إِدْرَاکهٗ.
الکاشاني، لطائف الأعلام: 324
عرف عام میں مکاشفہ سے مراد نفس کا کشف کے ذریعے ایسی چیزوں کا ادراک کرنا ہے جن تک حواسِ خمسہ کے ذریعے رسائی ممکن نہ ہو۔
امام کاشانی مزید بیان کرتے ہیں کہ یہ کشف:
1۔ کبھی حقائقِ علمیہ کا ہوتا ہے، اور
2۔ کبھی حقائقِ کونیہ کا ہوتا ہے۔
یعنی ایک کشف یہ ہے کہ علمی حقائق جو ایک عام عالم کو استاد کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے سے نصیب نہیں ہوئے اور اُن حقائق کا اُس کے قلب میں ادراک نہیں ہوا، کتابوں کے مطالعہ، نصابات کو پڑھنے یا عمر بھر کتب کو کھنگالنے سے وہ حقائق اُس کی سمجھ میں نہیں آئے، بعض اوقات قلب و دل کی آنکھ سے پردہ اٹھتا ہے اور اُن حقائق کی معرفت ہو جاتی ہے تو اُسے کشف کہتے ہیں۔
حقائقِ کونیہ کے کشف سے مراد یہ ہے کہ اس مادی کائنات (material universe) میں جو چیزیں دور اور نظروں سے اوجھل ہیں وہ بیٹھے بیٹھے نظر آنے لگ جائیں تو اُسے حقائقِ کونیہ کا کشف کہتے ہیں۔
کشف کا ادراک ماضی سے حال اور مستقبل تک ہر جگہ اور زمانے پر ہوتا ہے۔ ایک واقعہ جو ماضی میں ہوا اور وہ آج نظر آجائے، حالانکہ وہ بظاہر آنکھوں کے سامنے نہیں ہے تو یہ بھی کشف ہے۔ ماضی میں جب واقعہ پیش ہوا تواس زمانے کے لوگ دیکھتے تھے کیونکہ اُن کی آنکھوں کے سامنے ہوا، لہٰذا وہ ان لوگوں کے لیے کشف نہیں تھا مگر اب ماضی گزر گیا ہے، واقعہ اوجھل ہو گیا ہے، اب وہ حقیقت آنکھوں کے سامنے نہیں رہی، اب اگر کوئی اُسے دیکھتا ہے تو اُسے کشف کہتے ہیں۔ اسی طرح جو کچھ مستقبل میں ہونے والا ہے، ممکن ہے جب اُس کے ظہور کا وقت آئے تو اُس زمانے کے لوگ ننگی آنکھ سے دیکھ رہے ہوں لیکن اُس سے قبل دیکھ لینا بھی کشف ہے۔ آنے والے وقت کے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور صاحبِ کشف صدیوں، سالوں، ہفتوں اور کئی دن پہلے ہی رونما ہونے والی بات دیکھ لے، یہ بھی کشف ہے۔
باطن کی آنکھ سے چیزوں کو دیکھ لینا مکاشفہ اور کشف کہلاتا ہے۔ یہ دو طرح کا ہوتا ہے:
1۔ سرّی
2۔ حسّی
اگر معانی، لطائف، معارف، اَسرار و رموز اور حقائقِ علمیہ کا کشف ہوا تو اُسے کشفِ سرّی کہا جاتا ہے۔ اگر مادی حقائق (p ysical objects) اور دنیا کا مکاشفہ ہوا تو یہ کشف حسّی ہے۔ یہ روحانیت میں ترقی کی دس میں سے پہلی منزل ہے۔ یہ بھی پہلے بیان ہو چکا ہے کہ مکاشفہ جب آگے بڑھتاہے تو اِس میں خطا کا امکان بھی ہوتا ہے۔
مکاشفہ یا کشف اکثر و بیشتر عالمِ مثال میں ہوتا ہے۔ موجودہ دنیا عالمِ اجسام ہے اور اِسے عالمِ شہادت کہتے ہیں۔ دوسری دنیا عالم اَرواح ہے، جہاں روحیں رہتی ہیں۔ عالمِ اَرواح سے روحیں آئیں اور اِس دنیا میں ہمارے جسموں میں منتقل ہوئیں۔ عالمِ اجسام اور عالمِ ارواح کے درمیان ایک عالم ہے، اُسے عالمِ مثال کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُس کے اندر وہی حقائق ہیں جو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں یا وہ حقائق عالمِ ارواح میں موجود ہوتے ہیں۔ یعنی عالمِ مثال میں الگ مثالی صورتوں میں حقائق موجود ہوتے ہیں۔ عالمِ مثال میں عالمِ اجسام کا بھی پرتو ہوتا ہے اور عالمِ ارواح کا بھی پرتو موجود ہوتا ہے۔ دونوں کے عکس (reflections) جب باہم ہو کر جمع (combine) ہو جاتے ہیں تو اسے عالم مثال کہتے ہیں۔
ہم جو کچھ خواب میں دیکھتے ہیں وہ عالمِ مثال ہی ہوتا ہے۔ وہ حقائق کی مثالی صورت ہوتی ہے۔ لہٰذا خواب میں جو چیز دیکھی اور سنی جاتی ہے اُس سے مراد من و عن وہ شے نہیں ہوتی بلکہ اُس کی تعبیر ہوتی ہے۔
مثال کے طورپر اگر کسی نے خواب میں دودھ دیکھا تو اس کی تعبیر علمِ دین کا حصول ہوگا۔ اگر خواب میں نفس امارہ کی مختلف چیزیں دیکھے مثلاً کبھی بیت الخلاء نظر آئے، تو اُس سے مراد گندگی نہیں ہوتا بلکہ اُس کا اشارہ نفسانی غلاظت اور دنیا کی طرف کیا جا رہا ہوتا ہے۔ کبھی اصطبل نظر آتا ہے، کبھی شراب نظر آتی ہے، کبھی افیون نظر آتی ہے، کیچڑ نظر آتاہے اور کبھی ٹھہرا ہوا گندہ پانی نظر آتاہے۔ اِس طرح کی چیزیں جو کچھ انسان دیکھتاہے، وہ اُس کے نفس امارہ کی مختلف کیفیتوں کی مثالیں ہوتی ہیں۔
عالم مثال کی یہ شکلیں کبھی اُس کے حرص اور طمع پر، کبھی اُس کے بخل اور کنجوسی پر، کبھی اُس کی جہالت اور غفلت پر، کبھی سستی اور کاہلی پر، کبھی بغض و عناد پر اور کبھی اُس کے غیض و غضب پر دلالت کر رہی ہوتی ہیں۔ الغرض آدمی خواب میں یعنی عالم مثال میں جو مختلف اشیاء دیکھتا ہے وہ اُس کی نفسانی کیفیات کی عکاسی ہوتی ہیں۔ خواب میں جو کچھ بھی نظر آتا ہے وہی من و عن نہیں سمجھا جاتا بلکہ اُس کی تعبیر کی جاتی ہے۔
کبھی خواب میں ہاتھی نظر آتاہے۔ اس کی تعبیر یہ ہے کہ اُس آدمی پر نفس کا غلبہ ہے اور وہ بہت زیادہ مغرور اور متکبرہے۔ کبھی عالمِ رویا میں سانپ نظر آتا ہے تو اس کی تعبیر نفس کے اندر منافقت کا موجود ہونا ہے۔ اب مختلف خوابوں کی الگ الگ تعبیرات ہیں۔ دشمن بھی سانپ کی شکل میں نظر آتاہے۔ اگر بچھو نظر آتاہے تو اس کی تعبیر عذاب ہے۔ چڑیا، جوئیں، کھٹمل وغیرہ اور اس طرح کی دیگر اشیا نظر آتی ہیں تو یہ مکروہات کے ارتکاب اور ناپسندیدہ عادات کی علامت ہوتی ہیں۔
الغرض جو کچھ بھی خواب میں نظر آتاہے وہ عالمِ مثال کی چیزیں ہوتی ہیں۔ جو دوسری چیزوں، کیفیات یا رجحانات پر دلالت کرتی ہیں۔ اِسی طرح کبھی بھیڑ، بکری نظر آئے گی تو یہ حلال جانور کی طرف اشارہ ہوگا۔ اس کی تعبیر ہے کہ خواب دیکھنے والے کی رغبت رزقِ حلال کی طرف ہے۔ اگر مچھلی، بطخ، مرغا، مرغی یا کبوتر نظر آئے، چونکہ یہ تمام پاکیزہ جانور ہیں تو خواب دیکھنے والے کی رغبت حلال کی طرف ہونے پر دلالت ہے۔ یہاں سے پتہ چلے گا کہ اس کا نفس لوامہ ہو چکاہے یا پھر لوامہ کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔
اگر خواب میں اونٹ نظر آئے تو بوجھ اٹھانا چونکہ اس کی اخلاقی صفت ہے، لہٰذا یہ نفس کی کیفیت کی طرف اشارہ ہے۔ خواب دیکھنے والا تو بظاہر اونٹ دیکھ رہا ہے مگر اُس کی بوجھ اٹھانے کی صفت کو بطور تعبیر لیا جائے گا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ یہ بندہ دوسرے بندوں کے بوجھ اٹھانے اور تحمل و برداشت کا حامل ہے اور اِس کے اندر رواداری کے اوصاف پیدا ہو رہے ہیں۔
اِسی طرح اگر خواب میں کھجور یا شہد نظر آئے تو اس کی بھی یہی تعبیر ہے کہ وہ شخص حسن خلق کا پیکر ہے۔ چونکہ شہد اور کھجور کا تذکرہ قرآن میں آیا ہے اور یہ حضور نبی اکرم ﷺ اور دیگر انبیاء علیہم السلام کی پسندیدہ خوراک ہے۔ یہ اچھی چیزوں اور پاکیزہ اخلاق کی طرف رغبت پر دلالت کرے گا۔ اِسی طرح دوسرے پھل اور میوے نظر آئیں گے تو وہ بعض اوقات بے معنی اور لغو کلام سے نجات حاصل کرنے کی طرف اشارہ ہوگا۔
بعض اوقات کسی کو کوئی شخص مست اور مدہوش نظر آئے تو یہ نفسِ ملہمہ کی مثالی شکلیں ہوں گی۔ اگر کسی شخص کو لنگڑا اور اپاہج دیکھا ہے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ اُس کے اعمالِ صالحہ میں کمزوری ہے۔ بظاہر تو خواب میں لنگڑے آدمی کو دیکھ رہا ہے مگر اشارہ ہے کہ اُس کے ایمان اور عمل کے اندر کم زوری ہے۔
یونہی اگر کسی شخص کو گونگا دیکھے گا تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہوگا کہ خواب دیکھنے والے میں حق کہنے کی جرأت نہیں ہے۔ اگر جوا ری اور مسخرے کو دیکھے تو اُس کی تعبیر ہے کہ اُس کے اندر عبادت ترک کرنے کا رجحان ہو رہا ہے اور وہ حرام کاری کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگرخواب میں چور کو دیکھے تو اِس کا مطلب ہے کہ اُس کے اندر ریاکاری ہے۔ اگر قصاب کو دیکھے تو اُس کے دل پر گناہوں کی سیاہی نظر آئے گی۔ کسی کو اگر اندھا اور بھینگا دیکھے تو اُس کا مطلب ہے کہ اُس بندے کے اندر گم راہی جنم لے رہی ہے اور وہ مزید برے اعمال و احوال کی طرف بڑھ رہا ہے۔
اِسی طرح اگر کوئی شخص اپنے آپ کو قرآن مجیدکی تلاوت کرتا ہوا دیکھے، اللہ کے نبی ﷺ کا دیدار کرے، مدینہ طیبہ دیکھے، بیت المقدس دیکھے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اولیاء اللہ اور مشائخ کی زیارت کرے، مسجد دیکھے، مدارس دیکھے یا حدیث، تفسیر اور دیگر دینی کتب دیکھے تویہ علامات ہیں کہ اُس کے اندر نفس مطمئنہ کی خصوصیات پیدا ہو رہی ہیں۔ اب وہ غور کرے گا کہ کتنی خوبیاں پیدا ہو چکی ہیں اور کتنی پیدا نہیں ہوئیں۔
اگر نیک بادشاہ یا عادل حکمران کو دیکھتا ہے تواِس کی تعبیر ہے کہ اُس کے اندر عبادت و ریاضت کی رغبت پیدا ہو رہی ہے۔اگر وہ خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ کی زیارت کرتاہے تواُس کا مطلب ہے اُس کادل اوہام اور وسوسوں سے پاک ہو رہاہے۔
اگر کوئی شخص خواب میں جامع مسجد، دینی مدارس اور نیک چیز کو دیکھے تو اُس کا مطلب ہے کہ گویا اُس کے اندر نیک اعمال کے سبب اچھائی کی قوت اور اس کے قلب پر اطمینان کے اثرات بڑھ رہے ہیں۔ وہ اعمال میں بہتری کی طرف گامزن ہو رہا ہے۔ اگر کوئی شخص خواب میں تیر اور کمان، بندوق اور دیگر اسلحہ دیکھے تو اِس کا مطلب ہے کہ اُس کے دل میں ابھی کچھ وسوسے موجود ہیں۔ اس صورت میں اسے چاہیے کہ وہ مزید عبادت و ریاضت کرے، مجاہدہ کرے اور خود کو اُن وسوسوں سے مزید پاک اور صاف کرے۔
خواب اور ان کی تعبیروں کے یہ چند ایک نمونے اِس لیے تحریر کیے ہیں کہ اِسی طرح مقامات بلند ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جیسے جیسے مقامات بڑھتے چلے جاتے ہیں ویسے ویسے عالمِ رویاء میں جو کچھ دیکھتا ہے اُس کے مدارج اور کیفیات بھی بڑھتی اور بدلتی چلی جاتی ہیں۔ لہٰذا خواب میں جو مختلف چیزیں نظر آتی ہیں ان کی اپنی تعبیر ہوتی ہے۔ خواب میں عالمِ مثال کی چیزیں نظر آتی ہیں۔ عالمِ مثال میں دیکھی گئی چیز اور عالمِ اجسام میں اس کی تعبیر اور معنی میں ایک ربط ہوتا ہے۔ اسی معنوی ربط سے ’تعبیر کا علم‘ نکلتا ہے۔
مذکورہ تمام خواب حقیقی (actual) رؤیاء کی مثالیں ہیں۔ اس کے برعکس آدمی جو مختلف چیزیں دیکھتا ہے کہ جن میں کوئی ربط نہیں ہوتا تو ایسے خواب منتشر خیالی کے باعث ہوتے ہیں۔ مثلاً کبھی آپ پر کوئی حملہ کر رہا ہے، آپ چیخ رہے ہیں، پریشان ہو رہے ہیں، کبھی دیکھتے ہیں کہ اچانک پانی میں کود گئے اور پھر اپنے آپ کو بستر پر موجود پا رہے ہیں۔ کبھی دیکھتے ہیں کہ الٹے لٹک گئے، کبھی گھوڑا آگیا، کبھی شیرنے آپ کو پکڑ لیا، کبھی اچانک گھرمیں بچوں کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں، کبھی سفر کر کے کہیں پہنچ گے اور کبھی دریا میں ڈوب گئے۔ یہ ساری چیزیں دن بھر کے خیالات کی پریشانی راتوں میں احلام بن کر پراگندہ خیالی کی شکل میں آتی ہے۔ یہ پراگندہ خیالی خواب (رویاء) نہیں بلکہ اَحلام کہلاتی ہے۔
{أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ} مَا لَا تَأْوِیْلَ لَهٗ.
بخاری، الصحیح، کتاب التفسیر، باب تفسیر سورة یوسف، 4: 1727، الرقم: 4410
ایسے پراگندہ خیالات جن کی کوئی تاویل نہ ہو۔
اُنہیں خواب نہیں کہتے اور نہ ہی اُن کی کوئی تعبیر ہوتی ہے۔ یہ دیکھنے کے بعد صبح اٹھ کر أعوذ بالله من الشیطان الرجیم پڑھ کر بائیں جانب تین بار تھوک دے اور اس خواب کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے۔
رؤیائے صالحہ یعنی اچھے خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں۔ ابوسلمہ کہتے ہیں خواب دیکھنے سے میری بخار کی سی کیفیت ہو جاتی تھی، البتہ میں چادر نہیں اوڑھتا تھا، حتیٰ کہ حضرت ابو قتادہ سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے اس واقعہ کا تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ سنا ہے:
الرُّؤْیَا مِنَ اللهِ وَالْحُلْمُ مِنَ الشَّیْطَانِ، فَإِذَا حَلَمَ أَحَدُکُمْ حُلْمًا یَکْرَهُهٗ فَلْیَنْفُثْ عَنْ یَسَارِهٖ ثَـلَاثًا، وَلْیَتَعَوَّذْ بِاللهِ مِنْ شَرِّهَا، فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهٗ.
مسلم، الصحیح، کتاب الرؤیا، 4: 1771 رقم: 2261
رؤیا (اچھا خواب) اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور حلم (برا خواب) شیطان کی طرف سے ہے۔ لہٰذا جب تم میں سے کوئی شخص ناگوار خوب دیکھے تو وہ بائیں جانب تین بار تھوک دے اور اس خواب کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے۔ پھر وہ خواب اسے ضرر نہیں دے گا۔
حضرت عبد الله بن خباب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
الرُّؤْیَا الصَّالِحَةُ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِیْنَ جُزْئًا مِنَ النُّبُوَّةِ.
اچھا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہوتا ہے۔
یعنی اچھے خواب نبوت کا فیض ہیں۔ اِس پر ایمان رکھا جاتاہے۔ رؤیا صالحہ کا مطلقاً انکار کرنا کفر ہے۔ قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کو خواب آنے کا ذکر موجود ہے اور اِسی طرح دیگر رؤیا صالحہ کا ذکر بھی موجود ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی کثرت سے رویاء صالحہ کا ذکر آیا ہے، بلکہ حضور نبی اکرم ﷺ کا یہ معمول تھا کہ آپ ﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نمازِ فجر کے بعد اچھا خواب بیان کرنے کا حکم دیتے۔
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
کَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا صَلَّی الصُّبْحَ أَقْبَلَ عَلَیْهِمْ بِوَجْهِهٖ، فَقَالَ: هَلْ رَآی أَحَدٌ مِنْکُمْ الْبَارِحَةَ رُؤْیَا؟
حضور نبی اکرم ﷺ صبح کی نماز پڑھنے کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے: تم میں سے کسی نے گزشتہ شب کوئی خواب دیکھا ہے؟
صحابہ کرام ﷺ اپنے خواب سناتے اور حضور نبی اکرم ﷺ ان کی تعبیر بیان فرماتے۔ اسی طرح آپ ﷺ نے بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنے خواب مبارک بیان فرمائے ہیں۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ، حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ نے بھی خواب دیکھے ہیں۔
’صحیح بخاری‘، ’صحیح مسلم‘، ’سنن ابی داؤد‘ اور ’سنن ترمذی‘ سمیت تمام کتبِ حدیث میں ابوابِ الرؤیا کے عنوانات قائم ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے:
لَمْ یَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ.
نبوت کا کوئی جزو سوائے مبشرات کے باقی نہیں رہا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول الله! مبشرات کیا ہیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
اَلرُّؤْیَا الصَّالِحَةُ.
بخاری، الصحیح، کتاب التعبیر، باب المبشرات، 6: 2564، رقم: 6589
نیک خواب۔
ایک روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَـلَا رَسُوْلَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ. قَالَ: فَشَقَّ ذٰلِکَ عَلَی النَّاسِ. فَقَالَ: لٰـکِنِ الْمُبَشِّرَاتُ. قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ: رُؤْیَا الْمُسْلِمِ وَهِيَ جُزْءٌ مِنْ أَجْزَاءِ النُّبُوَّةِ.
1۔ أحمد بن حنبل، المسند، 3: 267، رقم: 13851
2۔ ترمذی نے ’السنن (کتاب الرؤیا، باب ذھبت النبوۃ وبقیت المبشرات، 4: 533، رقم: 2272)‘ میں کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
3۔ حاکم نے ’المستدرک (4: 433، رقم: 8178)‘ میں کہا ہے کہ یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔
4۔ مقدسی، الأحادیث المختارۃ، 7: 206، رقم: 2645
نبوت و رسالت ختم ہو گئی ہے، اس لیے میرے بعد کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ یہ بات لوگوں پر گراں گزری (کہ اب سلسلۂ نبوت ختم ہو گیا ہے) تو آپ ﷺ نے فرمایا: لیکن مبشرات باقی ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول الله! مبشرات سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مسلمان کے (نیک) خواب، اور یہ نبوت کی خصوصیات کا ایک جزو ہے۔
خواب اور کشف کا ایک باہمی تعلق ہے۔ عام آدمی صاحبِ کشف نہیں ہوتا، اُس کے نفس کا وہ تزکیہ نہیں ہوا ہوتا جو کشف کے لیے درکار ہوتا ہے۔ لہٰذا جب یہ خواب دیکھتا ہے بشرطیکہ وہ پریشاں خیالی نہ ہو، پراگندہ خیالی نہ ہو، صحیح خواب ہو تو اِسے مثالی کشف کہتے ہیں؛ یعنی یہ عالمِ مثال کا کشف ہے اور تعبیر و تاویل کا تقاضا کرتا ہے۔
دوسری طرف اولیاء الله کا مقام ہے۔ وہ چونکہ نفس کی آلائشوں سے پاک ہو کر تزکیہ و تصفیہ کا مقام حاصل کر لیتے ہیں، لہٰذا اُن کے خواب بدرجہ اولیٰ انتہائی اونچے درجے کے حامل اور اَتم و اَکمل ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان کے یہی خواب ان کا کشف ہوتے ہیں۔ مثلاً کوئی آدمی خواب میں کچھ دیکھتا ہے۔ بعد ازاں وہ واقعہ عین اُسی طرح وقوع پذیر ہو جاتا ہے جو اُس نے خواب میں دیکھا تھا۔ ہماری زندگی میں ایسے ہزارہا واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں کہ ہم ایک خواب دیکھتے ہیں اور بعد میں ویسا ہی واقعہ حقیقت میں رونما ہو جاتا ہے۔ خواب بذاتِ خود (itself) کشف ہے لیکن انسان سے اس کی تعبیر میں غلطی ہو جاتی ہے۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ خواب کا انکار کرنا کفر ہے، چونکہ خواب قرآن اور حدیث کی نصوصِ قطعیہ سے ثابت ہے۔ خواب کی تعبیر کا علم، علم الرویاء کہلاتا ہے۔ اگر کسی کو تعبیر میں غلطی یا مغالطہ ہوتاہے تو ایک الگ بات ہے، مگر خواب دیکھنے والا شخص بھی کشف کر رہا ہے۔ اُس کے قلب اور روح کو حالتِ خواب میں کشف ہو رہا ہے۔ یعنی وہ آنے والے زمانے کی چیزیں دیکھ رہا ہے یا دور دراز کی کوئی چیز دیکھ رہا ہے، جو اُس کی آنکھ نہیں دیکھ سکتی تھی اور نہ ہی عقل سوچ سکتی تھی۔ ایسی صورت میں اُسے مثالی یعنی عالم مثال کا کشف ہورہا ہے۔ لہٰذا وہ تعبیر اور تاویل طلب ہے اور اُس کی فن تعبیر سے تفصیل معلوم کی جائے گی۔
خواب میں دیکھی جانے والی ایک چیز کی دس تعبیریں بھی ہو سکتی ہیں۔ ایک ہی خواب دو الگ آدمی دیکھتے ہیں تو اُن دونوں کی تعبیر الگ الگ ہوگی۔ دونوں کی تعبیر میں تضاد کا سبب دونوں کے روحانی و قلبی مرتبے کا جدا جدا ہونا ہے۔ ایک کی صفائے قلب کی کیفیت کچھ اور ہے تو دوسرے کی صفائے قلب کی کیفیت کچھ اور ہے۔ ایک ہی خواب ایک نیک متقی شخص دیکھے تو اُس کی تعبیر اور ہوگی؛ وہی خواب ایک گناہ گار، فاسق و فاجر شخص دیکھے گا تو اُس کی تعبیر کچھ اور ہوگی۔ ایک ہی خواب اگر مریض دیکھے تو اُس کی تعبیر اور ہوگی۔ اگر وہی خواب صحت مند شخص دیکھے تو عین ممکن ہے کہ تعبیر کچھ اور ہو۔ شادی شدہ شخص نے ایک خواب دیکھا تو اُس کی تعبیر اور ہو گی؛ غیر شادی شدہ شخص نے دیکھا تو تعبیر کچھ اور ہوگی۔
اسی طرح ہر شخص کے اپنے حالات و احوال کے مطابق خواب بھی جدا جدا ہوتے ہیں۔ اس کا سبب اُن کے درجات کا الگ ہونا ہے، اُن کی روحانی کیفیات، قلب و نفس کے احوال اور اُس کے تزکیہ کی کیفیات جدا جدا ہوتی ہیں، یوں خواب بھی مختلف ہوتے ہیں اور اُن کی تعبیر بھی مختلف ہوگی۔
اِسی طرح اولیاء کرام کو جب کشف ہوتا ہے تواُن کے کشف بھی الگ الگ ہوتے ہیں۔ کسی کو کشف ہوا تواُس میں دھندلاہٹ ہے، کسی کا کشف زیادہ صاف ہے، کسی کو اور زیادہ صاف ہوا حتیٰ کہ اتنا صاف ہوا کہ اس میں کوئی شک نہ رہا۔ اگر مثالی کشف ہے تو اولیاء بھی اُس مثالی کشف کی تعبیر کرتے ہیں۔ ایک نے تعبیر کچھ اور کی تو دوسرے نے تعبیر کچھ اور کی۔ مختلف حالات اور مختلف زمانوں میں تعبیرات مختلف ہوتی ہیں۔
مکاشفہ کے بعد پھر اگلا درجہ مشاہدہ کا ہے۔ مشاہدہ میں حجابات اُٹھتے ہیں۔ کسی کے حجابات خواب میں اُٹھتے ہیں اور کسی کے حالتِ بیداری میں بھی اُٹھ جاتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں جب رفعِ حجاب ہو تاہے، تو دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ اِسے کتنی شفافیت نصیب ہوئی ہے۔ صاحبِ کشف کو جتنی شفافیت حاصل ہوئی، اتنا ہی کشف درست ہوگا۔ یہ اُس پر منحصر ہے کہ اُس کے قلب کو کس قدر صفا نصیب ہوئی اور اس کے نفس کو کتنی صفائی اور تزکیہ نصیب ہوا ہے۔ مشاہدہ میں عالمِ مثال کی چیز باقی نہیں رہتی اور یہ تعبیر طلب بھی نہیں ہوتا۔ کئی حضرات کا روحانی مقام اتنا بلند ہوتا چلا جاتا ہے کہ کشف بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ اس مقام پر کشف یعنی مکاشفہ حالتِ مشاہدہ میں بدل جاتا ہے اور آدمی جس طرح سر کی آنکھ سے چیزوں کو دیکھتاہے اور مغالطہ کا امکان نہیں رہتا، اسی طرح اصحابِ مشاہدہ بغیر خطا کے پسِ پردہ چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اُن کا درجہ اصحابِ مکاشفہ سے بلند ہوتا ہے۔ یہ رویت کی طرح واضح اور شفاف ہوتا ہے، یعنی یہ عین الیقین ہے۔
الکاشاني، لطائف الأعلام: 324
مکاشفہ اور مشاہدہ کے بعد تیسرا بلند ترین درجہ معائنہ ہے۔ اس مقام پر ارد گرد کوئی خصوصیات اور صفات ایسی نہیں رہتیں، جن کے تعین سے مغالطہ ہوسکے۔ معائنہ حق الیقین کی طرح واضح ہو جاتا ہے۔
اس لحاظ سے کشف کے مندرجہ ذیل درجات بنتے ہیں:
1۔ مکاشفہ = علم الیقین
2۔ مشاہدہ = عین الیقین
3۔ معائنہ = حق الیقین
الکاشاني، لطائف الأعلام: 324
قرآن مجید میں بھی ہمیں متعدد ایسے مقامات نظر آتے ہیں جن سے کشف کا اثبات ہوتا ہے۔
آئیے! ان میں سے چند مقامات کا مطالعہ کرتے ہیں:
قرآن مجید نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے ارشاد فرمایا ہے:
وَکَذٰلِکَ نُرِیْٓ اِبْرٰهِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَo
الأنعام، 6: 75
اور اسی طرح ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی تمام بادشاہتیں (یعنی عجائباتِ خلق) دکھائیں اور (یہ) اس لیے کہ وہ عین الیقین والوں میں ہو جائے۔
آیت مبارکہ میں نُرِیْٓ (رؤیت) کا لفظ آیاہے۔ اس سے مراد مکاشفہ سے اوپر مشاہدہ کا درجہ ہے، یعنی عالمِ مثال کی مثالی شکلیں نہیں دکھائیں جو تعبیر و تاویل کی متقاضی ہوتی ہیں بلکہ سر کی آنکھوں سے جس طرح چیزیں دیکھتے ہیں اور مغالطہ نہیں ہوتا، اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حق تعالیٰ نے عجائباتِ خلق کا مشاہدہ کروا دیا۔
قرآن مجید میں حضرت مریم علیہا السلام کا ذکر آیا ہے کہ جبریل امین علیہ السلام اُن کے پاس انسانی شکل میں آئے۔ وہ جبریل امین علیہ السلام کی حقیقی شکل تو نہیں تھی۔ فرشتہ جب بھی انسانی شکل میں آتاہے تو اِس کیفیت کو مثالی صورت کہتے ہیں۔ اس واقعہ کو قرآن مجید ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
فَاَرْسَلْنَـآ اِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّاo
مریم، 19: 17
تو ہم نے ان کی طرف اپنی روح (یعنی فرشتہ جبریل) کو بھیجا سو (جبریل) ان کے سامنے مکمل بشری صورت میں ظاہر ہوا۔
یہ صورت بھلا کیا تھی؟ یہ جبریل امین علیہ السلام کی صورتِ اصلیہ نہیں تھی، اِسے صورتِ مثالیہ کہتے ہیں۔
بعض اوقات جب جبریل امین علیہ السلام اپنی اصلی صورت میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انہیں دیکھ نہیں سکتے تھے اور جب حضرت جبرائیل علیہ السلام انسانی صورت میں حضرت دحیہ کلبی نامی صحابیِ رسول کی شکل میں تشریف لاتے تھے تو یہ روح الامین کی مثالی شکل ہوتی تھی۔ ملائکہ کبھی مثالی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور اکثر و بیشتر اپنی اصل نورانی شکل پر رہتے ہیں۔ فرشتے اپنی نورانی شکل پر آئیں تو انسانی آنکھیں انہیں دیکھ نہ پائیں گی۔ اس صورت میں اُن کی تجلیات قلب پر وارد ہوں گی، البتہ قلب کی آنکھ انہیں دیکھتی ہے۔ اگر مثالی شکل پر آئیں تو عام آدمی سر کی آنکھوں سے بھی دیکھ لیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں پہچانیں یا نہ پہچانیں۔
’صحیح بخاری‘ و ’صحیح مسلم‘ میں متفق علیہ حدیثِ جبریل ہے، جس میں اِسلام، ایمان اور احسان کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس حدیث مبارک میں ہے کہ ایک دیہاتی شخص آیا۔ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی مجلس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سامنے بیٹھ گیا: اور پوچھا: یا رسول اللہ! اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا، تو اُس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے صحیح فرمایا۔ پھر پوچھا: ایمان کیاہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا، اُس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے درست فرمایا۔ پھر پوچھا: احسان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا، اُس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے بجا فرمایا۔ جب وہ چلے گئے تو حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے پوچھا: تم نے اِس شخص کو پہچانا کہ یہ کون تھا؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے لا علمی کا اظہار کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
ھٰذَا جِبْرِیْلٌ جَاءَ یُعَلِّمُ النَّاسَ دِیْنَهُمْ.
یہ جبریل امین علیہ السلام تھے جو لوگوں کو ان کا دین سکھانے آئے تھے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ایک دیہاتی شخص کے روپ میں دیکھا۔ یہ حضرت جبریل علیہ السلام کی مثالی صورت تھی۔ معلوم ہوا ملائکہ تو کیا سیدنا جبریل امین جیسی ہستی بھی بشری مثالی صورت میں زمین پر ظاہر (appear) ہوتی ہے۔ وہ جس طرح مثالی صورت میں زمین پر ظاہر ہوتے ہیں، اِسی طرح عالم مثال میں بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ کشف کا درجہ ہے۔ یہ جب بڑھتاہے تو مشاہدہ کے درجہ پر پہنچ جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسی درجہ پر ساری کائنات کا مشاہدہ کروایا گیا تھا۔
قرآن مجید میں سورۃ النمل کی آیت نمبر 38 سے ایک مضمون شروع ہو رہا ہے۔ جو مشاہدہ کی ایک اور مثال ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے صحابہ سے ملکہ بلقیس کا تخت ملکِ سبا سے اُٹھا کر لانے کا مطالبہ کیا تھا۔ قرآن مجید نے اسے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
قَالَ یٰٓـاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَیُّکُمْ یَاْتِیْنِیْ بِعَرْشِهَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَo
النمل، 27: 38
(سلیمان علیہ السلام نے) فرمایا: اے دربار والو! تم میں سے کون اس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لاسکتا ہے قبل اس کے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آجائیں۔
قابلِ غور بات ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا دربار بیت المقدس ( یروشلم) میں ہے اور وہ تخت یمن میں تقریباً ہزار میل کی دوری پر ملکِ سبا میں پڑا ہوا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام ہزار میل کے لگ بھگ مسافت پر فلسطین میں بیٹھے درباریوں سے پوچھتے ہیں کہ کون ہے جو وہ تخت لا سکتا ہے؟ اللہ کے نبی کے اس سوال کے پوچھنے کا مطلب ہے کہ ایسا آدمی ہونا چاہیے جو اُس تخت کو دیکھ بھی رہا ہو کہ وہ کہاں پڑاہے؟ اُس کا راستہ بھی معلوم ہو اور یہاں پیش کرنے کی قدرت، تصرف اور طاقت بھی رکھتا ہو۔ اللہ کا نبی بذاتِ خود پوچھ رہا ہے۔ اگر یہ نا ممکن ہو تو اللہ کا نبی اپنے درباریوں سے یہ سوال ہی نہ کرے۔ قابلِ غور بات ہے کہ جن لوگوں سے پوچھا جا رہا ہے، اُن میں کوئی نبی بھی نہیں ہے۔ قرآن مجید کی یہ آیت اِس بات پر بھی دلالت کرتی نظر آتی ہے کہ کشف غیر نبی کو بھی ہو سکتا ہے، اس لیے حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے درباریوں سے پوچھ رہے ہیں جو اولیاء، صلحاء اور آپ کے اصحاب میں سے ہیں۔ واضح رہے کہ اُس وقت ان کے دربار میں جنات اور انسان دونوں طبقے موجود تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ سوال دانستہ کیا، اگر یہ نا ممکن چیز ہوتی تو اللہ کا نبی اُن سییہ سوال کبھی نہ کرتا۔ آپ کے اس سوال پر درباریوں کی طرف سے جواب آنا شروع ہوگئے:
قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِکَ وَاِنِّیْ عَلَیْهِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌo
النّمل، 27: 39
ایک قوی ہیکل جِن نے عرض کیا: میں اسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ اپنے مقام سے اٹھیں اور بے شک میں اس (کے لانے) پر طاقتور (اور) امانت دار ہوں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے اُس قوی ہیکل جن کی یہ پیشکش قبول نہیں فرمائی۔ (کیوں قبول نہیں فرمائی؟ اِس واقعہ کی تفصیل میں نہیں جا رہے کیونکہ یہاں صرف کشف کا نکتہ بیان کرنا مقصود ہے۔) اس قوی ہیکل جن کے بعد آصف بن برخیا نامی ایک ولی اللہ اٹھے، جو جنات میں سے نہیں بلکہ ایک بشر تھے۔ قرآن مجید اُن کا تعارف ان الفاظ میں کرواتا ہے:
قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ.
النمل، 27: 40
(پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا کچھ علم تھا۔
عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ سے کون سا علم مراد تھا؟ آسمانی کتاب تو قرآن مجید بھی ہے۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام پر نازل ہونے والا صحیفہ قرآن مجید سے بڑے رتبے والا تو نہیں تھا۔ جیسے سب انبیاء کرام علیہم السلام میں سے خاتم الا نبیاء حضرت محمد ﷺ کا مقام و مرتبہ سب سے اعلیٰ اور افضل ہے عین اسی طرح قرآن مجید کی فضیلت تمام الہامی کتابوں اور صحائف میں سب سے بلند و برتر ہے۔ آج قرآن مجید کا علم رکھنے والے ہزاروں بلکہ لاکھوں علماء موجود ہیں تو کیا وہ ہزاروں میلوں کی مسافت سے کشف کے ذریعے تخت دیکھ سکتے اور اسے لا سکتے ہیں؟ اگر ظاہری علم رکھنے والے ایسا نہیں کر سکتے تو سوال یہ ہے کہ وہ کون سا علم تھا جو آصف بن برخیا کے پاس تھا؟
ثابت ہوگیا کہ وہ علم علمِ ظاہر نہیں تھا۔ قرآن مجید کا ظاہری علم رکھنے والے بھی لاکھوں کی تعداد میں مشرق سے مغرب تک موجود ہوں گے تو کیا وہ سب اصحابِ کشف بھی ہیں؟ کیا وہ سبھی اصحابِ تصرف بھی ہیں؟ نہیں! ایسا نہیں ہے۔ تو پھر ظاہری علم کے علاوہ وہ کون سا علم ہے جو پردے اٹھا کر کشف عطا کر رہا ہے؟ وہ علم جو القدس (مسجد اقصیٰ) میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو پردے اٹھا کر یمن میں ملکہ بلقیس کا تخت دکھا رہا ہے ؟ وہ علم دراصل علمِ باطن ہے، وہ کشف اور مکاشفہ ہے۔ قرآن مجید نے اس نکتہ کو سمجھانے کے لیے عِلْمٌ مِّنَ الْکِتَاب پر تاکید کی کہ اب جن کی بات نہیں ہو رہی، اس کی پیشکش آپ نے رد کر دی ہے، اب یہ انسان ہے۔ اولیاء و صالحین اور آپ کے صحابہ میں سے ہے۔ وہ علم ظاہری نہیں بلکہ باطنی علم رکھتے تھے۔ وہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا:
اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ.
النمل، 27: 40
میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)۔
معلوم ہوا کہ اگر انسان کو علمِ لدنی، علمِ کشف، علمِ باطنی اور مرتبۂ ولایت نصیب ہو جائے تو اس کی روحانی طاقت جنات سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ وہ قوی ہیکل جن جنات کا سردار تھا۔ اُس نے اپنی ساری طاقت اور قوت کیبھروسہ پر جتنے وقت (time frame) کا مطالبہ کیا تھا وہ یہ تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے کرسی سے کھڑنے ہونے سے قبل تخت لا سکتا ہوں جبکہ اس کے مقابل جو بشر اور ولی اللہ ہے، صاحبِ علمِ لدنی اور مرتبۂ ولایت پر فائز حضرت آصف بن برخیا تھے، وہ اتنا وقت بھی نہیں لے رہے جتنا کرسی سے کھڑے ہونے میں لگتا ہے۔ بلکہ انہوں نے کہا کہ میں یہ تخت آپ کی آنکھ جھپکنے سے پہلے لا سکتا ہوں۔ انسانی جسم کے اعضاء میں سے سب سے فوری اور تیز ترین حرکت آنکھ کا جھپکنا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ وہ کون سی طاقت تھی جس نے اُنہیں اس قابل بنایا کہ وہ پلک جھپکنے سے بھی پہلے ہزاروں میل کی دوری سے تخت کو اُٹھا لائے؟ وہ دراصل مکاشفہ اور مشاہدہ کی طاقت تھی۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے نہایت قلیل وقت کو دیکھتے ہوئے اجازت دی کہ ملکہ بلقیس کا تخت یہاں حاضر کر دو۔ حضرت آصف بن برخیا نے پلک جھپکنے سے پہلے اپنے قول کو فعل میں تبدیل کر کے دکھا دیا۔ قرآن مجید میں بیان ہوا:
فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّی.
النمل، 27: 40
پھر جب (سلیمان علیہ السلام نے) اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے۔
پہلے دعویٰ کرنے والا جن ولی اللہ نہیں تھا، لہٰذا اُس کی بولی کچھ اور تھی۔ اس کے الفاظ پر غور کیجیے:
وَاِنِّیْ عَلَیْهِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌo
اور بے شک میں اس (کے لانے) پر طاقت ور (اور) امانت دار ہوں۔
وہ جن اپنی قوت کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ آصف بن برخیا ولی اللہ ہیں، ان کے پاس ربانی طاقت ہے۔ اِنہوں نے پلک جھپکنے سے پہلے تخت لا دیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ آیا میں شکر گزاری کرتا ہوں یا ناشکری۔ انہوں نے اپنی طاقت کی طرف نہیں بلکہ اپنے الله کے فضل کی طرف اشارہ فرما کر اپنی ذات کی نفی کر دی۔ گویا مرتبۂ ولایت کا مطلب ہے کہ نفس کی نفی کی جائے۔ دل کے آئینے میں صرف اللہ اور اُس کے انوار و تجلیات ہی جلوہ افروز دکھائی دیں۔ اِس لیے اولیاء اللہ کو اپنی قوت، طاقت اور لیاقت دکھائی نہیں دیتی۔ یہ ولایت کا مرتبہ ہے کہ اپنی کچھ خوبی نظر ہی نہ آئے اور ہر چیز نہ صرف اللہ کی طرف منسوب کرے بلکہ جدھر دیکھے اسی کی قوت، طاقت اور قدرت کار فرما نظر آئے۔
اس موقع پر اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بڑے کا چھوٹے کو حکم دینا اظہارِ محتاجی نہیں بلکہ نظرِ عنایت ہوتا ہے۔ آصف بن برخیا نبی نہیں ہیں بلکہ وہ تو ولی اللہ ہیں۔ اللہ کے نبی حضرت سلیمان علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ ہے کوئی جو ملکہ سبا کا تخت اُٹھا لائے؟ اللہ کا نبی حکم دے رہا ہے جبکہ اللہ کا ولی ان کی خدمت بجا لا رہا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بڑے مرتبے کا مالک اللہ کا نبی اپنے غلام، اپنے امتی کو کوئی کام کرنے کا کہے کہ میرے لیے یہ کر دو تو معاذ اللہ اِس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اللہ کا نبی خود وہ کام کرنے کی قدرت نہیں رکھتا یا اُس سے کوئی چیز مانگ رہا ہے، مدد لے رہا ہے یا اِس کا درجہ معاذ اللہ اس سے اونچا ہے۔ استغفراللہ! ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ اس ضمن میں جب کوئی نبی اپنے امتی کو حکم دیتا ہے تو اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ حاکم اپنے درباری کو حکم دے رہاہے۔ وہ مخدوم ہے اور اپنے خادم سے خدمت لینا چاہتا ہے۔ جب چھوٹا بڑے کو کہتا ہے کہ میرے لیے یہ کر دو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اُس سے مدد مانگ رہا ہے لیکن جب بڑے درجے کی ہستی چھوٹے کو کہتی ہے کہ میرے لیے یہ کر دو تو اِس کا مطلب ہے کہ وہ اُس سے خدمت لے کر اُسے شرف یاب کر رہا ہے۔
علم کشف اور علمِ لدنی کا قرآن مجید سے اثبات کے باب میں آئیے اب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے واقعہ سے استدلال کرتے ہیں۔ طوالت کی غرض سے پورا واقعہ بیان کرنے کے بجائے برهِ راست اُسی آیت مبارکہ کا جائزہ لیتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت یوشع بن نون علیہ السلام، حضرت خضر علیہ السلام کی تلاش میں نکلے، جب مطلوبہ مقام پر پہنچے تو قرآن مجید کے الفاظ ہیں کہ الله تعالیٰ نے فرمایا:
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَـآ اٰتَیْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًاo
الکهف، 18: 65
تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر علیہ السلام ) کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے علمِ لدنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا۔
اُس بندے کی علامت کیا تھی؟ وہ علامت یہ تھی کہ اِس سفر میں ان دونوں حضرات نے اپنے کھانے کے لیے مچھلی بھون کر ساتھ رکھ لی تھی۔ راستے میں ایک جگہ رکے، دریا کنارے وضو کیا اور آگے روانہ ہوگئے۔ چلتے چلتے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھوک محسوس کی تو فرمایا: وہ مچھلی نکالو اور کھانا کھاتے ہیں۔ حضرت یوشع نے عرض کی: اے کلیم اللہ! میں آپ کو بتانا بھول گیا تھا کہ جہاں ہم دریا پر منہ ہاتھ دھونے کے لیے رُکے تھے، مچھلی وہاں زندہ ہو کر پانی میں غائب ہوگئی تھی۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سنا کہ اُس جگہ مچھلی زندہ ہوگئی تھی تو آپ نے فرمایا:
ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِ.
الکهف، 18: 64
یہی وہ (مقام) ہے ہم جسے تلاش کر رہے تھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: یوشع! ہم اُسی جگہ کی تلاش میں تو نکلے تھے، اس لیے کہ جہاں مردہ زندہ ہو جائے اللہ کا ولی وہیں موجود ہوتا ہے۔ اللہ کے ولی نے اُس ہوا میں سانس لیا، اللہ تعالیٰ نے اُس آب و ہوا میں یہ تاثیر پیدا کر دی کہ تنِ مردہ کو زندگی مل گئی اور وہ بھنی ہوئی مچھلی زندہ ہو کر پانی کے اندر جا پہنچی۔ اِس طرح اللہ تعالیٰ اولیاء کو یہ روحانی تاثیر عطا کر دیتا ہے کہ اللہ والے نہ صرف خود زندہ ہوتے ہیں بلکہ اُن کی صحبت اور توجہ سے مردہ دل بھی جِلا یعنی نئی زندگی پاتے ہیں۔ لہٰذا حضرت موسی اور یوشع بن نون علیہما السلام واپس اُسی جگہ پہنچے۔ قرآن فرماتا ہے:
فَارْتَدَّا عَلٰٓی اٰثَارِهِمَا قَصَصًاo
پس دونوں اپنے قدموں کے نشانات پر (وہی راستہ) تلاش کرتے ہوئے (اسی مقام پر) واپس پلٹ آئے۔
وہاں دونوں نے اللہ تعالیٰ کے خاص بندے حضرت خضر علیہ السلام کو پا لیا، جن کی خصوصیت اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کی ہے:
وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًاo
اور ہم نے اسے علمِ لدنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا۔
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا:
هَلْ اَتَّبِعُکَ عَلٰٓی اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًاo
الکهف، 18: 66
کیا میں آپ کے ساتھ اس (شرط) پر رہ سکتا ہوں کہ آپ مجھے (بھی) اس علم میں سے کچھ سکھائیں گے جو آپ کو بغرضِ ارشاد سکھایا گیا ہے۔
یعنی میں آپ کی رفاقت اختیار کر سکتا ہوں کہ اگر آپ اُس خاص علم میں سے مجھے بھی کچھ سکھا دیں جو آپ کو ملا ہے؟ جس علم نے حقائق کونیہ اور حقائق علمیہ کے سب پردے اٹھا دیے ہیں۔ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت موسیٰ و حضرت خضر علیہما السلام کی ملاقات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اِس سوال کے جواب میں حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا:
یَا مُوْسٰی! إِنِّي عَلٰی عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللهِ عَلَّمَنِیْهِ، لَا تَعْلَمُهٗ أَنْتَ، وَأَنْتَ عَلٰی عِلْمٍ عَلَّمَکَهٗ، لَا أَعْلَمُهٗ.
اے موسیٰ! مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے علوم میں سے ایک ایسا علم دیا ہے جسے آپ نہیں جانتے اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا علم دیا ہے جسے میں نہیں جانتا۔
محدثین اور شارحینِ حدیث نے مزید بیان کیا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا:
یَا مُوْسٰی، إِنَّ لِي عِلْمًا لَا یَنْبَغِي لَکَ أَنْ تَعْلَمَهٗ (أَي جَمِیْعَهٗ). وَإِنَّ لَکَ عِلْمًا لَا یَنْبَغِي لِي أَنْ أَعْلَمَهٗ (أَي جَمِیْعَهٗ).
اے موسیٰ! بے شک میرے پاس اپنا (خاص) علم ہے، آپ کے لیے ضروری نہیں کہ آپ وہ سارے کا سارا جان لیں۔ اور آپ کے پاس اپنا (خاص) علم ہے، میرے لیے ضروری نہیں کے میں وہ سارے کا سارا جان لوں۔
ائمہ نے بیان کیا ہے کہ اس علمِ باطن کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس وہ علم بالکل نہیں تھا۔ ایسا نہیں ہے! ان کے پاس وہ خاص علم اتنا ضرور تھا کہ جتنا ایک پیغمبر کے لیے اپنی اُمت کی اصلاح کے لیے ضروری تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام علمِ شریعت میں بہت اونچے تھے، مگر اِس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت خضر علیہ السلام کے پاس وہ علم شرعی یا علم ظاہر بالکل نہیں تھا۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ ان کے پاس شریعت کا علم اتنا ضرور تھا جتنا اُن کے لیے ضروری تھا، مگرعلمِ باطن میں وہ آگے اور خاص تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام علمِ ظاہر اور علمِ شریعت میں ان سے بہت آگے تھے۔ دونوں ہستیوں کا مقام و مرتبہ جدا اور اپنے اپنے دائرہ کار میں بہت بلند تھا۔
اِس واقعہ میں علمِ لدنی اور کشف درج ذیل صورتوں میں ظاہر ہوا ہے:
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے اکٹھے سفر کے دوران پیش آنے والے واقعات کو طوالت کے خوف سے یہاں درج نہیں کیا جارہا ہے۔ بلکہ یہاں یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس موقع پر اِن کا لب لباب کیا ہے اور ان سے علمِ لدنی کا اظہار کس طرح ہوتا ہے؟
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے اُس سفر کا اختتام ہوگیا اور دونوں شخصیات جدا ہونے لگیں تو حضرت خضر علیہ السلام نے اپنے اُن واقعات کی تعبیر بیان کی جو آپ سے صادر ہوئے تھے۔
پہلا واقعہ تھا کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام دونوں کشتی میں سوار ہوئے تو حضرت خضر علیہ السلام نے وہ کشتی توڑ دی۔ اس کشتی کو توڑنے کی جو وجہ حضرت خضر علیہ السلام نے بیان کی قرآن مجید اُسے ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
اَمَّا السَّفِیْنَةُ فَکَانَتْ لِمَسٰکِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَهَا وَکَانَ وَرَآئَهُمْ مَّلِکٌ یَّاْخُذُ کُلَّ سَفِیْنَةٍ غَصْبًاo
الکهف، 18: 79
وہ جو کشتی تھی سو وہ چند غریب لوگوں کی تھی وہ دریا میں محنت مزدوری کیا کرتے تھے پس میں نے ارادہ کیا کہ اسے عیب دار کر دوں اور (اس کی وجہ یہ تھی کہ) ان کے آگے ایک (جابر) بادشاہ (کھڑا) تھا جو ہر (بے عیب) کشتی کو زبردستی (مالکوں سے بلامعاوضہ) چھین رہا تھا۔
یعنی ان غریب اور مسکین لوگوں کا ذریعہ معاش صرف وہی ایک کشتی تھی۔ اگر بادشاہ اُس کشتی کو اپنے قبضے میں لے لیتا تو اُن کا روزگار ختم ہو جاتا۔ لہٰذا حضرت خضر علیہ السلام نے اُسے عیب دار کر نے کے لیے اس کا کچھ حصہ توڑ دیا تاکہ بادشاہ کی نظر جب اِس پر پڑے تووہ کہے کہ یہ ٹوٹی ہوئی کشتی میرے کسی کام کی نہیں۔ وہ غریب ملاح کشتی کو لکڑی کے ٹکڑے اور کیل لگا کر پھر جوڑ لے گا اور بادشاہ کے غصب سے محفوظ رہے گا۔ اِس طرح حضرت خضر علیہ السلام نے اُن کا روزگار بچا لیا۔
یہ واقعہ صریحکشف تھا۔ حضرت خضر علیہ السلام تو سب کے ساتھ کشتی میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ کشتی آگے جا کر کنارے لگے گی تو بادشاہ اور اس کی فوج کشتیوں کو قبضے میں لیتی نظر آئے گی۔ وہ تو ابھی اِس طرف سے چل ہی رہے ہیں اور بادشاہ تو آگے دوسری جانب کھڑا ہے۔ حالات و واقعات کو پیش آنے سے قبل جان لینا کشف ہے او ریہ اس کشف کا ایک اظہار تھا۔
حضرت خضر علیہ السلام جمہور مذہب کے مطابق نبی نہیں بلکہ ولی ہیں، ان سے اس کشف کا اظہار کرامت بھی کہلا سکتا ہے، کیونکہ کشف کا صدور بھی ظاہری اسباب کے خلاف ہوتا ہے اور کرامت بھی خرقِ عادت واقعہ کا نام ہے۔ اسی طرح اگر نبی سے کشف صادر ہو تو اُسے معجزہ کہیں گے۔ معجزہ اِس لیے کہتے ہیں کہ عادتاً وہ چیز ممکن نہ تھی جو ممکن ہوگئی۔ لہٰذا خرقِ عادت ہونے کی وجہ سے اُسے کرامت یا معجزہ کہیں گے۔ لیکن اس کرامت یا معجزہ کے ظہور کے پیچھے کار فرما عامل کشف ہے کہ اسی صلاحیت سے ولی یا نبی آنے والے حالات و واقعات سے قبل از وقت آگاہی حاصل کر لیتے ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کو دوران سفر پیش آنے والا دوسرا واقعہ بھی کشف کو ظاہر کرتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام سے سوال کیا کہ ایک بچہ کھیل رہا تھا، آپ نے اسے کیوں قتل کر دیا؟ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے حضرت خضر علیہ السلام فرمایا:
وَاَمَّا الْغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوَاهُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَـآ اَنْ یُّرْهِقَهُمَا طُغْیَانًا وَّکُفْرًاo
الکهف، 18: 80
اور وہ جو لڑکا تھا تو اس کے ماں باپ صاحبِ ایمان تھے پس ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہ (اگر زندہ رہا تو کافر بنے گا اور) ان دونوں کو (بڑا ہوکر) سرکشی اور کفر میں مبتلا کر دے گا۔
حضرت خضر علیہ السلام نے کشف سے معلوم کر لیا تھا کہ اُس کے ماں باپ مومن ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ کشف سے یہ بھی معلوم کر لیا کہ اگر یہ بچہ زندہ رہا تو کافر ہوگا۔ اب اس چھوٹی عمر میں بچے کے ماتھے پر تو کافر نہیں لکھا ہوا تھا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے یہ بھی کشف سے معلوم کر لیاکہ جب بڑا ہوگا تو کافر ہوگا جبکہ اس کے ماں باپ مومن ہیں۔ اُس کے کفر کی وجہ سے اُس کے ماں باپ بھی فتنہ میں پڑ کر سرکشی اور کفر میں مبتلا ہو جائیں گے۔ گویا یہ بھی کشف سے معلوم کر لیاکہ یہ بچہ اپنے والدین کی آخرت خراب کرے گا۔ قابلِ غور بات ہے کہ اس ایک واقعہ میں تین کشف ظاہر ہو رہے ہیں:
1۔ بچے کے ماں باپ کا مومن ہونا بھی کشف سے معلوم کر لیا۔
2۔ بچے کا بڑا ہو کر کافر بننا بھی کشف سے معلوم کر لیا۔
3۔ یہ بھی معلوم کر لیا کہ بچے کا کفر ماں باپ کے ایمان کو بھی برباد کر دے گا۔
حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حقیقت سے مطلع کرنے کے بعدفرمایا:
فَاَرَدْنَـآ اَنْ یُّبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَیْرًا مِّنْهُ زَکٰوةً وَّاَقْرَبَ رُحْمًاo
الکهف، 18: 81
پس ہم نے ارادہ کیا کہ ان کا رب انہیں(ایسا) نعم البدل عطا فرمائے جو پاکیزگی میں (بھی) اس (لڑکے) سے بہتر ہو اور شفقت و رحمدلی میں (بھی والدین سے) قریب تر ہو۔
آیتِ مبارکہ میں فَاَرَدْنَـآ قابل غور ہے کہ ’ہم نے ارادہ کیا‘۔ یہاں ’ہم‘ سے مراد اللہ اور خضر علیہ السلام ہیں۔ گویا حضرت خضر علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور میں نے ارادہ کیا کہ اللہ تعالیٰ اِس بچے کو مار کر اِس کا نعم البدل دے، جو اپنے ماں باپ کی خدمت بھی کرے اور اُن کے ایمان کی حفاظت بھی کرے۔ تفاسیر میں آتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس کے بدلے میں اُنہیں ایک بیٹی عطا کی اور اُس دختر نیک بخت کی اولاد سے ستّر سے زائد انبیاء کرام علیہم السلام پیدا ہوئے۔
پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تیسرا سوال کیا کہ سفر کے دوران گاؤں والوں نے ہم سے اچھا سلوک نہیں کیا تھا، ہمیں رات ٹھہرنے کے لیے کوئی جگہ نہیں دی، کھانا بھی نہیں دیا اور ہماری مہمان نوازی بھی نہیں کی تھی۔ اِس کے باوجود وہاں ایک گرنے والی دیوار موجود تھی، آپ نے اُسے تعمیر کر دیا اور اس کی مزدوری بھی نہیں لی۔ ایسا کیوں کیا؟ اِس کی وجہ بیان کرتے ہوئے سیدنا خضر علیہ السلام نے فرمایا:
وَاَمَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰـمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَة.
الکهف، 18: 82
اور وہ جو دیوارتھی تو وہ شہر میں (رہنے والے) دو یتیم بچوں کی تھی۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس سفر کے دوران کشف در کشف عیاں ہو رہے ہیں۔ دیوار کن کی تھی؟ یہ بھی کشف سے معلوم کیا۔ یہ بھی کشف سے معلوم کیا کہ دونوں یتیم بچے ہیں۔ حالاں کہ وہاں صرف ایک دیوار کھڑی تھی، یتیم بچے موجود نہ تھے۔ نیز یہ بھی کشف سے معلوم کیاـ کہ:
کَانَ تَحْتَهٗ کَنْزٌ لَّهُمَا.
اس کے نیچے ان دونوں کے لیے ایک خزانہ (مدفون) تھا۔
اور یہ بھی کشف سے معلوم کر لیا کہ:
کَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا.
ان کا باپ صالح (شخص) تھا۔
یعنی ان بچوں کے آباء و اجداد اور ان کے نسب کو بھی معلوم کر لیا۔ تفاسیر میں موجود ہے کہ ان بچوں کی پچھلی پشتوں میں ایک اللہ کا ولی تھا، جس کی نسبت کا خیال کرتے ہوئے حضرت خضر علیہ السلام نے اُن کی مدد کی۔ حضرت خضر علیہ السلام نے یہ سارے اُمور کشف سے معلوم کر لیے۔ پھر بیان کیا کہ جب یہ بچے جوان ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اِنہیں آگاہی ہو جائے گی اور دیوار کے نیچے سے وہ اپنے بزرگوں کا خزانہ حاصل کریں گے تاکہ اِن کے لیے وسائل پیدا ہوں۔ حضرت خضر علیہ السلام نے یہ سب حقائق کشف سے معلوم کیے۔ گویا حضرت خضر علیہ السلام نے ماضی بھی کشف سے جھانک لیا، زمین کے نیچے پوشیدہ خزائن کو بھی کشف کی بدولت دیکھ لیا اور مستقبل بھی کشف سے ملاحظہ کر لیا۔
حافظ ابن کثیر کی ’تفسیر القرآن العظیم‘ بڑی معتمد تفسیر ہے۔ حرمین شریفین اور عرب کی جامعات میں یہی تفسیر بطور نصاب پڑھائی جاتی ہے اور سب سے زیادہ اعتماد اسی پر کیا جاتا ہے۔
حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں مذکورہ آیات بیان کرنے کے بعد اس آیت {وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا} کے تحت روایت کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
وَکَانَ رَجُـلًا یَعْلَمُ عِلْمُ الْغَیْبِ قَدْ عُلِّمَ ذٰلِکَ.
ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 3: 96
حضرت خضر علیہ السلام ایک ایسے شخص تھے جو علم غیب جانتے تھے کیونکہ یہ علم اُنہیں سکھایا گیا تھا۔
معلوم ہوا کشف اور علمِ لدنی علوم مغیّبات یعنی غیبی علوم میں سے ہیں۔ جب پردہ اٹھا دیا جاتا ہے تو پھر اس کا مکاشفہ اور مشاہدہ ہوتا ہے۔ نیز یہ الفاظ بھی غور طلب ہیں کہ یہ علم اُنہیں سکھایا اور عطا کیا گیا تھا۔
حافظ ابن کثیر نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول بیان کر کے واضح کر دیا کہ اس علم کی نوعیت کیا ہے۔
کشف کے حوالے سے اسی واقعہ سے ماخوذ ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اُس دیوار کے نیچے مدفون خزانہ اصلا نقدی یا ہیرے جواہرات نہ تھے بلکہ خزانۂ علم تھا۔ اس نکتے کو حافظ ابن کثیرنے بیان کیا ہے، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
کَانَ تَحْتَهٗ کَنْزُ عِلْمٍ.
ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 3: 99
اس کے نیچے علم کا خزانہ دفن تھا۔
یعنی جس علم کے ذریعے اس کشف کا اظہار ہو رہا ہے، اُسی علم کو خزانہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ایک اور روایت میں حضرت سعید بن جبیر (تابعی) اور حضرت مجاہد (تابعی) نے بھی روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
صُحُفٌ فِیْهَا عِلْمٌ.
ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 3: 100
وہ صحائف تھے جن میں علم تھا۔
یعنی اُس دیوار کے نیچے تہہ در تہہ جا کر صحائف اور کتب دفن تھیں جن میں علومِ معرفت و علومِ اسرار تھے۔ حضرت خضر علیہ السلام چاہتے تھے کہ ان بچوں کا وہ علمی خزانہ ضائع نہ ہو۔
پھر حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ الْکَنْزَ الَّذِي ذَکَرهُ اللهُ فِي کِتَابَهٖ، لَوْحٌ مِنْ ذَهَبٍ مُصْمَتٍ، مَکْتُوْبٌ فِیْه: … لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ ﷺ.
ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 3: 100
وہ خزانہ جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن میں کیا ہے، وہ ایک پختہ سونے کی تختی تھی جس میں (آخر پر) لکھا تھا: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ ﷺ.
اللہ کی توحید تو ہر پیغمبر کے کلمہ میں تھی، نئی چیز اُس خزانے میں یہ تھی کہ محمد رسول الله ﷺ کا کلمہ اس میں لکھا ہوا تھا۔ آپ چاہتے تھے کہ یہ ضائع نہ ہو، حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت کی خبر نسل در نسل آگے چلتی رہے۔
امام ابن جریر طبری نے اسے جلیل القدر تابعی امام حسن بصری سے روایت کیا ہے کہ وہ {وَ کَانَ تَحْتَهٗ کَنْزٌ لَّهُمَا} کی تفسیر میں فرماتے ہیں: وہ سونے کی تختیاں تھیں اور اُن میں جو کچھ علم کا خزانہ لکھا ہوا تھا اُس کی ابتداء بسم الله الرحمٰن الرحیم سے ہوتی تھی اور اس میں اختتام پر لکھا ہوا تھا: لا إله إلا الله محمد رسول الله ﷺ.
گویا حضور نبی اکرم ﷺ کا کلمہ طیبہ اس میں لکھا ہوا تھا۔
ابن وہب روایت کرتے ہیں کہ وہ کنز سونے کی تختیاں تھیں، جن کی ابتداء میں بسم اللہ لکھی ہوئی تھی اور اُن کا اختتام أشهد أن لا إله إلّا الله وأشهد أنّ محمدا عبده ورسوله ﷺ پر ہوتا تھا۔
ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 3: 100
یعنی اس دیوار کا تعلق بھی علم کشف کے ساتھ ہی تھا۔ حضرت خضر علیہ السلام چاہتے تھے کہ اَسرارِ دینیہ کا اور حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت کی اطلاعات کا خزانہ ضائع نہ ہو جائے۔ اگلی نسلوں کو ان الواح و تختیوں کے ذریعے آپ ﷺ کی آمد کی خبر ملتی رہے۔ یقینا انبیائِ کرام علیہم السلام بھی اُمتوں کو بتاتے تھے مگر تحریری طور پر وہ الواح تھیں جو یقینا کسی اللہ کے نبی کی طرف سے وراثت میں آئی ہوں گی جو اپنی اُمت کو بتایا کرتے تھے کہ آخر میں رسولِ آخر الزماں ﷺ تشریف لائیں گے۔ لہٰذا اگر تم ان کا زمانہ پا لو تو اُن پر ایمان لے آنا اور اُن کی اتباع کرنا۔
نیز یہ فرمان کہ ’اُن کا باپ نیک آدمی تھا‘ نسب کا معاملہ ہے کہ کون نیک آدمی تھا؟ حافظ ابن کثیر نے اُس صالح شخص کا ذکر کرتے ہوئے حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ان یتیم بچوں کے آباء کی سات پشتوں میں ایک نیک شخص گزرا تھا (ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 3: 100)۔ اس نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت کی معرفت سے متعلق وہ خزانہ انبیاء کرام علیہم السلام سے لے کر دفن کیا تھا تاکہ اُس کی آئندہ نسلوں کو ملے۔ حضرت خضر علیہ السلام کی نگاہوںنے بذریعہ کشف اُسے دیکھا اور اُسے اگلی اُمتوں تک پہنچانے کے لیے محفوظ کر دیا۔
حضرت خضر علیہ السلام کو خضر کیوں کہتے ہیں؟ علمِ باطن، علمِ لدنی اور علمِ الٰہیہ سے ہم کنار ہونے کے بعد ان کا نام خضر پڑا۔ مفسرین لکھتے ہیںان کا اصل نام خضر نہیں تھا۔ اس ضمن میں مختلف نام لکھے گئے ہیں، کوئی کہتے ہیں ان کا نام بلیا بن ملکان بن فالک تھا۔ کسی نے کچھ کہا، کسی نے کچھ کہا۔ کوئی کہتے ہیں: ابو العباس اُن کی کنیت تھی۔
امام احمد بن حنبل نے خضر نام کے حوالے سے حضور نبی اکرم ﷺ کی حدیث کو روایت کیا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے وجہ تسمیہ بیان کی اور امام بخاری نے اس کو صحیح بخاری میں اور امام عبد الرزاق نے اسے اپنی مصنف میں حضرت ہمام بن منبہ رضی اللہ عنہ کے طریق سے روایت کیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: خضر علیہ السلام جب خشک، سفید، چٹیل اور بے آب و گیاہ زمین پر بیٹھ کر اٹھتے تھے تو وہاں سبزہ اُگ آتا تھا، یعنی جہاں قدم رکھتے تھے، مردہ زمین زندہ ہو جاتی تھی۔ وہ جہاں قیام کرتے، غسل کرتے اور وضو کرتے تھے اُس پانی اور ہوا کو یہ تاثیر مل گئی تھی کہ مردے اُس سے جِلا پاتے تھے، یعنی زندہ ہو جایا کرتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت یوشع بن نون علیہ السلام جب وہاں سے گزرے تو وہ مچھلی بطور سالن تیار کر کے چلے تھے، مگر وہ بھنی ہوئی مچھلی بھی اس آب و ہوا کے اثر سے زندہ ہوگئی تھی۔ یہ مقام علمِ لدنی کے سبب ملتا ہے۔ مذہبِ مختار یہ ہے کہ حضرت خضر نبی نہیں بلکہ اللہ کے ولی تھے۔ لہٰذا اگر نبی کو کشف کا معجزہ نصیب ہوتا ہے تو حضور نبی اکرم ﷺ کی امت کے اولیاء اللہ کو بھی کشف کرامت کے طور پر نصیب ہوتا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved