الہام ایک ایسا علم ہے جو القاء کیا جاتا ہے، جب کہ نفس ایک ایسا محل ہے جہاں الہام نازل ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ وہ الہام نیک بھی ہو سکتا ہے اور بد بھی۔ الله تعالیٰ نے ملائکہ کو اچھے اور نیک اِلہامات کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ اس کے برعکس برے الہامات اور گم راہ کن خیالات کا القاء شیاطین کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ دونوں قوتیں غیر مرئی ہوتی ہیں مگر اپنا وجود رکھتی ہیں۔
یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ فرشتوں کو الله تعالیٰ نے کائنات کے اُمور کی انجام دہی اور اپنی مخلوق تک پیغام رسانی کے لیے تخلیق فرمایا ہے، لہٰذا ان کا نزول صرف انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ ان کا نزول دیگر پر بھی ہوتا ہے، جیسا کہ گزشتہ باب کے آخر میں کچھ واقعات بھی بیان کیے گئے ہیں۔ الله تعالیٰ کی طرف سے نبی کے پاس فرشتہ جو پیغام لے کر آتا ہے اُسے وحی کہتے ہیں، جبکہ دیگر کے لیے اسے الہام سے تعبیر کریں گے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓئِکَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَo نَحْنُ اَوْلِیٰـٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰـوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ ج وَلَکُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَھِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَo
حم السجدة، 41: 30-31
بے شک جن لوگوں نے کہا ہمارا رب الله ہے، پھر وہ (اِس پر مضبوطی سے) قائم ہوگئے، تو اُن پر فرشتے اترتے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ تم خوف نہ کرو اور نہ غم کرو اور تم جنت کی خوشیاں مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ہم دنیا کی زندگی میں (بھی) تمہارے دوست اور مدد گار ہیں اور آخرت میں (بھی)، اور تمہارے لیے وہاں ہر وہ نعمت ہے جسے تمہارا جی چاہے اور تمہارے لیے وہاں وہ تمام چیزیں (حاضر) ہیں جو تم طلب کرو۔
ان آیات کریمہ میں ملائکہ کے ذریعہ الہام کو بیان کیا گیا ہے۔ اس سے یہ نظریہ متحقق (establish) ہوتا ہے کہ فرشتے صرف اللہ تعالیٰ کے نبی پر ہی نازل نہیں ہوتے، بلکہ غیر نبی پر بھی اترتے ہیں، مگر دونوں ہستیوں پر نازل ہونے کا انداز جُدا جُدا ہوتا ہے۔ نبی پر فرشتہ الله تعالیٰ کی وحی لے کر حاضر ہوتے ہیں اور اس وحی میں شک و شبہ اور کسی تاویل و تعبیر کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی غلطی اور خطا کا کوئی امکان ہوتا ہے۔ اس لیے کہ نبی کا قلب معصوم ہوتا ہے، جبکہ اولیاء کے دل اگرچہ محفوظ ہوتے ہیں مگر وہ کلیتاً خطا اور غلطی کے امکان سے خالی نہیں ہوتے، ان سے تعبیر و تاویل اور فہم میں بھی غلطی یا تسامح ہو سکتا ہے۔
یہ خیال کرنا کہ ملائکہ صرف نبی پر ہی اُترتے ہیں، یہ کم علمی اور بے خبری ہے۔ لیلۃ القدر میں تو عام مومنین تک کے لیے فرمایا گیا ہے:
تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَةُ وَالرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ ج مِّنْ کُلِّ اَمْرٍo
القدر، 97: 4
اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی یہ نعمت حضور نبی اکرم ﷺ کی اُمت کے عام مومنین کے لیے بھی ہے۔ جیسا کہ احادیث میں وارد ہوتا ہے:
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے:
یَتَعَاقَبُوْنَ فِیْکُمْ مَـلَائِکَةٌ بِاللَّیْلِ، وَمَـلَائِکَةٌ بِالنَّهَارِ، وَیَجْتَمِعُوْنَ فِي صَلَاةِ الْعَصْرِ، وَصَلَاةِ الْفَجْرِ، ثُمَّ یَعْرُجُ الَّذِیْنَ بَاتُوْا فِیْکُمْ، فَیَسْأَلُهُمْ - وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ. کَیْفَ تَرَکْتُمْ عِبَادِي؟ فَیَقُوْلُوْنَ: تَرَکْنَهُمْ وَهُمْ یُصَلُّوْنَ، وَأَتَیْنَهُمْ وَهُمْ یُصَلُّوْنَ.
رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے تمہارے پاس باری باری آتے ہیں اور نمازِ عصر اور نمازِ فجرکے وقت اکٹھے ہوتے ہیں۔ پھر جنہوں نے تمہارے ساتھ رات گزاری تھی وہ آسمان کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن سے دریافت فرماتا ہے: — حالانکہ وہ بہتر جانتا ہے — تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں: ہم نے اُنہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم اُن کے پاس گئے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔
2۔ اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے بھی ہیں جو کائنات میں چکر لگاتے رہتے ہیں اور مجالسِ ذکر کو ڈھونڈتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
إِنَّ ِللهِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی مَـلَائِکَةً سَیَّارَةً فُضُلًا، یَتَتَبَّعُوْنَ مَجَالِسَ الذِّکْرِ، فَإِذَا وَجَدُوْا مَجْلِسًا فِیْهِ ذِکْرٌ، قَعَدُوْا مَعَھُمْ، وَحَفَّ بَعْضُھُمْ بَعْضًا بِأَجْنِحَتِھِمْ، حَتّٰی یَمْلَئُوْا مَا بَیْنَھُمْ وَبَیْنَ السَّمَاءِ الدُّنْیَا. فَإِذَا تَفَرَّقُوْا عَرَجُوْا وَصَعِدُوْا إِلَی السَّمَاءِ.
بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو گشت کرتے رہتے ہیں اور (متعین کردہ فرشتوں سے) زائد ہیں۔ وہ مجالسِ ذکر کو ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ جب وہ ذکر کی کوئی مجلس دیکھتے ہیں تو ان (ذاکرین) کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے پروں سے ایک دوسرے کو (اوپر تلے) ڈھانپ لیتے ہیں۔ حتیٰ کہ زمین سے لے کر آسمانِ دنیا تک کی جگہ (ان کے نورانی وجود سے) بھر جاتی ہے۔ پھر جب ذاکرین مجلس سے اٹھ جاتے ہیں تو یہ فرشتے بھی آسمان کی طرف واپس چلے جاتے ہیں۔
3۔ الله تعالیٰ کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرنے والوں کے لیے الله تعالیٰ فرشتہ نازل فرماتا ہے، جو اُنہیں اپنے رب کی طرف سے پیغامِ محبت پہنچاتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ رَجُـلًا زَارَ أَخًا لَهٗ فِي قَرْیَةٍ أُخْرٰی۔ فَأَرْصَدَ اللهُ لَهٗ عَلٰی مَدْرَجَتِهٖ مَلَکاً۔ فَلَمَّا أَتٰی عَلَیْهِ قَالَ: أَیْنَ تُرِیْدُ؟ قَالَ: أُرِیْدُ أَخًا لِي فِي هٰذِهِ الْقَرْیَةِ۔ قَالَ: هَلْ لَکَ عَلَیْهِ مِنْ نِعْمَةٍ تَرُبُّهَا؟ قَالَ: لَا. غَیْرَ أَنِّي أَحْبَبْتُهٗ فِي اللهِ. قَالَ: فَإِنِّي رَسُوْلُ اللهِ إِلَیْکَ بِأَنَّ اللهَ قَدْ أَحَبَّکَ کَمَا أَحْبَبْتَهٗ فِیْهِ.
ایک شخص اپنے بھائی سے ملنے کے لیے دوسری بستی میں گیا، الله تعالیٰ نے اس کے راستے میں ایک فرشتے کو بھیج دیا، جب وہ شخص اس فرشتے کے پاس سے گزرا تو فرشتے نے پوچھا: کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ اس شخص نے کہا: اس بستی میں میرا ایک (دینی) بھائی ہے اس سے ملنے کا ارادہ ہے۔ فرشتے نے پوچھا: کیا تمہارا اس پر کوئی احسان ہے جس کی تکمیل مقصود ہے؟ اس نے کہا: اس کے سوا اور کوئی بات نہیں کہ مجھے اس سے صرف الله تعالیٰ کے لیے محبت ہے، تب اس فرشتہ نے کہا: میں تمہارے پاس الله تعالیٰ کایہ پیغام لایا ہوں کہ جس طرح تم اس شخص سے محض الله تعالیٰ کے لیے محبت کرتے ہو الله تعالیٰ بھی تم سے اسی طرح محبت کرتا ہے۔
4۔ مسلمان بھائی کے لیے اس کی غیرموجودگی میں دعا کرنے والے کے ساتھ الله تعالیٰ ایک فرشتے کو مقرر فرما دیتا ہے، جو اُس کے لیے دعا کرتا ہے۔ حضرت اُم درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے:
دَعْوَةُ الْمَرْئِ الْمُسْلِمِ لِأَخِیْهِ، بِظَهْرِ الْغَیْبِ مُسْتجَابَةٌ۔ عِنْدَ رَأْسِہٖ مَلَکٌ مُوَکَّلٌ۔ کُلَّمَا دَعَا لِأَخِیْهِ بِخَیْرٍ، قَالَ الْمَلَکُ الْمُوَکَّلُ بِہٖ: آمِیْنَ۔ وَلَکَ بِمِثْلٍ.
مسلمان کی اپنے بھائی کے لیے اس کی عدم موجودگی میں کی جانے والی دعا مقبول ہوتی ہے۔ اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے جب بھی وہ اپنے اس بھائی کے لیے نیک دعا کرتا ہے، تو فرشتہ کہتا ہے: آمین۔ تجھے بھی ایسے ہی نصیب ہو (جیسے کہ تو نے اپنے بھائی کے لیے دعا کی ہے)۔
5۔ اسی طرح مسلمان بھائی کی حاجت روائی کے لیے کوشش اور جد و جہد کرنے والے پر فرشتے سایہ فگن ہوتے ہیں اور اُس کے بخشش و رحمت کی دعا کرتے ہیں۔ حضرت عبد الله بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم دونوں روایت کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
مَنْ مَشٰی فِي حَاجَةِ أَخِیْهِ الْمُسْلِمِ حَتّٰی یُتِمَّهَا لَهٗ أَظَلَّهُ اللهُ بِخَمْسَةِ آلَافٍ. وَفِي رِوَایَةٍ: بِخَمْسَةٍ وَسَبْعِیْنَ أَلْفَ مَلَکٍ یَدْعُوْنَ وَیُصَلُّوْنَ عَلَیْهِ إِنْ کَانَ صَبَاحًا حَتّٰی یُمْسِيَ، وَإِن کَانَ مَسَاءً حَتّٰی یُصْبِحَ، وَلَا یَرْفَعُ قَدَمًا إِلَّا کُتِبَتْ لَهٗ بِهَا حَسَنَةٌ وَلَا یَضَعُ قَدَمًا إِلَّا حَطَّ اللهُ عَنْهُ بِهَا خَطِیْئَةً.
جو شخص اپنے (کسی مسلمان) بھائی کے کام کے سلسلہ میں چل پڑے یہاں تک کہ اسے پورا کر دے تو الله ل اس پر پانچ ہزار، اور ایک روایت میں ہے کہ پچھتر ہزار فرشتوں کا سایہ فرما دیتا ہے۔ وہ اس کے لیے اگر دن ہو تو رات ہونے تک اور رات ہو تو دن ہونے تک دعائیں کرتے رہتے ہیں، اور اس پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں۔ اُس کے اٹھنے والے ہر قدم کے بدلے اس کے لیے نیکی لکھ دی جاتی ہے۔ اس کے (اپنے مسلمان بھائی کی مشکل کو حل کرنے کے لیے) اُٹھنے والے ہر قدم کے بدلے الله تعالیٰ اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔
6۔ احادیث صحیحہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ اگر آدمی کا قلب اللہ تعالیٰ کے ذکر پر قائم جائے یعنی ہمہ وقت ذکرِ الٰہی میں مشغول رہے تو ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ راستوں میں چلے اور فرشتے دائیں بائیں اس سے مصافحہ کرنے کے لیے کھڑے ہوں۔
حضرت حنظلہ اُسیدی رضی اللہ عنہ - جو رسول الله ﷺ کے کاتبوں میں سے تھے - بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مجھ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے کہا: اے حنظلہ! تم کیسے ہو؟ میں نے کہا: حنظلہ منافق ہوگیا ہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: سبحان اللہ! تم کیسی بات کر رہے ہو؟ میں نے کہا: ہم رسول الله ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں، آپ ﷺ ہمیں جنت اور دوزخ کی نصیحت کرتے ہیں حتیٰ کہ (ہماری یہ کیفیت ہوجاتی ہے) گویا جنت اور دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ پھر جب ہم رسول الله ﷺ کے پاس سے اُٹھ کر اپنے اہل و عیال اوردوسرے معاملات میں مشغول ہوتے ہیں تو بہت ساری چیزیں بھول جاتے ہیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: بہ خدا! اس قسم کا معاملہ تو ہمیں بھی پیش آتا ہے۔ پھر میں اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ دونوں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! حنظلہ منافق ہوگیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم آپ کے پاس حاضر ہوتے ہیں، آپ ہمیں جنت اور جہنم کی نصیحت کرتے ہیں، اس وقت ہمارا حال یہ ہو جاتا ہے کہ گویا ہم اپنی آنکھوں سے جنت اور جہنم کو دیکھتے ہیں اور جب ہم آپ کے پاس سے اُٹھ کر اپنے اہل و عیال اور زمینوں میں مشغول ہوتے ہیں تو ہم بہت ساری باتیں بھول جاتے ہیں۔ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهٖ، إِنْ لَوْ تَدُوْمُوْنَ عَلٰی مَا تَکُوْنُوْنَ عِنْدِي وَفِي الذِّکْرِ لَصَافَحَتْکُمُ الْمَلَائِکَةُ عَلٰی فُرُشِکُمْ وَفِي طُرُقِکُمْ، وَلٰـکِنْ یَا حَنْظَلَةُ، سَاعَةً وَسَاعَةً ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ.
اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! تم میرے پاس ذکر و فکر کی جس کیفیت میں ہوتے ہو اگر تمہاری وہی کیفیت ہمیشہ برقرار رہے تو تمہارے بستروں اور راستوں پر بھی فرشتے تم سے مصافحہ کریں۔ لیکن اے حنظلہ! یہ کیفیت ساعت در ساعت بدلتی رہتی ہے۔ ایسا آپ ﷺ نے تین بار فرمایا۔
7۔ اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: یا رسول الله! ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ جب ہم آپ کی بارگاهِ اقدس میں ہوتے ہیں تو ہمارے دل نرم ہوتے ہیں ہم دنیا سے بے رغبت اور آخرت کے طلب گار ہو جاتے ہیں، لیکن جب آپ کی بارگاہ سے اُٹھ کر اپنے گھر والوں میں گھل مل جاتے ہیں تو ہمارے دل تبدیل ہو جاتے ہیں؟ اس پر رسول الله ﷺ نے فرمایا:
لَوْ أَنَّکُمْ تَکُوْنُوْنَ إِذَا خَرَجْتُمْ مِنْ عِنْدِي کُنْتُمْ عَلٰی حَالِکُمْ ذَالِکَ لَزَارَتْکُمُ الْمَـلَائِکَةُ فِي بُیُوْتِکُمْ.
اگر تم اسی حالت میں رہو جس طرح میرے پاس سے اٹھ کر جاتے ہو تو فرشتے تمہارے گھروں میں تمہاری زیارت کریں۔
8۔ پھر عید الفطر کے دن فرشتے راستوں میں کھڑے ہو کر مسلمانوں کو بخشش کی نوید سناتے ہیں۔
حضرت سعید بن اوس انصاری رضی اللہ عنہ اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
إِذَا کَانَ یَوْمُ الْفِطْرِ وَقَفَتِ الْمَلائِکَةُ عَلٰی أَبْوَابِ الطُّرُقِ، فَنَادَوْا: أُغْدُوا، یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِیْنَ، إِلٰی رَبٍّ کَرِیْمٍ. یَمُنُّ بِالْخَیْرِ ثُمَّ یُثِیْبُ عَلَیْهِ الْجَزِیْلَ. لَقَدْ أُمِرْتُمْ بِقِیَامِ اللَّیْلِ فَقُمْتُمْ، وَأُمِرْتُمْ بِصِیَامِ النَّهَارِ فَصُمْتُمْ، وَأَطَعْتُمْ رَبَّکُمْ. فَاقْبِضُوا جَوَائِزَکُمْ. فَإِذَا صَلَّوْا، نَادَی مُنَادٍ: أَلَا إِنَّ رَبَّکُمْ قَدْ غَفَرَ لَکُمْ، فَارْجِعُوا رَاشِدِینَ إِلٰی رِحَالِکُمْ، فَهُوَ یَوْمُ الْجَائِزَةِ. وَیُسَمَّی ذٰلِکَ الْیَوْمُ فِي السَّمَائِ یَوْمَ الْجَائِزَةِ.
جب عید الفطر کا دن آتا ہے توفرشتے راستوں کے کناروں پر کھڑے ہو کر پکارتے ہیں: اے گروهِ مسلمین! کرم والے رب کی بارگاہ کی طرف چلو! وہی تمہیں نیکی کی توفیق عطا فرما کر احسان فرماتا ہے۔ پھر اس نیکی پر بہت بڑا ثواب عطا فرماتا ہے۔ تمہیں راتوں کو قیام کا حکم دیا گیا تو تم نے قیام کیا، دن کے روزے رکھنے کا حکم دیا گیا تو تم نے روزے بھی رکھے، تم نے اپنے پروردگار کی اطاعت و فرماں برداری کی۔ لہٰذا اب جزائیں سمیٹ لو۔ پھر جب لوگ نماز پڑھتے ہیں تو ایک ندا دینے والا ندا دیتا ہے: سن لو! تمہارے رب نے تمہیں بخش دیا ہے، خیرات و برکات سمیٹتے ہوئے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ کیونکہ یہ انعام و اکرام کا دن ہے۔ آسمانوں میں اس دن کا نام یوم الجائزہ (انعام کا دن )ہے۔
الغرض احادیث مبارکہ سے واضح ہو گیا کہ فرشتے صرف وحی نبوت لے کر نہیں آتے، بلکہ مومنین پر فرشتوں کے اُترنے کی ہزارہا شکلیں ہو سکتی ہیں۔ سلسلہ نبوت تو اختتام پذیر ہو گیا ہے، بلا شک و شبہ اب کسی شخص پر وحی نازل نہیں ہوگی؛ لیکن ملائکہ مومنین پر بشارات، نیک خیالات، نیک پیغامات اور نیک الہامات کے ساتھ اُترتے رہیں گے۔
اِس باب کے آغاز میں مذکور سورۂ فصلت (حم السجدۃ) کی آیات کریمہ میں ملائکہ کی جانب سے مومن کے لیے خوش خبری کا ذکر ہے۔ یہ خوش خبریاں مختلف اشکال میں اترتی ہیں۔ اس کا انحصار مراتب کے لحاظ سے الگ الگ شکل میں ہوتا ہے۔ یہ سارے الہامات الفاظ اور حروف کی شکل میں نہیں ہوتے بلکہ معانی کی صورت یا عالمِ مثال کی شکل میں اترتے ہیں جن کی پھر تعبیر یا تاویل کی جاتی ہے۔ چنانچہ اگر کسی کے اندر ادراک کی صلاحیت کامل نہ ہو تو وہ غلطی کر سکتا ہے۔ بعض لوگوں پر الہام کی کیفیت اتنی عیاں ہوتی ہے کہ وہ اسے الفاظ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ بعض اوقات وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بطور خاص ان سے خطاب کیا گیا ہے۔ الہام میں ان الفاظ کا سننا دراصل سننا نہیں ہوتا بلکہ وہ مثالی شکل میں الہام ہوتا ہے۔
یہ الہام ما بعد الطبیعاتی (metaphysical shape)، تمثیلی اور اشارے و کنائے اور معانی کی شکل میں ہوتا ہے مگر وہ اتنا عیاں اور نمایاں ہوتا ہے کہ بندہ فرق ہی نہیں کر سکتا کہ یہ معنًا اترا ہے یا لفظاً اترا ہے۔ لہٰذا وہ اپنا ذہن الفاظ اور صوت کی طرف کر لیتا ہے۔ درحقیقت یہ اس کے اپنے قلب کی صلاحیت اور فہم کی استعداد میں کمزوری ہوتی ہے۔ اگر اس مرتبے سے وہ بلند ہو جائے تو وہ امتیاز کر لیتا ہے کہ یہ الفاظ، حروف اور صوت (آواز) نہیں تھی بلکہ معانی اور عالمِ مثال کی چیزیں تھیں۔ یہ الہام ہوتا ہے۔
جن و انس غلط تصورات و خیالات، غلط عقائد و اَفکار اور غلط حوادث و خواطر وغیرہ بھی بتدریج (gradually) نفوس میں اِلقاء کرتے ہیں جو بالآخر (ultimately) بندے کو بُری راہ اور غلط عقیدے پر ڈالتے اور بہکاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انسان اپنے معاشرے اور غلط معاشرتی ماحول سے متاثر ہو کر بھی گم راہ ہو جاتا ہے۔ اسے ہم مجموعی طور پر دنیا کا نام دیتے ہیں۔ یہ ایک الگ ذریعہ ہے، جب کہ ایک ذریعہ نفس امّارہ کا بھی ہے جو برائی کا امر دیتا ہے اور القاء بھی کرتا ہے۔
اِسی طرح اللہ تعالیٰ کی یاد سے صرفِ نظر کرنے والے شخص پر شیطان مسلط کر دیا جاتا ہے، یہ شیطان سوتے، جاگتے، اُٹھتے، بیٹھتے اور چلتے پھرتے اُس کے ساتھ رہتا ہے۔ وہ اُس کے اندر مسلسل جھوٹے خیالات، جھوٹے تصورات، جھوٹے اَفکار اور جھوٹا علم الہام کرتا رہتا ہے۔ شیطان اُس کے اندر فسق و فجور کا خیال اور رغبت ڈالتا ہے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰـنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌo
الزخرف، 43: 36
اور جو شخص (خدائے) رحمان کی یاد سے صرفِ نظر کر لے تو ہم اُس کے لیے ایک شیطان مسلّط کر دیتے ہیں جو ہر وقت اس کے ساتھ جڑا رہتا ہے۔
انسان پر شیطان مسلط ہونے کے باوجود کوئی بھی شخص اپنی ذات کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتا کہ ’میرا تو مقدر ہی ایسا ہے۔‘ ایسی بات ہرگز نہیں ہے۔ اس کیفیت پر اِنشاء اللہ خاں کیا خوب طنز کرتے ہیں:
کیا ہنسی آتی ہے مجھ کو حضرتِ انسان پر
فعلِ بد خود ہی کریں لعنت کریں شیطان پر
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ نیکی یا بدی کا راستہ انسان خود منتخب کرتا ہے۔ جیسا کہ فرمانِ اِلٰہی ہے:
وَهَدَیْنٰهُ النَّجْدَیْنِo
البلد، 90: 10
اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیے۔
دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے:
فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰهَاo
الشمس، 91: 8
پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دی۔
یعنی اس کے اندر صلاحیت و استعداد رکھ دی ہے کہ وہ اچھے اور برے میں تمیز کر سکے۔ اُسے اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جو چاہے راستہ اختیار کرے، وہ اپنے ہر قول و فعل کا خود ذمہ دار ہے۔ جو شخص اپنی مرضی یا کوتاہی سے اللہ تعالیٰ کو بھول جاتا ہے تو دنیا کی لذتیں اس کی نظر میں اہم ہو جاتی ہیں اور وہ نفس کی شہوتوں کو فوقیت دینے لگتا ہے۔ وہ الله تعالیٰ کے ذکر کی لذت، نیک اعمال اور فرائض کی ادائیگی کی طرف نہیں جاتا۔ وہ چند روزہ دنیوی لذت کے لیے آخرت کو بھول جاتا ہے اور اللہ کے وعدے پر مطمئن نہیں ہوتا، بلکہ وہ شیطان کے دنیا داری کے وعدے پر یقین کرتا ہے۔ یہ سب کچھ چونکہ بندہ خود اختیار کرتا ہے، اس لیے اُسے اپنے اعمال کا ذمہ دار خود ٹھہرایا گیا ہے۔ اسی لیے اس کے اعمال پر جزا بھی ہے اور سزا بھی ہے۔
اگر کسی عمل میں اُس کی اپنی مرضی شامل نہ ہو تو اسے سزا دینا جائز نہ ہوگا۔ یاد رہے کہ خالقِ دو جہاں کی ذات کبھی کسی پر ظلم نہیں فرماتی۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی یاد سے منہ پھیر کر بری راہ پر چل پڑتا ہے تو اس غلط انتخاب پر قدرت دخل اندازی نہیں کرتی۔ ایک آدمی اگر بے احتیاطی کے باعث خراب اور مضرِ صحت خوراک کھانے کے نتیجے میں بیمار ہوگیا ہے تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ بیماری میرے مقدر میں لکھی ہوئی تھی، کیونکہ اس نے مضر غذا کھا کر اپنی صحت خود برباد کی ہے۔
قرآن مجید میں ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا گیا ہے:
وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَةِ اِنِّیْ خَالِقٌ م بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍo فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَo
الحجر، 15: 28-29
اور (وہ واقعہ یاد کیجیے) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں سِن رسیدہ (اور) سیاہ بودار، بجنے والے گارے سے ایک بشری پیکر پیدا کرنے والا ہوں۔ پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لا چکوں اور اس پیکر (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس کے لیے سجدہ میں گر پڑنا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں تخلیقِ آدم علیہ السلام سے قبل ملائکہ سے فرمایا کہ جب میں اُس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اُس بشر کے پیکرِ جسدی کو نہ دیکھنا، جو بظاہر سِن رسیدہ ہوگا اور بدبو دار گارے سے تشکیل دیا جائے گا، بلکہ اُس کے اندر موجود میری پھونکی گئی روح کو دیکھنا اور جب میری روح کا چراغ اُس کے اندر جل پڑے تو تم اس کے لیے سجدہ ریز ہوجانا۔ اُس کی تعظیم بجا لانا دراصل مجھے سجدہ کرنے کے مترادف ہے۔ یہ احترام اُس پیکرِ بشری کے لیے نہیں تھا بلکہ اُس کے وجودِ روحانی کے لیے تھا۔ چنانچہ ملائکہ نے جوں ہی اللہ تبارک و تعالیٰ کی پھونکی ہوئی روح کے چراغ کو جسدِ آدم میں چمکتے دیکھا تو سب سجدہ ریز ہو گئے۔ ابلیس چونکہ ناری تھا، لہٰذا اُس نے انکار کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا کہ تو نے آدم کو سجدہ کیوں نہیں کیا؟ اس نے کہا: یہ مٹی اور گارے سے بنا ہوا ہے، میں اسے سجدہ کیوں کروں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہاں سے نکل جاؤ! تم پر قیامت تک کے لیے لعنت ہے۔ وہ اُس مقام پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آدمی کو گمراہ کرنے کا عہد ان الفاظ میں کرتا ہے:
رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَلَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَo
الحجر، 15: 39
اے پروردگار! اس سبب سے جو تو نے مجھے گمراہ کیا میں (بھی) یقینا ان کے لیے زمین میں (گناہوں اور نافرمانیوں کو) خوب آراستہ و خوشنما بنا دوں گا اور ان سب کو ضرور گمراہ کر کے رہوں گا۔
یہ شیطانی سوچ ہے کہ بندہ برے کام تو خود کرتا ہے اور پھر اسے تقدیر کا لکھا کہہ کر اللہ تعالیٰ کی جانب سے قرار دیتا ہے۔ یہ شیطانی عمل ہے کہ وہ تکبر و رعونت کے باعث اپنی خرابیاں اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر رہا ہے۔ چنانچہ جب کوئی بندہ برائی کر کے اسے اپنے مقدر کی طرف منسوب کر دے تو سمجھیں کہ وہ شیطان کا رفیق ہے۔ ابلیس نے یہ بات اس میں القاء کی ہے۔ شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ سے انکار خود کیا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اُسے سجدہ کرنے سے روکنا ہوتا تو وہ فرشتوں کو بھی روک دیتا۔ تمام فرشتے سمجھ گئے اور سجدہ ریز ہو گئے، مگر یہ اکیلا ڈٹ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر اسے اپنی صفائی کا موقع بھی دیا، قرآن مجید میں ارشاد ہے:
قَالَ یٰٓـاِبْلِیْسُ مَا لَکَ اَلاَّ تَکُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَo
الحجر، 15: 32
(اللہ نے) ارشاد فرمایا: اے ابلیس! تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تو سجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہ ہوا۔
اُس نے جواب دیا:
لَمْ اَکُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهٗ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍo
الحجر، 15: 33
میں ہر گز ایسا نہیں (ہو سکتا) کہ بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سِن رسیدہ (اور) سیاہ بودار، بجنے والے گارے سے تخلیق کیا ہے۔
گویا اس نے اپنی آزادیِ رائے کے حق کو استعمال کیا۔ اس سارے مکالمہ کو قرآن مجید میں ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ انسان اپنا راستہ خود اپنی مرضی سے اختیار کرتا ہے۔ اگر نیک راستے پر جائے گا تو فرشتوں کا پیروکار ہو گا اور اگر بُرے راستے کو اختیار کرے گا تو شیطان کے بہکاوے میں آئے گا، لہٰذا اگر شیطان کسی کو بہکائے گا تو اُس کا ذمہ دار وہ خود ہے کہ اُس نے رحمن سے ناتا توڑ کر شیطان کی دوستی اختیار کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو بندوں کو نیکی اور بدی کے دونوں راستے بتا دیے ہیں۔ نیکی کے راستے پر چلے گا تو فرشتے مدد گار ہوں گے اور برائی کے راستے پر چلے گا تو شیطان نے پہلے ہی برائیاں مزین کر کے انسانوں کو گم راہ کرنے کا عہد کر رکھا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے:
اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَo
الحجر، 15: 40
سوائے تیرے ان برگزیدہ بندوں کے جو (میرے اور نفس کے فریبوں سے) خلاصی پا چکے ہیں۔
شیطان خود اقرار کر رہا ہے کہ ایسے بھی ہیں جو میرے دام میں نہیں پھنسیں گے، وہ میرے داؤ کو مسترد کر دیں گے، یعنی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیے گئے نیکی اور بدی کے دونوں راستوں میں سے نیکی کے راستے کو منتخب کریں گے تو ان پر میرا داؤ نہیں چل سکے گا۔ جس طرح نیکی کے لیے فہم اور رغبت ہے، اسی طرح بدی کے فہم اور رغبت کا سامان بھی موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک اور صالح بندوں کی استعانت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:
اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغٰـوِیْنَo
الحجر، 15: 42
بے شک میرے (اخلاص یافتہ) بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا سوائے ان بھٹکے ہوئوں کے جنہوں نے تیری راہ اختیار کی۔
یعنی جنہوں نے خود اپنی مرضی اور منشا سے عارضی لذتوں کو ترجیح دے کر بری راہ اختیار کی ہے، انہی پر تیرا داؤ چلے گا تو وہ بہک جائیں گے۔ جنہوں نے شیطان کے داؤ سے خود کو بچایا، وہ لوگ خوش بخت ہیں، جنت کی دائمی نعمتیں انہی لوگوں کی منتظر ہوں گی۔
ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍo
الحجر، 15: 45
بے شک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں رہیں گے۔
یہ امر ذہن نشین رہے کہ شیطان اور اس کا پورا قبیلہ بندے کو گم راہ کرنے کے لیے تمام تر حربے استعمال کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں اس کے حربوں کا مختلف مقامات پر ذکر کیا گیا ہے۔ ذیل میں ان میں سے کچھ حربوں کا ذکر کیا جاتا ہے:
1. اِنَّهٗ یَرٰکُمْ هُوَ وَقَبِیْلُهٗ مِنْ حَیْثُ لَاتَرَوْنَهُمْ.
الأعراف، 7: 27
بے شک وہ (خود) اور اس کا قبیلہ تمہیں (ایسی ایسی جگہوں سے) دیکھتا (رہتا) ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔
قرآن مجید کی اس آیت سے شیطان کا دیکھنا ثابت ہوتا ہے۔
2۔ قرآن مجید میں ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِo
الناس، 114: 6
خواہ وہ (وسوسہ انداز شیطان) جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔
یعنی بعض انسان بھی شیاطین کی رفاقت میں رہ رہ کر انسانی پیکر میں مکمل شیطان بن چکے ہوتے ہیں۔
3۔ سورۃ الاعراف میں ان شیاطین کا ذکر کیا گیا ہے جو ایمان نہ لانے والوں کو اپنا دوست بنا کر اُنہیں کفر پر مجتمع رکھتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:
اِنَّا جَعَلْنَا الشَّیٰـطِیْنَ اَوْلِیَآءَ لِلَّذِیْنَ لَایُؤْمِنُوْنَo
الأعراف، 7: 27
بے شک ہم نے شیطانوں کو ایسے لوگوں کا دوست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں رکھتے۔
یعنی وہ لوگ زندگی میں ایمان کو عملاً پسِ پشت ڈال کر کفر جیسی بری راہ پر چل پڑتے ہیں۔ شیطانوں کو ان کا ولی اور سرپرست بنا دیا جاتا ہے۔ گویا شیاطین ان کے رہنما (guide) بن جاتے ہیں جو قدم قدم پر ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔
4۔ سورۃ الأعراف میں ہی مزید بیان ہوتا ہے:
لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَo ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْ م بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ اَیْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَآئِلِهِمْ ط وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَهُمْ شٰکِرِیْنَo
الأعراف، 7: 16-17
(مجھے قٔسم ہے کہ) میں (بھی) ان (افرادِ بنی آدم کو گمراہ کرنے) کے لیے تیری سیدھی راہ پر ضرور بیٹھوں گا (تاآنکہ انہیں راهِ حق سے ہٹا دوں)۔ پھر میں یقینا ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے ان کے پاس آؤں گا، اور (نتیجتاً) تو ان میں سے اکثر لوگوں کو شکر گزار نہ پائے گا۔
اس آیت کریمہ نے ایک بات مزید واضح کر دی کہ جس پر شیطان کا اثر ہوگا، اُس پر شیطانی اثرات کی ابتدا اللہ تعالیٰ کی ناشکری سے ہوتی ہے۔ یہ تمام آیات اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ شیطان بندے کے خیالات کے مطابق رہنمائی بھی کرتے ہیں اور انہیں ساتھ بھی لے کر چلتے ہیں۔
5۔ سورۃ النحل میں فرمایا گیا ہے:
فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِo اِنَّهٗ لَیْسَ لَهٗ سُلْطٰنٌ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَo اِنَّمَا سُلْطٰـنُـهٗ عَلَی الَّذِیْنَ یتَوَلَّوْنَهٗ وَالَّذِیْنَ هُمْ بِہٖ مُشْرِکُوْنَo
النحل، 16: 98-100
سو جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود (کی وسوسہ اندازیوں) سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کریں۔ بے شک اسے ان لوگوں پر کچھ (بھی) غلبہ حاصل نہیں ہے جو ایمان لائے اور اپنے ربّ پر توکل کرتے ہیں۔ بس اس کا غلبہ صرف انہی لوگوں پر ہے جو اسے دوست بناتے ہیں اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے ہیں۔
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اُس کی راہ پر چلو گے تو تمہارے اوپر شیطان کا اثر نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیاطین کا غلبہ صرف انہی پر ہوتا ہے جو اسے اپنا دوست بناتے ہیں اور وہ دراصل الله تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والے ہوتے ہیں۔
الله تبارک وتعالیٰ نے مذکورہ پہلی دو آیات میں مومنین کو شیطان مردود کی وسوسہ اندازیوں سے بچنے کے لیے اپنی پناہ میں آنے کی دعوت دی ہے، کیونکہ جس مومن کو دونوں جہانوں کے پروردِگار کی حفاظت میسر آجائے اور وہ اُس پر کامل توکل اور بھروسہ بھی رکھتا ہو تو اس پر شیاطین کا کوئی اختیار نہیں رہتا۔ الله تعالیٰ نے تیسری آیت کریمہ میں اس حقیقت کو منکشف کر دیا ہے کہ شیاطین کا زور اور غلبہ صرف اُنہی پر چلتا ہے جو الله تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے اور شیطان کی دوستی کا دم بھرنے والے ہوتے ہیں۔ گویا یہ دراصل ان کی اپنی خواہش اور منشا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو ان پر دونوں راستے واضح کر دیے ہیں۔
6۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الأنعام میں فرمایا ہے:
وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِهِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ.
الأنعام، 6: 121
اور بے شک شیاطین اپنے دوستوں کے دلوں میں (وسوسے) ڈالتے رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں۔
یہاں بھی لفظ ’وحی‘ الہام کے معنی میں استعمال ہوا ہے؛ یعنی خیالات، افکار و تصورات کو القاء کرنا۔ یہ دراصل وحی کا لغوی معنی ہے۔ وحی کا ایک معنی صریح اشارہ بھی ہے۔ اس وجہ سے قرآن مجید نے کئی مقامات پر لفظ وحی کو الہام اور القاء کے معنی میں بھی استعمال کیا ہے۔ اس سے مراد قطعاً وحیِ نبوت نہیں ہوتی۔
امر واقعہ یہ ہے کہ شیطان جب کسی بندے کو غلط علم اور غلط فکر دیتا ہے تو وہ بندہ اپنی دانست میں اپنے آپ کو راهِ ہدایت پر سمجھتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا گیا ہے:
وَاِنَّهُمْ لَیَصُدُّوْنَهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَo
الزخرف، 43: 37
اور وہ (شیاطین) انہیں (ہدایت کے) راستہ سے روکتے ہیں اور وہ یہی گمان کیے رہتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں۔
یہ شیطان کی حیلہ سازی اور کاری گری ہے۔ اگربھٹکا ہوا شخص یہ سمجھنے لگے کہ میں راهِ حق سے بہک کر گم راہ ہوگیا ہوں تو شیطان کی کرشمہ سازی کیا ہوئی؟ اس طرح تو وہ بندہ فوری طور پر اپنی اصلاح کر کے گم راہی سے تائب ہو کر صراطِ مستقیم اختیار کرلے گا۔ شیطان کی فن کاری یہی ہے کہ وہ جسے گم راہ کرتا ہے اُسے یہ باور بھی کرواتا ہے کہ وہ ہدایت اور سیدھے راستے پر ہے۔ جیسا کہ فرمانِ اِلٰہی ہے:
هَلْ اُنَبِّئُکُمْ عَلٰی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰـطِیْنُo تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍo یُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَاَکْثَرُهُمْ کٰذِبُوْنَo
الشعراء، 26: 221-223
کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر اترتے ہیں؟۔ وہ ہر جھوٹے (بہتان طراز) گناہ گار پراترا کرتے ہیں۔ جو سنی سنائی باتیں (ان کے کانوں میں) ڈال دیتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس صاحبانِ استقامت پر فرشتوں کے ذریعے غیبی امداد اترتی ہے جن کا ذکر ہم گزشتہ صفحات میں سورۂ حم السجدہ کی آیت نمبر 30 اور 31 کے تحت پڑھ چکے ہیں۔ اس استدلال کا مقصد یہ تھا کہ آیات قرآنی سے نہ صرف ملائکہ کے ذریعہ الہام کا اثبات ہے بلکہ گناہ گار اور بے عمل انسان پر شیاطین کے گم راہ کن خیالات کے ورود کا جواز بھی ثابت ہوتا ہے۔ اب کسی کو نہ تو فرشتے نازل ہوتے نظر آتے ہیں اور نہ ہی شیطان اترتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح نفس بھی مرئی (visible) نہیں ہے، جو بری راہ پر چلنے کا شوق اور رغبت دلاتا اور انسان کو گم راہ کرتا ہے۔ اسی طرح شیاطین بھی جنات میں سے ہیں، وہ بھی نظر نہیں آتے۔ لہٰذا ان کا اُترنا تو نظر نہیں آتا، لیکن ان کے اُترنے سے جو اعمال سر زد ہوتے ہیں اُن سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جس سے افعال سر زد ہو رہے ہیں وہ کس کے زیر اثر ہے۔ صبح و شام ہمارے ہاں معاشرے میں جو بہتان تراشی ہوتی ہے، تہمتیں لگتی ہیں اور جھوٹ بولا جاتا ہے، ایسے سب لوگوں پر یہی شیطان اترتے ہیں جو انہیں ان اعمالِ بد پر اُبھارتے ہیں۔ ایسی باتیں گھروں میں کی جائیں یا مجالس میں، معاشرتی زندگی میں ہوں یا سیاسی زندگی میں، ان کے مرتکب افراد کے قلوب و اذہان میں درحقیقت شیطان جھوٹے اور بہتان طرازی پر مبنی خیالات ڈالتے ہیں۔ یوں معاشرے میں سنی سنائی باتوں پر فتنہ و فساد برپا ہوتا رہتا ہے۔
اِس کے برعکس اہل ایمان کے احوال بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
اِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَکَرُوا اللهَ کَثِیْرًا وَّانْتَصَرُوْا مِنْ م بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا.
الشعراء، 26: 227
سوائے ان (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہے (یعنی اللہ اور رسول ﷺ کے مدح خواں بن گئے) اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد (ظالموں سے بزبانِ شعر) انتقام لیا۔
اِس آیت کریمہ میں بیان کیا گیا ہے کہ ان برے اثرات سے صرف وہی لوگ محفوظ رہتے ہیں، جن کے اندر درج ذیل تین خوبیاں پائی جاتی ہیں:
1۔ ایمان
2۔ اعمال صالحہ
3۔ ذکرِ الٰہی کی کثرت
یہ تینوں چیزیں معاشرے میں پھیلائے گئے برے کاموں سے بندے کا دفاع کرتی ہیں۔ گویا جہاں شیاطین اُترتے ہیں، وہیں ان سے دفاع کی بھی ایک قوت موجود ہوتی ہے۔
شیطان کے اِن حربوں اور وسوسوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں اور محبوبوں کو تنہا نہیں چھوڑتا بلکہ اُنہیں ہر آن اپنی مدد فراہم کرتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیا کی مدد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللهِ لَاخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَo
یونس، 10: 62
خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔
جو لوگ اللہ تعالیٰ کے دوست بن جاتے ہیں تو خوف اور غم ان سے دور ہو جاتا ہے۔ انہیں گم راہی کے بجائے ہدایت مل جاتی ہے اور ان پر سے شیطان کا قبضہ اور اثر ختم ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکہف میں فرمایا ہے:
هُنَالِکَ الْوَلَایَةُ ِللهِ الْحَقِّ ط ھُوَ خَیْرٌ ثَوَابًا وَّخَیْرٌ عُقْبًاo
الکهف، 18: 44
یہاں (پتہ چلتا ہے) کہ سب اختیار الله ہی کا ہے (جو) حق ہے، وہی بہتر ہے انعام دینے میں اور وہی بہتر ہے انجام کرنے میں۔
اللہ تعالیٰ کی ولایت حق ہے۔ وہ اپنے مومن بندوں کا دوست ہوتا ہے اور بندے اپنے مولیٰ کے دوست ہوتے ہیں۔ جو لوگ اللہ کے ساتھ ولایت اور دوستی کو چن لیتے ہیں تو اس کے نتائج، ثمرات اور اثرات کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ اس کا ذکر سورۃ البقرہ میں یوں کیا گیا ہے:
اللهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اَوْلِیٰٓـئُهُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَهُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ.
البقرة، 2: 257
الله ایمان والوں کا کارساز ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے، اور جو لوگ کافر ہیں ان کے حمایتی شیطان ہیں وہ انہیں (حق کی) روشنی سے نکال کر (باطل کی) تاریکیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔
الله تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں اپنے دوستوں اور شیطان کے پیروکاروں دونوں کی دوستی اور ان کے ثمرات و نتائج کو یوں کھول کر بیان کر دیا ہے کہ حق اور باطل کی پہچان روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے۔ الله تبارک و تعالیٰ مومنین کا دوست ہے اور وہ ایمان والوں کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو شیطان کی دوستی کو یا نفس کی دوستی کو ترجیح دیتے ہیں، شیاطین انہیں نور سے نکال کر اندھیروں اور تاریکیوں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔
الہام کا یہ سارا عمل کیسے ہوتا ہے؟ وہ کون سے ذرائع ہیں جن سے یہ علم تشکیل پاتا ہے اور یہ علم کا ذریعہ (source) کیسے بنتا ہے؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے علم کے درجات کا جاننا ضروری ہے۔
آیئے! اس کے درجات اور مراتب پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ علم کی دو اقسام ہیں:
1۔ علمِ جلی
2۔ علمِ خفی
وہ علم جو ظاہری حواسِ خمسہ، عقل اور استفادۂ صحیحہ کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اُسے علمِ جلی یعنی علم ظاہر کہتے ہیں۔
ہم آلاتِ علم اور ذرائع علم کی بحث میں اس کا تفصیل سے تذکرہ کر چکے ہیں کہ یہ منقولات کا علم ہے۔ پہلی بات معقولات اور محسوسات کی تھی۔ کبھی اس سے علمِ قطعی کا فائدہ ہوتا ہے اور کبھی علمِ ظنی کا، پھر اس کے بعد وجدانیات، فطریات، تجربیات، حدثیات اور بدیہیات کا بیان کیا تھا۔ یہ ساری چیزیں علمِ جلی کے ذرائع میں آجاتی ہیں، جن پر ہم ابتدائی ابواب میں تفصیلی گفتگو کر چکے ہیں۔
دوسرا ذریعۂ علم، علمِ خفی یا علمِ باطن ہے۔
1۔ حضرت جابر بن عبد الله ﷺ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے:
اَلْعِلْمُ عِلْمَانِ: عِلْمٌ فِي الْقَلْبِ فَذَاکَ الْعِلْمُ النَّافِعُ. وَعِلْمٌ عَلَی اللِّسَانِ فَتِلْکَ حُجَّةُ اللهِ عَلٰی عِبَادِهٖ.
1۔ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 4: 346، رقم: 2179
1۔ ابن أبی شیبۃ نے ’المصنف (7: 82 رقم: 34361)‘ میں اسے حضرت حسن بصری سے مرسلا روایت کیا ہے۔
2۔ دارمی نے ’السنن (1: 114 رقم: 364)‘ میں اسے حضرت حسن بصری سے مرسلا روایت کیا ہے۔
4۔ ابن عبد البر، جامع بیان العلم وفضلہ، 1: 190-191
5۔ بیہقی عن الفضیل بن عیاض، شعب الإیمان، 2: 294، رقم: 1825
علم دو (طرح کے) ہیں: ایک علم دل میں ہوتا ہے اور یہ علم نافع ہے؛ ایک علم زبان پر ہوتا ہے اور یہ ابن آدم پر اللهتعالیٰ کی حجت ہے۔
سادہ الفاظ میں ہم انہیں علم ظاہری اور علم باطنی کہہ سکتے ہیں کہ علم بالقلب باطنی علوم کی طرف اشارہ ہے اور علم علی اللسان سے مراد ظاہری علوم ہیں۔
2۔ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا ہے:
اَلْعِلْمُ عِلْمَانِ: فَعِلْمٌ ثَابِتٌ فِي الْقَلْبِ وَعِلمٌ فِي اللِّسَانِ فَذٰلِکَ حُجَّةٌ عَلٰی عِبَادِهٖ.
الدیلمي، مسند الفردوس، 3: 68، رقم: 4194
علم دو (طرح کے) ہیں: ایک علم دل میں راسخ ہوتا ہے اور ایک علم زبان پر (جاری ہوتا) ہے۔ پس یہ (دوسرا) علم الله تعالیٰ کے بندوں پر حجت ہے (یعنی اگر وہ اس علم پر عمل نہیں کریں گے تو یہ علم ان کے خلاف گواہ ہوگا)۔
علم علی اللسان میں فرائض و واجبات، سنن و مباحات، مکروہات و محرمات اور اخلاق و آداب شامل ہیں جو ہماری ظاہری زندگی کو سنوارنے کے لیے ہیں۔ ائمہ دین نے ظاہری اور باطنی علم کو ہمیشہ جمع کیا ہے کیونکہ ہدایت تبھی ملتی ہے جب ظاہری اور باطنی دونوں علوم یک جا ہوں۔
3۔ حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
أُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلٰی سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، لِکُلِّ آیَةٍ مِنْهَا ظَهْرٌ وَبَطْنٌ.
قرآن مجید سات مختلف حروف (قرأت) میں نازل کیا گیا ہے۔ ہر آیت کا ایک ظاہری معنی ہے اور ایک باطنی معنی ہے۔
4۔ حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ہی ایک دوسری روایت بھی بیان کی ہے جس میں رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلٰی سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، لِکُلِّ آیَةٍ مِنْهَا ظَهْرٌ وَبَطْنٌ، وَلِکُلِّ حَدٍّ مَطْلَعٌ.
1۔ طحاوی، شرح مشکل الآثار، 8: 109
2۔ أبو یعلی، المسند، 9: 80-82، رقم: 5149
3۔ عبد الرزاق، المصنف، 3: 358، رقم: 5965، امام حسن بصری سے مرسلا روایت کی۔
قرآن مجید سات مختلف حروف (قرأت) میں نازل کیا گیا۔ ہر آیت کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن۔ اور ہر حد کا ایک مطلع ہے (جہاں سے اس کی ابتدا ہوتی ہے)۔
5۔ حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ایک روایت میں فرمایا گیا ہے:
لِکُلِّ حَرْفٍ حَدٌّ، وَلِکُلِّ حَدٍّ مُطَّلَعٌ.
طبرانی، المعجم الکبیر، 9: 136، رقم: 8667-8668
قرآن مجید کے ہر حرف کی ایک حد ہے جہاں اُس کی انتہاء ہوتی ہے اور ہر حد کا ایک مطلع ہے (جہاں سے اُس کی ابتداء ہوتی ہے)۔
یعنی ہر آیت کے ظاہری معانی بھی ہیں جو علمائے ظاہر جانتے ہیں اور ہر آیت کے باطنی معانی بھی ہیں جو علمائے باطن جانتے ہیں۔ اس میں مبتدی بھی ہیں اور اس میں منتہی بھی ہیں۔
6۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
إِنَّ الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلٰی سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، مَا مِنْهَا حَرْفٌ إِلَّا لَهٗ ظَهْرٌ وَبَطْنٌ، وَإِنَّ عَلِيَّ ابْنَ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه عِنْدَهٗ عِلْمُ الظَّاهِرِ وَالْبَاطِنِ.
بے شک قرآن مجید سات حروف (یا سات قراء ات) پر نازل ہوا ہے۔ اس کے ہر حرف کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن۔ یقینا حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس اس کے ظاہر کا علم بھی ہے اور اس کے باطن کا بھی۔
7۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ وِعَائَیْنِ فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهٗ وَأَمَّا الْآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهٗ قُطِعَ هٰذَا الْبُلْعُوْمُ.
بخاری، الصحیح، کتاب العلم، باب حفظ العلم، 1: 56، رقم: 120
میں نے رسول اللہ ﷺ سے دو تھیلے (یعنی دو طرح کا) علم حاصل کیا ہے۔ ایک کو میں نے لوگوں میں پھیلا دیا ہے جب کہ دوسرے کو اگر میں ظاہر کر دوں تو یہ گلا کاٹ ڈالا جائے۔
یعنی اس دوسرے علم سے ایسے اسرار و غوامض اور ایسے معارف و اطلاعات مراد ہیں جو کسی کی سمجھ میں ہی نہ آئیں گی، یا کسی کے ذہن سے مطابقت نہ رکھیں گی اور اس وجہ سے میری گردن اڑا دی جائے گی۔ لہٰذا میں وہ مسائل عوام میں بیان نہیں کرتا۔
ان احادیثِ مبارکہ کو اس لیے بیان کیا گیا ہے تاکہ معلوم ہو جائے کہ جس طرح قرآن مجید سے الہام اور علمِ خفی ثابت ہے، اسی طرح احادیثِ نبویہ سے بھی ان کی پوری تائید ہوتی ہے۔
علم خفی کے درج ذیل پانچ مراتب ہیں:
1۔ مغیبات کا آشکار ہونا
2۔ مرتبہ اسماع
3۔ مرتبہ افہام
4۔ مرتبہ بیان
5۔ مرتبہ تحدیث
سالک درجہ بدرجہ ان مراتب پر فائز ہوتا چلا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ جس قدر بھی مراتب کھلتے ہیں وہ سب قلب کی دنیا میں کھلتے ہیں۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللهُ قُلُوْبَهُمْ.
الصف، 61: 5
پھر جب انہوں نے کج روی جاری رکھی تو اللہ نے اُن کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
قُلُوْبُنَا غُلْفٌ ط بَلْ طَبَعَ اللهُ عَلَیْهَا بِکُفْرِهِمْ.
النساء، 4: 155
ہمارے دلوں پر غلاف (چڑھے ہوئے) ہیں، (حقیقت میں ایسا نہ تھا) بلکہ الله نے ان کے کفر کے باعث ان کے دلوں پر مُہر لگا دی ہے۔
یعنی دل کے اوپر غلافوں کے حجابات کا چڑھنا اور ان کا اتر جانا یہی وہ راستہ ہے جو دل کی آنکھیں اور اُس کے کان کھولتا ہے۔
آئیے اِن مراتب کا بالتفصیل مطالعہ کرتے ہیں:
شیخ الاسلام ابو اسماعیل عبد اللہ بن محمد الانصاری الہروی بیان کرتے ہیں کہ روحانی ریاضتوں اور مجاہدوں کے ذریعے روح ہر قسم کی کثافت سے مصفّٰی اور مزکّٰی ہو جاتی ہے۔ نفس امارہ ترقی پا کر نفس لوّامہ، ملہمہ اور مطمئنہ بن جاتا ہے۔ قلب اور جسم کے ظروف جب پاک اور صاف ہو جاتے ہیں تو اس میں پاکیزہ اسرار کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جب علم مغیبات آشکار کرتا ہے اور ظاہر و باطن اور حاضر و غائب کی حدود کو عبور کر کے اگلے مرحلے میں داخل ہوتا ہے۔
اسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا ہے:
عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَةِ.
الأنعام، 6: 73
(وہی) ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے۔
عالم شہادت کو ہم سر کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں جبکہ عالم الغیب کو آنکھوں، حواس اور عقل سے نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ یہ مادی علم کے ذرائع سے ماورا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے، وہ بندوں کو ان کی استعداد، صلاحیت اور ظرف کے مطابق جس قدر چاہتا ہے علم عطا فرما دیتا ہے۔
شیخ الاسلام ابو اسماعیل الہروی فرماتے ہیں کہ ابدان (جسموں) اور نفوس کے پاک صاف ہو جانے کے بعد بندے کے باطن کو جب یہ علم خفی نصیب ہو جاتا ہے تو اس سے غیب کے پردے اٹھا دیے جاتے ہیں اور اصل حقائق آنکھوں کے سامنے نمایاں ہو جاتے ہیں۔
الھروي، منازل السائرین: 77
شیخ الاسلام ابو اسماعیل الہروی فرماتے ہیں کہ اسے علمِ خفی کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ وہ علمائے ظاہر سے مخفی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی اپنی شان میں فرماتا ہے:
عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَةِ.
الأنعام، 6: 73
(وہی) ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے۔
اللہ کے ہاں تو کوئی چیز غیب اور مخفی نہیں ہے تو اس کا غیب جاننے سے کیا مراد ہے؟ یہ دراصل ایک اضافی اصطلاح (term) ہے۔ ہماری آنکھوں سے جو کچھ مخفی ہے اسے ہمیں سمجھانے کے لیے غیب کہا جا رہا ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ تو غیب اور شہادت دونوں کا خالق اور آشنا ہے۔ جب وہ کہتا ہے کہ میں غیب کو جانتا ہوں تو اس سے مراد وہ غیب ہے جو ہمارے حواس اور عقل سے اوجھل ہے۔ وہ جب یہ کہتا ہے کہ میں ظاہر کو جانتا ہوں تو اس سے مراد یہ ہے کہ جو ہماری آنکھوں کے سامنے نظر آ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ جب یہ دونوں الفاظ غائب اور موجود کا ذکر کرتا ہے تو انسان کی نسبت سے کرتا ہے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ درحقیقت علمِ خفی اس علم کو کہتے ہیں جو حواس اور عقل سے مخفی ہوتا ہے۔
علامہ شوکانی، علامہ ابن القیم اور علامہ ابن تیمیہ سب نے علم کی تقسیم میں علم خفی اور علم جلی کو بیان کیا ہے۔ یہ تینوں علماء کہتے ہیں کہ جب انسان اپنے قلب و باطن کو دنیا کے اشغال و علائق اور اس کی غلاظتوں سے پاک کر لیتا ہے تو پھر اس کا شیشۂ قلب بھی روشن ہو جاتا ہے۔ جس طرح سے آئینے پر گرد و غبار پڑا ہو تو ہم اپنا چہرہ نہیں دیکھ سکتے۔ جب آئینہ صاف ہو جاتا ہے تو شکل واضح دکھائی دیتی ہے۔ یہی کیفیت الہام سے کشف کی طرف لے جاتی ہے، جس قدر کسی کا شیشۂ قلب صاف ہوتا ہے اسی قدر اس کا کشف بھی واضح ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف اولیاء اور صلحاء کے کشف بھی مختلف ہوتے ہیں۔ اس بات کا انحصار اس امر پر ہے کہ اُسے کس قدر مقامِ صفائے قلب میسر ہے۔
شیخ الاسلام ابو اسماعیل الہروی اور علامہ ابن القیم نے قلب کو ’زمین‘ اور ریاضت و مجاہدہ کو ’پانی‘ قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اگر قلب کی زمین پر اچھے طریقے سے کاشت کی جائے اور ریاضت و مجاہدہ کا پانی بھی مناسب مقدار میں میسر آئے تو اس سے جو پودے اُگتے ہیں انہیں علمِ باطن اور معرفت کا نام دیا جاتا ہے۔
ابن القیم، مدارج السالکین، 2: 473
ان علوم کے حامل وہ لوگ ہیں جو اصحابِ ہمم عالیہ ہیں، جن کی ہمتیں بلند ہیں، یعنی ارادوں کی بلندی قلبی و نفسانی ریاضت اور مجاہدہ کے باعث نشو و نما پاتی ہے اور جیسے جیسے اجلا پن بڑھتا چلا جاتا ہے ویسے ویسے اہل ہمت کی ہمتیں بلند سے بلند تر ہوتی چلی جاتی ہیں۔ انہیں اہل ہمت اس لیے کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ کے شوقِ دیدار میں ان کے ارادے جنت و دوزخ کی توجہات سے بھی بلند ہو چکے ہوتے ہیں۔
علمِ خفی کا دوسرامرتبہ ’اسماع‘ ہے۔ شیخ الاسلام ابو اسماعیل الہروی نے ’منازل السائرین‘ میں ’الاسماع الساہیہ‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ الاسماع الساہیہ سے مراد سمع القلوب ہے، یعنی دلوں کے کانوں کے ذریعے سننا۔ صفائے قلب کے نتیجے میں بندے کو سماعِ قلب عطا ہو جاتا ہے۔ اس مرتبہ اسماع پر فائز لوگوں کی ہمتیں تمام چیزوں سے بلند ہوتی ہیں۔ جب یہ کیفیت ہوتی ہے تو اس شخص کو درجہ اسماع مل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قلب میں کان عطا فرماتا ہے جس کے ذریعے وہ الوہی نغمات سننے لگتا ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے:
الساهیة، أي: السالمة من الصم.
یعنی بہرے پن سے ان کے دلوں کے کان چھٹکارا پا جاتے ہیں، بہرے نہیں رہتے۔
قرآن حکیم میں ایک مقام پر فرمایا گیا ہے:
صُمٌّ م بُکْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَo
البقرة، 2: 18
یہ بہرے، گونگے (اور) اندھے ہیں پس وہ (راهِ راست کی طرف) نہیں لوٹیں گے۔
جس طرح بعض لوگ پیدائشی طور پر کان، زبان اور آنکھ سے بہرے، گونگے اور اندھے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اکثر لوگ قلب کے بھی بہرے، گونگے اور اندھے ہوتے ہیں اور ان کے دل اللہ کے نور، آخرت کی نعمتوں اور حقائق باطنیہ کو دیکھنے کے قابل ہی نہیں ہوتے۔ وہ ملاء اعلیٰ کی نعمتوں کے اشارات، خطابات، ارواح اور خطابات الٰہیہ کو دیکھنے اور سننے سے محروم ہوتے ہیں۔ ان کے دل ذاکر بھی نہیں ہوتے اور اللہ تعالیٰ سے ہم کلام بھی نہیں ہوتے۔ یہ قلوب مشاہدہ سے محروم ہوتے ہیں ۔ یوں ان کے دلوں کا بہرا، گونگا اور اندھا پن ہونا ثابت ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر فرمایا ہے:
وَلَوْ عَلِمَ اللهُ فِیْهِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَهُمْ.
الأنفال، 8: 23
اور اگر اللہ ان میں کچھ بھی خیر (کی طرف رغبت) جانتا تو انہیں (ضرور) سنا دیتا۔
جب کوئی شخص خود برائی اختیار کر لے تو شیطان اس پر مسلط ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی تقویٰ، پرہیزگاری، ریاضت، مجاہدہ، تزکیہ نفس اور صفائے قلب کا راستہ اپنالے یعنی وہ اللہ کی رضا کی طرف چل پڑے تو اللہ اس کے دل کو اپنے اُلوہی نغمات کی سماعت عطا فرما دیتا ہے۔ یہاں سماع سے مراد ہمارا روز مرہ کا سماع نہیں ہے بلکہ یہ وہ سماع ہے جو مولیٰ کریم اپنے بندوں کی ریاضت و مجاہدات کے نتیجے میں صفائے قلب حاصل ہونے پر عطا فرماتا ہے۔ اسے مرتبۂ اسماع کہتے ہیں۔
آپ غور کریں کہ بندے میں خیر ہو یا شر ہو اس کے کان تو ہر صورت ہی سنتے ہیں۔ یوں تو کفار کے کان بھی سنتے ہیں اور مومنین کے کان بھی سماعت کرتے ہیں، مگر یہاں اس سے مراد وہ سماع نہیں ہے بلکہ یہ وہ سماعت ہے، جس کے سینے میں ایمان اور معرفت شامل ہو اور آدمی نیکیوں کی طرف بڑھے۔ اسی کیفیت کو یوں بیان فرمایا گیا:
وَ مَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَالْبَصِیْرُo
فاطر، 35: 19
اور اندھا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ اس کے دل کو دیکھنے والابنا دیتا ہے، ورنہ بظاہر آنکھیں تو ہر ایک کے پاس ہوتی ہیں جو دیکھتی ہیں، مگر فرق یہ ہے کہ ان کے دل نہیں دیکھتے۔ اس لیے فرمایا کہ اندھا اور دیکھنے والا کبھی ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔
پھر فرمایا کہ تاریکی اور روشنی بھی برابر نہیں ہو سکتے:
وَ لَاالظُّلُمٰتُ وَلَا النُّوْرُo
فاطر، 35: 20
اور نہ تاریکیاں اور نہ نور (برابر ہو سکتے ہیں)۔
سایہ اور دھوپ کو بھی ایک جیسا نہیں کہا جا سکتا، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ لَاالظِّلُّ وَلَا الْحَرُوْرُo
فاطر، 35: 21
اور نہ سایہ اور نہ دھوپ۔
اسی طرح زندہ اور مُردہ بھی باہم برابر نہیں ہیں، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ.
فاطر، 35: 22
اور نہ زندہ لوگ اور نہ مُردے برابر ہو سکتے ہیں۔
یہ سب مثالیں ان جسمانی کانوں اور آنکھوں کے لیے نہیں دیں بلکہ یہ زندگی اور موت کا فرق، اندھیرے اور نور کا تضاد، سائے اور سورج کا فرق؛ یہ سارے تضادات بیان کر کے کہنا کہ کبھی بینا اور نابینا برابر نہیں ہوسکتے تو اس سے مراد قلب کی بینائی ہے۔ اسی حوالے سے فرمایا گیا ہے:
اِنَّ اللهَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآءُ.
فاطر، 35: 22
بے شک الله جسے چاہتا ہے سنا دیتا ہے۔
یعنی اللہ جس شخص میں خیر دیکھتا ہے تو اسے سننے والا قلب عطا فرما دیتا ہے۔ یہی اسماع القلوب ہے۔
اس کی مزید وضاحت ایک اور آیت کریمہ سے بھی ہوتی ہے:
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللهُ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَاَبْصَارِهِمْ ج وَاُولٰٓئِکَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَo
النحل، 16: 108
یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر مُہر لگا دی ہے اور یہی لوگ ہی (آخرت کے انجام سے) غافل ہیں۔
دلوں، کانوں اور آنکھوں پر اس وقت مہر لگتی ہے جب کوئی شخص مسلسل نافرمانیوں اور بدکاریوں کا مرتکب ہو کر سراپا شر بن جاتا ہے۔ مہر لگانے کا مطلب یہ ہے کہ اب انہوں نے بد اعمالیوں کے سبب اپنے آپ کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ جہاں سے وہ پلٹ کر خیر کی طرف نہیں آئیں گے۔
’اسماع‘ کی دو اقسام ہیں:
(ا) مرتبہ نازلہ
(ب) مرتبہ عالیہ
جب صفائے قلب کے نتیجے میں بندے کو سماعِ قلب عطا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کے فہم کو ایسی صلاحیت عطا فرما دیتا ہے جو عام عقل و دماغ والے کو حاصل نہیں ہوتی۔ اس طرح الہام اس کے علم میں شامل ہو جاتا ہے۔
اس صورت میں ہمارے حواسِ خمسہ اور مدرکاتِ حسی کے اندر ہی اللہ تعالیٰ ایسی برکت ڈال دیتا ہے کہ یہ آنکھیں وہ کچھ دیکھتی ہیں جو عام نظریں دیکھ نہیں پاتیں۔ یہی کان وہ کچھ سنتے ہیں جو عام کان سماعت نہیں کر سکتے۔ یہی عقل اور دماغ وہ کچھ سوچ سمجھ لیتے ہیں جو عام لوگوں کے عقل و دماغ سوچ بھی نہیں سکتے۔ یعنی اس کے اندر مدرکاتِ حسی، عقل و حواسِ خمسہ کی قوتِ فہم اور قوتِ سماعت یکسر بڑھ جاتی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ ملاء اعلیٰ کے انوار کو اس کے جسمانی حواس و عقل کے ذرائع میں شامل فرما دیتا ہے۔ اس اشتراک سے ان ذرائع میں برکت آجاتی ہے۔ اب کتاب تو ہر کوئی پڑھتا ہے مگر صاحبِ قلبِ سلیم جب اسی کتاب کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے اس میں سے وہ کچھ نظر آتا ہے، جو دوسرے قارئین سے پنہاں ہوتا ہے۔ الفاظ و معانی پر ہر کوئی غور کرتا ہے مگر یہ جب غور و فکر کرتا ہے تو اس پر الہامی دروازے کھل جاتے ہیں اور انوارِ ملاء اعلیٰ اس کے شاملِ حال ہو جاتے ہیں۔
ان غور و فکر کرنے والوں کا ذکر سورۂ آل عمران میں یوں کیا گیا ہے:
الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللهَ قِیٰـمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلاً ج سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِo
آل عمران، 3: 191
یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اس کی عظمت اور حُسن کے جلووں) میں فکر کرتے رہتے ہیں (پھر اس کی معرفت سے لذت آشنا ہو کر پکار اٹھتے ہیں) اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا، تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔
الغرض اس کی عقل میں ایسی چیزیں آتی ہیں جن سے دوسرے بے بہرہ ہوتے ہیں۔ یہ مرتبہ الہام کی ہی ایک شکل ہے اور یہ نچلا مرتبہ ہے۔
اس علمِ خفی کا ایک درجہ مرتبۂ عالیہ بھی ہے۔ مرتبۂ عالیہ یہ ہے کہ اُس کے قلب کو خطاب کیا جاتا ہے۔ وہ چیزوں کو سنتا ہے اور اس کے قلب پر مختلف اقسام کی نورانی تجلیات کا ورود ہوتا ہے۔ یہ تجلیات قلب پر نازل ہو کر علوم و معارف، فہم و ادراک اور حقائق سے آگاہی دیتی ہیں۔
بعض اوقات یہاں تعبیر کرتے ہوئے عارف کو مغالطہ بھی لگ سکتا ہے۔ اگر سالک صلاحیت اور مرتبہ میں تھوڑا ناقص ہے تو وہ اس تجلی کو - جو بظاہر اس قدر واضح اور عیاں ہوتی ہے - خود سے خطاب سمجھ بیٹھتا ہے۔ ہم میں سے اکثر نے اپنی عملی زندگی میں یہ دیکھا اور محسوس کیا ہو گا کہ کئی بار اچانک ایک خیال القاء ہوتا ہے یا اس طرح سمجھتے ہیں کہ جیسے کسی نے ہمیں آواز دی ہے، یا باہر کسی نے دروازہ پر دستک دی ہے۔ گھر والے کہتے ہیں کہ ایسی کوئی آواز نہیں آئی، مگر ہم اصرار کرتے ہیں کہ میں نے ایسی آواز خود سنی ہے۔
یہ تو عام روزمرہ کی بات ہے چہ جائیکہ اس کا مرتبہ عالم ملکوت و جبروت کے خطاب کا ہو۔ وہ تجلی تو روزِ روشن کی طرح اتنی واضح ہوتی ہے کہ بعض اوقات وصول کرنے والا اسے براهِ راست خطاب سمجھ کر اس پر یقین کر لیتا ہے۔ حالانکہ درحقیقت وہ آواز، حروف اور الفاظ کا خطاب نہیں ہوتا، بلکہ دراصل اُس کے فہم میں غلطی ہوتی ہے۔ جوں جوں درجہ بلند ہوتا چلا جاتاہے اور صفائے قلب کی سطح مرتبۂ روحانیت میں اونچی ہوتی چلی جاتی ہے تو مغالطے کے امکانات بھی کم سے کم تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اس طرح کا خطاب آواز، الفاظ اور حروف کا نہیں ہوتا بلکہ یہ مخاطبہ بشکلِ تجلی ہوتا ہے۔
یہ دراصل کشف کی بنیادی شکل ہوتی ہے۔ ابھی یہ کیفیت نہیں ہوتی کہ مکمل پردہ اٹھ گیا ہو۔ یہ کبھی ہلکے پردوں کے پیچھے سے نظر آتا ہے، کبھی مخاطبہ کی شکل میں سنائی دیتا ہے لیکن اس مقام پر اتنی بات ضرور ہے کہ سالک کا بہرا پن اور اندھا پن ختم ہوچکا ہے۔ اب صُمٌّم بُکْمٌ عُمْیٌ والا معاملہ نہیں رہا، جیسا کہ قرآن مجید نے کہا ہے:
فَاِنَّھَا لَاتَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰـکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِo
الحج، 22: 46
تو حقیقت یہ ہے کہ (ایسوں کی) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔
بندہ جب اس مقام پر پہنچتا ہے تو غائب ظاہر ہونے لگتا ہے اور علوم مزید ترقی پاتے چلے جاتے ہیں۔ یہ تجلیات کی ایک شکل ہوتی ہے۔ اس کے آگے علم لدنی کا مرتبہ آتا ہے، پھر درجہ بدرجہ حجابات اٹھتے چلے جاتے ہیں۔ جیسے جیسے حجابات اٹھتے چلے جاتے ہیں ویسے ویسے پردے کے پیچھے سے صاف نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ حجابات مختلف اشکال کے ہوتے ہیں۔
ذیل میں ان میں سے کچھ حجابات کا ذکر کیا جا رہا ہے:
سب سے پہلے عقیدے کی خرابیاں قلب و باطن اور روح کے حجابات کا روپ دھار لیتی ہیں، جو بظاہر نظر نہیں آتیں۔ اس لیے سب سے پہلے عقائد کا درست ہونا لازمی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین اور اتباع التابعین سے منقول اور مروی ہے کہ ہم قرآن مجید کی قراء ت اور تلاوت سیکھنے سے پہلے عقیدئہ صحیحہ سیکھا کرتے تھے۔ ایمان کی تعلیم لیتے تھے کہ عقیدہ کیا ہے؟ چونکہ اگر ہمارا بنیادی عقیدہ ہی درست نہیں ہے تو اس کا حجاب ایسا ہے کہ وہ کبھی ہدایت کی طرف آنے ہی نہیں دے گا۔ یہ دورِ پرفتن ہے۔ غلط عقیدے والا بھی تو قرآن کا ہی حوالہ دیتا نظر آتا ہے۔ اگرچہ وہ قرآن کو ہی پڑھ رہا ہے مگر شیاطین اس کے نفس کے اندر غلط الہام کر رہے ہوتے ہیں، آنکھوں پر حجابات ہیں اور عقل و قلب نور سے خالی ہیں۔ قرآن حکیم کا درج ذیل فرمان اسی امر کی طرف اشارہ کر رہا ہے:
یُضِلُّ بِهٖ کَثِیْرًا وَّیَهْدِیْ بِهٖ کَثِیْرًا.
البقرة، 2: 26
(اس طرح) اللہ ایک ہی بات کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گم راہ ٹھہراتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے۔
یہ دوسرا حجاب ہے۔ اسے قولیہ اس لیے کہتے ہیں کہ غلط اور گم راہ کن اقوال سے عقائد میں حجابات پیدا ہوتے ہیں۔
غلط اعمال سے بھی حجابات پیدا ہوتے ہیں۔ دل کے اوپر حجاب در حجاب، پردہ در پردہ گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ نیکی، تقویٰ اور سلوک و طریقت کی راہ میں جد و جہد کرنے والوں سے سرزد ہونے والے غلط اعمال ہی ان کے لیے حجاب بن جاتے ہیں۔
جس طرح نماز، روزہ، زکوۃ اور حج وغیرہ ظاہری اَعمالِ صالحہ ہیں، اُسی طرح باطنی اَعمالِ صالحہ بھی ہیں جیسے، صدق، اخلاص، توجہ اِلی اللہ، قربِ الٰہی اور اَخلاقِ حسنہ۔ یہ اعمالِ صالحہ کا باطن ہیں اور یہ سارے اُمور باطن میں نیت کو بہتر کرتے ہیں۔ جس طرح تکبر، شرک، قتل، بدکاری اور والدین کی نافرمانی وغیرہ ظاہری گناهِ کبیرہ ہیں، اسی طرح باطنی گناهِ کبیرہ بھی ہیں، جیسے تکبر، غضب، کبر، ریاکاری، حسد، غرور اور نفس پرستی وغیرہ۔ یہ وہ کبائر ہیں جو بظاہر نظر نہیں آتے۔ گناهِ کبیرہ باطنیہ کے حجابات ہمارے ظاہری گناهِ کبیرہ کی نسبت زیادہ سخت ہوتے ہیں۔ ظاہری گناهِ کبیرہ کے حجابات اتنے کثیف نہیں ہوتے، وہ پردے جلد اٹھ جاتے ہیں مگر اس کے برعکس تکبر، غضب، ریاکاری، حسد، حرص اور دوسروں کو حقیر اور گھٹیا سمجھنا وغیرہ ایسے باطنی حجابات ہیں کہ ان کا ختم ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ان کے لیے کڑی ریاضت اور سخت مجاہدہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
بہت ساری چھوٹی چھوٹی نافرمانیاں اور غفلتیں جو انسان سے خطیئات و سیئات اور ذلات کی شکل میں سرزد ہوتی رہتی ہیں وہ سب صغائر گناہ ہیں۔ ہر صغیرہ گناہ کا بھی ایک حجاب ہوتا ہے۔
غفلت کے بھی حجابات ہوتے ہیں۔ اس کی دو اقسام ہیں:
اس سے مراد ہے کہ ہر مباح کام کو کرنے کی طبیعت میں رغبت پیدا ہو جانا۔ جہاں مباح نظر آئے، جو منع نہیں، وہ کام کر گزرنا۔ جہاں رخصت نظر آئے، عزیمت سے بچتے ہوئے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانا۔ تقویٰ و پرہیزگاری اور ایسی عبادت جس میں زیادہ محنت کرنا پڑے، اس سے بچنا۔ جہاں آسانی نظر آئے اور اس کی طرف طبیعت راغب ہو جائے تو اسے حجب التوسع فی المباحات کہتے ہیں۔
جب سالک غفلتوں کی طرف سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ان کا مرتکب ہو جاتا ہے تو اس کا یہ عمل توسع فی الغفلات کے ذیل میں آتا ہے۔ اس کے بھی بڑے حجابات ہوتے ہیں اور اگر یہ حجابات پڑے رہیں تو انسان روحانی سفر طے نہیں کر پاتا، بلکہ یہ سلسلہ رک جاتا ہے۔
یہ بھی حجابات ہیں کہ آدمی اللہ کا سالک ہو کر راهِ حق پر جا رہا ہے، مگر نیت کے حوالے سے اس کا دھیان اللہ کی خالص رضا سے دائیں اور بائیں کی چیزوں میں بھی ساتھ ساتھ تقسیم ہوتا چلا جائے۔ اس کا خیال کشف و کرامات اور روحانی مقامات و درجات میں لگ جائے تو وہ ہر خیال اور دھیان جو خالصتاً اللہ تعالیٰ کی قربت، اس کی رضا کا متقاضی ہوتا ہے، اس سے ہٹ جائے گا اور یہ سارے خیالات اس کی نیت میں آتے چلے جائیں گے۔ یاد رہے کہ یہ گرد و غبار ہے۔ یہ مکدر پن اس کی نیت میں آکر حجاب کا باعث بنتا ہے اور اس کی باطنی حالت کو خراب کرتا ہے۔
یہاں ہم نے چند حجابات کا ذکر کیا ہے۔ الہام کے راستے میں یہ حجابات اگر بتدریج اٹھتے چلے جائیں تو علمِ خفی کا درجہ بلند سے بلند تر ہوتا چلا جاتا ہے اور کشف بھی بہتر سے بہتر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس طرح بندہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کا قلب سماعت کرنے لگتا ہے۔
علمِ خفی کا تیسرا مرتبہ ’افہام‘ ہے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کے دل کو وہ فہم نصیب ہوتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے عام آدمی کے پاس نہیں رکھا ہوتا۔ جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام کے لیے فرمایا:
فَفَهَمْنٰهَا سُلَیْمٰنَ ج وَکُلًّا اٰ تَیْنَا حُکْمًا وَّعِلْمًا.
الأنبیاء، 21: 79
چنانچہ ہم ہی نے سلیمان ( علیہ السلام ) کو وہ (فیصلہ کرنے کا طریقہ) سکھایا تھا اور ہم نے ان سب کو حکمت اور علم سے نوازا تھا۔
خصوصی فہم اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے۔ یہ فہمِ خاص اولیاء اللہ کو نصیب ہوتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے بھی بعض کے ساتھ یہ مخصوص تھا۔ اِس فہمِ خاص سے مراد وہ ادراک نہیں ہے جو عام عقل و حواس کے ذریعے لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو خط بھیجا۔ اس میں انہوں نے فرمایا:
أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ الْقَضَاءَ فَرِیْضَةٌ مُحْکَمَةٌ، وَسُنَّةٌ مُتَّبَعَةٌ، فَافْهَمْ إِذَا أُدْلِيَ إِلَیْکَ بِحُجَّةٍ … اَلْفَهْمَ الْفَهْمَ فِیْمَا یُخْتَلَجُ فِي صَدْرِکَ مِمَّا لَمْ یَبْلُغْکَ فِي الْکِتَابِ أَوِ السُّنَّةِ، اعْرِفِ الْأَمْثَالَ وَالْأَشْبَاهَ، ثُمَّ قِسِ الْأُمُوْرَ عِنْدَ ذٰلِکَ فَاعْمَدْ إِلٰی أَحَبِّھَا عِنْدَ اللهِ وَأَشْبَھِھَا بِالْحَقِّ فِیْمَا تَرٰی.
اما بعد! منصبِ قضاء پر فائز ہونا ایک بڑی ذمہ داری ہے اور یہ اتباع کرنے والی سنت بھی ہے۔ جب تیرے پاس کوئی دلیل لائی جائے تو اُسے خوب سمجھ لے۔ … فہم اس بات کے بارے میں ہوتا ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور جس کے بارے میں قرآن و حدیث سے تجھے کوئی چیز نہ پہنچے۔ ایک جیسی اور مشابہ چیزوں کی خوب چھان بین کر لیا کرو۔ پھر اُس وقت کسی اَمر کا دوسرے پر قیاس کرو اور اس بات پر اعتماد کرو جو الله تعالیٰ کی بارگاہ میں پسندیدہ ہو اور تیری رائے میں حق بات کے زیادہ قریب ہو۔
گویا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیے گئے فہم اور استعداد سے معاملہ کو سمجھنے اور انہیں استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں کہ جب کوئی عقلی یا قرآن و سنت کی دلیل سے بات کرے تو اس میں غور و فکر کرتے ہوئے فہم کا استعمال کیا کرو۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس خط میں دو مختلف مواقع پر اَلْفَهْم کو بیان کر رہے ہیں۔ پہلے فہم کا تعلق دلیلِ ظاہری کے ساتھ تھا، وہاں فہمِ عقلی کی بات تھی کہ عقل کے فہم سے کام لے۔ اب بات یہ ہو رہی ہے کہ اگر دل میں کوئی کھٹکا آجائے، کوئی شک پیدا ہو جائے اور اطمینان قلب نہ ہو تو فہم ِقلبی سے کام لیا جائے۔ یہ فہمِ قلبی اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام کے ذریعے کشفِ قلبی کی شکل میں بندے کو نصیب ہوتا ہے اور یہی مرتبہ افہام ہے۔
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے جسے قاضی یا جج مقرر کرتے تو ان کے لیے یہ ہدایات فرماتے تھے۔ حضرت فاروق اعظم کا یہ خط بہت جامع ہے لیکن یہاں صرف متعلقہ حصہ بیان کیا گیا ہے۔
فہم کا دروازہ عقل و دماغ کی بجائے قلب سے کھلتا ہے۔ اس کی ایک مثال علامہ ابن القیم سے لیتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
اَلْفَھْمُ نِعْمَةٌ مِنْ نِعَمِ اللهِ عَلٰی عَبْدِهٖ وَنُوْرٌ یَقْذِفُهُ اللهُ فِي قَلْبِهٖ، ویَعْرِفُ بِهٖ وَیُدْرِکُ مَا لَا یُدْرِکُهٗ غَیْرُهٗ وَلَا یَعْرِفُهٗ، فَیَفْھَمُ مِنَ النَّصِّ مَا لَا یَفْھَمُهٗ غَیْرُهٗ مَعَ اسْتِوَائِھِمَا فِي حِفْظِهٖ وَفَھْمٌ أَصْلُ مَعْنَهُ. فَالْفَھْمُ عَنِ اللهِ وَرَسُوْلِهٖ ﷺ عُنْوَانُ الصِّدِّیْقِیَّةِ وَمَنْشُوْرُ الْوِلَایَةِ النَّبَوِیَّةِ.
ابن القیم، مدارج السالکین، 1: 41
یہ فہم اللہ کی اپنے بندے پر کی گئی نعمتوں سے ایک نعمت ہے اور یہ وہ نور ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے قلب میں اتارتا ہے۔ پھر بندہ اس نور کے ذریعے وہ کچھ جان اور پہچان لیتا ہے، جو کوئی دوسرا جان اور پہچان نہیں سکتا۔ پھر بندہ نص سے وہ کچھ سمجھ لیتا ہے جو کوئی اور سمجھ نہیں سکتا، حالانکہ اس نص کو یاد کرنے میں دونوں برابر ہوتے ہیں۔ یہ فہم کا حقیقی مفہوم ہے۔ اگر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے فہم نصیب ہو تو یہ صدیقیت کا عنوان اور ولایتِ نبوی کا منشور ہے۔
علامہ ابن القیم نے یہاں مثال دی ہے کہ ایک دن فاروق اعظم رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں تشریف فرما تھے۔ حاضرینِ مجلس میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم (جو ابھی نوجوان تھے) بھی موجود تھے۔ انہوں نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت فرمائی:
اِذَآ جَآءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُo
النصر، 110: 1
جب الله کی مدد اور فتح آپہنچے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ بھلا اس سورت میں کیا خاص بات کہی گئی ہے؟ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے فرمایا کہ اللہ کی فتح اور نصرت کا بیان ہوا ہے، مگر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کا جواب تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مختلف تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال فرما جانے کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ آپ ﷺ کی عمر مبارک مکمل ہوگئی ہے اور اب آپ ﷺ کا اس دنیائے فانی سے رحلت فرمانے کا وقت قریب ہے۔()
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ آپ ﷺ کی جد و جہد کو منزل مقصود تک پہنچاؤں گا۔ جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا ہے:
اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًاo
الفتح، 48: 1
(اے حبیبِ مکرم!) بے شک ہم نے آپ کے لیے (اسلام کی) روشن فتح (اور غلبہ) کا فیصلہ فرما دیا (اس لیے کہ آپ کی عظیم جدّوجہد کامیابی کے ساتھ مکمل ہو جائے)۔
یعنی فتح کی منزل کے پہنچنے تک مدد نازل فرمائوں گا۔ لہٰذا میں اس سورۃ النصر کے نزول سے میں سمجھ گیا کہ چونکہ فتح کی تکمیل کی شکل میں وعدہ اُلوہیت مکمل ہو گیا ہے، لہٰذا اب حضور نبی اکرم ﷺ کی عمر مبارک بھی پوری ہونے والی ہے اور ان کا اس جہانِ فانی سے رخصت ہونے کا وقت قریب آگیا ہے۔
یہ وہ فہمِ خاص ہے جو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کو حاصل تھا، جس کا چشمہ ملاء اعلیٰ اور عالم ملکوت کی طرف سے الہامِ ربانی کی شکل میں قلب سے پھوٹتا ہے۔ حالانکہ اس وقت ان سے بڑے جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی موجود تھے، مگر ان میں سے کسی کا فہم اس طرف نہ جا سکا کیونکہ سورت کی کسی آیت میں یہ بات واضح طور پر موجود نہیں تھی۔ چنانچہ پردوں کے اندر کیا کیا لطائف باطنی پنہاں ہیں، ان کا ادراک اور معرفت صرف انہی کو نصیب ہوتی ہے جن پر فہم کا دروازہ تجلیِ حق کی صورت میں کھل گیا ہوتا ہے۔
علم خفی کے چوتھے مرتبہ و درجے پر بندہ ٔخاص کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق و باطل میں تمیز کر دینے والا بیان عطا ہوتا ہے۔ بات کو پڑھتے یا سنتے ہی فہمِ خاص کی بدولت صاحبِ علمِ باطن تمیز کر لیتا ہے کہ یہ حق ہے اور یہ باطل ہے۔ اگرچہ آیات اور کلام ہر کوئی سنتا ہے، کتاب ہر کوئی پڑھتا ہے، دلائل ہر کوئی سنتا اور بیان کرتا ہے مگر بیانِ خاص صرف انہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے جن کے ظاہری حواس کے اندر تجلیِ حق کا نور شامل ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ اس کے ظاہری حواس اور عقل کو بھی روشن فرما دیتا ہے اور اس کے قلب کے ذریعے علم و معرفت کے چشمے کھول دیتا ہے۔
یہ علم خفی کا پانچواں درجہ ہے۔ رسول الله ﷺ کا فرمان اقدس ہے:
قَدْ کَانَ یَکُوْنُ فِي الْأُمَمِ قَبْلَکُمْ مُحَدَّثُوْنَ فَإِنْ یَکُنْ فِي أُمَّتِي مِنْھُمْ أَحَدٌ، فَإِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ مِنْھُمْ.
وقَالَ ابْنُ وَھْبٍ: تَفْسِیْرُ ’مُحَدَّثُوْنَ‘ مُلْهَمُوْنَ.
تم سے پہلی اُمتوں میں محدَّث ہوتے تھے۔ اُن جیسا اگر کوئی ایک بھی میری اُمت میں ہوا تو وہ عمر بن خطاب ہوگا۔
ابن وہب نے کہا ہے کہ محدَّث اس شخص کو کہتے ہیں جس پر الہام کیا جاتا ہو۔
ایک روایت میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا:
یَا رَسُوْلَ اللهِ، کَیْفَ مُحَدَّثٌ؟
یا رسول الله! اس الہام کی کیفیت کیا ہوتی ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
تَتَکَلَّمُ الْمَـلَائِکَةُ عَلٰی لِسَانِهٖ.
اس کی زبان پر فرشتے بولتے ہیں۔
یہ وہ مرتبہ تحدیث ہے کہ جہاں مخاطبہ ہوتا ہے۔ تجلیاتِ حق قلب پر اتنی غالب ہو جاتی ہیں کہ کلام بے ساختہ زبان سے نکلتا ہے اور بندہ اسے تراشتا یا بناتا نہیں ہے۔ دراصل اس کی زبان سے ملائکہ بول رہے ہوتے ہیں۔ اس پر عالم ملکوت اور عالم جبروت سے القاء ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ الفاظ و حروف کی شکل میں زبان سے ادا ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس مقام پر ایک طرف بندے کے قلب کا ملاء اعلیٰ سے رشتہ جڑا ہوتا ہے اور دوسری طرف قلب کا اس کی زبان کے ساتھ تعلق قائم ہوا ہوتا ہے۔ یہاں اُس کی زبان عقل سے پوچھ کر الفاظ، معانی، مضامین اور مفاہیم کو تراش کر بیان نہیں کر رہی ہوتی۔ دیکھنے میں عمل وہی ہوتا ہے مگر وہ مضامین کبھی ملاء اعلیٰ، کبھی ملکوت، کبھی جبروت اور کبھی لاہوت سے تجلیاتِ ربانی کی صورت میں اس کے قلب پر وارد ہوتے ہیں۔ یہ تجلیات الفاظ، زبان اور کلمات کی شکل میں بندہ کی زبان سے ادا ہو رہی ہوتی ہیں۔ جب یہ کیفیت ہو جائے تو یہ مرتبہ تحدیث ہے کہ اس کی زبان سے ملائکہ بولتے ہیں۔ اگر وہ الفاظ بن کر زباں سے نہیں نکلتے بلکہ تجلی دل پر پڑی اور اس کی تاویل و تشریح کی یا معنی سمجھ لیا تو پھر اس تجلی کو تحدیث نہیں کہتے ہیںبلکہ وہ مرتبہ الہام رہا۔ الہام ہی کا ایک اونچا درجہ مرتبہ تحدیث ہے۔
اگر قلب پر تجلیات وارد ہوں اور ان تجلیات کی تعبیر و تاویل یا تشریح کی جائے جیسے خواب میں عالم مثال کی دیکھی گئی چیزوں کی تعبیر و تاویل کی جاتی ہے، تو یہ دراصل کشف کی ایک شکل ہوتی ہے اور ہم اس کی تعبیر اور تاویل کرتے ہیں۔ کبھی مرتبہ اس سے بھی اونچا ہو جاتا ہے، وہ افہام اور بیان کا مرتبہ ہے، وہ اسماع کا مرتبہ ہے۔ اگر الہام کے مراتب اس سے اور اونچے ہو جائیں اور پردے مزید اٹھ جائیں، قلب کو مزید صفا نصیب ہو جائے تو پھر تجلیِ حق جو قلب پر اُتری تھی وہ الفاظ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ پھر زبان سے بندہ جو کچھ کہتا ہے بسا اوقات اس کو خود خبر نہیں ہوتی کہ میری زبان سے کیا ادا ہوگیا ہے۔ اس وقت اُس کی زبان قلب کے خزانے سے علم لے رہی ہوتی ہے اور قلب یہ سارے علوم و معارف ملاء اعلیٰ، عالمِ جبروت اور عالمِ ملکوت سے حاصل کر رہا ہوتا ہے۔ اس کا تعلق اب بذریعہ قلب و روح عالم بالا کے ساتھ ملا ہوتا ہے۔ اگر اس مرتبے پر صاحبِ الہام اور صاحبِ ولایت پہنچ جائے تو وہ مرتبہ تحدیث ہے جسے محدَّت اور مکلَّم کا نام خود حضور نبی اکرم ﷺ نے عطا فرمایا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved