گزشتہ ابواب میںہم اس بات کا مطالعہ کر چکے ہیں کہ ذرائع علم بہت سے ہیں: نفس بھی ذریعۂ علم ہے، قلب بھی ذریعہ علم ہے اور روح بھی ذریعہ علم ہے۔ علاوہ ازیں اونچے درجے کے مزید لطائف بھی ہیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ انسان کو وہ علوم عطا کرتا ہے جو عام طور پر معروف ذرائع سے حاصل نہیں ہوتے۔ اِلہام اِنہی مخفی ذرائع میں سے ایک ذریعۂ علم ہے جس کے بارے میں بھی ہم اب تک تفصیلی مطالعہ کر چکے ہیں۔ اس باب میں ہم بطریقِ اِلہام میسر آنے والے علم پر مزید بحث کریں گے۔
قدماء کی طرف سے صدیوں قبل لکھی گئی کتابوں سے بعض اوقات اِلہام کے معنیٰ سمجھنے میں ابہام پیدا ہوا ہے۔ بعض اوقات ان کے ہاں الہام، کشف اور علمِ لدنی سمیت کئی چیزوں کے بارے میں ایسے لگتا ہے کہ جیسے یہ سب ایک ہی چیز کے مختلف نام ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ یہ لوگ دراصل ایسے متکلمین و محققین ہیں جو ان علوم کے ماہر اور متخصص نہیں تھے۔ لہٰذا اُنہوں نے اِن تمام اصطلاحات کو مترادف قرار دے دیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ عملًا اس میدان کے ماہر نہ ہوتے ہوئے بھی انہوں نے الہام کا مورد قلب کو قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر علامہ شریف جرجانی نے لکھا:
اَلإْلْهَامُ مَا وَقَعَ فِي الْقَلْبِ.
جرجانی، التعریفات: 51
اِلہام وہ ہے جو دل میں واقع ہوتا ہے۔
دیگر کئی علماء اور محققین نے بھی یہی لکھا ہے۔ ایسا لکھنا غلطی نہیں ہے، بلکہ انہوں نے اجمالاً بات کر دی اور تفصیل میں نہیں گئے۔ الہام قرآن مجید کی نص سے ثابت ہے اور اس کا وقوع اصلاً نفس میں ہی ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر الہام نفس میں واقع ہوتا ہے تو اس کا مورد ’قلب‘ کیوں لکھا گیا ہے؟ اَصلاً اِلہام کا مورد نفس ہے جبکہ کشف اور علمِ لدنی کا مورد قلب ہے۔
یہ بڑی لطیف بات ہے کہ نفس تزکیہ کے مراحل طے کرتا ہوا ایک مقام پر آکر قلب کی جگہ لے لیتا ہے، گویا قلب کی مانند ہو جاتا ہے۔ نفس ایک جوہر ہے، اُس کا ایک لطیفہ ہے جو لطیفۂ نفس کہلاتا ہے۔ وہ کبھی روحانی ترقی پا کر لطیفہ قلب کی جگہ لے لیتا ہے۔ یہاں اُس کی روحانی ترقی ہوتی ہے۔ اگرچہ وہ نفس ہی ہوتا ہے لیکن تزکیہ کے ساتھ ساتھ اُس کے خصائل بھی بدل جاتے ہیں۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ نفس بذاتِ خود مادی وجود نہیں ہے۔ یہ وجود میں روح کی طرح کا ایک جوہر ہے، اس کی موجودگی ایک روحانی چیز ہے جیسے عقل اور قلب ہے۔ یہاں قلب سے مراد قلب القلب ہے۔ اسی طرح عقل اور شے ہے جب کہ دماغ اور چیز ہے۔ دماغ کا مادی اور جسمانی وجود ہے، اُس کے اپنے خانے ہیں جبکہ عقل دراصل ایک جوہر ہے۔ متقدم علماء نے نفس اور روح پر بڑی بحثیں کی ہیں اور انہیں ایک ہی چیز قرار دیا ہے مگر محدثین اور صوفیاء نفس اور روح دونوں کو الگ الگ مانتے ہیں۔ اس باب میں ہمارا اعتماد صوفیاء اور اولیاء کی تعریف پر ہے، کیونکہ نفس، قلب اور روح اُن کا موضوع ہے۔ یہ فقہاء یا متکلمین کا موضوع (subject) ہی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر جب کیمسٹری کی بات ہو تو کیمیا کے ماہر (specialist) کی بات زیادہ معتبر ہوگی، بجائے اُس کے جو فزکس یا بیالوجی کا ماہر ہے۔ جب بیالوجی کی بات آئے گی تو اسی کے ماہر کی بات مانیں گے بجائے اس کے جو طبیعیات (physics) کا ماہر ہے۔ الغرض جب ایک فن کا ماہر اور متخصص اپنے شعبہ کے بارے میں بات کرے گا تو اس کی رائے زیادہ قابل قبول، وقیع اور مستند ہوگی۔
شیخ عبد القادر جیلانی نے سات نفوس کے علم کو بیان کیا ہے۔ پھر شیخ اکبر نے بھی انہیں بیان کیا ہے۔ بعد ازاں جس نے بھی لکھا ہے وہ انہی ذرائع کی بنیاد پر آگے لکھتے چلے گئے ہیں۔ اب ہم درجہ بدرجہ نفس کی ان اقسام کا ذکر کرتے ہیں:
یہ سات اقسامِ نفس میں سب سے پہلا نفس ہے۔ یہ سب سے زیادہ گناہوں کی طرف مائل کرنے والا اور دنیوی رغبتوں کی جانب کھینچ لے کر جانے والا ہے۔ یہی نفس فواحش و منکرات، لذات و شہوات اور جملہ بدکاریوں کی ترغیب دیتا ہے۔ اس کی نسبت قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا ہے:
اِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوٓءِ.
یوسف، 12: 53
بے شک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے۔
نفس امارہ کی صفات میں بخل، کنجوسی، حرص، طمع، لالچ، بدی،حماقت، شہوات پرستی، بغض و کینہ، حسد و عناد، جہالت و غفلت، سستی و کاہلی، غصہ، غیض و غضب، غیبت و چغلی اور عیب جوئی وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے کسی ایک صفت کا پایا جانا بھی نفسِ امارہ پر دلالت کرتا ہے۔ یہاں قرآن مجید سے بطور نمونہ نفس امارہ کی چند صفات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَفَکُلَّمَا جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ م بِمَا لَاتَهْوٰٓی اَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ.
البقرة، 2: 87
تو کیا (ہوا) جب بھی کوئی پیغمبر تمہارے پاس وہ (احکام) لایا جنہیں تمہارے نفس پسند نہیں کرتے تھے تو تم (وہیں) اکڑ گئے۔
یہاں نفس امارہ کی نمایاں صفت ’تکبر‘ بیان کی گئی ہے اور حق کا انکار واقع ہونا بھی اسی نفس کے باعث بیان کیا گیا ہے۔
2۔ اسی طرح ارشاد ہوتا ہے:
وَمَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰهٖمَ الِاَّ مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗ.
البقرة، 2: 130
اور کون ہے جو ابراہیم ( علیہ السلام ) کے دین سے رُوگرداں ہو سوائے اس کے جس نے خود کو مبتلائے حماقت کر رکھا ہو۔
یہاں نفس کی جہالت و حماقت کی صفت کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔
3۔ نفس کی شہوات پرستی کی کیفیت کو یوں بیان کیا گیا ہے:
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالَانْعَامِ وَالْحَرْثِ ط ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ج وَاللهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِo
ال عمران، 3: 14
لوگوں کے لیے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان کیے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اللہ کے پاس بہتر ٹھکانا ہے۔
نفسِ امارہ رکھنے والے شخص کا دل تصوف کی اصطلاح میں ’قلب بہیمی‘ یعنی حیوانی دل کہلاتا ہے۔ اس شخص کی طبیعت اور مزاج میں حیوانی قوتوں کا غلبہ ہوتا ہے۔ ایسے دل کو شیطانی وسوسے اور منفی خیالات اپنی سواری بنا لیتے ہیں۔ بعض اوقات اس کی حالت یہ ہو جاتی ہے کہ بیرونی اسباب اور اثرات کے بغیر ہی خود بخود دل و دماغ میں شیطانی وسوسے پیدا ہونے لگتے ہیں۔ کبھی ان وسوسوں کا زور اتنا بڑھ جاتا ہے کہ وہ شخص انہیں وسوسوں کی بجائے کھلے خیالات کے طور پر ذہن میں تسلیم کرنے لگتا ہے۔ انہی پر اس کی رائے قائم ہو جاتی ہے۔ بالآخر یہ وسوسے اعتقادات میں بھی شکوک پیدا کرنے لگتے ہیں اور وہ شخص اس راہ پر بڑھتا بڑھتا ذہنی اور طبعی طور پر ان میں اتنا محو ہو جاتا ہے کہ اس کی طبیعت اعتدال سے خالی ہو کر سراپا نفسِ امارہ بن جاتی ہے۔ روحانی اعتبار سے صوفیاء کرام نے نفسِ امارہ کا رنگ نیلا (blue) قرار دیا ہے۔
یہ دوسرا نفس ہے. انسان جب نفس امّارہ کے دائرے سے نکلتا ہے تو لوَّامہ کے مقام پر فائز ہوتا ہے۔ اس مقام پر دل میں نور پیدا ہوتا ہے جو باطنی طور پر ہدایت کا باعث بنتا ہے۔ جب نفس لوامہ کا حامل انسان کسی گناہ یا زیادتی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے تو اس کا نفس اسے فوری طور پر ملامت کرنے لگتا ہے، اسی وجہ سے اسے لوَّامہ (سخت ملامت کرنے والا) کہتے ہیں۔ یہ اچھا نفس ہے۔ یہ نہ صرف نیکی اور بدی میں امتیاز کرتا ہے بلکہ اپنے داخلی نور کے باعث بدی سے نفرت بھی پیدا کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس نفس کی قسم کھائی ہے:
لَآ اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰـمَةِo وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِo
القیامة، 75: 1-2
میں قسم کھاتا ہوں روزِ قیامت کی۔ اور میں قسم کھاتا ہوں (برائیوں پر) ملامت کرنے والے نفس کی۔
یہ نفس صالحین کو نصیب ہوتا ہے۔ علماء بھی اسی نفس سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ درج ذیل آیت کریمہ میں بھی اسی نفس کی طرف اشارہ ہے:
وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰیo فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰیo
النازعات، 79: 40-41
اور جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اُس نے (اپنے) نفس کو (بری) خواہشات و شہوات سے باز رکھا۔ تو بے شک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہوگا۔
اسی طرح قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے میں یہ فرمان الٰہی توجہ طلب ہے۔ جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا:
وَمَآ اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ ج اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌ م بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ.
یوسف، 12: 53
اور میں اپنے نفس کی برأت (کا دعویٰ) نہیں کرتا، بے شک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے سوائے اس کے جس پر میرا رب رحم فرما دے۔
نفس کا برائیوں سے بچ جانا دراصل اس کا ’اماریت‘ سے خلاصی پا جانا ہے۔
نفس لوامہ کی صفات میں حلال کی رغبت، لوگوں کے لئے نفع بخشی، دوسروں کا بوجھ اٹھانا، لغویات سے گریز کرنا اور پسندیدہ اخلاق شامل ہیں۔ ان کے ساتھ یہ بھی علم رہے کہ اس درجہ پر فائز ہونے کے باوجود نفس لوامہ میں بعض رذائل اور ناپسندیدہ صفات بھی موجود رہتی ہیں۔ اس لئے اس کا تزکیہ نہایت ضروری ہے۔ چنانچہ اس کی صفات میں مکرو فریب، ہوا و ہوس، خود بینی، خود پسندی، تکبر، اعتراض، قہر و جبر اور نفسانی خواہشات بھی شامل ہیں۔
نفسِ لوامہ رکھنے والا شخص کا دل تصوف کی اصطلاح میں ’قلب انسانی‘ کہلاتا ہے، اس نفس کی مثال ایک سرکش گھوڑے کی سی ہے۔ یہ بنیادی طور پر ناپاک تو نہیں ہے مگر سرکش ضرورہے۔ اسے لگام کے ذریعے قابو میں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی گھوڑے کو لگام دی ہو تو سوار کی مرضی جدھر چاہے لے جائے اور اگر لگام نہ ہو تو گھوڑے کی مرضی جدھر اٹھا کر سوار کو پھینک دے۔ ’قلب انسانی‘ کیسے وجود میں آتا ہے؟ اسے آسانی سے یوں سمجھ لیجئے کہ جس شخص میں ایسی ہم آہنگی پیدا ہو جائے کہ اس شخص کی طبیعت میں اعتدال آجائے تو اس کی کسی کے لئے محبت اور چاہت یا اس کی رضا مندی اور ناراضگی کی سب حالتیں حق اور صداقت پر مبنی ہو جاتی ہیں۔ نہ تو اس کا باطن مکمل طور پر نور میں بدل جاتا ہے اور نہ خالص ظلمات اور تاریکیاں برقرار رہتی ہیں بلکہ وہ دونوں کے درمیانی منزل پر قائم ہو جاتا ہے۔ وہ دوزخ سے ڈرتا ہے اور جنت کی تمنا بھی کرتا ہے۔ وہ اپنے اعمال کو اسی خوف و طلب کے مطابق ڈھالتا ہے تو ایسے شخص کا دل قلب انسانی اور نفس، نفسِ لوامہ کہلاتا ہے۔ اس نفس کا رنگ زرد (yellow) ہوتا ہے۔
یہی نفس جب تیسرے درجے پر فائز (upgrade) ہوتا ہے تو نفسِ ملهَمہ قرار پاتا ہے۔ گزشتہ باب میں ہم اس پر بحث کرچکے ہیں اسے مُلْهَمَہ بھی کہتے ہیں اور مُلْهِمَہ بھی۔ یہ ایسا نفس ہے جس پر الہام کیا جائے۔ نیک چیزوں کا الہام فرشتے کرتے ہیں اور بری چیز کا الہام شیطان کرتا ہے۔ چونکہ اس پر الہام کیا جاتا ہے تو یہ مُلْهَمْ ہوگیا (یعنی جس پر الہام کیا جائے)۔ اس مقام پر خیر کا الہام غالب ہوتا ہے۔ کبھی اس کے اندر اتنی طاقت آجاتی ہے کہ یہ الہام وصول کر کے اپنا الہام قلب پر کرتا ہے۔ نیکی کا خیال جو اس نے بطریقِ الہام ملائکہ سے وصول کیا تھا، قلب کو منتقل کرے تو پھر یہ مُلْهِمَہ (الہام کرنے والا) بھی ہوگیا۔ چنانچہ یہ مُلْهِمْ بھی ہے اور مُلْهَمْ بھی۔ یہاں دونوں شانیں یک جا ہیں۔
نفس بھی قلب پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور روح بھی قلب پر اپنا اثر ڈالنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ نفس انسانی وجود کے اندر عالمِ ناسوت یعنی مادی دنیا کی شہوتوں، برائیوں اور حرص و ہوس کا نمائندہ ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے اثرات دل پر پڑیں اور وہ میرے ساتھ ہو جائے۔ چنانچہ اگر دِل نفس کے زیر اثر آجائے تو دل ڈگمگاتا اور متزلزل ہوتا رہتا ہے۔ اس کی حالت ہر وقت بدلتی رہتی ہے۔ اسی لیے اسے قلب کہتے ہیں۔ قلب کا معنیٰ تبدیل ہونے اور بدلتے رہنے کے ہیں۔ اس کے برعکس روح عالمِ لاہوت، عالمِ جبروت اور عالمِ ملکوت کی نمائندہ ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ دل پر ملکوتی احوال کا رنگ چڑھے۔ چنانچہ جب قلب، روح کے زیر اثر آ جائے تو انسان ملکوتی اوصاف کا حامل ہو جاتا ہے۔ جتنا تزکیہ و تصفیہ، عبادات، زہد و ورع، ریاضات و مجاہدات اور مشقت ہوگی نفس اتنا ہی صاف ستھرا ہوتا چلا جائے گا۔
نفسِ ملہمہ کی نمایاں صفات میں سے قناعت، سخاوت، علم، تواضع و اِنکساری، توبہ، صبر، تحمل و برداشت اور خلوص ہیں۔ گویا اس مقام پر نفس کی صفات میں فضائلِ اخلاق اور خصائلِ حسنہ نمایاں ہو جاتے ہیں۔
جوں جوں نفس اپنے تزکیہ کے ذریعے پاک صاف ہوتا چلا جاتاہے اس میں رذائل کا معمولی سا ذرہ اور برائی کا خفیف سا نکتہ بھی زیادہ واضح ہو کر کھٹکتا ہے۔ اس لئے اہل حق کا رتبہ جتنا بڑھتا چلا جاتا ہے وہ اسی قدر صفائے باطن پر مزید توجہ کرتے ہیں۔
نفسِ مُلْهَمَہ کا رنگ سرخ (red) ہے۔ دیکھا جائے تو یہ وہی نفس ہے جو ابتدا میں نفسِ امارہ تھا مگر صفائی ہوتی چلی گئی تو اس کی صفات بھی تبدیل ہوتی چلی گئیں۔
چنانچہ نفسِ مُلْهِمَہ کے مقام پر نفس کے اندر قناعت، حلم، تواضع و انکساری، سخاوت، صبر و تحمل اور اخلاص؛ الغرض تمام صفاتِ محمودہ اور خصائلِ حمیدہ غالب آتے چلے جاتے ہیں۔ جب نفس اس مقام پر پہنچتا ہے تو اس کے اوپر ملائکہ الہام کرنے لگتے ہیں، حالانکہ جب یہ امّارہ تھا تو اُس پر شیاطین الہام کرتے تھے۔ لوّامہ کے مقام پر اس کی آنکھ کھل گئی اور اسے سمجھ آنے لگی، طبیعت برائی سے اکتاکر ملامت کرنے لگی۔ یہی نفس اب اتنا پاکیزہ ہوگیا کہ ملائکہ اسے الہام کرنے لگے اور اب نفس کا محل بدل گیا۔
اگلے مقام تک پہنچنے سے قبل اس کے اندر ملکوتی خوبیاں آچکی ہوتی ہیں۔ نفس ملہمہ اپنی شفافیت، نورانیت، اجلے پن اور نیک خصلتوں میں عالم ملکوت کی سی فضا کا حامل ہو جاتا ہے، جس سے ملائکہ مانوس ہوتے ہیں۔ وہ مومن کے نفسِ ملہمہ کے مقام کو اپنا وطن خیال کرنے لگتے ہیں۔
نفسِ ملہمہ سے آگے نفس مطمئنہ کا مقام ہے۔ اس کے بارے ارشاد فرمایا گیا ہے:
یٰٓـاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُo
الفجر، 89: 27
اے اطمینان پا جانے والے نفس۔
جب نفس اس مقام پر پہنچتا ہے تو وہ قلب کی جگہ لے لیتا ہے، یعنی اُس کا مرتبہ قلب کا ہو جاتا ہے۔ دل کا جو روحانی مقام تھا وہ نفسِ مطمئنہ کو مل جاتا ہے اور قلب ترقی کر کے مقامِ روح پر چلا جاتا ہے۔ یہ لطائف کی معراج ہوتی ہے۔
نفس مطمئنہ کے مقام پر ملکوتی اور جبروتی انوار کا اثر و رسوخ ہو جاتا ہے۔ اس مقام پر کسبی ریاضات و مجاہدات بھی داخل ہوتے ہیں اور وہبِ الٰہیہ بھی، لیکن یہاں ریاضت سے بڑھ کر وہب کا نزول زیادہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس مقام پر نفس کے اندر عفو و درگزر آ جاتا ہے اور نفس بخشش، عطا، سخاوت، توکل، شکرمندی، عبادت گزاری، تحمل، برداشت اور بردباری کا محل بن جاتا ہے۔ وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کے امر پر راضی رہتا ہے۔ نفسِ مطمئنہ کا رنگ سفید (white) ہے۔
پہلے نفس اپنے اندر ہی ارتقاء پذیر تھا۔ جب یہ قلب کے مقام پر فائز ہوتا ہے تو اسے نیکی و تقویٰ پر استقرار، استقامت اور اطمینان مل جاتا ہے۔ اس پر الہامات کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں، جن کی ابتدا نفسِ ملہمہ کی حالت میں اِلہاماتِ صالحہ کی شکل میں ہو چکی تھی۔
پہلے مراحل میں فجور کا الہام ہوتا تھا، مگر اب تقویٰ کا الہام ہوتا ہے۔ اب نفسِ مطمئنہ کے مقام پر اسے استقرار ملتا ہے تو عالم ملکوت میں الہامات کے دروازے کھل جاتے ہیں اور بہت سے علوم و معارف اسے بطریقِ الہام ملنے لگتے ہیں۔ یہ مقامِ ولایت ہے، یہاں پہنچ کر وہ ولی اللہ کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے۔
یہ اس بات کی وضاحت ہے کہ قلب پر کس طرح الہام ہوتا ہے۔ بعض علماء نے کہا کہ ’قلب پر الہام ہوتا ہے‘ یہ لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ جسے وہ قلب کہہ رہے ہیں، درحقیقت وہ نفس تھا۔ اب وہ نفس خود مقامِ قلب پر آچکا ہے۔ اب خواہ اسے یہ کہہ لیں کہ الہام نفس پر ہو رہا ہے، خواہ یہ کہہ دیں کہ الہام قلب پر ہوا، اب وہ ایک ہی چیز ہو جاتی ہے۔ وہ اب قلب کے تخت پر بیٹھا ہوا ہے اور اس کا نفس، نفسِ مطمئنہ ہوگیا ہے۔ جیسے قرآن مجید کہتا ہے:
اَ لَا بِذِکْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُo
الرعد، 13: 28
جان لو کہ اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
یہ اطمینان دراصل نفس مطمئنہ کا اطمینان ہے۔ ’نفس مطمئنہ‘ ولایت صغریٰ کا مقام ہے۔ اس کے تحقق سے ’فنا فی الرسول ﷺ ‘ کا مقام نصیب ہوتا ہے۔ اس کی حقیقت اس طرح ہے کہ جب کسی شخص میں عطاء الٰہی سے خلقی و وہبی طور پر یا ریاضات و مجاہدات سے کسبی طور پر ملکوتی قوت کا زور ہوتا ہے تو اس کے مقابلے میں بہیمی قوت بالکل زیر ہو جاتی ہے۔ قلب کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ذکر الٰہی سے اطمینان پاجاتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِکْرِ اللهِ ط اَ لَا بِذِکْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُo
الرعد، 13: 28
جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں، جان لو کہ اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
نفس جب ’قلب‘ کے مقام پر آتا ہے تو قلب پہلے ہی ذاکر یعنی یاد الٰہی میں شاغل ہوتا ہے کیونکہ وہ امارہ کے دائرہ سے نکل کر ’لوامہ‘ اور ’ملہمہ‘ کے مقامات سے بھی ترقی کر چکا ہے۔ سو جیسے جیسے قلب یادِ الٰہی سے سیراب ہوتا ہے اس کا تمام تر اطمینان ’نفس‘ کی مستقل حالت بنتا چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نفس بھی ’قلب‘ میں تبدیل ہو کر ’نفس مطمئنہ‘ ہو جاتا ہے اور جہاں تک قلب کا تعلق ہے تو اسے ’مقامِ روح‘ مل جاتا ہے۔
قلب کے روح بن جانے سے اسے تزکیہ نفس کے لئے غیر معمولی مجاہدات و ریاضات کی حاجت نہیں رہتی۔ وہ معمول کی طاعات و عبادات سے بھی اپنا تزکیہ و مقام بحال اور برقرار رکھ سکتا ہے، البتہ وہ اگلے درجات کے لئے ریاضات جاری رکھتا ہے۔
روح چونکہ ’امر الٰہی سے ہے‘ (الإسراء، 17: 85)، اس لئے قلب، روح بن کر ہمہ وقت امر الٰہی کے تابع اور اس سے فیض یاب ہوتا رہتا ہے۔ اب اسے ’قبض‘ کے بغیر ہی ’بسط‘ کی کیفیت میسر آجاتی ہے۔ وہ قلق و اضطراب کے بغیر ہی الفت و محبت کے چشموں سے سیراب ہوتا رہتا ہے اور بے ہوش ہوئے بغیر حالت ’وجد‘ سے بہرہ یاب ہوتا ہے، جب اس کا قلب ترقی کر کے ’مقامِ روح‘ پر آتا ہے تو اس کی ’روح‘ ترقی کر کے مقام ’سر‘ پر فائز ہو جاتی ہے۔
حاصلِ کلام یہ ہوا کہ نفس قلب بن جاتا ہے، قلب روح بن جاتی ہے اور روح سر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کے باعث اس پر عالم غیب کے علوم و معارف اور اسرار کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اسے مروج اور متداول طریقوں سے ہٹ کر علوم و معارف، اسرار و رموز اور حقائق و لطائف کا ادراک اور حصول ہونے لگتا ہے۔ یہ کتابوں کی مدد سے، نہ ظاہری فہم و فراست اور تعلق و تدبر کے طریقہ سے، نہ کشف کے طور پر اور نہ ہاتف غیبی کی آواز سے بلکہ اس کی روح اَز خود مقامِ سر سے اسرار و معارف کو اس کے دل میں منتقل کرتی رہتی ہے۔ یہ انوار و اسرار کا ایک غیر مرئی اور غیر محسوس دروازہ ہے جس کے کھل جانے سے وہ شخص ’علوم لدنیہ‘ کا حامل ہو جاتا ہے۔ اس کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں وہ بھی عین ’صراط مستقیم‘ کے مطابق ہوتے ہیں۔ اعمال خودبخود صالح ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کلمات مبارک ہوتے ہیں اور دعوات مستجاب ہوتی ہیں۔ یہی ولایتِ صغریٰ ہے۔ صرف یہاں خوارقِ عادات کی صورت میں کرامات کا ظہور نہیں ہوتا مگر وہ شخص صاحبِ کرامت ہوتا ہے۔
اس کی صفات میں عفو و درگزر، بخشش و عطاء، توکل، حلم و بردباری، عبادت گزاری، شکر اور رضا خاص طور پر نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔
یہ پانچواں نفس ہے۔ بعض مشائخ و صوفیاء نے نفسِ مطمئنہ کے بعد بقیہ نفوس کا الگ سے ذکر نہیں کیا۔ ان کے نزدیک راضیہ، مرضیہ اور صافیہ و کاملہ سب نفسِ مطمئنہ کی ہی اعلی حالتیں اور صفات ہیں۔ چونکہ ان کے خواص اور احوال سابقہ نفوس کی طرح بدلتے چلے جاتے ہیں، اس لئے انہیں بھی الگ اقسامِ نفس کے طورپر شمار کیا گیا ہے۔ یوں تو بعض صوفیاء نے نفس کی مختلف اقسام کی بجائے مطلقا ’نفس‘ کو ایک ہی مانا ہے۔ انہوں نے اس کی حقیقت و ماہیت پر گفتگو کی ہے اور اسی کی صفات و احوال پر کلام کیا ہے حتی کہ انہوں نے نفس امارہ، نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ کو بھی اسی ایک ہی نفس کی مختلف بری اور اچھی حالتوں یا خصلتوں سے تعبیر کیا ہے۔ انہیں الگ اقسام نہیں سمجھا۔ ہمارے خیال میں بات دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے، صرف فہم و اظہار کے طریقے الگ الگ ہیں۔ اگر انہیں نفس کی مختلف حالتیں تصور کر لیا جائے تب بھی اس کے خواص و احوال اور اثرات و کیفیات توبدل گئیں۔ وہ اب پہلے کی مانند نہ رہیں، ان کے احکام بھی بدل گئے اور ان کے حاملین کے درجات و مراتب بھی تبدیل ہوگئے۔ اس لئے جن صوفیاء نے انہیں الگ اقسام قرار دیا ہے ان کے بیان سے بات میں زیادہ نظم اور سمجھنے میں زیادہ سہولت پیدا ہوگئی ہے۔ ورنہ یہ مسئلہ بحث و اختلاف کا موضوع نہیں بننا چاہیے۔ کوئی ان ’سات ناموں‘ کو اقسامِ نفس سمجھے، مراتب و مقاماتِ نفس سمجھے یا صفات و احوالِ نفس؛ حقیقت تو ایک ہی ہے۔
اب ہم دوبارہ اصل مقصود کی طرف آتے ہیں اور وہ ہے ’نفس راضیہ‘۔ یہ وہ نفس ہے جس میں باری تعالی کے جملہ فیصلوں پر اور اس کی مشیت کے تمام احکام پر راضی برضا اور خوش ہونے کا ملکہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ظاہری طور پر معاملات موافق ہوں یا مخالف، خواہ نقصان ہو یا نفع، سکھ نمایاں ہو رہا ہو یاتکلیف کا پہلو واضح ہو مگر یہ نفس اسے امرِ الٰہی سمجھ کر نہ صرف قبول کر لیتا ہے بلکہ اپنے اندر مسرت و فرحت کی کیفیت کو بدستور قائم رکھتا ہے۔ پس اس کے ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے راضی رہنے کے باعث اسے ’نفس مرضیہ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کا ذکر نفس مطمئنہ کے ساتھ ان الفاظ میں کیا گیا ہے: ۔
ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةًo
الفجر، 89: 28
تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)۔
حضرت زکریا علیہ السلام نے جب بارگاہ الٰہی میں بیٹے کے لئے دعا کی تو ساتھ ہی عرض کیا:
یَّرِثُنِیْ وَیَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّاo
مریم، 19: 6
جو (آسمانی نعمت میں) میرا (بھی) وارث بنے اور یعقوب ( علیہ السلام ) کی اولاد (کے سلسلهِٔ نبوت) کا (بھی) وارث ہو اور اے میرے رب! تو (بھی) اسے اپنی رضا کا حامل بنا لے۔
اس کی نمایاں صفات ذکر و فکر، زہد و ورع، ریاضت و مجاہدہ، تقوی و پرہیزگاری، عشق الٰہی، ترکِ ماسوی اللہ، وفا اور کرامات ہیں۔
یہ چھٹا نفس ہے اور یہی نفس کا سب سے کامل درجہ ہے۔ جب نفس انسانی ہر حال میں اللہ سے راضی رہنے لگتا ہے اور اس کے مقام رضا میں لغزش یا تزلزل نہیں آتا تو مقام کی یہی استقامت اسے ’مرضیہ‘ کے درجہ پر فائز کر دیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے اب اللہ اس سے اس قدر راضی ہے کہ وہ جو کہے گا وہی کر دیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ بندہ کے نفس کو اللہ سے راضی ہونے کی توفیق بھی اس وقت نصیب ہوتی ہے جب وہ اللہ سے راضی ہو جاتا ہے۔ گویا نفس کا اللہ سے راضی ہونا ’مقام راضیہ‘ ہے اور اللہ کا اس نفس انسان سے راضی ہونا ’مقام مرضیہ‘ ہے اور یہ دونوں باہم لازم و ملزوم ہیں۔ ’مرضیہ‘ کا بیان بیعت رضوان میں شامل صحابہ کرام l کی شان میں آیا ہے۔ قرآن مجید فرماتا ہے:
لَقَدْ رَضِیَ اللهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ.
الفتح، 48: 18
بے شک اللہ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے آپ سے بیعت کررہے تھے۔
اسی طرح رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ میں مقام مرضیہ اور مقام راضیہ دونوں کا ذکر اکٹھا ہے۔ اس آیت کریمہ میں جہاں نفسِ مطمئنہ کو خطاب فرمایا گیا ہے اس ترتیب سے دونوں مقامات کا ذکر ہے کہ مرضیہ، راضیہ کے بعد آیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
یٰٓـاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُo ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةًo
الفجر، 89: 27-28
اے اطمینان پا جانے والے نفس۔ تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)۔
سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے مقام مرضیہ کا بیان قرآن مجید میں یوں آیا ہے:
وَکَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَالزَّکٰوةِ وَکَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّاo
مریم، 19: 55
اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے حضور مقامِ مرضیّہ پر (فائز) تھے (یعنی ان کا رب ان سے راضی تھا)۔
اس کی صفات میں سے نرمی، لطف و کرم، جملہ اخلاق حسنہ، قربِ الٰہی اور متابعت محمدی ﷺ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ پچھلے پاکیزہ خواص و صفات جو پہلے مبارک نفوس کے ذریعے حاصل ہوئے تھے اگلے مقام میں نہ صرف برقرار رہیں گے بلکہ ان میں دوام اور ترقی پیدا ہو جائے گی۔
یہ ساتواں نفس ہے اور یہی کاملیت کا آخری مقام ہے۔ درج ذیل آیات کریمہ میں اسی مقامِ نفس کی طرف اشارہ ہے:
یٰٓـاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُo ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةًo فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰـدِیْo وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْo
الفجر، 89: 27-30
اے اطمینان پا جانے والے نفس۔ تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)۔ پس تو میرے (کامل) بندوں میں شامل ہو جا۔ اور میری جنتِ (قربت و دیدار) میں داخل ہو جا۔
عِبٰـدِیْ (میرے [کامل] بندوں) میں داخل ہونے کا حکم نفس کو شانِ کاملیت سے سرفراز کر رہا ہے اور جَنَّتِیْ (میری جنت) میں بسیرا کرنے کا حکم اسے اعلیٰ مقام سے بہرہ یاب کر رہا ہے۔
ان آیات میں جنت کا ذکر ہوا تو جملہ معترضہ کے طور پر عرض کرتے چلیں کہ سیدنا غوث الاعظم عبد القادر جیلانی نے فرمایا ہے کہ جنت کی درج ذیل اقسام اور درجات ہیں:
یہ عالم ملک کی جنت ہے۔ جب نفس حضور الٰہی کی طرف رجوع کرتا ہے توطریق شریعت کا سفر طے کرنے کے بعد یہ جنت نصیب ہوتی ہے اس کا مقام ’سدرہ المنتہیٰ‘ کے پاس ہے ارشاد ہے:
وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰیo عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰیo عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰیo
النجم، 53: 13-15
اور بے شک انہوں نے تو اُس (جلوهِٔ حق) کو دوسری مرتبہ (پھر) دیکھا (اور تم ایک بار دیکھنے پر ہی جھگڑ رہے ہو)۔ سِدرۃ المنتھیٰ کے قریبo اسی کے پاس جنت المأْویٰ ہے۔
یہ عالم ملکوت کی جنت ہے جو نفس کو سفر طریقت مکمل کرنے کے بعد نصیب ہوتی ہے۔ یہ مقامِ اَبرار ہے جس کے لئے ارشاد فرمایا گیاہے:
إِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍo عَلَی الْاَرَآئِکِ یَنْظُرُوْنَo تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِیْمِo یُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِیْقٍ مَّخْتُوْمٍo خِتٰمُهٗ مِسْکٌ ط وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَo
المطففین، 83: 22-26
بے شک نیکوکار (راحت و مسرت سے) نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔ تختوں پر بیٹھے نظارے کر رہے ہوں گے۔ آپ ان کے چہروں سے ہی نعمت و راحت کی رونق اور شگفتگی معلوم کر لیں گے۔ انہیں سر بہ مہر بڑی لذیذ شرابِ طہور پلائی جائے گی۔ اس کی مُہر کستوری کی ہو گی، اور (یہی وہ شراب ہے) جس کے حصول میں شائقین کو جلد کوشش کر کے سبقت لینی چاہیے (کوئی شرابِ نعمت کا طالب و شائق ہے، کوئی شرابِ قربت کا اور کوئی شرابِ دیدار کا، ہر کسی کو اس کے شوق کے مطابق پلائی جائے گی)۔
اسی طرح ارشاد ربانی ہے:
اِنَّ الْاَبْرَارَ یَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ کَانَ مِزَاجُھَا کَافُوْرًاo عَیْنًا یَّشْرَبُ بِھَا عِبَادُ اللهِ یُفَجِّرُوْنَھَا تَفْجِیْرًاo یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَیَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسْتَطِیْرًاo وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّهٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًاo اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّلَا شُکُوْرًاo اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًاo فَوَقٰـھُمُ اللهُ شَرَّ ذٰلِکَ الْیَوْمِ وَلَقّٰھُمْ نَضْرَۃً وَّسُرُوْرًاo وَ جَزٰھُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّةً وَّحَرِیْرًاo مُّتَّکِئِیْنَ فِیْھَا عَلَی الْاَرَآئِکِ ج لَا یَرَوْنَ فِیْھَا شَمْسًا وَّلَا زَمْھَرِیْرًاo وَ دَانِیَةً عَلَیْھِمْ ظِلٰـلُھَا وَذُلِّلَتْ قُطُوْفُھَا تَذْلِیْلًاo وَ یُطَافُ عَلَیْھِمْ بِاٰنِیَةٍ مِّنْ فِضَّةٍ وَّاَکْوَابٍ کَانَتْ قَوَارِیْرَاْo قَوَارِیْرَاْ مِنْ فِضَّةٍ قَدَّرُوْھَا تَقْدِیْرًاo وَ یُسْقَوْنَ فِیْهَا کَاْسًا کَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِیْلًاo عَیْنًا فِیْهَا تُسَمّٰی سَلْسَبِیْلًاo وَ یَطُوْفُ عَلَیْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ ج اِذَا رَاَیْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًاo وَاِذَا رَاَیْتَ ثَمَّ رَاَیْتَ نَعِیْمًا وَّمُلْکًا کَبِیْرًاo عٰلِیَهُمْ ثِیَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَّاِسْتَبْرَقٌ وَّحُلُّوْٓا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّۃٍ ج وَسَقٰھُمْ رَبُّھُمْ شَرَابًا طَھُوْرًاo اِنَّ ھٰذَا کَانَ لَکُمْ جَزَآءً وَّکَانَ سَعْیُکُمْ مَّشْکُوْرًاo
الدهر، 76: 5-22
بے شک مخلص اِطاعت گزار (شرابِ طہور کے) ایسے جام پئیں گے جس میں (خوشبو، رنگت اور لذت بڑھانے کے لیے) کافور کی آمیزش ہوگی۔ (کافور جنت کا) ایک چشمہ ہے جس سے (خاص) بندگانِ خدا (یعنی اَولیاء اللہ) پیا کریں گے (اور) جہاں چاہیں گے (دوسروں کو پلانے کے لیے) اسے چھوٹی چھوٹی نہروں کی شکل میں بہا کر (بھی) لے جائیں گے۔ (یہ بندگانِ خاص وہ ہیں) جو (اپنی) نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی خوب پھیل جانے والی ہے۔ اور (اپنا) کھانا اللہ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوُجود اِیثاراً) محتاج کو اوریتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں۔ (اور کہتے ہیں کہ) ہم تو محض اللہ کی رضا کے لیے تمہیں کھلا رہے ہیں، نہ تم سے کسی بدلہ کے خواستگار ہیں اور نہ شکرگزاری کے (خواہشمند) ہیں۔ ہمیں تو اپنے ربّ سے اُس دن کا خوف رہتا ہے جو (چہروں کو) نہایت سیاہ (اور) بدنما کر دینے والا ہے۔ پس اللہ انہیں (خوفِ اِلٰہی کے سبب سے) اس دن کی سختی سے بچا لے گا اور انہیں (چہروںپر) رونق و تازگی اور (دلوں میں) سرور و مسرّت بخشے گا۔ اور اِس بات کے عوض کہ انہوں نے صبر کیا ہے (رہنے کو) جنت اور (پہننے کو) ریشمی پوشاک عطا کرے گا۔ یہ لوگ اس میں تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے، نہ وہاں دھوپ کی تپش پائیں گے اور نہ سردی کی شدّت۔ اور (جنت کے درختوں کے) سائے ان پر جھک رہے ہوں گے اور ان کے (میووں کے) گچھے جھک کر لٹک رہے ہوں گے۔ اور (خُدام) ان کے گرد چاندی کے برتن اور (صاف ستھرے) شیشے کے گلاس لیے پھرتے ہوں گے۔ (اور) شیشے بھی چاندی کے (بنے) ہوں گے جنہیں انہوں نے(ہر ایک کی طلب کے مطابق) ٹھیک ٹھیک اندازہ سے بھرا ہوگا۔ اور انہیں وہاں (شرابِ طہور کے) ایسے جام پلائے جائیں گے جن میں زنجبیل کی آمیزش ہوگی۔ (زنجبیل) اس (جنت) میں ایک ایسا چشمہ ہے جس کا نام ’سلسبیل‘ رکھا گیا ہے۔ اور ان کے اِرد گرد ایسے (معصوم) بچے گھومتے رہیں گے، جو ہمیشہ اسی حال میں رہیں گے، جب آپ انہیں دیکھیں گے تو انہیں بکھرے ہوئے موتی گمان کریں گے۔ اور جب آپ (بہشت پر) نظر ڈالیں گے تو وہاں (کثرت سے) نعمتیں اور (ہر طرف) بڑی سلطنت دیکھیں گے۔ ان (کے جسموں) پر باریک ریشم کے سبز اور دبیز اطلس کے کپڑے ہوں گے، اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کا ربّ انہیں پاکیزہ شراب پلائے گا۔ بے شک یہ تمہارا صلہ ہوگا اور تمہاری محنت مقبول ہوچکی۔
یہ عالم جبروت کی جنت ہے جو نفس کو سفر معرفت مکمل کرنے کے بعد نصیب ہوتی ہے۔ ارشاد فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًاo خٰلِدِیْنَ فِیْهَا لَا یَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًاo
الکهف: 18: 107-108
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ان کے لیے فردوس کے باغات کی مہمانی ہوگی۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے وہاں سے (اپنا ٹھکانا) کبھی بدلنا نہ چاہیں گے۔
اہل فردوس کی صفات حسنہ کا ذکر قرآن مجید میں ان الفاظ میں آیا ہے:
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَo الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰـشِعُوْنَo وَالَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَo وَالَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوْنَo وَالَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰـفِظُوْنَo اِلَّا عَلٰٓی اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَo فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الْعٰـدُوْنَo وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْنَo وَالَّذِیْنَ هُمْ عَلٰی صَلَوٰتِهِمْ یُحٰفِظُوْنَo اُولٰٓـئِکَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَo الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَط هُمْ فِیْهَا خٰـلِدُوْنَo
المؤمنون، 23: 1-11
بے شک ایمان والے مراد پا گئے۔ جو لوگ اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں۔ اور جو بیہودہ باتوں سے (ہر وقت) کنارہ کش رہتے ہیں۔ اور جو (ہمیشہ) زکوٰۃ ادا (کر کے اپنی جان و مال کو پاک) کرتے رہتے ہیں۔ اور جو (دائماً) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بے شک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں۔ پھر جو شخص ان (حلال عورتوں) کے سوا کسی اور کا خواہش مند ہوا تو ایسے لوگ ہی حد سے تجاوز کرنے والے (سرکش) ہیں۔ اور جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہیں۔ اور جو اپنی نمازوں کی (مداومت کے ساتھ) حفاظت کرنے والے ہیں۔ یہی لوگ (جنت کے) وارث ہیں۔ یہ لوگ جنت کے سب سے اعلیٰ باغات (جہاں تمام نعمتوں، راحتوں اور قربِ الٰہی کی لذتوں کی کثرت ہو گی ان) کی وراثت (بھی) پائیں گے، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔
یہ سب جنتوں سے بلند عالمِ لاہوت کی منزل ہے جو نفس کو سفر حقیقت مکمل کرنے سے نصیب ہوتی ہے۔ یہ صرف مقربین یعنی اَہلِ قربت کو عطا ہوتی ہے۔ عابدین و زاہدین دنیا سے جنت کی طرف سفر کرتے ہیں اور عارفین و عاشقین جنت سے قربت کی طرف سفر کرتے ہیں۔
اس منزل کا اشارہ ان آیاتِ قرآنی میں ہے:
وَ مِزَاجُهٗ مِنْ تَسْنِیْمٍo عَیْنًا یَّشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُوْنَo
المطففین، 83: 27-28
اور اس (شراب) میں آبِ تسنیم کی آمیزش ہو گی۔ (یہ تسنیم) ایک چشمہ ہے جہاں سے صرف اہلِ قربت پیتے ہیں۔
یہ تو پینے والے ہی بہتر جانتے ہیں کہ یہ ’چشمہ قربت‘ ہے یا ’چشم محبت‘ اور اس کا پینا جام سے ہوتا ہے یا نظروں سے کیونکہ یہ ’لَکُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْ اَنْفُسُکُمْ‘ کا مقام ہے۔ اور یہاں تک پہنچنے والے تو نعماتِ جنت میں سے کسی چیز کے بھی طالب نہیں ہوتے، صرف دیدارِ یار کے اور بار بار اسی جلوۂ زیبا کے مشتاق ہوتے ہیں۔ سو انہیں ہر بار ان کی طلب عطا کی جاتی رہے گی۔
ارشاد ربانی کے مطابق عالم آخرت میں لوگوں کو تین طبقات میں تقسیم کیا جائے گا:
اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَة.
الواقعة، 56: 8
اَصْحٰبُ الْیَمِیْن.
الواقعة، 56: 27
یہ جنتی لوگ ہوں گے جو اپنے حسب حال و اعمال جنت کے مختلف درجات میں جائیں گے۔ کوئی جنت الماویٰ میں، کوئی جنت النعیم میں اور کوئی جنت الفردوس میں۔
اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَة.
الواقعة، 56: 9
اَصْحٰبُ الشِّمَال.
الواقعة، 56: 41
یہ اپنے اپنے حسب حال و اعمال دوزخ کے مختلف درجات میں جائیں گے۔
السّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ.
الواقعة، 56: 10
اور
الْمُقَرَّبُوْنَ.
الواقعة، 56: 11
یہ اہل قربت ہوں گے جو جنت کے مذکورہ بالا درجات بھی پائیں گے مگر ان سب درجات سے بلند و بالا خاص مقام قربت سے نوازے جائیں گے۔ یہ ان کا ’مقامِ راحت‘ ہوگا۔ گویا جنت النعیم اور جنت الفردوس ان کی قیام گاہ ہوگی اور ’مقام قربت‘ ان کی آرام گاہ۔ جنت ان کا محل ہوگا اور قربت ان کی سیرگاہ ہوگی۔ باغِ جنت میں رہا کریں گے اور باغِ قربت میں پھرا کریں گے۔ کھانا جنت سے کھائیں گے اور مے خانهِ قربت سے بھر بھر کے جام پئیں گے۔ کیونکہ عام جنت میں حسنِ محبوب حجاب میں ہوگا اور خاص قربت میں بے حجاب۔ اِس لیے اہل قربت کے لئے تین نعمتوں کا ذکر ہے:
فَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَo فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌ وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍo
الواقعة، 56: 88-89
پھر اگر وہ (وفات پانے والا) مقرّبین میں سے تھا۔ تو (اس کے لیے) سرور و فرحت اور روحانی رزق و استراحت اور نعمتوں بھری جنت ہے۔
اَہلِ قربت کو رَوح، رَیحان اور جنتِ نعیم تین نعمتیں بیک وقت عطا ہوں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ باری تعالیٰ نے وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ کے الفاظ میں اسی آخری مقام یعنی ’منزلِ قربت و راحت‘ کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
نفسِ کاملہ کا ذکر کرتے ہوئے جنت کی اقسام بیان کرچکنے کے بعد اب اس نفس کی صفات کا ذکر کریں گے کہ اس نفس کی صفات میں گوشہ نشینی، خلوت و عزلت، عبادت، مفارقت عن الغیر، خاموشی (صمت و سکوت)، سچائی، مددگاری، ایفائے عہد، طاعت و فرمانبرداری، حق اور نسبتِ عہدیت اور نسبتِ محمدیت دونوں میں کمال درجہ پایا جانا ہے۔
نفس کی صفات کی تبدیلی کی مثال شیشے سے بھی لی جا سکتی ہے۔ مٹی اس کا بنیادی عنصر ہوتا ہے۔ مٹی سے کثافت نکال کر اس کا تزکیہ اور صفائی کی جاتی ہے۔ اُس مٹی کو اجلا کر کے چمکایا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ شیشے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اب کہاں وہ مٹی کہ اگر آنکھوں کے سامنے آجائے تو نظر آنا بند ہو جائے اور کہاں شیشے (glasses) کی یہ شکل کہ اس کے ذریعے سے پہلے جو کم نظر آتا تھا وہ بھی بہتر اور واضح طور پر نظر آنے لگ گیا۔ دراصل اس کی اصل حالت میں کثافت غالب تھی جس کی وجہ سے جو نظر آتا تھا وہ بھی بند ہوگیا تھا۔ اب آلائش سے پاک ایک خالص شکل میں جب شیشہ بن گیا تو اب اس پر لطافت غالب آگئی۔
اس کی دوسری مثال چینی کے برتنوں کی ہے۔ یہ برتن بھی بنیادی طور پر مٹی ہی کے بنے ہوتے ہیں، لیکن جب یہ فرانس کے ڈنر سیٹ یا ٹی سیٹ ہوتے ہیں تو ان پر نظر بھی نہیں ٹھہرتی۔ حالانکہ بنیادی طور پر یہ وہی مٹی ہے جو اگر کھانے پر پڑ جائے تو مرغوب کھانا بھی ناپسندیدہ ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ یہ سارا معاملہ تزکیہ و تصفیہ کا ہے۔
یہی معاملہ سونا، تیل اور دیگر معدنیات کا ہے کہ مٹی میں سے نکلنے کے بعد تطہیری عمل کے بعد یہ معدنیات خالص ہوتی ہیں۔ جن ممالک میں معدنی تیل پایا جاتا ہے، وہاں آئل ریفائنریز لگی ہوتی ہیں۔ قابلِ غور بات ہے کہ یہ refinery کیا ہے؟ یہی تو تزکیہ اور مجاہدہ ہے۔ ہم صاف ستھرا لباس پہنتے ہیں، اس پر گرد وغیرہ پڑتے پڑتے وہ میلا ہو جائے گا اور اُسے پہننے کو جی نہیں چاہے گا۔ پھر اسے دھوتے یا dry clean کراتے ہیں۔ یہ dry cleaning بھی تزکیہ اور تصفیہ کا عمل ہے۔
یہ تمام مثالیں یہ ثابت کرنے کے لیے دی ہیں کہ سارا معاملہ تزکیہ اور تصفیہ کا ہے۔ نفسِ امّارہ سے لے کر نفسِ مطمئنہ، راضیہ، مرضیہ اور کاملہ تک جانا سارا یہی عمل ہے۔ جب مٹی اٹھائی تو کیچڑ بنایا، پھر وہاں سے شروع کیا تو clay بنی اور وہ clay بناتے بناتے برتن بنے اور پھر وہ کھانے کے میز پر جا کر ڈنر سیٹ بن کر چمکا۔ جب اصل مٹی تھی تو وہ حقیر اور بے وقعت تھی، اب اُسی مٹی پر ہزار ہا روپے خرچ کر کے گھر لایا جا رہا ہے۔ اُس مٹی کی حالت میں ایک ذرہ بھی اپنے کھانے میں ڈالنے کو تیار نہیں تھے، مگر اب اِسی مٹی کی بنی ہوئی پلیٹ میں سالن ڈال کر فخریہ انداز سے کھا رہے ہیں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اُس کی اصلیت تو وہی ہے مگر یہ تزکیہ اور تصفیہ کا عمل ہے، جس کے باعث وہ چیز اس مقام پر جا پہنچی کہ اس کی ماہیت ہی تبدیل ہوگئی۔ یہی فرق عام انسانوں، اللہ کے نبیوں اور ولیوں کا ہوتا ہے۔ پتھروں میں بھی یہی چیز دکھائی دیتی ہے۔ عام پتھر سڑکوں پر پڑے ہوئے ہیں۔ لوگ انہیں سر راہ چلتے ہوئے ٹھوکر لگا کر گزر جاتے ہیں۔ لیکن کچھ پتھر ایسے بھی ہیں جو عقیق، مرجان، یاقوت اور زمرد کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انہیں مہنگے داموں خرید کر انگوٹھیوں میں نگینے کے طور پر جڑوایا جاتا ہے۔ اگر اس سے مزید آگے بڑھیں تو ہیرا بھی پتھر ہی ہے، جو انتہائی بیش قیمت ہے۔ انہی مثالوں سے اطلاق کریں تو پتھر نفسِ امّارہ ہے اور ہیرا نفسِ مطمئنہ، نفس راضیہ، مرضیہ اور کاملہ کی مثال ہے۔
نسبت بدلنے سے تقدس میں بھی فرق آتا ہے۔ سڑکوں پر لگے ہوئے بھی پتھر ہیں اور جس سے حرمِ کعبہ اور حرمِ نبوی تعمیر ہوا ہے وہ بھی پتھر ہی ہیں؛ مگر نسبت کے ساتھ ان کا درجہ بھی تبدیل ہوگیا۔ اصل بات یہ ہے کہ تصفیہ اور تزکیہ سے چیزوں کی حالت، ماہیت اور کیفیت بدل جاتی ہے۔ بندے کو گمان بھی نہیں ہوتا کہ یہ کس چیز سے بنی ہوئی ہے۔ نفسِ امّارہ سے لے کر نفسِ مطمئنہ تک اور مطمئنہ سے آگے راضیہ، مرضیہ اور کاملہ تک اتنی تبدیلی اور انقلاب بپا ہو چکا ہوتا ہے کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ وہی نفس ہے جو کل تک نفسِ امّارہ تھا۔ قدرت کے نظام کی ہر شے میں یہی قانون رائج ہے۔
نفس کی صفات کے ساتھ ساتھ بندے کے احوال بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ احوال کے بدلنے کی بڑی دل چسپ مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح چار موسم بنائے ہیں اور ہر موسم کی اپنی تاثیر رکھی ہے، اسی طرح ہر نفس کی بھی اپنی تاثیر ہے۔
نفسِ امّارہ: اس کی مثال مئی سے شروع ہو کر ستمبر تک کے گرمی کے موسم کی ہے۔ نفسِ امّارہ شدید گرمیوں کا موسم ہے۔ شدت کے لحاظ سے ایسے لگتا ہے کہ جیسے یہ آگ سے بنا ہوا ہے۔
نفسِ لوّامہ: جب گرمیاں ختم ہوتی ہیں تو اکتوبر اور نومبر کے درمیان پت جھڑ کا موسم آتا ہے ، جسے ہم خزاں کہتے ہیں۔ نفسِ لوّامہ خزاں کا موسم ہے۔
نفسِ ملہمہ: خزاں کے بعد سردیوں کا موسم آتا ہے جس میں ٹھنڈک بڑھتی ہے۔ نفسِ ملهِمہ ٹھنڈک اور سردیوں کا موسم ہے۔
نفسِ مطمئنہ: سردیاں ختم ہوتی ہیں تو مارچ، اپریل میں بہار کا موسم آجاتا ہے۔ نفسِ مطمئنہ بہار کا موسم ہے۔ اس موسم میں نئے پتے نکلتے ہیں، پھول کھلتے ہیں اور ہر طرف ہریالی ہی ہریالی دکھائی دیتی ہے۔
اب جیسے ہر موسم کی اپنی اپنی تاثیرات اور کیفیات ہیں، عین اسی طرح نفسِ امّارہ انسان کے من میں گرمیوں کا موسم ہے۔ نفسِ لوّامہ انسان کے اندر پت جھڑ کا زمانہ ہے۔ نفسِ ملهِمہ انسان کے من کی زندگی میں سردیوں کا اور نفسِ مطمئنہ انسان کے اندر میں بہار کا موسم ہے۔
جب نفسِ مطمئنہ قلب کا مقام سنبھالتا ہے تو پھر اس میں مختلف روحانی دروازے کھل جاتے ہیں، جنہیں تصوف کی اصطلاح میں لطائف کہتے ہیں۔ ان لطائف کی درج ذیل اقسام ہیں:
1۔ لطیفۂ نفسیّہ (لطیفۂ نفس)
2۔ لطیفۂ قلبیّہ (لطیفۂ قلب)
3۔ لطیفۂ روحیّہ (لطیفہء روح)
4۔ لطیفۂ سرّیّہ (لطیفۂ سِر)
5۔ لطیفۂ خفیّہ (لطیفۂ خفی)
6۔ لطیفۂ اخفیّہ (لطیفۂ اَخفی)
7۔ لطیفۂ عقلیّہ (لطیفۂ عقلی)
کئی عرفاء لطیفۂ عقلیہ کو شمار کرتے ہوئے لطائفِ سبعہ کہتے ہیں۔ کئی لطائفِ خمسہ کہتے ہیں اور لطیفۂ عقل اور لطیفۂ نفس کو شامل نہیں کرتے۔ اگر لطیفۂ نفس کو شامل کر لیں تو لطائفِ ستہ کہتے ہیں۔ ہر جوہر کی اپنی حقیقت اور دائرہ کار ہے، تقسیم جیسے مرضی کر لیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
آئیے! ان لطائف پر اختصار سے روشنی ڈالتے ہیں:
جب تک نفسِ امّارہ ہوتا ہے اور لطیفہ نہیں بنا ہوتا، اس کے اندر عالمِ ناسوت (مادّی دنیا) کا مزاج ہوتا ہے۔ جب وہ تزکیہ، تصفیہ، تجلیہ کے ذریعے صفائی اور اُجلے پن کا حامل ہو اور غلاظت و کثافت سے پاک ہو کر ترقی کر کے لطیفۂ نفسیہ بن جائے تو اسے عالمِ ملکوت (آسمانی دنیا جہاں فرشتے رہتے ہیں) کا فیض ملنے لگ جاتا ہے۔
اس مرحلے پر وہ ترقی کر کے کثافتوں اور غلاظتوں سے مزکی (purify) ہو کر عالمِ ملکوت سے مل جاتا ہے۔ اسے وہاں سے فیض ملتا ہے اور اس مقام پر عالم عرش کی نیکیاں، خصائل اور انوار لطیفۂ قلب کو مزید مزین کرتے ہیں۔ روایات میں آیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان اقدس ہے:
قَلْبُ الْمُوْمِنِ عَرْشُ اللهِ.
قلبِ مومن عرشِ الٰہی کی مانند ہو جاتا ہے (یعنی اس پر انوارِ الٰہیہ کا نزول ہوتا ہے)۔
نفس نے جب قلب کی جگہ لے لی تو نفس، قلب میں بدل گیا اور قلب، روح میں تبدیل ہوگیا۔ اب اسے عالمِ جبروت کا فیض ملتا ہے۔ اسے مثالی دنیا میں عالمِ عرش کا فیض کہتے ہیں کیونکہ عرش کا فیض اس سے جڑ جاتا ہے۔
جب لطیفۂ قلب ترقی کر کے لطیفۂ روح کے مقام پر پہنچتا ہے تو بندے پر کرسی کے فیض والا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس کا ذکر آیت الکرسی میں یوں کیا گیا ہے:
وَسِعَ کُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ.
البقرة، 2: 255
اس کی کرسیِ (سلطنت و قدرت) تمام آسمانوں اور زمین پر محیط ہے۔
صوفیاء کے ہاں عالمِ مثال یعنی مثالی زبان میں اسے استعارتاً کرسی کا فیض کہتے ہیں اور یہ عالمِ لاہوت ہے۔
بندے پر جب لطیفہء سِر کھلتا ہے تو وہ لوح کے فیض کے ساتھ متعلق ہو جاتا ہے یعنی بندے کو لوح کے فیض کو حاصل کرنے کے قابل بنا دیتا ہے۔ لوح مرتبۂ علم ہے۔
لطیفۂ سر پر مزید ترقی کرتے ہوئے جب لطیفۂ خفی کھلتا ہے تو قلم کا فیض ملتا ہے۔ قلم علمِ الٰہی کا مرتبہ ہے۔ یہاں اُس میں قلم کا فیض لینے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔
لطیفۂ اخفیہ کو دوسری زبان میں لطیفہ اَخفیٰ کہتے ہیں جو صوفیا کے ہاں تصوف کی جدید اصطلاح ہے۔ جب یہ لطیفہ کھل جاتا ہے تو وہ جملہ تجلیات الٰہیہ کا فیض لینے کے قابل ہو جاتا ہے اور اس کی طبیعت میں مکمل اعتدال آ جاتا ہے۔ کوئی بھی دوسری چیز اس پر غالب نہیں رہتی۔ لطیفۂ اَخفیٰ کے حامل پر اس کے احوال اور اعمال کے مطابق مراتب کھلتے چلے جاتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید نے بیان کیا ہے:
اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَالْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِ ج وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِ.
النور، 24: 26
ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لیے (مخصوص) ہیں اور پلید مرد پلید عورتوں کے لیے ہیں، اور (اسی طرح) پاک و طیب عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے (مخصوص) ہیں اور پاک و طیب مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ہیں (سو تم رسول اللہ ﷺ کی پاکیزگی و طہارت کو دیکھ کر خود سوچ لیتے کہ اللہ نے ان کے لیے زوجہ بھی کس قدر پاکیزہ و طیب بنائی ہوگی)۔
یعنی پاک لوگوں کے لیے پاک خصائل و انعامات آجاتے ہیں۔ اس لطیفہ کے حامل جتنے طیب اور پاکیزہ ہوتے چلے جاتے ہیں اتنی ہی ان کی صفات و کیفیات پاک سے پاک تر ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اُس مقام میں بندہ جو بھی عمل کرتا ہے اُس کا اثر اسے مزید آگے پہنچاتا ہے۔ اس لئے فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗo وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗo
الزلزال، 99: 7-8
تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے (بھی) دیکھ لے گا۔
اللہ تعالیٰ کی تجلیات ہر ایک پر اس کے حسبِ حال ہوتی ہیں۔ وہ جہنم میں رہنے والے جہنمیوں پر بھی تجلّی فرمائے گا، مگر وہ تجلّی اُس کے ’هُوَ‘ کی شان کی ہوگی۔ هُوَ اسمِ اشارہ بعید ہے اور اس میں بُعد یعنی دوری ہوگی۔ وہاں بُعد سے مراد ہے: ’دور رہو میری رحمت سے‘، ’تم محروم ہو‘۔
قرآن مجید نے فرمایا ہے:
هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی.
الحشر، 59: 24
وہی اللہ ہے جو پیدا فرمانے والا ہے، عدم سے وجود میں لانے والا (یعنی ایجاد فرمانے والا) ہے، صورت عطا فرمانے والا ہے۔ (الغرض) سب اچھے نام اسی کے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اُن پر هُوَ کی تجلّی فرمائے گا، مگر چونکہ وہ اللہ کی تجلّی کے اہل نہیں تھے، ان کے اندر اُسے قبول کرنے کی صلاحیت اور استعداد نہیں تھی، لہٰذا:
کَلَّآ اِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَo
المطففین، 83: 15
حق یہ ہے کہ بے شک اس دن انہیں اپنے ر ب کے دیدار سے (محروم کرنے کے لیے) پسِ پردہ کر دیا جائے گا۔
دوزخیوں پر بھی هُوَ کی شان کی تجلّی ہوگی، مگر اُن پر حجاب آجائے گا۔ وہ هُوَ کی تجلّی بھی دیکھ نہیں سکیں گے اور نہ ہی هُوِیَّتْ کی تجلّی سہہ سکیں گے۔
اس کے برعکس جو جنت میں ہوں گے ان پر اللہ تبارک و تعالیٰ إنّیِّت کی تجلی فرمائے گا۔ اس میں شانِ قرب کا اشارہ ہے۔ قرآن مجیدکے اس فرمان میں اس عظیم شانِ قرب کا اشارہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ جنتیوں کو ارشاد فرمائے گا:
اِنِّیْٓ اَنَا اللهُ.
القصص، 28: 30
بے شک میں ہی اللہ ہوں۔
یہ فرما کر ان کے پردے ہٹا دیے جائیں گے اور اِس تجلی سے اکتساب کرنے والوں کی حالت یہ ہوگی:
وُجُوْهٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌo اِلٰی رَبِّهَا نَاظِرَةٌo
القیامة، 75: 22-23
بہت سے چہرے اُس دن شگفتہ و تروتازہ ہوں گے۔ اور (بلا حجاب) اپنے رب (کے حسن و جمال) کو تک رہے ہوں گے۔
اُس دن ان کے چہروں پر تجلّی إنّیِّتِ الٰہی سے رونق آئے گی اور وہ اپنے رب کے چہرے کو تک رہے ہوں گے۔ اِس میں قرب ہے اور عنایت ہے۔ جو شخص جیسے عمل کرتا ہے ویسے ہی اس کے اندر اُس عمل کی تاثیر آتی ہے اور وہ تاثیر اسے ایک خاص مقام یا ایک حالت تک پہنچاتی ہے۔ یہ ظاہری اعمال کی طرح باطنی اعمال کا ایک عمل (process) ہے جو متواتر چلتا رہتا ہے۔
الہام کے متعلق ان ضروری معلومات اور مراتبِ نفس کی حقیقت کو جاننے کے بعد آئیے اب قرآن مجید سے ’اِلہام‘ پر مزید دلائل کا مطالعہ کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وحی کے علاوہ غیر انبیاء کے لئے الہام ایک ایسا ذریعۂ علم ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں قرآن مجید کی نصِ صریح ہے اور اس کا ہم گزشتہ صفحات پر تفصیلی مطالعہ کر آئے ہیں جس میں فرمایا گیا ہے:
وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰهَاo فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰهَاo
الشمس، 91: 7-8
اور انسانی جان کی قَسم اور اسے ہمہ پہلو توازن و درستگی دینے والے کی قَسم۔ پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دی۔
قرآن مجید میں حضرت مریم علیہا السلام کے بیان شدہ واقعہ کے حوالے سے بھی الہام پر استدلال موجود ہے کہ فرشتوں کا غیر نبی کو بھی نبی کی طرح ندا دینا اور انہیں پکارنا قرآن مجید سے ثابت ہے۔
سورہ آل عمران میں فرمایا گیا ہے:
هُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّهٗ ج قَالَ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّةً طَیِّـبَةً ج اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِo
آل عمران، 3: 38
اسی جگہ زکریا ( علیہ السلام ) نے اپنے رب سے دعا کی، عرض کیا: میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو ہی دعا کا سننے والا ہے۔
اس سے قبل کی آیات مبارکہ میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب حضرت زکریا علیہ السلام حضرت مریم علیہا السلام کے پاس عبادت گاہ میں داخل ہوتے تو وہ ان کے پاس بے موسمی پھل موجود پاتے۔ انہوں نے پوچھا: اے مریم! تمہارے پاس یہ چیزیں کہاں سے آتی ہیں؟ جواب دیا: میرے پاس یہ چیزیں اللہ کی طرف سے آتی ہیں۔ بے شک اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔
حضرت مریم علیہا السلام حضرت زکریا علیہ السلام کے زیر تربیت تھیں اور وہی ان کے کفیل تھے۔ جس حجرہ میں حضرت مریم علیہا السلام مقیم تھیں، اس کا دروازہ اکثر مقفل رہتا تھا۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے قدرت کی طرف سے پردۂ غیب سے عطا کئے گئے پھل دیکھ کر وہیں کھڑے ہوکر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جو التجا کی اس کا ذکر مذکورہ بالا آیت کریمہ میں کیا گیا ہے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ان کی عمر مبارک نوے (90) سال ہو چکی تھی اور وہ ابھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اولاد کے منتظر تھے۔ حضرت مریم علیہا السلام کے پاس بے موسم پھل دیکھ کر سوچا کہ میرے لیے اولاد کا کوئی موسم یعنی موقع تو نہیں لیکن اگر حضرت مریم علیہا السلام کو بے موسم پھل مل سکتے ہیں تو مجھے بھی بڑھاپے میں اولاد کی نعمت عطا ہو جائے تو کچھ عجب نہیں۔
معلوم ہوا کہ صالحین، مقربین اور اہل اللہ کی عبادت گاہوں اور ان کی قیام گاہوں پر اللہ تعالیٰ کے انعامات و تجلیات نازل ہوتی ہیں۔ وہاں جا کر خالقِ دو جہاں سے دعا کرنا اللہ تعالیٰ کے نبیوں کی سنت ہے۔ حالانکہ زکریا علیہ السلام کا درجہ حضرت سیدہ مریم علیہا السلام سے کہیں زیادہ بلند ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام نبی ہیں مگر حضرت مریم علیہا السلام ولیہ ہیں۔ نبی عمل کرے تو اسے نبی کی سنت کہتے ہیں اور اُس کا شریعت میں درجہ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے اس عمل کو سنت بنانا تھا اس لیے اللہ کے نبی سے اپنے ولی کی جگہ پر دعا کروائی۔
ابھی وہ حجرے میں کھڑے نماز پڑھ ہی رہے تھے (یا دعا کر رہے تھے) کہ انہیں فرشتوں نے آواز دی، جس کا ذکر قرآن حکیم نے یوں فرمایا ہے:
فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓئِکَةُ وَهُوَ قَـآئِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ لا اَنَّ اللهَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیٰی مُصَدِّقًا م بِکَلِمَةٍ مِّنَ اللهِ وَسَیِّدًا.
آل عمران، 3: 39
ابھی وہ حجرے میں کھڑے نماز ہی پڑھ رہے تھے (یا دعا ہی کر رہے تھے) کہ انہیں فرشتوں نے آواز دی: بے شک اللہ آپ کو (فرزند) یحییٰ ( علیہ السلام ) کی بشارت دیتا ہے جو کلمۃ اللہ (یعنی عیسیٰ علیہ السلام ) کی تصدیق کرنے والا ہوگا اور سردار ہوگا۔
مذکورہ بالا آیت کریمہ میں فرشتوں کا اللہ تعالیٰ کے امر سے اللہ کے نبی کو ندا دینا وحیِ نبوت ہے یعنی یہ وحی کا درجہ ہے۔ علم کا یہ ذریعہ (source) انبیاء علیہم السلام تک محدود ہے، مگر فرشتوں نے غیر نبی کو بھی ندا دی ہے۔
آئیے چند آیاتِ قرآنی کا مطالعہ کرتے ہیں:
1۔ سورہ آل عمران میں ہی فرمایا گیا:
وَاِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِکَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللهَ اصْطَفٰکِ وَطَهَرَکِ وَاصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَo
آل عمران، 3: 42
اور جب فرشتوں نے کہا: اے مریم! بے شک اللہ نے تمہیں منتخب کر لیا ہے اور تمہیں پاکیزگی عطا کی ہے اور تمہیں آج سارے جہان کی عورتوں پر برگزیدہ کر دیا ہے۔
یہاں فرشتوں نے اُسی طرح سے حضرت مریم علیہا السلام کو پکارا، جس طرح حضرت زکریا علیہ السلام کو پکارا تھا۔ اسے وحیِ نبوت نہیں کہہ سکتے کیونکہ حضرت مریم علیہا السلام نبی نہیں ہیں۔
قابلِ غور بات ہے کہ انہیں بھی فرشتوں نے پکارا اوراللہ کا پیغام دیا مگر یہ وحی نہیں بلکہ الہام ہے۔ ثابت یہ ہوا کہ غیر نبی سے بھی ملائکہ خطاب کرتے ہیں۔
جب عالمِ پست کی عالمِ بالا کے ساتھ نسبت جُڑ جاتی ہے تو نیچے اور اوپر دونوں فضائیں ایک ہی ماحول میں سما جاتی ہیں۔ نفس اور قلب کی فضا اور عالم ملکوت و جبروت کی فضا ایک جیسی ہو جاتی ہے۔ جیسے انوار و تجلیات الٰہیہ کا نزول اوپر ہو رہا ہوتا ہے ویسے ہی قلب اور روح پر بھی ہونے لگتا ہے۔ جب یہ مناسبت اور مماثلت نصیب ہوتی ہے تو عالمِ پست کو الہام وصول کرنے کی صلاحیت حاصل ہو جاتی ہے، جو کہ پہلے نہیں تھی۔ ایسے میں ملائکہ القا اور الہام کرتے ہیں کیونکہ اب وہ کسی غیر سے کلام نہیں کر رہے ہوتے۔
2۔ سورۂ آل عمران میں ہی فرمایا گیا:
یٰـمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرّٰکِعِیْنَo
آل عمران، 3: 43
اے مریم! تم اپنے رب کی بڑی عاجزی سے بندگی بجا لاتی رہو اور سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کرو۔
کیا حضرت مریم علیہا السلام کو یہ فرمان وحیِ نبوت ہے؟ نہیں! مگر کلام اسی طرز کا ہے۔ اصل میں یہ ملائکہ کی طرف سے الہام ہے۔
3۔ پھر فرمایا:
اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓـئِکَةُ یٰـمَرْیَمُ اِنَّ اللهَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَةٍ مِّنْهُ ق اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَo
آل عمران، 3: 45
جب فرشتوں نے کہا: اے مریم! بے شک اللہ تمہیں اپنے پاس سے ایک کلمہ (خاص) کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ( علیہما السلام ) ہوگا وہ دنیا اور آخرت (دونوں) میں قدر و منزلت والا ہوگا اور اللہ کے خاص قربت یافتہ بندوں میں سے ہوگا۔
یہاں بھی ملائکہ نے حضرت مریم علیہا السلام کو خطاب کیا ہے اور اس سے قبل اسی سورہ کی آیت نمبر 39 میں ملائکہ نے حضرت زکریا علیہ السلام کو خطاب کیا تھا۔
ملاحظہ کریں کہ حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت مریم علیہا السلام دونوں شخصیات کو ایک ہی طرح کے کلمات بشارت کیے گئے مگر حضرت زکریا علیہ السلام کی بشارت وحی نبوت تھی جبکہ حضرت مریم علیہا السلام کی بشارت بشکل الہام عطا کی گئی۔
4۔ فرشتوں کے اس پیغام پر حضرت مریم علیہا السلام نے کہا:
رَبِّ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ.
آل عمران، 3: 47
اے میرے رب! میرے ہاں کیسے لڑکا ہوگا درآنحالیکہ مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔
یہاں الہام کی اقسام میں سے ’خاطرِ قلبی‘ کا ذکر ہو رہا ہے۔ قلب کے اوپر خاطرِ ربانی اور خاطرِ ملکی دونوں ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم علیہا السلام کو جواب دیا:
کَذٰلِکِ اللهُ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ اِذَا قَضٰٓی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ کُنْ فَیَکُوْنُo وَ یُعَلِّمُهُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَالتَّوْرٰةَ وَالْاِنْجِیْلَo
آل عمران، 3: 47-48
اسی طرح اللہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے۔ جب کسی کام (کے کرنے) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو اس سے فقط اتنا فرماتا ہے کہ ’ہو جا‘ وہ ہو جاتا ہے۔ اور اللہ اسے کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل (سب کچھ) سکھائے گا۔
یہ سارا کلام جو اس مقام پر آیا ہے، الہام ہے۔
5۔ اس سے قبل کی آیات میں اس طرح فرمایا گیا:
فَنَادٰهَا مِنْ تَحْتِهَآ اَلَّا تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّاo
مریم، 19: 24
پھر ان کے نیچے کی جانب سے (جبرائیل نے یا خود عیسیٰ علیہ السلام نے) انہیں آواز دی کہ تو رنجیدہ نہ ہو بے شک تمہارے رب نے تمہارے نیچے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے (یا تمہارے نیچے ایک عظیم المرتبہ انسان کو پیدا کر کے لٹا دیا ہے)۔
6۔ پھر فرمایا گیا:
وَهُزِّٓیْ اِلَیْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسٰقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّاo فَکُلِیْ وَاشْرَبِیْ وَقَرِّیْ عَیْنًا ج فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًا لا فَقُوْلِیْٓ اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُکَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّاo
مریم، 19: 25-26
اور کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلاؤ وہ تم پر تازہ پکی ہوئی کھجوریں گرا دے گاo سو تم کھاؤ اور پیو اور (اپنے حسین و جمیل فرزند کو دیکھ کر) آنکھیں ٹھنڈی کرو، پھر اگر تم کسی بھی انسان کو دیکھو تو (اشارے سے) کہہ دینا کہ میں نے (خدائے) رحمن کے لیے (خاموشی کے) روزہ کی نذر مانی ہوئی ہے سو میں آج کسی انسان سے قطعاً گفتگو نہیں کروں گی۔
اللہ تعالیٰ یہ سارے کلمات حضرت مریم علیہا السلام سے ارشاد فرما رہا ہے۔ یہ مخاطبہ حق ہے یا بذریعہ ملائکہ اِلہامِ قلبی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں نفسِ مطمئنہ قلب ہو جاتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ وحیِ نبوت ہرگز نہیں ہے۔
قرآن مجید کی ایسی تمام آیات کریمہ واضح کر رہی ہیں کہ اولیاء اللہ کے قلوب پر علمِ مخاطبات اور الہامات کا نزول ہوتا ہے۔ اگر مذکورہ بالا آیات کو وحی تصور کر لیا پھر تو معاذ اللہ ان کا نبی ہونا بھی تسلیم کرنا پڑے گا اور انکار کرنے والے کافر ہو جائیں گے، حالانکہ درحقیقت وہ تو ولیہ تھیں۔ لہٰذا جب یہ مخاطبہ خاتم الا نبیاء ﷺ سے پہلے کی امتوں میں موجود رہا تو آقائے دو جہاں ﷺ کی امت میں بطریقِ اولیٰ ہے۔
سورۃ القصص میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ کے باب میں بھی یہی فرمایا گیا ہے:
وَاَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اُمِّ مُوْسٰٓی اَنْ اَرْضِعِیْهِ ج فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْهِ فَاَلْقِیْهِ فِی الْیَمِّ وَلَا تَخَافِیْ وَلَا تَحْزَنِیْ ج اِنَّا رَآدُّوْهُ اِلَیْکِ وَجَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَo
القصص، 28: 7
اور ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ تم انہیں دودھ پلاتی رہو پھر جب تمہیں ان پر (قتل کر دیے جانے کا) اندیشہ ہو جائے تو انہیں دریا میں ڈال دینا اور نہ تم (اس صورتحال سے) خوفزدہ ہونا اور نہ رنجیدہ ہونا بے شک ہم انہیں تمہاری طرف واپس لوٹانے والے ہیں اور انہیں رسولوں میں(شامل) کرنے والے ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ بھی نبی نہیں بلکہ اللہ کی ولیہ ہیں۔ مگر قرآن بیان کرتا ہے کہ وَاَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اُمِّ مُوْسٰٓی۔ محض خیالات ہمارے دلوں میں بھی بہت سارے آتے ہیں۔ کیا خیال آنے سے کوئی ہوش مند انسان اپنے بچے کو صندوق میں بند کر کے دریا میں پھینک سکتا ہے؟ یاد رہے کہ یہ خیال نہیں تھا۔ اسے خیال کہنا تو معاذ اللہ قرآن کی بات پر بہت بڑی جسارت ہے۔ اصل میں یہ الہام ہے جو مالکِ کون و مکاں اپنے اولیاء کو کرتا ہے۔ اسی الہام کے باعث حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو اتنی استقامت، یقین اور معرفت نصیب ہوئی جس کے نتیجے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں سے صندوق میں ڈال کر دریا میں بہا دیا۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ اس لئے کہ ساتھ میں انہیں یہ فرمایا گیا تھا کہ ’تم (اس صورتحال سے) خوفزدہ ہونا اور نہ رنجیدہ ہونا، بے شک ہم انہیں تمہاری طرف واپس لوٹانے والے ہیں اور انہیں رسولوں میں(شامل) کرنے والے ہیں‘۔ چنانچہ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے محل سے آپ کی والدہ کی طرف لوٹا دیا گیا۔ دریا میں پھینکنے سے پہلے کے واقعات حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو بتا دیے گئے تھے۔ یہ الہامِ ولایت ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے دل میں گزرنے والے صدمے کا ذکر کرتے ہوئے قرآن نے بیان کیا ہے:
وَ اَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰی فٰرِغًا ط اِنْ کَادَتْ لَتُبْدِیْ بِهٖ لَوْ لَآ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰی قَلْبِهَا لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَo
القصص، 28: 10
اور موسیٰ ( علیہ السلام ) کی والدہ کا دل (صبر سے) خالی ہوگیا، قریب تھا کہ وہ (اپنی بے قراری کے باعث) اس راز کو ظاہر کردیتیں اگر ہم ان کے دل پر صبر و سکون کی قوّت نہ اتارتے تاکہ وہ (وعدۂِ الٰہی پر) یقین رکھنے والوںمیں سے رہیں۔
یعنی اللہ کا انعام اور کلام سن کر انہیں جو فہم و بصیرت اور معرفت حاصل ہوئی تھی، اس کے باعث وہ بے قرار نہیں ہوئی تھیں۔
قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا گیا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓئِکَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَo
فصلت، 41: 30
بے شک جِن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے، پھر وہ (اِس پر مضبوطی سے) قائم ہوگئے، تو اُن پر فرشتے اترتے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ تم خوف نہ کرو اور نہ غم کرو اور تم جنت کی خوشیاں مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔
اس آیت کریمہ میں جن خوشیوں اور قلبی اطمینان کا ذکر کیا ہے، یہ فرشتوں کے الہام کے باعث ہوتا ہے۔ یہاں حضور نبی اکرم ﷺ کی اُمت کی بات کر رہے ہیں کہ فرشتے ان پر اترتے ہیں اوروہ القاء اور الہام کرتے ہوئے کہتے ہیں: خوف زدہ نہ ہونا، غم نہ کھانا اور تمہیں مبارک ہو! فرشتے خوشخبریاں دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تمہیں وہ کچھ ملے گا جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے:
نَحْنُ اَوْلِیٰـٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰـوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ ج وَلَکُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَo
فصلت، 41: 31
ہم دنیا کی زندگی میں (بھی) تمہارے دوست اور مدد گار ہیں اور آخرت میں (بھی)، اور تمہارے لیے وہاں ہر وہ نعمت ہے جسے تمہارا جی چاہے اور تمہارے لیے وہاں وہ تمام چیزیں (حاضر) ہیں جو تم طلب کرو۔
قرآن حکیم میں بیان کیا گیا یہ سارا کلام وہ ہے جو ملائکہ اَہلِ ایمان، مومنین، اولیاء اور صالحین کے دلوں پر کرتے ہیں۔ یہ قطعاً وحیِ نبوت نہیں ہے بلکہ یہ نفس مطمئنہ قلب پر ہونے والا الہام ہے۔ یہ عالم لاہوت سے اترنے والے علومِ غیبیہ اور مکاشفات ہیں جو اللہ تعالیٰ الہام کے ذریعے اپنے اولیاء اور صالحین کو عطا فرماتا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved