اِلہام، حصولِ علم کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ علومِ اِلہامی، کشف اور علمِ لدنی قطعی طور پر مسلم ہیں اور ان کی حقیقت سے کسی طور بھی انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن بدقسمتی سے آج جہالت کے سبب ان علوم کے وجود کا انکار ہونے لگا ہے۔ نام نہاد علماء کا ایک طبقہ بڑی شد و مد کے ساتھ ان علوم کا کھلے عام انکار کرتا دکھائی دیتا ہے۔
دوسری طرف اسلام کی تاریخ میں ہمیں جا بجا اِلہام، کشف اور علمِ لدنی کے مظاہر اور کمالات نظر آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو طبقہ ان علوم کے انکار کی طرف گیا ہے اُس کا سبب کیا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ وہ ان علوم کے بارے روزِ روشن کی طرح عیاں دلائل ہونے کے باوجود اس طرف متوجہ نہیں ہوتا؟ ’حصولِ علم اور الہام‘ کے موضوع پر اس کے اثبات میں دلائل دینے سے قبل منکرینِ الہام کا ایک علمی و فکری تجزیہ کرتے ہیں تاکہ اُن کی طرف سے اس ضمن میں کئے جانے والے اعتراضات کا کما حقہٗ سدباب کیا جا سکے۔
حصولِ علم کے باب میں اہم ترین ذریعۂ علم ’الہام و کشف‘ ہے، اس کے انکار میں دراصل علمی مزاج کا فرق کار فرما ہے۔ علمائے امت کا علمی مزاج ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ بعض افراد کو ’علمی مزاج‘ کی یہ اصطلاح نئی معلوم ہوگی اور وہ کہیں گے کہ کیا علم کا بھی کوئی مزاج ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب بلاشبہ اثبات میں ہے۔ جیسے لوگوں کی طبیعتیں جدا جدا ہوتی ہیں، کسی شخص میں غصہ زیادہ ہوتا ہے اور کسی کا مزاج قدرے ٹھنڈا ہوتا ہے، کسی میں تحمل، بردباری اور برداشت پائی جاتی ہے اور کسی میں غصہ اور عدمِ برداشت کا پہلو غالب دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح کسی کے مزاج میں صبر اور کسی کی طبیعت میں عجلت زیادہ پائی جاتی ہے۔ یوں سب کے مزاج الگ الگ اور جدا جدا ہوتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں انسان کی طبیعت اور مزاج کے فرق کو واضح کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
انسان علم کو استعمال کرنے کے جو طریقے اور نتائج اخذ کرتا ہے ان پر بھی یہ طبیعتیں اور مزاج اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر کسی ایک صورتِ حال پر دو یا چار مفتیان سے فتویٰ طلب کیا جائے تو عین ممکن ہے کہ اس مسئلے اور حکم کی معرفت، استنباط اور اخذِ نتیجہ ایک دوسرے کے ساتھ مماثل اور ملتا جلتا ہو مگر کسی مفتی کے فتویٰ میں شدت اور سختی ہوگی، کسی کے فتویٰ میں اعتدال ہوگا اورکسی کے فتویٰ میں تساہل (بہت ہی سہولت) کا مظاہرہ ہوگا۔ گویا عام طور پر مختلف فتاویٰ میں تین چیزیں لازمی دکھائی دیتی ہیں:
1۔ شدت
2۔ اعتدال
3۔ تساہل
مزاج کا تضاد حتیٰ کہ اصول الحدیث میں بھی پایا جاتا ہے۔ جب علمِ اسماء الرجال میں مختلف علماء و محققین حدیث کی اسناد اور مختلف رُوات پر حتمی حکم لگاتے ہیں اور رجال پر جرح و تعدیل کے حوالے سے بحث کرتے ہیں تو ان امور میں بھی کئی محدث حکم لگانے میں انتہائی شدید (سخت ) ہیں، کئی ایک کو متساہل تصور کیا جاتا ہے کہ وہ ذرا تساہل سے کام لیتے ہیں یعنی ان میں زیادہ وسعت ہے۔ اگر کوئی حدیث مرتبہ حسن پر پہنچتی ہے تو وہ اسے درست یا صحیح الاسناد کہہ دیں گے جب کہ متشدد محدث کو جب کسی حدیث کے راوی میں کوئی ضعف یا کمزوری نظر آتی ہے جو اُسے مرتبۂ حسن سے نیچے لے جاتی یا زیادہ سے زیادہ ضعیف تک لے جاتی ہے تو وہ اسے ببانگِ دُہل موضوع اور باطل کہہ دیں گے۔ اگر ان کے مزاج میں اعتدال ہوگا تو وہ تمام اہل علم کی آراء اور ان پر ہونے والی جرح و تعدیل کو یک جا کر کے بغور مشاہدہ کریں گے کہ جرح مجمل ہے، مفصل ہے، تعدیل کیسی ہے، یا خطا، نسیان اور اختلاط ہے تو کس زمانے کا ہے۔ وہ یہ بھی دیکھیں گے کہ حدیث پہلے روایت ہوئی ہے، یا بعد میں یا کہ بہت نیچے تک جا کر روایت ہوئی ہے۔ وہ ان سب حقائق کو مدِ نظر رکھ کر اعتدال پر مبنی ایک رائے قائم کریں گے۔ گویا کئی محدثین اور اصولیین جرح و تعدیل میں بھی اسی علمی مزاج کے مطابق حکم لگاتے نظر آتے ہیں۔
علامہ ذہبی اور ابن الجوزی کو قول قائم کرنے یا حکم وضع کرنے میں شدید تصور کیا جاتا ہے۔ امام حاکم جب حکم وضع کرتے ہیں تو انہیں قدرے متساہل یا نرم خیال تصور کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں درمیان میں کئی ایسے محدثین بھی ہیں کہ وہ حکم لگانے میں معتدل تصور کئے جاتے ہیں۔ سمجھانا مقصود یہ ہے کہ علم کا بذاتِ خود مزاج نہیں ہوتا بلکہ مزاج دراصل صاحبِ علم کا اپنا ہوتا ہے جو اظہارِ علم کے طریقوں اور مظاہر پر اثر انداز ہوتا ہے۔
یہ چیزیں پاکستان اور بھارت میں تو پوری شدت سے دکھائی دیتی ہیں۔ کسی خاص موضوع پر جب فتووں کی برسات ہوتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ فتویٰ دینے والوں میں بھی کئی اعتدال پر ہوتے ہیں، لہٰذا وہ محتاط انداز سے کام لیتے ہیں۔ کئی مفتیان حضرات غیر محتاط ہوتے ہیں، مخالف کو کافر سے کم قرار دینے پر ان کی تشفی ہی نہیں ہوتی۔ وہ اپنے مخالف کو علی الاعلان مرتد، کافر اور خارج از اسلام کہتے ہیں۔ اسی طرح کئی حضرات کی طبیعت کو کسی بات پر مخالفین کو بدعتی اور مشرک قرار دیے بغیر تسکین حاصل نہیں ہوتی۔ کئی مفتیان حضرات ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں تساهُل ہوتا ہے تو وہ اعتدال سے بھی پیچھے رہ جاتے ہیں اور ان کے اس تساہل کے سبب شرعی حکم میں بھی کمزوری آجاتی ہے۔
الغرض یہ طبیعتیں اور کیفیات علم کے ہر میدان میں پائی جاتی ہیں۔ ڈاکٹرز کے ہاں بھی ایسا ہوتا ہے۔ ایک مریض جب مختلف ڈاکٹرز کے پاس جاتا ہے تو ایک ڈاکٹر تو دس، بارہ دوائیوں پر مشتمل نسخہ لکھ دے گا اور مریض کو تاکید کرے گا کہ آپ یہ سب ادویات لیں۔ اس قسم کے ڈاکٹرز اپنے میدان میں سخت مزاج کے حامل ہوتے ہیں۔ کچھ ڈاکٹرز ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ کوئی مرض ہی نہیں ہے، بس یہ ایک گولی لے لو اور کچھ لینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس قسم کے ڈاکٹرز متساہل قرار دیے جاتے ہیں۔ ماہر ڈاکٹرز ہمیشہ معتدل ہوں گے۔ وہ اپنی تشخیص کے بعد مریض کو مناسب سا نسخہ دیں گے۔ ان کا دیا ہوا نسخہ زیادہ بھاری بھی نہیںہوتا، بیماری کو نظر انداز بھی نہیں کرتا اور امراض کا بھی شافی خاتمہ کرتا ہے۔
یہ چند مثالیں اگر پیشِ نظر رہیں تو با آسانی معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی مسئلہ انسانی طبیعتوں اور مزاجوں کا ہے۔ یہی مزاج جب دینی علوم، مسئلہ اور دین کے بارے میں رائے و فتویٰ پر پہنچتا ہے تو ساری توجہ علم اور نفسِ مسئلہ سے ہٹ جاتی ہے۔ کوئی مفتی ہو یا عالمِ دین یا صاحبِ قول، اس کی رائے میں اس کا مزاج ضرور شامل ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایسے ہوتا ہے کہ کسی مسئلے پر اسی پائے کے کئی اجل مفتیان اور علماء کی آراء اور فتاویٰ مختلف ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم کسی ایک کے فتوے کو عینِ مسلک، عینِ عقیدہ اور عینِ دین سمجھ لیتے ہیں اور اس نکتے پر ذرا برابر دائیں بائیں یا اوپر نیچے ہونے کا تصور تک نہیں کر سکتے۔ اگر ایسا ہو جائے تو یہ گمان کرتے ہیں کہ جیسے ہم بنیادی عقیدہ سے ہٹ کر دینِ اسلام کی حدود سے نکل رہے ہیں۔
ان علماء کے پیروکار چونکہ صاحبانِ علم نہیں ہوتے، لہٰذا ان لوگوں کی جہالت، لاعلمی اور بے خبری کے سبب انتشار کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسی صورتِ حال میں فتویٰ دینے والا لوگوں کی سادگی اور اپنے اوپر اندھے اعتماد کا غلط استعمال کرتا ہے۔ ایک عالم یا مفتی کے فتوے کے اندر مزاج اور ماحول سمیت کئی عوامل شامل ہوتے ہیں۔ بعض اوقات مفتی ایسے ماحول میں رہ رہا ہوتا ہے کہ حالات کے تقاضے اس کے مزاج، دینی امور اور فتویٰ دینے کے معاملات میں شدت پیدا کر دیتے ہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ اگر اُس نے شدت نہ دکھائی تو شاید دین کی کئی حکمتوں اور تقاضوں کو نظرانداز کر دے گا۔ لہٰذا وہ اس شدت سے اپنے کئی ماحولیاتی تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور معاشرہ کے حالات، اعمال، احوال اور طبیعتوں کی طرف اپنی توجہ مبذول کرتا ہے۔ ان عوامل کو دیکھتے ہوئے یہ اس کی اپنی حکمت عملی ہوتی ہے کہ وہ ان حقائق کو مدِ نظر رکھ کر سخت فتویٰ دیتا ہے تا کہ اس کی سختی کے پیش نظر عامۃ الناس ان امور سے اجتناب کریں۔
فتوؤں کے درمیان یہ فرق کرنا بہت ضروری ہوتا ہے کہ مفتیان نے کس حکمتِ عملی کے پیش نظر اپنے فتویٰ میں گنجائش چھوڑ دی تھی۔ خواہ وہ ایک انتہائی نرم حد تھی، انتہائی سخت یا پھر ایک اعتدال کی حد تھی۔ اگر اس نے کئی چیزوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا تدارک کرنے کے لیے یا بعض آنے والے دینی، اعتقادی اور عملی نقصانات سے لوگوں کو بچانے کے لیے سخت مؤقف کو اختیار کرتے ہوئے اعتقادی فتوے میں شدت رکھ دی تو یاد رکھ لیں کہ وہی فتویٰ ہمیشہ کے لیے اسی شدت کے ساتھ جائز نہیں ہوگا۔ اس فتویٰ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ حکمِ شریعت ہوگیا ہے۔ واضح رہے کہ وہ فتویٰ حکمِ شریعت نہیں ہے۔ کسی معاملے میں فتویٰ کے مرحلہ پر پہنچنے کا مطلب یہ ہے کہ احکامِ شریعت کے تین اعلیٰ مصادر قرآن و سنت اور اجماع کے مراحل سے ہم نیچے آچکے ہیں۔ بعد ازاں قیاس اور اجتہاد آتے ہیں۔ اجتہاد کے درجے پر آگئے تو اُس کے تحت بارہ چودہ فروع بنتی ہیں۔ جب قیاس سے نیچے آئیں گے تو استحسان آئے گا۔ کبھی کوئی فتویٰ استحسان پر مبنی ہوگا، پھر کبھی کوئی فتویٰ استحسانِ ضرورت پر اور کبھی استحسانِ قیاسی پر مبنی ہوگا۔ اس ضمن میں کبھی استصلاح، کبھی مصالحِ مرسلہ اور مصالحِ عامہ آئیں گے۔ کبھی عرف و عادت اور کبھی ضرورت و حاجت آئے گی اور کبھی عمومِ بلویٰ آئے گا۔
ہمارے ہاں عموماً جب کوئی مفتی نئی صورتِ حال پر فتویٰ دیتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس مسئلہ پر قرآن مجید کی نص، حکمِ قرآنی یا کوئی حدیث کی صریح نص وارد ہو چکی ہے اور اس پر آگے یا پیچھے ہٹنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ ایک فتویٰ جب نصِ قرآنی اور نصِ حدیث سے ثابت ہے پھر تو وہ قرآنی و نبوی احکامات کے مطابق ہے لیکن اگر ’اجماع‘ کی بنیاد پر بھی فتویٰ دیا جائے تو علماء اس میں بہت ساری چیزوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
ایک اور نکتہ قابلِ غور ہے کہ ہمارے ہاں ’اجماعِ امت‘ کی اصطلاح کا استعمال عام ہے۔ ’اجماع‘ کے حوالے سے بھی چند چیزوں کو ذہن میں رکھنا ہوگا کیونکہ اگر کوئی فتویٰ ’اجماع‘ کی بنیاد پر دیا جائے تو لازمی نہیں کہ وہ بھی حرفِ آخر ہو۔ ہم اگر فقہ کی کسی کتاب میں ’عَلَیْہِ الإجماع‘ (اس مسئلہ پر اجماع ہے) لکھا ہوا دیکھتے ہیں تو اس سے قطعاً یہ مراد نہیں ہوتی کہ یہ اجماعِ امت ہے۔ اگر ایک شہر سے تعلق رکھنے والے کتبِ فقہ کے مصنفین، علماء اور اسناد اور متون کے حامل اکابر علماء ایک مسئلہ پر مجتمع ہو جاتے اور ان کا اتفاق رائے ہوتا تو وہ علیہ الاجماع کہتے تھے۔ مثلاً فقہ حنفی کی کتب کے کثیر فقہاء اور علماء سمرقند میں قیام پذیر تھے۔ اگرسمرقند کا ایک حنفی عالم لکھتا ہے ’علیہ الاجماع‘ تو اغلب یہ ہوگا کہ اس سے مراد ہے: علیہ إجماع أہل العلم من سمرقند؛ یا علیہ إجماع علماء سمرقند یعنی اس مسئلہ پر سمرقند کے علماء کا اجماع ہے۔
علماء ’سمر قند‘ کے علمی مسائل پر ’بخارا ‘کے علماء سے اکثر اختلافات رہتے تھے۔ اگربخارا کے علماء کا کسی دینی مسئلہ پر اجماع ہے تو وہ اپنے علاقے کے علماء کے ایک موقف ہونے کی بناء پر علیہ الاجماع لکھیں گے۔ اگرچہ بخارا اور سمرقند دونوں شہر ایک ہی خطے میں واقع تھے۔ عین ممکن ہے کہ اس مسئلہ پر اہل سمرقند کا اختلاف ہو مگر وہ بدستور علیہ الاجماع لکھ دیں گے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت نہ ٹیلی فون تھے، نہ انٹرنیٹ تھا، نہ ای میلز تھیں، نہ سوشل میڈیا تھا اور نہ ہی دور دراز کے شہروں کے آپس میں تیز ذرائع نقل و حمل تھے۔ انہیں اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا تھا کہ اس مسئلے پر دوسرے شہر والوں کی کیا رائے ہے کیونکہ کبھی ان کے قضیات (قضایا) ایک دوسرے پر پیش ہوئے اور نہ ہی ان کی ایک دوسرے کے علمی موقف سے آگاہی ہوتی تھی۔
اس دور میں متعدد علماء اور فقہا بصرہ، نیشاپور، بغداد، کوفہ اور حجاز میں بھی موجود تھے۔ اس ضمن میں قریبی شہروں کے بارے میں بھی اجماع کا اطلاق نہیں ہو رہا۔ کہاں ایک خطے میں واقع دو شہر اور کہاں کوفہ، بغداد، بصرہ، دمشق، حلب اور حجاز اور دیگر دور افتادہ شہر۔ اگر قریب والوں کو ایک دوسرے کے علمی مؤقف سے آگاہی نہیں ہوتی تھی تو دور بسنے والے کس طرح ایک دوسرے کے علمی مؤقف کو جان سکتے ہیں!
لہٰذا کسی مسئلے پر کسی ایک کتاب میں ’عَلَیْہِ الإجماع‘ کے الفاظ دیکھ کر یہ کہناکہ دیکھو فلاں کتاب میں لکھا ہے کہ اس مسئلے پر سب کا اجماع ہے؛ درست طرز عمل نہیں ہے۔ اس صورتِ حال میں تحقیق کرنا ہوگی کہ وہ اجماع کہاں کا ہے؟ کیا یہ مسئلہ کسی دوسرے شہر میں وہاں کے فقہاء کے سامنے پیش ہوا ہے اور انہوں نے اس مسئلے پر اپنی رائے دی یا نہیں؟ اگر انہوں نے اس پر رائے دی ہے تو کیا دی ہے؟ کیا وہ خبر دوسرے شہر کے علماء کرام تک پہنچی بھی ہے یا نہیں؟ اگر وہ خبر ان تک پہنچی ہے تو کیا اس پر وہ خاموش رہے، اقرار کیا یا ردّ کیا؟ اس حوالے سے ان سب چیزوں کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔
یاد رہے محض ’اجماع‘ کا لفظ لکھ دینے سے ’اجماع ‘ نہیں بن جاتا۔ اس لیے اکثر اجماع ’ظنی‘ اور ’علاقائی‘ ہوتے ہیں، جبکہ ’اجماعِ قطعی‘ بہت کم ہوتے ہیں۔ اُس زمانے میں ذرائع نقل و حمل محدود ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کی زیادہ معلومات دستیاب نہ ہوتی تھیں۔ جس مفتی کی طبیعت میں شدت ہوگی، وہ کسی مسئلہ پر محض ’اجماع‘ کا لفظ ہی لکھا دیکھ کر اسے ’اجماعِ امت‘ بنا ڈالے گا اور اس علاقائی اجماع کو اجماعِ امت بنانے پر اپنا ایڑی چوٹی کا زور صرف کرے گا۔ بعض لوگوں کے گلے بھی بہت طاقت ور ہوتے ہیں، آوازیں بھی بلا کی ہوتی ہیں اور وہ ان کا بھرپوراستعمال کرنا بھی بخوبی جانتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کھاتے پیتے بھی بہت ہیں اور ان کے جسم میں طاقت و توانائی بھی کثرت سے ہوتی ہے۔ اس طرح ان کے گلوں، جثوں اور ان کے مزاج کا زور باہم اکٹھا ہو جاتا ہے۔ پھر وہ یہ ساری توانائیاں یک جا کر کے معاملے کی شدت کو بڑھاتے ہی چلے جاتے ہیں۔ دوسری طرف باقی رہ گئے غریب بے چارے پیروکار، وہ اس عالم کی بات سن کر مفت میں مارے جاتے ہیں۔ وہ بے چارے سمجھتے ہیں کہ جتنی بھی شدت آ رہی ہے وہ سارے کا سارا دینِ الٰہی ہے۔
’اجماع‘ کے لفظ کی بنیاد پر دیے گئے فتویٰ کے بارے اصول کے ذکر کے بعد اب ہم احکامِ شریعت کے چوتھے ذریعے (source) یعنی قیاس یا اجتہاد کی بناء پر دیے گئے فتویٰ کی حیثیت پر بحث کرتے ہیں۔ اجتہاد اجتماعی ہو تو اجماع ہے اور اگر انفرادی ہو تو قیاس ہے۔ اجتہاد اور قیاس سے نیچے فروعات ہیں۔ بعض اوقات جب نئی صورتِ حال (situation) میں نیا مسئلہ آئے تو اس پر مفتی استنباط اور استخراج کر کے دلائل کا موازنہ کرتے ہوئے فتویٰ دیتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ یہ موازنہ کرنے والا مفتی نہ تو ’اَصحابِ تخریج‘ میں سے ہے اور نہ ہی ’اصحابِ ترجیح‘ میں سے بلکہ وہ ’مقلدین‘ میں سے ہے۔ لہٰذا مفتی کے ’مقلد‘ ہونے کی حیثیت کو بھی اس کے فتوی میں پیش نظر رکھنا ہوگا۔
امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل وغیرہ مجتہد فی الشرع ہیں کہ جنہوں نے اجتہاد کے اصول وضع کیے اور پھر ان اصولوں کی روشنی میں اجتہاد کیا۔
اس کے بعد دوسرا طبقہ مجتہد فی المذہب کا ہے۔ اس طبقہ میں مذہبِ حنفی میں امام ابو یوسف، امام محمد اور امام زُفر وغیرہ اور مذہبِ شافعی میں امام مزنی وغیرہ یا اَصحابِ امام مالک اور اَصحابِ امام احمد بن حنبل شامل ہیں جو کسی مذہب کے بانی نہ تھے بلکہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کے شاگرد تھے لیکن کئی فروعی مسائل میں اپنے امام سے اختلاف کرکے ذاتی اجتہاد کی بنا پر مسائل کا استخراج بھی کرتے تھے اور اس اجتہاد کی بنیاد اپنے امام کے وضع کردہ اصولوں کو بناتے تھے۔ انہوں نے مجتہدین فی الشرع کے مذاہب کی تدوین کی اور اسے تحریر کیا۔ نیز یہ ادلہ سے استخراجِ احکام بھی کرتے ہیں۔
ان کے بعد مجتہد فی المسائل آتے ہیں۔ یہ مذہب کے اصول و مبادی میں نہیں بلکہ بعض فروعی مسائل میں امام کے اجتہاد سے اختلاف کرتے ہیں مثلاً مذہب حنفی میں طحاوی، سرخسی اور بزدوی وغیرہ اور مذہب شافعی میں غزالی وغیرہ مجتہد فی المسائل ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر کسی مسئلے پر صاحبِ مذہب کی رائے نہ ہو تو پھر مسائل میں اجتہاد کرنے والے کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ یہ لوگ مجتہدین فی المسائل کہلاتے ہیں اور ان میں حسبِ اصول اِستنباطِ اَحکام و مسائل کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اِن سے مراد بڑے بڑے اَصحابِ متون حضرات ہیں جن کی فقہ کی کتابیں مدارس میں پڑھائی جاتی ہیں۔ یہ بات واضح رہے کہ آج کے مفتی ’مجتہد فی الشرع‘، ’مجتہد فی المذہب‘ اور ’مجتہد فی المسائل‘ میں سے نہیں ہیں۔ کئی اونچے درجے کے اصحابِ متون ایسے ہیں جو مجتہد فی المسائل میں آتے ہیں مگر بے شمار اَصحابِ متون مجتہد فی المسائل میں بھی نہیں ہیں۔
مجتہد فی المسائل کے بعد ’اصحاب التخریج‘ کا درجہ ہے۔
اس کے بعد ’اصحاب الترجیح‘ آتے ہیں۔
’اَصحابِ ترجیح و تصحیح‘ کے بعد ممیزین یعنی ’اَصحاب التمییز‘ آتے ہیں اور ان کے نیچے محض مقلدین رہ جاتے ہیں۔
گویا مجتہد کی اقسام میں یہ مذکورہ طبقات ہیں۔
عام مفتی جو فتویٰ دیتے ہیں اور اس دور میں جو علماء ہیں وہ تو اَصحابِ ترجیح اور اَصحابِ تخریج میں سے بھی نہیں ہیں۔ وہ حضرات تو اپنی علمی اہلیت میں محض مقلّد ہیں۔ اگر انہوں نے کسی نئی صورتِ حال پر فتویٰ دیا ہے، تو ان کا فتویٰ تو فقہ کے احکام کے کسی درجے پر آتا ہی نہیں کہ کوئی اسے عینِ دین سمجھ لے۔ ہاں! جس شخص کو کسی فتویٰ کی ضرورت ہے تو وہ فتویٰ اس کی رہنمائی میں تو ضرور اہمیت رکھتا ہے۔ جو کسی مسئلہ پر پریشان ہے اسے تو اسی فتویٰ سے رہنمائی مل رہی ہے، اس کے لیے جائز ہے کہ صحیح مفتی اور صاحبِ علم کے فتویٰ پر عمل کرے۔ اگر کوئی غلطی کوتاہی ہوئی بھی تو وہ مفتی پکڑا جائے گا اور اس پر عمل کرنے والا بچ جائے گا، کیونکہ اس نے تو صرف فتویٰ پر عمل کیا ہے، لیکن مفتی صاحب کا وہ خاص مسئلہ ہر ایک کے لئے حکمِ شرعی کا درجہ نہیں رکھتا کہ ہر کوئی اس پر عمل کرنے کا پابند ہوگا۔
سمجھانا مقصود یہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں حتیٰ کہ افریقہ کے ممالک میں رہنے والے جنوب ایشیائی نژاد کے ہاں یہ رجحان عام ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ’سنا ہے ان کے خلاف فتویٰ ہو گیا ہے۔‘ یعنی سادہ لوگ کہتے ہیں کہ ’فلاں کے خلاف فتویٰ آگیا ہے۔‘ قابلِ غور بات ہے کہ جس کے خلاف فتویٰ ہوا ہے وہ بھی ایک عالم ہے اور ایسا بھی ممکن ہے کہ فتویٰ دینے والا اس سے بھی کم درجے کا عالم ہو، مگر فتویٰ کا لفظ ایسے استعمال کرتے ہیں جیسے ان پر ایٹم بم چل گیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ ہماری سماجی خرابیاں ہیں اور ہمارے علمی رجحان میں ایک بہت بڑا بگاڑ ہے۔ یہ خرابیاں باقی لوگ استعمال کریں تو اتنی نقصان دہ نہیں ہوتیں مگر جب اہلِ دین اور علماء اس کا بے دریغ استعمال کریں تو چونکہ ان کی نسبت اور تعلق دین کے ساتھ ہو جاتی ہے تو وہ بہت زیادہ بگاڑ کا باعث بنتی ہیں۔ بعض لوگ فتویٰ ہونے پر یوں تصور کرتے ہیں جیسے معاذ اللہ قرآن مجید کی کوئی آیت اس کے خلاف اتر گئی یا پھر کوئی حدیثِ نبوی اس کے خلاف صادر ہو گئی ہے۔ نہیں! نہیں! ایسا کبھی نہیں ہوتا۔
مختلف علماء کے فتاویٰ بھی مختلف ہوتے ہیں۔ پہلے ایک دوسرے کے فتوؤں سے اختلاف بھی ہوتے تھے مگر کوئی کسی کی تکفیر، تفسیق اور تذلیل نہیں کرتا تھا۔ فتوؤںکے ہتھیار سے ایک دوسرے کو دائرہِ اسلام سے خارج نہیں کیا جاتا تھا۔ کسی کا فتویٰ اس کا نقطہ نظر ہوتا ہے، لہٰذا کسی کے نقطۂ نظر سے اختلاف کرنے والا کافر یا اہلِ سنت سے خارج کیسے ہوگیا؟ ایک عالم کا فتویٰ نہ تو کسی عقیدے کے اصول میں ہے اور نہ ہی فروع میں ہے، لہٰذا اس سے اختلاف کفر نہیں ہے۔ وہ فتویٰ ایک نفسِ مسئلہ پر ہے، دوسرا مفتی اس سے اختلاف کرتے ہوئے اس کے خلاف فتویٰ بھی دے سکتا ہے۔ اب دونوں علماء میں سے کسی کے پاس قوی دلائل ہوں گے اور کسی کے پاس کمزور دلائل ہوں گے مگر فتویٰ کی جو حجیت ہے، وہ یہ مفتی دے یا وہ مفتی، دونوں کے پاس برابر ہے۔ اس ضمن میں یہ گنجائش اور وسعت ہے کہ کوئی اِس کے فتویٰ کو مان لے اور کوئی اِس کے بالمقابل دوسرے مفتی کا فتویٰ مان لے۔
علم کے باب میں طبیعتوں کے مزاج، شہروں کے حالات، ماحول کے معاملات اور دیگر کئی احوال کس طرح سے اثرانداز ہوتے ہیں؟ ان تمام کو بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ طبیعتوں اور مزاج کے اسی اختلاف کی وجہ سے اور آج جہالت کے سبب علومِ اِلہامی، کشف اور علوم لدنیہ کے وجود کا انکار ہونے لگا ہے۔ آج کل جاہل اَفراد خود کو عالم کہلاتے ہیں اور علم سے تہی دست خود کو صاحبانِ علم کہلاتے ہیں۔ یہ نام نہاد ’علماء‘ بغیر مطالعہ کے بڑی شد و مد کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ افسوس! جہالت کے کلچر کا نام ہم نے علم رکھ دیا ہے۔ یہ رجحان چونکہ علمی بنیادوں (knowledge based culture) پر استوار نہیں ہے، لہٰذا کچھ لوگ کسی بھی شے کا بغیر جانے اور بغیر پڑھے انکار کر دیتے ہیں۔
علومِ اِلہامی، کشف اورعلم لدنی کے اثبات پر ایسے علماء کا حوالہ دیتا ہوں جو اپنے علمی مزاج کے اعتبار سے شدت کی انتہا کی طرف ہیں کیونکہ ان کا علمی مزاج ہی ایسا ہے۔ مختلف معاملات و مسائل کے انکار کرنے اور ان پر شدت اختیار کرنے میں یہ علماء ہزار / بارہ سو سال کی علمی تاریخ میں سر فہرست ہیں۔ یہ ایسے علماء ہیں کہ ان کے مسلک، مکتبِ فکر، مشرب اور ذوقِ علمی کی پیروی کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر فلاں فلاں علماء نے اسے تسلیم کیا ہے تو ہم بھی تسلیم کرتے ہیں اور اگر انہوں نے انکار کیا ہے تو ہم بھی ان کی پیروی میں انکار کرتے ہیں۔ بتانا مقصود یہ ہے کہ اب علومِ الہامی کے اثبات میں جن علماء کے حوالہ جات بیان کیے جائیں گے وہ اپنے مسلک و مکتب فکر میں اس مقام کے حامل ہیں کہ ان کی پیروی اور تقلید کی جاتی ہے۔
شدتِ مزاج کی شہرت رکھنے والے ان علماء میں سرِ فہرست درج ذیل تین ہیں:
1۔ علامہ ابن تیمیہ
2۔ علامہ ابن القیم
3۔ علامہ شوکانی
ان علماء نے بھی علوم لدنیہ، الہام اور کشف کا انکار نہیں کیا بلکہ وہ بھی اس کے قائل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تاریخِ اسلام میں کسی بھی دور میں ایسا نہیں ہوا کہ چند ائمہ یا علماء نے بھی اس کا انکار کیا ہو۔ اس لئے کہ اگر اِن علوم کا انکار ہوتا تو مذکورہ علماء کی طرف سے ضرور ہوا ہوتا۔ معلوم ہوا کہ علومِ کشفیہ، علومِ لدنیہ اور علومِ الہامیہ قطعی طور پر مسلّم علوم ہیں۔
مذکورہ علماء ایک خاص علمی مزاج رکھتے ہیں۔ ان سے بڑا کوئی اور شدید مزاج رکھنے والا علم کے باب میں نہیں ہے۔ اگر کوئی ایک آدھ نام عرب دنیا میں ماضی قریب کے زمانے میں کسی کے ذہن میں آئے تو میرے نزدیک وہ صاحب کوئی محقق اور عالم نہیں کہ ان کو بطورِ حجت، بطور سند اور بطور حوالہ پیش کیا جائے۔ کئی نام بعض دیگر امور کی وجہ سے مشہور ہو جاتے ہیں مگر علمی اعتبار سے ان کا کوئی استناد نہیں ہوتا کہ ایسے آدمی کی سند دی جا سکے۔
باطنی و روحانی امور اور کشفیات و کرامات پر مذکورہ علماء سے بڑھ کر شدت رکھنے اور انکار کرنے کا رجحان کسی اور کا نہیں ہے۔ اِن تینوں میں علامہ شوکانی قدرے معتدل ہیں۔ علامہ ابن القیم ان کے مقابلے میں تھوڑا سخت ہیں اور ان کے بعد ان کے شیخ علامہ ابن تیمیہ ان علمی ابواب میں سب سے زیادہ سخت ہیں۔ ان کے شاگردوں نے پھر ان کی سخت روش کو اختیار (adopt) نہیں کیا بلکہ وہ اعتدال پر آگئے۔ اس لئے کہ انہوں نے اس معاملہ پر پوری امت کے ایک علمی تسلسل کو دیکھا اور قدرے اعتدال پر رہے۔ یہاں صرف ان تین علماء جو کہ مزاجِ علمی کے اعتبار سے انتہائی شدت (extreme side) کی طرف نظر آتے ہیں، ان سے اس موضوع پر چند حوالہ جات ذکر کیے جائیں گے۔
علامہ شوکانی نے ’اصول الفقہ میں اپنی کتاب إرشاد الفحول إلی تحقیق الحق من علم الأصول‘ میں ’الفائدۃ السادسۃ کے تحت دلالۃ الإلہام ‘کا باب قائم کیا ہے۔ اس باب میں وہ دلائل دیتے ہوئے امام زرکشی کی اصول الفقہ پر تصنیف ’البحر المحیط‘ کو بطور حوالہ پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے ’البحر المحیط‘ میں بیان کیا ہے:
وَقَدِ اخْتَارَ جَمَاعَةٌ مِنَ الْمُتَأَخِّرِیْنَ اعْتِمَادَ الْإِلْهَامِ.
متاخرین کی کثیر جماعت نے اِلہام پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
علامہ شوکانی کی بیان کردہ علامہ زرکشی کی یہ عبارت اس امر کی غماز ہے کہ متقدمین میں یہ بحث ہی نہیں تھی۔ متقدمین میں تو ویسے ہی الہام کی چیزیں پہلے سے ہی بیان ہوتی تھیں۔ صحابہ کرامl، تابعین، اتباع التابعین اور سلف صالحین میں الہام کا بغیر بحث کیے تذکرہ کیا جاتا تھا۔ اس لیے علامہ زرکشی نے متاخرین کا لفظ لکھا ہے۔ معلوم ہوا کہ متقدمین میں اس پر بحث ہی نہیں ہوتی تھی بلکہ یہ سب کچھ ان کے علم میں تھا اور ان کے ہاں انکار ہی نہیں تھا۔ جب یہ چیز زیرِ بحث ہی نہیں تھی تو مطلب یہ ہوا کہ اس پر سب کااتفاق تھا۔
دوسری بات مذکورہ عبارت سے یہ ثابت ہوئی کہ الہام کے حجت ہونے، اس کے درست ہونے اور اس کے ذریعۂ علم ہونے اور اس کے صحیح ہونے پر جماعت کا عقیدہ ہے جو انہوں نے اختیار کیا۔
علامہ شوکانی، علامہ زرکشی کی مزید عبارت نقل کرتے ہیں کہ ’ائمہ اپنی مختلف تفسیروں میںامام فخرالدین رازی کو بطور حوالہ پیش (quote) کرتے ہیں‘۔ گویا انہوں نے الہام پر دلائل دیتے ہوئے امام رازی کو بطور حوالہ پیش کیا ہے۔
امام ابو عمرو عثمان بن عبد الرحمٰن الشافعی بن الصلاح ایک بڑے عظیم محدث تھے جو اصول الحدیث کی بہت نام ور کتاب ’مقدمۃ ابن الصلاح‘ کے مصنف ہیں۔ ان کے بعد اصول الحدیث پر لکھی گئی تقریباً 80% کتب اسی مقدمہ پر بنیاد (base) کرتی ہیں۔ امام نووی نے مقدمہ ابن الصلاح کا خلاصہ ’ارشاد طلاب الحقائق‘ کے نام سے تحریرکیا، پھر اسی کا خلاصہ التقریب تحریر کیا ہے۔ امام سیوطی نے اس پر التدریب شرح لکھی ہے۔ گویا مقدمہ ابن الصلاح کی کوئی شرح کرتا گیا، کوئی خلاصہ کرتا گیا اور کوئی خلاصہ کی مزید شرح کرتا گیا۔ امام زین الدین العراقی اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی مقدمہ ابن الصلاح پر لکھا ہے۔ المختصر یہ کہ یہ کتاب متن کا درجہ رکھتی ہے۔ اندازہ کریں کہ اتنی بڑی معتمد شخصیت کی کتاب ’فتاویٰ ابن الصلاح‘ ہے۔ اس میں وہ الہام کے بارے میں لکھتے ہیں:
وَأَمَّا الْإِلْهَامُ فَهُوَ خَاطِرُ حَقٍّ مِنَ الْحَقِّ تَعَالٰی.
الہام سچائی کا الہام ہے جو کہ حق تعالیٰ کی بارگاہ سے ہوتا ہے۔
یعنی اس کی علامت یہ ہے کہ اس سے انشراحِ صدر نصیب ہو جاتا ہے اور اسے معارضہ لاحق نہیں ہوتا۔
امام ابن الصلاح نے اِنشراحِ صدر اور اِلہام کو جوڑتے ہوئے کہا ہے کہ یہ خاطر ہے۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ خاطر کیا چیز ہے؟
خاطر ایک تجلّی ہے جو آواز اور خطاب کی شکل میں قلب پر وارد ہوتی ہے۔ امام عبد الرزاق الکاشانی اپنی کتاب ’معجم اصطلاحات الصوفیۃ‘ میں فرماتے ہیں:
خاطر ایک تجلّی ہے جو قلب پر وارد ہوتی ہے۔ یہ خاطرِ ربانی بھی ہوتی ہے، خاطرِ ملکی بھی ہوتی ہے، خاطرِ نفسانی بھی ہوتی ہے اور خاطرِ شیطانی بھی ہوتی ہے۔
کاشانی، معجم اصطلاحات الصوفیة: 177
یعنی خاطر ایک خیال کی صورت میں دل پر وارد ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہ شیطان کی طرف سے بھی وارد ہوتا ہے، اس صورت میں اُسے خاطرِ شیطانی کہیں گے۔ اگر یہ نفس کی طرف سے وارد ہو تو اسے خاطر نفسی یا خاطر نفسانی کہتے ہیں۔ ملائکہ کی طرف سے وارد ہو تو خاطر ملکی کہا جاتا ہے۔ اس صورت میں فرشتہ وہ چیز قلب میں القا کرتا ہے۔ ہاں اس کی پہچان کرنا پڑتی ہے۔ طبیعت پر مرتب ہونے والے اثرات سے تعین ہوتا ہے کہ یہ خاطر کون سا ہے۔ قرآن مجید نے سورۃ الناس میں خود اس حقیقت کو منکشف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِo الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِo مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِo
الناس، 114: 4-6
وسوسہ انداز (شیطان) کے شر سے جو (اللہ کے ذکر کے اثر سے) پیچھے ہٹ کر چھپ جانے والا ہے۔ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ خواہ وہ (وسوسہ انداز شیطان) جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔
لفظ الْجِنَّۃ میں شیاطین کی طرف اشارہ ہے جو نفس اور صدور میں وسوسہ ڈالتے ہیں۔ یہ بھی انہی خواطر میں سے ہیں۔ اسی طرح خاطرِ ربّانی حق (اللہ) کی طرف سے آتا ہے۔ گویا یہ حق کی طرف سے حق کا القا ہے۔ جب یہ الہام کہلانے کے لیے حق کی طرف سے ہوا تو خاطرِ نفسانی بھی پیچھے رہ گیا اور اس میں سے خاطرِ شیطانی بھی نکل گیا۔ شیطان اور نفس کے اِلقا یا خاطر کو اصطلاحی معنیٰ میں الہام نہیں کہیں گے۔ لغوی معنیٰ میں اس کے لیے ’الہام‘ کہا جا سکتا ہے۔ گویا خاطرِ ربانی سے شرحِ صدر ہوتا ہے اور جب شرحِ صدر ہوتا ہے تو اسے قرآن مجید نے اسے یوں بیان کیا:
اَفَمَنْ شَرَحَ اللهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ.
الزمر، 39: 22
بھلا، اللہ نے جس شخص کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا ہو تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر (فائز) ہوجاتا ہے۔
اس سے حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اِنشراحِ صدر، قلب میں ایک نور لاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے تو وہ اللہ کی طرف سے نور پر ہوتا ہے۔ اُسے ایک نور مل جاتا ہے۔
اسی طرح ایک خیال ایسا بھی ہے جو نفس پر وارد ہوتا ہے اُسے ھاجز کہتے ہیں۔ ھاجز کے مختلف درجات و مراتب ہوتے ہیں:
1۔ ارادہ: عملی طور پر اگر وہ خیال پہلی بار آئے تو یہ ارادہ ہے، یعنی آدمی ایک عمل کی طرف آگے بڑھے اور وہ نفس میں قائم و متحقق ہو جائے تو اِسے ارادہ کہتے ہیں۔
2۔ داعیہ: اگر اُس میں تردد آجائے تو اسے داعیہ (بلانے والا) کہتے ہیں کیونکہ اس میں تشکیک ہوتی ہے اور کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر کی حالت پائی جاتی ہے۔
3۔ ہمت: اگر پھر تردد کے ساتھ تیسری بار خیال آئے تو اسے ’ہمت‘ کہتے ہیں۔ اس لیے عام طور پر لفظ ہمت، ارادے کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
پھر جوں جوں یہ آتا چلا جا رہا ہے توں توں اس کا مطلب ہے کہ وہ پختگی کی طرف آرہا ہے۔ اگر بار بار پلٹ کر وہی آ رہا ہے تو مطلب ہے کہ وہ ہمارے نفس میں اپنے قدم جما رہا ہے۔
4۔ عزم: چوتھی بار آئے تو اسے عزم کہتے ہیں۔ اس مرحلہ پر یہ دل کی طرف متوجہ ہو کر اس بندے کو کسی فعل کے کرنے پر تیار کرنے لگتا ہے۔
5۔ قصد: پانچویں مرحلے پر وہ بندے کو کام کرنے پر تیار کرنے لگتا ہے تو اسے قصد کہتے ہیں۔
6۔ نیت
اس حوالے سے دیکھا جائے تو ارادہ اس کا پہلا مرحلہ تھا جبکہ قصد اس کا آخری درجہ ہے۔ اگر یہاں وہ طے کر لے، اس میں پختگی آجائے اور وہ کام کرنے لگے یا کرنے کے قریب پہنچ جائے تو اس کیفیت کو نیت کہتے ہیں۔ اس طرح ’ہاجز‘ جو نفس پر وارد ہوتا ہے، وہ ارادے سے چلتا ہوا نیت تک پہنچتا ہے۔
علم میں ہمیشہ ارتقاء ہوتا ہے۔ آدمی پہلے بچہ ہوتا ہے۔ پھر جوان ہوتا ہے۔ پھر جیسے جیسے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے ویسے ویسے اس میںپختگی، وسعت، گہرائی اور گیرائی آتی چلی جاتی ہے۔ اِسی دوران اُس کا مطالعہ بڑھتا ہے، معارف بڑھتے ہیں، تحقیق بڑھتی ہے اور پھر اس میں ثقاہت آتی جاتی ہے۔ اس طرح علم میںمرحلہ وار اور تدریجاً ترقی وقوع پذیر ہوتی رہتی ہے۔ بعض اوقات لوگ خالصتاً خارجی عوامل کو مدِ نظر رکھ کر صرف کتابوں سے استفادہ کر کے لکھتے ہیں۔ یعنی ایک آدمی نے کیلے کے ذائقے کو کتابوں سے پڑھ کر جوں کا توں لکھ دیا اور ایک آدمی نے کیلا کھا کر اسے محسوس کرتے ہوئے تحریر کیا۔ ایک آدمی نے صرف شربتِ روح افزا سن کر لکھ دیا اور دوسرے آدمی نے خود شربتِ روح افزا پی کر اس کے بارے میں لکھاہے۔ ایک لکھاری سن کر لکھتا ہے جبکہ دوسرا دیکھ کر لکھتا ہے تو دونوں میں فرق ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ علم کے تین درجات ہیں:
1۔ علم الیقین
2۔ عین الیقین
3۔ حق الیقین
اس ضمن میں دلائل کے ساتھ پہلے مفصل تذکرہ کیا جا چکا ہے۔ یہ بھی پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ انبیائے کرام f اور حتیٰ کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے علم میں بھی ارتقاء ہوتا رہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو علم دیتا اور مسلسل بڑھاتا چلا جاتا تھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا ہے کہ جو علم زندگی کے آخری وقت میں ـتھا وہی درجہ اور وسعتِ علم ان کے چالیس سال پہلے بھی ہو۔ ہر چیز میں ارتقاء، توسیع، تدریج اور تدرج ہے۔
اِسی بناء پر الہام اور علمِ لدنی کے باب میں کئی کتابوں میں خلط ملط ملے گا۔ لہٰذا مذکورہ نکتہ کو ذہن نشین کرلیں کہ الہام اور علم لدنی کو ایک ہی درجہ (category)میں تحریر کیا گیا ہو تو جان لیں کہ وہ کسی مصنف کی نوجوانی کی تحریر ہے۔ علماء دین عمر بھر لکھتے تھے۔ انہوں نے کئی رسائل جوانی کی عمر میں لکھے، کئی پچاس برس کو پہنچے تو تحریر کیے اور کئی اس کے بعد کے عرصے میں اور کئی عمر کے آخری حصے میں لکھے۔ جیسے جیسے ان کے علم میں ارتقاء ہوتا گیا ویسے ویسے ان کی آراء بھی تبدیل ہوتی رہیں۔
جیسا کہ شریعت میں ناسخ و منسوخ ہے۔ بعض احکامات اوائل میں آئے، مگر بعد میں حالات بدل گئے تو وہ احکام منسوخ ہوگئے۔ اب ہمیں ناسخ آیات کا ذکر بھی ملتا ہے اور منسوخ آیات کابھی۔ ناسخ پر عمل کرنے کا حکم ہے جب کہ منسوخ کو چھوڑ دینے کا۔ ناسخ اور منسوخ میں زمانی ترتیب ہوتی ہے۔ علم کے ارتقاء میں بھی زمانی ترتیب اِسی طرح اثر انداز ہوتی ہے۔
(iv) اِلہام کے لیے تقویٰ شرطِ اوّل ہے
علامہ شوکانی امام ابو علی التمیمی کی ’التذکرۃ فی أصول الدین‘ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ الہام (اِضطرارًا) کے طریق پر علوم اور معارف ملتے ہیں۔ اسے بیان کرنے کے بعد وہ اس طرح کی تمام آیات بیان کرتے ہیں:
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَاناً.
الأنفال، 8: 29
اے ایمان والو! اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو گے (تو) وہ تمہارے لیے حق و باطل میں فرق کرنے والی حجت (و ہدایت) مقرر فرما دے گا۔
یعنی الہام کے طریق پر ایسے علم کے حصول کے لیے تقویٰ شرطِ اول ہے۔ الہام ایک ایسی چیز ہے کہ اس کا مورد نفس ہے اور یہ ایک القا ہے۔
شوکانی، إرشاد الفحول، 1: 415
یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ صاحبِ تقویٰ کا الہامِ صحیح ہوگا۔ اس لئے کہ ایک فاسق یاکافر کو بھی ایسا محسوس ہو سکتا ہے۔ یہ نفس کا تزکیہ اور نفس کی ریاضت ہے۔ کشف میں بھی ایسی چیزہے مگر علمِ لدنی میں ایسا نہیں ہے۔
ذیل میں شیخ اکبر کی کتاب ’الفتوحات المکیۃ‘ سے الہام کے بارے میں آیات اور حوالے درج کیے جا رہے ہیں۔ یہ وہ شخصیت ہیں جن کی بات ایسے موضوعات میں سب سے زیادہ معتمد اور معتبر ہے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَنَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰهَاo فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰهَاo
الشمس، 91: 7-8
اور انسانی جان کی قَسم اور اسے ہمہ پہلو توازن و درستگی دینے والے کی قَسم۔ پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دی۔
قرآن مجید کی اس نص سے یہ بات طے ہو گئی کہ الہام نفس پر ہوتاہے، قلب پر نہیں۔ قلب پر خاطر ہوتا ہے جو کشف ہے۔ کشف، علم لدنی اور مکاشفہ قلب کو ہوتا ہے جبکہ الہام نفس پر آتاہے۔ نفس کا جب تصفیہ ہو جاتاہے اور وہ ایک ایسا ظرف اور برتن بن جاتاہے کہ جو الہام اور القاء کو وصول کرنے کے قابل ہو، تو مذکورہ آیتِ مبارکہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اس نفس کے اندر اُس کے فجور کا بھی الہام فرمایا اور اُس کے تقویٰ کا بھی الہام کیا ہے۔
اس مقام پر دو چیزیں ذہن میں رکھ لیں کہ الہام ایک ایسا ذریعۂ علم (source of knowledge) ہے کہ جس میں فجور بھی ہو سکتاہے اور تقویٰ بھی ہو سکتاہے۔ یہ دونوں ہی نفس پر وارد ہوتے ہیں۔ اسی لیے یہاں اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں فاعل کی ضمیر کو واضح نہیں فرمایا، یعنی اپنی طرف منسوب نہیں کیا بلکہ الہام کے فاعل کو مخدوف اور چھپا کر رکھا ہے۔ اس آیت سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ الہام کس نے کیا؟ یہ نکتہ تو جہ طلب ہے۔ یہ نفس محلِ اِلہام ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اِس ضمیر کو مخفی رکھا کہ الہام کس نے کیا؟ لہٰذا تلاش کرنا پڑے گا کہ الہام کون کر رہا ہے؟ اِس کا مطلب یہ ہے کہ فجور و برائی کا مُلہم کوئی اور ہے اور تقویٰ کا مُلہم کوئی اور ہے۔ قرآن مجید نے یہ بات بیان کر دی تو پھر اُسے تلاش کرنا ہوگا۔
فجور کا الہام شیطان کی طرف سے اور تقویٰ کا الہام فرشتوں کی طرف
سے ہوتا ہے
جب نفس کے اندر فجور اور برائی کا الہام ہو رہا ہے تو یہ نفس، نفسِ امّارہ ہے۔ جس کے بارے میں فرمایا:
اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌ م بِالسُّوْٓءِ.
یوسف، 12: 53
بے شک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے۔
گویا یہ نفسِ امّارہ ہے اور اُس کے اندر الہام ہو رہاہے۔ نفس اُس کا امر دیتا ہے اور وہ بندے کو برائی، کبر، حسد اور دیگر ساری خرابیوں پرتیا ر کرتا ہے۔ نفسِ امارہ پر الہام کون کرتا ہے، اِس کی وضاحت ایک حدیث مبارک سے ہوتی ہے۔ آقائے دو جہاں ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ لِلْمَلَکِ لَمَّةً، وَلِلشَّیْطَانِ لَمَّةً.
بے شک (انسان کے نفس کے ساتھ) فرشتے کا بھی رابطہ اور اثر ہے اور اُس پر شیطان کا بھی رابطہ اور اثر ہوتا ہے۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
إِنَّ لِلْمَلَکِ لَمَّةً بِقَلْبِ ابْنِ آدَمَ وَلِلشَّیْطَانِ لَمَّةً.
انسان کے قلب کے ساتھ فرشتے کا بھی رابطہ اور اثر ہے۔ اور اُس پر شیطان کا بھی اثر ہوتا ہے۔
حدیث مبارک نے تصریح کر دی ہے کہ بندے کے نفس میں شیطان بھی الہام کرتا رہتا ہے اور جب موقع ملے تو فرشتہ بھی الہام کرتا ہے۔ شیطان جب بھی الہام کرے گا تو وہ گناہ، معصیت، فسق و فجور، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور شریعت سے دور لے جانے کا کرے گا۔ وہ برے خیالات اور بد تصورات ڈال کر ذہن سازی کرے گا۔ وہ یہ سب کچھ نفس کی زمین پر تیار کر رہا ہے اور نفس ہی اُس کا محل ہے۔ جب انسان کے خیالات برے ہو کر اسے نماز اور تقویٰ چھوڑنے کی طرف لے جائیں، دین سے ہٹا کر بری صحبت اور گناہ کی طرف لے جائیں، جیسے جیسے برائی کا خیال بڑھتا چلا جائے گا سمجھ لیں کہ حضور ﷺ کے مذکورہ فرمان کے مصداق شیطان نے اُس کے نفس کی سرزمین پر قبضہ کر لیا ہے۔ شیطان کی صورت میں وہاں قبضہ مافیا آگیا ہے۔ شیاطین وہاں اب اپنے خیالات القا کر رہے ہیں۔ پس واضح ہوگیا کہ نفس میں شیطان فجور کا الہام اور القا کرتا ہے۔
تقویٰ کا الہام کون کرتاہے؟ مذکورہ حدیث مبارک میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے الہام کو اپنی طرف منسوب نہیں فرمایا بلکہ اس کا سبب فرشتوں کو قرار دیا کہ تقویٰ کا الہام فرشتے کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی جانب سے اس پرملائکہ مقرر کیے ہوئے ہیں۔
ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر تقویٰ کا الہام فرشتوں کی طرف سے ہوتا ہے تو پھر اللہ کی طرف سے کیا آتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’علمِ لدنی‘ آتا ہے۔ اس سے مراد ہے کہ بغیر ریاضت اور مجاہدہ کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کو علم عطا ہونا۔ امام القاشانی لکھتے ہیں:
یُرَادُ بِهِ الْعِلْمُ الْحَاصِلُ مِنْ غَیْرِ کَسْبٍ، وَلَا تَعَمُّلَ لِلْعَبْدِ فِیْهِ. سُمِّیَ لَدُنِّیًّا لِکَوْنِهٖ إِنَّمَا یُحْصَلُ مِنْ لَدُنْ رَبِّنَا، لَا مِنْ کَسْبِنَا.
القاشانی، لطائف الإعلام فی إشارات أهل الأعلام: 323
اِس سے مراد وہ علم ہے جو بغیر ریاضت و مجاہدہ کے حاصل ہو اور انسان کو اس کے لیے تگ و دو نہ کرنا پڑے۔ اسے لدنی اِسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوتا ہے اور ہماری محنت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔
قرآن مجید میں اس کی واضح مثال واقعہ موسیٰ و خضر علیہما السلام ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَـآ اٰتَیْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًاo
الکهف، 18: 65
تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر علیہ السلام) کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے علمِ لدنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا۔
اس آیتِ مبارکہ میںاللہ تعالیٰ نے علمِ لدنی کی نسبت اپنی طرف کی ہے۔ یہاں فاعل کی ضمیر کو مخفی نہیں رکھا بلکہ صاف کھول کر بیان کر دیا ہے، جبکہ جہاں فجور اور تقویٰ کی نفس میں الہام کی بات کی وہاں فاعل کی ضمیر کو مخفی رکھا اور فرمایا:
فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰهَاo
الشمس، 91: 8
پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دی۔
’علمِ لدنی‘ میں فاعل کو اس لئے مخفی نہ رکھا تاکہ کوئی اِس کا واسطہ نہ تلاش کرتا پھرے کہ مخفی و غیبی علم تو ملا مگر کس ذریعے سے ملا؟ کیا کسی فرشتے کے ذریعے ملا؟ کیا کسی روح کے ذریعے ملا، یا جوہرِ عقل کے ذریعے ملا؟ کتابوں کے ذریعے ملا یا صحبتوں کے ذریعے ملا؟ کہیں بندہ اُن ذرائع کو تلاش نہ کرتا پھرے کہ صاحب ِعلم لدنی کو یہ علم کس ذریعے سے ملا تاکہ میں بھی اُس ذریعے کو اختیار کروں اور اس علم کا حامل بن جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ علمِ لدنی کے ذریعے کو تلاش کرو گے توذرائع نہیں ملیں گے بلکہ علمِ لدنی وہ علم ہے جو بغیر ذرائع اور وسائط کے براہِ راست ہم کسی کے دل میں عطا کر دیتے ہیں۔
خاطر اور الہام عارضی ہوتا ہے، یہ آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ مستمراً اور دائماً باقی نہیں رہتا۔ اس کے برعکس علم لدنی مستقل قائم رہتا ہے۔
الہام اور علم لدنی میں ایک فرق یہ ہے کہ اِلہام فرشتے کے ذریعے ہوتا ہے۔ دوسری طرف علمِ لدنی کسی چینل یا مادی ذریعے سے نہیں آتا، یہ روح کے چینل سے بھی نہیں آتا بلکہ علمِ لدنی بغیر واسطے کے براہِ راست مردِ عارف، مردِ مومن کے قلب میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ یہ وہبِ خالص ہوتا ہے اور اس میں فرشتہ بھی دخیل (involve) نہیں ہوتا یعنی اللہ اور بندے کے قلب کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے:
وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًاo
الکهف، 18: 65
اور ہم نے اسے علمِ لدنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے حصول کے کچھ آداب سکھائے ہیں، ہر چیز اصلاً حقیقت میں تو اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے (کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللہِ) مگر اس قدر واضح رہنمائی کے باوجود ہم غور و فکر نہیں کرتے۔
فَمَالِ هٰٓـؤُلَآءِ الْقَوْمِ لَا یَکَادُوْنَ یَفْقَهُوْنَ حَدِیْثًاo
النساء، 4: 78
پس اس قوم کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ کوئی بات سمجھنے کے قریب ہی نہیں آتے۔
ہر شے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی تو ہے مگر اللہ تعالیٰ نے آدابِ بندگی سکھاتے ہوئے سورۃ النساء میں ارشاد فرمایا ہے:
مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللہِ ز وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ.
النساء، 4: 79
(اے انسان اپنی تربیت یوں کر کہ) جب تجھے کوئی بھلائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ اللہ کی طرف سے ہے (اسے اپنے حسنِ تدبیر کی طرف منسوب نہ کر)۔ اور جب تجھے کوئی برائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ تیری اپنی طرف سے ہے (یعنی اسے اپنی خرابیِ نفس کی طرف منسوب کر)۔
یعنی اگر کوئی اچھائی ملے، الہامِ حق ملے، معرفت ملے، نیکی کی توفیق ملے، تقویٰ کی توفیق ملے تو وہ اللہ کی طرف سے جان اور اُس کی نسبت حق تعالیٰ ہی کی طرف کرو۔ اس کے برعکس اگر برائی کی چیز ہو تو اسے اپنے اندر کی کوتاہی، کمی اور خرابی میں تلاش کرو کیونکہ برائی نے وہاں سے ہی جنم لیا ہے، لہٰذا اُسے اپنی طرف منسوب کرو۔ اگر اچھائی ملے اور نیکی صادر ہو تو اپنے اندر منسوب نہ کرو کیونکہ یہ عمل تمہارے اندر تکبر پیدا کر دے گا اور نیکی بھی بدی میں تبدیل ہو جائے گی۔ آدابِ بندگی بجا لائے کا یہی طریقہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے علمِ لدنی کا اِجراء جاری و ساری ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
کُلًّا نُّمِدُّ ھٰٓؤُلَآءِ وَھٰٓؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّکَ ط وَمَا کَانَ عَطَآءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًاo
الإسراء، 17: 20
ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں ان (طالبانِ دنیا) کی بھی اور ان (طالبانِ آخرت) کی بھی (اے حبیبِ مکرّم! یہ سب کچھ) آپ کے رب کی عطا سے ہے۔
یعنی ہم مومنوں کو رزق اور دیگر نعمتوں میں سے جو کچھ دے رہے ہیںاور کافروں کو بھی جو کچھ دے رہے ہیں، اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال کو بھی، اَہلِ خیر کو بھی اور اَہلِ شر کو بھی جو کچھ مل رہا ہے؛ وہ سب آپ کے ربّ کی عطا ہے۔
معلوم ہوا کہ جو الہام کسی کو نصیب ہوئے، خواطرِ ملکیہ نصیب ہوئے، خواطرِربانیہ نصیب ہوئے، الہامِ حق نصیب ہوئے، کشف نصیب ہوئے، مکاشفات نصیب ہوئے، کرامات نصیب ہوئیں اور علمِ لدنی نصیب ہوا وہ سب کا سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ مزید فرمایا:
وَمَا کَانَ عَطَآءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًاo
الإسراء، 17: 20
اور آپ کے رب کی عطا (کسی کے لیے) ممنوع اور بند نہیں ہے۔
یعنی آپ کے ربّ کی جانب سے نبوت کے سوا بقیہ تمام عطاؤں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ صرف نبوت و رسالت کا دروازہ بند ہے کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ کو خاتم النبیین کے منصب پر فائز فرمایا گیا ہے:
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَـآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ.
الأحزاب، 33: 40
محمد ( ﷺ ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں۔
مالکِ کون و مکاں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو خاتم المرسلین بناتے ہوئے نبوت و رسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس اَمر کے لیے حکم فرمایا کہ یہ دروازہ بند کر دیا، پس وہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا؛ اور اللہ تعالیٰ نے جن نعمتوں کی عطا جاری رکھیہے اور اُس کے بند ہو جانے کا واضح حکم نہیں آیا، اس کے لئے فرمایا:
وَمَا کَانَ عَطَآءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًاo
الإسراء، 17: 20
اور آپ کے رب کی عطا (کسی کے لیے) ممنوع اور بند نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کی وہ عطائیں نہ تو بند ہوئی ہیں اور نہ ہی قیامت تک بند ہوں گی۔ اب علم اور معارف کے یہ سارے راستے اُسی طرح کھلے رہیں گے، جیسا کہ پہلے کھلے تھے۔ اللہ تعالیٰ جس زمانے کے جس بندے کو چاہے گا، وہ عطا فرمائے گا۔ عین اسی طرح جیسے اللہ تعالیٰ نے کسی بھی زمانے کے لوگوں پر حواسِ خمسہ بند نہیںکیے۔ یہ نہیں ہوا کہ پہلے زمانے کے لوگ دیکھتے تھے اور اب اندھے ہو گئے ہیں۔ نہیں! اللہ اب بھی آنکھیں دیتا ہے۔ پہلے زمانے کے لوگ سنتے تھے، کیا اب بہرے ہیں؟ نہیں! انسان جیسے پہلے سنتے تھے ویسے ہی اب بھی سنتے ہیں۔ جیسے کل قوتِ سامعہ، باصرہ، شامہ، ذائقہ اور لامسہ تھی، یہ سب آج بھی بدستور موجود ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جس طرح پہلے دماغ کی حسِ مشترک، حسِ خیال، حسِ واہمہ، حسِ حافظہ، حسِ متصرفہ دی تھی اور دماغ کے جو قویٰ دیے تھے وہ آج بھی لوگوں کو ملتے ہیں۔ اِسی طرح روحانی ذرائع اور نفس پر ورود و کیفیات کا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ کیا فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰهَا میں جو کچھ فرمایا گیا، اس کی بندش ہوگئی؟ کیا کوئی کہہ سکتاہے کہ اب نفس پر تقویٰ اور فجور کا الہام نہیں ہوتا؟ نہیں! ایسا نہیں ہے۔ قرآن مجید نے اِسے کسی زمانے کے ساتھ محدود نہیں کیا بلکہ ایسا اب بھی ہوتا ہے۔ اِسی طرح جن چیزوں سے مکاشفہ ہوتا تھا، وہ اب بھی ہوتا ہے اور اسی طرح ہوتا رہے گا۔ مالکِ ارض و سماوات اپنے بندوں کو علمِ لدنی عطا کرتا تھا، کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ اس کے بند ہونے پر قرآن کی نص نہیں آئی۔ اُس کا مطلب ہے کہ وہ سب وَمَا کَانَ عَطَآئُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا کے کلیہ کے تحت آئے گا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ عطا اور نعمت بند نہیں ہوئی۔ یہ جیسے جاری تھی، ویسے ہی جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گی۔
قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کی اِن عطاؤں کے حصول کے ذرائع اور عمومی اُصول بھی بیان کر دیے ہیں تاکہ اہل ایمان اگر ان اصولوں پر عمل پیرا رہیں گے تو ان پر قیامت تک عطاؤں کا سلسلہ بھی قائم و دائم رہے گا۔ ارشاد ہوتا ہے:
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللهَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَاناً.
الأنفال، 8: 29
اے ایمان والو! اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو گے (تو) وہ تمہارے لیے حق و باطل میں فرق کرنے والی حجت (و ہدایت) مقرر فرما دے گا۔
اس آیت مبارکہ میں لفظِ ’فرقان‘ کے ذریعے اُس علم کے عطا کیے جانے کا ذکر ہے جس کا تعلق نہ تو ظاہری حواس سے ہے، نہ عقل کے حواسِ باطنی سے ہے، نہ بدیہیات اور فطریات سے ہے اور نہ ہی تجربیات سے ہے۔ اِس کا تعلق صرف اور صرف تقویٰ سے ہے۔ اندازہ کریں کہ نہ نصاب پڑھا جا رہاہے، نہ کتاب ہے اور نہ ہی استادہے، مگر اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ایک علم وہ بھی ہے کہ اگر تقویٰ اختیار کرو گے تو اُس ذریعے (channel) سے تم اُس علم تک پہنچو گے۔ یہ وہ علم ہے جس کے ذریعے حق و باطل میں فرق کرنے والی صلاحیت انسان کو ودیعت کر دی جاتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ علمِ فرقانی عطا فرما دیتا ہے۔
امام زرکشی اور علامہ شوکانی دونوں نے بیان کیا ہے:
{یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا} أي ما تفرقون به بین الحق والباطل.
{اے ایمان والو! اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو گے (تو) وہ تمہارے لیے حق و باطل میں فرق کرنے والی حجت (و ہدایت) مقرر فرما دے گا۔} یعنی اللہ تعالیٰ ایسا علم عطا کر دے گا کہ جو حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت پیدا کر دیتا ہے۔
اس ضمن میں ایک مثال ملاحظہ فرمائیں۔ اُصول الحدیث میں علل الحدیث ایک مکمل علم ہے۔ علل سے مراد مخفی علتیں ہیں۔ یعنی سند میں کہیں کوئی مخفی چیز واقع ہوتی ہے، جو علتِ قادحہ ہوتی ہے یا کوئی سبب ہوتا ہے جو اُس حدیث کی سند کو متاثر کرتا ہے۔ یہ علت ظاہر نہیں ہوتی بلکہ مخفی ہوتی ہے۔ عام دیکھنے والے کو اس کاپتہ نہیں چلتا بلکہ صرف مُتفَنِّن ہی جانتا ہے۔
ایک بار ایک شخص حدیث کے اجل امام ابن ابی حاتم رازی کے پاس آیا اور پوچھا کہ آپ مرتبۂ حدیث بیان کرتے ہیں تو کیسے پتہ چلتاہے کہ اِس میں ضعف ہے، اِس سند میں علت اور کمزوری ہے؟ اِس کی آپ کے پاس کیا دلیل ہوتی ہے؟
قابلِ غور بات ہے کہ ائمہ اصول الحدیث کی بات ہو رہی ہے۔ ہر چیز کاجواب یہ نہیں ہوتا کہ کس نے کہا ہے؟ یہ کوئی اصول نہیں ہے کہ ہر چیز کو ’کس نے کہا ہے‘ سے تلاش کیا جائے بلکہ کچھ چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی تلاش مروجہ ذرائع علم سے ناممکن ہوتی ہے۔
امام ابن ابی حاتم رازی نے اونچے درجے کے چند نام ور و معتمد ائمہ اصول حدیث کے نام لیے اور کہا کہ ان کو بتائے بغیر تم جا کر کوئی حدیث الگ الگ سند سے ان کے سامنے بیان کرو اور اس پر اُن کا جواب لو۔ اگر اس حدیث پر چاروں کا جواب مختلف آئے تو پھر تمہارا سوال درست ہو گا کہ میرے پاس کسی سند میں علت کی دلیل کیا ہوتی ہے؟ پھر تلاش کرنا پڑے گا کہ اِس میں کیا علت ہے، پھر اِس کے لیے میں دلائل مہیا کروں گا۔ اگر چاروں کا جواب ایک آئے اور سنتے ہی وہ تمہیں بتا دیں تو پھر میرے جواب کو مان لینا۔
جب چاروں ائمہ کا جواب اس پیش کی گئی حدیث کے سند پر ایک جیسا آیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ وہ ملکہ ہے جو اللہ تعالیٰ انسان کے باطن کو عطا کر دیتاہے۔ جب کسی علم پر کسی کو تبحر اور مہارت ملتی ہے تو اُس فن کے تمام پردے اٹھ جاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ وہ علمی ملکہ اتنا پختہ ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے اندر قدرت اور بصیر ت عطا کر کے حجابات اٹھا دیتا ہے۔ خالقِ کائنات اسے اُس فن پر اتنا تمکن عطا کر دیتا ہے کہ پھر وہ سند کو سن کر اُس علم کے تبحر اور گہرائی کی وجہ سے فوری بتا دیتا ہے کہ اِس میں کمزوری ہے یا یہ چیز دلیل کے لحاظ سے صحت مند نظر نہیں آتی ہے۔
اس شخص نے کہا کہ یہ ملکہ کیسے حاصل ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ ملکہ اسی طرح حاصل ہوتا ہے جیسے کسی سنار کے پاس جاؤ تو بعض اوقات وہ سونے کی رنگت دیکھ کر بتا دیتاہے کہ اِس میں اتنے فی صد ملاوٹ ہے۔ بعد ازاں جب بھٹی میں جا کر چیک کریں گے تو سونے کا معیار وہی نکلے گا جو اس زرگر نے بتایا تھا۔ گویا اللہ تعالیٰ اُسے وہ ملکہ عطا کر دیتا ہے کہ اُس کی آنکھ میں بصیرت آجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ سب چیزیں الہام کرتا ہے۔ اِسی طرح اِس میں ریاضات بھی ہیں، مجاہدات بھی ہیں، کثرتِ مطالعہ بھی ہے، طویل عمر کا صرف کرنا بھی ہے، اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی عقلی اور دماغی صلاحیتیں بھی ہیں، اُس میں ایک قلبی اور روحانی استعداد بھی ہے، ذہانت بھی ہے، فطانت بھی ہے، بصیرت بھی ہے، فراست بھی ہے اور دیگر بہت ساری چیزیں علم اور مطالعہ کے ساتھ بھی حاصل ہوتی ہیں۔
مثال کے طور پر آپ بعض اوقات کوئی شعر سنتے ہی کہہ دیتے ہیں کہ یہ غالبؔ کا شعر ہے۔ دوسرا آدمی سن کر کہتا ہے کہ یہ غالب کا نہیں ہو سکتا، یہ تومیر تقی میرؔ کا لگتا ہے۔ کوئی کہہ دیتا ہے کہ یہ علامہ اقبالؔ کاہے لیکن عین اسی لمحے کوئی اور کہتا ہے کہ یہ کلام علامہ اقبالؔ کا ہو ہی نہیں سکتا۔ اِس کا یہ مطلب یہ ہوا کہ اُس نے علامہ اقبالؔ کی شاعری میں محنت کر کے اتنا ملکہ، اتنی پختگی اور اتنا تبحر پیدا کیا ہے کہ اسے حکیم الامت کا شعری اسلوب اور اُن کے شعر کا مزاج سمجھ آگیا ہے۔ اسے میرتقی میرؔ اور مرزا غالبؔ کا مزاجِ شعری سمجھ آگیا ہے اور اس نے خواجہ میر دردؔ اور مومنؔ کا شعری آہنگ پوری طرح سے سمجھ لیا ہے۔
اسی طرح آدمی اردو کی ایک تحریر پڑھ کر کہتا ہے کہ یہ اقتباس سرسید، ڈپٹی نذیر احمد یا شبلی نعمانی یا اردو ادب کے عناصرِ خمسہ میں سے کسی ایک کا لگتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اردو کی ایک غزل پڑھ کر آدمی فوری طور پر بتا دیتاہے کہ یہ کسی دبستانِ دہلی کے غزل گو کی تخلیق ہے یا دبستانِ لکھنؤ کے سخن ور کا کمال ہے۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ انہوں نے اردو ادب میں ملکہ پیدا کیاہے۔ لہٰذا اُس کے اندر امتیاز کرنے کی ایک صلاحیت آگئی ہے۔ ایسا ہر فن میں ہوتا ہے۔
ایک ماہر طبیب یا ڈاکٹر آپ کی آنکھ یا چہرہ دیکھ کر بتا دیتا ہے آپ کو کیا مرض لاحق ہے۔ بعد ازاں آپ ٹیسٹ کرواتے ہیں تو واقعی وہی بیماری نکل آتی ہے۔ یعنی ہر فن اور ہر ہنر کے میدان میں ایک روحانی ملکہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ اُس میدان میں کثرتِ مطالعہ، کثرتِ ریاضت اور کثرتِ مجاہدہ کے نتیجے میں بندے کو عطا فرما دیتا ہے۔
اس لئے فرمایا کہ اگر تقویٰ اختیارکرو اور تمہارا تقویٰ بڑھتا چلا جائے اور تم اتنے پرہیز گار بن جاؤ کہ تم حرام سے بھی بچو، شبہات سے بھی بچو اور شبہات میں پڑنے کے امکانات سے بھی بچو تو پھر وہ ایک ایسا نور عطا کر دیتاہے اور تمہارے اندر ایک ایسا ترازو قائم کر دیتا ہے، تمہیں علم و فہم، حکمت اور بصیرت و فراست کے ساتھ وہ مقام دے گا کہ تم بات سنتے ہی کہہ اٹھو گے کہ یہ درست ہے اور یہ غلط ہے۔
ہم نے کئی بار اپنی زندگی میں ایسے دیکھا ہے کہ ایک چیز کو پڑھا تو کہا یہ بات حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی ہی ہو سکتی ہے کسی اور کی نہیں۔ یہ تحریر امام سیوطی کی ہو سکتی ہے، یہ پیرا گراف حافظ ابن حجر عسقلانی کا ہو سکتاہے، یہ قسطلانی کا ہو سکتاہے، یہ بات علامہ ابن تیمیہ کی ہی ہو سکتی ہے، یہ بات ابن القیم تحریر کر سکتے ہیں، یہ عبارت امام غزالی یا امام سُلمی کی ہو سکتی ہے یا پھر قشیری کی ہو سکتی ہے، یہ قاضی عیاض کی ہو سکتی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس جب آدمی پڑھتا رہتاہے اور اُس میں پختگی آتی رہتی ہے تو اسے یہ ملکہ نصیب ہوتا ہے۔ سو معلوم ہوا کہ تقویٰ ایک ایسے علم کے ملکہ تک پہنچاتا ہے کہ بندے کو مرتبۂ فرقان نصیب ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے تقویٰ سے حاصل ہونے والی اسی طرح کی ایک اور نعمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
وَمَنْ یَّتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاo
الطلاق، 65: 2
اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لیے (دنیا و آخرت کے رنج و غم سے) نکلنے کی راہ پیدا فرما دیتا ہے۔
جو شخص تقویٰ اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ اُسے تقویٰ کے نتیجے میں بالآخر مقامِ مخرج عطا کر دیتاہے۔ مخرج سے مرادوہ مقام ہے کہ جب دلائل بندے کے لئے التباس پیدا کر دیں، مختلف کتب، فتاویٰ اور دلائل و براہین پڑھ کر مطالعہ کرنے والے کو التباس پیدا ہو جائے کہ کس بات پر حکم دوں؟ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے؟ اگر اُس التباس سے صاحبِ علم نکل جائے اور بالکل سفید دن کے اجالے کی طرح نتیجے پر پہنچ جائے تو اُسے مخرج کہتے ہیں۔ صاحبِ علم گرداب میں نہیں پھنستا۔ کتابیں تو دوسرے لوگ بھی پڑھتے ہیں اور وہ بھی پڑھتا ہے۔ دوسرے لوگ بھی علماء کے دلائل پڑھتے ہیں اور وہ بھی پڑھتا ہے۔ دوسرے لوگ تو التباس اور ابہام کی گرداب میں پھنس کر اپنی منزل کو نہیں پا سکتے جبکہ اسے مخرج مل جاتا ہے۔
استاد اور کتابیں ’مخرج‘ اور ’فرقان‘ کے مقام تک نہیں پہنچاتیں۔ کتابیں اور استاد تو وہاں تک پہنچنے کا فقط ایک ذریعہ ہیں۔ ریاضت اور مشقت بھی خود سے (It self ) یہ مقام نہیں دیتی، وہ بھی صرف ایک ذریعہ ہے۔ بلاشبہ اُس ذریعہ کو اختیار (Adopt) کرنا پڑتا ہے مگر پھر ایک مقام آتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی وھب ہوتی ہے کہ جسے مخرج عطا کرے وہ اس التباس سے نکل جاتا ہے۔ اسی وقت بات کو سنتے ہی بغیر ابہام، التباس اور تشکیک کے کھری بات بتا دیتا ہے۔ لوگ حیران ہوتے ہیں کہ انہوں نے یہ بات کہاں سے کہہ دی۔ دوسرے لوگ انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں کہ اس موضوع پر کتابیں تو ہم نے بھی پڑھی تھیں، یہ سب کچھ توہم نے بھی دیکھا تھا اور ہر چیز کا بغور جائزہ بھی لیا تھا مگر حقیقت یہ ہوتی ہے کہ انہیں مقامِ مخرج نصیب نہیں ہوا تھا۔
اگر کسی کو مقامِ مخرج اور فرقان نہ ملا ہو تو اسے دوسروں سے جھگڑا کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ یہ فیصلہ تو اللہ نے کرناہے، آپ نے اور میں نے تو کرنا نہیں ہے۔ کوئی کتابوں میں ساری زندگی گزارتا ہے، علوم و فنون پڑھتا پڑھاتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ وہ سارا کچھ کر کے بھی بحران میں مبتلا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کئی ایک کو مخرج کے ذریعے بحرانوں سے نکال کر فرقان عطا کر دیتا ہے۔ ایک شخص بحران میں مبتلاہے تو اس کے برعکس دوسرافرقان پر فائز ہے۔ ایک بے چارہ ہر وقت تلاطم میں گھرا ہوا ہے اور لاکھ جتن کرنے کے باوجود موجوں سے نکل نہیں پا رہا جب کہ دوسرا وہ ہے کہ شکوک و شبہات اور التباس اُس کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص عطا ہے جو بطریقِ تقویٰ ملتی ہے۔
جو لوگ دعویٰ کریں کہ بغیر تقویٰ کے ہمیں یہ مل گیا ہے تو یہ ذہن میں رکھ لیں کہ انہیں جو کچھ ملا ہے وہ نہ فرقان ہوگا، نہ مخرج ہوگا اور نہ ہی وہ علمِ اِلٰہی ہوگا۔ اس لئے کہ کفار کو بھی بعض اوقات ایسی چیز ہواجز کے ذریعے القا ہو سکتی ہیں۔ خواطرِ نفسانی، خواطرِ شیطانی اور حتیٰ کہ کشف بھی اس ذریعے سے ہو سکتا ہے۔ یہ مقام انہیں ریاضت کے سبب ملا ہے، فرقان و مخرج کی وجہ سے نہیں۔ ریاضت کوئی بھی کرسکتا ہے۔ اگر کوئی شب و روزمحنت کرے، ریاضت اٹھائے تو پہلوان بن جائے گا۔ اگر کوئی دبلا پتلا شخص بھی ہر روز کسرت کرے اور خوراک کھائے تو اس کے بھی پٹھے بن ہی جائیں گے۔ اگر کوئی بھی باقاعدگی سے اور باضابطہ انداز میں وزن اٹھائے تو آہستہ آہستہ تن ساز (body builder) بن جائے گا۔ اگر روزانہ کبڈی کھیلیں، کُشتی لڑیں اور پانچ دس مِیل کی دوڑ لگائیں گے تو آپ بھی ایک دن اچھے پہلوان بن جائیں گے۔
یاد رکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ کا قانون ایک ہے۔ جس طرح جسم پر ریاضت کی جائے تو جسم طاقت ور ہو جاتا ہے۔ کہاں ایک دھان پان اور کم زور جسم کا مالک آدمی اور کہاں بھولو پہلوان، رستم زماں گاما پہلوان کا ٹھوس اور کسرتی جُثہ، دونوں کے درمیان فرق واضح دکھائی دے گا۔ جس طرح کسرت سے جسم اور طاقت میں واضح فرق دکھائی دیتا ہے، اُسی طرح روحانی ریاضت میں بھی کوئی کم زور رہ جاتا ہے اور کوئی رستم زماں بن جاتا ہے۔
اگر روح اور نفوس کے تزکیہ کی ریاضت کی جائے، قلب کے تصفیہ اور اسے منور کرنے کی ریاضت کی جائے، روح کو پردوں سے نکال کر طاقت ور کرنے کی ریاضت کی جائے تو جیسے جسم میں طاقت بڑھتی ہے ویسے ہی روحانی طاقت بھی بڑھتی ہے۔ جو لوگ روح کی طاقت میں رستم زمان ہوتے ہیں، وہ اولیاء اللہ کہلاتے ہیں۔ جب تقویٰ کے ساتھ ساتھ روحانی طاقت بھی بڑھتی ہے تو اولیاء اللہ بنتے ہیں۔ اگر تقویٰ منہا (minus) کر دیں اور روحانی ریاضات کرتے رہیں تو روح کا کشف بھی آسکتا ہے خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ ہندو جوگیوں، یہودیوں اور مسیحیوں میں بھی کئی محنت اور ریاضت کرتے کرتے کشف کے حامل ہو جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کسی سے نا انصافی نہیں کرتا۔ ایسا تو نہیں ہے کہ اگرمسلمان پہلوان ریاضت کرے تو رستم بن جائے، غیر مسلم پہلوانی کرے تو محض کلمہ گو نہ ہونے کی وجہ سے رستم نہیں بنے گا۔ یہ تو اللہ کا نظامِ عدل ہے کہ جتنی محنت کرو گے اُس کا اتنا ہی پھل پائو گے۔ اگر کوئی روح پر محنت کرے تووہ بھی طاقت ور ہو جائے گی اور اُس کے بھی کشف ہوں گے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اگر ریاضت کے ساتھ ایمان اور تقویٰ بھی مل جائے تو ولایت بن جاتی ہے، پھر وہ ادراکات اور مکاشفات صحیح ہوتے چلے جاتے ہیں اور قربِ الٰہی نصیب ہوتا ہے۔ اگر ریاضت کے ساتھ ایمان اور تقویٰ نہ ہو تو یہ ریاضت جسمانی ریاضت کی طرح نتیجہ دیتی ہے مگر ایمان اور تقویٰ سے محروم بندہ ولی اور اللہ کا دوست ہرگز نہیں بن سکتا۔
تقویٰ کے ذریعے بندہ مومن نہ صرف ’فرقان‘ اور ’مخرج‘ کے مقام کا حامل ہو جاتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے اُسے علمِ خاص یعنی معرفت کی دولت بھی نصیب ہو جاتی ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَاتَّقُوا اللہَ ط وَیُعَلِّمُکُمُ اللہُ.
البقرة، 2: 282
اور اللہ سے ڈرتے رہو، اور اللہ تمہیں (معاملات کی) تعلیم دیتا ہے۔
یعنی اگر تم تقویٰ اختیا رکرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں علم عطا کر دے گا۔ تقویٰ کے ذریعے کون سا علم اللہ تعالیٰ عطا کرے گا؟ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں:
گزشتہ صفحات پر ہم علم کے ذرائع پر بحث کر چکے ہیں کہ پہلا علم وہ تھا جو حواسِ ظاہری کے ذریعے ملا تھا، یعنی حواسِ ظاہری استعمال کرو تو علم بذریعہ عقل ترتیب پائے گا۔ کتاب پڑھو تو علم ملے گا۔ استاد کے پاس بیٹھو گے تو علم ملے گا۔ سکول جاؤ گے تو علم ملے گا۔ یہ سب علم کے ذرائعِ و وسائلِ معروفہ تھے یعنی ایسے ذرائع جنہیں ہر کوئی جانتا ہے۔
ہم اب معروف ذرائع سے ہٹ کر مختصراً خفیہ ذرائع کی طرف ایک نظر ڈالتے ہیں کہ مخفی ذرائع علم کون سے ہیں؟ علامہ ابن القیم نے اپنی تصنیف ’ مدراج السالکین‘ میں علم کے دو الگ درجات بیان کیے ہیں:
پہلا درجہ علم جلی کا ہے۔ وہ علم جو ظاہری ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے اسے علمِ جلی کہتے ہیں۔ خواہ وہ علم زبان سے حاصل ہو یا آنکھ سے ملے، کان سے ملے، تجربہ سے ملے یا وجدانیات سے ملے یا استنباط و استخراج اور استدلال یا دیگر دلائل سے ملے۔
علامہ ابن القیم علم کی دوسری قسم علمِ خفی بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے علمِ خفی کا دوسرا نام معرفت رکھا ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں کہ معرفت علم خفی ہے، اس تعریف کی رو سے ذرائع اور عقل نکل گئے ہیں۔ یہ علم حواسِ خمسہ سے نہیں آتا بلکہ قلب کے ذریعے آتا ہے۔
علامہ ابن القیم بیان کرتے ہیں کہ دل سے اشرف مقام روح کا ہے۔ وہ علم پھر روح کے واسطے سے آتا ہے۔ پھر بیان کرتے ہیں کہ روح سے بھی اونچا مقام ’سِر‘ کا ہے اور وہ علم سِر کے ذریعے سے آتاہے۔ وہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ الْقَلْبَ أَشْرَفُ مَا فِي الْبَدَنِ، وَالرُّوْحُ أَشْرَفُ مِنَ الْقَلْبِ، وِالسِّرُّ أَلْطَفُ مِنَ الرُّوْحِ.
ابن القیم، مدراج السالکین، 2: 473
بدن کے تمام اعضاء میں قلب سب سے افضل ہے، روح قلب سے بلند مقام کی حامل ہے جب کہ سِر روح سے بھی لطیف تر شے ہے۔
وہ اُس بحث کو لطائف کے تحت بیان کرتے ہیں کہ علم خفی کے تین ذرائع ہیں۔ پہلے ’قلب‘، پھر اُس سے اوپر والے درجے میں ’روح‘ ہے، اس کے انکشافات قلب سے اونچے ہیں، اِن سب سے اوپر ’سِر‘ ہوتا ہے۔ علامہ ابن القیم مزید کہتے ہیں کہ سِر سے بھی اوپر اور اشرف ایک مقام ہے جسے ’سِر السّر ‘کہتے ہیں یعنی اُسے ’خفی‘ اور ’اَخفیٰ‘ کہتے ہیں۔ اِس طرح وہ لطائفِ خمسہ کے بعد وہ علم کا درجہ ثالثہ یعنی ’علمِ لدنی‘ کو بیان کرتے ہیں۔
کیا اب بھی کوئی علومِ خفی، لطائف خمسہ اور الہام کا انکار کر سکے گا؟ اگر انکار کرنا ہے تو پھر انکار کرنے والے کو علامہ ابن القیم اور علامہ شوکانی کو بھی علمی سطح پر ردّ کرنا ہوگا کیونکہ اِن پر زیادہ تر اعتماد کیا جاتا ہے، پورا فتاویٰ ابن تیمیہ بھی رد کرنا ہوگا۔ جان لیں کہ الہام، علوم لدنیہ اور کشف یہ علوم نہ تو زمانے کے ساتھ متعین ہیں اور نہ کسی صدی کے ساتھ مختص ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے تو صرف نبوت و رسالت کا دروازہ بند ہوا ہے۔ اب نہ تو کوئی نبی ہو سکتاہے اور نہ ہی کوئی رسول۔ جب کوئی نبی نہیں ہو سکتا تو کوئی صحابی بھی نہیں بن سکتا۔ صحابی کا درجہ تو ایمان کی آنکھ سے حضور نبی اکرم ﷺ کا دیدار کرنے سے حاصل ہونا تھا۔ کوئی تابعی بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ اُس نے صحابی کو دیکھ کر ہونا تھا۔ کوئی تبع تابعی بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ ایسا بھی تابعی کو دیکھ کر ہونا تھا۔ علیٰ ہذا القیاس لاکھ زمانہ بدلے مگر یہ ذرائعِ علم بند نہیں ہو سکتے۔ اِس لیے کہتے ہیں کہ اللہ کا تقویٰ اختیارکرو تو وہ تمہیں علم عطا کر دے گا۔
تقویٰ ایک ذریعہ ہے۔ تقویٰ کسی کتاب کا نام نہیں ہے اور نہ ہی کسی مدرسہ کا نام ہے۔ اگر کوئی اپنے مدرسہ کا نام جامعہ التقویٰ رکھ لے تو اُس کی اپنی مرضی ہے، مگر یہ کسی استاد کا نام نہیں ہے اورنہ ہی کسی ظاہری ذریعے کا نام ہے۔ تقویٰ تو پرہیزگاری کا نام ہے، ایک روحانی ریاضت اور مجاہدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ تمہیں تقویٰ کے نتیجے میں علم عطا ہوگا اور یہ علم تمہیں مخرج دے گا، التباس اور بحرانوں سے نکال دے گا اور بڑے سکون سے تمہاری کشتیِ علم کنارے لگا کر تمہیں مقامِ فرقان تک پہنچائے گا۔ اللہ تعالیٰ تمہیں وہ شعور عطا فرمائے گا کہ کسی معاملہ پر فوراً ہی کہہ اٹھو گے کہ ہاں یہ درست ہے اور یہ درست نہیں ہے۔ صاحبِ فرقان کتابیں بعد میں پڑھے گا لیکن بات سنتے ہی صحیح جواب دے دے گا۔ وہ کتابیں بعد میں اٹھائے گا مگر اُس کو دلائل پہلے مل جائیں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اُس کے اندر ’فرقان‘ کی ایک آنکھ کھول دی ہے اور اُس کے اندر ایک مرتبۂ مخرج رکھ دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وَیُعَلِّمُکُمُ اللہُ کے مصداق اسے وہ خاص علم عطا کر دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ الہام اور علم لدنی کی صورت میں علم کہاں سے ترقی پاتاہے؟ الہام کے ان سارے مراتب میں کہاں سے درجہ بہ درجہ اضافہ ہوتا ہے؟
اس کے جواب میں علامہ شوکانی ’ارشاد الفحول (ص: 415)‘ میں شیخ شہاب الدین سہروردی کو بطور حوالہ پیش کرتے ہیں کہ یہ الہام جس کا ذکر اوپر تمام آیات میں ہوا، اِس کی قرآن مجیدمیں کوئی بنیاد بھی تو ہوگی؟ لہٰذا غور کریں تو درج ذیل آیتِ مبارکہ ہمیں اس حوالے سے رہنمائی دیتی ہے:
وَاَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اُمِّ مُوْسٰٓی اَنْ اَرْضِعِیْهِ.
القصص، 28: 7
اور ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ تم انہیں دودھ پلاتی رہو۔
یہاں لفظ أوحٰی بمعنیٰ الہام ہے۔
اِس سے آگے بڑھ کر ایک اور استدلال نقل کرتے ہیں اور یہ استدلالات درحقیقت اس باب میں قرآن مجید کے اصول ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:
وَاَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ.
() النحل، 16: 68
اور آپ کے ربّ نے شہد کی مکھی کے دل میں (خیال) ڈال دیا۔
واضح رہے کہ آیت مبارکہ میں مذکور اَوْحٰی سے وحیِ نبوت مراد نہیں ہے۔ یہ لغوی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے جس میں الہام کے معنی کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب شہد کی مکھی کو کچھ القا کیا تو اُسے الہام کا نام دیا۔ اگر اولیاء اللہ، عرفاء اور مردِ مومن کے ساتھ الہام کا لفظ آگیا توکون سا کفر صادر ہوگیا؟ یہ وہ بنیادی اساس ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات یعنی حیوانوں، پرندوں اور انسانوں میں بھی رکھی ہے۔ مگر جب نفس امّارہ رہتا ہے تو الہام نہیں ہوتا۔ الہام اُسی وقت ہوتا ہے جب نفس پاک ہوتا ہے اور برائی سے نفرت اور ملامت کرنے لگتا ہے۔ برائی کے ارتکاب پر مذمت و ملامت کرنے والا نفس لوّامہ کہلاتا ہے۔ پھر اُس سے آگے بڑھ کر تقویٰ اور نیکی پر جم جاتا ہے تو نفسِ ملہمہ کہلاتا ہے۔ اس تیسرے درجے میں نفس بندے کے قلب میں نیکی کو الہام کرنے لگتا ہے، یا فرشتہ نفس میں الہام کرنے لگتا ہے۔ اگر فرشتہ الہام کرے تو نفسِ مُلْهَمَہ کہیں گے (یعنی ہا پر زبر ہوگی کہ جس نفس میں نیکی کا الہام کیا جائے)؛ اور اگر نفس نیکی کے خیالات قلب میں الہام کرنے والا بن جائے یعنی الہام کا فاعل بنے تو نفس مُلْہِمَہ کہیں گے یعنی ہا کے نیچے زیر ہوگی۔ یہ دونوں اعراب آئے ہیں اور دونوں کے معنی جدا جدا ہیں۔ کبھی نفس فرشتوں سے اِلہام حاصل کرتا ہے اور کبھی نیکی کا اِلہام قلب کو منتقل کرتا ہے۔ گویا ملهَمہ بھی ہوتاہے اور ملہِمہ بھی ہوتاہے۔
اس کے بعد جب نیکی نفس کو مستقر بنا لیتی ہے اور اس میں جم جاتی ہے اور نفس کو نیکی پر اطمینان ہو جاتا ہے تو نفسِ مطمئنہ ہو جاتا ہے۔ مطمئن ہو جانے کے بعد وہ نفس اللہ کی رضا کے ساتھ جڑ جاتا ہے اور ہر حال میں راضی برضا رہنے لگتا ہے تو اُسے ’راضیۃ‘ کہتے ہیں۔ پھر جب اللہ اُس کے ساتھ ہر حال میں راضی ہو جاتاہے تو ’مرضیۃ‘ کہتے ہیں۔ آخر میں جب وہ کمال کے مقام پر پہنچ کر ہر نقص سے مبرا ہو جاتا ہے اور کامل بن جاتاہے توپھر نفسِ کاملہ کو خطاب ہوتا ہے:
فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰـدِیْo وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْo
الفجر، 89: 29-30
پس تو میرے (کامل) بندوں میں شامل ہو جاo اور میری جنتِ (قربت و دیدار) میں داخل ہو جا۔
پس نفس کے درجے جیسے جیسے بلند ہوتے جاتے ہیں ویسے ویسے الہامِ خیر کو وصول کرنے کی طاقت بڑھتی چلی جاتی ہے اور اُس کے الہامات بڑھ جاتے ہیں (نفس کی ساتوں اَقسام پر تفصیلی بحث اگلے باب میں آرہی ہے)۔ پھر نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ بعض اوقات ملائکہ کلام کرنے لگتے ہیں یا ملائکہ اُس بندے کی زبان سے بولتے ہیں۔ اُسے محدَّث اور مکلَّم کہتے ہیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
قَدْ کَانَ یَکُوْنُ فِي الْأُمَمِ قَبْلَکُمْ مُحَدَّثُوْنَ فَإِنْ یَکُنْ فِي أُمَّتِي مِنْهُمْ أَحَدٌ، فَإِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ مِنْهُمْ.
وقَالَ ابْنُ وَهْبٍ: تَفْسِیْرُ ’مُحَدَّثُوْنَ‘ مُلْهَمُوْنَ.
تم سے پہلی اُمتوں میں محدَّث ہوتے تھے۔ اُن جیسا اگر کوئی ایک بھی میری اُمت میں ہوا تو وہ عمر بن خطاب ہوگا۔
ابن وہب نے کہا ہے کہ محدَّث اس شخص کو کہتے ہیں جس پر الہام کیا جاتا ہو۔
گویا الہام کا مرتبہ بڑھتے بڑھتے تحدیث تک چلا جاتا ہے کہ ملائکہ اُس بندے سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ وہ وحیِ نبوت نہیں ہوتی بلکہ وہ الہام ہی کے دائرے میں رہتا ہے۔ کیونکہ غیر نبی کو وحی نہیں ہو سکتی، اب صرف الہام ہوتے ہیں۔
یہ حدیث ’صحیح بخاری‘ میں بھی آئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَقَدْ کَان فِیْمَا قَبْلَکُمْ مِنَ الأُمَمِ نَاسٌ مُحَدَّثُوْنَ، فَإِنْ یَکُ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ فَإِنَّهٗ عُمَرُ.
بخاری، الصحیح، کتاب الأنبیاء، باب أم حسبت أن أصحاب الکهف والرقیم، 3: 1279، رقم: 3282
تم سے پہلی امتوں میں ایسے لوگ بھی ہوا کرتے تھے جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کلام فرماتا تھا، میری اُمت میں اگر کوئی ایسا ہے تو وہ عمر ہے۔
ایک روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ مروی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَقَدْ کَانَ فِیمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِیْلَ رِجَالٌ یُکَلَّمُوْنَ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَکُوْنُوْا أَنْبِیَاءَ، فَإِنْ یَکُنْ مِنْ أُمَّتِي مِنْهُمْ أَحَدٌ فَعُمَرُ.
تم سے پہلے بنی اسرائیل میں ایسے لوگ بھی ہوا کرتے تھے جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کلام فرماتا تھا حالانکہ وہ نبی نہ تھے۔ اگر اُن جیسا میری اُمت کے اندر کوئی ہے تو وہ عمر ہے۔
اِس پر حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
حضور نبی اکرم ﷺ کی امت تو اشرف الامم اور افضل الامم ہے۔ اگر پہلی امتوں میں مکلّم اور محدّث تھے یعنی ملائکہ جن سے کلام کرتے تھے یا ملائکہ جن کی زبان سے بولتے تھے اور اگر پہلی امتوں کو یہ شرف ملا ہے تو امت محمدی کا درجہ تو ان سے کہیں بلند ہے۔ گویا قیامت تک امت محمدی میں بھی یہ مقام تحدیث اور تکلیم رہے گا کہ ملائکہ جن لوگوں سے کلام کریں گے یا ان کی زبان پر ملائکہ بولیں گے (غیرنبی سے فرشتوں کے کلام کے متعلق تفصیلات آئندہ ابواب میں آرہی ہیں)۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی امت میں وہ لوگ محدّث و مکلّم ہوں گے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے یہ کہنا تاکید کے لیے ہے کہ اگر ایک بھی ہوا تو عمر تو ضرور ہوں گے۔
ایسا اِس وجہ سے نہیں فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سوا اور کوئی نہیں ہوگا بلکہ وہ تو عمرِ فاروق کا درجہ بیان فرمایا ہے، وگرنہ قیامت تک امتِ محمدی میں سے افراد محدث کے مقام پر فائز ہوتے رہیں گے۔
ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 7: 50-51
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved