اللہ تعالیٰ نے انسان میں ظاہری حواسِ خمسہ، باطنی حواسِ خمسہ، عقل (دماغ) اور اِکتسابِ علم باطنی کے ذرائع سے ماوراء کچھ اور روحانی ذرائع، وسائل اور وسائط بھی ودیعت کیے ہیں۔ انسان کو ان ذرائع کے ذریعے وہ انکشافات، الہامات اور معارف نصیب ہوتے ہیں جو عام طور پر ظاہری حواسِ خمسہ اور عقلی حواسِ خمسہ سے حاصل نہیں ہو سکتے۔
گزشتہ باب میں ہم شرعی دلائل سے یہ ثابت کرچکے ہیں کہ عقل، حواس اور قرآن مجید کی وحیِ جلی کے علاوہ کوئی اور ذریعہ (source) بھی ہے، جس سے انسان پر حقائق، موجودات اور معلومات منکشف ہوتی ہیں۔ احادیث مبارکہ کے حوالے سے ہم نے جتنے واقعات بیان کیے ہیں ان سے صرف یہ ثابت کیا ہے کہ ان کے علاوہ بھی کئی اور وسائل، ذرائع اور منابع ہیں، جہاں سے علم پھوٹتا اور بندے کو معارف عطا ہوتے ہیں۔
انسان کے وجود اور شخصیت کے اندر بنیادی طور پر تین جواہر پائے جاتے ہیں:
1۔ نفس
2۔ قلب
3۔ روح
علم بنیادی طور پر ان تین جواہر سے جنم نہیں لیتا۔ اس کائنات میں جن امور کا انسان کو علم حاصل ہے یا حسب ضرورت اسے حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اسے حاصل ہوتا رہے گا، لیکن وحی الٰہی اور آسمانی کتب روایت کے ذریعے جو علم انبیاء کرام f نے انسانیت کو دیا ہے وہ کوئی غیر نبی انسان کبھی حواس، عقل یعنی دماغ سے حاصل نہیں کر سکتا۔ مذکورہ تین بنیادی جواہر میں سے ہم پہلے قلب پر بحث کا آغاز کرتے ہیں۔
عام طور پر جب ہم قلب کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اُس سے مراد جسم میں دھڑکنے والے مشت برابر گوشت کے لوتھڑے کو لیتے ہیں۔ انسانی جسم کے اس عضو کے چار خانے یعنی چار chambers ہوتے ہیں۔ اوپر والے دو حصوں کو auricles کہتے ہیں جب کہ نچلے دو حصوں کو ventricles کہتے ہیں۔ دل کے اپنے عضلات (cardiac muscles)، tissues اور valves ہیں۔ پورے جسم کا گدلا خون وریدوں (veins) کے ذریعے قلب کے دائیں auricle میں داخل ہوتا ہے اور وہاں سے پمپ ہو کر دائیں ventricle میں جاتا ہے۔ پھر وہاں سے پمپ ہو کر پھیپھڑوں میں چلا جاتا ہے جہاں خون کی صفائی ہوتی ہے اور اسے آکسیجن ملتی ہے۔ پھیپھڑوں سے صاف ستھرا خون آکسیجن لے کر دوسری جانب کے بائیں auricle میں آجاتا ہے۔ وہاں سے پمپ ہو کر نیچے بائیں ventricle میں جاتاہے اور ادھر سے پمپ ہوکر شریانوں (arteries) کے ذریعے پورے جسم کو صاف خون فراہم کردیا جاتا ہے۔ اس دل کے ہر ایک حصے کا اپنا اپنا عمل ہے۔ عین اُسی طرح جیسے دماغ کی بھی اپنی ایک دنیا ہے۔
علم کے باب میں ہم جس قلب کی بات کر رہے ہیں وہ خون پمپ کرنے والا دل نہیں، بلکہ وہ قلب القلب ہے۔ وہ قلب ایک روحانی جوہر ہے۔ دھڑکنے والا دل تو صرف قلب القلب کا مقام ہے۔ اُس قلب القلب کا تعلق علمِ اَنوارِ الٰہیہ کے ساتھ ہوتا ہے، جس کا تعلق ایمان میں تصدیق کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور تکذیب کے ساتھ بھی۔
اگر قلب کا تعلق ایمان سے نہ ہوتا اور قلب کی تصدیق اس سے متعلق نہ ہوتی تو شرائط ایمان میں إقرار باللسان (زبان کے اقرار) کے ساتھ تصدیق بالقلب کبھی نہ ہوتی، بلکہ تصدیق بالعقل ہوتی۔ ایمانیات میں إقرار باللسان کے بعد تصدیق بالقلب ہے حالانکہ عقل کا لفظ بھی قرآن میں مستعمل ہے، لیکن عقل کا لفظ یہاں استعمال نہیں کیا اس لئے کہ تصدیق بالعقل سے ایمان نہیں بنتا۔ قابلِ غور بات ہے کہ ایمان کے باب میں عقل کی تصدیق کیوں مذکور نہیں؟ اِس لیے کہ ایمان تو اُن حقائق پر لایا جا رہا ہے جنہیں عقل جانتی ہی نہیں ہے۔ وہ ایسے حالات میں بھلا اس کی تصدیق کیسے کرے گی۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے:
ذٰلِکَ الْکِتٰـبُ لاَرَیْبَ ج فِیْهِ هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ.
البقرة، 2: 2
اِس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ (یہ) پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔
یہاں کہا جا رہا ہے کہ اس کتاب میں شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے جبکہ عقل کا تو سارا عمل (process) ہی شک سے شروع ہوتا ہے۔ ہدایت اس وقت ملے گی جب شک کی جڑ ہی کاٹ دی جائے گی۔
قرآن مجید نے تو ذہنی تصدیق کی بات ہی نہیں کی بلکہ ایمان کے لیے تصدیقِ قلبی کو ضروری قرار دیا ہے۔ ایمان کی تعریف میں إقرار باللسان کے بعد تصدیق بالقلب کے الفاظ آتے ہیں۔ یعنی زبان سے اس ہستی پر، اس کی صفات پر، حیات بعد الموت پر، عالم آخرت پر اور جو اللہ کے رسول ﷺ لے کر آئے ہیں، ان تمام چیزوں کے اقرار کے بعد دل سے اس کی تصدیق کرنا لازم ہے۔ ایمان کی اولین شرط یہی ہے کہ ان سب پر بغیر دیکھے ایمان لاؤ۔
عقل کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر دیکھا نہ ہو تو وہ ایسی کوئی چیز وصول (receive) ہی نہیں کر سکتی۔ عقل تو اس صورتِ حال میںعلم کو تشکیل ہی نہیں دے سکتی تو وہ تصدیق کہاں سے کرے گی؟ جہاں علم تشکیل پاتا ہے، وہاں تصدیق کا مرحلہ تو آخری ہوتا ہے۔ تصور سے علم تک پہنچنے کے سارے عمل کا انحصار دیکھنے، سننے، چکھنے، سونگھنے اور چھونے یعنی ظاہری حواسِ خمسہ پر ہے۔ ان حواس نے جو کچھ فراہم کیا عقل نے اُسے مانا اور تصدیق تک پہنچا دیا۔ یہاں ایمان لانے کی جو بات ہو رہی ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ، جو خالقِ کائنات ہے، اُس کی صفات پر، اللہ کی وحی پر، آخرت پر، مرنے کے بعدجی اٹھنے پر، حساب و کتاب پر، جزا و سزا پر، جنت اور دوزخ پر؛ الغرض وہ سارے حقائق جن پر ایمان لانے کی دعوت دی جا رہی ہے وہ تو حواسِ خمسہ کے دائرے میں ہی نہیں آتے۔ دوسرے لفظوں میں وہ عقل کے دائرہ کار میں ہی نہیں آتے۔
پس ایمان کی تعریف ہی سے یہ امر ثابت ہو گیاکہ دل ہی تصدیق یا تکذیب کرتا ہے۔ اگر وہ تصدیق کر دے تو بندہ مومن ہو جاتا ہے اور تکذیب کردے یا جھٹلا دے تو بندہ کافر بن جاتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ تصدیق یا تکذیب کرنے والا سینے میں موجود وہ دِل نہیں ہے جو گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، جسے ہم طبی نقطہ نظر سے دل (heart) کہتے ہیں۔ تصدیق یا تکذیب کرنا تو اس دل کا کام ہی نہیں ہے۔ اس کا کام تو خون کو پمپ کرنا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ قلب کے اندر کوئی اور قلب بھی موجود ہے۔
انسانی سینے میں موجود عضو جسے ہم انگریزی میں heart کہتے ہیں، اردو میں ہم اِسے ’دل‘ کہیں گے اور عربی میں اس کے لیے لفظ ’قلب‘ استعمال کریں گے۔ جیسے دماغ کے لیے لفظ عقل کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ مفاہیم عرف عام میں ہیں۔ جسمانی دل سے تو پورے جسم کو آکسیجن، خون کی فراہمی اور پورے نظام نے قائم ہونا ہوتاہے۔ دل کو عرفِ عام میں ’قلب‘ کہہ دیا جاتا ہے، مگر حقیقت میں یہ قلب وہ نہیں ہے جس کے علم و معرفت اور روحانیت کی دنیا میں چرچے ہیں۔
قلب کا لفظی معنیٰ ’ہر وقت تبدیل ہونے والا‘ ہے۔ جو ہمہ وقت ایک حال ہی میں رہے وہ قلب نہیں بلکہ وہ تو ایک پتھر ٹھہرا۔ اسی لیے قلب کہا جاتا ہے کہ اِس کا حال ہر وقت بدلتا رہتا ہے۔ اِس کی کیفیات و احوال چونکہ دائماً بدلتے رہتے ہیں تو اِس کے الٹ پُلٹ ہونے اور ہر وقت بدلتے رہنے کی وجہ سے عربی میں اس کا نام قلب رکھا گیا ہے۔
قلب پر کبھی نفس و شیطان کی طرف سے خیالات کا ورود ہوتا ہے، کبھی ملائکہ کی طرف سے خواطر کا نزول ہوتا ہے، کبھی رحمن کی طرف سے خواطر و تجلیات کی برسات ہوتی ہے۔ کبھی یہ پتھر کی طرح سخت ہوتا ہے اور کبھی یہ موم سے بھی نرم ہو جاتا ہے۔ کبھی اِس میں خشیت اور خشوع و خضوع کی کیفیات طاری ہوتی ہیں تو کبھی اِس میں فسق و فجور گھس جاتا ہے۔ کبھی یہ قلب خشیتِ الٰہی سے لرزنے لگتا ہے اور کبھی بے مروت اور متکبر بن جاتا ہے۔ کبھی اس میں کسی کے لیے رغبت پیدا ہوتی ہے اور کبھی کسی کے لئے نفرت در آتی ہے۔ ان سارے احوال و تجلیات کے ساتھ اِس کی کیفیات بھی بدلتی رہتی ہیں۔ چنانچہ اصل قلب گوشت کے اس لوتھڑے کا نام نہیں ہے جو سینہ میں دھڑکتا ہے۔ جس طرح عقل ایک قوت ہے اور اس قوت کے پانچ حواس ہیں، اسی طرح قلب بھی ایک قوت ہے:
فَالْقَلْبُ: هُوَ الْقُوَّةُ الَّتِي وَرَاءَ طَوْرِ الْعَقْلِ.
عقل کی حد سے آگے ایک قوت ہے جس کو قلب کہا جاتا ہے۔
یعنی جب بات عقل سے آگے نکل جائے تو ایک نئی قوت اُس کا ادراک کرتی ہے، اُس قوت کو قلب کہتے ہیں اور اُس قوت کی جگہ یہ دل ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَهٗ قَلْبٌ.
ق، 50: 37
بے شک اس میں یقینا انتباہ اور تذکّر ہے اس شخص کے لیے جو صاحبِ دل ہے (یعنی غفلت سے دوری اور قلبی بیداری رکھتا ہے)۔
قرآن مجید نے یہ نہیں فرمایا: اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ عَقْلٌ کہ جس کے پاس عقل ہو اُس کے لیے اس میں نصیحت ہے۔ گویا نصیحت جس چیز کی طرف متوجہ کر رہی ہے، عقل اُس کا احاطہ و اِدراک ہی نہیں کر سکتی۔ وہ عقل کی صلاحیت سے ماورا ہے اور یہاں سے ہی اگلا ذریعۂ علم شروع ہو جاتا ہے۔
حواسِ خمسہ یعنی آنکھیں، کان، ناک، ہاتھ اور زبان اپنی محدود صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہوئے کسی چیز کا بذاتِ خود کوئی امتیاز نہیں کر سکتے۔ یہ حواس تو آواز، صورت اور اُس کے معانی کو بھیجتے ہیں۔ اُس کے بعد سارا کام عقل کے کارخانے میں تشکیل پاتا ہے۔ جس طرح ان حواس کی محدود صلاحیت ہے اور وہ اپنی مقررہ حد سے آگے کام نہیں کر سکتے، عین اسی طرح عقل کی صلاحیت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ وہ صرف اُنہی کے بھیجے ہوئے مقدمات کو مرتب اور منظم کر کے علم کو تشکیل دیتے ہیں۔ اب جو چیزیں حواس میں نہیں آئیں گی وہ عقل میں بھی نہ سما پائیں گی۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ عقل میں صرف وہی کچھ آتا ہے جو حواس کے دائرے میں سما سکتا ہے۔
اب جن چیزوں کی طرف قرآن نے وحی اور ایمان کہہ کر متوجہ کیا ہے، وہ چیزیں دراصل وہ حقائق ہیں جو حواس اور عقل کے دائرے میں نہیں آتے۔ اِنہیں سمجھنے کے لئے بھی لازماً کوئی ذریعۂ علم ہوگا اور وہ ذریعہ عقل سے آگے کی کوئی اور چیز ہوگی۔ یہ بات ہم ثابت کرچکے کہ وہ ذریعہ یہ گوشت کا بنا ہوا عضو نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کا یہ دائرۂ کار ہی نہیں ہے۔ لا محالہ یہ وہی قلب ہوگا جسے قلب القلب کہتے ہیں۔ اِسی لیے قرآن مجید نے کہا ہے:
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَهٗ قَلْبٌ.
ق، 50: 37
بے شک اس میں یقینا انتباہ اور تذکّر ہے اس شخص کے لیے جو صاحبِ دل ہے (یعنی غفلت سے دوری اور قلبی بیداری رکھتا ہے)۔
یعنی اِس نصیحت کا فائدہ اُسی کو پہنچے گا جس کے پاس قلب ہے۔ غور طلب بات ہے کہ گوشت پوست والا دل تو ہر ایک کے پاس ہے۔ اِس میں تو امتیاز ہے ہی نہیں۔ عقل بھی ہر ایک کے پاس ہے۔ اگر یہاں صرف یہی گوشت والا عضو ہی مراد ہوتا تو یہ ہر ایک کے پاس موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو قرآن میں پھر یہ فرمانے کی کیا ضرورت تھی؟
پتہ چلا کہ یہ ’قلب‘ کوئی اور چیز ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہعقل کا دائرہ جہاں ختم ہو جاتا ہے، اس سے آگے قلب شروع ہوتا ہے۔ قلب ایک ایسا جوہر ہے جس کی حالت ہر وقت متغیر رہتی ہے۔ کبھی یہ حضرتِ الٰہیہ کے قریب جاتا ہے اور کبھی اس کے بعید۔ کبھی اس میں روشنی آتی ہے تو کبھی اندھیرا چھا جاتا ہے۔ کبھی اس میں قبض آتی ہے توکبھی بسط۔ کبھی اس کے اوپر مختلف خواطر آتے ہیں اور کبھی تجلیاتِ ربّانی کا ورود ہوتا ہے۔
جس طرح عقل حواس سے معلومات لے کر علم کو ترتیب دیتی ہے اسی طرح قلب بھی بعض ذرائع سے معلومات لے کر انہیں ترتیب دیتا ہے اور اسے علم و فہم میں تبدیل کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن نے قلب کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ اس کی نصیحت اسی کو فائدہ دے گی جس کے پاس دل ہوگا۔ قرآن مجید میں قلب کو مختلف پہلوؤں سے بیان کیا گیا ہے۔ چند آیات کا تذکرہ ذیل میں درج ہے:
1۔ قرآن مجید فرماتا ہے:
خَتَمَ اللهُ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰی سَمْعِهِمْ.
البقرة، 2: 7
اللہ نے (ان کے اپنے اِنتخاب کے نتیجے میں) ان کے دلوں اور کانوں پر مُہرلگا دی ہے۔
یہاں حواس پر مہر لگانے کا ذکر بھی کیا اور جب حواس کا ذکر ہو جائے تو اس کے اندر عقلِ دماغی خود بخود آجاتی ہے۔ یہاں دلوں پر مہر لگانے کی بات بھی کی، یعنیاُس دل میں جس فہم، معرفت اور تصدیق نے داخل ہونا تھا، اس کا داخلہ ہی بند کر دیا۔
2۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
اِلَّا مَنْ اَتَی اللهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍo
الشعراء، 26: 89
مگر وہی شخص (نفع مند ہوگا) جو اللہ کی بارگاہ میں سلامتی والے بے عیب دل کے ساتھ حاضر ہوا۔
قیامت کے دن انسان کو یہ دنیوی مال، دولت اور اولاد سمیت کوئی بھی چیز نفع نہیں پہنچائے گی۔ روزِ محشر اُسی کو سلامتی حاصل ہوگی جو قلبِ سلیم کے ساتھ اللہ کے حضور پیش ہوگا۔ یہاں جسم میں پائے جانے والے گوشت پوست کے دل کی صحت سے متعلق بات نہیں ہو رہی بلکہ یہ سلامتیِ قلب کا ذکر ہے۔ یہ سلامتی کچھ اور معاملہ ہے، جس کا ذکر اگلے مقام پر کچھ یوں کیا گیا ہے:
3. اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَهُوَ شَهِیْدٌo
ق، 50: 37
بے شک اس میں یقینا انتباہ اور تذکّر ہے اس شخص کے لیے جو صاحبِ دل ہے (یعنی غفلت سے دوری اور قلبی بیداری رکھتا ہے) یا کان لگا کرسُنتا ہے (یعنی توجہ کو یکسو اور غیر سے منقطع رکھتا ہے) اور وہ (باطنی) مشاہدہ میں ہے (یعنی حسن و جمالِ الوہیّت کی تجلّیات میں گم رہتا ہے)۔
4۔ اسی طرح آگے قرآن مجید کہتا ہے:
وَمَنْ یُّـعَـظِّـمْ شَعَآئِرَ اللهِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِo
الحج، 22: 32
اور جو شخص اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے (یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات، احکام اور مناسک وغیرہ کی تعظیم جو اللہ اور اللہ والوں کے ساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں) تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقویٰ میں سے ہے (یہ تعظیم وہی لوگ بجا لاتے ہیں جن کے دلوں کو تقویٰ نصیب ہوگیا ہو)۔
عضوی و جسمانی ’دل‘ کا تو فجور و تقویٰ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کا تو فریضہ (function) ہی کچھ اور ہے۔ اس لیے فرمایا کہ یہ دلوں کا تقویٰ ہے۔ یہاں لفظ ’نفس، ’نفوس‘، ’عقل‘ اور ’عقول‘ بھی استعمال ہو سکتا تھا۔ دونوں قرآنی لفظ ہیں۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے:
اَفَـلَا یَعْقِلُوْنَo
یٰسین، 36: 68
پھر کیا وہ عقل نہیں رکھتے۔
مگر تقویٰ کو عقل کے بجائے دل سے نسبت دی ہے۔
5۔ ایک اور مقام پر فرمایا گیا ہے:
اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَاo
محمد، 47: 24
یا ان کے دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں۔
6. پھر فرمایا:
کَلَّا بَلْ سکتہ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ.
المطففین، 83: 14
(ایسا) ہر گز نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) ان کے دلوں پر ان اعمالِ (بد) کا زنگ چڑھ گیا ہے۔
دلوں پر گناہوں اور اعمالِ سیئہ کا زنگ چڑھنے سے مراد قلب القلب ہے۔ اس سے عضوِ جسمانی ہرگز مراد نہیں ہے کہ جس پر کوئی زنگ چڑھے۔
حضور نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے:
إِنَّ لِکُلِّ شَیْئٍ صِقَالَةً، وَإِنَّ صِقَالَةَ الْقُلُوبِ ذِکْرُ اللهِ، وَمَا مِنْ شَیْئٍ أَنْجٰی مِنْ عَذَابِ اللهِ مِنْ ذِکْرِ اللهِ: قَالُوْا: وَلَا الْجِهَادُ فِيْ سَبِیْلِ اللهِ؟ قَالَ: وَلَوْ أَنْ تَضْرِبَ بِسَیْفِکَ حَتّٰی یَنْقَطِعَ.
ہر چیز کو چمکانے والی کوئی چیز ہوتی ہے اور دلوں کو چمکانے والی شے اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔ اللہ کے ذکر سے بڑھ کر کوئی چیز عذاب الٰہی سے نجات نہیں دلاسکتی۔ صحابہ نے عرض کیا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (نہیں) اگرچہ تم اپنی تلوار چلاتے رہو یہاں تک کہ وہ ٹوٹ جائے۔ (یعنی ذکر عذاب الٰہی سے جہاد سے بڑھ کر نجات دلانے والا ہے)۔
دل پر زنگ اور سیاہی آجانے کے متعلق بھی حضور ﷺ نے متعدد مقامات پر اظہار فرمایا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ کَانَتْ نُکْتَۃٌ سَوْدَائُ فِي قَلْبِهٖ. فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ، صُقِلَ قَلْبُهٗ. فَإِنْ زَادَ زَادَتْ حَتّٰی تَغْلَفَ قَلْبُهٗ. فَذٰلِکَ الرَّانُ الَّذِي ذَکَرَهُ اللهُ فِي کِتَابِهٖ {کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَo} (المطففین، 83: 14)
مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پرایک سیاہ نشان بن جاتا ہے، پھر اگر وہ توبہ کرلے اور (گناہ سے) ہٹ جائے اور استغفار کرے تو اس کا دل صاف کر دیا جاتا ہے۔ (لیکن) اگر وہ ڈٹا رہے اور زیادہ (گناہ) کرے تو یہ نشان بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے (پورے) دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور یہی وہ ’الرَانَ‘ (زنگ) ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب (قرآن مجید) میں فرمایا ہے: {کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَo} ’(ایسا) ہر گز نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) ان کے دلوں پر ان اَعمالِ (بد) کا زنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کیا کرتے تھے (اس لیے آیتیں ان کے دل پر اثر نہیں کرتیں)۔‘
ایک روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ لِلْقُلُوْبِ صَدَأً کَصَدَإِ الْحَدِیْدِ وَجَـلَاؤُهَا الْاِسْتِغْفَارُ.
لوہے کی طرح دلوں کا بھی ایک زنگ ہے اور اس کا صیقل (یعنی صفائی اور چمک) استغفار ہے۔
شیخ عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان اقدس ہے:
إِنَّ هٰذِهِ الْقُلُوْبَ لَتَصْدَأُ، وَإِنَّ جَلَآئَهَا قِرَائَةُ الْقُرْآنِ، وَذِکْرُ الْمَوْتِ، وَحُضُوْرُ مَجَالِسِ الذِّکْرِ.
عبد القادر الجیلانی، الفتح الرباني: 251
بے شک یہ قلوب بھی زنگ آلود ہو جاتے ہیں اور بے شک ان کی جلاء اور چمک قرآن مجید کا پڑھنا، موت کو یاد کرنا اور مجالس ذکر و وعظ میں حاضر ہونا ہے۔
7۔ ایک اور جگہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَلٰـکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ.
البقرة، 2: 260
لیکن (چاہتا ہوں کہ) میرے دل کو بھی خوب سکون نصیب ہو جائے۔
اِس آیت کریمہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اُس واقعے کا ذکر ہے جب انہوں نے کہا تھا کہ میرے مولا! مجھے دکھا دے تو مردہ کیسے زندہ کرتا ہے؟ میں دل کا اطمینان چاہتا ہوں۔
8۔ قرآن مجید نے دلوں کے ایک اطمینان کو اس طرح بھی ذکر فرمایا ہے:
اَ لَا بِذِکْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُo
الرعد، 13: 28
جان لو کہ اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
9۔ وحی کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے:
نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُo عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَo
الشعراء، 26: 193-194
اِسے روح الامین (جبریل علیہ السلام) لے کر اترا ہےo آپ کے قلبِ (انور) پر تاکہ آپ (نافرمانوں کو) ڈر سنانے والوں میں سے ہو جائیں۔
قرآن حکیم کی مذکورہ تمام آیات اس لیے بطور حوالہ پیش کی ہیں تاکہ یہ چیز ذہن نشین ہو جائے اور کسی قسم کا کوئی شک نہ رہے کہ قلب ایک منفرد جوہر ہے۔ ’عقل‘ کا لفظ بھی قرآن مجید میں موجود ہے۔ اگر مذکورہ آیات میں مراد ’عقل‘ تھی تو ہر جگہ لفظ ’عقل‘ ہی استعمال کیا جاتا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر اسی لفظ کو مختلف پیرائے میں استعمال بھی کیا ہے۔
1۔ سورۃ البقرۃ میں ارشاد فرمایا:
یَسْمَعُوْنَ کَلَامَ اللهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْ م بَعْدِ مَاعَقَلُوْهُ.
البقرة، 2: 175
اللہ کا کلام (تورات) سنتے پھر اسے سمجھنے کے بعد (خود) بدل دیتے۔
2۔ پھر ایک اور مقام پر فرمایا گیا ہے:
وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ ط اَفَـلَا تَعْقِلُوْنَo
البقرة، 2: 44
حالانکہ تم (اللہ کی) کتاب (بھی) پڑھتے ہو، تو کیا تم نہیں سوچتے؟
3۔ اس طرح قرآن مجید نے جگہ جگہ عقل وشعور سے کام لینے کا ذکر فرمایا ہے:
لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَo
البقرة، 2: 73
تاکہ تم عقل و شعور سے کام لو۔
4۔ سورۃ الملک میں فرمایا:
وَقَالُوْا لَوْکُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِیْٓ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِo
الملک، 67: 10
اور کہیں گے: اگر ہم (حق کو) سنتے یا سمجھتے ہوتے تو ہم (آج) اہلِ جہنم میں (شامل) نہ ہوتے۔
5۔ پھر فرمایا گیا:
وَ تِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ ج وَمَا یَعْقِلُهَآ اِلَّا الْعَالِمُوْنَo
العنکبوت، 29: 43
اور یہ مثالیں ہیں ہم انہیں لوگوں (کے سمجھانے) کے لیے بیان کرتے ہیں اور انہیں اہلِ علم کے سوا کوئی نہیں سمجھتا۔
6۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَo
البقرة، 2: 164
اور ہواؤں کے رُخ بدلنے میں اور اس بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان (حکمِ الٰہی کا) پابند (ہو کر چلتا) ہے (ان میں) عقلمندوں کے لیے (قدرتِ الٰہی کی بہت سی) نشانیاں ہیں۔
یہ آیات بطورِ نمونہ ہم نے پیش کر دیں کہ ’عقل‘ کوئی ایسا لفظ نہیں ہے کہ قرآن مجید میں مستعمل نہیں ہوا۔ یہ قرآن مجید میں استعمال ہوتا ہے اور اسی حقیقی نوعیت (sense) میں استعمال ہوتا ہے، مگر قرآن مجید میںموجود اور استعمال ہو کر بھی ان مقامات پراس کی جگہ ’قلب‘ کے لفظ کو لایا گیا ہے۔ ان تمام چیزوں سے بنیادی طور پر یہ نقطہ نظر مضبوط (develop) ہوتا ہے کہ اس جسمانی عضو سے ہٹ کر ’قلب‘ ایک منفرد جوہر اور حقیقت ہے جو بہت سارے علوم کا ذریعہ بنتا ہے۔
قلب کی اِسی منفرد اور علیحدہ حقیقت کی بناء پر اس کی مختلف کیفیات ہیں:
1۔ قلبِ میّت
2۔ قلبِ مریض
3۔ قلبِ حَی
4۔ قلبِ سلیم
5۔ قلبِ شہید
قلب کی یہ کیفیات اس کے ذاکر یا غافل ہونے کی بناء پر ترتیب پاتی ہیں۔
قرآن مجید نے فرمایا ہے:
وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِکْرِنَا.
الکهف، 18: 28
اور تو اس شخص کی اطاعت (بھی) نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے۔
یعنی اَہلِ ایمان کو اُن کی پیروی کرنے کا حکم ہے جن کے قلب ذاکر ہیں اور اُن کی پیروی سے روکا گیا ہے جن کے دل غافل ہیں۔ قلب کبھی غفلت کی کیفیت میں ہوتا ہے اور کبھی تذکّر کی کیفیتمیں ہوتا ہے۔ اگر اس میں کفر ہے تو وہ دلِ مردہ ہے۔ اگر اس میں ایمان آجائے تو وہ دلِ زندہ ہے۔ اگر اس میں فسق و فجور ہے تو وہ قلبِ ضعیف اور قلبِ بیمار ہے۔ کبھی وہ زندہ دل ہو کر قلبِ سلیم بن جاتا ہے۔ کہیں یہ قلبِ عارف ہے تو کہیں قلبِ ذاکر ہے۔ جیسے جیسے قلب کی حالتیں بدلتی جاتی ہیں ویسے ویسے اس کا عنوان بھی تبدیل ہوتا چلا جاتا ہے اور اس کا تعلق پھر عالمِ نور کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔
دراصل قلب ایک ایسا میدانِ جنگ ہے جہاں ایک طرف روح اپنے آسمانی اور ملاء اَعلیٰ کے نورانی لشکروں کے ساتھ اس کے حال کو سنوارنا چاہتی ہے جب کہ اس کے برعکس نفس اپنے جسمانی، ظلماتی اور خواہشات کے لشکروں کے ساتھ اس پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اس دوران قلب جب نفس کے زیرِ اثر ہو جاتا ہے تو حیوانوں کی طرح قلبِ ظلماتی اور قلبِ بہیمی ہو جاتا ہے۔ پھر کبھی درمیان میں غیر جانب دار (neutral) ہو جائے تو قلبِ جسمانی ہو جاتا ہے۔ کبھی روح کا غلبہ ہو جائے تو قلبِ ملکوتی ہو جاتا ہے۔ اگر اس سے بھی بلند تر ہو جائے تو قلبِ جبروتی اور لاہوتی ہو جاتا ہے اور پھر ملاء اعلیٰ سے بڑھ کر حضرتِ صمدیت کے ساتھ اس کا تعلق جڑ جائے تو وہ قلبِ ربانی ہو جاتا ہے۔
مذکورہ سب حالتیں قلب کے مختلف عنوانات ہیں۔ جیسے جیسے حالت بدلتی جاتی ہے ویسے ویسے اُس کا عنوان بھی تبدیل ہوتا چلا جاتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
اَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَجَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا.
الأنعام، 6: 122
بھلا وہ شخص جو مُردہ (یعنی ایمان سے محروم) تھا پھر ہم نے اسے (ہدایت کی بدولت) زندہ کیا اور ہم نے اس کے لیے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لیے) چلتا ہے اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ (وہ جہالت اور گمراہی کے) اندھیروں میں (اس طرح گھِرا) پڑا ہے کہ اس سے نکل ہی نہیں سکتا۔
یہاں مردہ سے مراد وہ موت نہیں ہے جس کے بعد تدفین کر دی جاتی ہے۔ قرآن مجید استعارہ میں بات کر رہا ہے۔ طبی نقطۂ نظر (medical point of view) سے تو وہ زندہ ہیں مگر قرآن انہیں مردہ اِس لیے کہہ رہا ہے کہ ان کے دل جہالت اور کفر کی ظلمت کے باعث مر چکے ہیں۔ یہ وہ موت و حیات ہے جس کا تعلق اُس ’قلب‘ کے ساتھ ہے جو اِس وقت زیرِ بحث ہے۔ آیت مبارکہ کی رُو سے وہ لوگ جو مردہ تھے اور جن کے دلوں میں کفر تھا، انہیں ایمان کی توفیق بخشی گئی تو ان کا دل زندہ ہوگیا۔ پھر ترقی دیتے ہوئے ان کے قلوب کو نور سے بھر دیا گیا۔ جب ایمان کے ذریعے قلب کے زندہ ہونے اور پھر اُسے نور عطا کیا جانا متحقق ہوگیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے قلب میں نور ہوتا ہے اور کسی کے دل میں تاریکی ہوتی ہے۔ مومن منور قلب لے کر لوگوں میں چلتا ہے اور اپنے قلب کا نور لوگوں میں بانٹ کر اُن کے دلوں میں روشنیاں بکھیرتا ہوا ظلمتوں کو دور کرتا چلا جاتا ہے۔ پس صاحبِ ایمان شخص وہ ہے جو کفر کی ظلمتوں سے نکل کر قلبِ زندہ کا حامل ہو جائے۔ ایسے شخص کو ایمان کے نور کے باعث قلبِ نورانی نصیب ہوتا ہے اور پھر وہ صرف نور والا ہی نہیں رہتا بلکہ لوگوں میں بھی نور کی خیرات بانٹنے والا بن جاتا ہے۔ ایسے خوش نصیب کو اس شخص کے برابر کیسے سمجھ لیا جائے جو ابھی تک خود اندھیروں میں بھٹک رہا ہو! گویا نورِ قلب رکھنے والے اور ظلمتِ قلب رکھنے والے ہرگز برابر نہیں ہو سکتے اور قلب ہی وہ برتن ہے جس میں یہ نور آتا ہے۔ ارشاد فرمایا گیا:
یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ یُؤْتِکُمْ کِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ط وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo
الحدید، 57: 28
اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اُس کے رسولِ (مکرّم ﷺ) پر ایمان لے آؤ وہ تمہیں اپنی رحمت کے دو حصّے عطا فرمائے گا اور تمہارے لیے نور پیدا فرما دے گا جس میں تم (دنیا اور آخرت میں) چلا کرو گے اور تمہاری مغفرت فرما دے گا، اور اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔
یہ نور اس کے جسم پر نمودار نہیں ہوگا بلکہ اس کا محل تو قلبِ مومن ہے۔ یہ اجالا تو اُس کے قلب کو محلِ نور بنا دے گا۔ گویا یہ الگ قلب ہے جس میں نور کی شعاعیں پھوٹتی ہیں۔ اس میں رحمت کے دو حصے ملیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنا نور عطا فرمائے گا۔ یہ وہی نور ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ میں یوں فرمایا گیا ہے:
اللهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ.
البقرة، 2: 257
اللہ ایمان والوں کا کار ساز ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے عالم خَلق میں اپنے نور کا ایک چشمہ وجودِ محمد ﷺ میں رکھا ہے اور ایک چشمہ قرآن کی شکل میں اُمتِ مسلمہ کو عطا فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں کہیں حضور نبی اکرم ﷺ کو نور سے تعبیر کیا اور کہیں قرآن مجید کو نور قرار دیا گیا ہے۔ ذیل میں چند مقاماتِ کا تذکرہ کیا جاتا ہے:
1۔ ارشاد فرمایا:
قَدْ جَآئَکُمْ مِّنَ اللهِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌo
المائدة، 5: 15
بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد ﷺ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)۔
2۔ دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے:
فَاٰمِنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهٖ وَالنُّوْرِ الَّذِیْٓ اَنْزَلْنَا ط وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌo
التغابن، 64: 8
پس تم اللہ اور اُس کے رسول (ﷺ) پر اور اُس نور پر ایمان لاؤ جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، اور اللہ اُن کاموں سے خوب آگاہ ہے جو تم کرتے ہو۔
3۔ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
یٰٓـاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآئَکُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًاo
النساء، 4: 174
اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے (ذاتِ محمدی کی صورت میں ذاتِ حق جل مجدہٗ کی سب سے زیادہ مضبوط، کامل اور واضح) دلیلِ قاطع آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف (اسی کے ساتھ قرآن کی صورت میں) واضح اور روشن نُور (بھی) اتار دیا ہے۔
قرآن مجید نے حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس اور کلامِ الٰہی دونوں کو نور کہا ہے۔ وہی نور مومن کے قلب میں منتقل ہوتا ہے اور یہی نور عالمِ بالا اور ملاء اعلیٰ کے اَسرار و رموز اور مغیبات اور معارف کی دنیا سے جڑ جاتا ہے۔ یہاں اس کے قلب پر اَسرار و رُموز اور علوم اِلقاء ہونے لگتے ہیں۔ اس کیفیت کو کہتے ہیں کہ قلب کے اندر حکمت، علوم اور معرفت کا چشمہ پھوٹ رہا ہے۔
اسی کیفیت کے حوالے سے اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:
اللهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط مَثَلُ نُوْرِهٖ کَمِشْکٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌ ط اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ ط اَلزُّجَاجَةُ کَاَنَّهَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰـرَکَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لَّاشَرْقِیَّةٍ وَّ لَاغَرْبِیَّةٍ یَّکَادُ زَیْتُهَا یُضِٓیْئُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ط نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ ط یَهْدِی اللهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُ ط وَیَضْرِبُ اللهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ ط وَاللهُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌo
النور، 24: 35
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال (جو نورِ محمدی کی شکل میں دنیا میں روشن ہے) اُس طاق (نما سینۂ اَقدس) جیسی ہے جس میں چراغِ (نبوت روشن) ہے؛ (وہ) چراغ (قلبِ محمدی کے) فانوس میں رکھا ہے۔ (یہ) فانوس (نورِ الٰہی کے پَرتو سے اس قدر منور ہے) گویا ایک درخشندہ ستارہ ہے (یہ چراغِ نبوت) جو زیتون کے مبارک درخت سے (یعنی عالم قدس کے بابرکت رابطہ وحی سے یا انبیاء و رُسل ہی کے مبارک شجرۂ نبوت سے) روشن ہوا ہے نہ (فقط) شرقی ہے اور نہ غربی (بلکہ اپنے فیضِ نور کی وسعت میں عالم گیر ہے)۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تیل (خود ہی) چمک رہا ہے اگرچہ ابھی اسے (وحیِ ربّانی اور معجزاتِ آسمانی کی) آگ نے چھوا بھی نہیں۔ (وہ) نور کے اوپر نور ہے (یعنی نورِ وجود پر نورِ نبوت گویا وہ ذات دوہرے نور کا پیکر ہے)۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنے نور (کی معرفت) تک پہنچا دیتا ہے، اور اللہ لوگوں (کی ہدایت) کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے، اور اللہ ہر چیز سے خوب آگاہ ہے۔
اس آیت کریمہ کی دو تفاسیر ہیں۔ دونوں تفاسیر صحابہ کرام، تابعین، اتباع التابعین l سے منسوب ہیں اور ائمہ تفسیر کے ہاں سیکڑوں کتب میں موجود ہیں۔
1۔ پہلی تفسیر کے مطابق چراغ دان سے مراد حضور نبی اکرم ﷺ کا وجودِ اقدس ہے۔
2۔ دوسری تفسیر کے مطابق اس سے مراد قلبِ مومن ہے۔
انسان کے سینے کی شکل چراغ دان کی طرح ہوتی ہے۔ پہلے زمانوں میں گھر بنتے تھے تو گھر کے دروازے کے دائیں بائیں چراغوں کے رکھنے کے لیے محراب بنے ہوتے تھے۔ انسانی جسم میں اس کا شیشہ پسلیوں کا ڈھانچہ ہے جس کے اندر دل کا مقام ہے۔ اس سے اوپر گردن کے ساتھ جو حصہ ملتا ہے، اس کی شکل دیکھیں تو وہ چراغ دان کی مانند ہے۔ آیت کریمہ میں شیشہ سے مراد قلب ہے اور اُس دل کے اندر چراغ روشن ہے۔ جیسے بلب شیشے کا بنا ہوا ہوتا ہے، بلب کو دیکھیں تو اس کا شیشہ نہیں جل رہا ہوتا، وہ تو محض ایک cover ہے۔ اُس کے اندر تار جل کر روشن ہو رہی ہوتی ہے۔ وہاں سے روشنی پھوٹتی ہے؛ یعنی اندر تار ہے اور اسے cover کرنے کے لیے شفاف (transparent) وجود چاہیے۔ اسی لیے تو شیشے کا بنایا گیا ہے تاکہ اُس میں سے شعاعیں نکل کر باہر روشنی بکھیریں۔
اِسی طرح جب مومن کے دل میں نورِ الٰہی آ جاتا ہے تو پھر قلب کی حیثیت شیشے کی طرح شفاف ہو جاتی ہے اور اس کے اندر نورِ الٰہی کا چراغ جل رہا ہوتا ہے۔ اُس نورِ ربانی کی شعاعیں جب نکلتی ہیں تودل کی دیواریں اس کے راستے میں حائل نہیں ہوتیں اور وہ نور اَطراف و اَکناف میں پھیل جاتا ہے۔
مذکورہ آیت کریمہ میں مزید بیان کیا گیا کہ وہ چراغ زیتون کے درخت سے روشن ہو رہا ہے اور وہ کسی سمت کا محتاج نہیں ہے۔ اس کی کیفیت یہ ہے کہ جس کے اندر یہ چراغ روشن ہو جائے تو پھر اس کا عالم یہ ہوتا ہے کہ اگر آگ نہ بھی چھوئے تو تب بھی لگتا ہے کہ یہ زیتون کا تیل بھڑک اٹھے گا، یعنی جب یہ نورِ حق دل کے اندر روشن ہو جاتا ہے تو اسے براہ راست ملاء اعلیٰ سے علوم و معارف ملنے لگتے ہیں؛ پھر وہ کتابوں، لائبریریوں، مدرسوں کی محتاجی کے بغیر علوم و معارف کے سمندر بہا دیتا ہے۔ نورِ الٰہی کے طفیل قلب مومن سے براہ راست علم جنم لیتا ہے۔ یہ صرف مثال ہے وگرنہ اس سے مراد زیتون کا اصل درخت ہے، نہ تیل ہے اورنہ ہی اُسے آگ کا چھونا ہے۔
ایسے نور کا حامل مردِ مومن - جس کا قلب نورِ حق کا چراغ بن گیا ہو - جس سے ملاء اعلیٰ کا نور علم و معرفت کی شکل میں چشمہ بن کر پھوٹ رہا ہو اور اگر ایسا مردِ مومن کتابوں اور نصابات کو پڑھ لے تو مزید نُوْرٌ عَلٰی نُوْر ہوجاتا ہے۔ جملہ علوم اس کے قلب میں جمع ہوجاتے ہیں اور اس طرح گویا وہ دوہرے نور کا پیکر بن جاتا ہے۔
ایک دوسرے موقع پر فرمایا گیا ہے:
اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتْ اَوْدِیَةٌ م بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَّابِیًا.
الرعد، 13: 17
اس نے آسمان کی جانب سے پانی اتارا تو وادیاں اپنی (اپنی) گنجائش کے مطابق بہہ نکلیں، پھر سیلاب کی رَو نے ابھرا ہوا جھاگ اٹھا لیا۔
اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے مختلف مثالیں بیان فرماتا ہے وگرنہ اُس بے نیاز ذات کو دریاؤں اور وادیوں سے کیا واسطہ اور سروکار ہے؟ روز مرہ کی اشیاء کی مثال بیان کرنے کی حقیقت یہ ہے کہ اس آیت کریمہ کو بارش، دریاؤں اور وادیوں سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ سمجھانے کے لیے تشبیہات اور استعارات کا استعمال کر رہا ہے۔ انسان ایسی مثالیں چونکہ آنکھوں سے روز دیکھتا ہے اور جس چیز کو ہر روز دیکھتا ہو تو اسے مثال سے سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ اس آیت کریمہ میں وادیوں سے مراد دلوں کی وادیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا۔ اس برسات سے مراد علوم و معارف، اَنوارِ تجلیاتِ اِلٰہیہ اور اللہ کے علم کی عطاؤں کی بارش ہے، جن کا احاطہ یا ادراک نہ حواس کر سکے تھے اور نہ ہی عقل کر سکی تھی۔ اب وہ علوم قلوب کے برتنوں میں اترنے تھے۔ جیسا کہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنّ ِللهِ تَعَالٰی فِي الْأَرْضِ أَوَانِيَ، أَلاَ وَهِيَ الْقُلُوْبُ، فَأَحَبُّهَا إِلَی اللهِ أَرَقُّهَا وَأَصْفَاهَا وَأَصْلَبُهَا.
حکیم ترمذی، نوادر الأصول، 4: 100
بے شک زمین پر اللہ تعالیٰ کے کچھ برتن ہیں۔ آگاہ ہو جاؤ! وہ (اللہ کے عبادت گزار بندوں کے) دل ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ قلوب وہ ہیں جو بہت نرم، بہت صاف اور بہت مضبوط و مستحکم ہوں۔
عتبہ خولانی سے مرفوع روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
إِنَّ ِللهِ آنِیَةً مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، وَآنِیَةُ رَبِّکُمْ قُلُوْبُ عِبَادِهِ الصَّالِحِیْنَ، وَأَحَبُّهَا إِلَیْهِ أَلْیَنُهَا وَأَرَقُّهَا.
طبرانی، مسند الشامیین، 2: 19، رقم: 840
بے شک زمین پر اللہ تعالیٰ کے کچھ برتن ہیں۔ اور تمہارے رب کے برتن اس کے صالح وعبادت گزار بندوں کے دل ہوتے ہیں؛ اور ان میں سے بھی اُسے زیادہ محبوب وہ قلوب ہوتے ہیں جو بہت نرم اور بہت صاف و شفاف ہوں۔
ان تفصیلات سے یہ بھی واضح ہوا کہ یہ نہ سمجھ لینا کہ ہر دل میں ایک جیسی وسعت ہوتی ہے، کسی دل کی وادی تنگ اور کسی کی وسیع و عریض ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو اس کے دل کی وادی کی وسعت کے مطابق اپنے فیض کا پانی عطا فرماتا ہے۔ جس کسی نے اپنے دلوں کو جتنا صاف کر لیا، اللہ نے اس کے دلوں کی وادی کو اتنا ہی وسیع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے جس کے دلوں کی وادی کو جتنا گہرا بنا دیا، اس میں اتنا ہی پانی سمونے کی گنجائش ہوگی۔
یہ مشاہدۂ عام ہے کہ جب وادیاںبھر جاتی ہیں تو پانی کے تیزی سے آنے سے پانی کے اوپر جھاگ آ جاتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ پانی کے اندر موجود گدلا پن ہوتا ہے جو جھاگ بن کر اوپر آجاتا ہے۔ گویا اوپر نظر آنے والی یہ جھاگ دراصل صاف پانی نہیں ہوتا۔ دین کا خالی نام لینے والوں کا شور و غوغا اور دعوے بھی اس جھاگ کی مانند ہوتے ہیں جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی، کیونکہ یہ آلودہ جھاگ بے کار شے ہے۔
علم کے باب میں بھی ایک جھاگ ہے اور ایک اصل پانی ہے۔ وہ اصل فیض ربانی کا پانی ہے جو ملاء اعلیٰ سے اترا، جس نے وادی کو بھرا اور جو میل کچیل، غلاظت تھی وہ جھاگ بن کر پانی کی سطح کے اوپر آگئی۔ اب یہ تعین کرنا ہے کہ کتنے ہیں جو علم کے نام پر جھاگ لیے پھرتے ہیں اور کتنے وہ ہیں جن کے قلوب کی وادیاں صاف اور شفاف پانی سے لبریز ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جنہیں فیض عطا کرنا ہوتا ہے تو ان کی جھاگ پانی میں بہہ جاتی ہے۔
سورۃ الرعد کی اسی مذکورہ آیت میں مزید ارشاد فرمایا:
وَمِمَّا یُوْقِدُوْنَ عَلَیْهِ فِی النَّارِ ابْتِغَآءَ حِلْیَةٍ اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُهٗ.
الرعد، 13: 17
اور جن چیزوں کو آگ میں تپاتے ہیں، زیور یا دوسرا سامان بنانے کے لیے اس پر بھی ویسا ہی جھاگ اٹھتا ہے۔
جس طرح آسمان سے اترنے والی بارش کے پانی کی مانند ملاء اعلیٰ سے اترنے والا نورِ علم بھی اندر کی میل کچیل کو جھاگ بنا کر اوپر ابھار دیتا ہے، اسی طرح سونے، چاندی، تانبے کو اگر آگ پر رکھ دیں تو ان کے اندر جو ملاوٹ ہوتی ہے وہ بھی جھاگ کی شکل میں اوپر آجاتی ہے۔ یہ جھاگ دراصل علمِ باطل ہے۔ اس کے برعکس جو صاف و شفاف پانی ہے، وہ ملاء اعلیٰ سے بشکلِ نور اترا ہے اور اس سے مراد علمِ حق ہے۔ اس لئے کہ آیت کا اگلا حصہ اس پر دلالت کر رہا ہے جس میں ارشاد فرمایا گیا ہے:
کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ.
الرعد، 13: 17
اس طرح اللہ حق اور باطل کی مثالیں بیان فرماتا ہے۔
بشر کے اندر قلب کے ساتھ ساتھ نفس بھی ہے۔ یہ نفس ترقی پا کر مختلف مدارج طے کر کے نفسِ ملہمہ تک پہنچ جاتا ہے۔ چنانچہ ہر نفس کی اپنی کچھ نہ کچھ خاصیت چلتی رہتی ہے اور اس کے خواص بدلتے رہتے ہیں۔ ہر ایک سے جھاگ نکلتا ہے مگر جو اَولیاء، عرفاء اور اہل اللہ ہوتے ہیں ان کے جھاگ کو اللہ تعالیٰ کے فیض کا پانی اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے۔ اس طرح پانی کی سطح اور گہرائی صاف و شفاف ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس جو اہل اللہ نہیں ہوتے، جن کی حفاظت اللہ کا علم اور نورِ الٰہی نہیں کر رہا ہوتا، وہاں جھاگ اوپر رہ جاتی ہے۔ چنانچہ ہم میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو علم کا نام لیتے ہیں مگر ان کے پاس علم نہیں بلکہ اس کی جھاگ ہوتی ہے۔ یہ جھاگ کسی کام کی نہیںہوتی، وہ صرف مناظرے، مجادلے، جھگڑے، فتویٰ بازی، فتنہ پروری، جنگ و جدال اور امت میں ایک انتشار کا نام ہے۔ وہ سب کچھ ایک رعب و دبدبہ بنانے اور صرف ذاتی نفس پرستی کے لئے ہے، جبکہ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے فضل سے جس کی جھاگ اتر جاتی ہے، پانی صاف و شفاف ہو جاتا ہے تو وہ دعوے نہیں کرتا بلکہ وہ لوگوں کے لئے نفع بخش ہو جاتا ہے اور لوگ اس سے فیض یاب ہوتے ہیں۔
یہ امر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اگر پانی ذخیرہ کرنے والے مقامات کی تہوں کی بروقت صفائی نہ ہو تو مٹی، ریت اورکنکریاں جمتے جمتے ان کی سطح اوپر آ جاتی ہے یعنی ان میں پانی سمونے کی گنجائش (capacity) کم رہ جاتی ہے۔ اسی طرح دلوں کی وادی کی اگر صفائی (تصفیہ) نہ ہو تو اَعمالِ سیئہ، گناہوں اور حرص و شہوت کی کثافت کے باعث دل کی وسعت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ بعد ازاں دل کے ظرف میں تھوڑے علم کی گنجائش رہ جاتی ہے ۔ اس کے برعکس اگر تطہیر ہوتی رہے، نفوس کا تصفیہ اور قلوب کا تزکیہ ہوتا رہے توقلب کی وادی گہری ہوتی چلی جائے گی۔ اس طرح قلب کا ظرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔ جیسے جیسے قلب کا ظرف بڑھتا چلا جاتا ہے ویسے ویسے اس میں انوارِ الٰہیہ سموتے چلے جاتے ہیں اور علوم و معارف کا نزول ہوتا رہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات تو برتن دیکھتی ہے کہ بندے نے صفاء قلب کے لئے کتنی محنت کی اور اپنے دل کی وادی کو کتنا وسیع و عریض اور گہرا کیا ہے؟ اگر کوئی اس درجے تک پہنچ گیا تو اس پر انوار اور علوم و معارف کی بارش ہوگی۔ اُسے یہ بارش اس قدر فائدہ دے گی جس قدر اس کے ظرف میں گنجائش ہوگی۔ اب ایک وہ ہیں جن کے دل اس قابل ہی نہیں ہیں کہ ان پر انوارِ الٰہیہ اور علوم ربانیہ کی برسات کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کی یاد سے عاری وہ دل سنگ کی طرح سنگین ہوتے ہیں۔ بارش تو ہر جگہ ہوتی ہے مگر پتھر پر تو پانی ٹھہرتا نہیں بلکہ بہہ جاتا ہے۔ چنانچہ جو دل پتھروں کی طرح ہوتے ہیں وہاں تو بارش کا ہونا اور نہ ہونا ایک جیسا ہے۔ وہاں بارش ہوئی بھی تو پانی ٹھہرنے کے بجائے بہہ جائے گا۔
کئی دل تعفن زدہ زمین کی طرح ہوتے ہیں، جن کے اندر غلاظت ہوتی ہے۔ جب بارش کا پانی اُن پر پڑے گا تو اس سے مزید تعفن اور بدبو پھوٹے گی۔ اس طرح ایک روحانی تعفن ہوتا ہے۔ جن کے اندر حرص، کبر، شہوت، گناہ اور غفلت وغیرہ جیسی باطنی اور روحانی غلاظتیں ہیں، ایسے لوگوںکے باطن سے یہ تعفن جب پھوٹے گا تو اس کی اپنی بربادی تو ہے ہی لیکن ساتھ بیٹھنے والے کا ایمان بھی برباد ہو جائے گا۔ اُس کی صحبت و مجلس میں بیٹھنے والے کو اس کا تعفن برباد کر دے گا۔ یہ صحبتوں کی تاثیر ہوتی ہے۔ ہمیں بیٹھنے سے پہلے سو بار سوچنا چاہیے کہ کس مجلس میں بیٹھنا ہے اور کس مجلس میں نہیں بیٹھنا۔
یاد رکھیں! جس کی زندگی میں غفلت دیکھیں خواہ وہ بظاہر کتنا بڑا عالم ہو، اس سے علم سیکھنے کے لیے نہ بیٹھیں۔ جس شخص کو نمازوں کا تارک دیکھیں، جس کے مزاج میں غفلت اور رخصت دیکھیں، جو عزیمت کی طرف آنے کے بجائے رخصتوں کو تلاش کرتا ہے، ایسے شخص کی صحبت کے اثرات برے ہوں گے۔ یہ اثرات ہمارے ایمان کی قوت اور روشنی کو کم کر دیں گے، تزکیہ نہیں رہے گا اور غیر شعوری طور پر اخلاق رفتہ رفتہ خراب ہو تے چلے جائیں گے۔
اِسی لیے ائمہ کرام فرماتے ہیں کہ جب استاد پکڑو، یعنی جس کی صحبت میں بیٹھ کر رشد و ہدایت اور علم و معرفت لینا چاہتے ہو تو پہلے اسے دیکھو کہ وہ دین و ایمان اور تقویٰ میں کتنا پختہ ہے؟ اس کے اندر عبادت گزاری اور دین کا تمکن کتنا ہے اور اس کا باطن کس قدر روشن ہے۔
امام سفیان ثوری فرمایا کرتے تھے کہ علماء تین (طرح کے) ہیں:
عَالِمٌ بِاللهِ وَبِأَمْرِ اللهِ، فَعَلَامَتُهٗ أَنْ یَخْشَی اللهَ وَیَقِفُ عِنْدَ حُدُوْدِ اللهِ، وَعَالِمٌ بِاللهِ دُوْنَ أَوَامِرِ اللهِ، فَعَلَامَتُهٗ أَنْ یَخْشَی اللهَ وَلَا یَقِفُ عِنْدَ حُدُوْدِهٖ، وَعَالِمٌ بِأَوَامِرِ اللهِ دُوْنَ اللهِ فَعَلَامَتُهٗ أَنْ لَا یَقِفُ عِنْدَ حُدُوْدِ اللهِ وَلَا یَخْشَی اللهَ وَهُوَ مِمَّنْ تُسَعَّرُ بِهِمُ النَّارُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ.
شعرانی، الطبقات الکبری: 76
(پہلی قسم میں وہ عالم شامل ہے) جو اللہ تعالیٰ اور اس کے امر (احکام الٰہیہ) کو جاننے والا ہے۔ ایسے عالم کی علامت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور اس کی حدود کا احترام بھی کرتا ہے، (دوسری قسم میں وہ عالم شامل ہے) جو معرفت الٰہیہ تو رکھتا ہے لیکن اس کے اوامر کا اسے (کما حقہ) علم نہیں۔ اس کی نشانی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے لیکن اس کی حدود کی پروا نہیں کرتا، (تیسری قسم میں وہ عالم شامل ہے) جو اللہ تعالیٰ کے اوامر کا علم تو رکھتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ سے بے خبر ہے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ نہ تو وہ حدود الٰہیہ کا احترام کرتا ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور یہ ان لوگوں میں سے ہے جن پر روزِ قیامت جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی۔
لہٰذا دیکھنا چاہیے کہ علم کس سے لے رہے ہیں اور کس سے اَخذ فیض کر رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے دین میں رخصت بھی رکھی ہے اور عزیمت بھی رکھی ہے۔ اس ضمن میں کچھ لوگ رخصتوں کے طالب ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ یہ سوچتے ہیں کہ اس میں یہ آسانی ہے، اُس میں وہ آسانی ہے اور یہ رخصت ہے۔ جو رخصتوں کے طالب ہوں گے اس کا مطلب ہے کہ ان کے اندر تقویٰ کی پختگی نہیں، جس کی بنا پر وہ آسانیاں تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ جس شخص کے مزاج میں آسانی تلاش کرنا اور دین پر عمل کے اندر عزیمت، مشقت، اجتہاد، جہاد اور کاوش کا رجحان زیادہ نہیں ہے تو اس کے علم، اس کے کلام اور اس کی صحبت سے بھی ایسے ہی اثرات مرتب ہوں گے۔ لہٰذا استاد بنانے یا شیخ منتخب کرنے سے پہلے یہ دیکھو کہ اس کے اندر علم و معرفت اور قرآن و سنت کی رغبت کتنی ہے اور اس کے اخلاق کیسے ہیں؟ طیبات و صالحات اور حسنات ہیں یا نہیں؟ مجاہدہ اور ریاضات کتنی ہے؟ اللہ کی قربت اور صفاء قلب کی کیفیت کیا ہے؟ یہ سب کچھ اس کے کلام، گفتگو، مزاج اور اس کی طبیعت سے معلوم ہو جاتا ہے۔
چنانچہ رخصتوں کی تلاش کرنے والے عالم بھی ملیں گے اور راهِ عزیمت اختیار کرنے والے علماء کرام بھی نظر آئیں گے۔ یہ فیصلہ بندے نے خود کرنا ہے کہ وہ کسے پسند کرتا ہے اور کس کی صحبت میں بیٹھنے کو زیادہ ترجیح دیتا ہے۔
ارشاد فرمایا گیا:
وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا.
العنکبوت، 29: 69
اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (یعنی مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیںاپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں۔
علم باللہ کے راستے ہوں یا معرفتِ اسرارِ الٰہیہ کے راستے، یہ دریچے انہی پر کھلیں گے جو مجاہدہ کریں گے اور مجاہدہ وہی کریں گے جن کی طبیعت میں سخت کوشی ہوگی۔ جس کی طبیعت سہل پسند ہوگی وہ کبھی مجاہدہ کی طرف نہیں جائے گا۔ اِسی لیے حضرت یحییٰ بن ابی کثیر فرماتے ہیں:
لَایُسْتَطَاعُ الْعِلْمُ بِرَاحَةِ الْجِسْمِ.
مسلم، الصحیح، کتاب المساجد، باب أوقات الصلاة الخمس، 1: 428، رقم: 612
علم آرام طلبی سے حاصل نہیں ہوتا۔
یہ ایک ایسا ایک قرینہ اور معیار ہے کہ ہر شخص اپنا مواخذہ اور محاسبہ کر سکتا ہے۔ اگر کوئی علم، عمل ہمیں سہولتوں، تن آسانیوں اور رخصتوں کی طرف لے جا رہا ہے تو سمجھ لیں کہ اس کے آگے اندھیرا، تباہی اور ہلاکت ہے۔ اگر کوئی علم ہمارے اندر مزید شوقِ الٰہی، شوقِ آخرت ذوقِ عبادت، ذوقِ تہجد، ذوقِ مناجات و ذوقِ تلاوت بڑھا رہا ہے اور اخلاقِ حسنہ کی تڑپ و طلب پیدا کر رہا ہے، طبیعت میں جود و سخا پیدا ہو رہی ہے اور بخل ختم ہو رہا ہے تو سمجھیں کہ مجھے یہ صحبت، یہ علم اور یہ کتاب خیر کی طرف لے جا رہی ہے۔
اس کے برعکس اگر دیکھیںکہ دن بدن تقویٰ کی کیفیت کم تر اور طبیعت سہولت کی طرف مائل ہوتی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر نماز قضا ہو جاتی ہے، پرواہ نہیں ہوتی کہ پڑھ لیں گے۔ اسی طرح تلاوت اور نوافل کا معمول چھوٹ رہا ہے، تقویٰ و طہارت اور وضو کے ساتھ رہنے کی عادت چھوٹ رہی ہے، طبیعت کے اندر اَعمالِ صالحہ کی رغبت کم ہو رہی ہے تو سمجھیں کہ یہ صحبت، یہ علم اور یہ کتاب ہمیں شر کی طرف لے جا رہی ہے۔ یہ ہمارے پاس خود احتسابی کا ایک پیمانہ ہے۔ لہٰذا یہ دیکھیں کہ یہ چیزکہاں سے آ رہی ہے جس کی وجہ سے ہمارے مزاج میں مذکورہ خیر یا شر پیدا ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ صحبت میں خرابی ہے اور ہمیں خود اس خرابی کی تشخیص کرنی چاہیے تاکہ اس کا بروقت تدارک ممکن ہو سکے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved