پچھلے باب میں ہم یہ بحث مکمل کر چکے ہیں کہ عقل کا تمام تر انحصار حواسِ خمسہ پر ہے۔ حواسِ خمسہ اور عقل باہم مل کر علم کے مقام تک پہنچتے ہیں۔ نہ تنہا حواس علم دے سکتے ہیں اور نہ ہی اکیلی عقل علم کو مرتب کر سکتی ہے۔ یاد رہے کہ حواس ادراک مہیا کرتے ہیں۔ اگرچہ علم تک پہنچنے میں عقل کی اپنی صلاحیتیں کار فرما ہوتی ہیں لیکن اس کی تمام تر بنیاد حواسِ خمسہ کے مہیا کیے ہوئے مدرکات پر ہے۔ یہ مدرکات بنیادی طورپر عالم مادیات و حسیات سے متعلق ہیں۔ پچھلے باب کے آخرمیں ان سوالات کے بیان پربحث ختم ہوئی تھی کہ جو اُمور ہمارے مدرکات، محسوسات سے خارج اور ماوریٰ ہیں، ان تک رسائی سے عقل عاجز اور متحیر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو چونکہ اشرف المخلوقات بنایا ہے، لہٰذا اُسے علم کے حوالے سے مایوس نہیں ہونے دیا۔ چنانچہ یہ منزل وہ ہے کہ جہاں سارے انسانی ذرائع بے بس ہو جاتے ہیں اور پھر ہدایت کے لیے وحی اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عقل کے عاجز و بے بس ہونے کے بعد ایک اور ذریعہ حضرتِ انسان کو عطا فرمایا ہے جو ان حواسِ خمسہ اور عقل سے بھی ماورا ہے۔ صوفیاء اُس ذریعے کو روحانی لطائفِ خمسہ کہتے ہیں۔ بعض نے انہیں لطائفِ سبعہ یعنی سات روحانی لطائف تک شمار کیا ہے۔ جہاں عقل اور حواسِ خمسہ جواب دے جاتے ہیں، وہاں اس علم کا راستہ کھلتا ہے۔
اس چشمۂ علم کے جواہر درج ذیل ہیں:
اِس موضوع پر آنے سے قبل ہم شرعی دلیل کے ساتھ اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ کیا حواسِ خمسہ ظاہری، حواسِ خمسہ باطنی اور وحی کے علاوہ بھی کوئی اور ذریعہ انسان کے اندر موجود ہے جو اُسے حقیقت تک رسائی دے سکے۔
آئیے! اس سلسلہ میں شریعت سے رہنمائی لیتے ہیں، اس لئے کہ شرعی دلیل اس معاملے میں بنیادی شرط ہے کیونکہ صحت اور عدمِ صحت کا معیار شریعت پر ہے۔
قرآن مجید میں واضح طور پر خالقِ کائنات نے وحی کے نزول کے تین طریقے بیان کیے ہیں۔ ارشاد فرمایا:
وَمَاکَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَهُ اللهُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِهٖ مَا یَشَآءُ.
الشوریٰ، 42: 51
اور ہر بشر کی (یہ) مجال نہیں کہ اللہ اس سے (براہِ راست) کلام کرے مگر یہ کہ وحی کے ذریعے (کسی کو شانِ نبوت سے سرفراز فرما دے) یا پردے کے پیچھے سے (بات کرے جیسے موسیٰ علیہ السلام سے طورِ سینا پر کی) یا کسی فرشتے کو فرستادہ بنا کر بھیجے اور وہ اُس کے اِذن سے جو اللہ چاہے وحی کرے (الغرض عالمِ بشریت کے لیے خطابِ اِلٰہی کا واسطہ اور وسیلہ صرف نبی اور رسول ہی ہوگا)۔
یعنی اللہ تعالیٰ درج ذیل تین صورتوں کے ذریعے انبیاء سے کلام فرماتا ہے:
اللہ تعالیٰ اپنے نبی یا رسول سے بغیر ذریعے اور واسطے کے براہِ راست کلام کرتا ہے۔ اس کی مثال حضور نبی اکرم ﷺ سے شبِ معراج مقام اَوْ اَدْنٰی پر اللہ تعالیٰ کا کلام فرمانا ہے۔ اس کے بارے ارشاد فرمایا ہے:
فَاَوْحٰٓی اِلٰی عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰیo
النجم، 53: 10
پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (الله) نے اپنے عبد (محبوب) کی طرف جو (بھی) وحی فرمائی۔
اللہ تعالیٰ کا اپنے نبی یا رسول سے پردے کے پیچھے کلام کرنا وحی کی دوسری شکل ہے۔ جیسے کوہِ طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا گیا تھا۔ قرآن حکیم فرماتا ہے:
وَکَلَّمَ اللهُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًاo
النساء، 4: 164
اور الله نے موسیٰ (علیہ السلام) سے (بلاواسطہ) گفتگو (بھی) فرمائی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے عرض کر رہے تھے کہ مولا! مجھے اپنا دیدار کرا دے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے دیدار کی تجلی کا نظارہ کرایا اور الله نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا۔ اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یہ کلام حجاب کے پیچھے سے تھا۔
وحی کی تیسری شکل یہ ہے کہ الله تعالیٰ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو اپنے نبی یا رسول کی طرف پیغام رساں بنا کر بھیجتا ہے۔ وہ فرشتہ اللہ تعالیٰ کے اِذن سے کلامِ الٰہی وحی فرماتا ہے۔
فرمایا:
اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِهٖ مَا یَشَآءُ.
الشوری، 42: 51
یا کسی فرشتے کو فرستادہ بنا کر بھیجے اور وہ اُس کے اِذن سے جو اللہ چاہے وحی کرے (الغرض عالمِ بشریت کے لیے خطابِ اِلٰہی کا واسطہ اور وسیلہ صرف نبی اور رسول ہی ہوگا)۔
اَنبیاء اور رسولوں کے بعد اب عام انسان رہ گئے، اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں واضح نفی فرما دی ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کلام نہیں کرتا۔ اگر الله کا کلام، الله کا خطاب، الله کا پیغام پہنچانا مقصود ہو تو کلامِ اِلٰہی کے پہنچنے کا واسطہ صرف اللہ کے نبی اور رسول ہیں۔
یاد رکھ لیں کہ وحی کوئی ایسا ملکہ نہیں ہے جو انسان کے اندر سے حواسِ خمسہ، وجدان، فطریات، تجربیات اور بدیہیات کی طرح پھوٹتا ہو۔ بعض اَہلِ مغرب اسے وجدان (intuition) کے ساتھ خلط ملط کر دیتے ہیں جبکہ وحی اور چیز ہے، وجدان کچھ اور کیفیت ہے۔ وجدان انسان کے باطن سے پھوٹتا ہے جبکہ وحی (revelation) اندر سے نہیں پھوٹتی۔
قرآن مجید نے وحی کے بارے میں واضح کر دیا ہے:
اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِهٖ مَا یَشَآءُ.
الشوری، 42: 51
یا کسی فرشتے کو فرستادہ بنا کر بھیجے اور وہ اُس کے اِذن سے جو اللہ چاہے وحی کرے۔
اس سلسلے میں سب سے بڑی دلیلِ شرعی حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس اور آپ ﷺ کی احادیثِ صحیحہ ہیں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَرَجَ حِیْنَ زَاغَتِ الشَّمْسُ، فَصَلَّی الظُّهْرَ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ عَلَی الْمِنْبَرِ، فَذَکَرَ السَّاعَةَ، وَذَکَرَ أَنَّ بَیْنَ یَدَیْھَا أُمُوْرًا عِظَامً، ثُمَّ قَالَ: مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَسْأَلَ عَنْ شَيئٍ فَلْیَسْأَلْ عَنْهُ: فَوَاللهِ، لَا تَسْأَلُوْنِي عَنْ شَيئٍ إِلَّا أَخْبَرْتُکُمْ بِہٖ مَا دُمْتُ فِي مَقَامِي ھٰذَ، قَالَ أَنَسٌ: فَأَکْثَرَ النَّاسُ الْبُکَاءَ، وَأَکْثَرَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَنْ یَقُوْلَ: سَلُوْنِي. فَقَالَ أَنَسٌ: فَقَامَ إِلَیْہِ رَجُلٌ فَقَالَ: أَیْنَ مَدْخَلِي یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: النَّارُ. فَقَامَ عَبْدُ اللهِ بْنُ حُذَافَةَ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: أَبُوْکَ حُذَافَۃُ. قَالَ: ثُمَّ أَکْثَرَ أَنْ یَقُوْلَ: سَلُوْنِي، سَلُوْنِي. فَبَرَکَ عُمَرُ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ فَقَالَ: رَضِیْنَا بِاللهِ رَبًّ، وَبِالإِسْـلاَمِ دِیْنً، وَبِمُحَمَّدٍ ﷺ رَسُوْلًا. قَالَ: فَسَکَتَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ حِیْنَ قَالَ عُمَرُ ذٰلِکَ. ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهٖ، لَقَدْ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ آنِفًا فِي عُرْضِ هٰذَا الْحَائِطِ، وَأَنَا أُصَلِّي، فَلَمْ أَرَ کَالْیَوْمِ فِي الْخَیْرِ وَالشَّرِّ.
جب آفتاب ڈھلا تو حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھائی پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ ﷺ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا اور پھر فرمایا: اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات و حادثات ہیں، پھر فرمایا: جو شخص کسی بھی نوعیت کی کوئی بات پوچھنا چاہتا ہے تو وہ پوچھے، اللہ کی قسم! میں جب تک یہاں کھڑا ہوں تم جو بھی پوچھو گے اس کا جواب دوں گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے زار و قطار رونا شروع کر دیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ جلال کے سبب بار بار یہ اعلان فرما رہے تھے کہ کوئی سوال کرو، مجھ سے (جو چاہو) پوچھ لو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! میرا ٹھکانہ کہاں ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: دوزخ میں۔ پھر حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تیرا باپ حذافہ ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر آپ ﷺ بار بار فرماتے رہے مجھ سے سوال کرو، مجھ سے سوال کرو۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض گزار ہوئے: ہم الله تعالیٰ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد مصطفی ﷺ کے رسول ہونے پر راضی ہیں (اور ہمیں کچھ نہیں پوچھنا)۔ راوی کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ گزارش کی تو حضور نبی اکرم ﷺ خاموش ہوگئے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! ابھی ابھی اس دیوار کے سامنے مجھ پر جنت اور دوزخ پیش کی گئیں جبکہ میں نماز پڑھ رہا تھا تو آج کی طرح میں نے خیر اور شر کو کبھی نہیں دیکھا۔
اِس حدیثِ مبارک میں خاتم المرسلین ﷺ نے قیامت تک آنے والے جو واقعات بیان فرمائے ان حقائق کا وحی سے تعلق نہیں ہے۔ اس موقع پر ایسا نہیں ہوا کہ جبریل امین وحی لے کر آئے اور آپ ﷺ ان کی اطلاع پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بیان فرما رہے تھے۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کا وحی جلی اتارنا (معاذ الله) حضور نبی اکرم ﷺ کے ماتحت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جس وقت چاہے وحی بھیجے، چاہے تو چالیس دن نازل نہ فرمائے۔ چاہے تو ایک ہفتہ بعد بھیجے اور چاہے تو اسی لمحے دوبارہ بھیج دے۔ وحی کا نازل فرمانا الله تعالیٰ کے امر کے تحت ہے۔ اللہ کا نبی اس امر کو چیلنج نہیں کر سکتا۔ اسی لئے فرمانِ ربانی ہے:
فَیُوْحِیَ بِاِذْنِهٖ مَا یَشَآءُ.
الشوریٰ، 42: 51
اللہ جب چاہتا ہے، جو چاہتا ہے وحی فرماتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے چاہنے پر تو معاذ اللہ کوئی قید نہیں لگ سکتی۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس حدیث مبارک میں آق ﷺ نے بغیر کسی پابندی یا بندش کے فرمایا کہ جو سوال کرنا چاہو، جس شے کی نسبت جو کچھ بھی تم پوچھو گے، میں اِسی جگہ تمہیں جواب دیتا رہوں گا۔ حتیٰ کہ آپ ﷺ جلال میں آکر فرماتے رہے کہ پوچھ لو! پوچھ لو! آپ ﷺ کی اسی کیفیت کو دیکھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رونے لگے۔
اس موضوع پر اس حدیث کو متفق علیہ ہونے کے سبب منتخب کیا تاکہ کسی کو تردد نہ ہو اور کوئی حدیث کے ضعف اور صحت پر کلام بھی نہ کر سکے۔
یہاں بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال بھی آسکتا ہے کہ شاید اس موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان اَحکامِ شریعت، اَحکامِ دین یا آخرت کے امور کے بارے میں ہوگا کہ اس بابت جو چاہو پوچھ لو کیونکہ بنیادی طور پر پیغمبر اسی لئے مبعوث ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے! یہاں پر یہ سوچنا غلط ہوگا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو حضور نبی اکرم ﷺ فرما دیتے کہ اُمورِ آخرت، اَحکامِ دین یا مسائلِ شریعت سے متعلق جو چاہو، وہ پوچھ لو۔ آق ﷺ اس ضمن میں شرعی اَحکام کا تعین فرما دیتے لیکن آپ ﷺ نے ایسا نہیں فرمای، بلکہ خاتم الانبیاء ﷺ نے واضح ارشاد فرمایا کہ کوئی بھی شخص جس چیز کے بارے میں جو پوچھنا چاہے، وہ پوچھ لے۔ آق ﷺ کا یہ فرمان عموم پر تھ، اس کو مقید کرنا کہ احکام شریعت اور مسائل شریعت کی بات ہو رہی تھی، یہ ناجائز ہے۔ اسی حدیث میں اس پر دلیل بھی موجود ہے جو اس گمان کو رد کر تی نظر آتی ہے۔
آپ ﷺ کے سوال کرنے پر دو لوگ اٹھے۔ اُنہوں نے سوال کیے اور آپ ﷺ نے انہیں جواب دیے۔ اُن دونوں سوالوں کا تعلق شریعت کے احکام اور مسائل سے نہیں تھا۔ اگر صرف احکامِ شریعت کے بارے میں استفسار کرنے کی پابندی ہوتی تو آپ ﷺ فرما دیتے کہ تم شرعی مسائل کے علاوہ دوسرے سوالات کیوں پوچھ رہے ہو؟
ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مرنے کے بعد میرا ٹھکانہ کہاں ہوگا؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مرنے کے بعد تیرا ٹھکانہ جہنم میں ہوگا۔ آپ ﷺ نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ غیر متعلقہ سوال کیوں پوچھ رہے ہو؟ بلکہ براہ راست فرمایا: تمہارا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔
اب اس ذریعۂ علم کا تعلق نہ توقرآنی علوم سے ہے اور نہ ہی اس وحی سے جسے حضرت جبریل علیہ السلام لے کر آتے تھے۔ حقائق بتاتے ہیں کہ یہ کوئی اور ذریعۂ علم ہے جو حواس، عقل اور دماغ کے ذریعے نہیں آیا اورنہ ہی جبریل امین اور قرآن کے ذریعے آیا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نامی ایک اور صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یارسول الله! میرا باپ کون ہے؟ ان کے بارے میں لوگ طعنہ زنی کرتے تھے کہ تمہارا نسب غلط ہے، تم کسی اور کے بیٹے ہو۔ آپ ﷺ نے اس کے سوال کو بھی رد نہیں فرمایا بلکہ ارشاد فرمایا: تمہارا باپ حذافہ ہی ہے۔
اس بات کا علم بھی پردئہ غیب کی بات ہے۔ آپ ﷺ کے پاس یہ علم بھی نہ کوئی قرآنی آیت کے ذریعے آی، نہ حواس کے ذریعے آیا اور نہ ہی عقل نے اسے ترتیب دیا۔ اس کا ذریعہ بھی کوئی اور ہے۔ اُس ذریعہ کو کشف اور الہام کہتے ہیں۔ پس یہ کشف اور الہام کے وجود کے اثبات پر دلیل ہے۔
اسی مقام پر ایک دوسرے ذریعۂ علم کی بات کرتے ہوئے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جنت اور دوزخ میرے اوپر آشکار کر دی گئیں۔
صحابی کا نسب بتانے کا مطلب یہ تھا کہ صرف جنت اور دوزخ کی حد تک نہیں بلکہ کل عالم مادیات و حسیات، روحانیات و طبیعیات و مابعد الطبیعیات، کائنات کے تمام حقائق اور موجودات آپ ﷺ پر آشکار کر دیے گئے ہیں۔ یہ ذریعۂ کشف ہے۔
کسی کے ذہن میں آسکتا ہے کہ یہ تو ایک معجزہ ہے۔ اِس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ایک معجزہ ہے لیکن اس واقعہ کو معجزہ کہنے سے اُس الگ ذریعۂ علم کے وجود کا نہ تو انکار ہو تا ہے اور نہ ہی اُس میں کوئی شک و شبہ آتا ہے۔
معجزہ ہر اُس چیز کو کہتے ہیں جو پیغمبر ﷺ کی نبوت کی تصدیق میں ان کے وجود ِمسعود سے عادت کے خلافِ واقعہ رونما ہوتی ہے۔ ایک ہے کسی چیز کا عادت کے مطابق واقع ہون، مثلاً ایک چیز دیوار کے پیچھے پڑی ہے، لہٰذا آنکھوں سے اوجھل ہے۔ یہ معاملہ توحسبِ عادت ہے۔ اس کے برعکس اگر کسی شخص کو دیوار کے اُس پار دیکھنے کی صلاحیت حاصل ہو جائے تو یہ خرقِ عادت ہے۔ اسی طرح کسی جگہ پر پیدل چلے جائیں تو یہ عادت ہے اور اگر کوئی انسان چلے بغیر ہوا میں اڑ کر دوسرے مقام پر پہنچ جائے تو یہ خرقِ عادت ہے۔ ہر وہ چیز یا واقعہ جو ہماری زندگی کی عام عادت سے ہٹ کر صادر ہو کہ جس کے ذریعے وجوہات اور اثرات (cause and effect) کی دنیا چلتی ہے، اُسے خرقِ عادت کا نام دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ معجزاتِ نبوی صادر ہوئے: درخت کا زمین پھاڑ کر جڑوں سمیت آپ ﷺ کے پاس آجان، پتھروں کا کلمہ پڑھن، مبارک انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری ہوجان، تھوڑی مقدار میں کھجوریں ہزاروں کے لئے کافی ہو جان، دودھ کے ایک پیالہ سے درجنوں افراد کا سیر ہو جانا اور دو افراد کے کھانے سے 1500 افراد کا شکم بھر جانا۔
یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو خلافِ عادت رونما ہوئیں اور ان کا رسول الله ﷺ سے صادر ہونا نبوت کی تصدیق کے طور پر ہوا ہے۔ جب لوگوں نے آپ ﷺ کی نبوت کا انکار کیا تو یہ واقعات ان کی صداقت کی دلیل کے طور پر خلافِ عادت وقوع پذیر ہوئے۔ اس عمل کو معجزہ کہتے ہیں۔ معجزہ کا لفظ ’عجز‘ سے ماخوذ ہے، جس کا معنیٰ عقل کو عاجز کر دینا ہے، یعنی ایسا واقعہ رونما ہونا جسے عقل سمجھنے سے قاصر ہوتی ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ ضروری نہیں کہ ہربار دعویٰ نبوت کی تصدیق کے لئے لازماً معجزہ دکھایا جائے۔ اگر اُسی طرح کا خرقِ عادت واقعہ غیر نبی، صالح مومن سے سرزد ہو تو اُسے کرامت کہا جاتا ہے۔
جملہ خوارق العادات واقعات معجزہ کی شان کے حامل تو یقینا ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس چشمے سے کس کس علم نے جنم لیا؟ پس جن علوم نے ان واقعات سے جنم لی، اُن میں کشف، اِلہام اور دیگر علوم شامل ہیں۔ (’کشف اور علم لدنی‘ پر مفصل بحث کے لیے باب نمبر 14 جب کہ ’کشف اور مرتبۂ علم محمدی ﷺ ‘ کی تفصیلات کے لیے باب نمبر 15 ملاحظہ فرمایا جائے۔)
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی متفق علیہ زیر بحث حدیثِ مبارک میں حضور نبی اکرم ﷺ نے جو ابتدائے کائنات سے لے کر اختتامِ کائنات تک کی ساری خبریں دیں، وہ کس ذریعے سے دیں؟ یہاں ہماری بحث معجزہ سے نہیں بلکہ اس علم کی ماہیت، کیفیت اور حقیقت سے ہے کیونکہ بظاہر اس کا ذریعہ نہ تو وحیِ الٰہی سے ثابت ہے اور نہ ہی قرآن سے۔ ہم یہاں نفسِ معجزہ کے عنوان سے بحث نہیں کر رہے بلکہ اس ذریعے اور channel کی بات کر رہے ہیں جس کے ذریعے علم پھوٹ رہا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے کہ ایک دن حضور نبی اکرم ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوگئے:
فَأَخْبَرَنَا عَنْ بَدْئِ الْخَلْقِ حَتّٰی دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مَنَازِلَهُمْ وَأَهْلُ النَّارِ مَنَازِلَهُمْ. حَفِظَ ذَالِکَ مَنْ حَفِظَهٗ وَنَسِیَهٗ مَنْ نَسِیَهٗ.
بخاری، الصحیح، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی قول الله تعالی، 3: 1166، رقم: 3020
ایک روز ہمارے درمیان کھڑے ہوئے تو آپ نے مخلوق کی پیدائش کا ابتدا سے ذکر فرمانا شروع کیا یہاں تک کہ جنتی اپنے مقام پر پہنچ گئے اور دوزخی اپنے مقام پر۔ جس نے یاد رکھا سو اس نے یاد رکھ، اور جو اسے بھول گیا سو بھول گیا۔
اسی روایت کو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے یوں بیان کیا ہے:
قَامَ فِیْنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مَقَامًا مَا تَرَکَ شَیْئًا یَکُوْنُ فِي مَقَامِهٖ ذَالِکَ إِلٰی قِیَامِ السَّاعَةِ إِلَّا حَدَّثَ بِهٖ. حَفِظَهٗ مَنْ حَفِظَهٗ وَنَسِیَهٗ مَنْ نَسِیَهٗ.
مسلم، الصحیح، کتاب الفتن وأشرط الساعة، باب أخبار النبی ﷺ فیما یکون إلی قیام الساعة، 4: 2217، رقم: 2891
ایک مرتبہ رسول الله ﷺ ہمارے سامنے کھڑے ہوئے اور آپ ﷺ نے اس وقت سے لے کر قیامت تک ہونے والی تمام چیزوں کو بیان کر دی، جس نے ان کو یاد رکھ، اس نے یاد رکھا اور جس نے ان کو بھلا دیا اس نے بھلا دیا۔
آپ ﷺ کائنات کی ابتدا سے لے کر انتہا تک سب کچھ بیان فرما رہے ہیں، حالانکہ یہ چیز حواس سے بھی معلوم نہیں ہوئی اور عقل بھی اسے ترتیب نہیں دے سکتی۔
کشف و کرامت کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اِثبات
کرامت کے حوالے سے خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی خرقِ عادت واقعات رونما ہوئے ہیں۔ مثلا:
1۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے وقتِ وصال اپنی بیٹی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھ سے وارثت کے حوالے سے تین بہنوں کی بات کی جبکہ اس وقت فی الواقعہ وہ دو بہنیں تھیں۔ ام المومنین رضی اللہ عنھ کے استفسار پرا میر المومنین نے فرمایا کہ تمہاری تیسری بہن ابھی تمہاری دوسری والدہ کے بطن میں ہے۔ بطن کے اندر موجود بچے کی جنس کے متعلق معلوم ہو جانا یہ بھی ایک کشف ہے۔
2۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مسجد نبوی کے منبر پر خطبہ جمعہ کے دوران ہزارہا میل دور کفار کے ساتھ برسرپیکار اسلامی فوج کے سپہ سالار حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کو پہاڑوں کے پیچھے سے دشمن کے حملے سے خبردار کرتے ہوئے کہنا:
یَا سَارِيَ الْجَبَلَ، یَا سَارِيَ الْجَبَلَ.
اے ساریہ! پہاڑ کی اوٹ لے، اے ساریہ! پہاڑ کی اوٹ لے۔
یہ واقعہ بھی کشف کی ایک مثال تھا۔ اسی طرح ہرنبی کی امت میں ہر ولی سے کرامات رونما ہوتی ہیں اور یہ کرامات در حقیقت اُس نبی کے معجزہ کا تسلسل ہوتا ہے۔ (’صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور اَولیاء عظام کے مکاشفات‘ پر تفصیلی کلام باب نمبر 16 میں ملاحظہ فرمائیں۔)
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس علم کی ماہیت، حقیقت، منبع اور سرچشمہ کیا ہے؟ اِسی کو کشف و اِلہام کہتے ہیں۔ یہ غیبی اُمور کا علم ہے۔ ان دلائل سے ثابت کرنا یہ مقصودہے کہ حواس، عقل اور وحی کے درمیان کئی اور منابع بھی ہیں جن سے علم حاصل ہوتا ہے۔ اُن ذرائع علم میں سے کشف اور الہام دو ذرائع ہیں۔ انہی کے تحت اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کردہ روحانی اور باطنی نوعیت کے جدا جدا صلاحیتوں کے حامل ذرائع روایت کئے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ جس علم کو کشف اور الہام کا نام دیتے ہیں، اس کی مزید کئی اقسام ہیں جس کے تحت اللہ تعالیٰ نے انسان کو روحانی اور باطنی نوعیت کے جدا جدا صلاحیتوں کے حامل ذرائع ودیعت کئے ہیں۔ یہ وہ دائرہ ہے جو صحابہ کرام، تابعین، اتباع التابعین، ابدال، صالحین، اولیاء، نجباء، نقباء، اقطاب اور غوث کو حاصل ہے۔ یہ چشمہ انبیاء کرام f کو بھی بدرجہ اولی حاصل تھا۔ ان میں سے ہر ایک کو اُن کے رتبے، مقام و مرتبہ اور انشراح کے مطابق جس قدر کشف ہو، اتنی ہر چیز اُن کی آنکھوں کے سامنے آشکار ہوگئی۔
اِس کی کیفیت اور ماہیت پر درج ذیل حدیث مبارک بھی روشنی ڈالتی ہے اور اس سے یہ بات متحقق (establish) ہو جاتی ہے کہ یہ علم قرآنی وحی نہیں تھا۔
حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَتَانِي اللَّیْلَةَ رَبِّي تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فِي أَحْسَنِ صُوْرَةٍ. فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، هَلْ تَدْرِي فِیْمَ یَخْتَصِمُ الْمَـلَأُ الْأَعْلٰی؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا. قَالَ: فَوَضَعَ یَدَهٗ بَیْنَ کَتِفَيَّ حَتّٰی وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَیْنَ ثَدْیَيَّ أَوْ قَالَ: فِي نَحْرِي. فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ.
1۔ أحمد بن حنبل، المسند، 1: 368، رقم: 3484
2۔ أحمد بن حنبل، المسند، 5: 243، رقم: 22162
3۔ ترمذی نے ’السنن، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ صٓ، 5: 366، رقم: 3233)‘ میں کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
4۔ طبراني، المعجم الکبیر، 20: 109، رقم: 216
حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: آج رات میرا رب میرے پاس (اپنی شان کے لائق) نہایت حسین صورت میں آیا۔ اور فرمایا: یامحمد! کیا آپ جانتے ہیں کہ عالمِ بالا کے فرشتے کس بات میں بحث کر رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا: اے میرے پروردگار! میں نہیں جانتا۔ الله تعالیٰ نے اپنا دستِ قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا اور میں نے اپنے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس کی۔ (راوی کو شک ہے کہ حضور ﷺ نے بَیْنَ ثَدْیَيَّ فرمایا ہے یا فِي نَحْرِي۔) سو مجھے آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا علم عطا ہوگیا۔
اس حدیث مبارک سے واضح ہو رہا ہے کہ الله تعالیٰ علم کے باب میں حضور نبی اکرم ﷺ کو کچھ خاص عطا کرنا چاہتا تھا اور اُس خاص عطا کو بایں طور عطا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی لاعلمی کی اس حالت کو ختم کر دیا اور امام الانبیاء ﷺ کو براہِ راست اپنے دستِ وہب کا فیض دیا۔ جب اُس کی ٹھنڈک سینۂ مبارک میں پہنچی تو اُس سے سارے حجابات رفع ہوگئے۔ مشرق اور مغرب میں جو کچھ بھی تھا آپ ﷺ وہ سب کچھ جان گئے۔ یاد رکھ لیں کہ آپ ﷺ کا خواب ہمارے خوابوں کی طرح خواب ہی میں ختم نہیں ہوگیا۔ ایسا نہیں تھا کہ خواب آیا اور آکر چلا گیا۔ اب یہ حدیثِ صحیح دلیلِ شرعی ہوگئی کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ کا خواب وحی ہے اور بذاتِ خود دلیل شرعی تھا اور پھر آق ﷺ کا اس کو بیان فرمان، سند پر سند اور دلیل پر دلیل ہوگیا۔ یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ یہ بھی طریق ہے کہ اللہ تعالیٰ حضور نبی اکرم ﷺ کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر آپ ﷺ کے سینے میں براہِ راست علم کا فیض منتقل فرماتا ہے اور فیضانِ اُلوہیت سے سارے پردے اٹھا دیے جاتے ہیں۔
ایک دوسرے مقام پر حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہم سے ہی یہ الفاظ یوں مروی ہیں:
فَوَضَعَ یَدَهٗ بَیْنَ کَتِفَيَّ فَوَجَدْتُ بَرْدَهَا بَیْنَ ثَدْیَيَّ فَعَلِمْتُ مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ.
ترمذی نے ’السنن، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ صٓ، 5: 367، رقم: 3234)‘ میں کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔
الله تعالیٰ نے اپنا دستِ قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا اور میں نے اپنے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس کی اور میں وہ سب کچھ جان گیا جو کچھ مشرق و مغرب کے درمیان ہے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کے الفاظ ہیں:
فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، قُلْتُ: لَبَّیْکَ رَبِّ. قَالَ: فِیْمَ یَخْتَصِمُ الْمَـلَأُ الْأَعْلٰی؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِي رَبِّ. قَالَهَا ثَـلَاثًا. قَالَ: فَرَأَیْتُهٗ وَضَعَ کَفَّهٗ بَیْنَ کَتِفَيَّ حَتّٰی وَجَدْتُ بَرْدَ أَنَامِلِهٖ بَیْنَ ثَدْیَيَّ فَتَجَلّٰی لِي کُلُّ شَيئٍ وَعَرَفْتُ.
ترمذی نے ’السنن، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ صٓ، 5: 368، رقم: 3235)‘ میں کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: میں نے امام محمد بن اسماعیل بخاری (صاحب الصحیح) سے اِس حدیث کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد! میں نے عرض کیا: اے میرے رب! میں حاضر ہوں۔ فرمایا: عالمِ بالا کے فرشتے کس بات میں بحث کرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: میں نہیں جانتا۔ تین مرتبہ یہی کہا۔ پھر فرمایا: میں نے دیکھا کہ الله تعالیٰ نے اپنا دستِ قدرت (اپنی شان کے مطابق) میرے شانوں کے درمیان رکھا تو میں نے اُس کے پوروں کی ٹھنڈک اپنے سینے کے درمیان محسوس کی۔ پھر میرے لیے (مَا کَانَ و مَا یَکُوْنُ کی) ہر چیز روشن ہوگئی اور میں نے ہر شے کی حقیقت کو جان لیا۔
ہر چیز میرے اوپر روشن ہو گئی اور میں نے ہر ہر شے کو پہچان لیا۔ یہ کشف ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے فرمایا ہے:
وَکَذٰلِکَ نُرِیْٓ اِبْرٰهِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَo
الأنعام، 6: 75
اور اسی طرح ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی تمام بادشاہتیں (یعنی عجائباتِ خلق) دکھائیں اور (یہ) اس لیے کہ وہ عین الیقین والوں میں ہوجائے۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کوعالمِ ناسوت سے عالم ملکوت تک کے سارے پردے اٹھا کر مشاہدہ کرا دیا۔
کشف کا مطلب، حجاب کا اُٹھ جانا ہے۔ مستقبل سے پردے اٹھ گئے اور ان کے لیے مستقبل بھی حال کی مانند عیاں ہوگیا۔ اسی طرح ماضی پر جو پردہ تھ، جب وہ بھی اٹھا تو ماضی بھی حال کی طرح واضح نظر آنے لگا۔ ماضی اور مستقبل کے سب زمانے ایک حال میں آکر سما گئے اور زمین و آسمان ہاتھ کی ہتھیلی کی مانند سامنے دکھائی دینے لگے۔
اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو ایسا کشف عطا فرما دیا کہ زمین و آسمان اور اول سے آخر تک ساری کائنات آپ ﷺ پر منکشف ہوگئی۔ پردے اٹھنے کے بعد آپ ﷺ ہر شے کو دیکھنے والے بن گئے۔ یہ امر بھی واضح رہے کہ آقائے دو جہاں ﷺ سییہ پردے اٹھا کر دوبارہ نہیں ڈالے گئے، بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رفعِ حجابات ہوا۔
پس ان آیاتِ قرآنیہ اور احادیث مبارکہ سے یہ امر متحقق (establish) ہوا کہ حواسِ خمسہ، عقل، اور وحی قرآنی کے علاوہ کچھ اور ذرائع بھی ہیں جن سے علم کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ یہ وہی ذرائع ہیں جنہیں کشف، الہام اور دیگر علوم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved