گزشتہ باب میں ہم حصولِ علم کے ذرائع کے حوالے سے ’عقل‘ کے علاوہ دیگر وسائط کا تفصیلی مطالعہ کر چکے ہیں۔ اس باب میں ہم عقل اور اس کی حقیقت کو جاننے کی کوشش کریں گے کہ عقل کی حدود، فرائض اور اختیار کہاں تک ہیں؟ لیکن اس سے قبل ہم علم کی ایک جامع و مانع تعریف کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ جس سے ہمیں علم کی حقیقت معلوم ہو سکے۔
مختلف اَئمہ نے علم کی تعریفات کی ہیں۔ ذیل میں ’علم‘ کے مفہوم کو جاننے کے لئے چند تعریفات ذکر کی جا رہی ہیں:
1۔ امام ابو اسحاق البخاری - جو الزاہد الصفار کے نام سے مشہور ہیں - نے بعض لوگوں کے حوالے سے علم کی یہ تعریف کی ہے:
إِنَّهٗ دَرْکُ الْمَعْلُوْمِ عَلٰی مَا هُوَ بِهٖ.
امام أبی المعین میمون النسفی الماتریدی، تبصرة الأدلة فی أصول الدین، 1: 132
کسی چیز کی اصل ماہیت کا ادراک کر لینا علم کہلاتا ہے۔
بعد ازاں انہوں نے اپنی ہی اِس تعریف کو رد کر دیا اور کہا کہ ادراک احاطہ کرنے کو کہتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کا احاطہ اور ادراک ممکن نہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:
لَا تُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُز وَهُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ ج وَهُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُo
الأنعام، 6: 103
نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیںاور وہ سب نگاہوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اور وہ بڑا باریک بین بڑا باخبرہے۔
اس تعریف کی رو سے مطلب یہ ہوا کہ بندے کو اللہ تعالیٰ کا علم حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ادراک نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے علم کی یہ تعریف نہیں کی جاسکتی۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ کا ادراک نہیں ہو سکتا تو اللہ تعالیٰ کو جاننے کا نام علم نہ ہوا۔ یوں انہوں نے اپنی اس تعریف کی خود ہی نفی کر دی۔
2۔ معروف محدث، فقیہ اور مفسر ابو بکر محمد بن علی بن اسماعیل الکفال الشاشی (م291ھ) نے علم کی تعریف میں کہا ہے:
إِنَّهٗ إِثْبَاتُ الشَّيئِ عَلٰی مَا هُوَ بِهٖ.
أبو المظفر، قواطع الأدلة فی الأصول، 1: 23
کسی شے کو اس کی ماہیت کے مطابق ثابت کر دینا علم ہے۔
ہر چیز کی اپنی ماہیت، حقیقت اور کیفیت ہے۔ انسان کی اپنی ماہیت، سر، آنکھیں، پاؤں، چہرہ اور اس کا جسم ہے۔ ہر حیوان کی بھی اپنی ماہیت، شکل و صورت اور کیفیت ہوتی ہے۔ اسی طرح دیگر اشیاء مثلاً کرسی، میز، قلم الغرض ہر چیز کی ایک ماہیت اور وجود (existence) ہوتا ہے۔ پس جس حالت اور ماہیت پر وہ استوار ہے اُس وجود کو ثابت کر دینے کے عمل کا نام علم ہے۔ دوسرے الفاظ میں کسی چیز کو اس کی ماہیت کے مطابق ثابت کر دینے کا نام علم ہے۔
3۔ بعض علماء نے کہا ہے:
اَلْعِلْمُ أَنَّهٗ تَبَیَّنُ الْمَعْلُوْمِ عَلٰی مَا هُوَ بِهٖ.
کسی شے کا ماہیت کے مطابق کسی پر واضح ہو جانا علم کہلاتا ہے۔
ہر جگہ شرط عَلٰی مَا هُوَ بِهٖ چل رہی ہے۔ یعنی شے کی ماہیت اور واقعہ کے مطابق معلومات کا ہونا علم کہلاتا ہے۔ اگر وہ واقعہ کے مطابق نہیں ہے توپھر اُسے علم نہیں کہا جائے گا بلکہ اسے ’جہلِ مرکب‘ کہا گیا ہے۔ یعنی کسی چیزکے بارے میں جو پتہ چلا وہ اس کی اصل حقیقت، ماہیت اور ہیئت کے مطابق نہیںہے اور اگر اس کے بارے میں سرے سے معلوم ہی نہ ہو سکے تو پھر وہ ’جہلِ بسیط‘ ہے۔ اس پر گزشتہ باب میں تفصیلی بحث گزر چکی ہے۔
چنانچہ علم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جو چیز موجود ہے اُس کے مطابقِ حال، مطابقِ ماہیت، مطابقِ کیفیت، مطابقِ اصلیت، مطابقِ حقیقت اور مطابقِ واقعہ معلومات حاصل ہوں۔ گویا علم میں شرط عائد ہوگئی ہے کہ اس کے اندر صحت ہونی چاہیے۔ اگر معلوم شے صحیح نہیں تو اسے علم نہیں کہتے۔ وہ تصور، جہلِ مرکب، وہم، شک یا ظن تو ہو سکتا ہے؛ اس کے کئی مرتبے اور کئی تعریفات ہیں مگر اسے علم نہیں کہا جا سکتا۔
علم کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ اس میں صحت اور مطابقِ واقعہ ہونا پایا جائے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ علم علمِ صحیح ہے اور علمِ صحیح تبھی ہوگا جب ہم اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی معرفت کی طرف جائیں گے۔ پھر معلوم کرنا پڑے گا کہ کون سا ذریعہ اور کون سا وسیلہ ایسا ہے جو ہمیںعلمِ صحیح تک پہنچائے۔
4۔ امام نسفی نے بیان کیا ہے کہ ابواسحاق اسفرائینی کا قول ہے:
إِنَّ الْعِلْمَ هُوَ مَعْرِفَةُ الْمَعْلُوْمِ عَلٰی مَا هُوَ بِهٖ.
أبومعین میمون النسفی الماتریدی، تبصرة الأدلة فی أصول الدین، 1: 130
کسی شے کا عین مطابقِ واقعہ جان لینا علم کہلاتا ہے۔
یعنی جس کا علم حاصل کرنا چاہ رہے ہیں اُس کا عین مطابقِ واقعہ معرفت ہو جائے تووہ علم ہے۔ بعد ازاں کئی لوگوں نے اس تعر یف کو اپنایا اور بعض اسے رد کرتے رہے اور کہا گیا کہ علم اور معرفت میں فرق ہے۔
5۔ پھر معتزلہ کے بڑے علماء میں سے ابو القاسم عبد اللہ الکعبی البلخی نے تعریف کی ہے:
اِلْعِلْمُ: اِعْتِقَادُ الشَّيئِ مَاهُوَ بِهٖ.
أبو معین میمون النسفی الماتریدی، تبصرة الأدلة فی أصول الدین، 1: 126
عین مطابقِ ماہیت معلوم ہونے والی چیز پر اگر عقیدہ قائم ہو جائے تواُسے علم کہتے ہیں۔
6۔ بعض معتزلہ نے اعتقاد کے ساتھ سکونِ نفس کا اضافہ کیا کہ اطمینان بھی ہو جائے:
اَلْعِلْمُ: اِعْتِقَادُ الشَّيئِ مَاهُوَ بِهٖ، مَعَ سُکُوْنِ النَّفْسِ إِلَیْہِ.
أبو معین میمون النسفي الماتریدي، تبصرة الأدلة في أصول الدین، 1: 126
عین مطابق ماہیت معلوم ہونے والی شے پر اگر عقیدے کے ساتھ ساتھ سکونِ نفس بھی نصیب ہوجائے تو یہ علم کہلاتا ہے۔
بعض نے اِسے بھی رد کر دیا، مثلاً بغدادی نے اصول الدین میں رد کیا اور نسفی نے اسے ابو ہاشم الجبائی کی طرف منسوب کیا کہ یہ ان کا قول ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اعتقاد علم نہیں ہے بلکہ فعلِ قلب ہے۔
امام ابو اسحاق البخاری تمام تعریفات اور ان کے نقائص بیان کر کے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کسی چیز کے بارے میں ایک ایسی پختہ اور حتمی شکل کا ادراک ہو جہاں اخفا اور لاعلمی ختم ہو جائے، تردد یا شک نہ رہے اور نہ ہی کسی قسم کا ظن رہے، یہ علم کہلاتا ہے۔ یعنی وہ شے جو وجود (exist) رکھتی ہے، اُس کے جاننے میں اخفا اٹھ جائے اور کشف ہوجائے تو یہ انکشاف علم کہلاتا ہے۔
علم کی اس تعریف کو امام نسفی اور امام ماتریدی سمیت دیگر تمام علماء نے مجموعی طور پر اپنایا ہے کہ یہ تعریف جامع اور کامل ہے اور اسے قرآن مجید کی آیات کی تائید بھی حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
وَاَنَّ اللهَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْئٍ عِلْمًاo
الطلاق، 65: 12
اور یہ کہ اللہ نے ہر چیز کا اپنے علم سے احاطہ فرما رکھا ہے۔
اس آیت میں کسی چیزپر احاطہ ہونا بھی علم سے ثابت ہوگیا۔
پھر فرمایا:
اِنَّ اللهَ لَایَخْفٰی عَلَیْهِ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآءِo
آل عمران، 3: 5
یقینا اللہ پر زمین اور آسمان کی کوئی بھی چیز مخفی نہیں۔
یہاں اللہ تعالیٰ پر کسی بھی شے کے مخفی نہ ہونے کا ذکر ہے۔ اب صاف ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کے علم کے لیے تو کسی قسم کا پردہ نہیں کیونکہ خالقِ کائنات کا علم قدیم ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے علم کی شان بیان کی جا رہی ہے کہ اس پر کوئی شے مخفی نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کبھی کوئی شے مخفی تھی اور اب وہ نہیں رہی۔ یہ تو مخلوق کے علمِ حادث کی شان ہے۔ مالکِ دو جہاں پر کبھی بھی کوئی شے مخفی نہ تھی، نہ ہے اور نہ ہی کبھی ہوگی۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ یہ خفا کا اٹھ جانا علم کی تعریف پر پورا اترتا ہے۔
علم کی تعریفات کے سلسلے میں جو کچھ بیان کیا گیا، اس سے ہمیں جہاں علم کی جامع و مانع تعریف حاصل ہوئی وہاں یہ امر بھی سامنے آیا کہ آج ہمیں مغربی علم (western knowledge) کے حوالے سے یہ طریق نظر آتا ہے کہ وہ کسی شے کے بارے میں جاننے کے لئے اس چیز کی گہرائی اور چھوٹی چھوٹی باریکیوں میں چلے جاتے ہیں، کسی شے کے ایک ایک پردے کو اٹھا کر تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ تعریفات کرتے ہیں، تقسیمات عمل میں لاتے ہیں۔ علم کی یہ استعداد اور میلانِ طبع (aptitude) اصل میں مغرب کی پیدا کی ہوئی نہیں بلکہ یہ ملکہ اسلامی تاریخ میں پیدا ہوا ہے۔
کسی چیز کی تعریف میں اُس کی حدودِ صحت کا یقین کرنا، دوسری مماثل چیزوں سے فرق بیان کرنا، علیحدہ علیحدہ نام رکھنا، اس تمام کو آج کی دنیا کے فلسفیوں، سائنس دانوں، قانون دانوں اور دانش وروں نے مرتب نہیںکیا بلکہ یہ اِستعداد، میلانِ طبع اور علم و تحقیق کا یہ انداز بھی اسلامی دنیا سے آیا ہے۔
مسلمانوں کی تاریخ ایسے علماء و محققین، ائمہ، اسکالرز اور اکابرین سے بھری پڑی ہے جو علم کے ہر میدان میں ماہر، مشاق، متبحر ہوتے تھے۔ علم (education) نے جدید دور میںایک باقاعدہ مضمون (subject) اور سائنس کی شکل اختیار نہیں کی بلکہ آج سے کئی صدیاں قبل اسلامی دورِ حکومت کے اوائل میں مسلمانوں نے علم کو ایک سائنس کے طور پر تسلیم کر کے اس پر سیکڑوں کتب لکھی ہیں۔ اُس وقت ہی علم (knowledge) کا رجحان امت مسلمہ میں فروغ پا چکا تھا۔ علم کے آفاقی دور کی بنیاد قرآن مجید اور صاحبِ قرآن ﷺ نے رکھ دی تھی۔ جب اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ کے الفاظ کے ساتھ قرآن مجید کی اترنے والی پہلی آیت ہی بیانِ علم پر مبنی ہے تو علم کی اہمیت، افادیت، فضیلت کے باب میں امتِ مسلمہ کے انتہاء درجہ کے ذوق، شوق اور شغف کا اندازہ باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔
پہلی وحی کے طور پر نازل ہونے والی پہلی پانچ آیات کا موضوع ہی علم ہے۔ علاوہ ازیں قرآن حکیم میں جابجا متعدد آیات میں علم کی اہمیت و فضیلت آشکار کی گئی ہے، جیسا کہ ہم نے گزشتہ صفحات میں اس پر مفصل بحث کی ہے۔ اسی طرح حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی اس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کثیر ارشادات فرمائے اور اپنے عمل مبارک سے ثابت کیا۔ ہم اِس پر بھی سیر حاصل گفتگو کرچکے ہیں۔ یہاں ہم صرف دو ارشادات گرامی بیان کرنے پر اکتفا کریں گے۔
1۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان اقدس ہے:
طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَةٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ.
علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔
2۔ ایک موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أُطْلِبُوا الْعِلْمَ وَلَوْ بِالصِّیْنِ.
علم حاصل کرو خواہ وہ علم تمہیں چین میں جا کر ملے۔
چنانچہ صحابہ کرام l، تابعین، ابتاع التابعین اور سلف صالحین نے اپنی زندگیاں حصولِ علم کے شغف میں صرف کر دیں۔ یوں علم بڑھتا بھی گیا اور مرتب و منظم بھی ہوتا چلا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس کی اقسام (categories) بنتی چلی گئیں اور ساتھ ہی ان میں تخصیص (specialization) بھی ہوتی چلی گئی۔ یہ پہلی پانچ ہجری صدیوں کا وہ دور تھا جب برطانیہ، فرانس، جرمنی اور یورپ کے دیگر ممالک علم سے مکمل طور پر تہی دامن تھے۔
واضح رہے کہ ہم یہاں اس علم سے مراد صرف قرآن و حدیث کا علم ہی نہیں لے رہے بلکہ ہماری مراد سائنس، ٹیکنالوجی، فلسفہ اور تمام عقلی و نقلی انسانی علوم ہیں۔ یورپ ان میں سے ہر قسم کے علم سے تہی دست تھا، جبکہ اسلام کا دامن اس وقت جملہ علوم کے ساتھ معمور تھا۔ بد قسمتی سے دورِ جدید میں اَہلِ اِسلام کا تعلق اسلاف کی اس عظمتِ علمی سے کٹا ہوا ہے۔ علم و آگہی کے اس سلسلے کو از سرِنو جوڑنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
مسلمانوں نے دنیا پر بارہ سو سال حکومت کی ہے۔ اُس وقت ان کے پاس دو طاقتیں تھیں:
بارہ صدیوں تک مسلمانوں کی حکمرانی تلوار کی طاقت سے نہیںتھی بلکہ اس کا سبب مسلمانوں کا علم سے گہرا شغف اور ان کا بلند کردار تھا۔ مغربی علوم اور مغربی سائنس کی تاریخ پر جو چاہے کتاب پڑھ لیں، اس دور کو یورپی بذاتِ خود تاریک دور (dark ages) کہتے نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف اُس وقت اسپین اور قرطبہ کے ہسپتالوں میں مسلمان ڈاکٹرز open heart سرجری میں کمال حاصل کر چکے تھے۔ مسلمانوں نے پہلی صدی ہجری میں سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور آب پاشی کے نظام میں ترقی کی بیش قدر منازل طے کر لی تھیں۔ یہ وہی علم (knowledge) ہے جو اسپین اورسسلی کے راستے یورپ میں پہنچا تھا۔
علم کا یہ آفتاب مکہ اور مدینہ سے طلوع ہوا۔ پھر اس کی کرنیںبصرہ، کوفہ، دمشق، مصر، بغداد، افریقہ، الجزائر اور تیونس سے ہوتی ہوئیں اسپین پر جلوہ افروز ہوئیں۔ پھراس اجالے سے قرطبہ، اندلس، سِسلی اور یورپ کے دوسرے علاقے روشن ہوئے اور اسلامی علوم و فنون کے مرکز بن گئے۔ وہاں سے علم منتقل (transfer) ہو کر پھر یورپ میں داخل ہوا۔ یورپ سے انگلینڈ پھر امریکہ اور کینیڈا میں داخل ہوا۔ اُس وقت یہ سب ممالک جہالت کے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ قرونِ وسطی کے اِن اَدوار (medieval periods) میں اگر علم کے چراغ جلے ہیں تو وہ سرزمینِ مدینہ سے ہی روشن ہوئے ہیں۔ مسلمان علم و حکمت کی اُن مشعلوں کو لے کر قریہ قریہ، بستی بستی، نگر نگر، ایک ایک ملک اور مختلف خطوں میں اجالے بکھیرتے چلے گئے۔
(1) اِس موضوع پر تفصیلات جاننے کے لیے راقم کی کتاب - ’اِسلام اور جدید سائنس‘ ملاحظہ فرمائیں۔
اوائل صدیوں میں دنیا بھر سے شمعِ علم کے پروانے اپنی تشنگی بجھانے کے لیے اسلام کے علمی مراکز کا رُخ کرتے تھے۔ ان دنوں بغداد، دمشق، مصر، سپین، نیشاپور، سمرقند، بخارا، ازبکستان، ترکمانستان اور دیگر وسطی ایشیائی ریاستیں (Central Asian States) علوم و فنون کے مراکز تھے۔ اب اس کے برعکس اسلامی دنیاسے لوگ طلبِ علم کے لیے مغربی ممالک کا رُخ کرتے ہیں۔
ہم یہاں مطلقاً علم کی بات کر رہے ہیں، دینی علم کے حوالے سے بات نہیں کر رہے۔ یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اسلامی دنیا طریقِ علم چھوڑ کر جہالت کے اندھیروں میں چلی گئی ہے اور اِسی جہالت نے اُسے تباہی، بربادی اور زوال کا شکار کر دیا ہے۔ لوگوں کی علمی اور شعوری حیثیت کی سطح اس چیز کی عکاس ہے کہ علم کی اہمیت ہمارے معاشروں میں بھلا کیا رہ گئی ہے؟
تاریخ گواہ ہے کہ جس معاشرے میں مال و دولت کی اہمیت بڑھ جائے اور علم کی وقعت کم ہو جائے تو وہ معاشرہ کبھی باوقار طریقے سے زندہ نہیں رہ سکتا۔ معاشروں کے اِحیاء اور ان کے جاہ و حشمت اور وقار کی بحالی کے لیے علم کا سفر پھر سے شروع کرنا پڑتا ہے۔
آئیے! اب ہم ذریعہ عقل کا تفصیلی مطالعہ کرتے ہیں کہ ’عقل‘ کو علم کے حصول کے باب میں کیا اہمیت و انفرادیت حاصل ہے اور عقل بذاتِ خود کیا حیثیت رکھتی ہے؟ کیا علم کے باب میں یہ مکمل خود مختار ہے یا یہ بھی کسی کی محتاج ہے؟ اگر علم کے باب میں عقل بھی کسی کی محتاج ہے تو اس کی یہ محتاجی کس قدر ہے؟
جب ہم ذرائع علم کی بات کرتے ہیں تو حواس نہ خود علم ہیں، نہ علم بناتے ہیں اور نہ ہی یہ اَز خود علم تک پہنچاتے ہیں۔ یہ محض ایک ذریعہ اور وسیلہ ہیں۔ یہ وسیلہ آگے چل کر ایک اور وسیلے تک پہنچاتا ہے۔
علم کے باب میں پہلا ذریعہ حواسِ خمسہ ہیں۔ اب اگر حواسِ خمسہ تنہا رہیں تو علم نہیں بنتا۔ حواس محض ادراک دیتے ہیں یعنی وہ وسیلۂ ادراک ہیں۔ حواسِ خمسہ میں ہم کسی چیزکو دیکھتے، چُھوتے، چکھتے، سُونگھتے اور سُنتے ہیں تو جو تاثر پیدا ہوتاہے، اسے ادراک کہتے ہیں۔ حواسِ خمسہ ادراک کو آگے عقل کے کارخانے میں منتقل کر دیتے ہیں، جس کے بعد حواس کا کام ختم ہو جاتا ہے۔ علم کو تشکیل دینے میں عقل بھی واسطہ اور وسیلہ ہے۔ اس لیے جب حواسِ خمسہ ظاہری کی بات ہوتی ہے تو یہ تنہا علم تک نہیں پہنچاتے، حواس کے ساتھ پھر عقل کا ذکر ضروری ہوتا ہے۔ حواس اور عقل باہم مل کر ہمیں علم تک پہنچاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جسم کو پانچ حواس دیے ہیں اور ہر ایک حس کے ذریعے الگ الگ قسم کا ادراک ہے جو اُس کے دائرے میں آتا ہے۔
جب ہم کسی آواز کو سنتے ہیں تو اس سے دو چیزیں منتقل ہو رہی ہوتی ہیں:
1۔ جو لفظ ادا کیا گیا، اس آواز کی ظاہری شکل و صورت سننے کے حاسہ کے ذریعے عقل کو منتقل کر رہے ہیں۔
2۔ اُس لفظ کا کوئی مطلب بھی ہوگا یعنی وہ لفظ جس معنی پر دلالت کرتا ہے، وہ معنیٰ بھی عقل کو منتقل ہو رہا ہے۔
مثلاً اگر لفظ ’پانی‘ سنا، تو اس لفظ کی آواز بھی جا رہی ہے اور ساتھ میں لفظ کی ایک صورت بھی عقل کو منتقل ہو رہی ہے۔ جس طرح ہر لفظ کا ایک معنیٰ ہے اسی طرح لفظ پانی جس معنی پر دلالت کرتا ہے، وہ معنی بھی عقل کو منتقل ہو رہاہے۔ علیٰ ہذا القیاس اسی طرح باقی حواس کا بھی یہی عمل ہے۔ ہر چیز کا جو احساس پیدا ہوتا ہے، اس میں ایک ظاہری صورت ہے اور ایک اس کا باطن اور معنیٰ ہے جس پر وہ دلالت کرتا ہے۔ حواس ظاہری صورت اور معنیٰ دونوں کو عقل میں منتقل کر دیتے ہیں۔
قلب کا بھی ایک ظاہر اور ایک باطن ہوتا ہے۔ اسی طرح دینی تعلیمات میں بھی ایک ظاہر کا پہلو ہے اور دوسرا باطن کا ہے۔ عبادت میںبھی ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے۔ مثلاً: ہم نماز پڑھتے ہیں۔ اس کا ظاہر یہ ہے کہ ہاتھ اٹھاتے ہیں، تکبیر تحریمہ کہتے ہیں، ہاتھ باندھتے ہیں، قرات و قیام اور رکوع وسجود کرتے ہیں، پھر تشہد اور آخر میں سلام پھیرتے ہیں۔ یہ سب ارکان نماز کی ظاہری صورت ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نماز کا ایک باطن بھی ہے۔ دنیا سے ہاتھ اٹھا کر اللہ سے لو لگ گئی، اللہ کی عبادت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی تواضع، انکساری اور بندگی کا اظہار کر رہے ہیں، دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت جا گزیں ہو رہی ہے اور اس وقت ہم اس کی رضا اور قرب کے طلب گار ہو رہے ہیں۔ قیام ہے توہم مالکِ کُل کے حضور کھڑے ہیں۔ سجود ہے تو اس کے در پر اپنی جبینِ نیاز جھکائے ہوئے ہیں۔ تشہد میںبیٹھے ہیں تو اس کے در پر طلب گار بن کر بیٹھے ہیں۔ پوری نماز کے ہر رکن، ہر واجب اور ہر عمل اور فعل کے اندر ظاہر کے ساتھ ایک باطن بھی پوشیدہ ہے۔
یہی کیفیت روزہ کی ہے جس کی باطنی صورت کو اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے:
لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo
البقرة، 2: 183
تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔
یعنی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا کے لیے روزے کی حالت میں حلال چیز کو اس لئے چھوڑنا کہ تقویٰ حاصل ہو سکے۔ چنانچہ اگر تقویٰ حاصل نہ ہو تو پھر کھانا پینا چھوڑ دینا سود مند نہیں۔ گویا اگر باطن کے مقاصد پورے نہ ہوں تو ظاہری عمل بھی کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ اگر باطن سے توجہ ہٹ کر فقط ظاہر پر رہے تو پھر وہ عمل کبھی کامل نہیں ہوتا۔ تمام عبادات و معاملات اور احوال و اخلاق میں یہی اَمر کار فرما ہے۔
اسی طرح شریعت کا بھی ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے۔ دین کے ظاہری احکام فقہاء اور علماء سمجھاتے ہیں اور باطن کی تعلیمات کو صوفیاء اور اولیاء سکھاتے ہیں۔
قرآن مجید کا بھی ایک ظاہر اور ایک باطن ہے۔ جب ہم سورۃ الفاتحۃ کی پہلی آیت - اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ - کی تلاوت کرتے ہیں تو اس کے الفاظ، آیات، حروف اور صوت کا ایک ظاہر ہے اور اس کے معانی باطن ہیں۔ پھرمعانی کے اندر اسرار و رموز اور معارف ہیں جو باطن الباطن ہیں۔
اسی طرح تعلیمات میں بھی مراتب اور مدارج ہیں۔ تعلیماتِ دین میں کچھ چیزیں ظاہر میں ہیں، ان کی ادائیگی ہر ایک پر واجب ہے۔ ان تعلیمات کے کچھ اَسرار و لطائف اور کچھ رموز و غوامض ہیں۔ انسان جیسے جیسے علم کے سمندر میں غوطہ زن ہوتا چلا جاتا ہے، ویسے ویسے اس پر نئی نئی جہات آشکار ہوتی چلی جاتی ہیں۔
عالمِ بالا کی طرف متوجہ ہوں گے تو ہر آسمان کی شانیں جدا جدا اور ان کی مخلوقات الگ الگ ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے واقعۂ معراج پر ارشاد فرمایا: میں پہلے آسمان پر پہنچا تو حضرت آدم e سے ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد دوسرے آسمان پر پہنچا تو وہاں حضرت عیسیٰ e ملے ، حتیٰ کہ ساتویں آسمان پر پہنچا، پھر آگے عرشِ معلّٰی اور سدرۃ المنتہیٰ کا بیان فرمایا۔
یہ سب وہ چیزیں ہیں جو ہماری عقل اور ہمارے ادراک سے بالاتر ہیں۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ ہر چیز تہ در تہ ہوتی ہے۔ کچھ چیزیں حواس سے معلوم ہوتی ہیں اور کچھ اشیاء حواس کے ادراک سے بالا ہوتی ہیں۔ یاد رکھ لیں! عقل وہی کچھ جانے گی جو اُسے حواس سے معلوم ہوگا۔
حواس خمسہ کا ایک عمل (process) ہے۔ جب تک حواس ظاہری صورت اور باطنی معانی عقل کو نہیں پہنچاتے، اُس کا عمل (process) شروع ہی نہیں ہوتا۔ عقل کا کارخانہ اس وقت تک بند پڑا رہتا ہے جب تک حواس اسے خام مال مہیا نہ کریں۔ ہم کبھی تنہا حواس پر بھروسہ نہیں کر سکتے، کیونکہ وہ کسی نتیجے پر پہنچانے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور نہ ہی تنہا عقل پر بھروسہ کر سکتے ہیں، اس لیے کہ عقل کا اپنا بھروسہ حواس پر ہے۔
عقل کے پانچ شعبے ہیں:
1۔ حسِّ مشترک
2۔ حسِّ خیال
3۔ حسِّ واہمہ (یہ وہم وہ نہیں ہے جس کا ذکر علم اور جہل کے مابین آیا تھا)
4۔ حسِّ حافظہ
5۔ حسِّ متصرّفہ / متخیّلہ / مفکّرہ
اب ہم ان شعبہ جات کے امور (functions) پر غور کرتے ہیں:
جو چیز ہم نے دیکھی، سُنی یا چُھوئی اس کی ظاہری صورت اور اس کا ادراک حسِ مشترک میں جاتا ہے۔ گویا انسانی عقل کا یہ گوشہ حواسِ ظاہری کے تاثرات وصول کرتا ہے۔ حواس کے اولین ظاہری تاثرات اس حصہ عقل میں پہنچ کر جذب ہو جاتے ہیں۔ مثلاً جب ہم اپنی آنکھ سے کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو انسانی عقل کے اس حصے پر اس کی تصویر مرتسم ہو جاتی ہے۔ اسی لئے اسے لوح النفس بھی کہتے ہیں۔ حس مشترک کا کام ظاہری صورت اور تاثر کو وصول کرنا ہے۔
حسِّ مشترک میں پہنچنے والی مدرکات اور محسوسات کی تصاویر اور اشکال کو ظاہری صورت میں اپنے اندر محفوظ کر لیتی ہے۔ مثال کے طور پرجب ہم لفظ ’میں‘ بولتے ہیں تو اس لفظ کی ظاہری صورت یعنی ’میم‘، ’ی‘ اور ’نون غنہ‘ ہے۔ چنانچہ اس کے ظاہر کا یہ تاثر حسِ مشترک پر منعکس ہوتا ہے۔ یہ تاثر ایک حصے میں بصورتِ تصویر حسِ خیال میں محفوظ ہو جاتا ہے اور اس کا معنیٰ بھی عقل کے دوسرے حصے میں پہنچ جاتا ہے۔
حسِ واہمہ بھی وصول کرنے کا ایک دفتر ہے۔ جس طرح کسی لفظ، کسی شے اور ادراک کی ظاہری صورت حسِ مشترک میں وصول ہوئی تھی، اس طرح حسِ واہمہ اُس صورت کا معنیٰ و مفہوم وصول کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں حسِ مشترک نے اُس صورت کو وصول (receive) کیا جب کہ حسِ خیال نے اسے محفوظ کر لیا۔ یہ اس کا اسٹور ہے۔ تیسرے شعبہ حسِ واہمہ نے اُس صورت کے معنیٰ کو وصول (receive) کیا۔
حسِّ واہمہ نے جو معنیٰ وصول کیا تھا، اُسے حسِ حافظہ نے محفوظ کرلیا۔ یہ اُس شے کے معنیٰ کو اسٹور کرتا ہے، اس خوبی پر اسے حافظہ کہتے ہیں۔ ہر شے، ہر لفظ اور ہر آواز الغرض ہر شے کی صورت کو حسِ مشترک وصول (receive) کرتا ہے اور اُس صورت کے معنیٰ کو حسِ واہمہ وصول (receive) کرتا ہے ۔ حسِ خیال اُس صورت اور حسِ حافظہ اس کے معنیٰ کو محفوظ کرتا ہے۔
عقل کے ان چاروں شعبوں کے عمل کرنے کے باوجود ابھی علم وجود میں نہیں آیا۔ ہر چیز، ہر آواز اور ہر شے کی ظاہری صورت حسِ مشترک میں وصول ہوئی اور وہ حسِ خیال میں محفوظ ہوگئی۔ اس سارے عمل سے ابھی علم نہیں بنا۔ جب ایک خانے نے وصول (receive) کیا اور دوسرے نے اسے محفوظ (store) کر لیا تو بھی علم نہیں بنا۔ اسی طرح ہر چیز کا جو معنیٰ تھا، وہ حسِ واہمہ نے وصول کر لیا، حسِ حافظہ نے معنیٰ کو حافظہ میں محفوظ کر لیا۔ یہ چار چیزیں الگ الگ خانوں میں چلی گئیں۔ اُن میں سے دو خانوں نے ظاہر اور باطن کو وصول کیا اور دو نے ظاہر و باطن کو اپنے معانی کے اعتبار سے محفوظ کر لیا۔ واضح رہے کہ ابھی تک علم مکمل نہیں ہوا۔
پانچواں شعبہ حسِ متصرّفہ ہے، جسے متخیلہ اور متفکرہ بھی کہتے ہیں۔ اس کا کام ’حسِ مشترک‘ میں آنے والی ظاہری صورت کو ’حسِ واہمہ‘ میں حاصل ہونے والے معنی سے اور ’حسِ خیال‘ میں محفوظ شکل و صورت کو ’حسِ حافظہ‘ میں محفوظ مفہوم کے ساتھ جوڑ دینا ہے۔ یوں انسان مختلف الفاظ سن کر ان کا مفہوم سمجھنے، مختلف رنگوں کو دیکھ کر ان میں تمیز کرنے اور مختلف اشیاء کے ذائقے چکھ کر ان کے درمیان فرق معلوم کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
اس طرح یہ پانچوں حصے باہم مل کر ایک خاص نکتے تک پہنچتے ہیں، جسے علم کہا جاتا ہے۔ اگر یہاں حسِ مشترک موجود نہ ہو تو پانچوں حواس بے بس ہو کر رہ جائیں گے۔ اگر ان میں حسِ واہمہ درست نہ ہو تو ہم سب کچھ دیکھیں گے لیکن جان کچھ بھی نہ سکیں گے۔ کسی بھی چیز کی آواز تو سنائی دے گی مگر اس کا مفہوم سمجھ میں نہ آسکے گا۔ کسی چیز کو ہاتھوں سے چھوا تو جا رہا ہوگا مگر نرم و سخت چیزوں میں کوئی امتیاز نہیں کیا جا سکے گا۔ پھر جب اس تصور پر کچھ چیزیں بار بار کے تجربے و مشاہدے، سوچ بچار اور تفکر و تعقل سے شامل (add) ہوتی ہیں تو اس میں مزید پختگی آجاتی ہے۔ نتیجتاً ادراک، علم میں بدل جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں جب کسی شے کے بارے میں کوئی شک، وہم اور تردد نہیں رہتا تو وہ علم بن جاتا ہے۔
اب تک کی بیان کی گئی تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ حواسِ خمسہ ظاہری علم تک رسائی کے لئے عقل کے مذکورہ پانچوں شعبہ جات کے محتاج ہوتے ہیں۔ جب تک حواسِ ظاہری کے مدرکات ان پانچوں شعبوں سے گزر کر ایک صحیح نتیجے تک نہ پہنچیں، اس وقت تک حواسِ ظاہری کے ذریعے محسوس کیے جانے والے تمام مادی حقائق علم کی شکل اختیار نہیں کر سکتے۔ گویا حواسِ خمسہ ہماری کسی شے کو محسوس تو کرتے ہیں مگر اسے معلوم نہیں کر سکتے۔
اسی طرح عقل اور اس کے پانچوں شعبے مکمل طور پر حواسِ خمسہ ظاہری کے محتاج ہیں۔ اگر آنکھ دیکھنے، کان سننے، ناک سونگھنے، زبان چکھنے اور ہاتھ چھونے سے محروم ہو تو تمام عقلی شعبے مل کر بھی کوئی نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے۔ چنانچہ جہاں حواس، عقل کے محتاج ہیں؛ وہیں خود عقل بھی اِن حواس کی محتاج ہے۔
اگر کسی بچے کی پیدائش کے فوراً بعد اس کی پرورش کاآغاز کسی ایسی جگہ پر کیا جائے جہاں کوئی آواز اس کے کان میں نہ پڑنے پائے تو وہ پچاس سال کی عمر تک پہنچ جانے کے بعد بھی نہ کچھ بول سکے گا اور نہ کچھ سمجھ سکے گا۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی اپنی زبان سے بولتے ہیں، دراصل یہ ان آوازوں کا نتیجہ ہوتا ہے جو ہم کانوں سے سنتے ہیں اور جنہیں عقل نے حافظے میں محفوظ کر لیا ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص اپنے کان سے کچھ سن ہی نہیں سکا اور اس کی عقل الفاظ، حروف، لہجوں اور آوازوں کو محفوظ ہی نہ کر سکی تو جس طرح اس کا دماغ الفاظ کے معاملے میں سفید کاغذ کی طرح کورا رہا، اسی طرح اس شخص کو اپنی کیفیات، حاجات اور خواہشات کے بیان پر بھی قدرت حاصل نہ ہو سکی۔
اس طرح جو بچہ پیدائشی بہرا ہوتا ہے وہ خود بخود گونگا ہوتا ہے۔ اس کا یہ گونگا پن اس کی زبان کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اس نے کوئی لفظ سنا ہی نہیں تو وہ اپنے ما فی الضمیر کو کیسے الفاظ کا جامہ پہنائے گا؟
اِسی طرح اگر ایک شخص کسی ایسی جگہ پر پیدا ہو ا، جہاں پیدائش سے لے کر مرتے دم تک اس نے روٹی ہی نہیں دیکھی تو لفظ روٹی سن کر اس کا معنیٰ سمجھ میں نہیں آئے گا۔ ایک آدمی اگر اندھا پیدا ہوا تو اس کے لیے تمام رنگ ایک ہی طرح کے ہیں اور وہ سیاہ، سفید، نیلے اور پیلے رنگ میں تمیز ہی نہیں کر سکے گا، چونکہ اس کی آنکھ نے کوئی رنگ دیکھا ہی نہیں ہے۔ کسی میں حسِ شامہ پیدائشی طور پر نہیں ہے تو وہ خوش بو اور بدبو میں تمیز ہی نہیں کر سکے گا۔
اِسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ بہروں، گونگوں اور خصوصی بچوں کے اسکولز ہوتے ہیں۔ جہاں انہیں خاص طریقوں اور ہاتھوں کے اشارے سے سکھایا جاتا ہے تاکہ ان کا دماغ کسی چیز کو سمجھے۔ علیٰ ہذا القیاس جو کچھ حواس نے اُسے مہیا کیا عقل نے وہی کچھ وصول (receive) کیا۔ چنانچہ یہ امر متحقق ہوگیا کہ انسانی عقل کی پرواز صرف وہیں تک ہے جہاں تک حواس کام کرتے ہیں۔
اس ساری بحث سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ عقل نے دی گئی معلومات کو صرف وصول کیا، محفوظ کیا اور ترتیب دیا۔ عقل اپنے ایک شعبے میں صورت کو وصول کر لیتی ہے اور ایک شعبے میں معنیٰ کو وصول کر لیتی ہے۔ اسی طرح ایک شعبۂ عقل صورت کو محفوظ کرتا ہے اور دوسرا معنیٰ کو محفوظ کرتا ہے۔ بعد میں محفوظ شدہ (preserved) صورت کو اس کے معنیٰ سے جوڑ کر کوئی حکم لگایا جاتا ہے یا کوئی فعل رُو بہ عمل ہوتا ہے۔ جیسے لفظ ’پانی‘ کی آواز جس چیز کو پانی کہا جاتا ہے اس کے تصور اور تاثر سے جوڑتی ہے۔ لفظ ’دودھ‘ کی آواز، جس شے کو دودھ کہا جا رہا ہے اس معنیٰ کے ساتھ جوڑتی ہے۔ یہ حسِ مشترک اور حسِ واہمہ کا عمل (function) ہے۔ حصہ خیال میں اس صورت کا معنیٰ اور حصہ حافظہ میں اس صورت کی ہئیت اگر محفوظ ہوگی تو کوئی فعل رُو بہ عمل ہوگا۔ اگر حسِ خیال کے ساتھ حسِ حافظہ کام نہ کرے تو جو چیزمحفوظ ہے وہ منتشر اور مختلف ہو جائے گی۔
اگر آنکھ نے کسی چیز کو دیکھا ہی نہیں تو اس کی تصویر بھی عقل کو منتقل نہیں ہوگی۔ جس کو کبھی صورتاً و معنًا آنکھ نے نہیں دیکھا تو عقل اس شے کے بارے میں علم مہیا نہیں کر سکتی۔ کان نے جس آواز کو سنا ہی نہیں، عقل اس کے بارے میں کوئی تصور اور علم مہیا نہیں کر سکتی۔ چونکہ اس کو بنیادی طور پر خام مواد ہی نہیں ملا۔ ناک نے جس چیز کو سونگھا ہی نہیں، عقل اس کی خوشبو اور بدبو کے بارے میں کوئی تصور اور علم مہیا نہیں کر سکتی۔ زبان نے جس چیز کو چکھا ہی نہیں، عقل اس کے بارے میں ذائقے کا کوئی علم اور تصور مہیا نہیں کر سکتی۔ اسی طرح ہاتھوں نے جس چیز کو چھوا ہی نہیں، عقل اس کے نرم یا سخت ہونے کے بارے میں کوئی تاثر، تصور اور علم مہیا نہیں کر سکتی۔
یہ ساری چیزیں عقل کے اندر منظم ہو رہی ہیں۔ یہ وہ مواد ہے جو حواسِ خمسہ نے بھیجا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو چیز محسوسات سے خارج ہے عقل اس کا ادراک نہیں کرسکتی اور وہ معقولات میں نہیں آسکتی۔ گویا تمام معقولات کی بنیاد محسوسات پر ہے۔ عقل کے سارے تصورات اور معلومات کا سارا انحصار مدرکات پر ہے۔ جو کچھ حواس بھیجتے ہیں عقل اسی مواد کو باہم مربوط کرتی اور منظم کر کے علم کی شکل دیتی ہے۔
عقل سے مراد دماغ ہے لیکن عرفِ عام میں چونکہ لفظ ’عقل‘ ہی زیادہ استعمال ہوتا ہے، اِس لیے تشکیل علم کے باب میں ہم اپنی گفتگو کے دوران جہاں بھی دماغ کی صلاحیت کی بات کریں گے تو وہاں لفظ عقل مراد ہوگا۔ شیخ اکبر محی الدین بن عربی في معرفۃ أسرار أہل الإلہام (اہل الہام کے اسرار کی معرفت) کے باب میں کرتے ہیں:
وَهٰذَا مِنْ أَعْجَبِ الْأُمُوْرِ عِنْدَنَا أَنْ یَکُوْنَ الإِنْسَانُ یُقَلِّدُ فِکْرَهٗ وَنَظَرَهٗ وَهُوَ مُحْدَثٌ مِثْلُهٗ.
ابن عربی، الفتوحات المکیة، 4: 316
ہمارے نزدیک یہ بڑی عجیب چیز ہے کہ انسان اپنے فکر و نظر کا مقلّد بنتا ہے حالانکہ عقل بھی اُسی طرح حادث ہے جیسے خود سارا اُس کا وجود ہے۔
یعنی انسان کے فکر و نظر میں جو بات آتی ہے وہ سمجھتا ہے کہ بس وہی صحیح ہے۔ انسان لامحدود کو بھی اپنی محدود فکر و نظر سے سمجھنا چاہتا ہے اور وہ عقل کی بات پر اعتمادکرتا ہے۔ حالانکہ جس طرح اُس کے وجود کی حدود ہیں، اُسی طرح عقل کی بھی اپنی حدود ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک محدود وجود میں ایک لامحدود جوہرِ عقل رکھ دیا ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کے وجود کے اندر دماغ کے قوائے ذہنی بھی عقل کی خدمت کے لئے تشکیل دیے ہیں۔ ان کا مقصود یہ ہے کہ اِن قوائے ذہنی کے ذریعے عقل مقدمات کو ترتیب دے کر علم کو متشکل کر سکے۔
چنانچہ شیخ اکبر فرماتے ہیں کہ عقل خود انہی قواء کی محتاج ہے ، جس کا انحصار اُسی محدود جسم کے اپنے حواس کی معلومات پرہے۔ بندہ اپنی محدود عقل کو لامحدود سمجھ کر اُس کے فیصلوں کا مقلّد اور پیروکار بننا چاہتا ہے۔ انہوں نے مزید فرمایا ہے:
جَعَلَ الْعَقْلَ فَقِیْرًا إِلَیْهِ یَسْتَمِدُّ مِنْهُ مَعْرِفَةُ الْأَصْوَاتِ. وَلَیْسَ فِي قُوَّةِ الْعَقْلِ مِنْ حَیْثُ ذَاتِهٖ إِدْرَاکُ شَيئٍ مِنْ هٰذَا مَا لَمْ یُوْصِلُهٗ إِلَیْهِ السَّمْعُ. وَکَذَالِکَ الْقُوَّةُ الْبَصَرِیَّةُ. جَعَلَ اللهُ الْعَقْلَ فَقِیْرًا إِلَیْهَا.
ابن عربی، الفتوحات المکیة، 4: 317-318
اللہ تعالیٰ نے عقل کو حواس کا فقیر یعنی محتاج بنایا ہے۔ وہ ان سے آوازوں کی پہچان میں مدد لیتی ہے۔ بذاتِ خود عقل میں یہ طاقت اور قوت نہیں ہے کہ وہ کسی شے کا اِدراک کرسکے جب تک کہ سماعت اس تک کوئی پیغام نہ پہنچائے، یا قوتِ باصرہ اسے کوئی معلومات فراہم نہ کرے۔ گویا عقل کو اللہ تعالیٰ نے حواس کا محتاج بنایا ہے۔
یعنی اگر ہم ماحول میں سنائی دی جانے والی آوازوں پر ہی غور کریں تو بہت کچھ ذہن میں آئے گا۔ مثال کے طور پرندوں کی آواز اور ہوا کی سرسراہٹ کے درمیان کیا فرق ہے؟ اس طرح دروازے کھلنے کی آواز اور اس کی دستک کیسی ہے؟ پانی آبشار سے گرتا ہے تو اُس کی آواز کیسی ہوتی ہے؟ انسان کی چیخ و پکار کیسی ہے؟ پرندوں کی چہچہاہٹ کیسی ہے؟ بکری کی آواز کیسی ہے؟ گائے کی آواز کیسی ہے؟ اونٹ کیسی آواز نکالتا ہے؟ اُس کے متعلقہ وہ کہتے ہیں کہ اگر آواز کی ہی مثال دے دیں تو یہ ساری چیزیں حواس نے عقل کو مہیا کی ہیں اور پھر عقل نے اِن اِدراکات کو ترتیب دے کر اُسے علم کی شکل دی ہے۔
عقل کے اندر از خود کوئی صلاحیت نہیں ہے۔ حسِ سامعہ جو اُسے پہنچائے گی عقل اسی پر فیصلہ کرے گی۔ یہی معاملہ بصارت کا ہے کہ جب آنکھ ادراک منتقل کرے گی توعقل اُس پر مبصرات کا کوئی فیصلہ کرے گی کہ یہ سبز رنگ ہے، یہ پیلا ہے، یہ سفید ہے، یہ سیاہ ہے اور یہ فلاں فلاں رنگ ہے۔
شیخ محی الدین ابن عربی نے اسی طرح عقل کے حسِ مشترک، حافظہ، واہمہ اور حسِ خیال اور حسِ متصرفہ پانچوں حواس کا ذکرکرتے ہوئے عقل کو محدود اور حواس کا محتاج ثابت کیا ہے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ اِس پر کسی کی دو رائے نہیں ہے کہ عقل نہ صرف حواس کی محتاج ہے بلکہ اُس کی فرماں روائی اور علم حاصل کرنے کی قوت بھی محدود ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ عقل کا نام کس وجہ سے عقل رکھا گیا ہے۔ عام طور پر ہم عقل کا معنیٰ فہم سمجھتے ہیں۔ مگر علماء نے اس کے دیگر لغوی معانی بھی بیان کئے ہیں جن سے اس کی حقیقت مزید عیاں ہو جاتی ہے:
1۔ امام ابو منصور الازہری تہذیب اللغۃ میں شیخ ابو سعید کا قول بیا ن کرتے ہیں:
إِذَا أَقَامَهٗ عَلٰی إِحْدٰی رِجْلَیْهِ، کَمَا یُقَالُ: عَقَلَ فُلَانًا وَعَکَلَهٗ.
أبو منصور، تهذیب اللغة، 1: 161
اگر کسی کو ایک ٹانگ پر کھڑا کر دیاجائے تو اسے بھی عقل کہتے ہیں۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے: اُس شخص نے اُسے عقل کر دیا یعنی ایک ٹانگ پر کھڑا کر دیا۔
سوال ہے کہ اس مثال میں لفظ عقل کا اطلاق کیوں کیا گیا؟ اِس سوال کا جواب ہمیں سیدنا علی المرتضیٰ g کے ایک واقعے سے ملتا ہے۔ کسی نے سیدنا مولا علی المرتضی g سے پوچھا کہ انسان کتنی طاقت و اختیار رکھتا ہے اور کتنا بے بس ہے؟ انہوں نے فرمایا: اپنی ایک ٹانگ اٹھا لو۔ اُس نے اُٹھا لی۔ پھر فرمایا: اب دوسری ٹانگ بھی اُٹھا لو۔ اس نے عرض کیا: یہ ناممکن ہے۔ سیدنا علی g نے فرمایا: بس! بندہ اسی قدر مختار اور اسی قدر محتاج ہے۔
یعنی بندے کی اپنی استعداد اور صلاحیت اتنی ہے کہ صرف ایک ٹانگ پر کھڑا ہو سکتا ہے ۔اگر انسان ایک ٹانگ پر کھڑا ہو جائے تو وہ اپنی قوت اور صلاحیت میں محدود ہو جاتا ہے۔ اِس لیے محدود کے استعارے کے طور پراِس کیفیت کو عقل کہا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں دو ٹانگوں پر کھڑے ہونے کو عقل نہیں کہا۔ ایک ٹانگ پر کھڑا ہونے سے بندے میں کمزوری آجاتی ہے۔ اگر ایسا کر دیا اور کوئی سارا دن ایک ٹانگ پر کھڑا رہا تو کہیں گے:
هُوَ مَعْقُوْلٌ مُنْذُ الْیَوْمِ.
وہ شخص پورے دن سے معقول ہے، یعنی ایک ٹانگ پر کھڑا ہے۔
2۔ صاحبِ قاموس امام مجد الدین فیروز آبادی اپنی تصنیف ’بصائر ذوی التمییز‘ میں عقل کی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہے کہ عقل کا معنیٰ حماقت اورپاگل پن کی ضد ہے، لیکن اِس کا یہ معنی بھی ہے:
عَقَلَ یَعْقِلُهٗ وَیَعْقُلُهٗ أَمْسَکَهٗ.
فیروز آبادی، بصائر ذوی التمییز، 4: 85
اگر کسی چیز کو روک دیا، باندھ دیا تو اُسے بھی عقل کہتے ہیں۔
اسی سے عقل البعیر اور إعقال بھی ہے۔ نکیل باندھنے والی چیز کو بھی عقل اور عقال کہا جاتا ہے۔ جب اونٹ کو بٹھانا چاہتے ہیں تو اس کی پنڈلی کے اگلے حصہ کو باندھ دیتے ہیں تو اُس کے لیے بھی عقل کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ گویا عقلہ واعتقلۃ سے مراد حیوان کی پنڈلی کے اگلے حصہ کو باندھ دینا ہے تا کہ وہ کہیں بھاگ نہ سکے، گویا اُسے پابند کر دیا گیا ہے۔
اس معنی کی رُو سے کسی کو باندھنا اور روک دینا بھی عقل کہلاتا ہے۔ یہاں باندھ دینا اور روک دینا اُس کی محدودیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جب آپ عقل کو غیر محدود مانیں گے تو یہ بے عقلی کہلائے گی۔ ایسا کہنا عقل کی اپنی صلاحیت، قوت، استعداد اور صفت کے خلاف ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں عقل کو لامحدود علم کا حاصل کرنے والا سمجھنا، عقل کو لامحدود صلاحیت سمجھنا عقل مندی نہیں بلکہ کھلی حماقت ہے۔
3۔ اِسی طرح عقل کا مفہوم یہ بھی ہے :
وَلَا یَنْفَعُ مَسْمُوْعٌ إِذَا لَمْ یَکُ مَطْبُوْعًا.
سنی سنائی بات اُس وقت تک نفع نہیں دے گی جب تک لکھی ہوئی نہ ہو۔
یعنی اگر ہمارے سامنے کوئی تحریر موجود ہو تو اُسے ہم پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر وہ تحریر آنکھوں کے سامنے نہ ہو تو اُسے نہ سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کا ادراک کر سکتے ہیں۔ یہ اشارہ اِس امر کی طرف ہے کہ حواس کے ادراک اور عقل کے ترتیبِ مقدمات کا عمل دونوںایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر آپ اِنہیں آزاد کر دیں تو عقل کا اپنا معنیٰ ہی ختم ہو جائے گا۔ وہ عقل، عقل ہی نہیں رہے گی۔
پس عقل کے اندر بنیادی طور پر اِمساک (روک دینا)، باندھ دینا، جوڑ دینا، ایک ٹانگ پر کھڑا کر دینا، محدود کر دینا اور تحریکیت (movement) کو ختم کردینے کا معنیٰ پایا جاتا ہے۔ یہاں سے عقل اور حواس کی محدودیت متحقق (establish) ہوتی ہے۔
اب سوچیے کہ ہم بعض امور میں کتنی نادانی کرتے ہیں۔ جب ہم سمجھتے ہیں کہ عقل ہر چیز کے بارے میں رہ نمائی کر سکتی ہے۔ یہاں آکر انسان دھوکہ کھاتا ہے۔ جب وہ ہر شے اور ہر حقیقت کا فیصلہ - خواہ اس کا تعلق عالمِ مادیات کے ساتھ ہے، عالمِ روحانیات کے ساتھ ہے یا عالم ما بعد الطبیعیات کے ساتھ ہے - عقل کے تناظر میں دیکھتا ہے۔
یہ امر قابلِ غور ہے کہ حواسِ خمسہ ظاہری اور عقل کے متحرک ہونے کے باوجود انسانی زندگی کی حقیقت سے متعلق اکثر سوالات تشنہ رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر کائنات کا آغاز کیسے ہوا اور اس کا اختتام کب اور کیسے ہوگا؟ انسان کی تخلیق کیسے ہوئی؟ اسے کس نے پیدا کیا؟ انسان کی زندگی کا کیا مقصد ہے؟ اس کائنات سے اس کا تعلق کیا ہے؟ اس میں زندگی گزارنے کے لئے کون سے قوانین و ضوابط درکار ہیں؟ کون سی چیز اچھی اور کون سی بُری ہے؟ ظلم کیا ہے اور انصاف کیا ہے؟ مرنے کے بعد انسان کہاں جاتا ہے؟ آیا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا ہے یا ایک نئی زندگی کا آغاز کرتا ہے ؟ مرنے کے بعد زندگی کی کیفیت کیا ہوگی؟ مرنے کے بعد کیا کوئی جواب طلبی بھی ہوگی یا نہیں؟ مرنے کے بعد روح اور جسم کا کوئی تعلق باقی رہے گا کہ نہیں؟ مرنے کے بعد روح کہاں جا کر ٹھہرتی ہے؟ یہ سب وہ چیزیں ہیں جو مابعد الطبعیات سے تعلق رکھتی ہیں۔
یہ وہ سوالات ہیں جو انسانی ذہن میں پیدا ہوتے ہیں کہ اگر انسانی زندگی با مقصد ہے تو انسان کو ان تمام سوالوں کے تسلی بخش جواب چاہییں۔ یہ تمام سوالات ہمارے مدرکات، محسوسات اور حواسِ خمسہ کی صلاحیت سے بھی خارج اور ماوریٰ ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کے بارے میں حواس نے عقل کو کوئی مواد بھیجا ہی نہیں۔ اس لئے عقل کبھی بھی ان کے بارے میں درست فیصلہ نہ دے سکی ہے اور نہ ہی کبھی دے پائے گی۔
یہی وجہ ہے کہ جہاں جا کر عقل ناکام، حیرت زدہ ہوکر تحیّر اور استعجاب میں گم ہو جاتی ہے اور لا أدری کہتی ہے یا بندے کو گمراہ کر دیتی ہے، وہاں اللہ تعالیٰ کی ہدایت آکر بندے کا دامن تھام لیتی ہے۔ علامہ محمد اقبالؔ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے:
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے
عقل کو اس لیے نور کہا گیا ہے کیونکہ وہ روشنی دیتی ہے۔ عقل کبھی منزل نہیں ہوتی۔ عقل راستے میںعین اسی طرح کھڑی ہے، جیسے راستے میںحواسِ خمسہ کھڑے تھے۔ نہ توحواسِ خمسہ خود منزل تک پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی عقل منزل مقصود تک پہنچا سکتی ہے۔ جو انسان ایسے سوالات کا جواب عقل سے لینا چاہے گا تو وہ اُسے گم راہ کر دے گی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللهِ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَo
البقرة، 2: 230
یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدود ہیں جنہیں وہ علم والوں کے لیے بیان فرماتا ہے۔
عقل ان امور پر سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، اگر ہم اسے عقل کے ذریعے سوچنا اور جاننا چاہیں گے تو عقل خود بھی گم ہے اور ہمیں بھی گم کر دے گی۔ اس لیے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ یہ حقیقت ناآشنا کفار اُس کی ذات و صفات کے بارے میں بحث کرتے ہیں:
بِغَیْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًی وَّلَا کِتٰبٍ مُّنِیْرٍo
الحج، 22: 8
بغیر علم و دانش کے اور بغیر کسی ہدایت و دلیل کے اور بغیر کسی روشن کتاب کے (جو آسمان سے اتری ہو)۔
یعنی ان کے پاس نہ تو علم ہے، نہ ذرائعِ علم ہیں اور نہ ہی ہدایت ہے۔
پتہ چلا کہ علم کے معروف ذرائع سے ہٹ کر بھی ایک اور ذریعہ ہے جہاں سے ہدایت ملتی ہے۔ اس کے بعد وہ درجہ ہے، جسے ’کتابِ منیر‘ اور ’علم بالوحی‘ کا نام دیا گیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved