یونانی فلاسفہ کے ہاں یہ رجحان پایا جاتا تھا کہ ذہن میں کسی بھی شے کی نسبت جو تصور قائم اور واقع ہو اُسے علم کہتے تھے۔ خواہ وہ تصورکسی کے موجود ہونے یا نہ ہونے کاقائم ہو، خواہ اس تصور پروہ راسخ ہو یا نہ ہو، خواہ اس تصور میں متردد ہو، خواہ وہ تصور واقعہ کے مطابق ہو یا خلافِ واقعہ ہو، یونانی فلاسفہ ہر چند اُسے علم سے ہی تعبیر کیا کرتے تھے۔ جدید دور میں علم کا یہ تصور رد کر دیا گیا ہے۔ اگر وہ تصور مرتبۂ تصدیق تک پہنچ جائے، جازم اور پختہ ہو جائے تو اُسے بھی علم کہتے ہیں۔ اگر اُس میں ظن رہے، شک آجائے تب بھی اُسے علم ہی کہتے ہیں، حتیٰ کہ وہم کے درجے کو بھی علم کہتے ہیں اور جہلِ مرکب کو بھی علم ہی کہتے ہیں۔ (باب نمبر 2 میں اس پر ضروری بحث گزر چکی ہے۔)
علم کے مختلف درجات کے لحاظ سے اس کی درج ذیل تقسیم کی جاتی ہے:
بنیادی طور پر علم کی دو اقسام ہیں:
علمِ قدیم صرف اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان ہے، کیونکہ ذاتِ باری تعالیٰ بھی قدیم ہے اور اُس کی تمام صفات بھی قدیم ہیں۔ علمِ قدیم کی حقیقت یہ ہے کہ اُس کی نہ تو ابتدا ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی انتہا ہوتی ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی کوئی ابتدا ہے، نہ کوئی انتہا اور نہ ہی اس کی کوئی حد ہے۔ اسی طرح اُس کی صفتِ علم کی بھی کوئی ابتدا، انتہا یا حد نہیں ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا علم ایسا نہیں ہے کہ کوئی یہ کہے کہ یہ اتنے عرصے اور مدت سے ہے اور معاذ اللہ اس سے پہلے ایک دور ایسا بھی تھا کہ جب یہ علم اُس کے پاس نہ تھا۔ علمِ قدیم کی شان یہی ہے کہ اس میں کوئی عدم نہیں ہوتا۔
علمِ حادث کی شان اور تعریف یہ ہے:
اَلْحَادِثُ مَا لَمْ یَکُنْ فَکَانَ.
حادث وہ ہوتا ہے جو پہلے نہیں ہوتا پھر وہ ہو جاتا ہے۔
گویا جو پہلے نہ ہو اور پھر ہو جائے وہ علم حادث کہلاتا ہے۔ علمِ حادث کی دو اقسام ہیں:
علمِ ضروری سے مراد وہ علم ہے جو بدیہی طور پر اِکتساب اور غور و تامل کے بغیر براہِ راست انسانی عقل میں ودیعت کر دیا جاتا ہے، کیونکہ بشر کی جب تخلیق ہوتی ہے تو بحیثیت انسان اس کے لیے یہ علوم ضروری ہوتے ہیں۔ یہ صلاحیت انسان کی بنیادی حاجت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بدیہی طور پر پورا کر دیا ہے۔ مثلاً ایک ان پڑھ شخص بھی کوئی ذریعہ استعمال کئے بغیر یہ جانتا ہے کہ دو کا عدد ایک سے زیادہ ہوتا ہے یا وہ جانتا ہے کہ ایک آدمی بیک وقت ایک ہی حالت میں ہو سکتا ہے ۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ بیٹھا بھی ہو، کھڑا بھی ہو؛ وہ ساکن بھی ہو اور حرکت بھی کر رہا ہو۔ اِن چیزوں کے جاننے کی صلاحیت اس کی تخلیق کے وقت سے ہی اس میں ودیعت کر دی گئی ہے۔ الغرض ایسی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ جن کے حصول کے لئے کسی واسطے یا استدلال کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی، اُنہیں بدیہی معلومات کہا جاتا ہے۔
علمِ مُکتسب سے مراد وہ علم ہے جو انسان مختلف ذرائع سے حاصل کرتا ہے۔ جو علم آنکھوں سے دیکھ کر، گفتگو سے سن کر، ناک سے سونگھ کر، زبان سے چکھ کر، ہاتھوں سے چھو کر اور دماغ کے تفکر و تدبر سے حاصل ہو وہ علم مُکتسب کہلاتا ہے؛ جب کہ علمِ ضروری کے لئے ان تمام مراحل (process) میں مشغول نہیں ہونا پڑتا۔
بدیہی اور اکتسابی علم کے عنوان سے یہ دونوں اقسام علمِ حادث (مخلوق کے علم) کی شانیں ہیں۔ بدیہی علم یعنی علمِ ضروری اللہ تعالیٰ کی جانب سے بنیادی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس کی طبع میں ودیعت کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا علم ہر حاجت سے ماوراء ہے۔ علمِ قدیم کی شان یہی ہے کہ وہ ان چیزوں سے بالاتر ہوتا ہے، کیونکہ اگر اُسے کسی چیز کے جاننے کے لیے کسی ذریعے کی حاجت ہو تو پھر یہ عجز ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ تو ایسے ہر عجز سے پاک اور بالاتر ہے۔ خالقِ دو جہاں کو نہ کسی کسب کی ضرورت ہے، نہ اسے کوئی حاجت ہے اور نہ ہی وہ کسی چیز کو جاننے کے لیے کوئی کوشش کرتا ہے، کیونکہ اُس کا علم تو ازلی اور ابدی ہے۔
انسانی علم کی دو حیثیتیں ہیں:
اَوّلاً یہ بدیہی طور پر عقل میں رکھا گیا ہے، جسے طریقِ ضرورت کہتے ہیں۔
اس کے برعکس طریقُ الکسب ہے۔ اس میںانسان ذرائع استعمال کر کے علم حاصل کرتا ہے۔
2۔ علم کی تقسیم: متکلمین کے نقطہ نظر کی روشنی میں
متکلمین اور اصولیین نے جہل کی دو اقسام بیان کی ہیں:
امام سبکی جمع الجوامع میں جہل کی تعریف یوں کرتے ہیں:
إِنْتِفَاءُ الْعِلْمِ الْمَقْصُوْدِ.
سبکی، جمع الجوامع، 1: 211
مقصود علم کی مکمل نفی ہو جانا۔
گویا ان کے ہاں کوئی علم حاصل نہ ہو اور کسی چیز کی مکمل طور پر نفی ہو جائے تو اسے جہلِ بسیط کہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں علم کا مکمل طور پر فقدان اور مکمل انکار (total negation of knowledge) ہے کہ اس کا کوئی تصور ہی قائم نہیں ہو سکا اور اس حوالے سے بالکل اندھیرا (darkness) و جہالت ہے۔ پس اسے جہلِ بسیط کہا جاتا ہے۔
جہلِ مرکب کی تعریف یوں کی جاتی ہے:
تَصَوُّرُ الْمَعْلُوْمِ عَلٰی خِلَافِ مَا هُوَ بِهٖ.
حمووی، معجم البلدان، 3: 385
شے کی حقیقت کے خلاف غلط تصور قائم ہونا۔
یعنی جس شے کا علم حاصل کرنا چاہتے ہیں، ذہن میں اس کا خلافِ واقعہ تصور قائم ہوجائے۔ یہاں مکمل لاعلمی، جہالت، علم کا مکمل خلا اور فقدان نہیں ہے بلکہ کچھ تصور ضرور ہے، مگر وہ تصور غلط ہے، مطابقِ واقعہ نہیں اور حقیقت کے خلاف ہے۔ جب حقیقت کے خلاف غلط تصور قائم ہو جائے تو اسے جہلِ مرکّب کہتے ہیں۔
فلاسفہ جہلِ بسیط کو علم میں شامل نہیں کرتے تھے چونکہ یہ تو مکمل انکار (total negation) ہے، لیکن جہلِ مرکب پر وہ علم کے لفظ کا اطلاق کرتے تھے۔ اگرچہ یہ تصور غلط ہے مگر اُنہیں اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ان کو تو فقط یہ سروکار ہے کہ ذہن میں ایک تصور قائم ہو گیا تھا، لہٰذا وہ مجرّد ذہنی تصور کو علم کہتے تھے۔
اس مجرد ذہنی تصور کے کئی مراتب ہیں:
ذیل میں مختصراً ان مراتب کی وضاحت کی جاتی ہے:
فلاسفہ وہم کو علم تصور کرتے ہیں، چونکہ وہم سے بھی ذہن میں ایک تصور تو قائم ہوتا ہے مثلاً کوئی شخص کہتا ہے کہ مجھے فلاں وہم ہو رہا ہے۔ اسی طرح وہم کے مریض وضو کرتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ہاتھ نہیں دھلے، پھر وہ اسی وہم کی بنیاد پر بار بار ہاتھ دھوتے چلے جاتے ہیں۔ ہم وہم کو بے شک مسترد کر دیں مگر اس وہم کا مطلب ہے کہ ذہن میں اس کا ایک تصور قائم ہوگیا ہے۔
علم مکمل تصدیق اور مرتبہ یقین کی انتہا ہے جبکہ جہلِ مرکب حقیقت اور واقعہ کے بالکل خلاف تصور ہے۔ یہ دوسری انتہا ہے۔ ان دو انتہاؤں کے درمیان تردّد ہے، جہاں ذہن متردد ہوتا ہے۔ جب انسان جہل سے معمولی سا نکلتا ہے مگر تھوڑا سا تصورِ جہل کی طرف راغب بھی ہوتا ہے تو اسے وہم کہتے ہیں۔
جب آدمی تصور میں پختگی اور جزم کی طرف چلتا ہوا وہم سے آگے بڑھتا ہے تو درمیان میں اس مقام پر رک جاتا ہے ، جو یقین اور جہل کے درمیان واقع ہے، اسے شک کہتے ہیں۔ شک کے درجے پر 50% جانبِ یقین (جانبِ علم) اور 50% جانبِ جہل ہے۔ فلاسفہ شک کو بھی علم کہتے ہیں۔
جب تصور شک سے آگے بڑھ جائے تو پھر اس درجے کو ظن کہا جاتا ہے۔ فلاسفہ ظن کو بھی علم کا درجہ دیتے ہیں مگر علم الکلام میں مسلمان ائمہ، اصولیین اسے علم نہیں بلکہ ظن ہی کہتے ہیں۔ احادیث کے حوالے سے خبرِ متواتر، خبرِ مشہور، خبرِ عزیز، خبرِ غریب، خبرِ احاد کی جو اَبحاث آئی ہیں کہ یہ علم کا فائدہ دیتی ہیں جب کہ دوسرے کہتے ہیں کہ علم کا فائدہ نہیں بلکہ ظن کا فائدہ دیتی ہیں۔ اس اختلاف کی وجہ بھی یہ ہے کہ جب وہ کہتے ہیں کہ یہ علم کا فائدہ دیتی ہے تو اس علم سے مراد علمِ یقین ہی ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اس حدیث سے جو حکم ثابت ہوگا وہ علمِ یقینی ہوگا۔ اگر قرآن کی نصِ صریح ہے یا خبرِ متواتر ہے تو علمِ یقینی کا فائدہ ہوگا۔ اگر اخبارِ احاد ہے تو چیز کا وجود ثابت ہوگا مگر وہ ثبوت درجہ ظن میں ہی ہوگا۔ اسی طرح کسی بحث میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ علمِ ظنی کا فائدہ دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ علم الکلام میں ظن اور یقین میں فرق کیا جاتا ہے۔
علم وہ مقام ہے جہاں ذہن تصدیق کرتا ہے اور مرتبہ یقین تک پہنچتا ہے۔ فلسفی اِدراک کو بھی علم کہتے تھے۔ بعض نے کہا کہ یہ علم نہیں ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ادراک ہمیں ایک تصور تک پہنچاتا ہے، جو فلاسفہ کے نزدیک علم ہونے کے لیے کافی تھا۔ اُصولیین نے اسے علم نہیں کہا۔ اصولیین کے ہاں اس تصور پر چونکہ ذہن کا حکم قائم نہیں ہوتا، اس لیے وہ محض اِدراک کہتے ہیں۔ اس ضمن میں اگر حکم قائم ہو جائے تو پھر تصدیق ہے اور تصدیق شانِ علم ہے کہ وہ جازم ہوتا ہے۔
علم تک پہنچنے کے تین مراحل ہیں:
پہلے اِدراک (perception) آتا ہے، پھر تصور (conception) بنتا ہے اور پھر مزید کچھ شرائط ملیں - جن میں تصدیق اور مطابقِ واقعہ ہونا شامل ہے - تب جا کر علم وجود میں آتا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے علم کے مختلف ذرائع، وسائط، وسائل اور طریقے بنائے ہیں۔ علم الکلام یا علم اصول الدین میں اُنہیں الطُّرُقُ المُوصِلَۃ کہا جاتا ہے یعنی وہ ذرائع اور طریقے جو ہمیں علم تک پہنچاتے ہیں۔ ذرائع علم درج ذیل ہیں:
1۔ حسّیات: جو علم حواسِ خمسہ کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔
2۔ وجدانیات: انسان کے اندر وجدان ہے جسے عرفِ عام میں چھٹی حس کہتے ہیں۔
3۔ فطریات: یہ بدیہیات میں سے ہیں کہ انسانی فطرت میں ان چیزوں کا ادراک رکھا ہوا ہے۔
4۔ عقلیّات: جو علم عقل کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ حواسِ خمسہ سے حاصل ہونے والا علم اور عقل سے حاصل ہونے والا علم الگ الگ نہیں ہو سکتے۔ علم تب بنے گا جب یہ دونوں ذرائع اپنے فرائضِ منصبی (functions) کو اکٹھا ادا کریں گے۔
5۔ متواترات: ایک ایسی چیز جس پر نسل در نسل، صدی در صدی اتفاق چلا آرہا ہو، اسے متواترات کہتے ہیں۔
6۔ تجربیات: کچھ چیزیں مسلسل تجربات سے جب ایک ہی نتیجہ دیں اور یقین تک لے جائیں تو اسے تجربیات کہتے ہیں۔
7۔ حدثیات: اگر مسلسل تجربات ایک ایسے نکتہ تک پہنچا دیں جس پر یقین نہ ہو بلکہ ظن کی کیفیت پیدا ہو تو اُسے حدثیات کہتے ہیں۔
ان ذرائع علم کی تفصیلات ذیل میں بیان کی جا رہی ہیں:
یہ درج ذیل پانچ حواس پر مشتمل ہے، جنہیں حواسِ خمسہ ظاہری کہتے ہیں:
1۔ حِسِّ سامعہ: کانوں سے سننے کی صلاحیت
2۔ حِسِّ باصرہ: آنکھوں سے دیکھنے کی صلاحیت
3۔ حِسِّ لامسہ: ہاتھوں سے چھونے کی صلاحیت
4۔ حِسِّ ذائقہ: زبان سے چکھنے کی صلاحیت
5۔ حِسِّ شامہ: ناک سے سونگھنے کی صلاحیت
ہر حِسّ کا ایک محدود دائرہ کار ہے، جو چیز اس کے حیطۂ اِدراک سے باہر ہوگی اس مخصوص (specific) شے کو (perceive) نہیں کیا جا سکتا۔
آئیے ان حواس پر ایک تفصیلی نظر ڈالتے ہیں:
حسِّ سامعہ سے مراد سننے کی حس ہے، اس سے ہم آواز معلوم کرتے ہیں۔ اس حس کے ذریعے ہمیں نہ صرف بولنے والے کی جنس، نوع کے بارے میں پتہ چلتا ہے بلکہ بولنے والے کے جذبات و احساسات کا بھی اس کی آواز کے ذریعے ادراک ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ آواز کی سمت اور اس کے قرب و بعد کا بھی ایک تصور قائم ہو جاتا ہے۔ اگر ہم اس حس کے علاوہ کسی دوسری حس سے مذکورہ اَشیاء و کیفیات کو جاننا چاہیں تو یہ ناممکن ہوگا۔
آنکھوں سے جن چیزوں کا ادراک کیا جاتا ہے، وہ مبصرات ہیں۔ اب اگر چاہیں کہ آنکھ کے ذریعے ہم کسی آواز کو سن سکیں تو آنکھ اس کا ادراک نہیں کر سکتی۔ یاد رہے کہ ادراک (perception) ایک خام مواد ہے جسے علم بنانے کے لیے عقل کے کارخانے میں بھیجا جاتا ہے۔ علم وہ مربوط اور منظم صنعت (product) ہے جس کی ذہن تصدیق کرے، جو جازم ہو اور جس پرذہن کو یقین اور اطمینان ہو۔
اگر کسی ٹیکسٹائل مشین میں دھاگہ ہی نہ ڈالیں اور توقع کریں کہ وہاں سے کپڑا نکل آئے گا تو ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ہمیں ایک خام مواد بھی ڈالنا پڑتا ہے۔ چنانچہ حسِ باصرہ علم کو تشکیل دینے کے لئے دیکھنے سے متعلق اپنے حصے کا مواد، عقل کے کارخانے میں بھیجتی ہے۔
حسِ لامسہ سے مراد چھونے کی حس ہے۔ اس سے ہمیں کسی شے کے سخت و نرم اور گرم و سرد ہونے کا ادراک ہوتا ہے۔ اگر ہم ہاتھوں سے آنکھوں کا کام لینا چاہیں یا کان کا کام لینا چاہیں تو ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ اس کا بھی اپنا دائرہ کار ہے جس سے باہر نہیں جایا جا سکتا۔ اگر اس کے مخصوص دائرے سے ہٹ کر کسی اور چیز کو دریافت کرنا چاہیںگے، جو اُس حس سے متعلق نہیں ہے تو ہمیں وہ ادراک نہیں ملے گا جو ہم حاصل کرنا چاہ رہے ہوں گے۔
حسِ ذائقہ سے مراد چکھنے کی صلاحیت ہے۔ ہم جب چکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ فلاں کھانے کا ذائقہ کیا ہے؟ نمک زیادہ ہے یا مرچیں کم ہیں؛ میٹھا ہے، کڑوا ہے یا پھر ترش ہے۔ دیگر حسوں کی طرح اس حس کا دائرۂ کار بھی محدود ہے۔ اگر ذائقے کے ذریعے اس پکوان کی شکل، کیفیت، حجم معلوم کرنا چاہیں تو ایسا ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
حسِّ شامہ سے مراد سونگھنے کی حس ہے۔ اِس حس کا آلہ / عضو ہمارا ناک ہے جو خوشبو یا بدبو کا پتہ دیتا ہے۔ حسِ شامہ کے بغیر یہ سب کچھ معلوم نہیں کیا جاسکتا۔
حواسِ خمسہ میں سے سنائی دینے والی حس کو ’مسموعات‘ کہتے ہیں۔ نظر آنے والی کو ’مبصرات‘ یا ’منظورات‘ کہتے ہیں۔ جو چیزیں لمس میں آتی ہیں اور انہیں چُھو کر ادراک ہوتا ہے، انہیں ’ملموسات‘ کہتے ہیں۔ جو ذائقے میں آتی ہیں، انہیں ’مذوقات‘ کہتے ہیں۔ جنہیں سونگھا جاتا ہے جیسے خوشبو، بدبو؛ ان کو ’مشمومات‘ کہا جاتا ہے۔ پس کسی شے کے ادراک کے لیے ان پانچ مختلف دائروں کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس مادی کائنات کے ادراک کے لئے ذرائع علم میں سے پہلا ذریعہ ’حسیات‘ کو پانچ اقسام میں تقسیم فرما دیا ہے۔ وہ شے نظر آسکتی ہے تو ان کے لیے آنکھ اپنا فریضہ سرانجام دے گی۔ کوئی چیز سنائی دے سکتی ہے تو اس حوالے سے کان کام کریں گے۔ کسی چیز کو چھوا جا سکتا ہے تو اس کے لیے ہاتھ کام کریں گے۔ کسی کو چکھا جا سکتا ہے تو اس ضمن میں زبان کام دے گی۔ کسی شے کو سونگھا جا سکتا ہے تو اس حوالے سے ناک کام کرے گی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے عالمِ مادیات میں انہیں محسوسات کہا ہے۔ یہ سارے محسوسات، مدرکاتِ حسّی ہیں اور ہر قسم کی حس کے لیے ایک خاص حاسہ بنا دیا گیا ہے۔ جب تک یہ تمام پانچوں محسوسات اپنا اپنا خام مواد عقل کے کارخانے میں نہیں بھیجتے تب تک صحیح علم وجود میں نہیں آسکتا۔ اس حوالے سے بڑی دلچسپ حکایت پیش کی جاتی ہے:
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گائوں میں پانچ اندھے رہتے تھے۔ ایک دن گائوں والوں نے ایک ہاتھی ان کے سامنے لا کھڑا کیا اور ہر ایک کو کہا کہ اس کو چھوؤ اور بتاؤ کہ ہاتھی کی شکل کیسی ہے؟ ہر ایک نے خوب اچھی طرح سے اُسے چُھوا۔ اس دوران کسی کا ہاتھ اس کے پیٹ پر لگا، اب وہ جتنا بھی اس پر ہاتھ پھیرتا چلا گیا دور تک وہ پیٹ ہی پیٹ تھا، اس نابینا کو تو ہاتھی دیوار کی مانند لگا۔ اس نے مفروضہ پیش کیا کہ ہاتھی دیوار کی طرح ہوتا ہے۔ دوسرے نابینے کا ہاتھ اس کی ٹانگوں پر لگ گیا، اس نے کہا کہ ہاتھی ستون کی طرح کا ہوتا ہے۔ ایک نابینے کے ہاتھ میں اس کے کان آگئے، اس نے کان کو خوب اچھی طرح دیکھا تو اس نے سمجھا کہ ہاتھی بڑے دستی پنکھے کی طرح کا ہوتا ہے ۔ ایک نابینا کے ہاتھ میں اس کا سونڈ آگیا تو اس نے کہا کہ وہ تو بڑے موٹے رسّے کی طرح کا لمبا ہوتا ہے۔
اب وہ تمام چونکہ نابینا تھے، لہٰذا دیکھنے کی حس یعنی آنکھ سے حاصل ہونے والا مواد عقل کو منتقل نہ کر سکے اور اس بنا پر ان کے ذہن میں ہاتھی کا صحیح نقشہ قائم نہ ہو پایا، کیونکہ ان کی یہ حس معدوم تھی۔ ان کی جس حس نے تصور قائم کرنا تھا کہ شکل و صورت کیسی ہے؟ وہ ان کے پاس تھی ہی نہیں جبکہ باقی چاروں حواس کا خیال (perception) مل کر بھی کسی تصور (conception) تک نہ لے جا سکی۔ اُصولیین اور متکلمین اِسے حسیّات کہتے ہیں۔
ذرائع علم میں سے دوسرا بڑا ذریعۂ علم ’وجدانیات‘ ہے۔ اس ذریعۂ علم کو یہ نام امام فخرالدین رازی نے دیا ہے۔ یہ چیزوں کا ایک اور دائرہ ہے جو اس کائنات میں موجود ہے۔ وجدانیات دراصل ہمارا شعورِ باطنی ہے۔ جیسے حواسِ خمسہ ظاہری تھے ویسے ہی شعورِ باطنی ہے۔ یہ شعورِ باطنی بھی ایک احساس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بدیہی طور پر بندوں میں رکھ دیا ہے۔ جس سے وہ حسیات کے دائرے میں نہ آنے والی کچھ چیزوں کا ادراک اور احساس کرتا ہے۔
اس کی ایک مثال خوف ہے۔ خوف کی کیفیت کا حواسِ ظاہری کے ذریعے ادراک نہیں کیا جا سکتا۔ پانچوں حواس سے خوف کا پتہ نہیں چلتا۔ قرآن مجید میں خوف کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا:
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ.
البقرة، 2: 155
اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے۔
آیتِ مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ خوف بھی اپنا وجود رکھتا ہے۔ ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
اَ لَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللهِ لَاخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَo
یونس، 10: 62
خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔
پہلی آیت کریمہ میں خوف کا اثبات بیان کیا کہ طرح طرح کے خوف آئیں گے اور ان کے ذریعے آزمایا جائے گا۔ پھر دوسرے مقام پر فرمایا کہ جو اللہ کے دوست ہو جاتے ہیں انہیں دنیا کا کوئی خوف نہیں رہتا، بلکہ ان سے خوف ہٹا لیا جاتا ہے۔ گویا ثابت ہوا کہ خوف بھی اپنا وجود رکھتا ہے مگر پانچوں کے پانچوں حواس سے خوف اور غم کا پتہ نہیں چلتا۔
اِسی طرح ہم نے ایک منظر دیکھا کہ اس سے ذہن میں ایک حلاوت اور کیفیت پیدا ہوئی یا کھانے سے ایک لذت ملی جو ذائقہ سے آگے کی چیز ہے، یا کسی چیز سے تکلیف، اذیت اور رنج و الم ملا۔ ان تمام کا ادراک ظاہری حواس سے نہیں ہوتا۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ آپ کے اس فعل سے مجھے بہت دکھ ہوا۔ اب یہاں غور طلب بات ہے کہ فعل تو آنکھوں نے دیکھا، اب آنکھ دکھ اور اذیت کا فیصلہ تو نہیں کر سکتی۔ کان نے کوئی ناگوار بات سنی تو کان کا کام تو یہ ہے کہ اس نے جو آواز سنی، اس نے وہ الفاظ کی صورت میں عقل کو منتقل کر دی، اب یہاں کان تو صرف منتقل کر رہے ہیں۔ اسی طرح کسی کی بات پر غصہ آجانا یا بھوک محسوس ہونا، یہ وہ کیفیات ہیں جو پانچوں حواس سے معلوم نہیں ہوتیں۔ ہمیں یہ تمام کیفیات ایک شعورِ باطنی کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں اور ان کا ادراک ہوتا ہے۔ اس میں تحقیق، استدلال، غور و خوض اور مطالعہ نہیں چاہیے۔ یہ وہ کیفیات ہیں جو روزمرہ زندگی میں مختلف عالمِ مادیات میں رہتے ہوئے مختلف تصورات، مسموعات، مبصرات، ملموسات اور مشمومات سے قائم ہوتی ہیں۔ انہیں وجدانیات کہا جاتا ہے۔
وجدانیات کے اس درجے کے باوجود ان پر بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح حواس اِدراک یعنی perceive کرتے ہیں، خام مواد دیتے ہیں مگر علم نہیں بناتے اور ان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح وجدانیات سے بھی علم حاصل نہیں ہوتا۔ چونکہ ہر شخص کی کیفیات مختلف ہیں اور وہ حجت نہیں ہے۔ ایک شخص کو ایک بات پر اذیت ہوتی ہے جبکہ دوسرے کو اسی بات پر کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ ایک شخص کو ایک بات پر لذت اور فرحت حاصل ہوتی ہے جبکہ دوسرے کو ایسا محسوس نہیں ہوتا۔ ایک شخص کو ایک بات پر غصہ آتا ہے جبکہ دوسرے کوبالکل نہیں آتا۔ کسی بات پر ایک شخص خائف ہوتا ہے جب کہ دوسرا جرأت مند ہے۔ اسے خوف یا تو کم محسوس ہوتا ہے یا پھر سرے سے نہیں ہوتا۔ الغرض یہ چیزیں چونکہ ان کے مقدمات میں نہیں ہیں، یہ دلائل نہیں بن سکتے اور ان پر علم کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ پھر ہر شخص کا مزاج اور میلان جدا جدا ہے۔ طبیعت اور میلان مختلف ہوگا تو نتائج بھی مختلف ہوں گے۔ لہٰذا یہ دلائل نہیں بن سکتے اور ان پر علم کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ مگر یہ بات ذہن میں رہے کہ اگرچہ ان پر علم کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی مگر ان ادراکات کو مرتبۂ علم تک پہنچانے میں یہ چیزیں کار آمد ہیں۔ ایک تصور کو اپنے کمال تک پہنچانے میں یہ فائدہ مند (helpful) ضرور ہیں۔
ذرائع علم میں سے تیسرا ذریعہ بدیہیات یا فطریات ہیں۔ یہ وہ امور ہیں جو حواس کے ذریعے بھی نہیں معلوم ہوتے اور یہ وجدانیات کے دائرے میں بھی نہیں ہیں۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ ہر شخص جانتا ہے کہ ایک دو سے کم ہے، تین کا عدد دو سے زیادہ ہے۔ ایک آدمی ایک وقت میں ایک حالت میں ہوتا ہے، بیک وقت اس کی دو حالتیں نہیں ہو سکتیں۔ مثلاً آپ بھیگتے ہیں تو آپ کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ پانی ہے۔ جل گئے تو معلوم ہوگا کہ یہ آگ ہے۔ یعنی ایسی چیزیں جن کا اثر ہو تو آپ کو مؤثر کا پتہ چلتا ہے۔ اسی طرح بعض اور چیزوں کا بھی بدیہی یا فطری طور پر انسان کو علم ہوتا ہے۔ جیسے بچہ جب پیدا ہوتا ہے اور ابھی اس نے کچھ سیکھا نہیں ہوتا مگر جونہی اسے بھوک لگتی ہے تو وہ رونے لگتا ہے۔ پھر جب ماں اسے دودھ دے دیتی ہے تو وہ رونا بند کر دیتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اُسے یہ رونا کس نے سکھایا؟
پرندہ گھونسلے میں انڈے سے نکلتا ہے، تھوڑے عرصے بعد اپنے پر نکالتا ہے، اسے کسی نے اڑنا نہیں سکھایا، وہ خود بخود اڑنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ سب بدیہیات اور فطریات میں سے ہے ۔ یہ بدیہات اور فطریات خواہ حیوانوں کو نصیب ہوں، پرندوں یا انسانوں کو نصیب ہوں۔ یہ فطری طور پر ایک ہدایت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان سب کے اندر رکھ دی ہے۔ یہ ان کی زندگی کی ضرورت ہے، اس سے ان کی حاجت پوری ہوتی ہے۔ جانور وہ راستے خود وضع کرتے ہیں جہاں سے انہیں کسی چیز کو لینا ہے، کیسے چونچ کو کھولنا ہے اور کیسے دانہ ڈالنا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہی کیفیات نباتات میں بھی ہوتی ہیں۔ پودوں کی بھی مخصوص حرکات ہوتی ہیں۔ قدرت کی جانب سے ان کے اندر بھی کچھ چیزیں ودیعت کی گئی ہیں۔ ان کا بھی ایک نباتاتی شعور ہوتا ہے ۔ اگرچہ یہ انسانی شعور جیسا نہیں ہوتا مگر ان کے اندر بھی حواس موجود ہوتے ہیں۔
ذرائع علم میں سے چوتھا بڑا ذریعہ عقلیات ہیں۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ حواسِ خمسہ سے حاصل ہونے والا علم اور عقل سے حاصل ہونے والا علم الگ الگ نہیں ہو سکتے۔ علم تب بنے گا جب یہ دونوں ذرائع اپنے فرائضِ منصبی کو اکٹھا سر انجام دیں گے۔ (یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے، اِسے ہم علیحدہ باب کے طور پر ذکر کریں گے۔)
اصولیین اور متکلمین بیان کرتے ہیں کہ ’سمع و عقل‘ اگر جمع ہو جائے تو ذرائع علم میں سے پانچواں ذریعہ ’متواترات‘ بنتے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح حس اور عقل جمع ہو جائے تو ’محسوسات‘ اور ’معقولات‘ بنتے ہیں۔ متواترات کی مثال یہ ہے کہ ایک ایسی چیز جو پہلے زمانے میں گزری، ہم نے نہیں دیکھی مگر نسل بعد نسل ہر زمانے کی کثیر تعداد جن میں عالم، جاہل، نیک، بد، اچھے، برے، سمجھ دار، نا سمجھ، معاشرے، اقوام اور نسلیں سب شامل ہیں، ہمیشہ سے اس پر اتفاق ہوتا رہا ہے، اسے متواترات کہتے ہیں۔ الغرض ایسی چیز جس پر ہر زمانے، ہر دور اور ہر نسل کے لوگ اتفاق کرتے چلے آئیں اور عقل یہ کہے کہ اگر یہ بات غلط اور جھوٹ ہوتی تو اتنے لوگ اس پر اتفاق نہ کرتے، کوئی تو اس تصور کو رد کرتا۔ جب اتنا کثیر اتفاق ہو تو پھر وہ متواترات میں آجاتا ہے۔
بعض لوگ تواتر کو اہمیت نہیں دیتے جبکہ درحقیقت یہ بہت اہم چیز ہے۔ اس حوالے سے مسجدِ حرام کی مثال لے لیجیے۔ قرآن مجید کی کوئی آیت اور حدیث نبوی کی کوئی ایسی نص نہیں ہے جو اس امر کا تعین کر دے کہ مسجدِ حرام بالکل (exactly) اسی جگہ ہے۔ اس مقام سے ایک میل، فرلانگ، دو سو یا پانچ سو فٹ باہر کسی اور جگہ پر نہیں تھی۔ یا یہ کہ یہا ںسے دور تھی مگر بعدازاں لوگوں نے سہولت کے لیے یہاں بنالی۔ اس پر کوئی دلیل یا کوئی نص نہیں ہے۔ یہ متواترات میں سے ہے کہ مسجدِ حرام عین اس مقام پر ہے۔ پس متواترات سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ علمِ قطعی اور علمِ یقینی ہوتا ہے، کوئی بھی اس کا انکار نہیں کر سکتا۔
احادیثِ نبوی کی مثال لیں۔ یہ بھی متواترات میں سے ہے۔ صحابہ کرام کے دور سے تابعین کا زمانہ جڑا ہوا ہے اور تابعین سے اتباع التابعین کا دور جڑا ہے اور ان سے سلف صالحین کے ادوار زنجیر کی طرح آپس میں ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ اس طرح تمام صدیاں، زمانے اور قرون آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ نسل در نسل متصل ہم تک یہ علم پہنچا اور اس پر امت کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ گویا اس علم پر امت چودہ صدیوں سے متفق رہی، اس پر اجماع اور تواتر رہا ہے۔ چنانچہ یہ علمِ یقینی متواترات میں سے ہے، کوئی بھی صاحبِ شعور شخص اس کا انکار نہیں کر سکتا۔
جب قطعی تواتر ثابت ہو جائے تو پھر عقل بھی اس کی پابند ہو جاتی ہے۔ عقل اپنے پاس سے اس سے اختلاف کی کوئی دلیل نہیں لا سکتی جب کہ عقل کی دلیل بھی یہی تواتر بنے گا اور تواتر کی بنیاد سماع و بصارت پر ہے۔ وہ جو نسل در نسل سنتے اور آنکھوں سے دیکھتے چلے آرہے ہیں، سب کا اس پر اتفاق اور اجماع ہے۔ یہ تو اَز خود ایک بہت بڑی قطعی دلیل بن گئی۔ اس سے اجماع کی جو اہمیت ہماری شریعت اور فقہ اسلامی میں ہے اس پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ اگر تواتر قطعی ہے تویہ چیزیں متواترات میں سے ہے اور ذریعۂ علم ہیں۔ اس سے علمِ یقینی حاصل ہوتا ہے۔
ذرائع علم میں سے تجربیات کو بھی ایک اہم مقام حاصل ہے۔ کچھ چیزیں تجربہ سے آتی ہیں۔ سائنس بھی تجربیات میں سے ہے۔ سائنس میں ایک مفروضہ یا قیاس کو سامنے رکھ کر اس پر تجربہ کیا جاتا ہے۔ جب کئی تجربات اس کی تائید کرتے ہیں اور کوئی بھی تجربہ اس سے مختلف نتیجہ نہیں دیتا اور تمام تجربات ایک ہی نتیجہ دیتے ہیں تو یہ چیز آگے چل کر سائنسی قانون بن جاتی ہے۔ کثرت کے ساتھ جس کا مشاہدہ بار بار ہو، نتیجہ ایک نکلے، تو ان مشاہدات سے علمِ یقینی مل جاتا ہے اور عقل کو جزم اور اس پر اطمینان نصیب ہو جاتا ہے۔ مثلاً: آگ میں ہاتھ ڈالیں تو ہاتھ جل جاتا ہے، پانی سے ہاتھ گیلے ہو جاتے ہیں، خوراک کھانے سے طاقت آتی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس جس جس شے کے تجربے زندگی میں پے در پے ہوتے ہیں اور تمام لوگوں کے تجربات ایک ہی نتیجہ بتاتے ہوں تو اس سے علوم جنم لیتے ہیں اور یہ علوم تجربیات کہلاتے ہیں۔ یہ بھی ایک ذریعۂ علم ہیں۔
تکرارِ مشاہدہ اور تکرارِ تجربہ اگر یقین تک پہنچائے تو اسے تجربیات کہتے ہیں۔ وہ مشاہدہ اگر بار باریقین تک نہ پہنچائے اور اس میں جزم نہ ہو بلکہ وہ تکرار ظن تک پہنچائے اور اس سے ایک تھیوری اور نظریہ تیار (develop) ہو جائے تو وہ حدثیات میں آتا ہے۔ یہ بھی ایک ذریعۂ علم ہے۔
مثلاً: جب ہم چاند کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ پہلی رات کا چاند باریک سا ہوتاہے پھر وہ بڑھتا بڑھتا چودہویں رات کو کامل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ گھٹنے لگ جاتا ہے اور آخر میں یہ پھر بالکل باریک سا رہ جاتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ چاند کی روشنی دراصل اس کا اپنا نور نہیں یہ کسی کے نور کا انعکاس ہے، یعنی کسی کے نور سے چمکتا ہے۔ جیسے جیسے سمت تبدیل ہوتی رہتی ہے اور اس کے جتنے حصے پر روشنی پڑتی ہے اتنا حصہ چمکتا ہے اور وہی اس کو موٹا، باریک، کامل اور ناقص کرتا ہے۔ چاند کا نور سورج کی روشنی سے مستفاد ہے۔ دوسرے لفظوں میں دراصل سورج کا نور ہے جو چاند پر پڑ رہا ہے اور جتنے حصے پر پڑتا ہے، چاند کا اتنا ہی حصہ چمکتا ہے۔ صرف وہی چمک دار حصہ جو ہمیں نظر آتا ہے، اسے ہم چاند کہتے ہیں۔
اگر چاند کا اپنا نور ہوتا تو یہ ہمیشہ پورا چمکتا رہتا۔ اس طرح جو چیزیں انسانی مشاہدے میں آتی ہیں اور براہِ راست ہمارے احاطہ میں بھی نہیں ہیں لیکن عقل نے انہیں ترتیب دے کر اس سے ایک نتیجہ اخذ کیا ہے تو وہ چیزیں حدثیات کے ضمن میں آتی ہیں۔
مذکورہ ذرائع علم سے انسان اِس کائنات میں غور و فکر کرتا، نئے نظریات تلاش کرتا اور اپنی تحقیق کا اطلاق کرتے ہوئے حقیقت کی تلاش میں سرگرداں ہے اور اس دوران ہر آن وہ نئے سے نئے شاہکار تراشتا چلا جا رہا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved