گزشتہ باب میں ہم نے اس امر کا مطالعہ کیا تھا کہ علم، حصولِ ہدایت اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں جگہ جگہ انبیاء کرام علیہم السلام کی فضیلتِ علم کو نمایاں طور پر بیان فرمایا ہے۔ نیز اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے کہ بلندیِ درجات علم سے مشروط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الله تعالیٰ نے نبوت و ولایت دونوں کے لئے علم کو لازم قرار دیا۔ قرآن مجید میں مذکور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے واقعہ سے اسی امر کا اظہار ہوتا ہے۔ زیر نظر باب میں ہم علم ہی کی فضیلت و اہمیت کے عنوان کے تحت علمِ وحی کے برتر و فائق ہونے کا مطالعہ کریں گے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے پرورش کرنے والے چچا (آزر) کو اَہلِ عرب میں اَزمنہ قدیم سے پرورش کرنے والے کے لئے مروج لفظ والد کہہ کر مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
یٰٓاَبَتِ اِنِّیْ قَدْ جَآئَنِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَالَمْ یَاْتِکَ فَاتَّبِعْنِیْٓ اَهْدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّاo
() مریم، 19: 43
اے ابا! بے شک میرے پاس (بارگاہِ الٰہی سے) وہ علم آچکا ہے جو تمہارے پاس نہیں آیا تم میری پیروی کرو میں تمہیں سیدھی راہ دکھاؤں گا۔
یہاں اُس علم کی طرف اشارہ ہے جو رُشد و ہدایت، فہم و بصیرت اور حقائق کی معرفت کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے ایک نکتہ یہ واضح ہوتا ہے کہ بالعموم علمِ صحیح کے حامل صاحبِ علم کی اتباع کرنی چاہیے۔ یعنی اگر وہ علم کتاب و سنت اور وحی ربانی کی ہدایت پر مبنی ہو تو ہر اس شخص پر جس کے پاس اس درجے کا علم نہیں ہے، اس صاحبِ علم کی پیروی لازم ہوتی ہے۔
اس آیت کریمہ سے دوسرا نکتہ یہ واضح ہوا کہ اس علمِ صحیح کی پیروی کی وجہ سے پیروکار بھی ہدایت پا جائے گا۔ گویا علمِ صحیح ہدایت تک پہنچاتا ہے، جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ علم اور ہدایت باہم لازم و ملزم ہیں۔ واضح رہے کہ ہدایت منزل من اللہ علم سے ملتی ہے۔ کسی اور ذریعے سے حاصل ہونے والا علم اگر منزل من اللہ علم اور وحی پر مبنی علم سے ٹکرا جائے تو پھر ایسا علم خود بہ خود مسترد ہو جائے گا۔ اس لئے کہ الله تعالیٰ کے ساتھ نسبت کی وجہ سے وحی پر مبنی علم سب علوم پر فائق ہوتا ہے۔
الله تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ایک اور جہت سے بھی فضیلتِ علم کو واضح فرمایا ہے۔ اس جہت کا تعلق حضور نبی اکرم ﷺ کی علم کے ساتھ والہانہ وابستگی سے ہے۔ اس سیعلم کی عظمت و فضیلت مزید اجاگر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو ہدایت فرمائی:
فَتَعٰلَی اللهُ الْمَلِکُ الْحَقُّ ط وَلَاتَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّقْضٰٓی اِلَیْکَ وَحْیُهٗ ز وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِی عِلْمًاo
طٰهٰ، 20: 114
پس اللہ بلند شان والا ہے وہی بادشاہِ حقیقی ہے، اور آپ قرآن (کے پڑھنے) میں جلدی نہ کیا کریں قبل اس کے کہ اس کی وحی آپ پر پوری اتر جائے، اور آپ (رب کے حضور یہ) عرض کیا کریں کہ اے میرے رب! مجھے علم میں اور بڑھا دے۔
اس آیت کا آغاز اللہ تعالیٰ کی توحید سے ہوتاہے اور اس آیت کریمہ کا اختتام حضور ﷺ کو تلقین کی گئی دُعا ’وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِی عِلْمًا‘ پر ہوتا ہے (جس پر ہم باب نمبر 4 میں مختلف پیرائے میں بحث کرچکے ہیں)۔
یہاں ایک اہم چیز توجہ طلب ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں اور بڑے بڑے انعامات، اکرامات، احسانات اور بلند درجات سے نوازا۔ نیز کائنات میں ہر نعمت معیار اور مقدار دونوں لحاظ سے سب سے زیادہ حضور نبی اکرم ﷺ کو عطا ہوئی، ان تمام نعمتوں میں اضافہ کے لئے ایک ہی قاعدہ ارشاد فرمایا:
لَئِنْ شَکَرْ تُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ.
ابراهیم، 14: 7
اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر ایک نعمت کے لیے فرمایا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں اپنی اس نعمت میں تمہارے لئے مزید اضافہ فرماؤں گا۔ اللہ تعالیٰ نے پورے قرآن مجید میں یہ حکم نہیں فرمایا کہ فلاں نعمت میں اضافے کے لیے میرے محبوب دعا کیاکریں۔ عمر، اخلاق، تقویٰ، عملِ صالح، صحت و تندرستی اور عافیت و سلامتی بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے انسان پر انعامات اور نعمتیں اس حد تک ہیں کہ ہم ان کا شمار نہیں کر سکتے۔ ارشاد فرمایا:
وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللهِ لَاتُحْصُوْهَا.
ابراهیم، 14: 34
اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو (تو) پورا شمار نہ کر سکو گے۔
مگر قرآن مجید میں کسی ایک نعمت کا بھی نام لے کر صراحتاً اس طرح کا حکم نہیں فرمایا کہ اس میں مزید اضافے کے لیے دعا کیا کریں۔ صرف ایک نعمت ایسی ہے جس میں اضافے کی دعا کا حکم فرمایا اور وہ نعمت ’علم‘ ہے۔ اس کی بابت فرمایا:
وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِی عِلْمًاo
طٰہٰ، 20: 114
اور آپ (ربّ کے حضور یہ) عرض کیا کریں کہ اے میرے رب! مجھے علم میں اور بڑھا دے۔
اس سے علم کی قدر و منزلت اور اللہ تعالیٰ کی نگاۂ عظیم میں علم کے مقام و مرتبہ کا اظہار ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کو تلقین فرمائی جا رہی ہے کہ میرے حبیب! عرض کیا کریں کہ میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما۔ معلوم ہوا کہ علم اتنی بڑی نعمت ہے کہ آقا ﷺ کو بھی اس میں ہر وقت اضافے کے لیے دعا کی تلقین کی گئی ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ عامۃ المسلمین بھی آقا ﷺ کی سنت کی پیروی میں علم میں اضافہ کے لئے ہمیشہ رب کائنات کی بارگاہ میں ملتمس رہا کریں۔
اس آیت کریمہ سے دوسرا نکتہ یہ واضح ہوتا ہے کہ علم کسی جامد شے کا نام نہیں بلکہ یہ ہمیشہ اِرتقاء پذیر رہتا ہے۔ دیگر علوم کی طرح علمِ نبوت میں بھی بتدریج اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جب غارِ حرا میں آقائے دو جہاں ﷺ پر پہلی وحی کا نزول ہوا تو علمِ نبوت کا درجہ کچھ اور تھا اور جب آپ ﷺ دنیا سے رخصت ہوئے تو علمِ رسالت اپنے نکتۂ کمال پر تھا۔ آپ ﷺ کے اپنے مراتبِ علم بھی لمحہ بہ لمحہ، روز بروز، وقت بوقت بڑھتے چلے گئے اور جب آقا ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو علم کے باب میں کوئی حقیقت ایسی نہیں رہ گئی تھی جو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو عطا نہ فرمائی ہو۔ دوسرے لفظوں میں آپ ﷺ کو اپنی حیاتِ مبارکہ میں کسی گوشے اور کسی امر کی نسبت، یا کسی بھی پہلو کے حوالے سے لاعلمی نہیں رہی تھی۔ الله تعالیٰ نے آپ ﷺ کے وصال سے قبل ایسی ہر حالت کو آگہی سے بدل دیا تھا۔ یہ سب وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِی عِلْمًا سے مستفاد ہوتا ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اللہ کے نبی کی دعا کبھی ردّ نہیں ہوتی اور پھر خصوصاً وہ دعا جس کے کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ خود فرما رہا ہو۔ اس آیتِ مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ خالقِ دو جہاں، محمد مصطفی ﷺ کے علمِ نبوت میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ فرمانا چاہتا ہے اور انہیں اس درجۂ کمال تک پہنچاناچاہتا ہے کہ اس سے آگے مخلوق کے لیے علم کا کوئی اور درجہ باقی نہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسولِ مکرم ﷺ کا علم اس درجے کو پہنچ چکا تھا کہ جہاںتمام مخلوقات کا علم قیامت تک بھی رسائی حاصل نہ کر سکے گا۔ آپ ﷺ کا علم اس حد کوپہنچ گیا تھا کہ اس سے آگے صرف اور صرف علم ِخالق یعنی الله کے علم کی کار فرمائی ہے۔
عقیدے کا ایک نکتہ اس موقع پر واضح کردیں کہ جس علم میں اضافے اور مرتبۂ کمال تک پہنچانے کا حکم اللہ تعالیٰ خود فرمائے اور آقا ﷺ تعمیلِ ارشادِ الٰہی میں عمر بھر رَّبِّ زِدْنِی عِلْمًا کی صدا بلند کرتے رہے ہوں تو بتائیے! مرتبۂ علم میں ایسی کون سی شے رہ گئی ہوگی جو حضور نبی اکرم ﷺ کے دامنِ علم میں نہ سمائی ہو۔ آج علمِ مصطفی ﷺ کو محدود کرنے والے حضور ﷺ کو تلقین کی گئی اس دعا کو اس تناظر میں دیکھیں تو اُنہیں اپنے تمام اعتراضات کا جواب خود بہ خود مل جائے گا۔
محبوبِ ربِ دو جہاں حضرت محمد ﷺ پر اعتراض کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ ہر معاملے کو اپنے اوپر قیاس کرتا ہے جبکہ اصول یہ ہے کہ کسی بھی معاملے کو اگلے فرد کے حال، مرتبہ، صلاحیت اور استعداد کے مطابق قیاس کرنا چاہیے۔ جب دوسرے بندے کے اصل مقام سے شناسائی ہوگی تو پھر تمام الزامات اپنی موت آپ مر جائیں گے۔ اسی اصول کی روشنی میں اگر علمِ مصطفی ﷺ کو دیکھا جائے تو پھر کسی اعتراض کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ اس لئے کہ آقائے دو جہاں ﷺ کا مقام و مرتبہ یہ ہے:
وَ لَـلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰیo
الضحیٰ، 93: 4
اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہے۔
یعنی آقا ﷺ کی حیات طیبہ میں ہر اگلا دن آپ ﷺ کو پہلے دن سے بہتر اور بلند رتبے پر فائز کرتا نظر آتا ہے۔ اسی تناظر میں فرمایا گیا کہ مومن کا اگلا دن پچھلے دن کے برابر رہے تو یہ اس کے لیے خسارہ کی بات ہے۔ اس لئے کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ مومن کا اگلا دن پچھلے دن سے اس کے ایمان کے بڑھنے کا نقیب ہو اور ایمان کا درجہ، اللہ کے قرب، تقویٰ اور اس کی مشیت کے مدارج بتدریج بڑھتے چلے جانے چاہئیں۔
اس موقع پر اس امر کا بیان بھی زیرِ بحث موضوع کو مزید واضح کرے گا کہ جب ہر لمحہ حضور نبی اکرم ﷺ کا مقام و مرتبہ بڑھتا رہتا ہے اور علمِ مصطفی ﷺ کمال سے مزید کمال تر کی طرف محوِ سفر ہی رہتا ہے تو اس فرمانِ مصطفی ﷺ کا کیا مطلب ہے جسے حضرت ابو ہریرہ g نے روایت کیا کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
وَاللهِ إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَیْهِ فِي الْیَوْمِ أَکْثَرَ مِنْ سَبْعِیْنَ مَرَّةً.
خدا کی قسم! میں روزانہ ستر مرتبہ سے زیادہ بارگاہ خداوندی میں استغفار اور توبہ کرتا ہوں۔
دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
مَا أَصْبَحْتُ غَدَاةً قَطُّ إِلَّا اسْتَغْفَرْتُ اللهَ فِیْهَا مِائَةَ مَرَّةٍ.
کوئی صبح طلوع نہیں ہوتی مگر میں اس میں سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔
یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ سرورِ کون و مکاں ﷺ تو گناہوں سے پاک اور معصوم عن الخطا ہیں۔ استغفار تو گناہ، غلطیوں، خطائوں اور لغزشوں کے ازالے کے لیے ہوتا ہے۔ جب نبی گناہوں اور لغزشوں سے مبرا ہے تو وہ استغفار کیوں کرتا ہے؟
اس سوال کے کئی جواب ہیں۔ اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف ایک نکتہ تحریر کرتا ہوں کہ اس ضمن میں عرفاء، محدثین اور اہل علم نے یہ بیان کیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ کی ہر گھڑی پہلے سے اونچے رتبے والی ہوتی ہے۔ آپ ﷺ کا بعد میں آنے والا لمحہ خوب سے خوب تر کی بہترین مثال لیے ہوئے ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر اگلا دن پچھلے سے زیادہ افضل ہوتا ہے۔ لمحہ بہ لمحہ آپ ﷺ کا درجہ بلندسے بلند تر ہوتا جارہا ہوتا ہے۔ جب آپ ﷺ ایک بلند رتبے پر کھڑے ہو کر پیچھے نگاہ ڈالتے تو پچھلے والا رتبہ موجودہ کی نسبت کم دکھائی دیتا۔ لہٰذا آپ ﷺ اللهتعالیٰ کی بندگی بجا لانے کے اعتبار سے موجودہ رتبے کے مقابلے میں پچھلے رتبے کو کم خیال کرتے ہوئے استغفار کے لائق سمجھتے۔
گویا آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حضور بندگی کاحق ادا کرتے ہوئے ہر نئے رتبے پر فائز ہوتے ہوئے دیکھتے کہ گزشتہ لمحہ اور رتبہ اگلے لمحے اور رتبے کے مقابلے میں نیچے تھا، لہٰذا وہ محسوس فرماتے کہ اللہ کا حقِ عبدیت ادا کرنے میں موجودہ لمحہ کی نسبت کچھ کمی رہ گئی ہے، جس شان سے اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حق اب ادا ہو رہا ہے، پچھلا لمحہ اس سے نیچے تھا تو آپ ﷺ اس موقع پر استغفار کرتے کہ شاید پچھلے لمحہ اور رتبہ پر تیری بندگی کا حق شایانِ شان ادا نہ ہوا۔ اس طرح جوںجوں لمحہ بہ لمحہ، آپ ﷺ کی شان اور رتبہ بلند ہوتا چلا جاتا اور آپ ﷺ پلٹ کر پچھلے رتبہ کو دیکھتے تووہ رتبہ موجودہ رتبہ کے مقابلے میں کم تر ہوتا۔ اس طرح دن میں ستر یا سو مرتبہ آپ ﷺ کی حالت مبارک متغیر ہوتی اور آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں استغفار کے طالب ہوتے۔ گویاستر یا سو مرتبہ استغفار کہنے کا مطلب ہے کہ الله تعالیٰ ایک دن میں آپ ﷺ کا رتبہ سو مرتبہ بلند کرتا جاتا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی اسی شان وَلَـلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی کا فیض اُمتِ محمدیہ کو بھی نصیب ہوا ہے۔ اسی لیے مومن کی شان میں کہا گیا ہے:
اَلصَّادِقُ یَتَقَلَّبُ فِي الْیَوْمِ أَرْبَعِیْنَ مَرَّةً.
یعنی صادق شخص کے حال میں دن میں چالیس مرتبہ تغیر رونما ہوتا ہے۔
جس شخص کے حال میں تغیر پذیر ی نہ ہو وہ سمجھ لے کہ حالت نفاق میں ہے۔ یہ بات بہت اہم ہیکہ اگر ایمان ہے تو اس میں نمو بھی ہوگی، ارتقاء بھی ہوگا اور اس میں ترقی بھی ہوگی، اس لئے کہ درحقیقت ایمان کا تقاضا یہی ہے۔
مثلاً: اگر آپ کوئی پودا زمین میں لگاتے ہیں۔ اس پودے کو اگر اچھی زمین بھی میسر ہو، کھاد بھی معیاری ہو، پانی بھی مناسب وقت پر مل رہا ہو اور دھوپ کا بھی مناسب انتظام ہو، اگر یہ سارے تقاضے پورے ہو رہے ہوں تو پودے کی نشو و نما بھی اچھی ہوگی اور وہ آئے روز نمو کرتا جائے گا۔ اگر زمین اچھی ہو، کھاد، پانی، روشنی اور دیگر ضروریات بطریقِ اَحسن مل رہی ہوں اور مالی بھی اس کی مناسب دیکھ بھال کر رہا ہو، اس کے باوجود اگر پودا نہ بڑھے تو اس کا مطلب ہے کہ اُسے کوئی کیڑا یا مرض لگا ہوا ہے ۔ ایسے حالات میں باغبان کو تشویش ہوتی ہے کہ پودے میں کوئی نہ کوئی خرابی ضرور ہے۔ اگر ایسا ہو تو پھر پودے کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس کے ارد گرد خود رَو جڑی بوٹیاں اکھاڑتے ہیں اور اس پر سپرے کرتے ہیں۔
علی ہٰذا القیاس یہی ایمان کی مثال ہے۔ جس طرح پودا نہ بڑھے تو تشویش ہوتی ہے، عین اسی طرح ایمان بھی ایک پودا ہے جو قلب کی زمین پر اگتا ہے۔ اگر وہ ہر روز نہ بڑھے تو مومن کو تشویش ہونی چاہیے کہ میرے قلب کی زمین میں کون سی خرابی ہے جس بناء پر اس کی نمو رُکی ہوئی ہے؟ ہو سکتا ہے کہ اسے نفاق، حرص یا ریاکاری کا مرض لاحق ہوگیا ہو، ممکن ہے کہ نیت میں کوئی خلط ملط ہوگیا ہو، کوئی غیر خالص چیز مل گئی ہو یا اس میں گناہوں کی کثافت آگئی ہو، اسے اطاعتِ الٰہی کا پانی نہ مل رہا ہو۔ اسے خلوص پر مبنی اللہ کے قرب اور رضا کی نیت نہ مل رہی ہو اور اس کی باقاعدہ دیکھ بھال نہ ہو رہی ہو۔
الغرض اس ضمن میں سو اسباب ہیں۔ ان حالات میں مومن کو تشویش لاحق ہوتی ہے کہ میرے ایمان کا پودا ایک ہی جگہ کیوں کھڑا ہے اور کیا وجہ ہے کہ یہ بڑھ کیوں نہیں رہا؟ اس لیے کہا گیا کہ جس کے ایمان کی حالت میں تغیر (ارتقاء)، ترقی کرنا، توانا ہونا اور بڑھنا نہ ہو، وہ جان لے کہ وہ منافق ہے۔ اس لئے کہ مومن تو دن میں درجنوں مرتبہ اپنا حال بدلتا ہے، یعنی اس کی حالتِ ایمانی میں تغیر و تبدل آتا رہتا ہے، اس کا ایمان مسلسل ارتقاء پذیر رہتا ہے۔
اب اس نکتے کا اطلاق حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس پر یا کسی اور پیکرِ نبوت پر کریں۔ قابلِ غور بات ہے کہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کے قلب کی مقدس سرزمین سے اچھی کس کے دل کی زمین ہوگی اور پھر پیغمبر کی اتباع میں مومن کے سینے کی دھرتی سے کس کی زمین اچھی ہوگی اور اس ضمن میں اللہ سے بڑھ کر بھلا اور کون باغبان ہوگا؟ حضور نبی اکرم ﷺ کے علم کے پودے کو بڑھانے، پرورش اور دیکھ بھال کر نے والی ذات ربِ لم یزل خود ہے اور زمین قلبِ مصطفی ﷺ ہے۔ وہ دل جس پر اللہ اپنی وحی اتارتا اور اس میں دیدارِ الٰہی جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ قلب جس کے بارے میں فرمایا گیا:
مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰیo
النجم، 53: 11
(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا۔
پس قلبِ مصطفی ﷺ کی انہی خوبیوں کی بناء پر آپ ﷺ کے احوال، کیفیتِ ایمانی، درجات، مراتب، صلاحیتوں، استعداد، علم، تقویٰ اور پرہیزگاری کی شان میں لمحہ بہ لمحہ سُرعتِ رفتاری سے اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ وَ لَـلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی کا انعکاس آپ ﷺ کے ہر لمحے اورہر حال میں ہوتا رہتا ہے اور یہی چیز آپ ﷺ کے علم کے بارے میں بھی ہے کہ حضور ﷺ کے علم میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ غار حرا میں جب اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ کے ذریعے رابطہ جڑا تھا تو اُس وقت علم کی کیفیت کچھ اور تھی۔ اگلے ایام اور ماہ و سال میں وہ کیفیت نہ تھی بلکہ اس میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا۔ رَّبِّ زِدْنِی عِلْمًا کے ذریعے یہ سلسلہ ارتقاء جاری رہا اور بالٓاخر علم اپنے درجۂ کمال پر پہنچ گیا۔ علم کے وہ تمام سمندر، جو خالقِ دو جہاں نے اپنی مخلوق کے لیے ممکن بنائے تھے، وہ سب کے سب آقائے دوجہاں ﷺ کے قلبِ اقدس میں جذب فرما دیے۔ آپ ﷺ کی شانِ اقدس میں تمام علم سما گیا، صرف وہ علم باقی رہ گیا جو خالقِ کائنات کے شایانِ شان تھا اور مخلوقات میں سے کوئی بھی اس میں شریک نہ ہو سکتا تھا۔ گویا علم کی صورت میں نعمت کے اضافہ کی ایک واحد دعا ہے کہجس کو مزید مانگنے کی تلقین فرمائی اور اس کے سوا کسی اور نعمت پر زور نہیں دیا۔
گذشتہ سطور میں ہم اس امر کا مطالعہ کر چکے ہیں کہ ہر پیغمبر کے علم و حکمت اور حکم نبوت کو اللہ تعالیٰ نے باہم جوڑا ہے، یعنی دونوں کو لازم و ملزوم ٹھہرایا ہے۔ علم اور نبوت کے اس تعلق کے علاوہ علم کی یہ شان بھی ہے کہ علم باعثِ نجات ہے۔ علمِ صحیح وہی ہوتا ہے جو بندے کو خبائث اور برے کاموں سے نجات دے۔ جو علم برے کام، فسق و فجور، گندگی، خبائث، بری عادات، برے اخلاق اور برے اعمال سے نجات نہ دے، وہ علم ہی نہیں ہے۔ الله تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کے حوالے سے مذکورہ دونوں پہلوؤں کا قرآن مجید میں ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَلُـوْطًا اٰتَـیْـنٰـهُ حُکْمًا وَّعِلْمًا وَّنَجَّیْنٰـهُ مِنَ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ کَانَتْ تَّـعْمَلُ الْخَبٰٓـئِثَ ط اِنَّهُمْ کَانُوْا قَوْمَ سَوْئٍ فٰسِقِیْنَo
الأنبیاء، 21: 74
اور لوط (علیہ السلام) کو (بھی) ہم نے حکمت اور علم سے نوازا تھا اور ہم نے انہیں اس بستی سے نجات دی جہاں کے لوگ گندے کام کیا کرتے تھے۔ بے شک وہ بہت ہی بری (اور) بد کردار قوم تھی۔
آئیے! اب اس آیت مبارکہ کا اطلاق علمِ صحیح اور باعثِ نجات علم کے تناظر میں کرتے ہیں۔ اس آیت سے واضح ہوا کہ جو علم اَعمالِ سیئہ کو ختم نہ کرے اور ان کی جگہ اعمال صالحہ، تقویٰ، قربتِ الٰہی کا شوق، پرہیز گاری اور آخرت و جنت کی طرف رغبت پیدا نہ کرے، برے اعمال، بری عادات، برے افعال و حرکات سے بندے کو نجات نہ دے، وہ علم، علمِ صحیح نہیں ہے بلکہ وہ صرف سفید کاغذ پر تحریر کردہ سیاہ حروف ہیں۔
مذکورہ آیت میں الله تعالیٰ نے حکمِ نبوت اور علم بیان کرکے پھر فرمایا: وَّنَجَّیْنٰـهُ مِنَ الْقَرْیَةِ یعنی وہ قریہ جہاں فحش اوربرے کام ہوتے تھے، اس سے نجات ملی؛ مگر پہلے علم کا ذکر کیا۔ آیت مبارکہ میں مذکور حکمت، علم اور نجات من الخبائث اِن تین چیزوں کو باہم جوڑا جائے تو یہ تصویر سامنے آتی ہے کہ علم کے اندر ایک in-built خوبی، شان اور تاثیر یہ ہے کہ وہ تقویٰ سے محبت کرتاہے، وہ مَن کی کیفیت اور اندر کے حال کو بدلتا ہے، پرہیزگاری لاتا ہے اور خبائث و برائیوں سے نجات دلاتا ہے۔
اسی طرح علم اور نبوت دونوں رفعتوں کا اکٹھا ذکر حضرت سلیمان علیہ السلام کے حوالے سے بھی کیا گیا ہے:
فَفَهَّمْنٰـهَا سُلَیْمٰنَ ج وَکُلًّا اٰ تَیْنَا حُکْمًا وَّعِلْمًا.
الأنبیاء، 21: 79
چنانچہ ہم ہی نے سلیمان (علیہ السلام) کو وہ (فیصلہ کرنے کا طریقہ) سکھایا تھا اور ہم نے ان سب کو حکمت اور علم سے نوازا تھا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی اس فضیلت کا اظہار کرنے کے بعد سب انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر فرمایا کہ ہم نے ان سب کو علم اور حکمت سے نوازا تھا۔ گویا تمام انبیاء علیہم السلام کا بالجملہ ذکر کرکے ان کی شان بیان فرما دی کہ ان کی نمایاں عظمت ہی یہ تھی کہ وہ سب کے سب صاحبانِ علم و حکمت تھے۔
الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد ذرائعِ علم کا ذکر کیا ہے۔ الله تعالیٰ نے ان میں سے کچھ ذرائع علم کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَهُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِهَآ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِهَا ج فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰـکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِo
الحج، 22: 46
تو کیا انہوں نے زمین میں سیر و سیاحت نہیں کی کہ (شاید ان کھنڈرات کو دیکھ کر) ان کے دل (ایسے) ہو جاتے جن سے وہ سمجھ سکتے یا کان (ایسے) ہو جاتے جن سے وہ (حق کی بات) سن سکتے، تو حقیقت یہ ہے کہ (ایسوں کی) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔
1۔ آیت مباکہ میں ذرائع علم میں سے ایک ذریعہ علم ’مشاہدہ‘ کا ذکر ہے کہ مشاہدات سے بھی علم حاصل ہوتاہے۔ اس لئے کہیں سیرکرنا، زمین میں چلنا پھرنا، گزشتہ اُمم اور قوموں کے کھنڈرات کو دیکھنا، اجڑے ہوئے محلات کو دیکھنا، جن پر سزائیں اور اللہ کے عذاب اترے، ان کے حالات کودیکھنا، یہ تمام مشاہداتِ علم ہی ہیں جن کے ذریعے اُنہیں دنیا کی بے ثباتی کا علم ہو رہا ہے۔
2۔ اس آیت مبارکہ میں دیگر ذرائع علم دل، کان اور آنکھیں بھی مذکور ہیں۔ یعنی ان کے دلوں کو وہ صلاحیت اور استعداد مل جاتی کہ وہ بات کو سمجھ سکتے ہیں اور ایسے کان مل جاتے کہ وہ سننے لگتے ہیں۔
اب یہاں پر کانوں کا بہرا پن مراد نہیں ہے۔ کان تو ہرایک کے ہیں مگر یہ سننا دو قسموں کا ہے:
1۔ ایک وہ سننا جو کہ فہم نہ دے۔
2۔ ایک وہ سننا جو صحیح فہم دے۔
یہاں مراد ایسے کان کا مل جانا ہے کہ جن کی مدد سے وہ سن سکتے یعنی حقیقت کو سمجھ سکے۔
پھرقرآن مجید نے اس نکتے کو مزید واضح فرمایا:
فَاِنَّهَا لَاتَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰـکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِo
الحج، 22: 46
تو حقیقت یہ ہے کہ (ایسوں کی) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔
یہاں اشارہ آنکھوں کے اندھے پن کی طرف نہیں بلکہ اس طرف ہے کہ ان کے قلوب اندھے ہیں اوران کے اپنے دماغوں کی حقیقت تک رسائی نہیں ہوتی۔ اس طرح ذرائع علم کو اور بڑھا دیا ہے۔
ایک مقام پر الله تعالیٰ نے کتاب کو بھی ذریعہ علم قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ ط اِنَّ ذٰلِکَ فِیْ کِتٰبٍ ط اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللهِ یَسِیْرٌo
الحج، 22: 70
کیا تمہیں معلوم نہیں کہ الله وہ سب کچھ جانتا ہے جو آسمان اور زمین میں ہے، بے شک یہ سب کتاب (لوحِ محفوظ) میں (درج) ہے، یقینا یہ سب الله پر (بہت) آسان ہے۔
جو کچھ زمین اور آسمانوں میں ہے، اس تمام کا کتاب میں درج ہونے کا بیان اس امر کو واضح کر رہا ہے کہ الله تعالیٰ نے کتاب کو علم کا استعارہ قرار دیا ہے۔
یہ آیات علم کی حقیقت و ماہیت اور علم کے مصادر و حالات کو بیان کر رہی ہیں۔
علم کے طرق، وسائل، آلات، ذرائع اور مصادر کیا ہیں جن سے علم حاصل ہوتا ہے اور ان ذرائع کی کیا حیثیت ہے؟ اس پر فلسفیوں نے اپنے اپنے انداز سے گفتگو کی ہے۔ ارسطو کے زمانے سے لے کر عرب دنیا کے وہ مسلمان فلسفی جن کی کتب مدارس میں صدیوں پڑھائی جاتی رہی ہیں، ان تمام فلسفیوں کا علم، آلاتِ علم، ذرائعِ علم، مصادرِ علم، وسائلِ علم، علم کی حقیقت، ماہیت اور وسائل پر ایک نقطہ نظر تھا۔ بعد ازاں علم کے ہی تناظر میں علم الکلام بھی ان کا موضوع بنا۔ متکلمین نے اس پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ پھر علم الکلام سے ہمارے فقہاء، اصولیین اور علم اصول پر بات کرنے والوں نے بھی اخذ کیا۔ اصول فقہ کی اکثر بڑی کتب، علم الاصول اور اصول فقہ پر ہیں۔ وہ علم کی ماہیت اور حقیقت پر بھی بات کرتی ہیں۔ الغرض متکلمین جب علم العقائد اور علم الکلام پر لکھتے اور عقیدہ و علم الکلام کی زبان میں بات کرتے ہیں تووہ بھی اکثر و بیشتر علم کی ماہیت، حقیقت، اس کے آلات، ذرائع، وسائل اور اس کے اثرات و احکامات پر بھی بات کرتے ہیں۔ فلاسفہ، متکلمین اور اصولیین کا بھی یہ مشترک مضمون رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں علم ایک ایسا موضوع ہے جو جہاں بہت سارے علوم اور فنون میں کام دیتا ہے اور ’العلم‘ بذات خود ایک موضوع (subject) بن گیا ہے جس کے باقاعدہ اصول موجود ہیں۔
اب جدید سائنسی علم (scientific knowledge) اور اس کے ذرائع آگئے ہیں۔ علم تو بہر صورت علم ہی ہے، وقت کے ساتھ ساتھ اس کے ذرائع بڑھتے چلے جا رہے ہیں، انہی بنیادوں پر ان دائروں میں توسیع ہوتی چلی گئی، اس کے طریقہ کار اور حالات بدلتے چلے گئے، مگر علم کی اصل وہی ہے۔
الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح فرما دیا ہے کہ ہر مضمون / موضوع کا ایک خاص علم ہوتا ہے۔ اُس خاص متعلقہ علم کے بغیر اس موضوع پر کلام کرنا گم راہی کا راستہ کھولتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّیَتَّبِعُ کُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍo
الحج، 22: 3
اور کچھ لوگ (ایسے) ہیں جو الله کے بارے میں بغیر علم و دانش کے جھگڑا کرتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں۔
گویا علم کے بغیر تکرار کرنے کا نتیجہ سرکش شیطان کی پیروی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ الله تعالیٰ کی ذات و صفات، اسماء و افعال، اس کی شانِ خالقیت اور اس کے دیگر پہلوئوں جیسے ادق اور منفرد موضوع پر ایک ان پڑھ آدمی تو بات ہی نہیں کر سکتا۔ وہ کیا اور کتنی دیر بات کرے گا؟
اس آیت مبارکہ میں ایسے لوگوں کی طرف اشارہ کیاگیا ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانہ اقدس میں موجود تھے۔ مفسرین نے ان کے نام بھی بتائے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات، اسماء و افعال اور تخلیقِ خلق پر بحث کرتے تھے (مگر ہم یہاں تفسیری پہلو زیر بحث نہیں لائیں گے)۔ وہ موت کی حقیقت اور بعث بعد الموت پر بحث کرتے تھے کہ مرنے کے بعد ہڈیاں خاک میں مل جائیں گی تو کس طرح سے نُشور ہوگا، ؟یہ بھلا کیسے ممکن ہے؟ حشر کب اور کیسے بپا ہوگا؟ وہ ان معاملات کو رد کرتے اور اللہ تعالیٰ کے ان اوصاف کے بارے میں بغیر علم کے جھگڑا کرتے تھے۔ ان کے پاس اپنا علم تو تھا ہی نہیں، وہ محض اپنی عقل و فہم سے رائے قائم کرتے تھے۔ قرآن مجید نے ان فلسفیوں کے مجرد رائے سے بحث کرنے کے طریقِ کار کو ردّ کرتے ہوئے فرمایاکہ ایسا کرنا سرکش شیطان کی پیروی کرنے کے مترادف ہے۔ نیز قرآن مجید نے یُّجَادِلُ فِی اللهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ فرما کر اُن کے علم کی نفی کی کہ ان کے پاس علم نہیں ہے اور وہ بغیر علم کے ان امور پر بحث کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بحث کرنے والے اللہ تعالیٰ کے اَسماء و صفات، اَفعال، قدرت، خلق اُولیٰ اور نشأۃ بعد الموت کی نفی جس علم کی بنیاد پر کر رہے تھے اور جسے وہ اپنے طور پر علم سمجھ رہے تھے، قرآن مجید نے واضح کر دیا کہ وہ علم زیر بحث موضوع تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ اس علم میں موضوع کی صحیح معرفت اس کا احاطہ اور کامل ادراک کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اس علم کی حدود انتہائی محدود ہیں اور اس میں صحت اور ہدایت کا فقدان ہے۔ اس علم کی سمت درست نہ ہونے کے باعث اس میں اتنی صلاحیت ہی نہیں کہ اس موضوع پر گفتگو اور بحث کرتے ہوئے کسی صحیح مقام اور نتیجے پر پہنچا جا سکے۔
لہٰذا جن معلومات، فہم اور ذہنی تصورات کے تحت وہ الله تعالیٰ کی حقیقت کی نفی کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی نفی کردی کہ تم جس شے کو علم سمجھے بیٹھے ہو، یہ علم ہی نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ ایسی صورت بھی ہوتی ہے کہ انسان جسے علم سمجھتا ہے، قرآن اس کی نفی کرتے ہوئے فرما رہاہے کہ وہ علم ہی نہیں ہے۔ بعض اوقات علم ایک چیزکو جاننے کے لیے کچھ مناسب راہ نمائی تو کر دیتا ہے مگر اس سے اوپر والے درجے پر اس علم کی قابلیت ختم ہو جاتی ہے اور وہ راہ نمائی کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ گویااب اس مرحلہ پر تو اس موضوع و مقام کے لیے وہ علم نہ رہا۔
اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کے اختتام پر پھر یہی فرمایا:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُجَادِلُ فِی اللهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًی وَّلَا کِتٰبٍ مُّنِیْرٍo
الحج، 22: 8
اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو الله (کی ذات و صفات اور قدرتوں) کے بارے میں جھگڑا کرتے رہتے ہیں بغیر علم و دانش کے اور بغیر کسی ہدایت و دلیل کے اور بغیر کسی روشن کتاب کے (جو آسمان سے اتری ہو)۔
اس آیتِ مبارکہ میں الله تعالیٰ نے کفار و مشرکین سے تین چیزوں کی نفی فرمائی:
1۔ ان کے پاس نہ تو علم ہے۔
2۔ ان کے پاس نہ ہی ہدایت ہے۔
3۔ ان کے پاس نہ ہی روشن کتاب ہے۔
الله تعالیٰ نے آیتِ مبارکہ میں ہدایت اور کتابِ منیر (روشن کتاب) کا الگ الگ ذکر کیا ہے۔ قرآن مجید خالق کا کلام ہے۔ اس لیے یہ اُم الکتاب محض مترادفات بیان نہیں فرماتی کہ ایک لفظ کے مترادف کے طورپر دو یا چار الفاظ وارِد کر دے۔ ایسا نہیں ہے! قرآن حکیم کے ہر لفظ کا اپنا الگ معنی، اپنا اطلاق اور اپنی ایک معنویت ہے۔ لہٰذا اِس موقع پر بھی علم، ہدایت اور کتابِ منیر ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر بیان نہیں ہوئے۔
علم کیا ہے؟ ہدایت کیاہے؟ کتاب منیر کیاہے اور ان کی حدود کتنی اور کیا کیا ہیں؟ ان کی ماہیتوں میں کیا کیافرق ہے؟ کس کس کا حکم قابلِ قبول ہے اور کس کا حکم ناقابلِ قبول ہے؟ کس کا حکم کس باب میں قبول کرناہے اور کس کا حکم کس باب میں قبول نہیں کرنا ہے؟ ان موضوعات پر گفتگو سے قبل قرآن مجید کی مذکورہ آیات یعنی سورۃ الحج کی آیت نمبر 3 اور آیت نمبر 8 کے درمیان آنے والے مضمون پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اِن دو آیات کے درمیان آنے والے مضمون کی کیا اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے آغاز میں بھی یہ فرمایا کہ ’علم کے بغیر اللہ کی شان میں جھگڑتے ہیں‘ اور اختتام پر بھی یہ فرمایا کہ ’علم، ہدایت اور روشن کتاب کے بغیر اللہ کی شان میںجھگڑتے ہیں۔‘ ان دو آیات کے درمیان یہ دلیل ایسی ہے جسے ہر صاحبِ علم بھی سمجھ سکتاہے، صاحبِ ہدایت بھی پہچان سکتا ہے اور صاحبِ کتابِ منیر بھی اس کی حقیقت کو پرکھ سکتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَیَهْدِیْهِ اِلٰی عَذَابِ السَّعِیْرِo
الحج، 22: 4
اور اسے دوزخ کے عذاب کا راستہ دکھائے گا۔
یعنی وہ لوگ جو گم راہ ہو جاتے ہیں، گم راہی انہیں دوزخ کا راستہ دکھاتی ہے۔ اس سے پتا چلتاہے کہ جو لوگ گم راہ ہوتے ہیں اور وہ اپنی دانست میں گم راہی کو ہی ہدایت کا راستہ سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ وہ حق شناسی نہ ہونے کے سبب سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم حق پرست ہیں۔ اگر ان کو یہ پتہ چل جائے کہ ہم گم راہ ہیں تو وہ فوراً اپنا قبلہ درست کرلیں۔ وہ گم راہی اُنہیں اپنے اَحوال پر غور کرنے کی فرصت نہیں دیتی بلکہ انہیں مزید گمراہیوں کی گھاٹیوں میں پہنچاتے ہوئے دوزخ میں لے جاتی ہے۔
گم راہی اور ہدایت کا ذکر کرنے کے بعد اگلی آیت میں اس مکمل مضمون کا ذکر کیا کہ کفار و مشرکین میں بعض لوگ کیا بحث کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں رد کرتے ہوئے فرمایا:
یٰٓـاَیُّهَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّ غَیْرِمُخَلَّقَةٍ لِّنُبَیِّنَ لَکُمْ ط وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّکُمْ ج وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰٓی اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْ م بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا.
الحج، 22: 5
اے لوگو! اگر تمہیں (مرنے کے بعد) جی اٹھنے میں شک ہے تو (اپنی تخلیق و اِرتقاء پر غور کرو کہ) ہم نے تمہاری تخلیق (کی کیمیائی ابتداء) مٹی سے کی پھر (حیاتیاتی ابتداء) ایک تولیدی قطرہ سے پھر (رِحمِ مادر کے اندر جونک کی صورت میں) معلّق وجود سے پھر ایک (ایسے) لو تھڑے سے جو دانتوں سے چبایا ہوا لگتا ہے، جس میں بعض اعضاء کی ابتدائی تخلیق نمایاں ہو چکی ہے اور بعض (اعضاء) کی تخلیق ابھی عمل میں نہیں آئی تاکہ ہم تمہارے لیے (اپنی قدرت اور اپنے کلام کی حقانیت) ظاہر کر دیں، اور ہم جسے چاہتے ہیں رحموں میں مقررہ مدت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر ہم تمہیں بچہ بنا کر نکالتے ہیں، پھر (تمہاری پرورش کرتے ہیں) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ، اور تم میں سے وہ بھی ہیں جو (جلد) وفات پا جاتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو نہایت ناکارہ عمر تک لوٹائے جاتے ہیں تاکہ وہ (شخص یہ منظر بھی دیکھ لے کہ) سب کچھ جان لینے کے بعد (اب پھر) کچھ (بھی) نہیں جانتا۔
کفار و مشرکین اس امر پر بحث کرتے ہوئے انکار کرتے تھے کہ مردہ ہو جانے کے بعد جب ہڈیاں، گوشت، ہمارے اعصاب، جلد، یہ سب کچھ خاک میں مل کر خاک ہو جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا تو ہم دوبارہ کیسے زندہ ہوں گے؟ بعث بعد الموت یعنی قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہونا کیسے ہوگا؟ ان کی یہ بحث بغیر علم، بغیر ہدایت اور بغیرکتابِ منیر کے ہوتی تھی۔
قرآن مجید نے اس پر دلائل علم دیے اور فرمایا: اے لوگو! اگر تم مرنے کے بعد جی اٹھنے میں شک رکھتے ہو، تو پھر اپنی تخلیق اور ارتقاء پر بھی غور کرو۔ اس ضمن میں الله تعالیٰ نے درج ذیل مراحل کو بطور دلائل بیان فرمایا:
(i) فَاِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ تُرَابٍ
ہم نے جب تمہاری پہلی تخلیق مٹی سے کی ہے، تو پھر تمہارا مٹی سے دوسری بار اٹھانا کیا مشکل ہے؟ جب تم کچھ بھی نہ تھے تواس رب نے تمہاری اصل کو مٹی سے بنایا، اب اسی پاک ذات کا تمہیں دوبارہ مٹی سے اٹھانا کیا مشکل ہوگا؟
(ii) ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ
اللہ تعالیٰ نے تمہاری کیمیائی ابتداء مٹی سے فرمائی، پھر تمہاری حیاتیاتی اِبتدا ماں کے رحم میں ہوئی۔ حیاتیاتی اور کیمیائی ابتدا وہ تاریخ ہے کہ کس طرح نسلاً بعد نسل تشکیل ہوتی چلی گئی۔ جب تمہاری حیاتیاتی ابتدا کا وقت آیا تو تمہاری ابتدا ایک نطفہ سے یعنی تولیدی قطرہ، ایک چھوٹی سی بُوند سے ہوئی۔
(iii) ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ
پھرماں کے پیٹ کے اندر جونک کی طرح تمہیں ایک معلق وجود بنا دیا۔
(iv) ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ
پھر ایک معلق وجود سے تمہیں ایک ایسے لوتھڑے میں منتقل کیا جو چبایا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
(v) مُّخَلَّقَةٍ وَّ غَیْرِمُخَلَّقَةٍ
جس میں بعض اعضاء کی ابتدائی تخلیق نمایاں ہو چکی ہے کہ اِس لوتھڑے کے اندر جسم کے اعضاء بن رہے ہیں اور بعض اعضاء کی تخلیق ابھی عمل میں نہیں آئی۔ یعنی وہ دکھائی نہیں دیتے کہ یہ اعضاء بن رہے ہیں۔
اِن مراحل کا ذکر کرنے کے بعد لِنُبَیِّنَ لَکُمْ کے ذریعے اس امر کا اظہار فرمایا کہ ان مراحل کا مقصد یہ ہے کہ تاکہ ہم تمہارے لیے اپنی قدرت اور اپنے کلام کی حقانیت ظاہر کریں۔
اللہ تعالیٰ یہاں ان حقائق کو بیان فرما رہا ہے کہ بغیر علم کے تم شور مچاتے اور جھگڑا کرتے ہو۔ یہ نبی اپنی وحی کے ذریعے تمہیں غیب کے وہ حقائق بتاتے ہیں جو کئی پردوں کے پیچھے ماں کے رحم میں تشکیل پارہے ہیں۔ یہ علم، ہدایت اور کتابِ منیرہے۔
(vi) رحمِ مادر میں بچے کی تشکیل کا ذکر فرما کر مزید دلائل دیتے ہوئے فرمایا:
وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی.
اورپھر ہم جسے چاہتے ہیں رحموں میں مقرر مدت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ بعض بچے رحم سے گر جاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ جنہیں چاہتا ہے وہ رحمِ مادر میں مقررہ مدت تک محفوظ رہتے ہیں۔
(vii) جن بچوں کو وہ رحمِ مادر میں محفوظ رکھتا ہے، اب ان کی پیدائش کے بعد کے مراحل بچپن، جوانی اور بڑھاپے کا ذکر فرمایا جا رہا ہے۔ ارشاد فرمایا:
ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّکُمْ ج وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰٓی اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْ م بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا.
الحج، 22: 5
پھر ہم تمہیں بچہ بنا کر نکالتے ہیں، پھر (تمہاری پرورش کرتے ہیں) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ، اور تم میں سے وہ بھی ہیں جو (جلد) وفات پا جاتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو نہایت ناکارہ عمر تک لوٹائے جاتے ہیں تاکہ وہ (شخص یہ منظر بھی دیکھ لے کہ) سب کچھ جان لینے کے بعد (اب پھر) کچھ (بھی) نہیں جانتا۔
اِنسانی تخلیق کے کیمیائی و حیاتیاتی مراحل اور اِرتقاء کی مکمل تفصیلات جاننے کے لیے راقم کی کتب - ’اِسلام اور جدید سائنس‘ اور ’اِنسان اور کائنات کی تخلیق و اِرتقاء‘ کا مطالعہ فرمائیں۔
یعنی کچھ لوگ جوانی کی عمرمیں جلد وفات پا جاتے ہیں، اور کچھ وہ ہیں جو بڑھاپے تک رہتے ہیں۔ جب ان کے لیے اٹھنا، بیٹھنا اور چلنا پھرنا بھی مشکل ہو جاتاہے۔ یہ طویل العمری اور ضعف و نزاری کی کیفیت ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض لوگ اس عمر تک بھی جاتے ہیں جہاں سب کچھ جان لینے بعد بھی وہ کچھ بھی نہیں جانتے۔ اسے نسیان ہونے لگ جاتا ہے، بھولنے لگ جاتا ہے، اس کے اعضاء مضمحل ہونے لگتے ہیں۔ جس طرح اس کے اعضا اچھے طریقے سے ابتدا میں کام نہیں کرتے تھے، اب بڑھاپے میں بھی وہی کیفیت پلٹ آتی ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم فرماتا ہے:
وَمَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَکِّسْهُ فِی الْخَلْقِ ط اَفَـلَا یَعْقِلُوْنَo
یٰس، 36: 68
اور ہم جسے طویل عمر دیتے ہیں اسے قوت و طبیعت میں واپس (بچپن یا کمزوری کی طرف) پلٹا دیتے ہیں، پھر کیا وہ عقل نہیں رکھتے۔
گویا پوری انسانی زندگی کا احاطہ کرتے ہوئے اسے اس بات کی دلیل کے طور پر بیان فرما دیا کہ یہ لوگ الله کے بارے میں اُس چیز پر جھگڑا کرتے ہیں جن کا انہیں سرے سے علم ہی نہیں ہے۔ الله کی ذات تو وہ ذات ہے جس نے اپنے نبی کو وحی کے ذریعے تمام علومِ غیبیہ پر مطلع فرما دیا ہے۔
(2) زمین کی زرخیزی کے مراحل کا بطور دلیل ذکر
انسا ن کی نشو و نما اور اس کی ابتدا اور ارتقا بطورِ دلیل بیان کرنے کے بعد منظر بدلا اور فرمایا:
وَتَرَی الْاَرْضَ هَامِدَةً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْهَا الْمَآءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَاَنْبَتَتْ مِنْ کُلِّ زَوْجٍم بَهِیْجٍo
الحج، 22: 5
اور تو زمین کو بالکل خشک (مُردہ) دیکھتا ہے پھر جب ہم اس پر پانی برسادیتے ہیں تو اس میں تازگی و شادابی کی جنبش آجاتی ہے اور وہ پھولنے بڑھنے لگتی ہے اور خوشنما نباتات میں سے ہر نوع کے جوڑے اگاتی ہے۔
الله تعالیٰ آیت مبارکہ کے اس حصے میں اس انسان کو اپنی قدرتِ کاملہ کی طرف متوجہ کر رہا ہے جو بغیر علم کے رب کائنات کی قدرتوں اور اُس کے اختیار پر بحث کرتا ہے۔ فرمایا جا رہا ہیکہ اے انسان! غور کر تیری کیمیائی ابتدا، پھر حیاتیاتی ابتدا اور ابتدا تا انتہا کیسے نشو و نما ہوئی۔ اے انسان! اب اپنے اردر گرد زمین پر بھی غور کر کہ یہ زمین بالکل مردہ ہوتی ہے اور ہم اس پر پھر پانی برسا دیتے ہیں جس سے اس مردہ زمین میں تازگی اور شادابی کی جنبش و حرکت ہوتی ہے اور اس میں تازگی آنے لگتی ہے۔ وہ پھلنے پُھولنے اور بڑھنے لگتی ہے۔ پھر جس طرح انسانوں میں بھی جوڑے ہوتے ہیں، اسی طرح نباتات میں بھی نر اور مادہ ہوتے ہیں۔ یہ سارا وہ علم ہے جو چودہ سو سال کے بعد انسان کو سائنس کے ذریعے آج ملا ہے جب کہ رسول الله ﷺ نے چودہ صدیاں پہلے ہی قرآن کی شکل میں یہ سب کچھ واضح فرما دیا تھا۔
ان تمام حقائق کو بیان کرنے کے بعد اگلی آیت میں فرما دیاکہ ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ کی ذات و صفات، قدرتوں اور شانوں میں بغیر علم، بغیر کسی ہدایت، دلیل اور بغیر کسی روشن کتاب کیجھگڑا کرتے رہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے علم، ہدایت اور کتابِ منیر کو سمجھانے کے لئے مثالیں دیں کہ اس کی قدرت کے کئی مظاہر ایسے ہیں جو آنکھوں سے نظر آتے ہیں، دماغ ان سے متاثر ہو کر انہیں مانتا ہے۔ ان میں کئی چیزیں ایسی بھی ہیں کہ جنہیں کبھی آنکھ دیکھ ہی نہیں پاتی۔ اس ضمن میں جو کچھ ماں کے رحم کے اندر غیب کے پردوں میں ہو رہا ہے، کسی ذریعے کی ان تک رسائی نہیں کہ دماغ کو وہ تصور منتقل کر سکے۔
پس ان میں سے کئی چیزیں ایسی ہیں جو کتابِ منیر سے معلوم ہوتی ہیں۔
کچھ چیزیں ایسی ہیں جو انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے ہدایت و ودیعت کی ہیں، ان کے ذریعے معلوم ہو جاتی ہیں۔
کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو الله تعالیٰ کے عطا کردہ اِکتسابی علم کے ذرائع اور ان کے حالات کے ذریعے سے معلوم ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب انسان کے اندر ودیعت کردہ ہدایت کے وسائل بھی جواب دے جاتے ہیں اور جہاں آلاتِ علم بھی بے بس ہو جاتے ہیں تو وہاں پھر بندے کی رہنمائی کے لئے کتابِ منیر اس کا ہاتھ تھام لیتی ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved