آقاے دو جہاں حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کے جیسے بھی حالات ہوں، چاہے عروج و زوال کے مرحلے آئیں اور وہ اپنے اعمال و احوال میں محکوم و مغلوب ہو جائے اور اُس میں بہت سی برائیوں، شرور، نقائص، خرابیوں اور فتنوں کا غلبہ ہوتا چلا جائے؛ الغرض خواہ کتنا بھی زوال کا زمانہ کیوں نہ ہو، پھر بھی اللہ تعالیٰ کا ارادئہ خیر اُمت میں کچھ لوگوں کے ساتھ تسلسل سے قائم و دائم رہے گا۔ جیسے خیرات کی یہ عنایت پہلے زمانوں میں جاری رہی ہے، ویسے ہی یہ ہر کٹھن اور پر فتن دور میں رواں رہے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے مختلف مواقع پر اُمت کے آخری دور اور قربِ قیامت سے قبل فتنوں کے ظہور کا ذکر کرتے ہوئے یہ سب کچھ بیان فرمایا ہے۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
یَا أَیُّهَا النَّاسُ، إِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ، وَالْفِقْهُ بِالتَّفَقُّهِ، وَمَنْ یُرِدِ اللهُ بِهٖ خَیْرًا یُفَقِّهْهُ فِي الدِّیْنِ. وَإِنَّمَا یَخْشَی اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ.
ابن حجر عسقلانی نے ’فتح الباری (1: 161)‘ میں لکھا ہے کہ اس کی اسناد حسن ہے۔
هندی، کنز العمال، 10: 104، رقم: 29265
اے لوگو! بے شک علم سیکھنے سے آتا ہے اور فقہ (غور و فکر کے ساتھ) سمجھنے سے آتی ہے۔ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ خیر کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔ اور اللہ کے بندوں میں سے اُس سے وہی ڈرتے ہیں جو علم (نافع) رکھنے والے ہیں۔
علم سیکھنے سے آتا ہے اور فقہ گہرائی میں جا کر سمجھنے سے آتی ہے۔ اگر علم اور فقہ دونوں ایک ہی چیز ہوتے تو آپ ﷺ انہیں جدا جدا بیان نہ فرماتے۔ علم محض جاننے، پڑھنے اور سیکھنے سے آتاہے اور اِس کے لیے اساتذہ، کتابیں، مدارس، مجالس اور حلقات درکار ہوتے ہیں۔ یعنی تعلم کے جتنے ذرائع ہیں ان سے محض علم آتاہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے علم کو الگ ذکر کرنے بعد فقہ کو بیان فرمایا کہ فقہ، تفقہ سے حاصل ہوتی ہے۔ تفقہ تب ملتی ہے جب ایک شخص میں علم فی القلب اور علم علی اللسان یعنی دونوں مرتبے اکٹھے جمع ہو جائیں۔ اس طرح اُسے علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین کی تینوں وادیوں میں سے کچھ حصہ ملتا ہے۔ پس فقہ دین کی ایسی کامل معرفت کا نام ہے جس میں پوری گہرائی اور گیرائی پائی جائے۔
تفقہ اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم عطا ہے۔ ظاہری ذرائع میں ہم خواہ ساری زندگی بھی گنوا دیں اور ساری عمر لکھنے، پڑھنے اور علم و فن کے حصول میں بسر کر دیں؛ اِس سے علم اور تعلم تو حاصل ہوگا مگر تفقہ نہیں آئے گی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تفقہ کسے اور کس طرح سے ملتی ہے؟
اس حوالے سے قرآن و سنت سے یہ واضح ہے کہ جس دل میں اللہ تعالیٰ رُشد و اِلہام داخل کر دے، اُسے تفقہ فی الدین نصیب ہوتی ہے اور وہ فقیہ ہوتا ہے۔ تفقہ کا حصول عطاء اِلٰہی پر منحصر ہے اور ظاہری کاوشوں کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اس نکتے کی مزید وضاحت درج ذیل حدیث مبارک سے ملتی ہے:
مَنْ یُّرِدِاللهُ بِهٖ خَیْرًا یُفَقِّهْهُ فِي الدِّیْنِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللهُ یُعْطِي.
اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے اسے تفقہ فی الدین عطا فرماتا ہے اور یقینا میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ عطا فرمانے والا ہے۔
کامل معرفت ہو تو تفقہ فی الدین ہوگی اور اگر کامل معرفت نہ ہو تو ادھورا علم ’تفقہ فی الدین‘ نہیں ہو سکتا۔ اور جو تفقہ فی الدین نصیب ہوتی ہے، یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی وہ خیرات ہے جو بارگاهِ مصطفی ﷺ سے ملتی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ سے جس کا جتنا قلبی و روحانی تعلق، اُسوہ و سیرت کی پیروی کا تعلق اور اَخلاق و اِتباع کا تعلق جڑتا اور پختہ ہوتا چلا جائے گا، اُسی قدر اُمتی کو درِ مصطفی ﷺ سے تفقہ فی الدین کی خیرات ملتی چلی جائے گی۔ جب تک قلب کے برتن حضور نبی اکرم ﷺ کے در پر نہ رکھے ہوئے ہوں اور ان کے اندر تقویٰ و تواضع، عاجزی و انکساری اور اخلاقِ محمدی کی ترنگ نہ ہوں تو وہ ظروف اِس قابل ہی نہیں ہیں کہ ان میں آقا ﷺ تفقہ فی الدین کی خیرات ڈال دیں۔ اگر دل کا برتن گندا ہے، اُس میں حسد، بغض، عناد، غیبت، چغلی، تکبر اور غضب ہے تو ایسے آلودہ برتن میں تفقہ فی الدین یعنی دین کی کامل معرفت کی خیرات نہیں ڈالی جاتی۔
حدیث مبارک زبانِ حال سے اعلان کر رہی ہے کہ اے لوگو! تقسیم تو میں ہی کرتا ہوں؛ اگر میرے اخلاق اپناؤ گے، میرے ساتھ مناسبتِ تامہ پیدا کرو گے، نسبتِ کامل جوڑو گے، اَخلاق، اُسوہ، سیرت، کلام اور زندگی کے ظاہر و باطن میں میری کامل اتباع کرو گے تو تفقہ فی الدین کی خیرات نصیب ہوگی۔
قرآن حکیم میں فرمایا گیا ہے:
اِنَّمَا یَخْشَی اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓاءُ.
فاطر، 35: 28
بس اللہ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو (ان حقائق کا بصیرت کے ساتھ) علم رکھنے والے ہیں۔
اس لئے کہ اللہ کے بندوں میں سے جو علماء ہیں، اُن کے دل حقیقت میں اللہ سے ڈرتے ہیں؛ کیونکہ علمِ صحیح اُنہیں خشیت، تواضع اور انکساری سکھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے حضور جھکنا سکھا دیتا ہے اور انہیں قرب کی دولت سے نوازتا ہے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ علم کی اوّلین شرط یہ ہے کہ وہ باعثِ خشیت ہو اور اُس سے خشیت الٰہی کا ثمر پیدا ہو۔ دوسری طرف تفقہ اور کامل معرفتِ دین وہ ہے جسے آقا ﷺ کی بارگاہ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور وہب عطا کیا جائے۔
یہ بات توجہ طلب ہے کہ التفقہ فی الدین کی خیرات امت کے ہر فرد کو نہیں ملے گی۔ اس ضمن میں عوام ہوں یا خواص، علماء ہوں یا غیر علماء ہر ایک کی بات نہیں ہو رہی؛ بلکہ فرمایا کہ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی خیر کا ارادہ فرمائے گا، اُسی کو اس نعمتِ عظمیٰ سے نوازا جائے گا۔ جیسے قرآن مجید نے سورۃ الکہف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے واقعہ میں ارشاد فرمایا:
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَـا.
الکهف، 18: 65
تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر علیہ السلام) کو پا لیا۔
معلوم ہوا مخلوقِ الٰہی میں سے خاص بندے (خواص) ماضی میں بھی تھے اور آج بھی موجود ہیں اور مستقبل میں بھی ہوتے رہیں گے۔ عددی تناسب چاہے کم ہوتا چلا جائے، مگر موجودگی ہر دور میں رہے گی۔
اسی آیت سے یہ بھی معلوم ہواکہ اگر خیر ہر فرد کو دی جاتی تو اُس زمانے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بڑھ کر افضل و اعلیٰ، ارفع و اولیٰ ہستی بھلا کون تھی؟ وہ اللہ کے رسول، علم شریعت اور علم تورات کے حامل اور کلیم اللہ تھے، لیکن جو علم بندۂ خاص حضرت خضر علیہ السلام کو عطا کیا گیا، اللہ کی وہ عنایت کچھ اور تھیں۔ اس ضمن میں قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا گیا:
اٰتَیْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًاo
الکهف، 18: 65
جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے علمِ لدنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے جسے چنا، اُسے خصوصی رحمت اور علم لدنی (اللہ تعالیٰ کے علم خاص) کے خزانے سے بغیر کسی ظاہری واسطے، وسیلے اور ذریعے سے نواز دیا اور اُس علم کی تلاش میں حضرت موسیٰ علیہ السلام بذاتِ خود تشریف لے گئے۔
مذکورہ حدیث مبارک میں بھی حضور نبی اکرم ﷺ کے فرمان مبارک کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارادئہ خیر خصوصیت کے ساتھ ہر دور میں جاری رہا، جاری ہے اور جاری رہے گا اور قیامت کے بپا ہونے تک کوئی بھی زمانہ ایسا نہیں آئے گا جس میں امت مسلمہ اللہ تعالیٰ کے اِس ارادئہ خیر سے کلیتاً محروم ہو جائے۔ نیز اللہ تعالیٰ دین کا تفقہ اور معرفتِ تامّہ ہر زمانے میں لوگوں کو زمانے کی ضروریات، حاجات، احوال اور ظروف کے مطابق عطا فرماتا رہے گا۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی محنت پر اللہ تعالیٰ ارادئہ خیر کی نظر فرما دے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے قلب و باطن کے ظروف کو اتنا صاف ستھرا اور پاکیزہ رکھیں، تزکیہ، تصفیہ، حسنِ اخلاق، حسنِ عبادات اور حسنِ معاملات کو اتنا سنوارتے اور خوب سے خوب تر کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نظرِ کرم اِس ارادئہ خیر کے ساتھ ہم پر پڑ جائے اور ہم میں سے کسی کو منتخب کرلے۔ ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے ایسے اسباب پیدا کر دینا کوئی مشکل نہیں ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ہماری نیت خالص رہے اور جد و جہد مسلسل جاری رہے۔ بالخصوص طلبہ کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگیوں کو اِن خطوط پر اُستوار کریں۔
یہ امر قابل غور ہے کہ جہاں تفقہ فی الدین اور دین کی معرفتِ تامہ (دین کی کامل معرفت) کا ذکر آتا ہے، وہاں اللہ تعالیٰ کے ارادئہ خیر اور اس کے انتخاب کا تذکرہ بھی ضرور ملتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا أَرَادَ اللهُ بِعَبْدٍ خَیْرًا جَعَلَ فِیْهِ ثِـلَاثَ خِلَالٍ: فَقَّهَهٗ فِي الدِّیْنِ، وَزَهَدَهٗ فِي الدُّنْیَا، وَبَصَّرَهٗ عُیُوْبَهٗ.
وَفِي رِوَایَةٍ: وَمَنْ أُوْتِیَهُنَّ فَقَدْ أُوْتِيَ خَیْرَ الدُّنْیَا وَالآخِرَهِ.
1۔ ابن عبد البر، جامع بیان العلم وفضلہ، 1: 20، ابن عبد البر نے اسے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
2۔ دیلمی، مسند الفردوس، 1: 242، رقم: 935، دیلمی نے اسے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
3۔ ابن أبی شیبۃ، المصنف، 6: 240، رقم: 31049
4۔ ابن أبی شیبۃ، المصنف، 7: 193، رقم: 35257
5۔ بیہقی، شعب الإیمان، 7: 347، رقم: 10535، ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے اسے محمد بن کعب القرظی سے مرسلا روایت کیا ہے۔
6۔ ہندی، کنز العمال، 10: 60، رقم: 28689
اللہ تعالیٰ جس بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے اس میں تین خصلتیں پیدا فرماتا ہے:
(1) اسے دین کا تفقّہ عطا فرماتا ہے۔
(2) اسے دنیا سے بے رغبتی عطا کر دیتا ہے۔
(3) اس کے عیبوں کو اس پر ظاہر فرما دیتا ہے (تاکہ وہ ان کی اصلاح کرسکے)۔
اور ایک روایت میں یہ بھی ہے: جسے یہ ساری چیزیں عطا کر دی گئیں اسے دنیا اور آخرت کے خیر عطا کر دی گئی۔
ہم مختصراً علیحدہ علیحدہ تینوں خصائل پر روشنی ڈالتے ہیں لیکن اس مقام پر یہ امر پیش نظر رہے کہ یہ تینوں خصلتیں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ تینوں ایک دوسرے کے لئے ناگزیر ہیں۔ یہ تمام خوبیاں مل کر وہی نتیجہ پیدا کرتی ہیں جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں۔ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ صرف ایک چیز سے وہ نتیجہ پیدا ہو جائے اور بقیہ دونوں چیزیں نظر انداز کر دی جائیں۔ اس حدیث مبارک کی رُو سے اللہ تعالیٰ کا ارادۂ خیر ان تینوں خصائل سے مشروط ہے۔
صاحبِ خیر پر پہلا انعام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے دین کا تفقہ عطا فرماتا ہے۔ یعنی اُسے دین کی گہری سوجھ بوجھ اور اس کی کامل، پختہ اور مستحکم معرفت عطا فرماتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کے اندر بیک وقت علم و حکمت، بصیرت اور فراست سمیت جملہ نعمتیں پائی جاتی ہیں۔ اِس میں علم الاحکام بھی ہے اور علم الحکم و الاسرار بھی ہے۔ التفقہ فی الدین صرف ایک کتابی علم نہیں ہے بلکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اِسے ہر جگہ ممتاز فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے ارادئہ خاص کے ساتھ منسلک فرمایا ہے۔
تفقہ فی الدین کے الگ الگ درجات اور مراتب ہیں۔ کوئی درجہ اجتہاد پر پہنچتا ہے، تو کوئی مجتہد فی الشرع بنتا ہے، کوئی مجتہد فی المذھب، کوئی مجہتد فی المسائل تو کوئی مجتہد مقیّد بنتا ہے۔ ان میں پھر اصحابِ تخریج اور اصحابِ ترجیح بھی بنتے ہیں۔ اس طرح ہر ایک کے اپنے اپنے مراتب و فضائل ہیں۔ ان میں کوئی مفتی ہے، کوئی عالم ہے، کوئی داعی ہے اور کوئی مبلغ ہے۔ یہ اپنے اپنے درجات ہیں۔ بندے کی نیت کتنی خالص اور اُس کی جد و جہد، تگ و دو اور محنت و کاوش کتنی ہے؟ یہ سب عوامل مل جل کر کام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کس کو کتنا فہم عطا کرتاہے، یہ اُسی پر منحصر ہے کہ وہ کس پر کتنا ارادہ ٔخیر فرماتا ہے۔
(1) تفقہ فی الدین کے مختلف درجات کی تفصیلات کے لیے راقم کی تصنیف ’تاریخِ فقہ میں ہدایہ اور صاحبِ ہدایہ کا مقام‘ ملاحظہ فرمائیں۔
صاحبِ خیر پر ہونے والے دوسرے انعام کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اُس شخص کے دل سے دنیا کی رغبت ختم کر دیتا ہے۔ دنیا کا حرص، طمع اور لالچ اُس کے دل سے نکال کر اس کی جگہ صبر، شکر، قناعت اور توکل فی اللہ عطا فرما دیتا ہے۔ وَزَهَدَہٗ فِي الدُّنْیَا سے مراد یہ نہیں ہے کہ دنیا اس کے لئے ختم ہو جاتی ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ دنیاوی حرص و لالچ کو اُس کے دل سے نکال دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیاوی مال و دولت اُس کے آگے نہیں چھوڑتا تاکہ وہ اُسے دیکھ کر پیچھے نہ بھاگتا رہے بلکہ وہ بندہ دنیا کی طرف اپنی پشت کر لیتا ہے۔ اس طرح یہ سمت تبدیل ہو جاتی ہے اور دنیا اُس کے پیچھے پیچھے چلتی رہتی ہے۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ کیا یہ اچھا محسوس ہوگا کہ آپ کا چہرہ دنیا کی طرف ہو اور وہ آپ کی طرف پشت کر کے آگے آگے بھاگی چلی جا رہی ہو یا یہ اچھا لگے گا کہ آپ کا چہرہ اپنے خالق و مالک کی طرف ہو اور دنیا آپ کے پیچھے پیچھے خود ہی دوڑی چلی آئے؟ لامحالہ جسے بھی اللہ تعالیٰ نے تھوڑی بہت سوجھ بوجھ عطا فرمائی ہے وہ یہی پسند کرے گا کہ دنیا کی طرف چہرہ کرنے کے بجائے اپنا رُخ مولا کی طرف رکھے اور دنیا اس کے پیچھے ذلیل و خوار ہو کر بھاگتی چلی آئے۔ زُہد فی الدنیا کا یہی مفہوم ہے کہ بندہ دنیا میں رہتا ہے مگر دنیا اُس کے دل میں نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو اُس کے دل سے یوں نکال دیتاہے کہ دنیاوی رغبت ختم ہو جاتی ہے۔
صاحبِ خیر پر تیسرا انعام یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے ایسی بصیرت عطا فرماتا ہے کہ اپنے عیوب اُس پر ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جب اسے اپنے عیب نظر آنے لگتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور شرم سار اور نادم ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کی عیب جوئی نہیں کرتا، کیونکہ وہ لوگوں کے عیب دیکھنے والی اپنی آنکھ کو بند کر لیتا ہے۔ اُن کے عیوب، خرابیاں اور نقائص دیکھنے؛ اُن پر گفتگو کرنے، اچھالنے اور انہیں بے پردہ کرنے سے باز آ جاتا ہے۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ عیب جُو کو دین کی معرفت سے محروم رکھتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ جن سے خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو اُنہیں اپنے عیوب سے آگاہی عطا فرماتا ہے۔ جب اس پر اپنے عیب ظاہر ہوتے ہیں تو پھر اُسے خود کو عیوب سے پاک کرنے کی اتنی فکر لگتی ہے کہ دوسروں کے عیب تلاش کرنے کی فرصت ہی نہیں رہتی، کیونکہ جب بندے پر اُس کے عیب ظاہر ہو جائیں تو پھر اُسے فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ اِن سے چھٹکارا کیسے پایا جائے؟ بہادر شاہ ظفر اسی کیفیت کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر
رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر
تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
یہ وہ مقام ہے جہاں بندہ صحیح معنیٰ میں دین کا فقیہ بن جاتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَا عُبِدَاللهُ بِشَيئٍ أَفْضَلَ مِنْ فِقْهٍ فِي دِیْنٍ.
جس شخص کو دین کی فقہ و معرفت نصیب ہو جائے تو یہ سب سے افضل عبادت ہے۔
یہاں ذہن میں سوال آسکتا ہے کہ دین کی معرفت، عبادت کیسے بن گئی؟ معرفت تو علم، تفقہ اور گہری سوجھ بوجھ کا نام ہے، یہ بھلا عبادت کا درجہ کیسے پا گئی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے حقیقت میں عبادت کا معنی سمجھا ہی نہیں۔ ہمارے پاس چونکہ دین کی معرفت نہیں ہے، اِس لیے ذہن میں یہ مغالطہ جنم لیتا ہے۔ دین کی کامل معرفت ملنے کا مطلب یہ ہے کہ علمِ دین اُس کے قلب و باطن پر نازل ہوگا اور انوار و تجلیات اُس کے ظاہر و باطن کو روشن کرتے ہوئے اسے بدل کر رکھ دیں گی۔ جب دین کی کامل معرفت نصیب ہوگی تو اسے علم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے اَوامر و نواہی کی کیا اہمیت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو فرض قرار دیا ہے، اُنہیں کرنے کی ضرورت کس قدر ہے اور ترک کرنے کا گناہ کتنا ہے؟ حرام کردہ کام کرنے سے کتنا عذاب ہوگا اور اُن سے باز رہنے سے اللہ کتنا راضی ہوگا؟ گویا اِن چیزوں پر اُس کی ہمہ وقت گہری نگاہ رہے گی، جس کے نتیجے میں وہ احکاماتِ الٰہیہ پر عمل کرے گا۔
اِرادئہ خیر ایک جامع اِرادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارادے سے زیادہ جامع کسی اور کا ارادہ نہیں ہو سکتا اور اس کی خیر سے مراد خیرِ کامل ہے۔ جس شخص کو یہ خیر نصیب ہوگئی تو پھر اُس کا اٹھنا، بیٹھنا اور کلام کرنا دین کے تقاضوں کے عین مطابق ہوگا۔ اُس کی زندگی میں دین سے مطابقت و مناسبت پیدا ہو جائے گی، اسلامی تعلیمات اُس کا اوڑھنا بچھونا بن جائیں گی، قرآن و سنت اور علم خود اس کے عمل میں ڈھل جائے گا۔ چونکہ معرفت کا مطلب یہ ہے کہ دین اُس کے لیے وہ اُسوہ بن جائے گا جو آقا ﷺ کی سیرتِ طیبہ کا نام ہے، گویا اُس وقت پھر علم اور عمل باہم یک دگر ہو جاتے ہیں اور ان میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں علم، عمل کے پیکر میں ڈھل جاتا ہے۔ اِس وجہ سے فرمایا ہے کہ جسے یہ معرفت نصیب ہو گئی وہ اپنا کوئی بھی عمل اُس کی مخالفت میں سرزد نہیں کر سکتا۔ اگر زندگی مخالفت میں بسر ہو تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ اُسے معرفتِ الٰہی نصیب ہی نہیں ہوئی ہے۔ وہ علم صرف کتابی علم تھا، اس لیے وہ فقیہ نہیں بن سکا۔ علم اُس نے پڑھا ضرور ہے، مگر وہ اُس کے قالب میں ڈھلا نہیں ہے۔ وہ علم اُس کے من پر وارد نہیں ہوا اور نہ ہی علم نے اُسے اپنے نور سے منور کیا ہے۔ اِس وجہ سے فرمایا کہ اِس سے بہتر اللہ کی عبادت کوئی نہیںہے، کیونکہ اُسے نہ صرف عبادت کے احکام معلوم ہوتے ہیں بلکہ وہ عبادت کے انوار بھی حاصل کرتاہے اور اس کی لذت و حلاوت سے بھی فیض یاب ہوتا ہے۔ اس صاحبِ فقہ میں عبادت کا ایسا ذوق پیدا ہو جاتا ہے جو درجہ بہ درجہ مسلسل آگے ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ایسے فقیہ کی شان کئی احادیث میں وارد ہوئی ہے۔
1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
فَقِیْهٌ أَشَدُّ عَلَی الشَّیْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ.
ایک فقیہ، شیطان پر ایک ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہوتا ہے۔
2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارک میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
مَا عُبِدَاللهُ بِشَيئٍ أَفْضَلَ مِنْ فِقْهٍ فِي دِیْنٍ. وَلَفَقِیْهٌ أَشَدُّ عَلَی الشَّیْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ. وَلِکُلِّ شَيئٍ عِمَادٌ وَعِمَادُ هٰذَا الدِّیْنِ الْفِقْهُ.
جس شخص کو دین کی فقہ و معرفت نصیب ہو جائے تو یہ سب سے افضل عبادت ہے۔ ایک فقیہ ایک ہزار عابدوں سے بڑھ کر شیطان پر بھاری ہے۔ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی ستون ہوتا ہے اور اس دین کا ستون فقہ (دین میں سمجھ بوجھ حاصل کرنا) ہے۔
یہ روایت بیان کرنے کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
لَأَنْ أَجْلِسَ سَاعَةً فَأَفْقَهَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُحْیِيَ لَیْلَةً إِلَی الْغَدَاةِ.
مجھے دینی مسائل سمجھنے کے لئے ایک گھڑی بیٹھنا پوری رات اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے بھی زیادہ محبوب ہے۔
غور طلب نقطہ یہ ہے کہ ان احادیث میں أفْضَلُ استعمال نہیں کیا یعنی أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ نہیں فرمایا بلکہ ارشاد ہوا: أَشَدُّ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ۔ یہ حدیث کئی روایات سے وارد ہوئی ہے، ہر جگہ أَشَدُّ کا لفظ مذکور ہے۔ یعنی ایک فقیہ ایک ہزار عبادت گزاروں سے زیادہ طاقت ور ہوتا ہے۔ ذہن میں آ سکتا ہے کہ اِس کا طاقت ور ہونے سے کیا تعلق ہے؟ یہی تو غور طلب بات ہے کہ افضل ہونا درجات کی بات ہے۔ درجات اگر ملتے ہیں تو چھینے بھی جا سکتے ہیں۔ بندہ انہیں حاصل کرتا ہے تو ان سے محروم بھی ہو جاتا ہے۔ اس لئے اُسے طاقت ور ہونا چاہیے۔ یہاں طاقت سے مراد جسمانی قوت نہیں بلکہ اس سے مراد علم اور معرفت کی طاقت ہے۔ جب یہ لیاقت اُسے ملتی ہے تو وہ علم کی اس کامل معرفت کی وجہ سے ہزار عبادت گزاروں سے زیادہ طاقت ور ہو جاتا ہے۔ اسی طاقت کی وجہ سے وہ شیطان کے حملوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں شیطان کے دعویٰ کا ذکر اسی کے الفاظ میں یوں بیان کیا ہے:
وَلَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَo
الحجر، 15: 39
اور ان سب کو ضرور گمراہ کر کے رہوں گا۔
یعنی میں سیدھی راہ پر بیٹھوں گا اور بندوں کو گم راہ کرنے کے لیے ان پر حملے کروں گا۔ لہٰذا ابلیس روپ بدل بدل کر حملہ آور ہوتا ہے۔ اُس کے حملوں سے بچنے کے لئے اِن حملوں کی پہچان اور مقابلہ کرنے کے لئے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے کہ قلب پر جن خواطر کا تجلیات کی صورت میں نزول ہوتا ہے ان میں سے کبھی کوئی تجلی شیطان کی طرف سے چمکتی ہے، کبھی نفس کی طرف سے چمکتی ہے اور کبھی کوئی تجلی رحمانی و ربانی ہوتی ہے۔ یہ ساری چیزیں عبادت کے دوران آتی ہیں۔ بندہ یہ سمجھتا ہے کہ میں کامل ہوگیا ہوں اور یہ میری کرامت ہے۔ اُسے پہچان نہیں ہو پاتی کہ یہ نور کس کا تھا؟ اگر وہ فقیہ اور کامل معرفت رکھنے والا ہوگا تو وہ خالی نور کو دیکھ کر خوش نہیں ہوگا بلکہ وہ اس کا بغور جائزہ لے گا کہ یہ نور کس طرف سے آیا ہے؟ سمت کا علم ہونا ہی تفقہ اور معرفت کہلاتا ہے۔ اگر اُس کی سمت معلوم ہوگی تو وہ پہچان لے گا کہ یہ نور شیطانی، نفسانی یا پھر رحمانی کس تجلی کا اثرہے۔
وہ اس ضمن میں دیکھے گا کہ اِس کا رنگ کیا ہے؟ وہ دیکھے گا کہ طبیعت پر اِس کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟ عبادت کا ذوق بڑھ رہا ہے یا غفلت پیدا ہو رہی ہے؟ چنانچہ محض عبادت گزار ہونا اِن چیزوں سے آگاہی نہیں دیتا۔ ایک آدمی عبادت، ذکرو اذکار، مراقبے اور مجاہدے کرتا اور ہمیشہ نفلی روزے رکھتا ہے۔ یقینا اِن چیزوں کے نتیجے میں ان کے اثرات تو مرتب ہوں گے۔ ایسے شخص کا تزکیہ بھی ہوگا، تصفیہ بھی ہوگا اور اُس سے نور بھی پیدا ہوگا ۔ اس دوران کبھی کشف ہوں گے، کبھی برکتیں نازل ہوں گی اور کبھی دعائیں قبول ہونے لگیں گی۔ جوں ہی اُس کی دعائیں قبول ہونے لگیں گی تو وہ تصور کرے گا کہ میں تو کامل ہوگیا ہوں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ سب تو راستے کی چیزیں ہیں۔ اسے ہرگز کاملیت نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ کامل ہونا تو بہت آگے کا مرتبہ ہے۔ جوں ہی اُسے خود کے کامل ہونے کا خیال آیا تو سمجھ لو اس پر نفس و شیطان کا حملہ کامیاب ہوگیا۔ یہ معرفتِ تامّہ ہی ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے سنبھال سکے گی۔ اس موقع پر سالک مختلف قسم کی آوازیں سنتا ہے۔ وہ آواز شیطانی اور نفسانی ہوگی اور وہ وسوسہ سے آئے گی، اسے الہام ہوگا، خیال اِلقاء ہوں گے اور جو دل میں آئے گا وہ یہ سمجھے گا کہ شاید اللہ تعالیٰ نے القاء کیا ہے، ملائکہ نے القاء کیا ہے، حالانکہ یہ کبھی نفس کا القاء ہوتا ہے اور کبھی شیطان کا القاء ہوتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا:
وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰهَاo فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰهَاo
الشمس، 91: 8
اور انسانی جان کی قَسم اور اسے ہمہ پہلو توازن و درستگی دینے والے کی قَسمo پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دی۔
یہ آیت کریمہ بتا رہی ہے کہ فسق و فجور کا بھی القاء ہوتا ہے اور تقویٰ و نور کا بھی القاء ہوتا ہے۔ ان ساری چیزوں کا تعین کرنا اور ان میں امتیاز کرنا تفقہ اور معرفت کی بدولت ہی ممکن ہے۔ وہ اپنے آپ کو اِس معرفت کے بغیر خطرات سے بچا نہیں سکتا۔ بعض اوقات آزمائش کے طور پر کوئی چیز ملتی ہے تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ یہ میری کرامت ہوگئی ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔
فقیہ اور صاحبِ معرفت دین کے ظاہری و باطنی دونوں احکام اور علوم کی معرفت رکھنے والا ہوتا ہے۔ معرفت کی وجہ سے وہ اتنا طاقت ور ہو جاتا ہے کہ شیطان اور نفس کے حملوں سے بچ جاتا ہے۔ طاقت ور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اُسے ادراک ہو جاتا ہے کہ یہ حملہ کس جہت سے ہے اور اِس کے کیا نتائج رونما ہوں گے؟ اس پر وہ استغفراللہ العظیم پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے مدد کا درخواست گزار ہوتا ہے۔
سیدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ اپنے تزکیہ، مجاہدات اور ریاضات کے زمانے کا ایک واقعہ خود بیان فرماتے ہیں کہ یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں مجاہدات اور ریاضات کے لیے جنگلوں میں قیام پذیر تھا۔ اس دوران شیطان ایک بادل کے اندر کڑک اور بجلی کی صورت میں چمکا اور مجھے ندا دی: اے عبد القادر! تو نے میری اتنی عبادت کی ہے کہ اب میں تجھ پر شریعت کے احکام و فرائض اور واجبات معاف کرتا ہوں۔ آپ نے جوں ہی یہ سنا تو لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِیْم پڑھا۔ اس پر شیطان دفع ہوگیا کیونکہ شریعت کے احکام کبھی کسی کے لئے معاف نہیں ہوتے خواہ وہ جس درجے پر بھی پہنچ جائے۔ وہ نبی کے لیے معاف نہیں ہیں تو اُمتی کو کیسے معاف ہو سکتے ہیں؟
سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی کے سوانح نگاروں نے یہ بھی لکھا ہے کہ شیطان نے یہاں پسپائی اختیار کرنے کے بجائے ایک دوسری سمت سے دوبارہ حملہ کیا اور کہا: مبارک ہو عبد القادر! میں نے تم پر بہت بڑا حملہ کیا تھا مگر تم اپنے علم کی طاقت سے میرے اس وار سے بچ گئے۔ آپ نے پھر لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّابِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِیْم پڑھا اور کہا: تو میرے دل میں یہ خیال ڈالنا چاہتا ہے کہ میں اپنے علم کی طاقت سے بچ گیا ہوں، حالانکہ میں تو اپنے رب کے فضل سے بچا ہوں۔
جسے یہ معرفتِ تامہ اور فقہ کامل نصیب نہیں ہوگی تو وہ کوئی بھی آواز سن کر سمجھے گا کہ میں تو ولیِ کامل بن گیا ہوں۔ بہت سے لوگ ایسی منزلوں پر مبتدی ہوتے ہیں۔ اوائل زمانے میں ریاضت اور مجاہدہ کرتے کرتے بھٹک جاتے ہیں اور کئی غلط خیالات کو اپنا عقیدہ بنا لیتے ہیں۔ واضح رہے کہ جو بھی واردات، تجلیات اور انکشافات ہوں گے انہیں قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔ اگر اُس کے مطابق ہوں گے تو قبول کیا جائے گا ورنہ مسترد کر دیا جائے گا۔ دراصل واردات، مکاشفات اور تجلیات پیمانہ نہیں ہوتے بلکہ حق کا میزان ہمیشہ کتاب و سنت ہی ہوتا ہے۔ اس ضمن میں جو بھی چیز مل رہی ہے اسے کتاب و سنت کی کسوٹی پر پرکھے، اگر وہاں سے مطابقت ملے تو اللہ کا شکر بجا لائے اور اگر اُس کے مخالف کوئی شے آجائے تو ایسی ہر شے کو مسترد کر دیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا فرمان ہی ہمیشہ فائق ہوتا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے متعدد مواقع پر فقہ کی فضیلت یعنی دین اسلام کی معرفتِ کاملہ اور علم صحیح کے مقام و مرتبہ کو واضح فرمایا ہے۔
1۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
وَلِکُلِّ شَيئٍ عِمَادٌ، وَعِمَادُ هٰذَا الدِّیْنِ الْفِقْهُ.
ہر عمارت کا کوئی نہ کوئی ستون ہوتاہے۔ اور دین اسلام کا ستون فقہ ہے یعنی علم صحیح اور معرفتِ تامہ (معرفتِ کاملہ)۔
2۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
قَلِیْلُ الْفِقْهِ خَیْرٌ مِنْ کَثِیْرِ الْعِبَادَةِ.
قلیل فقہ کثیر عبادت سے بہتر ہے۔
یعنی اگر علم میں ثقاہت و معرفت اور ظاہر و باطن کی پختگی آجائے تو پھر تھوڑا سا علم بھی کثیر عبادت سے زیادہ مفید ہوتا ہے۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نہ صرف علم و فقہ کا حصول باعثِ فضیلت ہے بلکہ علم و فقہ کا ابلاغ بھی اپنے اندر بے بہا فضیلت اور حضور ﷺ کی طرف سے عطا کی جانے والی خوش خبریاں سموئے ہوئے ہے۔
1۔ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن جب ہر چیز کومیزان پر تولا جائے گا، جس کے بارے قرآن مجید کا ارشاد ہے:
وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ.
الأنبیاء، 21: 47
اور ہم قیامت کے دن عدل و انصاف کے ترازو رکھ دیں گے۔
تو اُس دن ایک شخص لایا جائے گا جس کے اعمال میزان میں رکھ دیے جائیں گے۔ اُس کے نیک اعمال والا پلڑا ہلکا ہو کر اوپر ہو جائے گا اور برے اعمال کا پلڑا بھاری ہو جائے گا تو اس وقت:
فَیُجَاءُ بِشَيئٍ أَمْثَالَ الْغَمَامِ، أَوْ قَالَ مِثْلَ السَّحَابِ. فَیُوْضَعُ فِي کَفَّةِ مِیْزَانِهٖ فَیَرْجَحْ. فَیُقَالُ لَهٗ: أَتَدْرِي مَا هٰذَا؟ فَیَقُوْلُ: لَا. فَیُقَالُ لَهٗ: هٰذَا فَضْلُ الْعِلْمِ الَّذِي کُنْتَ تُعَلِّمُهُ النَّاسِ.
بادلوں کی طرح کوئی چیز لائی جائے گی اور اُس کی نیکیوں کے پلڑے میں ڈال دی جائے گی تو وہ بھاری ہو کر نیچے چلا جائے گا۔ اُس سے پوچھا جائے گا کہ بادلوں کی طرح کی جو چیز لا کر تمہاری نیکیوں کے پلڑے میں رکھ دی ہے، جس سے تمہارا نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہو گیا ہے، جانتے ہو یہ کیا شے ہے؟ وہ کہے گا کہ مجھے معلوم نہیں۔ اُس وقت اسے کہا جائے گا کہ یہ اُس علم کی فضیلت ہے، جو تم لوگوں کو سکھاتے تھے اور اُنہیں خیر اور نیکی کی راہ پر گامزن کیا کرتے تھے۔
دوسری روایت میں ہے کہ اسے کہا جائے گا:
هٰذَا مِنْ عِلْمِکَ الَّذِي عَلَّمْتَهُ النَّاسَ، فَعَمِلُوْا بِهٖ وَعَلَّمُوْهُ مِنْ بَعْدِکَ.
ابن عبد البر، جامع بیان العلم وفضله، 1: 47
یہ تمہارا وہ علم ہے جو تم نے لوگوں کو پڑھایا اور لوگوں نے تمہارے پڑھانے اور سکھانے سے تمہاری وفات کے بعد اِس پر عمل کیا۔
یعنی تمہارے بعد تمہاری اولاد تمہارے دیے ہوئے علم کو اگلی نسلوں تک پہنچاتی رہی اور لوگوں کے اعمال درست کرتی رہی۔ اس طرح اُن سب کا ثواب تمہارے نامہ اعمال میں جمع ہوتا رہا۔ آج یہ وہ نیکی ہے جس نے تمہیں بخشش کے قابل بنا دیا اور تمہارے اعمالِ صالحہ کے ترازو کو وزنی کر دیا ہے۔
بدقسمتی سے آج متوسط طبقہ یا آسودہ حال گھرانوں کے لوگ دینی علم کو اپنے بچوں کا مستقبل (career) نہیں بناتے۔ کھاتے پیتے گھرانوں کی فہرست کے آخر میں بھی ایسا رجحان نہیں پایا جاتا کہ ان کے بچے دین کا علم حاصل کریں۔ علم دین کے حصول کے لیے زیادہ تر غریب گھرانوں کے بچے ہی رہ گئے ہیں۔ جن گھرانوں کے پاس کسی اچھے سکول، کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ کے وسائل نہیں ہیں تو وہ سوچتے ہیں کہ مدارس میں علم مفت مل رہا ہے تو چلو یہی سیکھ لیتے ہیں۔ اس سے بچہ بڑا ہو کر کچھ نہ کچھ تو کمانے والا بن جائے گا۔ ایسے لوگوں میں سے بیش تر کے لیے علم دین کی فضیلت کوئی ترجیح نہیں ہے، بلکہ ان کے لیے دینی علم کا حصول دال روٹی چلانے سے منسلک ہے۔
آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دینی تعلیم کے میدان میں مفلس اور نادار گھرانوں سے بچے آئیں گے تو اُن کا معاشرتی، سماجی اور معاشی پس منظر کیا ہوگا اور اُس سے اُن کی کیا شخصیتیں تشکیل پائیں گی؟ وہ اُسی ماحول میں پڑھتے ہوئے مسجد میں امامت کا فریضہ سنبھالیں گے۔ مسجد کی انتظامی کمیٹی اُنہیں اپنا ملازم سمجھ کر تنخواہ دے گی۔ ان حالات میں آپ ان سے کیسے ایک بہتر کردار، اعلیٰ تقویٰ اور عمدہ اخلاق کی توقع کر سکتے ہیں؟
غور طلب بات ہے کہ دین فہمی کے لئے معاشرے کی input کیا ہے، جو ہم ان اَئمہ مساجد سے توقع کرتے ہیں؟ دینی علم کا حصول تو مفلوک الحال طبقے کے بچوں میں محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اُن کے پاس نہ تو کمپیوٹر ہیں، نہ بین الاقوامی زبانوں سے آگہی، نہ اُن کے پاس جدید ٹیکنالوجی ہے، نہ اُنہیں اچھے تعلیم یافتہ اور جدید علوم سے آراستہ اساتذہ حاصل ہیں، نہ اُنہیں یونیورسٹیوں کی سہولتیں میسر ہیں اور نہ ہی اُن کے پاس بیٹھنے کا مثالی ماحول موجود ہے۔ ان تمام محرومیوں سے اِن کی شخصیت ترتیب پاتی ہے۔ یوں تلخ زمینی حقائق کے باعث ان میں کئی طرح کے نقائص اور ان کی شخصیت میں ادھورا پن رہ جاتا ہے۔ آپ ایک حد سے زیادہ ان سے بھلا کیا توقع کر سکتے ہیں کہ جو وہ ہمارے معاشرے کو منتقل کریں گے۔ آپ جتنا معیاری مواد ڈالیں گے تو اتنی ہی اعلیٰ مصنوعات تیار ہوں گی۔ اِس پورے عمل کا ذمہ دار پورا معاشرہ اور ہمارا نظام ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور بنی اکرم ﷺ نے فرمایا:
نَضَّرَاللهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَیْئًا فَبَلَّغَهٗ کَمَا سَمِعَ فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ.
اللہ تعالیٰ اُس شخص کو خوش و خرم رکھے اور اُس کے چہرے کو ہشاش بشاش رکھے جس نے ہم سے کچھ سنا اور اُسے آگے لوگوں تک پہنچایا۔ بہت سے لوگ جنہیں علم پہنچایا جاتا ہے وہ ان پہچانے والوں سے کہیں زیادہ سمجھ دار، صاحب فہم و بصیرت اور با صلاحیت ہوتے ہیں۔
اِس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر اچھی صلاحیت، استعداد، ذہانت والے لوگ علم دین کو حاصل کرنے اور بہتر انداز سے آگے پہنچانے کے عمل میں شریک ہو جائیں تو اِس سے معیار بہتر سے بہتر ہوتا چلا جائے گا۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے اِبلاغِ علم پر اس مبلّغ کو خوش و خرم رہنے کی دُعا دی ہے۔ کیا ہم تیار نہیں ہیں کہ آپ ﷺ کی اس مبارک دعا کے حق دار بنیں اور اپنی اولاد کو دین کے علم کے لیے وقف کر دیں؟ افسوس! ہمارے ہاں اب محنت، ریاضت اور مشقت نہیں ہے۔ ہم تن آسان اور سہولت پسند بن چکے ہیں۔ ہمارے معاشرے اور حالات نے ہمیں اتنا سہل پسند بنا دیا ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں میں اِن چیزوں کو ناممکن بنا کر رکھ دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ محنت کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اگر کھاتے پیتے گھرانے، وسائل والے خاندان اپنے بچوں کو اِس ڈگر پر ڈالیں گے تو پھر عالمِ دین دنیاوی معاملات سے بے نیاز ہوگا اور حق بات ببانگِ دُہل کہے گا۔ درپیش صورتِ حال کی اقبالؔ نے اپنے شعر میں کیا خوب صورت تصویر کشی کی ہے:
گلا تو گھونٹ دیا اَہلِ مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ
1۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
نَضَّرَاللهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِیْثًا فَحَفِظَهٗ حَتّٰی یُبَلِّغَهٗ غَیْرَهٗ، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلٰی مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَیْسَ بِفَقِیْهٍ.
اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش رکھے جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی، پھر اسے یاد رکھا یہاں تک کہ اسے دوسروں تک پہنچایا۔ بہت سے فقیہ اپنے سے کامل فقیہ تک بات پہنچاتے ہیں اور بہت سے مسئلہ جاننے والے خود فقیہ نہیں ہوتے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے اس حدیث مبارکہ میں پانچ چیزوں کا ذکر فرمایا ہے:
(1) اللہ تعالیٰ اس شخص کی زندگی کو خوشیوں سے مالا مال کر دے جس نے ہم سے حدیث سنی۔
اس سے علم حدیث کے جواز کی باقاعدہ ایک سند مل گئی۔
(2) اس برکت میں وہ بھی شامل ہیں جس نے اس حدیث کو یاد کیا۔
یہ علم حدیث کے جمع کرنے کی بات آگئی اور اس میں راویوں کا ذکر بھی آ گیا۔
(3) پھر اس طبقے کا ذکر ہے، جس نے نہ صر ف احادیث کو خوب یاد رکھا بلکہ آگے امت تک بھی پہنچایا۔
اس میں علم حدیث کو حاصل کرنے اور پھر تبلیغ و تعلیم کے تمام مراحل کا ذکر ہو رہا ہے۔
(4) حضور نبی اکرم ﷺ نے حدیث مبارک میں دو قسم کے لوگوں کا ذکر کیا ہے۔ کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو معرفتِ دین اور فقہ کے حامل ہوتے ہیں۔ پھر ان لوگوں کا ذکر فرمایا کہ جن تک یہ احادیث پہنچائی جاتی ہیں، وہ پہنچانے والوں سے زیادہ سمجھ دار اور فہم و فراست کے مالک ہو سکتے ہیں۔
(5) آپ ﷺ نے اس امر کی جانب اشارہ فرمایا کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو فقہ کے حامل ہیں مگر درحقیقت فقیہ نہیں ہیں۔
ایسے لوگ فقہ کے حامل ہونے کے باوجود فقیہ کیوں نہیں بن سکے؟ اُس کے کئی ظاہری اور باطنی اسباب ہیں۔ اُن کے پاس اتنی قابلیت، صلاحیت، عقلی اور روحانی استعداد نہیں تھی۔ دوسرے لفظوں میں اُن کے پاس اتنی عبادت، ریاضت، سہولیات اور اتنا صدق و اخلاص نہیں تھا۔ اس ضمن میںدرجنوں اسباب ہیں کہ جن کی وجہ سے وہ فقہ کے حامل بنے، مگر فقیہ بننے کے لیے جو بنیادی ضروریات تھیں، وہ پوری نہیں کر سکے۔
ہم اِس اہم نکتے پر توجہ دے رہے ہیں کہ اگر پڑھے لکھے اعلیٰ معاشی و معاشرتی درجہ کے حامل گھرانوں سے کچھ نوجوان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے وقف ہو کر نکل آئیں اور پھر ان کے والدین اور خاندان والے اپنے اوپر دینِ اسلام کا حق سمجھیں کہ ہم علم کے وارث بھی بنیں گے اور تسلسل سے نسل در نسل اُس پیغام کو بھی پہنچائیں گے۔ یوں اس میدان میں اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل افراد کے آنے کی وجہ سے دینِ اسلام عالمی سطح پر فروغ پائے گا اور معاشرے کے انفرادی و اجتماعی مسائل کا حل قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات کی روشنی میں میسر آسکے گا۔
حضور نبی اکرم ﷺ کا مذکورہ فرمان علم کی ترویج و تعلیم میں باصلاحیت اور فقیہ بننے کی صلاحیت کے حامل نوجوانوں کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ اگر باصلاحیت افراد دین کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امت کے اخلاقی اور علمی احوال میں کس قدر انقلاب بپا ہو سکتا ہے۔ اس لیے دین کے علم کو لینے اور آگے پہنچانے والے طبقہ کی عزت و احترام میں بھی بے پناہ اضافہ ہوگا۔ چنانچہ ضروری ہے کہ کچھ لوگ دین کا علم اور تفقہ حاصل کرنے کے لئے نکلیں اور پھر پلٹ کر سارے معاشرے تک دین کی اس ہدایت کو پہنچائیں۔ یہ قرآن کا حکم بھی ہے اور حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشادِ مقدس بھی ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان نہایت قابل توجہ ہے کہ رُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ إِلٰی مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ سے مراد ہے کہ عین ممکن ہے کہ بہت سے لوگ جو میری بات کو آگے پہنچائیں وہ خود تو اتنے ذہین نہ ہوں مگر جن کو پہنچائیں اُن کی ذہانت زیادہ ہو۔ آقائے دو جہاں ﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بات کر رہے ہیں کہ پہنچانے والا ہر کوئی فقیہ نہیں ہوتا۔ جب صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اندر عالم یہ تھا تو پھر بعد کے ادوار اور آج کے زمانے تک کی صورتِ حال بھلا کیا ہوگی؟ یہ حدیث مبارکہ ہمیں دعوتِ عمل دے رہی ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ دین کی سمجھ کو لے کر پہنچانے والے بن جائیں تو حالات یکسر بدل جائیں گے۔
2۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ابلاغِ علم کی طرف ایک موقع پر یوں متوجہ فرمایا ہے:
تَسْمَعُوْنَ وَیُسْمَعُ مِنْکُمْ، وَیُسْمَعُ مِمَّنْ سَمِعَ مِنْکُمْ.
تم مجھ سے (احادیث) سنتے ہو اور تم سے بھی (احادیث) سنی جائیں گی۔ (بعد ازاں) ان لوگوں سے بھی (احادیث) سنی جائیں گی جنہوں نے تم سے سنا ہوگا۔
ایک روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں:
عَنْ ثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: تَسْمَعُونَ وَیُسْمَعُ مِنْکُمْ، وَیُسْمَعُ مِنَ الَّذِیْنَ یَسْمَعُوْنَ مِنْکُمْ، وَیُسْمَعُ مِنَ الَّذِیْنَ یَسْمَعُوْنَ مِنَ الَّذِیْنَ یَسْمَعُوْنَ مِنْکُمْ.
حاکم، معرفة علوم الحدیث: 60
حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم مجھ سے سماعت کرتے ہو اور تم سے بھی سماعت کی جائے گی اور پھر ان لوگوں سے بھی سماعت کی جائے گی جو تم سے سماعت کرتے ہیں۔ پھر ان لوگوں سے سماعت کی جائے گی جو تم سے سماعت کرنے والوں سے سماعت کرتے ہیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے ان فرامین کا مطلب ہے کہ علم حاصل کرنے اور آگے دوسروں تک پہنچانے کا یہ سلسلہ پوری امت میں قیامت تک جاری رہے گا اور ایسا کرنے والوں کو آپ ﷺ نے اہلِ حق ہونے کی خوش خبری سنائی ہے۔ کتنے خوش نصیب ہوں گے وہ گھرانے جو آقا ﷺ کے بیان کردہ اِس عظیم سلسلے کا حصہ بن جائیں گے۔ دین کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور نئے موضوعات (subjects) جیسے انفارمیشن ٹیکنالوجی (IT)، انجینئرنگ، سوشیالوجی اور سیاسیات وغیرہ بھی سیکھیں۔ اہل علم کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے علم کو ہمیشہ update کرتے رہیں، کیونکہ اس کے بغیر دین کے علم میں وہ افادیت نہیں رہتی جو وقت کا تقاضا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ جس معاشرے کا ہم نے سامنا کرنا ہے اُس سوسائٹی اور اُس کے تقاضے بھی ہمیں معلوم ہوں۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے متعدد مواقع پر مبلغین علم کو مختلف خوش خبریاں عطا فرمائیں اور ان کے اس عمل کو بہترین عمل قرار دیا۔ ذیل میں ان میں سے چند خوش خبریاں ملاحظہ فرمائیں۔
1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
اَللَّهُمَ ارْحَمْ خُلَفَائَنَا.
اے اللہ! ہمارے خلفا پر رحمت فرما۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے خلفاء کون ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
اَلَّذِیْنَ یَأْتُوْنَ مِنْ بَعْدِي، یَرْوُوْنَ أَحَادِیْثِي وَسُنَّتِي وَیُعَلِّمُوْنَهَا النَّاسَ.
میرے خلفاء وہ لوگ ہوں گے جو میرے بعد کے زمانوںمیں آئیں گے اور میری احادیث، میری سنتیں اور میرا علم روایت کریں گے اور وہ علم میری امت کو سکھائیں گے۔
اِس سے بڑی فضیلت بھلا اور کیا ہو سکتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے علم کی اِس عظیم وراثت کو آگے چلانے والوں کو اپنا خلفاء قرار دیا ہے اور علم کو سنبھالنے، اٹھانے اور اِس تعلم اور تعلیم کے عمل کو اپنی خلافت قرار دیا ہے کہ وہ لوگ میری خلافت اور نیابت کے حامل ہوں گے۔
2۔ حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَلَا أُخْبِرُکُمْ عَنِ الأَجْوَدِ الأَجْوَدِ؟ اللهُ الأَجْوَدُ الأَجْوَدِ. وَأَنَا أَجْوَدُ وَلَدِ آدَمَ وَأَجْوَدُهُمْ مِنْ بَعْدِي رَجُلٌ عَلِمَ عِلْمًا فَنَشَرَ عِلْمَهٗ یُبْعَثُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ أُمَّةً وَاحِدَةً.
کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ سخیوںکا سخی کون ہے؟ اللہ تعالیٰ سب سخیوں کا سخی ہے (یعنی سب کریموں کا کریم ہے) اور میں اولادِ آدم (کائنات انسانی) میں سب سے بڑا سخی ہوں۔ میرے بعد لوگوں میں سب سے بڑا سخی وہ شخص ہوگا جس نے علم حاصل کیا، پھر اس علم کو دوسروں تک پہنچایا۔ قیامت کے دن اُس ایک شخص کو پوری امت کے برابر کھڑا کیا جائے گا۔
یعنی وہ ایک شخص جس نے علم نبوی حاصل کیا، اسے امت اور دنیا بھر میںپھیلایا، اُس کے درجات، فضائل، مراتب، حسنات اور خیرات اس قدر ہوں گی کہ ایک شخص تنہا امت کے برابر ہوگا۔
3۔ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا تَصَدَّقَ النَّاسُ بِصَدَقَةٍ مِثْلَ عِلْمٍ یُنْشَرُ.
لوگ صدقہ اور خیرات کرتے ہیں مگر سب سے بڑا صدقہ علم کو پھیلانا ہے۔
یعنی جو علم میں تمہیں دے کر جا رہا ہوں اس علم کو دنیا میں پھیلانے سے بڑا صدقہ کسی سخی کا نہیں ہے۔
4۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی روایت کیا ہے:
نِعْمَ الْعَطِیَّةُ کَلِمَةُ حَقٍّ تَسْمَعُهَا، ثُمَّ تَحْمِلُهَا إِلٰی أَخٍ لَکَ مُسْلِمٍ فَتُعَلِّمُهَا إِیَّاهُ.
سب سے بڑا عطیہ جو اللہ تعالیٰ کی عطا ہے وہ کلمہ حق ہے جو بندہ سنے اور پھر جو سنا ہے اُسے اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں تک پہنچائے اور وہ کلمات اُنہیں سکھائے۔
گویا علم کا حصول و ابلاغ اللہ تعالیٰ کاسب سے بڑا عطیہ بھی ہے، بندے کے لیے سب سے بڑا صدقہ بھی ہے اور سب سے بڑی خیرات بھی ہے۔ ایسا کرنے والاتنہا ایک شخص نیکیوں اور درجات میں پوری امت کے برابر ہوگا۔
5۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَجْلِسُ فِقْهٍ خَیْرٌ مِنْ عِبَادَةِ سِتِّیْنَ سَنَةٍ.
فقهِ دین کی ایک مجلس ساٹھ سال کی عبادت سے زیادہ افضل ہے۔
6۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
یَسِیْرُ الْفِقْهِ خَیْرٌ مِنْ کَثِیْرِ الْعِبَادَةِ.
قلیل فقهِ دین کثیر عبادت سے افضل ہے۔
7۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں:
إِنَّ الْعَالِمَ أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الصَّائِمِ الْقَائِمِ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِیْلِ اللهِ.
بے شک ایک عالمِ دین پوری عمر دن کو روزہ رکھنے، رات کو قیام کرنے اور میدانوں میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے شخص سے (فضیلت اور درجے میں) زیادہ اجر کا مستحق ہے۔
8۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ارشاد فرمایا:
یَا أَبَا ذَرٍّ، لَأَنْ تَغْدُوَ فَتَعَلَّمَ آیَةً مِنْ کِتَابِ اللهِ خَیْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ تُصَلِّيَ مِائَةَ رَکْعَةٍ، وَلَأَنْ تَغْدُوَ فَتَعَلَّمَ بَابًا مِنَ الْعِلْمِ عُمِلَ بِهٖ أَوْ لَمْ یُعْمَلْ خَیْرٌ مِنْ أَنْ تُصَلِّيَ أَلْفَ رَکْعَةٍ.
1۔ ابن ماجہ، السنن، المقدمۃ، باب فضل من تعلم القرآن وعلمہ، 1: 79، رقم: 219
2۔ دیلمي، مسند الفردوس، 5: 338، رقم: 8362
3۔ منذری نے ’الترغیب والترھیب (1: 54، رقم: 116)‘ میں کہا ہے کہ اس حدیث کو ابن ماجہ نے اسناد حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔
3۔ منذري، الترغیب والترھیب، 2: 232، رقم: 2214
اے ابو ذر! تم اس حال میں صبح کرو کہ تم (رات بھر جاگ کر) اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے ایک آیت سیکھ لو تو یہ تمہارے لئے سو رکعات نفل پڑھنے سے بہتر ہے۔ تم اس حال میں صبح کرو کہ (اس دوران) تم علم کا ایک باب سیکھ لو چاہے اس پرعمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو تو یہ تمہارے لئے ایک ہزار رکعت نوافل ادا کرنے سے بہتر ہے۔
9۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا جَاءَ الْمَوتُ طَالِبَ الْعِلْمِ وَهُوَ عَلٰی تِلْکَ الْحَالِ مَاتَ شَهِیْدًا.
جب طالب علم کو موت آئے اور وہ اسی (حصولِ علم میں مصروفیت کی) حالت میں ہو تو اس کی موت شہید کی موت ہے۔
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لَأَنْ أَعْلَمَ بَابًا مِنَ الْعِلْمِ فِي أَمْرٍ وَنَهْیٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ سَبْعِیْنَ غَزْوَةً فِي سَبِیلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ.
اوامر و نواہی کے علم کا ایک باب سیکھنا مجھے اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑے گئے ستر غزوات سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
2۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
مُذَاکَرَةُ الْعِلْمِ سَاعَةٌ خَیْرٌ مِنْ إِحْیَاءِ لَیْلَةٍ.
ایک لمحے کے لیے مذاکرۂ علم سننا پوری رات (عبادت کے لیے) جاگنے سے زیادہ افضل ہے۔
3۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
لَأَنْ أَتَعَلَّمَ بَابًا مِنَ الْعِلْمِ، فَأُعَلِّمُهٗ مُسْلِمًا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ تَکُوْنَ لِي الدُّنْیَا کُلُّهَا، أَجْعَلُهَا فِي سَبِیْلِ اللهِ تَعَالٰی.
خطیب بغدادي، الفقیه والمتفقه، 1: 102
میں علم کا کوئی باب پہلے خود سیکھوں اور پھر دیگر مسلمانوں کو سکھاؤں، یہ مجھے اس سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ میرے پاس پوری دنیا (کا مال و اَسباب) ہو اور میں اُسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کروں۔
4۔ حضرت یحییٰ بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں:
دِرَاسَةُ الْعِلْمِ صَلَاةٌ.
نووی، المجموع، 1: 21
علم دین کی تدریس خود نماز ہے۔
اس سے مراد صلاۃ النافلۃ یعنی نفلی نماز ہے کیونکہ فرض نماز کا بدل کوئی دوسری عبادت نہیں بن سکتی۔
5۔ حضرت سفیان الثوری اور امام شافعی فرماتے ہیں:
لَیْسَ شَيئٌ بَعْدَ الْفَرَائِضِ أَفْضَلَ مِنْ طَلَبِ الْعِلْمِ.
فرائض کے بعد دین کا علم سیکھنے سے زیادہ افضل کوئی اور شے نہیں ہے۔
6۔ حضرت ابراہیم بن ہانی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے امام احمد بن حنبل سے عرض کیا:
أَي شَيئٍ أَحَبُّ إِلَیْکَ، أَجْلِسُ بِاللَّیْلِ أَنْسَخُ، أَوْ أُصَلِّي تَطَوُّعًا؟
آپ کو ان دونوں میں کون سی شے زیادہ محبوب ہے: رات بھر بیٹھ کر علم کی کتابت کرنا یا نفل نماز ادا کرنا؟
اُنہوں نے جواب دیا:
إِذَا کُنْتَ تَنْسَخُ، فَأَنْتَ تَعَلَّمُ بِهٖ أَمْرَ دِیْنِکَ، فَهُوَ أَحَبُّ إِلَيَّ.
خطیب بغدادي، الفقیه والمتفقه، 1: 104
اگر تُو (علم کی کوئی بات) لکھتا ہے اور اس کے ذریعے اپنے دین کی کوئی بات سیکھ لیتا ہے تو یہ اَمر مجھے زیادہ محبوب ہے۔
یعنی امام احمد بن حنبل کو یہ عمل ساری رات کھڑے ہو کر نوافل پڑھنے سے زیادہ محبوب تھا کہ ساری رات بیٹھ کر علم حاصل کیا جائے اور تصنیف و تحریر کا کام کیا جائے تاکہ امت تک علم پہنچے۔ ایسا اس لئے تھا کہ علم کے اس عمل میں مشغول ہونا دراصل حضور نبی اکرم ﷺ کی وارثت کو محفوظ کرنے کی جد و جہد ہے۔
7۔ جلیل القدر تابعی حضرت سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں:
لَیْسَتْ عِبَادَةُ اللهِ بِالصَّوْمِ وَالصَّلَاةِ وَلٰـکِنْ بِالْفِقْهِ فِي دِیْنِہٖ.
اللہ تعالیٰ کی عبادت (محض) نماز اور روزے سے نہیں ہوتی، بلکہ اصل عبادت دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنا ہے۔
8۔ حضرت اسحاق بن عبد اللہ بن ابی فروہ بیان کرتے ہیں:
أَقْرَبُ النَّاسِ مِنْ دَرَجَةِ النُّبُوَّةِ أَهْلُ الْعِلْمِ.
نووی، المجموع، 1: 21
درجہ نبوت کے قریب ترین لوگ اہلِ علم ہیں۔
حضرت سہل بن عبد اللہ التستری فرماتے ہیں:
مَنْ أَرَادَ أَنْ یَنْظُرَ إِلٰی مَجَالِسِ الأَنْبِیَاءِ فَلْیَنْظُرْ إِلٰی مَجَالِسِ الْعُلَمَاءِ.
جو چاہے کہ میں انبیاءِ کرام علیہم السلام کی مجالس کو دیکھوں تو اُسے چاہیے کہ مجالسِ علماء کو دیکھ لے۔
یہاں وہ علمائے ربانیین، علمائے صالحین اور علمائے عاملین مراد ہیں جن پر علمِ دین وارد ہو چکا ہے۔ جو عالم باعمل بھی ہیں اور صالح بھی۔ ان کا علمِ نافع اُن کے ظاہر اور باطن میں نور بن چکا ہے۔ متقی اور خشیت رکھنے والے افراد ہی علماء کہلاتے ہیں۔
قرآن مجیدنے علماء کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے:
اِنَّمَا یَخْشَی اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓاء.
فاطر، 35: 28
بس اللہ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو (ان حقائق کا بصیرت کے ساتھ) علم رکھنے والے ہیں۔
علماء کی تعریف یہی ہے کہ اللہ کی خشیت اور خوفِ الٰہی رکھنے والے لوگ ہی علماء ہوتے ہیں۔ جس کا دل خشیتِ الٰہی سے لبریز نہیں، دل میں اللہ کا تقویٰ اور پرہیزگاری نہیں ہے وہ شخص عالمِ دین کہلانے کا بھی حق دار نہیں ہے۔
ایک مرتبہ امام نووی نے اللہ تعالیٰ کے بارگاہ میں دعا کی: اے اللہ! اپنی تجلی کا فیض میری تصنیفات کو عطا کر دے تاکہ حضور نبی اکرم ﷺ کی امت میری کتابیں پڑھے اور عمر بھر اُس سے استفادہ کرے۔ نتیجتاً امام نووی کی کتابیں دنیا بھر میں شرق تا غرب مقبول ہوئیں۔ اُن کی تصانیف سے امتِ مسلمہ کو فیض مل رہا ہے۔ اولیاء کرام میں سے کسی کا فیض اس کی قبر سے حاصل ہوتاہے، کسی کا ان کی شفقت سے ملتاہے اور کسی کا ان کے علم سے حاصل ہوتا ہے۔
انہی امام نوویؒ نے اپنی شرح المہذب کی جلد اوّل مقدمہ میں درج ذیل آداب المتعلم تحریر فرمائے ہیں:
علم فقہ اور دین کی معرفت تامہ حاصل کرنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ دلوں کو پاک کیا جائے۔
امام نووی فرماتے ہیں:
یَطْیِبُ الْقَلْبِ لِلْعِلْمِ تَطْیِبُ الأَرْضِ لِلزِّرَاعَةِ.
نووی، التبیان في آداب حملة القرآن: 25
علم (نافع کے حصول) کے لیے دل کو (دنیاوی آلائشوں سے) اس طرح صاف کرنا چاہیے جس طرح کھیتی باڑی کے لیے زمین کو صاف کرتے ہیں۔
یعنی تصفیۂ قلب اور تزکیہ نفس ہونا چاہیے۔ اگر قلب اور نفس کی زمین خرابیوں اور پلیدیوں سے پاک نہیں ہوگی تو علم خشیتِ الٰہی اور تقویٰ کا نور پیدا نہیں کرے گا۔ یہ آپ کو کامل فقیہ اور صاحبِ معرفتِ تامہ نہیں بنائے گا اور نیابتِ محمدی عطا نہیں کرے گا۔ اِن امور کے لیے چاہیے کہ نفس اور قلب کی زمین علم کی زراعت کے قابل اور صاف ستھری ہو۔ یعنی جو علائق رکاوٹ بنتے ہیں اُن سے اپنے آپ کو پاک صاف کرے۔
دین کے علم کی خیرات حاصل کرنے کی دوسری شرط یہ ہے:
وَیَرْضٰی بِالْیَسِیْرِ مِنَ الْقُوْتِ، وَیَصْبِرَ عَلٰی ضِیْقِ الْعَیْشِ.
نووی، المجموع، 1: 35
تھوڑا کھانے کو ملے تواُس میں بھی راضی ہو اور زندگی میں اگر وسائل کی فراخی نہ بھی ہو تب بھی راضی ہو۔
یعنی معرفتِ علم کے لئے قناعت اور توکل اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اگر دنیا کی حرص بھی رہے اور اشاعت و ترویج دین بھی ساتھ ساتھ ہو تو ایسا ممکن نہیں ہے ۔ آخرت کے کام کے لیے سودے بازی کرنا بندے کو عذاب کا حق دار بنا دیتا ہے۔ جو آدمی آخرت کا کام کرے اور اس کے عوض دنیا بھی طلب کرے، اُس کا علم اُس پر لعنت بھیجتاہے۔ بندے کو چاہیے کہ اللہ کے دین کے لیے ایسے وقف ہو جائے کہ دین کی خدمت کو حضور نبی اکرم ﷺ کی سنت سمجھ کر اختیار کرے۔ اللہ تعالیٰ کے انبیاء و رسل علیہم السلام اسی عز م کا اظہار اِن الفاظ میں فرماتے رہے:
یٰــقَوْمِ لَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا ط اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی الَّذِیْ فَطَرَنِیْ ط اَفَـلَا تَعْقِلُوْنَo
هود، 11: 51
اے میری قوم! میں اس (دعوت و تبلیغ) پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، میرا اجر فقط اس (کے ذمۂِ کرم) پر ہے جس نے مجھے پیدا فرمایا ہے، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
رَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَعَلَّمَهٗ، وَقَرَأَ الْقُرْآنَ فَأُتِيَ بِهٖ، فَعَرَّفَهٗ نِعَمَهٗ فَعَرَفَهَا. قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِیْهَا؟ قَالَ: تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وَعَلَّمْتُهٗ، وَقَرَأْتُ فِیْکَ الْقُرْآنَ. قَالَ: کَذَبْتَ، وَلٰـکِنَّکَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِیُقَالَ عَالِمٌ، وَقَرَأْتَ الْقُرْآنَ لِیُقَالَ هُوَ قَارِیئٌ. فَقَدْ قِیْلَ. ثُمَّ أُمِرَ بِهٖ فَسُحِبَ عَلٰی وَجْهِهٖ حَتّٰی أُلْقِيَ فِي النَّارِ.
ایک شخص جس نے (دنیا میں) علم سیکھا اور سکھایااور قرآن مجید پڑھا، (قیامت کے روز) اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد کرائے گا تو وہ شخص اُن کا اقرار کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے شکرانے میں کون سا عمل کیا؟ وہ کہے گا: میں نے علم سیکھا اور اسے سکھایااور تیری رضا کی خاطر قرآن کی قرأت کی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا، بلکہ تو نے علم اس لئے حاصل کیا تھا تاکہ عالم کہلائے اور قرآن کی قرأت اس لیے کی تاکہ قاری کہلائے۔ پس یہ کہا جا چکا ہے۔ پھر اس شخص کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر دوزخ میں ڈال دو۔
امام نووی نے آدابِ علم بیان کرتے ہوئے اس امر کو بھی واضح کیا ہے کہ علم دین کے حصول سے مقصود کیا ہونا چاہیے؟ آپ لکھتے ہیں کہ امام شافعی نے فرمایا ہے:
لَا یَطْلُبُ أَحَدٌ هٰذَا الْعِلْمَ بِالْمُلْکِ وَعِزِّ النَّفْسِ فَیَفْلَحَ، وَلٰـکِنْ مَنْ طَلَبَهٗ بِذُل النَّفْسِ، وَضِیْقِ الْعَیْشِ، وَخِدْمَةِ الْعُلَمَاءِ أَفْلَحَ.
نووی، المجموع، 1: 35
جو شخص اِس علم دین میں طاقت، قوت، اقتدار، عزت یا مال و دولت اور دنیا طلب کرے، وہ کبھی فلاح نہیں پاتا۔ جس نے علم دین کو طلب کیا (اور یہی حکم آگے پہنچانے کا بھی ہے) نفس کو عاجز رکھ کر، تنگی معاش رکھ کر اور علماء و صالحین کی خدمت کر کے وہی فلاح پاتا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی خلافت کا حصول بہت بڑا مرتبہ ہے۔ علمِ محمدی کا وارث اور حامل ہونا بہت بڑی فضیلت ہے۔ فقیہ امت ہونا بھی بہت بڑا اعزاز ہے۔ بھلے اِس کے راستے میں فقر و فاقہ اور مشکلات و پریشانیاں آئیں، گھبرائیں نہیں کیونکہ یہ چار دن کی بات ہے، ٹل جائیں گی مگر علمِ محمدی اور وراثتِ محمدی کے حصول و فروغ سے جو مرتبہ ملے گا وہ ابدی ہے۔ اسے اس دنیا میں بھی رہنا ہے، قیامت میں بھی موجود ہوگا اور آخرت میں بھی قائم رہے گا۔
علم کے اپنے آداب ہیں۔ اِس میں اگر معاشی تنگی بھی آجائے تو مطلقاً بندہ فکر نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق جوڑے رکھے اور علم کے نور کے ساتھ خوش رہے۔ فضیل بن عیاض، ابراہیم بن ادھم، جنید بغدادی، اویس قرنی، غوث الاعظم، داتا گنج بخش علی ہجویری، فریدالدین گنج شکر، خواجہ اجمیر رحمہم اللہ تعالیٰ جیسی عظیم شخصیات کو اپنے لیے مثالی شخصیت بنایئے۔ یہ مردانِ حق مال و دولت کے سلاطین نہیں تھے بلکہ یہ وارثتِ محمدی کے تاج دارتھے۔ ان عظیم لوگوں کی شان دار زندگی کا عکس اپنے اندر اتاریں۔ اپنے اندر بے نیازی، قناعت، توکل پیدا کریں اور فقر کو بخوشی سینے سے لگائیں۔ ایسی نیت کے ساتھ علم حاصل کریں گے اور علم کو آگے پہنچائیں گے تواِس علم کا تحقق بھی ہوگا، معرفت مضبوط و مستحکم بھی ہوگی اور اللہ تعالیٰ اِس کی اہلیت بھی عطا فرمائے گا۔ (ان شاء اللہ)
جب ہم گھر سے طلبِ علم کی نیت سے نکل رہے ہوتے ہیں تو کبھی سوچا ہے کہ ہمیں اس سے کیا فائدہ حاصل ہوگا؟ ہمیں علم ہونا چاہیے کہ یہ کس کس کی سنت ہے اور اِس کی کیا کیا برکات ہیں۔ اِس عمل کی کیا کیا عظمتیں ہیں اور اس سے ہمیں کیا کیا نصیب ہوگا؟ یہ امر ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ تحریک منہاج القرآن کی تمام تنظیمات اور پوری تحریک میں طلبِ علم کا رجحان عام ہونا چاہیے۔ ہم طلبِ علم کے لیے ہی زندہ رہیں اور اِسی راستے پر ہمیں موت آئے۔ ہر شخص خواہ وہ زیادہ پڑھا ہوا ہے یا کم پڑھا ہوا، خواہ وہ علم اس نے کسی علم کی مجلس میں تھوڑی دیر بیٹھ کر حاصل کیا ہو، اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ اُسے طلبِ علم کے راستے میں کیا کیا عظمتیں نصیب ہوتی ہیں۔ یعنی یہ بات ہر ایک کے علم میں ہونی چاہیے کہ جب وہ کسی مجلسِ علم سے حصولِ علم کے بعد پلٹ کر واپس اپنے گھروں کو جائیں گے تو اِس کا اجر کیا ہوگا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ سَلَکَ طَرِیقًا یَلْتَمِسُ فِیْهِ عِلْمًا سَهَلَ اللهُ لَهٗ بِهٖ طَرِیْقًا إِلَی الْجَنَّةِ.
جو شخص علم کو طلب کرنے کے لیے کسی راستے پر چلا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دے گا۔
لہٰذا جو شخص طلبِ علم کی نیت سے گھر سے نکل پڑا، وہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے اس دائرے میں آگیا جو اس حدیث مبارک میں بیان ہوا ہے۔ حصولِ علم کی نیت سے اگر کوئی ایک ملک سے دوسرے ملک، ایک شہر سے دوسرے شہر تک کسی بھی طریقے سے سفر کرے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے۔ ہمیں اس خوش خبری کا حق دار بننے کے لئے حصولِ علم کی نیت کو خالص و صادق رکھنا ہوگا۔ اس لئے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
إِنَّ اللهَ لَایَنْظُرُ إِلٰی صُوَرِکُمْ وَأَمْوَالِکُمْ وَلٰـکِنْ یَنْظُرُ إِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَأَعْمَالِکُمْ.
اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کی طرف نہیں دیکھتا، البتہ وہ تمہارے دلوں اور اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔
کون سا مسلمان ایسا ہے جو نہیں چاہے گا کہ اُس کے لیے جنت کا راستہ آسان ہو جائے۔ لہٰذا اسے چاہیے کہ وہ جنت کا راستہ آسان کرنے لیے علم کے حصول کو اپنا معمول بنا لے۔
طالبِ علم کو حصولِ علم کے باعث ربِ کائنات کی بارگاہ سے مزید کیا نعمت میسر آتی ہے۔ اس سلسلے میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں:
مَنْ خَرَجَ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ کَانَ فِي سَبِیلِ اللهِ حَتّٰی یَرْجِعَ.
جو شخص علم کی تلاش میں نکلے وہ واپسی تک اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہوتا ہے۔
مَنْ خَرَجَ کے الفاظ واضح کر رہے ہیں کہ جوں ہی کوئی حصولِ علم کی نیت سے گھر سے نکلے، اس کا یہ عمل وہیں سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں کیا جانے والا عمل شمار (count) ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ دورانِ سفر چاہے آپ کھانا کھا رہے ہیں یا مشروب پی رہے ہیں یا کوئی اور شے کھا رہے ہیں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی راہ میں کیے جانے والے اعمال شمار ہوں گے۔
اسی طرح جس نے منہاج القرآن یعنی قرآن کے راستے کی نیت کرلی، اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے راستے یعنی صراطِ مستقیم کی نیت کر لی اور اس راستے پر چل نکلے تو حسنِ نیت سے اس دوران کئے جانے والے دیگر اعمال بھی نیک اعمال تصور ہوں گے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جن کی ساری زندگی اللہ تعالیٰ کی راہ میں بسر ہوتی ہے۔ اس لئے کہ اُن کی عمر بھر ایک ہی نیت رہتی ہے اور وہ ہر روز اپنی اُس نیت کا اعادہ کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا وہ واپس اپنے گھر میں پلٹ جانے تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہی ہوتے ہیں۔
اگر آپ علم کی محفل میں دین کو سمجھنے کے لیے آئے ہیں ۔ اس دوران نوافل نہیں پڑھ رہے، بہت زیادہ تسبیحات و اذکار نہیں کر رہے لیکن حصولِ علم اور دین کا فہم حاصل کرنے کی نیت اور فہمِ دین کو اخذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو یہ سب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہزارہا نوافل کی ادائیگی سے زیادہ فضیلت والی عبادت ہے۔
یہ امر واضح رہے کہ جہاں جا کر حصولِ علم، با برکت عمل، عبادت، ذکرِ الٰہی اور درودِ پاک کے لیے کوئی بیٹھے، وہی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے لیے لازم نہیں ہے کہ وہ کعبہ شریف ہی ہو یا مسجد ہو تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ بنے گی۔ بلکہ آپ اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کی طرف راغب کر کے زمین کے جس ٹکڑے پر بیٹھ جائیں، وہی اللہ کی بارگاہ بن جائے گی۔
قرآن مجید میں ہے:
فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ.
البقرة، 2: 115
پس تم جدھر بھی رخ کرو ادھر ہی اللہ کی توجہ ہے (یعنی ہر سمت ہی اللہ کی ذات جلوہ گر ہے)۔
گویا قرآن مجید نے یہ واضح کر دیا کہ ہر جگہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ ہے۔ بندے کی نیت کسی بھی جگہ کو اللہ کی بارگاہ بنا دیتی ہے۔ اکابر اولیاء اللہ جہاں جا کر ریاضت اور مجاہدے کرتے تھے، وہاں پہلے سے مسجد تو موجود نہیں ہوتی تھی، مسجد تو بعد میں وہاں تعمیر کی جاتی تھی۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر نے دریا کے پتن (کنارے) پر ڈیرہ لگایا (جسے پاک پتن کہتے ہیں) تو وہاں پہلے کوئی مسجد موجود نہیں تھی۔ اسی طرح حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری جب ہجویر سے لاہور جلوہ افروز ہوئے تو وہاں تو ہر طرف دیارِ کفر تھا کوئی مسجد موجود نہ تھی۔ آپ تو آکر ایک جگہ بیٹھ گئے، دور دراز سے لوگ آپ کے پاس آنے لگے۔ گویا پہلے اللہ والا اپنا ڈیرہ وہاں ڈالتا ہے پھر مساجد بھی بنتی ہیں، ادارے بھی بنتے ہیں اور مراکز بھی بن جاتے ہیں۔ اِسی طرح تمام اولیاء کرام نے دنیا بھر کی شرک نگریوں میں توحید کے مراکز قائم کیے۔ جس مقام پر بھی اللہ تعالیٰ کا بندہ بیٹھ جاتا ہے اسی جگہ کو بارگاهِ الٰہی ہونے کا شرف حاصل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آقائے دوجہاں ﷺ نے ارشاد فرمایا:
وَجُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُوْرًا.
ساری زمین میرے لیے سجدہ گاہ بنا دی گئی ہے۔
کسی جگہ کا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کا درجہ پانا اینٹوں، سریے، سیمنٹ اور معمار کا مرہونِ منت ہونا نہیں بلکہ لوگوں کے وہاں خلوصِ نیت کے ساتھ بیٹھنے سے عبارت ہے۔ گویا صدقِ نیت کی بناء پر کوئی جگہ اللہ کی بارگاہ قرار پاتی ہے۔ اِس لیے کہ اللہ تو بندے کے اندر بھی ہے اور باہر بھی ہے۔ ہرسمت، ہر طرف اور ہر سُو اللہ ہی اللہ ہے۔
قُلْ ِللهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ.
البقرة، 2: 142
آپ فرما دیں: مشرق و مغرب (سب) اللہ ہی کے لیے ہے۔
لہٰذا جدھر چاہے رخ کر لو، اُدھر ہی اللہ کی بارگاہ ہے۔اس لئے کہ اُسی کا یہ ارشاد ہے:
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِo
ق، 50: 16
ہم تمہاری شہ رگ سے بھی قریب ہیں۔
نہ صرف یہ کہ وہ ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے بلکہ اس کی نشانیاںہمارے اندر موجود ہیں:
وَ فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَـلَا تُبْصِرُوْنَo
الذاریات، 51: 21
اور خود تمہارے نفوس میں (بھی ہیں)، سو کیا تم دیکھتے نہیں ہو۔
یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ کی نشانیاں لوگوں کے نفوس کے اندر موجود ہیں مگر وہ ان نشانیوں میں غور و فکر نہیں کرتے۔ ان باتوں کا مقصد یہ ہے کہ ہر جگہ اللہ کی بارگاہ اس لئے ہے کہ وہ ہر جگہ موجود ہے، بندہ جہاں بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرے، وہی بارگاهِ الٰہ ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث قدسی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان اقدس ہے:
أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَهٗ إِذَا ذَکَرَنِي، فَإِنْ ذَکَرَنِي فِي نَفْسِهٖ ذَکَرْتُهٗ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَکَرَنِي في مَـلَاءٍ ذَکَرْتُهٗ فِي مَلَاءٍ خَیْرٍ مِنْهُمْ، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَیْهِ ذِرَاعًا، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْهِ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِي یَمْشِي، أَتَیْتُهٗ هَرْوَلَةً.
میرا بندہ میرے متعلق جیسا خیال رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں۔ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ اپنے دل میں میرا ذکر (یعنی ذکر خفی) کرے تو میں بھی (اپنی شان کے لائق) اپنے دل میں اس کا ذکر کرتا ہوں اور اگر وہ جماعت میں میرا ذکر (یعنی ذکر جلی) کرے تو میں اس کی جماعت سے بہتر جماعت (یعنی فرشتوں) میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک آئے تو میں ایک بازو کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں۔ اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے نزدیک آئے تو میں دو بازؤوں کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔
آپ ایک لمحہ آنکھیں بند کر کے اپنے من سے اللہ کو یاد کریں اور اللہ کے حبیب ﷺ پر درود پاک پڑھیں، آپ کے اِس عمل نے آپ کی یہ جگہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ بھی بنا دی اور حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ بھی بنا دی۔ اِسی لیے فرمایا گیا ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَo
الأنبیاء، 21: 107
اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔
یعنی آپ ﷺ کی رحمت بھی اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی طرح ہر ایک کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ جہاں بیٹھ کر آقائے دو جہاں ﷺ کا غلام حضور ﷺ کو یاد کر لے، آپ ﷺ کی بارگاہ میں ہدیہ نعت پیش کر دے، وہی جگہ آقا ﷺ کی بارگاهِ رحمت بن گئی۔ اس میں نہ گھنٹوں، ہفتوں اور مہینوں کی قید ہے اور نہ ہی مقامات کی قیدہے۔ رسولِ مکرم ﷺ کے اس ارشادگرامی - ’ساری زمین میرے لیے سجدہ گاہ بنا دی گئی ہے‘ - میں یہی حکمت کارفرما ہے۔ پہلی امتوں کے لیے شرط تھی کہ عبادت کے لیے ایک مخصوص جگہ کا ہونا ضروری تھا، خواہ وہ جگہ لکڑی کی ہی ہو اور اسے اٹھا کر چلنا پڑے۔ آقائے دوجہاں s نے اپنی شریعت میں یہ حکم ختم فرما دیا کہ جس پاک زمین پر کوئی امتی سجدہ کرلے، وہی بارگاهِ الٰہی ہے۔ واضح ہوگیا کہ کوئی جگہ عمارت اور اینٹوں سے بارگاهِ ربانی نہیں بنتی بلکہ خلوصِ قلب اور صدقِ نیت سے بنتی ہے۔
1۔ حضرت عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین دونوں روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
أَفْضَلُ الْعِبَادَةِ الْفِقْهُ وَأَفْضَلُ الدِّیْنِ الْوَرَعُ.
افضل ترین عبادت دین کا فہم اور علم حاصل کرنا ہے اور سب سے افضل دین تقویٰ و ورع ہے۔
2۔ کسی محفل میں دین کا فہم، دین کی سمجھ بوجھ اور علم حاصل کرنے کا عمل بذاتِ خود سب سے افضل عبادت ہے۔ اگر اسی محفل میں کوئی اضافی نفلی عبادت کریں گے تو یہ سونے پر سہاگہ ہے لیکن اگر نفلی عبادت اس مجلس میں شامل نہ بھی ہو تو پھر بھی خلوصِ نیت سے دین سیکھنا، دین کا علم لینا، تربیت لینا، دین کا فہم لینا بذاتِ خود ایک افضل عبادت ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس عبادت کی فضیلت اور ثواب بھی بیان فرمایا ہے۔
حضرت ابو ذر غفاری اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما دونوں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے:
لَبَابٌ یَتَعَلَّمُهُ الرَّجُلُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَلْفِ رَکْعَةٍ تَطَوُّعًا.
جو شخص علم کا ایک باب (موضوع) سیکھ لے تو وہ مجھے ایک ہزار رکعت نفل پڑھنے سے زیادہ محبوب ہے۔
جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کوئی ایسی شرعی چیز بیان کریں کہ فلاں عمل کا اتنا اجر و ثواب ہے اور عقل یہ فضیلت و ثواب قبول نہ کرے یعنی اس کی سمجھ میں نہ آئے کہ اس عمل کا ثواب اس قدر اعلیٰ بھلا کیسے ہو سکتا ہے؟ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایسی بات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آقائے دوجہاں ﷺ سے سنے بغیر بیان نہیں کی، خواہ صحابہ اس روایت میں رسولِ مکرم ﷺ کا اسم گرامی لیں یا نہ لیں۔ بالفاظِ دیگر جو بات قیاس، رائے اور عقل پر مبنی نہیں مگر صحابی وہ بات کریں اور وہ حضورنبی اکرم ﷺ کا نام نہ بھی لیں کہ میں نے آقا ﷺ سے اس طرح سنا، تب بھی وہ رسول اللہ ﷺ کی ہی حدیث ہوتی ہے۔
حصولِ علم کی اس قدر فضیلت و ثواب کو سُن کر کہیں یہ خیال نہ آ جائے کہ یہ تواُن کے لیے ہے جو حصولِ علم میں بہت زیادہ وقت صرف کرتے ہیں۔ نہیں، ایسا ہر گز نہیں ہے! بے شک جو جتنا وقت صرف کرے گا، اُس کے درجات اتنے ہی بلند ہوتے چلے جائیں گے اور اُسے مزید رحمتیں اور برکتیں ملیں گی۔ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے:
وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌo
یوسف، 12: 76
اور ہر صاحبِ علم سے اوپر (بھی) ایک علم والا ہوتا ہے۔
علم کی کوئی حد نہیں ہے مگر اس موقع پر بیان شدہ فضیلت و ثواب ہر اُس شخص کے لیے ہے جو علم کی طلب کی نیت سے گھر سے نکلتا ہے۔ اللہ کی خاطر دین کا علم حاصل کرنے کی نیت لے کر جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن آتاہے یا کسی اور علمی مرکز پر جاتا ہے اور اُس پر قائم رہتا ہے، اُس کے لیے یہ فضیلت ہے۔ اس لئے کہ حدیث مبارک میں سیکھنے کے ارادہ و خواہش کا ذکر ہے، ابھی عمل کرنے کی فضیلت و ثواب بیان نہیں ہوا۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھے فرمایا:
یَا أَبَا ذَرٍّ، لَأَنْ تَغْدُوَ فَتَعَلَّمَ آیَةً مِنْ کِتَابِ اللهِ خَیْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ تُصَلِّيَ مِائَةَ رَکْعَةٍ، وَلَأَنْ تَغْدُوَ فَتَعَلَّمَ بَابًا مِنَ الْعِلْمِ عُمِلَ بِهٖ أَوْ لَمْ یُعْمَلْ خَیْرٌ مِنْ أَنْ تُصَلِّيَ أَلْفَ رَکْعَةٍ.
منذري نے ’الترغیب والترھیب (1: 54، رقم: 116)‘ میں کہا ہے کہ اسے امام ابن ماجہ نے اسناد حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔
اے ابو ذر! تم اس حال میں صبح کرو، کہ تم (رات بھر جاگ کر) اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے ایک آیت سیکھ لو تو یہ تمہارے لئے سو رکعات نفل پڑھنے سے بہتر ہے۔ تم اس حال میں صبح کرو کہ (اس دوران) تم علم کا ایک باب سیکھ لو چاہے اس پرعمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو تو یہ تمہارے لئے ایک ہزار رکعت نوافل ادا کرنے سے بہتر ہے۔
یعنی عمل کرے گا تو عمل کا ثواب اور اجر اضافی ملے گا۔ ابھی عمل نہیں کیا، صرف ارادہ کیا ہے تویہ ثواب ہے اور اگر عمل کرے گا تو وہ نورٌ علیٰ نور ہو گا، وہ علم نافع بنتا چلا جائے گا، اُس میں برکتوں کا اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور درجات بلند سے بلند تر ہوتے چلے جائیں گے۔
یہاں ایک باب سے مراد ایک موضوع (subject)، ایک نکتہ ہے جیسا کہ ان مجالس العلم کے ذریعے آپ ایک موضوع سیکھ رہے ہیں، اِسے باب کہتے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ جو شخص علم کا ایک باب سیکھ لے تووہ ہمیں ایک ہزار رکعت نفل پڑھنے سے زیادہ محبوب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کسی علمی مجلس میں طلبِ علم اور فقہ الدین کے لیے بیٹھے ہیں اور دوسری طرف آپ کا جی چاہے کہ میں یہاں کیوں بیٹھوں؟ بلکہ اس کے بجائے نفل پڑھ لیتا ہوں۔ فرمایا: علم کا ایک باب سیکھنا، ہزار رکعت نفل سے زیادہ محبوب ہے۔ ایک رات میں کوئی ایک ہزار نوافل بمشکل ادا کر سکتا ہے مگر علم کے لئے چند لمحات کا وقف کر دینا ایک ہزار نوافل سے بھی زیادہ اجر و ثواب عطا کرتا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے حصولِ علم کے ارادہ و خواہش کا ثواب فقط ایک ہزار رکعت نفل سے زیادہ محبوب قرار نہ دیا بلکہ اس کے ساتھ طالبِ علم کی ایک ایسی فضیلت بھی اسی حدیث مبارک میں بیان کی جس سے اسلام میں علم کی اہمیت و فضیلت مزید نکھر کر سامنے آتی ہے۔
حضرت ابو ذر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
قَالَ رَسُولُ اللہ ﷺ: إِذَا جَاءَ الْمَوتُ طَالِبَ الْعِلْمِ وَهُوَ عَلٰی تِلْکَ الْحَالِ مَاتَ شَهِیْدًا.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: جب طالب علم کو موت آئے اور وہ اسی (حصولِ علم میں مصروفیت کی) حالت میں ہو تو اس کی موت شہید کی موت ہے۔
امام منذری نے یہ حدیث مبارک ان الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے:
إِذَا جَاءَ الْمَوتُ لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَهُوَ عَلٰی هٰذِهِ الْحَالَةِ مَاتَ وَهُوَ شَهِیْدٌ.
اگر کوئی شخص علم کی طلب میں نکلا یا علم کی طلب میںبیٹھا اور حصول علم کے مرحلہ کے دوران اُس کی اتفاقاً موت واقع ہو گئی تو وہ شہید ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے فرامین کی روشنی میں نہ صرف یہ بات متحقق ہے کہ حصولِ علم کے دوران اتفاقی موت شہادت کا درجہ رکھتی ہے بلکہ جنت میں انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد اہل علم کا درجہ ہونا بھی ثابت شدہ امر ہے۔
1۔ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ جَائَهُ الْمَوْتُ وَهُوَ یَطْلُبُ الْعِلْمَ لِیُحْیِيَ بِهِ الإِسْلَامَ، فَبَیْنَهٗ وَبَیْنَ النَّبِیِّیْنَ دَرَجَةٌ وَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ.
اگر کسی کو موت اس حال میں آئے کہ وہ علم حاصل کر رہا تھا تاکہ اس علم کے ذریعے اسلام کو زندہ کرے تو اس کے اور انبیاء کرام علیہم السلام کے درمیان جنت میں صرف ایک درجے کا فرق ہوگا۔
2۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ جَائَهٗ أَجَلُهٗ وَهُوَ یَطْلُبُ الْعِلْمَ لَقِيَ اللهَ وَلَمْ یَکُنْ بَیْنَهٗ وَبَیْنَ النَّبِیِّیْنَ إِلَّا دَرَجَةُ النُّبُوَّةِ.
جس کو علم حاصل کرتے ہوئے موت آگئی، وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کے اور انبیاء کرام علیہم السلام کے درمیان صرف درجہ نبوت کا فرق ہوگا۔
موت آنے کا تو کوئی بھروسہ نہیں ہے کہ نہ جانے کب اور کہاں آجائے۔ اس کا تو ایک وقت مقرر ہے اور وہ ہر صورت بر وقت آکر رہے گی۔ لہٰذا اگر کوئی شخص حصولِ علم کے سفر کے دوران وفات پا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے جنت کی اُن منزلوں میں ٹھہرائے گا جن کے اوپر والی منزل پر انبیاء رہ رہے ہوں گے۔ یعنی ایک منزل کا فرق ہوگا۔ درمیانی منزل اولیاء، صدیقین اور شہداء کی ہوگی جب کہ اوپر انبیاء کرام علیہم السلام ہوں گے اور اُن کے زیرِ سایہ علم طلب کرنے والے ہوں گے۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ حدیث مبارک میں یہ شرط نہیں لگائی کہ کتنا بڑا عالم، فقیہ، محدّث، محقق، مفسر اور مجتہد ہو تو اُسے یہ مقام نصیب ہو گا۔ بلکہ فرمایا جو بھی علم طلب کرنے والا ہوگا، اُسے یہ مقام عطا کیا جائے گا۔ یہ علم کی اپنی فضیلت ہے، یعنی نفسِ علم کی فضیلت ہے کہ کوئی اگر اُس کی طلب کے لیے نکلے، نیت کو قائم رکھے اور اس دوران موت آجائے تو اللہ تعالیٰ اُسے قیامت کے دن جنت میں انبیاء کرام علیہم السلام کی منزلوں کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا۔
دین کے علم کا حصول اللہ کی رضا والی نیت کے ساتھ ہونا چاہیے۔ حصولِ علم میں یہ بات ہر وقت مستحضر رہے کہ ’عبادت کی توفیق ہو، خوف الٰہی نصیب ہو، دین کا فہم مجھ پر کھلے، تاکہ میں مزید نیک اعمال کر سکوں، برائیوں سے رک سکوں، علم کے ذریعے مجھے پتہ چلے کہ اللہ کے حقوق میرے اوپر کیا ہیں؟ علم حاصل ہوگا تو پتہ چلے گا کہ میرے رشتے داروں، بہن بھائیوں، اولاد، اعزاء و اقارب اور پڑوسیوں کے مجھ پر کیا حقوق ہیں تاکہ وہ حقوق احسن انداز سے ادا کر سکوں۔ جب علم حاصل ہوگا تو پتہ چلے گا کہ میرے نفس کے مجھ پر کیا حقوق ہیں۔ اِس معاشرے کے غریبوں اور کم زوروں کے حقوق مجھ پر کیا ہیں۔‘ اس لئے کہ یہ سب چیزیں علم ہی سے آشکار ہوتی ہیں۔ انسان جب عمل کرتاہے تو اس کا اجر و ثواب الگ ہے، وہ تو اضافتاً ملتا ہی ہے مگر اس حدیث میں جو فضیلت بیان ہو رہی ہے وہ مطلقاً نفسِ علم کی ہے۔ اس لئے کہ اُس علم کے اندر ہزارہا اعمال کے راستے پڑے ہوئے ہیں جو کھلنے ہیں۔ نفسِ علم کی اس فضیلت کی وجہ سے حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے ابو ذر! علم کا ایک باب سیکھنا تمہارے لیے ایک ہزار رکعت نماز نفل پڑھنے سے زیادہ بہترہے۔
ایسا اس وجہ سے ہے کہ جب علم کو اللہ کے لیے حاصل کرتے ہیں تو اُس نیت کی وجہ سے اعمالِ صالحہ کے دروازے کھلنے کا خیال ہوتاہے، تقویٰ کے حصول کا خیال ہوتا ہے، اللہ اور اس کی مخلوق کے حقوق کا علم حاصل ہوتا ہے اور انسان ان کی ادائیگی کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
بہت سے کام ایسے ہوتے ہیںکہ ہم جنہیں لاعلمی کی وجہ سے نہیں کر پاتے۔ مثلاً مرد بہت سارے حقوق اپنی بیویوں کے ادا نہیں کر پاتے، اس لئے کہ اُنھیں علم ہی نہیں ہے کہ بیوی کے حقوق کون کون سے ہیں؟ اسی طرح بیویاں بھی بہت سے ایسے کام نہیں کرتیں، ایسے رویے اختیار نہیں کرتیں، کیونکہ اُنھیں علم ہی نہیں ہے کہ شوہر کے حقوق کیا ہیں؟ ہم رشتے داروں کے ساتھ غصہ، ناراضگی اور قطع تعلق کرتے ہیں کیونکہ ہمیں علم ہی نہیں ہے کہ ہم پر اُن کے حقوق کیا ہیں اور انہیں ادا نہ کرنے کی سزا کیا ہے؟ ہم پوری زندگی ہزارہا کام ایسے کرتے رہتے ہیں جو گناہ ہوتے ہیں مگر ہمیں علم ہی نہیں ہوتا کہ یہ کتنے بڑے گناہ ہیں۔ لہٰذا ہم انہیں کرتے چلے جاتے ہیں۔ کتنے ہی ایسے امور کو علم نہ ہونے کی وجہ سے نظر انداز کر دیتے ہیں جبکہ ان کے کرنے پر اجر عظیم ہوتا ہے۔
ایک کمزور غریب کی مدد کر دینا، کسی بے علم کو علم دے دینا، کسی محتاج کی مدد کر دینا، کسی راستہ پوچھنے والے کے لیے رک کر اُسے راستہ بتا دینا، راستے میں پتھر پڑا دیکھا تو اٹھا کر ایک طرف رکھ دینا، اگر ایک چھوٹے سے فعل کا بھی ہمیں علم ہو کہ اِس کے اندر کتنا اجر چھپا ہوا ہے تو ہم چلتے چلتے کئی کئی عبادتیں کرتے چلے جائیں گے۔ آقائے دو جہاں ﷺ نے علم کی اس اہمیت کے پیشِ نظر ہی علم کا ایک باب سیکھنا ہزار رکعت نفل پڑھنے سے بہتر قرار دیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
بَابٌ مِنَ الْعِلْمِ نَتَعَلَّمُہٗ أَحَبُّ إِلَیْنَا مِنْ أَلْفِ رَکْعَۃٍ۔()
() 1۔ خطیب بغدادي، تاریخ بغداد، 9: 247
2۔ عسقلاني، لسان المیزان، 2: 145، رقم: 647
علم کا ایک باب سیکھ لینا ہمارے نزدیک ایک ہزار رکعت نماز نفل پڑھنے سے زیادہ افضل ہے۔
روایت میں إِلَیْنَا (ہمیں) سے مراد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سوچ یہ تھی۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ اُنہیں یہ شعور کہاں سے آیا تھا؟ دراصل مربیِِ انسانیت حضور نبی اکرم ﷺ نے ان کی تربیت ہی اس نہج پر فرمائی تھی۔ یہ دین کے باب میں ان کی سوچ، فہم اور سوجھ بوجھ تھی جو اُنہیں آقائے دوجہاں ﷺ نے عطا فرمائی تھی۔ وہ فہم یہ تھاکہ جو دین کا ایک باب اللہ کی رضا کے لیے، اپنے آپ کو اور دوسروں کو سنوارنے کی نیت سے سیکھے تو اس کا یہ عمل ایک ہزار رکعت نماز نفل پڑھنے سے بھی زیادہ افضل ہے۔
حضرت ربیع بیان کرتے ہیں:
سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ یَقُوْلُ: طَلَبُ الْعِلْمِ أَفْضَلُ مِنْ صَـلَاةِ النَّافِلَةِ.
میں نے امام شافعی سے سنا ہے کہ فقط علم حاصل کرنا، نفلی نماز سے زیادہ افضل ہے۔
امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل؛ کل ائمہ رحمہم اللہ کا مشرب تھا کہ اگر رات کو امتِ محمدیہ کے لیے علم کا کام کر رہے ہوتے، احادیث جمع اور انہیں نقل کر رہے ہوتے، اُن سے فقہ اخذ کر کے کتاب مرتب فرما رہے ہوتے، مسائل اور اصول کا استنباط کر رہے ہوتے اور علم میں مشغول ہوتے تو علم کی مشغولیت کو چھوڑ کر نفل پڑھنے کے لیے مصلّٰی پر نہیں جاتے تھے۔ ہاں اگر دین کے علم، سنت و حدیث اور فقہ کا کام نہیں کر رہے تو ساری رات نوافل میں بسر کرتے تھے۔ اگر نفلی نماز اور علم دین، علم قرآن، علم حدیث اور علم فقہ کا ایک وقت میں ٹکراؤ ہو جاتا تو کل ائمہ اور اولیاء علم کو فوقیت دیتے تھے کیونکہ یہ افضل ہے۔ افضل کو چھوڑ کر کم فضیلت والی شے کی طرف جانا صاحبِ علم کا کام نہیں ہے بلکہ جاہلین کا شیوہ ہے۔
جس طرح فرض چھوڑ کر سنت کی طرف جائیں تو سنت قبول نہیں ہوتی۔ اسی طرح سنت کو چھوڑ کر نفل کی طرف جائیں تو وہ بھی قبولیت کا درجہ نہیں پاتے۔ ہم جب اعلیٰ کام کو چھوڑ کر ادنیٰ کرتے ہیں تو ادنیٰ بھی قبول نہیں ہوتا اور اعلیٰ تو ہم پہلے ہی چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔ علم کی مجلس، علم کی تحقیق، علم کی تصنیف، علم پر عمل اور اللہ تعالیٰ کی رضاکے لیے دین کی علمی و فکری خدمت نفلی عبادات سے کئی درجہ بہتر ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے فرامین میں حصول علم کی اہمیت، فضیلت اور اس کے ہمہ جہتی اثرات کو متعدد مواقع پر واضح فرمایا ہے۔
ذیل میں مذکور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں حضور نبی اکرم ﷺ نے حصولِ علم کی طرف متوجہ کرتے ہوئے امت کو متعدد ’جوامع الکلم‘ عطا فرمائے ہیں۔
تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ، فَإِنَّ تَعَلُّمَهٗ ِللهِ خَشْیَةٌ، وَطَلَبَهٗ عِبَادَةٌ، وَمُذَاکَرَتَهٗ تَسْبِیْحٌ، وَالْبَحْثَ عَنْهُ جِهَادٌ، وَتَعْلِیْمَهٗ لِمَنْ لَا یَعْلَمُهٗ صَدَقَةٌ، وَبَذْلَهٗ لِأَهْلِهٖ قُرْبَةٌ، لِأَنَّهٗ مَعَالِمُ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ.
علم حاصل کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے علم سیکھنا خوف اِلٰہی پیدا کرتا ہے، اور اس کا طلب کرنا عبادت ہے، اور اس کا مذاکرہ تسبیح ہے اور اس کی جستجو میںلگے رہنا جہاد ہے۔ بے علم کو علم سکھانا صدقہ ہے اور جو اس کا اہل ہو اس پر خرچ کرنا (اللہ کی) قربت کا باعث ہے، کیونکہ حلال و حرام کا فہم حاصل کرنے کے لیے علم نشانِ راہ ہے۔
آئیے! اس حدیث مبارکہ کا بالتفصیل مطالعہ کرتے ہیں:
حدیث مبارک کے پہلے حصے میں فرمایا گیا ہے:
تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ، فَإِنَّ تَعَلُّمَهٗ ِللهِ خَشْیَةٌ.
علم حاصل کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے علم سیکھنا خوف اِلٰہی پیدا کرتا ہے۔
اس نکتہ پر تمام طلبہ، طالبات بھی توجہ دیں اور قوم کا ہر بچہ، ہر ماں، ہر بیٹی، ہر بہن، ہر بھائی اور ہر بزرگ جو علم سے اکتساب کرتا ہے، سب غور کریں کہ وہ کتنا بڑا فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ فرمایا کہ علم سیکھنے کے عمل سے خوفِ الٰہی اور خشیتِ قلبی نصیب ہوتی ہے۔ جیسا کہ سورۃ فاطر کی آیت نمبر 28 میں بھی بیان ہوا ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔ ہم اِسی باب کے گزشتہ صفحات میں یہ آیت مبارکہ quote کرچکے ہیں۔ لہٰذا جو علم حاصل کرتے ہیں اور عالم ہو جاتے ہیں، جتنا علم اُن کے دل میں اترتا چلا جاتا ہے اتنا ہی خوفِ الٰہی اُنھیں نصیب ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس لئے کہ علم اللہ کی خشیت اور خوف پیدا کرتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مبارک فرمایا کرتے تھے:
کَیْفَ یَدَّعِي رَجُلٌ أَنَّهٗ أَکْثَرُ عِلْمًا، وَهُوَ أَقَلُّ خَوْفًا وَزُهْدًا!
شعراني، الطبقات الکبری: 90
جو شخص خوف الٰہی اور دنیا سے بے رغبتی میں کمتر ہو وہ کیسے یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ زیادہ علم والا ہے۔ (اگر وہ علم میں زیادہ ہوتا تو خوف و زہد میں بھی زیادہ ہوتا۔)
1۔ زیر بحث حدیث مبارک میں حضور نبی اکرم ﷺ نے حصولِ علم کو خشیتِ الٰہی کا سبب بیان کرنے کے بعد فرمایا:
وَطَلَبَهٗ عِبَادَةٌ وَمُذَاکَرَتَهٗ تَسْبِیْحٌ.
اِس علم کو حاصل کرنا، عبادت ہے اور اِس علم کا مذاکرہ کرنا (یعنی ایک دوسرے کو سنانا) تسبیح ہے۔
جیسے ہم تسبیح پکڑ کر اللہ، اللہ کرتے اور استغفار پڑھتے ہیں۔ سبحان اللہ، الحمد للہ اور اللہ اکبر پڑھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے دیگر اسمائِ مبارکہ اور اوراد کی تسبیح کرتے ہیں۔ اسی طرح حصولِ علم میں بحث کرنا، تکرار کرنا ایک دوسرے سے سمجھنا اور سمجھانا بھی تسبیح و عبادت ہے۔
2۔ حضرت سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں:
لَیْسَتْ عِبَادَةُ اللهِ بِالصَّوْمِ وَالصَّلَاةِ وَلٰـکِنْ بِالْفِقْهِ فِي دِیْنِهٖ.
اللہ تعالیٰ کی عبادت (محض) نماز اور روزے سے نہیں ہوتی، بلکہ اصل عبادت دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنا ہے۔
3۔ حضرت مکحول فرماتے ہیں:
مَا عَبِدَاللهُ بِأَفْضَلَ مِنَ الْفِقْهِ.
ابن القیم، مفتاح دار السعادة، 1: 118۔
فقہ (دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے) سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی کوئی عبادت نہیں ہے۔
4۔ امام زہری فرماتے ہیں:
مَا عُبِدَاللهُ بِمِثْلِ الْفِقْهِ.
اللہ تعالیٰ کی عبادت جس طرح فقہ (دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے) سے ہوتی ہے کسی اور کام سے نہیں ہوتی۔
آپ ﷺ نے علم کی فضیلت اور حصولِ علم میں جستجو کرنے کو جہاد سے تعبیر فرمایا ہے۔ زیر بحث حدیث مبارک کے اگلے حصے میں ارشاد ہوتا ہے:
وَالْبَحْثَ عَنْهُ جِهَادٌ.
اور اس (علم) کی تلاش میں رہنا جہاد ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
مَنْ جَاءَ مَسْجِدِي هٰذَا لَمْ یَأْتِ إِلَّا لِخَیْرٍ یَتَعَلَّمُهٗ أَوْ یُعَلِّمُهٗ فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِیْلِ اللهِ. ومَنْ جَاءَ لِغَیْرِ ذٰلِکَ فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ رَجُلٍ یَنْظُرُ إِلٰی مَتَاعِ غَیْرِهٖ.
جو میری اس مسجد میں صرف خیر (علم) سیکھنے یا سکھانے کیلئے آیا تو وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہد کی طرح ہے۔ جو اس کے علاوہ کسی اور (دنیوی) نیت سے آیا، وہ اس آدمی کی طرح ہے جو دوسرے کے مال کی طرف دیکھتا ہے۔
یعنی اِس علم کی جستجو میں لگے رہنا، نئی سے نئی چیز کی کھوج لگانا، زیادہ سے زیادہ سننا، سمجھنا اور ذہن نشین کرنا اور اِس کی کھوج میں خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں رہنا، یہ بھی ایک جہاد ہے۔ حصولِ علم کی طلب بھی ایسے ہی ہے گویا آپ میدانِ جنگ میں جہاد کے لیے گئے ہیں۔ اندازہ کیجیے کہ خشیت اور خوفِ الٰہی بھی اِسی علم میں ہے، عبادت بھی علم میں ہے، تسبیح بھی علم میں ہے اور جہاد بھی علم ہی میں ہے۔
آپ ﷺ نے اس موقع پر صرف حصولِ علم ہی کی فضیلت کو واضح نہیں فرمایا بلکہ فروغِ علم کی بھی اہمیت و فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَتَعْلِیْمَهٗ لِمَنْ لَایَعْلَمُهٗ صَدَقَةٌ.
اور جو شخص علم نہیں رکھتا اُس کو یہ علم پڑھانا صدقہ ہے۔
ایک اور حدیث مبارک میں ارشاد ہوتا ہے:
أَفْضَلُ الصَّدَقَةِ أَنْ یَتَعَلَّمَ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ عِلْمًا ثُمَّ یُعَلِّمَهٗ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ.
سب سے افضل صدقہ یہ ہے کہ کوئی مسلمان شخص علم سیکھے اور پھر وہ اسے اپنے مسلمان بھائی کو بھی سکھائے۔
یعنی فروغِ علم گویا خیرات کرتا ہے۔ جس طرح ہم اپنی کمائی اللہ کی راہ میں صدقہ کرتے ہیں اور اجر و ثواب ہمارا نصیب بنتا ہے اس طرح جب ہم کسی دوسرے کو علم کی دولت سے نوازتے ہیں تو ہمارا یہ عمل صدقہ و خیرات سے بھی بڑھ کر ہمیں اجر و ثواب عطا کرتا ہے۔
فروغِ علم جہاں صدقہ و خیرات ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی قربت کا باعث بھی ہے۔ آپ ﷺ نے مذکورہ حدیث ِ مبارک کے ذیل میں ہی ارشاد فرمایا:
وَبَذْلَهٗ لِأَهْلِهٖ قُرْبَةٌ.
اور جو اِس کا اہل ہو اُس پر علم کو خرچ کرنا اللہ کی قربت کا ذریعہ ہے۔
اگر علم دینے والا لوگوں کو اہلِ علم بنا رہا ہے اور اُن کے دلوں کے برتن میں علم کی دولت ڈال رہا ہے تو گویا وہ ایک ایسا عمل کر رہا ہے کہ جس سے اللہ تعالیٰ کی قربت نصیب ہو رہی ہے۔ جیسے اولیاء اللہ کو قربت الٰہیہ نصیب ہوتی ہے، ایسے ہی فروغِ علم میں مصروف احباب روحانی مقامات پر فائز کر دیے جاتے ہیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے حصولِ علم اور فروغِ علم کے فضائل بیان کرتے ہوئے آخر میں ان فضائل کا سبب ذکر فرمایا:
لِأَنَّهٗ مَعَالِمُ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ.
کیونکہ یہ علم حلال اور حرام میں فرق کرنے والی چیز ہے ۔
یعنی علم، حلال اور حرام کے درمیان فرق واضح کرتا ہے۔ بندے کو معرفت عطا کرتا ہے کہ اس نے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔
مذکورہ احادیث مبارکہ سے یہ امر واضح ہو چکا ہے کہ علم حاصل کرنے کے لیے وقت کی کوئی شرط نہیں ہے؛ خواہ ایک رات بیٹھے، چند لمحے، ایک ساعت، یا پھر ایک گھنٹہ بیٹھے، اُس پر بھی ان احادیث میں مذکور برکتوں اور سعادتوں کا اطلاق ہوگا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ ِللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعَمِلَ بِهٖ حَشَرَهُ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ آمِنًا وَیُرْزَقُ الْوُرُوْدَ عَلَی الْحَوْضِ.
ربیع، المسند، 1: 30، رقم: 21
جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے لیے علم حاصل کیا اور اُس پر عمل کیا، اُسے روزِ محشر (کی پریشانی سے) امان مل گئی اور اُسے حوضِ کوثر پر جامِ کوثر عطا کیا جائے گا۔
یعنی علم اس لیے حاصل کریں تا کہ دین کی سمجھ میں اضافہ ہو، اُس سے اللہ کا خوف و خشیت پیدا ہو، اللہ کی قربت نصیب ہو اور تقویٰ بڑھ سکے۔ یہ نیتوں کا ایک سلسلہ ہے۔ اگر ہم یہ نیت کریں کہ اس سے ہمارا علم بڑھے، نیک اعمال کریں، اللہ کا خوف بھی پیدا ہو اور تقویٰ کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں قربت اور رغبت بھی پیدا ہو تو اِس نیت کے ساتھ علم حاصل کرنے اور اُس پر عمل کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قیامت کے دن وہ بندہ قبر سے حالتِ امن میں اٹھایا جائے گا۔ قیامت کے دن اُسے پریشانی نہیں ہوگی۔ وہ وہاں ایسے سکون سے اٹھے گا جیسے تعطیلات میں کسی سیاحتی مقام پر گیا ہوا ہے۔ جبکہ لوگ قیامت کی ہولناکیوں کے ماحول میں پریشان حال اٹھیں گے۔ اِس علم کو حاصل کرنے کے باعث اللہ تعالیٰ اُسے آقا ﷺ کی بارگاہ میں حوضِ کوثر پر آنے کی توفیق عطا فرمائے گا، جہاں ساقیِ کوثر ﷺ اپنے دستِ مبارک سے کھڑے غلاموں کو آبِ کوثر کے جام بھر بھر کر عنایت کر رہے ہوں گے۔
قبل ازیں حدیث بیان کی جا چکی ہے کہ حصولِ علم ہزار رکعت نفل پڑھنے سے زیادہ افضل ہے مگر ایک موقع پر آپ ﷺ نے علم کے کسی ایک موضوع کو سیکھنے کی فضیلت اس سے بھی کئی درجہ بڑھ کر بیان فرمائی ہے۔
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
بَابٌ مِنَ الْعِلْمِ یَحْفَظُهُ الرَّجُلُ لِصَـلَاحِ نَفْسِهٖ وَصَلَاحِ مَنْ بَعْدَهٗ أَفْضَلُ مِنْ عِبَادَةِ حَوْلٍ.
جو شخص اپنی ذات کی اصلاح کے لئے یا اپنے بعد آنے والے لوگوں کی اصلاح کے لیے علم کا ایک باب یاد کرتا ہے، اس کا یہ عمل پورا ایک سال عبادت کرتے رہنے سے افضل ہے۔
جو شخص علم کا ایک باب اپنی ذات اور نفس کی اصلاح کے لیے اور اپنے بعد آنے والی نسلوں اور اولادوں کی اصلاح کی خاطر یاد کرتا، سیکھتا ہے کہ کوئی خیر کی بات آگے کسی کو سمجھا سکوں تاکہ اگلی نسلیں سنور جائیں، تو اس کا یہ عمل پورا ایک سال نفلی عبادت جاری رکھنے سے زیادہ افضل ہے۔
یہی وجہ کہ ایک موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فقہ دین کو عبادت کا بہترین حصہ قرار دیا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
خَیْرُ دِیْنِکُمُ السُّنَنُ وَخَیْرُ الْعِبَادَةِ الْفِقْهُ.
تمہارے دین میں بہترین حصہ (رسول اللہ ﷺ کی) سنتیں ہیں اور عبادت کا بہترین حصہ فقہ (دین کا علم) ہے۔
گویا دین کے علم جیسا کوئی حصہ عبادت میں نہیں اور آقا ﷺ کی سنت جیسا کوئی حصہ دین اسلام میں نہیں۔
علم کی فضیلت و اہمیت بایں طور پر بھی واضح ہوتی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم میں اضافے کی دعا کرنے کی باقاعدہ تلقین کی گئی۔ ارشاد فرمایا:
قُلْ رَّبِّ زِدْنِی عِلْمًاo
طٰهٰ، 20: 114
آپ (رب کے حضور یہ) عرض کیا کریں کہ اے میرے رب! مجھے علم میں اور بڑھا دے۔
خالقِ دوجہاں کی آقائے دو جہاں ﷺ پر بے حد و بے شمار نعمتیں ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے کسی ایک نعمت کا نام لے کر یہ نہیں فرمایا کہ مجھ سے اِس میں اور اضافہ طلب کریں۔ اگر مالکِ لوح و قلم نے ایسا فرمایا ہے تو صرف اور صرف علم کے لیے فرمایا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کو علم اتنا محبوب ہے کہ خود حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ دعا سکھائی ہے کہ مجھ سے علم میں اضافہ طلب کریں۔ جب نبیِ مکرم ﷺ کو یہ سکھایا جا رہا ہے کہ ہمہ وقت اپنی شان، مرتبے اور عظمت کے مطابق علم میں اضافہ طلب کرتے رہیے تو پھر اس ضمن میں امت کے لئے علم میں اضافہ کی دعا کس قدر ضروری اور اہمیت کی حامل ہے، اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اگر ہم ہر روز، ہر ہفتے اور ہر مہینے اپنے علم میں اضافہ کرنے کے لیے سفر کرتے رہیں گے اور علم بڑھانے کی کاوش کرتے رہیں گے تو اللہ تعالیٰ کو ہمارا یہ عمل کتنا محبوب ہوگا!
در حقیقت علم میں اضافہ کے لئے جستجو کرنا سنتِ انبیاء کرام علیہم السلام ہے۔ حصولِ علم کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اکابرینِ امت دور دراز سفر کیا کرتے تھے۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات کا واقعہ بھی دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ ہمارے ایک بندے خضر کا مقام یہ ہے کہ:
عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًاo
الکهف، 18: 65
ہم نے اسے علمِ لدنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا۔
اُس کے پاس میرا عطاکردہ علم لدنی ہے۔ آپ اُس کے پاس جائیں اور وہ علم سیکھیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا درجہ اور رتبہ حضرت خضر علیہ السلام سے زیادہ بلند ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام تو مذہب مختار اور جمہور کے نزدیک اللہ کے نبی نہیںبلکہ ولی ہیں۔ اس کے برعکس حضرت موسیٰ علیہ السلام نہ صرف نبی بلکہ رسول بھی ہیں۔ وہ صرف کلیم اللہ اور رسول ہی نہیں ہیں بلکہ اولو العزم اور بلند مرتبت پانچ رسولوں میں سے ایک ہیں۔ وہ صاحبِ کتاب اور صاحبِ امت بھی ہیں اور قرآن مجید میں سب سے زیادہ مرتبہ ان کا نام لے کر ذکر کیا گیا ہے۔ ان حقائق سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُن کا درجہ کس قدر بلند ہے۔ اس کے باوجود اُن کو فرمایا کہ علم لدنی میں خضر آپ سے آگے ہے۔ آپ اُن سے وہ علم حاصل کرنے کے لیے جائیں۔
سورۃ الکہف کی آیت نمبر 60 سے 66 اور مزید آگے ایک طویل مضمون ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یوشع بن نون کو ساتھ لیا اور حضرت خضر علیہ السلام کی طرف چل نکلے۔ وہ جب وہاں پہنچے تو قرآن مجیدبیان کرتاہے:
قَالَ لَهٗ مُوُسٰی هَلْ اَتَّبِعُکَ عَلٰٓی اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًاo
الکهف، 18: 66
اس سے موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: کیا میں آپ کے ساتھ اس (شرط) پر رہ سکتا ہوں کہ آپ مجھے (بھی) اس علم میں سے کچھ سکھائیں گے جو آپ کو بغرضِ ارشاد سکھایا گیا ہے۔
یعنی اے خضر! میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں، آپ جہاں بھی جائیں مجھے اپنے ساتھ لے جائیں۔ اس دوران وہ خاص علم جو اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ اور خزانہ خاص سے آپ کو نوازا ہے، اس میں سے کچھ مجھے بھی سکھائیں۔
قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے اولو العز م رسول ہو کر بھی حضرت خضر علیہ السلام کے پاس جا رہے ہیں اور اُن کی رفاقت کے لیے طویل سفر کی مشقتیں بھی اٹھا رہے ہیں۔ اب حضرت موسیٰ علیہ السلام جتنا عالم تو کوئی نہیں ہے! وہ تو اللہ کے برگزیدہ رسول اور صاحبِ کتاب نبی ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ نے خود کلام فرمایا:
وَکَلَّمَ اللهُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًاo
النساء، 4: 164
اور اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے (بلاواسطہ) گفتگو (بھی) فرمائی۔
حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کا حضرت خضر علیہ السلام سے علم سکھانے کا کہنا اِس امر کی طرف اشارہ ہے کہ علم سیکھنے کا عمل زندگی کے کسی موڑ اور کسی مرحلے پر بھی ختم نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ہونا چاہیے۔ علم سیکھنے کی ضرورت ہر وقت ہر کسی کو رہتی ہے۔ خیر کا یہ دروازہ کبھی بند نہیں ہو سکتا۔
1۔ صحابہ کرام، تابعین اورتبع تابعین حصولِ علم کے لئے اور احادیث کے فہم و روایت کے لئے دور دراز کا سفر کیا کرتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن بریدہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے ایک صحابی، حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کی طرف روانہ ہوئے جو مصر میں تھے۔ پھر جب ان کے ہاں پہنچ گئے تو صحابی نے کہا:
أَمَا إِنِّي لَمْ آتِکَ زَائِرًا وَلَکِنِّي سَمِعْتُ أَنَا وَأَنْتَ حَدِیثًا مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ. رَجَوْتُ أَنْ یَکُونَ عِنْدَکَ مِنْهُ عِلْمٌ.
میں (صرف) آپ کی زیارت کے لیے نہیں آیا بلکہ میں نے اور آپ نے رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث سنی تھی اور مجھے امید ہے کہ آپ کو میری نسبت بہتر یاد ہوگی۔
حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ کون سی ہے؟ اُس صحابی رضی اللہ عنہ نے وہ بیان کردی اور بیان کرنے کے بعد کہا:
فَمَا لِی أَرَاکَ شَعِثًا وَأَنْتَ أَمِیرُ الْأَرْضِ.
میں آپ کے بال بکھرے ہوئے دیکھتا ہوں حالانکہ آپ اس سرزمین کے حاکم ہیں!
حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ نے کہا:
إِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ کَانَ یَنْهَانَا عَنْ کَثِیرٍ مِنْ الْإِرْفَاهِ. قَالَ: فَمَا لِي لَا أَرَی عَلَیْکَ حِذَاءً.
رسول اللہ ﷺ نے ہمیں زیادہ آرائش اور زیب و زینت سے منع فرمایا ہے لیکن کیا بات ہے کہ میں آپ کو ننگے پیر دیکھ رہا ہوں؟
صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا:
کَانَ النَّبِيُّ ﷺ یَأْمُرُنَا أَنْ نَحْتَفِيَ أَحْیَانًا.
حضور نبی اکرم ﷺ ہمیں حکم فرمایا کرتے تھے کہ کبھی ننگے پیر بھی رہا کریں۔
2۔ ابن جابر بیان کرتے ہیں: میں نے حضرت بسر بن عبید اللہ حضرمی شامی کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے:
إِنْ کُنْتُ لَأَرْکَبُ إِلَی الْمِصْرِ مِنَ الأَمْصَارِ فِی الْحَدِیثِ الْوَاحِدِ لِأَسْمَعَهٗ.
میں فقط ایک حدیث کو سننے کی خاطر ایک شہر سے دوسرے شہر تک سفر کرتا رہا ہوں۔
3۔ امام مالک فرماتے ہیں:
بَلَغَنِي أَنَّ سَعِیْدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ کَانَ یَقُولُ: إِنْ کُنْتُ لَأَسِیْرُ اللَّیَالِيَ وَالْأَیَّامَ فِي طَلَبِ الْحَدِیْثِ الْوَاحِدِ.
مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت سعید بن مسیب فرمایا کرتے تھے: میں ایک حدیث کی تلاش میں کئی کئی دن اور راتیں سفر کرتا تھا۔
4۔ حضرت ابو عثمان النہدی رضی اللہ عنہ بہت بڑے زاہد، عالم اور کبار تابعین میں سے ہیں۔ انہوں نے سن ایک سو ہجری میں وفات پائی تھی۔ وہ بیان کرتے ہیں:
بَلَغَنِي عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه، أَنَّهٗ قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ اللهَ یُعْطِي عَبْدَهُ الْمُؤْمِنَ بِالْحَسَنَةِ الْوَاحِدَةِ أَلْفِ أَلْفِ حَسَنَةٍ.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مجھے یہ روایت پہنچی کہ انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ ایک نیکی کرنے والے کو دس لاکھ نیکیوں کے برابر اُس کا اجر دے گا۔
آپ فرماتے ہیں کہ میں یہ حدیث سُن کر حیران ہوگیا اور اِسے سمجھنے کے لئے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملنا چاہا۔ میں نے معلوم کیا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہاں ہیں؟ پتہ چلا وہ حج پر مکہ معظمہ گئے ہوئے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
فَحَجَجْتُ ذَالِکَ الْعَامَ وَلَمْ أَکُنْ أُرِیْدُ الْحَجَّ إِلاَّ لِلِقَائِهٖ فِي هٰذَا الْحَدِیْثِ.
خطیب بغدادی، الرحلة فی طلب الحدیث، 1: 132-134، رقم: 46
میں اُس سال حج کے لیے گیا حالانکہ میرا حج کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ مگر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سماعت کرنے گیا۔
صرف ایک حدیث نبوی کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سننے اور سمجھنے کی وجہ سے حج کرنے گیا۔ یعنی حج کی نیت سے نہیں بلکہ حدیث اور علم کے حصول کی نیت سے گیا۔ پس ان کے اس عمل سے طلبِ علم کی نیت سے سفر کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔
(1) اس موضوع پر تفصیلی مطالعہ کے لیے راقم کی تالیف کردہ اَربعین ’’علم حدیث کے لیے سفر کرنے کی فضیلت (التحدیث فی الرحلۃ لطلب الحدیث)‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔
مذکورہ حدیث سے جہاں ایک جلیل القدر تابعی کا حصولِ علم کے لئے سفر کرنا ثابت ہوتا ہے وہاں مضمونِ حدیث میں بھی ایک خاص علمی و فکری اور روحانی نکتہ موجود ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو عثمان النہدی کو جو جواب دیا اس کے فہم کے لئے تمہیداً کچھ نکات ذیل میں درج کئے جارہے ہیں۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ جیسے جیسے نیت خالص سے خالص تر، روشن سے روشن تر، بلند سے بلند ترین اور اور اعلیٰ سے اعلیٰ ترین ہوتی چلی جاتی ہے؛ ویسے ویسے اس کا اجر بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر کے بڑھنے کا کوئی حساب نہیں ہے، البتہ قرآن مجید میں کم سے کم کا پیمانہ یہ ہے:
مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا.
الأنعام، 6: 160
جو کوئی ایک نیکی لائے گا تو اس کے لیے (بطورِ اجر) اس جیسی دس نیکیاں ہیں۔
قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ اور مذکورہ حدیث کا آپس میں بظاہر فرق نظر آتاہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ نہیں فرمایا بلکہ اس آیت کو اس طرح سمجھنے میں ہمیں غلطی ہوئی ہے۔ آیت کے الفاظ پر غور کریں تو سمجھ آجائے گی کہ ہم نے اس کا مفہوم سمجھنے میں کہاں غلطی کی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا.
جو کوئی ایک نیکی لائے گا تو اس کے لیے (بطورِ اجر) اس جیسی دس نیکیاں ہیں۔
یعنی جو نیکی اُس شخص نے کی ہے اُس نیکی کی دس مثل اُسے اجر ملے گا۔ ہر شخص کی جو نیکی ہے، دیکھنے میں تو اُس نیکی کا عمل ایک جیسا ہے، مگر اس نیکی کی نیت کی وجہ سے، اُس عمل کی کیفیت، ماہیت، حقیقت اور درجہ ہر ایک سے جدا ہو رہا ہے۔ ایک نیت ہی سب کو بدل رہی ہے۔ مثال کے طور پر ایک ہزار لوگوں نے دو دو نفل پڑھے، لیکن ہر ایک کی نیت کا ستھرا پن دوسرے سے جدا ہے۔ ایک معمول کے لحاظ سے نفل پڑھ رہا ہے، اُس نے ارادہ تو اللہ کی عبادت کا کیا، لیکن اس کا دھیان دس جگہوں سے گھوم بھی آیا ہے اور ساتھ میں وہ نیکی بھی کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے باوجود اُس کی نیکی قبول بھی کرلی۔
دوسرے شخص نے اللہ اکبر کہہ کر اپنی نیت باندھی اور سلام پھیرنے تک اپنے ذہن کو کہیں بھٹکنے نہیں دیا۔ اب اس کی نیکی اور اُس پہلے شخص کی نیکی اللہ تعالیٰ کے ہاں نماز کے قبول ہونے کی حدتک تو قبول ہوگئی، مگر دونوں کا درجہ ایک جیسا نہیں رہا۔ اِس نے بھی نیکی کی مگر نیکی میں اس کا دل و دماغ دس جگہوں پر بیوی بچوں اور مختلف لڑائی جھگڑوں میں گھومتا رہا جبکہ دوسرے شخص کا دل و دماغ مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ کی زیارات میں مشغول رہا۔
پھر تیسرے شخص نے بھی وہی دو نفل پڑھے۔ اُس کی نیت خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول تھا۔ اس دوران اُس کا دھیان کعبے سے بالکل نہیں ہٹا۔
ایک چوتھے شخص نے بھی دو نفل پڑھے اور اس دوران اپنا دھیان کعبہ سے صاحبِ کعبہ کی طرف کرلیا۔ اُس کا دھیان اللہ کی طرف چلا گیا، مگر یک سوئی سے جم نہیں سکا۔
ایک اور شخص نے نفل پڑھے اور وہ اس دوران اللہ تعالیٰ کے نور کو تکتا رہا۔
پھر ایک اور نے نفل پڑھے تو اُس کا دھیان عرش معلی تک جا پہنچا۔
ایک اور کا دھیان لامکاں تک جا پہنچا۔
پھر ایک اور کا دھیان بارگاهِ صمدیت میں جا پہنچا۔
اب وہی دو نفل شیخ اکبر نے بھی پڑھے اور وہ دو نفل ہم نے بھی پڑھے۔ وہ دو نفل حضورغوث الاعظم نے بھی ادا کیے اور وہ حضرت داتا گنج بخش نے بھی پڑھے۔ وہی حضرت جنید بغدادی نے بھی ادا کیے۔ یہ اولیائے کاملین اپنے دو نفلوں میں کہاں تک جا پہنچے۔ اُس کی حقیقت، ماہیت کچھ اور ہوگئی جبکہ ہمارے دو نفلوں کی ماہیت کچھ اور ہی رہی۔
قرآن مجید کہہ رہا ہے کہ ہر شخص جو نیکی کرتاہے اُس کو اُس نیکی کے مطابق دس گنا اجر ملتاہے۔ حضرت جنید بغدادی نے جو نیکی کی یا عمل کیا اس کا کیا درجہ ہوگا اور پھر اس اعلیٰ مقام و درجہ کے مطابق کم از کم دس گنا اجر ایک نیکی پر اُنہیں میسر آیا۔
اِس مثال کو آپ ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں نیکیوں پر پھیلا دیں۔ ایک شخص نے کسی کی مدد کی مگر اسے یہ عمل ساری زندگی یاد رہا ۔ اس کا یہ عمل بھی نیکی ہے، اللہ اُسے دس گنا اجر دے گا۔ اُس نے کسی غریب پر دس روپے خرچ کیے تھے تو سو روپے کا اجر ہوا، سو خرچ کیے تو ہزار کا اجر ہوگا۔ ہزار خرچ کیے تو دس ہزار کا اجر ہوگیا، مگر یہ نیکی اُسے یاد رہی۔ جب اس پر مشکل وقت آیا تواُس کے ذہن میں آیا کہ میں نے بھی اِس کی مدد کی تھی، مگر اِس نے تو مشکل میں مجھے بھول کر پوچھا بھی نہیں۔ اب اُس کی یہ نیکی اپنے آپ آئینے میں آگئی۔
ایک نیکی ایسی ہے کہ اُس نے کی اور وہ بھول گیا۔ اپنا وقت آیا تو اسے پتہ ہے کہ میں نے فلاں کی مدد کی تھی مگر وہ اسے اپنے دھیان میں ہی نہیں لاتا۔ یہ نیکی کا دوسرا درجہ ہے۔
تیسرا درجہ یہ بھی ہے کہ وہ سرے سے ہی بھول گیا کہ میں نے کبھی اِس کے ساتھ نیکی بھی کی تھی یا نہیں، یعنی اس کا مقصد اس پر احسان جتلانا نہیں بلکہ خالصتاً اللہ کی رضا تھا۔ گویا کوئی نیکی اللہ کی رضا کے لیے کرتاہے اور کوئی کسی اور نیت سے کرتا ہے مگر نیت ہر نیکی کے عمل کا درجہ بڑھاتی یا کم کرتی چلی جاتی ہے۔
اِس لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
نِیَّةُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِنْ عَمَلِهٖ.
مومن کی نیت اُس کے عمل سے بہتر ہوتی ہے۔
ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ.
اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔
گویا نیت عمل کو نیچے بھی گرا دیتی ہے اور اسے اوپر بھی اٹھا دیتی ہے۔ نیت عمل کو آسمان پر بھی پہنچا دیتی ہے اوروہ عمل کو عرش اور ماورائے عرش تک بھی پہنچا دیتی ہے۔ حتیٰ کہ نیت اُسی عمل کو اللہ کی بارگاہ میں بھی پہنچا دیتی ہے۔ اِس لیے آقا ﷺ نے فرمایا تھا:
لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، فَلَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِیْفَهٗ.
میرے صحابہ کو برا مت کہو۔ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے تو پھر بھی وہ ان کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر نہیں پہنچ سکتا۔
یعنی ان کی نیت اتنی خالص ہوتی ہے کہ کوئی اس درجہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ جس طرح ایک ننھے سے ایٹم سے ہولناک بم بن جاتا ہے۔ پتھر کا بھی اتنا ہی ذرہ ہوتا ہے مگر اُس سے کچھ نہیں بنتا۔ لوہے کا بھی ایک ذرہ ہوتا ہے مگر اُس سے بھی کچھ نہیں بنتا۔ ایٹم اُس لوہے یا پتھر کے ٹکڑے سے کوئی بڑی چیز تو نہیں ہے مگر وہ خالص ہوتے ہوتے، اُس کی تجرید ہوتے ہوتے، تخلیص ہوتے ہوتے، اُس کا صفا، تزکیہ ہوتے ہوتے اس مرتبے پر جا پہنچتا ہے کہ وہ بم بن کر دنیا کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔
اِسی طرح نیکی اگر اتنی خالص اور طاقت ور ہوتی چلی جائے تو سورج کی طرح روشن ہو جاتی ہے۔ کئی ایک کی نیکی بادلوں کی طرح رہتی ہے۔ کئی ایک کی نیکی زمین کی طرح رہتی ہے، کئی ایک کی نیکی اندھیری سی رہتی ہے۔ نیت کسی کے عمل کو تاریک رات بنا دیتی ہے، کسی کی نیت اُس کے عمل کو چودہویں رات کے چاند کی طرح روشن کر دیتی ہے، کسی کی نیت اُسے سورج کی طرح روشن کر دیتی ہے اور کسی کی نیت اس نیکی کو عرش کے ساتھ ملا دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت مبارکہ میں فرمایا کہ جو شخص بھی ایک نیکی کرے گا اُسے اُس کی نیکی کے حساب سے دس گنا دیا جائے گا۔ اب کسی کو تو واقعی دس گنا ملتا ہے، کسی کی نیکی ہی اتنی اعلیٰ بن گئی تھی کہ نیت نے اسے بہت اونچاکر دیا تھا۔ لہٰذا جب اس بلند مقام کی حامل نیکی کو کم از کم دس گنا زیادہ اجر ملا تو وہ عرش تک جا پہنچتی ہے۔ اللہ والوں، صاحبانِ تقویٰ، صاحبانِ ولایت، صاحبانِ قربت، صاحبانِ رضا، کاشفان قلب اور مردانِ حق جو صرف اپنے رب کی رضا کے لیے جیتے ہیں وہ نہ جنت کے لیے اور نہ ہی کسی اور چیز کے لیے جیتے ہیں، اُن کی نیکی کئی درجے اوپر چلی جاتی ہے۔ اُن کی نیکی دیکھنے میں ایک تھی، مثلاً دو رکعت پڑھی مگر وہ بیس ہزار کے برابر تھی اور اُسے جب دس گنا اجر ملا تو وہ دو لاکھ بن گئی۔
کسی اللہ والے کے نفل دو ہی تھے۔ اُس کی نیت نے اُسے اتنا اونچا اور بلند سے بلند تر کر دیا کہ جب اسے دس سے ضرب ہوئی تو آیت وہی رہی، اصول وہی رہا، ضرب دینے کا فارمولہ بھی وہی رہا مگراُس کی نیت کی طاقت نے اُس دو رکعت نفل کے خالص عمل کو دو لاکھ کے برابر کر دیا اور جب دس گنا ملا تو اُس کا اجر بیس لاکھ کا ہوگیا۔ کسی کی نیکی نیت میں کمزوری کے باعث ایک ہی رہی اور کسی کا اجر دس گنا ہوگیا اور کسی کا بے حد و بے حساب ہوگیا۔
اِس طرح مذکورہ آیت کریمہ اور مذکورہ حدیث نبوی میں تطبیق ہو جاتی ہے کہ نیت کا اخلاص دس گنا سے لے کر بیس گنا تک اجر عطا کر دیتا ہے۔
حدیثِ مبارک کی اس وضاحت کے بعد اب آئیے حضرت ابو عثمان النہدی کی روایت کا مطالعہ کرتے ہیں کہ جب اُنہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی تو اُن سے کیا کہا اور اُنہوں نے اس حدیث مبارک کی کیسے وضاحت فرمائی؟ وہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور ان سے کہا: اے ابوہریرہ! آپ کی وساطت سے مجھ تک ایک حدیث پہنچی ہے، میںچاہتا تھا کہ آپ سے براہ ِراست سنوں اور سمجھوں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ دس لاکھ نیکیوں کا اجر ایک نیکی کے عوض کیسے بن گیا؟ میںیہ سمجھنے اور حدیث لینے کے لیے آپ کے پاس آیا ہوں۔
فَحَجَجْتُ ذَالِکَ الْعَامَ وَلَمْ أَکُنْ أُرِیْدُ الْحَجَّ إِلاَّ لِلِقَائِهٖ فِي هٰذَا الْحَدِیْثِ.
میں اُس سال حج کے لیے گیا حالانکہ میرا حج کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ مگر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سماعت کرنے گیا تھا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اے ابو عثمان النہدی! تم نے جو سنا ہے وہ تھوڑا سنا ہے، میں اِس سے بھی عجیب تر بات تمہیں بتاتا ہوں۔ میں نے یہ نہیں کہاکہ ایک نیکی کے عوض اللہ دس لاکھ نیکیوں کا اجر دیتا ہے، یہ بتانے والے کو مغالطہ ہوا ہے۔ اچھا کیا جو میرے پاس آگئے۔ میں نے کہا تھا:
إِنَّ اللهَ لَیُضَاعِفُ الْحَسَنَةَ أَلْفَي أَلْفِ حَسَنَةٍ.
یقینا اللہ تعالیٰ ایک نیکی کا اجر بڑھا کر بیس لاکھ کے برابر کر دیتاہے۔
ایک نیکی کا اجر بیس لاکھ کیسے بنتا ہے؟ اس کی مزید وضاحت کے لئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید سے اس کی شرح کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَةً.
البقرة، 2: 245
کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے پھر وہ اس کے لیے اسے کئی گنا بڑھا دے گا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں نیکی کا اجر بڑھانے میں اَضْعَافًا کَثِیْرَةً کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی بے حد و حساب اور کثیر اجر دیتا ہے، لامحدود بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے دنیا کے بارے میں فرمایا:
فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌo
التوبة، 9: 38
سو آخرت (کے مقابلہ) میں دنیوی زندگی کا ساز و سامان کچھ بھی نہیں مگر بہت ہی کم (حیثیت رکھتا ہے)۔
جب آخرت میں پہنچیں گے تودنیا چھوٹی اور قلیل شے نظر آئے گی۔ اللہ تعالیٰ پوری دنیا کو آخرت کے مقابلے میں قلیل چیز فرما رہاہے کہ آخرت کے مقابلے میںساری دنیا قلیل ہے اور نیکی کا اجر اللہ تعالیٰ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً بے حساب و کثیر فرما رہا ہے۔ اِس بات سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نیکی کا اجر بڑھاتے بڑھاتے اللہ تعالیٰ نے جب اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً کہا تو اُس سے مراد کتنا بڑھانا ہوگا۔
قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا ہے:
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ط وَاللهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ ط وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌo
البقرة، 2: 261
جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال (اس) دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اُگیں (اور پھر) ہر بالی میں سو دانے ہوں (یعنی سات سو گنا اجر پاتے ہیں) اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے (اس سے بھی) اضافہ فرما دیتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے۔
اس آیت مبارکہ میں نیکیوں پر ملنے والے مختلف درجات کا تذکرہ ہے:
کَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ میں ایک نیکی کا اجر سات سو گنا ہونا بیان کیا گیا۔ یعنی کسی کو دس گنا، کسی کو ستر گنا، کسی کو سو گنا اجر ملا مگر کسی کو اس آیت کے مطابق سات سو گنا اَجر ملا۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ فرمایا: وَاللهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ کہ پھر ایسے بھی ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ جتنا چاہتا ہے اضافہ فرما دیتاہے۔ اِس کی اللہ تعالیٰ نے کوئی حد مقرر نہیں فرمائی۔ کیوں؟ تیسرے درجے میں اس کا بھی جواب دے دیا کہ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ یعنی اللہ کی وسعت کا تصور بھی کرلیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے آیت مبارکہ میں سات سو گنا اور پھر اس سے زائد اور آخر میں اپنی وسعت کا تذکرہ بھی کر دیا تو آیت کریمہ کے اِن وعدوں کو جمع کریں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ ایک نیکی کا عوض کس طرح بیس لاکھ تک پہنچتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری کہ اللہ تعالیٰ سات سو گنا عطا کرتاہے تو آقا ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا:
رَبِّ زِدْ أُمَّتِي.
طبرانی، المعجم الأوسط، 6: 10، رقم 5645
میرے مولا! میری امت کے لیے اجر اور بڑھا دے۔
اِس پر دوسری آیت اتری جس میں فرمایا:
فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَةً.
البقرة، 2: 245
پھر وہ اس کے لیے اسے کئی گنا بڑھا دے گا۔
آقا ﷺ نے بارگاهِ الٰہی میں عرض کیا:
رَبِّ زِدْ أُمَّتِي.
میرے مولا! میری امت کے لیے اجر اور بڑھا دے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الزمر کی آیت نمبر دس اتاری اور فرمایا:
اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍo
بلاشبہ صبر کرنے والوں کو اُن کا اجر بے حساب انداز سے پورا کیا جائے گا۔
یعنی میرے محبوب! اگر آپ امت کے لئے مزید اجر کی دعا کر رہے ہیں تو سن لیں کہ جو صبر کریں گے، نیکی کریں گے، اخلاص پر رہیں گے، اللہ کی رضا کے لیے صبر کریں گے، تقویٰ اختیار کریں گے اور عمل کو جاری رکھیں گے، استقامت اختیار کریں گے تو ان کو پھر میں اتنا اجر دوں گا کہ وہ لکھنے پڑھنے اور ضرب تقسیم میں نہیں آئے گا۔ گویا اب اجر دس گنا بھی نہ رہا، سو گنا بھی نہ رہا، سات سو گنا بھی نہ رہا، ہزار گنا بھی نہ رہا، دس لاکھ گنا بھی نہ رہا اور بیس لاگھ گنا بھی نہ رہا بلکہ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَاب کہ حساب کتاب ہی میں نہیں آئے گا۔ لوگوں کے قلم رک جائیں گے، حساب رک جائیں گے، علمِ ریاضی ختم ہو جائے گا مگر اجر نہ رک پائے گا۔
یہ اضافہ کیسے ہوگا؟ اس کے لئے واضح کر دیا کہ نیت جتنی خالص ہوتی چلی جائے گی اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ کی اتنی ہی نوید ملتی رہے گی۔
ہماری خرابی یہ ہے کہ ہم نیکیاں بہت کرتے ہیں اور ان کے اجر پر بھی ہماری نظریں جمی ہوتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دین کی خدمت کررہے ہیں، مشن کی خدمت کر رہے ہیں مگر جب امت کی خدمت، دین کے فروغ، تنظیم اور تحریک کے کاموں، اعمالِ صالحہ، مساجد کی تعمیر، اداروں کے قیام اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں تو ہم ان نیکیوں کے کرنے میں نیتوں کو خلط ملط کر تے ہوئے ان اعمال کا اجر مانگتے ہیں۔ اُس کے بدلے میں عہدہ مانگتے ہیں، اُس کے بدلے میں حیثیت (status) مانگتے ہیں، عزت مانگتے ہیں، بدلے میں اچھی گاڑیاں مانگتے ہیں، سہولتیں مانگتے ہیں، ایک دوسرے کا اچھا جواب (response) مانگتے ہیں اور اونچا مرتبہ مانگتے ہیں۔ جب یہ خلط ملط ہوتا ہے تو پاک میں ناپاک شامل ہوتا چلا جاتا ہے۔ پس جب ان نیک اعمال پر نیت خالص نہیں رہتی تو پھر اجر بھی بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔
اگر ہم اپنی نیت میں سے یہ ساری ناپاک چیزیں نکال دیں، یہ گرد و غبار بھی نکال دیں، جھاڑ پھونک بھی نکال دیں، مال و زر کی تمنا بھی نکال دیں اور نیت خالص سے خالص تر رکھ کر صرف اللہ کے ساتھ جڑ جائے، اللہ کی رضا کے سوا کچھ بھی طلب، چاہت اور خواہش نہ رکھیں اور نہ ہی اجر میں کوئی گمان کریں تو نیت کا اس قدر بلند ہونا اجر کے بغیر حساب بڑھنے کا باعث بنتا ہے۔ پھر بندہ دو نفل پڑھ کر بیس لاکھ نفلوں کاثواب کما لیتا ہے۔ وہ پڑھے گا تو دو رکعت نماز نفل، مگر اُس کے نامہ اعمال میں بیس لاکھ نوافل کا اجر لکھا جائے گا۔ یہ توآقا ﷺ نے عدد گن کر وعدہ فرما دیا جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِحِسَابٍ یعنی بیس لاکھ نیکیوں کا ایک نیکی کے عوض نامہ اعمال میں لکھا جانا توایک بات ہے مگر میرے حبیب! اگر آپ کی امت میں سے کسی کی نیکی اپنی خلوصِ نیت کی بناء پر عرش سے آگے میری بارگاہ تک پہنچ جائے تو وہ نیکی اجر و حساب سے بھی باہر نکل جائے گی اور بے حد، بے شمار اوربے حساب اجر کی حق دار ٹھہرے گی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved