یہ امر ذہن نشین رہے کہ وحی کا علم حق ہے اور مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اس پر ایمان لاتا ہے اور اُن شیطانی وسوسوں کو رد کر دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اترنے والی وحی میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔ جب وحی سے حاصل ہونے والے علم کو شک و شبہ کے بغیر حق سمجھیں گے تو اس کا نتیجہ نکلے گا کہ اللہ تعالیٰ اُن دلوں کو عاجزی عطا فرمائے گا۔ قرآن مجید فرماتا ہے:
فَتُخْبِتَ لَهٗ قُلُوْبُهُمْ.
الحج، 22: 54
اللہ کے لیے اُن کے دل عاجز ہو جائیں گے۔
جب اِنسان کے مزاج میں نرمی و عاجزی اور اِنکساری آجائے گی تو اس کا دل اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ وہی علم صحیح اور نافع ہے جو دلوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز کر دے۔ جس علم کی طبیعت پُرتاثیر نہ ہو، قلب کو شعور و معرفت نہ ملے، دلوں کے اندر تواضع، انکساری اور سجدہ ریزی نہ آئے اور دل کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے کا شعور نہ ملے تو سمجھیں وہ علم بے کار اور غیر نافع ہے۔
قرآن حکیم میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا تذکرہ آتا ہے کہ جب انہوں نے اپنے دربار میں ملکہ بلقیس کا تخت منگوانا چاہا تو اپنے درباریوں (جن میں انسان و جنات دونوں موجود تھے) سے پوچھا کہ کون ہے جو ملکِ سبا سے ملکہ بلقیس کا تخت میرے پاس لائے؟ ان کے اس سوال کے جواب میں جو کچھ کہا گیا، قرآن مجید اسے یوں بیان کرتا ہے:
قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیْکَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِکَ ج وَاِنِّیْ عَلَیْهِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌo
النمل، 27: 39
ایک قوی ہیکل جِن نے عرض کیا: میں اسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ اپنے مقام سے اٹھیں اور بے شک میں اس (کے لانے) پر طاقت ور (اور) امانت دار ہوں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات کے سردار کی اس پیش کش کو قبول نہ فرمایا کیونکہ آپ یہ خدمت کسی جن سے نہیں بلکہ انسان سے لینا چاہتے تھے۔ پوچھا کہ کوئی اور ہے جو اتنے وقت سے بھی پہلے تخت لے آئے؟ آگے قرآن بیان کرتا ہے:
قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ ط فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ.
النمل، 27: 40
(پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کاکچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)، پھر جب (سلیمان علیہ السلام نے) اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے۔
تخت لانے والا یہ ایک ایسا شخص تھا جسے اللہ تعالیٰ نے تصرّف، کشف، علم لدنی اور روحانی قوت و طاقت عطا فرمائی تھی۔ اس کی ساری خوبیاں اس آیت سے ثابت ہوتی ہیں، مگر قرآن مجید نے اس کی دیگر تمام خوبیوں کے مقابلے میں اس کا تعارف یوں کروایا:
الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ.
اُس کے پاس آسمانی کتاب کا علم تھا۔
گویا اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم کے اندر اتنی تاثیر، قوت، طاقت اور برکت ہوتی ہے کہ وہ ہزاروں میل کی مسافت سے تخت کو پلک جھپکنے سے پہلے مطلوبہ جگہ پر لے آئے۔ اس سے علم بالوحی یا علم الکتاب کی طاقت اور رسائی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ غور طلب بات ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی اُمت کا ایک ولی علم الکتاب کے فیض سے اس مقام پر فائز ہوگیا تو وہ پیغمبر جن پر وہ علم نازل ہو رہا تھا، ان کی اپنی روحانیت و قوت اور برکت کا عالم کیا ہوگا! نیز اسی نسبت سے حضور نبی اکرم ﷺ کی امت کے صاحبِ علم کا مقام اور آپ ﷺ کے مقام و مرتبہ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ آیت کریمہ سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اس ولی کو کتاب کا کامل علم تھا۔ ایسی بات ہر گز نہیں ہے بلکہ فرمایا کہ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ یہ مِنْ تبعیض کے لیے ہے یعنی وہ کتاب جو سلیمان علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی، اس شخص کو اُس کتاب کا کچھ علم تھا۔ اس شخص کے پاس علم کے ہونے کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ وہ علم اس شخص کے دماغ کے کسی خانے میں معلومات کے طور پر محفوظ تھا۔ معلومات کے طور پر پڑھنے، لکھنے اور بیان کرنے والا علم تاثیر نہیں دیتا اور نہ ہی یہ علم معجزات، کرامات اور خوارق پیدا کرتا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے اس اُمتی کو حاصل علم صرف اس کے دماغ کے خانے میں محفوظ نہیں تھا بلکہ وہ اس شخص کے قلب و باطن اور اُس کی روح پر بھی وارد تھا۔ دراصل وہ ہمہ تن علم الکتاب ہوگیا تھا اور اس علم کی تجلیات نے اس کے قلب و روح کو وہ طاقت اور قوت عطا کر دی تھی کہ وہ ہزاروں میل کی مسافت سے اس تخت کو لانے کے قابل ہوگیا تھا۔ یہ اس علم کا ورود تھا۔ علامہ محمد اقبالؔ نے کیا خوب کہا تھا:
تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کُشا ہے نہ رازی، نہ صاحبِ کشّاف
اَلْعَالِم بِأَمْرِ اللہ اور اَلْعَالِم بِاللہ میں فرق
بندے کو اس قابل ہونا چاہیے کہ اس کے وجودِ نفس اور قلب پر کتاب کے علم کا ورود ہو۔ اَمرِ الٰہی کا عالم علم کو دماغ اور اپنے فہم کی تختی پر لکھ کر رکھتا ہے جبکہ عالم باللہ اُس علم کو دماغ اور عقل کی تختی پر لکھنے کے بجائے قلب و باطن پر وارد کر دیتا ہے اور اُس علم کی تجلیات سے اپنے ظاہر و باطن کو روشن کر لیتا ہے۔ علم کی تاثیرات اُس کے وجود، کلام، زبان اور روح میں آجاتی ہیں۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلام کی امت کے ولی کو کتاب کے کچھ علم کی اتنی تاثیر ملی تو حضور نبی اکرم ﷺ کی امت کے اولیاء - جنہیں کتابِ محمدی (قرآن مجید) کے علم میں سے کچھ تاثیرات ملی ہیں - اُن کی برکات، کرامات اور عظمتوں کا عالم کیا ہوگا! صحیفۂ سلیمانی اپنی تاثیر، برکت، عظمت اور اپنی معجزانہ حیثیت میں تو قرآن حکیم کا مقابلہ کسی صورت نہیں کر سکتا۔ اس سے حضور نبی اکرم ﷺ کی امت کے اولیاء کا مقام اور ان کی تاثیرات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ نیز نبی آخر الزمان ﷺ کے علم اور روحانیت کا مقام و مرتبہ کیا ہوگا، اس کا اندازہ لگانا ہماری سوچ و فکر کے بس کی بات نہیں ہے۔
علم الکتاب کی مذکورہ تاثیرات کن کا مقدر بنتی ہیں؟ قرآن مجید نے اس امر کو بھی واضح فرما دیا ہے:
وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَیْلَکُمْ ثَوَابُ اللهِ خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ج وَلاَ یُلَقّٰهَآ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَo
القصص، 28: 80
اور (دوسری طرف) وہ لوگ جنہیں علمِ (حق) دیاگیا تھا بول اٹھے: تم پر افسوس ہے اللہ کا ثواب اس شخص کے لیے (اس دولت و زینت سے کہیں زیادہ) بہتر ہے جو ایمان لایا ہو اور نیک عمل کرتا ہو مگر یہ (اجر و ثواب) صبر کرنے والوں کے سوا کسی کو عطا نہیں کیا جائے گا۔
یعنی علمِ کتاب کے حامل لوگ ان لوگوں سے کہنے لگے جنہیں اس علم کی حقانیت، افادیت، تاثیر، برکت اور ہدایت کی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یاد رکھو کہ اللہ کا اجر و ثواب صرف اسی کے لیے ہے، جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے۔ ایمان اور نیک عمل کی توفیق صرف صبرکرنے والوں کو ہی نصیب ہوتی ہیں۔
اس آیتِ مبارکہ میں پہلے علم کا ذکر ہے اور اُس کے بعد اعمالِ صالحہ کا تذکرہ ہے۔ گویا یہاں مقصدیت بیان کر دی گئی ہے کہ بے مقصد علم تاثیر پیدا نہیں کرتا۔ علم جب تک روحانی و اخروی ثمرات پیدا نہ کرے اور اس کی کیفیات اور تاثیرات قلب و باطن پر وارد نہ ہوں تب تک بندے کو اُس پھل کی لذت نصیب نہیں ہوتی۔ وہ ایسے ہی ہے جیسے ایک شخص کے پاس ذائقہ کی حس ہی نہیں تھی جبکہ وہ کیلا اور سیب کھاتا رہا۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ روٹی کھا رہا ہے یا کچھ اور کھا رہا ہے۔ لہٰذا وہ لوگ جن کے نفوس مزکّٰی اور قلب مصفّٰی ہو جاتے ہیں اور جن کی روح ملاء اعلیٰ کے ساتھ جڑ جاتی ہے، ان پر علم الکتاب کی تاثیرات وارد ہوتی ہیں۔ جب وہ تلاوتِ قرآن کرتے ہیں تو اپنے سینے میں اُن آیات میں پنہاں روحانی لذت اور حلاوت کی تاثیر کو محسوس کرتے ہیں۔ وہ قرآن حکیم کے مختلف مقامات کی تلاوت کے دوران قرآن کی نورانی وادیوں کی زیارت سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ ان کے لیے تمام پردے اٹھا دیے جاتے ہیں اور کیفیات و لذات اور حلاوتیں ان کے قلب و باطن پر وارد ہوتی ہیں۔
بندے کو یہ مراتب اسی وقت نصیب ہوتے ہیں جب وہ علم کو اپنے اوپر وارد کرلیتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اس علم کو اپنی زندگی پر نافذاور جاری کرنا ہوگا، تب ہی ہم اپنی ذات کو اس سے روشن اور منور کر سکتے ہیں۔ ہماری کیفیت یہ ہے کہ ہمارا علم صرف زبان و بیان اور زیادہ سے زیادہ دماغ تک ہوتا ہے۔ یہ علم ہمارے قلب، روح اور نفس و باطن پر وارد نہیں ہوتا۔ علم کے قلب اور باطن پر وارد ہونے کے دو درجے ہیں:
وہ علم سب سے پہلے اوامر و نواہی کی شکل میں ہمارے ظاہر پر وارد ہونا چاہیے تاکہ جسم کا ایک ایک عضو اُس علم کے تابع ہو جائے۔ دراصل یہ اطاعت کا درجہ کہلائے گا۔ یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ ایک عضو بھی اُس علم کی حدود سے باہر نہ جا سکے اور اس علم نے جو احکام و اوامر دیے، ان پر عمل پیرا ہوا جائے اور جن نواہی سے منع کیا گیا ہے ان سے مکمل طور پر اجتناب کیا جائے۔
یہ علم جب باطن پر وارد ہوتا ہے تو دماغ اور عقل و فکر اس علم کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں۔ وہ بندہ خود کو غلط سوچوں سے بچاتا ہے۔ یوں اس کی نیت کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ جب علم ظاہر پر وارد ہوا تھا تو اعمال، افعال اور حرکات و سکنات کی اصلاح ہوگئی اور ظاہری سیرت سنور گئی اور جب اس علمِ حق نے باطن کا رخ کیا تو پھر بندے کی نیت بھی سنور گئی۔
انسان جو بھی ظاہری عمل کرتا ہے اس کے پیچھے نیت کی قوت کارفرما ہوتی ہے۔ مثلاً: وہ نماز کس نیت سے پڑھ رہا ہے، روزہ کس نیت سے رکھ رہا ہے، صدقہ و خیرات کس نیت سے دے رہا ہے، لوگوں کے ساتھ نیکی، بھلائی اور احسان کس نیت سے کر رہا ہے، معاملات کس نیت سے طے کر رہا ہے اور خوش اخلاقی کس نیت سے کر رہا ہے۔ گویا ہر عمل کے پیچھے ایک نیت ہوتی ہے۔ وہ نیت اس کام کے نفاذ کی طاقت ہوتی ہے۔ یہی نیت اُس عمل کی طاقت و تاثیر کو متعین کرتی ہے۔ نیت جیسے جیسے خالص ہوتی چلی جائے گی ویسے ویسے یہ عمل کی طاقت اور تاثیر کو بڑھاتی چلی جائے گی۔
علم جب باطن پر مزید وارد ہوتا ہے تو قلب کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ قلب ہر غیر اللہ کے خیال سے پاک ہونے لگتا ہے۔ پھر اس بندے کی عبادات و اطاعات، حسنات و خیرات، اعمال و افعال، ارادے اور خواہشات غرضیکہ ساری چیزوں کی سمت خالقِ دو جہاں کی طرف مبذول ہو جاتی ہے۔ گویا وہ متوجہ الی اللہ ہو جاتا ہے۔ نماز میں چہرہ کعبہ کی سمت ہوتا ہے مگر جب علم باطن میں وارد ہوتا ہے تو دل کعبہ کے بجائے ربِ کعبہ کی طرف ہو جاتا ہے۔
علمِ حق کے ورود سے باطن برے خیالات و شہوات، حرص و لالچ، بری عادات و رذائل سے محفوظ ہونے لگ جاتا ہے۔ اس طرح نور بڑھنے لگتا ہے جو قلب سے بڑھ کر روح میں اترتا ہے۔ جوں جوں علمِ حق، ظاہر پر، پھر باطن پر، پھر باطن کے باطن پر، پھر اس سے خفی پر وارد ہوتا چلا جاتا ہے ، تُوں تُوں کثافتیں دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یہاں علمِ حق از خود بندے کا ایسا تزکیہ کرتا ہے کہ اسے ملاء اعلیٰ کے ساتھ ملا دیتا ہے۔ فرشی انسان عرشی ہو جاتا ہے۔ پھر وہ چلتا پھرتا تو فرش پرہے، مگر عرش پر رہنے والوں جیسا ہو جاتا ہے۔ یہی وہ کیفیت ہے کہ جس کا ذکر سورۃ القصص کی آیت نمبر 80 میں میں یوں کیا گیا:
وَلاَ یُلَقّٰهَآ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَo
مگر یہ (اجر و ثواب) صبر کرنے والوں کے سوا کسی کو عطا نہیں کیا جائے گا۔
صبر کے بھی کئی درجے ہیں:
1۔ الصبر في اللہ
2۔ الصبر ﷲ
3۔ الصبر علی اللہ
4۔ الصبر باللہ
5۔ الصبر مع اللہ
جس طرح کا صبر ہے اسی طرح کا نظم، ثمر، نتیجہ، توفیق اور تاثیر اس بندے کی شخصیت میں پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔
قرآن مجید میں علم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اس کی تاثیر و ماہیت پر زور دیا گیا ہے کہ یہ علم کیسے بندے کو اس مقام تک پہنچاتا ہے۔ فرمایا:
اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّقَآئِمًا یَّحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَیَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّهٖ.
الزمر، 39: 9
بھلا (یہ مشرک بہتر ہے یا) وہ (مومن) جو رات کی گھڑیوں میں سجود اور قیام کی حالت میں عبادت کرنے والا ہے، آخرت سے ڈرتا رہتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے۔
یعنی ایک طرف ایک منکر، محروم اور گم راہ شخص خدا سے دور ہے اور دوسری طرف ایسا مسلمان ہے جو صرف کلمہ پڑھنے والا نہیں بلکہ ایسا مومن ہے جو رات کی گھڑیوں میں قیام و سجود کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوتا ہے۔ وہ آخرت سے ڈرتا اور اپنے رب سے رحمت کی امید رکھتا ہے۔ بھلا وہ شخص جو محروم ہے اور وہ شخص جو سعید ہے، ایک جیسے کیسے ہو سکتے ہیں! چنانچہ اس واضح فرق کو اسی آیت کے اگلے حصے میں بیان فرمایا:
قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَایَعْلَمُوْنَ.
الزمر، 39: 9
فرما دیجیے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں؟
اللہ تعالیٰ نے جب ان کی برابری کو ردّ کیا تو پہلے اس علم کی ماہیت و نوعیت کو بیان کیا، کیونکہ ’علم والے اور علم نہ رکھنے والے برابر نہیں ہو سکتے‘۔ اس اظہار کے لیے الگ آیت نہیں آئی۔ یہ ایک ہی آیت کریمہ کے دو حصے ہیں: پہلا حصہ بطورِ مقدمہ اور آیت کا دوسرا حصہ اس کا نتیجہ بیان کرتا ہے۔
آیت کریمہ میں علم والوں سے مراد وہ ہیں جن کے قلب و باطن پر علم وارد ہوا اور وہ علمِ الٰہی اور علمِ کتاب کی تجلیات سے روشن ہیں۔ یہاں علم سے مراد وہ علم والے نہیں ہیں جو اپنے علم کی اسناد حاصل کر کے دنیا کماتے ہیں اور امت کو تفرقہ بازی کے ذریعے فرقوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایسے لوگ خود بھی گم راہ ہوتے ہیں اور مخلوقِ الٰہی کو بھی گم راہ کرتے ہیں۔ جس علم کے حصول کے باوجود تواضع و انکساری، خشوع و خضوع صدق و اخلاص، تقویٰ و طہارت اور اپنے فرائض و واجبات کا احساس نہیں آتا تو اس صورت میں ایسا ’علم‘ رکھنے والوں سے تو علم نہ رکھنے والے ہی بہتر ہوں گے۔ شیخ ابو العباس مُرسی فرماتے ہیں:
اَلْعِلْمُ هُوَ الَّذِي یَنْطَبِعُ فِي الْقَلْبِ کَالْبَیَاضِ فِي الْأَبْیَضِ، وَالسَّوَادِ فِي الْأَسْوَدِ.
شعرانی، الطبقات الکبری: 318
علم وہ ہے جو دل میں یوں سرایت کر جائے جیسے سفید چیز میں سفیدی اور سیاہ چیز میں سیاہی۔
حقیقی علم تو وہ ہے جو بندے کے قلب و باطن اور اُس کے وجود پر اِس طرح وارد ہو کہ اسے رات کے اندھیروں میں سجدہ ریز کر دے۔ جو ہمہ وقت اسے ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت کی طرف متوجہ رکھے ، آخرت کا خوف جگائے رکھے اور اس کے اندر تواضع و انکساری، تقویٰ و پرہیزگاری اور نرمی و غم گساری پیدا کر دے۔ ایسا علم انسان کے تن اور من کو بھی سنوارے گا اور باطن کو بھی نکھار دے گا۔ ایسا علم رکھنے والوں کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔
حضور نبی اکرم ﷺ پرنازل ہونے والی پہلی آیت بھی فضیلتِ علم کو آشکار کرتی ہے۔ فرمایا:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَo
العلق، 96: 1
(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا۔
اس آیت کریمہ نے علم کی سمت کو متعین کر دیا ہے کہ علم وہی ہے جو تجھے رب سے آشنا کر کے اس کی معرفت عطا فرما دے۔ یہ آیت علم کے باب میں علم کو رب کی معرفت کے ساتھ جوڑ رہی ہے یعنی جو علم رب کی معرفت نہ دے اور اُس کی ربوبیت کے رنگ میں نہ رنگ دے، اللہ تعالیٰ کی بزرگی کی تجلیات و اثرات دل پر نہ اتارے اور اندھیرے دور نہ کرے؛ وہ علم، علم کہلانے کا حق دار ہی نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ التکاثر میں علم کے مراتب کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
ثُمَّ کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَo کَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِo
التکاثر، 102: 4-5
پھر (آگاہ کیا جاتا ہے) ہرگز نہیں: عنقریب تمہیں (اپنا انجام) معلوم ہو جائے گا۔ ہاں ہاں! کاش تم (مال و زر کی ہوس اور اپنی غفلت کے انجام کو) یقینی علم کے ساتھ جانتے (تو دنیا میں کھو کر آخرت کو اس طرح نہ بھولتے)۔
یہ قرآنی آیات انسان کو آنے والی حقیقت سے آگاہ کر رہی ہیں حالانکہ ابھی روزِ قیامت قبروں سے جی نہیں اٹھے، ابھی دنیا میں ہی ہیں اور جنت اور دوزخ میں بھی نہیں گئے۔ اِس دنیا میں دیکھے بغیر جاننا، ماننا اور یقین کے مرتبے تک پہنچنا ’علم الیقین‘ کہلاتا ہے۔
علم الیقین کے مرتبے تک پہنچانے کے بعد اب مرنے کے بعد کی بات بیان ہو رہی ہے۔ فرمایا:
لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَo
التکاثر، 102: 6
تم دوزخ کو ضرور دیکھوگے۔
یعنی جس حرص نے تمہیں اور تمہاری زندگی کو برباد کیا، اُس کے نتیجے میں دوزخ کو ضرور دیکھو گے۔ اورجب دیکھ لو گے تو پھر فرمایا:
ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَیْنَ الْیَقِیْنِo
التکاثر، 102: 7
پھر تم اسے ضرور یقین کی آنکھ سے دیکھ لو گے۔
یہاں یقین کی آنکھ سے دیکھنے کو عین الیقین کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔ اُس عین الیقین یعنی مشاہدے کے بعد ہونے والا ورود حق الیقین بنتا ہے۔
اِن آیات میں علم کو ’علم الیقین‘ کے ساتھ جوڑا گیا ہے، یعنی جب یقین کا علم تھا تو اسے علم الیقین کہا۔ جب تک قیامت دیکھی نہیں تھی تو وہ پردۂ غیب میں تھی، اس پر ایمان لائے، اس کا علم حاصل کر لیا اور یقین کر لیا تو علم الیقین ہوا۔ جب جنت اور دوزخ میں داخل ہو گئے اور انہیںاپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو اسے عین الیقین کہا۔ یعنی جب قیامت کے دن اٹھ کر دیکھ لو گے تو عین الیقین ہو جائے گا۔
ایک دوسرے مقام پر فرمایا کہ جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوخ میں داخل ہو جائیں گے تو ان کے اعمال کی روشنی میں جنت کی راحتیں اور دوزخ کی اذیتیں ان کے تن اور من پر بیتیں گی تو اس وقت ان پر جو علم بیتے گا تو وہ حق الیقین ہوگا۔ علم کو جانا تو علم الیقین کہا، جب اس میں داخل ہو گئے تو اسے حق الیقین کہا۔
ان مراتبِ علم کو قرآن مجید کی سورۃ الواقعہ کی روشنی میں بھی دیکھتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:
اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُo لَیْسَ لِوَقْعَتِهَا کَاذِبَةٌo
الواقعة، 56: 1-2
جب واقع ہونے والی (قیامت) واقع ہو جائے گی۔ اُس کے واقع ہونے میں کوئی جھوٹ نہیں ہے۔
قیامت تو چونکہ بپا ہوگی اور ہر ایک شخص پروارد ہوگی، اِس لیے قیامت کو ’واقعہ‘ کہا۔ جب کسی چیز کو واقعہ کہتے ہیںتو وہ مشاہدہ نہیں رہا بلکہ اب علم الیقین سے بھی بات آگے چلی گئی۔ علم الیقین بغیر دیکھے مانا تھا، عین الیقین دیکھ کرتسلیم کر لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت کو ’الواقعہ‘ سے تعبیر فرمایا ہے اورسورت کا نام بھی یہی رکھا۔
غور طلب بات ہے کہ جب واقعہ صادر ہو جاتا ہے تو بات دیکھنے سے آگے بڑھ جاتی ہے، کیونکہ اب جو کچھ اُس کے اثرات ظاہر ہونا تھے وہ سب ظاہر ہوگئے۔ گناہ گاروں کو ہولناکی سے جو خوف زدگی پیدا ہونا تھی وہ ہو گئی اور مومنین کو اللہ تعالیٰ کے تبسم ریز چہرۂ حق نے جو راحت و سکون دینا تھا، وہ انہیں نصیب ہوگئی۔ دوسرے لفظوں میں جنہیں دوزخ میںگرانا تھا، انہیں گرا دیا گیا، جن کی شفاعت ہونی تھی، ان کی شفاعت بھی ہوگئی۔ پہلے واقعہ کا علم تھا تو علم الیقین تھا، اب قبرسے اٹھے تو واقعہ کو دیکھ لیا اور یہ عین الیقین ہے۔ اب وہ واقعہ وقوع پذیر ہوگیا، یعنی جس چیز کا علم تھا، اب وہ علم وارد ہو گیا اور کیفیت بن گیا ہے، مشاہدہ سے بات آگے چل کر واقعہ تک نکل گئی ہے تو اسے حق الیقین کہتے ہیں۔
علم کی تینوں حالتوں کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً: آپ اپنے گھر میں موجود ہیں کہ خبر ملتی ہے کہ فلاں شخص کی گاڑی کا حادثہ ہوگیا ہے، جس میں وہ شدید زخمی ہے۔ آپ اس واقعے پر صدمہ محسوس کرتے ہیں۔ اس خبر سے ملنے والی گھبراہٹ علم الیقین ہے۔
اسی واقعہ کی دوسری شکل یہ ہے کہ آپ سڑک پر جا رہے ہیں اور اپنی آنکھوں کے سامنے ایک مہلک حادثے کو رونما ہوتے دیکھتے ہیں کہ شدید زخمی حالت میں ایک شخص کو پچکی ہوئی گاڑی سے باہر نکال کر ایمبولینس میں ہسپتال پہنچایا جا رہا ہے۔ آپ نے اس حادثے کے تمام واقعات کواپنی آنکھوں سے دیکھا؛ یہ عین الیقین ہے۔
پہلی صورت میں حادثے کا سن کر آپ اس قدر گھبراہٹ، پریشانی اور خوف کا شکار نہیں ہوئے ہوں گے، جس قدر ایک حادثے میں ایک جیتے جاگتے انسان کو موت کے گھاٹ اترتا دیکھ کر آپ خوف محسوس کرتے ہیں۔ غور کیا جائے تو پہلی اور دوسری شکل میں آپ کے خوف زدہ ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہوگا۔
اب اس کی ایک تیسری شکل یہ بھی ہے کہ یہ حادثہ اللہ نہ کرے خود آپ کے ساتھ رونما ہو رہا ہو اور شدید زخمی حالت میں آپ کو تباہ حال گاڑی سے باہر نکالا جا رہا ہے۔ آپ زخموں سے چور چور ہیں، آپ کے لیے یہ اذیت ناک صورت حال قیامت کا منظر پیش کر رہی ہے۔ اب جس پر یہ قیامت بیتے وہی اس حادثے کی ہولناکی کو زیادہ محسوس کر سکتا ہے۔ حادثے کی یہ صورت علم کا آخری درجہ ہے جسے حق الیقین کہتے ہیں۔
آپ بخوبی سمجھ گئے کہ کسی واقعہ کی خبر سن کر، دیکھ کر یا خود پر بیتنے پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ان میں بہت زیادہ فرق ہوتاہے۔ قیامت کے احوال کی خبر پڑھ کر یا سن کر جو علم حاصل ہوتا ہے وہ علم الیقین ہے۔ قیامت کے دن کو دیکھ کر جو کیفیات ہوں گی، وہ عین الیقین کا مرتبہ ہے اور جب یہ واقعہ خود پر بیت گیا تو یہ حق الیقین ہے۔
قرآن حکیم نے یقین کے یہی تینوں مراتب سورۃ الواقعہ میں بیان فرمائے ہیں کہ جس کا علم تھا، جس کو آنکھوں سے دیکھا تھا اب وہ تم پر بیت گیا۔ اب جو ہوگیا، اسے قرآن مجید یوں بیان کرتاہے:
فَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَo فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌ وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍo
الواقعة، 56: 88
پھر اگر وہ (وفات پانے والا) مقرّبین میں سے تھاo تو (اس کے لیے) سرور و فرحت اور روحانی رزق و استراحت اور نعمتوں بھری جنت ہے۔
اب تصور دیا جا رہا ہے کہ جس پر قیامت واقعہ ہو گئی اگر وہ مقربین میں سے تھا تو اس کے لیے روحانی رزق اور استراحت ہوگی اور نعمتوں بھری جنت ہوگی۔
پھر مزید فرمایا گیا:
وَ اَمَّآ اِنْ کَانَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیَمِیْنِo فَسَلٰـمٌ لَّکَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیَمِیْنِo
الواقعة، 56: 91-92
اور اگر وہ اصحاب الیمین میں سے تھا۔ تو (اس سے کہا جائے گا) تمہارے لیے دائیں جانب والوں کی طرف سے سلام ہے (یا اے نبی! آپ پر اصحابِ یمین کی جانب سے سلام ہے)۔
یعنی اب اسی وقوع پذیر ہونے والے واقعہ کی دوسری صورت بیان کی جا رہی ہے کہ اب اس پر سلام کے تحائف آئیں گے۔
پھر فرمایا:
وَ اَمَّآ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُکَذِّبِیْنَ الضَّآلِّیْنَo فَنُزُلٌ مِّنْ حَمِیْمٍo وَّ تَصْلِیَةُ جَحِیْمٍo
الواقعة، 56: 92-94
اور اگر وہ (مرنے والا) جھٹلانے والے گمراہوں میں سے تھا۔ تو (اس کی) سخت کھولتے ہوئے پانی سے ضیافت ہوگی۔ اور (اس کا انجام) دوزخ میں داخل کر دیا جانا ہے۔
اب جب اسے سخت کھولتے ہوئے پانی کی ضیافت پر دوزخ میں داخل کیا جائے گا اور وہاں آگ میں جلے گا اورکھولتا ہوا پانی اور پیپ پیے گا، جس سے اُس کی انتڑیاں کٹ جائیں گی۔ جب یہ سب کچھ بیت جائے گا تو اُس مقام پر فرمایا:
اِنَّ هٰذَا لَهُوَ حَقُّ الْیَقِیْنِo
الواقعة، 56: 95
بے شک یہی قطعی طور پر حق الیقین ہے۔
جس خبر کے بارے میں تمہیں بتایا تھا اورتمہیں اس کا علم ہوا وہ علم الیقین تھا اور جو کچھ تم نے خود دیکھ لیا وہ عین الیقین تھا۔ اب جب وہ سب کچھ تم پر بیت رہا ہے، اگر دائیں ہاتھ والے مقربین میں سے ہو تو جنت کی راحتیں، لذتیں، استراحتیں، روحانی رزق اور فرحت و سُرور کی کیفیتیں تم پر بیت رہی ہیں اور اگر بائیں ہاتھ (یعنی دوزخ) والوں میں سے ہو تو آگ میں جل رہے ہو، کھولتا ہوا پانی اورپیپ پی رہے ہو، انتڑیاں کٹ گئیں اور تمہارے پرخچے دوزخ میں اڑ گئے اور گل سڑ گئے ہوں تو اس کیفیت کو حق الیقین کہتے ہیں۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ علم کو کمال اور عروج کب نصیب ہوتا ہے؟ اور علم نافع کون سا علم ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں بھی امت کو آگاہ فرما دیا ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اَلْعِلْمُ عِلْمَانِ: فَعِلْمٌ فِي الْقَلْبِ وَذٰلِکَ الْعِلْمُ النَّافِعُ، وَعِلْمٌ عَلَی اللِّسَانِ فَذَالِکَ حُجَّةُ اللهِ عَلَی ابْنِ آدَمَ.
علم دو (طرح کے) ہیں: ایک علم دل میں ہوتا ہے اور یہ علم نافع ہے اور ایک علم زبان پر ہوتا ہے، یہ ابن آدم پر اللہتعالیٰ کی حجت ہے۔
اس حدیث مبارک میں سرورِ انبیاء ﷺ نے علم کی دو اقسام بیان فرمائی ہیں:
پہلا علم وہ ہے جو قلب کے اندر متمکن ہوتا ہے، یعنی جب یہ علم باطن پر وارد ہوتا ہے، اس کا ورودِ تام ہوتا ہے تو یہ حق الیقین بنتا ہے۔ یہ وہ یقین ہے جو قلب سے جنم لیتا ہے اور اسے علم نافع کہتے ہیں۔
دوسرا علم وہ ہے جو زبان پر ہے۔ یہ علمِ حجت ہے۔ اس علم سے فرائض و واجبات، محرمات اور منہیات متعین ہوتے ہیں۔ یہ علم واجب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علمِ واجب بھی حاصل ہونا چاہیے اور علمِ نافع بھی تاکہ بندہ دونوں کمالات تک بخوبی پہنچ سکے۔
دوسرے لفظوں میں زبان سے صادر ہونے والا علم، علم ظاہر ہے۔ اُس سے فرائض اور واجبات متعین ہوتے ہیں اور یہ حجت ہے؛ مگر جس علم کا پودا قلب کی زمین پر اگتا ہے، وہ اصل میں نافع علم ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
إِذَا أَرَادَ اللهُ بِعَبْدٍ خَیْرًا فَقَّهَهٗ فِي الدِّیْنِ وَأَلْهَمَهٗ رُشْدَهٗ.
(فرمایا: اسے امام بزار اور طبرانی نے المعجم الکبیر میں روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔)
جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرما لیتا ہے تواُسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے اور اُس کے دل میں اُس کی رشد اور ہدایت کو ڈال دیتا ہے۔
یہاں حضور نبی اکرم ﷺ نے لفظِ علم استعمال نہیں کیا، اس لیے کہ علم کمال کو تبھی پہنچتا ہے جب عِلْم عَلَی اللِّسَان بھی ہو اور عِلْم فِي الْقَلْب بھی ہو۔ علم ظاہر بھی ہو اورعلمِ نافع بھی ہو، یعنی وہ علم جو علم الیقین بھی ہو اور عین الیقین بھی ہو۔ جب یہ دو جمع ہوں تو وہ علم اپنا حقیقی ثمر انسان کو عطا کرتا ہے۔ اِسی لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے یہاں فَقَّهَهٗ فِي الدِّیْنِ کا لفظ استعمال فرمایا کہ اُسے دین میں تفقہ عطا فرماتا ہے۔ یہ علم میںگہرائی اورگیرائی کی طرف اشارہ ہے کہ وہ دین کے علم، فہم اور حقائق و معارف سے آگاہ ہو جاتا ہے۔
مذکورہ دونوں احادیث مبارکہ کو آپس میں ملائیں تو مؤخر الذکر حدیث کے دوسرے حصہ میں فرمایا:
وَأَلْهَمَهٗ رُشْدَهٗ فِیْهِ.
اور اُس کے دل میں اُس کی رشد اور ہدایت کو ڈال دیتا ہے۔
جبکہ اوّل الذکر حدیث میں فرمایا ہے کہ علم دو (طرح کے) ہیں: ایک علم دل میں ہوتا ہے اور ایک علم زبان پر ہوتا ہے۔ ان دونوں احادیث مبارکہ کو باہم جوڑنے سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ حدیث مبارک میں دونوں علوم عِلْم فِي الْقَلْب اور عِلْم عَلَی اللِّسَان کو جمع فرماتے ہوئے اُسے تفقہ فی الدین اور الہام فی القلب کا نام دیا گیا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر صاحبِ علم کے لیے لازم نہیں ہے کہ اُسے رشد بھی الہام کیا گیا ہو۔ بعض اوقات اُسے احکام کا علم معلوم ہوتا ہے اور رشد کا الہام نہیں ہوتا۔ یہ دونوں چیزیں الگ الگ ہیں۔ یاد رہے کہ اگر علم الاحکام ہو تو وہ عِلْم عَلَی اللِّسَان یعنی زبان کا علم ہے۔ اگر اُسے علم کا رُشد اور الہام ہو جائے تو وہ عِلْم فِي الْقَلْب ہے۔ جب یہ دونوں چیزیں جمع ہوتی ہیں تو علم الیقین بھی آگیا، عین الیقین بھی حاصل ہو گیا اور عین الیقین کے ساتھ مرتبہ حق الیقین بھی نصیب ہوگیا۔
کتاب کے علم کا فیض جب بندے پر وارد ہو جائے تو بندہ روحانی طور پر اِس قدر ترقی کرتا ہے کہ وہ عین الیقین کی وادی میں داخل ہو جاتا ہے اور اس پر سارے پردے اٹھتے چلے جاتے ہیں۔ جب اُس پر علم بیتتا ہے تو وہ بندہ تبدیل ہو جاتا ہے، اُس کی آنکھ بھی تبدیل ہو جاتی ہے اور اُس کے ذائقے، کیفیات اور حالات بھی بدلتے چلے جاتے ہیں۔ گویا اُسے حق الیقین والوں کی سی کیفیت حاصل ہو جاتی ہے۔ قرآن حکیم حق الیقین کے حاملین کی صفات کا ذکر کچھ یوں کرتا ہے:
وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَo
آل عمران، 3: 134
اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے درگذر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
صاحبِ علم احسان کرنے والا بن چکا ہے۔ اُسے علم نے کہا تھا کہ دلوں کا نرم ہونا اللہ کو پسند ہے، لہٰذا اُس کا دل نرم ہو چکا ہے۔ اب غیظ و غضب اُس کے مزاج سے نکل چکا ہے۔ چونکہ نرمی، تواضع اور انکساری اللہ کو پسند ہے، لہٰذا وہ تواضع و انکساری کا پیکر بن چکا ہے۔ اُسے علم الکتاب نے کہا تھا کہ اللہ پر توکل کرنا مومنوں کی شان ہے، لہٰذا وہ متوکل بن چکا ہے۔ اُسے علم نے کہا تھا کہ صبر و شکر اور رضا و تفویض اللہ کے قریب لے جانے والے اوصاف ہیں، اس آگہی پر وہ صاحبِ صبر و شکر، صاحبِ رضا اور صاحبِ تفویض بھی بن چکا ہے۔ اُس کا دل کامل متوکل بن چکا، اب وہ کسی امر میں بھی ناشکری نہیں کرتا، متذبذب نہیں ہوتا اور شک و شبہ کا شکار نہیں ہوتا۔ وہ مرتبۂ یقین پر فائز ہے اور سرتاپا اَخلاقِ حسنہ کا عامل بن چکا ہے۔ اب وہ لوگوں سے درگزر کرتا ہے، ان کے عیوب کی پردہ پوشی کرتا ہے اور کسی پر غصہ اور جلال کا اظہار نہیں کرتا۔ وہ کسی سے نفرت، ضد اور حسد نہیں کرتا۔ اب وہ لوگوں کے لیے سراپا رحمت و نصیحت بن چکا ہے۔
حق الیقین کا مطلب یہ ہوا کہ علم الکتاب جو اُسے ملا، پہلے وہ علم دماغ کے خانے میں، کتابوں، تصنیفات، درس و تدریس اور فتاویٰ جات کی شکل میں رکھا ہوا تھا۔ پھر عین الیقین ہوا تو اُس پر پردے اٹھنے لگے اور وہ دیکھنے لگ گیا۔ جب اُسے بصیرت نصیب ہوئی تو وہ کبھی اللہ کی قربت کی وادیوں میں گم ہوتا ہے، کبھی اللہ کی رضا کے گلشن میں بے خود ٹہلتا ہے، کبھی طاعتوں کی نگری میں گم ہو جاتا ہے اور کبھی انوار و تجلیات کی روشنیوں میں خیرہ خیرہ پھرتا ہے، الغرض جوں جوں پردے اٹھتے جاتے ہیں، تُوں تُوں وہ قرآن کی وادیوں میں خود کو مستغرق پاتا ہے۔
جب مرتبہ حق الیقین آتا ہے تو اب اُس کے اخلاق پہلے والے نہیں رہتے، اُس کامزاج یکسر تبدیل ہو چکا ہوتا ہے اور وہ ایک نیا انسان بن جاتا ہے۔ اُسے نئے اخلاق عطا ہو جاتے ہیں اور اسے نیا کلام، نیا فہم و تدبر، اِدراک اور معرفت عطا کر دیئے جاتے ہیں۔
اس سے پہلے کتابوں کی نصوص اور الفاظ کے نئے معانی اس پر کھلے نہیں تھے۔ اب علم الیقین کے مقام پر یہ سب اس پر آشکار ہوتا ہے اور اُس کے احکام، الفاظ اور نصوص اُس کے ساتھ کلام کرتے ہیں۔ پھر جب مرحلہ عین الیقین میں جاتا ہے تو مزید پردے اٹھتے ہیں اور معارف اُس کے ساتھ کلام کرتے ہیں۔ جب مرحلہ حق الیقین میں جاتا ہے تو جو کچھ پڑھتا تھا، وہی کچھ ہو جاتا ہے۔ اس مقام پر وہ
ذاکر ہمہ ذکر و ذکر مذکور شود
کے مصداق ہو جاتا ہے۔
اب یہ معرفت اوروں کے پاس نہیں ہے۔ چونکہ دوسرے علم الیقین سے عین الیقین اور عین الیقین سے حق الیقین تک نہیں پہنچے۔ چنانچہ جو جہل، ظن، شک اور رَیب کی وادی میں سرگرداں ہیں وہ علم کی وادی کے مزے کہاں سے چکھیں۔ وہ علم کی وادی میں جائے گا تو تبھی اس کے بعد علم الیقین کا درجہ حاصل کرے گا۔ اس لیے کہ علم الیقین اپنے اثرات سے انسان کی طبیعت، مزاج، فہم، فکر اور ادراک کو بدلتا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved