مجالس العلم کی فضیلت و اَہمیت اور ان مجالس سے اِکتسابِ فیض کے تقاضوں کو جاننے کے بعد آئیے اب قرآن حکیم اور سنتِ مصطفی ﷺ سے علم کی فضیلت و اہمیت کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ایک فرد کی انفرادی زندگی ہو یا اقوام کی اجتماعی زندگی؛ تمام کی ترقی علم ہی کی بدولت ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب سب سے پہلے نبی ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی اور انہیں اپنی خلافت و نیابت دینے کا ارادہ کیا تو ارشاد فرمایا:
وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً.
البقرة، 2: 30
اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔
اللہ تعالیٰ کے اس ارادے کو جاننے کے بعد ملائکہ نے یہ سمجھتے ہوئے کہ یقینا عبادت و بندگی ہی فضیلت کا معیار ہے، انہوں نے اپنی اس فضیلت کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا:
اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَیَسْفِکُ الدِّمَـآءَ ج وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ.
البقرة، 2: 30
کیا تُو زمین میں کسی ایسے شخص کو (نائب) بنائے گا جو اس میں فساد انگیزی کرے گا اور خونریزی کرے گا؟ حالاں کہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور (ہمہ وقت) تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔
ملائکہ کا اپنی اس فضیلت کا اظہار کرنا گویا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے آپ کو نیابت اور خلافت کا مستحق قرار دینا تھا کہ تیری بے انتہا عبادت و بندگی کے باعث ہم نیابت و خلافت کے زیادہ حق دار ہیں۔ وہ عرض کناں تھے کہ اے اللہ! اس انسان کو خلیفہ کیوں بنا رہا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے اس سوال پر حضرت آدم علیہ السلام کے بہت سے فضائل کے بجائے اُن کی صرف ایک ہی فضیلت کو تمام ملائکہ پر ظاہر فرمایا اور وہ فضیلت ’فضیلتِ علم‘ تھی۔ ارشاد فرمایا:
وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّهَا.
البقرة، 2: 31
اور اللہ نے آدم ( علیہ السلام ) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو محض نام ہی نہیں سکھائے بلکہ اشیاء کے نام مع صفات و افعال بھی سکھائے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ملائکہ پر واضح فرما دیا کہ انسان کو اپنا خلیفہ و نائب بنانے، اس کے سر پر اپنی نیابت کا تاج سجانے اور تمام مخلوقات پر اسے فضیلت دینے کا سبب صرف علم ہی ہے۔
معلوم ہوا کہ عبادت گزاری وجهِ نیابتِ الٰہیہ نہیں ہے بلکہ علم کا نور ہی ایسی فضیلت کا حامل ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ کا نائب بناتا ہے۔ عبادت، تسبیح اور ذکر سے علم افضل ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اتنی اعلیٰ فضیلت کا حامل یہ علم یقینا خالی از عبادت نہیں رہ سکتا۔ جس طرح علم کے بغیر محض عبادت اللہ تعالیٰ کی نیابت کے اہل نہیں بناتی، اِسی طرح وہی علم نیابتِ الٰہی کا باعث بنے گا جس کے ساتھ عمل، صالحیت اور عبادت بھی شامل ہوگی۔
علم، عبادت کے مقابلے میں قدرے فضیلت رکھتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی لیے آیت کریمہ میں پہلے تسبیح و عبادت کے حوالے سے ملائکہ کا بیان ذکر فرمایا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں حضرت آدم علیہ السلام کی علمی برتری اور فضیلت کا ذکر فرماتے ہوئے اسے وجهِ نیابت قرار دیا۔ اللہ رب العزت نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام اَسماء مع صفات و اَفعال کا علم عطا کرنے کے بعد ان اشیاء کو ملائکہ پر پیش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اَنْبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰٓؤُلَآءِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَo
البقرة، 2: 31
مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہو۔
یعنی اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ نیابتِ الٰہیہ کا تاج تمہارے سر پر سجایا جائے تو ان اشیاء کے نام بتاؤ؟ گویا اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کی عبادت و تسبیحات اور حضرت آدم علیہ السلام کے علم کا موازنہ کیا ہے۔ اس کے بعد ملائکہ کو بھی ایک مشاہدہ کروایا جس سے حضرت آدم علیہ السلام کو علم کی صورت میں حاصل فضیلت اور برتری کو فرشتوں پر واضح فرما دیا۔ اس پر ملائکہ نے عرض کیا:
سُبْحٰنَکَ لَاعِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَآ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُo
البقرة، 2: 32
تیری ذات (ہر نقص سے) پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اسی قدر جو تو نے ہمیں سکھایا ہے۔بے شک تو ہی (سب کچھ) جاننے والا حکمت والا ہے۔
مذکورہ آیات میں علم کا ذکر تین نسبتوں سے آیا ہے:
1۔ پہلے مقام پر علم کی نسبت حضرت آدم علیہ السلام کی طرف ہے۔
2۔ دوسری آیت میں علم کی نسبت ملائکہ کی طرف ہے۔
3۔ دوسری آیت کے آخر میں علم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت کو واضح کرنے کے بعد اگلی آیت میں ’علم‘ ہی کے حوالے سے اپنی شان کا یوں اظہار فرمایا ہے:
اَلَمْ اَقُلْ لَّـکُمْ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لا وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَo
البقرة، 2: 33
کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی (سب) مخفی حقیقتوں کو جانتا ہوں۔اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔
مذکورہ آیات کریمہ میں علم کی فضیلت کے اظہار کے ساتھ ساتھ حضرت آدم علیہ السلام کی خلافت و نیابت کا سبب بھی علم کو قرار دینا، اِس امر کی جانب اشارہ ہے کہ علم کو اس قدر عظمت اور فضیلت حاصل ہونے کے باعث طلبہ اور نوجوانوں کو اپنے اندر علم کی رغبت، شوق اور ایک حوصلہ افزائی (inspiration) پیدا کرنی چاہیے۔ اگر ہم صرف سند کے حصول کے لیے پڑھیں گے تو ڈگری تو ہمیں حاصل ہو ہی جائے گی، مگر علم حاصل نہیں ہوگا۔ علم بہت پاکیزہ اور مقدس شے کا نام ہے۔ علم جب یہ دیکھتا ہے کہ مجھے میری خاطر حاصل نہیں کیا جا رہا بلکہ کسی اور مقصد (یعنی ڈگری یا روزگار وغیرہ) کے لیے حاصل کیا جا رہا ہے تو وہ علم اپنے طالب کے قلب و روح میں نہیں اترتا۔ آدمی ڈگری کی صورت میں ایک سند یعنی piece of paper تو لے لیتا ہے مگر حقیقی علم نہیں آتا اورنہ ہی اِنسان کو وہ فضیلت حاصل ہوتی ہے جو علم کا مقصود و منتہٰی ہے۔
علم اگر علمِ نافع ہو تو حکمت کو جنم دیتا ہے۔ علم اور حکمت دونوں باہم ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے، دوسرے لفظوں میں وہ ایک دوسرے سے متصل یعنی جڑے ہوئے ہیں۔ حکمت کے بغیر علم، علمِ نافع نہیں ہوتا اور جو علم حکمت عطا نہ کرے وہ علم کامل نہیں بلکہ ناقص ہوتا ہے کیونکہ اس نے علم ہونے کے تقاضے پورے کیے نہیں۔ گویا حکمت جب علیحدہ طور پر مذکور ہو تو اس کا مطلب ہے کہ اس میں پہلے سے ہی علم کا کمال موجود ہے؛ اس لیے کہ کمالِ علم ہی سے حکمت وجود میں آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
یُّؤْتِی الْحِکْمَةَ مَنْ یَّشَآءُ.
البقرة، 2: 269
وہ جسے چاہتا ہے دانائی عطا فرما دیتا ہے۔
علمِ نافع انسان کو حکمت عطا کرتا ہے اور حکمت انسان کو ہدایت کی منزل تک پہنچاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حکمت کے ثمرات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِo
البقرة، 2: 269
اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی، اور صرف وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو صاحبِ عقل و دانش ہیں۔
کمالِ علم کا ثمرہ، نتیجہ اور پھل حکمت ہے۔ مذکورہ آیت کریمہ کے پہلے حصے میں فرمایا گیا کہ جسے حکمت و دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی۔ دوسرے حصے میں صاحبِ حکمت کے لیے فرمایا کہ وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو صاحبِ عقل و دانش ہیں۔ واضح ہوا کہ علم اور حکمت وہی فائدہ مند ہے جس سے بندے کو تذکّر، نصیحت اور ہدایت میسر آئے۔ اگر علم کے باوجود انسان خیر اور شر میں امتیاز نہ کر سکے، اللہ کی طرف رغبت و رجوع پیدا نہ ہو، فکرِ آخرت میسر نہ آئے تو سمجھیں وہ علم، علم نہیں ہے اور ایسی حکمت بھی حکمت نہیں ہے۔ قرآن مجید نے اسی بناء پر حکمت اور تذکیر کا اکٹھا ذکر فرمایا ہے۔ تذکیر جہاں انسان کو رجوع اِلی اللہ، معرفت و قربتِ الٰہی اوربندگی کا احساس دلاتی ہے، وہاں اللہ اور بندے کے درمیان روحانی تعلق کو بھی آشکار کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے علم و حکمت کے باب میں ایک پیمانہ واضح فرما دیا ہے کہ اگرکتابوں کے پڑھنے، اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے سے تذکّر، رغبت و معرفت، فکر، دلوں کو نصیحت اور ہدایت کا نور پیدا نہ ہو، انسان کی کیفیت نہ بدلے تو سمجھیں کہ جو کچھ حاصل ہو رہا ہے وہ علم اور حکمت نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ کیا چیز ہے؟ وہ دنیوی علم تو ہو سکتا ہے جو مباحات اور ضروریات میں سے ہے مگر آخرت میں نفع مند نہیں ہوگا۔ ایسا علم دنیا کمانے اور دنیا کی ضروریات کی تکمیل کے لیے تو فائدہ مند ہے اور جائز بھی ہے مگر جس علم کو فضیلت عطا کی گئی ہے، وہ علم یہ نہیں ہے کیونکہ فضیلت اُسی علم کو حاصل ہے جو انسان کو تذکیر اور تذکر تک پہنچانے والا ہو۔
علم کی اہمیت اور فضیلت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا تعارف بھی ’الکتاب‘ کے طور پر کروایا ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
ذٰلِکَ الْکِتٰـبُ لَارَیْبَ ج فِیْهِ.
البقرة، 2: 2
(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے کتاب کے ساتھ ربط و تعلق اور شغف پیدا کرنے کے لیے اپنے کلام کا نام ’الکتاب‘ رکھا ہے۔ قرآن کو ’الکتاب‘ کہنا بھی علم کی طرف اشارہ ہے۔ علم کا اس سے بڑا مرتبہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ’الکتاب‘ کہہ کر اپنے کلام قرآن مجید کو علم کا عنوان عطا فرما دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کو ’الکتاب‘ کا عنوان دے کر ایک طرف علم اور کتابی علم کو غیر معمولی اہمیت و فضیلت عطا فرمائی اور دوسری جانب علم کا رجحان عام کرنے کے لیے اہلِ اسلام کو علم اور کتاب کی طرف متوجہ فرمایا ہے تاکہ وہ کتاب سے مانوس ہو سکیں۔
ذٰلِکَ الْکِتٰـبُ لاَ رَیْبَ ج فِیْهِ کے فرمانِ الٰہی میں جہاں ’الکتاب‘ کے لفظ کا انتخاب اُمت کو علم اور کتاب کی طرف متوجہ کرنے کی طرف اشارہ ہے، وہاں اسی آیت مبارکہ میں علم کی تعریف بھی بیان کر دی گئی ہے کہ علم ہر شک کو دور کر دیتا ہے۔ جو کچھ ہم جانتے ہیں، اگر اس میں کوئی شک رہے تو اسے علم نہیں کہا جاسکتا کیونکہ علم کا نور جہالت، وہم، شک اور ظن کو ختم کر دیتا ہے۔ اسی لیے علم کی یہ تعریف کی جاتی ہے:
إِنَّ الْعِلْمَ صِفَةٌ یَنْتَفِي بِهَا عَنِ الْحَيِّ الْجَهْلِ وَالشَّکِّ وَالظَّنِّ.
أبو معین النسفی الماتریدي، تبصرة الأدلة في أصول الدین، 1: 136
بے شک علم وہ صفت ہوتی ہے جس کے ذریعے زندہ شخص سے جہالت، شک اور ظن کی نفی کی جاتی ہے۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ جہالت اور علم صرف دو مرحلے نہیں ہیں، بلکہ جہالت سے قطعی علم تک کے سفر کے درج ذیل پانچ مراحل ہیں:
1۔ کسی شے کے بارے میں بالکل نہ جاننا جہل یا جہالت کہلاتا ہے۔
2۔ انسان جب جہل سے نکل آئے اور اس کے ذہن میں کسی شے کے بارے میں ہلکا سا ادراک یا خیال پیدا ہو کہ شاید بات یوں ہو۔ ذہن میں اس موہوم سے خیال کا آنا اور اُس کیفیت سے نکل آنا جہاں بالکل سرے سے پتہ ہی نہیں تھا مکمل لا علمی تھی، یہ مرحلہ وہم کہلاتا ہے۔ یعنی جہل سے تھوڑا نکلے، ذہن نے کام کیا اور کچھ خیال آیا کہ یہ اس طرح بات ہے تو یہ وہم ہے۔ یعنی 0% سے زائد اور 50% سے کم جس قدر بھی علم حاصل ہو - خواہ 10% یا 20% یا 25% - یہ سارا دورانیہ وہم کا ہے۔
3۔ وہم کے بعد تیسرا مرحلہ شک کا ہے۔ شک جہالت اور علم کے درمیان میں ہے یعنی نصف جہل اور نصف علم۔ جب کسی شے کے بارے میں انسان کا وہم طاقت ور ہو جائے، کسی شے کے بارے 50% ذہن اثبات کا کہے کہ ’ہے‘ اور 50% ذہن نفی کی طرف راغب ہو کہ ’نہیں ہے‘ تو اس کیفیت کو شک یا ریب کہتے ہیں۔ مثلاً ہم قبلہ کی سمت معلوم کرنا چاہتے ہیں اور ہمارے پاس سمت معلوم کرنے کا کوئی آلہ یا مددگار بھی نہ ہو اور دو اَطراف کے درمیان ہمارا خیال برابر ہو جائے تو اس درمیانی کیفیت کو رَیب اور شک کہتے ہیں۔ شک کے مرتبے پر بھی حاصل معلومات کو علم نہیںکہہ سکتے۔
4۔ جہل سے نکل کر وہم میں آگئے تو یہ بھی علم نہیں ہے اور وہم سے نکل کر شک میں آگئے تو یہ بھی علم نہیں ہے۔ انسان جب شک کے مرتبے سے آگے نکلے اور اس کا خیال طاقت ور اور غالب ہو جائے تو اس کیفیت کو ظن یا گمان کہتے ہیں۔ اسی کیفیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ میرا ظنِ غالب یہ ہے، یعنی غالب خیال یا گمان یہ ہے۔ اس مرتبہ پر بھی معلومات علم نہیں کہلا سکتیں کیونکہ ظن میں بھی ابھی تک 25% شک موجود ہے۔
5۔ پانچواں درجہ یقین کا ہے۔ جہالت سے وہم، وہم سے شک، پھر شک سے گمان تک کا سفر طے کرنے کے باوجود ہم حاصل شدہ معلومات کو ’علم‘ نہیں کہہ سکتے۔ جب کسی شے کے بارے میں ہم 100% جان لیں کہ یہ چیز اسی طرح ہے تو اس کیفیت کو علم کہتے ہیں۔
علم ایک سفر ہے اور یہ سفر محنت کے بغیر طے نہیں ہوتا۔ انسان مسلسل کوشش، محنت، تحقیق، مطالعہ، جستجو اور تمام ذرائع کو استعمال کرتا ہوا جہالت سے یقین کی منزل تک پہنچتا ہے۔ اس یقین کا حصول علم کہلاتا ہے۔ گویا علم ایسے ادراک و معرفت کا نام ہے جہاں جہل، وہم، شک اور ظن کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
علم کی اس تعریف کی روشنی میں اگر ہم معاشرے کا جائزہ لیں تو اکثر لوگ ظن کو علم بنائے پھرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں جو اُن کے خیال میں ہے وہ اُسے ہی علم سمجھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہر شخص اپنے سے اختلاف رکھنے والے کو جاہل کہتا ہے۔ معاشرے میں علم کا رجحان نہ ہونے کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ ہمارے بہت سے علماء، اساتذہ اور طلبہ میں (اِلا ما شاء اللہ) یہ رُجحان پایا جاتاہے کہ ’جو کچھ وہ جانتے ہیں، کوئی دوسرا نہیں جانتا‘۔ آج ہر شخص کی طبیعت اور مزاج کا حصہ یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ ’جو کچھ میں جانتا ہوں بس یہی علم ہے۔‘
ہو سکتا ہے کہ کسی کا علم ابھی مرتبۂ وہم یا شک پر ہو اور وہ اپنے آپ کو عالم سمجھنے کی غلط فہمی کا شکار ہو۔ ہو سکتا ہے کہ جسے وہ حقیقت سمجھ رہا ہو، وہ حقیقت نہیں بلکہ ظن ہو اور اُس میں غلطی کی گنجائش بھی موجود ہو۔ مگر ہم ایسا نہیں سوچتے بلکہ اپنی معلومات کو ہی یقینی علم کے طور پر بیان کرتے ہوئے دوسروں کی تمام آراء کو یکسر مسترد کر دیتے ہیں۔ ہم اپنے اور علم کے ساتھ دیانت دار (honest) نہیں ہیں۔ تھوڑی بہت آگہی حاصل کرنے کے بعد خواہ وہ ایک ہی کتاب کے مطالعے تک محدود کیوں نہ ہو، ہم زور و شور سے غصے اور جلال کے ساتھ فتویٰ دیتے پھرتے ہیں۔ اختلاف کرنے والے کو سخت کلمات کہہ دیتے ہیں حتیٰ کہ بعض اوقات تو انہیں جاہل اور کافر تک قرار دینے سے نہیں چونکتے۔ علم کے مراحل سے ناواقفیت کی بناء پر ہم یہ نہیں دیکھتے کہ جس علم کے زور پر ہم فتویٰ دے رہے ہیں، اس کے کئی مرتبے، درجے، شرائط اور تقاضے ہیں۔ ممکن ہے کہ فتویٰ دینے والے کا علم اِن تمام مراحل، مراتب، درجات، شرائط اور تقاضوں کو پورا نہ کر رہا ہو اور اُس کا علم، علم نہیں بلکہ محض شک ہو۔
لہٰذا ہمیں دوسرے کو جہالت کی تہمت دینے سے قبل سوچنا چاہیے کہ ہماری اپنی تحقیق، معلومات، ادراک اور معرفت کس مرتبے پر ہے اور حقیقت تک پہنچنے میں کتنا مطلق مطالعہ، تقابلی مطالعہ (comparative study)، مختلف آراء کا جائزہ اور تحقیق چاہیے، اور اُس کے کیا کیا احکام، علّتیں، مصادر اور اسباب ہیں؟ ہم ان تمام حقائق کو مد نظر رکھ کر ہی اس حقیقی علم تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں جو علمِ نافع ہے اورجس سے حکمت جنم لیتی ہے۔
انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس کا علم بہت وسیع ہے، وہ کائنات کی حقیقتوں سے آگاہ ہے، وہ اپنی عقل سے اس کائنات اور اس کے خالق کو بخوبی سمجھ سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان کا علم بہت ہی قلیل اور اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود انتہائی محدود اور ناقص ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
هٰٓـاَنْتُمْ هٰٓـؤُلَآءِ حَاجَجْتُمْ فِیْمَا لَکُمْ بِهٖ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْمَا لَیْسَ لَکُمْ بِهٖ عِلْمٌ ط وَاللهُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَo
آل عمران، 3: 66
سن لو! تم وہی لوگ ہو جو ان باتوں میں بھی جھگڑتے رہے ہو جن کا تمہیں (کچھ نہ کچھ) علم تھا مگر ان باتوں میں کیوں تکرار کرتے ہو جن کا تمہیں (سرے سے) کوئی علم ہی نہیں، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں علم کے حوالہ سے تین حقیقتوں کا بیان فرمایا ہے:
1۔ انسان کو جزوی علم عطا کیا گیا۔
2۔ بہت سے علوم انسان کو سرے سے عطا ہی نہیں کیے گئے۔
3۔ علمِ الٰہی کی لا محدود وسعت کے مقابلے میں انسان کا علم کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔
علم کی بہت سی وسعتیں ہیں جن کا انسان کو سرے سے علم ہی نہیں دیا گیا یا اسے جزوی علم دیا گیا ہے جس کا دائرہ کار چند اُمور اور علوم کے پہلوؤں تک ہی محیط ہے۔ اس کے باوجود انسان کا رویہ اور مزاج یہ ہے کہ اپنے علم کے جزوی اور محدود ہونے کے باوجود صرف اپنی بات کے درست ہونے پر ہی اصرار کرتا ہے۔ یعنی جو علوم انسان کے حواس و عقل کے دائرے اور استعداد سے ماوراء ہیں، ان پر بھی انسان بحث کرتا اور جھگڑتا نظر آتا ہے۔
مذکورہ آیت کریمہ کی روشنی میں معلوم ہوا کہ علم کا غلط استعمال کرنے والے لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں:
1۔ کلیتاً علم نہ ہونے کے باوجود بحث و مباحثہ اور تکرار کرنے والے۔
2۔ جزوی علم کی بنیاد پر بحث و مباحثہ اور تکرار کرنے والے۔
1۔ بحث و تکرار کرنے والا ایک گروہ یا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو اُن علوم اور حقیقتوں پر بحث کرتے ہیں جن کا انہیں سرے سے کوئی علم نہیں ہوتا۔ یعنی وہ حقیقت جس کا حواس، عقل، وجدان، ذاتی ذرائع، جستجو اور تحقیق سے معرفتِ تامہ اور کامل علم نہیںحاصل ہو سکتا؛ اُس پر وہ جھگڑا کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ جن ذرائع سے اُس حقیقت کا علم ملنا تھا، انہوں نے ان ذرائع اور مآخذ کو چھوڑ دیا اور وہ اپنے ذاتی ذرائع علم، حواس، عقل، وجدان، تجربے اور مشاہدے کے ذریعے اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں؛ جبکہ وہ حقیقت انسانی ذرائع علم سے سمجھ میں آنے والی ہی نہیں۔ دوسرے لفظوں میں عقل اُس حقیقت کے اِدراک کا محل نہیں ہے۔ پھر بھی کتنے تعجب کی بات ہے کہ اس پرجھگڑالو لوگ مناظرے کرتے اور فیصلے صادر کرتے نظر آتے ہیں۔
2۔ بحث و تکرار کرنے والا دوسرا طبقہ وہ ہے جنہیں قلیل علم ہے۔ اس طبقے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی کو تیرنا نہ آتا ہو اور وہ ڈرتے ڈرتے دریا یا سمندر کے ساحل کے قریب پانی میں اترے۔ یہ پانی اس کی پنڈلیوں تک آئے مگر وہ اس میں محض اتنی حد تک داخل ہونے پر ہی دریا یا سمندر کی گہرائی اور وسعتوں کو جاننے کا دعویٰ کرنے لگے۔ اس جیسا دوسرا شخص جو اس سے کچھ آگے تک گیا ہو اور وہ اپنے مزاج کے مطابق سمندر کی گہرائی و وسعت پر بات کرے مگر دوسرا کہے کہ تمہاری یہ بات تو درست نہیں ہے۔ دونوں اشخاص اپنی اپنی بات کے درست ہونے پر باہم جھگڑا کرتے رہیں۔ وہ شخص جو نہ سمندر کی گہرائی میں کبھی گیا اور نہ کبھی جا سکا، جسے تیرنا ہی نہ آتا ہو، کیا ایسے شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ میلوں پر محیط سمندر کی تہہ اور وسعت کے متعلق بحث کرے؟
جب انسان اتنے تھوڑے علم کے ساتھ حقیقتِ علیا اور اس کلیت کی بات کرے گا تو ایسی بحث کا نتیجہ سوائے گم راہی کے اور کیا ہوگا؟ اس لیے کہ وہ شخص اُس حقیقت کو جاننے کا دعویٰ کر رہا ہے جس کی اسے خبرہی نہیں ہوئی۔ درحقیقت موصوف نے تو اس ذریعے کو چھوا بھی نہیں ہے جس ذریعے سے اسے حقیقت کا علم حاصل ہونا تھا۔
ہمارے ہاں کیمسٹری کا اسکالر فزکس پر کبھی بحث نہیں کرتا۔ فزکس کا پروفیسر بیالوجی پر کبھی بحث نہیں کرے گا۔ بیالوجی کا پروفیسر علمِ فلکیات (astronomy) پر کبھی بحث نہیں کرے گا اور کارڈیالوجی کا پروفیسر گردوں کے امراض پر بحث نہیں کرے گا۔ حالانکہ وہ بھی ڈاکٹر ہے اور بنیادی سائنسی چیزیں سب کو معلوم ہوتی ہیں۔ نیز یہ تمام علوم کسی نہ کسی حد تک ایک دوسرے کے ساتھ ملتے بھی ہیں مگر اس کے باوجود وہ اس خاص مضمون پر بحث نہیں کرے گا۔
کسی ایک مضمون کا ماہر کسی ایسے دوسرے مضمون کی حقیقت و کلیت پر بحث کرے جس کی وہ کچھ معلومات بھی رکھتا ہو تو یہ مناسب نہیں ہوگا کیونکہ اس کا علم جزوی ہے۔ اُس کی بحث سے شک، وہم اور گمان تو پیدا ہوگا مگر علم میسر نہیں آئے گا۔ افسوس! دینی علوم میں صورتِ حال اس سے یکسر مختلف ہے۔ یہاں تو صورت حال یہ ہے کہ جس ذریعۂ علم سے اُس حقیقت کی معرفت ہونا تھی، اُس ذریعۂ علم کو سرے سے چھوئے بغیر ہم اس پر بحث بھی کرتے ہیں اور قوم کی ذہن سازی کا فریضہ بھی ادا کرتے ہیں۔ نتیجتاً خود بھی گم راہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی بھٹکاتے پھرتے ہیں۔ ایسا رویہ علم کے باب میںہرگز دیانت دارانہ اور منصفانہ نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران میں قرآنی علم کی قطعیت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
هُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌ.
آل عمران، 3: 7
وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیتیں محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں۔
قرآن مجید کی اکثر آیات محکمات ہیں اور کچھ متشابہات میں آتی ہیں۔ محکمات وہ آیات ہیں جو اپنا معنی بالکل صاف، ظاہر اور واضح رکھتی ہیں اور اس معنی کی وضاحت، مفہوم اور مراد کو سمجھنے میں قاری، متعلم اور عالم کو کوئی مغالطہ و شبہ واقع نہیں ہوتا یعنی وہ آیات اپنے معنی میں خود صاف اور واضح ہوتی ہیں۔ قرآن مجید کا اندازِ کلام غور طلب ہے۔ یہ نہیں فرمایا:
اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌ.
کچھ آیات محکمات ہیں اور دوسری آیات متشابہ ہیں۔
بلکہاللہ تعالیٰ نے اس کے بر عکس فرمایا:
اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌ.
یعنی واضح معنی رکھنے والی آیات اُم الکتاب ہیں اور قرآن اور علم کی بنیاد ہیں۔ اس آیت میں اشارہ اس امر کی طرف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے علم کی بنیاد اُن آیات کو فرمایا ہے جن آیات کے معنی کو سمجھنے اور تعین کرنے میں کسی قسم کے شک و شبہ، ظن اور مغالطے کی گنجائش نہ رہے۔
وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌ یعنی کہ دوسری کئی ایسی آیات ہیں جن کے معنی میں احتمالات اور اشتباہ ہیں۔ جب آدمی انہیں پڑھتا اور سنتا ہے تو یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس آیت کا جو معنی اس کی سمجھ میں آیا ہے، اس کے علاوہ اس کا کوئی معنی ہی نہیں ہے حالانکہ ایسی آیات میں کئی معانی کا احتمال ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسی صورتِ حال میں سمجھنے میں غلطی واقع ہو سکتی ہے۔ عقائد کے باب میںجب مرجئہ، معتزلہ، ماتریدیہ، اشاعرہ اور اس طرح کے کئی مذاہب بنے تو ان میں سے بھی کئی مذاہب کو متشابہات کے معنی کے تعین میں مغالطے ہوئے۔ نتیجتاً انہی مغالطوں کی بنیاد پر اُن کے درمیان بحثیں، مناظرے اور مجادلے بپا ہوتے رہتے تھے۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ اس آیت کریمہ میں ’متشابہات‘ کے لفظ سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ان آیاتِ متشابہات میں کسی قسم کا شک و شبہ یا ظن پایا جاتا ہے۔ نہیں! نہیں! ایسا ہرگز نہیں ہے! اس لیے کہ جس میں شک کی گنجائش رہے وہ علم، علمِ قطعی نہیں ہے جبکہ قرآنی علم قطعی ہوتا ہے، اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش ناممکن ہے۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آیاتِ قرآنی میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں ہے تو پڑھنے، سننے اور سمجھنے والے کو اشتباہ کیوں ہو جاتا ہے؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جن آیات کے معانی ایک سے زائد تھے، اس سے وہ معنی مراد لے لیا جاتا ہے جو منشاء قرآن کے مطابق نہیں؟ اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت اگلی آیت کریمہ میں فرما دی ہے:
فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَآءَ تَاْوِیْـلِهٖ.
آل عمران، 3: 7
سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیراثر اور اصل مراد کے بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے۔
یعنی جن کے دلوں میں مرض ہوتا ہے وہ چنتے ہی اُن آیات کو ہیں جن کے اندر ایک سے زائد معانی کا احتمال ہوتا ہے۔ جن آیات کے معانی کو متعین کرنے میں اشتباہ یا مغالطے کی گنجائش پیدا کی جا سکے اور معنی متعین کرتے ہوئے پڑھنے اور سمجھنے والے کے ذہن کو متذبذب (confuse) کیا جا سکے۔ اس سارے عمل کا مقصد فتنہ پروری کے سوا کچھ نہیں ہوتا ہے۔ ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ قرآن کی متشابہ آیات کو بیان کرکے دین میں فتنہ و فساد پیدا کرکے لوگوں کو دین سے متنفر کیا جا سکے۔ لہٰذا فتنہ پرور لوگ ایک عام آدمی کو آیاتِ متشابہات کا ایسا معنی بیان کر دیں گے جو اس کی اصل مراد نہیں ہے۔ وہ اس عمل سے لوگوں میں شکوک و شبہات پیدا کر کے کہتے ہیں کہ قرآن میں تو ایسا ہی لکھا ہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ کیا مانیں اور کیا نہ مانیں؟ گویا معاذ اللہ قرآن کی بات ہدایت پر مبنی نہیں؟
فتنہ پرور، فسادی اور کجی والے دِلوں کا ایسی متشابہ قرآنی آیات کو تلاش کرنے کا دوسرا مقصد قرآن مجید نے وَابْتِغَآئَ تَاْوِیْـلِهٖ کے ذریعے فرمایا کہ وہ اس سے اصل مراد کی بجائے اپنی پسند کی تاویل لینا چاہتے ہیں۔ وہ ان کا کوئی من گھڑت معنی نکالنا چاہتے ہیں اور قرآن کے پیغام کو اصل مراد سے ہٹا کر اسے اپنے نفس کی سہولت پسندی کے مطابق منطبق کرنا چاہتے ہیں۔ گویا ایسے ناعاقبت اندیش لوگ قرآن کی آیات کا غلط استعمال (misuse) کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اسی آیت کریمہ کے اگلے حصے میں علم میں رسوخ یعنی پختگی حاصل کرنے والوں کی شان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗٓ اِلاَّ اللهُ م وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ج وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِo
آل عمران، 3: 7
اور اس کی اصل مراد کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، ساری (کتاب) ہمارے رب کی طرف سے اتری ہے، اور نصیحت صرف اہلِ دانش کو ہی نصیب ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آیاتِ متشابہات کے حقیقی معنی و مراد کے حوالے سے اپنا ذکر فرمانے کے بعد وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ فرما کر علم میں راسخ، پختہ و کامل اور تیقن کے حامل افراد کو یہ فضیلت عطا فرمائی ہے کہ علم کے باب میں انہیں اپنے ساتھ ملا کر ذکر کیا کہ ان آیات کا معنی، مراد، مفہوم اور صحیح پیغام اللہ تعالیٰ جانتا ہے یا اللہ تعالیٰ کے وہ بندے جانتے ہیں جو علم میں رسوخ (پختگی) رکھتے ہیں۔
قرآن مجید کی اس آیت کریمہ کے قراء ت کے اعتبار سے دو معانی ہیں:
1۔ ایک قراء ت کے اعتبار سے اس کا معنی یہ ہے: ’اللہ کے سوا اس کی اصل مراد کو کوئی نہیں جانتا اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے (کے سوا کوئی نہیں جانتا)۔‘
2۔ دوسرے طریق پر اس کا معنی یہ بھی ہے کہ ان آیات کا صحیح معنی و مفہوم اور تاویل اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور جو علم میں رسوخ رکھنے والے ہیں، اُن کی شان یہ ہے:
یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا.
کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، ساری (کتاب) ہمارے رب کی طرف سے اُتری ہے۔
گویا وہ سرِ تسلیم خم کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لانے کا اقرار کرتے ہوئے اُس کی کھوج پرکھ میں نہیں جاتے۔ علم میں راسخ اور پختہ لوگ جنہیں علمِ کامل اور معرفتِ تامہ نصیب ہوئی ہے اور جو وہم، شک اور ظن کے مقام سے نکل کر مرتبۂ یقین تک پہنچ گئے، اللہ تعالیٰ اُن پر اتنا انعام فرماتا ہے کہ انہیں شانِ تسلیم عطا فرما دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اَلرَّاسِخُوْنَ فِي الْعِلْم یعنی علم میں یقین اور پختگی کے حامل افراد کو شانِ تسلیم و رضا عطا فرماتا ہے۔ یہ شان کیا ہے؟ اسے سمجھنے کے لیے حسیت اور عقلیت کے دائرہ کار کو فلسفہ علم کے درج ذیل مراحل کے تناظر میں سمجھنا ہوگا:
1۔ یونان میں جب فلاسفہ (philosophers) نے حقیقتِ علیا یعنی خالقِ کائنات کو پانے اور اسے پہچاننے کی کوشش کی اور یہ جاننا چاہا کہ حتمی حقیقت (ultimate reality) اور سچائی کیا ہے؟ تو انہوں نے اس کی ابتدا حسیّت سے کی، یعنی جو کچھ اُنہیں حواسِ خمسہ سے معلوم ہوا، انہوں نے اُسے ہی حقیقت سمجھ لیا۔ یہ دراصل فلسفہ کی بنیاد تھی۔
2۔ پھر ایک مرحلہ یہ آیا کہ انہوں نے جانا کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو حواس سے بھی ماورا ہیں، جن کا علم حواس کے ذریعے نہیں ہو سکتا۔ ان حقیقتوں کو آنکھ نہیں دیکھتی، کان نہیں سنتے، زبان نہیں چکھتی، ناک نہیں سونگھتا اور ہاتھ نہیں چھوتا۔ لہٰذا صرف حواس سے حقیقت اور اُس کا ادراک نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ حسیت کے ناقص ہونے کے مشاہدہ کے بعد فلسفہ یعنی علم اگلے دور میں داخل ہوا اور اُنہوں نے عقل کو ہی سب کچھ قرار دے ڈالا۔ یعنی جس چیز کو عقل جانے اور سمجھے وہی حقیقت ہے۔ اُنہوں نے ایک مدت تک عقل کے ذریعے حقیقت کو پانے کی ناکام کوشش کی۔
3۔ بعد ازاں اُن پر یہ حقیقت بھی آشکار ہوگئی کہ عقل بھی حقیقت تک نہیں پہنچا سکتی کیونکہ عقل تو خود حواسِ خمسہ کی محتاج ہے۔ کان سن کر اپنا پیغام دماغ کو نہ بھیجیں تو عقل آواز کا ادراک نہیں کر سکتی، زبان چکھ کر اپنا پیغام نہ بھیجے تو عقل ذائقے میں امتیاز نہیں کر سکتی۔ ناک سونگھ کر اور ہاتھ چھو کر اپنا سگنل نہ بھیجیں، اپنا خیال (perception) نہ بھیجیں تو عقل فیصلہ نہیں کر پاتی۔ اس سے فلاسفر اس نتیجے پر پہنچے کہ حقیقت معقولات میں بھی نہیں آسکتی۔ گویا حقیقت محسوسات اور معقولات سے ماورا ہے۔ یعنی حواس اور عقل بھی حقیقت کو حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ہیں۔
4۔ اس کے بعد تشکیک کا دور آیا، یعنی وہ شک میں پڑگئے کہ اب کیا کریں؟ کس کو حقیقت مانیں اور اصل حقیقت کیا ہے؟
اس کے برعکس الراسخون في العلم یعنی جو ظن، شک اور وہم سے آزاد ہوتے ہیں اور یقین کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا.
آل عمران، 3: 7
اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، ساری (کتاب) ہمارے رب کی طرف سے اتری ہے۔
گویا وہ علم جس سے نور پھوٹتا ہے، اِنشراحِ صدر ہوتا ہے، جو علم ہر شک، ریب اور ظن کو دور کر کے مرتبۂ یقین تک لے جاتا ہے، وہ علم قرآن کے چشمے اور صدرِ نبوت یعنی حضور نبی اکرم ﷺ کے سینہ اقدس سے پھوٹتا ہے۔ وہ علم صحابہ کرام l، تابعین، اتباع تابعین، سلف صالحین، اولیائے کاملین اور ان کے متبعین کے طریق سے آتا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اس رہنمائی کو نہیں لیا اور خود اپنی عقل سے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کی، انہیں شک کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا اور وہ ہمیشہ تشکیک کی گرد میں مبتلا رہیں گے۔
علم میں رسوخ کی علامت یہ ہے کہ جب رسوخ بڑھ جائے تو دعویٰ نہیں رہتا بلکہ زبان پر یہی کلمہ رہتا ہے: اٰمَنَّا بِهٖ کُلُّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا یعنی ہم اس پر ایمان لائے، سب ہمارے رب کی طرف سے ہے۔ گویا انسان میں غرور، تکبر اور رعونت نہیں رہتی کیونکہ یہ سب فتور ہیں اور علم کے منافی ہیں۔ قرآن مجید نے واضح فرما دیا ہے کہ رسوخ فی العلم کے حاملین کو تسلیم (بن دیکھے ایمان لانے) کی نعمت عطا کی جاتی ہے۔ اس نعمت کے باعث ان کی طبیعتوںمیں انکار، تشکیک، جہل اور ظن سب کچھ ختم ہو جاتا ہے اور انہیں تذکیر کی نعمت عطا ہوتی ہے، جس سے ان کے اندر تسلیم و تفویض (خود کو اللہ کے سپرد کر دینا)، نصیحت، ہدایت، اللہ کے امر کی سچائی اور حکم کو آخری فیصلہ مان لینے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
علم میں رسوخ انسان پر واضح کر دیتا ہے کہ ہم مخلوق ہیں، لہٰذا ہم محدود ہیں۔ ہمارے حواس، علم، وجدان اور ذرائع سب کچھ محدود ہیں۔ اس کے برعکس ہمیں تخلیق فرمانے والا لامحدود ہے اور اس کی طرف سے وحی کی شکل میں جو علم آگیا وہی حقیقت ہے اور جو اس کے حبیب ﷺ نے بتا دیا وہی اٹل حقیقت ہے۔ جو چیز قرآن وحدیث میں بیان کر دی گئی ہے وہ عقل و فہم، تدبر و بصیرت اور تجربے میں آئے یا نہ آئے اسے بہرصورت تسلیم کیا جائے۔ گویا اللہ تعالیٰ جنہیں رسوخ فی العلم عطا فرماتا ہے وہ یہی اعتراف کرتے ہیں کہ میرے سمجھنے میں غلطی ہے، میری عقل و فہم محدود ہے، میرا مرتبۂ علم یہاں تک نہیں پہنچا کہ میں اس بات کی حقیقت کو جان سکوں۔ اللہ تعالیٰ کے حبیب مکرم ﷺ نے جیسے فرمایا اور جو فرمایا ہے وہی سچ، درست اور اٹل حقیقت ہے۔
جو چیز قرآن وحدیث سے ثابت ہو جائے، عقل، فہم، تدبر، بصیرت، تجربہ اُس کو مانتا ہے یا نہیں مانتا۔ اس کی سمجھ میں بات آرہی ہے یا نہیں، علم میں رسوخ رکھنے والا ہر چیز کو چھوڑ پسِ پشت ڈال کر اُس پر ایمان لائے گا جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ نے متعین فرما دیا ہے۔ اس صفت سے آراستہ لوگوں کو اس آیت کے آخر میں اُوْلُوا الْاَلْبَاب کہا گیا ہے۔
مومن کے لیے علم کا مرتبہ یہ ہے کہ جیسے اللہ کا فرمان ہے، اسی کو بلا چون و چراں تسلیم کر لیا جائے۔ جہاں تک شک میں مبتلا کیے بغیر لے جائے بس وہاں تک جایا جائے۔ جہاں دیکھے کہ عقل اب تشکیک میں مبتلا ہو رہی ہے، وہ کیسے اور کیوں کے چکروں میں پڑ رہی ہے، وہاں عقل کو خیرباد کہہ دے کہ اب اس سے آگے رسائی ممکن نہیں ہے۔ اب آگے امرِالٰہی ہے اور وہی حق اور سچ ہے۔ لہٰذا وہاں سرِ تسلیم خم کر دے۔ یہی علم میں رسوخ کی شان ہے۔
دورِ حاضر میں مادیت کے فتنوں میں سے ایک بڑا فتنہ عقل کی لامحدودیت کا تصور ہے۔ یہ فتنہ اتنا سنگین ہے کہ مسلمان کو ایمان کے نور سے محروم تک کر دیتا ہے۔ جب عقل ایک محدود شخصیت کا حصہ ہے تو وہ خود کیسے لامحدود ہو سکتی ہے؟ عقل ہمارے دماغ میں ہوتی ہے، دماغ ہماری کھوپڑی کے اندر ہے، ہمارا سر ہمارے بدن کا حصہ ہے اور بدن ہماری شخصیت کا حصہ ہے۔ ہم سر تا پا محدود ہیں۔ ہماری ہر صلاحیت، ہر عضو کی صلاحیت اور صلاحیتوں کی ساری حدود محدود ہیں۔ ایک ایسا وجود جو سارے کا سارا محدود ہو، وہ لا محدود کا ادراک بھلا کیسے کر سکتا ہے؟ عمر بھر تالاب میں رہنے والے سمندر کا تصور نہیں کر سکتے۔ بند غار میں رہنے والے کھلی دنیا کا تصور نہیں کر سکتے۔ عمر بھر اندھیرے میں رہنے والے روشن دنیا کا تصورکیسے کر سکتے ہیں؟ ہمارے سارے علوم کا تعلق ہماری طبائع، ہمارے اعضاء کی صلاحیتوں اور ہمارے محدود ادراکات کی استعداد سے ہے۔ لہٰذا ہمیں سمجھنا ہوگا کہ جب ہم لامحدود کے بارے میں فیصلہ محدود عقل و فہم سے کرنا چاہیں گے تو یہ بے عقلی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اسی لیے قرآن مجید میں بار بار فرمایا ہے:
وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِo
آل عمران، 3: 7
اور یہ نصیحت صرف اہل دانش کو ہی نصیب ہوتی ہے۔
یعنی دانش مندی یہی ہے کہ انسان لامحدود کو اپنی محدود صلاحیتوں سے قطعاً نہیں جان سکتا بلکہ تسلیم و رضا کا پیکر بنتے ہوئے، اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے احکامات کے آگے سر جھکا دیتا ہے۔ اُس کے بڑا عالم ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ جب اس سے کسی شے کی آخری حقیقت کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے: من نمی دانم ’میں نہیں جانتا‘۔ یہی بات سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بھی فرمائی ہے:
اَلْعِجْزُ عَنْ دَرْکِ الْإِدْرَاکِ إِدْرَاکٌ.
اَصل اِدراک، عدمِ اِدراک کا اِدراک ہے۔
یعنی یہ جان لینا کہ میں نہیں جانتا، یہ جان لینا کہ اس حقیقتِ علیا (ultimate truth) تک میں نہیں پہنچ سکتا، یہ جان لینا کہ اس کو سمجھنا میری ذاتی استعداد سے باہر ہے۔ جب انسان اس مقام پرپہنچ جاتا ہے تو یہی اصل علم ہے۔
اللہ تعالیٰ نے علماء کو اس قدر فضیلت عطا فرمائی کہ انہیں اپنی وحدانیت پر گواہ بنایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
شَهِدَ اللهُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّاهُوَ وَالْمَلٰٓئِکَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَآئِمًا م بِالْقِسْطِ ط لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُo
آل عمران، 3: 18
اللہ نے اس بات پر گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی (اور ساتھ یہ بھی) کہ وہ ہر تدبیر عدل کے ساتھ فرمانے والا ہے، اس کے سوا کوئی لائقِ پرستش نہیں وہی غالب حکمت والا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنی ذات پر گواہی میں اپنے ساتھ ملائکہ اور اَہلِ علم کا ذکر اکٹھا فرما کر علم اور اَہلِ علم کو بے پناہ فضیلت اور برتری عطا فرمائی ہے۔ یہاں اَہلِ علم سے مراد ’الراسخون فی العلم‘ اور ’أولوا الألباب‘ ہیں۔
علم کا سب سے بلند اور قوی ذریعہ وحی الٰہی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا انسانیت پر احسانِ عظیم ہے کہ علوم کے جو میدان انسان پر آشکار نہیں کیے گئے تھے، آپ ﷺ نے علم کے سب سے بلند اور قوی ذریعے یعنی وحی کے نور سے وہ علوم انسانیت کو عطا فرما دیے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰـتِهٖ وَیُزَکِّیْهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ ج وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰـلٍ مُّبِیْنٍo
آل عمران، 3: 164
بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول ( ﷺ ) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیتِ کریمہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے علمِ نبوت کی وسعتوں اور جہتوں کا ذکر کرتے ہوئے چار چیزوں کا تذکرہ فرمایا ہے:
اللہ تعالیٰ معلمِ حقیقی ہے اور اس کی مخلوق میں سے حضور نبی اکرم ﷺ معلمِ انسانیت ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے انسانیت اور خصوصاً مومنین کو جو علوم عطا فرمائے، اِس آیت کریمہ میں اس کی ترتیب نہایت قابلِ غور ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ قرآن کی تلاوت کے ذریعے دلوں کی تاریک کوٹھڑی اور باطن میں قرآن کا نور داخل فرماتے۔ اس نور کی برکت سے انسان کو نظر آتا کہ اُس کے مَن میں کیا ہے؟ دلوں، روحوں اور باطن میں کیا کیا غلاظت چُھپی ہوئی ہے؟ باطن میں کس قدر ریا، عجب، تکبر، دنیا پرستی اور شہوات پوشیدہ ہیں؟ گویا باطن میں قرآن کے نور کی روشنی نہ ہو تو یہاں رذائلِ اخلاق کی صورت میں موجود سانپ اور بچھو کے ہونے کا احساس بھی نہیں ہوگا۔ یہ روشنی ہوگی تو پتہ چلے گا کہ من اور باطن میں کیا چھپا ہوا ہے؟
حضور نبی اکرم ﷺ سے تلاوتِ آیات سننے والوں پر ان کا اپنا باطن ان پر روشن ہو جاتا اور انہیں اپنے باطن میں موجود بد خصلتیں اور رذائل دکھائی دینے لگتے۔ اس صورت حال میں ان کے اندر ایک تشویش لاحق ہوتی کہ ہمیں اپنے من کی صفائی کرتے ہوئے ان امراض کا علاج کرنا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں وہ حاصل ہونے والی اس روشنی کے سبب اندھیروں میں گرنے سے بچنے اور رذائل کو ختم کرنے کی جانب متوجہ ہوتے۔ گویا روشنی سے ادراک پیدا ہوتا ہے اور اسی سے تشویش لاحق ہوتی ہے جو دل کو علاج کے لیے راغب کرتی ہے۔ یہ روشنی ہی تو ہے جس سے ایک ہمت پیدا ہوتی ہے اور انسان اپنی اصلاح کا ارادہ کرتا ہے۔ جب اندر شوق پیدا ہو جاتا تو پھر وَیُزَکِّیْھِمْ کے مقصودِ بعثت کے تحت حضور نبی اکرم ﷺ ان کا تزکیہ فرماتے اور ان کے قلب و باطن کی صفائی فرماتے۔
جب تزکیہ ہو جائے، قلب و باطن کی طہارت مکمل ہو جائے اور دل کی زمین علوم و معرفتِ الٰہی کے حصول کی اَہل ہو جائے تو پھر نورِ نبوت ایسے قلوب کو علوم و معرفت کے خزانے عطا کرتا ہے۔ نتیجتاً وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ کے مصداق حضور نبی اکرم ﷺ پاکیزہ قلوب کو کتاب کا علم عطا فرماتے۔ کتاب کا علم علمِ نافع بنتا ہی تب ہے جب تزکیہ موجود ہو۔ تزکیہ نہ ہو تو خالی علم علمِ نافع اور برکت کا باعث نہیں بنتا۔
تزکیۂ نفس اور تعلیمِ کتاب کے نور کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ کا مومنین پر تیسرا بڑا احسان یہ ہے کہ آپ ﷺ انہیں حکمت و دانائی عطا فرماتے ہیں۔
ہم اگر تزکیہ نفس، قلب و باطن کی صفائی اور نورِ قرآنی و نورِ باطن کے بغیر علم حاصل کریں گے تو وہ معلومات و ادراکات تو ضرور ہوں گے مگر وہ ہمیں منزل تک نہیں پہنچا سکتا اور نہ ہی شک، وہم اور ظن کی گرد سے باہر نکال سکتا ہے۔ تلاوتِ آیات، تزکیہ نفوس، تعلیمِ کتاب اور حکمت یہ ساری چیزیں ملیں تو علم کامل ہو کر حقیقت کی پہچان کرواتا ہے۔ حضور ﷺ نے مومنین کو علوم کے یہ سارے انوار عطا فرمائے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیتِ کریمہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ان احسانات سے قبل لوگوں کی کیفیات کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰـلٍ مُّبِیْنٍo
اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
گمراہی، اندھیرے کا نام ہے اور علم، نور یعنی روشنی ہے۔ علم قرآن مجید سے مستنبط درج ذیل چار شرائط اور تقاضوں کو مکمل کرنے سے ہی علمِ نافع بنتا ہے:
1۔ قرآن کے نور سے باطن پر آگاہی ملی۔
2۔ تزکیۂ نفوس سے قلب و باطن کی صفائی ہوئی۔
3۔ قلب و باطن میں علمِ کتاب آیا۔
4۔ قلب و باطن میں حکمت و دانائی آئی۔
یہ چاروں چیزیں ملیں تو پھر گمراہی و ضلالت ختم ہوتی ہے اور کامل خیر نصیب ہوتی ہے۔ اس موقع پر انسان کے علم کا سفر مکمل ہو جاتا ہے۔
جب علم کی یہ دولت وسیلۂ نبوت سے حاصل ہو تو پھر اس کی حفاظت کا انتظام بھی اللہ تعالیٰ خود ہی فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ علم اور علماء سے پیار فرماتا ہے۔ جو علماء اپنے علم پر نہیں بلکہ محض اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں تو ربِ دو جہاں ان کی ہر حملے سے حفاظت فرماتاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَوْلَا فَضْلُ اللهِ عَلَیْکَ وَرَحْمَتُهٗ لَهَمَّتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْهُمْ اَنْ یُّضِلُّوْکَ ط وَمَا یُضِلُّونَ اِلَّآ اَنْفُسَهُمْ وَمَا یَضُرُّوْنَکَ مِنْ شَئٍ.
النساء، 4: 113
اور (اے حبیب!) اگر آپ پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ان (دغابازوں) میں سے ایک گروہ یہ ارادہ کر چکا تھا کہ آپ کو بہکا دیں۔جب کہ وہ محض اپنے آپ کو ہی گمراہ کر رہے ہیں اور آپ کا تو کچھ بگاڑ ہی نہیں سکتے۔
اس آیت کا خاص پس منظر یہ ہے کہ دغا بازوں کے ایک گروہ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو دھوکہ دینے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے حبیب! کوئی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، اس لیے کہ آپ ﷺ اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت کے سائے میں ہیں۔ آپ ﷺ معصوم ہیں اور اللہ کی رحمت اور اس کا فضل آپ ﷺ کی حفاظت فرما رہا ہے۔
اس آیت مبارکہ کے شان نزول میں امام ترمذی اور حاکم نے حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ایک مرتبہ رفاعہ بن زید کے بالا خانے سے اَشیاے خوردنی اور ہتھیار چوری ہوگئے۔ یہ چوری ہمارے خاندان سے تعلق رکھنے والے بنو اَبیرق میں سے ایک منافق بشیر بن اَبیرق نے کی تھی، لیکن اس نے اللہ تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھا کر کہا کہ یہ چوری لبید بن سہیل نے کی ہے، حالاں کہ وہ صالح مومن تھے۔ معاملہ بارگاهِ رسالت مآب ﷺ میں پہنچا تو آپ ﷺ نے فرمایا: جلد اس بارے میں فیصلہ کروں گا۔
جب بنو ابیرق کو پتہ چلا تو انہوں نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ! قتادہ بن نعمان اور ان کے چچا ہمارے نیک مسلمان گھرانے کا پیچھا کر رہے ہیں اور بغیر گواہوں اور ثبوت کے ان پر چوری کا الزام لگا رہے ہیں۔ اس کے بعد حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ حاضر خدمت ہوئے اور تمام تفصیل بتائی۔ آپ ﷺ نے انہیں کہا کہ تم ایسے گھرانے پر چوری کا الزام لگا رہے ہو جن کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ نیکوکار مسلمان ہیں، حالانکہ تمہارے پاس کوئی گواہ بھی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ثبوت موجود نہیں۔ ابھی زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے خود وحی کے ذریعے اپنے حبیب مکرم ﷺ کو ساری تفصیل سے آگاہ فرما دیا۔
اس آیت کے عمومی معنی سے یہ واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحمت اگر حاصل ہو تو پھر گمراہ کرنے والے عناصر و عوامل بھٹکا نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بنیادی چیز بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا:
وَاَنْزَلَ اللهُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَکَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَیْکَ عَظِیْمًاo
النساء، 4: 113
اوراللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے۔ اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو علمِ کامل ہی نہیں بلکہ علمِ اَکمل، علمِ اَتم، علمِ اَوسع اور علمِ کُل عطا فرما دیا۔ آپ ﷺ کو ہر وہ چیز سکھا دی اور اس کا علم عطا کر دیا جو آپ نہیں جانتے تھے۔ گویا اس اعلانِ ربانی کے بعد آپ ﷺ کی زندگی میں کسی شے سے متعلق بے خبری اور لاعلمی رہی نہیں۔ یہ حضور نبی اکرم ﷺ کا مرتبۂ علم ہے۔
وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ کا اعلان واضح فرما رہا ہے کہ آپ ﷺ اپنے ذرائع سے جو نہیں جانتے تھے، اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کے مرتبے کے ذریعے آپ ﷺ پر وہ تمام چشمہ ہاے علم کھول دیے اور اب آپ ﷺ وہ سب کچھ جان گئے جو کچھ آپ ﷺ کے علم میں نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکتے پر علم کو اپنا فضلِ عظیم قرار دیا ہے۔
اگر آیت کریمہ کے دونوں حصے آپس میں ملائیں تو مضمون واضح ہو جائے گا۔ اللہ رب العزت نے آیت کے پہلے حصہ میں فرمایا:
وَلَوْلَا فَضْلُ اللهِ عَلَیْکَ وَرَحْمَتُهٗ لَهَمَّتْ طَّآئِفَةٌ.
اور (اے حبیب!) اگر آپ پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ان (دغابازوں) میں سے ایک گروہ یہ ارادہ کر چکا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ آپ ﷺ کو بہکا دیتے بلکہ فرمایا یہ بہکانے کا ارادہ کر چکے تھے۔ آیتِ مبارکہ کے آخری حصے میں فرمایا:
وَکَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا.
اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔
مطلب یہ ہوا کہ اگر اللہ کا فضل اور رحمت ساتھ ہو تو پھر صاحبِ علم بہکتا یا پھسلتا نہیں، ٹھوکر نہیں کھاـتا اور نہ ہی گم راہ ہوتا ہے۔ گویا اللہ کا فضل اور رحمت اس کی حفاظت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر صاحبانِ علم کو متوجہ فرماتے ہوئے کہا کہ صاحبانِ علم اپنے علم پر بھروسہ نہ کریں بلکہ تواضع، عاجزی، اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبدیت اختیار کرتے ہوئے اس کے فضل اور رحمت کے طلب گار رہیں۔ جب اللہ کے فضل اور رحمت کے آگے جھکے رہیں گے، اُس کی رحمت پر بھروسہ کریں گے، اس کے فضل کی طرف رجوع کریں گے تو اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ان پرسایہ فگن ہو کر ان کی حفاظت کرے گی اور کوئی بھی انہیں متزلزل نہ کر سکے گا۔
اس مقام کو حاصل کرنے کے بعد پھر گم راہی پر مبنی کتب ہوں یا فتنہ پرور علماء، کوئی غلط بحثوں میں اُلجھائے یا غلط براہین و دلائل لائے؛ یہ سب کچھ مل کر بھی اس صاحبِ علم کو بہکا نہیں سکتے۔ یہاں اشارہ اس امر کی طرف ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر دلیل سے علمِ صحیح مل جائے۔ کبھی دلیل غلط سمت بھی لے جا سکتی ہے۔ یہ تمام گم راہ کن ذرائع انسان پر اثر انداز ہوتے ہیں اور بندہ بھٹک جاتا ہے۔ جب یہ تمام امکانات عہدِ رسالت مآب ﷺ میں موجود تھے تو آج کیوں نہیں کارفرما ہوں گے؟ آج تو اس سے بھی کہیں زیادہ موجود ہیں۔ قرآن کہہ رہا ہے کہ وہ طرح طرح کے دلائل دے کر ارادہ کر چکے تھے کہ معاذ اللہ آپ ﷺ کو بہکا دیں گے مگر بہکا نہیں سکتے تھے، کیونکہ اللہ کے فضل اور رحمت سے آپ ﷺ معصوم پیدا کیے گئے ہیں۔
علم اگر اللہ تعالیٰ کے فضل اوراس کی رحمت کے ساتھ جڑ جائے تو عالم کی حفاظت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کا حصول تکبر و رعونت، بحث و مناظروں سے نہیں ہوتا بلکہ اس کی رحمت تواضع، انکساری، بندگی و عبادت، اطاعت، عملِ صالح اور سجدہ ریزی سے آتا ہے۔ اگر بندہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو، اس کی مدد و نصرت اور اس کے فضل و رحمت کا سائل اور بھکاری ہو، اس کی مدد و نصرت پر بھروسہ کرنے والا اور عبادات و اعمالِ صالحہ کے ذریعے اس کی رحمت کی طرف رجوع کرنے والا ہو تو یہ ساری چیزیں اس کے علم کو اپنی حفاظت کے حصار میں لے لیتی ہیں۔
لہٰذا اگر مقصود یہ ہو کہ علم منزل تک پہنچائے اور علمِ کامل بنے تو اس کے لیے لازم ہے کہ سفرِ علم میں نہ صرف طالبِ علم کی حفاظت ہو، بلکہ اس کا علم بھی محفوظ رہے۔ سفرِ علم میں علم کی حفاظت، علم خود نہیں کرسکتا بلکہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہی اس کی حفاظت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت، بندگی، عبادت، اَعمالِ صالحہ، اَخلاقِ حسنہ اور تواضع و انکساری، توکل، رجوع الی اللہ اور اخلاص کے تمام ذرائع مل کر اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کا سامان مہیا کرتے ہیں، جو ہماری اور ہمارے علم کی حفاظت کرتا ہے۔ پھر یہی علم، علمِ نافع بنتا ہے۔ یہی علم بندے کو رب کی پہچان کرواتا ہے اور اُسے علم و عرفان کی اُن منزلوں تک پہنچا دیتا ہے کہ جہاں وہ مسجودِ ملائک اور محبوبِ خلائق بن جاتا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved