انسان ساری زندگی دُنیوی اور اُخروی ترقی اور درجات کی بلندی کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ہر صاحبِ نظر شخص خواہش مند ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت اسے دنیا و آخرت دونوں میں بلندی و کمال عطا فرمائے۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ بلندی، کمال اور رفعت کا حصول کیسے ممکن ہے؟ ہم میں سے اکثرلوگ اس حقیقت سے نا آشنا ہیں۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اللہ تعالیٰ نے درجات کی بلندی کا ذریعہ ’مجالس‘ کو قرار دیا ہے۔ پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کون سی مجالس اور کن لوگوں کی مجالس؟ آئیے اس سلسلے میں قرآن مجید سے رہنمائی لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
یٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قِیْلَ لَکُمْ تَفَسَّحُوْا فِیْ الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا یَفْسَحِ اللهُ لَکُمْ ج وَاِذَا قِیْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا یَرْفَعِ اللهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ لا وَالَّذِیْنَ اُوْتُو الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ط وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌo
المجادلة، 58: 11
اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ (اپنی) مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو کشادہ ہو جایا کرو، اللہ تمہیں کشادگی عطا فرمائے گا اور جب کہا جائے کھڑے ہوجاؤ تو تم کھڑے ہوجایاکرو، اللہ اُن لوگوں کے درجات بلند فرما دے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا، اور اللہ اُن کاموں سے جو تم کرتے ہو خوب آگاہ ہے۔
اس آیت کریمہ سے درج ذیل نکات اخذ ہوتے ہیں:
1۔ اس آیت کریمہ کے پہلے حصے میں ’المجالس‘ جبکہ آخری حصے میں ’العلم‘ کا ذکر ہے۔ ہمارے اِس تعلیم و تعلم کے تحریری سلسلے کا نام ’مجالس العلم‘ بھی قرآن مجید کی اسی آیت مبارکہ کے ان دو الفاظ سے ماخوذ ہے۔
2۔ اللہ رب العزت نے اس آیت مبارکہ میں مسلمانوں کو مجالس کے نشست و برخاست کے آداب سمجھانے کے بعد ارشاد فرمایا کہ اگر تم یہ آدابِ مجالس بجا لاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تم میں سے ایمان اور علم والوں کے درجات بلند فرمائے گا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے درجات کی بلندی اور مجالس کو باہم منسلک (correlate) کیا ہے۔
3۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مجلس میں بیٹھنے سے درجات کی بلندی تبھی نصیب ہوگی جب بیٹھنے والے کو کوئی روحانی و اُخروی نفع حاصل ہو اور اس کی خیر میں اضافہ ہو۔ بالفاظِ دیگر روحانی، اُخروی یا دینی کسی بھی اعتبار سے خیر میں اضافہ درجات کی بلندی کا باعث بنتا ہے۔ یاد رہے کہ ’خیر‘ میں اضافہ تبھی ہو تا ہے جب بیٹھنے والے کو مجلس سے درج ذیل دو چیزیں حاصل ہوں:
1۔ ایمان
2۔ علم
گویا کسی مجلس میں حاضری سے درجات کی بلندی کا حصول ’خیر‘ کے میسر آنے سے مشروط ہے اور ’خیر‘ کا اضافہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب اس مجلس العلم سے انسان ’ایمان‘ اور ’علم‘ کے نور سے منور ہو کر نکلے۔
اس ضمن میں ہمارے ذہن میں بہت سے سوالات سر اٹھاتے ہیں، مثلاً وہ کون سی مجالس ہیں جو بیٹھنے والوں کے ایمان اور علم میںاضافے کا باعث بنتی ہیں؟ کیسی مجالس اور کن اوصاف کے حامل ہم نشین کا انتخاب کرنا چاہیے؟ مجالس کے عنوان کیا ہوں؟ آئیے! اس سلسلے میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ان فرامین سے رہنمائی لیتے ہیں جن میں حضور نبی اکرم ﷺ نے ایسی مجالس اور ہم نشینوں کی صفات بیان فرمائی ہیں:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما، قَالَ: قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَيُّ جُلَسَائِنَا خَیْرٌ؟ قَالَ: مَنْ ذَکَّرَکُمُ اللهَ رُؤْیَتُهٗ، وَزَادَ فِي عِلْمِکُمْ مَنْطِقَهٗ وَذَکَّرَکُمْ بِالآخِرَةِ عَمَلُهٗ.
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! ہمارے بہترین ہم نشین کون ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس کا دیکھنا تمہیں اللہ کی یاد دلا دے، جس کا بولنا تمہارے علم میںاضافہ کرے اور جس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے اس حدیث مبارک میں صالح جلیس کی صحبت کے تین ثمرات ذکر فرمائے ہیں:
1۔ مَنْ ذَکَّرَکُمُ اللهَ رُؤْیَتُهٗ (جس کا دیکھنا تمہیں اللہ کی یاد دلا دے)
2۔ وَزَادَ فِي عِلْمِکُمْ مَنْطِقَهٗ (جس کا بولنا تمہارے علم میں اضافہ کرے)
3۔ وَذَکَّرَکُمْ بِالآخِرَةِ عَمَلُهٗ (جس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے)
گویا ہم نشین اگر نیک، عبادت گزار، متقی، اللہ سے محبت کرنے والے، علم و عقیدۂ صحیحہ کے حامل، صدقِ نیت اور اخلاص کے پیکر ہوں تو ان کے ساتھ مل بیٹھنے سے بھی خیر نصیب ہوتی ہے، ایمان اور علم کا نور حاصل ہوتا ہے، گناہوں کی بخشش ہوتی ہے اور درجات بلند ہوتے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اِن جامع کلمات کے ذریعے مجالسِ علم کی برکات، صحبتِ صلحاء کے اثرات اور مجالس کے انعقاد کے مقاصد واضح فرما دیے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی مجلس میں ظاہری طور کچھ بھی عمل نہیں کیا؛ محنت، ریاضت و مجاہدہ، نفل، تسبیح، تلاوت، الغرض کوئی خیر کا عمل نہیں کیا تو محض صالح شخص کی زیارت اور اُسے دیکھنا خیر کا عمل کیسے بن گیا؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کسی صالح جلیس (نیک ہم نشین) کے دیدار سے خیر اور برکت میسر آنا ایسے ہی ہے جیسے حضور نبی اکرم ﷺ نے متعدد احادیث مبارکہ میں مختلف ہستیوں اور اشیاء کی زیارت پر خیر و برکت کے حصول کی خوش خبری بیان فرمائی ہے۔
1۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اَلنَّظَرُ إِلَی الْکَعْبَةِ عِبَادَةٌ.
کعبہ کو دیکھنا عبادت ہے۔
2۔ دوسرے مقام پر فرمایا:
اَلنَّظَرُ إِلٰی وَجْهِ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ.
علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے۔
3۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
اَلنَّظَرُ إِلٰی وَجْهِ الْعَالِمِ عِبَادَةٌ.
دیلمي، مسند الفردوس، 4: 294، رقم: 6867
عالم کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے۔
4۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ وَلَدٍ بَارٍّ یَنْظُرُ إِلٰی وَالِدَیْهِ نَظْرَةَ رَحْمَةٍ إِلاَّ کَتَبَ اللهُ لَهٗ بِکُلِّ نَظْرَةٍ حَجَّۃً مَبْرُوْرَۃً.
(اولاد میں سے) جو صالح بیٹا بھی اپنے والدین کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھے گا تو اللہ تعالیٰ ہر نظر کے بدلے میں اس کے لیے مقبول حج کا ثواب لکھ دے گا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! چاہے وہ دن میں سو بار دیکھے تب بھی اُسے یہ اجر ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
نَعَمْ، اللهُ أَکْبَرُ وَأَطْیَبُ.
جی ہاں! کیونکہ اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے اور وہ سب (عیوب) سے پاک ہے (کہ اُس کے خزانوں میں عنایات کی کوئی کمی نہیں ہے)۔
الغرض حضور نبی اکرم ﷺ کی احادیث کی روشنی میں جیسے کعبۃ اللہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، عالمِ دین اور والدین کو دیکھنا خیر و برکت کا باعث ہے؛ اسی طرح صالح افراد کو دیکھنا، نیک متقی بندے کو سننا اور ان کی ہم نشینی اختیار کرنا بذاتِ خود (itself) عملِ خیر ہے۔
صالح لوگوں کی محض زیارت انسانی جسم اور روح پر کیا اور کیسے اثرات مرتب کرتی ہے؟ اس بات کو ہم مادی زندگی کی چند اَمثال کے ذریعے سمجھتے ہیں:
1۔ اگر کوئی شخص جسمانی طور پرتھکا ہارا اور طبیعت میں تلخی (depression) محسوس کرے تو ڈاکٹر اُسے سبزہ اور صاف ستھری کھلی فضاء میں کچھ لمحات گزارنے اور سیر کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔ اس خوش گوار فضا میں سانس لینے اور ہریالی، باغ، پھول، درخت، پانی، جھیل اور قدرتی مناظر کو دیکھنے سے اس کی طبیعت کو تازگی (freshness) ملتی ہے اور اعصابی تنائو کم ہوتا ہے۔
2۔ ماں باپ کو اپنی پیاری اولاد دیکھنے سے ایک فرحت حاصل ہوتی ہے۔
3۔ اپنے محبوب دوست کو دیکھنے سے طبیعت میں فرحت و تازگی آتی ہے اور انسان کا باطن اس خوش گوار تبدیلی کو اس قدر محسوس کرتا ہے کہ اس کیفیت کا اظہار لکھنے، پڑھنے اور بیان کرنے سے قاصر ہے۔
یہ قدرت کا نظام ہے کہ جس طرح چیزیں جسم پر اثرات مرتب کرتی ہیں اسی طرح اشیاء اور ماحول کے اثرات قلب و روح پر بھی رونما ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عالمِ مادیات میں انسان کو پانچ حواس عطا کیے ہیں۔ ان حواسِ خمسہ سے وہ دیکھتا، چھوتا، سونگھتا، چکھتا اور سنتا ہے۔ انہی پانچ حواس کے ذریعے انسانی جسم پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جب من پسند کھانے کا ذائقہ چکھتے ہیں تو ایک لطف محسوس ہوتا ہے۔ کئی لوگوں کو موسیقی سے فرحت ملتی ہے۔بعض لوگ نعت سنتے ہیں تو اس سے طبیعت میں راحت ملتی ہے۔ کچھ لوگ قوالی سنتے ہیں تو اس سماع سے ان پر ایک کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ گویا ظاہری طور پر خود کوئی عمل نہیں کیا، محض ماحول سے خوشبو کا جھونکا آیا توطبیعت تر و تازہ ہوگئی۔
اسی طرح ایک عالمِ قلب و روح بھی ہے۔ حواسِ خمسہ ظاہری کی طرح باطنی حواس یعنی روح کے احساسات بھی ہیں جن پر کیفیات طاری ہوتی ہیں۔ جب کوئی خوش اِلحان قاری قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کرتا ہے تو اس سے نہ صرف جسم پر اثرات وارد ہوتے ہیں بلکہ روح بھی معطر، منور اور سرشار ہو جاتی ہے اور نورِ ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ قرآن مجید روح کی اس کیفیت کا تذکرہ اِن الفاظ میں فرماتا ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰـتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُوْنَo
الأنفال، 8: 2
ایمان والے (تو) صرف وہی لوگ ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے) خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ (کلامِ محبوب کی لذت انگیز اور حلاوت آفریں باتیں) ان کے ایمان میں زیادتی کر دیتی ہیں اور وہ (ہر حال میں) اپنے رب پر توکل (قائم) رکھتے ہیں (اور کسی غیر کی طرف نہیں تکتے)۔
اسی طرح وضو اور غسل بھی باطنی طہارت کا ذریعہ ہیں۔ ظاہراً ہم جسم کو دھوتے ہیں، مگر اس وضو اور طہارت کا نور اور اثرات قلب و باطن میں بھی سرایت کر جاتے ہیں۔ جس طرح ہم پھولوں کی خوش بو محسوس تو کرتے ہیں لیکن اسے بیان یا تحریر نہیں کر سکتے، اسی طرح کسی اللہ کے مقرب اور صالح بندے کو دیکھنے اور اس کی مجلس میں بیٹھنے سے اسی طرح کے خوش گوار اثرات روح پر بھی مرتب ہوتے ہیں جنہیں محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
مندرجہ بالا اَمثال سے جب یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ماحول کے انسانی جسم اور روح دونوں پر اثرات مرتب ہوتے ہیں تو اس بات کو سمجھنا مشکل نہیں رہا کہ مجالس کے اثرات انسان کے ظاہر اور باطن دونوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ مجالس کے ذریعے انسان اپنے ظاہری و باطنی درجات میں بلندی کا حق دار بھی قرار پا سکتا ہے اور زوال کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا مجلس کے انتخاب میں احتیاط کا دامن لازم پکڑیں۔ صاحبِ مجلس منتخب کرتے ہوئے دیکھیں کہ کس کی مجلس میں بیٹھا جائے اور کس سے اجتناب کیا جائے۔ اگر مجلس گپ شپ، غیبت، چغلی، کذب، جھوٹ، مبالغہ آرائی اور ٹھٹھہ و مذاق کی ہوگی تو اس کے برے اثرات قلب و باطن اور روح پر مرتب ہوں گے۔ خواہ یہ مجلس مختصر ہو یا طویل، اپنے اثرات ضرور مرتب کرے گی۔
اگرچہ کوئی شخص بری مجلس میں خاموش بیٹھا رہے۔ وہ چاہے منہ سے کچھ نہ کہے محض سنتا رہے تب بھی برائی کے اثرات اس کے ظاہر و باطن پر ضرور مرتب ہوں گے۔ کیونکہ قوتِ سماعت و بصارت کے ذریعے وہ شریک نہ ہونے کے باوجود اپنے باطن کو گدلا کر رہا ہے۔ ماحول کی برائی کے بُرے اثرات آنکھوں اور کانوں کے ذریعے اس کے اندر داخل ہو رہے ہیں۔ ہمیں ماحول میں جوکچھ سنائی اور دکھائی دے رہا ہوتا ہے، یا جو کچھ ہم سونگھتے اور محسوس کرتے ہیں، یہ ساری کیفیات (feelings) ایک تصور بناتی ہیں، پھر انسان کے اندر نفسیات بنتی ہیں، جو ایک دماغی ماحول بنانا شروع کر دیتی ہیں۔
اگر عام دنیوی مجالس اپنے اچھے یا برے اثرات رکھتی ہے تو مجالس العلم کے اثرات بھی ان مجالس میں شریک ہونے والا محسوس کرتا ہے۔ اللہ رب العزت نے انہی اثرات کا ذکر اس آیت کریمہ میں فرمایا ہے:
یَرْفَعِ اللهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ لا وَالَّذِیْنَ اُوْتُو الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ.
المجادلة، 58: 11
اللہ اُن لوگوں کے درجات بلند فرما دے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا۔
قرآن مجید کی مذکورہ آیت کریمہ جہاں یہ واضح کر رہی ہے کہ مجالس سے انسان کے ظاہر اور باطن دونوں پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور مجالس العلم درجات کی بلندی کا باعث بنتی ہیں، وہاں مذکورہ آیت سے یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ اِن مجالس کے اثرات انسانی اعمال پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کے آخر میں ارشاد فرمایا:
وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌo
المجادلة، 58: 11
اللہ اُن کاموں سے جو تم کرتے ہو خوب آگاہ ہے۔
اس آیت کریمہ میں مجالس کے آداب، ایمان اور علم کا بیان ہے جبکہ عمل کا کوئی ذکر بیان نہیں ہوا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اختتام پر فرمایا کہ ’اللہ اُن کاموں سے جو تم کرتے ہو خوب آگاہ ہے‘۔ ان اختتامی کلمات میں اس جانب اشارہ ہے کہ اس آیت کریمہ کے بیان سے جو ماحول پیدا ہو رہا ہے، وہ پڑھنے والے کو ایک خاص طرزِ عمل کی طرف لے جائے گا اور قاری اپنے اندر عمل کی ایک نہج کو متعین کرے گا۔ یعنی اس آیت کریمہ سے عمل کا تعین ہو رہا ہے کہ انسان کیسے عمل کرنے والا بنے گا اور عمل کس طرح اس کی زندگی پر اثرات مرتب کرے گا۔ لہٰذا وہ جیسے بھی اعمال کا مرتکب ہوگا، اللہ تعالیٰ ان تمام اعمال کو خوب جاننے والا ہے۔ اگر کسی مجلس سے علم اور ایمان میں اضافہ ہوا تو لازمی بات ہے کہ مجالس میں شریک افراد سے نیک اعمال صادر ہوئے ہوں گے اور اگر کسی مجلس میں شرکت کرنے والا اپنے نامۂ اعمال کو گناہوں کی سیاہی سے کالا کرتا رہا تو واضح ہو جائے گا کہ اُس نے بُری مجالس کا انتخاب کیا۔ گویا اس کے اعمال سے اس کی مجالس کے خیر اور شر ہونے کا تعین ہو جائے گا۔
یہاں ضمناً عرض کرتے چلیں کہ زیر بحث آیت کریمہ کی روشنی میں حسبِ ذیل اُصولِ تفسیر بھی واضح ہو رہے ہیں:
1۔ قرآن مجید میں جس بھی مقام پر یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا کے کلمات کے ساتھ خطاب کیا گیا ہے وہاں اس سے مراد دو قسم کے لوگ ہوں گے:
(1) یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا کے خاص اور اولین مخاطب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں کہ قرآن ان سے خطاب کر رہا ہے اور حضور نبی اکرم ﷺ کے ذریعے ان کی تعلیم و تربیت فرما رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ اوامر و نواہی قرآن مجید کے ذریعے نازل فرمائے، اس کے پہلے مخاطب، سامعین، متعلمین اور مستفیدین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے۔
(2) یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا کے دوسرے مخاطب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی وساطت سے قیامت تک آنے والی حضور ﷺ کی جمیع اُمت ہے یعنی حضور ﷺ کا ہر امتی اس خطاب کا مخاطب ہے۔
2۔ اسی طرح قرآن مجید میں جہاں یٰٓـاَیُّهَا النَّاسُ کے کلمات کے ذریعے خطاب کیا گیا ہے تو اس سے اُس وقت کے غیر مسلموں کو مخاطب کیا جاتا تھا۔ وہ غیر مسلم، کفار و مشرکینِ مکہ ہوں یا ہجرت کے بعد مدینہ میں آباد غیر مسلم افراد۔ یعنی جب یٰٓـاَیُّهَا النَّاس کہتے تو اس حکم کے اولین مخاطب (خاص مخاطب) کفارِ مکہ تھے جبکہ مسلمان اور تمام غیر مسلم مخاطبِ ثانی (عام مخاطب) تھے۔ مگر ان کے بعد اب قیامت تک ہر انسان خواہ وہ مسلم ہے یا غیر مسلم اس آیت کریمہ کا مخاطب ہے۔
3۔ تفسیر کے اعتبار سے یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ مکی سورتوں میں یٰٓـاَیُّهَا النَّاس جبکہ مدنی سورتوں میں یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا۔ مدنی سورتوں میں اگر خطابِ عام مطلوب ہوتا تو اہلِ ایمان اور غیر اہلِ ایمان سب کے لیے یٰٓـاَیُّهَا النَّاس کے کلمات سے خطاب کیا جاتا۔
4۔ کتبِ تفسیر میں ایک ہی آیت کے کئی اسبابِ نزول بیان کیے جاتے ہیں حالانکہ آیت تو ایک ہی وقت میں اُتری تھی اس کی وجہ کیا ہے؟ مثلا کوئی آیت غزوۂ بدر، اُحد یا خندق کے موقع پر اُتری؛ یا ہجرت، صلح حدیبیہ، غزوہ تبوک یا حجۃ الوداع کے موقع پر اُتری یا سفر و حضر میں اُتری تو کیا وجہ ہے کہ اُس کی کئی کئی شانِ نزول بیان کیے گئے ہیں؟ حالانکہ روایات، اطلاق اور انطباق میں فرق ہوتا ہے؟
یاد رہے کہ ہر آیت کا شانِ نزول بھی دو طرح کا ہوتا ہے:
1۔ خاص
2۔ عام
1۔ جب کبھی کسی خاص موقع یا کسی معاملہ پر رہنمائی کی ضرورت پیش آئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق کسی بات کو سمجھنے کے لیے کوئی سوال کیا یا کوئی حادثہ پیش آیا یا کوئی صورتِ حال (situation) سامنے آئی تو اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر کچھ آیات نازل فرما دیں۔ یہ خاص موقع اس آیت کے نزول کا سبب یا شانِ نزول کہلایا۔
2۔ دورِ رسالت، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین اور اتباع التابعین کے زمانے میں پھر اُس جیسا کوئی واقعہ پیش آتا تو اس خاص واقعہ سے مماثلت کی وجہ سے کہتے: نزلت في کذا وکذا (یہ آیت اس وقت، ایسے موقع اور اسی مسئلہ کے لیے اُتری تھی)۔ یعنی اس آیت کے معنی کا جہاں جہاں اطلاق ہوا، تمام مواقع اس آیت کے شانِ نزول میں ذکر کر دیے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی وضاحت کر دی جاتی تھی کہ یہ آیت فلاں موقع پر فلاں واقعہ کے لیے نازل ہوئی تھی۔
لہٰذا ائمہ اُصولِ تفسیر نے اِس فرق کو واضح کیا کہ ـتاریخی سببِ نزول تو ایک ہی ہے اور وہی نزولِ خاص کا سبب ہے۔ مگر موارد، اطلاقات، احکام کی توسیع و تطبیق اور تنفیذ و انطباق کے اعتبار سے آیت کے ذیل میں مذکور تمام واقعات اَسبابِ نزول میں بالعموم داخل ہیں۔
مجالس العلم کی اَہمیت اور مذکورہ آیت کریمہ سے کچھ اُصول و قواعدِ تفسیر جاننے کے بعد آئیے! اب احادیثِ نبویہ کی روشنی میں مجالس العلم کی اہمیت سے آگہی حاصل کرتے ہیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے مجالس العلم کو جنت کے باغات قرار دیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا مَرَرْتُمْ بِرِیَاضِ الْجَنَّةِ فَارْتَعُوْا.
جب تم جنت کے باغات کے پاس سے گزرو تو (وہاں) بیٹھ کر فراخی کے ساتھ کھایا پیا کرو۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا:
یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَمَا رِیَاضُ الْجَنَّةِ؟
یا رسول اللہ! جنت کے باغات کیا ہیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
مَجَالِسُ الْعِلْمِ.
علم کی مجالس۔
متعدد کتب احادیث میں یہ حدیث مجلسِ ذکر کے الفاظ کے ساتھ بھی آئی ہے۔ یعنی حضور نبی اکرم ﷺ نے مجالسِ ذکر کو جنت کے باغ قرار دیا ہے۔ یہ احادیث باہم متعارض نہیں، کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مجالس العلم در حقیقت مجالس الذکر ہی ہیں۔ کیونکہ علم میں ذکر کا معنی بھی پایا جاتا ہے۔ علم جامع ہے۔ خالی ذکر میں علم کا پورا معنی نہیں پایا جاتا مگر علم میں ذکر کا معنی بھی پایا جاتاہے۔
مجالسِ علم، مجالسِ ذکر سے افضل ہیں اور مجالسِ علم میں سے وہ مجالس جو دینی علوم کی تفہیم پر مشتمل ہوں، جن میں قرآن و حدیث سے مسائل کا حل اخذ کرنے، دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے غور و فکر کیا جائے؛ ایسی مجالس، عمومی مجالس العلم سے بڑھ کر فضیلت کی حامل ہوتی ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ایسی ہی مجالس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے جسے حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے یوں روایت کیا ہے:
خَرَجَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ذَاتَ یَوْمٍ مِنْ بَعْضِ حُجَرِهٖ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا هُوَ بِحَلْقَتَیْنِ إِحْدَاهُمَا یَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ وَیَدْعُوْنَ اللهَ، وَالْأُخْرٰی یَتَعَلَّمُوْنَ وَیُعَلِّمُوْنَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: کُلٌّ عَلٰی خَیْرٍ هٰؤُلَائِ یَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ وَیَدْعُوْنَ اللهَ فَإِنْ شَاءَ أَعْطَاهُمْ وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُمْ، وَ هٰؤُلَائِ یَتَعَلَّمُوْنَ وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا فَجَلَسَ مَعَهُمْ.
وفي روایة: یَتَفَقَّھُوْنَ وَیَتَعَلَّمُوْنَ.
رسول اللہ ﷺ ایک روز اپنے کاشانۂ اقدس سے باہر تشریف لائے اور مسجد میں داخل ہوئے۔ وہاں دو حلقات منعقد تھے: ایک حلقہ قرآن کی تلاوت کر رہا تھا اور اللہ سے دعا کر رہا تھا اور دوسرا تعلیم و تعلم کا کام سر انجام دے رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: دونوں بھلائی پر ہیں۔ یہ حلقہ قرآن پڑھ رہا ہے اور اللہ سے دعا کر رہا ہے، خدا چاہے تو اس کی دعا کو قبول فرمائے، چاہے نہ قبول فرمائے۔ دوسرا حلقہ تعلیم و تعلم میں مشغول ہے اور میں بھی معلم بنا کر مبعوث فرمایا گیا ہوں۔ یہ فرما کر آپ ﷺ اس حلقے میں بیٹھ گے۔
ایک روایت میں ہے: (دوسری مجلس کے لوگ) فقہی مسائل سمجھ رہے تھے اور ان کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے دونوں مجالس کو خیرپر مبنی قرار دیا۔ لیکن وہ مجلس جو فہمِ دین (دینی و فقہی مسائل کو سیکھنے اور سکھانے) کی تھی جس میں لوگ علم حاصل کر رہے تھے، نہ جاننے والوں کو دین سمجھا رہے تھے، آپ ﷺ نے اس مجلس کو تعلیم دینے کی وجہ سے افضل قرار دیا۔ اس کے بعد مزید فضیلت بیان کرتے ہوئے اپنی بعثت کا مقصد بھی واضح فرما دیا کہ مجھے بھی تعلیم دینے کے لیے مبعوث فرمایا گیا ہے۔ معلمِ انسانیت حضور ﷺ نے اس دوہری فضیلت کے تذکرے کے بعد خود عملاً شرکت فرما کر مجالسِ فہم دین میں شرکت کو اپنی سنتِ مبارکہ بنا دیا۔گویا حضور نبی اکرم ﷺ نے مجالس العلم کو اس قدر اہمیت عطا فرمائی کہ ایک طرف آپ ﷺ نے حلقۂ ذکر و علم میں سے حلقۂ علم کا انتخاب فرمایا اور دوسری طرف تعلیم و تعلم کو اپنے منصب کے طور پر بیان فرمایا۔
مجلسِ علم کو مجلسِ ذکر پر فضیلت دینے کی کیا وجہ ہے؟ ایک طرف اللہ کا ذکر، عبادت اور مناجات ہے جبکہ دوسری طرف دین کی تفہیم اور فقہ کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ وضو، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، طہارت، عبادات، اخلاق، معاملات، مناکحات اور معاشرت کے اصول بتائے جا رہے ہیں۔ یہ مجلس اُس مجلسِ ذکر سے کیسے افضل ہوگئی جس میں ایک بندہ اپنے مالک و مولیٰ سے لو لگائے ہوے اُسے منانے میں مصروف ہے؟
مجلسِ علم کو مجلسِ ذکر پر حاصل فضیلت کے کئی اسباب ہیں:
1۔ پہلا سبب یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے خود علم کی مجلس میں بیٹھنے والے لوگوں افضل قرار دیا کہ تعلیم و تعلم کا کام کرنے والے افضل ہیں کہ وہ ایک پیغمبرانہ فریضہ ادا کر رہے ہیں اور جاہل دنیا کو علم کا نور فراہم کر رہے ہیں۔ تعلیم و تعلم شیوۂ انبیاء ہے، اسی لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا کے الفاظ کے ذریعے اپنے اس منصب کا اظہار فرمایا۔ لہٰذا وہ لوگ جو بعثتِ محمدی کے مقصد کو آگے بڑھانے کی جدوجہد کر رہے ہیں، وہ ذکر کرنے والوں پر فضیلت رکھتے ہیں، کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ تعلیم و ترویجِ اسلام کی جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ خود تشریف فرما ہوئے۔
2۔ مجلسِ علم کو حاصل فضیلت کا دوسرا سبب یہ ہے کہ بالعموم جب آدمی دعا کرتا ہے تو اپنے لیے کرتا ہے۔ اپنی پریشانی دور کرنے، صحت یابی، کامیابی، ہدایت، اولاد، جنت، بخشش، دنیوی اُمور میں کامیابی، اُخروی کامیابی یا اللہ تعالیٰ کی قرب و رضا کے حصول کی دعا کرتا ہے۔ عام عادت یہی ہے کہ اولاً بندہ اپنے لیے مانگتا ہے، جبکہ تعلیم و تعلم کا عمل اس کے برعکس ہے۔ ’تعلّم‘ اپنے لیے تاکہ اپنے اندر سے جہالت نکلے اور ’تعلیم‘ دوسروں کو جہالت سے نکالنے کے لیے ہے۔ تعلیم کے کام میں تمام انسانیت کی فلاح پوشیدہ ہے۔ جب معلم پڑھاتا ہے تو وہ دوسرے کی خیر مانگتا ہے، دوسرے کو صحیح راہ پرچلاتا ہے اور اس عمل سے اسے خود بھی نور اور ہدایت ملتی ہے۔ لہٰذا وہ عمل جس میں آدمی دوسرے کے لیے خیر چاہے، دوسروں کے لیے نفع بخشی کا ذریعہ بنے، وہ عمل درجہ کے اعتبار سے اُس عمل سے بہت بلند ہے جس میں انسان صرف اپنے لیے ہی اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا اور طلب گار رہتا ہے۔ چنانچہ مجالس العلم کا درجہ حضور نبی اکرم ﷺ کے مذکورہ فرمان کے مطابق مجالس العبادۃ سے بھی بڑھ کر ہے۔
جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا خَیْرَ فِي قِرَائَةٍ إِلَّا بِتَدَبُّرٍ، وَلَا عِبَادَةَ إِلَّا بِفِقْهٍ، وَمَجْلِسُ فِقْهٍ خَیْرٌ مِنْ عِبَادَةِ سِتِّیْنَ سَنَهً.
تدبر (اور غور و فکر) کے بغیر تلاوت میں کوئی بھلائی نہیں ہے، نہ ہی دین میں سمجھ بوجھ کے بغیر کوئی عبادت ہے اور فقہ کی ایک مجلس ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔
مجالس العلم کی اہمیت اس بات سے بھی واضح ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے علماء، حکماء اور اولیاء و عارفین کی مجالس کو مُردہ دلوں کے اِحیا (زندگی) کا ذریعہ قرار دیا ہے کہ ان کی مجالس میں بیٹھنے اور ان کی باتوں کو غور سے سننے سے اللہ تعالیٰ مُردہ دلوں کو زندہ فرما دیتا ہے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ لُقْمَانَ قَالَ لِابْنِهٖ: یَا بُنَيَّ، عَلَیْکَ بِمُجَالَسَةِ الْعُلَمَاءِ، وَإسْتَمِعْ کَلَامَ الْحُکَمَاءِ. فَإِنَّ اللهَ یُحْیِي الْقَلْبَ الْمَیِّتَ بِنُوْرِ الْحِکْمَةِ کَمَا یُحْیِي الأَرْضَ الْمَیِّتَةَ بِوَابِلِ الْمَطَرِ.
حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو (نصیحت کرتے ہوئے) کہا: میرے بیٹے! علماء کے پاس لازمی بیٹھنا اورحکماء کی گفتگو غور سے سننا کیونکہ اللہ تعالیٰ مُردہ دل کو نورِ حکمت سے زندہ کرتا ہے جس طرح کہ وہ مردہ زمین کو زور دار بارش سے حیات بخشتا ہے۔
اِس حدیث مبارک میں علماء، خطباء، طلبہ اور مبلغین کے لیے ایک نصیحت آموز پہلو یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے جو کلمات ارشاد فرمائے، وہ آپ ﷺ سے پہلے حضرت لقمان علیہ السلام نے بیان فرمائے تھے۔ آپ ﷺ نے وہ کلمات بیان فرماتے ہوئے ان کا حوالہ (نام) ذکر فرمایا کہ حضرت لقمان علیہ السلام نے یہ کلمات ادا فرمائے تھے۔ بھلا یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ حالانکہ ایسے اقوال حضور نبی اکرم ﷺ کی اپنی تعلیمات کا بھی حصہ ہیں اور آپ ﷺ خود بھی ایسے ہی احکام فرمایا کرتے تھے۔
حضرت لقمان علیہ السلام کے حوالے سے ان کے کلمات کو ارشاد فرمانے سے اُمت کو تربیتی حوالے سے اس جانب متوجہ کرنا مقصود تھا کہ آپ ﷺ نے افضل الرسل ﷺ ہونے کے باوجود حضرت لقمان علیہ السلام کے نام کو اس خیال سے چھپایا نہیں کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کیا سمجھیں گے کہ تاجدار کائنات، افضل الرسل، خاتم الانبیاء اور سید المرسلین ﷺ، سب سے بلند مرتبے پر فائز ہیں لیکن وہ حضرت لقمان علیہ السلام کے قول کو نقل کیوں فرما رہے ہیں؟
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس تو حضور ﷺ کی ذات کے سوا کوئی ذریعہ علم نہیں تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے تو علم کا منبع و مصدر محض حضور ﷺ کی ذات ِ بابرکات تھی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس کوئی کتاب نہ تھی کہ وہ گھر جا کر تصدیق کر سکتے کہ یہ قول تو حضرتِ لقمان حکیم کا ہے۔ اس کے باوجود آپ ﷺ کا یہ فرمانا دیانت اور امانت کا بلند و اعلیٰ ترین مرتبہ ہے۔ آپ ﷺ نے اس عمل کے ذریعے اُمت کو سنت عطا کی ہے کہ جس کا قول ہو اُسے اُسی کی نسبت سے بیان کیا جائے۔
لہٰذا طالبانِ علم، خطباء و واعظین اور محققین پر لازم ہے کہ جب کوئی چیز بیان کریں تو اس کا ماخذ بھی ضرور بتائیں کہ وہ اقتباس کس سے لیا گیا ہے؟ کس امام کا قول ہے؟ کس کتاب سے مطالعہ کیا ہے؟ بیان کرنے والے پر لازم ہے کہ اس کے متعلق اپنے سامعین کو بتائیں۔ تدریس کا مسنون طریقہ یہی ہے۔
بعض لوگ تقریر یا تحریر میں ماخذ کا حوالہ نہیں دیتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید سامعین و قارئین کہیں کہ یہ تو فلاں کی بات سنا رہا ہے اور اس طرح ان کی حیثیت کم ہو جائے گی؛ لوگ سمجھیں گے کہ اس کا علم کم ہے جو دوسرے کی بات کا سہارا لے رہا ہے۔ ایسا سوچنا نہ صرف حماقت اور سنتِ نبوی کے خلاف ہے بلکہ علمی خیانت بھی ہے۔ ماخذ بیان کرنے سے مرتبہ کم نہیں ہوتا بلکہ بلند ہوتا ہے۔ اس سے بیان کرنے والے کی ثقاہت میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کی بات کو زیادہ معتبر اور معتمد سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ جس کا حوالہ دے رہا ہے وہ علم میں اُس سے اونچا درجہ رکھتا ہے۔ پس علم میں اونچے درجے کی حامل شخصیت کا حوالہ و سند دینے سے بیان کرنے والے کی بات کی حیثیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
ہمارے ہاں مصدر اور ماخذ بتائے بغیر بات کرنا عام عادت ہے، تاکہ لوگ سمجھیں کہ یہ اتنا بڑا عالم، محقق اور مستخرج ہے کہ اتنی بڑی بات اپنی طرف سے کہہ رہا ہے۔ اس سے اس کا مقصود اپنی تعریف و توصیف کروانا اور اپنے علم کی دھاک بٹھانا ہوتا ہے کہ لوگوں میں اسے شہرت و نام وری حاصل ہو۔ بعض احباب تو مصدر یا حوالہ بیان کرنے کی بجائے یہ بیان کردیتے ہیں: ’اللہ تعالیٰ نے یہ بات ابھی ابھی میرے دل میں ڈالی ہے‘؛ ’یہ نکتہ ابھی ذہن میں آیا ہے‘؛ ’اس سے پہلے یہ کسی نے بیان نہیں کیا۔‘
یاد رکھیں! ایسا کلام صریحاً باطل اور کذب ہے، ہمیں ایسے گناہوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ علم دودھ کی طرح پاکیزہ شے کا نام ہے۔ اس میں ایسے پلید اعمال کو داخل کر نے سے یہ ناپاک ہو جاتا ہے اور اس سے برکت اُٹھ جاتی ہے۔ لہٰذا جو بات یا نظریہ جہاں سے لیں اس ماخذ، واسطہ اور وسیلہ کا ذکر ضرور کریں۔ جو آدمی واسطہ، مصدر اور ماخذ کو چھپاتا ہے، وہ برکت اور مزید فیض سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس منبع و مصدرِ علمی سے جو فیض اسے ملنا تھا، اس نے اپنے عمل سے خود اپنے آپ کو اس سے محروم کر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ جن زبانوں اور اذہان کو دعوت و تبلیغِ حق کے لیے منتخب کرتا ہے، انہیں چاہیے کہ وہ سچ بولیں اور خیر کا کلمہ بیان کریں۔ وہ تصور کریں کہ میں علم کا چشمہ ہوں، مصدر نہیں اور پھر اس چشمے کی اصل اور ماخذ کو بیان کریں، اس سے مصدر و ماخذ کا فیض اور توجہ بھی نصیب ہوتی ہے۔
ماخذ کا حوالہ دینا تمام ائمہ حدیث و تفسیر کا معمول تھا۔ تمام کتب کو پڑھیں، ہر جگہ ائمہ حوالے دیتے ہیں کہ ’فلاں نے یہ کہا‘، ’فلاں نے یہ کہا‘۔ ان تذکروں کے ساتھ کتب کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ ائمہ کا یہ معمول نہیں تھا کہ وہ اس طرح کہیں کہ ’میری اپنی معرفت اتنی ہو گئی ہے کہ میں اللہ کی معرفت کی باتیں خود بیان کر رہا ہوں‘۔ لہٰذا جس سے کوئی بات لی جائے، اس کا حوالہ دینا نہ صرف ضروری ہے بلکہ علمی دیانت کا تقاضا بھی ہے۔
یاد رہے کہ علم کا حوالہ دینے میں یہ ہرگز ضروری نہیں ہے کہ جس کا حوالہ دیا جائے وہ رتبے میں بھی بڑا ہی ہو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کئی صحابہ نے تابعین سے روایت کیا اور اپنی سندِ حدیث میں ان کا نام لیتے ہیں۔ تابعین نے کئی مرتبہ تبع تابعین سے روایت کی اور ان کا نام لیا۔ صحابہ اکابر ہیں اور تابعین اصاغر ہیں۔ اس کے باوجود تابعی سے روایت کر کے اپنی سند میں بتا رہے ہیں کہ سَمِعْتُ عَنْ فُـلَان کہ میں نے فلاں تابعی سے یہ بات سنی۔ یہ اس لیے کہ وہ تابعی اپنے تمام حلقاتِ علم میں معتمد اور معتبر ہے، اس کی ثقاہت اور صداقت پر اعتماد ہے۔ لہٰذا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس احساسِ کم تری میں مبتلا نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی یہ سوچتے تھے کہ وہ مجھ سے چھوٹا ہے، میں اس کا حوالہ کیوں دوں؟ اپنا حوالہ کیوں نہ دوں!
علمِ حدیث کا اُصول ہے کہ اگر کوئی محدث اپنے شیخ / استاد (جس سے روایت لی ہے) کا نام نہیں لیتا تو وہ ائمہ حدیث کے ہاں ’مدلّس‘ کہلاتا ہے۔ نام چھپانے کا یہ عمل ’تدلیس‘ ہے یعنی محدث نے اپنے سے اوپر والے کا نام چھپایا اور یہ واضح نہیں کیا کہ اس حدیث کو اس نے کس سے لیا؟ لہٰذا اس کی تدلیس کے باعث محدثین نے اس پر بحث کی ہے کہ ’مدلّس‘ کی بات کو مانا جائے یا نہیں؟
سمجھانا یہ مقصود ہے کہ علم اور علم کی سند کو پاک، صاف، ستھرا اور متصل رکھیں، تاکہ آپ کی بات زیادہ مستند اور پختہ تسلیم کی جائے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved