کس میں اتنا یارا ہے کہ آپ ﷺ کی چشمانِ مقدسہ کا حسن احاطۂ تحریر میں لا سکے۔آپ ﷺ خود فرماتے ہیں:' میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ کچھ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے'۔آپ ﷺ کی آنکھیں سیاہ،بڑی اور طبعی طور پر سرمگیں تھیں اور ان میں سرخ رنگ کے ڈورے بھی تھے۔نبی اکرم ﷺ کی آنکھیں سیاہ تھیں، جو خوب صورتی کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔آپ ﷺ کی آنکھوں کی سفیدی میں سرخ رنگ کے ڈورے پڑے ہوئے تھے جو آنکھوں کی انتہائی خوبصورتی کی علامت ہوتے ہیں۔آپ ﷺ کی پلکیں دراز اور بھنویں باریک اور گتھی ہوئی تھیں۔ شارحین کے نزدیک دراز پلکیں مردوں کے لیے قابلِ تعریف صفت ہے۔پتلی مبارک گھنی سیاہ تھی۔آپ ﷺ کی مقدس آنکھوں کا یہ اعجاز ہے کہ آپ ﷺ بہ یک وقت آگے پیچھے، دائیں بائیں، اوپر نیچے،دن رات، اندھیرے اجالے میں یکساں دیکھا کرتے تھے([90])۔
86. عَنْ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ: كَانَ ﷺ أَدْعَجَ الْعَيْنَيْنِ، أَهْدَبَ الْأَشْفَارِ([91]).
حضرت علی رضی اللہ عنہ (رسول الله ﷺ کا حلیہ مبارک بیان کرتے ہوئے) فرماتے ہیں: آپ ﷺ کی چشمانِ مقدسہ سیاہ، اور پلکیں دراز تھیں۔
87. وَعَنْهُ رضی اللہ عنہ قَالَ: كَانَ أَهْدَبَ الْأَشْفَارِ، أَسْوَدَ الْحَدَقَةِ([92]).وَرُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ مِثْلُهُ([93]).
حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں: آپ ﷺ کی پلکیں دراز تھیں اور آپ ﷺ کی چشمانِ مقدسہ کی پُتلیاں گہری سیاہ تھیں۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے
88. عَنْ أُمِّ مَعْبَدٍ رضی اللہ عنہما، قَالَتْ: فِي عَيْنَيْهِ ﷺ دَعَجٌ، وَفِي أَشْفَارِهِ وَطَفٌ([94]).
حضرت اُم معبد رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ ﷺ کی آنکھیں سیاہ اور بڑی تھیں، جب کہ آپ ﷺ کی پلکیں دراز تھیں۔
89. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی اللہ عنہ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ أَشْكَلَ الْعَيْنَيْنِ([95]).
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی آنکھوں میں سرخ رنگ کے ڈورے تھے۔
90. وَعَنْهُ رضی اللہ عنہ قَالَ: كُنْتُ إِذَا نَظَرْتُ إِلَيْهِ قُلْتُ: أَكْحَلُ الْعَيْنَيْنِ، وَلَيْسَ بِأَكْحَلَ([96]).
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ میں جب بھی حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف دیکھتا توسمجھتا شاید آپ ﷺ کی آنکھوں میں سرمہ لگا ہوا ہے، حالانکہ سرمہ لگا ہوا نہ ہوتا تھا (یعنی چشمانِ مقدسہ طبعی طور پر ہی اِس قدر سرمگیں تھیں)۔
91. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما، قَالَ: فَيَقُوْلُ أَبُوْ طَالِبٍ: وَيُصْبِحُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، دَهِيْنًا كَحِيْلًا([97]).
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت ابو طالب حضور نبی اکرم ﷺ کے بارے میں کہا کرتے تھے: جب بھی رسول اللہ ﷺ بیدار ہوتے ہیں، آپ ﷺ کے سرِ انور میں تیل اور آنکھوں میں سرمہ لگا ہوتا ہے۔
([90]) 1۔ زرقانی، شرح المواهب، 5 /642
2۔ سیوطی، الخصائص الکبری، 1/16
([91]) أخرجه الترمذي في السنن، كتاب المناقب، باب ما جاء في صفة النبي ﷺ، 5/599، الرقم/3638، وأيضًا في الشمائل المحمدية/33، الرقم/7، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/328، الرقم/31805، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/149، الرقم/1415، وابن سعد في الطبقات الكبرى، 1/411، والنمىري في أخبار المدينة، 1/319، الرقم/968، وابن عبد البر في الاستذكار، 8/331، وأيضًا في التمهيد، 3/29-30، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 3/261، وابن الجوزي في صفة الصفوة، 1/153، والفسوي في المعرفة والتاريخ، 3/303.
([92]) أخرجه المقدسي في الأحاديث المختارة، 2/316، الرقم/695، وابن سعد في الطبقات الكبرى، 1/412، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 3/250، والفسوي في المعرفة والتاريخ، 3/299.
([93]) أخرجه الطبراني في مسند الشامیین، 3/19، الرقم/1717، والبیهقي في دلائل النبوة، 1/214، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/269، وذکره ابن کثیر في البدایة والنهایة، 6/17، والسیوطي في الخصائص الکبری، 1/125.
([94]) أخرجه الحاكم في المستدرك، 3/10، الرقم/4274، والطبراني في المعجم الكبير، 4/49-50، الرقم/3605، وابن حبان في الثقات، 1/125-126، وابن سعد في الطبقات الكبرى، 1/230-231، وابن عبد البر في الاستىعاب، 4/1958-1959، الرقم/4215، وابن الجوزي في صفة الصفوة، 1/139، وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 8/279.
([95]) أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الفضائل، باب في صفة فم النبي ﷺ وعينيه وعقبيه، 4/1820، الرقم/2339، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/86، 88، 97، 103، الرقم/20831، 20848، 20950، 21024، والترمذي في السنن، كتاب المناقب، باب في صفة النبي ﷺ، 5/603، الرقم/3647، وأيضًا في الشمائل المحمدية/38-39، الرقم/9، وابن حبان في الصحيح، 14/199، الرقم/6288، والحاكم في المستدرك، 2/662، الرقم/4195.
([96]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/97، الرقم/20955، والترمذي في السنن، كتاب المناقب، باب في صفة النبي ﷺ، 5/603، الرقم/3645، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/328، الرقم/31806، وأبو يعلى في المسند، 13/453، الرقم/7458، والطبراني في المعجم الكبير، 2/244، الرقم/2024، والحاكم في المستدرك، 2/662، الرقم/4196.
([97]) أخرجه ابن سعد في الطبقات الكبرى، 1/120، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 3/86، وذكره ابن الجوزي في المنتظم، 2/283، وابن كثير في البداية والنهاية، 2/283، والسيوطي في الخصائص الكبرى، 1/141، والحلبي في السيرة الحلبىة، 1/189، والملا علي القاري في جمع الوسائل، 1/31.
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved