ابتدائے آفرینش سے تادمِ ہنوز انسانی معاشرہ اس بات کا متقاضی ہے کہ افراد خود کو معاشرے کا اہم رکن تصور کرتے ہوئے اُس کی ضرورتوں کا خیال رکھیں اور اپنے اوپر عائد ہونے والے مختلف فرائض و ذمہ داریاں ادا کریں۔ چنانچہ انسانی ضرورتوں کی تکمیل انسان ہی کے ذمہ ہے، ہم کسی کے کام آئیں گے تو کوئی ہمارے بھی کام آئے گا۔ الغرض معاہدۂ عمرانی کے اِسی بنیادی اُصول کی بنا پر معاشرے میں مختلف الاقسام پیشے اور مہارتیں تشکیل پذیر ہوئے۔ ہر فرد اپنی انفرادی طبیعت، رجحان، استعداد اور صلاحیت کے پیشِ نظر معاشرے میں اپنی ذمہ داریوں کا تعین کرتا ہے اور انسانی معاشرے میں پنپنے والی مقابلے کی فضا میں اپنا بھر پور کردار ادا کرتا ہے۔
معاشرتی زندگی میں جہاں بدنی و جسمانی تقاضوں کی تکمیل کے لیے، کسان سے لے کر ڈاکٹر اور انجینئر تک کی ضرورت پڑتی ہے وہاں روحانی تقاضوں کی تکمیل کے لیے دین کے خدمت گاروں کی اہمیت کو بھی کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ رب العزت کے عطا کردہ نظامِ حیات اور دینِ مصطفوی کی تبلیغ و ارشاد پر جو لوگ متعین ہوتے ہیں اُن کا چناؤ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت سے ہوتا ہے۔ خدمتِ دین کی توفیق محض اللہ رب العزت کے فضل و کرم اور اُس کے احسان کی وجہ سے ہی نصیب ہوتی ہے۔ جس شخص سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے اسے اپنے دین کی خدمت کے لیے منتخب فرما لیتا ہے۔
اس حقیقت سے کسی کو مفر نہیں کہ ہر نیکی کی توفیق اللہ رب العزت ہی عطا فرماتا ہے ورنہ ازخود کوئی فرد بشر کسی نیک کام کرنے کا مختار نہیں۔ لہٰذا اللہ کے دین کی خاطر جو بھی جس طرح پر اس کے استحکام اور اس کی اقامت و احیاء کے لئے تگ و دو اور مجاہدہ کرتا ہے اس کو یہ توفیق اور استطاعت و صلاحیت بھی صرف اللہ تعالیٰ ہی دینے والا ہے کسی کو اگر اس نے اس منصب عظمیٰ پر فائز کر رکھا ہے یا جس سے بھی آج تک اس ذات بے ہمتا نے اپنے دین کا کام لیا ہے۔ اس خدمت دین میں اس شخص کا ذاتی کمال اس کی اس خدمت کا باعث نہیں بنا بلکہ محض لطف خداوندی اور احسان ایزدی سے اس کا چناؤ ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی آیت کریمہ میں بندوں سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي الله بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ.
المائدة، 5 : 54
’’اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اللہ تعالیٰ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا۔ جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہو گا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے۔‘‘
اس آیت کریمہ کا نفس مضمون بھی یہی ہے کہ تم میں سے اگر کوئی اس دین متین سے انحراف کر لے اور اس کی ترویج و اشاعت کے فریضہ سے منہ موڑ لے وہ یہ نہ سمجھے کہ اب دین کا کام رہ جائے گا بلکہ یہ آیت اپنے سیاق و سباق سے واضح کر رہی ہے کہ دین اسلام کی خدمت جن ہاتھوں میں بھی ہو خواہ وہ ایک فرد ہے یا جماعت کوئی طبقہ ہے یا قوم جسے بھی خدمت دین کا کام سپرد کیا جائے وہ یہ جانے کہ اس پر یہ اللہ کا کرم ہوا ہے کہ اس ذات خداوند قدوس نے اسے اس قابل بنایا۔
یہاں یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ توفیق دے کر خدا نے اسے اس قابل سمجھا بلکہ مقام بندگی کے عین مطابق یہی ہے کہ وہ یہی کہے کہ اس ذات نے مجھے اس قابل بنایا۔ قابل سمجھنا تو تب ہوتا ہے جب قابلیت اس کی اپنی پیدا کردہ ہو۔ یہ تو براہ راست اللہ رب العزت ہی عطا کرتا ہے وہ جسے دیتا ہے اس میں قابلیت آتی ہے اور اسے پھر خدمت دین کی توفیق بھی مرحمت فرماتا ہے۔ پس یہ توفیق اور چناؤ محض اس ذات کا فضل ہے اور بندہ نوازی ہے۔ نیز یہاں یہ بات بھی واضح کر دی کہ تم دین کی خدمت اور اسلام کی خاطر اگر جہاد کرتے ہو تو یہ تمہارے اوپر اللہ کا بے پایاں فضل و احسان ہے۔ کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ ہم دن رات محنت و کاوش کر کے اللہ پر یا اس کے دین پر احسان کرتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں اس کے بندوں کی کوئی کمی نہیں۔ جو ذات کن کہہ کر زمین و آسمان کو عدم سے وجود بخش سکتی ہے، وہ چاہے تو تمہارے علاوہ کسی اور قوم کو بھی دین کی خدمت کے اہل بنا سکتی ہے۔
اس کی بارگاہ میں تو کروڑہا صاحب حسن و جمال اورصاحب ہنر و کمال دست بستہ کھڑے رہتے ہیں اور اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ کب محبوب کا اشارہ اَبرو ہو، اور ہمیں اذن ملے تو ہم اپنی زندگیاں اس کی راہ میں کھپا دیں۔ پس جسے بھی یہ سعادت میسر ہے وہ خوش نصیب ہے۔
وہ ذات تو اتنی بے نیاز اور بااختیار ہے کہ اگر دین اور اپنے گھر کی حفاظت کرانے پر آئے تو ابابیل سے یہ خدمت لے لے اور ان کی چونچوں سے پتھر کی کنکریاں گرا کر لشکر کفار کے ہاتھیوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دے۔ یہ اس مالک حقیقی کی مرضی ہے چاہے تو معصیت کیشوں کو اِقامت دین کے کام پر لگا دے۔ چاہے تو نیکوکار اور متقی لوگوں کو، اس پر کوئی پابندی نہیں اور نہ کوئی قید، بس اس کی نگاہِ انتخاب ہے جس پر پڑ جائے وہی مستعد ہو جاتا ہے۔
اسی آیت کریمہ کے آخر میں فرمایا گیا۔
ذَلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ.
المائده، 5: 54
’’یہ (انقلابی کردار) اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔‘‘
یہاں یہ واضح فرما دیا کہ اگر تمہیں اللہ کے دین کی خدمت کی توفیق ملے تو اسے اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یا دین اسلام پر احسان تصور نہ کرو کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تم پر احسان ہے کہ تم اس قابل ٹھہرے ورنہ تم سے ہزاروں بہتر افراد اور تم سے بڑھ کر صلاحیتوں کے مالک لوگ اس دنیا میں موجود ہیں۔ اس بارگاہ میں قبولیت اور رسائی کثرت مال و زر یا علم کی زیادتی پر منحصر نہیں بلکہ جس پر فضل و کرم کی نگاہ پڑ جائے وہی مقبول بارگاہ ایزدی ہو جاتا ہے:
جسے چاہا در پہ بلا لیا جسے چاہا اپنا بنا لیا
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
اس دنیا میں بہت سے ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کو اللہ نے علم و عمل کی وافر دولت عطا کی لیکن خدمت کا فریضہ ان کے سپرد نہیں کیا۔ اس دنیا میں قارون جیسے دولت مند بھی آئے جن کے ہاں دولت و ثروت کی کوئی کمی نہ تھی مگر ساری زندگی اسی دولت کے پجاری بنے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے بھی اپنے دین کی کوئی خدمت نہیں لی وہ اسی مال و دولت کی پوجا کرتے کرتے واصل جہنم ہو گئے لیکن دین اسلام کی خدمت کی توفیق میسر نہ آ سکی۔
اس جہان آب و گل میں وہ بھی آئے ہیں جو بڑی بڑی افرادی و عسکری قوتیں رکھتے تھے جن کے پاس بڑے اقتدار تھے، ان کے اختیارات میں بڑی وسعت تھی لیکن ان کی یہ سب قوتیں اور طاقتیں اور خود مختاریاں ان کی آخرت سنوارنے کی بجائے ان کی بربادیوں کا باعث بن گئیں۔ وہ تاریخِ عالم کے بدترین اشخاص فرعون و نمرود سے منسوب ہو گئے۔ اپنے اختیارات کو خداوند قدوس کے مقابلے میں استعمال کرنے لگے اور خدائی کے دعویدار بن بیٹھے۔ ان کا علم، ان کی دولت، ان کی حکومت اور ان کا جاہ و منصب خدمت دین اور نصرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلے میں کام نہ آ سکا۔ اس لئے کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی ذاتی صلاحیتوں یا اس کے پاس موجود علم و عقل کی دولت کی وجہ سے اسے یہ خدمت سونپتا ہے نہیں وہ جسے چاہتا ہے یہ تمام صلاحیتیں دے کر بھی اس سعادت سے محروم رکھتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس کی مفلسی اور کم علمی کے باوجود اس وصف سے ہمکنار کر دیتا ہے۔
اس لئے یہاں انسان کو یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ اے انسان! اگر تیری ناکاریوں، نااہلیوں اور کوتاہیوں کے باوجود تجھ پر اللہ کا کرم ہے اور تیرے ظاہری و باطنی عیوب و نقائص کے باوجود وہ ذات تجھے اس سعادت میں شریک کئے ہوئے ہے تو اس ذات کا ہمیشہ شکرگزار اور احسان مند رہ اور اس کے اس احسان کا شکر اس طرح ادا کر کہ اگر تیرے دن رات اس میں کھپ جائیں اور تیرے جسم کو ریزہ ریزہ بھی کر دیا جائے تب بھی اللہ کے اس ایک احسان کا شکر بجا نہیں لا سکتا۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب ہم میں سے کسی کو بھی اپنے دنیوی کاروبار میں کسی دکان پر، کسی فیکٹری میں یا کسی اور جگہ جہاں مختلف پیشہ ور اور صاحب ہنر لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے تو انہیں رکھتے وقت ہر طرح سے موزوں، چاک و چوبند اور مستعد افراد کا چناؤ کیا جاتا ہے۔ اگر بالفرض کسی بھی اعتبار سے کوئی کمزور شخص کام کر رہا ہے اور اس کے مقابلے میں وہی کام کرنے کے لئے اس سے بہتر شخص میسر آ جائے تو ہم بغیر کسی سوچ و بچار اور حیل و حجت کے اس بہتر آدمی کو متعین کر دیتے ہیں۔ اسی طرح دوران سروس کسی شخص کے علم، عمل، کردار، عقل و تدبر یا فرض شناسی میں تھوڑا سا نقص واقع ہو یا وہ غفلت برتے تو وہ شخص کسی صورت میں بھی قابلِ برداشت نہیں رہتا۔ اسے ہم فوراً نکال دیتے ہیں۔ ہم انسان ہو کر دوسرے انسان کی غفلت یا نقص برداشت نہیں کرتے حالانکہ ہم خود ان جیسی بے شمار غفلتوں اور کوتاہیوں سے لت پت ہوتے ہیں مگر ہوتا یہ ہے کہ ہمیں حتی الوسع اعلیٰ صلاحیت کے مالک اور بہتر نفع بخش افراد کی تلاش رہتی ہے اور معمولی غلطی کرنے والے کو اپنی دکان یا دفتر وغیرہ میں قطعاً برداشت نہیں کرتے اسے فوراً نوکری سے فارغ کر دیتے ہیں یہ انسان کا حوصلہ اور ظرف ہے۔ لیکن ہم یہاں اللہ رب العزت کا ذکر کر رہے ہیں جو ستار العیوب بھی ہے اور غفور الرحیم بھی۔ مندرجہ بالا انسانی عمل کے مقابلے میں جب اس کی عنایات اور ستر پوشیوں پر نظر ڈالی جائے تو بے ساختہ ماننا پڑتا ہے کہ وہ رب کتنا غفور الرحیم ہے ہم جیسے ناکارہ نااہل جو بندگی میں بھی ناقص ہیں علم و عمل میں بھی نکمے ہیں، کردار میں بھی غلیظ ہیں، ظاہر و باطن میں بھی گندے ہیں الغرض کسی اعتبار سے بھی اس قابل نہیں کہ بارگاہ رب ذوالجلال میں حاضر بھی ہو سکیں اور کجا اس بارگاہ کی مقبولیت اور نوکری کی نسبت!
ہم جو سراپا شرمندگی و ندامت ہیں اور گناہوں کی کثرت کی بناء پر اس قابل بھی نہیں کہ ہمیں زندہ رکھا جائے لیکن اس ذات کی کرم نوازیوں کا یہ عالم ہے کہ اس قدر کوتاہیوں اور غفلتوں کے باوجود ہم جیسے ناکارہ لوگوں کو اپنے دین کا نوکر رکھا ہوا ہے۔ اس عظیم سعادت سے محروم نہیں رکھا، اپنے در سے دھتکارتا نہیں، اپنی نوکری سے ہمیں نہیں نکالا، بدستور اپنی رحمتوں سے نواز رہا ہے۔ حالانکہ وہ اگر چاہتا تو ہمارے عمل کی بنا پر ہمیں دھتکار دیتا اور کہہ دیتا کہ جاؤ! تم سے بہتر خدمت کرنے والے اور اعلیٰ صلاحیتوں والے موجود ہیں مگر پھر بھی وہ درگزر کر رہا ہے۔ اس لئے کہ وہ رب صرف نیکوکاروں کا رب نہیں گنہگاروں کا بھی رب ہے، وہ تو انہیں بھی محروم نہیں رکھتا جو سرے سے اس کا وجود ہی تسلیم نہیں کرتے۔
رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ وَبِکَ نَسْتَعِيْنُ.
اگر اللہ نے تجھے اپنے دین پر مال خرچ کرنے کی توفیق عطا کی ہے تو شکر کر اگر اس مال کو تو دریا کی طرح اس کی راہ میں بہا دے تو بھی شکر کا سر جھکائے رکھ عین ممکن ہے کہ وہ تیرے مال کو ٹھکرا دے اور کسی اور کو یہ توفیق عطا کر دے پھر تو کہاں جائے گا؟ اور اس مال کو کیا کرے گا؟ کیونکہ یہ مال و دولت کے انبار تجھے قارون تو بنا سکتے ہیں مگر اللہ کی رضا کے حصول کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ یہ ضمانت اسی وقت ملے گی جب تیرا مال راہ خدا میں لٹے گا۔
اے عالم! جو اپنی تبحر علمی پر فخر کرتا ہے۔ منطق و فلسفے کی گتھیوں کو سلجھانے میں مہارت پر ناز کرنے والے! معارف تفسیر و حدیث کے سمندروں میں غوطے لگانے والے! تو اگر علوم و فنون کے سمندروں کو پی بھی جائے اور وقت کا سب سے بڑا بو علی سینا بن جائے تجھے اللہ کی رضا محض علم کی فراوانی سے نصیب نہیں ہو گی، تو اگر وقت کا فارابی اور رازی بھی کہلائے تو محبوب کی محبت اور اس کے دین کی خدمت کی توفیق اس وقت تک نہیں ملے گی جب تک اس ذات کا فضل و کرم تیرے شامل حال نہیں ہو گا ورنہ تو علم کے انہی گہرے سمندروں اور خشک فلسفوں کی گھاٹیوں میں سرگرداں رہے گا۔ اللہ کی رضا کو حاصل کرنا ہے اور اس علم کو اپنے لئے توشہ آخرت بنانا ہے تو اس کا راستہ کچھ اور ہے۔
روزِ قیامت تین قسم کے طبقوں کے اعمال کو رد کر دیا جائے گا حالانکہ وہ لوگ اپنے اعمال کو فخر سے پیش کریں گے۔
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’قیامت کے دن لوگوں میں جس کا سب سے پہلے فیصلہ کیا جائے گا وہ شہید ہو گا جسے اللہ کے راستے میں لڑتے ہوئے شہید کر دیا گیا تھا اسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر کیا جائے گا اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نعمتیں یاد کرائے گا (کہ میں نے تمہیں جان دی صحت و تندرستی دی) وہ انہیں جان لے گا۔ تب اللہ تعالیٰ اس شہید سے سوال کریں گے کہ بتا تو نے اس نعمتوں کو کہاں استعمال کیا (اور میرا شکر کس طرح ادا کیا)۔‘‘ شہید عرض کرے گا ’’باری تعالیٰ میں تیری راہ میں جہاد کرتا رہا یہاں تک کہ شہید کر دیا گیا۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا (میں دل کی نیتوں کو بہتر جانتا ہوں) تو جھوٹا ہے۔‘‘
ولکنک قاتلت لان يقال جری فقد قيل.
صحيح المسلم، 2 : 140، کتاب الامارة، رقم حديث: 1905
’’لیکن تو نے اس لئے جہاد کیا تھا کہ تجھے بہادر کہا جائے سو تجھے بہادر کہا گیا۔‘‘
پھر خداوند تعالیٰ حکم دیں گے اور اسے منہ کے بل کھینچ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا اس لئے کہ اس نے جہاد اللہ سے محبت اور اس کی رضا کے حصول کے لئے نہیں فقط دنیا میں جھوٹی عزت و ناموس کی خاطر کیا تھا۔
پھر اس شخص کو طلب کیا جائے گا جس نے علم سیکھا اور لوگوں کو سکھاتا رہا اور قرآن پڑھا۔ اس سے پوچھا جائے گا کہ تجھے اللہ کی طرف سے جو علم کی دولت ملی تھی قرآن کا علم علم دیا گیا تھا (تو نے اس علم کو کہاں استعمال کیا اور میرے دین کو اس سے کس قدر تقویت دی) وہ عرض کرے گا کہ باری تعالیٰ! میں نے علم پڑھا، اس کو پڑھاتا رہا، مخلوق خدا کو اپنے علم سے مستفید کرتا رہا۔ لوگوں کو قرآن سکھاتا رہا۔ اللہ کی بارگاہ سے حکم ہو گا کہ تو جھوٹ بولتا ہے (میں تیری نیت کو بخوبی جانتا ہوں) تو نے علم اس لئے پڑھا کہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس لئے سیکھا تاکہ لوگ تجھے قاری کہیں (عالم سمجھ کر لوگ تیری عزت کریں تیرے پیچھے چلیں اور تجھے دنیا قاری کے نام سے جانے) سو تو بھی اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ دنیا میں لوگوں نے عالم سمجھ کر تیری عزت بھی کی ہے جس سے تیرا نفس خوش ہوتا رہا اور تکبر میں پھولتا رہا۔ اب میری بارگاہ میں تیرے لئے کوئی نعمت نہیں کیونکہ اس وقت تیرے سامنے میری رضا تو تھی ہی نہیں۔
ثم امربه فسحب علی وجهه حتی القی فی النار.
صحيح مسلم، 2 : 140، کتاب الامارة، باب من قاتل للرياء والسمعة استحق النار، رقم حديث : 1905
’’پھر حکم ہو گا اور اس کو منہ کے بل کھینچ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘
اس کے بعد ایک ایسے شخص کو بلایا جائے گا جس کو اللہ نے مال و دولت سے نوازا تھا۔ ہر قسم کی نعمتیں مہیا کی تھیں اس کو بلا کر ان نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا اور یاد کرایا جائے گا۔ وہ جان لے گا۔ فرمایا جائے گا تو نے ان نعمتوں کو کہاں کہاں (میری رضا کے لئے اور میرے دین کی نصرت کے لئے) استعمال کیا؟ وہ کہے گا اے اللہ! میں اپنے اس مال کو تیری راہ میں خرچ کرتا رہا اور کوئی ایسی راہ نہ چھوڑی جس میں تو نے خرچ کو پسند کیا تھا سو میں نے خوب خرچ کیا اور غرباء مساکین کی مدد کی، بارگاہ رب ذوالجلال سے جواب ملے گا ’’اے بندے تو جھوٹ بولتا ہے، میں جانتا ہوں، تو نے اگر مال خرچ کیا اور غریبوں مسکینوں کی مدد کرتا رہا تو صرف اس لئے کہ لوگ تجھے بڑا خیرخواہ، سخی اور راہ خدا میں خرچ کرنے والا سمجھیں۔ سو تو اس (جھوٹے اور عارضی مقصد) میں کامیاب ہوا، لوگوں نے تجھے سخی کہا، اب تو ہماری بارگاہ سے محروم ہے۔‘‘ پھر اس کے ساتھ حکم کیا جائے گا۔
فسحب علی وجهه ثم القی فی النار.
1. صحيح مسلم، کتاب الامارة، باب من قاتل للرياء والسمعة استحق
النار، 2:140، رقم الحديث: 1905)
2. مشکوٰة المصابيح کتاب فضائل العلم : 33
’’اور منہ کے بل کھینچ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘
یہاں گزشتہ بحث کے حوالے سے ایک بنیادی نکتہ سمجھانا مطلوب ہے۔ وہ یہ کہ اللہ رب العزت خواہ مال و دولت کے طریق پر یا علم دین کی اشاعت کے طریق پر حتیٰ کہ جان تک قربان کر دینے کی توفیق کے ذریعے دین کی خدمت کا موقع فراہم کرے تو ضروری ہے کہ انسان ہر لمحہ ہر گھڑی اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہے۔ انسان کی گردن شکر، نیاز مندی اور عجز و انکساری کے ساتھ ہر وقت اللہ کی بارگاہ میں جھکی رہنی چاہئے۔ ہمہ وقت شرمندگی اور جوابدہی کے تصوّر میں اپنی تمام تر کوششیں محض اللہ کے لطف و کرم اور اس کے فضل کی مرہونِ منت سمجھے تاکہ نفسِ انسانی میں رضائے الٰہی کے حصول اور اس کی محبت کے سوا اور خیال نہ آنے پائے۔ اگر اللہ کی رضا اور اس کی ذات کی محبت کے حصول کے علاوہ کوئی اورخیال آگیا مثلاً شہرت و ناموری وغیرہ کا خیال آ گیا تو یہ سمجھو کہ علم بھی بے فائدہ ٹھہرا، دولت بھی ضائع ہو گئی، جان بھی اکارت گئی، محنت اور تگ و دو بھی لاحاصل ٹھہری۔ نہ آخرت مل سکی اور نہ ہی دنیا کی چند روزہ شہرت و نیک نامی کا شہرہ ہی قائم رہا۔ دنیا کی جھوٹی عزت تو شاید کچھ روز تک رہے لیکن خالق و مالک اور محبوب حقیقی کی بارگاہ سے بے عزتی کا طوق ہمیشہ کے لئے گلے کا مقدر بن گیا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں یہی بات سمجھائی ہے کہ اگر تمہیں کسی بھی طریقے سے اللہ تعالیٰ اپنے دین کی خدمت سونپ دے تو مت سمجھو کہ اس میں تمہارا کوئی ذاتی کمال ہے، تمہارے علم و ہنر یا تمہاری قابلیت و اہلیت کا دخل ہے اور نہ ہی یہ تمہارے کسی نسب و خاندانی بزرگی کا موجب ہے۔ یہاں تو فقط اللہ کا کرم ہے۔ وہ چاہے تو ابوجہل اور ابولہب جیسے قریشی سرداروں کو دھکے دے کر اپنی بارگاہ سے بے دین اور کافر کر کے نکال دے اور چاہے تو حبشہ سے ایک سیاہ فام غلام بلال رضی اللہ عنہ کو اٹھا کر امت کا سردار بنا دے۔ وہ چاہے تو منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی کو جہنم رسید کر دے اور چاہے تو فارس سے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو لا کر مدینہ کے صحابہ رضی اللہ عنھم میں اعلیٰ مقام عطا فرما دے۔ یہ فقط اور فقط نگاہ لطف کے کرشمے ہیں اور چناؤ کی بات ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اللهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُO
الشوری، 42 : 13
’’اللہ جسے (خود) چاہتا ہے اپنے حضور میں (قرب خاص کے لیے) منتخب فرما لیتا ہے اور اپنی طرف (آنے کی) راہ دکھا دیتا ہے (ہر) اس شخص کو جو (اللہ کی طرف) قلبی رجوع کرتا ہے۔‘‘
لہٰذا یہ حقیقت پختگی کے ساتھ ذہن نشین کرائی گئی کہ کسی بھی شخص کی کوششوں اور شبانہ روز محنتوں سے اگر دین کو تقویت ملے، وہ جہاں جہاں بھی اللہ کا پیغام لے کر پہنچے۔ اس کے ذہن میں کبھی یہ خیال بھول کر بھی نہ آئے کہ اللہ تعالیٰ کا دین (نعوذ باللہ) میری اس کوشش کا محتاج ہے یا یہ ’’میں اگر نہ رہا تو شاید یہ کام رک جائے۔‘‘ فرمایا ’’نہیں نادان! اگر تو یہ سوچتا ہے تو یہ تیری نادانی ہے میرا دین کبھی کسی شخص، مخصوص طبقے یا جماعت کی کوششوں کا محتاج نہیں ہوتا میں جب چاہوں اور جس کو چاہوں توفیق عطا کر دوں۔ تم اگر آج میرے دین کی خدمت سے کنارہ کشی اختیار کر لو گے تو اس سے میرے دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا البتہ تمہارا اپنا دنیوی و اخروی خسارہ ضرور ہو گا۔ میں چاہوں تو تمہارے ہٹنے سے پہلے تجھ سے بہتر افراد پر مشتمل جماعت اس کام پر مامور کر دوں۔
اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہزاروں انقلابات کے باوجود اس کا دین جوں کا توں زندہ ہے اور قیامت تک اسی طرح زندہ رہے گا۔ اس لئے جہاں جہاں اور جس حالت میں بھی کوئی اللہ کے دین کا کام کر رہا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی خدمت میں صدقِ دل سے مصروف ہے، اسے ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ نے اسے اپنی نوکری میں رکھا ہوا ہے۔ اس غلامی اور نوکری کو ہر حال میں سلامت رکھنے کی دعا کرے اور یہ کوشش کرے کہ کہیں محبوب کی نگاہِ التفات اس سے ہٹ نہ جائے۔ کہیں وہ ذات مجھے اپنی نوکری سے نکال نہ دے۔ بس اگر یہ خوف رہے گا تو وہ خالص جذبے سے خدمت دین میں مصروف رہے گا۔ اور یاد رہے کہ یہ خوف محبت کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ محبوب سے محبت ہو گی تووہ چاہے گا کہ محبوب کا کام قائم رہے اور خدمتِ دین کی توفیق بھی انہیں ہی نصیب ہوتی ہے جن سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved