اِظہارِ رائے کی آزادی کے بغیر کسی بھی معاشرے میں جمہوری اَقدار اور عدل و اِنصاف کی روایات نہیں پنپ سکتیں۔ اِسی لئے اِسلام نے نہ صرف ہر فرد کو اِظہار رائے کی آزادی کا حق عطا کیا ہے بلکہ اَہلِ اِسلام کو اپنے اِجتماعی معاملات اُصولِ مشاورت پر اُستوار کرنے کی تعلیم بھی دی ہے۔
اِظہارِ رائے کی آزادی میں حقِ تقریر، حقِ رائے، اِختلاف اور تنقید کا حق اور جدید اَلفاظ میں صحافتی آزادی بھی شامل ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ شہریوں کے سوچنے، رائے رکھنے اور اپنی رائے کے اِظہار کرنے میں ریاست کبھی بھی مداخلت نہیں کرے گی۔ اِسلام نے یہ حق ہر فرد کو عطا کیا ہے۔ قرآنِ مجید میں اُصولِ مشاورت بیان کرنے والی تمام آیات اِظہارِ رائے کی آزادی کو بھی بیان کرتی ہیں، کیوں کہ مشاورت کا عمل اُس وقت تک انجام پذیر نہیں ہو سکتا جب تک حکمران عوام سے مشورہ طلب نہ کریں اور عوام اُس وقت تک مشورہ نہیں دے سکتے جب تک کہ اُنہیں اِظہا رِ رائے کی آزادی کا حق حاصل نہ ہو۔ لہٰذا قرآنِ حکیم کا اُصولِ مشاورت کو اپنانے کا حکم اِس حکمت کا حامل ہے کہ اِسلامی ریاست میں ہر شہری کو اِظہارِ رائے کی آزادی کا حق حاصل ہوگا۔ اِرشاد ربانی ہے:
وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰی بَيْنَهُمْ
’’اور اُن کا ہر کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے۔‘‘
القرآن، الشوریٰ، 42 : 38
یوں اِسلام نے مشاورت کا اُصول متعارف کرواتے ہوئے اِختلافِ رائے اور آزادئ اِظہارِ رائے کو ہر شہری کا حق قرار دیا۔ اِسی طرح سیرتِ نبوی میں ہمیں اِس اَمر کی کئی مثالیں ملتی ہیں، جہاں حضور اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ سے مختلف معاملات پر مشاورت کی غزوہ بدر، اَسیرانِ بدر، غزوہ اُحد، غزوہ اَحزاب اور معاہدہ حدیبیہ میں حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے صحابہ سے مشورہ کیا۔
اِسی طرح حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکمرانوں کے ظلم کے خلاف آوازِ حق بلند کرنے کو بہترین جہاد قرار دیا۔ اِرشاد فرمایا:
إنّ مِن اعظمِ الجهادِ کلمة عدلٍ عند سلطانٍ جائرٍ.
’’بہترین جہاد جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔‘‘
جامع ترمذی، 4 : 471، رقم: 2174
حضور اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین نے بھی اِسلام کی اِنہی زرّیں تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے جملہ معاملات میں باہمی مشاورت کے اُصول پر عمل کیا۔ خلافتِ راشدہ میں اِظہارِ رائے کی آزادی کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہکے خطبہ جمعہ کے دوران ایک شخص نے کھڑے ہوکر آپ سے اِعتراض کیاکہ وہ آپ کے خطبہ کو اُس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک کہ وہ اپنے کرتے کے لیے بیت المال سے زیادہ کپڑا لینے پر جواز فراہم نہ کر دیں، پس اُنہوں نے اُس بات کا برا منانے کی بجائے بھری مجلس میں ہونے والے اِس سوال کی وضاحت پیش کی۔
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خواتین کے حقِ مہر کی مقدار کے تعین کا اِرادہ کیا تو ایک خاتون نے آپ کے اُس فیصلے پر اِعتراض کیا اور قرآنِ مجید کی دلیل سے آپ کو ایسا فیصلہ کرنے سے روک دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اِعتراض کرنے والی خاتون کی دلیل کو تسلیم کرتے ہوئے نہ صرف اپنا فیصلہ واپس لیا بلکہ اُس کا شکریہ اَدا کیا کہ اُس نے اُنہیں ایک غلطی سے بچا لیا۔
الاحکام لابن حزم، 2: 245، 244
اِسلام میں اِس سطح کی آزادئ رائے کا تصور موجود ہے کہ جس خلیفہ کا نام سن کر قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں کانپ اُٹھتی تھیں وہ ایک عام عورت کو نہ صرف اِس سطح کی آزادی دے رہے تھے بلکہ اُس کی رائے کو مان کر خلافت کا فیصلہ بھی تبدیل کر رہے تھے۔
اِسلام کی طرف سے عطا کردہ آزادئ اِظہارِ رائے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم دُوسروں کی کردارکشی شروع کر دیں۔ رائے کی آزادی کے ساتھ رائے کا پُرخلوص ہونا بھی ضروری ہے ورنہ تاجدارِ کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے اِتنا کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات بلاتحقیق آگے بیان کرنے لگے۔‘‘
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اِسلام میں انسانی حقوق‘‘)
اِسلام دُنیا کا وہ دین ہے جس نے جمہوریت کو ایک نظامِ حکومت کے طور پر اِس دُنیا میں متعارف کروایا۔ اِسلام نے اِنسانیت کو دُنیا کی تاریخ میں ’پہلا تحریری آئین‘ عطاء کیا۔ میری ایک تصنیف ہے ’میثاقِ مدینہ کا آئینی تجزیہ‘، میں نے اُس میں حضور تاجدارِ کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطاء کردہ ’میثاقِ مدینہ‘ کا 63 آرٹیکلز پر مشتمل آئینی تجزیہ پیش کیا ہے۔ اُس کے پہلے آرٹیکل میں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریاست کی بنیاد جمہوریت پر رکھی۔ یہ ایک تحریری دستور تھا، جسے متوازن روپ میں پیش کیا گیا اور اُس کے تحت ایک سیاسی وحدت کی بنیاد رکھی گئی۔ اُس میں جو حقوق مسلمانوں کو دیئے گئے وُہی حقوق یہود کو بھی دیئے گئے۔ حتیٰ کہ یہود کے اِتحادی غیرمسلم قبائل کو بھی وُہی حقوق دیئے۔ اُسی آئین میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قانون کی حکمرانی (Rule of Law) کا نفاذ کیا۔ اُس میں یہود اور مقامی غیرمسلم قبائل کی رِوایات کو آئینی تحفظ دیا، اِسے جمہوریت کہتے ہیں۔ سب عوام کو اُن کی رِوایات، ثقافت اور مذہب کو آئینی تحفظ دیا۔ معاشی اِستحکام کی بنیاد مؤاخاتِ مدینہ پر رکھی۔ اُس آئین میں بنیادی اِنسانی حقوق عطاء کئے۔ اُس میں مذہبی آزادی دی اور فرمایا کہ یہودیوں کو وُہی مذہبی آزادی ہو گی جو مسلمانوں کو حاصل ہے۔ اُس میں خواتین کو حقوق دیئے اور مدینہ کو اَمن کا گھر قرار دیا۔ اِنسانی زندگی، مذہب، عزت و آبرو، کاروبار، مال و دولت، تمام حقوق دیئے۔ عدالت میں قانونی مساوات کا حق دیا۔ کسی شخص کے خلاف فیصلہ بغیر سماعت کے نہیں ہو گا، خواہ وہ کسی مذہب کا ہو۔ حتیٰ کہ غیرمسلم جنگی قیدیوں کو حقوق دیئے۔ اُس زمانے پوری دُنیا کا ایک ہی قانون تھا کہ جنگی قیدیوں کو قتل کر دیا جاتا تھا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگی قیدیوں کی آزادی کے لئے چار قوانین تشکیل دیئے کہ جنگی قیدی کس طرح آزاد ہوں گے۔ اِنسانی حقوق، جمہوریت اور devolution of power دی۔ آپ نے یہ اُصول دیا کہ ایک سے دو کی رائے بہتر ہے، دو سے تین کی رائے بہتر ہے، تین سے چار کی رائے بہتر ہے۔ فرمایا يَدُ اﷲِ عَلیٰ الجَمَاعَۃِ یعنی ’’جدھر اکثریت ہوگی اُس کے اُوپر اللہ کی حفاظت کا ہاتھ ہوگا‘‘۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آئین میں مشاورت رکھی جو جمہوریت کی اصل جڑ ہے۔
(برائے مزید ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’میثاقِ مدینہ کا آئینی تجزیہ‘‘ اور سی ڈی نمبر 1002)
اِسلام دیگر مذاہب کی طرح محض ایک مذہب نہیں، اِس لئے وہ صرف اِنسان کے من میں تبدیلی پر اِکتفاء نہیں کرتا بلکہ ایک جامع دین اور مکمل ضابطہ حیات ہونے کے ناتے معاشرے کا پورا نظام اﷲ ربّ العزت کے فرمان کے مطابق چلانے کا حکم دیتا ہے، تاکہ معاشرے سے ظلم و نااِنصافی کا خاتمہ ہو اور تمام اَفرادِ معاشرہ اِسلام کے اُصولِ مساوات کے تحت معاشرے میں یکساں حقوق حاصل کر سکیں۔ جس طرح آپ اپنے گھر کے اندر کی صفائی جاری رکھ کر گلی کوچوں اور محلے کی گندگی کو بدبو کی وجہ سے برداشت نہیں کر سکتے، اِسی طرح اﷲ اور اُس کا رسول یہ گوارا نہیں کرتا کہ ایک بندہ اپنے من کو نمازوں سے صاف کرتا پھرے اور اپنی تبلیغوں میں لگا رہے اور دُوسری طرف معاشرے پر کفر، اﷲ کی نافرمانی اور ظلم پر مبنی اِستحصالی، طاغوتی اور سامراجی نظام رہے۔ فحاشی و عریانی اور بے حیائی کا دور دورہ ہو۔ ٹی وی روزانہ گھروں کے اَندر بے حیائی کا درس دیتے رہیں اور اگر آپ اُس پر اِحتجاج کریں تو وہ کہیں کہ خبردار! آپ کو کیا ٹی-وی حکومت کا کام ہے، آپ اپنی نمازیں پڑھیں اور ٹی وی دیکھنا بند کر دیں۔
اَخبار میں ہر روز فحاشی و عریانی ہے۔ ہر روز پورے کے پورے صفحے اَداکاروں اور عریاں لڑکیوں کی تصاویر سے بھرے ہوتے ہیں۔ ہر اَخبار نے ایک انجوائے منٹ کالم بنا رکھا ہے، جس میں عورتوں کی عریاں تصویریں لگائی جاتی ہیں اور نوجوان بچوں کو بے پردگی کے سلیقے سکھائے جا رہے ہیں۔ آپ اُس کے خلاف آواز بلند کریں تو جواب ملے گا کہ آپ کو کیا غرض اپنی نماز پڑھیں تبلیغ کریں، اَخبار اگر غلط ہے تو دیکھنا بند کر دیں۔
پھر آپ چیخیں کہ گھر میں ٹی وی بھی بند کر دیا، اَخبار بھی بند کر دیا مگر وہ ساری برائیاں بچے سکول سے سیکھ کر آ جاتے ہیں، دُوسروں کے گھروں میں تو ٹی وی بند نہیں ہے ناں، وہ سارا کچھ جو بچے ٹی وی سے سیکھتے ہیں وہ سبق سکول میں جا کر دُہراتے ہیں اور دُوسرے بچے سیکھ کر گھر آ کر اُسے اِستعمال کرتے ہیں۔ سکول میں فحش پروگرام ہو رہے ہیں، آئے روز مینابازار جو لگتے ہیں، ثقافتی شو ہوتے ہیں، بچیوں کے ڈانس ہوتے ہیں، ظلم ہو رہا ہے، فحاشی و عریانی کے سبق ہیں۔ آپ چیخیں کہ ہمارے بچے سکول سے یہ ساری باتیں سیکھ کر آ رہے ہیں تو جواب ملے گا کہ بچوں کو سکول بھیجنا چھوڑ دیں۔
آگاہ رہیں! اگر اﷲ کے دِین کی حفاظت کے لئے یہ قوم نہ اُٹھی تو چند سال بعد اِس ملک کے سکولوں میں سیکس کی تعلیم کا مضمون شامل کیا جائے گا، جنسی بے حیائی کے مضامین اِس ملک میں شاملِ نصاب ہوں گے۔ اگر مصطفوی اِنقلاب کے لئے، اَﷲ کے دِین کی حفاظت کے لئے، اِیمان کی قدروں کے بچاؤ کے لئے، غیرتِ اِیمانی کی حمایت کے لئے، اگر یہ قوم نہ اُٹھی تو اِس ملک کے سکولوں کے نصاب میں سیکس کی ایجوکیشن آئے گی، موسیقی بھی آئے گی، بے حیائی کے درس ہوں گے، آج شروع ہو چکے ہیں۔
آپ نے رِشوت کے خلاف آواز بلند کی اور کہا کہ رِشوت کی صورت میں سارے ملک میں حرام چل رہا ہے۔ پوچھا کہاں رِشوت ہے؟ آپ نے کہا ٹیلیفون کا کنکشن لگوانے جائیں تو وہ رِشوت مانگتے ہیں۔ جواب ملے گا آپ ٹیلیفون کا کنکشن نہ لگوائیں۔ بجلی کا کنکشن لگوائیں تو وہ رِشوت مانگتے ہیں، جواب ملے گا آپ بجلی نہ لگوائیں۔ پانی کے کنکشن کے لئے رِشوت مانگتے ہیں تو آپ پانی نہ لگوائیں۔ بچہ پڑھ گیا ہے اُس کی نوکری رِشوت کے بغیر نہیں ملتی، رِشوت حرام ہے میں دینا نہیں چاہتا، جواب ملے گا کہ آپ کو شوق ہے دینے کا! آپ نوکری نہ لگوائیں۔ کرتے کرتے انجامِ کار اِس زندگی کا یہ ہے کہ اِس وقت تو معاشرے میں زندگی کا کوئی کام خالص جائز اور حلال طریقے سے ممکن نہیں ہے، تو آخری جواب ملے گا کہ آپ جینا ہی چھوڑ دیں، جینے کے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں، اگلے جہان چلے جائیں جہاں نیک روحیں رہتی ہیں، یہ تو ایسی ہی دنیا ہے۔
جس طرح گھر کے اَندر کی صفائی کرنے اور گلی کوچے میں گندگی کے ڈھیروں کے لگتے جانے سے گزارا نہیں ہو سکتا، اِسی طرح اِیمان پکار پکار کر آوازیں دے رہا ہے، مگر ہماری روح کے کان بند ہو گئے۔ اِیمان کی بستی سے آوازیں آ رہی ہیں، گنبدِ خضراء سے صدائیں آ رہی ہیں، کعبۃُ اللہ سے صدائیں آ رہی ہیں، قرآنِ مجید کی آیتوں اور لفظوں سے پکاریں آ رہی ہیں کہ اَے اہل اِیمان تیرے اَندر نماز روزے کے عمل کو جاری رکھنے سے بھی گزارا نہ ہوگا۔ معاشرے کے اَندر کفر کی غلاظتوں کے ڈھیر جمع ہو رہے ہیں۔ اَﷲ نے حیاء کا درس دیا بے حیائی کے درس جاری ہیں۔ اَﷲ نے تابع فرمانی کا درس دیا نافرمانیاں جاری ہیں۔ معاشرے کفر، ظلم، رِشوت، سود اور حرام کی طرف جا رہے ہیں۔ اَلغرض ہر حرام زندگی کا نظام بن رہا ہے اور ہر حلال زندگی سے کوچ کرتا جا رہا ہے۔
اَیسی صورتِ حال مکہ کی سرزمین پر تھی۔ خالی نماز پڑھنے سے تو صحابہ کو کوئی نہیں روکتا تھا۔ اگر یہ معاہدہ ہو جاتا کہ تم نے صرف نماز پڑھنی ہے، تبلیغ کرنی ہے، وعظ کرنا ہے، حج کرنا ہے، اور ہمارے نظام کو بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کرنی، اور ہماری سلطنت، سرداری و جاگیرداری اور حکومت کے نظام کو بدلنے کی کوشش نہیں کرنی، اگر صرف اِتنا سمجھوتہ ہو جاتا تو نہ کبھی ہجرت کی نوبت آتی، نہ غزوہ بدر ہوتا، نہ غزوہ اُحد ہوتا، نہ جنگ خندق ہوتی، نہ کبھی طائف کے پتھر پڑتے، نہ کبھی تلواروں سے محاصرہ ہوتا، نہ صحابہ کی گردنیں کٹتیں، نہ شہادتیں ہوتیں، اور پھر نہ خلافتِ راشدہ ہوتی، اور نہ آپ اور ہم سب مسلمان ہوتے، حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس پہلی سطح پر رہنے کو قبول نہیں فرمایا، بلکہ فرمایا:
اَلَّذِينَ اخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلا انْ يَقُولُوا رَبُّنَا اﷲُ.
’’(یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اِس بناء پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا ربّ اَﷲ ہے (یعنی اُنہوں نے باطل کی فرمانروائی تسلیم کرنے سے اِنکار کیا تھا)‘‘
الحج، 22 : 40
رَبُّنَا اﷲُ : یہ ایک اِنقلابی نعرہ ہے، جس کا معنی یہ ہے کہ ہم اَﷲ کے دیئے ہوئے نظام کے سوا باقی ہر نظام کو مُستردّ کرتے ہیں۔ جس ربّ نے ہمیں پیدا کیا پورا نظامِ زندگی اُسی ربّ کی ہدایت کے مطابق چلانا چاہتے ہیں۔ صرف مسجد کو نہیں بلکہ پورا معاشرہ اﷲ کی ہدایت کے مطابق چلانا چاہتے ہیں۔ یہ جرم تھا اُن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا جس کی پاداش میں اُنہیں گھروں سے نکالا گیا اور اُن کی جانیں لی گئیں۔ اﷲ ربّ العزت اِسی ضمن میں مزید فرماتا ہے:
وَلَولَا دَفْعُ اﷲِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِيَعٌ وَ صَلَوَاتٌ وَ مَسَاجِدُ
’’اور اگر اَﷲ اِنسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذرِیعہ (جہاد و اِنقلابی جدوجہد کی صورت میں) ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام اَدیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) مسمار اور وِیران کر دی جاتی۔‘‘
الحج، 22 : 40
یعنی اگر اﷲ بعض لوگوں کا تسلط، قبضہ، غلبہ اور حکومت بعض لوگوں کی کوششوں کے ذرِیعے ختم نہ کرتا تو ہر مذہب کی عبادت گاہیں تباہ ہو جاتیں۔ یعنی آج کچھ لوگوں کی حکومت ہے جو غلط راہ پر جا رہے ہیں، ظلم کر رہے ہیں، اَﷲ کی نافرمانی کر رہے ہیں، اَہلِ حق اٹھے اُن کے تسلط کو چیلنج کیا اور جدوجہد کی، جہاد کیا، اِنقلاب بپا کیا، جانوں کی بازی لگائی، اُن کے قبضے سے معاشرے کو نکال لیا اور نظام بدل ڈالا۔ وقت کے ساتھ ساتھ پھر دوبارہ لادِین لوگوں کی حکومت آئی اُنہوں نے بے دینی مسلط کرنے کی کوشش کی تو دُوسرے لوگوں نے جماعت بنائی، تگ و دو کی، قربانیاں دیں اور اُن کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ یہ تاریخِ اِنسانی میں ایک مسلسل اِنقلابی جدوجہد کا عمل ہے۔ اِس مقام پر قرآن سیدھے ٹکراؤ کی بات کر رہا ہے۔
اَے قوم! کب تجھے قرآن کا شعور نصیب ہوگا، قرآنِ مجید تو کھول کھول کر ساری حقیقتیں بیان کر رہا ہے، مگر ہم سب مل کر قرآن پر ظلم کر رہے ہیں۔ ہم نے فقط قرآن کو چومنے کے لئے رکھا ہے۔ غلاف میں بند قرآن کو کبھی کبھار زیارت کے لئے رکھا ہے۔ قرآن کو سمجھے بغیر صرف تلاوت کے لئے رکھا ہے۔ اور سال کے بعد تراوِیح میں سننے کے لئے رکھا ہے۔ اَے پاکستانی قوم! کب وہ دِن آئے گا جب تو آگے بڑھے گی اور قرآن کے پیغام کو سمجھنے اور معاشرے پر لاگو کرنے کی کوشش کرے گی۔ وہ دِن کب آئے گا جب قرآن کے پیغام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے یہ قوم اُٹھ کھڑی ہو گی، نعرہ اِنقلاب بلند کرے گی، سراپا جہاد بن جائے گی، بے دِینیت سے ٹکرانے کے لئے تیار ہو جائے گی، اور نظامِ کفر کو اُکھاڑ کے پھینک دینے اور قرآن کا عطاکردہ نظام رُوئے زمین پر نافذ کر دینے کا فیصلہ کرے گی۔
اَے اہلِ پاکستان! اَے مسلمانانِ عالم! خطاب بہت ہو چکے، وعظ بہت ہو چکے، تبلیغیں تربیتیں بہت ہو چکیں، فقط خطابوں، تقریروں اور وعظوں سے اُمتِ مسلمہ کے اَحوال نہیں بدل سکتے۔ اُمتِ مسلمہ کو سراپا جہاد بننا ہوگا، سراپا اِنقلاب بننا ہوگا، یہ خون جو ہماری رگوں میں گردش کر رہا ہے اُس خون میں تلاطم پیدا کرنا ہوگا، اور سراسر پیغامِ قرآن کے پیکر بن کر کفر کے نظام سے ٹکرا جانا ہوگا۔
اَﷲ ربّ العزت نے فرمایا کہ ہمارا اَمر، ہماری منشاء اور ہمارا بھیجا ہوا نظام یہ ہے کہ جب معاشرے پر کچھ اَیسے لوگ مسلط ہو جائیں کہ اُن سے دِین کو نقصان پہنچ رہا ہو، لوگوں کو اُن کے حقوق نہ مل رہے ہوں تو اَہلِ حق لوگ اُٹھیں اور جو مسلط ہیں اُنہیں ہٹا دیں۔ پھر کبھی اَیسا ہو جائے تو پھر اَہلِ حق اُٹھیں اور اُنہیں ہٹا دیں۔ یہ پوری کی پوری حرکت ایک اِنقلابی جدوجہد کی صورت میں مسلمانوں کی اِجتماعی زندگی کے اندر جاری رہنی چاہیئے۔ اگر تقاضائے ربِ جلیل نہ ہوتا تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو یہ نہ فرماتا کہ سیدھا فرعون کے پاس جا، وہ باغی ہوچکا ہے، اِس لئے بنی اِسرائیل کو اُس کے تسلط سے نکال۔ اَﷲ تعالیٰ فرما سکتا تھا کہ فرعون جیسا بھی ہے تمہیں اُس کی حکومت، سیاست اور نظام سے کیا غرض، تو جا کے میری توحید اور اپنی رسالت کا پیغام دے، لوگوں کو آخرت کی تبلیغ کر، تقویٰ کا سبق دے، اﷲ اﷲ سکھا۔ رہ گیا فرعون اور اُس کی حکومت و سلطنت، اُس سے تمہیں کیا سروکار، وہ سیاسی بات ہے چھوڑ دو، اَﷲ نے ایسا نہیں فرمایا۔
اَﷲ ربّ العزت نے یہ دُنیا پیدا کی ہے اور وہ اِس کی رگ رگ سے واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ قوم کو ساری زِندگی بھی سکھاتے رہو گے اور اُوپر سلطنت اور اِقتدار ظلم کا رہے گا تو ظلم کے شکنجے میں جکڑی ہوئی قوم کبھی بھی کھل کر حق کی طرف آنے کو تیار نہیں ہوگی۔ اِس لئے فرمایا کہ سیدھا فرعون کے اَیوان میں جا اور اُس سے بنی اسرائیل کی آزادی کی بات کر۔ فرعون کی حکومت اور ظالمانہ نظام سے بنی اِسرائیل کو آزاد کروا۔ یہ حکم حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تک چلا آیا ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ وحی آ رہی ہے کہ اَے محبوب! اپنی اُمت کو قیامت تک کے لئے دِین کے حفاظت اور بقاء کا یہ فلسفہ سمجھا دیں کہ دِین کی بقاء اِسی مسلسل اِنقلابی عمل میں ہے۔
اگر یہ سلسلہ تھم جائے اور لوگ سوچیں کہ سیاست میں حصہ لینے اور ظالم حکمرانوں کو ہٹانے کی کوئی ضرورت نہیں تو (1) راہبوں کی خانقاہیں منہدم اور تباہ و برباد ہو جاتیں، (2)عیسائیوں کے گرجے برباد ہو جاتے، (3)یہودیوں کے عبادت خانے برباد ہو جاتے، اور (4)مسلمانوں کی مسجدیں برباد ہو جائیں گی۔ اگر اپنی مساجد کو آباد رکھنا چاہتے ہو تو اُس کی صرف ایک ہی صورت ہے، وہ یہ کہ اگر اَﷲ کے دیئے ہوئے نظام کو بپا کرنے کی جنگ کرتے رہو گے تو تمہاری مسجدیں بھی آباد رہیں گی۔
بتایا جا رہا ہے کہ اَے راھبو! اگر تم اپنی خانقاہوں کی آبادی کو برقرار رکھنا چاہتے ہو تو وہ خالی نمازیں پڑھنے، اَللہ اَللہ کرنے اور ذِکر کرنے سے ہمیشہ ہمیشہ آباد نہیں رہیں گی، بلکہ اَﷲ کے دِین کے نظام کی بحالی کے لئے جنگ کرتے رہو گے تو تمہاری خانقاہیںبھی آباد رہیں گی۔ بتا دے میرے حبیب عیسائیو! اگر اپنے مذہب کی حفاظت اور اِقامت کے لئے جہاد نہ کرو گے تو تمہارے گرجے وِیران اور برباد ہو جائیں گے۔ آج پورے عالمِ عیسائیت کے گرجے وِیران ہو گئے، پوری دُنیا میں راھبوں کی خانقاہیں بے آباد ہو گئیں، اِس لئے کہ اُنہوں نے کہا کہ ہمیں نظام بدلنے اور بادشاہوں سے جنگ لڑنے سے کیا سروکار! ہم تو بس فقیر لوگ ہیں۔ راھب بنی اِسرائیل کے زمانے کے پیر تھے، جیسے ہمارے زمانے میں مشائخ اور پیر کہلاتے ہیں۔ کثرت سے اﷲ کی عبادت، تسبیح، ذِکر اَذکار کرنے والے لوگ، تزکیہ نفس کرنے والے، جنگلوں میں ریاضات کرنے والے، مجاہدات کرنے والے اور لوگوں کو اَﷲ اَﷲ کا درس دینے والے۔ یہ اُس زمانے لوگوں کے مرشد تھے۔ اُنہیں راھب یا رُھبان کہتے تھے۔ جب ظالم بادشاہوں کی سلطنتیں آئیں اور اُس دَور کے اَنبیاء نے اُنہیں جہاد کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش کی تواُن راھبوں نے بھی یہ کہا تھا کہ ہم فقیر لوگ ہیں، ہمارا اُن بادشاہوں سے جنگ کرنے اور سیاست سے کیا کام، ہم تو بس اَﷲ اَﷲ کرنے والے ہیں۔ اَﷲ ربّ العزت نے فرمایا: لَھُدِّمَتْ صَوَامِع پہلی اُمتوں کے پیروں فقیروں کی خانقاہیں وِیران ہو گئیں، برباد ہو گئیں، منہدم ہوگئیں، آج کوئی اَﷲ اَﷲ کرنے کو آنے کے لئے تیار نہیں رہا۔
اُن کے بعد عیسائیوں کا وقت آ گیا۔ عیسائی پادریوں نے آج سے دو تین سو سال پہلے ایک کانفرنس کر کے باقاعدہ فیصلہ کیا کہ آج سے ہمارا سیاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ سیاست دُنیادار لوگوں کے حوالے کر دی اور ہم صرف چرچ تک رہیں گے، عبادت کریں گے اور بائبل کی تعلیم دیں گے۔ اِس سے مذہب اور سیاست دونوں جدا ہو گئے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ برطانیہ، فرانس، اِٹلی، ناروے وغیرہ میں بھی گرجے وِیران ہو گئے۔ پادری سارا ہفتہ اِنتظار کرتا رہتا ہے، بڑے بڑے اُونچے گرجے بنے پڑے ہیں، سارا ہفتہ کوئی چرچ نہیں جاتا۔ دُنیا میں سب سے زیادہ تعداد عیسائیوں کی ہے، مگر وہ صرف نام کے عیسائی ہیں، اُن کی بڑی تعداد اپنے مذہب کو چھوڑ چکی ہے۔ حتیٰ کہ اِتوار کو بھی لوگ نہیں جاتے، گرجوں کو تالے لگ گئے اور لوگ گرجے خرید کر سکول، کمیونٹی سنٹر اور مسجدیں بنا رہے ہیں۔
جس قوم نے اپنے دِین و مذہب کی اِقامت کے لئے جہاد و اِنقلاب کا راستہ ترک کر دیا اور باطل کافرانہ نظام سے ٹکرانے کا عمل چھوڑ دیا، اور اِسی پر خوش رہے کہ چلو مسجدوں میں نمازیں پڑھیں، تبلیغیں کریں، کیا ضرورت پڑی بادشاہوں اور حکومتوں سے ٹکر لینے کی! جس قوم نے سیاست سمجھ کر دِین کی سربلندی کا عمل چھوڑ دیا، ایک وقت آئے گا کہ اُس قوم کی عبادت گاہیں وِیران ہو جائیں گی، بالکل جیسے عیسائیوں کے گرجے وِیران ہو گئے، جیسے راھبوں کی خانقاہیں وِیران ہو گئیں اور جیسے یہودیوں کے عبادت خانے وِیران ہو گئے۔
مسلمانو! اگر جہاد کے لئے نہیں اُٹھو گے، اور دینِ مصطفوی کی سربلندی کے لئے اِنقلاب بپا نہیں کرو گے، فاسقوں، ظالموں، زانیوں، شرابیوں، دِین دُشمن طاقتوں سے جنگ نہیں کرو گے، بے دِینی کے نظام، فحاشی، عریانی، کفر اور طاغوت کے نظام سے جنگ نہیں کرو گے تو یاد رکھو کہ جو کچھ یہودیوں، عیسائیوں اور راھبوں کے ساتھ بیتا، اِنتظار کرو وُہی سب کچھ تمہاری مسجدوں کے ساتھ بھی بیتے گا، یہ قرآن کا فیصلہ ہے۔
علماء کہاں ہے؟ ہمارے معاشرے کے پیرانِ کرام کہاں ہیں؟ مشائخ کہاں ہیں؟ بیعت کے سلسلے رکھنے والے کہاں ہیں؟ فقیرو! کہاں ہو؟ مدرسے چلانے والو! کہاں ہو؟ مسجدوں کے اِمام کہاں ہیں؟ قرآن کی پکار رُوح کے کان سے سن لو! صرف دو نسلوں کی بات ہے۔ یہ گدیاں، پیرخانے اور بیعت کے سلسلے سلامت نہیں رہیں گے، سب کچھ ملیامیٹ ہوجائے گا۔ آج اگر طاہرالقادری کی بات کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہی تو شاید نہ آئے، بیس پچیس سال کی بات ہے، بیعت کے سلسلے، خانقاہیں، رُوحانی مراکز سب ختم ہو جائیں گے۔ ہر سُو وِیرانیاں ہوں گی اور اُس کا سبب ہمارا مصطفی کے نظام کے لئے میدانِ عمل میں آنے سے اِنکار ہوگا۔
ہم اِسی پر خوش ہیں کہ ہماری بیعت فلاں برزگ سے ہے۔ اَﷲ سلامت رکھے اور اُس میں برکت دے۔ مگر یوں سوچ کر دیکھیں کہ آپ کی وہ اَولاد جس نے ایم اے، ایم ایس سی، لاء وغیرہ کر لیا یونیورسٹی ایجوکیشن حاصل کر لی کیا اُس کی بیعت بھی اُسی بزرگ سے ہے؟ تھوڑا گریبان میں جھانک کر سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کدھر جا رہے ہیں۔ انجام اِس کا کیا ہوگا وہ بھی ذِہن میں رکھیں۔ اکثریت کا جواب نفی میں آئے گا۔ تو جب ہمارے ہوتے ہماری اولادیں دِین کی روِش سے دُوری اِختیار کر رہی ہیں تو ہماری زندگی کے بعد وہ دِین کی طرف کیوں کر آ سکیں گی؟ دُوسری نسل کا دِین سے تعلق بالکل ختم ہو جائے گا۔ پھر اَمریکہ و یورپ کا سرمایہ دارانہ نظام ہی اُن کا مذہب ہوگا۔ سامراج، طاغوت، فحاشی، عریانی ہی اُن کا مذہب ہوگی۔ دِین سے دُور ہو چکی ہوں گی نسلیں!!!
کیوں؟ کہ ہم جہاد اور اِنقلاب کے لئے نہیں اُٹھے ہوں گے، دِینِ مصطفوی کی حفاظت و اِقامت کے لئے نہیں اُٹھے ہوں گے اور ہم نے معاشرے کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کو بدلا نہیں ہوگا۔ اگلی نسلوں کی دِین سے دُوری میں ہم برابر کے شریک ہوں گے۔ اِسے سیاست سمجھ کر اگر ہم دُور بیٹھے رہے تو اَﷲ کا دِین ہمیں معاف نہیں کرے گا۔ باطل نظام کے خلاف ٹکرانے کا عمل ہی سیاست ہے۔ لُبِ لباب یہ نکلا کہ مسلمانوں! اگر تم سے سیاست چھوڑ دی تو تمہارا مذہب وِیران ہو جائے گا۔
آج معاشرے کا یہ ذِہن بن گیا ہے کہ خالی مذہب کا کام کرتے تو بڑا اچھا تھا، سیاست میں نہیں آنا تھا۔ قادری صاحب خالی مذہب کا کام کرتے، فہم القرآن میں آتے، ٹی وی پر خطاب کرتے، وعظ کرتے، تقریریں کرتے، کتنے اچھے لگتے تھے۔ یہ جو سیاست میں آئے یہ اچھا نہیں کیا۔ یہ قوم خطاب پسند ہو گئی اِنقلاب پسند نہ رہی۔ قرآن اِسی موضوع پر خطاب کر رہا ہے کہ مذہب تب آباد رہتا ہے جب سیاست مصطفی کے دِین کے پاس اور اَہلِ حق کے پاس ہو۔ سیاست بے دین ظالموں کے حوالے کرنے مطلب ہے کہ آپ نے اُنہیں معاشرے پر کفر کا نظام مسلط کرنے کی کھلی چھٹی دے دی۔
دُنیا کے تمام مسلمان ملکوں پر مغربی دُنیا کی نظر ہے کہ کسی ملک میں بھی اِسلام بطور نظام نہ اُبھر سکے۔ جب یہ بطور نظام دُنیا سے ختم ہو جائے گا تو عقیدہ و مذہب بھی ایک دو نسلوں بعد رفتہ رفتہ ختم ہوتا چلا جائے گا۔ دِین اور سیاست کو جدا کرتے ہوئے یہ ایک بہت بڑی بین الاقوامی سازِش تیار کی گئی ہے اور پاکستان میں یہی سب کچھ نہایت تیزرفتاری سے شروع ہو چکا ہے۔ قوم کو ذِہنی طور پر بے دین بننے کی طرف لگایا جا رہا ہے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 575)
www.NizamBadlo.com
www.facebook.com/NizamBadlo
جب ہم کسی غیرمسلم کے سامنے اِسلام کو بطور ایک زندہ مذہب کے پیش کرتے ہیں تو اُس کا سوال ہوتا ہے کہ کیا آج اِسلام بطور نظام کسی ملک میں موجود ہے، اور ہمارے پاس اِس کا جواب نہیں ہوتا۔ درحقیقت ہم دورِ زوال میں رہ رہے ہیں، جو پچھلی دو صدیوں سے پیدا ہوا ہے۔ اِکیسویں صدی کا آغاز ہم نے زوال کی سنگینی کی صورت میں کیا ہے۔ اِس دور میں مسلمان ریاستیں تو بکثرت ہیں مگر اُن میں سے کسی کو بھی کماحقہ ’اِسلامی ریاست‘ نہیں کہا جا سکتا۔ اِس وقت کسی بھی ریاست کا دستور اور آئین مکمل اِسلامی نہیں ہے۔ کسی ایسی ریاست کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی جس کے معاشرتی، سماجی، قانونی، ثقافتی ڈھانچے کی بنیادیں بھی اِسلام پر اُستوار ہوں۔ مجھے یہ اِعتراف کرنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ اِس دور میں کوئی اِسلامک اسٹیٹ نمونے کے طور پر نہیں پیش کی جا سکتی۔ اَب یہ مفاد پرستوں کی حکمرانی کا دَور ہے، عیاش حکمرانوں کا دَور ہے، جس کا خاتمہ اِن شاء اللہ العزیز جلد دیکھنے کو ملے گا اور اُس کے بعد اِسلام کو پھر سے عروج کی منزل ملے گی۔
یہ نشیب و فراز تو ایک تاریخی تسلسل ہے۔ قومیں اِسی طرح نشیب و فراز سے گزرا کرتی ہیں۔ اگر تیرہ سو سال عروج کا زمانہ رہا ہے تو زوال کا زمانہ ہونا بھی فطری عمل ہے۔ ہمیں اِس زوال کے اَسباب ختم کرنا ہوں گے تاکہ پھر سے عروج کا دَور شروع ہو سکے۔ برٹرینڈرسل نے بھی کہا ہے کہ اِقتدار کبھی مشرق میں اور کبھی مغرب میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔ آج کل مغرب کے عروجِ اِقتدار اور عظمت کا دَور ہے۔ لیکن برٹرینڈرسل نے یہ بھی لکھا ہے کہ اَب مغربی تہذیب و ثقافت Hotchpotch of Individuals یعنی محض اَفراد کا اِجتماع بن کر رہ گئی ہے، جس کی تہذیب و ثقافت میں کوئی نظم، کوئی وحدت اور کوئی یکسانیت باقی نہیں رہی۔ اَب وہ معاشرہ شکستہ ہو رہا ہے اور شکست و ریخت کے اِس عمل کے بعد اُن کا اِقتدار ٹوٹے گا، اور برٹرینڈرسل کے فلسفے کے مطابق حالات اور اَثرات یہ بتاتے ہیں کہ اَب اِقتدار پھر مشرق کی طرف پلٹے گا۔ یہ ایک تارِیخی عمل ہے جسے روکا نہیں جا سکتا۔
فقہِ اِسلامی کی کتابوں میں غلاموں اور لونڈیوں سے متعلقہ اَحکامات دیکھ کر بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید اِسلام غلامی کو جائز سمجھتا اور رواج دیتا ہے، جبکہ حقیقت اِس کے برعکس ہے۔ رُوئے اَرض سے غلامی کے خاتمہ میں اِسلام کا کردار سب سے اہم ہے۔ اِسلام کو غلامی وراثت میں ملی۔ ظہورِ اِسلام کے وقت کے حالات کے پیش نظر اُسے یک لخت ختم کرنا ممکن نہ تھا۔ تاہم آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے اَحکامات جاری فرمائے اور غلاموں کے حقوق بارے ایسی ہدایات دیں جن سے بتدرِیج غلامی کا خاتمہ ہو گیا۔ ذاتی طور پر آپ نے غلام سازی کے عمل کو روکا اور پہلے سے جو غلام موجود تھے اُن کی آزادی اور معاشرے میں اُن کے باوقار مقام کے لئے اپنے عملِ مبارک سے مثال قائم کی۔
فقہِ اِسلامی میں اکثر بڑی خطاؤں کے کفارات میں پہلی ترجیح کے طور پر غلام آزاد کرنے کا حکم ملتا ہے۔ اگر غلام دستیاب نہ ہو تو پھر متبادل کفارات بیان کئے جاتے ہیں۔ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ اِسلام کو غلاموں کی آزادی کس قدر عزیز تھی۔
غلامی عرب معاشرے ہی کا حصہ نہ تھی بلکہ اُس کی اِبتداء آغازِ تاریخ سے ہی ہوئی۔ تاریخی اِعتبار سے غلامی کے آثار ہر زمانہ اور ہر قوم میں پائے جاتے ہیں۔ غلامی کی اِبتداء اُس وقت ہوئی جب اِنسانی معاشرہ وحشت کے مرحلے میں تھا اور اُس وقت بھی موجود رہی جب اِنسانی شعور نے ترقی کی منزلیں طے کر لی تھیں۔
دُنیا میں غلامی کی تاریخ حاکمیت و محکومیت اور فاتح و مفتوح کی تاریخ کے ساتھ ساتھ شروع ہوتی ہے۔ طاقتور قبائل کمزور قبائل کو فتح کرتے اور اُنہیں اپنا غلام بنا لیتے تھے۔ غلاموں کے رواج میں جنگوں کا کردار مرکزی ہے، اُن میں جو شکست خوردہ گرفتار ہوتے تھے اُنہیں یا تو قتل کر دیا جاتا تھا یا معاوضہ لے کر چھوڑ دیا جاتا تھا یا دائمی غلام بنا لیا جاتا تھا، اور جو عمر بھر کے لئے غلام بن جاتے تھے اُن سے ہر قسم کے کام لئے جاتے تھے، اُن میں آخری صورت زیادہ رائج تھی۔ جس نے رفتہ رفتہ لونڈی اور غلاموں کی تجارت کی شکل اِختیار کر لی۔ یہ لونڈی اور غلام معاشرتی زندگی کا ایسا حصہ بن گئے تھے کہ کوئی ملک اور کوئی قوم بھی غلامی کے رواج سے خالی نہ تھی۔
یونان، روم، مصر، ہندوستان ہر ملک میں غلامی رائج تھی، بعض ملکوں میں تو غلاموں کی تعداد ملک کی آزاد آبادی کے برابر تھی۔ خود یورپ میں اُنیسویں صدی کے وسط تک غلامی رائج تھی، یورپین قومیں محض جنگی قیدیوں ہی کو نہیں بلکہ نیم متمدن اَقوام کو بھی زبردستی غلام بنا لیتی تھیں۔ غلاموں کی حیثیت جانوروں سے بھی بدتر تھی، آقا اُن کی جان تک کا مالک ہوتا تھا، غلاموں کے قتل کی کوئی سزا نہ تھی، اُن سے طرح طرح کے پُرمشقت کا م لئے جاتے تھے اور اَدنیٰ لغزش اور سرتابی کی بڑی سخت سزا دی جاتی تھی۔ اُن کی تمام اَملاک کا مالک آقا ہوتا تھا۔ تقریباً پوری دُنیا میں غلاموں کا یہی حال تھا۔
یونان کے مفکرین نے نوع اِنسانی کو دو قسموں میں تقسیم کیا تھا، ’پیدائشی آزاد‘ اور ’پیدائشی غلام‘، اُن کے خیال میں دُوسری قسم (پیدائشی غلام) صرف پہلی جنس کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے۔
اَرسطو جیسے مفکر نے بھی غلامی کا رواج سوسائٹی کے لئے ضروری قرار دیا تھا۔ اُس کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ریاست (State) کے قیام کی حقیقی غرض یہ ہے کہ وہ ہیئت اِجتماعی یا سوسائٹی کی زندگی کو بہتر سے بہتر بنا سکے، اور اِس مقصد کے لئے ناگزیر ہے کہ غلاموں کا وُجود بھی ہو تاکہ ریاست کے سخت جسمانی کام غلام انجام دے سکیں۔
اَلغرض اِسلام کی آمد سے قبل غلاموںسے کیا جانے والا سلوک جانوروں سے بھی بدتر تھا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃُ الوِداع میں اُنہیں شرف و تکریم عطا کی جس سے مسلم معاشرے میں بتدرِیج غلامی کے خاتمے کی روایت پروان چڑھی۔ تاجدارِ کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃُ الوِداع میں غلاموں کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’تمہارے غلام، تمہارے غلام، اُن سے اچھا سلوک کرو، اُنہیں وہی کچھ کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو، اور اُنہیں ویسا ہی پہناؤ جیسا تم خود پہنتے ہو۔ اگر وہ (غلام) ایسی غلطی کر بیٹھیں جسے تم معاف نہیں کرنا چاہتے تو اللہ کے بندو اُنہیں فروخت کر دو اور اُنہیں سزا مت دو۔ سنو! کیا میں نے پیغامِ الٰہی پہنچا دیا؟ اَے اَللہ گواہ رہ۔ اَے لوگو! سنو اور اِطاعت کرو اگرچہ تم پر کسی حبشی غلام کو جو نکٹا ہو اَمیر بنا دیا جائے، جب کہ وہ تمہارے معاملات میں کتاب اللہ کو نافذ کرے۔‘‘
حضور اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃُ الوِداع کے موقع پر یہ فرما کر اِنسانی تاریخ کے سب سے زیادہ مظلوم طبقہ ’غلام‘ کے حقوق کو تحفظ عطا فرمایا۔ حتی کہ آپ کے آخری دَور میں اور وِصال کے آخری لمحات میں بھی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام تر توجہ کے مرکز مظلوم و مجبور غلام ہی تھے۔
آپ نے خطبہ حجۃُ الوِداع میں تاکیداً فرمایا: تمہارے غلام، تمہارے غلام اور وِصال کے عین آخری لمحات میں ’’نماز اور غلام‘‘ کے کلمات زبانِ نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اَدا ہوئے۔ جن سے اِنسانیت کے محسنِ اَعظم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں غلاموں کے مقام اور اُن کے حقوق کی اَہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ اَلفاظ تارِیخ میں مساواتِ اِنسانی کی بنیاد ہیں، جن کے ذریعہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمیزِ بندہ و آقا مٹا ڈالی۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِن تعلیمات کا اَثر عہدِ نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس معاشرہ پر اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اِسلامی تارِیخ کے مختلف اَدوار میں بھی جاری رہا۔
آج کے جدید تہذیبی اِرتقاء کے دَور میں اِس اَمر کا تصور بھی محال ہے کہ صدیوں پہلے کے عرب معاشرے میں غلام کو اِتنے حقوق دیئے جا سکتے تھے۔ یہ صرف مسلم معاشرہ تھا جہاں غلام کو آزاد شہریوں کے برابر اور مساوِی اِنسانی حقوق حاصل ہوئے، ورنہ دِیگر دُنیا میں دَورِحاضر تک غلاموں کی صورتِ حال اَبتری کا شکار تھی۔ برطانیہ میں اِنسدادِ غلامی کا بل 1788ء میں Wilberforceنے پارلیمنٹ میں پیش کیا اور اُسے منظور کر کے قانون بننے میں 19سال لگ گئے۔ امریکہ میں بھی 1863ء میں اِبراہام لنکن کے Emancipation Proclamation کے بعد ہی غلامی کا خاتمہ ہو سکا۔
جب کہ حضور اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غلامی کے خاتمے کے لئے آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے غلاموں کو آزاد کرنے کی اِبتدا فرما دی تھی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَن اِعتق رقبةً مُسلمةً اعتق اﷲ بکل عضو منه عضواً من النار.
’’جو مسلمان غلام کو آزاد کرے تو اَللہ تعالیٰ اُس کے ہر عضو کے عوض اُس کا عضو آگ سے آزاد فرمائے گا۔‘‘
صحيح بخاری، 6 : 2469، رقم: 9337
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غلام اور ذاتی ملازمین کو معاشرے میں باوقار مقام عطا کرنے کے لئے مختلف حقوق عطا فرمائے۔ غلاموں کو عزتِ نفس کا حق دیا، اگر کوئی اپنے غلام کو بلاوجہ طمانچہ مار دے تو اُس کا کفارہ اُس غلام کی آزادی کو قرار دیا۔ غلاموں کو اُن کے مالکوں کا بھائی قرار دیا اور اُن کے لئے ضروری قرار دیا کہ جیسا وہ خود کھائے ویسا ہی غلام کو بھی کھلائے اور جیسا خود پہنے ویسا ہی غلام کو بھی پہننے کو دے۔ اور اُسے ایسا کام کرنے کو نہ دے جس کی اُس میں طاقت نہ ہو۔ اور اگر کوئی ایسا کام دینا پڑے تو خود اُس کے ساتھ مدد کرے۔
یہ وہ دَور تھا جب اِسلامی ریاست سے باہر پوری دُنیا میں غلاموں کے ساتھ جانوروں جیسا اَبتر سلوک ہوتا تھا۔ اِسلام نے اُنہیں نہ صرف برابر کا شہری قرار دیا بلکہ آزاد مسلمانوں کا اِمام بننے کا موقع بھی دیا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
يؤمهم اقرءهم لکتاب اﷲ ولا يمنع العبد من الجماعة بغير علة
’’لوگوں کی اِمامت وہ شخص کرے جو اُن سب میں کتاب اللہ کی قرات زیادہ جانتا ہو اور شرعی عذر کے بغیر کسی غلام کو جماعت کروانے سے نہ روکا جائے۔‘‘
تهذيب التهذيب، 3 : 190، رقم: 418
اَلغرض آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسی معاشرتی و سماجی روایت کی بنیاد رکھ دی، جس سے غلاموں کا سماجی و معاشرتی مرتبہ بڑھ گیا اور بتدرِیج اِنسانی شعور نے غلامی کے اِدارے کے کلی قلع قمع کو قبول کر لیا اور آج صفحہ ہستی سے اِنسانی تکرِیم کے منافی اس institution کا خاتمہ ہو گیا۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اِسلام اور اِنسانی حقوق‘‘)
اِسلام تاریخِ اِنسانی کا وہ پہلا دین ہے، جس نے آج سے ڈیڑھ ہزار سال قبل خواتین کو نہ صرف حقوق عطا کئے بلکہ اُن کی قانونی حیثیت کو بھی تسلیم کیا۔ قرآنِ مجید میں اُنہیں مَردوں کے برابر درجے کے معاشی حقوق عطا کئے گئے۔ فرمایا:
لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَ لَلنِّسَائِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ
’’مردوں کے لئے اُس میں سے حصہ ہے جو اُنہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لئے اُس میں حصہ ہے جو اُنہوں نے کمایا۔‘‘
(النساء، 4 : 32)
ایک دُوسری آیت میں خانگی اور معاشرتی زندگی میں عورتوں کو مردوں کے مساوِی حقوق دیتے ہوئے فرمایا:
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ
’’اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اُسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر۔‘‘
قرآنِ مجید کی یہ آیت حقوقِ اِنسانی کا ایک واضح چارٹر ہے، جس میں صرف خواتین کے حقوق ہی نہیں بلکہ مساوات کا ذِکر ہے کہ اُن کے لئے وہی حقوق ہیں جو مردوں کے لئے ہیں۔
البقرة، 2 : 228
جو اُن کی ذمہ داریاں ہیں اُنہی کے برابر اُن کے حقوق ہیں۔ اِسی طرح قرآنِ مجید میں ایسی سیکڑوں آیات موجود ہیں، جہاں خواتین کے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ وہ دَور تھا جب دُنیا کی کسی تہذیب میں حتیٰ کے مغربی دُنیا میں (تیرہ چودہ سو سال بعد تک بھی) عورت کو وہ حقوق نہیں ملے، جو اِسلام نے عورت کو آج سے ڈیڑھ ہزار سال قبل دے دیئے۔
اِسلام نے عورت کو جو سیاسی حقوق عطا فرمائے اُس کی مثال ملاحظہ فرمائیں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِخلافت میں خواتین ممبر پارلیمنٹ تھیں۔ کتبِ حدیث اور کتبِ سیر و تاریخ میں ہے کہ آپ نے عورت کے حقِ مہر کی تحدید (limitation) کے لئے ایک بل پیش کرنا چاہا۔ ایک ممبر پارلیمنٹ خاتون صحابیہ اُٹھ کھڑی ہوئیں اور خلیفہ کے اُس بل کو چیلنج کیا اور کہا کہ جب اللہ نے حد مقرر نہیں کی تو آپ کیسے حد مقرر کر سکتے ہیں؟ اِس پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ اِس نکتہ نظر کی تائید میں آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟ اُس عورت نے قرآنِ مجید کی آیت کا حوالہ دیا:
وَآتَيْتُمْ اِحْدَاهُنَّ قِنْطَاراً
’’اور تم اُسے ڈھیروں مال دے چکے ہو۔‘‘
النساء، 4 : 20
اُس عورت نے کہا کہ قرآنِ مجید کا لفظ ’قِنْطَار‘ یہ ثابت کرتا ہے کہ مہر کے لئے کوئی حد مقرر کرنا درست نہیں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بحیثیتِ سربراہِ ریاست جواب دیا کہ قد اخطاء رجلٌ و اصابت امراۃ یعنی ’’مرد (اِس رائے میں) خطا کر بیٹھا اور عورت نے صحیح رائے دی‘‘۔ اور یوں آپ نے اپنا بل پارلیمنٹ سے واپس لے لیا اور فیصلہ عورت کی رائے پر دیا۔
مصنف عبد الرزاق، 6: 180، رقم: 10420
اِسی طرح جب سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا اِنتخاب عمل میں آیا تو طبقاتِ ابن سعد، طبری اور ابن الاثیر میں درج ہے کہ پارلیمنٹ میں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے حق میں ووٹ برابر رہے، جس کی بناء پر جنرل الیکشن کروائے گئے۔ اُس موقع پر حضرت عبدالرحمن بن عوف چیف الیکشن کمشنر مقرر ہوئے۔ اِس واقعہ کا ذِکر کرتے ہوئے ہر کتاب میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ’’ہر مرد اور ہر عورت نے ووٹ دیا‘‘۔ اِسلام کا عورت کو ووٹ کا حق دینا آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے کی بات ہے، کوئی سترہویں صدی کا قصہ نہیں۔
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود خواتین کو معاملات میں شریک کیا۔ دِفاع کی خدمات میں عورتیں شریک تھیں۔ حدیبیہ کے موقع پر پیدا ہونے والی بحرانی کیفیت سے نمٹنے کے لئے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُم المؤمنین حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہ سے بطور ایڈوائزر مشورہ طلب کیا اور اُن کے مشورہ پر فیصلہ دیا۔ خواتین کا اِسلام میں تو یہ کردار رہا ہے کہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آٹھ ہزار صحابہ کی ٹیچر ہیں۔ اُن صحابہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے علم الحدیث پڑھا۔ وہ لٹریچر، لاء، تاریخ اور میڈیکل سائنس کی ماہر تھیں۔ اِسی طرح ڈپلومیٹک ریلیشنز میں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت اُم کلثوم رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے دَور میں سفیر مقرر کر کے ملکہ رُوم کی طرف بھیجا تھا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں حضرت شفاء بنت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو مارکیٹ ایڈمنسٹریشن اور اِحتساب عدالت کا جج مقرر کیا، مارکیٹ ایڈمنسٹریشن کے معاملات فیصلہ کے لئے اُن کے پاس آتے تھے۔
پارلیمنٹ کی ممبرشپ، ڈپلومیٹک ذِمہ داریاں، سیاسی ذِمہ داریاں، ایڈوائزر کی ذِمہ داریاں اور دِیگر تمام ریاستی محکموں میں خواتین کے پاس ذِمہ داریاں تھیں اور وہ ریاست کے ہر شعبہ میں مردوں کے شانہ بشانہ کردار اَدا کرتی تھیں۔ اِسلام نے خواتین کو عزت دی، معاشرتی حقوق دیئے، قانونی حقوق دیئے، گواہی کا حق دیا، ڈومیسٹک رائٹس، اِکنامک رائٹس، کاروبار، تجارت، جاب حتیٰ کہ ووٹ کا حق دیا۔ یہ وہ دَور تھا جب مغربی دُنیا اَبھی اندھیرے میں تھی۔
اِسلام چونکہ فیملی سسٹم معاشرہ تشکیل دیتا ہے، اِس لئے کھانا اور رہائش مہیا کرنا مرد کی ذمہ داری ہے۔ اِس لحاظ سے مرد کی کمائی میں عورت کا حق ہے مگر عورت کی کمائی میں مرد کا حق نہیں ہے کیوں کہ اِسلام نے یہ ذِمہ داریاں عورت پر نہیں ڈالیں۔ عورت اگر بزنس یا جاب کرے تو اُس کی مرضی وہ گھر میں خرچ کرے یا نہ کرے، مرد اُسے پابند نہیں بنا سکتا۔ اگر وہ ایک پائی بھی گھر میں خرچ نہیں کرتی تو وہ اللہ کے حضور گناہ گار نہیں ہے۔
حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃُ الوِداع کے موقع پر تین بار فرمایا کہ میں تمہیں عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیتا ہوں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اِسلام کی رُو سے باعزت شخص وہ ہے جو عورت کو عزت دے، اور جو عورت کی بے عزتی کرے وہ خود کمینہ اور بے عزت ہے۔ یوں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کی عزت کو مرد کی عزت کا معیار مقرر فرمایا۔ جو لوگ بیوی کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں اُنہیں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس فرمان کے مطابق اپنا مقام پہچان لینا چاہیئے۔ اِسی طرح آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید فرمایا کہ خَیرُکم خَیرُکم لاھلِہ و انا خَیرُکم لاھلِی یعنی تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ سلوک میں بہتر ہے اور میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ تم سب سے بہتر سلوک سے پیش آتا ہوں۔
عورت اگر ’ماں‘ کے رُوپ میں ہے تو اِسلام نے اُس کے پاؤں کے نیچے جنت رکھ دی۔
عورت اگر ’بہن‘ اور ’بیٹی‘ کے رُوپ میں ہے تو اُس کی نیک کفالت کے نتیجہ میں جنت کی ضمات رکھ دی۔
عورت اگر ’بیوی‘ ہے تو اُس کے ساتھ حسنِ سلوک کے نتیجہ میں جنت کی اور اَللہ کی رضا کی ضمات رکھ دی۔
عورت کو اَللہ اور اُس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِتنا عظیم درجہ عطا کیا۔ ذرا سوچیئے کہ یہ سب کچھ اُس سوسائٹی میں نافذ ہو رہا ہے جہاں عورت کو پیدا ہوتے ہی زِندہ دفن کر دیتے تھے، اُنہیں قتل کر دیتے تھے۔ ظلم کی اِنتہاء یہ کہ اپنی ماؤں کو بھی مالِ وراثت کی طرح بانٹ لیتے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ اُس دَور میں عورت کا کوئی حق ہی نہیں تھا۔ اُس بدترین دَور میں اِسلام نے اِتنا بڑا اِنقلابی قدم اُٹھایا۔ آج اِکیسویں صدی میں جب ہم یہ بات سنتے ہیں تو شاید عجیب نہ لگے مگر ذرا اُس دَور کو چشمِ تصور میں لائیں اور تارِیخ کی ورق گردانی کر کے سوچیں کہ آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے رُوم و اِیران میں عورت کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا تھا! چین اور ہندوستان میں عورت کو کیا حقوق میسر تھے! یونان اور بازنطین میں عورت کن حالات سے گزر رہی تھی! اور جزیرہ نما عرب میں کیسے حالات تھے، جن میں تاجدارِ کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اچانک عورت کے حق میں اِتنا بڑا اِنقلابی قدم اُٹھایا اور اُسے وہ مساوات دی کہ آج بھی اِنسان کا ذِہن عورت کے حقوق کے حوالے سے اِسلام کی عطا کردہ تعلیمات سے آگے نہیں جا سکتا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اِسلام نے عورت کو بڑے حقوق دیئے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اُن کی تعلیم و تربیت نہیں دی جاتی۔ لوگوں کو اِسلام کے عطا کردہ حقوقِ نسواں سے آگاہ نہیں کیا جاتا۔ اِس کا سبب صاف ظاہر ہے کہ اگر مولانا صاحب یہ بیان کر دیں تو اُنہیں سب سے پہلے اپنی بیوی کو وُہی حقوق دینے پڑ جائیں گے، جس کے وہ متحمل نہیں ہو سکتے۔ دُوسروں کو اِسلام کا درسِ مساوات دے کر گھر میں اُن کی اپنی حکمرانی ختم ہو جائے گی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ کھانا پکانا بھی اَز رُوئے شرع عورت کے فرائض میں نہیں ہے۔ اگر وہ اِنکار کر دے کہ میں نہیں پکاتی یا مجھے پکانا نہیں آتا تو وہ اَللہ کے حضور گناہ گار نہیں ہو گی۔ مرد اُس پر زبردستی نہیں کر سکتا۔ یہ تو عورت کا اِحسان اور حسنِ سلوک ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ تعاوُن کر رہی ہے۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ جب عورت اپنے شرعی فرائض سے بڑھ کر حصہ لے رہی ہے تو اُس کے نتیجے میں مرد کو اُس کی حوصلہ اَفزائی کرنی چاہیئے۔ کبھی شام کو گھر آتے وقت پھول لیتا آئے، کوئی تحفہ لیتا آئے، کبھی شام کو باہر گھمانے کو لے جائے۔ اگر وہ یوں اُس کے حسنِ سلوک کا بدلہ دے تو اِزدواجی زندگی کتنا اچھا رُوپ دھار سکتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اِسلام کا صحیح چہرہ دِکھانے والے لوگ نہیں رہے اور باہر کی دُنیا کو اِسلام کا جو چہرہ پہنچتا ہے وہ اِسلام نہیں بلکہ ہمارے علاقائی طور طریقے ہیں جن کا اِسلام سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ عورت کو اِسلام نے وہ بلند مقام عطا کیا ہے جو اِنسان کا ذِہن تصور بھی نہیں کر سکتا۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 1002)
برطانیہ میں وِیمن رائٹس کی موومنٹ کا آغاز ہی 1897ء میں ہوا ہے، اِس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مغرب نے عورت کو اُس کے بنیادی حقوق کس دَور میں دیئے ہیں۔ لندن میں ہماری ایک عزیزہ ہیں میڈم خدیجہ، جو میری بہو کی بھاوج ہیں، وہ کرسچین سے مسلمان ہوئی ہیں۔ اُن کی دادی اُس وِیمن رائٹس موومنٹ کی لیڈر تھی۔ یوں 1897ء میں خواتین کے حقوق کی جس تحریک کا آغاز ہوا، اُس کے نتیجے میں برطانیہ کی خواتین کو 1918ء میں حقوق ملے۔ حتیٰ کہ ووٹ کا حق بھی 1918ء میں ملا، جو اِسلام نے آج سے پندرہ سو سال پہلے دیا تھا۔ ہاؤس آف کامنز میں ووٹنگ ہوئی، کل 385 ووٹ حق میں پڑے جبکہ 55 ووٹ مخالفت میں تھے۔ اُس ووٹنگ کے نتیجہ میں عورت کو صرف 30 سال سے زیادہ عمر ہونے کی صورت میں ووٹ کا حق دیا گیا۔ 30 سال سے کم عمر خواتین کو ووٹ کا حق پھر بھی نہیں دیا گیا، وہ کافی عرصہ بعد ملا۔
امریکہ میں 4 جولائی 1776ء کو Declaration of Independence جاری ہوا، جس میں خواتین کو کوئی حقوق نہیں ملے تھے۔ امریکی خواتین نے 1776ء سے لے کر 1920ء تک ڈیڑھ سو سال تک اپنے حقوق کے لئے جنگ لڑی تب اُنہیں ووٹ کا حق دیا گیا۔ یوں امریکہ میں خواتین کو ووٹ کا حق 1920ء میں ملا، اور اُس میں واضح لکھا ہے کہ اُس سے قبل امریکی عورت کو مرد کے برابر تسلیم نہیں کرتے تھے۔
فرانس میں یہ جدوجہد7 فروری 1848ء میں شروع ہوئی اور سو سال کی جدوجہد کے بعد عورتوں کو 1944ء میں ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ ناروے کی خواتین کو 1907ء میں حق ملا، سوِیڈن میں 1921ء میں، ہالینڈ میں 1919ء میں، جاپان 1945ء میں، اَلغرض ہماری تصنیف ’’اِسلام میں اِنسانی حقوق‘‘ میں 144 ممالک کی تفصیل درج ہے کہ کس ملک نے کب عورت کو مرد کے برابر شہری تسلیم کیا اور ووٹ کا حق دیا۔ یہ مغربی دُنیا کا حال ہے اور اِس کے برعکس وہ حقوق جس کے لئے مغربی دُنیا کی خواتین کو سو دو سو سال تک اپنے حقوق لینے کے لئے جنگ لڑنی پڑی، اِسلام نے ڈیڑھ ہزار سال پہلے گھر بیٹھے بغیر جنگ لڑے اُنہیں وہ حقوق عطا کر دیئے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اِقتصادیاتِ اسلام‘‘ اور سی ڈی نمبر: 1002)
اِسلامی تعلیمات سے رُوشناس نہ ہونے کی وجہ سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بیٹیوں کو بیٹوں کی نسبت کم وراثت ملنا اُن کے ساتھ نااِنصافی ہے۔ ایسی سوچ معاملہ فہمی میں کمی پر دلالت کرتی ہے۔ اِس سلسلے میں دو باتوں کو بغور دیکھنے کی ضرورت ہے۔
پہلے یہ کہ خواتین کو صرف والد کی طرف سے ہی نہیں بلکہ کئی اَطراف سے وراثت میں حصہ ملتا ہے، یعنی عورت کو بیٹی، بیوی، بہن اور ماں ہر حیثیت میں وراثت میں حصہ دیا جاتا ہے۔ اِس لئے محض بیٹی ہونے کی حیثیت کو دیکھ کر رائے قائم کر لینا درست نہیں ہوگا۔
دُوسرے یہ کہ اِسلامی معاشرے کی اہم خوبی یہ ہے کہ خواتین پر کسی قسم کا معاشی کفالت کا بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔ یہ شوہر کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اُسے کما کر کھلائے، اُس کے باوجود اِسلام نے اُسے وراثت میں بھی حصہ دار ٹھہرایا۔ یہ اِسلام کی نااِنصافی نہیں بلکہ عورت پر اِحسان ہے، جو آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے کے اُن حالات میں کیا گیا، جب بیٹیوں کو وراثت دینا تو کجا زِندہ رہنے کا حق بھی نہیں دیا جاتا تھا۔ اِسلام نے عورت کو دوطرفہ شرف بخشا کہ ایک طرف تو اُس پر کسبِ معاش کی ذِمہ داری نہیں ڈالی اور دُوسری طرف اُسے وراثت میں باقاعدہ قانونی طور پر حصہ دار بھی بنا دیا۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اِسلام میں خواتین کے حقوق‘‘)
عورت کے مقام کے حوالے سے ہمارے ہاں مروجہ دِینی تصورات ایسے گڈمڈ ہو چکے ہیں کہ سادہ لوح ذِہن سوال کرتا ہے کہ کیا عورت آدھی ہے؟ یا کیا عورت کو پورا اِنسان کہلانے کا حق حاصل نہیں؟ ایسے من گھڑت تصورات کی بنیاد وراثت، گواہی اور دِیت جیسے اُمور پر قائم ہے۔
وراثت: اِسلام میں تقسیمِ وراثت کے دوران بیٹی کی نسبت بیٹے کو دوگنا حصہ دیا جانا زیادتی تصور کرنا کم فہمی پر مبنی ہے۔ پہلی بات یہ کہ اِسلام نے عورت کو صرف بطور بیٹی نہیں بلکہ بیوی، بہن اور ماں ہونے کی حیثیت میں بھی وراثت کا حق دار قرار دیا ہے۔ دُوسرے عورت پر معاشی کفالت کا بوجھ نہ ڈالنے کے باوُجود اُسے وراثت میں اِتنی حیثیتوں میں حق دار قرار دینا ظلم نہیں بلکہ اِحسان ہے۔ ایک متوازن، مستحکم اور معاشی عدل و اِنصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرنے کے لئے ضروری تھا کہ مردوں کو وراثت میں زیادہ حصہ دیا جاتا تاکہ وہ اپنے اُوپر عائد جملہ عائلی ذِمہ داریوں سے بطور اَحسن عہدہ بر آ ہو سکیں۔ گویا عورت کا حقِ وراثت مرد سے نصف نہیں کیا گیا بلکہ مرد کا حقِ وراثت اُس کی اِضافی ذِمہ داریوں کی وجہ سے بڑھا دیا گیا ہے۔ یوں مرد اور عورت کی معاشرتی، سماجی اور عائلی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مالی توازُن قائم کر دیا گیا ہے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اِسلام میں انسانی حقوق‘‘)
شہادت: یہ تصور بھی غلط ہے کہ اِسلام نے عورت کی گواہی کو نصف قرار دیا۔ قرآنِ مجید کی جس آیتِ کریمہ سے یہ تصور اَخذ کیا جاتا ہے اُسے سیاق و سباق کے ساتھ بغور دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں تو عورت کو یہ چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ شہادت دیتے وقت دُوسری عورت سے مشورہ کر سکتی ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ مرد اگر عدالت میں گواہی کے دوران کسی سے مشورہ طلب کرے تو اُس کی گواہی مسترد کر دی جاتی ہے کہ وہ بھول رہا ہے، جب کہ عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دورانِ شہادت اگر اپنی ساتھی عورت سے مشورہ کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔ عدالت اُس کی گواہی کو محض اِس بناء پر ردّ نہیں کر سکتی کہ وہ دُوسری عورت سے مشورہ کیوں کر رہی ہے۔ آیتِ کریمہ ملاحظہ ہو:
ان تَضِلَّ اِحْدَاهُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدَاهُمَا الاخْرَی
’’تاکہ اُن دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو دُوسری اُسے یاد دلا دے۔‘‘
البقرة، 2 : 282
دِیت: عورت کی دِیت (Blood Money) کو مرد سے نصف قرار دیا جانا بھی اِس غلط فہمی کا باعث ہے۔ سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیئے کہ عورت قتل ہو یا مرد دونوں صورتوں میں اِسلام نے ایک ہی غلام آزاد کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر عورت آدھی ہوتی تو عورت کے قتل پر ایک اور مرد کے قتل پر دو غلاموں کو آزاد کرنا ضروری ہوتا، جب کہ اَیسا نہیں ہے۔ اِسی طرح ساٹھ روزے رکھنے میں بھی مرد و عورت کا کوئی فرق نہیں۔ عورت قتل ہو یا مرد دونوں کی صورت میں ساٹھ روزے ہی کفارہ مقرر ہے۔ اگر عورت آدھی ہوتی تو اُس کے قتل کا کفارہ 30 روزے ہوتا، جب کہ اَیسا نہیں ہے۔ جب غلام کی آزادی اور ساٹھ روزے کی صورت میں عورت کو مرد کے برابر رکھا گیا ہے تو دِیت کے نام پر عورت کو آدھی قرار دینا کیوں کر درست ہو سکتا ہے؟ عورت کی دِیت کے حوالے سے علماء میں اِختلاف ہے۔ ہمارے ہاں عورت کی دِیت بھی مرد کے برابر ہے۔ عورت کی دِیت کو نصف قرار دینے والوں کو سوچنا چاہیئے کہ اگر اﷲ ربّ العزت کا منشاء عورت کی نصف دِیت ہوتا تو وہ روزوں کی صورت میں کفارہ بھی آدھا قرار دیتا اور غلام کی آزادی کو بھی نصف قرار دیتا، جب کہ اَیسا نہیں ہے۔ جب اَللہ نے روزوں کا کفارہ برابر رکھا، غلام کی آزادی کی سزا برابر رکھی تو دِیت بھی برابر ہونی چاہیئے۔ اِمام اَبوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے ساٹھ روزوں کے کفارے کی سزا کی برابری کی بناء پر غیرمسلم کی دِیت کو مسلمان کی دِیت کے برابر قرار دیا۔ اِسی طرح اِمام مالک رضی اللہ عنہ نے حرمِ مکہ میں قتل ہونے پر روزوں کے ساٹھ ہونے کی بناء پر دِیت کو دُگنا نہ کیا۔ اِسی قاعدے کے مطابق عورت کی دِیت بھی مرد کی دِیت کے برابر ہے کیوں کہ قرآنِ مجید میں دِیت کا بیان عمومی ہے اِس لئے عورت کی دِیت مرد کی دِیت کے برابر ہوگی۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 41)
بچے کی زِندگی کا آغاز مرحلہ جنین سے ہوتا ہے۔ اِسلام نے اس مرحلے سے بچے کے لئے زندگی کے حق کو قانونی حیثیت عطا کی ہے۔ چونکہ اِستقرارِ حمل کے چار ماہ بعد رحمِ مادر میں موجود بچے میں رُوح پھونک دی جاتی ہے، اِس لئے اُس وقت حمل ضائع کرنا رحمِ مادر میں بچہ کو قتل کرنا ہے جو کہ قتلِ اِنسانی کے مترادف ہے اور گناہِ کبیرہ ہے۔
فقہاءِ کرام فرماتے ہیں کہ اگر حاملہ چاہے تو 120 دن گزرنے سے پہلے اِسقاطِ حمل کر سکتی ہے۔ اگر حمل چار ماہ سے زائد ہو لیکن حمل برقرار رہنے کی وجہ سے عورت کی ہلاکت یقینی ہو، (جس کی ماہر ڈاکٹروں نے تصدیق کردی ہو) تو چار ماہ کے بعد بھی اِسقاط حمل جائز ہے، بلکہ عورت کی جان بچانے کے لئے ضروری ہے، کیوں کہ اِسقاط نہ کرانے کی صورت میں بچہ اور ماں دونوں کی ہلاکت کا خطرہ ہے اور پیٹ کا بچہ جس کا زِندہ ہونا ظنی ہے اُس کی نسبت ماں کی جان زیادہ اہم ہے، جو یقینی اور مشاہد ہے۔ اِس لئے اُس صورت میں اِسقاط کرانا واجب ہے۔
لہٰذا رحمِ مادر میں اِستقرارِ حمل جب تک 120 دن یعنی چار ماہ کا نہ ہو جائے یعنی بچہ کے اندر روح پھونکے جانے سے قبل اِسقاطِ حمل کرانا اگرچہ جائز ہے مگر بلا ضرورت مکروہ ہے، جب کہ چار ماہ کا حمل بطنِ مادر میں ہو جائے تو اَب اُسے ضائع کرنا صرف ناجائز نہیں بلکہ حرام ہے۔
یہ باپ کی ذِمہ داری ہے کہ وہ اپنے ہونے والے بچہ کا خرچ اُٹھائے، خواہ طلاق کی صورت میں اُس کی ماں کا خرچ اُس پر لازمی نہ ہو۔ اِسی طرح حاملہ عورت کی عدت وضعِ حمل ہے تاکہ بچہ کے نسب کا تحفظ ہو کیوں کہ اگر عورت دورانِ حمل دُوسری شادی کر لے تو پیدا ہونے والے بچہ کا نسب خلط ملط ہونے کا اندیشہ ہے۔
اِسلام سے پہلے لوگ اپنے اَولاد کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالتے تھے۔ اِسلام نے اِس قبیح رسم کا خاتمہ کرنے کی بنیاد ڈالی۔ بھوک اور اِفلاس کے خدشہ سے اَولاد کے قتل کی ممانعت کرتے ہوئے قرآن حکیم فرماتا ہے:
وَلَا تَقْتُلُوْا اَوْلَادَکُمْ خَشْيَةَ اِمْلَاقٍ ط نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِيَاکُمْ ط اِنَّ قَتْلَهُمْ کَانَ خِطْاً کَبِيْرًاo
’’اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل مت کرو، ہم ہی اُنہیں (بھی) روزی دیتے ہیں اور تمہیں بھی، بے شک اُن کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہےo‘‘
بنی اسرائیل، 17 : 31
اِسلام سے قبل بیٹیوں کی پیدائش کو نہایت برا اور قابلِ توہین سمجھاجاتا تھا اور اُنہیں زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ اِسلام نے اس خیالِ باطل کا ردّ کیا اور بیٹیوں کی پیدائش کو باعثِ رحمت قرار دیا۔ قرآنِ حکیم ایک مقام پر روزِ محشر کی سختیاں اور مصائب کے بیان کے باب میں فرماتا ہے:
وَ اِذَا الْمَوْئدَةُ سُئِلَتْo بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْo
’’اور جب زِندہ دفن کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گاo کہ وہ کس گناہ کے باعث قتل کی گئی تھیo‘‘
القرآن، التکوير، 81 : 8،9
اِسی طرح نوزائیدہ بچے کا یہ حق ہے کہ اُس کا پیارا سا نام رکھا جائے۔ اِسلام سے قبل عرب اپنے بچوں کے عجیب نام رکھتے تھے، حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے نام ناپسند فرمائے اور خوبصورت نام رکھنے کا حکم دیا۔
بچے کا یہ حق ہے کہ وہ خود کو اپنے ماں باپ کی طرف منسوب کر سکے۔ بچے کے لئے نسب کا حق صرف اُسی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ ماںباپ کا بھی حق ہے۔ باپ کا حق اِس نسبت سے ہے کہ وہ اپنی اَولاد کے تحفظ اور تعلیم و تربیت کا اِختیار رکھتا ہے، اُسے اپنی اَولاد کی سرپرستی اور وِلایت کا حق ہے۔ جب اَولاد محتاج ہو اور باپ کمانے کی قدرت رکھتا ہو تو اُسے اَولاد کے لئے کمانے کا حق ہے اور اگر باپ اَولاد کی زِندگی میں فوت ہو جائے تو وہ اَولاد ترکہ میں سے حصہ پائے گی۔ اِسی طرح ثبوتِ نسب ماں کا بھی حق ہے کیوں کہ اَولاد ماں کا جزو ہے اور وہ فطری طور اِس بات کی شدید خواہش رکھتی ہے کہ اپنی اَولاد کی حفاظت اور بہتر پرورش کرے۔ اِسی طرح ماں باپ کے بڑھاپے اور طاقت نہ رکھنے کی صورت میں اُس پر خرچ کرنا اَولاد کا فرض ہے۔
اپنا حقیقی نسب تبدیل کرنے والوں اور خود کو اپنے باپ دادا کی بجائے کسی اور کی اَولاد قرار دینے والوں کے بارے میں حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
’’جو اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کے متعلق دعویٰ کرے اور وہ جانتا ہو کہ وہ اُس کا باپ نہیں تو اُس پر جنت حرام ہے۔‘‘
صحیح بخاری، 6 : 2485، رقم: 6385
پیدائش کے بعد بچہ کے لئے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنی زندگی کی حفاظت اور اَفزائش کے لئے ماں کے دُودھ کے علاوہ کوئی غذا اِستعمال کرے، اِس لئے وضعِ حمل کے بعد عورت کے پستانوں میں قدرتی طور پر دُودھ جاری ہو جاتا ہے اور بچہ کے لئے اُس کے دِل میں پیدا ہونے والی محبت و شفقت اُسے بچہ کو دُودھ پلانے پر اُکساتی ہے۔ اَللہ تعالیٰ نے عورت پر واجب کیا ہے کہ وہ بچہ کو پورے دو سال دُودھ پلائے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ یہ مدت ہر طرح سے بچہ کی صحت کے لئے ضروری ہے۔
جدید میڈیکل ریسرچ سے بھی ثابت ہو چکا ہے کہ بچہ کے جسمانی و نفسیاتی تقاضوں کے پیشِ نظر دو سال کی مدتِ رضاعت ضروری ہے۔ یہ اِسلام کی آفاقی اور اَبدی تعلیمات کا فیضان ہے کہ اَہلِ اِسلام کو زِندگی کے وہ رہنما اُصول صدیوں قبل عطا کر دیے گئے جن کی تائید و تصدِیق آج کی سائنسی تحقیقات کر رہی ہیں۔
بیٹیوں کی پرورش کے حوالے سے حضرت اَبوسعید خدری رضی اللہ عنہ رِوایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اَکر م صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ اُن سے اچھا سلوک کرے تو اُس کے لئے جنت ہے۔‘‘
(جامع ترمذی، 4 : 318، 320، رقم: 1912)
بچوں کو اِسلامی تعلیمات سے شناسا کرنا اور اُنہیں اِسلامی آدابِ زندگی سکھانا ماں باپ کا فرض ہے۔ بسا اَوقات والدین کی غفلت سے بچے اِیمان کی دولت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، بعد میں اُس کے والدین اُس کا مذہب تبدیل کرا دیتے ہیں۔ حدیثِ مبارکہ ہے:
کُلُّ مَولُودٍ يُولَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ، فَابَوَاه يُهَوِّدَانِه او يُنَصِّرَانِه او يُمَجِّسَانِه
’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اُس کے ماں باپ اُسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔‘‘
صحیح بخاری، 1 : 465، رقم: 1319)
بچوں کی اچھی تربیت کر کے اُنہیں اچھا، ذِمہ دار اور مثالی مسلمان بنانا والدین کی ذِمہ داری ہے۔ اُن کی تربیت کے مختلف مراحل کا ذِکر کرتے ہوئے حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنی اَولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہو جائیں، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو (نماز نہ پڑھنے پر تادیباً) اُنہیں مارو، اور (دس سال کی عمر میں) اُنہیں الگ الگ سلایا کرو۔‘‘
سنن ابو داؤد، 1 : 133، رقم: 495
بچوں کا یہ حق ہے کہ والدین اُن کے ساتھ شفقت و محبت کے ساتھ پیش آئیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: ’’حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن بن علی علیہ السلام کو چوما تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوئے ایک شخص اَقرع بن حابس تمیمی نے کہا: میرے دس بچے ہیں، میں نے تو کبھی کسی کو نہیں چوما۔ رسولِ اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کی طرف دیکھا، پھر فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘
صحیح بخاری، 5 : 2235، رقم: 5651
والدین پر لازِم ہے کہ وہ بچوں کے مابین عدل و اِنصاف کا رویہ رکھیں، بصورتِ دیگر بچوں میں نفسیاتی طور پر اِحساسِ کمتری پیدا ہوگا۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے اَولاد کو تحفہ دیتے وقت برابری رکھو، پس میں اگر اُن میں سے کسی کو فضیلت دیتا تو بیٹیوں کو فضیلت دیتا۔‘‘
السنن الکبری للبیهقی، 6 : 177
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اسلام میں بچوں کے حقوق‘‘)
یتیم بچوں کے حقوق پر اِسلام نے بہت زور دیا ہے۔ اِس کا اندازہ اِس حقیقت سے لگایاجاسکتا ہے کہ قرآنِ حکیم میں 23 مختلف مواقع پر یتیم کا ذِکر کیا گیا ہے، جن میں یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک، اُن کے اَموال کی حفاظت اور اُن کی نگہداشت کرنے کی تلقین کی گئی ہے، اوراُن کے ساتھ زیادتی کرنے والے، اُن کے حقوق و مال غصب کرنے والے پر وعید کی گئی ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْکُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِهِمْ نَارًا ط وَ سَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًاo
’’بے شک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں نری آگ بھرتے ہیں، اور وہ جلد ہی دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گےo‘‘
(النساء، 4 : 10)
یتیم ہونا اِنسان کا نقص نہیں بلکہ منشائے خداوندی ہے کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اُس نے اپنے محبوب ترین بندے سید المرسلین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حالتِ یتیمی میں پیدا فرمایا کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدِ ماجد آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وِلادت باسعادت سے بھی پہلے وِصال فرما چکے تھے۔ پھر چھ سال کی عمر میں ہی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ بھی اِنتقال فرما گئیں۔ اَللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُس کیفیت کا ذِکر قرآنِ حکیم میں یوں کیا ہے:
اَلَمْ يَجِدْکَ يَتِيْمًا فَاٰوٰیo
’’(اَے حبیب!) کیا اُس نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر اُس نے (آپ کو معزز و مکرم) ٹھکانا دیاo‘‘
القرآن، الضحی، 93 : 6
اَللہ تعالیٰ نے یتیموں کا مال کھانے سے منع فرمایا۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاٰتُوا الْيَتٰمٰی اَمْوَالَهُمْ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيْثَ بِالطَّيِّبِ وَلَا تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَهُمْ اِلٰی اَمْوَالِکُمْ ط اِنَّه کَانَ حُوْبًا کَبِيْرًاo
’’اور یتیموں کو اُن کے مال دے دو اور بری چیز کو عمدہ چیز سے نہ بدلا کرو اور نہ اُن کے مال اپنے مالوں میں ملا کر کھایا کرو، یقینا یہ بہت بڑا گناہ ہےo‘‘
القرآن، النساء، 4 : 2
یتیموں کی پرورش، اچھی تربیت اور اُن کے مال کی حفاظت کے حوالے سے فرمایا:
وَابْتَلُوا الْيَتٰمٰی حَتّٰی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ ط فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْا اِلَيْهِمْ اَمْوَالَهُمْ ط وَلَا تَاْکُلُوْهَآ اِسْرَافًا وَّ بِدَارًا اَنْ يَکْبَرُوْاط وَمَنْ کَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ج وَمَنْ کَانَ فَقِيْرًا فَلْيَاْکُلْ بِالْمَعْرُوْفِط فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَيْهِمْ اَمْوَالَهُمْ فَاَشْهِدُوْا عَلَيْهِمْج وَکَفٰی بِاﷲِ حَسِيْبًاo
’’اور یتیموں کی (تربیتاً) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں، پھر اگر تم اُن میں ہوشیاری (اور حسنِ تدبیر) دیکھ لو تو اُن کے مال اُن کے حوالے کر دو اور اُن کے مال فضول خرچی اور جلدبازی میں (اِس اندیشے سے) نہ کھا ڈالو کہ وہ بڑے ہو (کر واپس لے) جائیں گے، اور جو کوئی خوشحال ہو وہ (مالِ یتیم سے) بالکل بچا رہے اور جو (خود) نادار ہو اُسے (صرف) مناسب حد تک کھانا چاہئے اور جب تم اُن کے مال اُن کے سپرد کرنے لگو تو اُن پر گواہ بنا لیا کرو اور حساب لینے والا اَﷲ ہی کافی ہے۔‘‘
القرآن، النساء، 4 : 6
حضرت اَبوہریرہ رضی اللہ عنہ رِوایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
خَيرُ بيتٍ في المُسلمينَ بيتٌ فيه يتيمٌ يُحسن إليه، و شرُّ بيتٍ فی المُسلمينَ بيتٌ فيه يتيمٌ يُساء إليه
’’مسلمانوں میں سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اُس کے ساتھ نیک سلوک ہو اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اُس کے ساتھ برا سلوک ہو۔‘‘
سنن ابن ماجه، 2 : 1213، رقم: 3679
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
قال رسول اﷲ صلیٰ الله عليه وآله وسلم : أَنَا وَ کَافِلُ الْيَتِيْمِ فِيْ الْجَنَّةِ هٰکَذَا... و أشار بِالسّبابةِ و الوُسطیٰ، و فرّج بينھما شيئًا
’’رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اِس طرح (اکٹھے) ہوں گے۔۔۔ پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اَنگشتِ شہادت اور درمیانی اُنگلی سے اِشارہ فرمایا اور دونوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا۔‘‘
صحیح بخاری، 5 : 2032، رقم: 4998
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اِسلام میں بچوں کے حقوق‘‘)
اِسلامی معاشرے میں عمررسیدہ اَفراد خصوصی مقام کے حامل ہیں۔ اِس کی بنیاد اِسلام کی عطاکردہ وہ آفاقی تعلیمات ہیں جن میں عمررسیدہ اَفراد کو باعثِ برکت و رحمت اور قابلِ عزت و تکریم قرار دیا گیا ہے۔ حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بزرگوں کی عزت و تکریم کی تلقین فرمائی اور بزرگوں کا یہ حق قرار دیا کہ کم عمر اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کا اِحترام کریں اور اُن کے مرتبے کا خیال رکھیں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ليس منا من لم يرحم صغيرنا و يؤقر کبيرنا
’’وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔‘‘
جامع ترمذی، 4 : 321، رقم: 1919
اِسی طرح عام سماجی و معاشرتی معاملات میں بھی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بڑوں کی تکرِیم کرنے کی تعلیم دی۔ صحیح بخاری میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’کَبِّرِ الْکُبْرَ‘ (یعنی ’’بڑے کے مرتبے اور عزت کا خیال رکھو‘‘)۔ اسی طرح حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوجوانوں کو بزرگوں کی عزت و تکریم کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:
ما أکرم شابٌّ شيخاً لسنه إلا قيض اﷲ له من يکرمه عند سنه
’’جو جوان کسی بوڑھے کی عمررسیدگی کے باعث اُس کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتاہے جو اُس کے بڑھاپے میں اُس کی عزت کرے۔‘‘
جامع ترمذی، 4 : 372، رقم: 2022
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
البرکة فی أکابرنا، فمن لم يرحم صغيرنا و يجل کبيرنا فليس منا
’’ہمارے بڑوں کی وجہ سے ہی ہم میں خیر و برکت ہے۔ پس وہ ہم میں سے نہیں، جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کی شان میں گستاخی کرتا ہے۔‘‘
المعجم الکبير، 8 : 228، رقم: 7895
عمررسیدہ اَفراد کا اِس قدر اِحساس دِلایا گیا ہے کہ ضعیفُ العمر اَفراد کی سہولت کے لئے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز باجماعت میں طوِیل تلاوت کرنے سے منع فرمایا۔ حضرت اَبوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروِی ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إذا صلّی أحدکم للناس فليخفف، فإنّ منهم الضعيف و السّقيم و الکبير، و إذا صلّی أحدکم لنفسه فليطوّل ما شاء
’’جب تم میں سے کوئی لوگوں کو نمازپڑھائے تو ہلکی پڑھائے کیوں کہ اُن میں کمزور، بیمار اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں، اور جب تم میں سے کوئی تنہا نماز پڑھے تو جتنا چاہے طول دے۔‘‘
صحیح بخاری، 1 : 248، رقم: 671
(ماخوذ از تصنیف شیخ الاسلام ’’اِسلام میں عمررسیدہ اور معذور افراد کے حقوق‘‘)
اِسلام شرفِ اِنسانیت کا علمبردار دِین ہے۔ ہر فرد سے حسنِ سلوک کی تعلیم دینے والے دِین میں کوئی ایسا اُصول یا ضابطہ روَا نہیں رکھا گیا، جو شرفِ اِنسانیت کے منافی ہو۔ دِیگر طبقاتِ معاشرہ کی طرح اِسلامی ریاست میں اَقلیتوں کو بھی اُن تمام حقوق کا مستحق قرار دیا گیا ہے، جن کا ایک مثالی معاشرے میں تصور کیا جا سکتا ہے۔ اَقلیتوں کے حقوق کی اَساس معاملاتِ دِین میں جبر و اِکراہ کے عنصر کی نفی کر کے فراہم کی گئی:
لَا اِکْرَاهَ فِی الدِّيْنِ قَدْ تَّبَيَنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ فَمَنْ يَکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ يُؤْمِنْ بِاﷲِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰی لَاانْفِصَامَ لَهَا وَاﷲُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌO
’’دِین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے، سو جو کوئی معبودانِ باطل کا اِنکار کر دے اور اَللہ پر اِیمان لے آئے تو اُس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لیے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اَللہ خوب جاننے والا ہے۔‘‘
البقرة، 2 : 256
دوسرے مقام پر اِرشاد فرمایا گیا:
لَکُمْ دِيْنُکُمْ وَ لِيَ دِيْن
’’(سو) تمہارا دِین تمہارے لیے اور میرا دِین میرے لیے ہے۔‘‘
الکافرون، 109 : 6
اِسلامی معاشرے میں اَقلیتوں کے حقوق کو کتنی زیادہ اَہمیت دی گئی ہے اِس کا اَندازہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس فرمانِ مبارک سے ہوتا ہے:
الا مَن ظلم معاهداً او انتقصه او کلفه فوق طاقته او اخذ منه شيئاً بغير طيب نفس فانا حجيجه يوم القيامة
’’خبردار! جس کسی نے کسی معاہد (اَقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اُس کا حق غصب کیا یا اُس کو اُس کی اِستطاعت سے زیادہ بوجھ ڈالا یا اُس کی رضا کے بغیر اُس سے کوئی چیز لی تو بروزِقیامت میں اُس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا۔‘‘
سنن ابوداؤد، 3 : 170، رقم: 3052
یہ صرف ایک تنبیہ ہی نہیں بلکہ ایک قانون ہے، جو حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دَورِ مبارک میں اِسلامی مملکت میں جاری تھا، جس پر بعد میں بھی عمل درآمد ہوتارہا اور اَب بھی یہ اِسلامی دستورِ مملکت کا ایک حصہ ہے۔ چنانچہ ایک رِوایت میں ہے:
انّ رجلا من المسلمين قتل رجلا من أهل الکتاب، فرفع اِلی النبی صلیٰ الله عليه وآله وسلم ، فقال رسول اﷲ صلیٰ الله عليه وآله وسلم : أنا أحق من وفی بذمته، ثم أمر به فقتل
’’ایک مسلمان نے ایک اہلِ کتاب کو قتل کر دیا اور وہ مقدمہ حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس فیصلہ کے لئے آیا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں اہلِ ذِمہ (اَقلیتوں) کا حق اَدا کرنے کا سب سے زیادہ ذِمہ دار ہوں، چنانچہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قاتل کے بارے میں قتل کرنے کا حکم دیا اور اُسے قتل کر دیا گیا۔‘‘
السنن الکبریٰ للبيهقی، 8 : 30
حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اَقلیتوں کے بارے مسلمانوں کو ہمیشہ متنبہ فرماتے تھے، چنانچہ ایک دِن آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاہدین کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:
مَن قتل معاهداً لم يرح رائحة الجنة وان ريحها تُوجد من مسيرة اربعين عاماً
’’جس کسی نے کسی معاہد (اَقلیتی فرد) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا، حالاں کہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک پھیلی ہوئی ہے۔‘‘
صحیح بخاری، 3 : 1154، رقم: 2995
اِس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ جنت سے بہت دُور رکھا جائے گا۔ دراصل یہ تنبیہات اُس قانون پر عمل درآمد کروانے کے لئے ہیں، جو اِسلام نے اَقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے عطا کیا۔
غیرمسلموں کے جو بیرونی وفود حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آتے اُن کی حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم خود میزبانی فرماتے۔ چنانچہ جب مدینہ منورہ میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حبشہ کے عیسائیوں کا ایک وفد آیا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں مسجدِ نبوی میں ٹھہرایا اور اُن کی مہمان نوازی خود اپنے ذِمہ لی اور فرمایا:
انّهم کانوا لأصحابنا مکرمین، و انی أحب أن أکافئهم
’’یہ لوگ ہمارے ساتھیوں کے لئے ممتاز و منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ اِس لئے میں نے پسند کیا کہ میں بذاتِ خود اُن کی تعظیم و تکریم اور مہمان نوازی کروں۔‘‘
شعب الايمان للبيهقی، 6 : 518، رقم: 9125
ایک دفعہ نجران کے عیسائیوں کا چودہ رکنی وفد مدینہ منورہ آیا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس وفد کو مسجدِ نبوی میں ٹھہرایا اور اُس وفد میں شامل مسیحیوں کو اِجازت دی کہ وہ اپنی نماز اپنے طریقہ پر مسجدِ نبوی میں ادا کریں۔ چنانچہ یہ مسیحی حضرات مسجدِ نبوی کی ایک جانب مشرق کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھتے۔
حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِن تعلیمات کی روشنی میں ڈیڑھ ہزار سال گزرنے کے باوُجود آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے لے کر ہر اِسلامی حکومت میں غیرمسلموں کو حقوق کا تحفظ حاصل رہا۔
اَقلیتوں سے حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ سلوک کا نتیجہ تھا کہ اُن کا برتائو بھی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اِحترام پر مبنی تھا۔ ایک جنگ میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیف ایک یہودی جب مرنے لگا تو لوگوں نے اُس سے پوچھا کہ تیری بڑی جائیداد ہے، اُس کا وارِث کون ہو گا؟ تو اُس یہودی نے کہا محمد رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میری جائیدادکے وارِث ہوں گے۔ یہ اِسلامی ریاست میں اَقلیتوں سے حسنِ سلوک کا ایک غیرمسلم کی طرف سے ایک عظیم اِعتراف تھا۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اہلِ کتاب کے علاوہ مشرکین (بت پرست اَقوام) سے جو برتائو رہا، اُس کی بھی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ مشرکینِ مکہ و طائف نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بے شمار مظالم ڈھائے، لیکن جب مکہ مکرمہ فتح ہوا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک اَنصاری کمانڈر سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہ نے اَبوسفیان سے کہا:
اليوم يوم الملحمة
’’آج لڑائی کا دن ہے۔‘‘
یعنی آج کفار سے جی بھر کر اِنتقام لیا جائے گا، تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہو گئے اور اُن سے جھنڈا لے کر اُن کے بیٹے قیس کے سپرد کر دیا اور اَبوسفیان سے فرمایا:
اليوم يوم المرحمة
’’(آج لڑائی کا نہیں بلکہ) آج رحمت کے عام کرنے (اور معاف کر دینے) کا دِن ہے۔‘‘
فتح الباری لابن حجر عسقلانی، 8 : 9
پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مخالفین سے پوچھا کہ بتائو میں آج تمہارے ساتھ کیا برتائو کروں گا؟ تو اُنہوں نے کہا کہ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے خطاکار بھائیوں کے ساتھ برتائو کیا تھا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی وُہی توقع ہے۔ اِس جواب پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وُہی جملہ اِرشاد فرمایا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے لئے فرمایا تھا: ’لَاتَثْرِيْبَ عَلَيْکُمُ الْيَوْمَ، اِذْہَبُوْا فَانْتُمُ الطُّلَقَاءُ‘ (یعنی تم سے آج کوئی پوچھ گچھ نہیں، چلے جاؤ، تم سب آزاد ہو)۔
الجامع الصغير، 1 : 220، رقم: 368
اِسلام نے اَقلیتوں کو قانون کی نظر میں برابر کے شہری کا مقام عطا کیا، اُنہیں قانون کے نفاذ میں مساوات کا حق دیا، اُنہیں نجی زندگی اور شخصی رازداری کا حق دِیا، مذہبی آزادی کا حق دِیا، اِقتصادی اور معاشی آزادی کا حق دیا، ریاست کی طرف سے اِجتماعی کفالت میں اَقلیتوں کو بھی حق دار قرار دیا، اُنہیں روزگار کی آزادی کا حق دیا یعنی مسلمان ریاست میں اُنہیں کسی خاص ذریعہ روزگار تک محدود رہنے کا پابند نہیں بنایا جا سکتا۔ اُنہیں عام شہری کی طرح تحفظ اور سلامتی کا حق دیا، اُنہیں تمدنی اور معاشرتی آزادی کا حق دیا۔ اَقلیتوں کی حفاظت اِسلامی رِیاست کی ذِمّہ داری قرار دی۔ یہاں تک کہ اُنہیں عسکری خدمات سے اِستثناء کا حق بھی دیا۔ اِسی طرح اَقلیتوں سے معاہدے کی پاسداری بھی اِسلامی رِیاست کا فریضہ قرار دیا۔
اَقلیتوں کے حقوق کے بارے میں قرآن و سنت کی عطا کی گئی تعلیمات اور دَورِ نبوت و دَورِ خلافتِ راشدہ میں اَقلیتوں کے حقوق کے اِحترام و تحفظ کے روشن نظائر سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ مسلم ریاست میں اَقلیتوں کو وہ تحفظ اور حقوق حاصل ہیں، جن کا تصور بھی کسی دُوسرے معاشرے میں نہیں کیا جا سکتا۔ معروف مستشرق منٹگمری واٹ اِس عظمت کا اِعتراف اِن لفظوں میں کرتا ہے:
The Christian were probably better off as Dhimis under Muslim arab rulers than they had been under the Byzantine Greek.
’’عیسائی اپنے آپ کو یونانی بازنطینی حکمرانوں کی رعیت میں رہنے کی بجائے عرب مسلم حکمرانوں کے اِقتدار میں بطور ذِمی زیادہ محفوظ اور بہتر سمجھتے تھے۔‘‘
Islamic Political Thought, p. 151
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اِسلام میں انسانی حقوق‘‘)
اِس میں کوئی دو آراء نہیں ہیں کہ کرسمس مسیحیوں کا مذہبی تہوار ہے۔ مسلمانوں کے لیے اُسے مذہبی طور پر اپنانا جائز نہیں۔ تاہم جذبہ خیرسگالی کے تحت مذہبی رواداری کے فروغ کے لئے مسیحی مذہب کے پیروکاروں کے لئے کرسمس کی تقارِیب کا اِنعقاد یا اُن کی طرف سے منعقد کردہ پروگراموں میں شرکت قطعاً غیرشرعی نہیں ہے۔ بعض نادان لوگ اِس کی حکمت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اِسے یہود و نصاریٰ سے مشابہت قرار دیتے ہیں، جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
تحریک منہاج القرآن کے شعبہ Interfaith Relations اور Muslim Christian Dialogue Forum (MCDF) کے زیراِہتمام سال 1998ء سے کرسمس کی تقارِیب منعقد ہوتی آ رہی ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں مسیحی برادری کے لیے اِس جذبہ خیرسگالی کا اِہتمام تحریکِ منہاج القرآن نے 1998ء میں کیا تھا، لیکن اَب یہ پاکستان کے کم و بیش تمام مسالک کے علماء کا معمول بن چکا ہے۔ ہر سال بریلوی، دیوبندی، اہلِ حدیث، جماعتِ اِسلامی سمیت دِیگر مذہبی جماعتوں کے اَکابرین کی کرسمس کے تہواروں میں شرکت اور کرسمس کیک کاٹنے کی تصاوِیر قومی اَخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔
تحریکِ منہاج القرآن کے اِسی مصالحانہ طرزِعمل کا نتیجہ ہے کہ عالمی سطح پر اُمتِ مسلمہ کے خلاف نفرت میں کمی ہو رہی ہے اور دُوسری قومیں مسلمانوں کے قریب آنا شروع ہوگئی ہیں۔ وہ مسلمانوں کے تہواروں کے موقع پر اپنے ہاں ضیافتوں کا اِہتمام کرتی ہیں، جیسا کہ سال 2010ء کی عید کے موقع پر برطانہ میں حکومتی سطح پر ہوا ہے۔ اِسی طرح پاکستان کے گرجا گھروں میں بھی محافلِ میلادِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِنعقاد شروع ہوچکا ہے۔ تحریکِ منہاج القرآن کی فروغِ اَمن کی پالیسیوں اور مصالحانہ کاوِشوں کا ثمر ہے کہ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں پہلی بار فروری 2010ء میں Baptist Church میں محفلِ میلاد کا اِنعقاد کیا گیا۔ (www.minhaj.org/uid/9914) یہاں تک کہ حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمسخر کی خاطر بنائے جانے والے توہین آمیز خاکوں کے خلاف مسیحیوں نے مسلمانوں کے نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں پروگرام منعقد کیے ہیں۔ اِس کی واضح مثال نولکھا پریسبیٹرین چرچ لاہور میں منعقد ہونے والا اِجلاس ہے، جس میں مسیحی برادری نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر توہین آمیز خاکوں کی اِشاعت کی پرزور مُذمت کی۔ (www.minhaj.org/uid/11835) اِسی طرح سال 2010ء میں Facebook پر اِس طرح کے توہین آمیز خاکے بنانے کا مقابلہ کرانے کے اِعلان پر آرگنائزر کو خود مغربی دُنیا کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، نتیجتاً یہ ناپاک مقابلہ منسوخ کر دیا گیا۔ امریکی ریاست فلوریڈا کے پادری Pastor Terry Jones کی جانب سے 9 ستمبر 2010ء کو نعوذ باﷲ بطور Burn Quran Day منانے کا اِعلان کیا گیا تھا، لیکن مسلم و غیرمسلم دنیا کی شدید تنقید کے باعث مذکورہ پادری نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔ یہ تمام اِقدامات صرف مصالحانہ اور معتدل طرزِعمل کے باعث ممکن ہوئے ہیں۔
موجودہ دَور میں دُنیا ایک عالمی گاؤں کی شکل اِختیار کر چکی ہے۔ غیرمسلم بالخصوص مسیحی اکثریت والے مغربی ممالک میں مسلمانوں کی کثیر تعداد آباد ہے۔ وہاں مسلمانوں کو مساجد کے قیام اور مذہبی اَقدار پر عمل درآمد اور اپنے مذہبی تہوار منانے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ وہاں بڑی بڑی مساجد قائم ہیں۔ نماز پنج گانہ اور جمعہ کا باقاعدہ اِہتمام ہوتا ہے۔ عیدین کے موقع پر تو مسلمان بڑے بڑے پارک اور ہال بک کروا کر اِجتماعی عید کا اِہتمام کرتے ہیں۔ سکولوں میں مسلمان بچوں کو عید پر باقاعدہ چھٹی دی جاتی ہے۔
وہاں کی حکومتیں اور دیگر منتظمین مسلمانوں کے تہواروں پر سرکاری سطح پر تقارِیب کا اِہتمام کرتے ہیں اور اُن تقارِیب میں مسلمانوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے دِینی تہواروں کے موقع پر غیرمسلم ممالک کے حکمران اور قائدین مسلمانوں کو مبارک باد دیتے ہیں اور اُن کے لیے نیک تمناؤں کا اِظہار کرتے ہیں۔ ہم ہر سال رمضان المبارک کی آمد اور عیدالفطر اور عیدالاضحی کے موقع پر عالمی سربراہوں کے بیانات اَخبارات میں پڑھتے اور ریڈیو و ٹی-وی پر سنتے ہیں۔ سال 2010ء میں برطانیہ کے دفترِ خارجہ کی طرف سے عیدالفطر کی تقریب کا اِنعقاد کیا گیا، جہاں ہر مسلک کے علماء و مشائخ، معروف کاروباری شخصیات سمیت مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد شریک تھی اور برطانوی کابینہ کے پانچ وزراء بھی مسلمانوں کے لیے عیدالفطر کی تقریب میں آئے ۔ اِسی طرح برطانیہ کے وزیراعظم نے عیدالاضحی کے چند دِنوں بعد لندن کی 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں واقع وزیراعظم سیکرٹریٹ میں پہلی بار عید ملن پارٹی کا اِہتمام کیا اور مسلم عمائدین کو وہاں دعوت دی۔ یہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآنِ حکیم سے ہوا، جب کہ پورے پروگرام کے دوران میں برطانیہ کا مشہور نعت خواں گروپ ’عاشقِ رسول‘ درود و سلام کا وِرد کرتا رہا۔ مغربی حکومتوں اور دِیگر سیاسی شخصیات اور سماجی و معاشرتی تنظیموں کی طرف سے اُن ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے عید ملن پارٹیز کا اِہتمام ایک معمول کی بات بن چکی ہے۔
اَب اَیسے عالمی ماحول میں وہاں رہنے والے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے دُنیا کے ممالک کو یہ پیغام دینا لازِمی ہے کہ اِسلام کی وسعتِ نظری سب سے بڑھ کر ہے، اِسلام کا دامنِ رحمت سب سے کشادہ ہے اور مسلمانوں میں دُوسروں کی برداشت کا جذبہ سب سے زیادہ موجود ہے۔ اِسلام رِجعت پسندانہ مذہب نہیں بلکہ وسیع ترین دین ہے۔ اِسی بنا پر غیرمسلموں کے تہواروں پر جذبہ خیر سگالی کا اِظہار کرتے ہوئے مسلمان بھی اُنہیں جواب دے دیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ دُوسری اَقوام و مذاہب کے ماننے والوں کے لیے اِسلامی ریاست اور مسلمان ویسے ہی کشادہ دِل ہیں جیسے وہ مسلمانوں کے لیے ہیں۔ اِسلامی ریاست میں اَقلیتوں کو برابری کی حیثیت حاصل ہے اور اُن کو بھی مذہبی آزادی حاصل ہے۔ بحیثیتِ اِنسان اُن کی جان کی حرمت بھی ویسے ہی ہے جیسے ایک مسلمان کی جان؛ اُن کے مال و اَسباب کی حفاظت ویسے ہی لازِم ہے جیسے مسلمانوں کے مال و اَسباب کی۔ بحیثیت شہری اُن کو بھی وُہی حقوق حاصل ہیں جو مسلمانوں کے ہیں اور اُن کو اپنے مذہبی تہوار منانے کی آزادی حاصل ہے۔
یہ اَمر واضح رہنا چاہیئے کہ عیسائیوں کے لیے کرسمس ڈے کی تقارِیب کے اِنعقاد کا مقصد قطعی طور پر یہ نہیں کہ عامہۃالمسلمین مسیحیوں کے تہواروں میں شرکت کرنا شروع کر دیں، مسلمان وسیع پیمانے پر کرسمس کی تقارِیب کا اِہتمام کرنے لگ پڑیں یا اپنے مذہبی تہواروں کو چھوڑ کر دُوسرے مذاہب کے تہوار اپنانا شروع کر دیں۔ بلکہ علامتی سطح پر اَیسے پروگراموں کے اِنعقاد کا مقصد صرف یہ ہے کہ بین المذاہب روَارادی کو فروغ ملے اور عالمی سطح پر مسلمانوں اور غیرمسلموں کے مابین پائے جانے والے اِختلافات کی خلیج کم ہو۔ اِسلام کو محبت، اَمن، روَاداری اور بقائے باہمی کے مذہب کے طور پر جانا جائے اور مسلمانوں کے لیے دُنیابھر میں مشکلات کم ہوں اور اُنہیں دِیگر غیرمسلم ممالک میں حاصل مذہبی آزادیاں قائم رہیں۔
(برائے مزید مطالعہ ملاحظہ ہو: www.minhaj.com.pk/ur/261/)
وہ مسلمان جو دائرہ اِسلام سے خارج ہونے کا اِعلان کرے اُس کا معاملہ اَقلیتوں سے مختلف ہوتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان اَحکامِ اِسلام کا پابند ہونے اور اُس کے عقیدہ پر اِیمان لانے کے بعد اُس سے پلٹتا ہے تو وہ گویا اپنے اُس اِرتداد سے ایک فتنہ کا دروازہ کھول دیتا ہے اور مملکت سے بغاوت کرتا ہے، جو موجبِ سزا ہے۔ اِس لئے کہ وفائے عہد سے برگشتگی ملکی قانون سے بغاوت ہونے کے ناتے بہت بڑا جرم ہے اور یہ اَمر دَورِ جدید کے قانون میں بھی معروف و متعین ہے، جس کی سزا دُنیا کے اکثر ریاستی قوانین میں موت مقرر کی گئی ہے۔
اِرتداد کی سزا کے نظائر دُنیا کے اکثر آئینی و دساتیری قوانین میں موجود ہیں۔ اِسلام نے مرتد کو سزا دینے سے قبل اُسے راہِ راست کی قبولیت کا موقع پانے کا حق بھی عطا کیا ہے۔ حضرت اِمام محمد بن حسن شیبانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
و اِذا ارتد المُسلم عن الاسلام عرض عليه الاسلام فان اسلم واِلا قتل مکانه. اِلا ان يطلب ان يوجله، فان طلب ذلک اجل ثلاثة يام
’’اگر کوئی مسلمان اِسلام سے برگشتہ ہوجائے تو اُسے دوبارہ اِسلام کی دَعوت دی جائے گی۔ اگر وہ اِسلام قبول کر لے تو خوب، بصورتِ دِیگر اُسے فوراً قتل کر دیا جائے گا، تاہم اگر وہ غور و فکر کے لئے کچھ مہلت طلب کرے تو اُسے تین دِن کی مہلت دی جائے گی۔‘‘
السیرالصغير: 38
اگر اِرتداد کا اِرتکاب عورت نے کیا ہو تو اُسے مرد مرتد کی نسبت رُجوع اِلیٰ الحق کے زیادہ مواقع فراہم کئے جائیں گے:
ولا تُقتل المُرتدةُ ولکنها تحبس ابداً حتی تسلم بلغنا عن ابن عباس انه قال: اِذا ارتدت المرأةُ عن الاسلام حبست ولم تقتل و بلغنا عن رسول اﷲ صلیٰ الله عليه وآله وسلم انه نهي عن قتل نساء المُشرکين فی الحرب فادر القتل عنها بهذا ومالها وکسوتها کله لها. وافعالها فی البیع والشریٰ والعتق والهبة کلها جائزة۔
’’مرتد ہوجانے والی عورت کو سزائے موت نہیں دی جائے گی بلکہ اُسے عمر قید کی سزا دی جائے گی یا اُس وقت تک قید رکھا جائے گاجب تک وہ دوبارہ اِسلام قبول نہ کر لے۔ ہم تک حضرت اِبن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان پہنچا ہے کہ جب کوئی عورت اِرتداد اِختیار کرے تو اُسے قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ قید کیا جائے گا۔ حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی میدانِ جنگ میں مشرکین کی عورتوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔ اِس معاملے میں بھی میں اُنہیں قتل سے بچانا چاہوں گا۔ اُس کی اَملاک و اَموال اُس کی ملکیت رہیں گے اور اُس کے خرید و فروخت، غلاموں کی آزادی، اور ہدیہ سے متعلق معاہدے و اَفعال معتبرہوں گے۔‘‘
السير الصغير : 41
و اِذا رفعت المُرتدةُ اِلی الامام فقالت: ما ارتددت، و انا اشهد ان لا اله الا اﷲ و ان محمد رسول اﷲ کان هذا توبة منها
’’جب کسی مرتدہ کو حاکم کے سامنے پیش کیا جائے اور وہ اپنے اِرتداد کا اِنکار کرتے ہوئے کہے کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ اَللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد اَللہ کے رسول ہیں تو یہ اُس کی توبہ تصور کی جائے گی (اور اُسے سزا نہیں ہو گی)۔‘‘
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اسلام میں انسانی حقوق‘‘)
مادّہ پرستی کی روِش نے ہمیں دِین کی تعلیمات سے اِس قدر بے خبر کر دیا ہے کہ ہم آخرت کے اِنکار تک جا پہنچے ہیں۔ کچھ اَیسے ہیں جو منہ سے بول کر تو اِنکار نہیں کرتے مگر اُن کے اَعمال کی بنیاد آخرت کے اِنکار پر ہے، جب کہ بعض لوگ اِس حد تک چلے گئے ہیں کہ وہ علیٰ الاعلان یہ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد زندہ ہونے کی باتیں کرنا مولویوں کی باتیں ہیں، ایسا کیسے ممکن ہے!
یوں اِنعقادِ قیامت اور نظامِ جزا و سزا کا اِنکار کیا جا رہا ہے، جس میں برزخی و اُخروی زندگی اور حیات بعد الموت کا اِنکار بھی شامل ہے ۔ اِس کی جگہ یہ اِعتقاد پختہ ہو رہا ہے کہ یہی زندگی سب کچھ ہے اور اِس کے بعد کوئی زِندگی نہیں، جس میں یہاں کے معاملات کا حساب و کتاب ہو سکے۔ بدقسمتی سے اُمتِ مسلمہ بالعموم مادّہ پرستی کے چنگل میں پھنس کر رُوحانی زِندگی سے دُور ہٹتی چلی جا رہی ہے۔ اِسلام کو بھی مادّہ پرستی کا لبادہ پہنایا جا رہا ہے۔ آج کا تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ بالعموم مادّیت زدگی، فکری اِفلاس، اِبہام اور تشکیک کا شکار ہے۔ اُس کی نظر میں وُہی چیز درست اور مبنی بر حق ہے جسے سائنس تسلیم کرے۔ کم علمی اور بنیادی اِسلامی تعلیمات سے ناواقفیت کی بناء پر وہ مذہبی عقائد کو بھی ڈھکوسلا سمجھتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص کو موت کے بعد قیامت کے دِن زندہ ہو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے اَعمال کا حساب دینا ہے، جس کے نتیجے میں وہ جنت یا جہنم (کی صورت میںجزا و سزا) سے ہم کنار ہوگا۔ اُس زندگی کا نام اُخروی زِندگی ہے اور اُس زِندگی پر اِیمان لانے کا نام ’اِیمان بالآخرت‘ ہے۔ آخرت اور حیات بعد الموت کا اِنکار کرنے والا اِسلام کے بنیادی عقائد سے اِنکار کی وجہ سے دائرہ اِسلام سے خارِج ہو جاتا ہے۔
اَﷲ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اِرشاد فرمایا:
حَتَّی اِذَا جَاءَ احَدَهُمُ الْمَوتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِo لَعَلِّی اعْمَلُ صَالِحًا فِدمَا تَرَکْتُ کَلَّا اِنَّهَا کَلِمَة هُوَ قَائِلُهَا وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ اِلَی َيومِ يُبْعَثُونَ
’’یہاں تک کہ جب اُن میں سے کسی کو موت آ جائے گی (تو) وہ کہے گا: اَے میرے ربّ! مجھے (دُنیا میں) واپس بھیج دےo تاکہ میں اُس (دنیا) میں کچھ نیک عمل کر لوں جسے میں چھوڑ آیا ہوں، ہرگز نہیں! یہ وہ بات ہے جسے وہ (بطور حسرت) کہہ رہا ہوگا اور اُن کے آگے ایک دن تک ایک پردہ (حائل) ہے (جس دن) وہ (قبروں سے ) اُٹھائے جائیں گےo‘‘
المؤمنون، 23 : 99،100
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’تعلیماتِ اسلام‘‘)
نوٹ: قیامت کے حوالے سے سائنسی دلائل سے آگہی کے لئے پہلی جلد میں ’اِسلام اور جدید سائنس‘ کے ذیل میں ’قیامت کا سائنسی تصور‘ ملاحظہ فرمائیں۔ اِسی طرح ’حیات بعد الموت‘ کے حوالے سے آگہی کے لئے ’طبِ جدید‘ کے ذیل میں ’اِسلام اور جینیاتی انجینئرنگ‘ کا مطالعہ ناگزیر ہے۔
قیامت کی آمد کے وقت سے تو صرف اﷲ ربّ العزت ہی آگاہ ہے، اَلبتہ ہمیں تاجدارِ کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت کی کئی اَیسی نشانیاں بتائی ہیں جن کا قیامت سے قبل وقوع پذیر ہونا ضروری ہے۔ اُن نشانیوں میں بہت سی رُونما ہو چکی ہیں، جنہیں علاماتِ صغریٰ کہا جاتا ہے۔ جب کہ علاماتِ کبریٰ کہلانے والی نشانیاں اَبھی معرضِ وُجود میں آنا باقی ہیں۔ جو نشانیاں اَبھی ظہور میں نہیں آئیں اُن میں سے چند یہ ہیں: خروجِ دجال، آمدِ اِمام مہدی علیہ السلام ، نزولِ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ، خروجِ دابۃُ الارض، سورج کا مغرب سے طلوع (اَیسا زمین کی اُلٹی گردش کے سبب ممکن ہوگا) اور سورج کا زمین سے فاصلہ اِس قدر کم رہ جانا کہ سطحِ اَرض جھلس جائے، وغیرہ۔
لوگوں میں قیامت کی آمد کے متعلق جو چودہ صدیوں کا قصہ پایا جاتا ہے وہ قطعی بے بنیاد ہے اور قرآن و حدیث کی تعلیمات میں اُس کا کوئی تصوّر موجود نہیں۔ لوگوں میں محض ایک غلط مفروضہ رواج پاگیا ہے، جس کا سبب شاید انگریز کی غلامی کے دَور میں بعض نشانیوں کا ظہور ہو سکتا ہے، جسے دیکھ کر لوگوں نے چودھویں صدی کو آخری صدی سمجھنا شروع کر دیا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت کی جو نشانیاں ہمیں بتائی ہیں اُن میں سے بہت سی اَبھی وقوع پذیر ہی نہیں ہوئیں۔
ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تو نے قیامت کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ گویا حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توجہ دِلائی کہ قیامت کے آنے کا حساب لگانے والوں کو چاہیئے کہ وہ قیامت کا حساب لگانے کی بجائے اُس دِن کی تیاری کریں جب اُنہیں اَﷲ کے حضور اپنے اَعمال کے حوالے سے جواب دِہ ہونا ہوگا۔ ایک اور حدیثِ مبارکہ میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِيَامَتُه
’’جو شخص مر گیا تحقیق اُس کی قیامت (اُسی وقت) آ گئی۔‘‘
کشف الخفائ، 1: 151
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 469)
سیدنا اِمام محمد مہدی علیہ السلام کی آمد کے حوالے سے آج کل مختلف قسم کے اِعتقادی فتنے پیدا ہو رہے ہیں۔ اُن میں سے پہلا فتنہ یہ ہے کہ بعض اَہلِ علم کے نزدِیک اِمام محمد مہدی علیہ السلام نام کی کوئی شخصیت نہیں ہے اور کسی معین شخص کو اِس نام سے نہیں آنا بلکہ ہر دَور میں ایک مہدی ہوتا ہے۔ اِس خیال کے پیشِ نظر بہت سے لوگوں نے اپنے آپ کو مہدی خیال کیا اور گمراہ ہو گئے۔
دُوسرا فتنہ یہ کہ کچھ لوگ خود مہدی ہونے کا اِعلان کر رہے ہیں۔ اُنہی میں سے ایک مرزا غلام اَحمد قادیانی بھی تھا، جس نے نبوت کے دعویٰ سے پہلے مہدی ہونے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔
تیسرا فتنہ یہ کہ آج جس سے خود مہدی ہونے کا اِعلان نہ ہوسکا وہ یہ دعویٰ کربیٹھتا ہے کہ اِمام مہدی پیدا ہوچکے ہیں اور اِس خیال و تصور کو بعض نام نہاد مفکرین خوب شائع کر رہے ہیں۔ یہ فتنہ صرف پاک و ہند ہی میں نہیں عالمِ عرب بھی اِس فتنہ کی لپیٹ میں ہے کہ اِمام مہدی پیدا ہو چکے ہیں۔
چوتھا فتنہ یہ کہ بعض لوگ اَیسے جھوٹے دعووں سے متاثر ہو کر آمد اِمام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے شکوک و شبہات میں بھی گھِرے ہوئے ہیں اور آپ علیہ السلام کی آمد کو توہمات اور خصوصاً شیعہ حضرات کی گھڑی ہوئی باتیں تصور کرتے ہیں۔ یہ خیال سراسر باطل ہے، اِس لئے کہ اِمام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِرشادات کثرت سے کتبِ حدیث میں منقول ہیں، لہٰذا اِمام مہدی علیہ السلام کی آمد کا اِنکار کرنا حقیقت میں فرامینِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِنکار کے مترادِف ہوگا۔
حدیثِ مبارکہ میں تاجدارِ کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لاتذهب الدُّنيا حتی يملک العرب رجلٌ مِن أهلِ بيتِی يواطِی إِسمُه إِسمِی
’’دُنیا اُس وقت تک ختم نہ ہوگی جب تک میرے اَہلِ بیت میں سے ایک شخص جو میرا ہم نام ہوگا عرب کا حکمران نہ بن جائے‘‘۔
سنن ترمذی، رقم: 2230
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروِی کثیر اَحادیث و رِوایات کے مطابق سیدنا اِمام مہدی علیہ السلام کی پیدائش مدینہ طیبہ میں اِس وقت موجود ’’قرعہ‘‘ نامی قصبہ میں ہوگی اور آپ 30 سے 40 سال کا عرصہ مدینہ طیبہ میں ہی گزاریں گے۔ بعد اَزاں ایک حج کے موقع پر مکہ المکرمہ میں حجرِ اَسود اور مقامِ اِبراہیم کے درمیان آپ کے ہاتھ پر 313 اَکابرینِ اُمت بیعت کریں گے اور سات علماء اُمت پہلے بیعت کریں گے۔ حضرت اِمام مہدی علیہ السلام اِس اُمت کے مجددِ اَعظم اور آخری مجدد ہوں گے۔
اِمام مہدی علیہ السلام کا نام محمد ہوگا۔۔۔ والد کا نام عبداللہ اور والدہ کا نام آمنہ ہوگا۔۔۔ والد کی طرف سے حسینی اور والدہ کی طرف سے حسنی ہوں گے۔۔۔ حضرت فاطمہ علیہ السلام کی اَولاد سے ہوں گے۔۔۔ آپ کی داڑھی گھنی ہوگی۔۔۔ آپ کی دائیں گال پر ایک تل ہوگا۔۔۔ آپ کے کندھوں کے درمیان نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِسمِ مبارک کی مہر ہوگی۔۔۔ اُونی چادریں پہن رکھی ہوں گی۔۔۔ ہاتھ میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار ہوگی۔۔۔ جوان ہوں گے۔۔۔ عمر 30سے 40 کے درمیان ہوگی۔۔۔ درمیانہ قد۔۔۔ اکہرا جسم۔۔۔ سیاہ زلفیں۔۔۔ بڑی آنکھیں جو سرمہ لگائے بغیر سرمہ لگی محسوس ہوں۔۔۔ چہرہ سفید، سرخی مائل۔۔۔ چمکتے ہوئے ستارے محسوس ہوں گے۔۔۔ شخصیت و حسن عربی، جسامت عجمی (عرب و عجم کے خواص کی جامع)۔۔۔ چوڑی پیشانی۔۔۔ ناک اُونچی۔۔۔ دانت آگے سے کھلے ہوں گے اور اُن سے نور نکلتا ہوگا۔۔۔ سر پر عمامہ۔۔۔ کملی اوڑھے ہوئے ہوں گے۔
اِمام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے بعد یکے بعد دِیگرے جو حالات پیش آئیں گے، اَحادیثِ مبارکہ میں اُن کا ذکر بھی موجود ہے اوراُس واقعاتی تسلسل کا انجام وُقوعِ قیامت پر ہوگا۔ اِمام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا مطلب یہ نہیں کہ بس وہ ظاہر ہوگئے اَب معلوم نہیں قیامت کب آئے گی اور شاید لاکھوں سال اَبھی قیامت کے ظہور کے لئے باقی ہیں۔ اَحادیثِ مبارکہ کے مطابق سیدنا اِمام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے بعد وُقوع پذیر ہونے والے واقعات اِس ترتیب سے ہوں گے:
یوں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اِمام مہدی علیہ السلام کے بعد اَحادیثِ نبویہ کی روشنی میں تقریباً 227 سال کا عرصہ قیامت آنے تک باقی ہوگا۔ گویا اِمام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے 227 سال بعد قیامت کا آنا یقینی ہے۔
اِس حوالے سے کوئی شخص حتمی اور قطعی بات نہیں بتا سکتا۔ ذیل میں ہمارا بیان کردہ تخمینہ ہمارے مطالعہ اَحادیث کا ماحصل ہے۔ اِسے دعویٰ نہ سمجھا جائے کہ اِتنے ہی عرصہ کے بعد اِمام مہدی تشریف لائیں گے اور اُن کے اِتنے عرصہ بعد قیامت قائم ہوگی۔ یہ تخمینہ اور مدت کے تعین کا اندازہ اِس لئے ضروری ہے کہ بعض اَحباب نے اِمام مہدی علیہ السلام کو پیدا کرنا شروع کر دیا ہے اور اُنہیں ایک عام سا اِنسان تصور کیا جارہا ہے کہ آئیں گے اور پھر اُن کی وفات ہوجائے گی۔ اِس غلط فہمی کا اِزالہ اَز حد ضروری ہے۔
اِبن ماجہ کتاب الفتن میں قیامت کی 10 نشانیوں کے بیان کے بعد حضرت اَبوقتادہ رضی اللہ عنہ رِوایت کرتے ہیں:
اَلْآيَاتُ بَعْدَ المِاتَيْنِ
’’یہ نشانیاں کسی دُوسری صدی ہجری میں ہوں گی‘‘۔
ابن ماجة، کتاب الفتن، رقم: 4047
اِس حدیث کو اِمام حاکم رضی اللہ عنہ نے مستدرک میں بھی بیان کیا اور کہا کہ یہ حدیث شیخین کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔ اِس حدیث کو اِمام جلال الدین سیوطی رضی اللہ عنہ نے ’الحاوِی للفتاویٰ‘ میں بیان کیا اور اِمام نعیم بن حماد رضی اللہ عنہ(اِمام بخاری رضی اللہ عنہ کے شیخ) نے کتابُ الفتن میں رِوایت کیا ہے۔
اِن تمام اَئمہ و محدثین نے مختلف روایات سے بیان کیا کہ یہ 10 آیات کسی ہزاری (millenium) کے مکمل ہونے کے بعد دُوسری صدی ہجری کے اَواخر میں ظاہر ہوں گی۔ یعنی حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب قربِ قیامت کی مذکورہ دس نشانیاں دُوسری صدی ہجری میں ظاہر ہونا شروع ہوں گی۔
سال 1426ھ اپنے ہزاری (millenium) کی پانچویں صدی ہجری ہے۔ اگر اِس ہزاری میں اِمام مہدی علیہ السلام کو آنا ہوتا تو وہ 200 سال قبل آچکے ہوتے، یعنی موجودہ ہزاری (millenium) میں اُن کے ظہور کا ممکنہ زمانہ گزر چکا ہے۔ اور اگر وہ 200 سال قبل آچکے ہوتے تو آج وہ دس علامتیں پوری ہوجانے کے بعد قیامت بھی آ چکی ہوتی۔
اَب اِس ہزاری (millenium) کی دُوسری صدی تو گزر چکی لہٰذا اِمام مہدی علیہ السلام کی پیدائش اور ظہور کا دعویٰ کرنے والے اِس دُوسرے ہزاری کے آخر تک اُن کے ظہور کا خیال دِل سے نکال دیں اور اَگلے ہزاری یعنی تیسرے ہجری ملینیئم کی تیسری صدی تک اِنتظار کریں۔
حدیثِ مبارکہ کی رُو سے دُوسری صدی کے بعد نشانیاں شروع ہوں گی اور تیسری صدی کے شروع میں اِمام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہوگا اور قربِ قیامت کی علامات ظاہر ہوں گی۔ اگر اَگلے ہزاری (millenium) کی تیسری صدی کے شروع میں بھی نہ آئے تو پھر اُس سے اَگلے ہزاری کی تیسری صدی کا اِنتظار کرنا ہوگا۔ ایک بات حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طے کر دی ہے کہ جب بھی علاماتِ قیامت ظاہر ہونا شروع ہوں گی وہ کسی ہجری ملینیئم کی دُوسری صدی ہجری ہی ہوگی۔ ہزاری (millenium) بدل سکتا ہے مگر صدی بدل نہیں سکتی۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدی کا تعین کر دیا ہے کہ جب تیسری صدی ہجری شروع ہوگی تو علامات کا ظہور شروع ہو جائے گا اور قربِ قیامت کی سب سے پہلی نشانی اِمام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہے۔ پس اِمام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے لئے ہزاری (millenium) کا تعین نہیں کیا جا سکتا، مگر علیٰ الاقل، قریب سے قریب تر بھی سمجھ لیا جائے تو یہ آج (یعنی 1426ھ) سے تقریباً پونے آٹھ سو سال بعد کا زمانہ بنتا ہے۔
اِمام نعیم بن حماد رضی اللہ عنہ اپنی کتاب الفتن جلد اوّل صفحہ 336 پر حدیث نمبر 962 میں رِوایت کرتے ہیں، جسے اِمام جلال الدین سیوطی رضی اللہ عنہ نے بھی ’الحاوِی للفتاویٰ‘ میں بیان کیا ہے کہ ’’جب اِمام مہدی رضی اللہ عنہ کا ظہور ہوگا اور اُن کے دستِ اَقدس پر بیعت ہوگی تو اُن کی آمد کا سن 204 ہوگا‘‘۔ (الحاوِی للفتاویٰ، جلد 2 رضی اللہ عنہ 139)
جب اِس سن 204 کو سامنے رکھیں تو قریب سے قریب تر تصور کیا جائے کہ آٹھ سو سال میں حالات و واقعات بدل چکے ہوئے ہوں گے تو اِمام مہدی علیہ السلام کا ظہور 2204 ہجری (یعنی 2783عیسوی) میں متوقع ہے۔ آج 1426 ہجری ہے، یعنی آج سے تقریباً 778 سال بعد اِمام مہدی علیہ السلام تشریف لائیں گے۔ اگر 2204ھ میں بھی وہ تشریف نہ لائے تو پھر اگلے ہزاری میں سال 3204ھ کا اِمکان ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب
آخر میں یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اِمام مہدی علیہ السلام کی آمد کے حوالے سے یہ تخمینہ اور اَندازہ قطعی طور پر ہمارا دَعویٰ نہیں بلکہ مطالعہ حدیث کا ماحصل ہے کہ جو کچھ ہم نے اَحادیثِ نبویہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سمجھا اُسے اِمام مہدی علیہ السلام کی آمد کے حوالے سے پھیلائے جانے والے فتنوں کو قلع قمع کرنے کے لئے آپ کے سامنے بیان کر دیا۔
علماء کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ عوامُ الناس کے سامنے اِمام مہدی علیہ السلام کی آمد کے وقت کا تعین کرتے ہوئے اِحتیاط کے دامن کو تھام کر بات کریں اور چھوٹے موٹے زلزلوں اور اِکّا دُکّا علاماتِ دَورِ فتن کو دیکھ کر اِمام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے قریب ہونے کا دَعویٰ نہ کریں۔ یہ رویہ اِسلام کے لئے فائدہ مند نہیں، بلکہ اَغیار تو اَغیار اپنوں کے عقائد کو بھی اِس سے ٹھیس پہنچے گی۔ اِس لئے کہ جب بعض علماء آمد اِمام مہدی علیہ السلام کے وقت کا تعین کر دیں گے کہ عنقریب اُن کا ظہور ہونے والا ہے اور اِس بارے اَحادیث بھی بیان کریں گے اور وہ نہ آئے اور لوگ اِنتظار ہی کرتے رہے تو مسلمانوں کے دِلوں سے اِمام مہدی علیہ السلام کی آمد کے متعلق موجود عقیدہ آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا اور وہ یہ تصور کر بیٹھیں گے کہ اِمام مہدی علیہ السلام نام کی کوئی شخصیت سرے سے موجود ہی نہیں۔ نیز اِس کے ساتھ ساتھ اَحادیث کی صحت کے بارے میں بھی اُن کا اِیمان خطرہ میں پڑ جائے گا اور وہ دِیگر عقائد پر بھی سوچنے لگیں گے۔ پس علماء کو اِس بارے اِحتیاط کرنی چاہئے۔ اِس لئے بھی کہ اَبھی وہ عالمی حالات و واقعات نہیں ہیں، جن کے تناظر میں یہ دَعویٰ کیا جا سکے کہ اِمام مہدی علیہ السلام کی آمد کا وقت بالکل قریب ہے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 468 اور 469)
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved