جشنِ میلادُالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وِلادت باسعات کی تاریخی خوشی میں مسرت و شادمانی کا اِظہار ہے اور یہ اَیسا مبارک عمل ہے جس سے اَبولہب جیسے کافر کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ اگر اَبولہب جیسے کافر کو میلادُالنبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں ہر پیر کو عذاب میں تخفیف نصیب ہو سکتی ہے تو اُس مؤمن مسلمان کی سعادت کا کیا ٹھکانا ہو گا جس کی زندگی میلادُالنبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشیاں منانے میں بسر ہوتی ہو۔
حضور سرورِ کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی اپنے یومِ وِلادت کی تعظیم فرماتے اور اِس کائنات میں اپنے ظہورِ وُجود پر سپاس گزار ہوتے ہوئے پیر کے دِن روزہ رکھتے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے یومِ وِلادت کی تعظیم و تکریم فرماتے ہوئے تحدیثِ نعمت کا شکر بجا لانا حکمِ خداوندی تھا کیوں کہ حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے وُجودِ مسعود کے تصدق و توسل سے ہر وُجود کو سعادت ملی ہے۔
جشنِ میلادُالنبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل مسلمانوں کو حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام جیسے اَہم فرائض کی رغبت دِلاتا ہے اور قلب و نظر میں ذوق و شوق کی فضاء ہموار کرتا ہے۔ صلوٰۃ و سلام بذاتِ خود شریعت میں بے پناہ نوازشات و برکات کا باعث ہے۔ اِس لیے جمہور اُمت نے میلادُالنبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِنعقاد مستحسن سمجھا۔
سیرتِ طیبہ کی اَہمیت اُجاگر کرنے اور جذبہ محبتِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فروغ کے لیے محفلِ میلاد کلیدی کردار اَدا کرتی ہے۔ اِسی لیے جشنِ میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فضائل، شمائل، خصائل اور معجزاتِ سید المرسلین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ اور اُسوہ حسنہ کا بیان ہوتا ہے۔
جشنِ میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک اَہم مقصد محبت و قربِ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصول و فروغ اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے مسلمانوں کے تعلق کا اِحیاء ہے اور یہ اِحیاء منشاء ِ شریعت ہے۔
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات کی معرفت اِیمان باللہ اور اِیمان بالرسالت میں اِضافہ کا محرک بنتی ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر اِیمان کا پہلا بنیادی تقاضا ہے اور میلادِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلہ میں مَسرت و شادمانی کا اِظہار، محافلِ ذکر و نعت کا اِنعقاد اور کھانے کا اِہتمام اللہ تعالیٰ کے حضور شکرگزاری کے سب سے نمایاں مظاہر میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمارے لیے مبعوث فرما کر ہمیں اپنے بے پایاں اِحسانات و عنایات اور نوازشات کا مستحق ٹھہرایا ہے۔ اِس لیے اللہ تعالیٰ نے اِس اِحسانِ عظیم کو جتلایا ہے۔
جس طرح ماہِ رمضانُ المبارک کو اللہ ربّ العزت نے قرآنِ حکیم کی عظمت و شان کے طفیل دِیگر تمام مہینوں پر اِمتیاز عطا فرمایا ہے، اُسی طرح ماہِ ربیع الاول کے اِمتیاز اور اِنفرادیت کی وجہ بھی اُس میں صاحبِ قرآن کی تشریف آوری ہے۔ یہ ماہِ مبارک حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وِلادت باسعادت کے صدقے جملہ مہینوں پر نمایاں فضیلت اور اِمتیاز کا حامل ہے۔ شبِ میلادِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم لیلۃ القدر سے بھی اَفضل ہے۔ لیلۃ القدر میں نزولِ قرآن ہوا تو شبِ میلاد میں صاحبِ قرآن کی آمد ہوئی۔ لیلۃ القدر کی فضیلت اِس لیے ہے کہ وہ نزولِ قرآن اور نزولِ ملائکہ کی رات ہے اور نزولِ قرآن قلبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہوا ہے۔ اگر حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے تو قرآن ہوتا اور نہ شبِ قدر ہوتی۔ یہ ساری فضیلتیں اور عظمتیں میلادِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صدقہ ہیں۔ پس شبِ میلادُالنبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ قدر سے بھی اَفضل ہے۔
اِس کائناتِ اِنسانی پر اﷲ ربّ العزت نے بے حد و حساب اِحسانات و اِنعامات فرمائے۔ اِنسان پر بے پایاں نوازشات اور مہربانیاں کیں اور یہ سلسلہ اَبد الاباد تک جاری و ساری رہے گا۔ ذاتِ باری تعالیٰ نے ہمیں لاتعداد نعمتوں سے نوازا جن میں سے ہر نعمت دُوسری سے بڑھ کر ہے لیکن اُس نے کبھی کسی نعمت پر اِحسان نہیں جتلایا۔ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں لذت و توانائی سے بھرپور طرح طرح کے کھانے عطا کیے مگر اُس کا کوئی اِحسان نہیں جتلایا، پینے کے لیے مختلف خوش ذائقہ مشروبات دیے، دن رات کا ایک ایسا نظام الاوقات دیا جو سکون و آرام فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری ضروریاتِ زندگی کی کفالت کرتا ہے، سمندروں، پہاڑوں اور خلائے بسیط کو ہمارے لیے مسخر کر دیا، ہمیں اَشرف المخلوقات بنایا اور ہمارے سر پر بزرگی و عظمت کا تاج رکھا، والدین، بہن، بھائی اور اَولاد جیسی نعمتوں کی اَرزانی فرمائی، عالمِ اَنفس و آفاق کو اپنی ایسی عطاؤں اور نوازشوں سے فیض یاب کیا کہ ہم اُن کا اِدراک کرنے سے بھی قاصر ہیں لیکن اُن سب کے باوُجود اُس نے بطورِ خاص ایک بھی نعمت کا اِحسان نہیں جتلایا کہ وہ ربُّ العالمین ہونے کے اِعتبار سے بلاتمیز مؤمن و کافر سب پر یکساں شفیق ہے اور اُس کا دامنِ عاطفت ہر ایک کو اپنے سایہ رحمت میں رکھے ہوئے ہے۔ لیکن ایک نعمت ایسی ہے کہ خدائے بزرگ و برتر نے جب اُسے اپنے حریمِ کبریائی سے نوعِ اِنسانی کی طرف بھیجا تو پوری کائناتِ نعمت میں صرف اُس پر اپنا اِحسان جتلایا اور اُس کا اِظہار بھی عام پیرائے میں نہیں کیا بلکہ اَہلِ ایمان کو اُس کا اِحساس دِلایا۔ مؤمنین سے رُوئے خطاب کر کے اِرشاد فرمایا:
لَقَد مَنَّ اﷲُ عَلَی الْمُؤمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْهِمْ رَسُولًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ.
’’بے شک اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں پر بڑا اِحسان فرمایا کہ اُن میں اُنہی میں سے عظمت والا رسول بھیجا۔‘‘
القرآن، آل عمران، 3 : 164
اِسلام میں اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کی نعمتوں اور اُس کے فضل و کرم پر شکر بجا لانا تقاضائے عبودِیت و بندگی ہے، لیکن قرآن نے ایک مقام پر اِس کی جو حکمت بیان فرمائی ہے وہ خاصی معنی خیز ہے۔ اِرشاد فرمایا:
لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزيْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْد
’’اگر تم شکر اَدا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اِضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقینا سخت ہے۔‘‘
القرآن، ابراهيم، 14 : 7
اﷲ تعالیٰ کی کسی نعمت پر شکر بجا لانے کا ایک معروف طریقہ یہ بھی ہے کہ اِنسان حصولِ نعمت پر خوشی کا اِظہار کرنے کے ساتھ اُس کا دُوسروں کے سامنے ذِکر بھی کرتا رہے کہ یہ بھی شکرانِ نعمت کی ایک صورت ہے اور ایسا کرنا قرآنِ حکیم کے اِس اِرشاد سے ثابت ہے:
وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّکَ فَحَدِّث۔
(الضحی، 93 : 11)
’’اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریں‘‘
اِس میں پہلے ذکرِ نعمت کا حکم ہے کہ اَﷲ تعالیٰ کی عطاکردہ نعمت کو دِل وجان سے یاد رکھا جائے اور زبان سے اُس کا ذِکر کیا جائے لیکن یہ ذِکر کسی اور کے لیے نہیں فقط اَﷲ تعالیٰ کے لیے ہو۔ اُس کے بعد تحدیثِ نعمت کا حکم دیا کہ کھلے بندوں مخلوقِ خدا کے سامنے اِس کو یوں بیان کیا جائے کہ نعمت کی اَہمیت لوگوں پر عیاں ہوجائے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ذِکر کا تعلق اَﷲ تعالیٰ سے اور تحدیثِ نعمت کا تعلق مخلوق سے ہے کیوں کہ اُس کا زیادہ سے زیادہ لوگوں میں چرچا کیا جائے جیسا کہ قرآنِ مجید میں اِرشاد ہوا:
فَاذْکُرُونِيْ اَذْکُرکُمْ وَاشْکُرُوا لِی وَلاَ تَکْفُرُونِ
’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر اَدا کیا کرو اور (میری نعمتوں کا) اِنکار نہ کیا کرو۔‘‘
القرآن، البقرة، 2 : 152
اِس آیہ کریمہ میں تلقین کی گئی ہے کہ خالی ذِکر ہی نہ کرتے رہو بلکہ اَﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذِکر شکرانے کے ساتھ اَیسے کرو کہ اَﷲ تعالیٰ کے ساتھ خلقِ خدا بھی اُسے سنے۔ اِس پر مستزاد اِظہارِ تشکر کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ نعمت پر خوشی کا اِظہار جشن اور عید کی صورت میں کیا جائے۔ اُممِ سابقہ بھی جس دِن کوئی نعمت اُنہیں میسر آتی اُس دن کو بطورِ عید مناتی تھیں۔ قرآنِ مجید میں حضرت عیسیٰ کی اِس دعا کا ذِکر ہے جس میں وہ بارگاہِ اِلٰہی میں یوں ملتجی ہوتے ہیں:
رَبَّنَا اَنْزِلْ عَلَيْنَا مَآءِدَة مِّنَ السَّمَاءِ تَکُونُ لَنَا عِيْداً لِّاَوَّلِنَا وَآخِرِنَا
’’اَے ہمارے ربّ! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اُس کے اُترنے کا دِن) ہمارے لیے عید (یعنی خوشی کا دِن) ہوجائے ہمار ے اَگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی)۔‘‘
القرآن، المائدة، 5 : 114
یہاں مائدہ جیسی عارضی نعمت پر عید منانے کا ذِکر ہے۔ عیسائی لوگ آج تک اِتوار کے دن اُس نعمت کے حصول پر بطورِ شکرانہ عید مناتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا نزولِ مائدہ جیسی نعمت کی وِلادت و بعثتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی نسبت ہو سکتی ہے؟ اِس نعمتِ عظمیٰ پر تو مائدہ جیسی کروڑوں نعمتیں نثار کی جا سکتی ہیں۔
’’صحیح بخاری‘‘ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ جب ایک یہودی نے اُن سے پوچھا کہ جس دِن آیتِ کریمہ {اَلْيَومَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ} نازِل ہوئی کیا آپ اُس دِن کو بطورِ عید مناتے ہیں؟ اگر ہماری تورات میں ایسی آیت اُترتی تو ہم اُسے ضرور یومِ عید بنا لیتے۔ اُس کے جواب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم اُس دِن اور جگہ کو جہاں یہ آیت اُتری تھی خوب پہچانتے ہیں۔ یہ آیت یومِ حج اور یومِ جمعۃ المبارک کو میدانِ عرفات میں اُتری تھی اور ہمارے لیے یہ دونوں دِن عید کے دِن ہیں۔
اِس پر سوال کیا جاسکتا ہے کہ اگر تکمیلِ دین کی آیت کے نزول کا دِن بطورِ عید منانے کا جواز ہے تو جس دِن خود محسنِ اِنسانیت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس دُنیا میں تشریف لائے اُسے بہ طور عیدِ میلاد کیوں نہیں منایا جاسکتا؟ یہی سوال فضیلتِ یومِ جمعہ کے باب میں اَربابِ فکر و نظر کو غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
رِوایات میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے میلاد کی خوشی میں بکرے ذِبح کر کے ضیافت کا اِہتمام فرمایا۔ حضرت اَنس رضی اللہ عنہ کی رِوایت کے مطابق حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعد اَز بعثت اپنا عقیقہ کیا۔ اِس پر اِمام سیوطی (849۔ 911ھ) کا اِستدلال ہے کہ حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عقیقہ آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب آپ کی وِلادت کے سات دِن بعد کر چکے تھے اور عقیقہ زِندگی میں صرف ایک بار کیا جاتا ہے۔ اِس لیے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ضیافت اپنے میلاد کے لیے دِی تھی عقیقہ کے لیے نہیں۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘)
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف پر خوشی منانا قرآن و سنت سے ثابت ہے اور اُس کا تقاضا ہے کہ مؤمن کا دِل خوشی و اِنبساط سے لبریز ہوجائے، اَلبتہ اُس کے اِظہار کے مختلف ثقافتی طریقے ہیں جو مختلف علاقوں میں مختلف ہوتے ہیں اوراُن کا وقت کے ساتھ ساتھ بدلنا ناگزیر ہوتا ہے۔
ہم یومِ پاکستان اور یومِ قائدِ اعظم مناتے ہیں، اُس موقع پر جلوس نکالتے ہیں۔ یہ ہمارے علاقائی رسم و رِواج کا حصہ ہے، اُسے شرعی نہیں بلکہ ثقافتی نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ میلادُالنبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک موقع پر جلوس نکالنا ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔ اگر یومِ پاکستان منانا ثقافتی نقطہ نظر سے درست ہے تو حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کا دن جو اِنسانی تاریخ کا اَہم ترین دِن ہے، کیوں نہ منایا جائے! اگر قومی تہوار پر قوم اپنی عزت و اِفتخار کو نمایاں کرتی ہے تو حضور رحمتِ عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وِلادت کے دِن وہ بطورِ اُمت اپنا جذبہ اِفتخار کیوں نمایاں نہ کرے! جس طرح اُن ثقافتی مظاہر پر کسی اِستدلال کی ضرورت نہیں، اُسی طرح میلادُالنبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوس کے جواز پر بھی کسی اِستدلال کی ضرورت نہیں۔ خوشی اور اِحتجاج دونوں مواقع پر جلوس نکالنا بھی ہمارے کلچر کا حصہ ہے۔ حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر اگر ہم جلسہ و جلوس اور صلوٰۃ و سلام کا اِہتمام کرتے ہیں تو اُس کا شرعی جواز دریافت کرنے کی کیا ضرورت ہے!
یہ پوچھا جاتا ہے کہ عرب کیوں جلوس نہیں نکالتے۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ عرب کے کلچر میں جلوس نہیں، جب کہ عجم کے کلچر میں ایسا ہے۔ متحدہ عرب اَمارات اور مصر وغیرہ میں بھی لوگ میلاد مناتے ہیں، لیکن جلوس نکالنا اُن کے کلچر میں بھی نہیں ہے، جب کہ ہمارے ہاں تو کرکٹ کے میچ میں کامیابی پر بھی جلوس نکالنا خوشی کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ جیتنے والی ٹیموں اور الیکشن جیتنے والے اُمیدواران کا اِستقبال جلوس کی شکل میں کیا جاتا ہے۔
لہٰذا جو عمل شریعت میں منع نہیں بلکہ مباح ہے اور ثقافتی ضرورت بن گیا ہے اور اُس کا اَصل مقصد حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وِلادت کی خوشی منانا ہے تو اُس پر اِعتراض کرنے کی کیا گنجائش اور ضرورت ہے!
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘)
خلافتِ عثمانیہ میں حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وِلادت کے دن 21 توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔ اِسی طرح مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور بلادِ یمن و شام میں میلادُالنبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اِنتہائی تزک و اِحتشام سے منایا جاتا تھا۔ آج بھی عرب دُنیا میں جب کوئی تخت نشین ہوتا ہے تو بڑی گرم جوشی سے اُس کی تاج پوشی کا دِن منایا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہر سال تخت نشینی کی رسم کے ساتھ بادشاہ کو تحائف سے نوازا جاتا ہے، توپوں کی سلامی دی جاتی ہے، مٹھائیاں تقسیم کی جاتیں ہیں اور ملک بھر میں عید کا سا سماں ہوتا ہے۔ پوری مغربی دُنیا 25 دسمبر کو بطور عید (کرسمس ڈے) مناتی ہے لیکن وہ اُس کی تیاریاں کئی ماہ قبل شروع کر دیتے ہیں۔ اُن کی دکانیں، گھر، بازار اور درخت کرسمس کی آمد کی نشان دہی کر رہے ہوتے ہیں۔ اُن چار مہینوں (ستمبر تا دسمبر) میں امریکہ اور یورپ کی دُنیا کا جوش و خروش دِیدنی ہوتا ہے۔ لہٰذا جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وِلادت کی خوشیاں عیسائی دُنیا بڑے کرّ و فرسے مناتی ہے، تو جس ہستی کی وساطت اور رِسالت کے تصدق سے عیسیٰ علیہ السلام اور دِیگر تمام اَنبیاء کو نبوت و رِسالت ملی، اور جن کی بعثت کے لیے جدُالانبیاء سیدنا اِبراہیم علیہ السلام نے دُعا فرمائی، اُن کا یومِ وِلادت اُمتِ مسلمہ کیوں نہ منائے! اگر یومِ پاکستان منانا ثقافتی نقطہ نظر سے درست ہے تو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کا دِن جو اِنسانی تاریخ کا اَہم ترین دِن ہے، کیوں نہ منایا جائے! اگر یومِ آزادی پر توپوں کی سلامی دی جاتی ہے تو میلاد کے دِن کیوں نہ دی جائے! اِسی طرح خوشی کے مواقع پر چراغاں ہوتا ہے تو یومِ میلاد پر چراغاں کیوں نہ کیا جائے! اگر قومی تہوار پر قوم اپنی عزت و اِفتخار کو نمایاں کرتی ہے تو حضور رحمتِ عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وِلادت کے دن وہ بطور اُمت اپنا جذبہ اِفتخار کیوں نمایاں نہ کرے!
آج حالات کے تقاضے یکسر بدل چکے ہیں، یومِ آزادی اور دیگر اہم ایام کا منایا جانا ہماری ثقافتی زندگی کا جزوِلاینفک بن چکا ہے؛ لہٰذا اِسلامی ثقافت کی سب سے بڑی علامت یعنی یومِ میلادالنبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیسے نظراَنداز کیا جا سکتا ہے! حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اصلِ اِیمان ہے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات و اُسوہ پر عمل کے ساتھ ساتھ اِس محبت کا مؤثر ترین اِظہار جشنِ میلاد منا کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ یہ بڑی ستم ظریفی اور نااِنصافی ہو گی کہ آج کے مسلمان حکمران اپنی تخت نشینی کا دِن تو پورے جوش و خروش سے منائیں اور اُس پر کسی حلقے کی طرف سے بدعت و شرک کا فتویٰ نہ لگے اور اُسے ثقافت کے نام پر جائز سمجھا جائے، لیکن جب تاجدارِ کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وِلادتِ مبارکہ کا دِن منایا جائے تو فتویٰ فروشوں کی زبانیں اور قلم حرکت میں آ کر بدعت و شرک کے فتوے اُگلنا شروع کر دیں۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘)
ہر سال یومِ آزادی پہ جشن منانا، اُس روز اﷲ ربّ العزت کے حضور شکرانے کے نوافل پڑھنا اور عمارات پر چراغاں کرنا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے تاکہ نئی نسل آزادی کی نعمت سے آگاہ ہو۔ اﷲ تعالیٰ نے بنی اِسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دِلاتے ہوئے جو آزادی عطا کی تھی، اُس نعمت کی یادِ دلاتے ہوئے قرآنِ مجید میں اِرشاد فرمایا:
وَاِذْ نَجَّيْنَاکُمْ مِّنْ آلِ فِرْعَونَ يَسُومُونَکُمْ سُوءَ الْعَذَابِ.
’’اور (اے آلِ یعقوب! اپنی قومی تارِیخ کا وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب ہم نے تمہیں قومِ فرعون سے نجات بخشی جو تمہیں اِنتہائی سخت عذاب دیتے تھے۔‘‘
القرآن، البقرة، 2 : 49
اِس قرآنی اِرشاد کی روشنی میں غلامی و محکومی کی زندگی سے آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے، جس پر شکر بجا لانا آنے والی نسلوں پر واجب ہے۔ اِس سے اِستدلال کرتے ہوئے ہم پر یہ ذِمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قومی آزادی کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی ہوئی نعمتِ غیرمترقبہ سمجھیں اور اُس پر شکرانہ اَدا کریں۔ مذکورہ بالا آیت کریمہ اِس اَمر پر شاہد ہے کہ نعمت کے شکرانے کے طور پر باقاعدگی کے ساتھ بالاہتمام خوشی و مَسرت کا اِظہار اِس لیے بھی ضروری ہے کہ آئندہ نسلوں کو اِس نعمت کی قدر و قیمت اور اَہمیت سے آگاہی ہوتی رہے۔
یوں تو اِنسان سارا سال نعمتِ اِلٰہی پر خدا کی ذاتِ کریمہ کا شکر اَدا کرتا رہتا ہے، لیکن جب گردشِ اَیام سے وہ دن دوبارہ آتا ہے جس میں مِن حیث القوم اُس پر اﷲ تعالیٰ کا کرم ہوا اور مذکورہ نعمت اُس کے شریکِ حال ہوئی تو خوشی کی کیفیات خودبخود جشن کی صورت اِختیار کر لیتی ہیں۔
(ماخوذ از تصنیف شیخ الاسلام: ’’میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘)
بچوں کی سالگرہ منانا بھی اِعترافِ نعمت کی ایک صورت ہے۔ والدین اپنے بچوں کی سالگرہ مناتے ہیں تو اُنہیں چاہیئے کہ اُس دِن شکرانہ اَدا کریں اور غریبوں کو صدقہ دیں کہ اَﷲ تعالیٰ نے اُنہیں اُس دِن اَولاد کی نعمت سے نوازا۔ اِسی طرح بڑوں کو اپنی سالگرہ کے دِن اپنے گزرنے والے سال کا اِحتساب کرنا چاہیئے کہ وہ کس قدر اﷲ ربّ العزت کے اَحکام پر عمل کر پائے ہیں! اور اگلے سال کے لئے شریعت کے طے کردہ اَوامر و نواہی پر عمل درآمد کے حوالے سے عزمِ نو کیا جائے۔ یومِ وِلادت کو اپنے لئے سلامتی کی دُعا کرنا اَنبیاء کی سنت ہے۔ قرآنِ مجید میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے اَلفاظ یوں وارِد ہوئے ہیں:
وَالسَّلاَمُ عَلَيَ يَومَ وُلِدتُ وَيَومَ أَمُوتُ وَيَومَ أُبْعَثُ حَيًّاo
’’اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دِن، اور میری وفات کے دِن، اور جس دِن میں زندہ اُٹھایا جاؤں گاo‘‘
مريم، 19 : 33
شادی کے موقع پر ڈھول بجانا اور خوشی کے تہواروں کی مناسبت سے صحت مند شاعری اور خوبصورت کلام عمدہ آواز کے ساتھ پڑھنا نیز تفریحی کھیل کود اِسلامی اَحکام کی خلاف ورزی نہیں۔ یہ خوشی کا فطری اِظہار ہے، جس سے لوگوں کو اپنے جذباتِ مَسرت کے اِظہار کا جائز موقع فراہم ہوتا ہے۔ تاہم بعض اِحتیاطی تقاضوں کو بہرصورت پورا کرنا لازمی ہے۔ شائستگی کی حدوں کو پھلانگنے کی اِجازت نہیں دی جا سکتی۔ اِسی طرح لغو، بے ہودہ اور فحش کلام پر مبنی موسیقی سوائے نفسانی اِشتعال کے اور کچھ فائدہ نہیں دیتی، چنانچہ اُس سے کلیتاً اِجتناب برتا جائے۔
خوشی کے مواقع پر پاکیزہ کلام کو گانے کے حوالے سے حدیثِ مبارکہ ملاحظہ ہو، جو صحیح بخاری کی کتاب العیدین میں اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ عید کا دن تھا اور ہمارے پڑوس کے اَنصار کی دو بچیاں ہمارے گھر میں (یعنی بیتِ نبوت میں) اَنصار کے تاریخی نغمات گا رہی تھیں۔ یومِ بُعاث ایک تاریخی دن تھا، جب لڑائیوں کے ایک سلسلہ میں اَنصار کو فتح ہوئی تھی۔ وہ اُس فتح کی یاد میں تاریخی بہادری اور اَنصار کی جرات و شجاعت کے بارے میں پاکیزہ کلام پر مبنی نغمے دَف کے ساتھ گا رہی تھیں۔ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی خود گھر میں موجود تھے اور ایک طرف کونے میں سن رہے تھے۔
اِتنے میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اچانک باہر سے تشریف لائے تو غالباً اُن کی نگاہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی پر نہیں پڑی۔ داخل ہوتے ہی اُنہوں نے بچیوں کو دیکھا کہ دَف پر وہ کلام گا رہی ہیں تو دیکھتے ہی اُن کے چہرہ اَقدس کا رنگ کچھ متغیر ہوا اور اُن کے چہرے پر کچھ ناپسندیدگی اور رنج کا اَثر ظاہر ہوا۔ اِس پر اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے محسوس کیا اور عرض کیا کہ اباجان! یہ پیشہ ور گانے والی نہیں ہیں، یہ اَنصار کی بچیاں ہیں اور یومِ بُعاث کی یاد میں نغمے گا رہی ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ بات سن کر جواب دیا کہ یہ آلاتِ موسیقی اور رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں بجائے جا رہے ہیں!
اُس وقت تک اُن کی نگاہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نہیں پڑی تھی کہ حضور خود بھی موجود ہیں۔ اگر اُن کی نگاہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پڑ چکی ہوتی تو وہ کبھی بھی یہ جملہ نہ بولتے کہ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم خود جو تشریف فرما ہیں۔ پاسِ اَدب میں خاموش رہتے یا براهِ راست حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی دریافت کرتے۔ جب حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کا یہ جملہ سنا تو فرمایا:
يَا ابَابکر! لِکُلِّ قومٍ عِيدٌ وهٰذا عِيدُنَا
’’اے ابوبکر! ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔‘‘
صحيح بخاری، کتاب العيدين
گویا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوبکر! اِنہیں کچھ نہ کہو، ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے، اِس لئے اِنہیں پڑھ لینے دو۔
اِس حدیث میں دو اَقوال ہیں اور دونوں سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ ایک قولِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہے اور دُوسرا قولِ نبوت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ میرا عملی وِجدان اور ذوق و عرفان یہ نکتہ اَخذ کرتا ہے کہ ایک قول سے موسیقی کے حوالے سے نقشبندیت اور قادریت نکل رہی ہے اور دُوسرے قول سے چشتیت اور سہروردیت نکل رہی ہے۔حضرت اَبوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آلاتِ موسیقی دیکھ کر خفا ہونے سے قادریت اور نقشبندیت اُبھر رہی ہے اور آقا علیہ السلام نے جو فرمایا کہ اُنہیں کچھ نہ کہو ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے، اِس قولِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چشتیت اور سہروردیت اُبھر رہی ہے۔
ہر بات میں دو حدیں ہوتی ہیں اور خَیرُ الامُورِ اوسَطُھا (یعنی تمام اُمور میں بہترین درمیانہ راستہ ہوتا ہے۔) یہ فرمانِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم درمیانہ راستہ ہے کہ عید کے دِن اُنہیں گانے سے نہیں روکا بلکہ سیدنا صدیق اکبر کو منع فرمایا کہ اُنہیں گا لینے دو۔ آقا علیہ السلام کے دِین میں بڑی گنجائشیں ہیں، یہ سب ’’فَلْيَفْرَحُوا‘‘ کے زُمرے میں آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر سرزمین مدینہ میں وارِد ہوئے تو آپ کا اِستقبال ہو رہا تھا اور مدینہ کے بچے اور بچیاں دَف لے کر ’طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا‘ کے نغمے الاپ رہے تھے۔
(ماخوذ از خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: Ek-60، سی ڈی نمبر: 424)
اِسلام ایک عملی اور مکمل ضابطہ حیات کا حامل دینِ فطرت ہے، جو رواداری اور اِعتدال پسندی کا داعی ہونے کے ناتے ہر معاملے میں اِعتدال کا عمل دخل چاہتا ہے۔ قرآنِ حکیم میں واضح طور پر اِرشاد ہے:
وَکُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ اِنَّهُ لَايُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
’’اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بے شک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتاo‘‘
الاعراف، 7 : 31
نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج بیت اﷲ سمیت تمام مذہبی عبادات میں اِعتدال و میانہ روی کا رنگ نمایاں ہے۔ ایسے مواقع بھی ہیں جن میں شریعت نے نماز کی ادائیگی کو ممنوع قرار دیا ہے۔ روزے کی ادائیگی میں شدت کو سحری میں تاخیر اور اِفطار میں جلدی سے اِعتدال پر لایا جاتا ہے۔ شریعت نے سحر اور اِفطار کے بغیر مسلسل روزے کی حالت میں رہنے پر سخت قدغن عائد کر رکھی ہے۔ اِسی طرح ہر فرد کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی عصمت و آبرو کے تحفظ کی خاطر نکاح کے ذرِیعے باہمی رشتہ اِزدواج قائم کرے تاکہ وہ اپنے فطری اور حیاتیاتی تقاضوں کی تکمیل کر سکے۔ اَﷲ کی راہ میں خرچ کرنا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے، لیکن اُسے بھی توازن برقرار رکھنے کے لیے حدود و قیود کا پابند کیا گیا ہے تاکہ ایک متوازن راہِ عمل کو یقینی بنایا جا سکے اور کوئی بلادریغ اپنا سب کچھ خرچ کر کے خود بھیک مانگنے پر مجبور نہ ہو جائے۔ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما رِوایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ اِرشاد فرمایا:
لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِن کِبرٍ.
’’جس کے دل میں رتی برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘
ایک آدمی نے عرض کیا :
اِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ انْ يَکُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً.
’’آدمی چاہتا ہے کہ اُس کے کپڑے اچھے ہوں اور اُس کا جوتا عمدہ ہو۔‘‘
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اِنَّ ﷲَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ.
’’بلاشبہ اﷲتعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ غرور و تکبر سچائی سے اِنحراف اور لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنے کے مترادف ہے۔‘‘
صحيح مسلم، 1 : 93، رقم : 91
قرآن حکیم نے گدھے کے ہنہنانے کی آواز کو مکروہ ترین قرار دیا ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ انْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوتُ الْحَمِیرِ
’’بے شک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہےo‘‘
لقمان، 31 : 19
ترنم اور نغمگی پر مشتمل عمدہ آواز کی سماعت سے کیف و لذت حاصل کرنا اِنسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ اِسی بنا پر آقائے دوجہاں صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اﷲ تعالیٰ کے مقدس کلام قرآنِ حکیم کو خوبصورت آوازوں سے مزین کر کے پڑھنے کی ترغیب دی۔
ترنم اور حسنِ قرات کے ساتھ تلاوتِ قرآنِ حکیم کی ترغیب اِس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ تاجدارِ کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش اِلحانی اور عمدہ آواز اِنتہائی پسند تھی، جس سے اِس بات کا پتہ چلتا ہے کہ عمدہ آواز، نغمگی، ترنم اور خوش اِلحانی۔۔۔ جس سے کان محظوظ ہوتے ہوں اور دِل و دِماغ پر کیف و سرور کا اَثر ہوتا ہو۔۔۔ جائز ہے۔
اَز رُوئے عقل و منطق بھی یہ بات درست ہے کہ خوبصورت اور سُریلی آواز سننا کوئی ناجائز کام نہیں۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے تخلیق کے اِعتبار سے ہر اِنسان کو اپنے گرد و پیش سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے حواسِ خمسہ۔۔۔ آنکھ، کان، ناک، زبان اورہاتھ۔۔۔ عطا کیے ہیں۔ ہر حاسہ کا ایک محدود دائرہ کار متعین فرمایا ہے، جو اپنی صلاحیت کے مطابق شعور و آگہی حاصل کرتا ہے۔ جس طرح حواس اپنے اپنے دائرہ کار میں چیزوں کا اِدراک کرتے ہیں اور یہ اِدراک اُنہیں لذت آشنا بھی کرتا ہے، اِسی طرح کان بھی عین فطرت کے مطابق ترنم اور خوش کن آوازوں سے لذت حاصل کرتے ہیں اور اِنسانی دِل و دِماغ پر اُس کا اَثر ہوتا ہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے عطا کی ہوئی اچھی اور مترنم آواز مخلوق پر اِحسانِ عظیم ہے، اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَزِيْدُ فِی الْخَلْقِ مَا يَشَآءُ
’’تخلیق میں جس قدر چاہتا ہے اِضافہ (اور توسیع) فرماتا رہتا ہے۔‘‘
فاطر، 35 : 1
مفسرینِ کرام نے اِس آیتِ مبارکہ میں مَايَشَآءُ سے مراد حواسِ خمسہ سے حاصل ہونے والی لذت لیا ہے، جس میں حسنِ صوت بھی شامل ہے۔ یہ بات حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کے حوالے سے مفسرین نے بیان کی ہے۔ چنانچہ فرمایا:
يَزِيْدُ فِی الْخَلْقِ مَا يَشَآءُ قال: الصوت الحسن
’’تخلیق میں جس قدر چاہتا ہے اِضافہ (اور توسیع) فرماتا رہتا ہے سے مراد اچھی آواز ہے۔‘‘
الدر المنثور فی التفسیر بالماثور، 8 : 260
اِمام رازی نے ’’التفسیر الکبیر (2 : 445)‘‘ میں لکھا ہے:
ومنهم من قال الصوت الحسن
’’اور بعض مفسرین نے اِس سے مراد عمدہ آواز لیا ہے۔‘‘
اِمام اِبن کثیر رضی اللہ عنہ نے بھی ’’تفسیر القرآن العظیم (6 : 532)‘‘ میں ابن جریح رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اِس کا معنی حسن الصوت (عمدہ آواز) کیا ہے۔
تفسیر قرطبی، تفسیر بغوی، تفسیر اِبن ابی حاتم، تفسیر بحر المحیط، تفسیر فتح القدیر، تفسیر اللباب، تفسیر خازِن، تفسیر ثعالبی؛ الغرض اکثر مفسرین کرام نے ’يَزِيْدُ فِی الْخَلْقِ مَا يَشَآءُ‘ کا معنی ’عمدہ آواز‘ کیا ہے، جبکہ اُس کا معنی یہ بھی ہے کہ اﷲ تعالیٰ اِنسان کے ظاہری حواسِ خمسہ کی صلاحیتیں بڑھاتا رہتا ہے۔
خوش آوازی اور ترنم کے ساتھ جائز کلام سننے کا جواز انبیائِ کرام علیہم السلام کے خوش اَلحان ہونے سے بھی ثابت ہے۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَا بعث اﷲُ نبياً اِلَّا حسن الصوت.
’’اﷲ تعالیٰ نے جو بھی نبی مبعوث فرمایا اُنہیں خوش آوازی عطا فرمائی۔‘‘
ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 4 : 6
دِیگر محدثینِ کرام بشمول حکیم ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’نوادرُ الاصول فی اَحادیثِ الرسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم (3 : 33)‘‘ میں، ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے ’’عمدةُ القاری شرح صحیح البخاری (19 : 176)‘‘ میں انبیاء علیہم السلام کے حسن الصوت کی روایت نقل کی ہے۔
جملہ انبیاء کرام علیہم السلام کو اﷲ ربّ العزت نے کسی نہ کسی خاص خوبی سے نوازا، جو اُن کی خصوصیت قرار پائی۔ اُن میں سیدنا داود علیہ السلام کو اﷲ ربّ العزت نے اِمتیازی خوبی لحن یعنی خوش آوازی عطا فرمائی، جو رہتی دُنیا تک ’’لحنِ داودی‘‘ کے نام سے زبان زدِ خاص و عام ہے۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوموسیٰ اَشعری رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
يَا ابَا مُوسَی! لَقَدْ اوتِيتَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ.
’’اَے اَبو موسی! تحقیق تجھے آلِ داود علیہ السلام کی خوش اِلحانی میں سے حصہ عطا کیا گیا ہے۔‘‘
سیدنا داود علیہ السلام جب اپنی مترنم آواز سے اَﷲکا ذِکر کرتے تو پہاڑ آپ کے ساتھ ہم آواز ہو جاتے، کیونکہ وہ داود علیہ السلام کی آواز کے زیروبم کو سمجھتے تھے۔ اِس ضمن میں قرآنِ حکیم فرماتا ہے:
اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهُ يُسَبِّحْنَ بِالعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِo وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً کُلٌّ لَّه اوَّابٌo وَشَدَدْنَا مُلْکُهُ وَآتَيْنَاهُ الْحِکْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ.
’’بیشک ہم نے پہاڑوں کو اُن کے زیرفرمان کر دیا تھا، جو (اُن کے ساتھ مل کر) شام کو اور صبح کو تسبیح کیا کرتے تھےo اور پرندوں کو بھی جو (اُن کے پاس) جمع رہتے تھے، ہر ایک اُن کی طرف (اِطاعت کے لیے) رجوع کرنے والا تھاo اور ہم نے اُن کے ملک و سلطنت کو مضبوط کر دیا تھا اور ہم نے اُنہیں حکمت و دانائی اور فیصلہ کن اندازِ خطاب عطا کیا تھاo‘‘
ص، 38 : 18 تا 20
سیدنا داود علیہ السلام کی موسیقی بھری ترنم آفریں آواز جو وہ ذِکرِ الٰہی کرتے ہوئے اَﷲ تعالیٰ کی مدح و ثنا میں بلند کرتے تو اُسے سن کر پہاڑ بھی اُن کی آواز میں آواز ملا کر لقمہ ریز ہو جاتے۔ اﷲ تعالیٰ نے اُنہیں ایسی آواز سے نواز رکھا تھا جو دِیگر تمام آوازوں پر برتری اور فوقیت رکھتی تھی۔ جب وہ اپنے شیریں ترنم سے زبور کی تلاوت کرتے تو جنگلی جانور اُن کے اِس قدر قریب آجاتے کہ وہ اُنہیں گردن سے پکڑ سکتے۔
حضرت داود علیہ السلام کی شیریں اور دِل کو موہ لینے والی آواز عطیہ خداوندی تھا، جس سے یہ بات بغیر کسی شک و شبہ کے ثابت ہو جاتی ہے کہ اَﷲ تعالیٰ کی مدح سرائی میں اچھی آواز کا اِستعمال اَجر و ثواب اور اِنعام کا باعث ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ روزِ قیامت اَﷲ تعالیٰ حضرت داود علیہ السلام کو حکم دے گا کہ اُسی خوش اِلحانی کے ساتھ اَہلِ محشر کے سامنے میری تقدِیس بیان کرو، جیسے دُنیا میں تم تورات کی تلاوت کیا کرتے تھے۔
اِس میں کوئی حرج نہیں کہ پُرمَسرت مواقع پر مترنم آوازوں کی مہارت اور ہنر کا اِستعمال عمل میں لایا جائے۔ اِس بات کی تائید اَحادیثِ نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت ربیع بنت معاوض بن عرفہ بیان کرتی ہیں:
’’حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میری شادی کے موقع پر تشریف لائے اور دُوسرے اَعزاء و اَقارب کی طرح میرے بستر پر فروکش ہوگئے۔ اِتنے میں ہماری اَنصار بہنیں دَف پر کوئی گیت گانے لگیں، وہ شہدائے بدر کی تعریف میں نغمہ سرا تھیں۔ جب ہم میں سے ایک لڑکی کی نظر حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پڑی تو وہ آپ کے لیے مدح سرا ہوگئی۔ اِس پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے روکا اور فرمایا کہ وہ وُہی گیت جاری رکھیں جو وہ گارہی تھیں۔‘‘
صحیح بخاری، 4 : 1469، رقم: 3779
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے مروی ہے کہ حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اعْلِنُوا هَذَا النِّکَاحَ وَاجْعَلُوهُ فِی الْمَسَاجِدِ وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالدّفُوفِ.
’’نکاح کی تشہیر کرو، مسجدوں میں نکاح کرو اور اُن مواقع پر دَف بجایا کرو۔‘‘
جامع الترمذی، 3 : 398، رقم: 1089
حلال و حرام میں فرق ہی نغمہ مَسرت اور دَف بجانے سے ہے۔ دَف بجانے اورشادِی کے خوب صورت گیتوں کے ذریعے نکاح کے کھلے عام اِعلان سے حلال اور حرام کا فرق واضح ہوتا ہے۔ محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’حلال اور حرام (نکاح) کے مابین فرق آواز کا ہے، یعنی (حلال نکاح کا اِعلان) دَف بجا کر کیا جاتا ہے، (جبکہ حرام چوری چھپے اور خاموشی سے کیا جاتا ہے )۔‘‘
بعض کم علم لوگ شادی اِتنی خاموشی سے کرتے ہیں کہ نہ دَف کی آواز اور نہ نغماتِ مَسرت؛ اور اُسے نیکی اور پرہیزگاری سمجھتے ہیں، حالاں کہ نیکی اور پرہیزگاری حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ماننے میں ہے نہ کہ ترک کرنے میں۔ شادِی کے موقع پر مکمل خاموشی اِختیار کرتے ہوئے یہ رسم سرانجام دینا سنت کی خلاف ورزی کے مترادف ہے، کیونکہ سنتِ نبوی نے جائز شادِی اور بدکاری کے درمیان حدِ فاصل کھینچ دی ہے۔ اِس قانونی شق نے اِس نکتے کو بڑی صراحت سے واضح کر دِیا ہے کہ شادی کا اِعلانِ عام کیا جائے تاکہ لوگ یہ بات بخوبی جان سکیں کہ فلاں مرد اور فلاں عورت کا ایک دُوسرے کے ساتھ خاوند اور بیوی کا رشتہ ہے۔ اِس مقصد کو شادی کے گیت گانے اور دَف بجانے کے معروف طریقے سے اچھی طرح حاصل کیا جاتا ہے۔ مزید برآں خوشی اور شادمانی کے اَیسے مواقع پر اِعلان کرنا اِظہارِ مَسرت کا فطری طریقہ ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ ایک اَنصاری لڑکی کی شادی تھی۔ اُس موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شادِی کے گیت گانے کے بارے میں دریافت فرمایا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے مروی حدیثِ مبارکہ کے اَلفاظ اِس طرح ہیں :
کان فی حجری جارية من الانصار، فزوجتها. قالت: فدخل علی رسول اﷲ صلیٰ الله عليه وآله وسلم يوم عرسها، فلم يسمع غناء ولا لعبا. فقال: يا عائشۃ! هل غنيتم عليها? او لاتغنون عليها؟ ثم قال: هن هذا الحی من الانصار يحبون الغناء.
’’میرے پاس ایک اَنصاری لڑکی رہا کرتی تھی، میں نے اُس کی شادی کروائی۔ وہ فرما تی ہیں: حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کی شادی کے روز میرے پاس تشریف لائے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی نغمہ سنا نہ کوئی تفریح دیکھی۔ اِس پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: اَے عائشہ! تم اُس کے لیے شادی کے گیت کا اِہتمام کر چکے ہو؟۔ یا فرمایا: کیا تم اُس کے لیے شادی کے گیت کا اِہتمام نہیںکرو گے؟ پھر فرمایا: یہ اَنصاری قبیلہ ایسے مواقع پر ترنم کے ساتھ کلام سننا پسند کرتا ہے۔‘‘
صحیح ابن حبان، 13 : 18
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں:
انْکَحَتْ عَائِشَةُ ذَاتَ قَرَابَةٍ لَهَا مِن الانْصَارِ، فَجَاءَ رَسُول اﷲِ صلی اﷲُ عليه وآله وسلم، فَقَالَ : اهَدَيْتُمْ الْفَتَاةَ. قَالوا: نَعَم۔ قَالَ: ارْسَلْتُمْ مَعَهَا مَنْ يُغَنِّ؟ قَالَتْ: لَا۔ فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صَلی اﷲ عليه وآله وسلم : اِنَّ الْانْصَارَ قَومٌ فِيهِم؟ غَزَلٌ، فَلَو بَعَثْتُمْ مَعَهَا مَنْ يَقُولُ: اتَيْنَاکُمْ اتَيْنَاکُمْ، فَحَيَانَا وَحَيَاکُم
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے اپنے قریبی ایک اَنصاری لڑکی کی شادی کا اِہتمام کیا۔ اِس موقع پر حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور پوچھا: کیا تم نے دُلہن کو تیار کر لیا ہے؟ اُنہوں نے اِثبات میں جواب دیا۔ اِس پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید دریافت فرمایا: کیا تم نے شادی کا گیت سنانے کے لیے کسی کا بندوبست کیا ہے؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے نفی میں جواب دیا، تو اُس پر حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ جملہ اِرشاد فرمایا: اَنصار لوگ ترنم کے ساتھ کلام سننا پسند کرتے ہیں، بہتر ہے کہ تم کسی خوش آواز کا اِنتظام کرو جو یہ کہے کہ ’’ہم آپ کے پاس آئے ہیں، ہم آپ کے پاس آئے ہیں، اﷲ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو عمر دراز عطا فرمائے۔‘‘
سنن ابن ماجه، 1 : 612، رقم : 1900
حضرت عامر بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
دَخَلْتُ عَلَی قُرَظَةَ بنِ کَعبٍ وَابِی مَسعُودٍ الانصَارِیِّ فِی عُرسٍ وَاِذَا جَوَارٍ يُغَنِّينَ، فَقُلتُ: انتُمَا صَاحِبَا رَسُولِ اﷲِ صلی اﷲ عليه وآله وسلم وَمِن اهلِ بَدرٍ، يُفعَلُ هَذَا عِندَکُم؟ فَقَالَ: اِجْلِسْ اِنْ شِئْتَ فَاسْمَع مَعَنَا، وَاِنْ شِئْتَ اذْهَبْ، قَدْ رُخِّصَ لَنَا فِی اﷲ وِعِندَ العُرسِ
’’میں قرظہ بن کعب رضی اللہ عنہ اور حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شادی میں حاضر ہوا، جہاں بچیاں ترنم کے ساتھ شادی کا نغمہ سنا رہی تھیں۔ میں نے حیرت سے کہا: تم دونوں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَصحاب اور اہلِ بدر میں شامل ہو اور تمہاری موجودگی میں یہ کام ہو رہا ہے! وہ دونوں صحابہ فرمانے لگے: اگر تمہارا جی چاہے تو تم ہمارے ساتھ بیٹھ کر سنو وگرنہ چلے جاؤ، ہمیں شادی میں تفریح کی رخصت دی گئی ہے، (کیونکہ شادی ایک خوشی ہے اور اُس میں مباح تفریح کی اِجازت ہے)۔‘‘
سنن نسائی، 6 : 135، رقم : 3383
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ایک اور حدیث میں وہ بیان فرماتی ہیں:
دَخَلَ عَلَيَ رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم ، وَعِندِی جَارِيَتَانِ تُغَنِّيَانِ بِغِنَائِ بُعَاثَ، فَاضطَجَعَ عَلَی الفِرَاشِ وَحَوَّلَ وَجهَهُ. وَدَخَلَ ابُو بَکرٍ، فَانتَهَرَنِی، وَقَالَ: مِزمَارَةُ الشَّيطَانِ عِندَ النَّبِیِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم ؟ فَاقبَلَ عَلَيهِ رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم ، فَقَالَ: دَعهُمَا، فَلَمَّا غَفَلَ غَمَزتُهُمَا فَخَرَجَتَا. وَکَانَ يَومَ عِيدٍ يَلعَبُ السُّودَانُ بِالدَّرَقِ وَالحِرَابِ. فَاِمَّا سَالتُ النَّبِيَ صلیٰ الله عليه وآله وسلم وَاِمَّا قَالَ: تَشتَهِينَ تَنْظُرِينَ؟ فَقُلتُ: نَعَم. فَاقَامَنِی وَرَاءَهُ خَدِّی عَلَی خَدِّهِ، وَهُوَ يَقُولُ: دُونَکُمْ يَا بَنِی ارفِدَةَ حَتَّی اِذَا مَلِلتُ قَالَ: حَسبُکِ؟ قُلتُ: نَعَم. قَالَ: فَاذْهَبِ
’’حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میرے پاس دو لڑکیاں جنگ بعاث (دو اَنصاری قبیلوں خزرج اور اَوس کے درمیان زمانہ جاہلیت کی رزمیہ کہانی) کے ترانے گا رہی تھیں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بستر پر لیٹ گئے اور منہ دوسری طرف کر لیا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور اُنہوں نے مجھے ڈانٹا اور فرمایا کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس شیطانی باجہ! رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی جانب متوجہ ہو کر فرمایا: اُنہیں کرنے دو۔ جب اُن کی توجہ ہٹ گئی تو میں نے لڑکیوں کو چلے جانے کا اِشارہ کیا۔ یہ حبشیوں کی عید کا دِن تھا، جو ڈھالوں اور برچھیوں سے تفریح دِکھاتے تھے۔ میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا یا آپ نے خود فرمایا: کیا تم دیکھنا چاہتی ہو؟ میں عرض گزار ہوئی: جی۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اور میرا رخسار آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخسار پر تھا اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے: اَے بنی اَرفدہ! مزید دِکھاؤ۔ یہاں تک کہ جب میں اُکتا گئی تو مجھ سے فرمایا: بس؟ عرض کی: جی۔ فرمایا: تو پھر جاؤ۔‘‘
صحيح بخاری، 1 : 323، رقم : 907
قرآنی اِرشادات اور فرموداتِ نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ شادی کے مواقع پر ڈھول بجانا اور خوشی کے تہواروں کی مناسبت سے صحت مند شاعری اور خوبصورت کلام عمدہ آواز کے ساتھ پڑھنا نیز تفریحی کھیل کود اِسلامی اَحکام کی خلاف ورزی نہیں، یہ عمل حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت بھی رہا ہے۔ یہ خوشی اور مَسرت و شادمانی کا فطری اور بے ساختہ اِظہار ہے، جس سے لوگوں کو اپنے جذباتِ طرب و مَسرت کے اِظہار کا جائز موقع فراہم ہوتا ہے۔ یہ لوگوں کی ثقافتی ضرورت بھی ہے، خاص طور پر اُن کی جو دُکھوں اور غموں سے پریشان حال ہوتے ہیں۔ ہر چیز جو قرآن و سنت سے مطابقت رکھتی ہے، قابلِ تحسین ہے اور اُس پر کسی مزید جواز کی ضرورت نہیں کہ لوگوں کے جائز جذباتِ مَسرت پر کوئی سند لائی جائے۔ تاہم بعض اِحتیاطی اور اِنسدادی تقاضوں کو بہر صورت پورا کرنا لازمی و لابدی ہے۔ شائستگی کی حدوں کو پھلانگنے کی اِجازت نہیں دینی چاہیے اور اِس بات کا خیال رکھا جائے کہ لغو، بے ہودہ اور فحش باتوں سے اِجتناب برتا جائے اور مخلوط اِجتماعات سے گریز کیا جائے کیوں کہ اِسلام اَخلاق، میانہ روی اور توازُن کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کی اِجازت نہیں دیتا۔ اِس لیے اَیسے مواقع پر اچھائی اور نیکی کے کاموں سے پہلو تہی ہرگز نہ کی جائے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: سی ڈی نمبر 757 اور www.minhaj.org/uid/11460)
دُنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے اور کمیونیکیشن اِتنی وسیع اور تیزرفتار ہو گئی ہے کہ اُس کی وجہ سے کوئی بھی خبر سیکنڈز کے اندر اندر پوری دُنیا میں پھیل جاتی ہے۔ یوں خیر اور شر کے اَثرات بھی تیزتر ہو گئے ہیں۔ پچھلی صدیوں میں ایک شہر کے لوگ دُوسرے شہر کے حالات، کلچر، رہن سہن، اچھائی و برائی، نیکی و بدی سے آگاہ نہیں ہوتے تھے۔ لوگوں کا تعلق اپنے اپنے شہروں اور علاقائی ماحول تک رہتا تھا۔ اُس زمانے ہندوستان کے لوگوں کی خبر عالمِ عرب کو نہ تھی، عرب کے اَحوال کی خبر ہند کو نہیں تھی۔ وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ ایک دُوسرے سے بے خبر ہوتے تھے۔ دُنیا میں ہونے والی ڈویلپمنٹ کے ماحولیاتی اَثرات علاقائی ہوتے تھے۔ بعض اَوقات آس پاس کے شہروں سے آگے کی خبر بھی نہیں ہوتی تھی۔ تب لوگوں کو خیر کی طرف بلانے والے اَفراد بھی اپنے اپنے علاقوں کی سطح پر حلقات، خانقاہیں اور مراکز بنا کر دین کی تروِیج کا کام کرتے تھے۔ چونکہ ہر علاقے میںشر کا پھیلاؤ مقامی سطح تک رہتا تھا اِس لئے اُس کے علاج کے لئے مقامی سطح کی کوششیں ہی کارگر رہتی تھیں۔
بیسوِیں صدی سے شروع ہونے والا ٹیکنالوجی کا حالیہ عروج دُنیا کو گلوبل وِیلیج بنا چکا ہے۔ جس طرح ایک زمانے تک لوگ اپنے قصبے، گاؤں یا شہر کی حد تک ایک دُوسرے سے اچھے اور برے اَثرات کو قبول کرتے تھے، اُسی طرح اَب پوری دُنیا ایک گاؤں بن گئی ہے اور لوگ پورے عالم کے اَثرات لیتے ہیں۔ جو کچھ آج کل امریکہ میں ہو رہا ہے لاہور میں بیٹھا شخص اُس کا فوری اَثر لے رہا ہے۔ ذرائع اِبلاغ، اِلیکٹرانک میڈیا، ٹی وی، کمپیوٹر، اِنٹرنیٹ اور موبائل تیزی سے مشرق و مغرب کو باہم ملا رہے ہیں۔ ایک چھوٹی سی سکرین آپ کے سامنے ہے اور آپ اُسی پر ساری دُنیا کو دیکھ رہے ہیں کہ کہاں کیا ہو رہا ہے۔ خیر بھی اُسی پر آ رہا ہے اور شر بھی بلاروک ٹوک اُسی پر آ رہا ہے۔ اَب ساری دُنیا کی معلومات، اَحوال اور اَثرات سمٹ کر موبائل فون کی صورت میں آپ کے ہاتھ میں آ جاتے ہیں۔ آنے والے وقت میں ٹی وی کے مختلف چینلز کے کنکشن لینے کی زحمت بھی ختم ہو جائے گی، ٹی وی چینلز بھی کمپیوٹرز اور موبائل پر بآسانی دستیاب ہوں گے۔
ٹیکنالوجی کے فروغ سے جہاں اِنسانیت کو اُس کے خوشگوار اَثرات مل رہے ہیں اُس سے زیادہ تیزرفتاری کے ساتھ منفی اَثرات اور نقصان دِہ پہلو پھیل رہے ہیں۔ پرانے دَور میں والدین بچوں کو برے دوستوں کی صحبت سے بچانے کے لئے گھر سے باہر جانے سے روکتے تھے، اَب ہر قسم کی اچھی و بری صحبت اُنہیں گھر میں اسٹڈی ٹیبل پر میسر ہے۔ بچوں کے کمرے میں پڑا کمپیوٹر اُنہیں اچھے برے ہر قسم کے دوستوں سے چند سیکنڈز میں ملا دیتا ہے۔ بچوں کا کمپیوٹر اور موبائل ہی اُن کی صحبت ہے، اچھا اِستعمال کر لیں یا برا۔ یوں اَب گھر میں بیٹھ رہنے سے بری صحبت سے بچنا ممکن نہیں رہا، جو چاہیں سن لیں، دیکھ لیں، جس سے چاہیں بات کر لیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی سے جہاں ذرائع بڑھ گئے ہیں، وہاں برائی بھی اُتنی ہی طاقتور ہو گئی ہے۔ پرانے دَور میں لوگوں کو شر سے بچنے کے لئے تنہائی اور خلوت کا سبق دیا جاتا تھا، اَب خلوت خود جلوت ہو گئی ہے، تنہائی خود صحبت اور مجلس بن گئی ہے، کوئی بچ کے جائے تو کہاں جائے! اب صحبتِ بد سے پرانے اَنداز میں بچنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔
دورِ جدید کی یہ تمام سہولتیں اُٹھا کے گھر سے باہر پھینکنا یا پھر بستر بوریا اُٹھا کر جنگلوں غاروں میں جا کر رہنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اَب سوال یہ ہے کہ اِسی دُنیا میں رہتے ہوئے اور حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اَیسا کون سا طریقہ اپنایا جائے کہ ہم خود اور ہماری اگلی نسلیں صحبتِ بد کے اَثرات سے بچ سکیں اور ہمارا دِین و اِیمان محفوظ رہے!! اِس کا صرف اور صرف ایک ہی حل ہے، وہ یہ کہ ہر قسم کی صحبتِ بد کے اَثرات کا اِزالہ صحبتِنیک کے ذریعے ہی ممکن ہے، اِس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ممکن نہیں۔ قرآنِ مجید میں اﷲ ربّ العزت نے فرمایا:
هْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَo صِرَاطَ الَّذِيْنَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْo غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَاالضَّآلِّيْنَo
’’ہمیں سیدھا راستہ دکھاo اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے اِنعام فرمایاo اُن لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ (ہی) گمراہوں گاo‘‘
القرآن، الفاتحه، 1 : 5 - 7
قرآنی حکم کے مطابق صحبتِ بد کے توڑ کے لئے صحبتِ صالح کو اِختیار کر لیا جائے تو بری صحبت کے اَثرات سے بچا جا سکتا ہے۔ جتنا صحبتِ صالح طاقتور ہو گی اُسی قدر بندہ صحبتِ بد کے اَثرات سے بچ سکے گا۔ جتنے مختلف اَقسام کے حملے دِین و اِیمان پر ہو رہے ہیں اُن تمام حملوں کے مقابلے کے لئے ایسی طاقتور نیک صحبت کی ضرورت ہے جو بری صحبت کے تمام حملوں سے بچا سکے۔ اگر ہم ایسی نیک صحبت اِختیار کر لیتے ہیں جس کے پاس دِفاع کی صورت تو ہے مگر ہتھیار صرف ایک ہی ہے۔ سو (100) ہتھیاروں سے حملہ آور صحبتِ بد کے مقابلے کے لئے ایک ہتھیار سے مقابلہ ممکن نہیں رہے گا۔ اِیمان پر حملے کئی اَقسام کے ہیں اِس لئے اُن سے بچانے کے لئے ایسی نیک صحبت کی ضرورت ہے جو ہر قسم کے حملوں سے بچا سکے۔ اگر صحبتِ بد کا حملہ دِماغ پر ہو تو صحبتِ نیک اُسے عقل و فہم کے ذریعے بچا سکے، اگر اُس صحبت کا اَثر ہمارے دِل پر ہو جائے تو جذباتی طریق سے بھی اُس سے بچاؤ کیا جا سکے، اگر اُس کے اَثرات ہمارے عمل پر ہو جائیں تو عملی طریق سے بھی بچاؤ کا سامان ہونا چاہیئے، اگر نفسیاتی حملہ ہو تو نفسیاتی سطح پر بھی اُس سے دِفاع کا سامان ملنا چاہیئے، اگر اَخلاقی حملہ ہے تو اَخلاقی سامان ملنا چاہیئے، اگر صحبتِ بد کا حملہ رُوحانی نوعیت کا ہے تو رُوحانی علاج کا سامان بھی ہونا چاہیئے، سماجی و معاشرتی اَثرات ہو رہے ہوں تو سماجی و معاشرتی دِفاع ہونا چاہیئے۔ اَلغرض آج کے دَور میں ہمہ جہتی حملوں کے مقابلے میں صحبتِ خیر کے پاس ہمہ جہتی دِفاعی نظام ہونا چاہیئے تاکہ صحبتِ بد جس اَنداز سے بھی اِیمان پر حملہ آور ہو وہ اُسے متعلقہ ہتھیار کے ساتھ تباہی سے بچا سکے۔ جس زمانے صرف ٹینک سے جنگ ہوتی تھی تب ٹینک کا جواب ٹینک سے دینا ممکن تھا، جب ائیرفورس کا زمانہ آ گیا تو ٹینک سے اُس کا حملہ روکنا ممکن نہیں رہا۔ اَب ضروری ہے کہ صحبتِ صالح کے پاس ہر قسم کے حملوں سے دِفاع کا اِنتظام ہو جن سے اِس جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے دَور میں نئی نسلوں کو سابقہ پڑ رہا ہے اور اَیسی جامع اور ہمہ گیر نیک صحبت ہی ہمیں بری صحبت کے اَثرات سے بچا سکتی ہے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 1065)
رِشوت لینا اور دینا دونوں اِسلام کے نزدیک اِنتہائی ناپسندیدہ ہیں۔ اﷲ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں فرمایا:
وَلَا تَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَيْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo
’’اور تم ایک دُوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو اور نہ مال کو (بطورِ رشوت) حاکموں تک پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم (بھی) ناجائز طریقے سے کھا سکو حالاں کہ تمہارے علم میں ہو (کہ یہ گناہ ہے)o‘‘
البقرة، 2 : 188
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
الراشي والمُرتشي في النار
’’رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا (دونوں) جہنمی ہیں۔‘‘
(طبراني، 1 : 57، رقم: 58)
لعنةُ اﷲِ علی الراشي والمُرتشي
’’رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رشوت دینے والے پر اور رشوت لینے والے (دونوں) پر اللہ کی لعنت ہے۔‘‘
ابن ماجه، 2 : 275، رقم: 2313
لعن اﷲُ الراشي والمُرتشي
’’اﷲ تعالیٰ نے رشوت دینے اور رشوت لینے والے پر لعنت کی ہے۔‘‘
مسند احمد بن حنبل، 2 : 387، رقم: 9011
لعن رسول اﷲ صلیٰ الله عليه وآله وسلم الراشي والمرتشي
’’رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر لعنت کی ہے۔‘‘
ترمذي، 3 : 623، رقم: 1337
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: تصنیف شیخ الاسلام ’’اِسلامی نظامِ معیشت کے بنیادی اُصول‘‘)
اِسلام دینِ فطرت اور دینِ اِعتدال و توازُن ہے اور قرآن و حدیث کی تعلیمات میانہ روی کی تعلیم سے بھری پڑی ہیں۔ مگر ہمارے عمومی رویئے ہر معاملے کو اِنتہاپسندانہ اَنداز میں اُلجھا رہے ہیں اور فرائض کو چھوڑ کر سنتوں اور نوافل کے پیچھے بھاگنا قومی سطح پر ہمارا معمول بن چکا ہے۔ ہم اِس دوڑ میں یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ’’داڑھی اِیمان میں ہے، اِیمان داڑھی میں نہیں‘‘۔ سب سے پہلے کسی کا صاحبِ اِیمان ہونا ضروری ہے، پھر اُس کے بعد فرائض و واجبات کی ادائیگی لازمی ہے، داڑھی کا معاملہ تو بعد میں جا کر اپنے درجے میں آتا ہے، مگر ہمارا آغاز ہی ظاہری حلئے سے ہوتا ہے۔ اگر کسی کا ظاہر اِسلامی حلئے کے مطابق نظر آئے تو ہم اُسے پکا مومن سمجھتے ہیں، خواہ وہ اپنے کاروبار کے لئے جھوٹ اور دھوکہ دہی سے کام لیتا پھرے۔
یہ دورِ زوال کا المیہ ہے کہ ایک طرف تو ہم بحیثیتِ قوم فرائض سے پہلوتہی کی بھی پروا نہیں کرتے جب کہ دُوسری طرف سنتوں اور نوافل پر بھی خوب زور دیتے ہیں۔ ہر نمازِ جنازہ کے موقع پر صفوں کی تعداد طاق رکھنے پر زور دینا سب کو یاد رہتا ہے، مگر اِس بات کی کوئی پروا نہیں کرتا کہ کتنے لوگوں کو جنازہ کی دُعا یاد ہے۔ اَب تو اِس قدر جہالت عام ہے کہ لوگ بغیر وضو نمازِ جنازہ میں شریک ہونے کو جائز سمجھنے لگے ہیں اور ہم صفیں گننے میں مصروف ہیں۔
مطلقاً داڑھی رکھنا اور اُس کا مونچھوں سے بڑھانا سنتِ مؤکدہ ہے اور اُس کی مقدار کا قبضہ بھر ہونا سنتِ غیرمؤکدہ ہے۔ داڑھی کی مقدار سنتِ مؤکدہ کے ضمن میں نہیں آتی۔
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ جب اُن کی داڑھی قُبضہ سے بڑھ جاتی تھی تو وہ کٹوا دیتے تھے۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اُس سے کم ہونے کو ناجائز سمجھتے تھے، بلکہ ظاہرِ نص سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ قُبضہ سے زیادہ بڑی داڑھی رکھنا جائز نہیں، کیوں کہ وہ کٹوا دیتے تھے۔ قُبضہ سے چھوٹی داڑھی رکھنے پر گناہ ہونا تو اُس حدیث میں بیان نہیں ہوا۔ میری نظر میں آج تک ایک حدیثِ صحیح بھی اِس معنی میں نہیں گزری کہ اگر داڑھی قُبضہ سے کم ہو تو یہ حرام ہے یا قُبضہ سے کم ہو تو داڑھی داڑھی ہی نہیں ہے۔ جس حدیث سے داڑھی کا سائز قُبضہ بھر ہونا ثابت کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ جب اُن کی داڑھی بڑھتی تو وہ اُسے دائیں بائیں سے کٹوا دیتے، آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی تذکرہ آیا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا تذکرہ بھی آیا ہے، دو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ایک تو وہ حدیث خبرِ واحد ہے، دُوسرے واضح اَلفاظ میں بیان ہو رہا ہے کہ بڑھتی تو وہ کٹوا دیتے تھے، سو اُس سے اِستنباط یہ ہوتا ہے کہ قُبضہ برابر رکھنے کا معمول تھا۔ مگر قُبضہ سے کم رکھنے کا حرام ہونا، یا ناجائز ہونا، مکروہ ہونا، حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ناپسند کرنا یا چھوٹی داڑھی رکھنے سے منع فرمانا یہ کسی طرح ثابت نہیں ہوتا، اِس معنی و مفہوم کی ایک صحیح حدیث بھی میری نظر سے نہیں گزری۔
اگر کوئی داڑھی بڑھائے اور مونچھیں کٹوائے تو اُس نے آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مطلقاً سنت پہ عمل کر لیا اور اُسے سنت کا ثواب ملے گا۔ چونکہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ اور بعض دِیگر صحابہ کا قُبضہ سے بڑھنے والی داڑھی کا کٹوانا ثابت ہے، اِس لئے اِس حدیث سے یہ اِستنباط ہوتا ہے۔ اگر تو اُس ظاہرِ نص کو لے لیا جائے تو پھر جس طرح بعض لوگ قُبضہ سے کم مقدار رکھنے کو گناہ کہتے ہیں تو قُبضہ سے بڑھانا بھی اُتنا ہی گناہ ہو جائے گا۔ ایسی صورت میں اُن مشائخ و علمائِ کرام کا کیا بنے گا جن کی داڑھیاں قُبضہ سے بڑی ہیں، تو کیا وہ سب گناہ گار ٹھہریں گے! اگر بغیر دلیلِ شرعی کے چھوٹی داڑھی رکھنا فسق اور خلافِ سنت قرار دے دیا جائے تو اُسی حساب سے قُبضہ سے بڑھی داڑھی رکھنا بھی فسق اور گناہ ہونا چاہیئے کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تو کٹوا دیتے تھے۔ اگر دلیلِ شرعی کے بغیر چھوٹی داڑھی کو گناہ ثابت کریں گے تو اُس کے بالعکس بھی گناہ ہی ثابت ہوگا، لہٰذا یہ طریقِ اِستنباط درست نہیں ہے۔
قُبضہ سے بڑھنے والی داڑھی کے کٹوا دینے کا مطلب یہ ہے کہ اُن کے نزدیک اَحسن طریق قُبضہ کے برابر داڑھی رکھنا تھا۔ اَب یہ تو کسی صحابی نے نہیں فرمایا کہ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ قُبضہ کے برابر رکھا کرو، کسی حدیثِ صحیح میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اَیسا حکم ثابت نہیں ہے۔ جب حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ثابت نہ ہو تو وہ سنتِ مؤکدہ نہیں بن سکتی، کیوں کہ سنتِ مؤکدہ ثابت ہونے کے لئے ضروری ہے کہ حکم ہو اور اُس کی تاکید بھی ثابت ہو، تب سنتِ مؤکدہ ثابت ہوتی ہے۔ اگر نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باربار قُبضہ سے کم داڑھی رکھنے سے منع فرمایا ہوتا، یا چھوٹی داڑھی کو خلافِ سنت قرار دیا ہوتا، یا چھوٹی داڑھی رکھنے کو متعدد اَحادیث میں گناہ کا عمل فرمایا ہوتا تو قُبضہ کی مقدار سنتِمؤکدہ قرار پا سکتی تھی۔
داڑھی کے تواتر پر علماء کی دو آرا ہیں، علماء کی ایک بڑی تعداد داڑھی کے تواتر کو سنتِ عادیہ کے طور پر لیتی ہے، کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت تھی اور اُس زمانے عربوں کی عادت ہی یہ تھی کہ اِتنی داڑھی رکھا کرتے تھے، پس وہ علماء اُسے سُنن الھُدیٰ میں شامل ہی نہیں کرتے۔ سُنن الھُدیٰ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایسی سنتیں ہیں جن کا کرنا لازمی اور ترک کرنا گناہ ہے۔ دُوسری طرف سُننِ عادیہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ سنتیں ہیں جو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک عادات میں شامل تھیں یا عربوں کی تہذیب و ثقافت کا حصہ تھیں، جیسے لباس، کھانا، سواری، ایسی بہت سی دُوسری سننِ مبارکہ جن پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں تواتر تھا۔ یہ ساری چیزیں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت تو ہیں اور اُن پر محبت کے ساتھ عمل کرنا باعثِ اَجر و ثواب بھی ہے، مگر ترک کرنے سے گناہ لاحق نہیں ہوتا۔ چنانچہ علماء کی ایک بڑی تعداد داڑھی کا رکھنا اور مقدار قبضہ رکھنا سننِ عادیہ میں شمار کرتی ہے۔
اگر کوئی فنِ اُصولِ حدیث کا طالب علم ہو کر ذخیرہ حدیث میں آنے والی کل اَحادیث کو شرائطِ حدیث، سند اور شرائطِ اِثباتِ اَحکام کو ملحوظ رکھ کر ایک فقیہ کے طور پر دیکھے تو قُبضہ برابر داڑھی رکھنے کے صرف دو مرتبے بنتے ہیں۔ اگر اُسے نچلے درجے میں شمار کریں تو ’سنتِ عادیہ‘ قرار پائے گی اور اگر اَعلیٰ درجے میں (یعنی سنتِ ھدیٰ میں) شمار کریں تو’سنتِ غیرمؤکدہ‘ قرار پائے گی۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل مبارک ہے، چونکہ زبان سے صریح حکم نہیں ہے، کم رکھنے پر تحدید نہیں ہے، سختی نہیں ہے، گناہ کا کلمہ نہیں ہے، اِس لئے سنت ہے مگر سنتِ غیرمؤکدہ ہے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 393)
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved