اہلِ وطن خواتین و حضرات!
آپ میں سے ہر فرد اس حقیقت کو بخوبی جانتا ہے کہ اسلامیانِ ہند نے جان و مال اور عزت و آبرو کی کتنی قربانیاں دے کر یہ ملکِ پاکستان حاصل کیا تھا۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی فکری کاوشوں اور قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی قائدانہ عملی جدوجہد سمیت برصغیر کے ہزاروں علماء، مشائخ، خواتین، طلباء اور عام لوگوں کی کئی عشروں پر مشتمل تحریک کے نتیجے میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں یہ خطہ پاک عطا کیا تھا۔ لاکھوں لوگ رزقِ خاک ہوئے، مسلم کمیونٹی نے اپنی جائیدادیں، مال و اسباب اور جانیں جس عظیم مشن کو سامنے رکھ کر قربان کیں وہ یہ تھا کہ ہماری آئندہ نسلیں آزاد اور ترقی یافتہ فلاحی اسلامی معاشرے میں پرسکون زندگی گزار سکیں۔ لیکن افسوس۔ ۔ ۔ کہ یہ خواب محض خواب ہی رہے۔ پاکستان کی صورت میں 1947ء میں اﷲ تعالیٰ نے ہمیں عالم اسلام کی سب سے بڑی آزاد ریاست کی نعمت سے نوازا مگر قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی بے وقت وفات نے ان کے پاکستان کو جاگیرداروں، وڈیروں، لٹیروں، سرمایہ داروں، مفاد پرست سیاست دانوں اور فوجی ڈکٹیٹروں کے دستِ تسلط میں گروی رکھ دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایسا نظام قائم ہوگیا جس کے تحت اسلامی جمہوری ریاست کے خدّوخال آغازِ سفر میں ہی دھندلا گئے۔ وہ لوگ عنانِ حکومت پر قابض ہو گئے جو اس ساری خون آشام جدوجہد آزادی میں شریک ہی نہیں تھے۔ چنانچہ اس قبضہ گروپ نے نوزائیدہ ملک کو نوچنا شروع کیا اور ٹھیک 25 سال بعد اسے دو لخت کر دیا۔
بچے کھچے پاکستان کو گزشتہ 35 برسوں سے باری باری اِسی ظالمانہ اور باطل پرست نظام کے زیر سایہ سیاسی طالع آزماؤں اور فوجی ڈکٹیٹروں نے تختہ مشق بنایا ہوا ہے۔ اِس دوران ان ہوس پرست طبقات میں عدلیہ، اِنتظامیہ کی چند کالی بھیڑوں سمیت بعض موقع پرست سیاسی اور مذہبی قائدین بھی شامل اِقتدار ہوتے رہے۔ لیکن اس پورے عرصے میں جو طبقہ مکمل طور پر نظر انداز ہوا وہ اس ملک کے سفید پوش اور غریب عوام تھے۔ انہی ناگفتہ بہ حالات کو دیکھتے ہوئے پاکستان عوامی تحریک کے بانی قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 1989ء میں اپنے انقلابی منشور کا اعلان کیا اور خار زارِ سیاست میں اُترے۔ 1990ء کے عام انتخابات میں پورے ملک سے امیدوار نامزد کئے لیکن عوام اُس وقت کے دو بڑے روایتی سیاسی گروہوں میں ہی تقسیم رہے۔ بعد ازاں دوبارہ توانائیاں جمع کرکے 2002ء کے الیکشن میں حصہ لیا اور قائد تحریک ایک حلقے سے منتخب ہوکر اسمبلی میں بھی چلے گئے مگر جلد ہی بے اِختیار اور بے وقعت اسمبلی کی رکنیت کو خیر باد کہ دیا۔ وجہ یہی تھی کہ اس غیر عادلانہ، غیر فطری اور غیر عوامی نظام کی کوکھ سے جنم لینے والی پارلیمنٹ کی حیثیت ربڑ اسٹیمپ سے زیادہ نہیں تھی۔ چنانچہ بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ آپ کا وہ فیصلہ برحق اور بروقت تھا۔
گزشتہ پارلیمنٹ جسے صدر محترم اپنا تاریخی کارنامہ قرار دے رہے ہیں، اس پر اُٹھنے والے اربوں روپے کے اخراجات تو تاریخی تھے لیکن اس پارلیمنٹ کے ذریعے ملک اور عوام کو کیا فائدہ ہوا؟ آئیے اس کا ایک سرسری سا جائزہ لیتے ہیں۔ پوری پانچ سالہ مدت میں پاکستان کو درپیش حقیقی مسائل مثلاً معیشت، معاشرت، تعلیم، صحت کے اداروں کی بہتری، کرپشن، لوٹ مار، طبقاتی تقسیم، صوبائی لسانی اور مذہبی منافرت جیسے بنیادی مسائل کو ختم کرنے کے لئے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ قوم پر قبل ازیں غیر ملکی مالیاتی اداروں کا قرض 32 ارب ڈالر تھا اب وہ بڑھ کر 40 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔ مہنگائی جو کئی سو گنا بڑھ گئی ہے اس کی روک تھام کے لئے نہ صرف کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا بلکہ پارلیمنٹ اور کابینہ کے فاضل ممبران براہِ راست چینی، آٹے، چاول، گھی، پٹرول اور آلو، پیاز جیسے بحرانوں کا سبب بنتے رہے۔ اسی ’’جمہوری‘‘ حکومت کے دوران پاکستان کی سرحدوں پر غیر ملکی مداخلت بڑھی، کشمیر اور افغانستان پالیسی میں یوٹرن لیا گیا۔ صوبائیت اور برادری اِزم کے منفی جراثیم میں اضافہ ہوا، 5 سال کے 1825 دنوں میں اسمبلی ممبران کے اجلاس 378 دن جاری رہے۔ وقفہ ہائے سوالات میں 45,000 سوالات پوچھے گئے جن میں 9,600 جوابات دیئے گئے جو ادھورے اور غیر تسلی بخش تھے۔ تقریباً 73 صدارتی آرڈیننس جاری کئے گئے جن پر اسمبلی نے توثیق کی، ان میں سر فہرست ’’حقوقِ نسواں‘‘ ایکٹ تھا جو قرآن و حدیث کی واضح تعلیمات کے خلاف اور آئین سے بغاوت کا شاخسانہ تھا۔ اسی طرح سترھویں آئینی ترمیم کے ذریعے اسی اسمبلی نے ایک شخص کو بیک وقت آرمی چیف، صدر اور چیف ایگزیکٹو بننے کی اجازت دی جس نے بعد ازاں عدلیہ، میڈیا اور دیگر قومی اداروں کو مفلوج بنا کر رکھ دیا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام کب تک اس نظامِ جبر میں پستی رہے گی؟ کیا 60 سال بعد بھی ہم اس نظام کا حصہ بن کر اپنی آئندہ نسلوں کے ساتھ بددیانتی کے مرتکب ہوتے رہیں گے؟ کیا پاکستانی قوم ترقی یافتہ اقوام کے درمیان اسی طرح معاشی، سیاسی، سماجی، قانونی اور تعلیمی طور پر پسماندہ قوم کے طور پر پہچانی جاتی رہے گی؟ کیا بھارتی اور مغربی دانشوروں کے بقول پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا جائے؟ کیا اسلامی تشخص کے قیام کے لئے خطۂ زمین کا حصول ایک بے معنی مشق تھی؟ یہ وہ سوال ہیں جو آج ہر شخص کے ذہن میں ابھر رہے ہیں۔ لیکن ماحول پر چھائی ہوئی مایوسی، افسردگی اور خوف و ہراس کی وجہ سے کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ ہاں چند نفوس، چند اذہان اور کچھ بیدار مغز جواں ہمت لوگ اب بھی موجود ہیں جو معاشرے میں مثبت تبدیلی کی جدوجہد کے راستے پر گامزن ہیں جو اس نظام شر کے گماشتوں کے خلاف سینہ سپر ہیں، انہوں نے دہشت، دولت اور دھونس کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔ پاکستان عوامی تحریک کی قیادت اور کارکن اسی قبیلے کے لوگ ہیں۔
قائد تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 1993ء میں ہی اس ملک کے اَصحابِ بست و کشاد کے سامنے اس گھمبیر صورتِ حال سے نکلنے کے لئے متبادل جمہوری نظام کا خاکہ پیش کیا تھا۔ جو آج بھی دنیا کے درجنوں ممالک میں کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ وہ ہے ’’متناسب نمائندگی کا پارلیمانی نظام‘‘۔ اس کی تفصیلات اور فوائد کیا ہیں؟ یہ کہاں کہاں نافذ العمل ہے؟ ان تفصیلات کو زیر بحث لانے سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ہمارے موجودہ نظام جمہوریت میں وہ کیا کیا خامیاں اور بنیادی نقائص ہیں جن کے پیش نظر ہم اس نظام کو تبدیل کرنا ملک و قوم کے ساتھ وفاداری سے مشروط کر رہے ہیں۔
پاکستان میں رائج موجودہ نظام انتخابات جسے سادہ اکثریتی نظام کہا جاتا ہے کسی بھی لحاظ سے اسلام کے دیئے ہوئے تصورِ انتخابات و حکمرانی کے مطابق نہیں اور نہ ہی یہ عوام کی حقیقی نمائندگی کا عکاس ہے۔ ہم ذیل میں مختلف زاویہ نگاہ سے پاکستان کے موجودہ نظام انتخابات کی خامیوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔
اسلام میں خلافت و نیابت کے سنہری اصول اور شوریٰ اور اولی الامر کی اہلیت کا معیار دیا گیا ہے۔ اکثریت کی نمائندہ حکومت کے قیام کے واضح اصول بھی موجود ہیں جبکہ اس نظام کے تحت اکثریت کی ناپسندیدہ حکومت تشکیل پاتی ہے۔ اسے عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل نہیں ہوتی۔ اس لئے ایسی شوریٰ اسلامی شوریٰ نہیں کہلا سکتی اور نہ ہی ایسے نمائندوں کو اقتدار سونپا جا سکتا ہے جو اپنی جیت کے لئے اپنی انتخابی مہم کو میلے یا سرکس کے انداز میں چلاتے ہیں اور اپنے آپ کو منتخب کروانے کے لئے ہر جائز و ناجائز ذریعہ استعمال کرتے ہیں اسلام میں اس کی گنجائش نہیں ہے یہ ذاتی مفادات کی جنگ ہے اس میں عوام کی خیر خواہی اور خدمت کا کوئی جذبہ کارفرما نہیں ہوتا۔
پاکستان کی فیڈرل شریعت کورٹ میں 1988ء کے انتخابات کے بعد بہت سی درخواستیں موجودہ نظام انتخابات اور انتخابی قوانین کو کالعدم قرار دینے کے لئے دائر کی گئیں اور ان درخواستوں کے دلائل کی بنیاد پر فیڈرل شریعت کورٹ نے بھی موجودہ نظام انتخاب کو قرآن و سنت کے اصولوں کے خلاف قرار دیا تھا۔ ان درخواستوں کی سماعت کے دوران سب سے بڑی دلیل یہی پیش کی گئی تھی کہ موجودہ نظام انتخاب میں انتخابی مہم ایک میلے یا سرکس کے انداز میں چلائی جاتی ہے۔ ہر امیدوار کی اولین ترجیح اپنی ذات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا اور اپنے حریف امیدوار کی کردار کشی ہوتی ہے۔ امیدوار منافقت اور فریب کا لبادہ اوڑھے ہوئے لالچ، دہونس، دھمکی اور جھوٹے وعدوں کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے حتی الامکان زیادہ سے زیادہ ووٹوں کے حصول کی خاطر ایک ایک دروازے پر پہنچ کر ووٹروں کا تعاقب کرتا ہے وہ تنخواہ یافتہ کارکنوں کی فوج حتی کہ بعض اوقات انتخابی مہم کے حربوں میں خصوصی طور پر تربیت یافتہ بیرونی ماہرین کی خدمات بھی حاصل کرتا ہے۔ امیدوار کی بینروں، پوسٹروں اور پلے کارڈوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر جھوٹی تشہیر کی جاتی ہے۔ مہنگی گاڑیوں اور ٹرکوں پر سوار کرائے کے رضاکاروں کے جلوس سڑکوں پر محلے محلے اور گاؤں گاؤں نعرے لگاتے ہوئے گشت کرتے اور ووٹروں کی حمایت حاصل کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ امیدوار کی اپنی خواہش اور اس کے بھاری خرچ پر ہوتا ہے۔ حمایت حاصل کرنے کے لئے علاقائی، فرقہ وارانہ، قبائلی اور اس طرح کے دوسرے تعصبات کو استعمال کیا جاتا ہے، بوگس اور جعلی ووٹ بھگتانا معمول کی بات ہے۔ بالآخر جو سب سے اونچے داؤ لگا کر یہ کھیل کھیلتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔
موجودہ نظام انتخاب کے تحت جو بھی حکومت بنتی ہے صحیح معنوں میں اقلیتی حکومت ہوتی ہے۔ چونکہ اس نظام کے تحت ایک امیدوار کل رجسٹرڈ ووٹوں کا بہت تھوڑا حصہ لے کر بھی کامیاب ہو سکتا ہے۔ اپنے حریف امیدواروں سے محض ایک ووٹ کی سبقت ہی کامیابی کے لئے کافی ہے اس کی نمائندگی کی حقیقت اس تجزیے سے سامنے آتی ہے:
فرض کیجئے ایک حلقہ انتخاب میں ایک لاکھ رجسٹرڈ ووٹر ہیں ان میں سے 50,000 افراد نے اپنا حق رائے دہی اپنے پسندیدہ امیدواروں کے حق میں استعمال کیا۔ کل 5 امیدواروں نے انتخاب میں حصہ لیا ایک امیدوار نے 12,000 ووٹ حاصل کئے، دوسرے نے 11,500 ووٹ حاصل کئے، تیسرے نے 11,000، چوتھے نے 9,500 اور پانچویں نے 8,000 ووٹ حاصل کئے۔ اس طرح موجودہ نظام کے تحت 12,000 ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار اس حلقے کا نمائندہ قرار دے دیا جائے گا حالانکہ 38,000 افراد اسے نمائندہ نہیں بنانا چاہتے اور 50,000 افراد نے بوجوہ اپنا رائے حق دہی استعمال ہی نہیں کیا مگر وہ صرف اس لئے کامیاب قرار دیا گیا کہ اس نے اپنے حریف امیدوار کے مقابلے میں 500 ووٹ زیادہ لئے ہیں اور اب وہ ایک لاکھ افراد کے حلقہ انتخاب کا نمائندہ تصور کیا جائے گا۔
مندرجہ بالا تجزیے کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان میں 1970ء، 1977ء، 1985ء، 1988ء، 1990ء، 1997ء اور 2002ء کے انتخابات کا جائزہ لیں تو ایسی بہت سی مثالیں ملیں گی جہاں امیدوار محض چند ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب ہوئے اور پورے حلقہ انتخاب کے نمائندے قرار دیے گئے اور مجموعی طور پر برسر اقتدار آنے والی سیاسی جماعتوں نے بھی بہت کم ووٹ حاصل کئے۔ مثلاً 1970ء کے انتخاب میں برسر اقتدار جماعت کو صرف 38.9 فیصد ووٹروں کی تائید حاصل تھی۔ 1988ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے 37.63 فیصد ووٹ حاصل کئے اور 45 فیصد نشستیں حاصل کیں جبکہ اسلامی جمہوری اتحاد نے 29.56 فیصد ووٹ حاصل کئے اور 28 فیصد نشستیں حاصل کیں۔ اس طرح اس نظام انتخاب کے تحت پیپلز پارٹی نے ووٹوں کے تناسب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں اور اسلامی جمہوری اتحاد نے تناسب سے کم نشستیں حاصل کیں۔
1990ء کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کو 37.37 فیصد ووٹ ملے اور نشستیں 106 ملیں یعنی 52.8 فیصد جبکہ پی ڈی اے کو 36.65 فیصد ووٹ ملے اور نشستیں 44 یعنی 22.7 فیصد۔ اس طرح اس نظام انتخاب کے تحت ووٹوں میں صرف ایک فیصد کے فرق سے 62 نشستوں کا فرق پڑ گیا۔ اس کے بعد نصف سے بھی کم نشستیں حاصل کرنے والی جماعت نے حکومت سازی کے مرحلہ پر درپردہ دھاندلی اور اراکینِ اسمبلی کو ہارس ٹریڈنگ کے عمل سے خرید کر حکومت بنا لی اور وہ حکومت ملک بھر کے عوام کی نمائندہ حکومت کہلائی۔
اِس طرح مجموعی ٹرن آؤٹ کے اعتبار سے ان انتخاب کا جائزہ لیا جائے تو 1977ء کے عام اِنتخابات میں کاسٹ ہونے والے ووٹوں کی شرح کا تناسب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 63 فیصد تھا، جو کہ بعد ازاں آنے والے اِنتخابات میں بتدریج کم ہوتا رہا۔ 1988ء کے عام اِنتخابات میں ٹرن آؤٹ 43.07 فیصد ہوا، 1990ء کے عام اِنتخابات میں 45.46 فیصد تک پہنچ گیا، 1993ء کے عام اِنتخابات میں 40.28 فیصد پر آگیا، 1997ء کے عام اِنتخابات میں 35.42 فیصد کی نچلی سطح پر آگیا جوکہ 2002ء کے عام اِنتخابات میں 41.26 فیصد کی سطح پر پہنچایا گیا۔ بعد ازاں 2005ء میں ہونے والے بلدیاتی اِنتخابات میں ووٹوں کا ٹرن آؤٹ 30 فیصد کی اِنتہائی نچلی سطح تک گر گیا حالانکہ یہ الیکشن لوکل سطح پر منعقد ہوئے اوران میں لوگوں نے زیادہ بڑھ چڑ کر مقامی نمائندوں کو ووٹ دیے۔ اِس تقابل سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام موجودہ مہنگے اور بدعنوان انتخابی نظام سے مایوس ہوچکے ہیں اور اُنہیں موجودہ نظام انتخابات کے ذریعے ملک میں کوئی مثبت تبدیلی آنے کا کوئی اِمکان دکھائی نہیں دیتا۔
اسی طرح اگر ہم انفرادی امیدواروں کی جیت کا تناسب دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں بھی توازن نہیں اور کوئی بھی امیدوار اپنے مدمقابل امیدواروں سے محض ایک ووٹ کی برتری لے کر کامیاب ہو سکتا ہے چائے اسے رائے دہندگان کی اکثریتی تعداد ناپسند کرتی ہو مثلاً الیکشن 90ء میں حلقہ این اے 9 کوہاٹ سے سید افتخار گیلانی صرف 8.73 فیصد ووٹ لے کر کامیاب قرار دیئے گئے اور حلقہ این اے 17 کوہستان سے مولوی محمد امین محض 5.29 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ صوبہ سرحد میں کامیاب ہونے والے قومی اسمبلی کے امیدواروں میں سے سب سے زیادہ ووٹوں کا تناسب 30 فیصد تھا اور قومی اسمبلی کے 26 اراکین میں سے صرف 5 امیدواروں نے 20 اور 30 فیصد کے درمیان ووٹ حاصل کئے۔
موجودہ نظام انتخابات کے تحت منعقد ہونے والے انتخابات اور ان سے بننے والی حکومتوں کو حاصل کردہ ووٹوں اور نشستوں کے تناسب کے جائزے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نظام انتخابات کے تحت نہ تو کوئی رکن پارلیمنٹ عوام کی اکثریت کا نمائندہ ہوتا ہے اور نہ ہی ان نمائندوں کے ذریعے بننے والی حکومت عوام کی اکثریت کی نمائندہ حکومت ہوتی ہے جبکہ ایک جمہوری نظام کی لازمی شرط یہ ہے کہ جمہور (عوام کی اکثریت) کو منتخب اداروں میں واضح نمائندگی ملے جو کہ موجودہ نظام میں کسی شکل میں بھی پوری نہیں ہوتی۔
موجودہ نظام انتخابات صرف سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اس نظام کے تحت صرف سرمایہ دار اور جاگیردار ہی منتخب ہو سکتے ہیں۔ عوام کی پسند کو محدود کر دیا جاتا ہے اور جب اقتدار ان طبقات کے ہاتھ میں آتا ہے تو یہ صرف ایسے قوانین وضع کرتے ہیں اور دستور اور قانون میں ایسی ترامیم کرتے ہیں جن سے صرف ان کے اعلیٰ سطحی مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ عوام کے مفاد میں کوئی فیصلہ نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی پالیسی بنتی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آج تک غریب عوام کی بہتری کے لئے ان بالادست طبقات کے ہاتھوں کوئی اصلاحات نافذ نہیں ہو سکیں اور نہ ہی اسلامی قوانین اور شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نفاذ ہو سکا ہے۔ چونکہ شریعت کا نفاذ ان بالادست طبقات کے مفاد میں نہیں اس لئے ان طبقات کے ہوتے ہوئے عوامی حقوق کا تحفظ ہوسکتا ہے اور نہ شریعت کا نفاذ ممکن ہے۔ اس کی عملی مثال مشرف دور کی 342 ارکان پر مشتمل اسمبلی ہے جس نے ان پانچ سالوں میں کوئی ایک بل بھی عوام کے مسائل سے متعلق پیش نہیں کیا، البتہ اپنی مراعات اور تنخواہوں کے بارے میں تین بار اضافوں کے بل پورے اتفاق سے پاس ہوتے رہے۔
اس نظام میں امیدوار چونکہ محض ایک ووٹ کی برتری سے بھی کامیاب ہو سکتا ہے اس لئے ناجائز ذرائع اور سرکاری پشت پناہی کے حامل امیدوار اپنے مدمقابل کو شکست دینے اور خوفزدہ کرنے کے لئے دھن، دھونس اور دھاندلی کے تمام ممکنہ طریقوں کا آزادانہ استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہر انتخاب میں برسر اقتدار حکومتوں اور بالادست طبقات نے دھن، دھونس اور دھاندلی کی بنیاد پر الیکشن جیتے اور پھر الیکشن جیتنے کے بعد بھی اپنے مدمقابل کو ذلیل و رسوا کرنے اور اس سے ہر ممکن انتقام لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اسے انتہائی بیہمانہ اور غیرشریفانہ طریقوں سے نقصان پہنچاتے رہے۔ ان بالادست طبقات کو ہمیشہ یہ اطمینان رہتا ہے کہ ہمارے حلقے محفوظ ہیں اور ہمارے سوا کوئی دوسرا شخص ہمارے حلقے سے منتخب نہیں ہو سکتا اس لئے وہ اس نظام انتخابات کے تحت اپنے استحصالی، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ مفادات کے لئے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے اور ان کی اجارہ داریاں ہمیشہ برقرار رہتی ہیں۔ ان اجارہ داریوں کے ہوتے ہوئے پاکستان کے موجودہ سماجی و سیاسی حالات میں تبدیلی کی توقع قطعاً نہیں کی جا سکتی۔
موجودہ نظام انتخابات نے ہمیشہ اسمبلیوں میں بیشتر نااہل اور مفاد پرست افراد کو بھجوایا ہے جنہوں نے ملک و قوم کی خدمت کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کیا۔ ہارس ٹریڈنگ، رشوت، غبن، لوٹ مار، خیانت اور ناجائز طریقوں پر کروڑوں اربوں روپے کے قرضے لینا اور دھوکہ دھی سے ان قرضوں کو معاف کروانا ان اراکین کا معمول رہا ہے۔ حالیہ پارلیمنٹ ممبران میں سے اکثریت نادہندہ تھی اور انہوں نے اپنے عزیزوں کے نام پر اربوں روپے معاف کرواتے۔ یہی قرض پاکستانی عوام پر مہنگائی اور بدحالی کی صورت میں اضافی بوجھ کا سبب بنتے ہیں۔ لیکن ہمارے غریب عوام اس حقیقت سے واقف نہیں اور ہر بار اپنے پیٹ کاٹ کاٹ کر انہی لٹیروں کو دیتے ہیں۔
اسی طرح عوام کی خدمت اور علاقہ کی بہتری کے نام پر کروڑوں روپے کے منصوبے منظور کروائے مگر انہیں اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کیا۔ عوام کے منتخب نمائندوں کی حیثیت سے جتنی بھی مراعات ملیں سب اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کیں۔ کارخانوں کے لائسنس اور پرمٹ، پلاٹوں اور جاگیروں کا حصول ان اراکین کا شیوہ رہا۔ یہ نااہل اور مفاد پرست افراد ایک بالا دست طبقے کی حیثیت سے عوام کا استحصال کرتے رہے اور کر رہے ہیں یہ لوگ ہمیشہ انتخابات کے مواقع پر عوام کے خادم اور غریبوں کے ہمدرد کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ انتخابات جیتنے کے لئے لاکھوں کروڑوں روپے داؤ پر لگاتے ہیں اور پھر اسمبلی میں بیٹھتے ہی پہلے چند روز میں وہ سارا خرچہ (اصلِ زر) وصول کر لیتے ہیں اور بقیہ سال سارے منافع کے ہوتے ہیں۔
پاکستان کے چاروں صوبوں میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں اور مختلف مسالک کے لوگ آباد ہیں مگر بدقسمتی سے اس نظام انتخابات کے تحت ہمیشہ علاقائی، گروہی، لسانی اور فرقہ وارانہ مسائل کو انتخابی نعروں کے طور پر استعمال کیا گیا اور انتخابات میں نشستوں کے حصول کے لئے مختلف سیاستدانوں نے رائے دہندگان کے جذبات کو مشتعل کر کے اپنے لئے تائید حاصل کی۔ سندھ ایک عرصہ سے لسانی کشیدگی اور فسادات میں جل رہا ہے۔ ہزاروں گھرانے برباد ہو چکے ہیں اور ہزاروں لوگ اس آگ میں جل چکے ہیں۔ پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان میں ایک عرصہ سے مذہبی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور کئی لوگ اس کشیدگی کے باعث قتل ہو چکے ہیں اور سینکڑوں بے گناہ لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان سب فسادات کے پیچھے نام نہاد لیڈروں کے سیاسی مفادات کارفرما ہیں اور یہ مفادات محض اس نظام انتخابات کی وجہ سے ہیں جن میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔
اس نظام انتخابات کے ذریعے جتنی بھی حکومتیں بنیں کمزور ثابت ہوئیں اور حکومتوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوج اور بیوروکریسی کو اپنا پیشہ وارانہ کردار چھوڑ کر سیاسی کردار ادا کرنا پڑا نتیجتاً سیاسی نظام میں عدم استحکام رہا۔ حکومتیں اپنی کمزوری کے باعث جلد ٹوٹتی رہیں اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ملک پر حکمرانی کرتے رہے۔ ملک سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی انحطاط کا شکار ہو گیا۔ سیاسی جماعتوں کو اب اس نظام میں نہ تو کسی ٹھوس پروگرام کے پیش کرنے کی ضرورت رہی ہے اور نہ کسی دستور و منشور کی۔ انہیں نہ کوئی جانتا ہے اور نہ پڑھتا۔ ہر جماعت کو جیتنے والے امیدواروں (Winning Horses) کی ضرورت ہوتی ہے اور انہی کے ذریعے انتخاب جیتا جاتا ہے اس میں عوام کا کردار محض نمائشی اور رسمی رہ گیا ہے اس نظام میں یہی پہلو حکومتوں کو کمزور اور سیاسی نظام کو غیر مستحکم رکھتا ہے۔ اسی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر فوجی آمریت بار بار جمہوری بساط لپیٹتی ہے اور پھر ملک اندھیروں کی نظر ہوجاتا ہے۔
موجودہ نظام انتخاب کے تحت نمائندے منتخب ہونے کے بعد بالعموم ہر قسم کے احتساب سے بالاتر رہتے ہیں۔ رائے دہندگان کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ اپنے نمائندوں کا احتساب کر سکیں اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے نمائندوں کی گرفت کر سکیں۔ اس طرح یہ نمائندے نہ صرف اپنی پارٹی کے منشور اور پروگرام سے انحراف کرتے ہیں بلکہ رائے دہندگان سے کئے گئے وعدوں کو بھی فراموش کر دیتے ہیں اور اگلے انتخابات پر دھن، دھونس اور دھاندلی کی بدولت دوبارہ منتخب ہو جاتے ہیں اور مسلسل اپنے ہی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ اب تو بدنامِ زمانہ ’’قومی مفاہمتی آرڈیننس‘‘ کے ذریعے سیاست دانوں کو مقدس گائے قرار دے کر انہیں ہر طرح کے احتساب سے بالا تر قرار دے دیا گیا ہے۔
پاکستان میں اس نظام کے تحت جتنے بھی انتخابات منعقد ہوئے ان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق زیادہ سے زیادہ 45 فیصد افراد نے رائے دہی میں حصہ لیا، دو تہائی رائے دہندگان نے انتخابات سے عدم دلچسپی کا اظہار کیا۔
اس نظام انتخابات کے تحت جتنی بھی حکومتیں بنیں ان کی اولین ترجیح اپنے اقتدار کو دوام دینا، اپنے مفادات کا تحفظ کرنا، حزب اختلاف کو ملک دشمن عناصر قرار دے کر انتقامی کارروائیاں کرنا اور اگلے انتخابات کے لئے ملکی حالات کو اپنے لئے سازگار بنانے پر مرتکز رہی ہے۔ اس طرح ان حکومتوں کو کبھی بھی قومی مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی چنانچہ قیام پاکستان کے 60 سال بعد بھی قومی مسائل حل نہیں ہو سکے۔ بلکہ ہر اسمبلی پہلے سے موجود مسائل کے انبار میں اضافہ کرکے رخصت ہوتی ہے۔
اس ملک میں ایک چپڑاسی کی تقرری کے لئے بھی میرٹ شرط ہے اور ایک کلرک کی تقرری کے لئے بھی تعلیمی قابلیت مقرر ہے اس کے لئے بھی تحریری امتحان اور انٹرویو لازمی ہے ایک ڈرائیور کی تقرری کے لئے بھی ٹیسٹ اور انٹرویو ضروری ہے الغرض کسی چھوٹی تقرری سے لے کر بڑی تقرری تک سکول، کالج، یونیورسٹی کے اساتذہ، ڈپٹی کمشنر، کمشنر، سیکریٹری وغیرہ کی سطح تک بغیر مطلوبہ تعلیمی قابلیت اور تجربہ کے کسی شخص کی تقرری عمل میں نہیں آتی۔
موجودہ نظام انتخابات کے تحت صرف پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیاں ایسے ادارے ہیں جہاں ایم این اے اور ایم پی اے بننے کے لئے کسی قسم کی قابلیت، تجربہ، مہارت، کردار اور ذہانت جیسی خصوصیات کی ضرورت نہیں رہی۔ بمشکل 2002ء کے انتخابات میں ارکان کی اہلیت کے لیے بی۔ اے کی شرط رکھی گئی تھی، لیکن اِس بار اسے بھی ختم کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ یہاں صرف درج ذیل چیزوں کی ضرورت ہے:
ان شرائط کو پورا کرنے والا شخص جیسا بھی ہو قومی یا صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب ہو سکتا ہے۔
پاکستان عوامی تحریک کی تشکیل ایک بامقصد اور تعمیری سیاست کے لئے ہوئی ہے اور پاکستان عوامی تحریک نے اپنے قیام سے لے کر آج تک اپنے اصولوں کو قربان نہیں کیا۔ 25 مئی 1989ء کو موچی دروازہ کے جلسہ عام میں اعلان لاہور کے مطابق پاکستان عوامی تحریک کے پلیٹ فارم سے اس نظام کے تحت انتخابات میں ایک یا دو بار حصہ لینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ چنانچہ دوسری مرتبہ 2002ء میں بھرپور محنت کے ساتھ حصہ لیا۔ پاکستان عوامی تحریک نے 1990ء اور 2002ء کے انتخابات میں حصہ لے کر عملی تجربہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس نظامِ انتخابات کے تحت اہل اور باصلاحیت قیادت کا انتخاب ہرگز نہیں ہو سکتا۔
ہم ملک و قوم کو تباہی کے گڑھے تک پہنچانے کی سازشوں کو ایک تماشائی کی حیثیت سے دیکھنا گوارا نہیں کر سکتے۔ اس لئے موجودہ نظام انتخابات اور اس سے وجود میں آنے والی استحصالی نظام کو بدلنا ناگزیر ہے۔ ہمارے نزدیک اسلام کے مشاورتی اور جمہوری ضابطوں کے تحت متناسب نمائندگی کا پارلیمانی نظام ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہے اور اس نظام انتخاب کے تحت بننے والی اسلامی حکومت ہی عوام کی حقیقی نمائندہ اور صحیح جمہوری حکومت کہلا سکتی ہے۔ لہٰذا پاکستان عوامی تحریک ملک و قوم کے بہترین مفاد میں یہ سمجھتی ہے کہ موجودہ نظام انتخابات کو ختم کر کے ’’پارلیمانی متناسب نمائندگی کا انتخابی نظام‘‘ نافذ کیا جائے اور اس نظام کے تحت انتخابات کرائے جائیں تاکہ صحیح معنوں میں اسلامی، انقلابی، جمہوری اور فلاحی حکومت تشکیل پائے۔
متناسب نمائندگی کا نظام اس وقت دنیا کے تقریباً 50 ممالک میں مختلف شکلوں میں رائج ہے مثلاً آسٹریا، ہنگری، سوئٹزرلینڈ، شمالی یورپ، بلجیئم، ہالینڈ، ڈنمارک، ناروے، سویڈن، جرمنی، فرانس، ترکی، سری لنکا اور اس طرح کئی دیگر ممالک میں اس نظام کے تحت انتخابات ہو چکے ہیں، مختلف ممالک نے اپنے مخصوص حالات کے تناظر میں اس تصور میں جسب ضرورت تبدیلیاں کر کے اس نظام کو اپنے ہاں رائج کیا ہوا ہے اس لئے متناسب نمائندگی کے نظام کی مختلف شکلیں مختلف ممالک میں پائی جاتی ہیں۔ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے جس کی بنیاد اسلام ہے۔ قرارداد مقاصد نے آئین پاکستان میں اس کی نظریاتی اساس کا تعین کر دیا ہے، قرارداد مقاصد جمہوری اور قرآن و سنت میں وضع کئے گئے اصولوں کے عین مطابق ہے۔
متناسب نمائندگی کے انتخابی نظام میں حلقہ وار امیدواروں کے درمیان انتخابی عمل کی بجائے سیاسی جماعتوں کے درمیان انتخابی عمل ہوتا ہے اور ہر سیاسی جماعت کو مجموعی طور پر حاصل کردہ ووٹس کے تناسب سے اسمبلی میں نشستیں ملتی ہیں۔ متناسب نمائندگی کے نظامِ انتخاب میں ووٹرز براہِ راست سیاسی پارٹی کی قیادت اور منشور کی بنیاد پر ووٹ کاسٹ کرتے ہیں اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لئے سیاسی جماعتوں کو بالترتیب ملک و صوبہ بھر سے ملنے والے ووٹوں کے تناسب سے نشستیں ملتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں اسمبلیوں کی نشستوں کی تعداد کے مطابق میرٹ کی بنیاد پر اپنے باصلاحیت امیدواروں کے ناموں کی فہرستیں الیکشن کمیشن کو پیشگی مہیا کرتی ہیں جو کہ آئین کے مطابق طے کردہ اہلیت کے معیار پر بھی پورا اترتے ہوں۔ متناسب نمائندگی کے انتخابی نظام میں اگر سیاسی جماعت کو مجموعی طور پر 30 فیصد ووٹ ملتے ہیں تو انہیں اسمبلی میں حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے 30 فیصد نشستیں مل جاتی ہیں۔ اسی طرح جن جماعتوں کو اس سے زیادہ یا کم ووٹ ملتے ہیں اسی مناسبت سے پارلیمنٹ میں نمائندگی بھی ملتی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہمارا ملک اپنے مخصوص حالات کے تناظر میں اس نظام انتخاب میں حسب ضرورت تبدیلیاں کر کے اس نظام کو رائج کرسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تجزیے سے ثابت ہوا کہ ملک کے تمام سنگین مسائل کی جڑ کرپٹ نظام انتخاب ہے۔ اس کرپٹ نظام انتخاب نے قوم کو اس کی حقیقی نمائندگی سے محروم کردیا ہے۔ عوام کے 98 فیصد غریب و متوسط طبقات سے کسی امیدوار کا منتخب ہونا عملًا ناممکن ہوچکا ہے کیونکہ موجودہ نظام انتخاب کی خامیوں کی وجہ سے انتخابی حلقہ جات پر کرپٹ، سرمایہ دار، جاگیردار، وڈیروں، مافیا، بااثر اور حکومتی امیدواروں کا کنٹرول ہوچکا ہے۔ حتی کہ کسی حلقہ میں کوئی بڑی پارٹی اپنے انتہائی دیرینہ نظریاتی ورکر کومحض اس لئے ٹکٹ نہیں دیتی کہ وہ کروڑوں روپے خرچ نہیں کرسکتا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ:
موجودہ کرپٹ اور مہنگے اِنتخابی نظام کی وجہ سے تقریباً 70 فیصد قوم انتخابات سے کلیتاً لاتعلق ہوگئی ہے اور قوم اپنے بنیادی آئینی و انسانی حقوق سے محروم ہوگئی ہے۔ لہٰذا یہ ملک و قوم کے ریاستی و مقتدر اداروں بشمول عدلیہ، قانون ساز اداروں، سیاسی پارٹیز و اراکین پارلیمنٹ، میڈیا، سیاسی جماعتوں، دانشور و وکلاء طبقات کی آئینی، قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اس انتہائی اہم قومی حساس مسئلہ کے حل پر توجہ دیں اور ملک وقوم کو موجودہ کرپٹ انتخابی نظام سے چھٹکارا دلاکر شفاف نظام انتخاب مہیا کریں۔
پاکستان عوامی تحریک اِنتخابات کے خلاف نہیں بلکہ موجودہ بدعنوان اور مہنگے اِنتخابی نظام کے خلاف ہے۔ پاکستان عوامی تحریک جمہوریت پر یقین رکھتی ہے اور جمہوری نظام کے خلاف نہیں۔ پاکستان عوامی تحریک یہ سمجھتی ہے کہ موجودہ نظام انتخاب ملک و قوم کو حقیقی جمہوریت کی طرف نہیں بلکہ تباہی کی طرف لے کر جارہا ہے۔
1۔ ملک و قوم کی نجات اسی میں ہے کہ شفاف نظام انتخاب اپنایا جائے۔ آج ملک میں سینٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خواتین و اقلیتوں کی نشستوں کی حد تک جزوی طور پر متناسب نمائندگی کا بالواسطہ نظام نافذ ہے لیکن ملک و قوم کو شفاف نظام انتخاب عطا کرنے کے لئے پورے ملک میں مکمل طور پر متناسب نمائندگی کا پارلیمانی نظام انتخاب نافذ کیا جانا ضروری ہے۔ لہذا پاکستان عوامی تحریک یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ملک میں رائج کرپٹ اور مہنگے نظام انتخاب کو تبدیل کرکے مکمل طور پر متناسب نمائندگی کا پارلیمانی انتخابی نظام نافذ کیا جائے۔
2۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ متناسب نمائندگی کے پارلیمانی انتخابی نظام کے بآسانی نفاذ کے لئے آئین کے آرٹیکل (a) (4) 51 میں ترمیم درکار ہے جبکہ انتخابات میں ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے ووٹروں کی شرائط، شناختی نظام، ووٹرز لسٹیوں، پولنگ سکیموں، بیلٹ پیپروں اور پولنگ ایجنڈوں کا موجودہ نظام برقرار رہے گا۔ البتہ عوام کو ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے قانوناً پابند کیا جانا ہوگا اور میڈیا، NGOs اور سیاسی جماعتیں ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے ترغیب کی تحریک بپا کریں گی تاکہ لوگ ووٹ کاسٹ کرنے کے عمل کو اپنا قومی وملی فریضہ سمجھیں اور اس کے لئے گھروں سے اس طرح نکلیں جیسے کہ کسی بڑے زلزلہ یا طوفان سے بچنے کے لئے نکلتے ہیں کیونکہ انتخابات میں ووٹ کاسٹ نہ کرنے یا ووٹ غلط کاسٹ کرنیکے نقصانات کسی زلزلے یا طوفان سے کم نہیں ہوتے۔
3۔ اس مجوزہ الیکشن مہم کے لئے سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ریڈیو اورسرکاری و نجی ٹی وی چینلز کے ذریعے اپنے اپنے منشور، پالیسی اور نامزد امیدواروں کی تشہیر کے لئے انٹرویوز نشر کروائے جائیں۔ اس دوران ملک کے دانشور، صحافی، سامعین و ناظرین ان سے براہ راست سوالات کرسکیں گے۔
4۔ شفاف انتخابات کے عمل کو یقینی بنانے کے لئے عدلیہ کی زیرنگرانی غیرجانبدار عبوری قومی حکومت کا قیام انتہائی لازمی ہوگا۔ چیف الیکشن کمیشن کو بہر صورت با اختیار اور غیرجانبدار ہونا چاہیے، جس کے لئے ضروری ہے چیف الیکشن کمیشنر سپریم کورٹ کا کوئی نیک نام جج ہو۔
5۔ انتظامیہ، لوکل گورنمنٹ اور الیکشن کمیشن کو عدلیہ کی مکمل نگرانی میں دینا ہوگا۔ حکومت اور لوکل گورنمنٹ کے ترقیاتی فنڈز کے استعمال پروقتی طور پر پابندی لگانا ہوگی، سیاسی جماعتیں اسمبلیوں کی نشستوں کی تعداد کے مطابق میرٹ کی بنیاد پر اپنے باصلاحیت امیدواروں کی ناموں کی فہرستیں الیکشن کمیشن کو پیشگی طور پر فراہم کریں گی جوکہ آئین کے آرٹیکل 62، 63 کے معیار پر بھی پورا اترتے ہوں گے جبکہ آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت سینٹ، خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کے بالواسطہ طریقے سے متناسب انتخاب کا موجودہ نظام برقرار رہے گا جس میں حلقہ وار امیدواروں کے انتخاب کے بجائے سیاسی جماعتوں کے درمیان انتخابی عمل کی یہ شق شامل کرنا ہوگی کہ ’’ قومی وصوبائی اسمبلی کے لئے سیاسی جماعتوں کو صوبہ بھر سے ملنے والے ووٹوں کے تناسب سے نشستیں ملیں گی جو کہ کسی سیاسی جماعت کی پیشگی فراہم کردہ فہرست سے کامیابی کے تناسب سے لئے جائیں گے۔‘‘
6۔ متناسب نمائندگی کے پالیمانی نظام کے تحت موجودہ نشستوں کی تعداد اور ان کی صوبوں کی آبادی کی بنیاد پر تقسیم کا موجودہ نظام برقرار رہے گا۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ پاکستان عوامی تحریک درج بالا حقائق کی روشنی میں اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ موجودہ نظام انتخابات ملک و قوم کے خلاف ایک گھناؤنی سازش ہے لیکن اس کے باوجود الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے عام انتخابات 2008ء کے ضابطہ اخلاق کی تشکیل پر ان کی طرف سے موصولہ خط کے جواب میں اپنی تحریری تجاویز مورخہ 2 نومبر 2007ء کو ارسال کیں، جن کو اپنانے سے اس نظام کی بہت سی خرابیوں کو دور کیا جاسکتا ہے۔ ان تجاویز کا مکمل متن حسبِ ذیل ہے:
’’پاکستان عوامی تحریک کے نقطہ نظر کے مطابق موجودہ انتخابی نظام انتہائی مہنگا اور اتنا کرپٹ ہوچکا ہے کہ عوام کے 98 فیصد غریب و متوسط طبقات سے کسی امیدوار کا منتخب ہونا ناممکن ہے۔ موجودہ انتخابی نظام کی خرابیوں کی وجہ انتخابی حلقہ جات پر کثرت سے کرپٹ، سرمایہ داروں، جاگیرداروں، وڈیروں، مافیا، بااثر اور حکومتی امیدواروں کا کنٹرول ہے لہٰذا اس صورتحال میں متناسب نمائندگی پر مبنی انتخابی پارلیمانی نظام ہی بہتر نظام انتخاب ہے جو کہ نسبتاً شفاف اور سستا ہے لیکن چونکہ آمدہ عام انتخابات 2008ء میں فوری طور پر نظام انتخاب کی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ لہذا موجودہ نظام انتخاب میں رہتے ہوئے پاکستان عوامی تحریک ممکنہ حد تک انتخابات کو شفاف، منصافانہ اور سستا بنانے کے لئے مجوزہ ضابطہ اخلاق میں درج ذیل مثبت تجاویز پیش کر رہی ہے:
پاکستان عوامی تحریک نے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں انتخابی نظام کو شفاف اور سستا بنانے کے لئے ضابطہ اخلاق کے حوالے سے مثبت تجاویز پیش کردی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنے مجوزہ ضابطہ اخلاق میں ضروری ترامیم کرکے ان اصلاحات کو ضابطہ اخلاق کا حصہ بنائے اور اسکی خلاف ورزی کو الیکشن جرم قرار دیا جائے۔‘‘
یہ اَمر قابل ذکر ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جنرل الیکشن 2008ء کا حتمی ضابطہ اخلاق جاری کرتے ہوئے پاکستان عوامی تحریک کی اس انتہائی حقیقت پسندانہ اور مؤثر تجاویز کو یکسر نظر انداز کر دیا۔
ہم نے پوری دیانتداری خلوص اور ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اپنی تجاویز، آراء اور متبادل نظام کا خاکہ پیش کر رہے ہیں۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر ملک میں جاری نظام انتخاب پر مطلوبہ تبدیلیاں نہ لائی گئیں تو سال 2008ء میں ہونے والے عام انتخابات اور ان کے نتیجے میں قائم ہونے والی مرکزی اور صوبائی حکومتیں نہایت کمزور اور غیر مؤثر ہوں گی۔
یہ سارے حالات ملک و قوم کو ایک بھیانک انجام کی طرف دھکیل دیں گے۔ لہٰذا پاکستان عوامی تحریک ایسے عمل میں کیسے شریک ہوسکتی ہے جس کے نتائج کا تصور کرتے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔
ملک و قوم کی نجات اسی میں ہے کہ سستا اور شفاف نظام انتخاب اپنایا جائے۔ آج ملک میں سینٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خواتین و اقلیتوں کی نشستوں کی حد تک جزوی طور پر اگرچہ متناسب نمائندگی کا بالواسطہ نظام بھی نافذ ہے لیکن بڑے پیمانے پر تبدیلی کے لئے اور ملک و قوم کو شفاف نظام انتخاب عطا کرنے کے لئے ملک میں مکمل طور پر متناسب نمائندگی کا پارلیمانی نظام انتخاب نافذ کیا جانا ضروری ہے۔ لہٰذا پاکستان عوامی تحریک یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ملک میں رائج کرپٹ اور مہنگے نظام انتخاب کو تبدیل کرکے مکمل طور پر متناسب نمائندگی کا پارلیمانی انتخابی نظام نافذ کیا جائے۔
لہٰذا اِس بدعنوان اور مہنگے نظامِ اِنتخاب کی وجہ سے پاکستان عوامی تحریک نے حقیقت پسندانہ اور جرات مندانہ اقدام اٹھایا ہے کہ پارٹی کی جنرل کونسل کے فیصلہ کے مطابق پاکستان عوامی تحریک عام انتخابات 2008ء سے لاتعلقی اور علیحدگی کا اِعلان کرتی ہے یعنی پاکستان عوامی تحریک بحیثیت جماعت جنرل الیکشن 2008ء میں اپنے امیدوار نامزد نہیں کرے گی۔ پاکستان عوامی تحریک کسی اِنتخابی اِتحاد کا حصہ نہیں بنے گی، اسی لئے اُس کی تنظیمات اور جملہ کارکنان کسی اُمیدوار یا پارٹی کی حمایت کے لئے اجتماعی طور پر الیکشن عمل کا حصہ نہیں بنیں گے۔
پاکستان عوامی تحریک ملک کے تمام ریاستی و مقتدر اداروں بشمول عدلیہ، پارلیمانی پارٹیز، اراکین پارلیمنٹ، الیکشن کمیشن اور نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو سے مطالبہ کرتی ہے کہ ملک کے موجودہ کرپٹ اور مہنگے نظام انتخاب کو تبدیل کرکے مکمل طور پر متناسب نمائندگی کا پارلیمانی نظام نافذ کیا جائے۔
پاکستان عوامی تحریک تمام سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، میڈیا کے نمائندگان، دانشوروں اور وکلاء، طلباء، اساتذہ، انسانی حقوق کی تنظیموں، سیاسی کارکنان اور جملہ عوام الناس سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ملک و قوم کو مسائل کی دلدل میں دھنسانے والے موجودہ نظام انتخاب سے چھٹکارا دلوانے اور متناسب نمائندگی کے سستے و شفاف پارلیمانی نظام انتخاب کے مکمل نفاذ کے لئے جدوجہد کریں۔ مزیر برآں چہرے بدلنے پر اپنی توانائیاں صرف کرنے کی بجائے نظام کی تبدیلی کے لئے پاکستان عوامی تحریک کا ساتھ دیں۔ پاکستان عوامی تحریک نظام کی تبدیلی کے لیے جمہوری اور پرامن انداز میں اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved