عن علي عليه السلام أن النبي ﷺ قال يوم غدير خم : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه.
(خود) حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے غدیر خم کے دن فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1۔ احمد بن حنبل نے ’المسند (1 : 152)‘ میں یہ روایت صحیح اسناد کے ساتھ نقل کی ہے۔
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 705، رقم : 1206
3. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 604، رقم : 1369
4. طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 448، رقم : 6878
5۔ ہیثمی نے اسے ’مجمع الزوائد (9 : 107)‘ میں نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے رجال ثقہ ہیں۔
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 161، 162، 163
7. ابن کثير، البدايه و النهايه، 4 : 171
8. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 77، 168، رقم : 32950، 36511
عن عبد الله بن بريدة الأسلمي، قال : قال النبيا : مَن کنتُ وليه فإنّ علياً وليه. و في رواية عنه : مَن کنتُ وليّه فعليّ وليّه.
عبد اللہ بن بریدہ اسلمی بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’جس کا میں ولی ہوں تحقیق اُس کا علی ولی ہے۔‘‘ اُنہی سے ایک اور روایت میں ہے (کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ) ’’جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے۔‘‘
1. حاکم، المستدرک، 2 : 129، رقم : 2589
2. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 350، 358، 361
3. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 85، 86، رقم : 77
4. عبدالرزاق، المصنف، 11 : 225، رقم : 20388
5. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 84، رقم : 12181
6۔ ابو نعیم نے ’حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء (4 : 23)‘ میں اسے مختصراً ’مَن کنتُ مولاہ فعليّ مولاہ‘ کے الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے۔
7. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 76
8۔ ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (9 : 108)‘ میں اسے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ بزار کی
بیان کردہ روایت کے رجال صحیح ہیں۔
9۔حسام الدین ہندی نے ’کنزالعمال (11 : 602، رقم : 32905)‘ میں مختصراً ’مَن کنتُ مولاہ
فعليّ مولاہ‘ کے الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے۔
10. مناوي، فيض القدير، 6 : 218
امام حاکم نے اس روایت کو شرطِ شیخین کے مطابق صحیح قرار دیا ہے، اور اس حدیث کو ابو عوانہ سے ایک دوسرے طریق سے سعد بن عبیدہ سے بھی بیان کیا ہے۔ اُنہوں نے ’المستدرک‘ میں بریدہ اسلمی سے ایک اور جگہ (3 : 110، رقم : 4578) بھی اِسی حدیث کو مختصراً بیان کیا ہے۔
متذکرہ بالا حدیث کو دوسرے مقام پر ابن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے الفاظ کے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
ما بال أقوام ينتقصون عليًّا، من ينتقص عليّاً فقد تنقصني، ومن فارق علياً فقد فارقني، إن عليّاً مني، وأنا منه، خُلق من طينتي و خُلقت من طينة إبراهيم، وأنا أفضل من إبراهيم، ذرية بعضها من بعض والله سميع عليم، . . . و إنه وليکم من بعدي، فقلت : يا رسول الله! بالصحبة ألا بسطت يدک حتي أبايعک علي الإسلام جديداً؟ قال : فما فارقته حتي بايعته علي الإسلام.
ان لوگوں کا کیا ہو گا جو علی کی شان میں گستاخی کرتے ہیں! (جان لو) جو علی کی گستاخی کرتا ہے وہ میری گستاخی کرتا ہے اور جو علی سے جدا ہوا وہ مجھ سے جدا ہوگیا۔ بیشک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں، اُس کی تخلیق میری مٹی سے ہوئی ہے اور میری تخلیق ابراہیم کی مٹی سے، اور میں ابراہیم سے افضل ہوں۔ ہم میں سے بعض بعض کی اولاد ہیں، اللہ تعالیٰ یہ ساری باتیں سننے اور جاننے والا ہے۔۔ ۔ ۔ وہ میرے بعد تم سب کا ولی ہے۔ (بریدہ بیان کرتے ہیں کہ) میں نے کہا : یا رسول اللہ! کچھ وقت عنایت فرمائیں اور اپنا ہاتھ بڑھائیں، میں تجدیدِ اسلام کی بیعت کرنا چاہتا ہوں، (اور) میں آپ ﷺ سے جدا نہ ہوا یہاں تک کہ میں نے اسلام پر (دوبارہ) بیعت کر لی۔
1. طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 49، 50، رقم : 6081
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 128
عن عَمرو بن ميمون، قال ابن عباس رضي الله عنهما : قال (رسول الله ﷺ) : من کنتُ مولاه فإنّ مولاه عليّ.
عَمرو بن میمون حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں بے شک اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 331
2۔ ابن ابی عاصم کی ’ کتاب السنہ (ص : 600، 601، رقم : 1351)‘ میں اس روایت کے الفاظ ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مَن کنتُ ولیّہ فعلی ولیہ (جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے)۔
3. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه
: 44، 46، رقم : 23
4. حاکم، المستدرک، 3 : 132 - 134، رقم : 4652
5. طبراني، المعجم الکبير، 12 : 77، 78، رقم : 12593
6. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 119، 120
7. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 174، 175
6. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي : 156 - 158
نسائی کی بیان کردہ حدیث کی اسناد صحیح ہیں۔
ہیثمی نے کہا ہے کہ اسے احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور ابو بلج فرازی کے سوا احمد کے تمام رجال صحیح ہیں، جبکہ وہ ثقہ ہے۔
حاکم کی بیان کردہ حدیث کو ذہبی نے صحیح کہا ہے۔
(قال رسول الله ﷺ : ) ألا! إن الله وليي و أنا ولي کل مؤمن، من کنتُ مولاه فعليّ مولاه.
(حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ) آگاہ رہو! بے شک اللہ میرا ولی ہے اور میں ہر مؤمن کا ولی ہوں، پس جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔
1۔ حسام الدین ہندی نے اسے ’کنزالعمال (11 : 608، رقم : 32945)‘ میں روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حدیث ابونعیم نے ’فضائل الصحابہ‘ میں زید بن ارقم اور براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے۔
2. ابن حجر عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 4 : 328
عن أبي يزيد الأودي عن أبيه، قال : دخل أبوهريرة المسجد فاجتمع إليه الناس، فقام إليه شاب، فقال : أنشدک بالله، أسمعت رسول الله ﷺ يقول : مَن کنتُ مولاه فعلي مولاه، اللهم! والِ من والاه. فقال : أشهد أن سمعتَ رسول الله ﷺ يقول : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! وال من والاه، و عاد من عاداه.
ابو یزید اودی رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک دفعہ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوئے تو لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے اردگرد جمع ہو گئے۔ اُن میں سے ایک جوان نے کھڑے ہو کر کہا : میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا آپ نے رسولِ اکرم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ؟ اِس پر انہوں نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسولِ اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو عداوت رکھ۔
1. ابو يعلي، المسند، 11 : 307، رقم : 6423
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 68، رقم : 12141
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 175
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 105، 106
5. ابن کثير، البدايه و النهايه، 4 : 174
عن أبي إسحاق، قال : سمعت سعيد بن وهب، قال : نَشَدَ عليّ رضي الله عنه الناس فقام خمسة أو ستة من أصحاب النبي ﷺ فشهدوا أنّ رسولَ الله ﷺ قال : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه.
ابو اسحاق سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن وہب کو یہ کہتے ہوئے سنا : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے قسم لی جس پر پانچ (5) یا چھ (6) صحابہ نے کھڑے ہو کر گواہی دی کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا تھا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 366
2. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 90، رقم : 83
3. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 598، 599، رقم : 1021
4. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 2 : 105، رقم : 479
5. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 131
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 160
7. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 127
8. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 104
9۔ ابن کثیر نے ’البدیہ والنہایہ (4 : 170)‘ میں لکھا ہے کہ اس حدیث کی اسناد جید ہیں۔
10. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 462
امام نسائی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
ضیاء مقدسی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
امام ہیثمی نے احمد بن حنبل کے رجال کو صحیح قرار دیا ہے۔
عن عميرة بن سعد رضي الله عنه، أنه سمع علياً رضي الله عنه و هو ينشد في الرحبة : مَن سمع رسولَ الله ﷺ يقول : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه؟ فقام ستة نفر فشهدوا.
عمیرہ بن سعد سے روایت ہے کہ اُنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کھلے میدان میں قسم دیتے ہوئے سنا کہ کس نے رسولِ اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے؟ تو (اِس پر) چھ(6) افراد نے کھڑے ہو کر گواہی دی۔
1. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه
: 89، 91، رقم : 82، 85
2. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 134، رقم : 2275
3۔ طبرانی کی ’المعجم الصغیر (1 : 64، 65)‘ میں بیان کردہ روایت میں ہے کہ گواہی دینے والے افراد بارہ (12) تھے، جن میں حضرت ابوہریرہ، ابو سعید اور انس بن مالک رضی اللہ عنھم بھی شامل تھے۔
ہيثمي نے يہ روايت ’مجمع الزوائد (9 : 108)‘ ميں نقل کي ہے۔
4. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 132
5۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 159)‘ میں جو روایت عمیرہ بن سعد لی ہے اس میں ہے کہ گواہی دینے والے افراد اٹھارہ (18) تھے۔
6. مزي، تهذيب الکمال، 22 : 397، 398
عن أبي الطفيل، عن زيد بن أرقم، قال : نَشَدَ عليّ الناس : من سمع رسول الله ﷺ يقول يوم غدير خم : ألستم تعلمون أني أولي بالمؤمنين مِن أنفسهم؟ قالوا : بلٰي، قال : فمَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه، و عادِ من عاداه. فقام أثنا عشر رجلاً فشهدوا بذلک.
ابو طفیل زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے حلفاً پوچھا کہ تم میں سے کون ہے جس نے رسول اکرم ﷺ کوغدیر خم کے دن یہ فرماتے ہوئے سنا ہو : ’’کیا تم نہیں جانتے کہ میں مؤمنوں کی جانوں سے قریب تر ہوں؟ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو بھی اُسے دوست رکھ، اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔‘‘ (سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس گفتگو پر) بارہ (12) آدمی کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے اس واقعہ کی شہادت دی۔
1. طبراني، المعجم الاوسط، 2 : 576، رقم : 1987
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 106
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 157، 158
4. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 127
5. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 157، رقم : 36485
6. شوکاني، در السحابه : 211
عن سعيد بن وهب و عن زيد بن يثيعث قال : نَشَدَ عليّ الناسَ في الرحبة مَن سمع رسولَ الله ﷺ يقول يوم غدير خم إلا قام. قال : فقام مِن قبل سعيد ستة و مِن قبل زيد ستة، فشهدوا أنهم سمعوا رسولَ الله ﷺ يقول لعلي رضي الله عنه يوم غدير خم : أليس الله أولي بالمؤمنين؟ قالوا : بلٰي. قال : اللهم! من کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه و عادِ من عاداهُ.
سعید بن وہب اور زید بن یثیعث روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھلے میدان میں لوگوں کو قسم دی کہ جس نے رسولِ اکرم ﷺ کو غدیر خم کے دن کچھ فرماتے ہوئے سنا ہو کھڑا ہو جائے۔ راوی کہتے ہیں : چھ (آدمی) سعید کی طرف سے اور چھ (6) زید کی طرف سے کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے گواہی دی کہ اُنہوں نے رسولِ اکرم ﷺ کو غدیر خم کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’کیا اللہ مؤمنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں! پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ’’اے اللہ! جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! تو اُسے دوست رکھ جو اِسے دوست رکھے اور تو اُس سے عداوت رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 118
2. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب : 90، 100، رقم : 84، 95
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 67، رقم : 12140
4. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 69، 134، رقم : 2130، 2275
5. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 65
6. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 2 : 105، 106، رقم : 480
7. ابونعيم، حلية الأولياء و طبقات الاصفياء، 5 : 26
8. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 160
9. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 107، 108
10. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 157، رقم : 36485
نسائی کی بیان کردہ دونوں روایات کی اسناد صحیح ہے۔
ہیثمی نے طبرانی کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔
عن عبد الرحمن بن أبي ليلٰي قال : شهدتُ علياً رضي الله عنه في الرحبة ينشد الناس : أنشد الله مَن سمع رسولَ الله ﷺ يقول يوم غدير خم : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه. لما قام فشهد، قال عبد الرحمن : فقام إثنا عشر بدرياً کأني أنظر إلي أحدهم، فقالوا : نشهد أنا سمعنا رسولَ الله ﷺ يقول يوم غدير خم : ألستُ أولي بالمؤمنين من أنفسهم و أزواجي أمهاتهم؟ فقلنا : بلي، يا رسول الله، قال : فمن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه، و عادِ من عاداه.
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وسیع میدان میں دیکھا، اُس وقت آپ لوگوں سے حلفاً پوچھ رہے تھے کہ جس نے رسولِ اکرم ﷺ کو غدیر خم کے دن ۔ ۔ ۔ جس کامیں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔ ۔ ۔ فرماتے ہوئے سنا ہو وہ کھڑا ہو کر گواہی دے۔ عبدالرحمن نے کہا : اس پر بارہ (12) بدری صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کھڑے ہوئے، گویا میں اُن میں سے ایک کی طرف دیکھ رہا ہوں۔ ان (بدری صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم) نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے رسولِ اکرم ﷺ کو غدیر خم کے دن یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’کیا میں مؤمنوں کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں، اور میری بیویاں اُن کی مائیں نہیں ہیں؟‘ سب نے کہا : کیوں نہیں، یا رسول اللہ! اِس پر آپ ﷺ نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولاہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 119
2. ابو يعلي، المسند، 1 : 257، رقم : 563
3. طحاوي، مشکل الآثار، 2 : 308
4. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 2 : 80، 81، رقم : 458
5. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 14 : 236
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 156، 157
7۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 161)‘ میں اسے زیاد بن ابی زیاد سے بھی
روایت کیا ہے۔
8۔ محب طبری نے بھی ’الریاض النضرہ فی مناقب العشرہ (3 : 128)‘ میں زیاد بن ابی زیاد
کی روایت نقل کی ہے۔
9. ابن اثير، اسد الغابه، 4 : 102، 103
10. ابن کثير، البدايه و النهايه، 4 : 170
11. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 461، 462
12. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 105، 106
13. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 170، رقم : 36515
14. شوکاني، در السحابه : 209
ہیثمی فرماتے ہیں کہ اسے ابو یعلیٰ نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔
حسام الدین ہندی فرماتے ہیں کہ اس روایت کو ابن جریر، سعید بن منصوراور ابن اثیر جزری نے بھی روایت کیا ہے۔
احمد بن حنبل نے یہ حدیثِ مبارکہ ’المسند(1 : 88)‘ میں زیاد بن ابی زیاد سے بھی روایت کی ہے۔ اُسے ہیثمی نے ’مجمع الزوائد(9 : 106)‘ میں نقل کیا ہے اور اُس کے رجال کو ثقہ قرار دیا ہے۔
عن عَمرو بن ذي مُرٍ و سعيد بن وهب و عن زيد بن يثيع قالوا : سمعنا علياً يقول نشدت الله رجلاً سمع رسول الله ﷺ يقول يوم غدير خم، لما قام، فقام ثلاثة عشر رجلا فشهدوا أن رسول الله ﷺ قال : ألست أولي بالمؤمنين من أنفسهم؟ قالوا : بلي، يا رسول الله! قال : فأخذ بيد علي، فقال : من کنت مولاه فهذا مولاه، اللهم! وال من والاه، و عاد من عاداه، و أحب من أحبه، و أبغض من يبغضه، و انصر من نصره، و اخذل من خذله.
عمرو بن ذی مر، سعید بن وہب اور زید بن یثیع سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں ہر اس آدمی سے حلفاً پوچھتا ہوں جس نے غدیر خم کے دن حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہو، اس پر تیرہ آدمی کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے گواہی دی کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’کیا میں مؤمنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں، یا رسول اللہ! راوی کہتا ہے : تب آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس(علی) سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، جو اِس(علی) سے محبت کرے تو اُس سے محبت کر، جو اِس(علی) سے بغض رکھے تو اُس سے بغض رکھ، جو اِس (علی) کی نصرت کرے تو اُس کی نصرت فرما اور جو اِسے رسوا (کرنے کی کوشش) کرے تو اُسے رسوا کر۔‘‘
1۔ ہیثمی نے ’مجمع الزوائد(9 : 104، 105)‘ میں اسے بزار سے روایت کیا ہے اور اس کے رجال کو صحیح قرار دیا ہے، سوائے فطر بن خلیفہ کے اور وہ ثقہ ہے۔
2. بزار، المسند، 3 : 35، رقم : 786
3. طحاوي، مشکل الآثار، 2 : 308
4. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 159، 160
5. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 158، رقم : 36487
6. ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 : 169، 5 : 462
عن زاذان بن عمر قال : سمعت علياً رضي الله عنه في الرحبة وهو ينشد الناس : من شهد رسول الله ﷺ يوم غدير خم و هو يقول ما قال، فقام ثلاثة عشر رجلاً فشهدوا أنهم سمعوا رسول الله ﷺ وهو يقول : من کنت مولاه فعليّ مولاه.
زاذان بن عمرث سے روایت ہے، آپ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مجلس میں لوگوں سے حلفاً یہ پوچھتے ہوئے سنا : کس نے رسول اکرم ﷺ کو غدیر خم کے دن کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ اس پر تیرہ (13) آدمی کھڑے ہوئے اور انہوں نے تصدیق کی کہ انہوں نے رسولِ اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 84
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 585، رقم : 991
3. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 604، رقم : 1371
4. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 69، رقم : 2131
5. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 131
6. ابو نعيم، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 5 : 26
7. ابن جوزي، صفة الصفوة، 1 : 313
8. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 107
9۔ ابنِ کثیر نے ’البدایہ و النہایہ (4 : 169)‘ میں زاذان ابی عمر سے نقل کردہ روایت میں کھڑے ہو کر گواہی دینے والے آدمیوں کی تعداد بارہ (12) لکھی ہے۔
10۔ ابن کثیر نے ’البدایہ والنہایہ (5 : 462)‘ میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے زاذان کی لی ہوئی روایت میں گواہی دینے والے افراد کی تعداد تیرہ (13) لکھی ہے۔
11. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 13 : 158، رقم : 36487
12. شوکاني، در السحابه : 211
عن عبد الرحمن بن أبي ليلٰي، قال : خطب علي رضي الله عنه فقال : أنشد الله امرء نشدة الإسلام سمع رسول الله ﷺ يوم غدير خم أخذ بيدي، يقول : ألستُ أولي بکم يا معشرَ المسلمين مِن أنفسکم؟ قالوا : بلي، يا رسول الله، قال : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه، وعادِ مَن عاداه، وانصُر مَن نصره، واخُذل مَن خذله، إلا قام فشهد، فقام بضعة عشر رجلاً فشهدوا، وکتم فما فنوا من الدنيا إلا عموا و برصوا.
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا : میں اس آدمی کو اللہ اور اسلام کی قسم دیتا ہوں، جس نے رسولِ اکرم ﷺ کو غدیر خم کے دن میرا ہاتھ پکڑے ہوئے یہ فرماتے سنا ہو : ’’اے مسلمانو! کیا میں تمہاری جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں، یا رسول اللہ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس(علی) سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، جو اِس(علی) کی مدد کرے تو اُس کی مدد فرما، جو اِس کی رسوائی چاہے تو اُسے رسوا کر؟‘‘ اس پر تیرہ (13) سے زائد افراد نے کھڑے ہو کر گواہی دی اور جن لوگوں نے یہ باتیں چھپائیں وہ دُنیا میں اندھے ہو کر یا برص کی حالت میں مر گئے۔
1. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 131، رقم : 36417
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 158
3. ابن اثیر کی ’اسد الغابہ (3 : 487)‘ میں ابو اسحاق سے لی گئی روایت میں ہے : یزید بن ودیعہ اور عبدالرحمن بن مدلج گواہی چھپانے کے سبب بیماری میں مبتلا ہوئے۔
عن الأصبغ بن نباتة، قال : نَشَدَ علي رضي الله عنه الناسَ في الرحبة : مَن سمع النبي ﷺ يوم غدير خم؟ ما قال إلا قام، ولا يقوم إلا مَن سمع رسولَ الله ﷺ يقول، فقام بضعة عشر رجلا فيهم : أبو أيوب الأنصاري، و أبو عمرة بن محصن، و أبو زينب، و سهل بن حنيف، و خزيمة بن ثابت، و عبد الله بن ثابت الأنصاري، و حُبشي بن جنادة السلولي، و عبيد بن عازب الأنصاري، و النعمان بن عجلان الأنصاري، و ثابت بن وديعة الأنصاري، و أبو فضالة الأنصاري، و عبدالرحمن بن عبد رب الأنصاريث، فقالوا : نشهد أناّ سمِعنا رسولَ الله ﷺ يقول : ألا! إنّ الله وليي وأنا ولي المؤمنين، ألا! فمَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ مَن والاه، و عادِ مَن عاداه، و أحبّ مَن أحبه، و أبغض مَن أبغضه، و أعن مَن أعانه.
اصبغ بن نباتہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھلے میدان میں لوگوں کو قسم دی کہ جس نے غدیر خم کے دن نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہو، وہ کھڑا ہو جائے۔ اس پر تیرہ(13) سے زائد افراد کھڑے ہوئے جن میں ابوایوب انصاری، ابو عمرہ بن محصن، ابو زینب، سہل بن حنیف، خزیمہ بن ثابت، عبداللہ بن ثابت انصاری، حبشی بن جنادہ سلولی، عبید بن عازب انصاری، نعمان بن عجلان انصاری، ثابت بن ودیعہ انصاری، ابوفضالہ انصاری اور عبدالرحمن بن عبد رب انصاری رضی اللہ عنھم تھے۔ ان سب نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے رسولِ اکرم ﷺ سے سنا : لوگو! آگاہ رہو! اللہ میرا ولی ہے اور میں مؤمنین کا ولی ہوں، خبردار! (آگاہ رہو!) جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، جو اِس سے محبت کرے تو اُس سے محبت کر، جو اِس سے بغض رکھے تو اُس سے بغض رکھ اور جو اِس کی مدد کرے تو اُس کی مدد فرما۔
1. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 3 : 465
2. طحاوي، مشکل الآثار، 2 : 308
3۔ ابن اثیر نے ’اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ (2 : 362)‘ میں یعلیٰ بن مرہ سے ایک روایت بیان کی ہے جس میں گواہان میں یزید یا زید بن شراحیل کا بھی ذکر ہے، جبکہ یعلیٰ بن مرہ سے ہی بیان کردہ ایک اور روایت (3 : 137) میں عامر بن لیلیٰ کا ذکر ہے، ایک اور مقام (5 : 282) پر گواہان میں ناجیہ بن عمرو کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
عن زيد بن أرقم، قال استشهد علي الناس، فقال : أنشد الله رجلا سمع النبي ﷺ يقول : اللهم! من کنتُ مولاه، فعلي مولاه، اللهم! والِ من والاه، و عادِ من عاداه، قال : فقام ستة عشر رجلاً، فشهدوا.
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے گواہی طلب کرتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں قسم دیتا ہوں جس نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’اے اللہ! جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! تو اُسے دوست رکھ جو اِسے دوست رکھے اور تو اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘ پس اس (موقع) پر سولہ (16) آدمیوں نے کھڑے ہو کر گواہی دی۔
1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 370
2. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 171، رقم : 4985
3. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي : 125، 126
4. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 127
5. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 461
6. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 106
ہیثمی نے کہا ہے کہ جنہوں نے اس واقعہ کو چھپایا اُن کی بصارت چلی گئی۔
عن عمير بن سعد أن عليا جمع الناس في الرحبة و أنا شاهد، فقال : أنشد الله رجلا سمع رسول الله ﷺ يقول : من کنت مولاه فعلي مولاه، فقام ثمانية عشر رجلا فشهدوا أنهم سمعوا نبي ﷺ يقول : ذالک.
عمیر بن سعد سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کھلے میدان میں یہ قسم دیتے ہوئے سنا کہ کس نے رسولِ اکرم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جس کا میں مولیٰ ہوں اُس کا علی مولا ہے؟ تو اٹھارہ (18) افراد نے کھڑے ہو کر گواہی دی۔
1۔ ہیثمی نے ’مجمع الزوائد(9 : 108)‘ میں یہ حدیث بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اُس کی اسناد حسن ہیں۔
2۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 158)‘ میں عمیر بن سعید رضی اللہ عنہ سے یہ روایت لی ہے جبکہ عمیر بن سعد رضي اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ گواہی دینے والے افراد بارہ (12) تھے۔
3۔ ابن کثیر نے ’البدایہ والنہایہ (4 : 171، 5 : 461)‘ میں عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ سے جو روایت لی ہے اس میں ہے کہ گواہی دینے والے بارہ (12) آدمی تھے جن میں حضرت ابوہریرہ، ابوسعد اور انس بن مالک رضی اللہ عنھم بھی شامل تھے۔
4. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 154، 155، رقم : 36480
5. شوکاني، در السحابه : 211
عن أبي الطفيل، قال : جمع علي رضي الله عنه الناس في الرحبة، ثم قال لهم : أنشد الله کل امرئ مسلم سمع رسول الله ﷺ يقول يوم غدير خم ما سمع لما قام، فقام ثلاثون من الناس، و قال أبو نعيم : فقام ناس کثير فشهدوا حين أخذه بيده، فقال للناس : أتعلمون أني أولي بالمؤمنين من أنفسهم؟ قالوا : نعم، يا رسول الله! قال : من کنت مولاه فهذا مولاه، اللهم! والِ من والاه و عاد من عاداه، قال فخرجتُ و کأنّ في نفسي شياً فلقيتُ زيد بن أرقم فقلتُ له : إني سمعتُ عليا رضي الله عنه يقول کذا و کذا، قال فما تنکر قد سمعت رسول الله ﷺ يقول ذلک له.
ابوطفیل سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ایک کھلی جگہ (رحبہ) میں جمع کیا، پھر اُن سے فرمایا : میں ہر مسلمان کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ جس نے رسولِ اکرم ﷺ کو غدیرخم کے دن (میرے متعلق) کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے وہ کھڑا ہو جائے۔ اس پر تیس (30) افراد کھڑے ہوئے جبکہ ابونعیم نے کہا کہ کثیر افراد کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے گواہی دی کہ (ہمیں وہ وقت یاد ہے) جب رسولِ اکرم ﷺ نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر لوگوں سے فرمایا : ’’کیا تمہیں اس کا علم ہے کہ میں مؤمنین کی جانوں سے قریب تر ہوں؟‘‘ سب نے کہا : ہاں، یا رسول اللہ! پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا یہ (علی) مولا ہے، اے اللہ! تو اُسے دوست رکھ جو اِسے دوست رکھے اور تو اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ جب میں وہاں سے نکلا تو میرے دل میں کچھ شک تھا۔ اسی دوران میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے ملا اور اُنہیں کہا کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس طرح فرماتے ہوئے سنا ہے۔ (اس پر) زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے کہا : تو کیسے انکار کرتا ہے جبکہ میں نے خود رسولِ اکرم ﷺ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ایسا ہی فرماتے ہوئے سنا ہے؟
1۔ احمد بن حنبل نے ’المسند (4 : 370)‘ میں اسے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 682، رقم : 1167
3. بزار، المسند، 2 : 133
4۔ ابن حبان کی ’الصحیح (15 : 376، رقم : 6931)‘ میں بیان کردہ روایت کی اسناد صحیح اور رجال ثقہ ہیں۔
5. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 603، رقم : 1366
6۔ حاکم نے ’المستدرک (3 : 109، رقم : 4576)‘ میں اسے شیخین کی شرط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے۔
7. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 : 134
8۔ یہ حدیث مختصر الفاظ سے طبرانی نے ’المعجم الکبیر (5 : 195، رقم : 5071)‘ میں روایت کی ہے۔
9. محب طبري، الرياض النضرة في مناقب العشره، 3 : 127
10. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 156
11. ابن اثیر نے ’اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ (6 : 246)‘ میں گواہی دینے والے افراد
کی تعداد سترہ (17) ذکر کی ہے۔
12. ابن کثیر نے ’البدایہ والنہایہ (4 : 171)‘ میں لکھا ہے کہ رحبہ سے مراد کوفہ کی
مسجد کی کھلی جگہ ہے۔
13. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 460، 461
14. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 104
15. ابومحاسن، المعتصرمن المختصرمن مشکل الآثار، 2 : 301
16۔ ہیتمی نے ’الصواعق المحرقہ (ص : 122)‘ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث حضور نبی اکرم ﷺ سے تیس صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے روایت کی ہے اور اس کے طرق کی کثیر تعداد صحیح یا حسن کے ذیل میں آتی ہے۔
17. شوکاني، در السحابه : 209
عن رياح بن الحرث قال : جاء رهط إلي علي رضي الله عنه بالرحبة فقالوا : السلام عليک يا مولانا! قال : کيف أکون مولاکم وأنتم قوم عرب؟ قالوا : سمعنا رسول الله ﷺ يوم غدير خم يقول : من کنتُ مولاه فإن هذا مولاه، قال رياح : فلما مضوا تبعتهم فسألت من هؤلاء؟ قالوا : نفر من الأنصار فيهم أبو أيوب الأنصاري.
ریاح بن حرث سے روایت ہے کہ ایک وفد نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور کہا : اے ہمارے مولا! آپ پر سلامتی ہو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا : میں کیسے آپ کا مولا ہوں حالانکہ آپ تو قومِ عرب ہیں (کسی کو جلدی قائد نہیں مانتے)۔ اُنہوں نے کہا : ہم نے رسول اللہ ﷺ سے غدیر خم کے دن سنا ہے : ’’جس کا میں مولا ہوں بے شک اُس کا یہ (علی) مولا ہے۔‘‘ حضرت ریاح رضی اللہ عنہ نے کہا : جب وہ لوگ چلے گئے تو میں نے ان سے جا کر پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ انصار کا ایک وفد ہے، اُن میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔
1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 419
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 572، رقم : 967
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 60، رقم : 12122
4. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 173، 174، رقم : 4052، 4053
5. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 103، 104
6. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 2 : 169
7. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 126
8۔ ابن عساکر نے یہ روایت ’تاریخ دمشق الکبیر‘ میں زیاد بن حارث (45 : 161)، حسن بن حارث (45 : 162) اور ریاح بن حارث (45 : 163) سے لی ہے۔
9۔ ابن اثیر نے ’اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ (1 : 672)‘ میں زِر بن حبیش سے روایت کیا ہے کہ بارہ صحابہ کرام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا مولا تسلیم کیا، جن میں قیس بن ثابت، ہشام بن عتبہ اور حبیب بن بدیل رضی اللہ عنھم شامل تھے۔
10. ابن کثير، البدايه و النهايه، 4 : 172
11. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 462
ہیثمی نے اس روایت کے رجال کو ثقہ قرار دیا ہے۔
عن عمر رضي الله عنه : و قد نازعه رجل في مسألة، فقال : بيني و بينک هذا الجالس، و أشار إلي عليّ بن أبي طالب رضي الله عنه ، فقال الرجل : هذا الأبطن! فنهض عمر رضي الله عنه عن مجلسه و أخذ بتلبيبه حتي شاله من الأرض، ثم قال : أتدري من صغرت، مولاى و مولى کل مسلم!
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے آپ کے ساتھ کسی مسئلے میں جھگڑا کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے اور تیرے درمیان یہ بیٹھا ہوا آدمی فیصلہ کرے گا ۔ ۔ ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا ۔ ۔ ۔ تو اس آدمی نے کہا : یہ بڑے پیٹ والا (ہمارے درمیان فیصلہ کرے گا)! حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی جگہ سے اٹھے، اسے گریبان سے پکڑا یہاں تک کہ اسے زمین سے اوپر اٹھا لیا، پھر فرمایا : کیا تو جانتا ہے کہ تو جسے حقیر گردانتا ہے وہ میرے اور ہر مسلمان کے مولیٰ ہیں۔
محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 128
محب طبری نے کہا ہے کہ ابن سمان نے اس کی تخریج کی ہے۔
و عن عمر رضي الله عنه و قد جاء ه أعرابيان يختصمان، فقال لعلي رضي الله عنه : إقض بينهما يا أبا الحسن! فقضي علي رضي الله عنه بينهما، فقال أحدهما : هذا يقضي بيننا! فَوَثَبَ إليه عمر رضي الله عنه و أخذ بتلبيبه، و قال : ويحک! ما تدري من هذا؟ هذا مولاى و مولى کل مؤمنٍ، و من لم يکن مولاه فليس بمؤمن.
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس دو بدّو جھگڑا کرتے ہوئے آئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے ابوالحسن! ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرما دیں۔ پس آپ رضی اللہ عنہ نے اُن کے درمیان فیصلہ کر دیا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ (کیا) یہی ہمارے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے رہ گیا ہے؟ (اس پر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کی طرف بڑھے اور اس کا گریبان پکڑ کر فرمایا : تو ہلاک ہو! کیا تو جانتا ہے کہ یہ کون ہیں؟ یہ میرے اور ہر مؤمن کے مولا ہیں (اور) جو اِن کواپنا مولا نہ مانے وہ مؤمن نہیں۔
1۔ محب طبری نے یہ روایت ’ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی (ص : 126)‘ میں بیان کی ہے اور کہا ہے کہ اسے ابن سمان نے اپنی کتاب ’الموافقہ‘ میں ذکر کیا ہے۔
2. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 128
عن عمر أنه قال : عليّ مولى من کان رسول الله ﷺ مولاه.
عن سالم قيل لعمر : إنک تصنع بعليّ شيئا ما تصنعه بأحد من أصحاب رسول الله ﷺ، قال : إنه مولاى.
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ جس کے مولا ہیں علی رضی اللہ عنہ اس کے مولا ہیں۔
حضرت سالم سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایسا (امتیازی) برتاؤ کرتے ہیں جو آپ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے (عموماً) نہیں کرتے! (اس پر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (جواباً) فرمایا : وہ (علی) تو میرے مولا (آقا) ہیں۔
1. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 128
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 178
عن يزيد بن عمر بن مورق قال : کنت بالشام و عمر بن عبد العزيز يعطي الناس، فتقدمتُ إليه فقال لي : ممن أنتَ؟ قلت : مِن قريش، قال : مِن أي قريش؟ قلتُ : مِن بني هاشم، قال : مِن أي بني هاشم؟ قال : فسکتُ. فقال : مِن أي بني هاشم؟ قلتُ : مولى عليّ، قال : مَن عليّ؟ فسکتُ، قال : فوضع يده علي صدري و قال : و أنا و اللهِ مولى عليّ بن أبي طالب عليه السلام، ثم قال : حدثني عدة أنّهم سمعوا النبي ﷺ يقول : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، ثم قال : يا مزاحم! کم تعطي أمثاله؟ قال : مائة أو مائتي درهم، قال : إعطه خمسين ديناراً، وقال ابن أبي داؤد : ستين ديناراً لولايته عليّ بن أبي طالب رضي الله عنه ، ثم قال : ألحق ببلدک فسيأتيک مثل ما يأتي نظراءک.
یزید بن عمر بن مورق روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر میں شام میں تھا جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ لوگوں کو نواز رہے تھے۔ پس میں ان کے پاس آیا، اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کس قبیلے سے ہیں؟ میں نے کہا : قریش سے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ قریش کی کس (شاخ) سے ؟ میں نے کہا : بنی ہاشم سے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ بنی ہاشم کے کس (خاندان) سے؟ راوی کہتے ہیں کہ میں خاموش رہا۔ اُنہوں نے (پھر) پوچھا کہ بنی ہاشم کے کس (خاندان) سے؟ میں نے کہا : مولا علی (کے خاندان سے)۔ اُنہوں نے پوچھا کہ علی کون ہے؟ میں خاموش رہا۔ راوی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا اور کہا : ’’بخدا! میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا غلام ہوں۔‘‘ اور پھر کہا کہ مجھے بے شمار لوگوں نے بیان کیا ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ پھر مزاحم سے پوچھا کہ اِس قبیل کے لوگوں کو کتنا دے رہے ہو؟ تو اُس نے جواب دیا : سو (100) یا دو سو (200) درہم۔ اِس پر اُنہوں نے کہا : ’’علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی قرابت کی وجہ سے اُسے پچاس (50) دینار دے دو، اور ابنِ ابی داؤد کی روایت کے مطابق ساٹھ (60) دینار دینے کی ہدایت کی، اور (اُن سے مخاطب ہو کر) فرمایا : آپ اپنے شہر تشریف لے جائیں، آپ کے پاس آپ کے قبیل کے لوگوں کے برابر حصہ پہنچ جائے گا۔
1. ابو نعيم، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 5 : 364
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 48 : 233
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 69 : 127
4. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 6 : 427، 428
عن الزهري قال : سمعت أباجنيدة جندع بن عَمرو بن مازن، قال : سمعت النبيا يقول : من کذب عليّ متعمداً فليتبوأ مقعده من النار، و سمعته و إلا صُمَّتا، يقول. و قد انصرف من حجة الوداع فلما نزل غدير خُمّ قام في الناس خطيباً وأخذ بيد علي رضي الله عنه، و قال : من کنت وليه فهذا وليه، اللهم! وال من والاه، وعاد من عاداه. قال عبيد الله : فقلت للزهري : لا تحدّث بهذا بالشام، وأنت تسمع ملء أذنيک سب علي رضي الله عنه، فقال : و الله! إن عندي من فضائل علي رضي الله عنه ما لو تحدثت بها لقُتلتُ.
زہری سے روایت ہے کہ ابوجنیدہ جندع بن عمرو بن مازن نے کہا : میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔ (اور یہ فرمان) میں نے خود سنا ہے ورنہ میرے دونوں کان بہرے ہو جائیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ حجۃ الوداع سے واپس لوٹے اور غدیر خم کے مقام پر پہنچے، لوگوں کو خطاب فرمایا۔ آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھام کر فرمایا : جس کا میں ولی ہوں یہ (علی) اُس کا ولی ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔ عبیداللہ نے کہا : میں نے زہری سے کہا : ایسی باتیں ملک شام میں بیان نہ کرنا ورنہ تو وہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت میں اتنی باتیں سنے گا کہ تیرے کان بھر جائیں گے۔ (اس کے جواب میں) اِمام زہری نے فرمایا : خدا کی قسم! حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اِتنے فضائل میرے پاس محفوظ ہیں کہ اگر میں اُنہیں بیان کروں تو مجھے قتل کر دیا جائے۔
ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 1 : 572، 573
عن عَمرو بن العاص رضي الله عنه، قال : سئله رجلٌ عن عليّ رضي الله عنه، قال : يا عَمرو! إنّ أشياخنا سمعوا رسولَ اللهِ ﷺ يقول : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، فحق ذلک أم باطل؟ فقال عمرو : حق و أنا أزيدک : إنه ليس أحد من صحابة رسول الله ﷺ له مناقب مثل مناقب عليّ.
حضرت عَمرو بن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُن سے کسی شخص نے پوچھا : اے عمرو! ہمارے بزرگوں نے رسولِ اکرم ﷺ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ یہ بات درُست ہے یا غلط؟ عمرو نے کہا : درست ہے، اور میں آپ کو مزید بتاؤں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم میں سے کسی کے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے مناقب نہیں ہیں۔
ابن قتيبه دينوري، الامامه والسياسه، 1 : 113
عن علي رضي الله عنه قال : عمّمني رسولُ الله ﷺ يوم غدير خم بعمامة سدلها خلفي، ثم قال : إن الله عزوجل أمدني يوم بدر و حنين بملائکة يعتمون هذه العمة، فقال : إنّ العمامةَ حاجزةٌ بين الکفر و الإيمان.
(خود) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے غدیر خم کے دن ایسے عمامے سے میری دستار بندی کروائی اس کا شملہ پیچھے لٹکا دیا پھر فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے بدر و حنین میں (جن) فرشتوں کے ذریعے میری مدد کی، اُنہوں نے اِسی ہیئت کے عمامے باندھ رکھے تھے۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ’’بیشک عمامہ کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والا ہے۔‘‘
1. طيالسي، المسند : 23، رقم : 154
2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 10 : 14
3. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 15 : 306، 482، رقم : 41141، 41909
حسام الدین ہندی نے کہا ہے کہ اِس حدیث کو طیالسی کے علاوہ بیہقی، طبرانی، ابن ابی شیبہ اور ابن منیع نے بھی روایت کیا ہے۔ حسام الدین ہندی نے ’انّ العمامۃَ حاجزۃٌ بین المسلمین و المشرکین‘ کے الفاظ کا اِضافہ کیا ہے۔
عبدالاعلیٰ بن عدی سے بھی یہ روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے غدیر خم کے دن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بلایا اور اُن کی دستاربندی فرمائی اور دستار کا شملہ پیچھے لٹکا دیا۔ یہ حدیث درج ذیل کتب میں ہے :
1. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 3 : 170
2. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 194
3. زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 6 : 272
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved