بعض مزارات کے قریب بیری وغیرہ کے درخت ہوتے ہیں جن کے نیچے لوگ چادریں بچھا کر بیٹھتے ہیں۔ اگر بیر گرے تو اُس کا احترام بجا لاتے ہیں اور اُس سے روزہ افطار کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ بیری کے پھل سے بیٹے کی فال نکالتے ہیں اور اگر پتے گریں تو بیٹیوں کی فال نکالتے ہیں۔ کوئی شخص خود بیر توڑ لے تو اُسے بھی سخت برا گردانتے ہیں۔ یہ تمام اُمور توہم پرستی کو فروغ دینے والے ہیں اور ایسے تمام اُمور بے بنیاد ہیں اور شرعاً ان کی کوئی اصل نہیں لہٰذا علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو حقائق سے آگاہ کریں۔
اسی طرح قبر بلامقبور کی زیارت کرنے کی کوئی اصل نہیں ہے۔ بعض جہلاء فرضی مزارات بنا کر اس کے ساتھ اصل کا سا معاملہ کرتے ہیں جس کی فقہائے کرام نے اجازت نہیں دی۔ جس طرح کہ بعض جگہ لوگوں نے حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلا نی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے مزارات وغیرہ بنائے ہوئے ہیں جن پر عرس کرتے ہیں۔ محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے اس سلسلے میں پوچھا گیا کہ ’’پیرانِ پیر رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے بعض جگہ مزار بنا لیا گیا ہے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اِن کے مزار کی اینٹ دفن ہے۔ اِس مزار میں ایسی جگہ جا کر عرس کرنا، چادر چڑھانا کیسا ہے وہ قابلِ تعظیم ہے یا نہیں؟‘‘ آپ نے جواب دیا : ’’جھوٹا مزار بنانا اور اُس کی تعظیم جائز نہیں۔‘‘
فتاویٰ رضويه، 4 : 116
اِسی طرح بعض اولیاء اللہ کے مزارات کے قریب ایسے درخت ہوتے ہیں جن کے بارے میں لوگوں میں مشہور ہوتا ہے کہ اِن کے کاٹنے سے صاحبانِ مزار ناراض ہو جاتے ہیں لہٰذا اِنہیں کاٹنا مقاماتِ حرم کی طرح حرام ہے۔ یہ سراسر جہالت ہے اور یہ بھی شرک فی التحریم ہے۔ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ درست اور غلط عقیدے میں امتیاز پیدا کریں اور ایسے شرکیہ عقائد سے عوام و خواص کو منع کریں۔
مردوں کا سر پر کسی بھی بزرگ کے نام پر چوٹی رکھنا اور پھر کٹوانے کی نذر و منت ماننا شرعاً جائز نہیں۔ اعلیٰ حضرت محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے نہایت عمدہ لکھا ہے۔ آپ سے پوچھا گیا کہ کیا مرد کو چوٹی رکھنا جائز ہے یا نہیں؟ بعض فقیر چوٹی رکھتے ہیں؟
آپ نے فرمایا کہ حرام ہے، حدیث میں آیا ہے :
أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم لَعَنَ الْمُتَشَبِّهِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ وَالْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ. [ابن ماجة، السنن، کتاب النکاح، باب فی المخنثين، 1 : 614، رقم : 1904].
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت رکھیں اور ایسی عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت پیدا کریں، لعنت کی ہے۔‘‘
احمد رضا خان، الملفوظ، 2 : 210
بچوں کے سر پر اولیاء کے نام کی چوٹی رکھنے کے متعلق حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں : ’’بعض جاہل عورتوں میں دستور ہے کہ بچے کے سر پر بعض اولیائے کرام کے نام کی چوٹی رکھتی ہیں اور اِس کی کچھ میعاد مقرر کرتی ہیں۔ اِس میعاد تک کتنی ہی بار بچے کا سر منڈے وہ چوٹی برقرار رکھتی ہیں، پھر میعاد گذار کر مزار پر لے جا کر وہ بال اُتارتی ہیں تو یہ محض بے اصل و بدعت ہے۔‘‘
فتاوي افريقه : 68
کئی دیہاتوں میں بعض جہلاء درختوں کے ساتھ عجیب و غریب داستانیں وضع کئے ہوئے ہیں اور فرضی قصے کہانیاں سنا کر مجاور لوگ لنگر کے لئے تحائف و ہدایا اکٹھے کرتے ہیں۔ اِن سے متعلق محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے مسئلہ پوچھا گیا : ’’کیا فرماتے ہیں علمائے اہلسنت اِس صورت میں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں درخت پر شہید مرد ہیں اور فلاں طاق میں شہید مرد رہتے ہیں اور اُس درخت اور اُس طاق کے پاس جا کر ہر جمعرات کو فاتحہ، شیرینی اور چاول وغیرہ دلاتے ہیں، ہار لٹکاتے ہیں، لوبان سلگاتے ہیں، مرادیں مانگتے ہیں اور ایسا دستور اِس شہر میں بہت جگہ واقع ہے، کیا شہید مردان درختوں اور طاقوں میں رہتے ہیں اور یہ اشخاص حق پر ہیں یا باطل؟‘‘ محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے منع کرتے ہوئے جواب دیا : ’’یہ سب واہیات و خرافات اور جاہلانہ حماقات و بطالات ہیں اِن کا ازالہ لازم ہے۔ ما أنزل اﷲ بها من سلطان ولاحول ولا قوة إلا باﷲ العلي العظيم.‘‘
احمد رضا خان، احکام شريعت، 1 : 32
شرعی حلف اللہ تعالیٰ کے نام کا ہوتا ہے تاہم فقہائے اُمت کے نزدیک کلام اللہ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر بھی حلف منعقد ہوجاتا ہے اور مستقبل میں کسی اَمر کے کرنے یا نہ کرنے پر قسم کھانا اور پھر توڑ دینے کی صورت میں کفّارہ لازم ہو جاتا ہے۔ اِس کے علاوہ اگر کوئی شخص کسی اور کے نام کا حلف اُٹھائے اور یہ عقیدہ رکھے کہ اِس کی حرمت اور حیثیت اُسی طرح ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی یا کلام اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلف کی، تو یہ عقیدہ اصلاح طلب ہے کیونکہ اعتقاداً کسی اور کے نام پر قسم کی حرمت کو اللہ تعالیٰ کی قسم کی مثل جاننا شرک ہے۔ اگر کوئی شخص بوجہ جہالت یا سہواً کسی اور کی قسم اُٹھائے تو وہ شرعی حلف نہیں ہوگا اِس لئے اِس پر کفّارہ لازم نہیں۔
نذر و نیاز برائے ایصالِ ثواب اور گیارہویں شریف وغیرہ جیسے مباح مستحب اور مستحسن اُمور کے بارے میں بعض علاقوں میں بہت سی چیزیں بوجہ جہالت رواج پا گئی ہیں جو ازروئے شرع جائز نہیں مثلاً کوئی یہ کہے کہ اگر اُس نے گیارہویں کا دودھ نہ دیا تو اِس کی وجہ سے بھینس یا گائے مر جائے گی، وہ بیمار ہو جائے گی یا رزق کم ہو جائے گا، اولاد کی موت واقع ہو جائے گی، گھر میں نقصان ہو جائے گا۔ اِسی طرح کاروبار اور کھیتی میں بزرگوں کا حصہ یعنی زکوٰۃ اور عشر شرعی وغیرہ سے الگ بزرگوں کی سالانہ شیرینی جو عوام میں مروج ہے یہ شرعاً دینا تو جائز ہے لیکن نہ دینے پر توہم پرستی کو فروغ دینا جائز نہیں ہے۔ یہ تمام باتیں بوجہ جہالت فروغ پا جاتی ہیں اور پھر لوگ اِن کے ساتھ نفع و نقصان کا عقیدہ وابستہ کر لیتے ہیں جو کہ شرک فی العبادت ہے لہٰذا اِن اُمور سے بچنا ضروری ہے۔
ائمہ اہلِ بیت اطہار کے لئے نیاز برائے ایصالِ ثواب مسلمانوں کا معمول ہے۔ اس عمل میں بھی بعض حالتوں میں افراط و تفریط کا عنصر موجود ہے۔ اس مستحب عمل کو بجا لانے والے اگر نذر کی طرح فرض اور واجب سمجھ کر اسے ادا کریں تو یہ بھی احکامِ شریعت سے انحراف ہے۔ اسی طرح اس کے رد عمل میں بعض لوگ اس مستحب عمل کو قطعی حرام اور شرک کے زمرے میں شامل کرکے ختمِ نیاز وغیرہ کا اہتمام کرنے والوں کو مشرک ٹھہراتے ہیں حالانکہ یہ عمل مستحب ہے اس میں حرمت اور شرک کی کوئی علت موجود نہیں ہوتی۔ ایسی نذر و نیاز کے ساتھ بعض لوگ اپنی طرف سے طرح طرح کی شرائط و حدود اور پابندیاں عائد کرتے ہیں مثلاً فلاں شخص کھا سکتا ہے، فلاں عورت نہیں کھا سکتی، گھر سے باہر لے جانا منع ہے وغیرہ وغیرہ۔ اِسی طرح اولیاء اللہ کے نام جانوروں کو منسوب کر کے اُن کا احترام بجا لانا، اُن سے کوئی کام لینا شرعاً حرام سمجھنا اور اُن کی بے حرمتی کو بھی حرام سمجھنا ایسا عقیدہ شرک فی التحریم میں شمار ہوتا ہے لہٰذا عوام پر ایسی باریکیاں واضح کر دینی چاہئیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved