ہمارے پاکستانی معاشرے کے کئی علمی و فکری شعبوں میں زوال کی طرح بین المذاہب مکالمہ بھی تحقیق و جستجو سے محروم رہا ہے۔ اس میدان میں اب تحقیق کی جگہ اندھا دھند تقلید نے لے لی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اکثر و بیشتر مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے علماء کی تحقیق غلط فہمیوں کے ازالہ کی بجائے بذاتِ خود غلط فہمیاں پیدا کر رہی ہے۔ روایتی مناظراتی سوچ رکھنے والے مبلغین کا طرزِ تبلیغ سامعین میں افہام و تفہیم اور رواداری پیدا کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف نفرت و تعصب پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ بعض مخصوص حالات میں اسلام مخالف اور متعصبانہ رویوں کا خاتمہ کرنے کے لیے جارحانہ طرزِ تبلیغ درست مگر اسے قرآن و سنت کا پسندیدہ طرزِ تبلیغ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ قرآن ہمیں {اُدْعُ اِلٰی سَبِيْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ} ’(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجیے جو نہایت حسین ہو‘(1) کی تاکید کرتا ہے۔
بین المذاہب رواداری کے فروغ کے تناظر میں آج اگر ہم اسلام اورمسیحیت کے مابین مناظرہ و مکالمہ پر نگاہ دوڑائیں تو ہمیں دونوں اطراف میں شدت نظر آتی ہے۔ نتیجتاً اس طرز عمل سے انسانیت محبت و امن کے بجائے نفرت و تعصب کی بھینٹ چڑھ رہی ہے۔
بین المذاہب مکالمہ کی بات کریں تو آج ہمارا طرزِ تحریر، دلائل کی نوعیت، موضوعات کا بار بار تکرار واضح کر رہا ہے کہ ہم آج بھی ذہنی سطح پر 1857ء کے دورِ مناظرات سے نہیں نکل سکے۔ جنگِ عظیم اول و دوم، تحریکِ آزادیِ ہند اور پھر تحریکِ پاکستان جیسی مصروفیات نے مسلم علماء کی مصروفیات کو مطا لعہ اسلام اور مسیحیت کے دائرے سے باہر نکال دیا اور یوں اسلام اور مسیحیت کے میدان میں 1857ء کے علماء کی ہی چھوڑی ہوئی تصانیف ہی معیاری تصور کی جانے لگیں اور بعد میں کی جانے والی ہر تحقیق کی بنیاد کسی نہ کسی طرح انہی تصانیف پر ہے۔
سوچنے کی بات اب یہ ہے کہ اِس وقت ہم پر کوئی ایسٹ انڈیا کمپنی کی سیاسی حکومت مسلط نہیں ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے اب ہم ایک آزاد مملکت میں سانس لے رہے ہیں اور اپنی تقدیر و تدبیر کے خود مالک ہیں۔ لہٰذا اب وہ کونسی ضرورت اور مجبوری ہے کہ جس کی وجہ سے ہم موجودہ ماحول میں رہنے کی بجائے 1857ء کے مناظراتی ماحول میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں؟
آیئے سب سے پہلے 1857ء کے اسلام اور عیسائیت کے مابین مناظراتی ماحول کا جائزہ لیں تاکہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ بدقسمتی سے ہم آج بھی اسی ماحول میں رہ رہے ہیں۔ نیز اس ماحول میں قرآن و سنت کی روشنی میں عملی تبدیلی کے لیے شیخ الاسلام کی کاوشوں سے کماحقہ آگاہی اس تاریخی پس منظر کو جاننے سے ہی ممکن ہوگی۔
1857ء کے زمانہ میں برطانوی دورِ حکومت میں حکومتی عہدے داروں نے یہ ضرورت محسوس کی کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہندوستان کی عوام الناس پر سیاسی فتح کے ساتھ ساتھ ان کو مذہبی سطح پر بھی فتح کیا جائے۔ چنانچہ ایسے پادریوں کو بیرون ممالک سے نہ صرف بلایا گیا بلکہ خصوصی حوصلہ افزائی بھی کی گئی جو خاص طورپر اسلام دشمنی میں اپنا کوئی ثانی نہ رکھتے تھے۔ بعد ازاں حکومتِ وقت کی سیاسی اورمعاشی سرپرستی ان کے غرور و تکبر میں مزید اضافے کا باعث بنی۔ ہندوستان میں پہلے سے موجود مسیحی فلاحی اداروں اور مبلغین نے اس سازش کو بھانپ لیا اور سمجھ گئے کہ حکومت کے اس عمل سے صدیوں سے مل جُل کر باہمی بھائی چارے کی فضا میں رہنے والے مسیحی مسلم افراد میں نفرت پیدا ہو جائے گی۔ لہٰذا انہوں نے مل جُل کر بیرون ممالک سے خصوصی طور پر درآمد کیے جانے والے پادری حضرات کی غیر اَخلاقی طرزِ تبلیغ، شعائر اسلام اور بانی اسلام کی ذات پر رکیک حملوں کی مذمت کی اور اس طرزِ تبلیغ کو مسیحی تعلیمات کے خلاف جانا۔ مگر جب کسی سازش کو حکومتِ وقت کی ہر طرح سے سرپرستی حاصل ہو تو پھر حق کی آواز وقتی طور پر دب بھی جاتی ہے۔
برطانوی حکومت کی ہندوستان کے باسیوں کو سیاسی اثر و رسوخ کے زیر اثر مسیحی کرنے کی یہ سازش نہ صرف مسلمان سمجھ چکے تھے بلکہ امن پسند مسیحی بھی اس صورتِ حال سے اس لیے پریشان تھے کہ یہ پادری حضرات مسیحیت کی بدنامی کا سبب بن رہے تھے۔ ایسے درد مند اور امن پسند مسیحی مُبلغین کسی بھی طرح مسیحیت کی تبلیغ کی بنیاد شعائر اسلام اور بانی اسلام کی توہین پر رکھنے کے لیے ہر گز تیار نہ تھے۔ وہ تیار بھی کیسے ہوتے جبکہ یہ طریقہِ تبلیغ خود یسوع مسیح علیہ السلام کی تعلیماتِ محبت اور بُردباری کے خلاف تھا۔ چنانچہ پولس رسول ایک آئیڈیل مبلغ کی تصویر یوں کھینچتے ہیں:
لیکن بیوقوفی اور نادانی کی حجتوں سے کنارہ کر کیونکہ تُو جانتا ہے کہ اِن سے جھگڑے پیدا ہوتے ہیں۔ اور مناسب نہیں کہ خداوند کا بندہ جھگڑا کرے بلکہ سب کے ساتھ نرمی کرے اور تعلیم دینے کے لائق اور ُبردباد ہو۔ اور مخالفوں کو حلیمی سے تادیب کرے۔ شاید خُدا اُنہیں توبہ کی توفیق بخشے تاکہ وہ حق کو پہچانیں۔(1)
(1) 2 تیمتھیس، 2:24
1857ء کی جنگ آزادی کی چند ایک وجوہات میں سے ایک وجہ ان مسیحی مبلغین کی دل آزار اور توہین آمیز تبلیغ بھی تھی۔ چنانچہ سرسید احمدخان اپنی کتاب ’اَسبابِ بغاوتِ ہند‘ میں لکھتے ہیں:
ابتداء میں ہندوستان میں گفتگو مذہب کی بہت کم تھی، روز بروز زیادہ ہوتی گئی اور اِس زمانہ میں بدرجہ کمال پہنچ گئی۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ہماری گورنمنٹ کو ان امور میں کچھ مداخلت نہ تھی مگر ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ یہ سب معاملہ بموجب حکم اور بموجب اشارہ اور مرضی گورنمنٹ ہوتے ہیں۔ سب جانتے تھے کہ گورنمنٹ نے پادری صاحبوں کو ہندوستان میں مقرر کیا ہے۔ گورنمنٹ سے پادری صاحب تنخواہ پاتے ہیں گورنمنٹ اور حکام انگریزی ولایت اس ملک میں نوکر ہیں وہ پادری صاحبوں کو بہت سا روپیہ واسطے خرچ کے اور کتابیں بانٹنے کو دیتے ہیں اور ہر طرح ان کے مددگار اور معاون ہیں۔ اکثر حکام متعہد اور افسران فوج نے اپنے تابعین سے مذہب کی گفتگو شروع کی تھی۔ بعضے صاحب اپنے ملازمین کو حکم دیتے تھے کہ ہماری کوٹھی پر ان پادری صاحب کا وعظ سنو اور ایسا ہی ہوتا تھا۔ غرض اس بات نے ایسی ترقی پکڑی تھی کہ کوئی شخص یہ نہیں جانتا تھا کہ گورنمنٹ کی عمل داری میں ہمارا یا ہماری اولاد کا مذہب قائم رہے گا۔
(1) سر سید احمد خان، اسباب بغاوت ہند، ص:41
پھر لکھتے ہیں:
پادری صاحبوں کے وعظ نے نئی صورت نکالی تھی۔ تکرارِ مذہب کی کتابیں بطور سوال جواب چھپنی اور تقسیم ہونی شروع ہوئیں۔ ان کتابوں میں دوسرے مذہب کے مقدس لوگوں کی نسبت الفاظ اور مضامین مندرج ہوئے۔ ہندوستان میں دستور وعظ اور کتھا کا یہ ہے کہ اپنے اپنے معبد یا مکان پر بیٹھ کر کہتے ہیں جس کا دل چاہے اور جس کو رغبت ہو وہاں جا کرسنے۔ پادری صاحبوں کا طریقہ اس کے برخلاف تھا، وہ خود غیر مذہب کے مجمع اور تیرت گاہ اور میلہ میں جا کر وعظ کہتے تھے اور کوئی شخص صرف حکام کے ڈر سے مانع نہ ہوتا تھا۔ بعض ضلعوں میں یہ رواج نکلا کہ پادری صاحبوں کے ساتھ تھانے کا ایک چپڑاسی جانے لگا۔ پادری صاحب وعظ میں صرف انجیل مقدس ہی کے بیان پر اکتفا نہ کرتے تھے بلکہ غیر مذہب کے مقدس لوگوں کو اور مقدس مقاموں کو بہت برائی سے اور ہتک سے یاد کرتے تھے جس سے سننے والوں کو نہایت رنج اور دلی تکلیف پہنچتی تھی۔
(1) ایضاً، ص: 42
مشنری اسکولوں اور دیہاتی مکتبوں (village schools) کی کارکردگی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
مشنری اسکول بہت جار ی ہوئے اور اس میں مذہبی تعلیم شروع ہوئی۔ سب لوگ کہتے تھے کہ سرکار کی طرف سے ہیں۔ بعض اضلاع میں بہت بڑے بڑے عالی قدر حکام متعہد ان اسکولوں میں جاتے تھے اور لوگوں کو اس میں داخل اور شامل ہونے کی ترغیب دیتے تھے۔ امتحان مذہبی کتابوں میں لیا جاتا تھا اور طالب علموں سے جو لڑکے کم عمر ہوتے تھے، پوچھا جاتا کہ تمہارا خداکون، تمہارا نجات دینے والاکون اور وہ عیسائی مذہب کے موافق جواب دیتے تھے۔ اس پر ان کو انعام ملتاتھا۔ ان سب باتوں سے رعایا کادل ہماری گورنمنٹ سے پھرتا جاتا تھا۔دیہاتی مکتبوں کے مقرر ہونے سے سب لوگ یقین رکھتے تھے کہ صرف عیسائی بنانے کو یہ مکتب جاری ہوئے ہیں۔ پرگنہ وزیٹر اور ڈپٹی انسپکٹر جو ہر ہر گاؤں اور قصبہ میں لوگوں کو نصیحت کرتے پھرتے تھے کہ اپنے لڑکوں کو مکتبوں میں داخل کرو۔ ہر ہر گاؤں میں کالا پادری ان کا نام تھا جس گاؤں میں پرگنہ وزیٹر یا ڈپٹی انسپکٹر پہنچا اور گنواروں نے آپس میں چرچا کیا کہ کالا پادری آیا، عوام الناس یوں خیال کرتے تھے کہ یہ عیسائی مکتب ہیں اور کرسٹین (Christian) بنانے کو بٹھاتے ہیں اور فہمیدہ آدمی اگرچہ یہ نہیں سمجھتے تھے مگر یوں جانتے تھے کہ ان مکاتیب میں صرف اردو کی تعلیم ہوتی ہے۔ ہمارے لڑکے اس میں پڑھ کر اپنے مذہب کے اَحکام اور مسائل اور اِعتقادات اور رسمیات سے بالکل ناواقف ہو جائیں گے اور عیسائی بن جائیں گے اور یوں سمجھتے تھے کہ گورنمنٹ کا یہی ارادہ ہے کہ ہندوستان کے مذہبی علوم کو معدوم کردے تاکہ آئندہ کوعیسائی مذہب پھیل جائے۔ اکثر اَضلاعِ شرقی ہندوستان میں ان مکتبوںکاجاری ہونا اور لڑکوں کا داخل ہونا صاف تحکماً ہوا اور کہہ دیا کہ گورنمنٹ کا حکم ہے کہ لڑکوں کو داخل کیا جائے۔(1)
() ایضاً، ص:42-44
مزید لکھتے ہیں:
یہ سب خرابیاں لوگوں کے دلوں میں ہو رہی تھیں کہ دفعتاً سنہ 1855ء میں پادری صاحبان ای ایڈمنڈ (E. Edmond) نے دارالامارہ کلکتہ سے عموماً اور خصوصاً سرکاری معزز نوکروں کے پاس چٹھیاں بھیجیں جن کا مطلب یہ تھا کہ اب ہندوستان میں ایک عمل داری ہوگئی۔ تار برقی سے سب جگہ کی خبر ایک ہوگئی، ریلوے، سڑک سے سب جگہ کی آمدورفت ایک ہوگئی۔ مذہب بھی ایک ہونا چاہیے، اس لیے مناسب ہے کہ تم لوگ بھی ایک عیسائی مذہب ہو جاؤ۔ میں سچ کہتا ہوںکہ ان خطوط کے آنے کے بعد خوف کے مارے سب کی آنکھوں میں اندھیرا آگیا، پاؤں تلے کی مٹی نکل گئی، سب کو یقین ہو گیا کہ ہندوستانی جس وقت کے منتظر تھے وہ وقت اب آگیا۔
ایضاً، ص: 46
تفسیر حقانی کے مؤلف علامہ ابو محمد عبد الحق حقانی تفسیر کے مقدمہ میں انہی حالات کی مختصر تفصیل یوں بیان کرتے ہیں:
اس زمانہ میں عیسائیوں کا بڑا زور ہے، پادری گلی کوچوں میں لوگوں کو بہکاتے پھرتے ہیں، کہیں کالج مقرر کرکے لوگوں کولالچ دے کر انجیل کی تعلیم دیتے اور کرسٹین (Christian) بناتے ہیں۔ بلکہ سینا پرونا سکھانے کے بہانے سے شرفا اہل اسلام کے گھروں میں مستورات کے بہکانے کے لیے جوان جوان شاطر میموں کو بھیجتے ہیں اور وہ گھر کے نوجوانوں سے نہایت خوش اخلاقی سے پیش آکر رجھاتی ہیں اور دین سے برگشتہ کراتی ہیں اور کہتی ہیں: ویل (well)! تمہارے قرآن میں بھی تورات و انجیل و زبور پر ایمان لانے کی تاکید ہے، یہ کتابیں ہمارے پاس ہیں ان پر ایمان لاؤ، ان میں جو کچھ لکھا ہے اُس کو مانو، مسیح خدا تعالیٰ کا بیٹا اور دنیا کا کفارہ ہے۔(1)
(1) عبد الحق حقانی، مقدمہ تفسیر حقانی، ص: 184، مطبوعہ اعتقاد پبلیشنگ ہاوس، دہلی
انہی حالات کی مزید تصویر کشی کرتے ہوئے شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں:
انیسویں صدی میں بالخصوص جنگِ آزادی کے بعد، ہندوستان میں اسلام کو تین خطرے درپیش تھے:
پہلا خطرہ مشنریوں کی طرف سے تھا، جو اس امیدمیں تھے کہ سیاسی زوال کے ساتھ مسلمانوں کا مذہبی انحطاط بھی شروع ہو جائے گا اور توحید کے پیرو تثلیث قبول کرلیں گے۔
دوسرا خطرہ یورپ اور ہندوستان میں ا ن خیالات کا اظہار تھا جنہیں دیکھ کربقول سرسید ’مرجانے کو جی چاہتا تھا‘۔ یہ لوگ اسلام کو عقل کا دشمن، اخلاق کا دشمن اور انسانی ترقی کا مانع ثابت کررہے تھے۔ ان میں صرف مشنری نہ تھے بلکہ مغربی یونی ورسٹیوں کے پروفیسر اور وہ انگریز حاکم بھی شامل تھے، جنہیں خدا نے ہندوستانی مسلمانوں کی قسمت سونپ رکھی تھی۔ اسلام اور بانیِ اِسلام کے متعلق بدترین کتاب سر ولیم میور کی ہے، جو صوبحات متحدہ کے حاکم اعلیٰ تھے اور جنہوں نے اپنی کتاب کا خلاصہ دوفقروں میں لکھ دیا ہے: انسانیت کے دو سب سے بڑے دشمن: محمد کی تلوار اور محمد کا قرآن ہیں۔ (نعوذ باﷲ)
تیسرا بڑا خطرہ جو آئندہ اور بھی بڑھنے والا تھا، خود مسلمانوں کی دلوں میں طرح طرح کے شکوک و شبہات کا پیدا ہونا تھا۔ جن لوگوں کی نظروں سے مشنریوں اور دوسرے عیسائی مصنفوں یا آزادخیال مغربی مفکروں کی کتابیں گزرتیں وہ اسلام کے بعض مسائل کو جو عام علما بیان کرتے تھے، خلافِ عقل سمجھنے لگے۔ اور یہ ڈر تھا کہ اگرچہ وہ اسلام چھوڑ کر عیسائیت اختیار نہیں کریں گے لیکن مذہب سے ضرور بیگانہ ہو جائیں گے۔ سرسید خود لکھتے ہیں: اگر خدا مجھ کو ہدایت نہ کرتا اور تقلید کی گمراہی سے نہ نکالتا اور میں خود تحقیقاتِ حقیقت پر نہ متوجہ ہوتا تو یقینی مذہب چھوڑ دیتا۔
تینوں خطروں میں سے جہاں تک مشنریوں کے خطرے کا تعلق ہے، ظاہر ہے کہ اس کا مقابلہ بنگلے کی چار دیواری میں بیٹھ کر کتابیں لکھنے سے نہ ہوسکتا تھا۔ یہ لوگ شاہراہوں اور چوکوں میں کھڑے ہوکر لیکچر دیتے۔ پمفلٹ تقسیم کرتے، مناظرے کی دعوتیں دیتے اور وہیں انہیں کوئی شکار مل جاتا۔ ضروری تھا کہ جو ہتھیار یہ لوگ استعمال کرتے تھے، انہی سے ان کا مقابلہ کیا جائے۔
شیخ محمد اکرام، موجِ کوثر، ص: 156-157
انگریز مسیحی مشنریوں کی ذہنیت پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ اقبال اپنا ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
جب میں کیمبرج میں پڑھتا تھا تو تعطیلات کے زمانے میں کچھ دنوں کے لیے میں اپنے ایک ہم سبق انگریز دوست کے ہمراہ اس کے وطن چلا گیا۔ اس کا گھر اسکاٹ لینڈ کے ایک دور افتادہ قصبے میں تھا۔ مجھے وہاں گئے چند روز ہوئے تھے کہ معلوم ہوا ایک مشنری، جو ہندوستان سے آئے ہیں، آج شام قصبے کے اسکول میں لیکچر دیں گے اور بتائیں گے کہ ہندوستان میں مسیحیت کو کس قدر فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ میں اور میرے میزبان دونوں لیکچر سننے کے لیے پہنچے۔ سامعین میں عورتیں اور مرد کافی تعداد میں تھے۔ مشنری نے بتایا کہ ہندوستان میں تیس کروڑ انسان آباد ہیں، لیکن ان لوگوں کو انسان کہنا جائز نہیں۔ عادات و خصائل اور بود و باش کے اعتبار سے یہ لوگ انسانوں سے بہت پست اور حیوانوں سے کچھ اوپر ہیں۔ ہم نے سالہا سال کی جدوجہد سے ان حیوان نما انسانوں کو تھوڑی بہت تہذیب سے آشنا کیا ہے۔ لیکن کام وسیع اور اہم ہے۔ آپ ہمارے مشن کو دل کھول کر چندہ دیجیے تاکہ اس عظیم الشان مہم میں - جو ہم نے بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے جاری کر رکھی ہے - زیادہ کامیابی ہو۔ یہ کہہ کر مشنری نے میجک لینڑن سے سامنے لٹکے ہوئے پردے پر ہندوستانیوں کی تصویریں دکھانا شروع کیں۔ اُن میں بھیل، گونڈ، دراوڑ اور اڑیسہ کے جنگلوں میں بسنے والی قوم کے نیم برہنہ افراد کی نہایت مکروہ تصاویر تھیں۔جب لیکچر ختم ہوگیا تو میں نے کھڑے ہو کر صدر جلسہ سے کچھ کہنے کی اجازت طلب کی۔ انہوں نے بخوشی اجازت دے دی تو میں نے بڑے جوش سے پچیس منٹ تقریر کی۔ میں نے حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں خالص ہندوستانی ہوں۔ میرا خمیر اسی ملک کی سرزمین سے اٹھا ہے۔ آپ لوگوں کی زبان میں اسی روانی سے تقریر کر رہا ہوں جس روانی سے مشنری صاحب نے بزعمِ خود حقائق و معارف کے دریا بہائے ہیں۔ میں نے ہندوستان میں رہ کر تعلیم حاصل کی ہے۔ اب مزید تعلیم کے لیے کیمبرج میں آیا ہوں۔ آپ میری شکل و صورت دیکھ کر اور میری باتیں سن کر خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ مشنری صاحب نے ہندوستان کے باشندوں کے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ کہاں تک درست ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان مشرقی دنیا کا ایک متمدن و مہذب ملک ہے، جس نے صدیوں تک تہذیب اور علم کی شمع بلند رکھی ہے۔ اگرچہ ہم سیاسی طور پر انگلستان کے غلام ہو گئے ہیں، لیکن ہمارا اپنا ادب ہے، اپنا تمدن ہے، اپنی قومی روایات ہیں، جو کسی طرح مغربی قوموں کی روایات سے کم شاندار نہیں ہیں۔ مشنری صاحب نے محض آپ کے جذبات کو برانگیختہ کر کے آپ کی جیبیں خالی کرنے کے لے ہندوستانیوں کی یہ گھناؤنی اور خوفناک تصویر پیش کی ہے۔
جونہی میری تقریر ختم ہوئی، جلسے کا رنگ بالکل بدل گیا۔ سب لوگ میرے ہم خیال ہو گئے اور مشنری صاحب کو حد درجہ مایوس ہو کر وہاں سے خالی ہاتھ نکلنا پڑا۔
غلام دستگیر رشید، آثارِ اقبال، ص: 39-41، بحوالہ محمد عبد اﷲ قریشی، حیاتِ اقبال کی گمشدہ کٹریاں، ص: 228-230، مطبوعہ بزمِ اقبال-کلب روڈ لاہور
مسلمان علماء کرام کو مجبوراً ان سیاسی پادریوں کی حرکات سے پھیلنے والے منفی اثرات کو روکنے کے لیے میدان میں اُترنا پڑا۔ چنانچہ اس میں دو بڑے نام سامنے آئے جنہوں نے آگے مسلم مکالمہ کی بنیادیں تیار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مسلمانوں کی جانب سے نمایاں طورپر حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور دوسری جانب سے مشہور و معروف پروٹسٹنٹ پادری فنڈر سامنے آئے۔
پادری فنڈر نے ’میزان الحق‘ کے نام سے کتاب لکھی جس میں اسلام اور بانیِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق انتہائی سطحی زبان استعمال کرتے ہوئے قرآن و بائبل سے دلائل دیے گئے۔
مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے اس کے جواب میں ’اِظہار الحق‘ کے نام سے کتاب لکھی جس میں میزان الحق کے اندر دیے گئے دلائل کا رد کیا اور ان تمام اعتراضات و اشکالات کا جواب دیا۔
پادری فنڈر کا طریقہ تبلیغ انتہائی جارحانہ تھا۔ علمی اختلاف سے قطع نظر جو چیز مسلمانوں کے لیے باعث تکلیف تھی وہ پادری فنڈر کا طرزِ تحریر اور طرزِ تقریر تھا۔ چنانچہ مجبوراً پادری فنڈر کے پھیلائے ہوئے منفی اثرات کو ختم کرنے کے لیے مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے پادری فنڈر کو آگرہ میں کھُلے مناظرے کا چیلنج دیا جو بعدازاں تاریخی حیثیت اختیار کر گیا۔ آپ اپنی کتاب ’ازالۃ الشکوک‘ میں اس مناظرہ کی وجوہات لکھتے ہیں:
اب ان وجوہ کا بیان کرتا ہوں کہ جس کے سبب یہ مباحثہ واقع ہوا۔ اول یہ کہ روز بروز شور و غل پادریوں کا بڑھتا چلا جاتا تھا، اور زبانی فریاد کرتے تھے کہ مسلمانوں سے ہمارا جواب نہیں بن پڑتا، اور اپنے رسالوں کے آخر میں ایسی ایسی باتیں بھی چھاپنے لگے تھے۔ اس پر میں نے چاہا کہ اپنے مقدور کے موافق میں بھی ہاتھ ہلاؤں، شاید اللہ کچھ ثمرہ نیک دیوے۔
دوم یہ کہ جس عیسائی سے ملاقات ہوئی اور اس سے کچھ تذکرہ آیا، اس کی تقریر سے یہی معلوم ہوا کہ ’میزان‘ ان کے گمان میں ایسی ہے کہ گویا الہام سے لکھی گئی ہے اور مسلمان اس کے جواب سے عاجز ہیں۔ اور اگر ان کو کہا جاتا کہ یہ بات غلط ہے، ’میزان الحق‘ کا کیا ذکر اس کے مصنف سے بھی مسلمانوں کو کچھ خوف نہیں؛ سو وہ کہتے تھے کہ صاحب! جب تم کو اس سے پالا پڑے تب تم جانو۔
یہ بین المذاہب مکالمہ کا تاریخی پس منظر ہے۔ بعد ازاں اسلام کے خلاف روایتی مناظراتی سوچ رکھنے والے مسیحی مبلغین کے دلائل کے رد میں حضرت احمددیدات فقید المثال تھے اور اہل مغرب کے طریقہ گفتگو پر مناظرہ کرنے کے ماہر تھے۔ حضرت رحمت اللہ کیرانوی کی کتاب ’اِظہار الحق‘ کے ہاتھ آجانے کے بعد اُن کے دلائل میں قوت پیدا ہوگئی تھی۔ ساؤتھ افریقہ میںمسیحی مبلغین کے اسلام پر سر عام حملوں نے اُنہیں اُن کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ حضرت دیدات کو جس طرح کے متعصب مسیحی مشنریوںکا سامنا کرنا پڑا اُس کے رد عمل کے طور پرحضرت دیدات کا مناظراتی اور جارحانہ طرزِ تبلیغ فطری تھا۔
شیخ احمد دیدات اس صدی کے ایک عظیم مبلغ تھے اور اسلام اور مسیحیت کے مابین مناظروں اور مکالموں کی تاریخ میں آپ کی خدمات سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ آپ نے اسلامی دُنیا بالخصوص مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کو مسیحی مبلغین کی طرف سے درپیش علمی و نفسیاتی چیلنجز کا سامنا کرنے کے قابل بنایا اور دیارِ مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کے ایمان کو تقویت بخشی۔
اگر یہ بات کہی جائے کہ شیخ احمد دیدات 1857ء کے زمانے سے سامنے آنے والے بین المذاہب مکالمہ کے منہج و اُسلوب کے وارث ہیں تو یہ بے جانہ ہوگا۔ بلاشبہ ان کی خدمات سے انکار ممکن نہیں مگر کیا آج کے دور میں ہم مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور شیخ احمد دیدات کے اس طرزِ اُسلوب پر چلتے ہوئے دنیاے انسانیت کے لیے امن و محبت کا پیغام عام کرسکتے ہیں؟
کیا اس مناظراتی رنگ کو لیے ہوئے ہم تہذیبوں کے مابین تصادم کو روک سکتے ہیں؟
کیا اس نوعیت کے دلائل اکیسویں صدی میں اسلام کو دیگر اَقوام و مذاہب کے ساتھ مل جل کر رہنے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں؟۔۔۔
ان تمام سوالات کا جواب ’نہیں‘ ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس سمت کیا تجدیدی کردار ادا کیا اور ان کا طرزِ اُسلوب کن خصوصیات کا حامل ہے، آیئے اس پر روشنی ڈالتے ہیں:
اسلام نے شرعی مسائل کی تحقیق کے لیے درج ذیل چار بنیادی دلائل تجویز کیے ہیں جنہیں مصادرِ شریعت اور ماخذِ قانون کہا جاتا ہے:
اِثباتِ اَحکام، اِستنباطِ مسائل اور اَخذِ نتائج میں ان مصادر کی شرعی حجیت مذکورہ بالا ترتیب سے تسلیم کی گئی ہے تاکہ مسائل و اَحکام کے اِستنباط و اِستخراج میں ایک نظم اور ضابطہ قائم رہ سکے۔
شیخ عبد الوہاب بیان کرتے ہیں:
یہ اَدِلّہ اربعہ جن سے استدلال پر جمہور مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ وہ اسی طرح اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اَدِلّہ اربعہ سے استدلال کے لیے یہ ترتیب ملحوظ رکھی جائے گی۔ پہلے قرآن، پھر سنت، پھر اِجماع اور پھر قیاس۔ اس طرح کہ اگر کوئی واقعہ پیش ہو تو پہلے قرآن میں دیکھے۔ اگر قرآن میں اس کا حکم مل جائے تو اس کے مطابق فیصلہ کردے اور اگر قرآن میں اس کا حکم نہ ملے تو سنتِ نبوی میں سے تلاش کرے، اگر سنت میں اس کا حکم موجود ہو تو اس کے مطابق کر گزرے اور اگر سنت میں اس کا حکم نہ ملے تو دیکھے کہ آیا کسی زمانے کے مجتہدین کا اس بارے میں کوئی فیصلہ ہے؟ اگر موجود ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرے۔ اگر اجماع میں بھی نہ ملے تو اس کے حکم کو معلوم کرنے کے لیے کسی وارد شدہ نص کے حکم پر قیاس کرتے ہوئے اجتہاد کرے۔ اس استدلال پر دلیل سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
{يٰـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَطِيْعُوا اﷲَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ج فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْئٍ فَرُدُّوْهُ اِلَی اﷲِ وَالرَّسُوْلِ}
(1) النساء، 4: 59
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لیے) اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دو۔
اس وجوبِ ترتیب کا مفاد یہ ہے کہ کتاب، سنت کے مقابلے میں؛ سنت، اِجماع کے مقابلے میں اور اِجماع، قیاس کے مقابلے میں قوی تر ہوگا۔ بالفاظِ دیگر عدمِ تطبیق کی صورت میں قرآن، سنت کا ناسخ ہو سکتا ہے؛ سنت قرآن کی نہیں۔ البتہ اَحناف کے مطابق سنتِ متواترہ اور مشہورہ سے قرآن کی تخصیص و تقیید ہو سکتی ہے۔ اسی طرح چونکہ سنت کا حکم اجماع سے فائق اور قوی تر ہوتا ہے، لہٰذا کوئی بھی اِجماع، سنت کا ناسخ نہیں ہو سکتا کیونکہ اِجماع کا جواز بھی محض اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب کتاب و سنت دونوں کی کوئی نص موجود نہ ہو۔ اگر کتاب و سنت کی نص کسی مسئلے پر مل جائے تو اس کے ہوتے ہوئے فی نفسہ اِجماع کا جواز ہی باقی نہیں رہتا چہ جائیکہ اس کے ذریعے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ترک کر دیا جائے یا اس کی تخصیص و تقیید کی جائے۔ اور یہی حال اجماع کا قیاس کے مقابلے میں ہے، محض قیاس یا متفرد اِجتہاد سے اِجماع کی تنسیخ ممکن نہیں۔(1)
(1) ڈاکٹر محمد طاہر القادری، تحقیق مسائل کا شرعی اُسلوب، ص: 22-24
1857ء کے زمانے سے اس نوعیت کی چلی آنے والی کتب میں اس شرعی اُسلوب کا فقدان ہے۔ ہم نے گزشتہ سطور میں چونکہ شیخ احمد دیدات کو اس زمانے کے علمی ورثے کا امین قرار دیا ہے، لہٰذا انہی کے اسلوب کا اس ضمن میں شیخ الاسلام کے طرز اسلوب کے ساتھ موازنہ کریں گے۔
حضرت دیدات کی کتاب ’کیا بائبل کلامِ الٰہی ہے؟‘ معلومات کا خزانہ ہے۔ طرزِ تحریر مناظراتی ہے مگر پوری کتاب کے علمی دلائل کی ترتیب اور نظم میں درج بالا شرعی اسلوب ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ موضوع پر اگر آپ کی پہلے سے دسترس نہیں ہے اور مطالعہ وسیع نہیں ہے توآپ کو کتاب کے مرکزی نقطہ کو سمجھنے میں دشواری پیش آئے گی۔ حضرت دیدات کی کتب سے فائدہ اٹھانے کے لیے موضوع سے واقفیت کے ساتھ ساتھ جاندار مطالعہ کے فنی و سائنسی اصولوں سے بھی واقف ہونا بہت ضروری ہے تاکہ بے ترتیب دلائل میں سے قاری مرکزی نکتہ تلاش کر سکے۔
دلائل کی بے ترتیبی سے قاری کے ذہن میں الجھاؤ پیدا ہوتا ہے۔ انسان غیر شعوری طور پر بات تو سمجھ جاتا ہے مگر اس ’بے ترتیب فہم‘ سے اپنے موقف کو واضح اور منظم انداز میں کسی دوسرے کو پیش کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
اس کے برعکس اگر آپ شیخ الاسلام مدظلہ کے تمام خطبات اور کتب کا مطالعہ کریں تو آپ کو شریعتِ اسلامیہ کے دلائل میں شرعی ترتیب اور سائنسی نظم ملے گا۔ شیخ الاسلام نے تو تقریر و تحریر میں دلائل کی ترتیب کے شرعی اُصول و ضوابط پر اُردو زبان میں ایک کتابچہ ’تحقیق مسائل کاشرعی اُسلوب‘ بھی لکھا ہے۔
حضرت دیدات اپنے مناظرات میں اسلام کے موقف کو پیش کرتے ہوئے اسلامی عقائد و نظریات کو بائبل ہی کے متن سے ثابت کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ قرآن مجید کی آیات بھی حسبِ ضرورت پیش کرتے ہیں مگر اسلامی عقائد و نظریات کے دلائل اکثر و بیشتر بائبل کی آیات ہی ہوتی ہیں۔ مثلاً اگر کسی مسیحی مبلغ یا سامع نے اسلام کے کسی عقیدے پر حملہ یا وضاحت طلب کی تو اسلامی عقیدے کو اسلامی دلائل و نظریات سے ثابت کرنے کی بجائے بائبل کی آیات سے ہی ثابت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
اس اِلتزامی طریقہ سے یہ کمزوری پیدا ہوتی ہے کہ حضرت دیدات کے عقیدت مند اور شاگرد بائبل مقدس کے متن اور علم کے تو بے حد ماہر ہوتے ہیں اور گھنٹوں گفت گو کے لیے تیار رہتے ہیں مگر ان کے ہاتھ سے اگر بائبل لے لی جائے اور قرآن تھما دیا جائے تو متعلقہ موضوع پر چند آیات پڑھنے کے علاوہ ان کے پاس سنت و حدیثِ نبوی اور مفسرین کرام کی آراء سے متعلق کوئی خاص معلومات نہیں ہوتیں۔ ایسے تمام مسلم مبلغ (حضرت دیدات سمیت) مسیحیت اور بائبل مقدس پر ماہر اور اسلامی علوم و فنون پر کمزور ہوتے ہیں۔ اسی لیے یہ تمام تر گفت گو بائبل اور مسیحی مذہب کے حوالے سے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
مثلاً حضرت دیدات کی تصنیف ’Christ in Islam (مسیح: اسلام میں)‘ کے آخری صفحات میں معجزاتِ مسیح علیہ السلام پربحث کرتے ہوئے قاری کو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیںکہ معجزات معیارِ نبوت نہیں۔ مگر اپنے اس دعویٰ کی دلیل میں سب دلائل بائبل ہی سے نقل فرماتے ہیں، یعنی دعویٰ اسلامی اور دلائل بائبل کے؛ ایک بھی دلیل اسلامی ماخذ سے پیش نہیں فرمائی۔ اس طرزِ تحریر سے قاری مسیحی دلائل کے ماخذ سے تو واقف ہو جاتا ہے مگر اسلامی دلائل اور اُن کے ماخذو مصادر سے اُس کی واقفیت نہیں ہو پاتی۔ مختصر یہ کہ حضرت دیدات کے مناظروں اور کتابوں کی ایک خامی ’اِثباتِ دعویٰ میں اِسلامی ماخذ و دلائل کی کمی‘ ہے۔
اِسی لیے علماء اسلام فرماتے ہیں کہ اپنے عقائد و نظریات پر مکمل عبور حاصل کیے بغیر دوسرے عقائد و نظریات پر مطالعہ کرنا (تقابلِ اَدیان) علمی و فکری پریشانیوں کا باعث بن سکتا ہے اور اپنے عقیدہ و ایمان کے ساتھ جذباتی تعلق نہ ہو تو انسان کو ایمان سے محروم ہوتے دیر نہیں لگتی۔ اسی لیے امام غزالی فرماتے ہیں کہ عقل مند آدمی پہلے حق کی معرفت حاصل کرتا ہے پھر کسی کی بات کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اگر وہ حق ہوتا ہے تو اس کو تسلیم کرلیتا ہے خواہ اس کے کہنے والا مسلمان ہو یا کسی دوسرے مذہب کا پیروکار۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سونے کے ساتھ مٹی ملی رہتی ہے اور صراف کے لیے کوئی خطرے کی بات نہیں کیونکہ وہ اپنی عقل سے کام لے کر مٹی اور سونے کو علیحدہ کرلیتا ہے مگر سادہ لوح عوام (اور ان جیسے علماء و مبلغین کو بھی) ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ آپ فرماتے ہیں کامل پیراک کے سوا بے وقوف آدمی کو ساحلِ سمندر میں پیراکی سے منع کرناچاہیے۔ لڑکے کو سانپ چھونے سے منع کرنا چاہیے نہ کہ ماہر سپیرے کو۔ امام غزالی فرماتے ہیں:
میرے نزدیک کثرت ایسے نادان لوگوں کی ہے جو (بزعم خود) اپنے آپ کو عقل مند و ماہر گردانتے ہیں (اور سمجھتے ہیں) جب کہ حق و باطل کی تمیز میں ہے کہ جہاں تک ممکن ہو دوسرے مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ ایسے افراد پر بند کر دیا جائے جب تک وہ پہلے اپنے ایمان و عقیدہ پر مکمل عبور حاصل نہ کرلیں۔
غزالی، المنقذ من الضلال، ص: 29
اس کے برعکس شیخ الاسلام مدظلہ کے مناظروں، لیکچرز اور کتب میں اسلامی دلائل و براہین کی کثرت ہے۔ قاری اور سامع عقائد و نظریات پر واقف ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اَسلاف کے علمی ذخیرہ سے بھی واقف ہوتا چلا جاتا ہے۔ خطاب کا عنوان تو مخصوص ہوتا ہے مگر شیخ الاسلام مدظلہ کے وسعتِ مطالعہ کے باعث اُن کے ایک ہی خطاب سے سامع کی
زندگی کے کئی مسئلے حل ہو جاتے ہیں اور کئی سوالات کے جواب مل جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ حضرت دیدات تو صرف موضوع سے متعلقہ سوال پوچھنے کی قید لگاتے ہیں مگر شیخ الاسلام مدظلہ کی پوری زندگی گواہ ہے کہ آپ نے خطاب کے بعد نشست سوال و جواب میں سوالات کی نوعیت کو مخصوص کر نے کی کبھی قید نہیں لگائی۔
راقم الحروف کو بین الاقوامی سطح پر بے شمار مسلمان اور مسیحی علما ء کرام کو سننے کا اتفاق ہوا ہے مگر سوالات و جوابات کے سیشن میں جواب اس طرز پر دینا کہ موضوعِ زیربحث پر مکمل تسلی و تشفی ہو جائے بلکہ موضوع سے متعلق خود ہی مزید سوالات کا تعارف کرواتے ہوئے جواب کے مختلف پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالتے جانا، یہ خصوصی شرف صرف شیخ الا سلام مدظلہ کے ہی حصے میں آیا ہے۔ سوال و جواب کے سیشن کی صورت میں اِسلامی دلائل کا وسیع ذخیرہ علم بھی تحریک منہاج القرآن کا خصوصی شرف ہے جس میں دُنیا کی کوئی اور تحریک (اِسلامی و غیر اِسلامی) شامل نہیں۔ یہ بات ہم محض جذبات کی بنیاد پر نہیں بلکہ باقاعدہ تحقیق کی بنیاد پر عرض کر رہے ہیں۔
حضرت دیدات کے مناظروں اور خطبات میں key points ہر جملے میں پوشیدہ نہیں ہوتے۔ بعض اوقات تو آپ موضوعِ زیر بحث میں اس قدر تفصیل میں جاتے ہیں کہ ذہن اَصل موضوع سے ہٹ کر محض تمثیلات میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ بعض اوقات تو ایک خطاب پر بمشکل دس بارہ جملے ہی اَصلی موضوع سے متعلقہ ہوتے ہیں۔ ایسے خطابات کے notes تمثیلات و تفصیلات نکال کر key sentences ایک صفحے پر ہی آجاتے ہیں۔ مگر اس کے برعکس اللہ تعالی نے شیخ الاسلام مدظلہ کو قوتِ اِستنباط کی نعمت کے ساتھ ساتھ سمندر کو کوزے میں بند کرنے کا بھی فن عطا کیا ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں:
گفتِ کوتہ بہتر ست
مختصر بات بہتر ہوتی ہے۔
[دفتر اول]
شیخ الا سلام مدظلہ ایک جملے میں سامعین کی برسوں سے الجھی ہوئی علمی گرہ کو کھول دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ آپ مثالیں بھی ایسی بیان فرماتے ہیں جو نہ صرف نہایت سادہ اور روزمرہ کے مشاہدہ میں آنے والی ہوتی ہیں بلکہ اپنے علمی سرمائے کے طور پر محفوظ رکھنے کے قابل ہوتی ہیں۔
شیخ الاسلام مدظلہ کا ہر جملہ اپنی جگہ ایک مکمل موضوع کی ترجمانی کرتا ہے اور وہ اپنے اگلے پچھلے جملوں سے بھی معنوی طور پر اس طرح سے جڑا ہوا ہوتا ہے کہ اُس جملے کی اِنفرادی و اِجتماعی شانیں اکٹھی نمایاں ہو رہی ہوتی ہیں۔ مگر یہ بات وہی محسوس کر سکتا ہے جس کا مطالعہ وسیع ہو اور جاندار مطالعہ کے سائنسی اُصولوں سے بھی واقف ہو۔
اگر کسی شخص نے سطحی سوچ کی بجائے علم لدنی کی دولت سے مالا مال ہو کر مثنوی مولانا روم پڑھی ہے تو وہ یہ بات بھی جانتا ہے کہ جس طرح مولاے روم بڑے سے بڑا روحانی مسئلہ روزمرہ کے مشاہدے میں آنے والے واقعات کی مدد سے عقلی استدلال سے حل کر جاتے ہیں، اُسی طرح یہ منہج ہمیں شیخ الاسلام کی شخصیت میں بھی بہت نظر آتا ہے۔ اس دعویٰ کے ثبوت میں شیخ الاسلام کے بہت سارے خطابات پیش کیے جا سکتے ہیں۔
قرآن مجید نے چودہ سو سال پہلے ہی مسلمانوں کو یہ بتا دیا تھا کہ مسلمان اَہلِ کتاب اور مشرکین سے بہت اذیت ناک باتیں سنیں گے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{لَتُبْلَوُنَّ فِیْ اَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْقف وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَکُوْا اَذًی کَثِيْرًاط وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ}
آل عمران، 3: 186
(اے مسلمانو!) تمہیں ضرور بالضرور تمہارے اموال اور تمہاری جانوں میں آزمایا جائے گا اور تمہیں بہر صورت ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور ان لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سے اذیت ناک (طعنے) سننے ہوں گے، اور اگر تم صبر کرتے رہو اور تقویٰ اختیار کیے رکھو تو یہ بڑی ہمت کے کاموں سے ہے۔
امام بخاری اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث لاتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دراز گوش پر سوار ہو کر حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا کر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے بنو حارث بن خزرج کے قبیلے میں تشریف لے گئے۔ یہ واقعہ جنگ بدر سے پہلے کا ہے۔ راستہ میں ایک مخلوط مجلس بیٹھی ہوئی ملی جس میں مسلمان بھی تھے، یہوودی بھی تھے، مشرکین بھی تھے اور عبداللہ بن اُبی بھی تھا۔ مسلمانوں میں حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری سے گرد و غبار اڑا تو عبد اللہ بن اُبی (جو اُس وقت تک حالتِ کفر میں تھا) نے ناک پر کپڑا رکھ لیا اور کہنے لگا: غبار نہ اڑاؤ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پاس پہنچ ہی چکے تھے، سواری سے اتر آئے، سلام کیا اور انہیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن کی چند آیتیں سنائیں تو عبد اللہ بول پڑا: ’سنیے صاحب! آپ کا یہ طریقہ ہمیں پسند نہیں، آپ کی باتیں حق ہی سہی لیکن اس کی کیا وجہ کہ آپ ہماری مجلسوں میں آکر ہمیں ایذا دیں۔ اپنے گھر جائیے جو آپ کے پاس آئے اسے سنائیے۔
یہ سن کر حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور! بے شک آپ ہماری مجلسوں میں تشریف لایا کریں۔ ہمیں تو اس کی عین چاہت ہے۔
اب ان کی آپس میں خوب جھڑپ ہوئی۔ ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگا اور قریب تھا کہ کھڑے ہو کر لڑنے لگیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سمجھانے سے آخر امن و امان ہوگیا اور سب خاموش ہوگئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہو کر حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے ہاں تشریف لے گئے اور وہاں جا کر حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ابو حباب، عبد اللہ بن اُبی نے آج اس طرح کیا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: ’یا رسول اللہ! آپ درگزر فرما دیجیے۔ قسم اللہ کی جس نے آپ پر قرآن اتارا، اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس لیے بے حد دشمنی ہے کہ یہاں کے لوگوں نے اسے سردار بنانا چاہا تھا، اُدھر اللہ تعالی نے آپ کو اپنا نبی برحق بنا کر بھیجا اور لوگوں نے آپ کو نبی مانا تو اس کی سرداری جاتی رہی۔ اس کا اسے رنج ہے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درگزر فرما دیا اور یہی آپ کی عادت تھی اور آپ کے اصحاب بھی یہودیوں اور مشرکوں سے درگزر فرماتے تھے۔
بخاری، الصحيح، کتاب الادب، باب کنية المشرک، 5:2299، الرقم:5854
چنانچہ حافظ ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
پھر پرودگار جل شانہ صحابہ کرام کو خبر دیتا ہے کہ بدر سے پہلے مدینہ میں تمہیں اَہلِ کتاب سے اور مشرکوں سے دکھ دینے والی باتیں اور سرزنش سننی پڑے گی، پھر تسلی دیتا ہوا طریقہ سکھاتا ہے کہ تم صبر و ضبط کر لیا کرو اور پرہیز گاری برتو۔ یہ بڑا بھاری کام ہے۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اَصحاب مشرکین سے اور اَہلِ کتاب سے بہت کچھ درگزر فرمایا کرتے تھے اور ان کی اذیتوں کو برداشت کر لیا کرتے تھے۔(2)
(2) ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، ج: 1، ص: 586
اور پھر بڑے پتے کی بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
پس یہ کلیہ قاعدہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر حق والے پر جو نیکی اور بھلائی کا حکم کرتا رہے اور جو برائی اور خلاف شرع کام سے روکتا رہے اس پر ضرور مصیبتیں اور آفتیں آتی ہیں۔ اسے چاہیے کہ ان تمام تکلیفوں کو جھیلے اور اللہ کی راہ میں صبر و ضبط سے کام لے، اسی کی پاک ذات پر بھروسہ رکھے، اسی سے مدد طلب کرتا رہے اور اپنی کامل توجہ اور پورا رجوع اس کی طرف رکھے۔(1)
(1) ایضًا
پیر محمد کرم شاہ الازہری اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
اللہ تعالی مسلمانوں کو پہلے ہی بتا رہے ہیں کہ مدینہ کی غیر مسلم آبادی، مُشرک اور اَہلِ کتاب سے اچھے سلوک کی توقع مت رکھو۔ وہ تمھارے مال و جان کو گزند پہنچائیں گے۔ تمہیں کوسا جائے گا، تمھارے خلاف پراپیگنڈا کی خطرناک مہم چلائی جائے گی، تمھیں طرح طرح سے مطعون کیا جائے گا اور تمہارے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں زبان درازی کی جائے گی۔ ایسی حالت میں عام طور پر جذبات مشتعل ہو جاتے ہیں، زبان اور ہاتھ پر قابو نہیں رہتا اور انسان ہر طرح کی جوابی کارروائی کرنے کے لیے اپنے آپ کو مجبور اور ہر جائز اور ناجائز طریقہ اِستعمال کرنے کے لیے معذور پاتا ہے۔ اگر ایسے نازک حالات میں بھی تم نے صبر و استقامت کا دامن نہ چھوڑا اور اپنے بلند کردار پر جمے رہے تو تمھاری عظمت و رفعت پر انسانیت فخر کرے گی۔ اور ایسا کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں بلکہ بڑی ہمت کا کام ہے۔
پیر محمد کرم شاہ، تفسیر ضیاء القرآن، ج: 1، ص: 303
سید ابو الاعلی مودودی لکھتے ہیں:
یعنی اُن کے طعن و تشنیع، ان کے الزامات، ان کے بے ہودہ طرزِ کلام اور ان کی جھوٹی نشر و اشاعت کے مقابلہ میں بے صبر ہو کر تم ایسی باتوں پر نہ اتر آؤ جو صداقت و انصاف، وقار و تہذیب اور اَخلاقِ فاضلہ کے خلاف ہوں۔
مودودی، تفہیم القرآن، ج: 1، ص: 309
غیر ضروری مناظرات ہمیشہ سے علماے اسلام کے نزدیک ناپسندیدہ رہے ہیں کیونکہ اس سے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہوتے ہیں۔ امام غزالی نے ’اِحیاء علوم الدین‘ میں مناظرات کے فسادات پر مکمل ایک باب بھی تحریر کیاہے۔ آپ فرماتے ہیں:
واضح ہونا چاہیے کہ جو مناظرہ اس غرض کے لیے ہو کہ خود جیتنا اور دوسرے کو شکست دینا، لوگوں میں اپنے فضل و شرف، خوش تقریری اور فخر کو دکھلا کر اپنی طرف مائل کیا جائے تو ایسا مناظرہ اُن تمام عادتوں کا جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک نا پسندیدہ اور شیطان کے نزدیک اچھی ہیں اُن کا منبع ہوتا ہے۔ باطن کی برائیوں (یعنی کبر، حسد، مرض، شہرت و عہدہ کی محبت وغیرہ) کو اِس مناظرے سے وہ نسبت ہے جو ظاہر کی خرابیوں مثلاًــ بدکاری، گالی، قتل و چوری وغیرہ کو شراب پینے سے ہے۔ جیسے کوئی شخص شراب پینے کو چھوٹی بُرائی سمجھ کر پی جائے اور پھر نشہ کی حالت میں اس سے باقی خرابیاں بھی سر زد ہوں؛ بالکل اسی طرح جس شحص کے دل میں مناظروں کے ذریعے عوام الناس میں ایک فریق کی محبت کم کرنا اور اپنے فتح یاب ہونے سے شہرت اور عہدہ کی طلب حاصل کرنے کی خواہش ہوتی ہے تو یہ باتیں اس بات کی علامت ہیں کہ ہر طرح کی خباثتیں اس کے دل میں چھپی ہوئی ہیں اور گندی عادتیں اس کی شخصیت میں جمع ہیں۔
غزالی، احیاء علوم الدین، باب العلم، ص: 102
اگر آپ اس مناظراتی تبلیغ دین سے پیدا ہونے والے مسائل دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ حضرت دیدات کا Deedat's Encounter with Christian Missionaries کا مناظرہ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ مناظرہ کسی مسلمان کے گھر پر ہوا جس میں تبلیغِ مسیحیت کے لیے آئے ہوئے دو انگریز مسیحی مشنریوں سے حضرت دیدات کی ملاقات کروائی گئی تھی۔ اس مناظرے کی ابتدا کا دِل چسپ پہلو یہ تھا کہ انگریز مشنریوں کا موقف یہ تھاکہ دین اسلام کی حقانیت پر گفتگو سے آغاز کیا جائے جب کہ حضرت دیدات کا موقف یہ تھا کہ بائبل مقدس کی صحت و حقانیت پر گفت گو کا پہلے آغاز کیا جائے۔ دونوں فریقین حملے کرنے میں پہل کرنا چاہ رہے تھے کیونکہ کسی کے مذہب پر سوالات کے ذریعے حملہ کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے اور حملہ کرنے کے لیے موضوع پرعلمی دست رس کا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ یہ کام کم علمی و جہالت سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ بالخصوص فضول اور بے بنیاد سوالات کرنے کے لیے کسی علمی تحقیق کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔
جواب دینے کے لیے انسان کو علمی و فکری اعتبار سے مضبوط ہونا پڑتا ہے۔ اگر آپ کی ساری زندگی بائبل کو غلط کتاب ثابت کرنے پر لگی ہے اور اُس سے زیادہ وقت قرآن و سنت کی تعلیمات کو سمجھنے پر نہیں لگا تو آپ پھر حملہ آور کی پوزیشن سنبھالنے کو ترجیح دیں گے تاکہ گفت گو کا آغاز و اختتام دوسرے کے عقیدہ کو غلط ثابت کرنے پر ہی ہو اور اپنے عقیدہ و مذہب پر سوال و جواب کرنے کی مہلت بہت کم ملے تاکہ اپنی کم علمی کا بھانڈا بھی نہ پھوٹے۔
اس کے برعکس اگر آپ شیخ الا سلام کا ’مناظرہ ڈنمارک‘ دیکھیں تو آپ روایتی مناظراتی طرزِ گفت گو کے برعکس یہ دیکھیں گے کہ شیخ الاسلام نے مسیحی مشنریوں سے مخاطب ہوتے ہوئے گفتگو کا آغاز اس نکتہ سے کیا کہ وہ اگر اسلامی عقائد و نظریات کے حوالے سے (موضوع کی قید نہ لگاتے ہوئے) کوئی بھی سوال پوچھنا چاہیں تو پو چھ سکتے ہیں۔ یہ بظاہر تو عام سی بات لگتی ہے مگر یہ دعوت صرف وہی شخص دے سکتا ہے جس کی اپنے عقائد و نظریات پر گہری نظر ہو اور فکری و اضحیت کے ساتھ ساتھ دعوت و تبلیغ کے حکیمانہ پہلوؤں سے بھی پوری طرح آگاہ ہو۔
تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے بعد شیخ الاسلام نے مزید کسی سوال کی طلب نہ دیکھ کر پھر مسیحی مشنریوں سے بائبل کی صداقت و حقانیت پر گفتگو شروع کی۔ مختلف اَحباب کی جانب سے دیگر مذاہب کے علماء کے ساتھ ہونے والی گفت گو اور طرزِ اُسلوب کا موازنہ اگر آپ شیخ الاسلام کی تحریر و تقریر اور طرزِ اُسلوب سے کریں تو آپ بآسانی جان جائیں گے کہ شیخ الاسلام کی گفتگو میں دیگر اَحباب کی نسبت اَخلاقی رواداری اور صبر و تحمل کا اِظہار بہت زیادہ اور جابجا نظر آتا ہے اور اس طریق پر دعوتِ اِسلام کا حق بخوبی ادا ہوتا ہے۔ دیگر اَحباب اپنی گفت گو میں دلائل جیتنے کی کوشش میں نظر آتے ہیں مگر شیخ الاسلام کا طرزِ گفت گو دلائل کے ساتھ ساتھ دل جیتنے کی سعید کاوشوں کا مظہر ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved