شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اِسلام کے علم و دانش اور اَعلیٰ تصوراتی محاذوں کے خلاف حملوں کا مقابلہ مخاصمت یا غیض و غضب کی فضا میں نہیں بلکہ تعلیم و تعلم، علم دوستی اور منطق کو فروغ دے کر کیا ہے۔ ابھی گیارہ ستمبر کی مصیبت نہیں ٹوٹی تھی کہ انہوںنے اُس سے بھی قبل 13 اگست 1999ء کو اوسلو ناروے میں بین الاقوامی امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
So this is just mention of what is the significance of peace in Islam. Islam, from the very beginning to its end, is peace and nothing else. Anything detrimental to peace, anything damaging to peace, anything conflicting to peace, anything contradictory to peace, it has no, absolutely no, concern with Islamic teachings. And whosoever may be, if he has any kind of terroristic character, extremistic character, any character detrimental to the welfare of humanity, any character detrimental to the global peace, any character detrimental to the societal peace of mankind, that is absolutely anti-Islam to our faith.
یہ اسلام میں امن کی اہمیت کا بیان ہے۔ اسلام تو اوّل تا آخر امن ہے اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ جو چیز بھی امن کے لیے نقصان دہ، امن سے متصادم اور امن کی مخالف ہے اس کا اسلامی تعلیمات سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس کسی کا بھی رویہ دہشت گردی، انتہا پسندی، انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ضرر رساں ہو یا امن عالم اور انسانیت کے لیے تباہ کن ثابت ہو، وہ ہمارے عقیدے میں مکمل طور پر غیر اسلامی ہے۔
مسیحی مسلم مکالمہ کے فروغ کے لیے نہ صرف شیخ الاسلام نے عملی سطح پر کوششیں جاری رکھیں بلکہ دورِ حاضر کے اعتقادی اورفقہی تقاضوں کے عین مطابق اُمت کی راہنمائی کے لیے قرآن و سنت کی روشنی میں، اور پاکستان سے اعتقادی انتہا پسندی کے خاتمہ اور باہمی تعلقات کے فروغ کے لیے ’اِسلام اور اَہلِ کتاب‘ بھی تخلیق فرمائی۔
جولائی 2014ء میں شائع ہونے والی یہ کتاب اپنی ذات میں ایک مجتہدانہ کاوش ہے جس موضوع پر برصغیر پاک و ہند میں کوئی دوسری کتاب موجود نہیں۔ توحید اور شرک کے موضوع پر بھی یہ کتاب ایک مکمل باب کی حیثیت رکھتی ہے۔ سات ابواب اور تقریباً پانچ سو صفحات پر مبنی یہ کتاب انٹرفیتھ ڈائیلاگ اور مسلم مسیحی مکالمہ میں مصروف مسلمان اور مسیحی اَہلِ علم دونوں حضرات کے لیے مشعلِ راہ ہے، جس سے ہر کوئی اپنی اپنی قابلیت کے مطابق فائدہ اُٹھا رہا ہے۔
بین المسالک ہم آہنگی و بین المذاہب رواداری کے فروغ اور اِنتہا پسندی و دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے درجنوں کتب تحریر کی ہیں اور ملکی و بین الاقوامی سطح پر بے شمار لیکچرز و خطابات deliver کیے ہیں۔ ان کی تفصیلات کے بیان کے لیے کئی دفتر درکار ہوں گے۔
دسمبر 2001ء میں ماہ نامہ ’منہاج القرآن‘ میں شائع ہونے والے آپ کے خصوصی انٹرویو میں آپ نے دہشت گردی کے بارے میں فرمایا:
بے گناہ انسانوں کا قتل دہشت گردی ہے۔ اِسی طرح اِنسانی اَملاک کو تباہ کرنا، اِنسان خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، کسی بھی مذہب کے لوگ ہوں جو پر اَمن ہوں، جو جنگ میں آپ کے خلاف شریک نہ ہوں اُن کا تعلق خواہ کسی بھی ملک کے ساتھ ہو اور ملک بے شک آپ کے ساتھ جنگ کی حالت میں کیوں نہ ہو مگر وہ عوام جو جنگ میں ملوث نہیں ہیں، اُن کو قتل کرنا، بوڑھوں، بچوں اور بیماروں کو مارنا، عبادت گاہوں، ہسپتالوں اور دیگر جگہوں پر بم دھماکے کرنا، عام زندگی میں خلل ڈالنا، دوسروں کی جان و مال اور عزت کے لیے انہیں ہراساں کرنا، نظامِ زندگی کو درہم برہم کرنا، دنگا فساد، گھیراؤ کی دھمکی دینا اور دھمکیوں کے ساتھ ہڑتالیں کروانا، سکیورٹی کو خطرے میں ڈال دینا۔ دوسروں کے مذہب پر حملہ کرنا، ان کی آزادی پر حملہ خواہ وہ کسی بھی نام پر ہو، یہ دہشت گردی ہے۔ اور جو ان کا اِرتکاب کرے وہ دہشت گرد ہے۔
خصوصی انٹرویو، صفحہ نمبر: 42-43، ماہنامہ منہاج القرآن، دسمبر 2001ء
مؤرّخہ 27 جولائی 2005ء کو برطانیہ کے شہر گلاسکو میں انہوں نے ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دہشت گردوں کے بارے میں فرمایا:
دہشت گردی اور دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، وہ نہ تو مسلمان ہیں اور نہ یہودی، نہ عیسائی۔ وہ کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔ دہشت گردی مذہب سے بے گانہ ہے بلکہ یہ خود ایک مذہب، کلچر اور طرزِ عمل کی صورت اِختیار کرچکی ہے۔ یہ کسی آسمانی نازل شدہ مذاہب پر کوئی یقین نہیں رکھتی۔ قرآن مجید ان فتنہ پروروں کو مسلمان تسلیم نہیں کرتا۔ وہ نسلِ انسانی کے دشمن ہیں۔ باوجود اپنے طریقے، مذہب معاشرے یا زبان کے اسے مسلمان تصور نہیں کیا جاسکتا۔
ایک اور انٹرویو میں شیخ الاسلام نے جہاد اور دہشت گردی میں فرق واضح کرتے ہوئے فرمایا:
جہاد اور دہشت گردی کا آپس میں کوئی تعلق نہیں اور کوئی بھی قدرِ مشترک نہیں ہے بلکہ جہاد تو دہشت گردی کے خاتمے کا نام ہے۔ جہاد بالقتال کا ایک مقصد دہشت گردی کا خاتمہ بھی ہے۔ جہاد کی اَز روئے شرع پہلی شرط یہ ہے کہ ایک باقاعدہ اِسلامی حکومت کی طرف سے اس کا اِعلان ہونا چاہیے۔عوام یا کوئی فردِ واحد، کوئی عالمِ دین، یا کسی جماعت کا سربراہ اَز خود اُمتِ مسلمہ کے لیے جہاد کا اِعلان نہیں کر سکتا۔ اِحتجاجی تحریک یا ہڑتال کا اعلان کر سکتا ہے، دھرنا دے سکتا ہے مگر جہاد ایک ایسا فریضہ ہے جس کا اِعلان کسی جماعت کا سربراہ یا فردِ واحد ہرگز نہیں کر سکتا۔
خصوصی انٹرویو، صفحہ نمبر: 42-43، ماہنامہ منہاج القرآن، دسمبر 2001ء
اسی انٹرویو میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
خود کش حملے ہر گز جہاد نہیں ہیں۔ یہ اُس وقت ہوتا ہے جب حالات بہت زیادہ سنجیدہ اور کشیدہ ہوں۔ مثال کے طور پر 1965ء میں ہمارے ملک پر بھارت نے جنگ مسلط کر دی۔ جب اس کے ٹینک آگے آئے اور ملک فتح کرنے دشمن کی فوج داخل ہو رہی تھی اور ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا تو فوجی قیادت نے فیصلہ کیا کہ اُسے اِس طریقے سے روکا جائے، ملک بچانے کے لیے یہ قربانی اور شہادت بنتی ہے۔ چونکہ وہ عمل بنیادی طور پر جہاد تھا اور ملک کا دفاع ہو رہا تھا، بصورتِ دیگر یہ قطعاً جہاد کے زمرے میں نہیں آتا۔
ایضاً
پاک فوج کے شہیدوں کے سر قلم کرکے اُن سے فٹ بال کھیلنا ایک شیطانی عمل تو ضرور ہے مگر نہ تو یہ اسلام کا تصورِ جہاد ہے اور نہ ہی دورِ جدید کی جنگی اَخلاقیات۔ اِس کی شدید مذمت کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں:
موجودہ قتل و غارت گری کو نہ تو جنگ کا نام دیا جا سکتا ہے اور نہ جہاد کا کیونکہ نہ صرف اِسلام بلکہ آج کی متمدن دنیا نے بھی جنگ کے کچھ اُصول وضع کر رکھے ہیں جن میں سفاکی، بربریت اور پُرامن شہریوں پر اندھی بم باری کی قطعاً گنجائش نہیں۔ جب کہ اسلام نے تو جہاد کے ایسے زرّیں اُصولوں سے دنیا کو رُوشناس کرایا ہے جن کی نظیر پوری تاریخِ اِنسانی میں نہیں ملتی۔ وہ کیسے اِنسان ہیں جن کے دل اِنسانیت سے یکسر خالی ہو چکے ہیں اور اُنہیں کسی بین الاقوامی اُصول اور قانون کی پروا نہیں رہی! یہ کیسے مسلمان ہیں جو نہ صرف اِسلامی جہاد کی شرائط اور ضابطوں بلکہ اِسلام کی جمیع تعلیمات کو پامال کرتے اور بے گناہ مسلمانوں کا خون بے دریغ بہاتے جا رہے ہیں لیکن خود کو ’مسلمان مجاہد‘ کہلوانے پر مصر ہیں! موجودہ حالات میں اَہلِ وطن چکی کے دو پاٹوں میں پِس رہے ہیں۔ ایک طرف یہ اِنتہا پسند دہشت گرد ہیں جو مخالفین کا خون مباح قرار دے چکے ہیں۔ مساجد کو شہید کرنے، نمازیوں کے خون سے مساجد کے در و دیوار رنگنے، مزارات کی بے حرمتی کرنے اور انہیں شرک کے اڈے قرار دے مسمار کرنے میں مصروف ہیں۔ اپنے اِنتہا پسندانہ نظریات کے باعث سرکاری اسکولوں کو غیر اِسلامی تعلیم کے مراکز قرار دے کر انہیں گرانے اور اساتذہ کو قتل کرنے میں لگے ہیں۔ 2006ء سے 2009ء تک سیکڑوں اساتذہ اور طلباء کو قتل کر دیا گیا اور سیکڑوں اسکولوں کو جلایا اور گرایا جا چکا ہے۔ حتی کہ سرکاری عمارات اور پبلک مقامات پر خودکش حملوں کے نتیجے میں ہزارہا سرکاری اہلکار اور بے گناہ شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اِس وحشت و بربریت پر ہر محب وطن شہری کا دل فگار اور آنکھیں اَشک بار ہیں۔
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، دہشت گردی اور فتنہِ خوارج، ص:581
فی زمانہ اِسلام کے تصورِ جہاد کو خلط مبحث کردیا گیا ہے۔ شیخ الاسلام نے اِس تصور پر پڑی تشکیک اور الزامات کی گرد کو صاف کرتے ہوئے اس کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ جہاد کے موضوع پر اپنی زیر طبع ضخیم کتاب میں لکھتے ہیں:
اِسلام کی آفاقی اور ہمہ جہت تعلیمات کا دائرہ کار انسانی زندگی کے اِنفرادی اور اِجتماعی، ہر شعبہِ حیات کو محیط ہے۔ اِن تعلیمات کا مقصود ایک متحرک، مربوط اور پُراَمن انسانی معاشرے کا قیام ہے۔ اسلام نے اجتماعی اور ریاستی سطح پر قیام اَمن (establishment of peace)، نفاذِ عدل (enforcement of justice)، حقوقِ انسانی کی بحالی (restoration of human rights) اور ظلم و عدوان کے خاتمہ کے لیے جہاد کا تصور عطا کیا ہے۔ جہاد دراصل انفرادی زندگی سے لے کر قومی، ملی اور بین الاقوامی زندگی کی اِصلاح کے لیے عملِ پیہم اور جہدِ مسلسل کا نام ہے۔
بدقسمتی سے دنیا کے مختلف حصوں میں اِسلام اور جہاد کے نام پر ہونے والی انتہا پسندانہ اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی وجہ سے عالمِ اسلام اور عالم مغرب میں آج کل تصورِ جہاد کو بہت حد تک غلط سمجھا گیا ہے۔ جہاد کاتصور ذہن میں آتے ہی خوں ریزی اور جنگ و جدال کا تاثر اُبھرتا ہے۔ کیونکہ بدقسمتی سے فی زمانہ جہاد کے نظریے کو نظریہ امن اور نظریہ عدم تشدد کا متضاد سمجھا جاتا ہے۔ مغربی میڈیا میں اب لفظِ جہاد کو قتل و غارت گری اور غیر مسلموں کے ساتھ لڑنے کے متبادل کے طور پر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
آج کل عالم اسلام یا غیر اسلامی دنیا میں سے جو بھی جہاد کا نام سنتا ہے اس کے سامنے ایک ایسا تصور اُبھرتا ہے جس میں اِشاعتِ اِسلام اور قیامِ خلافت کے نام پر مسلمان غیر مسلموں کو قتل کرتے ہوئے، فتنہ و فساد پھیلاتے ہوئے، خون خرابہ کرتے ہوئے اور انسانی معاشروں کو مختلف طبقات میں تقسیم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ اَساسی اور بنیادی طورپر جہاد ایک ایسی پراَمن، تعمیری، اخلاقی اور روحانی جد و جہد (ethical & spiritual struggle) ہے جو حق و صداقت اور انسانیت کی فلاح کے لیے حرکت میں آتی ہے۔ ابتدائً اس جد و جہد کو جنگی معرکہ آرائی اور مسلح ٹکراؤ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ جد و جہد اُصولی بنیادوں پر صرف ایسے ماحول کا تقاضا کرتی ہے جس میں ہر شخص کا ضمیر، زبان اور قلم اپنا پیغام دلوں تک پہنچانے میں آزاد ہو؛ لیکن جب اَمن دشمن طاقتیں علم و عقل کی رہنمائی سے محروم ہوکر مقابلہ پر آجائیں اور اجتماعی اَمن و سکون اور نظم و نسق کے خلاف تباہ کن سازشیں اور علی الاعلان جنگی تدابیرکرنے لگیں تو ایسے وقت میں جہاد کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ امن وسلامتی کے دشمنوں اور ان کے تمام جنگی مراکز کے خلاف مسلح جد و جہد کی جائے تاکہ اَمن و آشتی کے ماحول کو بحال کرکے خیر و فلاح پر مبنی معاشرہ قائم کیا جا سکے۔
ایک اور مقام پر آپ نے طالبان کے ہاتھوں مہاتما بدھ کے مجسموں اور اس بین الاقوامی ثقافتی ورثے کی تباہی پر اِن الفاظ میں مذمت فرمائی:
وہ غلط اِقدام تھا، رواداری کے خلاف تھا۔ وہ کون سی مسجدمیں پڑا تھا یا اُس کی پوجا ہوتی تھی! یہ تو ان کا مذہبی ورثہ تھا اور اس طرح کی چیزیں پوری دنیا میں موجود ہیں۔ اگر ہم اِس طرح کریں گے تو ہماری مسجدیں بھی تو پوری دنیا میں ہیں، وہ ان کو گرا دیں گے۔ اِس ضمن میں فتحِ مکہ کے وقت خانہ کعبہ میں بت توڑے جانے کی مثال کے ساتھ نسبت ہرگز قائم نہیں کی جاسکتی۔
خصوصی انٹریو، صفحہ نمبر:42-43، ماہنامہ منہاج القرآن، دسمبر 2001ء
مکالمہ بین المذاہب کے لیے تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام کی کوششوں سے ہر شخص باخبر اور آگاہ ہے۔ اِس ضمن میں باقاعدہ کاوش کا آغاز نوے (1990ئ) کی دہائی میں ہوا جب مسیحی مسلم گول میز کانفرس کا انعقاد کیا گیا۔ اِس کے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض کی ذمہ داری راقم الحروف کے حصہ میں آئی۔ 9 نومبر 1998ء کو پاکستان میں موجود عیسائی آبادی کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے اور ان کے دل سے اِحساسِ محرومی ختم کرنے کے لیے تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر مسلم کرسچن ڈائیلاگ فورم (MCDF) کا قیام عمل میں لایا گیا۔
شیخ الاسلام مدظلہم کی مکالمہ بین المذاہب کے حوالے سے کوششوں کا اَحوال بیان کرتے ہوئے تنویر احمد خان لکھتے ہیں:
مسلم کرسچن ڈائیلاگ فورم (MCDF) کا اِجلاس پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی سیکرٹریٹ میں چیئرمین PAT ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زیرِ صدارت منعقد ہوا جو تقریباً چار گھنٹے جاری رہا۔ اِجلاس میں بشپ سموئیل عزرائیہ، بشپ اینڈریو فرانسس اور پوپ جان پال دوم کے مشیر برائے ایشیاء فادر جیمز چنن اوپی سمیت پچیس بشپ لیڈروں، فادرز اور پادریوں نے عیسائیوں کی نمائندگی کی۔ یہ ایک حوصلہ افزا بات تھی کہ پچیس اَفراد کے وفد میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونوں شامل تھے جب کہ پچیس مسلمان نمائندے شامل تھے۔ اِجلاس میں اِسلام اور پاکستان کے آئین کے مطابق اَقلیتوں کے حقوق دینے پر بحث ہوئی اور بین المذاہب رواداری، اِنتہا پسندانہ رجحانات کے خاتمے، تشدد سے نفرت اور اس پر بات ہوئی کہ اَقلیتیں پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اِجلاس میں اِس بات پر بھی بحث ہوئی کہ مسلم کرسچن ڈائیلاگ فورم کے پیغام کو پاکستان کے چاروں صوبوں اور اسلام آباد سمیت بیرونی دنیا میں کیسے پہنچایا جائے۔ اور پاکستانیت کی بنیاد پر اَقلیتوں کے تحفظات کو ختم کر کے یکجہتی کا ماحول پیدا کیا جائے تاکہ پاکستان کی ترقی میں تمام مذاہب کے لوگ یکساں طور پر شریک ہوسکیں۔ انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومتوں نے اقلیتوں کے تحفظ کا کامل احساس نہیں کیا، اس لیے ہم نے ضرورت محسوس کی کہ ’مسلم کرسچن ڈائیلاگ فورم‘ تشکیل دیا جائے۔ طے پایا کہ MCDF کی سنٹرل ایگزیکٹو تیس افراد پر مشتمل ہوگی جس میں پندرہ کرسچن اور پندرہ مسلم ہوں گے۔ سنٹرل ایگزیکٹو کونسل کے اندر ورکنگ گروپ بنایا گیا جو پرگراموں کی تشکیل، ایگزیکٹو کے ایجنڈے اور نفاذ کو دیکھے گا۔ ورکنگ گروپ میں تین افراد مسلم اور تین عیسائی برادری سے لیے گئے۔ MCDF کی سطح پر خواتین کے ذریعے ویمن انٹرفیتھ گروپ تشکیل دیا گیا ہے جو بین المذاہب رواداری پیدا کرنے کے لیے کام کرے گا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ اکتوبر میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی ’مسلم کرسچین PEACE واک‘ ہوگی جو مال روڈ لاہور میں ہوگی۔ واک میں علما، لیڈر اور نمائندے دونوں مذاہب سے شامل ہوں گے۔ اس میں مسلمان عالم اور کرسچن فادر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلیں گے اور اظہارِ یکجہتی کیا جائے گا۔ اِسی طرح خواتین، خواتین کے ساتھ اور بچے بچوں کے ساتھ چلیں گے۔ چھ جنوری کو MCDF کے تحت عید الفطر اور کرسمس فیسٹیول کا ’جوائنٹ سیلی بریشن (joint celebration)‘ ہوگا۔ اس سے پہلے کامن ایشوز پر ’راؤنڈ ٹیبل کانفرنس‘ ہوگی جس میں جن ایشوز پر تحفظات ہیں ان پر بحث کی جائے گی۔ اس میں پورے پاکستان سے اسکالرز اور لیڈرز آئیں گے اور دونوں مذاہب کے پچاس لیڈر شریک ہوں گے۔ اس کی تاریخ ورکنگ گروپ دے گا۔‘
ایک مشترکہ اعلامیہ مسلم کرسچن ڈائیلاگ فورم کے دوسرے اجلاس کے نتیجے میں سامنے آیا جو یہ ہے:
ملک میں MCDF کا قیام مسلم عیسائی ہم آہنگی میں اضافہ کا باعث ہے۔ MCDF طاغوتی طاقتوں کی دنیا بھر میں نفرت پھیلانے اور طبقاتی جنگ کو ہوا دینے کی کارروائیوں کی شدید مذمت کرتا ہے۔ MCDF عہد کرتا ہے کہ وہ اَمن، بھائی چارے، اَخلاقیات اور باہمی میل جول کے فروغ کے لیے مشترکہ ایجنڈے پر کام کرے گا جو کہ قرآن اور مقدس بائبل کے ذریعے آنے والے آسمانی پیغام میں دیا گیا ہے۔
MCDF عہد کرتا ہے کہ وہ پاکستان میں لوگوں کے درمیان تقریق ختم کرنے اور انہیں سیاسی، سماجی، معاشی اور مذہبی میدان میں برابر کے مواقع فراہم کرنے کے لیے کوشاں رہے گا۔ MCDF عہد کرتا ہے کہ وہ مقاصد کے حصول کے لیے درکار کمیٹیوں کو تشکیل دے گا۔ MCDF مسلم اور عیسائی مذاہب کے لوگوں کی ایک دوسرے کی تقاریب اور خوشی کے موقعوں میں اس غرض سے شرکت کی اہمیت تسلیم کرتا ہے کہ اس سے انسانوں کے درمیان بھائی چارے اور سا لمیت کا قیام پورے سال برقرار رہتا ہے۔ MCDF رہنماؤں کی جانب سے درج بالا نکات کو کھلے دل سے ماننے اور ان پر عملی اقدامات اور ان کی ترویج کے لیے کی جانے والی کوششوں کو بھی تسلیم کرتا ہے۔ MCDF ڈاکٹر طاہرالقادری کی کوششوں کو تسلیم کرتا ہے اور ساتھ ہی علماء و مشائخ اور مسلم دانش وروں کی دعاؤں اور کوششوں کو بھی سراہتا ہے۔ MCDF برابر طور پر پوپ جان پال دوم کے نمائندے فادر جیمز چنن اوپی کی اجلاس میں موجودگی کو سراہتا ہے جنہوں نے فورم کے ذریعے کی جانے والی کوششوں کے لیے پوپ جان پال دوم کی نیک خواہشات بھی پہنچائی ہیں۔ MCDF خصوصاً ڈاکٹر بشپ اینڈریو فرانسس کا ممنون ہے جنہوں نے اپنے آمدہ دورہِ اَقوامِ متحدہ کے دوران MCDF کی کوششوں کی ترویج کی یقین دہانی کروائی ہے۔ یہ کہ MCDF کی ابتدائی کمیٹی وہ ہوگی جو مال روڈ لاہور پر ایک مارچ کی تیاری کرے گی جس میں دونوں مذاہب کے شرکا کی بھاری تعداد میں موجودگی مذاہب کی باہمی ہم آہنگی کے پیغام کے لیے اَز بس ضروری ہے۔
لسانی، علاقائی اور مذہبی تعصبات سے نفرتوں اور دلوں کی بھڑک اٹھنے والی آگ کے ماحول میں مسلم کرسچن ڈائیلاگ فورم کا قیام ایک تاریخی قدم اور قربت کی ضرورت کی تکمیل کا قابلِ ستائش مظاہرہ ہے۔ چیئرمین MCDF کے قیام اور اس کے ذریعے سے معاشرے میں پائی جانے والی کشیدگیوں کو کم کرنے کی اس کاوش پر عوامی تحریک کی ہمت بندھانی چاہیے بلکہ ان کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر تاثر پیدا کرنا چاہیے کہ اسلام برداشت، رواداری اور حقوق کا دین ہے۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ رہنے والی اقلیتوں کو بھی زندگی کے وہی حقوق دیتا ہے جو مسلمان شہریوں کو دیتا ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جہاں اپنے آپ کو ایک منجھے ہوئے سیاست دان کے طور پر منوایا ہے، اس سے کہیں پہلے وہ ایک مستند اور فرقہ وارانہ آلائشوں سے پاک عالم دین اور مسلم اسکالر ہیں۔ مذہبی علماء کے بارے میں تنگ نظری اور دوسروں کو قبول و برداشت نہ کرنے کا جو تاثر پایا جاتا ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری نے اس سے یکسر مختلف اور قابلِ تحسین طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ مسلم کرسچن ڈائیلاگ فورم کا قیام بذاتِ خود جہاں ڈاکٹر طاہرالقادری کی ذہنی اور قلبی وسعت کا مظہر ہے وہیں عیسائی اَقلیت کے لیے تحفظ، مساوات اور رواداری کا پیغام بھی ہے، جس سے معاشرے میں مجموعی طور پر مثبت اور ہم آہنگی کی اقدار کو فروغ ملے گا۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے مذہبی اور سیاسی قیادتوں کے ہزار اِختلافات اپنی جگہ لیکن اِس وقت جب ہمیں دہشت گرد اور اِنتہا پسند کہا جا رہا ہے، ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ہم سب مل کر عالمی سطح پر اِسلام کے بارے میں پیدا ہونے والے یا پیدا کیے جانے والے غلط نظریات کی اِصلاح کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔‘(1)
(1) مسلم کرسچن ڈائیلاگ فورم، تنویر احمد خان، ص:42، ماہنامہ منہاج القرآن، ستمبر 2000ء
15 مارچ 2002ء کو مسلم کرسچن ڈائیلاگ فورم کے تحت چالیس اَفراد کا وفد شیخ الاسلام سے ملنے تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ آیا۔ اس موقع پر مسیحیوں کے لئے جامع مسجد منہاج القرآن کے دروازے کھول دیے گئے اور انہیں سنتِ نبوی پر عمل کرتے ہوئے مسجد میں اپنے طریقے سے عبادت کرنے کی اجازت دی گئی۔ شیخ الاسلام نے مسیحیوں کو سنتِ نبوی کے عین مطابق منہاج القرآن کی جامع مسجد کے اندر عبادت کرنے کی اجازت دے کر ایک فقید المثال قدم اٹھایا۔ یہ جرات مندانہ علامتی اظہار اس بات کا غماز تھا کہ عیسائیوں کو عبادت کرنے کی آزادی کا حق تسلیم شدہ ہے اور وہ اسلامی مذہب کے ماننے والوں سے دوستی کا رشتہ استوار کر سکتے ہیں۔ اسی موقع پر وفد میں شریک عیسائی مبلغ - بشپ انڈریو فرانسس چیئرمین کرسچن کوآرڈینیشن کونسل - نے شیخ الاسلام کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا:
آج برصغیر اور پاکستان کی تاریخ کا اہم دن ہے کہ ایک مسلم عالم نے عیسائی برادری کے افراد کو خوش آمدید کہا ہے۔ اس جیسی کسی اور مثال کا ملنا ممکن نہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے ہمارے لیے منہاج القرآن مسجد کے دروازے کھول دیے ہیں اور اس طرح بین المذاہب تعلقات کا ایک نیا باب رقم کیا ہے۔
فروغِ امن اور بین المذاہب مکالمہ کے ضمن میں جاری کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے مختلف مسیحی تنظیموں کی طرف سے شیخ الاسلام کو اَمن ایوارڈز بھی دیے گئے ہیں۔
جذبہ خیر سگالی کے تحت بین المذاہب رواداری کے فروغ کے لیے نہ صرف دیگر مذاہب کے مختلف پروگراموں میں شرکت کی جاتی ہے بلکہ انہیں بھی تحریک منہاج القرآن کے پروگراموں میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔ اس سے دیگر مذاہب کے نام لیواؤں کو اِسلام اور اَہلِ اِسلام کی رواداری اور حسنِ سلوک کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
شیخ الاسلام کی اَمن اور برداشت کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ تحریک منہاج القرآن کی طرف سے پاکستان میں بالخصوص باقاعدگی کے ساتھ ایسے اجتماعی پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں، جن سے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان تحمل و برداشت اور رواداری کو فروغ ملے اور مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی فضا پیدا ہو۔
کرسمس مسیحیوں کا عظیم تہوار ہے، اس موقع پر شیخ الاسلام کی طرف سے ہر سال نمایاں مسیحی شخصیات اور تنظیموں کو کرسمس کارڈ بھجوائے جاتے ہیں، جو بذاتِ خود مسلمان عالم دین کی طرف سے ایک عظیم مثال ہے۔ اسی طرح تحریک منہاج القرآن کے دنیا بھر میں موجود مراکز پہ کرسمس کا تہوار منایا جاتا ہے، جہاں مقامی بشپس اور دیگر نمایاں مسیحی شخصیات کو مدعو کیا جاتا ہے۔
اِسی طرح ہندو اور سکھ برادری کے مختلف تہواروں میں شرکت کرکے انہیں اِسلام کا آفاقی پیغام پہنچایا جاتا ہے اور انہیں مختلف پروگراموں میں شرکت کی دعوت بھی دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ہر سال مینارِ پاکستان کے سبزہ زار میں منعقد ہونے والی عالمی میلاد کانفرنس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے بھرپور شرکت کرکے پیغمبر رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اَمن و باہمی رواداری پر مبنی تعلیمات کا قریب سے مشاہدہ کرتے ہیں۔ تحریک منہاج القرآن کی انہی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ گرجا گھروں میں بھی محافلِ میلاد کا انعقاد کیا گیا ہے۔ فروری 2010ء میں لاہور بپٹسٹ چرچ میں میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مسلم و مسیحی برادری کے کثیر اَفراد نے شرکت کی۔
بین المذاہب رواداری کے فروغ کے لیے اِس طرح کے مشترکہ پروگرامز کا اِنعقاد اور ان میں شرکت ایک معمول ہے۔
توہین آمیز خاکوں کی اِشاعت پر حکم قرآنی(1) کے تحت صبر و تحمل کے ساتھ ساتھ مؤثر و مہذب اِحتجاج کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
(1) سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 186 میں ارشاد ہوتا ہے:
{لَتُبْلَوُنَّ فِيْ اَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْقف وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَکُوْا اَذًی کَثِيْرًاط وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ}
(اے مسلمانو!) تمہیں ضرور بالضرور تمہارے اموال اور تمہاری جانوں میں آزمایا جائے گا اور تمہیں بہر صورت ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور ان لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سے اذیت ناک (طعنے) سننے ہوں گے، اور اگر تم صبر کرتے رہو اور تقویٰ اختیار کیے رکھو تو یہ بڑی ہمت کے کاموں سے ہےo
ہم تمام مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اِسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ضبطِ نفس کا مظاہرہ کریں اور اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں۔ ہم کسی جارحانہ اِقدام اور کسی ایسے ردِ عمل کو تسلیم نہیں کرتے جس کی اسلام اِجازت نہیں دیتا۔ مثال کے طور پر معاہدوں کی منسوخی یا سفارت خانوں پر حملے اور بے گناہ عوام یادیگر مقامات کو نشانہ بنانے کے اِقدامات۔ اِس طرح کا پر تشدد ردِ عمل ہماری عدل و اِنصاف پر مبنی اپیل کو بے اثر کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں دنیا بھر میں ہونے والے مذاکرے اور اس اہم معاملے پر عالمی سطح پر ہونے والے تبادلہ خیال سے خارج بھی کر سکتا ہے۔ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے روگردانی کر کے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشن کی کوئی خدمت نہیں کر سکتی۔
اہانت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے مشترکہ اعلامیہ، ص:26، ماہنامہ منہاج القرآن، مارچ 2006ء
ہر وہ شخص جس نے توہین آمیز خاکوں کے ایشو پر اسلام آباد اور بالخصوص لاہور میں ہونے والے اِحتجاج کو اپنی یا ٹی وی کی آنکھوں سے دیکھا ہے، وہ اِس اِحتجاج کے نام پر طوفانِ بدتمیزی کے بپا ہونے والے پس منظر میں مندرجہ بالا بیان کی اَہمیت کو بخوبی سمجھ سکتا ہے۔
سب تعریفیں اللہ رب العزت کے لئے اور لاکھوں درود و سلام سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آپ کی آل اور اَصحاب پر۔
ڈنمارک میں ہونے والے ان واقعات کو کسی طرح بھی قبول نہیں کیا جاسکتا جن میں اِہانتِ رسول کا ارتکاب کیا گیاہے اور ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس سے پوری امت مسلمہ کی دل آزاری ہوئی ہے اور اقوام عالم کے مابین اصلاحِ احوال کے اعلیٰ ترین مقصد کے حصول کے لئے اس قرآنی حکم سے رو گردانی کی گئی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اور ہم نے تمہیں قبائل اور اقوام کی صورت میں اس لئے پیدا فرمایا تاکہ تم ایک دوسرے کو جان لو۔
اس صورت حال کے پیش نظر ہم درج ذیل اقدامات کی توثیق کرتے ہیں:
اللہ رب العزت سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمیں توفیق عطا کرے کہ ہم وہ کام سرانجام دے سکیں جس سے اس کو محبت ہے اور جو اسے بے حد پسند ہے۔ (آمین)
اِس تاریخی اِعلامیہ پر سعودی عرب، جامعہ ازہر (قاہرہ)، یمن، عراق، عمان، متحدہ عرب امارات، لبنان، اُردن، شام، مراکش، انڈونیشیا، فلسطین، کویت، امریکہ، فرانس، بیلجیم، ایران، پاکستان اور بھارت سے کثیر اسلامی اسکالرز، مفتیان عظام اور شیوخ کرام نے دست خط کیے۔
2012ء میں ایک گستاخانہ فلم منظر عام پر آئی، جس سے نہ صرف مسلمانوں بلکہ دنیا بھر کے اَربوں اَمن پسند اِنسانوں کے جذبات مجروح ہوئے۔ پوری دنیا کے مسلمانوں نے اِس طرزِ عمل اور گستاخانہ اِقدامات کی اپنے اپنے انداز میں مذمت کی اور بھرپور اِحتجاج کیا۔
اِسی تناظر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اِحترامِ مذاہب کے حوالے سے UN اور OIC سمیت پوری دنیا کے ممالک کے سربراہان کو تاریخی مراسلہ لکھا، جس میں اُنہوں نے باور کرایا کہ کسی بھی مذہب کی ذواتِ مقدسہ کے خلاف توہین آمیز اِقدامات سے نہ صرف اَمنِ عالم تباہ ہوگا بلکہ دہشت گردی و اِنتہاء پسندی کے خلاف کی جانے والی کاوشوں کو بھی شدید دھچکا پہنچے گا۔ اُنہوں نے مختلف ممالک کے قوانین کے حوالے دیتے ہوئے یہ بات ثابت کی ہے کہ ایسے گستاخانہ اِقدامات کسی بھی لحاظ سے freedom of speech یا freedom of expression کے زُمرے میں ہرگز نہیں آتے۔ لہٰذا جب تک اِن شرانگیز اِقدامات کو روکنے کے لیے مؤثر قانون سازی نہیں کی جائے گی اور redefining of basic principles کا عمل نہیں ہوگا اُس وقت تک دہشت گردی کا قلع قمع اور پائیدار اَمنِ عالم کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
یہ مراسلہ انگریزی، عربی، اُردو اور نارویجن زبانوں میں چھپ بھی چکا ہے۔
عالمی سطح پر گستاخانہ فلموں اور خاکوں کی تسلسل کے ساتھ اشاعت کے خلاف 5 اکتوبر 2012ء کو ملک بھر میں ’یومِ عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘ کے طور پر منا نے اور پر امن احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ ہوا۔ ملک بھر کی ڈیڑھ سو سے زائد مذہبی، سیاسی، سماجی اور مختلف شعبہ ہاے زندگی سے تعلق رکھنے والی تنظیمات اور ایسوسی ایشنز کے رہنماؤں نے تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام ’عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس‘ میں شرکت کی اور درج ذیل مشترکہ اِعلامیہ جاری ہوا:
مسٹر باراک حسین اوبامہ صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ وائٹ ہاؤس کے نام خط میں شیخ الاسلام مدظلہ العالی نے لکھا:
دنیا بھر کی مسلمان اقوام اور حکومتیں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف متحد ہو رہی ہیں۔ کئی دہائیوں سے متعدد تنظیمیں اور کئی رہنما لگاتار جدوجہد میں مصروف ہیں۔ میری تنظیم منہاج القرآن انٹرنیشنل بھی گزشتہ تیس سالوں سے عالمی امن کی بحالی کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ ہم بین المذاہب ہم آہنگی اور مختلف معاشروں کے مابین وحدت کے فروغ کے لئے شب و روز مصروفِ عمل ہیں۔ سال رواں (یعنی 2010ئ) کے آغاز میں، میں نے اپنی چھ سو صفحات پر مشتمل کتاب ’دہشت گردی اور فتنہ خوارج کے خلاف مبسوط تاریخی فتویٰ‘ لانچ کیا۔ جس میں یہ ثابت کیا کہ اگر کوئی مسلمان دہشت گردی کا ارتکاب کرے تو وہ مسلمان نہیں رہتا اور دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ یہ دہشت گردوں پر ایک ایسا براہ راست حملہ ہے، جو اُن کی مجرمانہ فکر کی دھجیاں بکھیر دیتا ہے۔ میں نے ان کے نظریات کو ’ایک قدیم برائی کا نیا روپ‘ قرار دیا ہے اور اسے ایک ’مذہبی سرطان‘ کا نام دیاہے۔اس فتویٰ نے خودکش حملوں ، جہاد اور اسلام میں غیرمسلموں کے حقوق سمیت بہت سارے تصورات کو واضح کیا ہے جنہیں دہشت گرد غلط انداز میں پیش کرتے تھے اور سادہ لوح نوجوانوں کو ورغلانے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ یہ فتویٰ دنیا بھر میں مسلمان نوجوانوں میں انتہا پسندی کی بیخ کنی کی بنیاد بن رہا ہے۔ مگر ڈر اس بات کا ہے کہ ہم نے فتویٰ کے ذریعے جو نتائج حاصل کئے ہیں، ’قرآن جلاؤ دن (Burn Quran Day)‘ جیسا ایک واقعہ ان کو زائل کر دے گا اور دیگر ممالک، تنظیموں اور رہنماؤں کی انسداد دہشت گردی کی جد و جہد کو شدید دھچکا لگے گا اور انتہا پسندی و دہشت گردی کے خلاف جد و جہد کئی سال پیچھے جا پڑے گی۔
میرے خیال میں یہ ناگزیر ہو گیا ہے کہ وہ اَفراد جو ڈیڑھ اَرب مسلمانوں کی دل آزاری کے درپے ہیں اور تہذیبی نزاع کے فروغ کے لئے کام کر رہے ہیں، ان تک یہ پیغام واضح انداز میں پہنچا دیا جائے۔
ہم آپ سے پُرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ پہل قدمی کریں اور ذاتی طور پر مداخلت کرکے ’قرآن جلاؤ دن‘ کی مذموم سازش کو ناکام بنا دیں۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ عالمی امن کا تحفظ کرے، جس کے لئے بہت سے لوگ، ادارے اور ممالک کوشاں ہیں۔
مجھے اُمید ہے کہ معاشروں کے درمیان نفرت اور تقسیم ختم کرنے کی کوششیں کامیاب ہوں گی، مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے والے ہی سرفراز ہوں گے اور مغربی دنیا اور اسلام کے مابین یگانگت، مفاہمت، وحدت، امن و آشتی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے قیام کو کوئی بھی نہیں روک سکے گا۔
اِنسانیت کے سامنے دینِ اَمن و رحمت کو حقیقی تعلیمات کے ساتھ پیش کرنے میں جو لوگ عالمی سطح پر پیش پیش ہیں اُن میں بجا طور پر اُمتِ مسلمہ کی بالعموم اور پاکستان کی بالخصوص نمائندگی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی کے حصے میں آئی ہے۔ دورِ حاضر میں یہ واحد مسلمان شخصیت ہیں جو مشرق و مغرب میں مقیم مایوس اور سہمے ہوئے مسلمانوں کے چہروں سے اِحساسِ ندامت و شرمندگی اور خوف ختم کر کے انہیں سکون و اِطمینان کی دولت لوٹا رہے ہیں۔
24 ستمبر 2011ء کو ویمبلے ارینا لندن میں انہوں نے وہ کارنامہ سرانجام دیا جو اس دور کی حکمتوں کے عین مطابق اسلام کے پیغامِ اَمن و محبت کو پوری دنیا میں وسیع پیمانے پر پھیلانے کا باعث بنا۔ انہوں نے پوری دنیا کے تمام بڑے مذاہب (مسلم، مسیح، یہودی، ہندو، سکھ اور بدھ مت) کے نمائندے ایک چھت کے نیچے جمع کر کے ان سے پُراَمن بقاے باہمی کے لئے نئے سرے سے کاوشیں بروئے کار لانے کا عہد لیا جو قراردادِ لندن (London Declaration) کے نام سے 24 نکات پر مشتمل تھا۔ یہ کارروائی ان فرقہ وارانہ عالمی سازشوں کا توڑ ہے جو تہذیبی تصادم کے فلسفے کو ہوا دے کر دنیا کو جنگوں کی آماج گاہ بنانا چاہتی ہیں۔ اَمن برائے اِنسانیت کانفرنس کا عنوان ’محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : رسولِ رحمت‘ تھا، اس لئے ضروری تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت اور انسان دوستی پر مبنی دعوت کا تفصیل سے تعارف کرایا جاتا۔ چنانچہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ہزارہا حاضرین کی موجودگی میں دنیا بھر سے آئے ہوئے سیکڑوں مختلف مذہبی پیشواؤں کے سامنے سیرتِ طیبہ کے نقوش انگریزی زبان میں اتنے خوبصورت پیرائے میں اجاگر کیے کہ اہل علم و بصیرت داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔
پاکستان اور پوری دنیا میں کثیر تعداد نے یہ خطاب براہ راست ٹی وی چینلز اور انٹرنیٹ کے ذریعے سنا اور دیکھا۔ اس خطاب نے ان مسلمانوں کے سر فخر سے بلند کر دیے جو مخالفین کے طعنوں اور الزام تراشیوں سے جھک گئے تھے۔ گزشتہ عشروں میں بعض فتنہ پرور اداروں اور شخصیات نے دراصل قرآن اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو اتنے غلط انداز میں پیش کیا ہے کہ ہر شخص بدگمانی سے سمجھتا ہے مسلمان غیر مہذب اور خون خوار جانوروں کا گروہ ہے۔ ان سازشی ذہنوں نے جہاد جیسے اسلامی فریضے کو بھی انسانیت کے قتل کا دستور بناکر پیش کیا ہے۔ اس لئے شیخ الاسلام نے اپنے جامع خطاب میں بعثتِ مبارکہ اور ہجرتِ حبشہ سے لے کر فتح مکہ تک سیرت طیبہ کا پورا نقشہ اجاگر کیا اور مدینہ منورہ کے دس سالہ دورِ نبوی میں ہونے والی جنگوں کو بھی حقیقی امن کے قیام کے لئے ناگزیر دفاعی کاوشیں قرار دیا جن سے اَمن دشمن فتنہ پرور کفار کی سازشوں کا قلع قمع ممکن ہوا۔ یوں انہوں نے مستشرقین کی طرف سے اٹھائے جانے والے دیرینہ سوالات کا جواب دیتے ہوئے اِسلام کے تصورِ جہاد کی بھی اِطمینان بخش وضاحت کر دی اورحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت سے متعلق غلط فہمیوں کا ممکنہ حد تک ازالہ بھی کر دیا۔ تقریبا پندرہ ہزار افراد پر مشتمل ایک بڑے اِجتماع کے سامنے غیر مسلم قیادتوں اور ان کے نمائندہ وفود کو بھرپور نمائندگی دینے سے اِسلامی تعلیمات کی وسعتِ ظرفی، تحمل اور پُراَمن بقاے باہمی کے جذبے کی عالمی سطح پر تصدیق بھی ہوگئی اور وہ پراپیگنڈہ اپنی موت آپ مرگیا جو مذہبی منافرت پھیلاکر دنیا میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرنا چاہتا تھا۔
اس عالمی اجتماع میں عالم اسلام کی عظیم مادرِ علمی جامعہ اَزہر سے بھی اعلٰی سطحی وفد نے بھرپور شرکت کی۔ رئیس الازھر ڈاکٹر اُسامہ محمد العبد نے شیخ الازھر ڈاکٹر احمد محمد الطیب کی طرف سے خصوصی پیغام میں اِسلام کا تصورِ محبت و اَمن واضح کیا اور کانفرنس کے انعقاد کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور کانفرنس کے منتظمین کو خصوصی مبارک باد بھی دی۔
اس تاریخی اَمن برائے اِنسانیت کانفرنس میں جہاں متعدد وفود اور سربراہان نے بھرپور شرکت کی وہیں بہت سے نام ور رہنماؤں نے اپنے خصوصی تحریری و ویڈیو پیغامات بھی بھجوائے جن میں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل Ban Ki-Moon ،OIC کے سیکرٹری جنرل Dr Ekmeleddin Ihsanoglu، برطانوی وزیر اَعظم David Cameron، برطانوی نائب وزیر اعظم Nick Clegg، برطانوی قائد حزبِ اِختلاف Ed Miliband کے علاوہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے کئی دیگر رہنما بھی شامل تھے۔
جب تحریک منہاج القرآن کی بنیا د کھی جارہی تھی تو ملک میں فرقہ پرستی کا دور دورہ تھا، مذہبی تنظیموں کا قیام فرقوں کی بنیاد پر عمل میں لایا گیا تھا، شرک سازی، بدعت، کردار کشی اور اتہام بازی عام تھی۔ توہین مذہب، بد عقیدگی اور شیعہ سنی کشمکش کو ہوا دی جا رہی تھی۔ ان حالات میں تحریک کی بنیادیں اٹھانے کے بعد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کھلے عام اعلان کیا کہ:
منہاج القرآن کے کوئی فرقہ وارانہ مقاصد نہیں اور اس کا قیام خالصتا اِسلام کا علم بلند کرنے اور مسلمانوں میں اَمن و محبت کو فروغ دینے کے لئے عمل میں لایا گیا ہے۔ اس کے دروازے فرقہ اور مسلک سے بالاتر تمام مسلمانوں کے لئے کھلے ہیں۔
شیخ الاسلام نے اس نظریے کو متعارف کرایا اور اس خیال کی ترویج کی تاکہ مشترک عوامل پر زور دیں اور اختلاف کو بالائے طاق رکھ دیا جائے۔ اس طرح ان کے اندازِ خطابت اور کتب نے مسلم اُمہ کو اِتحادِ ملت، تحمل ، رواداری اور میانہ روی کی ڈگر پر گامزن کرنے اور ان میں بین المسالک ہم آہنگی بالخصوص اتحاد کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ شیعہ سنی باہم دست و گریباں تھے، شیخ الاسلام نے دونوں کو رواداری اور برادشت سے کام لینے کی طرف راغب کیا اور انہیں ایک تحریری معاہدہ کرنے پر آمادہ کیا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ امن و امان کے ساتھ رہیں گے اور باہم مل جل کر اسلام کی خدمت پرامن طور پر کریں گے۔ اور اس طرح دائمی بنیادوں پر اَمن کے قیام کو یقینی بنائیں گے۔ گزشتہ دو عشروں سے وہ اس معاہدے پر عمل پیرا ہیں۔
موجودہ دور میں ہمارے انہی مذہبی و تبلیغی رویوں پر تبصرہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری لکھتے ہیں:
آج صورت حالات بعینہ ہے کہ ہم اپنی بات ماننے والوں پر خوش ہوتے ہیں لیکن جو ہماری کسی بات سے اختلاف کرے اسے کافر بنا کر اسلام سے خارج کر دیتے ہیں۔ ہم نے دین میں اپنی اجارہ داریاں بنا رکھی ہیں۔ جس کے پاس تھوڑے اختیارات ہوں وہ دوسروں کو مسلک سے نکال دیتا ہے۔ جو تھوڑا بڑا ہو وہ دوسرے کو دائرہ اسلام ہی سے نکال دینے کا اختیار رکھتا ہے ۔ ہم نے اسلام کو بازیچہِ اَطفال بنا کر سکول کے ہیڈماسٹر کی طرح داخل خارج کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اُمت تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے لیکن اُمت سے نکالنے کا اختیار ہر کس و ناکس کے پاس ہے۔ اِسی طرح دین اسلام تو اللہ کا ہے، وہ بندوں کے حال کو خود بہتر جانتا ہے لیکن دین کے داخل خارج کے اِنچارج بھی آج کے علماء دین بن گئے ہیں (الاّماشاء اللہ)۔ یہ شرک فی التوحید اور شرک فی الرسالت نہیں تو اور کیا ہے؟یہ اَمر کس قدر اَفسوس ناک ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت کے مذہبی وارث (اِلّا ما شاء اللہ) ملت کی پاسبانی کی بجائے دین کی مسندوں پر بیٹھے ہی گویا کافر و مشرک اور ملحد و بے دین کے القابات سے نوازنے کے لیے ہیں۔ دین کو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ٹکے ٹکے کے عوض بیچا جاتا ہے ۔ شریعت کو اپنی ذاتی استعمال کی چیز سمجھتے ہوئے اپنی پسند و ناپسند کے مطابق گھمایا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نئی نسل اَوّل تو علماء سے مانوس ہی بہت کم ہے اور اگر کوئی نوجوان اِصلاحِ اَحوال کے لیے ان کے قریب چلا بھی جاتا ہے تو بجائے اِصلاحِ اَحوال کے متنفر ہو کر اٹھتا ہے۔
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، لا اکراہ فی الدین کا قرآنی فلسفہ، ص: 41
بین المسالک دوریاں ختم کرنے اور اِفہام و تفہیم کی فضا پیدا کرنے کے لئے شیخ الاسلام نے بین المسالک دو طرفہ روابط کا آغاز کردیا۔ چنانچہ آغازِ کار سے اب تک وہ ہر مسلک کے جید اور نمائندہ علماء کو اپنے اِجتماعات میں شرکت اور خطاب کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔ اسی طرح دیگر مسالک کے دینی اور تربیتی اجتماعات میں اگر انہیں خطاب کی دعوت دی جائے تو انکار نہیں کرتے۔ ان باہمی روابط سے نفرتیں، کدورتیں اور غلط فہمیاں رفع ہوتی ہیں اور علمی اشکالات جو ایک دوسرے کے بارے ذہنوں میں موجود ہوتے ہیں ان کو سمجھنے اور رفع کرنے میں مدد ملتی ہے۔
شیخ الاسلام نے جب ان روابط کا آغاز کیا تو حالات سخت ناموافق تھے۔ مسلکی فضا اتنی مکدر تھی کہ ایک مسلک کے علماء کا دوسرے مسلک کے علماء سے میل جول رکھنا تو دور کی بات ہے ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا بھی مسلکی غیرت کے منافی سمجھا جاتا تھا۔
پروفیسر محمد نصر اﷲ معینی لکھتے ہیں:
میرے اُستادِ گرامی غزالیِ زماں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی قدس سرہ العزیز ساتویں اور آٹھویں دہائی میں جامعہ اسلامیہ بہاول پور میں حکومت کی طرف سے شیخ الحدیث کے منصبِ جلیلہ پر فائز رہے۔ اس ادارے میں دیگر مسالک کے جید علماء بھی تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے۔ ایک مذہبی طبقہ حضرت غزالی زماں سے ناراض تھا اور انہیں سخت تنقید کا نشانہ بناتا رہتا تھا کہ وہ جامعہ اسلامیہ کے مخلوط ماحول میں دیگر مسالک کے علماء سے ملتے جلتے اور علیک سلیک کرتے ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلک کی ’خالصیت‘ کے لئے حضرت کاظمی صاحب جامعہ سے اِستعفیٰ دے دیں۔ ایک مرتبہ راقم اور صاحبزادہ پروفیسر محبوب حسین (سجادہ نشین بیربل شریف) کے ساتھ اس موضوع پر ان لوگوں کی سخت تکرار بھی ہوئی تھی۔مدعاے کلام یہ ہے کہ باہمی اِفہام و تفہیم تو دور کی بات تھی میل جول بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مذہبی طبقات میں اِس قدر ناچاقی ہو تو عام لوگوں کا تصورِ دین کیسا ہوگا؟ جب ایک دوسرے کو ملنا ہی ممکن نہ رہے تو بات چیت اور غلط فہمیوں کا اِزالہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟
یہ وہ سخت مشکل حالات تھے جن میں شیخ الاسلام نے دیگر مسالک کے ساتھ دو طرفہ روابط شروع کئے۔ اِس پر اگرچہ انہیں سخت تنقید اور فتوؤں کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان کے قدم ڈگمگائے نہ پیچھے ہٹے۔
پروفیسر محمد نصر اﷲ معینی، ماہنامہ منہاج القرآن، فروری 2009ء: شیخ الاسلام اور بین المسالک رواداری
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بین المسالک روابط کے سلسلے میں جو جرات مندانہ اقدامات کئے تھے وہ آخر رنگ لے آئے اور وحدتِ ملی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کی راہ ہموار ہوگئی جس کا حسین منظر چشم فلک نے 24 اکتوبر 1988ء کی رات کو دیکھا جب مینارِ پاکستان کے سائے میں پاکستان بھر سے ہر مسلک کے نمائندہ علماء و مشائخ کے ساتھ ایک ہی اسٹیج پر جلوہ افروز تھے۔ اس فقیدالمثال اجتماع کی صدارت قدوۃ الاولیاء حضرت سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی فرمارہے تھے۔
اُس تاریخی رات مینار پاکستان کا وسیع و عریض سبزہ زار عشاق رسول سے بھرا ہوا تھا۔ اگرچہ مرزا قادیانی کے خلیفہ مرزا طاہر کی طرف سے دی گئی دعوتِ مباہلہ قبول کرتے ہوئے ختم نبوت کانفرنس منعقد کی گئی تھی، تاہم تمام مکاتبِ فکر کے جید علماء و مشائخ کی شرکت نے وحدتِ ملی کا ایک شاندار موقع فراہم کردیا جس کے اِمکانات کا اِدراک کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے تمام مکاتبِ فکر کے سنجیدہ اور اُمت کا درد رکھنے والے سرکردہ علماء کے مشورہ سے اِتحادِ اُمت کا ایک بارہ نکاتی فارمولا تیار کرلیا تھا جسے حضرت ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری نے اس تاریخی ختم نبوت کانفرنس کے موقع پر پڑھ کر سنایا تو لاکھوں اَفراد کے مجمع میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور تحسین و آفرین کی آوازیں آنے لگیں۔
ان بارہ نکات میں تمام علماء و واعظین اور خطباء پر زور دیا گیا تھا کہ وہ ہر ایسی تقریر و تحریر سے مکمل اجتناب کریں جس میں بالواسطہ یا بلاواسطہ شانِ اُلوہیت کی تنقیص اور عقیدہِ توحید کے مجروح ہونے کا اِحتمال ہو، اِہانتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اَدنی سا بھی شائبہ پایا جاتا ہو، اَہلِ بیتِ اَطہار اور صحابہ کرام l کے لئے تنقیص و اِہانت یا طعن و تشنیع کا پہلو نکلتا ہو، سلف صالحین، اَولیاء کرام اور اَئمہ دین اور شعائر اِسلام کی تنقیص ہوتی ہو اور کسی بھی مکتبہ فکر کی دل آزاری ہوتی ہو۔
خطباء و مقررین سے کہا گیا تھا کہ مثبت انداز سے دلائل کے ساتھ اپنے نقطہ نظر کا پرچار کریں اور دوسرے اکابرین کا نام لے کر تحقیر اور طعن و تشنیع نہ کریں۔ نیز مخصوص مذہبی تہواروں پر کشیدگی اور تناؤ پیدا کرنے والے امور سے مکمل اجتناب کیا جائے۔
اگر بنظر غائر ان نکات کا جائزہ لیا جائے توان میں ہر اس بنیاد کو توڑ دینے کی کوشش کی گئی جو مسلکی تنازعات اور فتنہ و فساد کی وجہ بنتی ہے اور وحدتِ ملی کو پارہ پارہ کرتی ہے۔
اِس موقع پر تمام مذہبی مسالک کے اکابرین پر مشتمل مرکزی سپریم کونسل تشکیل دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا جو اس اتحاد کے فارمولے کی تنفیذ کی کوشش کرے اور اِنحراف کرنے والے کے خلاف اِنضباطی کارروائی کرے۔ اس سپریم کونسل کی تشکیل کے لئے ایک رابطہ کمیٹی بنائی گئی جس کے چیئرمین ضیاء الامت حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہری کو مقرر کیا گیا۔
اس موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس ہم آہنگی کو بڑی خوبصورت تمثیل کے ذریعے واضح کیا جسے بہت سراہا گیا۔ آپ نے فرمایا:
جس طرح ایک سارنگی کی مختلف تاریں ہوتی ہیں جو اپنا الگ الگ وجود اور آہنگ رکھتی ہیں لیکن جب مہارت کے ساتھ بیک وقت مختلف تاروں کو چھیڑا جاتا ہے تو ان رنگا رنگ آہنگوں سے ایک ایسی آہنگ پیدا ہوتی ہے جس کو سن کر روحیں وجد میں آجاتی ہیں۔ اگر ایک تار نکال دیا جائے تو ساز بے کیف ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ہر مکتبہ فکر ایک تار کی مانند ہے، کسی تار کو چھیڑیں تو اس سے نغمہ توحید بلند ہوتا ہے، کسی سے نغمہ عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، کسی سے نغمہ حبِ اَہلِ بیتِ اَطہار اور کسی سے ترانہ حبِ صحابہ کرام۔ ہم نادانوں نے ہر تار کو جدا سمجھے رکھا۔ ہر تار اپنی اپنی آواز دیتا رہا۔ اب اکابر امت نے سب تاروں کو بیک وقت چھیڑنے کی طرح ڈالی ہے تاکہ تاروں کا آہنگ مجتمع ہوکر یک آواز ہوجائے۔ نغمہ توحید بھی ایک ہی مقام سے گونجے، ترانہ رسالت بھی ایک ہی مقام سے، حبِ صحابہ کرام و اَہلِ بیت بھی ایک ہی مرکز سے بلند ہو۔ ترنگ ہر ایک کی جدا ہوگی لیکن ان کے اِمتزاج سے آہنگ ایک بن جائے گی۔ بس اسی مشترک آہنگ کا نام اسلام ہے۔
پروفیسر محمد نصر اﷲ معینی، ماہنامہ منہاج القرآن، فروری 2009ء: شیخ الاسلام اور بین المسالک رواداری
تحریک کے قیام کے ایام یعنی 1980ء کی دہائی پر غور کریں تو پورے ملک میں اعتقادی فرقہ واریت پر مبنی تکفیری مہم مذہبی حلقوں میں عام تھی۔ ایسے ماحول میں شیخ الاسلام کی پکار لق و دق صحرا میں باد بہار کے مصداق تھی۔ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تصوف و روحانیت کی حلاوتوں پر مشتمل دعوتِ دین کے جس مشن کا آپ نے آغاز فرمایا دیکھتے ہی دیکھتے اس کا اثر ملک بھر کے مذہبی حلقوں پر مرتب ہوتا چلا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دعوتِ دین کا کام کرنے والوں کا لہجہ بھی بدلا۔ آج نور و بشر، حاضر و ناظر اور اس طرح کے دیگر مسائل مذہبی حلقوں کی بحثوں سے خارج ہو چکے ہیں۔ نعت اور میلاد آج کسی ایک مکتبہ فکر ہی کی پہچان نہیں بلکہ پوری اُمتِ مسلمہ کے لیے من حیث الکل ذاتِ نبوت سے تعلق کی استواری کی پہچان اور شناخت بن چکے ہیں۔
مذہبی حوالے سے اِعتدال و ہم آہنگی کے قیام کے لیے آپ نے زبانی تلقین و اِرشاد تک ہی اپنی جد و جہد کو محدود نہیں رکھا بلکہ اس کے لیے عملی اِقدامات اٹھائے ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے قیام کے بعد ہی تحریک جعفریہ سے اِعلامیہ وحدت ملک کی فرقہ وارانہ مسلکی کشیدگی کی فضا میں ایک جرات مندانہ قدم تھا۔ اگرچہ اُس وقت کے تنگ نظر مذہبی حلقوں نے اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا مگر تحریک نے اُمت کو اِتحاد اور وسعتِ ظرفی کی وہ بنیاد فراہم کر دی کہ آج بھی تحریک کے پلیٹ فارم پر ہر مسلک کے لوگ آتے ہیں اور وحدتِ اُمت کا عملی نظارہ پیش کرتے ہیں۔ تحریک کا اِعلامیہ وحدت ہی وہ پہلا قدم تھا جس کے زیر اثر بعد میں ملک بھر کی مذہبی جماعتیں پہلے ملی یک جہتی کونسل اور پھر متحدہِ مجلس عمل کی شکل میں جمع ہوئیں اور ایک دوسرے کی اِمامت میں نماز تک ادا نہ کرنے کے روادار ایک پلیٹ فارم پر جد و جہد کرنے کے لیے اکٹھے ہوگئے۔ مذہبی ہم آہنگی کے قیام کے لیے شیخ الاسلام کی جد و جہد صرف مسالک تک ہی نہیں بلکہ دیگر عالمی مذاہب تک بھی پھیلی ہوئی ہے اور تحریک کے زیر اہتمام Muslim Christian Dialogue Forum میں ملک کی مقتدر عیسائی قیادت کے ساتھ اِشتراکِ کار سے آپ نے دنیا کو اِسلام کی وسعتِ نظری اور اعلیٰ ظرفی کا عملی مظاہرہ پیش کر دیا۔
شیخ الاسلام نے منہاج القرآن ویلفیئر فاؤنڈیشن کے قیام اور منہاج القرآن ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت عوامی تعلیمی منصوبے کے ذریعے سماجی و معاشرتی سطح اور پاکستان عوامی تحریک کی سیاسی جد و جہد کے ذریعے سیاسی سطح پر اعتدال اور ہم آہنگی کے کلچر کو فروغ دینے کی بھرپور عملی کاوشیں کی ہیں۔
بابری مسجد کی شہادت کے موقع پر جب تحریک منہاج القران کے مرکزی سیکرٹریٹ میں ستائیس جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کی میزبانی کی گئی تو شیخ الاسلام نے محترمہ بے نظیر بھٹو (مرحومہ) کے بولے جانے والے جملے (جس میں محترمہ نے ’بنیاد پرست [fundamentalist] کا لفظ استعمال کیا) کی تصحیح کرتے ہوئے ’اِنتہا پسند (extremist)‘ کی اِصطلاح اِستعمال فرمائی اور اس کی بڑی شرح و بسط کے ساتھ وضاحت کی۔ یہ اِصطلاح ابھی مغرب میں بھی عام نہیں ہوئی تھی۔
اگر شیخ الاسلام کے تحریری و تقریری لٹریچر اور افکار کا تحقیقی جائزہ لیا جائے تو بخوبی اندازہ ہوگا کہ ان کا کل تحریری و تقریری سرمایہ ہر طرح کے غیر فطری اور شدت پسندانہ رویے سے پاک ہے۔
2009ء میں ’اِسلام دین اَمن و رحمت ہے‘ کے عنوان سے 33 اَقساط پر مشتمل آپ کی لیکچر سیریز ٹی وی چینلز پر نشر ہوئی جس میں بالتفصیل اِسلام اور پیغمبر اِسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اَمن و رحمت ہونا واضح و ثابت کیا گیا۔ علاوہ ازیں آپ کے بے شمار خطابات اور کتب بھی اِس موضوع پر موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ’اَلْبَيَان فِي رَحْمَةِ الْمَنَّان (رحمتِ اِلٰہی پر اِیمان اَفروز احادیثِ مبارکہ کا مجموعہ)‘ اور ’اَلْوَفَا فِي رَحْمَةِ النَّبِيِّ الْمُصْطَفٰی صلی الله عليه وآله وسلم; (جمیع خلق پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت و شفقت)‘ بھی اِسی سلسلے کی کڑی ہیں۔
24 ستمبر 2011ء کو تحریک منہاج القرآن کے زیر اِہتمام لندن میں منعقد ہونے والی عظیم الشان ’اَمن برائے اِنسانیت کانفرنس‘ سے شیخ الاسلا م نے اپنے خصوصی خطاب میں فرمایا:
اپنی گفتگو کے آخری حصے کی طرف آتے ہوئے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اِسلام اِعتدال اور میانہ روی کا دین ہے۔ اِسلام میں انتہاء پسندی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ’صحیح بخاری‘ کی ’کتاب الایمان‘ میں امام بخاری نے درج ذیل عنوان سے ایک باب باندھا ہے:
الدِّينُ يُسْرٌ وَقَوْلُ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَحَبُّ الدِّينِ إِلَی اﷲِ الْحَنِيفِيَّةُ السَّمْحَةُ.
دین آسان ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ اَقدس ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو سیدھا اور معتدل دین زیادہ پسند ہے۔
’صحیح بخاری‘ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ، وَلَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ، فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا، وَأَبْشِرُوا، وَاسْتَعِينُوا بِالْغَدْوَةِ وَالرَّوْحَةِ وَشَيْئٍ مِنْ الدُّلْجَةِ.
بخاری، الصحيح، کتاب الإيمان، باب الدين يسر، 1: 23، الرقم:39
بے شک دین آسان ہے اور جو اسے مشکل بنائے گا تو یہ اس پر غالب آجائے گا۔ پس تم سیدھے رہو، ایک دوسرے کے قریب رہو اور بشارت قبول کرو۔ نیز صبح و شام کی عبادت اور صدقہ خیرات سے مدد حاصل کرو۔
اِسلام ہر معاملے میں اعتدال اور وسطیہ کا حکم دیتا ہے۔ ’صحیح مسلم‘ میں حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار یہ الفاظ ارشاد فرمائے:
هَلَکَ الْمُتَنَطِّعُونَ.
مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب هلک المتنطعون، 4: 2055، رقم: 2670
بال کی کھال اُتارنے والے ہلاک ہوگئے۔
اِس تمام تفصیل سے یہ حقیقت اَظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایک آسان دین عطا فرمایا ہے جس میں کوئی سختی نہیں اور جو ہر طرح کے تشدد، اِنتہاء پسندی اور دہشت گردی کا قلع قمع کرتا ہے۔ اِسلام اپنے پیروکاروں کو پیامبرِ اَمن بننے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہی آج کی اس تاریخی ’اَمن برائے انسانیت کانفرنس‘ کا پیغام ہے جو ہمیں قرآن حکیم اور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ قرآن و سنت کا یہ آفاقی پیغام ہر ذی روح تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے تاکہ روئے زمین پر موجود ہر فرد یہ جان لے کہ اسلام صرف اور صرف اَمن و رواداری، محبت و مودت اور ہمدردی کا دین ہے۔ لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے ارد گرد معاشرتی استحکام (social integration) پیدا کریں اور پُراَمن بقاے باہمی کی فضا تخلیق کریں اور باہمی اعتماد اور مکالمہ پر مبنی تہذیب کو فروغ دیں کیونکہ دنیوی و اُخروی کامیابی اِسی میں ہے۔ باری تعالیٰ ہماری مدد فرمائے۔ (آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
بعض اِنتہا پسند طبقا ت نے اِقامتِ دین سے مراد دنیا سے تمام اَدیان کا خاتمہ لے لیا ہے اور ساری کی ساری اِنسانیت کو مسلمان بنانا اور دنیا سے غیر مسلموں کا خاتمہ سمجھ لیا ہے۔ یہی تصور ان کی گمراہی کا باعث بن گیا۔ فی الواقع یہ تصورِ دین فطرت کے بھی خلاف تھا۔ یہ لوگ اور تحریکیں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے راستے پر چل پڑے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے نزدیک اس طرح کے اِنتہا پسندانہ خیالات کی گنجائش نہیں۔ ان کے ہاں اقامت اسلام کا مقصد اَمنِ عالم کا قیام ہے۔
ڈاکٹر رحیق احمد عباسی لکھتے ہیں:
وہ اسلام کو دینِ امن سمجھتے ہیں، دینِ محبت گردانتے ہیں، بقائے باہمی، تحمل و برداشت، احترامِ آدمیت اور حرمتِ جانِ انسانی کو وہ بنیادی اسلامی شعائر سمجھتے ہیں۔ انہوں نے دعوتی حکمتِ عملی سے وہ کام کر دکھایا جو ناممکن نظر آتا تھا۔ انہوں نے انقلابیت اور امن پسندی کو ایک جگہ جمع کر دیا اور دنیا بھر میں ایک ایسی تحریک کی بنیاد رکھی جو اسلام کا عروج دیکھنا چاہتی ہے۔ اِقامتِ دین جس کی منزل ہے، تجدید دین جس کا راستہ ہے، احیاے دین جس کا مشن ہے لیکن ان کی یہ تحریک دہشت گردی اور انتہا پسندی سے کلیتاً پاک ہے۔ وہ چاہتے ہے کہ اسلام کے دامن سے دہشت گردی کا داغ دھل جائے اور مسلمان تلوار کی بجائے دلیل، منطق اور صلاحیت سے غیر مسلم دنیا کو متاثر کریں۔ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ اسلامی طرزِ زندگی، تہذیبی شناخت اور حیات بخش تعلیمات اپنا اثر دکھائے بغیر رہیں۔اس تحریک کے نزدیک نفرت و تعصب پر مبنی نظریات کفر سے کم نہیں اور بے گناہ انسانیت کا قتل ظلمِ عظیم ہے۔ اس کے نزدیک احیاے اسلام کی منزل فی زمانہ نفرت و تصادم سے نہیں بلکہ محبت و رواداری سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ شیخ الاسلام کا یہ کارنامہ ایسے ہی تھا جیسے آگ اور پانی کو ایک جگہ جمع کر دینا۔ انہوں نے اسلام کا امن و محبت اور رواداری پر مبنی پیغام دنیا تک پہنچایا۔ اسلام پر فکری اور نظریاتی محاذوں پر ہونے والے حملوں کا جواب غصے اورجلال سے نہیں بلکہ علم اور دلیل کی زبان میں دیا۔
ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، ماہنامہ منہاج القرآن، فروری 2009ء
شیخ الاسلام کے مبسوط تاریخی فتویٰ میں ’مسلم ریاست میں اِعلاے کلمہ حق کا پُر اَمن منہاج‘ کے عنوان سے ایک مستقل باب قائم کیا گیا ہے، جس میں ظلم و نااِنصافی کے خلاف سیاسی و جمہوری جد و جہد کا شرعی طریقہ بتلایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک مقام پر شیخ الاسلام رقم طراز ہیں:
حکمرانوں کے ظلم و نا انصافی اور فسق و فجور کو بے نقاب کرنا اور اس کے خلاف آواز بلند کرنا مسلمان کی اہم ذمہ داری ہے مگر اس کا طریقہ پُراَمن ہونا چاہیے، جو تشدد اور دہشت گردی کی جملہ شکلوں سے پاک ہو۔ موجودہ دور میں اس کی کئی صورتیں ممکن ہیں، مثلاً:
بعض اوقات یہی کوششیں انفرادی، اجتماعی، تنظیمی اور جماعتی سطح پر فرائض کا درجہ بھی اختیار کرلیتی ہیں اور ان سے پہلو تہی گناہ اور عذابِ خداوندی کا باعث بن جاتی ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اگست 2014ء میں پاکستان عوامی تحریک کے زیر اِہتمام ہونے والے تاریخِ اِنسانی کے طویل ترین اِنقلاب مارچ دھرنا میں ملک میں جاری دہشت گردی و فتنہ و فساد کے خاتمے اور غریبوں کے حقوق کی بحالی کے لیے اپنا دس نکاتی انقلابی منشور پیش کیا۔ چونکہ یہاں ہمارا مقصود صرف قیامِ اَمن کی کاوشوں کو اُجاگر کرنا ہے، لہٰذا اُس دس نکاتی اِنقلابی منشور میں سے صرف متعلقہ نکتہ کے بیان پر اِکتفا کریں گے۔ آپ نے فرمایا کہ:
فرقہ واریت اور دہشت گردی کے خاتمے کی اِنقلابی پالیسی بنائی جائے گی۔ 10 ہزار peace training centres قائم کیے جائیں گے۔ مدارس اور اسکولز کے نصابات میں ترامیم اور جدت پیدا کی جائے گی۔ پورے معاشرے کو اِنتہاء پسندی سے پاک اور معتدل بنایا جائے گا تاکہ یہاں اَمن، حفاظت، خوش حالی اور ترقی کی ضمانت فراہم کی جائے۔
16 دسمبر 2014ء کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ہونے والی وطنِ عزیز کی تاریخ کی بدترین دہشت گردی کے اَلم ناک واقعہ کے بعد شیخ الاسلام نے ملک و ملت کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے اپنا چودہ نکاتی اَمن پلان پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد اور ان کے سرپرست پاکستان کا مسئلہ نمبر ایک ہیں۔ لہٰذا دہشت گرد گروہوں اور ان کے حمایتوں کے مکمل خاتمہ کے لیے:
ابھی 9/11 کا حادثہ وقوع پذیر نہیں ہوا تھا لیکن نیو ورلڈ آرڈر کے تانے بانے میں آپ اس سازش کو دیکھ رہے تھے کہ اسلام کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ذریعے بدنام کرنے کی عالمی سازش زوروں پر ہے۔ اس حوالے سے ہم 1999ء میں ناروے میں ہونے والی بین الاقوامی امن کانفرنس سے ان کے خطاب کا اقتباس ملاحظہ کرچکے ہیں، لیکن اُس سے بھی بہت پہلے 1993ء میں اسلام کو درپیش خطرات کو محسوس کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے اپنے انقلابی کارکنوں کو یہ نعرہ دے دیا تھا:
انقلاب صرف خونی نہیں ہوتا بلکہ شعوری اور نظریاتی انقلاب زیادہ پائیدار اور دیرپا ہوتا ہے۔ لہٰذا اِس اِنقلاب کے لیے شعور ضروری ہے اور شعور کی بیداری کے لیے علم کا فروغ اور جہالت کا خاتمہ ضروری ہے۔ سو ضروری ہے کہ جہالت کے خاتمے کی جد و جہد کرتے ہوئے تعلیمی اِدارے قائم کیے جائیں لیکن وہ تعلیمی ادارے روایتی مدارس نہیں ہونے چاہییں بلکہ جدید تعلیمی نصاب کے حامل ادارے ہوں۔
ایک طرف وہ دیکھ رہے تھے کہ دنیاوی علوم میں مہارت کے بغیر ترقی کا خواب ایک دیوانے کی بڑ ہی ہو سکتی ہے اور دوسری طرف ان کی نظرِ جہاں بیں دیکھ رہی تھی کہ مستقبل قریب میں کس طرح مدارس کو دہشت گردی کے مراکز کے طور پر مشہور کیا جائے گا۔ اس لئے آپ نے دیگر تعلیمی اداروں کے علاوہ کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز (COSIS) کو بھی جدید خطوط پر استوار کیا تاکہ یہ روایتی مذہبی رنگ کی بجائے معاصر دینی تقاضوں کا حامل ادارہ بن سکے۔ ان کے اس تعلیمی منصوبہ کی وجہ سے منہاج القرآن وہ واحد دینی و تجدیدی تحریک ہے جس نے چھ سو زائد تعلیمی اداروں کا نیٹ ورک قائم کیا اور ملک و قوم کو ایک باقاعدہ چارٹرڈ یونی ورسٹی دی۔
اِس حصہ کے آخر میں ہم بحث کو سمیٹتے ہوئے شیخ الاسلام کی اُس جامع گفت گو کا حوالہ دینا چاہیں گے جو انہوں نے ’تحریک منہاج القرآن کا تصورِ دین‘ کے موضوع پر 28 جولائی 2010ء کو کینیڈا سے ویڈیو لنک کے ذریعے تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر منہاج القران ویمن لیگ کی تنظیمات کے کیمپ سے کی۔ اُس گفت گو میں انہوں نے واضح کیا کہ منہاج القرآن کیا تصورِ دین دیتا ہے؟ دین کا کیا ویژن دیتا ہے؟ دین کی تمام تعلیمات کن بنیادی تصورات (basic concepts) پر مبنی ہیں اور ان کی basic foundations اور بنیادی روح کیا ہے؟
شیخ الاسلام نے فرمایا کہ درج ذیل پانچ چیزوں سے ہمارے دین کا vision قائم ہوتا ہے اور یہ تحریک منہاج القرآن کی اِنفرادیت ہے:
گویا ان پانچ اشیاء پر تحریک منہاج القرآن کا تصورِ دین قائم ہے اورجب یہ پانچ چیزیں ملتی ہیں تو حقیقی تصورِ دین بنتا ہے۔ اِن پانچ نکات میں انتہا پسندی یا دہشت گردی کا ہلکا سا شائبہ تک بھی نہیں ہے اور یہی تحریک منہاج القرآن اور اس کی قیادت کی اِنفرادیت ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved