اسلام ہر ایسے عمل، رویے اور فکر و نظر کی مذمت کرتا ہے جو دنیا میں بسنے والے مختلف مذہبی و سیاسی طبقات کے بارے میں انتہاء پسندانہ سوچ رکھے اور پھر اِس انتہاء پسندی کی بنیاد پر امنِ عالم تہہ و بالا ہو نے کا خدشہ ہو۔ دین میںشدت دنیاوی امور میں شدت سے زیادہ خطرناک ہے کیوں کہ تشدد اور جارحیت پسندی، انتہاء پسندی سے جنم لیتی ہے۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إِيَّاکُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ، فَإِنَّهُ أَهْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ.
(سنن ابن ماجه)
دین میں انتہا پسندی سے بچو کیونکہ پہلی قومیں اسی انتہا پسندی کے باعث تباہ و برباد ہوگئیں۔
رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر اُس راستے کو مسدود اور ہر اُس دروازے کو بند کردیا جس سے اَمن و سلامتی کا ماحول غارت ہونے کا امکان تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانی رویوں اور اعمال میں نرمی و لطافت برتنے کی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اﷲَ رَفِيْقٌ وَيُحِبُّ الرِّفْقَ وَيُعْطِي عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِي عَلَی الْعُنْفِ.
(صحيح مسلم)
اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی پر اتنا عطا فرماتا ہے کہ اتنا سختی پر عطا نہیں کرتا۔
تعصب و تشدد عموماً فکر و نظر میں انتہا پسندانہ رجحانات سے جنم لیتا ہے۔ ابلاغِ دین میں حکمتِ قرآنی یہ ہے کہ مخاطب چاہے فرعون جیسا سفّاک ہی کیوں نہ ہو اور داعی موسی علیہ السلام جیسا کلیم اﷲ ہی کیوں نہ ہو، پھر بھی گفتگو اور رویے میں لطف و کرم اور حلم و بردباری کے دامن کو نہ چھوڑا جائے۔ اﷲ عزوجل نے جب حضرت موسی اور ہارون علیہما السلام کو فرعون کے پاس گفتگو کے لیے بھیجا تو فرمایا:
فَقُوْلَا لَـهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَکَّرُ اَوْ يَخْشٰیo
(طٰہٰ، 20:44)
سو تم دونوں اس سے نرم (انداز میں) گفتگو کرنا شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا (میرے غضب سے) ڈرنے لگےo
اِسلام کا مقصود حکمت و دانش اور دلائل و براہین کے ساتھ مخالفین کے دل و دماغ کو حق کی طرف مائل کرنا ہے نہ کہ طعن و تشنیع اور سبّ و شتم کے ساتھ اُن کے دلوں کو گھائل کرنا۔ اِسی لیے اہلِ کتاب کے ساتھ ’حسنِ گفتگو‘ کی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا::
وَلَا تُجَادِلُوْا اَهْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ.
(العنکبوت، 29: 46)
اور (اے مومنو!) اہلِ کتاب سے نہ جھگڑا کرو مگر ایسے طریقہ سے جو بہتر ہو۔
اسی طرح سورۃ الانعام (6: 108) میں کفار و مشرکین کے معبودانِ باطلہ تک کو سب و شتم کرنے سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ فَيَسُبُّوا اﷲَ عَدْوًام بِغَيْرِ عِلْمٍ.
اور (اے مسلمانو!) تم ان (جھوٹے معبودوں) کو گالی مت دو جنہیں یہ (مشرک لوگ) اللہ کے سوا پوجتے ہیں پھر وہ لوگ (بھی جواباً) جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اللہ کی شان میں دشنام طرازی کرنے لگیں گے۔
اﷲ تعالیٰ اپنی مخلوق کو کبھی بھی حکیم و دانا بندوں کے وجود سے محروم نہیں رکھتا۔ ہر زمانے میں اُس کے تقاضوں کو پورا کرنے اور لا ینحل گتھیوں کو سلجھانے کے لیے کسی نہ کسی کو ناخنِ تدبیر دے کر بھیجتا رہتا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری کا شمار بھی اُنہیں نابغہ روزگار ہستیوں میں ہوتا ہے جو اُمتِ اجابت کے لیے ہی نہیں بلکہ اُمتِ دعوت کے لیے بھی مسیحا بن کر آئے ہیں۔ آپ کی فکر رسا نے نہ صرف بین المسالک بلکہ بین المذاہب رواداری کو بھی فروغ دیا ہے۔
زیر نظر کتاب میں ڈاکٹر نعیم مشتاق صاحب نے بنیادی طور پر دو اہم موضوعات ’انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمہ میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا کردار‘ اور ’برصغیر پاک و ہند میں بین المذاہب مناظراتی طرزِ عمل کے پس منظر میں شیخ الاسلام کے طرزِ تبلیغ کی خصوصیات‘ کو نہایت محققانہ انداز میں سپردِ قلم کیاہے۔ یہ کتاب case study کے طور پر تیار کی گئی ہے جس میں نہایت اِختصار سے معلومات قلم بند کی گئی ہیں، وگرنہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمہ میں شیخ الاسلام کی کاوشوں اور کردار کے تفصیلی بیان کے لیے کئی کتب تالیف کی جاسکتی ہیں۔
مؤلف نے اپنے مخصوص انداز میں معاصر علماء اور اَربابِ قلم کی توجہ اِس اَمر کی طرف مبذول کروائی ہے کہ آج کے دور میں وہی اُسلوبِ تحریر و تبلیغ مؤثر ہوگا جو اِعتدال و توازن اور بین المذاہب رواداری کے اَوصاف سے متصف ہو۔ اَساطینِ علم و ادب اور صاحبانِ فکر و نظر کے لیے ضروری ہے کہ وہ دلیل و برہان اور عقل و منطق کے ذریعے اپنے پیغام کو پختہ کریں اور دوسروں کے دین و مذہب یا معزز و محترم شخصیات پر ہرگز زبانِ طعن دراز نہ کریں۔
ڈاکٹر نعیم مشتاق کی تحریک اور قائد تحریک سے علمی و فکری نسبت اَسی (1980ء) کی دہائی سے قائم ہے۔ انہوں نے تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام سے اپنا علمی و فکری رشتہ قائم رکھتے ہوئے ہر طرح کی مشکلات اور مصائب میں بھی اِس پر اِستقامت اِختیار کی۔ اِسی اِستقامت کا ثمر ہے کہ اُنہوں نے حضرت شیخ الاسلام کی ہمہ جہت شخصیت کے متعدد پہلووں میں سے تحقیق و تصنیف اور تقابلِ اَدیان کے میدان میں فیض کا حصہ وافر پایا ہے۔ آج بین المذاہب تعلقات (interfaith relations) کے حوالے سے ان کا مبلغ علم اُن کی اِستقامت اور اپنے انداز میں محبت کا نتیجہ ہے۔ باری تعالیٰ اُن کی کاوشوں میں برکت عطا فرمائے۔
(حسین محی الدین قادری)
25 دسمبر 2014ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved