جواب: جی ہاں! مرد کی طرح عورت پر بھی دعوت و تبلیغِ دین کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ بہت سے اَہلِ علم فکری اور عملی طور پر اس فریضہ کا دائرۂ کار صرف مردوں تک محدود کر دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک خواتین کا فریضہ صرف اُمورِ خانہ داری اور اولاد کی تربیت تک محدود ہے۔ جب کہ قرآن مجید میں اس فریضہ کی بجا آوری کے سلسلے میں آنے والے احکامات اور اَمر و نہی کے صیغے عربی زبان و بلاغت کے قواعد کے اعتبار سے مرد اور عورت دونوں کے لیے مستعمل ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَٱلۡمُؤۡمِنُونَ وَٱلۡمُؤۡمِنَٰتُ بَعۡضُهُمۡ أَوۡلِيَآءُ بَعۡضٍۚ يَأۡمُرُوْنَ بِٱلۡمَعۡرُوْفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنْكَرِ﴾
[التوبة، 9 : 71]
اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔
مذکورہ آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کی جن صفات کا تذکرہ کیا ہے، ان میں سے دوسری صفت نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں پر بھی مردوں کی مانند امر بالمعروف ونہی عن المنکر واجب ہے۔
اِسی طرح گزشتہ صفحات میں بیان احادیث اور واقعات سے یہ نتیجہ اَخذ ہوتا ہے کہ مرد کی طرح عورت پر بھی اپنی اپنی فیلڈ میں دعوت و تبلیغِ دین کی ذمہ داری اور جواب دہی لازم ہے۔
جواب: جی ہاں! دعوت وتبلیغِ دین میں عورت کا درجہ مرد کے برابر ہے۔ اس کا ثبوت درج ذیل نصوص سے ملتا ہے:
1۔ معاملاتِ زندگی میں مرد اور عورت کو ایک دوسرے کا باہم معاوِن اور مددگار بنایا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَٱلۡمُؤۡمِنُوْنَ وَٱلۡمُؤۡمِنَٰتُ بَعۡضُهُمۡ أَوۡلِيَآءُ بَعۡضٍ﴾
[التوبة، 9 : 71]
اور اَہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔
2۔ اَمر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ کی بجا آوری میں مرد کے ساتھ عورت کو برابر کا شریک ٹھہرایا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿كُنتُمۡ خَيۡرَ أُمَّةٍ أُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوْفِ وَتَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنْكَرِ﴾
[آل عمران، 3 : 110]
تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو۔
3۔ اَجر کے اِستحقاق میں مرد اور عورت کو برابری کا درجہ دیا گیا۔ ارشاد ہوتا ہے:
﴿مَنۡ عَمِلَ صَٰلِحاً مِّن ذَكَرٍ أَوۡ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَنُحۡيِيَنَّهٗ حَيَوٰةٌ طَيِّبَةٗۖ وَلَنَجۡزِيَنَّهُمۡ أَجۡرَهُم بِأَحۡسَنِ مَا كَانُوْا يَعۡمَلُونَ﴾
[النحل، 16 : 97]
جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت جب کہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے، اور انہیں ضرور ان کا اجر (بھی) عطا فرمائیں گے ان اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے تھے۔
سو مذکورہ آیاتِ مبارکہ کی رُو سے فرائض و واجبات کی ادائیگی، اِصلاحِ معاشرہ اور اِستحقاقِ اَجر میں مرد و عورت کو برابر مکلّف ٹھہرانا دعوت و تبلیغِ دین کے اَجر میں دونوں کی برابری پر دلالت کرتا ہے۔
جواب: جی نہیں! اسلام سے قبل عورت کی تعلیم و تدریس کی کوئی رِوایت موجود نہیں ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں عورت ہر قسم کے حق سے محروم تھی۔ اِس کی حیثیت کو ماننا تو درکنار اسے معاشرے میں زندہ رہنے کاحق تک نہ تھا۔ ایسا معاشرہ جہاں عورت زندگی کے حق سے محروم کر دی گئی ہو، وہاں اس کے لکھنے پڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ دینِ اسلام ہی تھا جس نے عورت کو مرد کے مساوی اَعلیٰ و اَرفع مقام عطا کرتے ہوئے معاشرے کا ایک ایسا لازمی اور قابلِ احترام کردار عطا کیا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ شریعتِ اسلامی نے تعلیم و تربیت اور درس و تدریس میں عورت کو مرد کے برابر مکلّف ٹھہرایا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ. ([90])
علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پرفرض ہے۔
یوں حضور نبی اکرم ﷺ نے اَحکامِ اِسلامی کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے بنیادی اُمور کی تعلیم کا حصول مرد کے ساتھ ساتھ عورت کے لیے بھی فرضِ عین قرار دیا اور اپنے عہد میں خواتین کی تعلیم و تربیت کا باقاعدہ اِہتمام فرمایا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ہفتہ میں ایک دن صرف صحابیات کو وعظ و نصیحت کرنے کے لیے مخصوص کر رکھا تھا، جس میں خواتین آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر روز مرہ کے درپیش مسائل پوچھتیں۔ مزید برآں آپ ﷺ نے اُمہات الموٴمنین کو یہ بھی حکم دے رکھا تھا کہ وہ نہ صرف صحابیات کو دینی مسائل سے آگاہ کریں بلکہ خواتین کو لکھنا پڑھنا بھی سکھائیں جیسا کہ حضرت شفاء رضی اللہ عنہا بنت عبد اللہ فرماتی ہیں:
دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَأَنَا عِنْدَ حَفْصَةَ، فَقَالَ لِي: أَلاَ تُعَلِّمِيْنَ هَذِهِ رُقْيَةَ النَّمْلَةِ كَمَا عَلَّمْتِيهَا الْكِتَابَةَ. ([91])
رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے، میں اُم المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی۔ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: کیا تم انہیں بیماری سے نجات کی دعا نہیں سکھاؤ گی جس طرح تم نے انہیں لکھنا سکھایا ہے؟
یوں عہدِ رسالت میں خواتین میں تعلیم کے حصول کا ذوق پیدا ہوا جس کے نتیجے میں وہ اعلیٰ پائے کی مفسرہ، محدثہ، فقیہہ، عالمہ، فاضلہ، کاتبہ اور شاعرہ بنیں۔ گویا عورت کی تعلیم و تدریس کا آغاز دینِ اسلام میں ہی ہوا اور اسی کسبِ علم کا تسلسل آج بھی جاری و ساری ہے۔
جواب: عورت کا بطورِ داعیہ تعلیم یافتہ ہونا اس لیے ضروری ہے کہ:
جواب: فریضہ دعوت دین میں داعیہ کی شخصیت کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے قول و فعل میں تضاد کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ جس کی وجہ سے بعض اوقات دعوت بے اثر ہو جاتی ہے اور بعض اوقات نہیں ہوتی۔
اگر داعیہ کے قول وفعل میں تضاد ہو تو اس کی دعوت نہ صرف بے اثر ہو جاتی ہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ قرار پاتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوْا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفۡعَلُونَ. كَبُرَ مَقۡتًا عِندَ ٱللهِ أَن تَقُولُوْا مَا لَا تَفۡعَلُوْنَ﴾
[الصف، 61 : 2-3]
اے ایمان والو! تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو۔ اللہ کے نزدیک بہت سخت ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے۔
مذكوره آيت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے داعیہ کو اُن اُمور کی دعوت دینے سے روکا ہے جن پر وہ خود عمل پیرا نہ ہو، جیسا کہ فرائض وواجبات کی دعوت دینا لیکن خود عمل نہ کرنا باعثِ گناہ وعذاب ہے کیوں کہ ان پر عمل کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ مثلاً نماز پنج گانہ کی پابندی، روزہ کی پابندی، سچ بولنا، بدکاری نہ کرنا، شراب پینے اور دیگر محرمات سے باز رہنا وغیرہ۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
يُجَاءُ بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُلْقَى فِي النَّارِ، فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُهُ فِي النَّارِ فَيَدُورُ كَمَا يَدُورُ الْحِمَارُ بِرَحَاهُ، فَيَجْتَمِعُ أَهْلُ النَّارِ عَلَيْهِ فَيَقُوْلُوْنَ: أَيْ فُلَانُ، مَا شَأْنُكَ، أَلَيْسَ كُنْتَ تَأْمُرُنَا بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَانَا عَنْ الْمُنْكَرِ؟ قَالَ: كُنْتُ آمُرُكُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا آتِيهِ، وَأَنْهَاكُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَآتِيهِ. ([92])
قیامت کے روز ایک آدمی کو لایا جائے گا، پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اُس کی آنتیں آگ کی تپش کی وجہ سے جسم سے باہر نکل آئیں گی۔ وہ انہیں لے کر اس طرح گھومے گا جیسے گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے۔ دوسرے جہنمی اس کے گرد جمع ہوکر اُس سے پوچھیں گے: اے فلاں! کیا وجہ ہے (کہ تم جہنم میں ہو) حالاں کہ تم ہمیں نیکیوں کا حکم دیتے تھے اور برائیوں سے روکتے تھے؟ وہ جواب دے گا: ہاں! میں تمہیں نیکیوں کا حکم دیتا تھا لیکن خود نیکی نہیں کرتا تھا اور تمہیں برائیوں سے روکتا تھا جب کہ خود برے کام کرتا رہتا تھا۔
قول و فعل میں تضاد کی دوسری صورت کا تعلق ان نیک امور کی استطاعت کے ساتھ ہے جن پر داعیہ اگر خود عمل نہ کرے تو اس کی دعوت بے اثر نہیں ہوگی اور نہ ہی وہ گناہ گار متصور ہوگی۔ مثلاً حج کی استطاعت نہ رکھنے کے باوجود حج کی دعوت دینا، صاحبِ نصاب نہ ہونے کے باوجود زکوٰۃ کی فرضیت کے بارے آگہی دینا؛ اسی طرح جہاد، صدقہ و خیرات جیسے اُمور کی ترغیب دینا۔ حدیثِ مبارک میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا:
يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا نَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ حَتَّى نَعْمَلَ بِهِ، وَلَا نَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ حَتَّى نَجْتَنِبَهُ كُلَّهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ ﷺ : بَلْ مُرُوا بِالْمَعْرُوفِ، وَإِنْ لَمْ تَعْمَلُوا بِهِ كُلِّهِ، وَانْهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ. ([93])
یا رسول اللہ! ہم اس وقت تک نیکی کا حکم نہیں دیں گے جب تک ہم مکمل طور پر خود اس پر عمل پیرا نہیں ہو جاتے اور نہ اس وقت تک برائی سے منع کریں گے جب تک ہم مکمل طور پر خود اس سے اجتناب نہیں کر لیتے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: (نہیں) بلکہ نیکی کا حکم دو اگرچہ تم مکمل طور پر اس پر عمل نہ بھی کر سکو اور برائی سے منع کرو اگرچہ مکمل طور پر اس سے اجتناب نہ بھی کر سکو (یعنی اگر مکمل کی بجائے ممکنہ حد تک عمل کرتے ہو تب بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرو)۔
جواب: دعوتِ دین کی مشغولیت بعض اوقات داعی/ داعیہ کی ازدواجی زندگی کو متاثر کرتی ہے اور بعض اوقات نہیں کرتی۔ در حقیقت حقوق و فرائض کی ادائیگی میں عدم توازن کی وجہ سے داعی/ داعیہ کی گھریلو اور دعوتی زندگی میں انتشار پیدا ہوتا ہے اور اس انتشار کے منفی اثرات عائلی زندگی کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔ اکثر و بیشتر داعی/ داعیہ فریضۂ دعوتِ دین میں اِس قدر منہمک ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے اَہل و عیال اور اپنی ازدواجی زندگی کے فرائض کی ادائیگی کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ انہیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ روزمرہ کی زندگی میں کتنے حقوق ایسے ہیں جن کی ادائیگی ان کے ذمہ ہے مگر وہ انہیں ادا نہیں کر رہے۔ جیسے:
بیوی بطور داعیہ اپنی گھریلو ذمہ داریاں جیسے کھانا پکانا، بچوں کی تربیت، شوہر کے حقوق کو پسِ پشت ڈال کر زیادہ وقت فریضہ دعوتِ دین میں مشغول رہتی ہے۔
شوہر بطور داعی اَہل و عیال کی کفالت، ان کے نفقہ اور بیوی کے حقوق کو نظر انداز کرکے کئی کئی دن فریضۂ دعوتِ دین کے سلسلہ میں گھر سے باہر رہتا ہے۔
مذکورہ دونوں صورتوں میں داعی/داعیہ فریضہ دعوت دین کی ادائیگی تو کر رہے ہوتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ وہ اپنی دیگر فرائض سے غفلت برتتے ہیں۔ یہ بات یاد رہے کہ دعوتِ دین کا فریضہ فرضِ کفایہ ہے، جب کہ اپنے عائلی اور خاندانی فرائض کی ادائیگی فرضِ عین ہے۔ لہٰذا فرضِ کفایہ کی ادائیگی میں فرضِ عین یکسر نظر انداز نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے داعی/ داعیہ کو چاہیے کہ فریضہ دعوت دین کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اِزدواجی زندگی کو خوش گوار بنانے کے لیے اپنی گھریلو ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دیں۔ ان دونوں اُمور کی بجا آوری کا حکمِ قرآن و حدیث سے ملتا ہے۔ دعوتِ دین کے فریضہ کی ادائیگی کے بارے میں اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَٱلۡمُؤۡمِنُونَ وَٱلۡمُؤۡمِنَٰتُ بَعۡضُهُمۡ أَوۡلِيَآءُ بَعۡضٍۚ يَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنكَرِ﴾
[التوبة، 9 : 71]
اور اَہلِ ایمان مرد اور اَہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔
جب کہ عائلی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا حکم رسول اللہ ﷺ کے اس فرمانِ مبارک سے ملتا ہے۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَ وَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ. ([94])
ہر آدمی اپنے اہلِ خانہ کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے، اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا۔
ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ داعی/ داعیہ فریضۂ دعوتِ دین اور اِزدواجی زندگی کو متاثر ہونے سے بچانے کے لیے ہر کام میں اِعتدال پسندانہ طرز عمل اپنائیں۔ بعض اوقات داعی/ داعیہ تمام اُمور میں مساوی وقت کی تقسیم کو اعتدال سمجھتے ہیں، مثلاً: ایک گھنٹہ گھریلو اُمور کی انجام دہی کے لیے، ایک گھنٹہ دعوت کے لیے اور ایک گھنٹہ مطالعہ کے لیے۔ اس طرزِ عمل کو متوازن زندگی (balanced life) نہیں کہا جا سکتا کیونکہ بسا اوقات ایک کام کو زیادہ وقت دینے کی ضرورت ہوتی ہے اور دوسرے کام کو کم۔ ہر چیز کو ایک ہی box میں رکھنے کے بجائے ترجیحات کا تعین کرنا ازحد ضروری ہے۔ اعتدال کا مفہوم بھی یہی ہے کہ طے شدہ وقت میں اپنی ترجیحات متعین کرنے کی مہارت ہونا، مناسب وقت میں صحیح امر کو سر انجام دینے کا تعین کرنا اور پھر اس ذمہ داری کو احسن انداز سے نبھانا۔ اعتدال اور توازن قائم کرنا بنیادی اسلامی فریضہ ہے اور اللہ تعالیٰ کو بھی پسند ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
﴿وَكَذَٰلِكَ جَعَلۡنَٰكُمۡ أُمَّةً وَسَطاً﴾
[البقرة، 2 : 143]
اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا۔
لہٰذا جب داعی/ داعیہ اپنے فرائض کی ادائیگی بحسن و خوبی کرے گا، ہر ذمہ داری کو اُس کے وقت پر ادا کرے گا تو دعوت و تبلیغِ دین کا فریضہ ازدواجی زندگی کو کبھی متاثر نہیں کرے گا۔
جواب: جی نہیں! داعیہ محرم کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر دعوت و تبلیغِ دین نہیں کر سکتی، اسے بہرصورت محرم سے اجازت لینا ضروری ہے۔ اس پر قرآنِ حکیم کی درج ذیل آیت سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ٱلرِّجَالُ قَوَّٰمُونَ عَلَى ٱلنِّسَآءِ﴾
[النساء، 4 : 34]
مرد عورتوں کے محافظ اور کفیل ہیں۔
مذکورہ آیت مبارکہ کے مطابق مرد عورتوں کے کفیل ہیں۔ سو وہ گھر سے باہر جانے کے لیے اپنے محافظ اور منتظم سے اجازت لیں گی، جیسا کہ حدیث مبارك میں حضرت حشرج بن زیاد سے روایت ہے کہ ان کی دادی صاحبہ حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ غزوہ خیبر کے لیے نکلیں۔ وہ چھ عورتوں میں سے چھٹی تھیں۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ بات پہنچی تو آپ ﷺ نے انہیں بلا بھیجا۔ وہ حاضر ہوئیں تو انہوں نے آپ ﷺ کے چہرۂ انور پر غصے کے آثار دیکھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
مَعَ مَنْ خَرَجْتُنَّ وَبِإِذْنِ مَنْ خَرَجْتُنَّ. ([95])
تم کس کے ساتھ نکلی ہو اور کس کی اجازت سے نکلی ہو؟
انہوں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہم اس لیے نکلیں کہ اُون كات كر مجاہدین کی مدد کریں اور ہمارے پاس زخمیوں کے لیے دوائیاں ہیں۔ نیز اس لیے کہ ہم (مجاہدین کو) تیر پکڑائیں اور ستو گھولیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم اپنے گھر میں رہو۔ یہاں تک کہ جب اﷲ تعالیٰ نے خیبر کو فتح کروا دیا تو ہمیں بھی مردوں کی طرح حصہ ملا۔ میں عرض گزار ہوا: دادی جان! وہ کیا تھا؟ فرمایا: کھجوریں۔
اس حدیثِ مبارک میں حضور نبی اکرم ﷺ کا ان عورتوں سے پوچھنا کہ تم کس کے ساتھ اور کس کی اجازت سے نکلی ہو؟ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے محرم سے اجازت لیے بغیر باہر نہیں جا سکتیں۔
جواب: اگر گھریلو سربراہ عورت کو گھر سے باہر دعوت و تبلیغِ دین کی اجازت نہیں دیتا تو اسے بحیثیت داعیہ درج ذیل امور سرانجام دینے چاہییں:
جواب: جو مائیں گھریلو مصروفیات یا مجبوریوں کے باعث گھر سے باہر دعوت و تبلیغِ دین نہ کر سکتی ہوں تو وہ عملاً اپنے گھر کا ماحول بہتر بناتے ہوئے اپنی پوری توجہ اپنے بچوں کی تربیت کی طرف مرکوز کریں تاکہ مستقبل میں وہ دینِ اسلام کے عظیم مبلغ بن سکیں۔ عورت کو بحیثیت ماں درج ذیل نکات پر اپنے بچوں کی تربیت کرنی چاہیے:
جواب: فروغِ دین کے لیے عملی جد و جہد کرنا اپنی جگہ بہت اَہمیت کا حامل ہے۔ لیکن اگر صاحبِ ثروت خواتین عملی طور پر یہ فریضہ سرانجام نہ دے سکتی ہوں تو دعوتِ دین کے لیے ان کی مالی اعانت کرنا عملی کوشش کرنے کے مترادف ہے۔ یہ خواتین درج ذیل جہات پر فروغِ دین میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں:
عملی طور پر کام نہ کرنے والی صاحبِ ثروت خواتین کا مذکورہ بالا مالی اعانت کے ذریعے خدمت کرنا مقبول ہے اور راہِ خدا میں ان کا خرچ کیا ہوا مال بےحساب اضافے کے ساتھ انہیں لوٹایا جائے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿مَن ذَا ٱلَّذِي يُقۡرِضُ ٱللهَ قَرۡضًا حَسَناً فَيُضَٰعِفَهٗ لَهٗٓ أَضۡعَافاً كَثِيرَة وَٱللهُ يَقۡبِضُ وَيَبۡصُۜطُ وَإِلَيۡهِ تُرۡجَعُونَ﴾
[البقرة، 2 : 245]
کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسنہ دے پھر وہ اس کے لیے اسے کئی گنا بڑھا دے گا، اور اللہ ہی (تمہارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
جواب: حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر رکھنے والی خواتین درج ذیل موضوعات پر بذریعہ قلم اور تحریر دعوت و تبلیغ میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں:
جواب: ماڈرن اور لبرل خواتین کو درج ذیل طریقے سے دعوتِ دین دی جائے:
جواب: داعیہ کے لیے دعوت و تبلیغِ دین کا فریضہ سرانجام دینے کے دوران بھی ہاتھ اور پاؤں کے علاوہ سارے جسم کو ڈھانپنا فرض ہے۔ تاہم عمر کے تقاضے اور معاشرتی اخلاقی اقدار کے پیشِ نظر چہرہ ڈھانپنے کے حوالے سے تین طرح کے احکامات ہیں۔ جو بعض حالات میں واجب، بعض میں مباح اور بعض میں مستحب ہیں۔
جواب: داعیہ کے لیے درج ذیل حالات میں چہرے کا پردہ واجب، مباح یا مستحب ہوتا ہے:
جواب: جی ہاں!پردہ کے معاملہ میں اَزواجِ مطہرات اور صحابیات کی سیرت ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ احکاماتِ پردہ کے نزول کے بعد ازواجِ مطہرات اور صحابیات نے باقاعدہ پردہ کا اہتمام کیا۔ وہ ہر طرح کے اُمورِ زندگی میں صحابیات کے ساتھ صحابہ کرام l کو درس و تدریس کرنے، حالتِ جنگ میں مجاہدین کی مرہم پٹی اور تیمارداری کرنے میں پردہ کا التزام کرتیں۔ ازواجِ مطہرات کے پردہ پر سختی سے عمل کرنے کو درج ذیل احادیثِ مبارکہ واضح کرتی ہیں۔
1۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
كَانَ الرُّكْبَانُ يَمُرُّونَ بِنَا، وَنَحْنُ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ مُحْرِمَاتٌ، فَإِذَا حَاذَوْا بِنَا سَدَلَتْ إِحْدَانَا جِلْبَابَهَا مِنْ رَأْسِهَا عَلَى وَجْهِهَا، فَإِذَا جَاوَزُوْنَا كَشَفْنَاهُ. ([96])
ہمارے پاس سے سوار گزرتے تھے حالانکہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ احرام باندھے جا رہی ہوتی تھیں۔ جب لوگ ہمارے سامنے آتے تو ہم اپنی چادر کو اپنے سروں سے اپنے چہرے پر لٹکا لیتیں اور جب وہ گزر جاتے تو ہم اپنے چہرے کو کھول دیتیں۔
2۔ اسی طرح صحابیات جب حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں مسائل پوچھنے اور وعظ سننے آتیں تو پردہ کا اہتمام کرتیں۔ صحابیات کے پردہ کرنے کی اَہمیت درج ذیل حدیثِ مبارک سے ثابت ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
أَوْمَتِ امْرَأَةٌ مِنْ وَرَاءِ سِتْرٍ، بِيَدِهَا كِتَابٌ، إِلَى رَسُوْلِ اللَّهِ ﷺ، فَقَبَضَ النَّبِىُّ ﷺ يَدَهُ فَقَالَ: مَا أَدْرِي أَيَدُ رَجُلٍ أَمْ يَدُ امْرَأَةٍ؟ قَالَتْ: بَلِ امْرَأَةٌ. قَالَ: لَوْ كُنْتِ امْرَأَةً لَغَيَّرْتِ أَظْفَارَكِ يَعْنِي بِالْحِنَّاءِ؟ ([97])
پردے کے پیچھے سے ایک عورت نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا جس کے ہاتھ میں خط تھا، جو رسول ﷺ کے نام تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنا دست مبارک پیچھے کھینچ لیا اور فرمایا: مجھے کیا معلوم کہ مرد کا ہاتھ سے یا عورت کا۔ عرض گزار ہوئیں: عورت کا ہے۔ فرمایا: اگر تم عورت ہو تو کم از کم اپنے ناخنوں کو مہندی سے رنگ لیا ہوتا۔
3۔ اسی طرح ایک اور روایت میں حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتی ہیں:
دَخَلَتْ حَفْصَةُ بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَلَى عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ، وَعَلَى حَفْصَةَ خِمَارٌ رَقِيْقٌ، فَشَقَّقَتْهُ عَائِشَةُ وَكَسَتْهَا خِمَارًا كَثِيْفًا. ([98])
ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھتیجی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا ایک نہایت ہی باریک دوپٹہ اُوڑھ کر آپ رضی اللہ عنہا کے سامنے آئیں تو آپ رضی اللہ عنہا نے غصہ کے عالم میں وہ دوپٹہ پھاڑ دیا اور انہیں ایک موٹی چادر اُوڑھنے کے لیے دے دی۔
جواب: داعیہ کے لیے بہرصورت شرعی پردہ کرنا ضروری ہے، تاہم اگر وہ اس کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتی تو اس سے اس کی شخصیت پر درج ذیل منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں:
جواب: جی نہیں! ٹی وی اسکرین پر عورت کا بےپردہ دعوت و تبلیغِ دین کرنا جائز نہیں ہے۔ دعوت وتبلیغِ دین آن کیمرہ ہو یا آف کیمرہ، ہر حال میں عورت کا باپردہ ہونا ضروری ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَا يُبۡدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنۡهَاۖ وَلۡيَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّۖ وَلَا يُبۡدِينَ زِينَتَهُنَّ﴾
[النور، 24 : 31]
اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں۔
جواب: دعوت و تبلیغِ دین کے لیے اشتہارات پر خواتین کا نام دے دینا کافی ہے۔ اُن کی تصاویر کی نمائش کرنا نامناسب عمل ہے۔
جواب: پردہ کے معاملے میں شرعی احکام کی پاس داری کرنے والی پاکستانی خواتین کی شرح نسبتاً کم ہے۔ پردہ کے معاملہ میں پاکستانی خواتین کو چار اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
جواب: جی ہاں! ایسے مقام پر جہاں مرد بھی آواز سن رہے ہوں، عورت کا لاؤڈ اسپیکر پر دعوت و تبلیغ کرنا جائز ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿يَٰنِسَآءَ ٱلنَّبِيِّ لَسۡتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ ٱلنِّسَآءِ إِنِ ٱتَّقَيۡتُنَّۚ فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِٱلۡقَوۡلِ فَيَطۡمَعَ ٱلَّذِي فِي قَلۡبِهٖ مَرَضٞ وَقُلۡنَ قَوۡلاً مَّعۡرُوفاً﴾
[الأحزاب، 33 : 32]
اے اَزواجِ پیغمبر! تم عورتوں میں سے کسی ایک کی بھی مِثل نہیں ہو، اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو (مَردوں سے حسبِ ضرورت) بات کرنے میں نرم لہجہ اختیار نہ کرنا کہ جس کے دل میں (نِفاق کی) بیماری ہے (کہیں) وہ لالچ کرنے لگے اور (ہمیشہ) شک اور لچک سے محفوظ بات کرنا۔
مذکورہ آیت مبارکہ میں اُمہات المؤمنین کو بالخصوص اور مسلم خواتین کو بالعموم غیرمحرم مردوں سے پردہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ان سے نرم لہجہ میں بات کرنے سے منع کیا گیا ہے جب کہ صاف سیدھی بات کرنے کی اجازت دی ہے۔ یہ حکم دلالت کرتا ہے کہ عورت کی آواز پردہ میں شامل نہیں ہے، اگر عورت کی آواز بھی پردہ کا حصہ ہوتی تو سیدھی اور صاف بات کرنے کی اجازت نہ دی جاتی بلکہ پوری طرح منع کر دیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس مردوں کی موجودگی میں خواتین آ کر سوالات کرتی تھیں اور آپ ﷺ انہیں جواب دیتے تھے۔ آپ ﷺ نے کبھی عورتوں کو پوچھنے سے منع نہيں کیا اور نہ مردوں سے یہ کہا کہ تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ عورت کی آواز پردے کا حصہ نہیں ہے۔ لہٰذا دعوت وتبلیغِ دین اور معاشرے کی بھلائی کی خاطر عورت مردوں کے سامنے لاؤڈ اسپیکر اور ٹی وی پر بھی بیان کر سکتی ہے۔
جواب: جی ہاں! داعیہ مسجد میں بھی دعوت و تبلیغِ دین کا فریضہ سرانجام دے سکتی ہے۔ چونکہ عورتیں معاشرے کا نصف سے زائد حصہ ہیں اور ان کی تعلیم و تربیت بھی اَز حد ضروری ہے، اس لیے مسجد میں مردوں کی طرح عورتوں کو دعوت و تبلیغِ دین کے لیے اکٹھا کر کے داعیہ انہیں وعظ ونصیحت کر سکتی ہے۔
جواب: جی ہاں! داعیہ غیرمحرم مردوں کو دعوت وتبلیغِ دین کر سکتی ہے بشرطیکہ وہ باپردہ اور باحفاظت ہو۔ لیکن اگر داعیہ بے پردہ ہو اور اس کی عزت و ناموس بھی غیر محفوظ ہو تو وہ مرد تو کیا عورتوں کو بھی دعوت و تبلیغِ دین کرنے کی حق دار نہ ہوگی۔ سب سے پہلے اس کا باپردہ اور باحفاظت ہونا ضروری ہے۔
جواب: جی ہاں! عورت اپنے مثبت اور منفی کردار سے فروغِ دین میں مرد کو ناکام اور کامیاب بنا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے مابین غیر معمولی کشش اور محبت کا جذبہ رکھ دیا ہے۔ دونوں کا تعاون معاملاتِ زندگی میں ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
رَحِمَ اللهُ رَجُلًا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّى، وَأَيْقَظَ امْرَأَتَهُ، فَإِنْ أَبَتْ، نَضَحَ فِي وَجْهِهَا الْمَاءَ، رَحِمَ اللهُ امْرَأَةً قَامَتْ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّتْ، وَأَيْقَظَتْ زَوْجَهَا، فَإِنْ أَبَى، نَضَحَتْ فِي وَجْهِهِ الْمَاءَ. ([99])
اللہ کی رحمت ہو اس شخص پر جو رات کو اُٹھے اور نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو بھی نماز کے لیے جگائے، اگر وہ نہ اُٹھے تو اس کے چہرے پر پانی چھڑک دے۔ اللہ کی رحمت ہو اس عورت پر جو رات کو اُٹھے اور نماز پڑھے اور اپنے شوہر کو جگائے اور اگر وہ نہ اُٹھے تو اس کے چہرے پر پانی چھڑک دے۔
گویا مرد اور عورت ایک دوسرے کے معاون اور مددگار ہیں۔ یہ معاونت برائی میں بھی ہوسکتی ہے اور نیکی کے کاموں میں بھی۔ عورت اگر چاہے تو وہ دین کے معاملے میں مرد کی استقامت کا سبب بن جائے۔ اس کی سب سے بڑی مثال حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت کے بعد سب سے پہلے آپ ﷺ پر ایمان لائیں۔ مال و متاع سے اپنے زوج کی اس قدر معاونت کی کہ دین مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ تاریخ میں آپ رضی اللہ عنہا کا نام حضور نبی اکرم ﷺ کی بہترین رفیقۂ حیات اور راہِ حق کی عظیم معاونہ کی حیثیت سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا۔ سیرت ابنِ ہشام میں ہے:
وَآمَنَتْ بِهِ خَدِيْجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَصَدَّقَتْ بِمَا جَاءَهُ مِنَ اللهِ، وَ وَازَرَتْهُ عَلَى أَمْرِهِ، وَكَانَتْ أَوَّلَ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَبِرَسُوْلِهِ، وَصَدَّقَ بِمَا جَاءَ مِنْهُ، فَخَفَّفَ اللهُ بِذَلِكَ عَنْ نَبِيِّهِ ﷺ لَا يَسْمَعُ شَيْئًا مِمَّا يَكْرَهُهُ مِنْ رَدٍّ عَلَيْهِ وَتَكْذِيْبٍ لَهُ فَيُحْزِنُهُ ذَلِكَ إِلَّا فَرَّجَ اللهُ عَنْهُ بِهَا، إِذَا رَجَعَ إِلَيْهَا تُثَبِّتُهُ، وَتُخَفِّفُ عَلَيْهِ، وَتُصَدِّقُهُ، وَتُهَوِّنُ عَلَيْهِ أَمْرَ النَّاسِ. ([100])
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلد آپ ﷺ پر ایمان لائیں۔ اللہ کی طرف سے جو دین آپ ﷺ لائے تھے اس کی تصدیق کی۔ آپ ﷺ کی تبلیغی جد و جہد میں آپ کی معاونت کی۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے اور آپ ﷺ کے ماننے والوں میں پہلی شخصیت ان ہی کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے اپنے نبی کا بوجھ ہلکا کیا۔ رسول اللہ ﷺ اپنی تردید یا تکذیب یا کوئی بھی تکلیف دہ بات سنتے۔ تو جس وقت آپ ﷺ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچتے تو اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے اسے دور فرماتا۔ وہ آپ ﷺ کو ثابت قدم رکھتیں۔ آپ ﷺ کا غم ہلکا کرتیں اور آپ ﷺ کی باتوں کی تصدیق کرتیں اور لوگوں کے رویے کی تحقیر اور مذّمت فرماتیں۔
اس کے برعکس اگر عورت چاہے تو ایک غلط رَو شوہر کو اس کی غلط روی میں اس حد تک پہنچا دے کہ ہمیشہ کے لیے بدبختی اس کا مقدر ٹھہر جائے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ابو لہب کی بیوی کی ہے۔ ابو لہب اسلام اور داعیِ اسلام ﷺ کا بدترین دشمن تھا۔ اپنی بے تحاشا دولت کے بل بوتے پر وہ فدایانِ اسلام کو بہت اذیتیں پہنچاتا تھا۔ اس کی بیوی اس معاملے میں اس کی سب سے بڑی معاون اور مددگار تھی۔ وہ جو غلط منصوبہ بناتا، اس کی بیوی اس کے ہر طرح کے اقدام میں بھرپور تائید کرتی۔ نتیجتاً وہ دین کی مخالفت میں بڑھتا چلا گیا اور قرآن نے صراحتاً اعلان کر دیا کہ یہ عورت ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں جائے گی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿تَبَّتۡ يَدَآ أَبِي لَهَبٖ وَتَبَّ. مَآ أَغۡنَىٰ عَنۡهُ مَالُهٗ وَمَا كَسَبَ. سَيَصۡلَىٰ نَاراً ذَاتَ لَهَبٍ. وَٱمۡرَأَتُهٗ حَمَّالَةَ ٱلۡحَطَبِ. فِي جِيدِهَا حَبۡلٞ مِّن مَّسَدِۢ﴾
[اللهب، 111 : 1-5]
ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے (اس نے ہمارے حبیب پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی ہے)oاسے اس کے (موروثی) مال نے کچھ فائدہ نہ پہنچایا اور نہ ہی اس کی کمائی نے۔ عنقریب وہ شعلوں والی آگ میں جا پڑے گا۔ اور اس کی (خبیث) عورت (بھی) جو (کانٹے دار) لکڑیوں کا بوجھ (سر پر) اٹھائے پھرتی ہے، (اور ہمارے حبیب کے تلووں کو زخمی کرنے کے لیے رات کو ان کی راہوں میں بچھا دیتی ہے)۔ اس کی گردن میں کھجور کی چھال کا (وہی) رسّہ ہوگا (جس سے کانٹوں کا گٹھا باندھتی ہے)۔
جواب: دعوت و تبلیغِ دین کے لیے جب داعیات بااعتماد گروپ کی شکل میں ہوں تو باپردہ رہتے ہوئے سفر کر سکتی ہیں، بشرطیکہ ان کی عزت و ناموس محفوظ ہو۔ لیکن اگر داعیہ تنہا ہو تو ایسی صورت میں غیرمحرم کے ساتھ اس کا سفر کرنا جائز نہیں۔
جواب: داعیہ کا دعوت و تبلیغِ دین کے عوض اُجرت لینا جائز عمل ہے، لیکن اعلیٰ اور پیغمبرانہ طریق یہ ہے کہ دعوت و تبلیغِ دین کا فریضہ بغیر کسی اُجرت و معاوضہ کے سر انجام دیا جائے۔ دعوت و ارشاد اور تقریر و تبلیغِ دین پیغمبرانہ ذمہ داری ہے۔
1۔ پیغمبرانِ کرام علیہم السلام اپنی قوم کو وعظ و تبلیغ کرتے تو فرماتے:
﴿فَإِن تَوَلَّيۡتُمۡ فَمَا سَأَلۡتُكُم مِّنۡ أَجۡرٍۖ إِنۡ أَجۡرِيَ إِلَّا عَلَى ٱللهِ﴾
[يونس، 10 : 72]
سو اگر تم نے (میری نصیحت سے) منہ پھیر لیا ہے تو میں نے تم سے کوئی معاوضہ تو نہیں مانگا، میرا اجر تو صرف اللہ (کے ذمۂ کرم) پر ہے
2۔ سورہ یٰسین میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندے کی گفتگو کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
﴿وَجَآءَ مِنۡ أَقۡصَا ٱلۡمَدِينَةِ رَجُلٞ يَسۡعَىٰ قَالَ يَٰقَوۡمِ ٱتَّبِعُوْا ٱلۡمُرۡسَلِينَ. ٱتَّبِعُواْ مَن لَّا يَسَۡٔلُكُمۡ أَجۡراً وَهُم مُّهۡتَدُونَ﴾
[یسٓ، 36 : 20-21]
اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا، اس نے کہا: اے میری قوم! تم پیغمبروں کی پیروی کرو۔ ایسے لوگوں کی پیروی کرو جو تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں۔
گویا پیغمبرانہ طرزِ عمل یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کی ذمہ داری کی ادائیگی کے عوض لوگوں سے کسی قسم کا معاوضہ اور بدلہ نہ مانگا جائے اور تقریر و تبلیغ کے لیے لوگوں سے کسی قسم کے بدلے یا فائدے کا سوال نہ کیا جائے۔ بلکہ یہ ذمہ داری اللہ کے پیغمبروں کی طرح محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور خدمتِ دین سمجھ کر ادا کی جائے اور اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے۔
لیکن اگر علماء، خطبا، واعظین اور مبلغین اپنے وقت کے عوض اُجرت لیتے ہیں تو یہ جائز عمل ہے۔ علماء، خطباء، مقررین، مدرسین، اَئمہ اور مؤذن جو عوض، اُجرت یا معاوضہ لیتے ہیں وہ (معاذ اللہ) دین کی خرید و فروخت نہیں ہے، بلکہ پابندیِ وقت کا ’حق الخدمت‘ ہے۔ یہ تمام خدمات بلاشبہ اللہ کی رضا کے لیے ہونی چاہییں، لیکن سلسلہ خدمات کو جاری رکھنے کے لیے وقتِ ضرورت مناسب وظیفہ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ عصرِ حاضر میں یہ ایک ضرورت بھی ہے۔ اگر درمیان سے اسے اٹھا دیا جائے تو دینی فرائض کی ترویج اور نشر و اشاعت کا سلسلہ رک جائے گا کیوں کہ ہر شخص تقویٰ اور خشیتِ الٰہی کے پیغمبرانہ معیار پر نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص صاحبِ مال اور صاحبِ استطاعت ہے تو اسے یہ خدمات فی سبیل اللہ ادا کرنی چاہییں۔
علامہ شامی فرماتے ہیں:
إِنَّ الْمُتَقَدِّمِيْنَ مَنَعُوا أَخْذَ الْأُجْرَةِ عَلَى الطَّاعَاتِ وَأَفْتَى الْمُتَأَخِّرُوْنَ بِجَوَازِهِ عَلَى التَّعْلِيْمِ وَالْأَذَانِ وَالْإِمَامَةِ ... كَانَ مَذْهَبُ الْمُتَأَخِّرِيْنَ هُوَ الْمُفْتَى بِهِ. ([101])
متقدم علماء نے عبادات پر اُجرت لینے سے منع کیا ہے، جب کہ متاخر علماء نے تعلیم اور اذان و امامت پر اجرت جائز ہونے کا فتوی دیا ہے۔ …… اور اُصول یہ ہے کہ فتویٰ متاخرین کے مذہب پر دیا جاتا ہے۔
چوں کہ مسلمانوں کی رفاہ کے لیے کام کرنے، زکوٰۃ اور ٹیکس وصول کرنے والے شخص کا مال دار ہونے کے باوجود ان اموال سے استفادہ کرنا جائز ہے، لہٰذا مقررین، مبلغین، داعیین اور داعیات كے لیے بقدر ضرورت تنخواہ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن دینی خدمت سرانجام دینے والوں کے ہاں اصلاً استغناء، لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے سے گریز کرنا اور ان کے لیے دوسروں سے کسی بھی قسم کی اُمید وابستہ کرنے سے احتراز کرنا بہت ضروری ہے۔
جواب: جی ہاں! داعیہ کو زکوٰۃ دینا جائز ہے۔ مصارفِ زکوٰۃ سے متعلقہ آیت مبارکہ کی تفسیر میں صاحبِ ’تفسیر المنار‘ زکوٰۃ کے مصرف فی سبیل اللہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
إِنَّ سَبِيلَ اللهِ هُنَا مَصَالِحُ الْمُسْلِمِينَ الْعَامَّةُ الَّتِي بِهَا قِوَامُ أَمْرِ الدِّينِ وَالدَّوْلَةِ دُونَ الْأَفْرَادِ ... وَمِنْ أَهَمِّ مَا يُنْفَقُ فِي سَبِيلِ اللهِ فِي زَمَانِنَا هَذَا إِعْدَادُ الدُّعَاةِ إِلَى الْإِسْلَامِ ... وَإِمْدَادُهُمْ بِالْمَالِ الْكَافِي ... وَيَدْخُلُ فِيهِ النَّفَقَةُ عَلَى الْمَدَارِسِ لِلْعُلُومِ الشَّرْعِيَّةِ وَغَيْرِهِمْ مِمَّا تَقُومُ بِهِ الْمَصْلَحَةُ الْعَامَّةُ. ([102])
سبیل اللہ سے مراد وہ مصالح اور مفید کام ہیں جن سے مخصوص افراد نہیں بلکہ عام مسلمانوں کو فائدہ پہنچے جن سے دین اور دولت دونوں کو تقویت حاصل ہو۔ ہمارے زمانہ میں سب سے اَہم کام جس میں اس مد کا روپیہ خرچ کیا جائے وہ مبلغین اسلام کو تیار کرنا اور ان کی مالی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ اس میں مدارسِ اسلامیہ بھی داخل ہیں جن میں علومِ دینیہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر کام بھی (فی سبیل اللہ کی مد میں شامل ہیں) جن میں مصلحتِ عامہ کا پہلو شامل ہے۔
فقہا ء کرام زکوٰۃ کے مصرف فی سبیل اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
وَأَمَّا قَوْلُهُ تَعَالَى: ﴿وَفِي سَبِيلِ ٱللَّهِ﴾ عِبَارَةٌ عَنْ جَمِيْعِ الْقُرْبِ فَيَدْخُلُ فِيْهِ كُلُّ مَنْ سَعَى فِي طَاعَةِ اللهِ تَعَالَى وَسَبِيْلِ الْخَيْرَاتِ. ([103])
اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَفِي سَبِيلِ ٱللَّهِ﴾ یہ سارے نیک کاموں سے عبارت ہے، اس لیے اس میں ہر وہ شخص داخل ہوگا جو اﷲ تعالیٰ کی اطاعت اور اچھے کاموں میں کوشاں ہوگا۔
لہٰذا عصرِ حاضر میں دین کی ترویج واشاعت، دعوت وتبلیغِ دین، تعلیم و تدریس، کتب دینیہ و عصریہ کی ترسیل اور اصلاحِ معاشرہ کی خاطر اٹھائے جانے والے ہر قدم کے لیے زکوٰۃ کی رقم خرچ کر سکتے ہیں۔ اس لیے داعیہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زکوٰۃ کی مد سے اس کو مال دینا جائز ہے۔
جواب: جی ہاں! ناگزیر حالات میں داعیہ اپنی حکمتِ عملی تبدیل کر سکتی ہے۔ کیونکہ جس عمل میں تحرک ہوتا ہے، اس میں فعالیت ہوتی ہے اور اس کو آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ حالات کے ساتھ ساتھ تقاضے بھی بدل جاتے ہیں۔ اسی لیے قرآن و حدیث میں بھی ناسخ اور منسوخ ہوتے ہیں۔ ایک وقت کے تقاضے کے مطابق اللہ تعالیٰ ایک آیت مبارکہ کا نزول فرماتا ہے۔ جب وہ تقاضے تبدیل ہو جاتے ہیں تو نئی آیت مبارکہ نازل ہو جاتی ہے، جو پہلے حکم کو منسوخ کر کے نیا حکم نافذ کر دیتی ہے۔ اللہ کے احکام میں بھی ایک تدریج ہے۔ حکم میں تبدیلی آجاتی ہے، مگر اسے انحراف نہیں کہتے، بلکہ یہ تبدیلی تسلسل کا حصہ ہوتی ہے۔ جب حالات اور اس کے تقاضے بدل جائیں تو بدلے ہوئے حالات میں پچھلی strategy کو برقرار رکھنا اللہ تعالیٰ کی سنت کے خلاف اور اسلام کے مزاج کے بھی خلاف ہے۔ اسلام میں ناسخ و منسوخ کا فلسفہ بھی یہی ہے۔
احکامات میں تبدیلی کرنا جس طرح اللہ تعالی کی سنت مبارکہ ہے، اُسی طرح انبیاء کرام علیہم السلام کی بھی سنت مبارکہ ہے۔ سیدنا نوح علیہ السلام سے لے کر سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور پھر سیدنا ہود علیہ السلام، سیدنا یوسف علیہ السلام، سیدنا صالح علیہ السلام، سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام تک انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی اپنی بعثت کے مقاصد کے حوالے سے جو جد و جہد اور اصلاح کی تحریک بپا کی تو اس وقت کے حالات کے تناظر میں اپنی منصوبہ بندی میں حکمتِ عملی کی تبدیلیاں بھی اَمرِ اِلٰہی سے کرتے رہے۔ لہٰذا حالات کے بدلنے کے ساتھ احکامات بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ سوائے اُس اصل کے جس کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے برقرار رکھا ہو۔ سو ناگزیر حالات کے تناظر میں داعیہ اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی کر سکتی ہے۔
جواب: جی نہیں! دعوت کی حکمتِ عملی میں تبدیلی مقصد سے انخراف نہیں کہلاتی۔ دعوتی سرگرمیاں جامد نہیں ہوتیں بلکہ ان میں تحرک رہتا ہے۔ جب ماحول بدلتا ہے تو حالات اور factors بھی بدلتے ہیں۔ اگر اس دوران حکمتِ عملی میں تبدیلی نہ کی جائے تو دعوتی کام متحرک اور فعال ہونے کی بجائے تساہل کا شکار ہو جاتا ہے۔ حالات کے بدلنے کے ساتھ اساسی احکامات کے علاوہ دیگر تشریحی احکامات اور پالیسیاں بھی تبدیل کرنا پڑتی ہیں۔
یہ امر ذہن نشین رہے کہ یہ تبدیلی ہوتی ہے نہ کہ اِنحراف اور یہ تبدیلی بھی تسلسل ہی کا حصہ ہوتی ہے۔ اس پر فقہاء کرام اور اَئمہ و مجتہدین نے کتب لکھیں اور ابحاث کی ہیں کہ تبدلِ اَحکام کو تبدیلی نہ کہو بلکہ تسلسل کہو، اگرچہ حکم بدل گیا ہے مگر یہ پچھلے حکم کا ہی تسلسل ہے۔
سو پیغمبرانہ و نبوی زندگی، امت کی زندگی اور تحریکی زندگی میں ارتقا جاری و ساری رہتا ہے۔ حالات کے مطابق تحرک اور فعالیت کے لیے ناسخ و منسوخ کا عملی نفاذ کرنا پڑتا ہے۔ یہ مقصد سے ہٹ جانا اور انحراف کرنا نہیں کہلاتا۔ جو اس کو انحراف قرار دے، دراصل وہ کم فہمی اور لاعلمی کے باعث فتنہ پیدا کر رہا ہوتا ہے اور کارکن کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ خود کو کسی فتنہ کا شکار کرے۔
جواب: فرقہ واریت کے عفریت نے ہی مسلم اُمہ کو اَقوامِ عالم کے سامنے ذلیل و رُسوا کر دیا ہے۔ ایک مخلص داعیہ کو کبھی فروعی، نزاعی اور اختلافی اُمور کو موضوعِ بحث نہیں بنانا چاہیے۔ اس کا فرض اُمت کو جوڑنا ہے۔ مودت و محبت اور اخلاص سے سرشار ہو کر دلوں میں اللہ، اس کے رسول ﷺ اور دین کی محبت پیدا کرنا ہے۔ یہ فرقہ واریت ہی ہے جس نے ملت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے، اس کا بنیادی سبب یہی تینوں فروعی، نزاعی اور اختلافی اُمور ہیں۔ بعض متنازعہ امور اگرچہ اتنے اَہم نہیں ہوتے، ان سے صرفِ نظر کیا جا سکتا ہے؛ لیکن یہ فتنہ پرور داعیات ہیں جو اختلافات کی آگ بڑھکانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتیں۔ اللہ سے خوف رکھنے والی داعیہ ان امور پر کبھی بات نہیں کرتی۔ انسانی فلاح و بہبود کے بے شمار موضوعات داعیاتِ دین کی لب کشائی کے منتظر ہیں، جن کی تبلیغ سے انسانیت ان گنت درپیش مسائل سے عمدہ طریقے سے عہدہ برآ ہو سکتی ہے۔ لہٰذا حتی المقدور ایسے موضوعات سے اجتناب کرتے ہوئے اختلافات کے بجائے مشترکات پر بات کرنی چاہیے اور وقت کی ضرورت کے مطابق موضوعات کو اپنی دعوت کا حصہ بنانا چاہیے۔
جواب: جی نہیں! ایک داعیہ کا اندازِ دعوت بے ہنگم، شعلہ نوائی اور جوشِ بیان پر مشتمل نہیں ہونا چاہیے۔ ایسا انداز اپنانے سے نہ صرف داعیہ کا وقار ختم ہوتا ہے بلکہ دین کے وقار کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایک اچھی داعیہ کی دعوت کے پیچھے علم و حکمت پنہاں ہو، وہ متحمل مزاج ہو، اس کے عمل میں اطمینان اور متانت کا عنصر ہو۔ اُس کی گفت گو مدلل اور موضوع کے عین مطابق ہو۔ اس کے خطاب میں توازن ہو تاکہ سامعات اس کی گفت گو کے سحر سے متاثر ہو کر اس کے پند و نصائح کو پوری توجہ سے سنیں؛ لیکن اگر داعیہ ان جملہ اوصاف سے محروم ہو اور چاہے کہ اپنی بے ہنگم شعلہ نوائی سے سامعات کے قلوب و اذہان پر اثر انداز ہو سکے تو ایسا ہونا ناممکن ہے۔
([90]) أخرجه ابن ماجه في السنن، باب فضل العلماء والحث على طلب العلم، 1 : 81، الرقم : 224، وأبو يعلي في المسند، 5 : 223، الرقم : 2837.
([91]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 : 372، 27140، وأبو داود في السنن، كتاب الطب، باب ما جاء في الرقى، 4 : 11، 3887.
([92]) أخرجه البخاری في الصحیح، كتاب بدء الخلق، باب صفة النار، 3 : 1191، الرقم : 3094، ومسلم في الصحیح، كتاب الزهد والرقائق، باب عقوبة من يأمر بالمعروف ولا يفعله وينهى عن المنكر ويفعله، 4 : 2290، الرقم : 2989.
([93]) أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 : 365، الرقم : 6628، وأيضًا في المعجم الصغير، 2 : 175، الرقم : 981.
([94]) أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب العتق، باب كراهية التطاول على الرقيق وقوله عبدي أو أمتي، 2 : 901، الرقم : 2416، ومسلم في الصحيح، كتاب الإمارة، باب فضيلة الإمام العادل وعقوبة الجائر والحث على الرفق بالرعية والنهي عن إدخال المشقة عليهم، 3 : 1459، الرقم : 1829، والترمذي في السنن، كتاب الجهاد، باب ما جاء في الإمام، 4 : 208، الرقم : 1705، وابن حبان في الصحيح، 10 : 343، الرقم : 4491.
([95]) أخرجه أبو داود في السنن، كتاب الجهاد، باب في المرأة والعبد يحذيان من الغنيمة، 3 : 74، الرقم : 2729، والبيهقي في السنن الكبری، 6 : 332، الرقم : 12694.
([96]) أخرجه أبو داود في السنن، كتاب اللقطة، باب في المحرمة تغطي وجهها، 2 : 167، الرقم : 1833، والبيهقي في السنن الكبری، 5 : 48،الرقم : 8833.
([97]) أخرجه أبو داود في السنن، كتاب الترجل، باب في الخضاب للنساء، 4 : 77، الرقم : 4166، والنسائي في السنن، الخضاب للنساء، 8 : 142، الرقم : 5089.
([98]) أخرجه مالك في الموطأ، 2 : 913، الرقم : 1625، والبيهقي في السنن الكبری، 2 : 235، الرقم : 3082.
([99]) أخرجه أبو داود في السنن، تفريع أبواب صلاة السفر، باب صلاة المسافر، باب قيام الليل، 2 : 33، الرقم : 1308، وابن ماجه في السنن، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء فيمن أيقظ أهله من الليل، 1 : 424، الرقم : 1336.
([100]) ذكره ابن هشام في السيرة النبوية، 2 : 77.
([101]) ابن عابدين في رد المحتار على الدر المختار، 4 : 417.
([102]) الرشيد رضا في تفسير القرآن الحكيم (التفسير المنار)، 10 : 435-436.
([103]) الکاساني في بدائع الصنائع، 2 : 45، وابن نجيم في البحر الرائق، 2 : 260
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved