جواب: جی ہاں! نیک عورت دنیا کی بہترین متاع ہے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
الدُّنْيَا مَتَاعٌ، وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ. ([32])
دنیا متاع ہے اور دنیا کی بہترین متاع نیک عورت ہے۔
نسلِ انسانی عورت کی وجہ سے ہی وجود میں آئی ہے حتیٰ کہ انسانیت کی رُشد و ہدایت کا پیغام لانے والے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام نے بھی اسی کے وجود سے جنم لیا ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت کا محافظ اور سائبان بنایا ہے مگر یہ ذہنی، فکری، تعلیمی، تحقیقی اور انتظامی امور میں نمایاں صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ اپنی ذات میں اس قدر مضبوط ہے کہ ہر طرح کے حالات کا عزم و ہمت اور صبر و استقامت سے مقابلہ کرتی ہے۔
عورت ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے روپ میں قابلِ اِحترام اور لائقِ تحسین ہے۔ اس کا خمیر خلوص، محبت اور ایثار جیسے جذبوں سے گوندھا گیا ہے۔ یہ بحیثیت بیٹی والدین کے آنگن کی رونق، بحیثیت بہن مخلص دوست، بحیثیت بیوی نصف ایمان کی محافظ اور بحیثیت ماں عزم و وفا کا پیکر ہوتی ہے۔ اس کی نیک سیرت کو متاعِ کل کہا گیا ہے۔
جواب: اسلام سے قبل دنیا کے مختلف مذاہب اور تہذیبوں میں مظلومی و محکومی عورت کا مقدر رہی ہے۔ اسے گناہ کا مجسمہ اور قابلِ نفرت گردانتے ہوئے زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ اسے خدا کا قانون توڑنے، آدم کو بہکانے اور جنت سے نکلوانے کی ذمہ دار سمجھا جاتا، جس بنا پر اسے گناہ گار، بدی کی جڑ، مصیبت کا محرک اور دوزخ کا راستہ قرار دیا گیا۔ اسے بحیثیت انسان اس کے جائز مقام اورحقوق سے محروم رکھا گیا اور محض ایک گوشہ خانہ سمجھ کر مرد کے نطفے کو اہتمام سے رکھنے کی ذمہ دار قرار دیا گیا کہ وہ اس بیج کو محفوظ و مامون رکھے اور اس کی نشو و نما کرے۔
عورت نظام فکر و عمل میں مکمل طور پر مغلوب تھی۔ وہ مرد کی خدمت پر مامور اور اس کی اجازت کے بغیر کوئی کام کرنے سے قاصر تھی۔ مرد کی وفات کے بعد اسے نکاح ثانی کی اجازت نہ تھی، البتہ یہ حق حاصل تھا کہ چاہے تو ستی ہوجائے یا بیوہ بن کر باقی زندگی گزارے۔ اسے نازیبا عنصر سمجھ کر پستی کے ایسےگڑھوں میں پھینکا گیا تھا جس کے بعد اس کے ارتقا کی کوئی صورت ہی نہ تھی۔
مرد کے زیرِ نگیں عورت انتہائی درجہ کے جابرانہ تشدد سے دوچار تھی۔ اسے ذہنی اور جسمانی طور پر مغلوب کر کے اس پر ظلم روا رکھا جاتا تھا۔ یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ عورت ظلم و جبر، ذلت و حقارت، بدسلوکی، تنگ نظری اور جہالت کے اندھیروں سے نبرد آزما تھی۔ یونان ہو یا روم، عرب ہو یا عجم، یورپ ہو یا ایشیا، ہر جگہ عورت مظلوم تھی اور اس کی کوئی مستقل حیثیت نہیں تھی۔
جواب: اسلام نے عورت کو بحیثیت ماں، بہن، بیوی، بیٹی نہ صرف پاکیزگی و تقدس اور عظمت و رفعت جیسی عظیم نعمتوں سے سرفراز کیا بلکہ اسے ذلت و رسوائی کی عمیق گہرائیوں سے نکال کر اعلیٰ درجات پر متمکن کیا اور ان تمام قبیح رسومات کا خاتمہ کیا جو عورت کے انسانی وقار کے خلاف تھیں۔ اسلام نے عورت کو مرد کی طرح معاشرے کا باعزت شہری بنا کر اسے تمام حقوق عطا کیے اور واضح اعلان کیا کہ تکوینِ انسانی میں دونوں ایک جان سے پیدا کیے گئے ہیں۔
1۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُواْ رَبَّكُمُ ٱلَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفۡسٍ وَٰحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنۡهَا زَوۡجَهَا وَبَثَّ مِنۡهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَآءً﴾
[النساء، 4: 1]
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔
2۔ اسلام نے عورت اور مرد کو اجر کے استحقاق میں برابری کا درجہ دیا اورکامیابی کو ایمان و عمل سے مشروط کیا۔ یعنی دنیا اور آخرت میں کامیابی اسی کا مقدر ہو گی جو حسنِ عمل سے آراستہ ہو گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿مَنۡ عَمِلَ صَٰلِحاً مِّن ذَكَرٍ أَوۡ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤۡمِنٞ فَلَنُحۡيِيَنَّهُ حَيَوٰةً طَيِّبَةٗۖ وَلَنَجۡزِيَنَّهُمۡ أَجۡرَهُم بِأَحۡسَنِ مَا كَانُواْ يَعۡمَلُونَ﴾
[النحل، 16: 97]
جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت جبکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے اور انہیں ضرور ان کا اجر (بھی) عطا فرمائیں گے ان اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے تھے۔
3۔ اسلام نے عورت کو مختلف نظریات و تصورات کے محدود دائرے سے نکال کر چاروں حیثیتوں سے باعثِ تکریم بنایا۔ جیسے عورت کی بحیثیت ماں خدمت و اطاعت اور حسنِ سلوک کرنے کی تاکید کی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِي؟ قَالَ: أُمُّكَ. قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أُمُّكَ. قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أُمُّك قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أَبُوكَ. ([33])
ایک آدمی حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا: تمہاری والدہ، عرض کیا: پھر کون؟فرمایا: تمہاری والدہ، عرض کیا: پھر کون؟ فرمایا: تمہاری والدہ، عرض کیا: پھر کون ہے؟ فرمایا: تمہارا والد۔
4۔ عورت کو بحیثیت بیٹی زندہ درگور ہونے سے نجات دلا کر اس کی اچھی پرورش کو کارِ ثواب اور حصولِ جنت کا ذریعہ قرار دیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ كَانَتْ لَهُ أُنْثَى فَلَمْ يَئِدْهَا، وَلَمْ يُهِنْهَا، وَلَمْ يُؤْثِرْ وَلَدَهُ عَلَيْهَا -قَالَ يَعْنِى الذُّكُورَ- أَدْخَلَهُ اللهُ الْجَنَّةَ. ([34])
جس شخص کی بیٹیاں ہوں، سو وہ نہ تو انہیں زند درگور کرے، نہ ہی ان کی اہانت کرے، اور نہ ہی بیٹوں کو ان پر ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو جنت میں داخل فرمائے گا۔
5۔ عورت کو بحیثیت بہن عزت و احترام عطا کر کے اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو موجبِ جنت قرار دیا۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ كَانَ لَهُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ أَوْ ثَلَاثُ أَخَوَاتٍ، أَوِ ابْنَتَانِ أَوْ أُخْتَانِ، فَأَحْسَنَ صُحْبَتَهُنَّ وَاتَّقَى اللهَ فِيهِنَّ فَلَهُ الْجَنَّةُ. ([35])
جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں، وہ ان سے اچھا سلوک کرے اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے تو اس کے لیے جنت ہے۔
6۔ عورت کو بحیثیت بیوی تمام قانونی اور سماجی حقوق عطا کرتے ہوئے اس سے عمدہ برتاؤ کرنے کو ایسا وصف قرار دیا گیا ہے، جس سے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا، وَخِيَارُكُمْ خِيَارُكُمْ لِنِسَائِهِمْ خُلُقًا. ([36])
ایمان والوں میں سب سے کامل ایمان اس شخص کا ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں اور تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہیں۔
جواب: دعوت و تبلیغ ایک ایسا فریضہ ہےکہ حضور نبی اکرم ﷺ کے اِعلانِ نبوت کے اَوّل روز سے لے کر آخری سانس تک اس میں کوئی اِنقطاع واقع نہیں ہوا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد یہ اَہم ذمہ داری اُمتِ مسلمہ کو منتقل کر دی گئی۔ یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے جس سے تاقیامت سبک دوش نہیں ہوا جا سکتا۔ یہ فریضہ مرد اور عورت کے درمیان کسی تفریق کا حامل نہیں ہے۔ عورت کی ذمہ داری صرف اُمورِ خانہ داری، شوہر اور بچوں کی خدمت تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ فریضۂ امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں وہ مرد کے ساتھ یکساں شامل ہے۔ اس پر قرآنِ حکیم شاہد ہے:
﴿وَٱلۡمُؤۡمِنُوْنَ وَٱلۡمُؤۡمِنَٰتُ بَعۡضُهُمۡ أَوۡلِيَآءُ بَعۡضٍۚ يَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنكَرِ﴾
التوبة، 9: 71]
اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔
مذکورہ آیت مبارکہ کی رُو سے مرد کے ساتھ دین کی ترویج و اقامت میں عورت کا کردار نہایت اَہمیت کا حامل ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ تبلیغِ اسلام میں مردوں کے ساتھ عورتوں نے بھی ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور دینِ اسلام کو پھیلانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ فروغِ دعوت و تبلیغ میں تاریخ کے اوراق نامور خواتین کے عظیم کارناموں سے بھرے پڑے ہیں۔ ان میں اُمہات المومنین اور صحابیات کرام جیسے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا، حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا، حضرت اُمِ عمارہ رضی اللہ عنہا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا، حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا، حضرت فاطمہ بنتِ خطاب رضی اللہ عنہا کا شمار صفِ اول میں ہوتا ہے۔ یہ خواتین جذبہ دعوت و تبلیغ سے اس طرح سرشار تھیں کہ بہت سے جید صحابہ کرام رجوان اللہ علیہم اجمعین ان کی دعوت دین سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ اس فریضہ کی انجام دہی میں خواتین کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا، انہیں اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلق ہونا پڑا حتیٰ کہ انہیں اپنے ایمان کی حفاظت کی خاطر گھر بار کو خیر باد کہنا پڑا مگر انہوں نے راہِ حق میں آنے والے ہر طرح کےمصائب و آلام کا صبر و استقامت سے مقابلہ کیا اور فروغِ اسلام میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔
جواب: صحابیات مبشرات سے مراد وہ عظیم المرتبت خواتین ہیں جنہیں حضور نبی اکرم ﷺ نے جنت کی بشارت دی تھی۔ ان صحابیات مبشرات میں اُم المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلد، سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا بنتِ رسول ﷺ، ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بنت ابی بکر صدیق، ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بنت عمر بن الخطاب، حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا بنت ابی طالب، حضرت زینب رضی اللہ عنہا بنتِ رسول ﷺ، حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بنتِ رسول ﷺ، حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا بنتِ رسول ﷺ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت اسد، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بنت ابی بکر، حضرت اُمِ ایمن رضی اللہ عنہا، حضرت اُمِ حرام رضی اللہ عنہا، حضرت رُمیصا رضی اللہ عنہا بنت ملحان، حضرت اُمِ زفر رضی اللہ عنہا اور قبیلہ جہینہ کی خاتون صحابیہ شامل ہیں۔
جواب: اُم المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا حضور نبی اکرم ﷺ کی پہلی رفیقۂ حیات تھیں۔ آپ کی حیات مبارکہ فہم و فراست، ہمدردی و خیر خواہی اور بلند اخلاق کی عظیم مثال ہے۔ وادی مکہ میں جب حضور نبی اکرم ﷺ نے فریضہ نبوت ادا کرنے کے لیے صداے حق بلند کی تو آپ ﷺ کی تائید میں سب سے پہلے لبیک کہنے والی آواز سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہا نے پہلی وحی کے موقع پر بِلا تامل آپ ﷺ کے ہادیِ برحق ہونے کی نہ صرف شہادت دی بلکہ آغازِ اسلام میں آپ ﷺ کی سب سے بڑی معین و مددگار ثابت ہوئیں۔ سیرت ابنِ ہشام میں ہے:
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلد آپ ﷺ پر ایمان لائیں۔ اللہ کی طرف سے جو دین آپ ﷺ لائے تھے اس کی تصدیق کی۔ آپ ﷺ کی تبلیغی جد و جہد میں آپ کی معاونت کی۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ پرایمان لانے اور آپ ﷺ کے ماننے والوں میں پہلی شخصیت ان کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے اپنے نبی کا بوجھ ہلکا کیا۔ رسول اللہ ﷺ اپنی تردید یا تکذیب یا کوئی بھی تکلیف دہ بات سنتے تو رنجیدہ خاطر ہو جاتے، لیکن جب آپ ﷺ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچتے تو اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے اسے دور فرماتا۔ وہ آپ ﷺ کو ثابت قدم رکھتیں۔ آپ ﷺ کا غم ہلکا کرتیں، آپ ﷺ کی باتوں کی تصدیق کرتیں اور لوگوں کے رویے کی تحقیر اور مذّمت فرماتیں۔ ([37])
حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے اسلام لانے کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ کے متعلقین میں بھی اسلام کی تڑپ پیدا ہوئی۔ بڑوں میں حضرت ابوبکر صدیق g، نوجوانوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور بچوں میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے ایمان لائے۔ ان کے بعد دوسرے سعید الفطرت اَصحاب بھی آہستہ آہستہ حلقہ بگوشِ اسلام ہونے لگے۔ آپ رضی اللہ عنہا کو ہمیشہ اسلام کی وسعت پذیری سے مسرت حاصل ہوتی۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فروغِ اسلام میں اپنا تمام مال و زر یتیموں، بیواؤں اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کے لیے وقف کر دیا تھا۔
حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ہر قسم کے روح فرسا مصائب کو ہمیشہ نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور آپ ﷺ کی رفاقت اور جاں نثاری کا حق ادا کر دیا۔ آپ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ابن اسحاق لکھتے ہیں:
وَكَانَتْ لَهُ وَ زِيْرَ صِدْقٍ عَلَی الْإِسْلَامِ. ([38])
وہ اسلام کے متعلق آپ کی سچی مشیرۂ کار تھیں۔
حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا تاحیات اپنے غیر مسلم اَعزاء و اَقارب کے طعن و تشنیع کی پروا کیے بغیر دعوت و تبلیغِ دین میں حضور نبی اکرم ﷺ کا دست و بازو بنی رہیں اور آپ ﷺ کے ساتھ تین سال شعبِ اَبی طالب میں محصور رہ کر تکالیف اور مصائب برداشت کیے۔ جب تین سال کے بعد مقاطعہ ختم ہوا تو آپ رضی اللہ عنہا اس قدر بیمار اور کمزور ہوگئیں کہ اسی بیماری کے عالم میں خالقِ حقیقی سے جا ملیں اور مکہ کے قبرستان حُجُون میں مدفن ہوئیں۔
جواب: اُم المؤمنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا خاندان کفر و شرک میں مبتلا تھا، مگر وہ اسی ماحول اور فضا میں پرورش پانے کے باوجود ان چیزوں سے سخت نفرت کرتی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا شروع سے ہی شرک اور بت پرستی سے نجات حاصل کرنے اور دنیا و آخرت میں ابدی فلاح کی جستجو میں تھیں۔ بالآخر جب آپ رضی اللہ عنہا کے کان میں اللہ کے رسول ﷺ کی آواز پہنچی تو فوراً بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر خلوصِ دل سے اسلام قبول کیا۔ آپ رضی اللہ عنہا کے اسلام لانے کے بعد اہل قبیلہ نے آپ رضی اللہ عنہا پر مصائب و آلام اور آفات و بلیات کے پہاڑ توڑے جن کو آپ رضی اللہ عنہا نے نہ صرف صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کیا بلکہ دینِ اسلام پر بھی ثابت قدم رہیں۔
حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو ازواج مطہرات میں یہ فضیلت حاصل ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد سب سے پہلے آپ رضی اللہ عنہا حضور نبی اکرم ﷺ کے عقد نکاح میں آئیں۔ اطاعت و فرمانبرداری میں آپ رضی اللہ عنہا تمام ازواج مطہرات سے ممتاز تھیں اور امہات المؤمنین میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سوا دیگر سب سے بڑھ کر سخاوت اور فیاضی میں مشہور و معروف تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا مؤثر دعوت و تبلیغ کے لیے سماجی کاموں اور خدمتِ خلق میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں۔ آپ کے پاس جو کچھ ہوتا اسے نہایت فراخ دلی سے حاجت مندوں میں تقسیم کر دیتیں۔ امام محمد بن سیرین سے روایت ہے:
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی خدمت میں ایک تھیلی بھیجی، لانے والے سے پوچھا، اس میں کیا ہے؟ اس نے کہا: درہم۔ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کھجور کی طرح تھیلی میں درہم بھیجے جاتے ہیں۔ یہ کہہ کر اسی وقت سب درہم تقسیم کر دیے۔ ([39])
حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے تا دمِ آخر فروغِ اسلام کے لیے اپنا مال فیاضی سے خرچ کیا اور آپ رضی اللہ عنہا کا وصال عہدِ فاروقی کے آخر میں مدینہ طیبہ اور بعض روایات کے مطابق عہدِ امیر معاویہ میں ہوا اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔
جواب: ازواج مطہرات میں جو اعلیٰ و ارفع مقام اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بنت ابوبکر کو حاصل ہوا وہ قابلِ رشک ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا حسن صورت و سیرت کا حسین مرقع تھیں اور علمی اعتبار سے خداداد ذہانت و فطانت اور فہم و فراست کا پیکر تھیں۔ عینی شاہد ہونے کی بنا پر آپ رضی اللہ عنہا نے حضور نبی اکرم ﷺ کی نجی زندگی اور خانگی اَحوال و معاملات کو بتمام و کمال اُمت تک پہنچایا۔
1۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے علمی کمال کے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:
خُذُوْا نِصْفَ دِيْنِكُمْ عَنْ هَذِهِ الْحُمَيْرَاءِ. ([40])
تم اپنا آدھا دین اِس حمیراء (یعنی عائشہ) سے حاصل کرو۔
2۔ امام زہری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اگر اِس اُمت کی تمام عورتوں کے جن میں اُمہات المومنین بھی شامل ہوں، علم کو جمع کر لیا جائے تو عائشہ کا علم اُن سب کے علم سے زیادہ ہے۔ ([41])
3۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو قرآن حکیم کی حافظہ ہونے کے ساتھ حدیث، فقہ، تاریخ، ادب، علم طب جیسے علوم پر مکمل دست رس حاصل تھی۔ حضرت ہشام بن عروہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:
میں نے قرآن، فرائض، حلال و حرام، شاعری، عرب کی تاریخ، اور نسب کا عالم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔ ([42])
4۔ ہم عصر صحابہ کرام رجوان اللہ علیہم اجمعین اور صحابیات میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی علمی استعداد مسلّمہ تھی۔ جلیل القدر صحابہ کرام رجوان اللہ علیہم اجمعین اپنے اختلافی مسائل کو آپ رضی اللہ عنہا کے سامنے پیش کرتے تو آپ رضی اللہ عنہا اپنی بصیرت اور وسعت علمی کی وجہ سے ان مسائل کو حل کردیتیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں تھی، جس میں خواتین و مرد دونوں شامل تھے۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
جب بھی ہم صحابہ کو کسی حدیث کے بارے میں مشکل پیش آتی، ہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھتے تو ان کے پاس اس کے متعلق ضروری علم پاتے۔ ([43])
5۔ قبیصہ بن ذؤیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عالم تھیں، بڑے بڑے اکابر صحابہ ان سے مسائل پوچھا کرتے تھے۔ ([44])
6۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فطرتاً نہایت دلیر اور نڈر تھیں۔ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ بہت سے غزوات میں شریک ہو کر اَہم کردار ادا کیا۔ غزوہ اُحد میں ان کی خدمات سے متعلق حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
جب غزوۂ اُحد میں لوگ حضور نبی اکرم ﷺ سے دور ہوگئے تو میں نے حضرت عائشہ بنت ابوبکر اور حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ دونوں نے اپنے دامن سمیٹے ہوئے ہیں … دونوں اپنی کمر پر پانی کی مشک لاد کر لاتیں اور پیاسے مسلمانوں کو پلاتی تھیں۔ پھر لوٹ جاتیں اور مشکیزے بھر کر لاتیں اور پیاسے مسلمانوں کو پانی پلاتیں۔ ([45])
7۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ذات میں فیاضی کا وصف بھی بہت نمایاں تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا کے پاس جو کچھ ہوتا اسے راہِ خدا میں خرچ کر دیتیں۔ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ خاصہ تھا کہ اللہ تعالیٰ جو بھی انہیں رزق مرحمت فرماتا اُسے راہِ خدا میں لٹا دیتیں اور اپنے پاس جمع نہیں رکھتی تھیں۔ ([46])
8۔ ہشام بن عروہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:
ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ایک لاکھ درہم بھیجے تو انہوں نے سورج غروب ہونے سے قبل ہی ساری رقم خیرات کر دی اور اپنے لیے کچھ بھی نہ رکھا جب کہ اس دن آپ روزے کی حالت میں تھیں۔ ([47])
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور نبی اکرم ﷺ کی رحلت کے بعد 48 برس تک عالمِ اسلام کے لیے رُشد و ہدایت، علم و فضل اور خیر و برکت کا ایک عظیم مرکز بنی رہیں۔ ان کا وصال عہدِ امیر معاویہ میں ہوا اور ان کی نماز جنازہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور وصیت کے مطابق جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔
جواب: سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا حضور نبی اکرم ﷺ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔ تاریخِ انسانیت کی تمام عفت مآب خواتین کے فضائل و محامد میں آپ رضی اللہ عنہا کی شان سب سے بلند، منفرد اور یکتا دکھائی دیتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے دعوت و تبلیغِ دین میں ہمیشہ اپنے عظیم والدگرامی حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت کا حق ادا کرتے ہوئے پیش آمدہ مصائب و آلام کا بڑی جرأت مندی، شجاعت، ہمت اور متانت سے سامنا کیا اور آپ رضی اللہ عنہا کے پایۂ استقلال میں کبھی لغزش نہ آئی۔ راہِ خدا میں حضور نبی اکرم ﷺ کے دفاع میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہا کے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
ایک مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ حرم شریف میں دورانِ نماز سجدے کی حالت میں تھے تو ابو جہل کے کہنے پر عقبہ بن ابی معیط نے اونٹ کی اوجھڑی لاکر حضور نبی اکرم ﷺ کی کمر مبارک پر رکھ دی۔ یہ منظر دیکھ کر ابو جہل اور اس کے ساتھی ہنسنے لگے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس بات کی خبر پہنچی تو وہ دوڑتی ہوئی آئیں۔ اپنے معصوم ہاتھوں سے اوجھڑی اٹھاکر دور پھینکی اور اپنے نازک ہاتھوں سے اپنے بابا جان کے جسم اقدس کو دھویا اور اپنے والد کی محبت اور احترام میں ان شیاطینِ قریش سے خوب ناراضگی کا اظہار کیا۔ فرمایا: شریرو! احکم الحاکمین تمہیں ان شرارتوں کی ضرور سزا دے گا اور چند سال بعد وہ سب مشرکین غزوۂ بدر میں ذلت کی موت مارے گئے۔ ([48])
جب کفارِ مکہ نے ظلم کی انتہا کرتے ہوئے بنو ہاشم کو تین سال کے لیے شعبِ ابی طالب میں محصور کیا تو اس وقت سیدۂ کائنات سلام اللہ علیہا کی عمرِ مبارک 12 سال تھی۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی معیت میں بھوک، پیاس اور مصائب و آلام برداشت کرنے کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہا کا جسمِ اقدس نحیف اور ناتواں ہو گیا جس کے اثرات تاحیات رہے۔
1۔ سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا نے دعوت و تبلیغ کے فروغ میں دیگر صحابیات کی طرح ہمیشہ غزوات میں بھی نہایت خوش اُسلوبی سے خدمات سرانجام دیں۔ حضرت ابو حازم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
لوگوں کے مابین اس بات میں اختلاف ہوا کہ غزوۂ اُحد کے روز رسول اللہ ﷺ کے زخم کا علاج کس چیز سے کیا گیا تھا۔ لوگوں نے حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا جو مدینہ منورہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے تنہا رہ گئے تھے۔ انہوں نے فرمایا: لوگوں میں سے کوئی بھی اس بات کا مجھ سے زیادہ جاننے والا نہیں ہے۔ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا آپ ﷺ کے چہرہ انور سے خون دھوتی تھیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی ڈھال میں پانی بھر کر لاتے تھے۔ پھر ٹاٹ کا ایک ٹکڑا لے کر جلایا گیا اور اس کی راکھ آپ ﷺ کے زخم میں بھری گئی۔ ([49])
2۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا کو ’سیدۃ نساء العالمین‘ فرما کر صداقت کی سند ثبت فرمائی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
ایک مرتبہ سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا تشریف لائیں، ان کی چال میں حضور نبی اکرم ﷺ کی چال سے بڑی مشابہت تھی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: خوش آمدید میری بیٹی! اور انہیں اپنے دائیں یا بائیں جانب بٹھا لیا۔ پھر آپ ﷺ نے چپکے سے ان کے کان میں کوئی بات کہی تو وہ رونے لگیں۔ پھر آپ ﷺ نے اُن سے کوئی بات کہی تو وہ ہنس پڑیں۔ میں نے ان سے کہا: آج کی طرح میں نے خوشی کو غم کے اتنے نزدیک کبھی نہیں دیکھا۔ بعدازاں میں نے (سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا سے) پوچھا کہ حضور ﷺ نے آپ سے کیا فرمایا تھا؟ انہوں نے جواب دیا: میں رسول اللہ ﷺ کے راز کو فاش نہیں کر سکتی۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ کا وِصال ہو گیا تو میں نے ان سے (اُس بارے میں) پھر پوچھا تو اُنہوں نے بتایا: آپ ﷺ نے مجھ سے یہ سرگوشی کی کہ جبریل علیہ السلام ہر سال میرے ساتھ قرآن کریم کا ایک بار دور کیا کرتے تھے لیکن اس سال انہوں نے دو مرتبہ دور کیا ہے، مجھے یقین ہے کہ میرا آخری وقت آ پہنچا ہے اور بے شک میرے گھر والوں میں سے تم ہو جو سب سے پہلے مجھ سے آ ملو گی۔ یہ سن کر میں رو پڑی۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تم تمام جنتی عورتوں کی سردار ہو یا تمام مسلمان عورتوں کی سردار ہو! اس بات پر میں ہنس پڑی۔ ([50])
حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا نے دعوت و تبلیغ کے فروغ میں بطور ماں بھی اپنے فرائض بطریقِ احسن سرانجام دیے اور اپنے بچوں کی تربیت اس نہج پر کی کہ انہوں نے دینِ اسلام کی بقا کی خاطر قربانی کی ایسی تاریخ رقم کی اور کمالات کے ایسے اعلیٰ مدارج پر فائز ہوئے جو تا ابد اَہلِ عالم کے لیے قابلِ تقلید ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے 6 ماہ بعد سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا کا وصال ہوا اور آپ جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔
جواب: حضرت صفیہ بنتِ عبد المطلب حضور نبی اکرم ﷺ کی پھوپھی، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی اَخیافی ہمشیرہ (وہ بھائی بہن جو ایک ماں اور مختلف باپوں سے ہوں) اور جلیل القدر صحابیہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا اسلام کے ابتدائی دور میں ایمان لا کر السابقون الاولون کی صف میں شامل ہوئیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نہایت زیرک، بہادر اور صابرہ خاتون تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کو شاعری میں بھی ملکہ حاصل تھا۔ کُتب سیرت میں آپ رضی اللہ عنہا کے فصیح و بلیغ مرثیوں کا تذکرہ ملتا ہے۔
1۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اسلام اور پیغمبرِ اسلام سے حد درجہ محبت کا جذبہ رکھتی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نہ صرف لوگوں کو اسلام کی جانب مائل کرتیں بلکہ عملی طور پر خود بھی ہر معرکہ میں شریک ہوتیں۔ ہشام بن عروہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
جنگ اُحد میں جب مسلمان شکست کھا کر بھاگے تو آپ رضی اللہ عنہا نیزہ لے کر لوگوں کو روکنے لگیں اور کہنے لگیں: تم رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر بھاگ رہے ہو! ([51])
2۔ غزوۂ خندق میں آپ رضی اللہ عنہا نے بہادری کا ایسا کارنامہ سر انجام دیا جو اپنی مثال آپ ہے۔ عروہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو یہ کہتے ہوئے سنا:
میں وہ پہلی خاتون ہوں جس نے کسی مرد کو قتل کیا، میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے بلند قلعہ میں تھی اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ ہمارے ساتھ عورتوں اور بچوں میں موجود تھے۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ خندق کھود رہے تھے، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ہمارے قریب سے ایک یہودی گزرا اور وہ قلعہ کا چکر لگانے لگا۔ میں نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ یہ یہودی قلعہ میں ہے جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ یہ ہمارے بارے میں اطلاع کردے گا۔ حضور نبی اکرم ﷺ اور دیگر صحابہ دیگر ضروری اُمور میں مشغول ہیں۔ اس لیے آپ اس کی طرف جائیں اور اسے قتل کر دیں۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے کہا: اے بنتِ عبد المطلب! بخدا! آپ اچھی طرح جانتی ہیں، میں اس کام کا اہل نہیں ہوں۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب انہوں نے ایسا کہا اور میں نے ان کے پاس کوئی شے بھی نہ دیکھی تو میں نے چپکے سے قلعے کا ایک ستون لیا اور قلعہ سے اتر کر اس شخص کو اس ستون کے ساتھ مارا، یہاں تک کہ میں نے اسے قتل کر دیا اور واپس قلعہ میں آ گئی۔ ([52])
یوں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی شجاعت اور بہادری نے مسلمان عورتوں اور بچوں کو یہودیوں کے ظلم و ستم سے نجات دلائی۔ چنانچہ حضور نبی اکرم ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہا کو مالِ غنیمت سے حصہ عطا فرمایا۔ آپ رضی اللہ عنہا کا وصال 73 سال کی عمر میں عہدِ فاروقی میں ہوا اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔
جواب: حضرت زینب بنتِ علی سلام اللہ علیہا گلستانِ نبوت کا مہکتا پھول اور درخشندہ ستارہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے اپنے نانا کے دین کی خاطر راہِ دعوت و عزیمت میں قربانیوں کے ایسے اَن مِٹ نقوش ثبت کیے کہ آج بھی تاریخِ طبقۂ نسواں آپ رضی اللہ عنہا جیسے عظیم کردار کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا تاریخ اسلام کی وہ مہتم بالشان شخصیت ہیں جن کی ہمسری کا دعویٰ کوئی خاتون بھی نہیں کرسکتی۔ جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اپنے عہد خلافت میں کوفہ کو اپنا مستقر بنایا تو سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نہایت تن دہی سےخواتین کو دعوت و تبلیغ کرنے میں مشغول ہوگئیں۔ درس و تدریس اور وعظ و نصیحت کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہا کے علم و فضل کا شُہرہ جلد ہی گرد و نواح میں پھیل گیا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے حق گوئی و بے باکی اور صبر و استقامت سے خود کو داعیانِ حق کے لیے ہمیشہ مشعلِ راہ بنایا۔
سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نےدعوت دین کی راہ میں پے در پے اس قدر غم اُٹھائے کہ آپ رضی اللہ عنہا کی کنیت ہی اُم المصائب مشہور ہوگئی۔ 40ھ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا اور اس کے چند سال بعد آپ رضی اللہ عنہا کو اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام کی شہادت کا صدمہ پہنچا۔ 60ھ میں سیدہ زینب سلام اللہ علیہا سیدنا امام حسین علیہ السلام اور اپنے اہل و عیال کی معیت میں کوفہ روانہ ہوئیں۔ وہاں اَہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا گیا وہ کسی سے مخفی نہیں۔ سیدنا امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد پُر آشوب لمحات میں سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے اپنے اہل خانہ اور دیگر خواتین کی دلجوئی کر کے اُن کی ہمت بندھائی اور قافلہ حسینی کی قیادت کرتے ہوئے یزید کے دربار میں للکار کر یوں کلمۂ حق بلند کیا:
اے یزید! کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے تنگ کر دیے ہیں اور رسول ﷺ کی آل کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر در بدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرفراز ہوا اور ہم رسوا ہوئے ہیں؟ کیا تیرے خیال میں ہم مظلوم ہو کر ذلیل ہو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے؟ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے اور خلافت کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور ہوش کے ناخن لے۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہےکہ ہم جو انہیں مہلت دے رہے ہیں (یہ) ان کی جانوں کے لیے بہتر ہے، ہم تو (یہ) مہلت انہیں صرف اس لیے دے رہے ہیں کہ وہ گناہ میں اور بڑھ جائیں، اور ان کے لیے (بالآخر) ذلّت انگیز عذاب ہے۔ ([53])
یزید کے دربار میں سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے جو خطبہ دیا وہ آج بھی تاریخ کے صفحات میں زندہ و جاوید ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے باطل کے چہرے سے نقاب ہٹا کر حق و باطل کے درمیان امتیاز قائم کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد آپ رضی اللہ عنہا کے چہرہ اقدس پر دوبارہ کبھی کسی نے مسکراہٹ نہ دیکھی۔ آپ رضی اللہ عنہا کا وصال 63ھ میں ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہا کی تدفین کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے مصر کا لکھا ہے، تاہم دمشق اور قاہرہ دونوں جگہوں پر آپ رضی اللہ عنہا کے مزارات موجود ہیں۔
جواب: حضرت اُمِ شریک دوسیہ رضی اللہ عنہا کا نام عزیہ بنت جابر بن حکیم تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا کا شمار نہایت عظیم المرتبت صحابیات میں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہایت صالح فطرت سے نوازا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے بغیر کسی تامل کے حلقہ بگوشِ اسلام ہو کر دعوتِ حق کی پہلی آواز پر لبیک کہا۔ اہل قبیلہ نے راہِ حق پر چلنے کی پاداش میں آپ رضی اللہ عنہا کو سخت اذیتیں پہنچائیں۔
1۔ منیر بن عبد اللہ الدوسی سے روایت ہے کہ حضرت اُمّ شریک رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
ابو العکر کے اہل خانہ نے مجھ سے آ کر کہا: شاید تم ان مسلمانوں کے دین پر ہو؟ میں نے کہا: ہاں، اللہ کی قسم! میں ان کے دین پر ہوں۔ وہ کہنے لگے: پھر تو لامحالہ ہم تمہیں اذیتیں پہنچائیں گے۔ چنانچہ وہ ہمیں گھر سے لے گئے۔ ہم ذو الخلصہ میں تھے اور وہی ہماری رہائش گاہ تھی۔ چنانچہ لوگ چلتے رہے اور منزل کی تلاش میں رہے اور مجھے ایک بدترین، مست اور شریر اونٹ پر سوار کر دیا، مجھے شہد کے ساتھ روٹی دیتے رہے اور پینے کے لیے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں دیتے تھے حتیٰ کہ جب آدھا دن ہو گیا اور سورج کافی گرم ہوگیا اور ہم گرمی محسوس کرنے لگے تو لوگ ٹھہر گئے، سب نے اپنے اپنے خیمے گاڑ لیے اور مجھے دھوپ میں چھوڑ دیا حتیٰ کہ میرے ہوش و حواس جاتے رہے۔ انہوں نے میرے ساتھ تین دن تک یہی معاملہ کیا اور تیسرے دن مجھ سے کہنے لگے: جس دین پر تم قائم ہو، اسے چھوڑ دو۔ فرماتی ہیں: میں ان کی بات سمجھ نہ سکی، ہاں چند کلمے سن لیے۔ پھر مجھے انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کر کے بتایا گیا کہ توحید چھوڑ دو۔ فرماتی ہیں: میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں توحید پر قائم ہوں۔ ([54])
2۔ حضرت اُمِ شریک رضی اللہ عنہا نے اسلام قبول کرنے کے بعد نہایت تن دہی سے قریش کی دیگر عورتوں کو دعوتِ دین دے کر داخلِ اسلام کیا۔ آپ رضی اللہ عنہا کی تبلیغی سرگرمیوں پر بھی آپ رضی اللہ عنہا کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ ابن الاثیر لکھتے ہیں:
وہ مکہ کی گلیوں میں گشت کرتی تھیں اور خفیہ طور پر قریش کے گھروں میں جاکر ان کی خواتین کو اسلام کی جانب مائل کرتیں اور دعوتِ حق دیتیں۔ جب قریش کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اُمّ شریک رضی اللہ عنہا کو مکہ سے نکال دیا اورپھر وہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ چلی گئیں۔ ([55])
3۔ حضرت اُمِ شریک رضی اللہ عنہا اس قدر مہمان نواز تھیں کہ انہوں نے مدینہ طیبہ آکر اپنے گھر میں مہمان خانہ بنوایا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں باہر سے آنے والے مہمان بھی ان کے گھر قیام کیا کرتے تھے۔ ’صحیح مسلم‘ میں ہے:
حضرت ام شریک رضی اللہ عنہا انصار کی ایک دولت مند خاتون تھیں۔ وہ خدا کی راہ میں دل کھول کر خرچ کرتی تھیں۔ انہوں نے اپنے مکان کو مہمان خانہ بنا دیا تھا اور ان کے ہاں بکثرت مہمان آتے تھے۔ ([56])
حضرت اُمِ شریک رضی اللہ عنہا نے دعوت و تبلیغِ دین میں بے پناہ مظالم برداشت کرنے کے باوجود ہمیشہ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور مال و دولت دینِ حق کے لیے وقف کیے رکھا۔ آپ رضی اللہ عنہا کی وفات کا اہل سیر نے تذکرہ نہیں کیا۔
جواب: حضرت اُمِ ایمن رضی اللہ عنہا کا نام برکتہ بنت ثعلبہ بن عمرو ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا حضور نبی اکرم ﷺ کی رضاعی والدہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کا شمار ان خوش نصیبوں میں ہوتا ہے جنہیں حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت کے بعد قبولِ اسلام میں تقدم کی سعادت نصیب ہوئی۔ جب مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تو آپ رضی اللہ عنہا ان کے ساتھ تھیں۔
1۔ حضرت اُمِ ایمن رضی اللہ عنہا نے اشاعتِ اسلام میں مختلف غزوات میں شریک ہو کر بہادری کے جوہر دکھائے۔ غزوہ اُحد میں ایسے حالات بھی آئے جب آپ رضی اللہ عنہا نے میدانِ جنگ سے فرار ہونے والوں کو دوبارہ جنگ پر آمادہ کیا۔’السیرۃ الحلبیہ‘ میں ہے:
ان میں سے ایک گروہ مدینہ کی طرف بھاگ گیا۔ وہاں انہیں ام ایمن رضی اللہ عنہا ملیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے ان کے چہروں پر مٹی پھینکی اور ان میں سے بعض سے فرمایا: یہ میرا چرخا لے جاؤ، اسے کاتو اور لاؤ اپنی تلواریں مجھے دے دو۔ ([57])
2۔ حضرت اُمِ ایمن رضی اللہ عنہا فروغِ دین میں نڈر اور جرأت کا روشن ستارہ تھیں۔ جہاں آپ رضی اللہ عنہا میدانِ جنگ سےفرار ہونے والوں کے جذبات کو ابھارتیں وہاں آپ رضی اللہ عنہا زخمیوں کی دیکھ بھال کا فریضہ بھی بخوبی سرانجام دیتیں۔ محمد بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا غزوۂ اُحد اور غزوۂ خیبر میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ شریک ہوئیں۔ آپ رضی اللہ عنہا زخمیوں کو پانی پلاتیں اور ان کی مرہم پٹی کرتیں۔ ([58])
حضرت اُمِ ایمن رضی اللہ عنہا حضور نبی اکرم ﷺ کی رحلت کے بعد نہایت مغموم رہنے لگیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے 5 ماہ بعد اور بعض روایات کے مطابق دورِ عثمانی میں آپ رضی اللہ عنہا کا وصال ہوا۔
جواب: حضرت سُمیہ رضی اللہ عنہا بنتِ خباط نہایت بلند پایہ صحابیہ ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی حیات اقدس کا سارا دور حضرت سُمیہ رضی اللہ عنہا کے سامنے گزرا جس کی وجہ سے انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی اعلیٰ سیرت و کردار کا نہایت گہرا اثر قبول کیا۔ آپ ﷺ نے جب دعوتِ حق کا آغاز کیا تو بغیر کسی تامل کے حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا نے دعوت اسلام پر لبیک کہا۔ اس وقت اسلام قبول کرنے والوں میں آپ رضی اللہ عنہا کا ساتواں نمبر تھا۔ اسلام کا یہ ابتدائی دور مسلمانوں کے لیے بڑا پُرآشوب تھا۔ لہٰذا جو شخص بھی اسلام قبول کرتا، مشرکین کے لرزہ خیز ظلم و ستم کا نشانہ بن جاتا اور اس ظالمانہ کارروائی میں وہ اپنے عزیزوں، رشتہ داروں، مردوں اور عورتوں کا بھی لحاظ نہیں رکھتے تھے۔
حضرت سُمیہ رضی اللہ عنہا نے بھی راہِ حق میں اپنے ضعف اور کبرسنی کے باوجود مشرکین مکہ کی انسانیت سوز تکالیف کو جھیلا۔ کبھی آپ رضی اللہ عنہا کو لوہے کی زِرہ پہنا کر صحرا کی گرم ریت پر لٹایا جاتا تو کبھی گرم سلاخ سے آپ رضی اللہ عنہا کے جسم کو داغا جاتا اور کبھی کھولتے پانی میں غوطے دیئے جاتے۔ ان تمام مصائب کے باوجود آپ رضی اللہ عنہا کے قدم جادۂ حق سے ایک لمحہ کے لیے بھی نہ ڈگمگائے، یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہا نے اپنی جان بھی اسی کارِ خیر کی خاطر قربان کر دی۔ ابن سعد لکھتے ہیں:
ایک دن ابو جہل حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کے پاس سے گزرا۔ غصہ اور طیش میں اس بد بخت نے نیزہ آپ رضی اللہ عنہا کے نازک اعضاء پر دے مارا۔ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے آپ رضی اللہ عنہا شہید ہو گئیں۔ آپ رضی اللہ عنہا اسلام میں سب سے پہلی شہیدہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا بہت بوڑھی اور کمزور تھیں۔ ([59])
حضرت سُمیہ رضی اللہ عنہا نے دینِ اسلام کی شہیدۂ اوّل کے درجے پر فائز ہوکر ہمیشہ کے لیے دعوت و عزیمت کی راہ پر چلنے والوں کے لیے واضح کر دیا کہ عورت دعوتِ دین کی راہ میں قربانی دینے والوں کی فہرست میں کبھی پیچھے نہیں رہی۔
جواب: حضرت اُمِ سلیم رضی اللہ عنہا بنت ملحان نہایت سلیم الطبع اور صالح فطرت صحابیہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کا شمار انصار کے السابقون الاولون میں ہوتا ہے۔ بیعت عقبہ اولیٰ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے دستِ اقدس پر بیعت کرنے والے خوش نصیبوں نے جب مدینہ منورہ پہنچ کر پیغامِ حق پھیلایا تو حضرت اُم سلیم ایک لمحے کا بھی توقف کیے بغیر دینِ حق کو قبول کر کے حلقہ بگوش اسلام ہوئیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ اپنی قرابت داری کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہا کا خاص احترام کیا کرتے تھے۔ محبت اور مہربانی کا عالم یہ تھا کہ ازواج مطہرات کے علاوہ عورتوں میں صرف حضرت اُمِ سلیم رضی اللہ عنہا اور ان کی ہمشیرہ اُمِ حرام رضی اللہ عنہا کے گھر آپ ﷺ وقتاً فوقتاً تشریف لے جاتے تھے۔
حضرت اُمِ سلیم رضی اللہ عنہا کو یہ شرف بھی حاصل تھا کہ مہاجرین اور انصار کے درمیان عقد مواخات آپ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہا وہ عظیم المرتبت صحابیہ ہیں جنہوں نے کئی جہتوں سے اسلام کی دعوت و سربلندی میں اپنا کردار ادا کیا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے بے شمار غزوات میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مجاہدانہ کردار ادا کیا۔
1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
حضور نبی اکرم ﷺ جب جہاد کرتے تھے تو آپ ﷺ کے ساتھ حضرت اُمِ سلیم رضی اللہ عنہا اور انصار کی کچھ عورتیں بھی ہوتی تھیں، وہ پانی پلاتیں اور زخمیوں کو دوا دیتیں۔ ([60])
2۔ غزوہ اُحد میں حضرت اُمِ سلیم رضی اللہ عنہا کی خدمات سے متعلق حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
جب جنگ اُحد میں لوگ حضور نبی کرم ﷺ سے دور ہوگئے تو میں نے حضرت عائشہ بنت ابی بکر اور حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہما کو دیکھا۔ ۔۔۔ دونوں اپنی کمر پر پانی کی مشک لاد کر لاتیں اور پیاسے مسلمانوں کو پلاتی تھیں۔ پھر لوٹ جاتیں، پانی کے مشکیزے بھر کر لاتیں اور پیاسے مسلمانوں کو پلاتیں۔ ([61])
3۔ حضرت اُمِ سلیم رضی اللہ عنہا فتح مکہ کے چند ماہ بعد اپنے شوہر کے ہمراہ معرکہ حنین میں والہانہ ذوق و شوق کے ساتھ شریک ہوئیں۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ پامردی سے حضور نبی اکرم ﷺ کے دائیں بائیں لڑ رہے تھے اور آپ رضی اللہ عنہا ہاتھ میں خنجر لیے شمع نبوت پر قربان ہونے کے لیے کھڑی تھیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
حضرت اُمِ سلیم رضی اللہ عنہا نے جنگ حنین کے دن ایک خنجر لیا جو ان کے پاس تھا، حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے وہ خنجر دیکھ لیا، انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ اُمِ سلیم ہیں اور ان کے پاس ایک خنجر ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ان سے پوچھا: یہ خنجر کیسا ہے؟ حضرت اُمِ سلیم رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: میں نے یہ خنجر اس لیے لیا ہے کہ اگر کوئی مشرک آپ کے قریب آیا تو میں اس کا پیٹ پھاڑ دوں گی۔ ([62])
4۔ حضرت اُمِ سلیم رضی اللہ عنہا نے کئی غزوات میں شرکت کر کے مجاہدانہ کردار ادا کیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہا کو جنت کی بشارت خود دی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے کسی کے چلنے کی آہٹ سنی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ تو اہلِ جنت نے کہا، یہ غمیصا بنت ملحان ہے، انس بن مالک کی والدہ۔ ([63])
حضرت اُمِ سلیم رضی اللہ عنہا کی وفات کے بارے میں تصریح نہیں بلکہ قیاس ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا کا وصال عہدِ صدیقی میں ہوا۔
جواب: حضرت اُمِ عمارہ رضی اللہ عنہا جلیل القدر انصاری صحابیہ ہیں۔ بیعت عقبہ اولیٰ کے بعد حضرت معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی اثر آفرین دعوت سے متاثر ہو کر آپ رضی اللہ عنہا مشرف بہ اسلام ہوئیں اور بیعت عقبہ ثانیہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے دستِ اقدس پر بیعت کا شرف حاصل کر کے السابقون الاوّلون کی فہرست میں شامل ہوئیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نہایت بلند حوصلہ، جرأت مند اور دلیر خاتون تھیں۔
حضرت اُمِ عمارہ رضی اللہ عنہا نے بیعت رضوان، غزوۂ خیبر، عمرۃ القضاء اور غزوۂ حنین جیسے اَہم معرکوں میں دینِ حق کی سربلندی کے لیے بہادری کے جوہر دکھائے، تاہم ہجرتِ نبوی کے تیسرے سال معرکہ احد میں آپ رضی اللہ عنہا نے ایسی شجاعت اور جانبازی کا مظاہرہ کیا کہ تاریخ میں خاتونِ اُحد کے لقب سے مشہور ہوئیں۔ جنگِ اُحد میں حضور نبی اکرم ﷺ کے اردگرد موجود صحابہ کرام رجوان اللہ علیہم اجمعین ایک ایک کر کے لڑتے اور شہید ہوتے رہے اور ایک ایسا وقت بھی آیا کہ آپ ﷺ کی حفاظت کے لیے صرف دو، تین صحابی رہ گئے۔ اس صورتِ حال میں آپ رضی اللہ عنہا حضور نبی اکرم ﷺ کی سکیورٹی کرتے ہوئے کفار سے لڑنے لگیں۔ اس دوران آپ ﷺ کے دفاع میں آپ رضی اللہ عنہا کو کافی زخم آئے جسے بعد میں آپ رضی اللہ عنہا نے خود اپنی زبان سے بیان کیا۔ اُم سعید رضی اللہ عنہا بنت سعد فرماتی ہیں: میں حضرت اُم عمارہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی، میں نے کہا: مجھے اُحد کے دن کا اپنا واقعہ بتائیں تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
دِن چڑھا تو میں نکلی اور میرے پاس مشکیزے میں پانی تھا، میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی۔ آپ ﷺ اپنے اصحاب میں تھے، اُس وقت تک مسلمانوں کا پلڑہ بھاری تھا۔ جب مسلمانوں کو شکست ہونے لگی تو میں رسول اللہ ﷺ کی طرف بڑھی اور لڑنے لگی، آپ ﷺ سے دشمنوں کو تلوار کے ساتھ دور کرنے لگی، کمان سے تیر چلانے لگی، یہاں تک کہ مجھے کئی زخم آئے۔ اُم سعید رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضرات اُم عمارہ رضی اللہ عنہا کے کندھے پر گہرا گھاؤ دیکھا۔ ([64])
غزوۂ اُحد میں ہی حضرت اُمِ عمارہ رضی اللہ عنہا کے فرزند نے بھی حضور نبی اکرم ﷺ کے دفاع میں تیر و شمشیر زنی کا ناقابل فراموش مظاہرہ کیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ دیکھ کر مسکرائے اور پوچھا: تم فرزندِ عمارہ ہو؟عرض کیا: جی ہاں! پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے ان کی والدہ کے کندھے کے زخم کو دیکھ کر فرمایا:
اپنی والدہ کی خیر خبر لو، ان کے زخم پر پٹی باندھو۔ اے خاندان والو! تمہارے خاندان کو اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے، تمہاری والدہ کا مقام فلاں فلاں کے مقام سے بہتر ہے۔ اے خاندان والو! اللہ تم پر رحم فرمائے اور تمہارے عربی والد کا مقام فلاں فلاں کے مقام سے بہتر ہے۔ اے خاندان والو! اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے۔ میری والدہ نے عرض کیا: آپ اللہ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جنت میں بھی ہمیں آپ ﷺ کی رفاقت نصیب فرمائے، فرمایا: اے اللہ! انہیں جنت میں میرا رفیق بنا۔ ([65])
میدانِ اُحد میں حضرت اُمِ عمارہ رضی اللہ عنہا کی سکیورٹی کرنے کی گواہی حضور نبی اکرم ﷺ نے خود دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
مَا الْتَفَتُّ یَمِینًا وَلَا شِمَالًا إِلَّا وَأَنَا أَرَاهَا تُقَاتِلُ دُونِي. ([66])
(اُحد کے روز ایک وقت آیا کہ) میں اپنے دائیں بائیں جدھر دیکھتا تھا تو میری حفاظت میں اُم عمارہ نسیبہ بنتِ کعب رضی اللہ عنہا ہی لڑ رہی ہوتی تھیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے مذکورہ تحسین آمیز کلمات پر حضرت اُمِ عمارہ رضی اللہ عنہا ہمیشہ فخر کیا کرتی تھیں اور انہیں اپنی زندگی کا کُل سرمایہ سمجھتی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے جنگ یمامہ میں بھی شرکت کر کے مجاہدانہ کردار ادا کیا۔ یحییٰ بن حبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
جُرِحَتْ أُمُّ عُمَارَةَ بِأُحُدٍ اثْنَيْ عَشَرَ جَرْحًا، وَقُطِعَتْ يَدُهَا بِالْيَمَامَةِ. ([67])
جنگ اُحد میں اُم عمارہ رضی اللہ عنہا کو بارہ زخم آئے تھے اور جنگِ یمامہ میں آپ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا۔
حضرت اُمِ عمارہ رضی اللہ عنہا کی بہادری دعوتِ دین کی راہ پر چلنے والی خواتین کے لیے بہترین اسوہ ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا کی وفات کا اہلِ سیر نے تذکرہ نہیں کیا، تاہم بعض روایات کے مطابق آپ رضی اللہ عنہا کا وصال عہدِ فاروقی میں ہوا۔
جواب: حضرت ربیع رضی اللہ عنہا بنتِ معوذ کا شمار انصاری صحابیات میں ہوتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے خاندان میں اسلام کے نورِ سعادت کو جلوہ فگن دیکھا۔ یوں آپ رضی اللہ عنہا ہجرتِ مدینہ سے پہلے ہی اسلام سے بہرہ یاب ہوگئی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا ایسے جری باپ کی بیٹی تھیں۔ جن میں محبتِ رسول ﷺ کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور آپ رضی اللہ عنہا ہر وقت آپ ﷺ پر اپنی جان نثار کرنے کے لیے تیار رہتی تھیں۔ ہر جنگ میں دادِ شجاعت دینا آپ رضی اللہ عنہا کا خاندانی طرزِ عمل تھا اور یہی وصف آپ رضی اللہ عنہا میں بھی ہمہ تن موجزن تھا۔
حضرت ربیع رضی اللہ عنہا ان خوش قسمت خواتین میں سے تھیں جنہیں حضور نبی اکرم ﷺ غزوات میں لشکرِ اسلام کے ساتھ رکھتے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے کئی غزوات میں شرکت کر کے اقامتِ دین کے لیے عملی طور پر خدمات سر انجام دیں۔ اس سلسلے میں آپ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے، فرماتی ہیں:
ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ شریکِ جہاد تھیں۔ ہم مسلمانوں کو پانی پلاتیں اور ان کی خدمت کرتی تھیں۔ نیز ہم شہیدوں اور زخمیوں کو مدینہ منورہ پہنچاتی تھیں۔ ([68])
دعوتِ دین کی راہ میں حضرت ربیع رضی اللہ عنہا جیسی عظیم شخصیات کی سیرت و کردار آج کی عورت کے لیے لائقِ تقلید ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا کے سالِ وفات میں اختلاف ہے تاہم بعض روایات کے مطابق عہدِ عثمانی میں آپ رضی اللہ عنہا حیات تھیں۔
جواب: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بنتِ خطاب نہایت جلیل القدر صحابیہ ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے بعثت کے بعد جونہی دعوتِ حق کا آغاز فرمایا تو آپ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر حضرت سعید رضی اللہ عنہ بن زید کے ساتھ بلا تامل السابقون الاوّلون کی صف میں دینِ حق کو قبول کیا۔ اس وقت آپ رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب دینِ حق کی مخالفت میں پیش پیش تھے اور مسلمانوں پر ظلم کرنے میں کسی سے کم نہ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب اپنی بہن اور بہنوئی کے مسلمان ہونے کی خبر ملی تو آپ رضی اللہ عنہ غضبناک ہو کر ان کے پاس پہنچے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بن مالک بیان کرتے ہیں:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے قبل تلوار سونت کر جا رہے تھے۔ راستے میں آپ سے بنی زہرہ کا ایک شخص ملا۔ اس نے پوچھا کہ آپ کہاں کا ارادہ رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں محمد (ﷺ) کو قتل کرنے جا رہا ہوں (معاذ اللہ)۔ اس نے کہا: اے عمر! کیا میں تمہیں عجیب بات نہ بتاؤں کہ تمہارے بہنوئی سعید اور تمہاری بہن کو جنون لاحق ہو چکا ہے اور وہ دونوں اپنا دین چھوڑ چکے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ غصے کی حالت میں ان کے گھر کی طرف چل پڑے جب آپ ان کے دروازے پر پہنچے تو بہن اور بہنوئی کے پاس حضرت خباب رضی اللہ عنہ بن ارت تھے، جو ان دونوں کو سورۃ طہٰ پڑھا رہے تھے۔ جب حضرت خباب رضی اللہ عنہ کو حضرت عمر کی آمد کا پتا چلا تو وہ پیچھے چھپ گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے داخل ہو کر پوچھا کہ یہ ہلکی سی آواز کیا تھی جسے میں نے تم دونوں کے پاس سنا؟ ان دونوں نے کہا: کچھ بھی نہیں سوائے اس بات کے جو ہم آپس میں کر رہے تھے۔ آپ نے کہا: شاید تم دیوانے ہو چکے ہو اور تم نے اپنا دین چھوڑ دیا ہے۔ آپ سے آپ کے بہنوئی سعید نے کہا: اے عمر! بھلا آپ بتائیں کہ اگر حق آپ کے دین کے علاوہ دین میں ہو تو؟ اس بات پر حضرت عمر اپنے بہنوئی کی طرف بڑھے اور انہیں شدید مارا۔ آپ کی بہن نے آپ کو اپنے خاوند سے دور دھکیلاتو آپ نے اپنی بہن کے چہرے پر مارا اور ان کا چہرہ خون آلود کر دیا۔ پھر آپ کی بہن نے غصے کی حالت میں کہا: اے عمر! بتاؤ اگر حق تمہارے دین کے علاوہ کسی اور دین میں ہو تو؟ میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں۔ جب حضرت عمر مایوس ہو گئے تو فرمایا: مجھے یہ کتاب دو جو تمہارے پاس ہے تاکہ میں اسے پڑھوں۔ آپ کی بہن نے کہا کہ اسے صرف پاکیزہ لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔ ([69])
کتبِ احادیث و سیر میں آتا ہے کہ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باوضو ہو کر سورۃ طہٰ کی تلاوت کی، جس سے ان پر لرزہ طاری ہو گیا اور اسی کیفیت میں انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں جا کر اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کی۔ یوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حلقۂ بگوش اسلام ہونے میں سب سے بڑا ہاتھ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ہے کہ جن کی استقامت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دل موم ہوا اور وہ اعدائے حق کی صف سے نکل کر علمبردارانِ حق کی صف میں کھڑے ہوئے اور اپنی جرأت، بے خوفی، غیرت ایمانی، فراست اور تدبر کی بدولت اسلام کا ایک عظیم سپوت ثابت ہوئے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تاحیات امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی پابند رہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کی وفات کا اہل سیر نے تذکرہ نہیں کیا تاہم بعض روایات کے مطابق عہدِ فاروقی میں آپ رضی اللہ عنہا کا وصال ہوا۔
جواب: حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بنتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ بلند اخلاق اور پاکیزہ اوصاف کی حامل صحابیہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کو یہ امتیازی شرف حاصل ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا اوائلِ بعثت میں قبولِ اسلام کی سعادت سے بہرہ مند ہوئیں۔ آپ رضی اللہ عنہا اپنی دولت کو نیکی کے کاموں میں بے دریغ صرف کرتی تھیں۔ سفرِِِ ہجرت کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ کے لیے سامانِ سفر تیار کرنے پر آپ رضی اللہ عنہا کو بارگاہِ رسالت مآب ﷺ سے ذات النطاقین کا لقب ملا۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے:
وقتِ ہجرت میں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ (اپنے والد ماجد) کے گھر سے حضور نبی اکرم ﷺ کے لیے زادِ راہ تیار کیا۔ لیکن توشہ اور پانی کا مشکیزہ باندھنے کے لیے مجھے کوئی چیز نہیں ملی تھی۔ میں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ خدا کی قسم! اسے باندھنے کے لیے مجھے اپنے کمر بند کے سوا کوئی چیز نہیں ملتی۔ انہوں نے فرمایا کہ کمر بند کے دو حصے کرلو۔ ایک کے ساتھ توشہ باندھ دو اور دوسرے سے مشکیزہ کا منہ میں نے ایسا ہی کیا۔ اسی لیے میرا نام (ذات النطاقین) دو کمر بندوں والی پڑ گیا۔ ([70])
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نہایت نڈر تھیں۔ آپ نے رضی اللہ عنہا ابو جہل کے قہر و غضب کے باوجود ہجرت کے راز کو نہاں خانہ دل میں محفوظ رکھ کر بہادری کا مظاہرہ کیا۔ آپ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ہے:
جب حضور نبی اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہجرتِ مدینہ کے موقع پر مکہ سے روانہ ہو گئے تو ہمارے پاس قریش کے با اثر لوگ آئے جن میں ابو جہل بھی تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر کے دروازے پر وہ کھڑے ہو گئے۔ میں باہر آئی، کہنے لگے: تمہارے والد کہاں ہیں؟ میں نے کہا: خدا کی قسم! میں نہیں جانتی کہ وہ کہاں ہیں۔ ابو جہل نے میرے رخسار پر طمانچہ مارا جس سے میری بالی کان سے گر گئی۔ ابو جہل فحش اور شیطان صفت تھا۔ پھر وہ واپس چلے گئے۔ ([71])
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے دینِ اسلام کو پھیلانے میں نہایت اَہم کردار ادا کیا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے نہ صرف فرموداتِ نبوی ﷺ کو سینہ بہ سینہ پھیلایا بلکہ عملی طور پر اعلائے کلمۃ اللہ میں بھی حصہ لیا۔ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے میں آپ رضی اللہ عنہا کا کردار لازوال ہے۔ اپنے فرزند حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دل سوز موقع پر آپ رضی اللہ عنہا نے جس حق گوئی، صبر و رضا اور جرأت ایمانی کا ثبوت دیا وہ بناتِ اسلام کے لیے مشعل راہ ہے۔ حجاج بن یوسف نے آپ رضی اللہ عنہا کے بیٹے کو بڑی بے دردی سے شہید کرنے کے بعد لاش کو مقامِ حجون میں سولی پر لٹکا دیا اور بعد میں سولی سے اتروا کر یہود کے قبرستان میں پھینکوا دیا۔ اس کے بعد اس نے آپ رضی اللہ عنہا کو بلوایا تو آپ رضی اللہ عنہا نے اس کے پاس جانے سے انکار کر دیا۔ اس نے دوبارہ پیغام بھیجا کہ میرے پاس آؤ ورنہ میں کسی شخص کو بھیجوں گا جو تمہیں بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا میرے پاس لے آئے گا۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے انکار کیا اور فرمایا:
خدا کی قسم! میں اس وقت تک تیرے پاس نہیں آؤں گی جب تک تو مجھے بالوں سے پکڑوا کر گھسیٹ کر نہیں بلائے گا۔ حجاج نے کہا: میری جوتیاں لاؤ، پھر اس نے جوتیاں پہنیں اور اکڑتا ہوا حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور کہنے لگا: تو نے دیکھا کہ میں نے اللہ کے دشمن کو کیسے قتل کیا؟ انہوں نے فرمایا: تم نے اس کی دنیا خراب کی اور اس نے تیری عاقبت برباد کر دی! مجھے معلوم ہوا ہے کہ تو اس کو دو کمر بندوں والی کا بیٹا کہتا ہے تو سن! خدا کی قسم! میں دو کمر بندوں والی ہوں، کمربند کے ایک ٹکڑے کے ساتھ تو میں نے رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے طعام کو سواری کے ساتھ باندھا تھا اور دوسرا ٹکڑا وہ ہے جس سے کوئی عورت مستغنی نہیں ہوتی۔ اور سن! رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہ حدیث بیان فرمائی کہ ثقیف میں ایک کذاب اور ظالم ہوگا۔ کذاب کو تو ہم پہلے دیکھ چکے ہیں اور رہا ظالم تو میرے خیال میں وہ صرف تو ہی ہو سکتا ہے! راوی کہتا ہے: پھر حجاج وہاں سے چلاگیا اور اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ([72])
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی ظالم حکمران کے سامنے بے خوفی اور حق گوئی امر بالمعروف کی راہ پر چلنے والوں کے لیے چراغِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اپنے بیٹے کی تدفین کے 7 دن بعد آپ رضی اللہ عنہا کا وصال ہوا۔ اس وقت آپ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک قریباً سو سال تھی۔
جواب: حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بنتِ یزید کا شمار نہایت دانش مند صحابیات میں ہوتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا انصاری خواتین میں خطیبۃ النساء کے نام سے مشہور تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا احکامِ دینیہ میں بنظر عمیق غور و خوض کرنے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں اپنا پیغام دینے میں اپنی مثال آپ تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کو دین سیکھنے کا اس قدر شوق تھا کہ بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں اکثر حاضر ہو کر اِکتسابِ فیض کرتیں۔ آپ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس اس وقت حاضر ہوئیں جب آپ ﷺ اپنے صحابہ کرام رجوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان موجود تھے اور عرض کیا:
یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! میں خواتین کی نمائندہ بن کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی ہوں۔ میری جان بھی آپ پر فدا ہو۔ بے شک شرق و غرب میں کسی عورت نے میرے اس طرح آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کے بارے میں نہیں سنا مگر یہ کہ اس کی رائے بھی میری رائے کی مثل ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے آپ کو حق کے ساتھ مردوں اور عورتوں کی طرف مبعوث فرمایا ہے، ہم آپ پر اور آپ کے اس الٰہ (معبود) پر ایمان لائے جس نے آپ کو رسول بنایا اور بے شک ہم خواتین گھروں میں محصور و پابند ہیں۔ مردوں کی فطری خواہشات کو پورا کرتی ہیں اور ان کی اولادوں کو اپنے بطنوں میں اٹھانے والیاں ہیں اور آپ لوگ مردوں کا گروہ ہیں جنہیں نماز جمعہ، مساجد میں باجماعت نماز، مریضوں کی عیادت، جنازوں میں شرکت اور یکے بعد دیگرے حج کے ساتھ ہم پر فضیلت دی گئی ہے۔ ان سب میں افضل دشمن کے ساتھ لڑائی ہے۔ اور مردوں میں سے جب کوئی شخص حج، عمرہ یا لڑائی کی غرض سے گھر سے باہر ہوتا ہے تو ہم عورتیں ان کے مال و متاع کی حفاظت کرتی ہیں، ان کے لیے لباس تیار کرتی ہیں اور ان کی اولاد کی پرورش کرتی ہیں۔ لہذا یارسول اللہ! کیا ہم اجر و ثواب میں آپ لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتیں؟ حضور نبی اکرم ﷺ اپنے صحابہ کی طرف مکمل طور پر متوجہ ہوئے، پھر فرمایا: کیا تم نے کبھی کسی عورت کی دین کے بارے میں اتنی عمدہ گفت گو سنی ہے جیسا کہ اس عورت نے کی ہے۔ صحابہ کرام رجوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارا نہیں گمان کہ کوئی عورت دین میں اس حد تک راہ نُمائی حاصل کرسکتی ہے۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے خاتون! جاؤ اور اپنے پیچھے رہ جانے والی خواتین کو بتا دو کہ تم میں سے کسی کا اپنے خاوند کے حقوقِ زوجیت ادا کرنا، اس کی رضا جوئی اور اس کی مرضی کی اقتداء کرنا اس کے برابر ہے (جو تم نے اوپر گنوایا)۔ پھر عورت اس حال میں واپس لوٹی کہ وہ خوشی سے تہلیل (لاالہ الا اللہ) اور تکبیر (اللہ اکبر) کہے جا رہی تھی۔ ([73])
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے نہ صرف علمی لحاظ سے دین کی خدمت کرتے ہوئے طبقۂ نسواں میں احکاماتِ دین کی تبلیغ کی بلکہ حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ کئی جہادی اسفار جیسے غزوۂ خندق، غزوۂ خیبر اور غزوۂ حدیبیہ میں بیعتِ رضوان میں بھی شریک رہیں۔ غزوۂ اُحد کےروز جب آپ رضی اللہ عنہا کو یہ خبر ملی کہ آپ رضی اللہ عنہا کے والد، بھائی، چچا اور چچازاد بھائی شہید ہو چکے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہا صبر و استقامت کا پہاڑ بنی رہیں اور حضور نبی اکرم ﷺ کی خیریت معلوم کرنے کے لیے نکل پڑیں۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ غزوہ سے واپس تشریف لا رہے تھے تو آپ ﷺ کو دیکھتے ہی انہوں نے فرمایا:
كُلُّ مُصِيْبَةٍ بَعْدَكَ جَلَلٌ. ([74])
(یا رسول اللہ!) آپ کی سلامتی کے بعد ہر مصیبت ہیچ ہے۔
یہ واقعہ سیرت اور تاریخ کی اکثر کتب میں ایک اَنصاری صحابیہ سے منسوب کیا گیا ہے، البتہ حضرت اَسماء بنت یزید سے بھی منسوب کیا جاتا ہے اگرچہ بہت قلیل ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد بھی آپ رضی اللہ عنہا جنگوں میں شریک ہوتی رہیں۔ عہدِ فاروقی میں یرموک کی ہولناک لڑائی پیش آئی تو شوقِ جہاد نے آپ رضی اللہ عنہا کو چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ آپ رضی اللہ عنہا اپنے خاندان کے ہمراہ اس لڑائی میں شریک ہوئیں اور نہایت پامردی سے لڑتی رہیں۔ دورانِ جنگ جب دشمن خواتین کے خیموں تک آن پہنچے تو آپ رضی اللہ عنہا اور دیگر دخترانِ اسلام نے خیموں کی چوبیں اکھاڑ کر دشمن پر اس طرح حملہ کیا کہ وہ بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ ابن اثیر لکھتے ہیں:
اس لڑائی میں حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے تنہا اپنی لکڑی سے نو رومیوں کو واصلِ جہنم کیا۔ ([75])
اہلِ سیر نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی تاریخ وفات کا تذکرہ نہیں کیا، تاہم جنگ یرموک کے کئی سالوں بعد آپ رضی اللہ عنہا کا وصال ہوا۔
جواب: حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کا شمار نہایت جلیل القدر اور عظیم المرتبت صحابیات میں ہوتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا شعر و سخن کے ذوق کی وجہ سے صغر سنی سے ہی اشعار کہنے لگیں اور شعور کی پختگی کے ساتھ اقسامِ سخن میں ایک شہرہ آفاق مرثیہ گو شاعرہ کے رتبے پر فائز ہوئیں۔ اسد الغابہ میں ہے:
وَأَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ بِالشِّعْرِ أَنَّهُ لَمْ يَكُنِ امْرَأَةٌ قَطُّ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا أَشْعَرَ مِنْهَا. ([76])
ناقدینِ سخن کا فیصلہ ہے کہ حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کے برابر کوئی عورت شاعرہ نہیں۔
حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کے اشعار میں غضب کی تاثیر اور فصاحت و بلاغت کا رنگ اس وقت مزید نمایاں ہوا جب یکے بعد دیگرے آپ رضی اللہ عنہا کے دونوں بھائیوں کی وفات ہوئی۔ اس صدمے نے آپ رضی اللہ عنہا کی طبیعت میں ایک ہیجان پیدا کر دیا اور آپ رضی اللہ عنہا دل سوز مرثیوں کی وجہ سے پورے عرب میں مشہور ہو گئیں۔ مکہ کے بازار عکاظ میں مشہور میلہ لگا کرتا تھا جس میں عرب قبائل کے شعرا، رؤسا اور علوم و فنون کے لوگ اکٹھے ہوتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا بھی ہر سال اس میلے میں شریک ہوتیں اور لوگ آپ رضی اللہ عنہا سے مرثیے سننے کے لیے اصرار کرتے۔ آپ رضی اللہ عنہا کے مرثیے سن کر سامعین فرطِ غم سے دھاڑیں مار کر روتے جن میں بڑے بڑے سنگ دل اور ظالم جنگجو بھی شامل ہوتے تھے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے جب اعلانِ نبوت فرمایا تو آوازِ حق حضرت خنساء رضی اللہ عنہا تک بھی پہنچی۔ آپ رضی اللہ عنہا اپنے قبیلے کے وفد کے ہمراہ آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور دعوتِ اسلام کو قبول کیا۔ اس موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہا کے حسنِ کلام کی تعریف و تحسین فرمائی۔ اسد الغابہ میں ہے:
اس موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ بڑی دیر تک آپ رضی اللہ عنہا کا فصیح و بلیغ کلام سنتے رہے۔ آپ رضی اللہ عنہا سناتی جاتیں اور حضور نبی اکرم ﷺ فرماتے جاتے: شاباش اے خنساء۔ ([77])
حضرت خنساء رضی اللہ عنہا قبولِ اسلام کے بعد جب اپنے قبیلہ میں واپس گئیں تو لوگوں کو پیغامِ رسالت پہنچا کر اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی۔ آپ رضی اللہ عنہا کی زبان میں چونکہ بہت تاثیر تھی اس لیے بے شمار لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہا کی تبلیغ سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں جنگِ قادسیہ میں ضعیف العمر ہونے کے باوجود حضرت خنساء رضی اللہ عنہا جذبہ جہاد سے مامور اپنے چاروں فرزندانانِ اسلام کے ساتھ میدان جنگ میں موجود تھیں۔ ابتدائے جنگ سے پہلے آپ رضی اللہ عنہا نے اپنے بیٹوں کو بلا کر فرمایا:
اے میرے بیٹو! تم نے اسلام قبول کیا اور خوشی سے ہجرت کی اور وہ خدا وحدہٗ لاشریک ہے۔ تم سب ایک ہی مرد اور ایک ہی عورت کے بیٹے ہو۔ میں نے نہ تمہارے باپ سے خیانت کی اور نہ ہی تمہارے ننھیال کو رسوا کیا۔ نہ تمہارے حسب کو رسوا کیا اور نہ تمہارے نسب کی توہین کی، تم اچھی طرح جانتے ہو اللہ نے ان مسلمانوں کے لیے، جنہوں نے کفار سے جنگ کی، کتنا اجر مقرر فرمایا ہے۔ وہ دارِ باقی دارِ فانی سے بدرجہ بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱصۡبِرُواْ وَصَابِرُواْ وَرَابِطُواْ وَٱتَّقُواْ ٱللهَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُونَ﴾ [آل عمران، 3: 200] ’’اے ایمان والو! صبر کرو اور ثابت قدمی میں (دشمن سے بھی) زیادہ محنت کرو اور (جہاد کے لیے) خوب مستعد رہو اور (ہمیشہ) اللہ کا تقویٰ قائم رکھو تاکہ تم کامیاب ہو سکو۔“ جب کل صبح تم اللہ کے فضل و کرم سے بخیریت جاگو اور دشمن سے جنگ کے لیے روانہ ہو تو دشمن پر فتح پانے کے لیے اللہ سے نصرت کی التجا کرنا اور جب تم دیکھو لڑائی اچھی بھڑک اُٹھی ہے اور تلواریں شعلوں کی طرح چمک رہی ہیں اور میدانِ جنگ کے اطراف پر آگ بھڑک رہی ہے تو اس بھڑکتی لڑائی میں کود پڑو اور دشمن کے بہادر پہلوانوں کا مقابلہ کرو۔ جب لشکر آمادہ پیکار ہو تو اس سے تمہیں مقامِ دار الخلد میں انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔ ([78])
حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کے اثر آفریں وعظ نے آپ رضی اللہ عنہا کے بیٹوں کے دلوں میں شوق شہادت کا جذبہ پیدا کیا اور وہ اس شان سے لڑے کہ دشمن کے بیسیوں سپاہیوں کو خاک و خون میں نہلا کر خود بھی درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔ جب اس عظیم داعیہِ حق نے اپنے چاروں بیٹوں کی شہادت کی خبر سنی تو بارگاہِ ایزدی اور بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں شکر بجا لائیں اور بے اختیار کہنے لگیں:
اے اللہ! تیرا شکر ہے کہ تو نے میرے بیٹوں کو شہادت کا درجہ عطا فرمایا۔ مجھے اللہ کی رحمت سے پوری امید ہے کہ میں اپنے بچوں کے ساتھ اللہ کی رحمت کے سائے تلے ملاقات کروں گی۔ ([79])
حضرت خنساء رضی اللہ عنہا نے دعوتِ حق، تسلیم و رضا اور صبر و تحمل کا ایسا مظاہرہ کیا کہ چشمِ فلک نے کبھی اس کی نظیر نہ دیکھی تھی۔ توکل علی اللہ اور راہِ عزیمت کے باب میں آپ رضی اللہ عنہا کا یہ کردار روشن مثال ہے۔ ایک روایت کے مطابق آپ رضی اللہ عنہا کا وصال جنگِ قادسیہ کے سات آٹھ سال بعد اور دوسری روایت کے مطابق عہدِ معاویہ میں ہوا۔
جواب: حضرت اُمِ ورقہ رضی اللہ عنہا بنت عبد اللہ عظیم المرتبت صحابیہ ہیں۔آپ رضی اللہ عنہا ہجرت مدینہ کے بعد مشرف بہ اسلام ہوئیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے قبولِ اسلام کے بعد انتہائی ذوق و شوق سے حضور نبی اکرم ﷺ سے قرآنِ حکیم کی تعلیم حاصل کی اور پورا قرآن حفظ کیا۔ اسی لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہا کو عورتوں کی امام مقرر فرمایا تھا۔
1۔ حضرت اُمِ ورقہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے:
حضور نبی اکرم ﷺ ان کے گھر تشریف لے جایا کرتے اور ان کے لیے مؤذن مقرر کیا جو اذان کہا کرتا اور حضرت اُمِ ورقہ کو حکم فرمایا کہ اپنے گھر والوں کی امامت کیا کرو۔ ([80])
اذان کی آواز پر عورتیں باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے حضرت اُمِ ورقہ رضی اللہ عنہا کے گھر آتیں جہاں آپ رضی اللہ عنہا عورتوں کی امامت کرایا کرتی تھیں۔
2۔ حضرت اُمِ ورقہ رضی اللہ عنہا نے غزوۂ بدر کی تیاری کے موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ سے بغرض جنگی خدمات ساتھ چلنے کی درخواست کی اور خواہش ظاہر کی کہ شاید اللہ تعالیٰ شہادت کا درجہ عطا فرمائے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:
تم اپنے گھر میں رہو، اللہ تعالیٰ تمہیں شہادت مرحمت فرما دے گا۔ راوی کا بیان ہے کہ ان کا نام شہیدہ پڑ گیا۔ ([81])
3۔ حضرت اُمِ ورقہ رضی اللہ عنہا پر حضور نبی اکرم ﷺ کی شفقت کا یہ عالم تھا کہ کبھی کبھار صحابہ کے ہمراہ ان کے گھر تشریف لاتے اور فرماتے کہ چلو شہیدہ کے گھر چلیں۔ ([82])
4۔ عہدِ فاروقی میں حضرت اُمِ ورقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے ایک غلام اور ایک لونڈی سے مکاتبت کی تھی کہ میرے مرنے کے بعد تم آزاد ہو۔ ان دونوں نے آزادی حاصل کرنے کے لیے آپ رضی اللہ عنہا کو شہید کر دیا۔ عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ بن خلاد انصاری سے روایت ہے:
ایک رات ان دونوں نے چادر سے گھلا گھونٹ کر انہیں مار دیا اور دونوں بھاگ گئے۔ صبح ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں اعلان فرمایا کہ جس کو ان دونوں کا علم ہو یا جس نے انہیں دیکھا ہو تو انہیں پیش کرے۔ پھر ان کے متعلق حکم فرمایا گیا اور انہیں پھانسی دے دی گئی۔ مدینہ منورہ میں سب سے پہلے پھانسی انہیں ہی دی گئی۔ ([83])
حضور نبی اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق آپ رضی اللہ عنہا اپنے گھر میں ہی شہادت کے درجے پر فائز ہوئیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کے امامت کے فرائض ادا کرنے سے خواتین کو حکمِ رسول ﷺ کے مطابق کسی صاحبِ علم خاتون سے دینی تعلیم کے حصول اور دعوتِ دین کا درس ملتا ہے۔
جواب: حضرت حمنہ رضی اللہ عنہا بنت حجش حضور نبی اکرم ﷺ کی پھوپھی زاد اور ام المؤمنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا بنت حجش کی بہن ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا بعثت نبوی ﷺ کے ابتدائی دور میں مسلمان ہو کر السابقون الأولون میں شامل ہوئیں۔ آپ ﷺ کی قرابت داری کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہا میں ترویجِ اسلام کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ دعوتِ دین کے ضمن میں آپ رضی اللہ عنہا نے مختلف غزوات میں شرکت کی۔ ابو عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
غزوہ احد میں آپ رضی اللہ عنہا پیاسوں کو پانی پلانے، زخمیوں کو اُٹھانےاور ان کی مرہم پٹی کا کام سرانجام دیتی تھیں۔ ([84])
اسی غزوے میں آپ رضی اللہ عنہا کے شوہر حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور بھائی حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ شہید ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہا کو یہ امتیازی حیثیت بھی حاصل ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا نے خواتین کے مخصوص مسائل دریافت کرکے اس طبقہ کے لیے بھی بہت آسانیاں پیدا کیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کی وفات کا اہلِ سیر نے تذکرہ نہیں کیا، تاہم بعض روایات کے مطابق 20 ہجری کے بعدآپ رضی اللہ عنہا کا وصال ہوا۔
جواب: حضرت رفیدہ انصاریہ رضی اللہ عنہا نہایت سلیم الطبع فطرت کی حامل اور جلیل القدر صحابیہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا طِب اور جراحت میں مہارتِ تامہ رکھتی تھیں اور زخمیوں کا علاج نہایت جانفشانی سے کیا کرتی تھیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ دورانِ جنگ زخمیوں کو آپ رضی اللہ عنہا کے پاس علاج کے لیے لے جانے کا حکم دیتے تھے۔ ابن اسحاق سے روایت ہے:
حضرت سعد رضی اللہ عنہ جب غزوۂ خندق میں زخمی ہوئے تو حضور نبی اکرم ﷺ نے اُن کے قبیلہ والوں کو حکم دیا کہ انہیں اُٹھا کر رفیدہ کے خیمے میں لے جاؤ تاکہ میں قریب سے ان کی عیادت کروں۔ حضرت رفیدہ رضی اللہ عنہا نےمسجد میں خیمہ تان رکھا تھا جہاں وہ زخمیوں کا علاج کرتیں اور جو مسلمان ان کے زیرِ علاج ہوتے وہ ان کی اچھی طرح دیکھ بھال کرتیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ جب بھی ادھر سے گزرتے ان کی خیر و عافیت دریافت فرماتے اور تحسین فرماتے۔ ([85])
یوں حضرت رفیدہ انصاریہ رضی اللہ عنہا کو یہ شرف حاصل تھا کہ وہ عہدِ رسالت میں بطورِ جراح زخمی ہونے والے مجاہدینِ اسلام کی خدمت پر مامور رہیں۔ کتب سیر میں آپ رضی اللہ عنہا کی تاریخ وفات کا تذکرہ نہیں ملتا۔
جواب: حضرت اُمیہ رضی اللہ عنہا بنت قیس بن ابو الصلت غفاریہ جلیل القدر صحابیہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا ہجرت کے بعد مسلمان ہوئیں اور حضور نبی اکرم ﷺ کے دستِ اقدس پر آپ رضی اللہ عنہا نے بیعت کی۔ آپ رضی اللہ عنہا علمِ طب سے واقف تھیں۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے غزوہ خیبر کا ارادہ فرمایا تو آپ رضی اللہ عنہا نے خواتین کے ایک وفد کے ساتھ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر جہاد میں شرکت کی خواہش ظاہر کی تاکہ زخمیوں کی مرہم پٹی کر سکیں۔ آپ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے:
میں بنی غفار کی خواتین کے ساتھ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم جنگ (خیبر) میں آپ کے ساتھ چلنے کا ارادہ رکھتی ہیں تاکہ ہم زخمیوں کی مرہم پٹی کریں اور حتی المقدور مسلمانوں کی اعانت کریں گی (مسلمانوں کے لشکر کے لیے خدمات سر انجام دیں گی)۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ کی برکت سے ساتھ چلو، فرماتی ہیں: میں بھی آپ کے ساتھ روانہ ہوئی۔ ([86])
حضرت اُمیہ رضی اللہ عنہا نے جرأت اور بہادری سے فروغِ دین میں خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے دورانِ جنگ اپنی ذمہ داری سرانجام دی اور دختران اسلام کو یہ شعور دیا کہ نظامِ مصطفیٰ ﷺ کے قیام میں وہ مردوں کے شانہ بشانہ جد و جہد کریں گے۔ کتبِ سیر میں آپ رضی اللہ عنہا کی تاریخ وفات کا تذکرہ نہیں ملتا۔
جواب: حضرت اُمِ حرام رضی اللہ عنہا بنتِ ملحان نہایت جلیل القدر صحابیہ اور رشتے میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خالہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے بعثت نبوی ﷺ کے ابتدائی ایام میں مدینہ منورہ میں اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ اسلام قبول کیا۔ آپ رضی اللہ عنہا کو راہِ خدا میں جہاد کرنے اور رتبۂ شہادت پر فائز ہونے کی آرزو تھی۔ اسی تمنا پر بارگاہِ نبوی ﷺ سے آپ رضی اللہ عنہا کو شہادت کی نوید ملی۔ ابن عبد البر لکھتے ہیں:
حضور نبی اکرم ﷺ آپ رضی اللہ عنہا کی عزت و تکریم فرمایا کرتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہا کے گھر میں آپ رضی اللہ عنہا کی زیارت کے لیے تشریف لے جایا کرتے۔ آپ رضی اللہ عنہا اُن کے گھر میں قیلولہ فرمایا کرتے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہا کے لیے شہادت کی دعا بھی فرمائی۔ ([87])
اس بشارت کے بعد شہادت فی سبیل اللہ حضرت اُمِ حرام رضی اللہ عنہا کا نصب العین بن گئی تھی اور آپ رضی اللہ عنہا شدت سے اس وقت کی منتظر رہنے لگیں۔ بالآخر عہدِ عثمانی میں حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں تاریخ اسلام کا پہلا بحری بیڑا جزیرہ قبرص کو فتح کرنے کے لیے روانہ ہوا تو آپ رضی اللہ عنہا بھی اپنے شوہر کے ہمراہ اس لشکر میں شامل ہو کر قبرص گئیں۔ اس جنگ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار کر کے پرچمِ اسلام کو بلند کیا۔حضور نبی اکرم ﷺ کے خواب اور پیش گوئی کے مطابق آپ رضی اللہ عنہا کو شہادت کا رتبہ نصیب ہوا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
یہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے عہد میں (فتح یابی کے بعد) جہاز پر سوار ہوئیں اور سمندر سے نکلنے کے بعد اپنی سواری کے جانور سے گرپڑیں اور جاں بحق ہوگئیں([88]).
حضرت اُمِ حرام رضی اللہ عنہا کی تدفین سر زمینِ قبرص میں ہوئی۔
جواب: حضرت اُمِ سلیط رضی اللہ عنہا جلیل القدر انصاری صحابیہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے حضور نبی اکرم ﷺ کے دستِ اقدس پر بیعت کی۔ آپ رضی اللہ عنہا نہایت بہادر اور نڈر خاتون تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے دینِ اسلام کی سر بلندی کے لیے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور دیگر خواتین اسلام کے ساتھ غزوات میں خدمات سرانجام دیں۔ ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ کی مستورات میں کچھ چادریں تقسیم کیں۔ ایک عمدہ چادر باقی بچ گئی۔ حاضرین میں سے کسی نے کہا: اے امیر المومنین! یہ رسول اللہ ﷺ کی اس صاحبزادی کو دے دیجئے جو آپ کے حرم میں ہیں۔ ان کی مراد اُمِ کلثوم رضی اللہ عنہا بنت علی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اُمِ سلیط رضی اللہ عنہا زیادہ حق دار ہیں اور اُمِ سلیط رضی اللہ عنہا انصار کی ان عورتوں میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پر بیعت کی تھی اور یہ اس لیے بھی زیادہ حق دار ہیں کہ جنگ اُحد میں ہمارے لیے مشک بھر بھر کر لاتی تھیں۔ ([89])
حضرت اُمِ سلیط رضی اللہ عنہا کی وفات کا اہلِ سیر نے تذکرہ نہیں کیا۔
([32]) أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الرضاع، باب خير متاع الدنيا المرأة الصالحة، 2: 1090، الرقم: 1467، والنسائي في السنن، كتاب النكاح، باب المرأة الصالحة، 6: 69، الرقم: 3232. وابن ماجه في السنن، كتاب النكاح، باب أفضل النساء، 1: 596، الرقم: 1855.
([33]) أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الأدب، باب من أحق الناس بحسن الصحبة، 5: 2227، الرقم: 5626، ومسلم في الصحيح، كتاب البر والصلة والآداب، باب بر الوالدين وأنهما أحق به، 4: 1974، الرقم: 2548.
([34]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1: 223، الرقم: 1957، وأبو داود في السنن، كتاب الأدب، باب في فضل من عال يتيما، 4: 337، الرقم: 5146، وابن أبي شيبة في المصنف، 5: 221، الرقم: 25435.
([35]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3: 42، الرقم: 11402، والترمذي في السنن، كتاب البر والصلة، باب ما جاء في النفقة على البنات والأخوات، 4: 318، الرقم: 1912، وابن حبان في الصحیح، 2: 190، الرقم: 446.
([36]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2: 472، الرقم: 10110، والترمذي في السنن، كتاب الرضاع، باب ما جاء في حق المرأة على زوجها، 3: 466، الرقم: 1162، وابن حبان في الصحیح، 9: 483، الرقم: 4176.
([37]) ذكره ابن هشام في السيرة النبوية، 2: 77، وابن كثير، البداية والنهاية، 3: 23.
([38]) ذكره ابن هشام في السيرة النبوية، 2: 264.
([39]) ذكره العسقلاني في الاصابة في تميز الصحابة، 7: 721.
([40]) ذكره إبراهيم مصطفی في المعجم الوسيط، 1: 197، وابن كثير في البداية والنهاية، 8: 92.
([41]) أخرجه الطبراني في المعجم الكبير، 23: 184، الرقم: 299، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9: 243.
([42]) ذكره الذهبي في تذكرة الحفاظ، 1: 28، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 2: 49.
([43]) أخرجه الترمذي في السنن، كتاب المناقب، باب فضل عائشة رضی اللہ عنہا، 5: 705، الرقم: 3883، وذكره الخطيب التبريزي في مشكاة المصابيح، 3: 1746، الرقم: 6194، والذهبي في تذكرة الحفاظ، 1: 28، وابن كثير في البداية والنهاية، 8: 92.
([44]) ذكره الذهبي في تذكرة الحفاظ، 1: 28.
([45]) أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الجهاد والسير، باب غزو النساء وقتالهن مع الرجال، 3: 1055، الرقم: 2724، ومسلم في الصحيح، كتاب الجهاد والسير، باب غزوة النساء مع الرجال، 3: 1443، الرقم: 1811.
([46]) أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب المناقب، باب مناقب قريش، 3: 1291، الرقم: 3314.
([47]) ذكره أبو نعيم في حلية الأولياء، 2: 47.
([48]) أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الوضوء، باب إذا ألقي على ظهر المصلي، 1: 94، الرقم: 237.
([49]) أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب النكاح، باب ﴿وَلَا يُبۡدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ﴾ إلى قوله: ﴿لَمۡ يَظۡهَرُواْ عَلَىٰ عَوۡرَٰتِ ٱلنِّسَآءِ﴾، 5: 2009، الرقم: 4950، وأحمد بن حنبل في المسند، 5: 330، الرقم: 22851.
([50]) أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3: 1326، الرقم: 3426، ومسلم، الصحيح، كتاب فضائل الصحابة، باب فضائل فاطمة بنت النبي ﷺ، 4: 1905، الرقم: 2450، وابن ماجه في السنن، كتاب الجنائز، باب ما جاء في ذكر مرض رسول الله ﷺ، 1: 518، الرقم: 1621.
([51]) ذكره ابن سعد في الطبقات الكبری، 8: 41، والعسقلاني في الإصابة في تمييز الصحابة، 7: 744.
([52]) أخرجه الحاكم في المستدرك، 4: 56، الرقم: 6867، والبيهقي في السنن الكبری، 6: 308، الرقم: 12552.
([53]) ذكره أحمد زكي صفوت في جمهرة خطب العرب، 2: 136-139.
([54]) ذكره ابن سعد في الطبقات الكبری، 8: 155، والعسقلاني في الإصابة في تمييز الصحابة، 7: 282.
([55]) ذكره ابن الأثیر في أسد الغابة، 7: 339، وأبو نعيم في حلية الاولياء، 2: 66، والعسقلاني في الإصابة في تمييز الصحابة، 8: 239.
([56]) أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الفتن وأشراط الساعة، باب قصة الجساسة، 4: 2261، الرقم: 2942، والنسائي في السنن، كتاب النكاح، باب الخطبة في النكاح، 6: 70، الرقم: 3237.
([57]) ذكره الحلبي في السيرة الحلبية، 2: 504.
([58]) ذكره ابن سعد في الطبقات الكبری، 8: 225، والعسقلاني في الإصابة في تمييز الصحابة، 8: 172.
([59]) ذكره ابن سعد في الطبقات الكبری، 8: 264.
([60]) أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الجهاد والسير، باب غزوة النساء مع الرجال، 3: 1443، الرقم: 1810، والنسائي في السنن الكبری، 5: 278، الرقم: 8882، وأبو یعلی في المسند، 6: 50، الرقم: 3295، والبيهقي في السنن الكبری، 9: 30، الرقم: 17633.
([61]) أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الجهاد والسير، باب غزو النساء وقتالهن مع الرجال، 3: 1055، الرقم: 2724.
([62]) أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الجهاد والسير، باب غزوة النساء مع الرجال، 3: 1442، الرقم: 1809، وأحمد بن حنبل في المسند، 3: 112، الرقم: 12129، وابن أبي شيبة في المصنف، 7: 416، الرقم: 36987.
([63]) أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب فضائل الصحابة رجوان اللہ علیہم اجمعین ، باب من فضائل أم سليم أم أنس بن مالك وبلال رضی اللہ عنہما ، 4: 1908، الرقم: 2456.
([64]) ذكره ابن سعد في الطبقات الكبری، 8: 413، وابن هشام في السيرة النبوية، 4: 30، والعسقلاني في الإصابة في تمييز الصحابة، 8: 266.
([65]) ذكره ابن سعد في الطبقات الكبری، 8: 415.
([66]) ذكره ابن سعد في الطبقات الكبری، 8: 415، والعسقلاني في الإصابة في تمييز الصحابة، 8: 266.
([67]) ذكره ابن سعد في الطبقات الكبری، 8: 415، والعسقلاني في الإصابة في تمييز الصحابة، 8: 140.
([68]) أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الطب، باب هل يداوي الرجل المرأة أو المرأة الرجل، 5: 2151، الرقم: 5355، وابن راهويه في المسند، 5: 139، الرقم: 2261.
([69]) أخرجه الحاكم في المستدرك، 4: 65، الرقم: 6897، والبيهقي في السنن الكبری، 1: 88، الرقم: 417.
([70]) أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الجهاد والسير، باب حمل الزاد في الغزو، 3: 1087، الرقم: 2817، وأحمد بن حنبل في المسند، 6: 346، الرقم: 26973، وابن أبي شيبة في المصنف، 7: 343، الرقم: 36608.
([71]) ذكره أبو نعيم في حلية الأولیاء، 2: 56.
([72]) أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب فضائل الصحابة رجوان اللہ علیہم اجمعین ، باب ذكر كذاب ثقيف ومبيرها، 4: 1971، الرقم: 2545، والخطيب التبريزي في مشكاة المصابيح، 3: 1692، الرقم: 6003.
([73]) أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 6: 421، الرقم: 8743، وذكره ابن الأثير في أسد الغابة، 7: 17، والحلبي في السيرة الحلبية، 1: 149.
([74]) ذكره ابن هشام في السيرة النبوية، 4: 50، والبيهقي في دلائل النبوة، 3: 302، وابن كثير في البداية والنهاية، 4: 47.
([75]) ذكره العسقلاني في الإصابة في تمييز الصحابة، 7: 498، والمزي في تهذيب الكمال، 35: 128.
([76]) ذكره ابن الأثير في أسد الغابة، 7: 89، وابن عبد البر في الاستيعاب، 4: 1827، الرقم: 3317، والعسقلاني في الإصابة في تمييز الصحابة، 7: 614.
([77]) ذكره ابن الأثير في أسد الغابة، 6: 89، والعسقلاني في الإصابة في تمييز الصحابة، 7: 614.
([78]) ذكره ابن الأثير في أسد الغابة، 7: 89.
([79]) ذكره ابن الأثير في أسد الغابة، 6: 90.
([80]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6: 405، الرقم: 27324، وأبو داود، السنن، كتاب الصلاة، باب إمامة النساء، 1: 161، الرقم: 592، وابن خزيمة في الصحيح، 3: 89، الرقم: 1676، والبيهقي في السنن الكبری، 3: 130، الرقم: 5136.
([81]) أخرجه أبو داود في السنن، كتاب الصلاة، باب إمامة النساء، 1: 161، الرقم: 591، وابن أبي شيبة في المصنف، 6: 538، الرقم: 33657، والبيهقي في دلائل النبوة، 6: 382.
([82]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6: 405، الرقم: 27323، والبيهقي في السنن الكبری، 3: 130، الرقم: 5136، وابن خزيمة في الصحيح، 3: 89، الرقم: 1676.
([83]) أخرجه أبو داود في السنن، كتاب الصلاة، باب إمامة النساء، 1: 161، الرقم: 591، وابن أبي شيبة في المصنف، 7: 257، الرقم: 35850، والعسقلاني في الإصابة في تمييز الصحابة، 8: 321.
([84]) ذكره ابن الأثير في أسد الغابة، 7: 71، والعسقلاني في الإصابة في تمييز الصحابة، 7: 586.
([85]) ذكره ابن سعد في الطبقات الكبری، 3: 427، وابن الأثير في أسد الغابة، 7: 111، والعسقلاني في الإصابة في تمييز الصحابة، 7: 646.
([86]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6: 380، الرقم: 27180، والبيهقي في السنن الكبری، 2: 407، الرقم: 3914.
([87]) ذكره ابن عبد البر في الإستیعاب، 4: 1931، الرقم: 4137، والمزي في تهذيب الكمال، 35: 339.
([88]) أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الجهاد والسير، باب الدعاء بالجهاد والشهادة للرجال والنساء، 3: 1027، الرقم: 2636، ومسلم في الصحيح، كتاب الامارة، باب فضل الغزو في البحر، 3: 1518، الرقم: 1912، والترمذي في السنن، كتاب فضائل الجهاد، باب ما جاء في غزو البحر، 4: 178، الرقم: 1645.
([89]) أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الجهاد والسير، باب حمل النساء القرب، 3: 1056، الرقم: 2725، وابن عبد البر في الإستیعاب، 4: 1940، الرقم: 4161.
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved