Dawat o Tableegh e Din mein Khawateen Ka Kirdar

باب 2 :دعوت کے تقاضے اور داعی /داعیہ کے اَوصاف

سوال 27: داعی کے مخاطبین میں کتنے طبقات شامل ہوتے ہیں؟

جواب: داعی کے مخاطبین میں درج ذیل دو طبقات شامل ہوتے ہیں:

1۔ موافق طبقہ

2۔ مخالف طبقہ

سوال 28: موافق طبقے کو دعوت کیسے دی جائے؟

جواب: دعوت کے لیے موافقت رکھنے والے طبقے کی دو قسمیں ہیں:

پہلا موافق طبقہ

پہلا موافق طبقہ وہ ہے جو راہِ راست سے بھٹکا ہوا تھا، اسے حق کی تلاش تھی اور اسے حق کے ساتھ کوئی عناد اور عداوت نہیں تھی۔ لیکن کسی نے اسے راہِ ہدایت پر لانے کے لیے دعوتِ حق نہیں دی ، کسی نے اسے شر سے بچانے کی کوشش نہیں کی۔ اگر اسے راہِ حق کی طرف دعوت دی جاتی تو وہ دعوت و تبلیغِ دین کے پیغام کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو جا تا۔ اِس پہلے موافق طبقے کو دعوت دینے کے لیے قرآن مجید فرماتا ہے:

﴿ٱدۡعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِٱلۡحِكۡمَةِ﴾

[النحل، 16: 125]

(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت کے ساتھ بلائیے۔

حکمت کا مطلب یہ ہےکہ داعی مدعو کی ذہنی سطح، ماحول اور اُس کے اوپر اثر انداز ہونے والے عوامل، قلبی کیفیت، نفسیاتی صورت حال کو اچھی طرح سمجھے کہ وہ کیوں بھٹکا ہوا ہے؟ اُس کا سبب کیا ہے؟ کیا چیز اِس پراثر انداز ہو رہی ہے۔ داعی کو چاہیے کہ مدعو کے فہم اور عقل کے مطابق اُسے اس انداز سے دعوت دے کہ اُس پر ہونے والے سابقہ اثرات کو زائل کر دے، جس چیز سے وہ لاعلم تھا اس کا اسےعلم ہو جائے، اُسے خبراور احساس ہوجائے کہ وہ جہالت کی تاریکی میں تھا اور یہ دعوتِ حق ہے۔ اس کے بعد داعی معمولی چیزوں کے بجائے جو اس کے لیے زیادہ اَہم ہیں، ان کی حکمت کے ساتھ step by step دعوت دے تاکہ اس میں طلب اور خواہش مزید بڑھے۔ مثلاً اگر وہ فرائض کا تارک ہے توداعی سیدھا سنتوں کی بات نہ کرے بلکہ پہلے فرائض کی طرف لائے، پھر سنتوں کی بات کرے اور آخر میں نوافل کا بتائے۔ جیسا کہ حدیث مبارک سے ثابت ہے:

ایک اعرابی حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے بتائیں اسلام کیا ہے؟کیا چیز مجھ پر واجب ہے۔ فرمایا: دن اور رات میں پانچ وقت کی نماز ادا کرو، اُس نے پوچھا: اِس سے زائد کچھ نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں اِس سے زائد کچھ نہیں۔ ہاں اگر تمہارا دل چاہے کہ مزید نفلی عبادت کر وں تو کرسکتے ہو۔ اُس نے پوچھا: اس کے علاوہ اور کیا مجھ پر فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: رمضان کے روزے رکھنا۔ اُس نے پوچھا: اِس سے زائد کچھ نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:نہیں، کچھ نہیں، ہاں اگر تم نفلی روزے رکھنا چاہوتو رکھ سکتے ہو۔ اُس نے پوچھا: اس کے علاوہ اور کیا فرض ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (اگر تم صاحب نصاب ہو تو اپنے مال کی) زکوۃ دینا۔ اُس نے عرض کیا: اِس سے زائد کچھ نہیں۔ فرمایا: کچھ نہیں، لیکن اپنی نفلی عبادت میں اضافہ کرنا چاہو تو کر سکتے ہو۔یہ سن کر وہ شخص واپس جانے کے لیے مڑا اور اُس نے کہا: اللہ گواہ ہے، جو کچھ آپ نے بتایا ہے وہ کروں گا اور اِس سے زائد کچھ نہیں کروں گا۔ حضور ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا: اگر یہ شخص اپنے دعویٰ میں سچا ہے تو یہ فلاح پا گیا۔ ([23])

دوسرا موافق طبقہ

دوسرا موافق طبقہ عام آدمی کا ہے، جسے سائنس ، فلسفہ، علم ، حکمت اور اُونچے درجے کی دماغی باتوں سے غرض نہیں بلکہ اس پرقلب اور جذبات کی بات اثر کرتی ہے۔ اس طبقہ کے لیےقرآن مجید نے فرمایا:

﴿وَٱلۡمَوۡعِظَةِ ٱلۡحَسَنَةِۖ﴾

[النحل، 16: 125]

اور عمدہ نصیحت کے ساتھ۔

یعنی داعی مدعو کو مواعظِ حسنہ، اچھی، عمدہ اور مؤثر نصیحت کے ساتھ اس طرح دعوت دے کہ اس کی بات نہ صرف اس کے دل پر اثر انداز ہو بلکہ اس کے جذبات اور اَحوال کو بھی بدل دے۔

سوال 29: مخالف طبقے کو دعوت کیسے دی جائے؟

جواب: مخالف طبقہ سے مراد وہ طبقہ ہے جو دین سے بُغض رکھتا ہے، جو دین کی دعوت کے خلاف ہے اور نصیحت کی بات نہیں سننا چاہتا۔ اس طبقے کو دعوت دینے کے لیے قرآن مجید فرماتا ہے:

﴿وَجَٰدِلۡهُم بِٱلَّتِي هِيَ أَحۡسَنُۚ﴾

[النحل، 16: 125]

اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجیے جو نہایت حسین ہو۔

اُس طبقے کے ساتھ داعی عمدہ انداز کے ساتھ جدال (debate) کرے۔ مذکورہ آیت مبارکہ کے الفاظ بِٱلَّتِي هِيَ أَحۡسَنُ سے مراد بھی یہی ہے کہ صرف عمدہ طریقے سے نہیں بلکہ نہایت ہی اَحسن طریقے کے ساتھ مخالف سے بات کی جائے۔ کیونکہ قرآن مجید نے داعی کے لیے شرط لگا دی کہ جب وہ مخالف سے بات کرے تو اُس کو نہ تو للکارے، نہ جھگڑے کے اندازمیں بات کرے، نہ اُس پر تہمت لگائے، نہ فتویٰ بازی کرے، نہ اُس کی تذلیل و تحقیر کرے، نہ اُسے اسلام سے خارج کرے۔ اگر وہ غیر مسلم ہے تو بات کا آغاز یہاں سے نہ کرے کہ تم کافر ہو، مشرک ہو، تم تو سیدھے جہنم میں جاؤ گے، بلکہ ایسے افراد کے ساتھ بات کرنے کا انداز اور سلیقہ بھی قرآن مجید ہمیں سکھاتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

﴿قُلۡ يَٰٓأَهۡلَ ٱلۡكِتَٰبِ تَعَالَوۡاْ إِلَىٰ كَلِمَةٖ سَوَآءِۢ بَيۡنَنَا وَبَيۡنَكُمۡ أَلَّا نَعۡبُدَ إِلَّا ٱللهَ وَلَا نُشۡرِكَ بِهِۦ شَيۡ‍ٔاً وَلَا يَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا أَرۡبَاباً مِّن دُونِ ٱللهِۚ فَإِن تَوَلَّوۡاْ فَقُولُواْ ٱشۡهَدُواْ بِأَنَّا مُسۡلِمُونَ﴾

[آل عمران، 3: 64]

آپ فرما دیں: اے اہلِ کتاب! تم اس بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، (وہ یہ) کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اللہ کے سوا رب نہیں بنائے گا، پھر اگر وہ روگردانی کریں تو کہہ دو کہ گواہ ہو جاؤ کہ ہم تو اللہ کے تابع فرمان (مسلمان) ہیںo

یعنی داعی مفترقات سے بات شروع نہ کرئے بلکہ مشترکات (commonalities) پر بات کرکے اسے قریب لائے، اس کے اندر سننے کی گنجائش پیدا کرے تاکہ اسے یقین ہو جائے کہ یہ متنفر کرنے والا اور سخت گیر نہیں ہے، یہ میری فکر اور احوال سے واقف ہے، میری کچھ باتوں کواچھا جانتا ہے۔ بالآخرمدعو اس درجہ تک پہنچ جائے کہ داعی کی بات سننے اور سمجھنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جائے۔ اس کے بعد داعی دلیل کے ساتھ بات کرے تاکہ اُس کا دل و دماغ حق کی طرف منتقل ہو سکے۔ دورانِ دعوت داعی کے قلب و نظر میں وسعت ہونی چاہیے کہ اگر مدعو اختلاف کرتا ہے تو اُسے اختلاف کی گنجائش دے، لیکن اپنی دلیل اورطرز عمل سے اُس کی فکر اور رویے کو بدلنے کی حتی المقدور کوشش کرے اور معاملہ اللہ پر چھوڑ دے۔ اس دوران داعی کا جدالِ اَحسن جتنا عمدہ ہوگااُتنا ہی اُس میں خیر ہوگی۔

سوال 30: اگر مخالف طبقہ داعی کی دعوت کو ردّ کر دے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب: مخالف طبقے کو دین کی دعوت پہنچانے کے انداز اور کلام میں تہذیب، شائستگی اور لطافت ہونی چاہیے اور debate کا اختتام خوبصورت طریقے سےہونا چاہیے۔ پھر بھی اگر وہ دعوت کو ردّ کر دیں تو ایسی صورت میں اُن سے کیا رویہ رکھا جائے، اس حوالے سے قرآن مجید فرماتا ہے:

﴿فَإِنۡ حَآجُّوكَ فَقُلۡ أَسۡلَمۡتُ وَجۡهِيَ لِلَّهِ وَمَنِ ٱتَّبَعَنِۗ وَقُل لِّلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ وَٱلۡأُمِّيِّ‍نَ ءَأَسۡلَمۡتُمۡۚ فَإِنۡ أَسۡلَمُواْ فَقَدِ ٱهۡتَدَواْۖ وَّإِن تَوَلَّوۡاْ فَإِنَّمَا عَلَيۡكَ ٱلۡبَلَٰغُۗ وَٱللهُ بَصِيرُۢ بِٱلۡعِبَادِ﴾

[آل عمران، 3: 20]

(اے حبیب!) اگر پھر بھی آپ سےجھگڑا کریں تو فرما دیں کہ میں نے اور جس نے (بھی) میری پیروی کی اپنا روئے نیاز اللہ کے حضور جھکا دیا ہے، اور آپ اہلِ کتاب اور اَن پڑھ لوگوں سے فرما دیں: کیا تم بھی اللہ کے حضور جھکتے ہو (یعنی اسلام قبول کرتے ہو)؟ پھر اگر وہ فرمانبرداری اختیار کر لیں تو وہ حقیقتاً ہدایت پا گئے، اور اگر منہ پھیر لیں تو آپ کے ذمہ فقط حکم پہنچا دینا ہی ہے، اور اللہ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے۔

اِس آیت مبارکہ میں دعوت دینے سے لے کر اس کی قبولیت/ردّ تک کے تمام مراحل بخوبی واضح کردیے گئے ہیں۔ جب داعی حکمت کے ساتھ تمام دلائل دے کر ساری بات سمجھا دے اور گفتگو ختم ہوجائے تو پوچھے کہ کیا اسلام قبول کرتے ہو؟ اگر وہ کہیں کہ ہم اسلام اور حق کو قبول کرتے ہیں تو وہ ہدایت پا گئے۔ لیکن اگر وہ کہیں کہ ہم ردّ کرتے ہیں اور اسلام قبول نہیں کرتے ہیں، تو داعی کی ذمہ داری صرف پیغام پہنچانا تھا، جو وہ پہنچا چکا۔ اِس سے زیادہ کوئی چیز اس کے ذمہ نہیں کیونکہ باقی اللہ کے بندوں کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ یہ داعی کی دعوت کا حُسنِ اِختتام ہے۔

سوال 31: کیا دعوتی و تبلیغی عمل کا کوئی خاص طریقہ کار متعین ہے؟

جواب: جی نہیں! دعوتی و تبلیغی عمل کا کوئی خاص طریقہ متعین نہیں ہےاور نہ ہر جگہ ایک ہی اُسلوب اور منہج اپنایا جا سکتا ہے۔ البتہ کارِ دعوت و تبلیغ میں داعی کا حاضر جواب اور حاضر دماغ ہونا ضروری ہے۔ اسے دعوت دیتے وقت مدعوین کے خود ساختہ اور متعصب خیالات کو تبدیل کر کے اپنی فکر میں ڈھالنے کے لیے کٹھن صورتِ حال سے دوچار ہونا پڑتا ہے کیونکہ کسی پر قلبی و جذباتی بات اثر کرتی ہے تو کسی پر عقلی و سائنسی دلیل، کسی کو تذکرۂ آخرت اور جنت متاثر کرتی ہے اور کسی کو زہد وورع اور ذکر اذکار وغیرہ۔ اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ داعی کو مخاطبین کے سامنے دعوت پیش کرتے ہوئےکوئی مخصوص طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے بلکہ یہ اس کی حکمت عملی، فہم و فراست اور صواب دید پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ تدبر و تفکر کے ساتھ مخاطبین کے مزاج، نفسیات اور حالات و واقعات کے مطابق کیا طریقہ کار اختیار کرتا ہے۔

سوال 32: داعی کی دعوت کا مرکز و محور کیا ہونا چاہیے؟

جواب: داعی کی دعوت کا مرکز و محور اِلی اللہ ہونا چاہیے، جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:

﴿أَدۡعُوٓاْ إِلَى ٱللهِۚ﴾

[یوسف، 12: 108]

میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔

مذکورہ آیت مبارکہ میں داعی کا ایک اَہم وصف اور شرط یہ ہے کہ اس کی دعوت فقط اِلی اللہ ہونی چاہیے۔ اس کی دعوت میں بے نیازی، صدق، اخلاص اور للہیت کا جذبہ اس طرح ہو کہ اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی رضا، دین کی سربلندی، امت محمدیہ کی اصلاح و ہدایت کے علاوہ اس کے دل ودماغ اور سوچ کے کسی گوشے میں کوئی دنیاوی غرض ذرّہ برابر بھی نہ آئے۔ کیونکہ اگر ذاتی مفاد، جاہ و منصب، لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے اور دوسروں کے سامنے اپنا علمی رُعب و دبدبہ ثابت کرنے کا خیال بھی ذہن میں آ جائے تو وہ دعوتِ دین نہیں رہے گی بلکہ وہ أدعو إلی نفسی ہو جائے گی یعنی میں لوگوں کو اپنے نفس کی طرف بلا رہا ہوں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے متعین فرما دیا ہے کہ دعوتِ دین صرف یہ ہےکہ ذاتی غرض اور ہواے نفس کو نکال کر اس کے ہر قول و فعل اور عمل کی سمت اللہ کی طرف رہے۔ پھر جو شخص دعوت و تبلیغ میں ہر قسم کی نفسانی خواہشات سے جتنا بےغرض ہوجاتا ہے تواللہ تعالیٰ اُس کی عزت اپنے ذمہ لے کر اسے اُتنا ہی بلند مرتبہ عطا فرماتا ہے۔ جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتاہے تو اللہ لوگوں کو خود اُس کی طرف بھیجتا ہے۔ یہی نظامِ قدرت ہے۔

سوال 33: داعی ہونے کی پہلی شرط کیا ہے؟

جواب: داعی ہونے کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ سراپا خیر ہو۔ اس کے اندر شر کے لیے گنجائش نہ ہو، اس کی سوچ اور زبان سے شر ادا نہ ہو، اُس کا نفس ہر قسم کے شر مثلاً گالی گلوچ، بُغض، عناد، توہین، تحقیر، تذلیل، دنگا فساد سے پاک ہو، اُس کی ساری دعوت خیر کی طرف ہو۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يَدۡعُونَ إِلَى ٱلۡخَيۡرِ﴾

[آل عمران، 3: 104]

جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں۔

مذکورہ بالا قرآنی کلمہ کا فوکس اس پر ہے کہ داعی کی ساری دعوت خیر کی طرف ہو۔ وہ جو عمل کرے اس کا نتیجہ خیر نکلے۔ یہی داعی ہونے کی پہلی شرط ہے۔

سوال 34: داعی کو کن اخلاقِ حمیدہ کا حامل ہونا چاہیے؟

جواب: دعوت و تبلیغ کے تقاضے پورا کرنے کے لیے داعی کو ایسے اوصاف سے متصف ہونا ضروری ہے جس سے اس کے عملِ دعوت و تبلیغ کی مؤثریت کی ضمانت مہیا ہو سکے۔ داعی کو درج ذیل اُوصاف حمیدہ کا حامل ہونا چاہیے:

1۔ خلوصِ نیت

داعی کے اقوال و افعال خلوصِ نیت پر مبنی ہونے چاہییں۔ کیونکہ اخلاص کے ساتھ تھوڑا عمل بھی موجبِ خیر و برکت اور باعثِ ثمراتِ حسنہ ہوتا ہے۔ جب کہ بغیر اخلاص کے دنیا اور آخرت میں کوئی اَجر و ثواب نہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿إِلَّا عِبَادَ ٱللهِ ٱلۡمُخۡلَصِينَ﴾

[الصافات، 37: 40]

(ہاں) مگر اللہ کے وہ (برگزیدہ و منتخب) بندے جنہیں (نفس اور نفسانیت سے) رہائی مل چکی ہے۔

2۔ سراپا تقویٰ

داعی کے لیے لازم ہے کہ وہ نفس کو عدمِ اطاعت اور معصیتِ الٰہی سے بچا کر تقویٰ کو اپنا شعار بنائے۔ اس کی زندگی کا ہر لمحہ اَحکام اِلہٰیہ کی بجا آوری اور قولاً و فعلاً حضور نبی اکرم ﷺ کی اقتداء میں بسر ہو کیونکہ صاحبِ تقویٰ داعی کو اللہ تعالیٰ اپنی معیت عطا فرماتا ہے اور متقین سے بھی ایک درجہ بلند ہو کر صاحبان احسان میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:

﴿إِنَّ ٱللهَ مَعَ ٱلَّذِينَ ٱتَّقَواْ وَّٱلَّذِينَ هُم مُّحۡسِنُونَ﴾

[النحل، 16: 128]

بے شک اللہ اُن لوگوں کو اپنی معیتِ (خاص) سے نوازتا ہے جو صاحبانِ تقوٰی ہوں اور وہ لوگ جو صاحبانِ اِحسان (بھی) ہوں۔

اس لیے داعی کو ایسا ناصح ہونا چاہیے کہ اُس کا طرزِ عمل اور اُس کی طرزِ دعوت نصیحت، خلوص اور اِخلاص پر مبنی ہو۔ وہ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ بھلائی اور اچھائی سے پیش آئے۔ وہ جارح، جبر کرنے والا اور دل شکنی کرنے والا نہ ہو بلکہ اس کی طبیعت میں محبت، شفقت، نرمی، عدل اور اعتدال ہو یعنی وہ سراپا تقویٰ اور محسن ہو۔

3۔ شخصی وجاہت

سب سے پہلے شے جو مدعو کو متاثر کرتی ہے وہ داعی کی شخصی وجاہت ہے، جو اس کی ظاہری و باطنی صفات، نظریات، اَخلاقی اَقدار، اَفعال، اِحساسات اور جذبات سے منسوب ہے۔ تاہم محض ظاہری حسن وجمال وقتی طور پر تو کسی کی توجہ مبذول کر سکتا ہے لیکن یہ کردار کا دائمی حسن ہے جو اسے زندہ و جاوید بناتا ہے۔ لہٰذا جو دعوت وہ دوسروں کو دے اس کا عکس اس کے کردار میں بھی نظر آئے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:

﴿أَنَا۠ وَمَنِ ٱتَّبَعَنِي﴾

[یوسف، 12: 108]

میں (بھی) اور اور وہ شخص بھی جس نے میری اتباع کی۔

مذکورہ آیت مبارکہ میں أَنَا۠ سے مراد ہے کہ جس عمل کی دعوت دے رہا ہے پہلے خود اُس پر عملاً استقامت کے ساتھ قائم ہو۔ اس بصیرت کی روشنی اُس کی زندگی میں نظر آئے۔ لہٰذا داعی میں شخصی وجاہت اور کردار کا پایا جانا ضروری ہے۔

4۔ حسنِ خلق

داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اَخلاقِ حسنہ سے اپنے آپ کو مزین کرے کیونکہ سیرت و کردار سےبڑھ کر کوئی دعوت نہیں ہے۔ وہ جس کسی سے بھی ملے، پُرتپاک انداز سے ملے کہ دوسرا دوبارہ اس سے ملنے کی خواہش کرے۔ تبسم اور شگفتگی کے آثار اس کے چہرے پر نمایاں رہیں، اس لیے کہ خوش خلقی کا پہلا مظہر حسنِ گفتار ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَقُولُواْ لِلنَّاسِ حُسۡناً﴾

[البقرة، 2: 83]

اور عام لوگوں سے (بھی نرمی اور خوش خُلقی کے ساتھ) نیکی کی بات کہنا۔

لہٰذا عبادات، معاملات اور اخلاقیات میں داعی سراپا صالحیت ہو اور اَخلاقِ سیئہ مثلاً بخل، غیبت، چغلی، جھوٹ، تکبر وغیرہ سے کاملاً پرہیز کرے، کسی کو حقیر نہ جانے، کسی میں نقص نہ نکالے، کسی کا پردہ فاش نہ کرے۔ جتنا داعی اِن عیبوں سے خود کو پاک کر کے اَخلاقِ حسنہ کا پیکر ہوتا چلا جائے گا، اُتنا ہی اس کی دعوت کی مؤثریت نکھر کے سامنے آتی جائے گی۔

5۔ تواضع اور اِنکساری

تواضع اور انکساری داعی کا اَہم ترین وصف ہے۔ یہ اسے اِحساسِ برتری اور نفس کے حملوں سے بچانے کے لیے اسلحہ کا کام دیتا ہے۔ اس لیے داعی کے طرزِ زندگی اور طرزِ عمل سے عجز و تواضع کی جھلک نظر آنی چاہیے۔

6۔ عفو و درگزر

ایک داعی کو عفو و درگزر کی صفت سے متصف ہونا چاہیے۔ وہ برائی کا بدلہ بھلائی کے ساتھ دے۔ زیادتی و ظلم پر عفو و درگزر کا عملی مظاہرہ پیش کرتےہوئے معاف کر دےاور اپنی دعوت و تبلیغ کے عمل کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھے۔ داعی کو درج ذیل ارشاد ربانی کو حرزِ جاں بنانا چاہیے:

﴿فَٱعۡفُ عَنۡهُمۡ وَٱسۡتَغۡفِرۡ لَهُمۡ﴾

[آل عمران، 3: 159]

سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اور ان کے لیے بخشش مانگا کریں۔

7۔ صداقت

راست گوئی اور سچائی داعی کے لیے لازمی صفات ہیں۔ وہ اپنے آپ سے ہمیشہ سچ بولنے، جھوٹ سے گریز کرنے، بدی سے بچنے اور نیکی کی راہ اختیار کرنے کا عہد کرے۔ اس کے نتیجے میں اس کی سیرت و کردار میں پختگی آ ئے گی۔ یہی کردار ایک کامیاب داعی کا اثاثہ ہے۔ داعی جن صفات سے متصف ہوتا ہے اُن کا ذکر اس آیت مبارکہ میں آیا ہے:

﴿ٱلصَّٰبِرِينَ وَٱلصَّٰدِقِينَ وَٱلۡقَٰنِتِينَ وَٱلۡمُنفِقِينَ وَٱلۡمُسۡتَغۡفِرِينَ بِٱلۡأَسۡحَارِ﴾

[آل عمران، 3: 17]

(یہ لوگ) صبر کرنے والے ہیں اور قول و عمل میں سچائی والے ہیں اور ادب و اطاعت میں جھکنے والے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں اور رات کے پچھلے پہر (اٹھ کر) اللہ سے معافی مانگنے والے ہیں۔

8۔ صبر و اِستقامت

داعی کو صبر و استقامت کی صفت سے متصف ہونا چاہیے تاکہ دین کی دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں پیش آمدہ مصائب و آلام، تنگی و ترشی اور ناسازگار حالات کا پامردی سے مقابلہ کر سکے اور دین کے کام کو آگے بڑھانے میں سستی اور کم ہمتی نہ دکھائے۔ اس کی تمام تر توجہ اس مقصد کی طرف ہونی چاہیے جس کے لیے وہ اس قدر محنت و مشقت کر رہا ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ کا وہ فرمان پیشِ نظر رکھنا چاہیے جس میں اس نے اپنے محبوب ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے یہ تسلی آمیز کلمات ارشاد فرمائے ہیں:

﴿وَٱصۡبِرۡ وَمَا صَبۡرُكَ إِلَّا بِٱللَّهِۚ وَلَا تَحۡزَنۡ عَلَيۡهِمۡ وَلَا تَكُ فِي ضَيۡقٖ مِّمَّا يَمۡكُرُونَ﴾

[النحل، 16: 127]

اور (اے حبیبِ مکرّم!) صبر کیجیے اور آپ کا صبر کرنا اللہ ہی کے ساتھ ہے اور آپ ان (کی سرکشی) پر رنجیدہ خاطر نہ ہوا کریں اور آپ ان کی فریب کاریوں سے (اپنے کشادہ سینہ میں) تنگی (بھی) محسوس نہ کیا کریں۔

یعنی داعی دورانِ دعوت کبھی یہ توقع نہ رکھے کہ اُس کی بات مان لی جائے گی یا اُس کی دعوت کارگر ثابت ہو گی اور سو فیصد نتیجہ دے گی۔ بلکہ ممکن ہے کہ اس کی دعوت مکمل طور پر ٹھکرا دی جائے، اسے بُرا بھلا کہا جائے، اس پر تہمت اور الزام لگایا جائے، اس کی ذات پر کیچڑ اُچھالا جائے، اس کی کردار کشی کی جائے اور اسے نقصان پہنچایا جائے۔ ایسی صورت میں داعی کے لیے لازم ہے کہ وہ کسی قسم کا ردِّ عمل ظاہر نہ کرے اور مکمل طور پر استقامت کے ساتھ صبر کا مظاہرہ کرے۔ کیونکہ قرآن مجید کی مذکورہ آیت کی رُو سے اس کا صبر اللہ کے لیے ہے اور اللہ اس کے ساتھ ہے۔ لہٰذا وہ وَلَا تَحۡزَنۡ عَلَيۡهِمۡ کی عملی تفسیر بنتے ہوئے اپنے مخالفین کی چالوں، سازشوں اور دھوکہ دہی پرمایوس اور غم زدہ نہ ہو بلکہ وَلَا تَكُ فِي ضَيۡقٖ مِّمَّا يَمۡكُرُونَ پر عمل کرتے ہوئے عدمِ تضیق یعنی دل میں تنگی محسوس نہ کرے اور ان تمام مشکلات پر وسیع النظر، وسیع القلب او روسیع العزم ہو۔

9۔ قوتِ اِرادی

داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ مضبوط قوتِ ارادی کا مالک ہو کیونکہ قوت ارادی ہی وہ وصف ہے جس کو بروئے کار لا کر وہ ذاتی میلان یا رُجحان سے دست بردار ہو سکتا ہے۔ داعی کے اعمال کی بنیاد اکثر و بیشتر ارادی افعال پر مبنی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ کبھی اپنا راستہ اور منزل بار بار نہیں بدلتا بلکہ وہ ہمیشہ با اُصول اور مستقل مزاج رہتا ہے۔

10۔ دینی عصبیت و حمیت

ایک داعی کے لیے ضروری ہے کہ وقتِ ضرورت دین کی خاطر جان تک قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کرے۔ جب تک ایک داعی کے اندر اپنے دین کے لیے عصبیت و حمیت نہ پائی جائے وہ کامیاب داعی نہیں قرار دیا جا سکتا۔

سوال 35: داعی کس عمل سے اَولیاء اللہ کے درجے تک پہنچ سکتا ہے؟

جواب: عالم اور فقیہ داعی اَولیاء کرام کے درجے تک پہنچ سکتا ہے، لیکن یہ اُس وقت ممکن ہوتا ہے جب وہ اپنا راستہ اللہ کی طرف متعین کرتے ہوئےبصیرت پر قائم رہے اور باعمل بنے تاکہ اُس عمل کی برکت سےاُس کے پیروکار بھی باعمل بنیں۔ علم دین سے اس کے اندر اِتنی بصیرت، تقویٰ، صدق و اِخلاص، اِستقامت اور طہارت آ جائے کہ اُس کا عمل، اَخلاق اور زُہد و ورع اَولیاء کی مانند ہو جائے۔ یوں آہستہ آہستہ وہ اولیاء کرام کے مقام و مرتبہ تک پہنچ سکتا ہے اور یہ امام اعظم ابو حنیفہ اور امام شافعی کے درج ذیل اَقوال سے بھی ثابت ہے:

1۔ فضل بن دُکین بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے امام اعظم ابو حنیفہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:

إِنْ لَمْ يَكُنْ أَوْلِيَاءُ اللَّهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ الْفُقَهَاءُ وَالْعُلَمَاءُ، فَلَيْسَ لِلَّهِ وَلِيُّ. ([24])

اگر دنیا اور آخرت میں فقہاء اور علماء اللہ تعالی کے ولی نہیں ہیں تو پھر کوئی بھی اللہ کا ولی نہیں ہے۔

2۔ الربیع بن سلیمان بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے امام شافعی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:

إِنْ لَمْ يَكُنِ الْفُقَهَاءُ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ فِي الْآخِرَةِ فَمَا لِلَّهِ وَلِيُّ. ([25])

اگر فقہاء آخرت میں اللہ کے ولی نہیں ہوں گے تو پھر کوئی بھی اللہ کا ولی نہیں ہوگا۔

اس سے مراد یہ ہے کہ دین کی دعوت دینے اور خدمت کرنے والے علماء، فقہاء اور مجتہدین کا عمل، کردار اور اخلاق ایسا ہونا چاہیےکہ وہ مرتبۂ ولایت پر فائز ہوں اور اولیاء کی صف میں شامل ہوں۔

سوال 36: قرآن و حدیث کی رُو سے داعی کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟

جواب: دعوت اِلی اللہ کو اپنی ساری سعی و جہد کا مطلوب و مقصود بنانا داعی کا کام ہے۔ اسلام کی رُو سے داعی کے مقام و مرتبہ کا اندازہ درج ذیل آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ سے لگایا جا سکتا ہے:

1۔ داعی کی خوش گفتاری

داعی کی بات کو قابلِ تعریف گردانا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَمَنۡ أَحۡسَنُ قَوۡلاً مِّمَّن دَعَآ إِلَى ٱللَّهِ وَعَمِلَ صَٰلِحاً وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ ٱلۡمُسۡلِمِينَ﴾

[حم السجدة، 41: 33]

اور اس شخص سے زیادہ خوش گفتار کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے: بے شک میں ( اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کے) فرمانبرداروں میں سے ہوں۔

2۔ داعی کے لیے اجر و ثواب

داعی کے لیے بارگاہِ الٰہی میں بے شمار جزاے خیر اور صلہ ہے۔

1۔ حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ. ([26])

جس نے کسی خیر کی طرف راہ نُمائی کی تو اس کے لیے خیر کا عمل کرنے والے کی طرح اجر و ثواب ہے۔

2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى، كَانَ لَهُ مِنْ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا. ([27])

جس نے راہِ ہدایت کی دعوت دی تو اس کے لیے اس کی اتباع کرنے والوں کے اجر کی طرح اجر و ثواب ہے۔ جب کہ اس سے اتباع کرنے والوں کے اجر و ثواب میں کوئی کمی بھی نہیں ہو گی۔

3۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے غزوۂ خیبر کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا:

فَوَاللهِ، لَأَنْ يَهْدِيَ اللهُ بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا، خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ. ([28])

اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعے ایک آدمی کو ہدایت دے دے یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں کا مالک ہونے سے بہتر ہے۔

3۔ داعی کی کامیابی و کامرانی

اَمرِ حق کی تعلیم دینے اور اَمرِ باطل سے روکنے والا داعی ہر حال میں کامیاب و کامران ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلۡتَكُن مِّنكُمۡ أُمَّةٞ يَدۡعُونَ إِلَى ٱلۡخَيۡرِ وَيَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنكَرِۚ وَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُفۡلِحُونَ﴾

[آل عمران، 3: 104]

اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیںo

سوال 37: مدعو قوم کی زبان میں دعوت دینے سے کیا مراد ہے؟

جواب: انبیاء کرام f کی بعثت کا ذکر کرتے ہوئے قرآن حکیم فرماتا ہے:

﴿وَمَآ أَرۡسَلۡنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِهٖۦ لِيُبَيِّنَ لَهُمۡۖ﴾

[إبراهيم، 14: 4]

اور ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان کے ساتھ تاکہ وہ ان کے لیے (پیغامِ حق) خوب واضح کر سکے۔

اِس آیت مبارکہ کے الفاظ ’اپنی قوم کی زبان کے ساتھ (بِلِسَانِ قَوۡمِهٖ)‘ سے مراد صرف لغت یا ادب کی زبان نہیں بلکہ اس میں بہت وسعت ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جس رسو ل کو بھی بھیجا تو اس کی اپنی قوم کی زبان دے کر بھیجا، جیسے عرب میں عربی زبان، مصر میں مصری زبان، یونان میں یونانی زبان؛ الغرض ہر نبی کو اس کی قوم کے نفسیاتی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے اُن کی زبان میں بھیجا، یعنی اُن کی ادبی، عقلی اور معاشرتی زبان میں بھیجا، اُن کے زمانے اور حالات کی زبان میں بھیجا، ان کی requirement کے مطابق علم، فن اور مہارت سے آراستہ کرکے بھیجا۔ جیسے حضرت موسیٰ eمبعوث ہوئے تو جادوگروں کا زمانہ تھا، اللہ تعالیٰ نے انہیں جادوگروں سے اُن کی زبان میں بات کرنے کا فن عطا کیا۔ حضرت عیسیٰ e کی بعثت ہوئی تو وہ حکماء کا زمانہ تھا، لہذا اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسے معجزات عطا کیے کہ حکماء کا فن شکست کھا گیا یعنی ہر کسی کو زمانے کے حالات کے مطابق فہم، علم اورہنر سے آراستہ کر کے بھیجا تاکہ وہ لوگوں کے ذہنوں، ضرورتوں، مزاج اور حالات کے مطابق انہیں address کریں۔ یہی بِلِسَانِ قَوۡمِهِۦ سے مراد ہے یعنی زبان کے دائرۂ کار میں معنوی وسعت اور حکمت مراد ہے۔

سوال 38: داعی نفسیاتی اِعتبار سے مختلف مزاج کے حامل مدعوین کو دعوت و تبلیغ کیسے کر سکتا ہے؟

جواب: داعی نفسیاتی اعتبار سے مختلف مزاج کے حامل مدعوین کو درج ذیل طریقے سے دعوت و تبلیغ کر سکتا ہے:

1۔ علمی مزاج کے حامل مدعوین

علمی مزاج کے حامل مدعوین علمی مجالس میں دلائل کو ترجیح دیتے ہیں۔ دلائل کی نوعیت، اَقسام اور ان کی ترتیب وتدوین سے انہیں ایک طرح کا اطمینانِ قلب حاصل ہوتا ہے۔ وہ ایسے داعی کو پسند کرتے ہیں، جسے اسلام اور جدید سائنسی موضوعات پر دلائل کے ساتھ گفت گو کرنا آتی ہو مثلاً قرآن اور سائنس کی روشنی میں تخلیق کائنات کی معلومات رکھتا ہو، خالص اِسلامی اصطلاحات کو جدید زبان میں واضح کرسکے، یعنی اسلام اور جدید سائنس میں پائی جانے والی ظاہری مغایرت اور ثنویت کا خاتمہ کرسکے۔ جدید معاشی نظام کو اسلام کے معاشی نظام کے موافق بنا سکے اور معاشی میدان میں در آنے والی خرابیوں کا اِسلام کی روشنی میں جواب دے سکے۔ اس مقصد کے لیے داعی کی جدید علمی اور سائنسی موضوعات پر مضبوط گرفت ہونا ضروری ہے۔

2۔ فکری مزاج کے حامل مدعوین

فکری مزاج کے حامل مدعوین فلسفیانہ طرزِ فکر میں رغبت رکھتے ہیں۔ یہ تخیل پسند مدعوین دلائل کی بجائے فلسفیانہ گفت گو اور تصورات کو پسند کرتے ہیں۔ یہ شعوری سطح پر اپنے اردگرد کے ماحول سے مشاہدے کی بنیاد پر بہت سے سوالات اکٹھے کرکے ان پر سوچ بچار کرنا پسند کرتے ہیں۔ ایسے مدعوین کے سامنے داعی اِسلام سے متعلقہ فکری موضوعات پیش کرے مثلاً اسلام انسانیت کی فکری سطح پر کیا راہ نُمائی مہیا کرتا ہے؟ اسلام فکری سطح پر دنیا کے بقیہ مذاہب اور فلسفیانہ طرزِ زندگی سے کس طرح بہتر ہے؟ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر داعی کا معیاری فکری مضامین پر گرفت ہونا ضروری ہے۔

3۔ جذباتی مزاج کے حامل مدعوین

جذباتی مزاج کے حامل مدعوین اپنے جذبات کی تسکین چاہتے ہیں۔ انہیں نہ تو دلائل کی ترتیب و تدوین سے کوئی غرض ہوتی ہے اور نہ ہی تصورات کی جستجو کی شعوری کوشش کرتے ہیں۔ یہ تو صرف عشقِ حقیقی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ ان کے سامنے اسلام کی تاریخِ عُشاق پیش کرنا مفید رہتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا حضور نبی اکرم ﷺ سے تعلقِ عشق و محبت ان کے نزدیک علم الکلام سے زیادہ قابلِ اِعتبار ٹھہرتا ہے۔ ایسےذوق کے حامل مدعوین کے سامنے اسلام کی مؤثر دعوت و تبلیغ کے لیے داعی کو نہ صرف اس موضوع پر سیر حاصل گفت گو کا ملکہ حاصل ہو بلکہ وہ خود بھی عشقِ الٰہی اور عشقِ رسول ﷺ میں سرتاپا ڈوبا ہو۔

سوال 39: داعی دعوت دینے میں کس ترتیب کو ملحوظ خاطر رکھے؟

جواب: افرادِ معاشرہ کی فکری و عملی اصلاح کے لیے دعوت و تبلیغ ایک کثیر الجہتی اور تدریجی عمل ہے۔ اس میں حسن و خوبی اور استحکام پیدا کرنے کے لیے اسے فطری رفتار اور ترتیب کے ساتھ آگے بڑھانا ضروری ہے ورنہ اصلاح کے بجائے بگاڑ اور اِنتشار کا اندیشہ لاحق ہو سکتا ہے۔ لہٰذا داعی دعوت دینے میں درج ذیل ترتیب کو ملحوظِ خاطر رکھے:

1۔ ذاتی اِصلاح

کسی بھی داعی کے لیے دعوت دینے سے قبل اپنی ذات کی اصلاح کرنا ضروری ہے۔ اسے چاہیے کہ مجاہدہ اور ریاضت سے اپنے نفس کی تربیت کر کے ہر قسم کی آلائشوں سے پاک کرے تاکہ کوئی اس کے کردار پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ جب نفس اِطاعت اور تسلیم و رضا کے راستے پر چل پڑے تو پھر دوسروں کی اِصلاح کی طرف متوجہ ہو۔

2۔ اَہلِ خانہ کی اِصلاح

اَہلِ خانہ کو اللہ تعالیٰ کی سرکشی اور نافرمانی سے بچانا ہر داعی کا اَوّلین فریضہ ہے۔ اس ضمن میں ہر ایک سے باز پُرس کی جائے گی۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے براہِ راست حکم دیا ہے:

﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ قُوٓاْ أَنفُسَكُمۡ وَأَهۡلِيكُمۡ نَاراً﴾

[التحریم، 66: 6]

اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ۔

ہر شخص کے اپنے اہل خانہ کے ساتھ خلوص، محبت اور سچی خیر خواہی کے جذبات ہمیشہ شک و شبہ سے بالا ہوتے ہیں۔ وہ کبھی اس بات کو پسند نہیں کرے گا کہ خود تو آخرت کے عذاب سے بچ جائے اور اس کے بیوی، بچے اس میں گرفتار ہو جائیں۔ گھر کے ہر فردکی اصلاح کے حوالے سے وہ نرمی اور اِفہام و تفہیم سے کام لے لیکن اگر نرمی سے بات بنتی نظر نہ آئے تو وہ انہیں راہِ راست پر لانے کے لیے مناسب انداز میں تنبیہہ بھی کر سکتا ہے۔

3۔ خاندان کی اِصلاح

خاندان معاشرتی زندگی کی ایک اَہم اکائی ہے۔ داعی جس ماحول میں پیدا ہوا، پرورش پائی اور جوان ہوا، اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس میں خدا کا دین پھیلائے۔ ہر داعی اپنی زندگی میں ماں باپ، بہن بھائی اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں جڑا ہوتا ہے، لہٰذا اُنہیں کارِ دعوت و تبلیغ میں آسانی کے ساتھ شامل کیا جا سکتا ہے۔ اپنے گھر کو دعوت و تبلیغ کا عملی نمونہ بنانے کے بعداپنے قریبی رشتہ داروں اور خاندان کے دیگر افراد کو دین کی دعوت دینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے قریبی رشتہ داروں کی اصلاح پر زور دیتے ہوئے فرمایا:

﴿وَأَنذِرۡ عَشِيرَتَكَ ٱلۡأَقۡرَبِينَ﴾

[الشعراء، 26: 214]

اور (اے حبیبِ مکرّم!) آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو (ہمارے عذاب سے) ڈرائیے۔

4۔ معاشرہ کی اصلاح

داعی کو خاندان کے بعد معاشرہ کے دیگر افراد کی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَكَذَٰلِكَ أَوۡحَيۡنَآ إِلَيۡكَ قُرۡءَانًا عَرَبِيّاً لِّتُنذِرَ أُمَّ ٱلۡقُرَىٰ وَمَنۡ حَوۡلَهَا وَتُنذِرَ يَوۡمَ ٱلۡجَمۡعِ لَا رَيۡبَ فِيهِ﴾

[الشوری، 42: 7]

اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف عربی زبان میں قرآن کی وحی کی تاکہ آپ مکّہ والوں کو اور اُن لوگوں کو جو اِس کے اِردگرد رہتے ہیں ڈر سنا سکیں، اور آپ جمع ہونے کے اُس دن کا خوف دلائیں جس میں کوئی شک نہیں ہے۔

داعی جس معاشرے میں رہتا ہے اُس کی نفسیات، حالات، مسائل اور اس کی فکری و عملی خوبیوں اور خامیوں سے دوسروں کی نسبت زیادہ آگاہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کے لیے خلوص و ہم دردی کے ساتھ خدا کا دین پہنچانے اور کام بہتر طور پر سرانجام دینے کے زیادہ مواقع ہوتے ہیں۔ داعی اور مخاطبین دونوں ایک دوسرے سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔ اس لیے دعوت و تبلیغ کا کام پائیدار بنیادوں پر آگے بڑھتا ہے۔

5۔ اَقوامِ عالم کی اِصلاح

آخری مرحلہ میں داعی کو چاہیے کہ وہ کارِ دعوت و تبلیغ اَقوامِ عالم تک پہنچائے۔ اس ضمن میں درج ذیل آیت مبارکہ مشعلِ راہ ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

﴿وَمَآ أَرۡسَلۡنَٰكَ إِلَّا كَآفَّةٗ لِّلنَّاسِ بَشِيراً وَنَذِيراً﴾

[السباء، 34: 28]

اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر اس طرح کہ (آپ) پوری انسانیت کے لیے خوشخبری سنانے والے اور ڈر سنانے والے ہیں۔

حضور نبی اکرم ﷺ کی کارِ دعوت کسی خاص قوم یا مخصوص خطہ زمین کے لیے نہیں بلکہ تاقیامت اَقوامِ عالم کے لیے ہے۔ اب یہ اُمت کا فرض ہے کہ وہ حتی المقدور دعوت و تبلیغ کو عالم گیر سطح پر بپا کرے تاکہ قیامت کے دن کوئی شخص یہ عذر نہ پیش کر سکے کہ اس تک خدا کا پیغام نہیں پہنچا۔

مذکورہ دعوت و تبلیغ کا تدریجی طریقِ کار فطری بھی ہے اور منطقی بھی۔ اس لیے عام حالات میں اس کا خیال رکھنا مفید بھی ہے اور مطلوب بھی، تاَہم دعوت و تبلیغ کے تقاضوں کے تحت اس میں ترمیم بھی کی جا سکتی ہے۔

سوال 40: کیا دعوت و تبلیغ کی کامیابی ہی اَصلاً داعی کی کامیابی کہلائے گی؟

جواب: جی نہیں! دعوت و تبلیغ کی کامیابی اصلاً داعی کی کامیابی نہیں کہلاتی کیوں کہ داعی کی کامیابی دعوت و تبلیغ کی کامیابی کے ساتھ مشروط نہیں ہے، یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ دعوت و تبلیغ کی کامیابی یہ ہے کہ مخالف قوتیں اس کی راہ سے ہٹ جائیں اور پیغامِ حق غالب آجائے۔ لیکن داعی کی کامیابی یہ ہے کہ وہ دعوت و تبلیغ کرتے ہوئے اپنا سب کچھ لٹا دے خواہ نوعِ اِنسانی کا ایک فرد بھی اس کا ساتھ نہ دے؛ اور یہ بھی ممکن ہے کہ دعوت کے نتیجے میں باطل اور شر مغلوب ہو جائے اور تعلیماتِ اسلامی کا نفاذ ہوجائے، وہ ہر حال میں فلاح یافتہ ہے۔ داعی کی کامیابی قطعاً اس بات پر موقوف نہیں ہے کہ حق عملاً غالب اور باطل مغلوب ہو جائے کیونکہ اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ اس کی آواز جن افراد تک پہنچے وہ کسی نہ کسی درجے میں اپنے اثرات لازماً چھوڑ جائے۔ یہاں تک کہ مخالفین بھی اپنے بہت سے معاملات میں اس کی دی گئی دعوتِ حق کے تحت سوچنے پر مجبور ہو جائیں کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ حق کو غالب اور باطل کو مغلوب کرنا تمہارے اختیار میں نہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:

﴿فَإِنَّمَا عَلَيۡكَ ٱلۡبَلَٰغُ وَعَلَيۡنَا ٱلۡحِسَابُ﴾

[الرعد، 13: 40]

آپ پر تو صرف (احکام کے) پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔

سوال 41: داعی کو کس امانت میں خیانت کرنے سے روکا گیا ہے؟

جواب: داعی کے پاس جو دعوت اور علم دین ہے وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی امانت ہے ۔ اس میں خیانت کرنے سے اسے روکا گیا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:

﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَخُونُواْ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَ وَتَخُونُوٓاْ أَمَٰنَٰتِكُمۡ وَأَنتُمۡ تَعۡلَمُونَ﴾

[الأنفال، 8: 27]

اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول ( ﷺ ) سے (ان کے حقوق کی ادائیگی میں) خیانت نہ کیا کرو اور نہ آپس کی امانتوں میں خیانت کیا کرو حالاں کہ تم (سب حقیقت) جانتے ہو۔

داعی کے پاس کتابِ اِلٰہی اور علمِ دین اللہ کی امانت ہے۔ وہ نہ تو اس میں خیانت کرے اور نہ ہی اسے بیچے۔ جتنا علم اُس نے سیکھا ہے اُس سے خود بھی نفع حاصل کرے اور دوسروں کو بھی فیض یاب کرے۔

سوال 42: کیا دعوت کے لیے داعی کا بے خوف ہونا ضروری ہے؟

جواب: جی ہاں ! دعوت کے لیے داعی کا بے خوف ہونا ضروری ہے۔ لیکن بے خوف و خطر ہونے کا معنی یہ ہرگز نہیں کہ لوگوں کی عزتوں سے کھیلا جائے، یہ سمجھ کر کہ میں نڈر آدمی ہوں بلکہ داعی حق اور خیر کے لیے بے خوف ہو، ڈرنے والا اور بزدل نہ ہو، حریص نہ ہو، لالچی نہ ہو، بلکہ وہ بے نیا ز ہو، اس کے اندر جرأتِ ایمانی ہو۔ اُس کا توکل صرف اللہ پر ہو کہ اللہ تعالیٰ میری حفاظت کرنے والا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:

﴿وَٱللهُ يَعۡصِمُكَ مِنَ ٱلنَّاسِۗ﴾

[المائدة، 5: 67]

اور اللہ (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا۔

اِس طرح ایک داعی ہر طرح کے طعن و تشنیع اور الزام تراشی و بہتان طرازی کے خوف سے بھی بے نیاز ہونا چاہیے جیسا کہ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر 54 میں مذکور ہے کہ وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔

سوال 43: کیا داعی دعوت دینے میں بخیل ہو سکتا ہے؟

جواب: جی نہیں ! داعی دعوت دینے میں بخیل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ حقیقی داعی وہ ہوتا ہے جو ملنے والے پیغام اور کلامِ خیر کو دوسروں تک پہنچاتا ہے، صرف اپنی ذات تک محدود نہیں رکھتا اور نہ ہی بخل اور کنجوسی سے کام لیتے ہوئے چھپاتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:

﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلرَّسُولُ بَلِّغۡ مَآ أُنزِلَ إِلَيۡكَ﴾

[المائدة، 5: 67]

اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارا لوگوں کو) پہنچا دیجیے۔

مذکورہ آیت مبارکہ کے الفاظ بَلِّغۡ مَآ أُنزِلَ إِلَيۡكَ میں sharing کا تصور ہے کہ جو علم، خیر، معرفت، تقویٰ اور نور توفیقِ ایزدی سے اُس تک پہنچا ہے، اُس کو دوسروں تک منتقل کرے۔ جو ایسا نہیں کرتا تو اس کے لیے ارشاد ہوتا ہے:

﴿وَإِن لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَهُ﴾

[المائدة، 5: 67]

اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو آپ نے اس (ربّ) کا پیغام پہنچایا ہی نہیں۔

مذکورہ آیت مبارکہ میں کتمانِ حق کی نفی ہے کہ داعی حق کو کبھی نہ چھپائے، نہ توکسی کے خوف سے کہ اگر میں نے یہ کہہ دیا تو کوئی میرے خلاف ہو جائے گا یا مجھ سے ناراض ہو جائے گا اور نہ ہی کسی حرص و لالچ اور مفاد کی وجہ سے کہ اگر میں نے یہ بات کہہ دی تو میری ذات اور میرےمفاد کو نقصان پہنچے گا، میرے وسائل کم ہوجائیں گے، مجھے پیسے نہیں ملیں گے وغیرہ۔ ان سب باتوں سے قطع نظر داعی کے پاس جو حق ہے وہ بتا دے، خواہ اس راہِ عزیمت میں اسے دنیاوی، مادی یا مالی نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ یعنی داعی کا حق یہ ہے کہ حق مقدم ہو اِظہار میں بھی اور کتمان میں بھی۔

سوال 44: داعیہ کو دعوتی سرگرمیوں میں کن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

جواب: عصرِ حاضر میں جدید تہذیب کی چمک دمک اور کثرتِ معصیات کی وجہ سے مضبوط قوتِ ایمانی اور گہری اخلاقی پختگی کے بغیر نیکی کی روش پر قائم رہنا بہت مشکل ہے۔ قدم قدم پر انحراف کا خطرہ اور پھسل جانے کے قوی امکانات نے گناہوں کے خلاف قوت مدافعت کو کمزور کر دیا ہے۔ ذیل میں چند ایسی رکاوٹوں کی طرف توجہ مبذول کروائی جا رہی ہے جو دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں میں حائل ہونے کا باعث بنتی ہیں:

1۔ حبِ دنیا

دنیا محض دار العمل ہے۔ دنیوی زندگی کی چند روزہ حقیقت سے با خبر ہونے کے باوجود عملی طور پر بعض اوقات داعیہ حبِ دنیا میں اس قدر مستغرق ہو جاتی ہے کہ اسے ذاتی منفعت کے علاوہ کچھ سجھائی نہیں دیتا اور وہ اپنا مقصدِ زندگی بھول جاتی ہے۔ حالانکہ دنیا مال و اسباب کی قلت اور کثرت کا نام نہیں بلکہ دل کا اس طرح مائل ہونا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بھول جائے دنیا کہلاتا ہے۔ اگر یہی مال اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے تو آخرت کا سرمایہ بن جاتا ہے اور دنیا میں غلبہ اسلام کی جدو جہد میں تقویت کا باعث بنتا ہے۔

2۔ دعوتی میلان کا فقدان

دعوتی میلان کا فقدان ایسی رکاوٹ ہے جس کے باعث دعوتی و تبلیغی کام التواء کا شکار ہو جاتا ہے۔ داعیہ کی دعوت و تبلیغ اور اس کے لوازمات سے ناواقفیت اور عدم دلچسپی اپنی ذمہ داریوں سے کما حقہ عہدہ برآ ہونے میں رکاوٹ بنتی ہے اور عملی جد و جہد کی نتیجہ خیزی غیر مؤثریت کی صورت میں سامنے آتی ہے۔

3۔ فکری و ذہنی تغیرات

دل جذبات کا مرکز اور ذہن عقل کا حامل ہوتا ہے۔ بعض اوقات داعیہ یا تو جذباتیت اور سطحیت کا شکار ہو جاتی ہیں یا پھر کاملاً عقل پر بھروسہ کر لیتی ہیں۔ وہ فکری و ذہنی تغیرات کے باعث نفس میں پائی جانے والی جملہ برائیوں مثلا حسد، بغض، کینہ، تعصب، غرور، نخوت، انا، حب دنیا اور حب جاہ میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ جس سے اس کے دعوتی و تبلیغی کام میں نمود و نمائش اور ریا کا عنصر پیدا ہو جاتا ہے اور وہ معاشرتی برائیوں کو امر واقع کے طور پر تسلیم کر کے اصلاحِ احوال کی کاوشیں ترک کر دیتی ہے۔

4۔ ناقص فہمِ دین

دین کا کامل فہم نہ ہونا بھی دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں میں مشکلات کا باعث بنتا ہے۔ جملہ اُمور پر کامل دست رس کے فقدان، غیر واضح تصور اور حقانیت پر یقین کی کمی کی وجہ سے داعیہ کے علم میں کوئی گہرائی نہیں ہوتی اور ناقص تصورات کا اظہار کئی غلط فہمیاں پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اسلام کے جملہ پہلوؤں پر داعیہ کی گہری نظر نہ ہونے کے باعث اس کی خود ساختہ توجیہات، تاویلات اور سطحی باتیں خواتین کی فکروعمل کی گمراہی کا باعث بنتی ہیں۔

5۔ طبقاتی افتراق

داعیہ کا مختلف قسم کے گروہی اور مسلکی تعصبات کا شکار ہونا دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں میں حائل ہونے والی ایک اَہم رکاوٹ ہے۔ دعوت و تبلیغِ دین کا فریضہ سرانجام دینے والی داعیہ بعض اوقات طبقاتی افتراق کی وجہ سے تعصب پسند ہو جاتی ہے اور نفرت، بغض، تفرقہ، محاذ آرائی اور گمراہی کو فروغ دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرہ میں فلاح کی بجائے بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔

6۔ شخصی اَوصاف کا فقدان

داعیہ میں شخصی اوصاف کا فقدان دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں کو متاثر کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اس کی وجہ تربیت میں کمی کا ہونا اور داعیہ کی شخصیت کا مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنا ہے۔ فی زمانہ یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ جس کے پاس علمِ دین کی کمی ہو لیکن وہ اچھی گفتگو اور تقریر کر سکتی ہو تو اسے اچھی داعیہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے جس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جو داعیہ اپنی ذات کی معلم نہ بن سکے وہ دوسروں کو کیسے تعلیم دے سکتی ہے؟

7۔ مقصدِ دعوت و تبلیغ سے لاعلمی

عصرِ حاضر میں داعیہ پر خود اپنی دعوت و تبلیغ کے مقصد کا واضح نہ ہونا دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں کو متاثر کرنے کی ایک اَہم وجہ ہے۔ بعض اوقات عملی طور پر وہ اسلام کی دعوت دیتے ہوئے کسی ایک پہلو کی اصلاح کی جانب متوجہ ہوتی ہے تو دوسرا پہلو نظر انداز ہو جاتا ہے۔ لہٰذا جزوی کاوشیں ہرگز اس کی متحمل نہیں ہو سکتیں اور جزو کسی صورت میں کل نہیں ہو سکتا۔ داعیہ کی مقصدیت سے لاعلمی دعوت و تبلیغ کی مؤثریت میں ایک اَہم رکاوٹ ہے۔

8۔ دشمن کی شرانگیزیوں سے بے خبری

داعیہ کی مخالفانہ حربوں سے بے خبری اس کی مؤثر دعوت و تبلیغ کے عمل میں ایک اَہم رکاوٹ ہے۔ اسے اس بات کی خبر ہی نہیں ہوتی کہ باطل اور طاغوتی قوتیں کس کس انداز سے اس کی دعوت و تبلیغ کو نا کام کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ فکری اور نظریاتی محاذ پر ان کے حملے کس قدر کارگر ثابت ہو رہے ہیں۔ انہوں نے جدید ٹیکنالوجی اور میڈیا کے استعمال سے دنیا بھر میں گھروں کے اندر تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ ان معاندین اور شرپسند عناصر کی فتنہ پروری کی وجہ سے دعوتی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔

سوال 45: داعی ناکام کب ہوتا ہے؟

جواب: داعی ناکام اُس وقت ہوتا ہے جب وہ نفس پرستی میں مبتلا ہو کر دعوت اِلی اللہ کی بجائے دعوت اِلی النفس یعنی اپنی طرف دعوت دیتا ہے۔ گویا وہ اللہ کی عبادت کرنے والا نہیں رہتا، اللہ سے بے نیاز اورلاتعلق ہو جاتا ہے، وہ خیر سے ہٹ کر دنیا پرست بن جاتا ہے۔ وہ اپنی ذات کو مقدم کر لیتا ہے اور دعوتِ دین کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے۔ یہیں سے دین میں انتشار اور زوال آتا ہے، تفرقہ بازی شروع ہو جاتی ہے، اخلاقیات میں خرابی آتی ہے اور داعی کی تباہی اور ناکامی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔

سوال 46: کون سا شخص داعی نہیں ہو سکتا؟

جواب: وہ شخص کبھی داعی نہیں ہو سکتا جس کی سوچ، زبان اور عمل میں شر ظاہر ہو جیسے گالی گلوچ کرنا، بغض و عناد رکھنا، کسی کی توہین، تحقیر یا تذلیل کرنا، جھگڑا کرنا، فساد کرنا اور امت میں تفریق پیدا کرنا وغیرہ۔ ایسا شخص داعی کی صف سے نکل جاتا ہے۔ الغرض !ہر وہ کام جو دین میں شر اور فساد کا سبب بنے، جس شخص سے اِن اُمور کا صدور یا ظہور ہو اُس کا یہ عمل نہ تو دین کی دعوت ہو سکتا ہے اور نہ ہی ایسا شخص داعی ہو سکتا ہے۔

سوال 47: داعی مؤثر دعوت و تبلیغ کے لیے کن مطبوعہ ذرائع ابلاغ کو اختیار کر سکتا ہے؟

جواب: داعی مؤثر دعوت و تبلیغ کے لیے درج ذیل مطبوعہ ذرائع ابلاغ کو اختیار کر سکتا ہے:

1۔ کُتب

دعوت و تبلیغ کے کام میں کتب اَہم ذریعہ ابلاغ ہیں۔ یہ انسانی فکر کو پروان چڑھا کر حکمت و دانائی اور معرفت عطا کرتی ہیں۔ کتب بینی کے اثرات گہرے اور دیرپا ہوتے ہیں۔ معاشرے کے مختلف شعبہ ہاے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ فکری و نظریاتی ارتقاء کے لیے کتب سے استفادہ کرتے ہیں۔ اس کی اَہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کاغذ کی ایجاد کے بعد تمام اسلامی ذخیرہ کتابی شکل میں ہم تک پہنچا ہے۔ داعی دعوت و تبلیغ کے فریضہ میں تصنیف و تالیف کے ذریعے اپنا پیغام، فکر اور مقصد مدعوین کے دل و دماغ میں راسخ کرنے میں بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے۔

2۔ اخبارات

اخبارات کو ایک مستقل حیثیت حاصل ہے ۔ ان کی ابلاغی اَہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ عامۃ الناس کی ذہنی نشو و نما کا ایک اَہم ذریعہ ہیں۔ داعی اخبارات میں اپنا مؤقف بیان کر کے دعوت و تبلیغ کے فرائض خوش اُسلوبی سے سر انجام دے سکتا ہے۔ کم قیمت ہونے کی وجہ سے کوئی بھی آسانی سے پڑھ سکتا ہے۔ تقریباً تمام اخبارات مذہبی اشاعت کے لیے مخصوص ایڈیشن شائع کرتے ہیں جس میں نامور علماء و اسکالرز کے مضامین شائع کیے جاتے ہیں۔ داعی دینی و مذہبی مواقع پر ترویج و اشاعت اسلام اور مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیےتفسیر، حدیث، فقہ، عام مسائل اور دیگر موضوعات کو احاطہ تحریر میں لا سکتا ہے اور گاہے بگاہے عالمی سطح پر ہونے والے اَہم واقعات اور اسلام پر کیے گئے اعتراضات کے جوابات مدلل انداز میں دے سکتا ہے۔

3۔ رسائل و جرائد

اسلام کی ترویج و اشاعت میں استعمال ہونے والا ایک اَہم ذریعہ رسائل و جرائد بھی ہیں۔ جو کہ ایک خاص مدت، دنوں، مہینوں اور سال کی بنیاد پر شائع کیے جاتے ہیں۔ ان میں چھپنے والا زیادہ تر مواد مستقل نوعیت کا ہوتا ہے۔ فروغِ اسلام میں اس ذریعہ ابلاغ کو کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ داعی کارِ دعوت و تبلیغ میں اپنے زورِ قلم سے رسائل و جرائد کی وساطت سے اسلام کے مختلف فکری و نظریاتی، معاشی و معاشرتی، اخلاقی و روحانی اور سماجی و عمرانی پہلوؤں کو اجاگر کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی تہذیب و تمدن اور معیشت و معاشرت پر اثر انداز ہونے والے عناصر کی نشان دہی کر سکتا ہے۔

4۔ پمفلٹس

اسلام کی ترویج و اشاعت میں استعمال ہونے والا ایک اَہم ذریعہ پمفلٹ بھی ہیں۔ جن کے ذریعے مواد خوبصورت اور پرکشش بنا کر عامۃ الناس تک پہنچایا جاتا ہے۔ داعی کارِ دعوت و تبلیغ میں مدعوین کو کسی محفل اور مذہبی اجتماع کے انعقادیا کسی بھی قسم کی اطلاع دینے کے لیے اس ذریعہ ابلاغ سے اپنا پیغام عام کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ نماز کا طریقہ، رمضان کی برکتیں اور دیگر تعلیماتِ اسلام کے خاص موضوعات کے پوسٹرز کی تشہیر خوبصورت مواد، خاکوں اور تصاویر کے ذریعے کر سکتا ہے۔

سوال 48: داعی مؤثر دعوت و تبلیغ کے لیے کن الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کو اختیار کر سکتا ہے؟

جواب: داعی مؤثر دعوت و تبلیغ کے لیے درج ذیل الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کو اختیار کر سکتا ہے۔

1۔ ریڈیو

ریڈیو دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں کو لوگوں تک پہنچانے کا ایک اَہم ذریعہ ہے۔ جس سے افرادِ معاشرہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جا سکتا ہے۔ فروغِ اسلام میں اس کے ذریعے داعی گھر بیٹھی خواتین کو قرآن، حدیث، فقہ، تاریخ اور دیگر مذہبی موضوعات کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں پیدا ہونے والے منفی رجحانات اور برائیوں کو ختم کر کے مثبت سوچ کو فروغ دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دینی ثقافت اور اسلامی اقدار و روایات کا پرچار کر سکتا ہے۔ تاہم یہ ذریعہ اب بہت کم ہوگیا ہے۔

2۔ ٹیلی ویژن

ٹیلی ویژن ایک ایسا ذریعہ ابلاغ ہے جس کے ذریعے رائے عامہ کی تشکیل، معلومات کی فراہمی، نظریہ کی پیش کش اور تعلیم و تربیت کا کام اچھے طریقے سے انجام دیا جاسکتا ہے ۔ یہ ناظرین کی آنکھوں اور دماغ کو غیر معمولی حد تک متاثر کر کے ان کے جذبات کو اپیل کرتا ہے۔ داعی ٹی وی پر نشر کیے جانے والے مذہبی اور دینی پروگراموں کے ذریعے نہ صرف قومی اور بین الاقوامی سطح پر اسلام کی تبلیغ و اشاعت کر سکتا ہے بلکہ اسلام کے خلاف کیے جانے والے پراپیگنڈے اور شکوک و شبہات کا دفاع بھی کر سکتا ہے تاکہ صحیح اسلامی عقائد و نظریات اور افکار کو فروغ ملے۔

3۔ دیگر سمعی و بصری آلات

اگرچہ ابلاغیات کے شعبہ میں ترقی نے دعوتی پیغام کو عامۃ الناس تک پہنچانے کے تقاضوں اور ضرورتوں کو تبدیل کر دیا ہے، تاہم ریڈیو اور ٹی۔ وی کے علاوہ دیگر سمعی و بصری آلات (audio-visual aids) جیسے آڈیو / ویڈیو کیسٹس اور سی۔ ڈیز/ڈی۔ وی۔ ڈیز وغیرہ آج بھی بعض علاقوں میں دعوت و تبلیغ پہنچانے کا مؤثر ذریعہ ہیں اور انہیں اس کارِ خیر میں استعمال میں لا کر دینِ اِسلام کی دعوت و تبلیغ کا حق ادا کیا جاسکتا ہے۔

4۔ انٹرنیٹ

انٹرنیٹ دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں کو لوگوں تک پہنچانے کا تیز ترین ذریعہ ہے۔ داعی Twitter، Facebook، Instagram، WhatsApp، TikTok، Pinterest، Telegram، Youtube، Vimeo، Sound Cloud، Daily Motion اور Flickr وغیرہ سمیت ہمہ قسم سوشل میڈیا پر اسلامی تعلیمات کی مدلل اور واضح اپ ڈیٹس دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اچھی اور معیاری اسلامی سائٹس کا قیام عمل میں لا کر عقائد صحیحہ کو اجاگر کر سکتا ہے تاکہ مدعوین میں قرآن و حدیث پر مشتمل عقائد کا علم ہونے کے ساتھ ساتھ گمراہ کن عقائد سے بچنے کا شعور بیدار ہو سکے۔ دعوتی و تبلیغی مقاصد کے لیے مخصوص سائٹس پر دین اسلام کے محاسن اور اس کی تعلیمات کو اچھے اُسلوب و انداز میں پیش کر سکتا ہے۔

5۔ ویڈیو کانفرنس/آن لائن میٹنگ

جدید ترقی یافتہ دور میں ویڈیو کانفرنس / آن لائن میٹنگ نہایت مؤثر اور جدید ذریعہ دعوت و تبلیغ ہے۔ اس کو ٹیلی فون اور ویڈیو کی جدید شکل بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس کے ذریعے سے نہ صرف داعی اور مدعوین ایک دوسرے کی آواز سن سکتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کو براہ راست دیکھ بھی سکتے ہیں۔ اس ذریعۂ دعوت و تبلیغ سے ہزار ہا کلو میٹر کی مسافت کے باوجود داعی مدعوین سے نہایت آسانی سے رابطہ کر کے اپنا پیغامِ دعوت و تبلیغ پہنچا سکتا ہے۔

6۔ موبائل فون

موبائل فون بھی دعوت و تبلیغ دین کا اَہم ذریعہ ہے، جس کے ذریعے داعی کال، ایس ایم ایس اور ایم ایم ایس کے ذریعے سے دین کا ابلاغ کر سکتا ہے۔ نیز مختلف قسم کے سافٹ ویئر کے ذریعے سے چند لمحوں میں ہی اپنا پیغام ہزارہا خواتین تک بیک وقت پہنچایا جاسکتا ہے۔

سوال 49: کسی بھی تحریک یا تنظیم کے پلیٹ فارم سے اجتماعی دعوت و تبلیغ کو مؤثر بنانے کے لیے امیر اور کارکن کو کن اُصولوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے؟

جواب: کسی بھی تحریک یا تنظیم کے پلیٹ فارم سے اجتماعی دعوت و تبلیغ کو مؤثر بنانے کے لیے سربراہ اور کارکن کو درج ذیل اُصولوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے:

1۔ اِطاعتِ امیر

اِجتماعی دعوت و تبلیغ کا پہلا اُصول ہر کارکن کا اپنے سربراہ کی اطاعت کرنا ہے، خواہ ظاہری شکل و صورت اور معاشرتی رتبے کے اعتبار سے وہ کسی بھی سطح کا ہو، سوائے اس کے کہ وہ اللہ کی نافرمانی کا حکم دے۔

1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

اِسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَإِنْ اسْتُعْمِلَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ. ([29])

امیر کو سنو اور اِطاعت کرو خواہ تم پر ایک حبشی غلام کو امیر بنا دیا جائے۔

2۔ ایک روایت حضرت عبد اللہ بن عمر k سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

اَلسَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ. ([30])

ہر مسلمان شخص پر امیر کا حکم سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے خواہ وہ خوش ہو یا ناخوش جب تک کہ اس کو گناہ کا حکم نہ دیا جائے۔ اور جب امیر گناہ کا حکم دے تو اسے نہ سنے اور نہ اُس کی اطاعت کرے۔

2۔ محبت و یگانگت

اجتماعی دعوت و تبلیغ کا دوسرا سنہری اُصول محبت و یگانگت ہے۔ سربراہ کے اندازِ فکر، اندازِ عمل، مزاج اور طبیعت سے کارکنان کے لیے محبت و یگانگت اور رحمت و شفقت کا عنصر واضح طور پر نظر آنا چاہیے۔ یہ باہمی محبت اس کے کارکنان کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیتی ہے اور ان کے مابین اختلافات اور تنازعات کو ختم کرتی ہے۔ جس سے جمیعت کو استحکام ملتا ہے اور اتحاد و یک جہتی کی فضا استوار ہوتی ہے۔ محبت و یگانگت کی اَہمیت کا اندازہ قرآن حکیم کی درج ذیل آیت مبارکہ سے لگایا جا سکتا ہے:

﴿إِنَّمَا ٱلۡمُؤۡمِنُونَ إِخۡوَةُ﴾

[الحجرات، 49: 10]

(سب) اہلِ ایمان (آپس میں) بھائی ہیں۔

3۔ حُسنِ ظن

اجتماعی دعوت و تبلیغ کا تیسرا اُصول حُسنِ ظن ہے۔ جو سربراہ اور کارکنان کے مابین ہم آہنگی، صلح و مصالحت، اتفاق و اتحاد اور معاشرتِ انسانی کی اصلاح و فلاح کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ اس لیے ہر کارکن کو اپنے سربراہ کے فیصلوں پر حتی المقدور حُسنِ ظن رکھنا چاہیے کہ اس نے جو فیصلہ کیا وہ کسی حکمت کے تحت کیا ہے اور اس میں اسی کی بھلائی مضمر ہے۔ کارکن کو ہر ممکن بدظنی، تجسس اور غیبت سے اجتناب کرنا چاہیے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:

﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱجۡتَنِبُواْ كَثِيراً مِّنَ ٱلظَّنِّ إِنَّ بَعۡضَ ٱلظَّنِّ إِثۡمٞۖ وَ لَا تَجَسَّسُواْ وَلَا يَغۡتَب بَّعۡضُكُم بَعۡضًا﴾

[الحجرات، 49: 12]

اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بے شک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے عیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو۔

4۔ خیر اندیشی

اجتماعی دعوت و تبلیغ کا چوتھا اُصول ہم دردی اور خیر اندیشی ہے۔ سربراہ کو چاہیے کہ وہ اپنے ہر کارکن کے لیے خیر اندیشی کے جذبات رکھتے ہوئے ان کے دکھ درد کو محسوس کرے، غمی و خوشی میں ان کا ساتھ دے اور حتی الوسع کمزور اور نادار کارکنان کی اعانت کرے۔ یہی اسلامی شعار اور طرز عمل ہیں۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ، وَتَرَاحُمِهِمْ، وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى. ([31])

مومنین کی مثال ایک دوسرے پر رحم کرنے، دوستی رکھنے اور شفقت کا مظاہرہ کرنے میں ایک جسم کی طرح ہے، چنانچہ جب جسم کے کسی بھی حصہ کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں اس کا شریک ہوتا ہے۔

5۔ اِیثار و قربانی

اجتماعی دعوت و تبلیغ کا پانچواں اُصول ایثار و قربانی ہے۔ کارکنان کو چاہیے کہ منزل کے حصول کے لیے جب بھی سربراہ پکارے تو ہر کارکن اپنی بساط اور استطاعت سے بڑھ کر ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرے، چاہے اس کے لیے اسے تن من دھن کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ اجتماعیت کا حسن اور نکھار بھی ایثار و قربانی کے رویوں سے وابستہ ہوتا ہے۔ ایسے افراد کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:

﴿وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمۡ حَاجَةٗ مِّمَّآ أُوتُواْ وَيُؤۡثِرُونَ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمۡ وَلَوۡ كَانَ بِهِمۡ خَصَاصَةٞ﴾

[الحشر، 59: 9]

اور یہ اپنے سینوں میں اُس (مال) کی نسبت کوئی طلب (یا تنگی) نہیں پاتے جو اُن (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے اور اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو۔

6۔ تحمل و بردباری

اجتماعی دعوت و تبلیغ کا چھٹا اُصول تحمل و بردباری اور وسعت قلبی ہے۔ ہر شخص کو اپنی رائے پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے۔ مشترکہ کاموں میں بعض اوقات غلطیاں سرزد ہوتی ہیں جن کے باعث غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں اور بعض اوقات ناکامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس سے تکالیف و مشکلات اور نفسیاتی الجھنیں لاحق ہوتی ہیں ۔ ایسی صورت میں سربراہ اور کارکن دونوں کو تحمل و بردباری اور حسن سلوک سے کام لینا چاہیے تاکہ کسی کی دل آزاری کی وجہ سے بغض و عناد کی فضاء پیدا نہ ہو۔ تحمل و بردباری کا مظاہرہ اور وسعت قلبی کا انداز اختیار کر کے ہی اخوت و محبت کی فضا کو قائم رکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح ساتھ ساتھ اصلاح بھی ہوتی ہے اور تعلقات کا خوش گوار ماحول بھی قائم رہتا ہے۔

7۔ جواب دہی

اجتماعی دعوت و تبلیغ کا ساتواں اُصول جواب دہی کا احساس ہے۔ انفرادی اور اجتماعی ہر دو طرح کی ذمہ داریوں میں سربراہ اور ہر کارکن کو چاہیے کہ وہ اپنے فرائض کو بخوبی سمجھ کر ان کی تکمیل کے لیے تگ و دو کریں۔ انفرادی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنے والوں کی غفلت اور لاپرواہی اجتماعی ذمہ داریوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ تساہل سے دعوت و تبلیغ متاثر ہوتی ہے، لہٰذا جواب دہی کے احساس کے باعث سربراہ اور کارکن کو اپنے انفرادی اور اجتماعی فرائض نہایت خوش اُسلوبی سے سرانجام دینے چاہییں۔

سوال 50: داعی کو دعوت دینے یا خطاب کرنے سے پہلے کم اَز کم کتنی دیر مطالعہ کرنا چاہیے؟

جواب: داعی کسی بھی موضوع پر دعوت یا خطاب کے لیے جائے تو اس پر لازم ہے کہ اگر آدھ گھنٹہ خطاب کرنا مقصود ہو تو اس کے لیے کم از کم چار گھنٹے ہمہ تن متوجہ ہو کر یکسوئی سے مطالعہ کرے اور متعلقہ موضوع کا خاکہ (outline) بنائے اور ترتیب کے ساتھ اُس کے موضوعات و عنوانات قائم کرے۔ داعی کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس نے سمجھانا کیا ہے اور سننے والوں کو کس نتیجے پر پہنچانا ہے؟ یہ تمام باتیں داعی کے ذہن میں پہلے سے واضح ہونی چاہییں۔ اس کے برعکس جو اِس چیز کا تعین کیے بغیر خطاب کرتا ہے تو وہ confusion کا شکار ہو جاتا ہےاور دعوت دینے کےلیے جتنی confusion اُس کے اندر ہوتی ہے، اُس سے کئی گنا زیادہ confusion اپنی لاعلمی کی وجہ سے دوسروں میں منتقل کرتا ہے۔

سوال 51: حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کے یومیہ مطالعہ کا معمول کیا ہے؟

جواب: حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کے یومیہ مطالعہ کا معمول 18 سے 20 گھنٹے رہا ہے۔ اِس وقت بھی جب کہ آپ کی عمر تقریباً 70 سال ہے، صحت کے کئی مسائل اور علالت کے باوجود آپ کا یومیہ مطالعہ کا معمول تقربیاً سولہ سے اٹھارہ گھنٹے ہے۔ آپ آج کے دن تک بھی ساری ساری رات مطالعہ، کتب بینی اور کتب نویسی میں مصروف رہتے ہیں۔ کبھی رات کے تین چاربجے اورکبھی فجرکے بعد آپ کام ختم کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:

مجھے اِس کام سے تھکاوٹ نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ میری صحت کو خراب کرتا ہے بلکہ اِس سے میری صحت بہتر ہوتی ہے۔

حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کا یہ معمول زمانہ طالب علمی سے ہی رہا ہے۔ آپ دن رات مسلسل مطالعہ میں مصروف رہتے تھے اوربعض اوقات دو دو دن کھانا نہیں کھا تے تھے ۔ آپ کا سالہاسال یہ معمول رہا کہ عشاء کی نماز سے فجر کی نماز تک ایک منٹ بھی سوئے بغیر ساری رات مطالعہ میں مصروف رہتے۔ یعنی نماز پڑھ کر مطالعہ شروع کرتے اور وقتِ تہجد نوافل ادا کرتے، اُس کے بعد پھر مطالعہ کے لیے بیٹھ جاتے پھر اذان فجر ہونے پر کتب چھوڑ کر مسجد چلے جاتے، فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد اشراق تک بیٹھے رہتے۔ گھر آ کر معمولی سا ناشتہ کرتے، پھر کچھ دیر اِستراحت فرماتے اور دوبارہ تازہ دم ہو کر خود کو مطالعہ میں گم کر دیتے۔ آپ اٹھارہ سے بیس گھنٹے روزانہ کتب کا مطالعہ فرماتے۔ یوں آپ کا زمانہ طالب علمی کا سارےکا سارا وقت مطالعہ میں ہی گزرا۔

حضور شیخ الاسلام اور کتاب کی رفاقت لازم و ملزوم ہے۔ آپ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی جاتے ہیں، ہر جگہ سے کتب کا ذخیرہ اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ آپ کی زندگی کا کوئی دن کتب بینی کے بغیر نہیں گزرتا۔ آپ کے اندر علم کی شدید تشنگی اور تڑپ ہے۔ آپ کی رفتارِ مطالعہ بہت تیز ہے، چار پانچ سو صفحات کی کتاب کا مطالعہ قلیل وقت میں کرلینا ایک معمولی بات ہے اور چونکہ ذہن رسا اور حافظہ نہایت قوی ہے، لہٰذا جس موضوع پر مطالعہ فرماتے ہیں، وہ اپنے صحیح مفہوم اور مطالب کے ساتھ محفوظ اور اس طرح یاد ہو جاتا ہے کہ جب چاہتے ہیں بیان فرما دیتے ہیں۔ آپ کے مطالعہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ زیرِ مطالعہ کتاب میں کوئی خاص بات اور اَہم بحث ہو تو ابتدائی صفحات پر تحریر فرما دیتے ہیں کہ یہ بحث فلاں صفحہ پر ہے تاکہ بعدازاں اُس کتاب کا مطالعہ کرنے والا قاری بھی اُس بحث سے فائدہ اٹھا سکے۔

شیخ الاسلام کے وسعتِ مطالعہ کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کچھ عرصہ قبل جب آپ سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ اب تک کتنی کتب پڑھ چکے ہیں؟ تو حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ میں اس کا متعین (exact) عدد تو نہیں بتا سکتا لیکن یہ تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے۔


([23]) أخرجه البخاري، الصحيح، كتاب الإيمان، باب الزكاة من الإسلام، 1: 25، الرقم: 46، ومسلم، الصحيح، كتاب الإيمان، باب بيان الصلوات التي هي أحد أركان الإسلام، 1: 40، الرقم: 11.

([24]) ذكره الخطيب البغدادي في الفقيه والمتفقه، 1: 150، والعجلونى في كشف الخفاء، 1: 259، الرقم: 684، والرُّعيني في مواهب الجليل في شرح مختصر خليل، 1: 4 (مقدمة).

([25]) ذكره الخطيب البغدادي في الفقيه والمتفقه، 1: 150، والبيهقى في المدخل إلى السنن الكبرى: 174، والذهبي في سىيرأعلام النبلاء، 10: 53، والسخاوى في المقاصد الحسنة: 218، الرقم: 264، والعجلونى في كشف الخفاء، 1: 259، الرقم: 684، والرُّعيني في مواهب الجليل في شرح مختصر خليل، 1: 4 (مقدمة).

([26]) أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الإمارة، باب فضل إعانة الغازي في سبيل الله ...، 3: 1506، الرقم: 1893، وأبو داود، السنن، كتاب الأدب، باب في الدال على الخير، 4: 333، الرقم: 5129، والترمذي، السنن، كتاب العلم، باب ما جاء الدال على الخير كفاعله، 5: 41، الرقم: 2671، وابن حبان، الصحيح، 1: 525، الرقم: 289.

([27]) أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب العلم، باب من سن سنة حسنة أو سيئة ومن دعا إلى هدى أو ضلالة، 4: 2060، الرقم: 2674، وأبو داود في السنن، كتاب السنة، باب لزوم السنة، 4: 201، الرقم: 4609، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 397، الرقم: 9149، وابن حبان، الصحیح، 1: 318، الرقم: 112.

([28]) أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب فضائل الصحابة، باب مناقب علي بن أبي طالب القرشي الهاشمي، 3: 1357، الرقم: 3498، ومسلم في الصحيح، كتاب فضائل الصحابة رضوان اللہ علیہم اجمعین ، باب من فضائل علي بن أبي طالب رضی اللہ عنہ ، 4: 1872، الرقم: 2406، وأحمد بن حنبل في المسند، 5: 333، الرقم: 22872، والنسائي في السنن الكبری، 5: 46، الرقم: 8149، وابن حبان في الصحيح، 5: 378، الرقم: 6932.

([29]) أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الأحكام، باب السمع والطاعة للإمام، 6: 2612، الرقم: 2723.

([30]) أخرجه البخاري في الصحیح، كتاب الأحکام، باب السمع والطاعة للإمام، 6: 2612، الرقم: 2725.

([31]) أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب البر والصلة والآداب، باب تراحم المؤمنين وتعاطفهم وتعاضدهم، 4: 1999، الرقم: 2586، وأحمد بن حنبل، المسند، 4: 270، الرقم: 18398، والبيهقي في السنن الكبری، 3: 353، الرقم: 2663

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved