جواب: دعوت کے معانی پکارنا اور بلانا کے ہیں۔ ’لسان العرب‘ میں ہے:
دعوت عربی زبان کا لفظ ہے جو دَعَوَ سے مشتق ہے۔ اس کے لغوی معنی پکارنا اور بلانا کے ہیں۔ ([1])
دعوت کے اِصطلاحی معنی لوگوں کو دین کی طرف بلانا اور اس کی ضرورت و اَہمیت کے متعلق دلائل دینا ہے۔ دعوت ایک ایسا عمل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اپنی طرف کرتے ہوئے فرمایا ہے:
﴿وَٱدۡعُ إِلَىٰ رَبِّكَ﴾
[القصص، 28: 87]
اور تم (لوگوں کو) اپنے رب کی طرف بلاتے رہو۔
دعوت ایک نظام ہے اور خیر و شر کی ساری عمارتیں اس کے سہارے کھڑی ہیں۔ خیر کی دعوت کا اُسلوب مؤثر اور کارگر ہو جائے تو تمدن کی اَقدار پر صالحیت غالب آجاتی ہے اور اگر شر اپنے اُسلوب کو مزین کر کے پیش کرنے میں کامیاب ہو جائے تو کلچر پر باطل کا غلبہ ہو جاتا ہے۔
جواب: دعوت کی درج ذیل دو قسمیں ہیں:
1۔ دعوتِ عامہ
2۔ دعوتِ خاصہ
جواب: دعوتِ عامہ ایک ایسا عملِ خیر ہے جسے ہر مسلمان مرد اور عورت بطور داعی ہمہ وقت سرانجام دے سکتا ہے، خواہ وہ پڑھا لکھا ہو یا ناخواندہ۔ جیسے کسی بیمار شخص کی عیادت کے لیے جانا، کسی ہسپتال، مسجد، مدرسہ یا دین کے مراکز کی تعمیر میں حصہ ڈالنا، فہم دین کے حصول کے لیے کسی نیک مجلس میں جانے کی دعوت دینا وغیرہ۔ دعوتِ عامہ میں کوئی مخصوص شرائط نہیں ہوتیں، اس فریضہ میں اُمت محمدیہ کا ہر فرد داعی ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ فضیلت حضور نبی اکرم ﷺ کی اُمت کے ہر فرد کو عطا کی ہے۔ یہ اس کے شعور پر منحصر ہے کہ وہ کتنی ذمہ داری سے دعوت کا کام سرانجام دیتا ہے۔
جواب: دعوتِ خاصہ سے مراد یہ ہے کہ داعیانِ حق کی ایک ایسی جماعت تیارکی جائے جو دعوتِ دین اور معرفتِ دین کا فریضہ سرانجام دے۔ اس کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ ایسے افراد کی تیاری اور تربیت کے لیے منظم طریقہ کار ہونا چاہیے تاکہ وہ نیکی کی طرف دعوت دینے کے قابل ہو سکیں۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلۡتَكُن مِّنكُمۡ أُمَّةٞ يَدۡعُونَ إِلَى ٱلۡخَيۡرِ﴾
[آل عمران، 3: 104]
اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں۔
یہ جماعت لوگوں کو توحید و رسالت اور علمِ دین کی دعوت دے کر ان کے اَعمال، اَحوال اور اَفکار کی اِس طرح اِصلاح کرے کہ ان میں زُہد و ورع اور تقویٰ پیدا ہو اور ہر قسم کی ضلالت، گمراہی، بداعتقادی اور بد عملی کا خاتمہ ہو جائے۔ اس فریضہ کی انجام دہی میں علماء سے بہتر داعی اُمت میں کوئی نہیں ہو سکتا۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے علمِ دین کی نعمت عطا فرمائی ہے۔ یہ علم دین کی نعمت اِس طرح آگے پہنچائیں کہ دعوت میں فقط علم کا بیان نہ ہو بلکہ دین کا علم، داعی اور مدعو کے عمل میں ڈھل کر ان کی سیرت بن جائے۔ یہی دعوتِ خاصہ ہے۔
جواب: تبلیغ کا مادہ البلاغ ہے جو بَلَغَ سے مشتق ہے۔ امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں:
بلاغ کا معنی: مقصد اور غرض و غایت کی آخری حد تک پہنچا دینا ہے۔ ([2])
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا عَلَيۡنَآ إِلَّا ٱلۡبَلَٰغُ ٱلۡمُبِينُ﴾
[یٰس، 36: 17]
اور واضح طور پر پیغام پہنچا دینے کے سوا ہم پر کچھ لازم نہیں ہے۔
تبلیغ اور ابلاغ سے مراد محض کسی بات کا پہنچا دینا ہی نہیں بلکہ اسے اپنے مقصد کی آخری حد اور انجام تک پہنچا دینا ہے۔ اس کی وضاحت درج ذیل آیتِ کریمہ سے ہوتی ہے:
﴿فَإِذَا بَلَغۡنَ أَجَلَهُنَّ﴾
[الطلاق، 65: 2]
پھر جب وہ اپنی مقررہ میعاد (کے ختم ہونے) کے قریب پہنچ جائیں۔
جواب: اِسلام کی رُو سے حسبِ استعداد ہر مسلمان مرد اور عورت پر دعوت و تبلیغِ دین کا فریضہ ادا کرنا لازم ہے۔ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿كُنتُمۡ خَيۡرَ أُمَّةٍ أُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَتَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنكَرِ وَتُؤۡمِنُونَ بِٱللهِ﴾
[آل عمران، 3: 110]
تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ دعوت و تبلیغِ اسلام میں بسر ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں حضور نبی اکرم ﷺ کو تبلیغ کے عملی مراحل اور اُصول سکھاتے ہوئے فرمایا:
﴿ٱدۡعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِٱلۡحِكۡمَةِ وَٱلۡمَوۡعِظَةِ ٱلۡحَسَنَةِۖ وَجَٰدِلۡهُم بِٱلَّتِي هِيَ أَحۡسَنُ﴾
[النحل، 16: 125]
(اے رسول معظم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجیے جو نہایت حسین ہو۔
عصر حاضر میں اسلام کی دعوت و تبلیغ وارثانِ علومِ نبوت کی حیثیت سے صرف علماء کا کارِ منصبی سمجھا جاتا ہے، جب کہ یہ امتِ مسلمہ کے ہر طبقۂ فکر کا فریضہ ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿وَمَنۡ أَحۡسَنُ قَوۡلاً مِّمَّن دَعَآ إِلَى ٱللهِ وَعَمِلَ صَٰلِحاً﴾
[حم السجدة، 41: 33]
اور اس شخص سے زیادہ خوش گفتار کون ہو سکتا ہے جو اﷲ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے۔
مذکورہ آیت میں کسی خاص فرد یا جماعت کو دعوت و تبلیغ دین کا مکلف ٹھہرانے کے بجائے عمومی طور پر ہر ایک کے لیے حکم ہے۔
جواب: جی ہاں! دعوت و تبلیغِ دین سنتِ انبیاء ہے۔ اِبتداے آفرینش سے لے کر حضور نبی اکرم ﷺ تک جتنے بھی انبیاے کرام علیہم السلام مبعوث کیے گئے ان کے ذمہ اگرچہ دیگر کئی متفرق ذمہ داریاں بھی تھیں، مگر ابتداء سے لے کر انتہاء تک جس ذمہ داری پر سب سے زیادہ زور دیا گیا وہ دعوت اِلی اللہ کی ذمہ داری تھی۔
1۔ ابوالبشر سیدنا آدم علیہ السلام کے بعد حضرت نوح علیہ السلام جنہیں آدمِ ثانی بھی کہا جاتا ہے، نے اپنی دعوتی اور تبلیغی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا:
﴿رَبِّ إِنِّي دَعَوۡتُ قَوۡمِي لَيۡلاً وَ نَهَاراً﴾
[نوح، 71: 5]
اے میرے رب! بے شک میں اپنی قوم کو رات دن بلاتا رہا۔
یہ اللہ کے ایک اولو العزم رسول کے الفاظ ہیں کہ مولا میں نے دعوتی ذمہ داری نبھانے کے لیے دن رات کی پرواہ نہیں کی۔ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ تیری طرف سے سونپے جانے والے منصب کو بہ حسن و خوبی سرانجام دینے میں گزارا۔ گویا دعوت کے نظام کو بپا کرنے کے لیے دن رات ایک کر دینا سنتِ انبیاء ہے۔ سیدنا نوح علیہ السلام نے دعوت دینے میں نہ صرف مثال قائم کی بلکہ قوم کے سخت ترین تنفر، بےزاری، سنگ دلی اور طعنہ زنی کے باوجود اپنی منصبی ذمہ داری نبھانے میں داعیانِ حق کو ایک کامل نمونہ فراہم کیا ہے۔
2۔ سیدنا نوح علیہ السلام کے بعد قرآن مجید نے ایک اور برگزیدہ پیغمبر سیدنا ہود علیہ السلام کی تبلیغی اور دعوتی ذمہ داری کے حوالے سے ارشاد فرمایا:
﴿أُبَلِّغُكُمۡ رِسَٰلَٰتِ رَبِّي وَأَنَا۠ لَكُمۡ نَاصِحٌ أَمِينٌ﴾
[الأعراف، 7: 68]
میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا رہا ہوں اور میں تمہارا امانت دار خیرخواہ ہوں۔
3۔ سیدنا ہود علیہ السلام کے بعد سیدنا صالح علیہ السلام نے بھی اپنی منصبی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے فرمایا:
﴿يَٰقَوۡمِ لَقَدۡ أَبۡلَغۡتُكُمۡ رِسَالَةَ رَبِّي﴾
[الأعراف، 7: 79]
اے میری قوم! بے شک میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا تھا۔
4۔ پھر سیدنا شعیب علیہ السلام نے اپنے تبلیغی اور دعوتی منصب کو بیان کرتے ہوئے اپنی قوم سے ان الفاظ میں خطاب فرمایا:
﴿يَٰقَوۡمِ لَقَدۡ أَبۡلَغۡتُكُمۡ رِسَٰلَٰتِ رَبِّي وَنَصَحۡتُ لَكُمۡۖ﴾
[الأعراف، 7: 93]
اے میری قوم! بے شک میں نے تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے تھے اور میں نے تمہیں نصیحت (بھی) کردی تھی۔
5۔ فرعون کے ظلم و اِستبداد کے سامنے، اُس کے محل میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ایک اُمتی نے کلمۂ حق بلند کرنے اور دعوتِ دین دینے کا ایمان افروز مظاہرہ کیا جس کو قرآن مجید نے حضور ﷺ کی امت میں پیدا ہونے والے داعیوں کے لیے ہمیشہ یاد رکھے جانے والے سبق کے طور پر محفوظ فرما دیا:
﴿وَيَٰقَوۡمِ مَا لِيٓ أَدۡعُوكُمۡ إِلَى ٱلنَّجَوٰةِ وَتَدۡعُونَنِيٓ إِلَى ٱلنَّارِ. تَدۡعُونَنِي لِأَكۡفُرَ بِٱللهِ وَأُشۡرِكَ بِهِۦ مَا لَيۡسَ لِي بِهِۦ عِلۡمٞ وَأَنَا۠ أَدۡعُوكُمۡ إِلَى ٱلۡعَزِيزِ ٱلۡغَفَّٰرِ﴾
[مؤمن، 40: 42-41]
اور اے میری قوم! مجھے کیا ہوا ہے کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے دوزخ کی طرف بلاتے ہو۔ تم مجھے (یہ) دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ کے ساتھ کفر کروں اور اس کے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھہراؤں جس کا مجھے کچھ علم بھی نہیں اور میں تمہیں خدائے غالب کی طرف بلاتا ہوں جو بڑا بخشنے والا ہے۔
جواب: دعوت و تبلیغِ دین کی بنیادی اساس توحید ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ٱدۡعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ﴾
[النحل، 16: 125]
(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف بلائیے۔
مذکورہ آیت کی رُو سے توحید کی دعوت و تبلیغ کو اللہ تعالیٰ نے صراطِ مستقیم قرار دیا ہے۔ اس لیے داعی کا مرکز و محور اور اس کی دعوت کی سمت اللہ کی طرف ہونی چاہیے۔
جواب: اﷲ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں نیکی اور بدی کی پہچان کا شعور دے کر نیکی اختیار کرنے اور بدی سے بچنے کی خواہش ودیعت فرمائی ہے۔ یہ امر اُس کی ذاتی صواب دید پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ جو راستہ چاہے اختیار کر لے۔ اﷲ تعالیٰ نے دنیا میں انسان کی ہدایت و ضلالت کے معاملہ کو تنہا اس کی فطرت پر نہیں چھوڑا اور نہ ہی آخرت میں اس کو جزا و سزا دینے کے لیے اس فطری راہ نُمائی کو کافی قرار دیا ہے، بلکہ فطرت کے تقاضوں، اس کی مخفی قابلیتوں کو آشکار کرنے اور خلق پر اپنی حجت تمام کرنے کے لیے اس نے مسلسل اپنے انبیاء و رُسل کو مبعوث فرمایا کہ وہ لوگوں کو دین کی دعوت دیں، تاکہ قیامت کے دن لوگ یہ عذر پیش نہ کرسکیں کہ انہیں نیکی اور سچائی کا راستہ بتانے والا اس کو کوئی نمائندہ نہیں تھا، اس وجہ سے وہ گمراہی کی وادیوں میں بھٹکتے رہے۔ اس حقیقت کو قرآن حکیم میں یوں واضح کیا گیا ہے:
﴿رُسُلاً مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى ٱللهِ حُجَّةُۢ بَعۡدَ ٱلرُّسُلِۚ وَكَانَ ٱللهُ عَزِيزًا حَكِيماً﴾
[النساء، 4: 165]
رسول جو خوش خبری دینے والے اور ڈر سنانے والے تھے (اس لیے بھیجے گئے) تا کہ (ان) پیغمبروں (کے آ جانے) کے بعد لوگوں کے لیے اﷲ پر کوئی عذر باقی نہ رہے، اور اﷲ بڑا غالب حکمت والا ہے۔
ایک اور مقام پر یوں ارشاد فرمایا:
﴿يُؤۡمِنُونَ بِٱللهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِ وَيَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنكَرِ وَيُسَٰرِعُونَ فِي ٱلۡخَيۡرَٰتِۖ وَأُوْلَٰٓئِكَ مِنَ ٱلصَّٰلِحِينَ﴾
[آل عمران، 3: 114]
وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نیک کاموں میں تیزی سے بڑھتے ہیں، اور یہی لوگ نیکوکاروں میں سے ہیں۔
فرامینِ رسول ﷺ سےبھی دعوت و تبلیغ کی ضرورت و اَہمیت اُجاگر ہوتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ نَبِيٍّ بَعَثَهُ اللهُ فِي أُمَّةٍ قَبْلِي إِلَّا كَانَ لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ حَوَارِيُّونَ، وَأَصْحَابٌ يَأْخُذُونَ بِسُنَّتِهِ وَيَقْتَدُونَ بِأَمْرِهِ، ثُمَّ إِنَّهَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوفٌ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ، وَيَفْعَلُونَ مَا لَا يُؤْمَرُونَ، فَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِيَدِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِلِسَانِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِقَلْبِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَيْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنَ الْإِيمَانِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ. ([3])
اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے جس اُمت میں جو بھی نبی بھیجا اس نبی کے لیے اس کی امت میں سے کچھ مددگار اور اَصحاب ہوتے تھے جو اپنے نبی کے طریقہ پر کاربند ہوتے اور اُس کے امر کی اقتدا کرتے۔ پھر ان صحابہ کے بعد کچھ نافرمان لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے فعل کے خلاف قول اور قول کے خلاف فعل کیا۔ لہٰذا جس شخص نے اپنے ہاتھ سے ان کے خلاف جہاد کیا وہ بھی مومن ہے، جس نے اپنی زبان سے ان کے خلاف جہاد کیا وہ بھی مومن ہے اور جس نے اپنے دل سے ان کے خلاف جہاد کیا وہ بھی مومن ہے۔ اس کے بعد رائی کے دانہ برابر بھی ایمان کا کوئی درجہ نہیں ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى، كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلَالَةٍ، كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا. ([4])
جس نے ہدایت کی طرف بلایا، اس کے لیے اس راستے پر چلنے والوں کی مثل ثواب ہے اور ان کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہ ہوگا۔ جس نے گناہ کی دعوت دی اس کے لیے بھی اتنا گناہ ہے جتنا اس بدعملی کا مرتکب ہونے والوں پر ہے اور ان کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔
مذکورہ آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ مبارکہ کی رو سے عصر حاضر میں دینِ متین کی دعوت و تبلیغ کی اَہمیت اس وجہ سے بڑھ جاتی ہے کہ اسلام کے خلاف منکرین رسالت و آخرت اور دیگر منحرف اَفکار و عقائد کے حامل افراد اپنی اپنی دعوت پھیلانے میں سرگرمِ عمل ہیں۔ ایسے حالات میں دین اسلام کے داعیین کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کے فروغ کے لیے دعوت و تبلیغ کا کام حتی المقدور سر انجام دیں۔
جواب: دعوت و تبلیغ کے درج ذیل چار اَرکان ہیں:
1۔ موضوعِ دعوت
2۔ داعی/داعیہ
3۔ مدعو
4۔ وسائلِ دعوت
جواب: موضوعِ دعوت سے مراد وہ مقصد و مدعا ہے، جس کی طرف دعوت دی جارہی ہے۔ جب تک موضوعِ دعوت کا علم نہ ہو دعوت کا عمل شروع نہیں ہوتا۔ لہٰذا دعوت کے ارکان میں سے اوّل الذکر موضوعِ دعوت ہے۔ جس پر دعوت کے تمام عمل کا دار و مدار ہے۔
جواب: ہر وہ فرد داعی/داعیہ کہلاتا ہے جو کسی بھی دوسرے فرد کو دینِ حق، عبادات اور اَعمالِ صالحہ کی ادائیگی ، نیز خیر اور بھلائی کے اُمور مثلاً کسی نیک اجتماع، درسِ قرآن، درسِ حدیث، درسِ فقہ، الغرض اس طرح کے دیگر نیکی کے اُمور کی جانب بلائے یا دعوت دے۔
جواب: وہ شخص جسے کسی کام کی دعوت دی جائے، مدعو کہلاتا ہے۔ دعوت و تبلیغ میں مدعو کے بغیر دعوتی عمل کی تکمیل ممکن نہیں۔ اسلام کے مخاطب مدعو بلا امتیاز تمام انسان ہیں۔ وہ اس کو قبول کرنے کے مکلف اور اسلام کے سامنے سرِتسلیم خم کرنے کے پابند ہیں۔ اس میں مذکر اور مؤنث کی کوئی شرط نہیں ہے۔
جواب: وسائلِ دعوت میں قرآن حکیم،احادیثِ نبویہ، سنت و سیرت مصطفیٰ ﷺ ، سیرت صحابہ و سلف صالحین رضوان اللہ علیہم اجمعین ، اِستنباطات فقہاء اور تجارب شامل ہیں۔ یہ وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے داعی اپنی دعوت کو بہتر اور مؤثر بنا سکتا ہے۔ حالات و واقعات کے مطابق داعی ایسے تمام وسائلِ دعوت استعمال میں لاسکتا ہے جن سے مدعو دعوت کو قبول کر لے۔
جواب: دعوت و تبلیغ کی مؤثریت میں اس کے پیش کرنے کا اُسلوب بڑا فعال کردار ادا کرتا ہے۔ اُسلوبِ دعوت و تبلیغ میں درج ذیل قرآنی آیت راہ نما خطوط متعین کرتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
﴿ٱدۡعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِٱلۡحِكۡمَةِ وَٱلۡمَوۡعِظَةِ ٱلۡحَسَنَةِۖ وَجَٰدِلۡهُم بِٱلَّتِي هِيَ أَحۡسَنُ﴾
[النحل، 16: 125]
(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجیے جو نہایت حسین ہو۔
مذکورہ آیت مبارکہ میں دعوت و تبلیغ کے درج ذیل تین اُسلوب حکمت، موعظت حسنہ اور جدال احسن بیان کیے گئے ہیں:
حکمت و بصیرت اُسلوبِ دعوت و تبلیغ کا پہلا تقاضا ہے۔ یہ کبھی کسب و اِکتساب، کبھی تجربہ و مہارت، کبھی خداداد بصیرت و فراست اور کبھی عملی زندگی میں پیش آنے والے نشیب و فراز کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ اگر داعی کے پاس علم دین کے ذخائر تو موجود ہوں لیکن اس کا دامن حکمت و بصیرت کی دولت سے خالی ہو تو اس کی مثال اَز رُوے قرآن ایسے ہی ہے جیسے گدھے پر کتابوں کا انبار لاد دیا گیا ہو۔ اسی لیے فرمایا کہ لوگوں کو دینِ حق کی طرف حکمت کے ساتھ دعوت دی جائے۔ ہر مدعو کی اپنی اپنی طبیعت، ذہنی سطح، مزاج، ذوق، ظرف اور اپنا پس منظر ہوتا ہے۔ اگر بات ہر ایک کے لیے ایک ہی پیرائے میں کی جائے تو صاف ظاہر ہے کہ بات تو ہر ایک تک پہنچ جائے گی لیکن نتیجہ کچھ بھی برآمد نہ ہوگا۔ نتیجہ صرف اُسی وقت برآمد ہوگا جب بیان میں حکمت کارفرما ہوگی۔ اس کے لیے ہر شخص کی ضرورت، ذہنی سطح، طبعی ساخت، ذوق اور ظرف کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے۔ جیسا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے اُسوۂ حسنہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی بارگاہ میں مختلف لوگوں نے مختلف مواقع پر ایک ہی سوال کیا اور آپ ﷺ نے ان سب کو حکمت کے تحت ایک ہی سوال کا جواب جدا جدا عنایت فرمایا؛ جیسے:
1۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ یا رسول الله! سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
إِيْمَانٌ بِاللهِ وَرَسُوْلِهِ.
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔
پھر کہا گیا: اس کے بعد سب سے اَفضل عمل کون سا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
جِهَادٌ فِي سَبِيلِ اللهِ.
الله تعالیٰ کی راہ میں جہاد۔
پھر کہا گیا: اِس کے بعد کون سا عمل افضل ترین ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
حَجٌّ مَبْرُورٌ. ([5])
حج مبرور (مقبول حج)۔
2۔ اسی طرح ایک اور موقع پر آپ ﷺ سے پوچھا گیا:
أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللهِ؟ قَالَ: اَلصَّلَاةُ عَلَی وَقْتِهَا. قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: بِرُّ الْوَالِدَيْنِ، قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: اَلْجِهَادُ فِي سَبِيْلِ اللهِ. ([6])
اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا۔ (راوی کہتے ہیں کہ صحابی حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہما نے دوبارہ) عرض کیا: پھر کون سا (عمل افضل ہے)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: والدین سے حسنِ سلوک کرنا۔ اُنہوں نے عرض کیا: پھر کون سا (عمل بہترین ہے)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا۔
3۔ ایک اور موقع پر کسی نے پوچھا کہ سب سے اعلیٰ عمل کیا ہے؟فرمایا: روزہ رکھنا۔ ([7])
4۔ ایک موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن کس صاحبِ عمل کا درجہ سب سے بلند ہوگا؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اَلذَّاكِرُونَ اللهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتُ. ([8])
اللہ کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے مَردوں اور ذکر کرنے والی عورتوں کا۔
5۔ ایک موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا گیا کہ کون سی عبادت افضل ترین ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
دُعَاءُ الْمَرْءِ لِنَفْسِهِ. ([9])
آدمی کا اپنے لیے دعا کرنا (سب سے افضل عبادت ہے)۔
6۔ کسی موقع پر پوچھا گیا: سب سے اعلیٰ عمل کیا ہے؟فرمایا: اچھے اخلاق سے پیش آنا۔ ([10])
7۔ کسی نے پوچھا: اسلام کا سب سے بہترین عمل کیا ہے؟فرمایا: آپ کے ہاتھ اور زبان سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ ([11])
8۔ پھر کسی نے پوچھا: اعلیٰ ترین عمل کیا ہے؟فرمایا: کھانا کھلانا اور ہر ایک کو سلام کرنا۔ ([12])
حضور نبی اکرم ﷺ نے ہر شخص کے حسبِ حال اور موقع و حالات کی مناسبت سے اُسے جواب عنایت فرمایا ۔ ان واقعات سے ثابت ہوا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا طرزِ عمل ٱدۡعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِٱلۡحِكۡمَةِ کی عملی تفسیر ہے اور اِسی کو حکمت کہتے ہیں۔
اُسلوبِ دعوت و تبلیغ کا دوسرا تقاضا موعظتِ حسنہ یعنی اچھی نصیحت ہے۔ داعی کا اندازِ تخاطب شستہ و شیریں اور اُنس اور ہمدردی سے لبریز ہو کہ بات مدعو کے دل میں اتر جائے۔ وہ داعی کو اپنا مونس و غم خوار اور ہمدرد و بہی خواہ سمجھتے ہوئے اس کی جانب کاملاً متوجہ ہوجائے۔ اسی کا نام موعظتِ حسنہ ہے۔ اس امر کا تعلق بھی حکمت ہی کے ساتھ ہے۔ یعنی داعی کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ وہ ہر جگہ ایک ہی نصیحت نہ کرے کیونکہ ہر ایک کو ایک بات فائدہ نہیں دیتی۔ کسی کو بطریقِ عقل اور کسی کو بطریقِ قلب بات سمجھانا پڑتی ہے۔ اس لیے اُسے چاہیے کہ موقع محل کے اعتبار سے نصائح کا مواد تبدیل کرے۔
اُسلوبِ دعوت و تبلیغ کا تیسرا تقاضا جدال اَحسن ہے جو درحقیقت حکمت ہی کا شاخسانہ ہے۔ دعوتِ دین کے سلسلہ میں مخاطب کی مخصوص ذہنی سطح، اس کے مزاج اور ظرف کے نتیجے میں اگر نوبت فساد تک پہنچ جائے تو جھگڑے کے انداز میں بات نہ کی جائے، نہ تہمت لگائی جائے، نہ فتوٰی بازی کی جائے، یعنی حکمت کا دامن ہاتھ سے ہر گز نہ چھوڑا جائے اور مخالفین سے اختلاف بھی کیا جائے تو اس انداز میں کہ جس سے حسن جھلکتا ہو اور داعی کی رِفعتِ ذہنی، کشادہ ظرفی اور بردباری کا اظہار ہوتا ہو۔ مبلغ و داعی، مدعو کی ذہنی سطح پر نہ اتر آئے بلکہ اپنے مقام و منصب اور ذہنی و فکری سطح پر قائم رہتے ہوئے اس سے معاملہ کرے۔
جواب: جی ہاں! قرآن حکیم پیغمبرانہ بلاغ کو بلاغِ مبین سے تعبیر کرتا ہے۔ پیغمبرانہ بلاغ حق و باطل کے معرکے میں ایک چیلنج ہوتا ہے جس کی اطاعت فوز و فلاح اور انحراف تباہی و ہلاکت پر منتج ہوتی ہے اور یہی انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کی کھلی کامیابی ہے۔
پیغمبرانہ بلاغ کا کمال یہی تھا کہ انہوں نے پیغامِ اِلٰہی اس قدر کامل یقین اور مؤثر طریقے سے بنی نوعِ انسان تک پہنچایا کہ اس کی اطاعت انسانوں کو دنیا ہی میں سرخرو کر گئی اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے دعویٔ نبوت کے مطابق نیست و نابود ہو گئے۔
1۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهۡلِكَ ٱلۡقُرَىٰ حَتَّىٰ يَبۡعَثَ فِيٓ أُمِّهَا رَسُولًا يَتۡلُواْ عَلَيۡهِمۡ ءَايَٰتِنَاۚ وَمَا كُنَّا مُهۡلِكِي ٱلۡقُرَىٰٓ إِلَّا وَأَهۡلُهَا ظَٰلِمُونَ﴾
[القصص، 28: 59]
اور آپ کا رب بستیوں کو تباہ کرنے والا نہیں ہے یہاں تک کہ وہ اس کے بڑے مرکزی شہر (capital) میں پیغمبر بھیج دے جو ان پر ہماری آیتیں تلاوت کرے، اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں ہیں مگر اس حال میں کہ وہاں کے مکین ظالم ہوں۔
2۔ پیغمبرانہ دعوت پر لبیک کہنے والوں کے لیے ارشاد فرمایا گیا:
﴿فَأَنجَيۡنَٰهُ وَمَن مَّعَهُ فِي ٱلۡفُلۡكِ ٱلۡمَشۡحُونِ﴾
[الشعراء، 26: 119]
پس ہم نے ان کو اور جو ان کے ساتھ بھری ہوئی کشتی میں (سوار) تھے نجات دے دی۔
3۔ ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿وَ نَجَّيۡنَٰهُ وَأَهۡلَهُۥ مِنَ ٱلۡكَرۡبِ ٱلۡعَظِيمِ﴾
[الصفت، 37: 76]
اور ہم نے اُنہیں اور اُن کے گھر والوں کو سخت تکلیف سے بچا لیا۔
4۔ دعوتِ حق کو قبول نہ کرنے والے اور منحرف ہونے والوں کے لیے فرمایا گیا:
﴿ثُمَّ أَغۡرَقۡنَا بَعۡدُ ٱلۡبَاقِينَ﴾
[الشعراء، 26: 120]
پھر اس کے بعد ہم نے باقی ماندہ لوگوں کو غرق کر دیا۔
5۔ ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿أَنَّا دَمَّرۡنَٰهُمۡ وَقَوۡمَهُمۡ أَجۡمَعِينَ﴾
[النمل، 27: 51]
بے شک ہم نے ان (سرداروں) کو اور ان کی ساری قوم کو تباہ و برباد کر دیا۔
6۔ یہی وہ بلاغِ مبین تھا جس کا فریضہ انبیاء کرام علیہم السلام نے سرانجام دیا اور اسی پر وعدۂ الٰہی تھا جسے رب ذوالجلال نے پورا کر دیا۔ اس کا بیان قرآن حکیم میں اس طرح ہے:
﴿وَأَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَأَطِيعُواْ ٱلرَّسُولَ وَٱحۡذَرُواْۚ فَإِن تَوَلَّيۡتُمۡ فَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّمَا عَلَىٰ رَسُولِنَا ٱلۡبَلَٰغُ ٱلۡمُبِينُ﴾
[المائدة، 5: 92]
اور تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو اور (خدا اور رسول ﷺ کی مخالفت سے) بچتے رہو، پھر اگر تم نے رُوگردانی کی تو جان لو کہ ہمارے رسول (ﷺ) پر صرف (احکام کا) واضح طور پر پہنچا دینا ہی ہے (اور وہ یہ فریضہ ادا فرما چکے ہیں)۔
جواب: جی ہاں! پیغمبرانہ بلاغ ہی نتیجہ خیز بلاغ ہے۔ اُمم سابقہ کی قرآنی تاریخ اس حقیقت کی منہ بولتی تصویر ہے کہ پیغمبرانہ بلاغ، موافق اور مخالف دونوں طبقات کے لیے فیصلہ کن اَمر اور نتیجہ خیز عمل تھا۔ اس کی تمام تاثیر انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت اور ان کی زندگی کے عملی نمونہ میں مضمر تھی ورنہ انبیاء و رُسل کو مبعوث کیے بغیر ہی اُلوہی وعدہ لوگوں تک پہنچا دیا جاتا۔
﴿بَلَٰغٞۚ فَهَلۡ يُهۡلَكُ إِلَّا ٱلۡقَوۡمُ ٱلۡفَٰسِقُونَ﴾
[الأحقاف، 46: 35]
پیغام کا پہنچایا جانا ہے، نافرمان قوم کے سوا دیگر لوگ ہلاک نہیں کیے جائیں گے۔
گویا پیغمبرانہ دعوت نے لبیک کہنے والوں کو بچا لیا اور گردن پھیرنے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ یہ اُصول قرآن مجید میں اس طرح بھی واضح کیا گیا ہے:
﴿فَإِنَّمَا عَلَيۡكَ ٱلۡبَلَٰغُ وَعَلَيۡنَا ٱلۡحِسَابُ﴾
[الأحقاف، 46: 35]
آپ پر تو صرف (احکام کے) پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔
جواب: جی ہاں! سیرتِ محمدی بلاغِ اِلٰہی کا نتیجہ خیز اِبلاغ ہے۔ اس لیے کہ بلاغ ربّانی کا سارا ابلاغ سیرت طیبہ کے ذریعے سے ہوا۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کے کلمات سے یہ حقیقت خوب عیاں ہو جاتی ہے۔ جب ان سے کسی سائل نے پوچھا کہ قرآن مجید میں مقیم کی نماز اور نمازِ خوف کی تفصیل تو موجود ہے، لیکن نمازِ سفر (قصر) کی تفصیل نہیں ہے۔ پھر آپ یہ کیسے ادا کرتے ہو؟ اِس پر آپ نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ بَعَثَ إِلَيْنَا مُحَمَّدًا ﷺ وَلَا نَعْلَمُ شَيْئًا، فَإِنَّمَا نَفْعَلُ كَمَا رَأَيْنَا مُحَمَّدًا ﷺ يَفْعَلُ. ([13])
بے شک اﷲ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو ہماری طرف مبعوث فرمایا، جب کہ ہم کچھ نہیں جانتے تھے۔ ہم تو بس وہی کچھ کرتے ہیں جو محمد مصطفی ﷺ کو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
جواب: حضور نبی اکرم ﷺ نے اسلام کی مؤثر دعوت و تبلیغ میں اپنے دورِ حیات کے مروجہ و ممکنہ ذرائع اختیار فرمائے جو نہ صرف اُس دور میں انتہائی جدید اور مؤثر تھے بلکہ عصرِ حاضر میں بھی رائج ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ آپ ﷺ کی دعوت و تبلیغ دلوں کے قلعوں کو تسخیر کرتی چلی گئی اور ایک کثیر تعداد اہل ایمان کے حلقے میں شامل ہوتی چلی گئی۔ دعوت و تبلیغ کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے درج ذیل ذرائع اختیار فرمائے:
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور نبی اکرم ﷺ تک انفرادی دعوت و تبلیغ کو بہت اَہمیت حاصل رہی ہے۔ اس طریقہ پر درج ذیل قرآنی آیت دلالت کرتی ہے:
﴿ٱذۡهَبَآ إِلَىٰ فِرۡعَوۡنَ إِنَّهُۥ طَغَىٰ٤٣ فَقُولَا لَهُۥ قَوۡلاً لَّيِّناً لَّعَلَّهُۥ يَتَذَكَّرُ أَوۡ يَخۡشَىٰ﴾
[طهٰ، 20: 43-44]
تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ بے شک وہ سرکشی میں حد سے گزر چکا ہے۔ سو تم دونوں اس سے نرم (انداز میں) گفتگو کرنا شاید وہ نصیحت قبول کر لے یا (میرے غضب سے) ڈرنے لگے۔
سیرت و مغازی کی کتب اس بات پر گواہ ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ بنفس نفیس لوگوں کے پاس تشریف لے جاتے اور انہیں وعظ و نصیحت فرماتے۔ آپ ﷺ کا معمول تھا کہ جب حج کا زمانہ آتا تو آپ ﷺ ہر طرف سے مکہ میں آنے والے قبائل کے پاس جاتے اور انہیں دینِ اسلام کی دعوت و تبلیغ پیش کرتے۔ نیز عرب میں جہاں جہاں میلے لگتے وہاں جا کر ان میں آئے ہوئے قبائل کو اسلام کی دعوت دیتے۔ بہت سارے لوگوں نے اس طریقۂ دعوت و تبلیغ سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا۔
دعوت و تبلیغ کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے درس و تدریس کے طریقہ کو بھی اختیار فرمایا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے علاوہ اطراف و اکناف سے آنے والوں کو بھی آپ ﷺ تعلیم دیتے اوران کی تربیت اس نہج پرکرتے کہ وہ مختلف علاقوں میں واپس جا کر اسلام قبول کرنے والے افراد کے لیے درس و تدریس کا فریضہ سرانجام دیتے۔ اس طریقہ سے بھی اسلام کی دعوت و تبلیغ بہت تیزی سے پھیلی۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی مساجد کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور آپ ﷺ نے مساجد میں دعوت و تبلیغ کا طریقہ جاری فرمایا۔ دور نبوت میں لوگ دور دراز سے سفر کرکے آتے، مساجد میں قیام کرتے اور اِسلامی تعلیمات کے نور سے منور ہوتے۔ مساجد کا دین اسلام کی اشاعت و ترویج کے مراکز ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو آپ ﷺ نے سب سے پہلا اور اَہم ترین کام جو کیا وہ مسجد کی تعمیر تھی۔ جو مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لیے ایک معنوی اور روحانی جگہ ہونے کے ساتھ ایک اَہم درس گاہ ثابت ہوئی۔ مزید برآں کفر و شرک کے خلاف دعوت و تبلیغ کا آغاز کرنے کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوئی۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے اشاعت اسلام کے لیے مذہبی اجتماعات کو بھی دعوت و تبلیغ کا ذریعہ بنایا۔ اس سے ایک ہی وقت میں بہت سے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچایا جا سکتا ہے۔ چونکہ لوگ براہِ راست مبلغ کو دیکھ اور سن رہے ہوتے ہیں اس لیے وہ اس کی حرکات و سکنات اور اندازِ گفتگو سے الفاظ کا صحیح اور فوری مفہوم اخذ کر لیتے ہیں اور مبلغ بھی لوگوں کے رد عمل سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے مذہبی اجتماعات مثلاً نماز جمعہ، نماز عیدین اور حجۃ الوداع وغیرہ میں دعوت و تبلیغ کا فریضہ بہت خوش اُسلوبی سے ادا کیا۔ جس کے دین اسلام کی اشاعت میں دور رس اثرات مرتب ہوئے۔
صلح حدیبیہ کے بعد مشرکین کی طرف سے کچھ عرصہ کے لیے محاذ آرائی بند ہونے کے بعد جب حضور نبی اکرم ﷺ کو اطمینان نصیب ہوا تو آپ ﷺ نے اسلام کی آفاقی دعوت کو اطراف و اکناف عالم میں پھیلانے کے لیے تحریری دعوت و تبلیغ کا طریقہ اختیار کیا۔ آپ ﷺ نے دعوتی خطوط دے کر اپنے سفیروں کو مختلف سلاطینِ وقت کے پاس بھیجا۔ اس سلسلہ میں ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بطور سفیر منتخب کیا گیا جو متعلقہ علاقوں اور اقوام کے رسوم و رواج، زبان اور کلچر سے بخوبی واقف تھے۔ یوں اس طریقہ سے دعوت و تبلیغ خطۂ ارض کے بیشتر بادشاہوں تک پہنچا دی گئی۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے اشاعت اسلام کے لیے تبلیغی وفود کو مختلف خطوں کی طرف روانہ کیا۔ اس مقصد کے لیے آپ ﷺ نے اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی باقاعدہ تربیت کی جنہوں نے وقتاً فوقتاً مختلف ملکوں، بادشاہوں، قوموں اور قبیلوں میں اسلام کی دعوت پہنچائی۔ یوں اس طریقہ دعوت و تبلیغ سے بہت سے عرب قبائل نے اسلام قبول کیا اور اسلام کی روشنی وہاں تک پہنچ گئی جہاں خود حضور نبی اکرم ﷺ تشریف نہ لے گئے تھے۔ اس طریقۂ دعوت و تبلیغ نے یمامہ، یمن، حجاز، غرض پورے عرب کو بیدار کر دیا اور عرب سے باہر ایران، شام، مصر، حبشہ نیز ہر جگہ دینِ اسلام پہنچ گیا۔
جواب: حضور نبی اکرم ﷺ کی دعوت پر سب سے پہلے خاتون اول کی حیثیت سے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہما حلقہ بگوشِ اِسلام ہوئیں۔ مردوں میں سب سے پہلے پیغامِ حق قبول کرنےکی سعادت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حصے میں آئی۔ آپ نے کسی قسم کے تردد اور ہچکچاہٹ کے بغیر کلمہ طیبہ پڑھ لیا اور اسلام کے دائرے میں آ کر ’’صدیق اکبر‘‘ کا لقب پایا۔ بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کی سعادت حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کو ملی۔ غلاموں کی صف میں سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے۔ پھر ان حضرات کی کوشش سے ایک مختصر سا کاروانِ حق تیار ہو گیا، جس نے حضور نبی اکرم ﷺ کی زیرِ نگرانی روحانی تربیت اور صدق و صفا کی منزلیں طے کرنا شروع کر دیں اور جادۂ نور پر گامزن ہو گئے۔
جواب: اُمتِ محمدیہ کا ہر فرد اِنفرادی طور پر دعوتِ دین کا داعی ہے۔ اس پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی بساط، استعداد اور صلاحیت کے مطابق اسلام کا پیغام دوسروں تک پہنچانے کے لیے کوشاں رہے۔ اِس ضمن میں انبیاے کرام علیہم السلام کا اُسوۂ حیات داعی کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ جنہوں نے دعوت و تبلیغ کا کام اوّلاً انفرادی سطح پر بطور داعی سر انجام دیا۔ قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر ان کے انفرادی داعیانہ کردار کا تذکرہ ملتا ہے۔
1۔ حضرت نوح علیہ السلام نے بطور داعی اپنے اس فرضِ منصبی کو نبھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور دن رات ایک کر دیے۔ ارشاد ہوتا ہے:
﴿قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوۡتُ قَوۡمِي لَيۡلاً وَنَهَاراً﴾
[نوح، 71: 5]
نوح ( علیہ السلام ) نے عرض کیا: اے میرے رب! بے شک میں اپنی قوم کو رات دن بلاتا رہا۔
2۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے داعیانہ کردار کا تذکرہ یوں آتا ہے:
﴿وَ يَٰقَوۡمِ مَا لِيٓ أَدۡعُوكُمۡ إِلَى ٱلنَّجَوٰةِ وَتَدۡعُونَنِيٓ إِلَى ٱلنَّارِ﴾
[المؤمن، 40: 41]
اور اے میری قوم! مجھے کیا ہوا ہے کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے دوزخ کی طرف بلاتے ہو۔
3۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے منصبِ دعوت پر فائز کیے جانے کا ذکر یوں ہے:
﴿وَدَاعِيًا إِلَى ٱللهِ بِإِذۡنِهِۦ وَسِرَاجاً مُّنِيراً﴾
[الأحزاب، 33: 46]
اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)۔
4۔ حضور نبی اکرم ﷺ کو فریضہ دعوت و تبلیغ سر انجام دینے کا حکم یوں دیا گیا ہے:
﴿ٱدۡعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ﴾
[النحل، 16: 125]
(اے رسول معظم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف بلائیے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر ہر شخص کو دعوتِ دین کی تبلیغ کا مکلف ٹھہراتے ہوئے فرمایا:
لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ. ([14])
جو حاضر ہے اسے چاہیے کہ وہ غائب (جو حاضر نہیں) تک میرا پیغام پہنچا دے۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے خیبر کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
فَوَاللهِ، لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِكَ رَجُلًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ. ([15])
خدا کی قسم! تمہارے ذریعے ایک شخص کا ہدایت پا جانا تمہارے لیے سرخ اونٹوں (کے صدقے) سے بہتر ہے۔
مذکورہ آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں آج ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ہر فرد بطورِ داعی دینِ اسلام کی دعوت و تبلیغ کا فریضہ سر انجام دے اور حضور نبی اکرم ﷺ کی سنتِ دعوت و تبلیغ کو زندہ کرنے والا بن جائے۔
جواب: اجتماعی طور پر دعوت و تبلیغ کا قرآنِ حکیم میں یوں حکم آیا ہے:
﴿وَلۡتَكُن مِّنكُمۡ أُمَّةٞ يَدۡعُونَ إِلَى ٱلۡخَيۡرِ وَيَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنكَرِ﴾
[آل عمران، 3: 104]
اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔
حدیثِ مبارک میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم اس وقت تک نیکی کا حکم نہیں دیں گے جب تک ہم مکمل طور پر خود اس پر عمل پیرا نہیں ہو جاتے اور نہ اس وقت تک برائی سے منع کریں گے جب تک ہم مکمل طور پر خود اس سے اجتناب نہیں کر لیتے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:
بَلْ مُرُوا بِالْمَعْرُوفِ، وَإِنْ لَمْ تَعْمَلُوا بِهِ كُلِّهِ، وَانْهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ. ([16])
(نہیں) بلکہ نیکی کا حکم دو اگرچہ تم مکمل طور پر اس پر عمل نہ بھی کر سکو اور برائی سے منع کرو اگرچہ مکمل طور پر اس سے اجتناب نہ بھی کر سکو (یعنی اگر مکمل کی بجائے ممکنہ حد تک عمل کرتے ہو تب بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرو)۔
مذکورہ آیت کریمہ اور حدیثِ مبارک میں واضح طور پر دعوت و تبلیغ کو ایک نظام کے طور پر بپا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ اجتماعی سطح پر نیک، صالح اور متقی صاحبانِ علم و عمل پر مشتمل ایک ایسی جماعت قائم کی جائے، جو ایک باقاعدہ اور مربوط نظام کے تحت کمالِ حکمت و تدبر کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دے تاکہ دعوت و تبلیغ کا کام پوری دنیا میں پھیلے اور اسلام کی اصل روح سے آشنائی ہو۔ اس فریضہ کی بجا آوری کے لیے امتِ مسلمہ کے اہلِ علم افراد نے ہر دور میں قابلِ قدر کاوشیں انجام دی ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
جواب: سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 104 میں بڑی عمومیت اور وسعت پائی جاتی ہے۔ يَأۡمُرُونَ سے مراد تحکمانہ انداز سے حکم دینا نہیں ہے، بلکہ اَخلاقِ حسنہ سے متصف اور باعمل کردار سےداعی لوگوں کو اس طرح ترغیب و ترہیب کرے کہ لوگ اُس کے طرزِ عمل کو دیکھ کر خیر کو پہچان جائیں، یہی سب سے بہتر اَمر بالمعروف ہے۔
جواب: حضور نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا ہر گوشہ کامل ہدایت و راہ نُمائی کا روشن مینار ہے۔ تاہم داعی کے لیے آپ ﷺ کے اُسلوبِ دعوت و تبلیغ کے درج ذیل زرّیں اُصولوں کو اپنانا ناگزیر ہے:
حضور نبی اکرم ﷺ کے قول و عمل کی صداقت داعی کے لیے ایک اَہم اور زرّیں اُصول ہے۔ آپ ﷺ جب کسی بات کا حکم دیتے تو پہلے خود اس پر عمل پیرا ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ ﷺ نے دعوتِ توحید کی صدا بلند کی تو آپ ﷺ کی آواز کی صداقت پر سب سے بڑی دلیل آپ ﷺ کا ذاتی عمل تھا۔ یہ آپ ﷺ کے عمل کی عظمت ہی تھی کہ آپ ﷺ کے شدید ترین مخالفین بھی آپ ﷺ کے کردار پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ آپ ﷺ نے اپنے پہلے دعوتی خطاب میں کوہِ صفا پر کھڑے ہو کر یہی فرمایا تھا کہ اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ وادی کے اُس طرف ایک لشکر جرار ہے جو آپ پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا آپ مجھے سچا جانیں گے؟ سب نے بیک زباں کہا: ہاں! کیونکہ ہم نے آپ سے ہمیشہ سچ ہی سنا ہے۔ ([17])
داعیِ اَعظم حضور نبی اکرم ﷺ کے اُسلوبِ دعوت و تبلیغ کا ایک اَہم اُصول اَخلاقِ حسنہ کے ذریعے دعوت دینا ہے۔ آپ ﷺ نے اَخلاقِ حسنہ کے ہزارہا گوشوں کو اپنی عملی زندگی میں سمو کر ہر داعی کے لیے مشعلِ راہ بنایا ہے۔ آپ ﷺ کے خلق کی دعوت کا عظیم مظاہرہ فتحِ مکہ کے روز ہوا جب جانی دشمن اور ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والے مخالفین سر جھکائے بیٹھے اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کے منتظر تھے کہ انہیں حضور نبی اکرم ﷺ نے
لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ. ([18])
آج تم پر کوئی مؤاخذہ نہیں۔
کا مژدۂ جاں فزا سنایا۔ حُسنِ خلق کے اسی عظیم منظر سے ہزارہا لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے اُسلوبِ دعوت و تبلیغ کا یہ پہلو ہر داعی کو پیغام دیتا ہے کہ حُسنِ خلق سے کارِ دعوت و تبلیغ کو باآسانی پایۂ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے اُسلوبِ دعوت و تبلیغ کا یہ پہلو داعیانِ حق کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپ ﷺ نے دعوت و تبلیغِ دین میں دلیل کی قوت سے کام لیا۔ آپ ﷺ نے یہود و نصاریٰ کے طرح طرح کے سوالات کے جوابات انتہائی مستحکم بنیادوں پر قوی دلائل سے دیے۔ مثلاً یہود پڑھے لکھے لوگ تھے اور علمی نکات اور سوالات کو ہی صداقت کا معیار سمجھتے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ان کے مطالبہ پر ان کے سوالات کے جوابات دیے۔ مثلاً ذو القرنین کا قصہ کیا ہے؟ روح کیا چیز ہے؟ حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ کیا ہے وغیرہ۔
دلیل کی قوت کے بل بوتے پر دعوت کو وسیع سے وسیع تر کرنا بھی داعیِ اَعظم ﷺ کے اُسلوبِ دعوت کا اَہم سبق ہے۔ عقل والوں کو عقلی دلائل دیں، نقل والوں کو نقلی دلائل سے مطمئن کریں۔ الغرض جو جیسی دلیل مانگے، داعی کو اس کی تشفی کرنی چاہیے۔ آپ ﷺ کے اسوہ کی روشنی میں داعی آج کے دور کے تقاضوں کے مطابق نئے نئے سوالات کو دلیل کی قوت سے ردّ کر کے کارِ دعوت کو کامیاب بنا سکتا ہے۔
مدعو کے لیے خیر خواہی کا احساس حضور نبی اکرم ﷺ کے اُسلوبِ دعوت و تبلیغ سے ملتا ہے۔ جب میدانِ اُحد میں کفار کی کثیر تعداد نے مسلمانوں کو شہید کیا اور نقصان پہنچایا لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ نے اس اشتعال انگیز ماحول میں ان کی بربادی اور ہلاکت کے بجائے اللہ سے ان کی ہدایت کی دعا کی۔ مدعوین کے ساتھ آپ ﷺ کی اسی خیرخواہی کے بے پناہ جذبوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں یوں فرمایا:
﴿فَلَعَلَّكَ بَٰخِعٞ نَّفۡسَكَ عَلَىٰٓ ءَاثَٰرِهِمۡ إِن لَّمۡ يُؤۡمِنُواْ بِهَٰذَا ٱلۡحَدِيثِ أَسَفًا﴾
[الكهف، 18: 6]
(اے حبیبِ مکرّم!) تو کیا آپ ان کے پیچھے شدتِ غم میں اپنی جانِ (عزیز بھی) گھلا دیں گے اگر وہ اس کلامِ (ربّانی) پر ایمان نہ لائے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کا یہ دعوتی اُسلوب ہر داعی کو سکھاتا ہے کہ دعوت و تبلیغ اُسی وقت کامیابی سے ہم کنار نہ ہوگی جب تک مدعو کی خیرخواہی کا بے پناہ جذبہ داعی کے دل میں موجزن نہ ہوگا۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی دعوت و تبلیغ کا ایک اَہم اُصول مدعو کے جذبات اور اِحساسات کا لحاظ کرنا ہے۔ اس کی ایک روشن مثال غزوۂ حنین میں مالِ غنیمت کی تقسیم کے وقت نظر آتی ہے جب مدینہ منورہ کے کچھ نوجوان شکوک و شبہات کا شکار ہوئے تو آپ ﷺ نے وہاں فصاحت و بلاغت سے بھرپور خطبہ ارشاد فرمایا:
اے انصار! کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ لوگ اپنے خیموں میں اونٹ اور بکریاں لے کر جائیں اور آپ اللہ کے رسول کو واپس لے کر جائیں۔ بخدا! اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں خود انصار کا ایک فرد ہوتا۔ لوگ کسی گھاٹی یا وادی میں چلیں تو میں اسی گھاٹی یا وادی میں چلوں گا جس میں انصار چلیں گے۔ انصار میری چادر کے اندر والا حصہ ہیں اور دوسرے لوگ چادر کے باہر والا حصہ ہیں۔ اے اللہ! انصار پر رحم فرما، ان کے بیٹوں پر رحم فرما اور ان کی آنے والی نسلوں پر رحم فرما۔ اس پر انصار زار و قطار رونے لگے اور کہنے لگے: ہم اپنی قسمت پر نازاں ہیں کہ ہمارے حصے میں حضور نبی اکرم ﷺ آئے([19])۔
جواب: قرآن حکیم میں دعوت و تبلیغ سے غفلت برتنے پر بڑی سخت وعید آئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
﴿فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُكِّرُواْ بِهِۦٓ أَنجَيۡنَا ٱلَّذِينَ يَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلسُّوٓءِ وَأَخَذۡنَا ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ بِعَذَابِۢ بَِٔيسِۢ بِمَا كَانُواْ يَفۡسُقُونَ﴾
[الأعراف، 7: 165]
پھر جب وہ ان (سب) باتوں کو فراموش کر بیٹھے جن کی انہیں نصیحت کی گئی تھی (تو) ہم نے ان لوگوں کو نجات دے دی جو برائی سے منع کرتے تھے (یعنی نہی عن المنکرکا فریضہ ادا کرتے تھے) اور ہم نے (بقیہ سب) لوگوں کو جو (عملاً یا سکوتاً) ظلم کرتے تھے نہایت برے عذاب میں پکڑ لیا۔ اس وجہ سے کہ وہ نا فرمانی کر رہے تھے۔
اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی دعوت و تبلیغ سے غفلت برتنے پر وعید آئی ہے۔
1۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے فرماتے سنا:
إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوْا عَلَی يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ. ([20])
جب لوگ ظالم کو (ظلم کرتا) دیکھیں اور اسے (ظلم سے) نہ روکیں تو قریب ہے کہ اﷲتعالیٰ ان سب کو عذاب میں مبتلا کر دے۔
2۔ حضرت جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
مَا مِنْ رَجُلٍ يَكُوْنُ فِي قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيْهِمْ بِالْمَعَاصِي يَقْدِرُوْنَ عَلَی أَنْ يُّغَيِّرُوْا عَلَيْهِ فَلَا يُغَيِّرُوا إِلَّا أَصَابَهُمُ اللهُ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَّمُوْتُوْا. ([21])
جو شخص بھی ایسی قوم میں رہتا ہو جس میں برے کام کیے جاتے ہوں اور لوگ ان کو روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکتے ہوں تو اﷲ تعالیٰ انہیں ان کی موت سے قبل عذاب میں مبتلا کر دے گا۔
جواب: کسی بھی مقصد میں کامیابی کے حصول کا واحد ذریعہ استقامت ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿إِنَّ ٱلَّذِينَ قَالُواْ رَبُّنَا ٱللهُ ثُمَّ ٱسۡتَقَٰمُواْ تَتَنَزَّلُ عَلَيۡهِمُ ٱلۡمَلَٰٓئِكَةُ أَلَّا تَخَافُواْ وَلَا تَحۡزَنُواْ وَأَبۡشِرُواْ بِٱلۡجَنَّةِ ٱلَّتِي كُنتُمۡ تُوعَدُونَ. نَحۡنُ أَوۡلِيَآؤُكُمۡ فِي ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَا وَفِي ٱلۡأٓخِرَةِۖ وَلَكُمۡ فِيهَا مَا تَشۡتَهِيٓ أَنفُسُكُمۡ وَلَكُمۡ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ. نُزُلاً مِّنۡ غَفُورٖ رَّحِيمٖ﴾
[حم السجدة، 41: 30-32]
بیشک جِن لوگوں نے کہا ہمارا رب اﷲ ہے، پھر وہ (اِس پر مضبوطی سے) قائم ہوگئے، تو اُن پر فرشتے اترتے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ تم خوف نہ کرو اور نہ غم کرو اور تم جنت کی خوشیاں مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ہم دنیا کی زندگی میں (بھی) تمہارے دوست اور مدد گار ہیں اور آخرت میں (بھی)، اور تمہارے لیے وہاں ہر وہ نعمت ہے جسے تمہارا جی چاہے اور تمہارے لیے وہاں وہ تمام چیزیں (حاضر) ہیں جو تم طلب کرو۔ (یہ) بڑے بخشنے والے، بہت رحم فرمانے والے (رب) کی طرف سے مہمانی ہے۔
مذکورہ بالا آیات مبارکہ کی رو سے دعوت و تبلیغ میں استقامت داعی کو درج ذیل ثمرات سے ہم کنار کرتی ہے:
1۔ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے۔ حدیث مبارک میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما نے گواہی دی کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
جب بھی لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے بیٹھتے ہیں، فرشتے انہیں ڈھانپ لیتے ہیں۔ ([22])
2۔ بے خوفی کی کیفیت نصیب ہو جاتی ہے اور داعی کا دل اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔
3۔ فرشتے دنیا و آخرت کی خوش خبریاں دیتے ہیں۔
4۔ دنیا و آخرت میں ملائکہ کی معیت نصیب ہوتی ہے۔
5۔ روزِ محشر اس کی طلب کے مطابق عطا کیا جائے گا۔
6۔ روزِ محشر اللہ تعالیٰ اپنی قربت سے نوازے گا اور اس کی اپنی شانِ کریمی سے خود میزبانی فرمائے گا۔
مذکورہ بالا تمام ثمرات و انعامات اسی کا نصیب ہوں گے جو زندگی بھر دعوت الی اللہ کے راستے پر کاربند رہنے والا ہوگا۔
([1]) ابن منظور الأفریقي، لسان العرب، 14: 261.ب، 14: 261.
([2]) الراغب الأصفهاني، المفردات: 60.
([3]) أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الإيمان، باب بیان كون النهي عن المنكر من الإیمان، 1: 69، الرقم: 50، والبيهقي في السنن الكبری، 10: 90، الرقم: 19965.
([4]) أخرجه مسلم في الصحیح، كتاب العلم، باب من سن سنة حسنة أو سيئة ومن دعا إلى هدى أو ضلالة، 4: 2060، الرقم: 2674، والترمذي، السنن، كتاب العلم، باب ما جاء فیمن دعا إلی هدی فاتبع أو إلی ضلالة، 5: 43، الرقم: 2674، وأبو داود، السنن، كتاب السنة، باب لزوم السنة، 4: 201، الرقم: 4609، وابن ماجه، السنن، المقدمة، باب من سن سنة حسنة أو سيئة، 1: 75، الرقم: 205.
([5]) أخرجه البخاري في الصحیح، كتاب الحج، باب فضل الحج المبرور، 2: 553، الرقم: 1447؛ ومسلم في الصحیح، كتاب الإیمان، باب بیان كون الإیمان بالله تعالی أفضل الأعمال، 1: 88، الرقم: 83.
([6]) أخرجه البخاري في الصحیح، كتاب الأدب، باب البر والصلة، 5: 2227، الرقم: 5625؛ ومسلم في الصحیح، كتاب الإیمان، باب بیان كون الإیمان بالله تعالی أفضل الأعمال، 1: 89، الرقم: 85.
([7]) أخرجه النسائي في السنن، كتاب الصیام، باب في فضل الصیام ذكر الاختلاف علی محمد بن أبي یعقوب في حدیث أبي أمامة في فضل الصیام، 4: 165، الرقم: 2220؛ وأحمد بن حنبل في المسند، 5: 249، الرقم: 22203.
([8]) أخرجه الترمذي في السنن، كتاب الدعوات، باب ما جاء في فضل الذكر، 5: 458، الرقم: 3376؛ وأحمد بن حنبل في المسند، 3: 75، الرقم: 11738.
([9]) أخرجه الحاكم في المستدرك، 1: 727، الرقم: 1992؛ والبخاري في الأدب المفرد: 249، الرقم: 715.
([10]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6: 448، الرقم: 27572؛ وأبو داود في السنن، كتاب الأدب، باب في حسن الخلق، 4: 253، الرقم: 4799 والترمذي في السنن، كتاب البر والصلة، باب ما جاء في حسن الخلق، 4: 362، الرقم: 2002.
([11]) أخرجه البخاري في الصحیح، كتاب الرقاق، باب الانتهاء عن المعاصي، 5: 2379، الرقم: 6119؛ ومسلم في الصحیح، كتاب الإیمان، باب بیان تفاضل الإسلام ونصف أموره أفضل، 1: 65، الرقم: 40.
([12]) أخرجه البخاري في الصحیح، كتاب الإیمان، باب إطعام الطعام من الإسلام، 1: 13، الرقم: 12؛ ومسلم في الصحیح، كتاب الإیمان، باب بیان تفاضل الإسلام وأي أموره أفضل، 1: 65، الرقم: 39؛ وأبو داود في السنن، كتاب الأدب، باب في إفشاء السلام، 4: 350، الرقم: 5194؛ والنسائي في السنن، كتاب الإیمان وشرائعه، باب أي الإسلام خیر، 8: 107، الرقم: 5000؛ وابن ماجه في السنن، كتاب الأطعمة، باب إطعام الطعام، 2: 1083، الرقم: 3253.
([13]) أخرجه ابن ماجه في السنن، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب تقصير الصلاة في سفر، 1: 339، الرقم: 1066
([14]) أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب العلم، باب قول النبي ﷺ : رب مبلغ أوعى من سامع، 1: 37، الرقم: 67.
([15]) أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب فضائل الصحابة، باب باب مناقب علي بن أبي طالب، 3: 1357، الرقم: 3498.
([16]) أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6: 365، الرقم: 6628. طبراني، المعجم الصغير، 2: 175، الرقم: 981.
([17]) أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب التفسير، باب ﴿وَأَنذِرۡ عَشِيرَتَكَ ٱلۡأَقۡرَبِينَ. وَٱخۡفِضۡ جَنَاحَكَ﴾ ألن جانبك، 4: 1787، الرقم: 4492.
([18]) أخرجه النسائي في السنن الكبری، 6: 382، الرقم: 11298، والبيهقي في السنن الكبری، 9: 118، الرقم: 18054.
([19]) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3: 76، الرقم: 11748.
([20]) أخرجه الترمذي في السنن، كتاب الفتن، باب ما جاء في نزول العذاب إذا لم يغير المنكر، 4: 467، الرقم: 2168، وأبو داود، السنن، كتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4: 122، الرقم: 4338، وأحمد بن حنبل، المسند، 1: 7، الرقم: 30، وابن حبان، الصحيح، 1: 539، الرقم: 304.
([21]) أخرجه أبو داود في السنن، كتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4: 122، الرقم: 4339، وابن حبان، الصحيح، 1: 537، الرقم: 302.
([22])أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار، باب فضل الاجتماع علی تلاوة القرآن وعلی الذكر، 4/2074، الرقم/2700، والترمذي في السنن، كتاب الدعوات، باب ما جاء في القوم يجلسون فيذكرون الله ما لهم من الفضل، 5/459، الرقم/3378، وابن ماجه، السنن، كتاب الأدب، باب فضل الذكر، 2/1245، الرقم/3791، وأحمد بن حنبل، المسند، 3/92، الرقم/11893
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved