سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصری اور بین الاقوامی اہمیت کا دوسرا پہلو جدید انسانی مسائل کے حوالے سے اجاگر ہوتا ہے۔ آج انسانیت عالمی سطح پر کئی پیچیدہ مسائل میں گھری ہوئی ہے، اقوام متحدہ (UNO) سے لے کر ہر ملک کی غیر سرکاری سماجی تنظیمات (NGOs) تک ان انسانی مسائل کے حل کے لئے پریشان ہیں۔ مگر یہ حقیقت تقویتِ ایمان کا باعث ہے جو عالمی انسانی مسائل موجودہ دور میں پریشانی کا باعث بن رہے ہیں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن و سنت کی تعلیمات اور اسوہ حسنہ کی صورت میں ان کا حل چودہ صدیاں قبل ہی عطا فرما دیا تھا۔ اب ہماری ذمہ داری ان عصری مسائل کا حل تلاش کرنا نہیں بلکہ بارگاہ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملنے والے حل کو نافذ اور رُو بہ عمل کرنا ہے۔ آج بین الاقوامی سطح پر پریشان کن اہم انسانی مسائل میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
آج کے دور کا یہ المیہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات اور سیاسی روابط کی بنیاد ان اقدار پر رکھ دی گئی جو مقامی اور محدود مفادات ہی کی حفاظت کرنے والی ہیں۔ اسلام اپنے مزاج کے لحاظ سے محدود اور مقامی مفادات کا تحفظ کرنے والی اقدار کی بجائے آفاقی اور انسانی اقدار کا امین نظام حیات ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے ایک مغربی مفکر لکھتا ہے :
Christianity and Islam -offer universal values to the community of mankind. When aliens are made in societies about 'cultural authenticity', they are most often made about religious totems.(1)
’’عیسائیت اور اسلام بنی نوع انسان کیلئے آفاقی اقدار پیش کرتے ہیں۔ جب معاشرے میں اجنبی عناصر سے ثقافتی ثقاہت کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اکثر و بیشتر اس کا تعلق مذہبی نشانات سے ہوتا ہے۔‘‘
(1) Simon Murden, Culture in World Affairs in John Baylis & Steve Smith's The Globalization of World Politics, OUP, 2001, p. 457.
فطری امر تو یہ تھا کہ آج ایک عادلانہ، منصفانہ اور انسانیت نواز عالمی نظام کا قیام اسلام ہی کا منصب ہوتا جیسے کہ اسلام کے غلبہ کاابتدائی دور میں رہا۔ لیکن اسلام کے اپنے اس فطری منصب سے انحراف کا نتیجہ یہ ہے کہ عالمی نظام کی تشکیل ان اقوام و ملل کے ہاتھوں میں چلی گئی جو آج تک نسلی، لسانی اور جغرافیائی بندہنوں سے آزاد نہیں ہو سکی۔ اس امر کا اظہار آج کے مغربی سیاسی مفکرین کی تحریروں سے بھی ہوتا ہے۔
A universal civilization, Huntington argues, is purely a Western dream; civilizations have been maintaining and even reinforcing their distinctions throughout the late 20th century However, if civilizations do adapt to meet new conditions, especially material conditions, as the modern view might suggest and if life within the world's major civilizations is gradually encountering similar, if not identical, material conditions, then those civilizations should tend to converge, at least to some degree, in the face of those similar challenges.(1)
’’ہنٹنگٹن کے مطابق عالمی تہذیب خالصتاً مغربی خواب ہے۔ پوری بیسویں صدی کے دوران تہذیبیں اپنے امتیازات کو قائم رکھنے اور انہیں نافذ کرنے کے لیے جدوجہد کرتی رہیں۔ تاہم اگر تہذیبیں نئے حالات کو اختیار کر لیں، خصوصاً مادی صورتحال کو جیسا کہ جدید نکتہ نظر تجویز کرے گا اور اگر دنیا کی بڑی تہذیبوں میں زندگی بتدریج اس طرح کی گو غیر مماثل مادی صورتحال کا سامنا کرے تو ان تہذیبوں کو کم از کم اس درجے تک ان ایک جیسے چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے اکٹھا ہو جانا چاہیے۔‘‘
(1) Christian Stracke; The Clash of Civilizations and the Remaking of the World Order, Journal of International Affairs, Vol. 51, 1997.
یہی وجہ ہے کہ مغرب کے تصادم پر مبنی سیاسی فلسفے کا اثر ان اقوام کے فکر وعمل میں بڑا واضح نظر آتا ہے۔ مثلا یورپ کے سیاسی طرز فکرو عمل کو متعین کرنے میں کئی حوالوں سے سیموئل ہنٹٹنگٹن کی فکر نے کلیدی کردار ادا کیا :
Huntington's focus upon an Islamic threat to the EU paralleled the approach of European strategists. His explicit identification of a "danger" to the Union from outside and from inside was not an approach that senior EU figures pursued publicly : it did however complement the position taken by populist politicians and by organizations of the extreme Right.(1)
’’ہنٹٹنگٹن کا اسلامی دنیا کو یورپی یونین کے لیے خطرہ قرار دینا یورپی حکمت عملی کے متوازی رہا۔ یورپی یونین کے لیے اندرون اور بیرون کی طرف سے خطرے کی اس واضح نشاندہی ایسا نقطہ نظر نہ تھا جسے پوری یونین کی اعلیٰ شخصیات قبول اور اختیار کر لیتیں۔ تاہم اس مؤقف کو اتنی تقویت ضرورملی کہ اسے انتہائی دائیں بازو کے عوامی سیاستدانوں، تنظیموں نے اختیار کیا۔‘‘
(1) Philip Marfleet, The "Clash" Thesis : War and Ethnic Boundaries in Europe, Arab Studies Quarterly, vol. 25, 2003.
جبکہ آج کے عالمی سیاسی منظر نامہ اس امر کا متقاضی ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد ایسے اقدار پر رکھی جائے جو بقائے باہمی کی ضامن ہوں۔ اس تقاضے کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ایک مغربی مفکر لکھتا ہے :
For the furtherance of peace in this world and the reception of human rights into all cultures, these difficult questions should be discussed in a dialogical way, that is, openly with mutual understanding, reciprocal witnessing and critical questioning. In such a dialogue western individualism will be subject to correction.(1)
’’دنیا میں امن کے فروغ اور تمام ثقافتوں میں انسانی حقوق کے فروغ کے لئے ان مشکل سوالات کو مکالماتی طور پر زیر بحث لانے کی ضرورت ہے یعنی وسیع طور پر باہمی افہام و تفہیم، باہمی شہادتوں اور تنقیدی سوالات کے ذریعے۔ ایک ایسے مکالمے میں انجام کار مغربی تصور فرد کو اپنی تصحیح کرنا ہوگی۔‘‘
(1) Abd Allah Ahmad Na'im, Human Rights and religious Values, p. vii.
یہ تصور کہ دنیا کا موجودہ عالمی نظام جس فکر پر مبنی ہے وہ کئی حوالوں سے محل نظر ہے آج مغرب کے سلیم الفکر مفکرین میں عام ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیموئل ہنٹٹنگٹن کا پیش کردہ نظریہ تنقید کا نشانہ بھی بن رہا ہے :
Even Huntington's most ardent admirers have viewed the thesis in this light : Robert Kaplan, for example, sees it as an analysis of American security needs set "in the most tragic, pessimistic terms.(2)
’’ہنٹنگٹن کے بہت پر جوش مداح بھی اس کے نظریئے کو تنقید کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مثلاً رابرٹ کیپلین، اسے امریکی تحفظ کا ایسا تجزیہ قرار دیتا ہے جو بہت ہی المیاتی اور مایوس کن انداز سے کیا گیا ہے۔‘‘
(2) Philip Marfleet; The "Clash" Thesis : War and Ethnic Boundaries in Europe, Arab Studies Quarterly, Vol. 25, 2003.
اندریں حالات انسانیت کو آفاقی اقدار پر مبنی نظام کی احتیاج صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا کردہ تعلیمات پر مبنی نظام ہی پوری کر سکتا ہے۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت حقوق انسانی کا ہمہ گیر چارٹر خطبہ حجۃ الوداع ہے۔
آج کی جدید سیاسی فکر نے بین الاقوامی تعلقات اور بین الملل روابط ثقافت کو قرار دیا ہے۔ ہر قوم کی اپنی نمایاں اور انفرادی ثقافتی شناخت ہوتی ہے لحاظہ جہاں کہیں ثقافتی اقدارمیں اختلاف و تضاد واقع ہو گا، ثقافتی شناخت کو ترجیح دینے کے ناطے یہ تصادم پر منتج ہو گا۔ ثقافت کے اس کردار کا ذکر کرتے ہوئے ایک مغربی مصنف لکھتا ہے :
Toynbee's influence on Huntington is clear throughout his treatment of what civilizations are and why they are important. Civilizations, Huntington explains, are broad cultural entities that unite individuals around common mores, traditions and institutions. As such, they are "the most enduring of human associations," and are therefore the foundations of long-term historical continuity Because civilizations are, after blood and tribe, the most important factors binding individuals together into potential political identities, they are naturally the most important actors in the field of global politics.(1)
’’تہذیبوں کی نوعیت اور ان کی اہمیت بیان کر نے کے پورے عمل کے دوران ہنٹٹنگٹن پر ٹوائن بی کا اثر بڑا واضح ہے۔ ہنٹٹنگٹن کی وضاحت کے مطابق تہذیبیں وسیع ثقافتی حقیقتیں ہیں جو افراد کو مشترک سماجی اقدار، طور طریقوں، روایات اور اداروں پر متحد کرتی ہیں۔ اس طرح سے یہ انسانی ہم آہنگی اور وابستگی کی دیرپا بنیادیں ہیں اور اس لئے یہ طویل المیعاد تاریخی تسلسل کی بنیاد بھی ہیں ۔چونکہ تہذیبیں خون اور قبیلے کے رشتے کے بعد افراد کو مخفی سیاسی شناخت میں منسلک کرنے کرنے والی سب سے موثر ترین عوامل ہیں، سو قدرتی طور پر یہ عالمی سیاست کے میدان میں بہت ہی اہم عوامل ہیں۔‘‘
(1) Christian Stracke, The Clash of Civilizations and the Remaking of the World Order, Journal of International Affairs, vol. 51, 1997.
تاریخی ارتقاء پر نظر رکھنے والے اہل علم سے یہ امر پوشیدہ نہیں کہ مغرب کا تصادم کا یہ تصور نیا نہیں بلکہ صدیوں پرانا ہے :
The clash thesis is not novel. It draws upon a tradition that emerged in Europe at the birth of the nation-state and accompanied European expansion across the world. This was the idea that, notwithstanding the intense rivalry between such states, people of Europe held in common attributes superior to those of all other human beings. Expressed in the "civilizing" missions of specific states these gave meaning to colonialism and had the effect of complementing ideologies of nation which were of immense importance in cohering unstable domestic populations. The idea of a civilizing Europe was as important "at home" as it was abroad : it was indeed a "security" measure much like Huntington's defense of U.S. interests in the 1990s. Here "civilization" has an ideological function in the classical sense : it is part of a body of ideas which endorse relations of inequality and of domination of a majority of people by a small number of others.(1)
’’تصادم کا نظریہ کوئی نئی بات نہیں۔ اس کی بنیاد اس روایت پر ہے جو یورپ میں قومی سیاست کی ابتداء سے وجود میں آئی اور دنیا پر یورپی توسیع کے ساتھ بڑھتی گئی۔ یہ تصور یوں تھا کہ ان ریاستوں کے مابین شدید رقابت کے باوجود یورپ کے لوگوں نے بقیہ عالم انسانیت سے کچھ فائق خصوصیات اختیار کرلیں۔ کچھ خاص ریاستوں کے تہذیبی مشن کے اظہار کے مطابق انہوں نے نوآبادیت کو معنی دیا اور قوم کی تکمیل کرنے والے نظریات پر اس کا اثر ہوا جو کہ غیر مستقل مقامی آبادی کے باہمی ربط کے قیام میں نمایاں اہمیت کا حامل تھا۔ ایک تہذیب پذیر یورپ کا تصور جتنا اندرون ملک عام تھا اتنا بیرون ملک بھی۔ یہ بلاشبہ ایک طرح کا حفاظتی اقدام تھا جیسا کہ 1990ء کی دہائی میں ہنٹٹنگٹن نے امریکی مفادات کا دفاع کیا۔ یہاں کلاسیکل معنوں میں تہذیب کا ایک نظریاتی عمل ہے۔ یہ ان تصورات پر مشتمل ہے جو غیر مساویانہ تعلقات اور اکثریتی آبادی پر دوسری قوم کے چند لوگوں کے غلبے کی توثیق کرتے ہیں۔‘‘
(1) Philip Marfleet, The "Clash" Thesis : War and Ethnic Boundaries in Europe , Arab Studies Quarterly, vol. 25, 2003.
ثقافتی شناخت کی بنیاد پر پیدا ہونے والے موجودہ عالمی تصادم کی جڑیں حصول بقا کو لاحق خوف میں موجود ہیں۔مغربی دنیا بزعم خویش اپنے ثقافتی نظام کیلئے اسلام کی ثقافتی اقدار کو ایک خطرہ تصور کرتی ہیں :
For Huntington, the clash of civilizations was an historic development. The history of the international system had been essentially about the struggles between monarchs, nations, and ideologies within Western civilization. The end of the cold war inaugurated a new period, where non-Westerners were no longer the helpless recipients of Western power, but now counted amongst the movers of history. The rise of civilizational politics intersected four long-run processes at play in the international system :
1. The relative decline of the West.
2. The rise of the Asian economy and its associated 'cultural affirmation', with
China poised to become the greatest power in human history.
3. A population explosion in the Muslim world, and the associated resurgence of
Islam.
4. The impact of globalization, including the extra ordinary expansion of transnational
flows of commerce, information, and people.
The coincidence of these factors was forging a new international order.(1)
’’ہنٹٹنگٹن کے مطابق تہذیبوں کا تصادم ایک تاریخی عمل ہے۔ بین الاقوامی نظام کی تاریخ شہنشاہوں، قوموں اور مغربی تہذیب میں بھی نظریات کے مابین جدوجہد پر مشتمل ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے نے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ جہاں غیر مغربی طاقتوں کے سامنے محض بے یارو مددگار اثر قبول کرنے والے ہی نہ تھے بلکہ اب وہ تاریخ کی حرکت کا حصہ بھی تھے۔ تہذیبی سیاست کے عروج نے بین الاقوامی نظام میں 4 طویل المیعاد رُو بہ عمل عوامل کو متاثر کیا :
(1) Simon Murden, Sulture in World Affairs in John Baylis & Steve Smith's The Globalization of World Politics, OUP, 2001, p. 461-2.
ان تمام عوامل کی بیک وقت موجودگی ایک نئے بین الاقوامی نظام کو تشکیل دے رہی ہے۔‘‘
اسی تصور کو دوسرے مقام پر یہ مفکر یوں بیاں کرتا ہے
Huntington observed that Islam had particularly 'bloody borders', a situation that would continue until Muslim population growth slowed in the second or third decade of the twenty-first century. At the 'macro-level', a more general competition for capabilities and influence was evident, with the principal division between the 'West' and, to varying degrees, the 'Rest'. According to Huntington, the hegemony of the West was most contested by the two most forceful non-Western civilizations, the Sinic and Islamic. Resistance to the West was most evident over issues such as arms control and the promotion of Western political values. Western efforts to project their democracy and human rights were widely regarded as a form of non-imperialism.(1)
’’ہنٹنگٹن نے بیان کیا کہ اسلام بطور خاص خونی سرحدوں کا حامل ہے۔ یہ صورتحال جاری رہے گی تاوقتیکہ اکیسویں صدی کی دوسری یا تیسری دہائی میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کم نہ ہو جائے۔ بڑی سطح پر مغرب اور بقیہ دنیا کے درمیان واضح تقسیم کے ساتھ اہلیتوں اور اثر رسوخ کیلئے عمومی مقابلہ بڑا واضح ہے۔ ہنٹنگٹن کے مطابق مغرب کی برتری کو دو بہت ہی طاقتور غیر مغربی تہذیبوں یعنی چینی، اور اسلامی کے مقابلے کا سامنا ہے۔ مختلف مسائل مثلاً تخفیف اسلحہ اور مغرب کی سیاسی اقدار کے فروغ میں ان کی طرف سے مزاحمت بہت ہی نمایاں ہے۔‘‘
(1) Simon Murden, Sulture in World Affairs in John Baylis & Steve Smith's The Globalization of World Politics, OUP, 2001, p. 462.
تاہم مغرب کاتہذیبی تصادم کا یہ تصور اپنے تاریخی پس منظر کے علاوہ ان مغالطوں کا مرہون منت بھی جس کا اس نظریے کو تشکیل دینے والے شکار ہیں :
Huntington's anti-modern perspective, which rejects the dominant modern notion of history as progress and instead proposes history as continuity, is even more radically anti-modern considering his general treatment of civilizations as actors. Any truly modern, post-Wittgenstein understanding of civilization would necessarily include the concept of civilization as construct, which implies first the inherent artificiality of any civilization and second the constant potential for the innovation of civilizational content. Such a view of innovation within civilizations is perhaps best seen in a standard modern understanding of the history of Western civilization as a progressive fusion of classical, Christian and Enlightenment ideals, the latter being rooted in the past but in some important sense new and unprecedented. Under this modern conception, Western civilization, with all its internal divisions and constant innovational struggles, would have an extraordinarily difficult time trying to behave as a unitary actor.(1)
’’ہنٹٹنگٹن کا غیر جدید تناظر جو تاریخ کے ترقی پذیر ہونے کی جدید غالب تصور کی نفی کرتا ہے اور اس کے بجائے اسے ایک تسلسل قرار دیتا ہے۔ یہ تہذیب کو ایک عامل سمجھنے کے تصور سے بھی زیادہ جدیدیت مخالف تصور ہے۔ تہذیب کا کوئی بھی وٹگنسٹائن کے بعد کا جدید فہم تہذیب کے ساخت ہونے کے تصور پر مشتمل ہے۔ جو اولاً تہذیب کی اندرونی مصنوعیت اور ثانیاً تہذیب کے اختراع کی مستقل اہلیت پر مشتمل ہے۔ تہذیب میں اختراع کا ایسا تصور بہتر طور پر مغربی تہذیب کی تاریخ کے جدید فہم میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جو کلاسیکل، عیسائی اور روشن خیالی کے تصورات کی ترقی پذیر آمیزش پر مشتمل ہے۔ جن میں سے آخر الذکر کی جڑیں تو ماضی میں ہیں لیکن کئی اہم حوالوں سے یہ نیا اور عدیم النظیر ہے۔ جدید تصورات کے مطابق مغربی تہذیب اپنی تمام تر اندرونی تقسیم اور مستقل اختراعی جدوجہد کے باعث ایک واحد عامل کے طور پر روبہ عمل ہونے کے لیے غیر معمولی مشکلات سے دو چار ہے۔‘‘
(1) Christian Stracke; The Clash of Civilizations and the Remaking of the World Order, Journal of International Affairs, vol. 51, 1997.
اندریں حالات یہ اندازہ کرنا کوئی مشکل امر نہیں کہ اگر موجودہ عالمی حالات آگے بڑتے رہے تو اس عالمی تصادم کا انجام کیا ہو گا گویا آج انسانیت کو اپنی بقا کے لئے ایک ایسے عالمی نظام کی ضرورت ہے جس کی بنیاد تصادم کی بجائے مکالمہ ہو۔ اور یہ ضروت صرف اسلام پوری کر سکتا ہے جس نے پہلے دن سے تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا وبینکم کا منشور عطا کر کے ایک وسیع بنیاد فراہم کر دی۔
انسانیت کے لئے دین حیات ہونے کے ناطے جس اعتماد کو ہونا چاہے تھا آج نہ صرف وہ اعتماد اہل اسلام کے ہاں مفقود ہے بلکہ دوسری تہذیبیں اس اعتماد سے سرشار نظر آتی ہیں :
However, no civilization is completely distinct from the influence of others and in particular, all have been affected by the model culture and modernity pioneered in the west.(1)
’’تاہم کوئی تہذیب بھی مکمل طور پر الگ تھلگ اور دوسروں کے اثرات سے آزاد نہیں بلکہ سب اس مثالی کلچر اور جدیدیت سے متاثر ہیں جس کا آغاز مغرب نے کیا۔‘‘
(1) Simon Murden, Sulture in World Affairs in John Baylis & Steve Smith's The Globalization of World Politics, OUP, 2001, p. 458.
یہی وجہ کہ اسلام کے بارے میں اظہار کرتے ہوئے مغربی مفکرین اسلام کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو ان کا اندازہ اپنی تہذیب کی برتری کو ظاہر کرتے ہوئے اسلام کی تحقیر کی حدوں کو چھونے لگتا ہے۔ فوکویاما (F. Fukuyama) اسلام کے تہذیبی کردار کے بارے میں اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے :
Islam represented a systematic and coherent ideology. . . with its own code of morality and doctrine of political and social justice. The appeal of Islam [was] potentially universal; reaching out to all men as men. . . And Islam has indeed defeated liberal democracy in many parts of the Islamic world, posing a grave threat to liberal practices even in countries where it has not achieved political power directly. . . Despite the power demonstrated by Islam in its current revival, however, it remains the case that this religion has virtually no appeal outside those areas that were culturally Islamic to begin with. The days of Islam's cultural conquests, it would seem, are over. It can win back lapsed adherents, but has no resonance for the young people _Berlin, Tokyo, or Moscow. And while nearly a billion are culturally Islamic-one-fifth of the world's population-they cannot challenge liberal-democracy on its own territory on the level of ideas. Indeed, the Islamic world would seem more vulnerable to liberal ideas in the long run than the reverse. (1)
’’اسلام ایک منظم اور مربوط نظریۂ حیات ہے جس کا اپنا ضابطۂ اخلاق اور سیاسی اور سماجی انصاف کا نظام ہے۔ (ابتداً) اسلام کی مقبولیت آفاقی تھی جو عام انسانوں تک پہنچی۔ (دور جدید میں) بلا شبہ اسلام نے مسلم دنیا کے کئی حصوں میں آزاد خیال جمہوریت کو شکست دی اور اس سے یہ ان ممالک میں بھی آزاد خیال روش کے لیے خطرہ ثابت ہوا جہاں یہ براہ راست سیاسی قوت نہیں حاصل کر سکا۔ تاہم موجودہ احیائی جدوجہد کے دوران اسلام کی طرف سے قوت کے اظہار کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ اس مذہب میں ان ممالک سے باہر جہاں اسلام ثقافتی طور پر شروع ہوا کوئی کشش نہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ اسلام کی ثقافتی فتوحات کا زمانہ گزر چکا ہے یہ کچھ غلط فہمیوں کا شکار وابستہ افراد کا دل تو جیت سکتا ہے لیکن اس میں برلن، ٹوکیو اور ماسکو کے نوجوانوں کیلئے کوئی صدائے بازگشت موجود نہیں۔ دنیا میں ایک بلین یعنی دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ ثقافتی طور پر اسلامی ہوتے ہوئے بھی مسلمان لبرل جمہوریت کو اپنے علاقے میں بھی نظریات کی بنیاد پر چیلنج نہیں کر سکتے۔ بلا شبہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی دنیا لبرل تصورات کو شکست دینے کی بجائے ان کے سامنے عاجز اور ناتواں ثابت ہوتی چلی جائے گی۔‘‘
(1) Simon Murden, Sulture in World Affairs in John Baylis & Steve Smith's The Globalization of World Politics, OUP, 2001 p. 461.
جب سے اسلام کے مطابق دوسری تہذیبوں کو فروغ اور غلبہ حاصل ہوا ہے اسلام کی تہذیبی حیثیت شکوک و شبہات اور اعتراضات کی زد میں ہے۔ اس کا بنیادی سبب افکار و تعلیمات اور بنیادی اقدر کا وہ فرق ہے جو اسلام اور دیگر تہذیبوں میں حائل ہے :
In reality, the differences between civilizations ran deep : they were about man and God, man and woman, the individual and the state, and notions of rights, authority, obligation, and justice. Culture was about the basic perceptions of life that had been constructed over centuries.(1)
’’حقیقت میں تہذیبوں میں موجود اختلافات بہت گہرے ہیں۔ یہ انسان اور خدا، مرد اور عورت، فرد اور ریاست، تصورات اور حقوق، اختیار، اطاعت اور انصاف سے متعلق ہیں۔ کلچر زندگی کے ان بنیادی تصورات سے متعلق ہے جو صدیوں کے عمل کے بعد ظہور پذیر ہوئے۔‘‘
(1) Simon Murden, Sulture in World Affairs in John Baylis & Steve Smith's The Globalization of World Politics, OUP, 2001, p. 462.
اسلام کو درپیش اس چیلنج کے پیش نظر اس امر کی ضروت ہے آج عصری تقاضوں کو مستحضر رکھتے ہوئے دلائل و براہین کے ساتھ اسلام کو بطور نظام حیات دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔
آج کی جدید دنیا مختلف النوع انتہا پسندی کے رجحانات کے تحت برداشت کے کلچر سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ ان رجحانات میں ایک بنیاد پرسی بھی ہے جس کا سبب سیاسی، اقتصادی، سماجی اور مذہبی محرومیاں ہیں :
Fundamentalism is more than a political protest against the West or the prevailing establishment. It also reflects deep-seated fear of modern institutions and has paranoid visions of demonic enemies everywhere. It is alarming that so many people in so many different parts are so pessimistic about the world that they can only find hope in fantasies of apocalyptic catastrophe. Fundamentalism shows a growing sense of grievance, resentment, displacement, disorientation, and anomie that any humane, enlightened government must attempt to address.(1)
’’بنیاد پرستی مغرب یا موجود اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سیاسی احتجاج سے زیادہ بھی کچھ ہے۔ یہ جدید اداروں سے گہرے خوف اور ہر طرف پھیلے ہوئے دشمنوں کو اپنے مصائب کا ذمہ دار سمجھنے کا مظہر بھی ہے۔ یہ بات بہت خوفناک ہے کہ دنیا کے اتنے زیادہ حصوں میں اتنے لوگ دنیا کے بارے میں اتنے مایوس ہیں کہ انہیں کسی ناگہانی انقلاب کے تصورات میں ہی امید کی کرن نظر آتی ہے۔ بنیاد پرستی شکایات، رنجیدگی، شعوری انتقالیت، بیگانگی اور بے ضابطگی کا اظہار ہے جس کا ازالہ اور اصلاح کرنا کسی بھی ہمدرد اور روشن خیال حکومت کی ذمہ داری ہے۔‘‘
(1) Simon Murden, Sulture in World Affairs in John Baylis & Steve Smith's The Globalization of World Politics, OUP, 2001, p. 461.
تاہم یہ امر ایک المیے سے کم نہیں کہ بین الاقوامی سطح پر انسانیت کو در پیش مسائل کا صحیح تجزیہ کرنے کی بجائے اسلام کو ثقافی نزاع کا سبب قرار دیا جارہا ہے :
In much of the post-cold war discourse on cultural conflict, it was Islam that came into the frame. Islam, seem to represent a particular source of conflict both as a homeland and as a diaspora. Certainly, Islamic peoples were locked in violent conflicts against adjoining civilizations and secular states across the Balkans, West and East Africa, the Middle East, the Caucasus, Central Asia, India, Indonesia, and the Philippines, with their efforts to promulgate Islamic law a particularly explosive issue.(1)
’’سرد جنگ کے بعد ثقافتی نزاع پر ہونے والے مباحثے میں اسلام ہی مرکز توجہ بنا۔ اسلام اندرون ملک اور ممالک سے باہر آبادی میں تنازعہ کے سبب کے طور پر سامنے آیا۔ یقیناً مسلمان متصل تہذیبوں اور سیکولر ریاستوں کے ساتھ بلقان، مغربی اور مشرقی افریقہ، مشرق وسطی، قفقار، وسط ایشیاء، انڈیا، انڈونیشیا اور فلپائن کے ساتھ شدید تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس کوشش کے ساتھ کہ وہاں اسلامی قانون کو جو کہ سلگتا ہوا مسئلہ ہے فروغ دیں۔‘‘
(1) Simon Murden, Sulture in World Affairs in John Baylis & Steve Smith's The Globalization of World Politics, OUP, 2001 p. 463.
ان مذکورہ بالا مسائل کا حل بنیاد پرستی اور غلط فہمیوں پر نظام کو فروغ دینے کی بجائے عالمی برداشت کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ گویا یہ صرف عالم اسلام ہی نہیں بلکہ عالم انسانیت کی بنیادی ضرورت ہے کہ مستقبل میں بقائے باہمی کے امقانا ت کو روشن کرنے کے لئے برداشت کے کلچر کو فروغ ملے جو سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملنے والی سے ہی ممکن ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تعلیمات اور اسوہ و سیرت کے ذریعے انسانیت کو وہ نظام زندگی، حقوق و فرائض، احکام و آداب اور امر و نواہی عطا فرمائے ہیں جن کو عملاً اپنانے اور نافذ کرنے سے مذکورہ بالا مسائل حل ہوجاتے ہیں۔
وحدت نسل انسانی کے تصور کو رنگ و نسل کے امتیاز کے خاتمہ کا موثر ترین ذریعہ بنایا ہے۔ قرآن و سنت کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنی نوع انسان کو یہ تعلیم دی ہے :
1. يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ.
’’اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہو۔‘‘
الحجرات، 49 : 13
2. الناس مستوون کأسنان المشط ليس لأحد علی أحد إلا تقوی اﷲ.
’’تمام انسان کنگھی کے دندانوں کے طرح برابر ہیں کوئی بھی دوسرے پر فضیلت نہیں رکھتا سوائے اللہ کے تقویٰ کے۔‘‘
ديلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 6 : 301
3. إن اﷲ قد أذهب عنکم عبية الجاهلية وتعاظمها بآبائها فالناس رجلان : برّ تقی کريم علی اﷲ وفاجر شقی هيّن علی اﷲ والناس بنو آدم وخلق اﷲ آدم من تراب، قال اﷲ : ﴿إن أکرمکم عند اﷲ أتقاکم﴾.
’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کا غرور اور ایک دوسرے پر خاندانی فخر دور کردیا ہے پس اب دو قسم کے لوگ ہیں : ایک نیک متقی شخص جو اللہ تعالیٰ کے ہاں معزز ہے اور ایک بدکار و بدبخت جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ذلیل و خوار ہے تمام لوگ آدم ں کی اولاد ہیں اور آدم ں کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’بے شک اللہ کے ہاں تم میں سے زیادہ عزت والا وہی ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے۔‘‘
ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب التفسير، باب سورة الحجرات، 5 : 339، رقم : 3270
اسلام نے معاشی عدل و احسا کے تصور کو انسانی زندگی میں معاشی جبر و استحصال کے مسئلے کا موثر ترین حل بنایا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالم انسانیت اسے بین الاقوامی اور ریاستی سطح پر بنیادی نظام کے طور پر نافذ کرے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن و سنت کے ذریعے بنی نوع انسان کو یہ تعلیم دی ہے :
وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ.
’’اور آپ سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں؟ فرما دیں : جو ضرورت سے زائد ہے (خرچ کر دو)۔‘‘
البقره، 2 : 219
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ.
’’اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ۔‘‘
النساء، 4 : 29
كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ.
’’تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مال داروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے)۔‘‘
الحشر، 59 : 7
اسلام نے صدقہ و انفاق اور اطعام الطعام کے حکم کو قحط و فاقہ کے انسانی مسئلہ کا حتمی حل بنایا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے افراد اور اقوام دونوں سطحوں پر وجوباً نافذ کیا جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن و سنت کے ذریعے بنی نوع انسان کو یہ تعلیم دی ہے :
1. وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ.
’’اور تم (خود بھی) انہیں اللہ کے مال میں سے (آزاد ہونے کے لئے) دے دو جو اس نے تمہیں عطا فرمایا ہے۔‘‘
النور، 24 : 33
2. وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِO
’’اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجتمندوں) کا حق مقرر تھاo‘‘
الذاريات، 51 : 19
3. أطعموا الجائع وعودوا المريض وفکّوا العافي.
’’بھوکے کو کھانا کھلاؤ، بیمار کی عیادت کرو اور قیدی کو آزاد کراؤ۔‘‘
1. بخاری، الصحيح، کتاب الأطعمة، باب قول اﷲ تعالی کلو من طيبات،
5 : 2055، رقم : 5058
2. أبوداود، السنن، کتاب الجنائز، باب الدعاء للمريض، 3 : 187، رقم : 3105
3. بيهقی، السنن الکبری، 3 : 379، رقم : 6367
4. من کان عنده فضل ظهر فليعد به علی من لا ظهر له، ومن کان عنده فضل زاد فليعد به علی من لا زاد له.
’’جس کے پاس کوئی زائد سواری ہے تو وہ اسے دے جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس کے پاس زائد زاد راہ ہے وہ اسے دے جس کے پاس زاد راہ نہیں ہے۔‘‘
1. أبوداود، السنن، کتاب الزکوٰة، باب فی حقوق المال، 2 : 125،
رقم : 1663
2. ابو عوانه، المسند، 4 : 200، رقم : 2490
5. إن اﷲ فرض علی أغنياء المسلمين فی أموالهم بقدر الذی يسع فقراءهم.
’’اللہ نے مسلمان امیروں پر ان کے مالوں میں ایک حصہ مقرر کردیا ہے۔ جس سے ان کے غریبوں کی ضروریات پوری ہوں۔‘‘
1. طبرانی، المعجم الصغير، 1 : 275، رقم : 453
2. منذری، الترغيب والترهيب، 1 : 306، رقم : 1130
6. ليس المؤمن الذی يشبع وجاره جائع.
’’وہ شخص مومن نہیں جو خود سیر ہوکر کھاتا ہے اور اس کا ہمسایہ بھوکا رہتا ہے۔‘‘
1. بيهقی، السنن الکبری، 10 : 3، رقم : 19452
2. أبو يعلی، المسند، 5 : 92، رقم : 2699
3. منذری، الترغيب والترهيب، 3 : 243، رقم : 3875
7. أن رجلا سأل النبی صلی الله عليه وآله وسلم : أي الإسلام خير؟ قال : تطعم الطعام.
’’کسی شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا : کس قسم کا اسلام اچھا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کھانا کھلانے والے کا۔‘‘
1. بخاری، الصحيح، کتاب الإيمان، باب إطعام الطعام من الإسلام،
1 : 13، رقم : 12
2. بخاری، الصحيح، کتاب الإيمان، باب إفشاء السلام، 1 : 19، رقم : 28
3. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب في تفاضل الإسلام، 1 : 65، رقم : 39
4. أبو داود، السنن، کتاب الأدب، باب في إفشاء الاسلام، 4 : 350، رقم : 5194
5. ابن ماجه، السنن، کتاب الأطعمة، باب إطعام الطعام، 2 : 1083، رقم : 3253
8. من احتکر طعاماً أربعين يوماً فقد بري من اﷲ تبارک وتعالیٰ و بري اﷲ تبارک و تعالی منه.
’’جو شخص چالیس دن غلہ روکے رکھتا ہے وہ اللہ تعالی کے ذمہ سے بری اور اللہ تعالی اس کے ذمہ سے بری ہوا۔‘‘
هيثمی، مجمع الزوائد، 6 : 100
9. المحتکر ملعون.
’’مال کو مہنگا بیچنے کی غرض سے روکنے والا ملعون ہے۔‘‘
1. حاکم، المستدرک، 2 : 14، رقم : 164
2. عبدالرزاق، المصنف، 8 : 204، رقم : 14893
اسلام نے اصل رزق اور بنیادی ضروریات زندگی میں سب کی برابری کے تصور کے ذریعے بے گھر ہونے اور بعض لوگوں کے دیگر حاجات اصلیہ سے محروم ہونے کے مسئلے کو بھی حل کیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن و سنت کے ذریعے بنی نوع انسان کو یہ اصول فراہم فرمایا ہے۔
1. وَّلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ إِلَى حِينٍO
’’اب تمہارے لئے زمین میں ہی معیّنہ مدت تک جائے قرار ہے اور نفع اٹھانا مقدّر کر دیا گیا ہےo‘‘
البقرة، 2 : 36
2. وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ.
’’اور بے شک ہم نے تم کو زمین میں تمکّن و تصرّف عطا کیا اور ہم نے اس میں تمہارے لئے اسبابِ معیشت پیدا کئے۔‘‘
الأعراف، 7 : 10
3. وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَO
’’(یہ سب کچھ اس نے) چار دنوں (یعنی چار ارتقائی زمانوں) میں مکمل کیا، (یہ سارا رِزق اصلًا) تمام طلب گاروں (اور حاجت مندوں) کے لئے برابر ہےo‘‘
حم السجدة، 41 : 10
4. وَاللّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الْرِّزْقِ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُواْ بِرَآدِّي رِزْقِهِمْ عَلَى مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ أَفَبِنِعْمَةِ اللّهِ يَجْحَدُونَO
’’اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق (کے درجات) میں فضیلت دی ہے (تاکہ وہ تمہیں حکمِ انفاق کے ذریعے آزمائے)، مگر جن لوگوں کو فضیلت دی گئی ہے وہ اپنی دولت (کے کچھ حصہ کو بھی) اپنے زیردست لوگوں پر نہیں لوٹاتے (یعنی خرچ نہیں کرتے) حالانکہ وہ سب اس میں (بنیادی ضروریات کی حد تک) برابر ہیں، تو کیا وہ اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیںo‘‘
النحل، 16 : 71
5. ليس لابن اٰدم حق في سوی هذه الخصال بيت يسکنه وثوب يواری عورته و جلف الخبز والماء.
’’انسان کی لئے ان اشیاء کے سوا کوئی حق نہیں، رہنے کے لئے مکان، سترِ عورت کے لئے کپڑا، سالن کے بغیر روٹی اور پانی۔‘‘
ترمذی، السنن کتاب الزهد : باب ماجاء فی الزهادة فی الدنيا 6 : 571، رقم : 2341
اسلام نے معاشرے میں عورت کی عزت کی بلندی اور اس کے سماجی، معاشی، قانونی، عائلی اور اخلاقی حقوق کا تعین و تحفظ کر کے حیثیت نسواں کے مسئلہ کا ایک متوازن حل دیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن و سنت کے ذریعے بنی نوع انسان کو یہ ہدایت فرمائی ہے۔
1. يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً.
’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔‘‘
النساء، 4 : 1
2. وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ.
’’اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر۔‘‘
البقرة، 2 : 228
3. وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ.
’’اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤ کرو۔‘‘
النساء، 4 : 19
4. خيرکم خيرکم لأهله و أنا خيرکم لاهلی.
’’تم میں بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے لئے بہتر ہو اور میں اپنی بیوی کے لئے بہتر ہوں۔‘‘
1. ابن ماجه، السنن، کتاب النکاح : باب حسن معاشرة النساء،
1 : 636، رقم : 1977
2. ترمذی، السنن، کتاب المناقب، باب أزواج النبی، 5 : 709، رقم : 3895
5. ما أکرمهن إلا کريم وما أهانهن إلا لئيم.
’’ان (عورتوں) کی عزت، عزت والا ہی کرتا ہے اور ان سے توہین آمیز سلوک وہی کرتا ہے جو خود ذلیل (اور کمینہ) ہو۔‘‘
عسقلانی، لسان الميزان، 6 : 128
6. الجنة تحت أقدام الأمهات.
’’جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔‘‘
هندی، کنز العمال، 16 : 634، رقم : 45439
7. ما من مسلم تدرکه ابنتان فيحسن صحبتهما إلا أدخلتاه الجنة.
’’جس مسلمان کو بھی دو بیٹیاں میسر ہوں اور وہ ان کو اچھی طرح تعلیم و تربیت دے تو وہ دونوں اس کو جنت میں داخل کرائیں گی۔‘‘
بخاری، الأدب المفرد، 1 : 41، رقم : 7
8. لا يکون لأحد ثلاث بنات أو ثلاث أخوات فيحسن إليهن إلا دخل الجنة.
’’جس کی بھی تین بیٹیاں یا بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا ہے تو وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
ترمذی، السنن کتاب البر والصله، باب ماجاء فی رحمة الولد، 4 : 318، رقم : 1912
9۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا :
يا رسول اﷲ، من أحق الناس بحسن الصحبة؟ قال : أمک، ثم أمک، ثم، أمک، ثم أبوک، ثم أدناک أدناک.
’’ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میرے حسن سلوک کا زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ نے فرمایا : تیری ماں، پھر تیری ماں، پھر تیری ماں پھر تیرا باپ پھر جو قریب ہو، قریب ہو۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة، باب بر الوالدين، 4 : 1974،
رقم : 2528
2. بخاری، الصحيح، کتاب الأدب، باب البر والصلة، 5 : 2227، رقم : 5626
10. الدنيا متاع و خير متاع الدنيا المرأة الصالحة.
’’تمام دنیا متاع (سامان) ہے اور دنیا میں بہترین متاع نیک اور پرہیزگار عورت ہے۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الرضاع، باب خير متاع الدنيا، 2 : 1090، رقم : 1467
اسلام نے جنسی زندگی کو باقاعدہ نظم دینے اور اسے اخلاقی بے راہ روی سے بچانے کے لئے نکاح کا شرعی تصور اور ازدواج کا باقاعدہ نظام دیا ہے۔ جس کے ذریعے انسانیت کو جنسی مسئلہ کا نہایت مناسب حل میسر آگیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن و سنت کے ذریعے اس باب میں واضح ہدایات ارشاد فرمائی ہیں :
1. فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ.
’’تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے)۔‘‘
النساء، 4 : 3
2. من تزوج أحرز نصف دينه.
’’جس نے شادی کی اس نے اپنا آدھا دین بچا لیا۔‘‘
جوزی، العلل المتناهية، 2 : 612
3. يا معشر الشباب، من استطاع منکم الباء ة فليتزوج فإنه أغض للبصر و أحصن للفرج.
’’اے جوانو کی جماعت! تم میں سے جو نکاح کی استطاعت رکھتا ہو وہ نکاح کرے کیونکہ یہ نگاہ کو نیچے رکھتا ہے اور شرم گاہ کی حفاظت کرتا ہے۔‘‘
1. بخاری، الصحيح، کتاب النکاح، باب قول النبی صلی الله عليه
وآله وسلم : من استطاع منکم الباءة، 5 : 1950، رقم : 4778
2. مسلم، الصحيح، کتاب النکاح، باب استحباب النکاح، 2 : 1018، رقم : 1400
3. ابن ماجه، السنن، کتاب النکاح، باب ماجاء فی فضل النکاح، 1 : 592، رقم : 1845
اسلام نے نوجوانوں میں پریشان خیالی کے خاتمہ کے لئے روحانی، ذہنی اور جسمانی سرگرمیوں کی صورت میں مثبت طرز فکر عطا کیا تاکہ ان کی سیرت و کردار کو انتشار سے بچا کر محبت و عبادت الٰہی، تقویٰ و صالحیت اور جوانمردی و جانفشانی کی زندگی سے ہمکنار کیا جائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوجوانوں کو پریشان خیالی اور بے راہ روی سے بچانے کے لئے روحانی فکر و عمل کے سانچے میں ڈھالنے کی تلقین فرمائی اور اس کے لئے موثر ہدایات و تعلیمات عطا فرمائیں۔
1. سبعة يظلهم اﷲ فی ظله يوم لا ظل إلا ظله : إمام عادل و شاب نشاء في عبادة اﷲ و رجل معلق قلبه في المساجد و رجلان تحابا في اﷲ، اجتمعا عليه و تفرقا عليه، و رجل دعته امرأة ذات منصب و جمال فقال : إني أخاف اﷲ و رجل تصدق بصدقة فاخفاها حتي لا تعلم شماله ما تنفق يمينه و رجل ذکر اﷲ خاليًا ففاضت عيناه.
’’سات شخص اللہ تعالیٰ کے سایہ (رحمت) میں ہوں گے جبکہ اس دن کسی کا سایہ نہ ہوگا۔ عادل حکمران، وہ جوان جو خدا کی اطاعت میں پلا بڑھا ہو۔ وہ شخص جس کا دل مسجد میں اٹکا رہے، دو آدمی جو ایک دوسرے کو صرف اللہ کے لئے چاہتے ہیں ملیں تو اسی لئے اور جدا ہوں تو اسی لئے، وہ جسے حسن و دولت والی عورت برائی پر اکسائے مگر وہ کہے میں اللہ سے ڈرتا ہوں، وہ جس نے صدقہ دیا اور اسے یوں مخفی رکھا کہ بائیں ہاتھ کو پتہ نہ چل سکا کہ دائیں ہاتھ نے کیا کیا اور وہ شخص جس نے خلوت میں خدا کو یاد کیا اور آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔‘‘
1. بخاری، الصحيح، کتاب الزکوٰة : باب الصدقه باليمين، 2 :
517، رقم : 1357
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة ، باب فضل إخفاء الصدقة، 2 : 715، رقم : 1031
3. ترمذي، الصحيح، کتاب الزهد، باب ماجاء في الحب في الله،
4 : 598، رقم : 2391
2. لا يلج النار رجل بکي من خشية اﷲ . . . ولا يجتمع غبار في سبيل اﷲ و دخان جهنم.
’’اللہ تعالیٰ کے خوف سے رونے والا جہنم میں نہیں جائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں (لگی ہوئی) غبار اور جہنم کا دھواں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔‘‘
ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب الزهد، باب ماجاء فی فضل البکاء، 4 : 555، رقم : 2311
3. عليک بتقوي اﷲ فإنها جماع کل خير وعليک بالجهاد في سبيل اﷲ فإنها رهبانية المسلمين و عليک بذکر اﷲ وتلاوة کتابه فإنها نور لک في الأرض وذکر لک في السماء.
’’اللہ سے ڈرنا اپنے اوپر لازم کرلو بے شک یہ ہر نیکی اور بھلائی کا جامع ہے اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنا اپنے اوپر لازم کرلو کہ یہی مسلمانوں کی رہبانیت ہے اور اپنے اوپر اللہ کا ذکر اور اس کی کتاب کو پڑھنا اور اس پر عمل کرنا لازم کرلو کہ زمین میں یہ تمہارے لئے روشنی ہے اور آسمان میں تمہارا ذکر ہے۔‘‘
1. طبرانی، المعجم الصغير، 2 : 156، رقم : 949
2. أبو يعلی، المسند، 2 : 283، رقم : 1000
4. أدبوا أولادکم علی ثلاث خصال حبّ نبيکم وحبّ أهل بيته وقرأة القرآن.
’’اپنی اولاد کو تین امور کی تربیت دیں، اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی، آپ کے اہلِ بیت کی محبت کی اور قرآن پڑھنے کی۔‘‘
1. هندی، کنز العمال، 16 : 623، رقم : 45409
2. عجلونی، کشف الخفاء، 1 : 76
اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سنت مبارکہ کے ذریعے نوجوانوں کو جہاد، محبت الٰہی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ صحت مندسرگرمیوں اور کھیلوں کی بھی ترغیب دی جن میں فوجی اور دفاعی فنون کے علاوہ شہ سواری، تیر اندازی، کشتی، پیراکی، دوڑیں، نیزہ بازی اور ویٹ لفٹنگ ایسی کھیلوں (Sports) کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی بھی براہ راست حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے جن کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نوجوانوں اور بچوں کو مثبت اور صحت مند جسمانی مشاغل سے وابستہ فرماتے تھے۔
اسلام نے دماغی اور نفسیاتی دباؤ کے علاج کے لئے ایک خاص طرز فکر، نمونہ حیات اور روحانی اعمال و مشاغل کا نظام عطا کیا ہے جس کی تفصیل سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میسر آتی ہے۔ اس میں قناعت اور صبر و شکر کا زاویہ نگاہ، حسد، حرص اور لالچ ایسے رذائل سے اجتناب، غصہ اور بغض و کینہ سے پرہیز، توکل اور رضائے الٰہی کا تصور، ذکر و عبادت الٰہی اور انفاق و احسان کی یہ ترغیب سب معاملات بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ارشادِ الٰہی ہے :
الَّذِينَ آمَنُواْ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللّهِ أَلاَ بِذِكْرِ اللّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُO
’’جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اﷲ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں، جان لو کہ اﷲ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہےo‘‘
الرعد، 13 : 28
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَO
’’ایمان والے (تو) صرف وہی لوگ ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے) خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ (کلامِ محبوب کی لذت انگیز اور حلاوت آفریں باتیں) ان کے ایمان میں زیادتی کر دیتی ہیں اور وہ (ہر حال میں) اپنے رب پر توکل (قائم) رکھتے ہیں (اور کسی غیر کی طرف نہیں تکتے)o‘‘
الأنفال، 8 : 2
تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ.
’’(جس کی آیتیں) بار بار دہرائی گئی ہیں، جس سے اُن لوگوں کے جسموں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر اُن کی جلدیں اور دل نرم ہوجاتے ہیں (اور رِقّت کے ساتھ) اللہ کے ذکر کی طرف (محو ہو جاتے ہیں)۔‘‘
الزمر، 39 : 23
الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَO
’’یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہےo‘‘
آل عمران، 3 : 134
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَO
’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقیناً اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہےo‘‘
البقرة، 2 : 153
فإن فی الصلاة شفاء.
’’بے شک نماز میں شفاء ہے۔‘‘
1. ابن ماجه، السنن، کتاب الطب، باب الصلاة شفاء، 2 : 1144،
رقم : 3458
2. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 390، رقم : 9054
7. إياکم و الحسد فإن الحسد يأ کل الحسنات کما تأکل النار الحطب.
’’حسد سے بچو بیشک حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔‘‘
أبوداود، السنن، کتاب الأدب، باب فی الحسد، 4 : 276، رقم : 4903
اسلام نے شراب نوشی اور دیگر تمام منشیات (Norcotics) کو کلیتا حرام قرار دے کر ہمیشہ کے لئے اس مسئلہ کو حل کردیا ہے دنیا بھر میں منشیات کی روک تھام کے لئے جو عالمی مہم آج چلائی جا رہی ہے پیغمبر اسلام نے اس کا آغاز اس اعلان کے ذریعے 14 صدیاں قبل ہی فرما دیا تھا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO
’’اے ایمان والو! بیشک شراب اور جُوا اور (عبادت کے لئے) نصب کئے گئے بُت اور (قسمت معلوم کرنے کے لئے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤo‘‘
المائده، 5 : 90
2. کل مسکر خمر و کل مسکر حرام.
’’ہر نشہ آور چیز خمر (شراب) ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الأشربة، باب عقوبة من شرب الخمر، 3
: 588، رقم : 2002
2. ابن ماجه، السنن، کتاب الأشربة، باب کل مسکر حرام، 2 : 1124، رقم : 3390
3. ما أسکر کثيره فقليله حرام.
’’جس چیز کا کثیر حصہ نشہ لائے اس کا تھوڑا حصہ بھی حرام ہے۔‘‘
أبوداود، السنن، کتاب الأشربة، باب النهی عن المسکر، 3 : 327،
رقم : 3681
ابن ماجه، السنن، کتاب الأشربة، باب ما أسکر کثيره، 2 : 1124، رقم : 3392
ترمذی، السنن، کتاب الأشربة، باب ماجاء ما أسکر، 4 : 292، رقم : 1865
4. لعن اﷲ الخمر وشاربها وساقيها وبائعها ومبتاعها وعاصرها ومعتصرها وحاملها والمحمولة إليه.
’’اللہ تعالیٰ نے شراب پر لعنت کی ہے اور اسے پینے والے اور پلانے والے پر اور اسے بیچنے والے اور خریدنے والے پر اور اسے نچوڑنے والے پر اور نچڑوانے والے پر اور اسے اٹھانے والے اور جس کے لئے اٹھائی گئی اس پر بھی لعنت کی ہے۔‘‘
أبو داؤد، السنن، کتاب الأشربة، باب العنب يعصر للخمر، 3 : 326، رقم : 3674
اسلام نے ماحولیاتی صحت کے لئے صفائی اور شجرکاری کے احکام صادر فرما کر اس مسئلہ کے حل کی واضح بنیاد فراہم کردی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ اس امر کا عملی نمونہ نظر آتی ہے۔ ارشاد گرامی ہے :
1. وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَO
’’اور خوب پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتا ہےo‘‘
البقرة، 2 : 222
2. الطهور نصف الإيمان.
’’پاکیزگی نصف ایمان ہے۔‘‘
ترمذی، السنن، کتاب الدعوات : باب منه، 5 : 536، رقم : 3519
ابن أبی شيبة، المصنف، 6 : 171، رقم : 30433
3. الإيمان بضع و سبعون شعبة فأفضلها قول لا إله إلا اﷲ و أدناها إماطة الأذی عن الطريق.
’’ایمان کی ستر سے زائد شاخیں ہیں۔ ان سب میں افضل لا الہ الا اﷲ کہنا ہے اور ان سب میں ادنی راستے میں سے کسی موذی چیز کا ہٹانا ہے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان عدد شعب الإيمان،
1 : 63، رقم : 35
2. أبوداود، السنن، کتاب السنة، باب فی رد الإرجاء، 4 : 219، رقم : 4676
4. حق الطريق قال : غض البصر و کف الأذی ورد السلام.
’’راستے کا حق، نظر نیچی رکھنا ایذا رسانی سے پرہیز کرنا اور سلام کا جواب دینا ہے۔‘‘
اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شجرکاری کو صدقہ قرار دیا اور حکم فرمایا کہ شجرکاری کرو خواہ روز قیامت میں ہی ایک درخت لگانے کی فرصت مل جائے۔
ارشاد گرامی ہے :
1. بخاری، الصحيح، کتاب المظالم، باب أفنية الدور والجلوس،
2 : 870، رقم : 2333
2. مسلم، الصحيح، کتاب، باب کراهة التفرع، 3 : 1675، رقم : 2121
3. أبوداود، السنن، کتاب الأدب، باب فی الجلوس، 4 : 256، رقم : 4815
5. ما من مسلم يغرس غرسًا إلا کان ما أکل منه له صدقه.
’’جو مسلمان درخت لگائے پھر اس میں سے کوئی کھائے تو لگانے والے کو صدقے کا ثواب ملے گا۔‘‘
1. مسلم الصحيح، کتاب المساقاه، باب فضل الغرس والزرع، 3 :
1188، رقم : 1552
2. ترمذی، السنن، کتاب الأحکام، باب ماجاء فی فضل الفرس، 3 : 666، رقم : 1382
إن قامت الساعة وبيد أحدکم فسيلة فإن استطاع أن لا يقوم حتی يغرسها فليفعل.
’’اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہے اور وہ اس کو لگا سکتا ہے تو لگائے بغیر کھڑا نہ ہو۔‘‘
أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 191، رقم : 13004
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعدلیگ آف نیشنز اور اقوام متحدہ کا قیام اقوام عالم کی اس آرزو کی طرف پیش رفت ہے جو عالمی سطح پر پائدار اور دیرپا امن کے قیام سے عبارت ہے۔ لیکن تاحال سامنے آنے والے حالات اس امر کے گواہ ہیں کہ ان اقدامات کے باوجود امن عالم کا خواب تا حال تشنہ تعبیر ہے۔ کمزور اور پسماندہ اقوام اب بھی طاقت ور اور غالب اقوام کی ظلم و ستم کا تختہ مشق بنی ہوئی ہیں۔ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عصری اور بین الاقوامی تناظر میں مطالعہ، جس کی تفصیلات گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہیں، اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ انسانیت کے لئے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر بقائے باہمی اور قیام امن کا حامل نظام صرف تعلیمات نبوی کی روشنی میں ہی تشکیل دیا جا سکتا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved