دورِ حاضر کا بین الاقوامی منظرنامہ یک قطبی (Uni-Polar System) ہونے کے سبب سے اقوام عالم کے لئے ایک ایسے نئے عالمی نظام (New World Order) کا پیش خیمہ بن چکا ہے جس میں اُمتِ مسلمہ کے لئے اپنے فکری و ثقافتی تشخص اور سیاسی و اقتصادی آزادی کا تحفظ ایک چیلنج بن چکا ہے اور امن عالم نئے خطرات سے دوچار ہو گیا ہے۔ ان عصری بین الاقوامی حالات کے تناظر میں سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطالعہ مزید ناگزیر ہو گیا ہے کیونکہ اُمتِ مسلمہ کو درحقیقت نیو ورلڈ آرڈر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے دائماً دیا جا چکا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ’’اسلامک نیو ورلڈ آرڈر‘‘ تو سیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک درخشاں باب ہے جس کی اہمیت و افادیت روزِ قیامت تک کم نہیں ہو سکتی۔ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عصری اور بین الاقوامی پہلو کا جائزہ لیتے ہوئے سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دو جہتوں سے مطالعہ ضروری ہے :
اگر ہم چھٹی صدی عیسوی سے دنیا کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ چھٹی صدی عیسوی میں اس دنیا میں روم اور فارس کی دو بڑی سلطنتیں آپس میں خونریز جنگوں کی شکل میں محاذ آرا تھیں۔ فاتح سلطنت ہر جنگ کے بعد ایک ورلڈ آرڈر جاری کرتی جس کے تحت چھوٹی ریاستوں کو اپنا مطیع بنا لیا جاتا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے وقت دنیا میں ملوکیت اور بادشاہت کا دور تھا۔ سرِ زمین عرب کا جنوبی حصہ سلطنتِ حبش کے پاس تھا، مشرقی حصہ سلطنتِ فارس کے قبضہ میں تھا اور شمالی حصہ پر سلطنتِ روم قابض تھی۔ ملک عرب ایک وحدت کی بجائے کئی خود مختار قبیلوں میں منقسم تھا۔ دو طاقتی نظام رائج تھا۔ طاقت کا توازن اس وقت کی دو بڑی سلطنتوں روم اور فارس نے سنبھالا ہوا تھا۔ مگر یہ نظام بری طرح ناکام ہوا اور عالمی امن قائم نہ رہ سکا۔ کیونکہ ان میں سے کسی سلطنت کا ورلڈ آرڈر انصاف، صلح اور مساوات پر مبنی نہ تھا بلکہ یہ ورلڈ آرڈر توسیع سلطنت کی خواہش اور اقتدار کی ہوس پر مبنی تھا۔
ان حالات میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 23 سال کی جد و جہد کے بعد ایک ایسا معاشرہ قائم کر کے دکھایا جو قیامت تک کے لئے قابلِ تقلید تھا اور پوری دنیا کی رہنمائی کے لئے ایک ورلڈ آرڈر جاری کیا جس کا باضابطہ اعلان خطبہ حجۃ الوداع میں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگو! خبردار! پچھلا عالمی نظام جو استحصال، ظلم، ناانصافی اور جبر و تشدد پر مبنی تھا آج وہ ختم ہو رہا ہے۔ اسے میں اپنے قدموں تلے روند رہا ہوں اور کائناتِ انسانی کو نیا عالمی نظام عطا کر رہا ہوں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 10ھ میں آخری حج ادا فرمایا جسے حجۃ الوداع کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس موقع پر بتاریخ 9 ذی الحجہ میدان عرفات میں آپ نے خطبہ حجۃ الوداع ارشاد فرمایا جو عالم انسانیت کے لئے انسانی حقوق کا پہلا باقاعدہ چارٹر (Charter of Human Rights) اور اقوام عالم کے لئے نیا عالمی نظام (New World Order) تھا۔
خطبہ حجۃ الوداع کو تاریخ انسانی میں نیو ورلڈ آرڈر کی حیثیت کیسے حاصل ہے اس حقیقت کی طرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درج ذیل الفاظ میں خود اشارہ فرما دیا ہے :
إنّ الزمان قد استدار کهيئته يوم خلق اﷲ السماوات والأرض.
’’(اور دیکھو) اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان (یعنی نظامِ عالم) کو جس حالت پر پیدا کیا تھا، زمانہ اپنے حالات و واقعات کا دائرہ مکمل کرنے کے بعد پھر اس مقام پر دوبارہ آگیا ہے۔‘‘
1. بخاری، الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء في سبع أرضين،
3 : 1168، رقم : 3025
2. بخاری، الصحيح، کتاب الأضاحی، باب من قال الأضحی يوم النحر، 5 : 2110، رقم : 5230
3. مسلم، الصحيح، کتاب القسامه، باب تغليظ تحريم الدماء، 3 : 1305، رقم : 1679
4. أبو داود، السنن، کتاب المناسک، باب الأشهر الحرم، 2 : 195، رقم : 1947
5. ابن کثير، البداية والنهاية، 1 : 19
6. شيباني، الکامل في التاريخ، 2 : 171
7. ابن خلدون، تاريخ ابن خلدون، 2 : 480
8. طبری، تاريخ الأمم والملوک، 2 : 205
9. ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 2 : 186
گویا زبانِ نبوت اس امر کا اعلان فرما رہی تھی کہ نظام عالم کے ایک دور کا خاتمہ ہوچکا ہے اور آج سے دوسرے دور کا آغاز ہو رہا ہے اور میں دنیائے انسانیت کو نظامِ عالم کے نئے دور کے آغاز پر ’’خطبہ حجۃ الوداع‘‘ کے ذریعے بالخصوص اور اپنی تعلیمات و ہدایات کے ذریعے بالعموم نیا عالمی نظام عطا کر رہا ہوں۔
ضروری تھا کہ اس موقع پر آپ پچھلے نظام اور اس کے جاہلانہ اُمور کو منسوخ کرنے کا اعلان بھی فرماتے۔ سو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
ألا! کلّ شيء من أمر الجاهلية تحت قدمي موضوع، ودماء الجاهلية موضوعة، . . . ورباء الجاهلية موضوع.
’’خبردار! دورِ جاہلیت کا سارا (ظالمانہ اور استحصالی) نظام میں نے اپنے پاؤں تلے روند ڈالا ہے۔ آج سے نظامِ جاہلیت کے سارے خون (قصاص، دیت اور انتقام) کالعدم قرار دیئے جاتے ہیں اور آج سے نظامِ جاہلیت کے سارے سودی لین دین بھی ختم کئے جاتے ہیں۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب حجة النبی، 2 : 889، رقم :
1218
2. ابن حبان، الصحيح، 9 : 257، رقم : 3944
3. دارمی، السنن، 2 : 69، رقم : 1850
ان دو اعلانات کے بعد اس امر میں کسی شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ خطبہ حجۃ الوداع فی الحقیقت ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کا ہی اعلان تھا۔ اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ نیو ورلڈ آرڈر کے اہم پہلو کیا تھے؟
اس اسلامک ورلڈ آرڈر کا سب سے اہم پہلو عالمی سطح پر قیام امن تھا۔ اقوام، ممالک اور قبائل ہمہ وقت قتل و غارت گری اور جنگ وجدال کے فساد انگیز عمل میں مبتلا رہتے تھے۔ قبائل میں لامتناہی جنگوں کے سلسلے جاری رہتے تھے، انسانی خون نہایت ارزاں ہوگیا تھا اور معمولی معمولی بات پر تلواریں نکل آتیں اور دیکھتے ہی دیکھتے نسلیں خون آشام منظر کی بھینٹ چڑھ جاتیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان ہولناک حالات میں عالمی سطح پر قیام امن کا اعلان ان الفاظ میں فرمایا :
فإن دماء کم وأموالکم وأعراضکم عليکم حرام کحرمة يومکم هذا في بلدکم هذا في شهرکم هذا.
’’اے بنی نوع انسان! بیشک تمہاری جانیں اور تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں تم پر حرام کر دی گئی ہیں جس طرح آج کے دن کی حرمت اور اس مہینہ کی حرمت تمہارے اس شہر میں برقرار ہے۔‘‘
1. بخاری، الصحيح، کتاب الحج، باب الخطبة أيام الحج، 2 : 619،
رقم : 1652
2. مسلم، الصحيح، کتاب القسامة، باب المجازة بالدماء، 3 : 1306، رقم : 1678
3. ترمذی، السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة التوبة، 5 : 273، رقم : 3087
4. ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب الخطبة يوم النحر، 2 : 1016، رقم : 3058
5. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 337، رقم : 18986
جس میں تم ایک دوسرے کی بے حرمتی نہیں کر سکتے اسی طرح تم کبھی ایک دوسرے کی جان و مال کی بے حرمتی بھی نہیں کر سکتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم کو مزید ان الفاظ کے ذریعے مؤکد فرمایا :
ألا فلا ترجعوا بعدی ضلالًا يضرب بعضکم رقاب بعض.
’’خبردار! تم میرے بعد پلٹ کر پھر گمراہ نہ ہوجانا یوں کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو (یہ سب سے بڑی گمراہی ہوگی)۔‘‘
1. بخاری، الصحيح، کتاب المغازی، باب حجة الوداع، 4 : 1599،
رقم : 4144
2. بخاری، الصحيح، کتاب التوحيد، باب قول اﷲ تعالی، 6 : 2710، رقم : 7009
3. مسلم، الصحيح، کتاب القسامة، باب تغليظ تحريم الدماء، 3 : 1305، رقم : 1679
4. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 37
5. ابن حبان، الصحيح، 13 : 313، رقم : 5974
6. بيهقی، السنن الکبریٰ، 5 : 165، رقم : 9554
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانی نسلوں، طبقوں اور معاشروں کی ایک دوسرے پر مصنوعی فضیلت و برتری کے سب دعوؤں کو ختم فرما دیا اور انسانی مساوات کا عالمی اعلان فرما کر ساتھ ہی باہمی فضیلت کا دائمی عادلانہ اصول بھی مقرر فرمادیا۔ ارشاد فرمایا :
الناس بنو آدم وآدم من تراب.
’’تمام بنی نوع انسان، آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے تخلیق کئے گئے تھے۔‘‘
1. ترمذی، السنن، کتاب المناقب، باب فضل الشام، 5 : 735، رقم
: 3956
2. أبوداود، السنن، کتاب الأدب، باب فی التفاخر، 6 : 331، رقم : 5116
ألا! کل مأثرة أو دم أو مال يدعی به فهو تحت قدمی هاتين.
’’اب فضیلت و برتری کے سارے (جھوٹے) دعوے، جان و مال کے سارے مطالبے اور سارے انتقام میرے پاؤں تلے روندے جاچکے ہیں۔‘‘
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 516
طبری، تاريخ الأمم والملوک، 2 : 161
أيها الناس، إن ربکم واحد وأباکم واحد.
’’اے لوگو! تم سب کا رب ایک ہے، اور باپ بھی ایک ہے۔‘‘
هيثمی، مجمع الزوائد، 3 : 266
إن أکرمکم عند اﷲ أتقاکم فليس لعربی علی عجمی فضل ولا لعجمی علی عربی ولا لأسود علی أبيض ولا لأبيض علی أسود فضل إلا بالتقوي.
(اس وحدت نسل انسانی کے باعث تم سب برابر ہو) مگر تم میں بزرگ و برتر وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار (بہتر کردار کا مالک) ہے۔ پس کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی برتری نہیں اور نہ ہی کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر برتری حاصل ہے ساری برتریاں، کردار و عمل پر مبنی ہیں۔‘‘
طبرانی، المعجم الکبير، 18 : 12، رقم : 16
یہ مساوات انسانی کا وہ عالمی اصول تھا جس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بین الاقوامی سطح پر جمہوری اور عادلانہ انسانی معاشرے کی بنیاد رکھی یہی اصول آگے چل کر عالمی جمہوریت کے قیام (Establishment of World Democracy) کا باعث بنا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی ورلڈ آرڈر کے ذریعے سود کو استحصالی نظام قرار دے کر اسے کلیتاً مسترد بلکہ ختم کرنے کا اعلان فرمایا۔ ارشاد فرمایا :
وإن کل ربا موضوع ولکم رؤوس أموالکم لا تظلمون ولا تظلمون.
’’بے شک آج سے ہر قسم کا سود (اور سارا سودی نظام) منسوخ کیا جاتا ہے تم اپنے سرمائے کے سوا نہ کچھ لے سکتے ہو اور نہ کچھ دے سکتے ہو۔ نہ تم سودی لین دین کی شکل میں ایک دوسرے پر ظلم کرو اور نہ قیامت کے دن تم پر ظلم کیا جائے گا۔‘‘
ابويعلی، المسند، 3 : 139، رقم : 1596
قضی اﷲ أنه لا ربا.
’’یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ سود (اور اس پر مبنی ہر قسم کا اقتصادی استحصال) ممنوع ہے۔‘‘
طبری، تاريخ الأمم والملوک، 2 : 205
ابن خلدون، تاريخ ابن خلدون، 2 : 480
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سابقہ عالمی نظام میں خواتین پر روا رکھے گئے تمام مظالم کے خاتمے کا اعلان فرمایا اور ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کی۔ ارشاد فرمایا :
أيها الناس! فإن لکم علی نسائکم حقًا ولهن عليکم حقًا . . . واستوصوا بالنساء خيرًا، فاتقوا اﷲ في نسائکم.
’’اے لوگو! بے شک تمہارے کچھ حقوق عورتوں پر واجب ہیں اور اسی طرح عورتوں کے کچھ حقوق تم پر واجب ہیں (ان کی پوری طرح حفاظت کرنا) عورتوں سے ہمیشہ بہتر سلوک کرنا اور عورتوں کے حقوق کے معاملے میں ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہنا۔‘‘
طبری، تاريخ الأمم والملوک، 2 :
206
ابن خلدون، تاريخ ابن خلدون، 2 : 480
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عالمی سطح پر عادلانہ اور غیر استحصالی انسانی معاشرہ قائم کرنے کے لئے یہ عظیم انقلابی اعلان بھی فرمایا :
أرقّائکم أرقّائکم اطعموهم مما تأکلون واکسوهم مما تلبسون.
’’لوگو! زیردست انسانوں کا خیال رکھنا، زیر دستوں کا خیال رکھنا۔ انہیں وہی کچھ کھلاؤ جو خود کھاتے ہو اور ایسا ہی پہناؤ جیسا تم خود پہنتے ہو۔‘‘
1. ابن سعد، الطبقات الکبری، 2 : 185
2. طبرانی، المعجم الکبير، 22 : 243، رقم : 636
3. منذری، الترغيب والترهيب، 3 : 150، رقم : 3449
اس اعلان نے عالمی نظام سے غلامی کے خاتمے کی بنیاد رکھ دی۔ اور انسانی طبقات میں غیر فطری تفاوت کے خلاف انقلاب آفریں نظام وضع کردیا۔
الغرض حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبہ حجۃ الوداع کے ذریعے انسانیت کو ایسا نیو ورلڈ آرڈر (نیا عالمی نظام) عطا فرمایا جو آج بھی زندہ و تابندہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آج عالم اسلام عملاً اس کی قدر و قیمت کا صحیح اندازہ کر رہا ہے یا نہیں۔
اسلام کی تاریخ میں یہ نیو ورلڈ آرڈر آج بھی دنیا کو ایسے اصول فراہم کرتا ہے جن پر عمل پیرا ہوکر دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے اس لئے امت مسلمہ کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کئے ہوئے ورلڈ آرڈر کی موجودگی میں کسی اور ورلڈ آرڈر کی ضرورت نہیں۔
اسلامک ورلڈ آرڈر کے تحت پوری دنیا سے ظلم و نا انصافی کے خاتمے اور نظام مساوات و انصاف کے نفاذ کی عملی جدوجہد کا آغاز ہوا اور جلد ہی اسلام کی اس ابھرتی ہوئی طاقت نے روم اور فارس کی دونوں عالمی استحصالی طاقتوں کو چیلنج کردیا اور ان طاقتوں کو عبرتناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ یوں دنیا میں اسلامک ورلڈ آرڈر کا نفاذ کر دیا گیا۔ اس ورلڈ آرڈر کے نفاذ سے بدامنی اور ظلم و بربریت کا خاتمہ ہوگیا اور ایک ایسے بین الاقوامی معاشرے کا آغاز ہوا جس میں خیر، تعمیر، ارتقاء اور عدل ہی عدل تھا۔ جو انسان کے بنیادی حقوق کا ضامن تھا۔ جس میں بین الاقوامی قوانین کی پاسداری، عالمی امن کے قیام، پر امن بقائے باہمی، غلامی سے نجات، حق کی معاونت اور ظلم سے نجات کے سنہری اصول دیئے گئے تھے۔ اسلامک ورلڈ آرڈر کے سنہری اصولوں کے تحت خلفائے راشدین کے عہد خلافت میں 661ء تک مسلمانوں نے جتنے علاقوں کو فتح کیا وہاں کے غیر منصفانہ اور مستبدانہ قوانین کو منسوخ کردیا گیا۔ اور وہاں کی آبادی کو ہی اقتدار میں شریک کیا گیا۔
عہد خلافت راشدہ اور دور بنو امیہ سے لے کر سلطنت عثمانیہ (موجودہ بیسویں صدی عیسوی کے اوائل) تک مسلمانوں نے اسلامک ورلڈ آرڈر کے اصولوں کے مطابق بین الاقوامی سیاست میں نمایاں کردار ادا کیا اور مسلمانوں کے ہر فاتح نے انہی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی داخلہ و خارجہ پالیسیوں کو تشکیل دیا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved