61 / 1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَبَّلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ رضي اﷲ عنهما وَعِنْدَهُ الأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ التَّمِيْمِيُّ جَالِسًا، فَقَالَ الْأَقْرَعُ: ِأنَّ لِي عَشَرَةً مِنَ الْوَلَدِ مَا قَبَّلْتُ مِنْهُمْ أَحَدًا فَنَظَرَ إِلَيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ لَا يَرْحَمُ لَا يُرْحَمُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الأدب، باب: رَحمة الولد وتقبيله ومعانقته، 5 / 2235، الرقم: 5651، ومسلم في الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: رحمة والعيال وتواضع هو فضل لک، 4 / 1808، الرقم: 2315، وابن حبان في الصحيح، 2 / 202، الرقم: 457، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 241، الرقم: 7287، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 46، الرقم: 91، 99، والبيهقي في السنن الکبری، 7 / 100، الرقم: 13354، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 142، الرقم: 3419.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما کو چوما تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اُس وقت ایک صحابی اَقرع بن حابس تمیمی بھی بیٹھے ہوئے تھے (یہ دیکھ کر) وہ بولے: (یا رسول اﷲ!) میرے دس بیٹے ہیں میں نے تو کبھی اُن میں سے کسی کو نہیں چوما. اِس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کی طرف دیکھ کر فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا.‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے.
62 / 2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ أَبَصَرَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ يُقَبِّلُ حُسَيْنًا، فَقَالَ: إِنَّ لِي عَشَرَةً مِنَ الْوَلَدِ مَا فَعَلْتُ هَذَا بِوَاحِدٍ مِنْهُمْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ لَا يَرْحَمُ لَا يُرْحَمُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَهُ.
2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الأدب، باب: رحمة الولد وتقبيله ومعانقته، 5 / 2235، الرقم: 5651، وأبو داود في السنن، کتاب: الأدب، باب: في قبلة الرَّجل ولده، 4 / 355، الرقم: 5218، وابن حبان في الصحيح، 2 / 202، الرقم: 457، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 241، الرقم: 7287، والبيهقي في السنن الکبری، 7 / 100، الرقم: 13354، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 46، الرقم: 91.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت حسین علیہ السلام کو بوسہ دیتے ہوئے دیکھا، تو عرض کیا: میرے دس بیٹے ہیں لیکن میں نے آج تک اُن میں سے کسی کے ساتھ بھی ایسا (پیار بھرا برتاؤ) نہیں کیا. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا.‘‘
اِسے امام بخاری اور ابو داود نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے.
63 / 3. عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا يَرْحَمُ اﷲُ مَنْ لَا يَرْحَمُ النَّاسَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
3: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: التوحيد، باب: قول اﷲ تبارک وتعالی: قل ادعوا اﷲ أو ادعوا الرحمن، 6 / 2686، الرقم: 6941، وأيضًا في الأدب المفرد، 1 / 48، الرقم: 96، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 214، الرقم: 25356، والقضاعي في مسند الشهاب، 2 / 66، الرقم: 894، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 41، الرقم: 17682.
’’حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اُس شخص پر رحم نہیں فرماتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا.‘‘
اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے.
64 / 4. عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ لَا يَرْحَمِ النَّاسَ لَا يَرْحَمْهُ اﷲُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
4: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: رحمته الصبيان والعيال، 4 / 1809، الرقم: 2319، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 48، الرقم: 96، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 214، الرقم: 25356، والقضاعي في مسند الشهاب، 2 / 66، الرقم: 894، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 41، الرقم: 17682.
’’حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا اس پر اللہ رحم نہیں کرے گا.‘‘
اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے.
65 / 5. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اﷲَ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ کُلِّهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
5: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الأدب، باب: الرِّفْقِ في الأمر کُلِّهِ، 5 / 2242، الرقم: 5678، وأيضًا في کتاب: الاستئذان، باب: کيفَ الرّدُّ علی أهل الذِّمّة بالسّلامِ، 5 / 2308، الرقم: 5901، وأيضًا فيکتاب: الدعوات، باب: الدُّعَاءِ عَلَی المُشْرِکِيْنَ، 5 / 2349، الرقم: 6032، ومسلم في الصحيح، کتاب: السّلام، باب: النهي عن ابتداء أهل الکتاب بالسلام وکيف يرد عليهم، 4 / 1706، الرقم: 2165، والترمذي في السنن، کتاب: الاستئذان عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب: ما جاء في التسليم علی أهل الذّمة، 5 / 60، الرقم: 2701، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 102، الرقم: 10213، وعبد الرزاق في المصنف، 6 / 11، الرقم: 9839، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 37، الرقم: 24136، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 164، الرقم: 462، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 278، الرقم: 4047.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یقینا اللہ تعالیٰ ہر ایک معاملہ میں نرمی برتنے کو پسند فرماتا ہے.‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے.
66 / 6. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَا عَائِشَة، إِنَّ اﷲَ رَفِيْقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ کُلِّهِ.
67 / 7. وفي رواية: إِنَّ اﷲَ رَفِيْقٌ وَيُحِبُّ الرِّفْقَ وَيُعْطِي عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِي عَلَی الْعُنْفِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
6 / 7: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب: إِذَا عرَّضَ الذِّمِّيُ وَغَيْرُهُ بِسَبِّ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَلَمْ يُصَرِّح نحو قوله: السّام عليکم، 6 / 2539، الرقم: 6528، ومسلم في الصحيح، کتاب: البر والصلة والأداب، باب: فضل الرّفق، 4 / 2003، الرقم: 2593، وأبو داود في السنن،کتاب: الأدب، باب: في الرفق، 4 / 254، الرقم: 4807، وابن ماجه في السنن، کتاب: الأدب، باب: الرفق، 2 / 1216، الرقم: 3688، ومالک في الموطأ، 2 / 979، الرقم: 1767، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 112، الرقم: 902.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! بیشک اللہ تعالیٰ نرمی سے سلوک کرنے والا ہے اور ہر ایک معاملہ میں نرمی کو پسند کرتا ہے.‘‘
’’اور ایک روایت میں ہے کہ فرمایا: اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی پر اتنا عطا فرماتا ہے کہ اتنا سختی پر بھی عطا نہیں کرتا.‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے.
68 / 8. عَنْ جَرِيْرٍ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَنْ يُحْرَمِ الرِّفْقَ يُحْرَمِ الْخَيْرَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه.
8: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: البر والصلة والأداب، باب: فضل الرفق، 4 / 2003، الرقم: 2592، وأبو داود في السنن، کتاب: الأدب، باب: في الرفق، 4 / 255، الرقم: 4809، وابن ماجه في السنن، کتاب: الأدب، باب: الرفق، 21 / 1216، الرقم: 3687، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 362، وابن حبان في الصحيح، 2 / 308، الرقم: 598.
’’حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو نرمی سے محروم ہوا وہ خیر سے محروم ہو گیا.‘‘
اسے امام مسلم، ابو داؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے.
69 / 9. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضي اﷲ عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : الرَّاحِمُوْنَ يَرْحَمُهُمْ الرَّحْمَنُ ارْحَمُوْا مَنْ فِي الْأَرْضِ يَرْحَمْکُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ. الرَّحِمُ شُجْنَة مِنَ الرَّحْمَنِ فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلَهُ اﷲُ وَمَنْ قَطَعَهَا قَطَعَهُ اﷲُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَحْمَدُ.
وَقَالَ أَبُوْ عِيسَی: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
9: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: البر والصلة عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب: ما جاء في رحمة الناس، 4 / 323، الرقم: 1924، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 214، الرقم: 25355، وأحمد بن حنبل في المسند،2 / 160، الرقم:6494، والحاکم في المستدرک، 4 / 175، الرقم: 7274.
’’حضرت عبداللہ بن عمرو رضي اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رحم کرنے والوں پر رحمن بھی رحم فرماتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا (یعنی اللہ تعالیٰ) تم پر رحم فرمائے گا. رحم، رحمن سے مشتق ہے. جو اِس کو ملائے گا اللہ تعالیٰ اُسے ملائے گا اور جو اُسے قطع کرے گا اللہ تعالیٰ سے اُس کا رشتہ ٹوٹ جائے گا.‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، ابن ابی شیبہ اور احمد نے روایت کیا ہے. امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے. امام حاکم نے فرمایا کہ اس کی تمام اسانید صحیح ہیں.
70 / 10. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضي اﷲ عنهما يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم : الرَّاحِمُوْنَ يَرْحَمُهُمْ الرَّحْمَنُ. ارْحَمُوْا أَهْلَ الْأَرْضِ يَرْحَمْکُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
وَقَالَ الْمُنْذَرِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ ابْنُ قُدَامَةَ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
10: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب: الأدب، باب: في الرحمة، 4 / 285، الرقم: 4941، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 214، الرقم: 25355، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 41، الرقم: 17683، وأيضًا في شعب الإيمان، 7 / 476، الرقم: 11048، وابن قدامة في إثبات صفة العلو، 1 / 45، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 288، الرقم: 3328، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 140، الرقم: 3412.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رحم کرنے والوں پر رحمن بھی رحم فرماتا ہے. تم زمین والوں پر رحم کرو، تم پر وہ رحم کرے گا جو آسمان میں ہے.‘‘
اسے امام ابو داود اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے. امام منذری نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے. امام ابن قدامہ نے بھی فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے.
71 / 11. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : بَيْنَمَا کَلْبٌ يُطِيْفُ بِرَکِيَة کَادَ يَقْتُلُهُ الْعَطَشُ إِذْ رَأَتْهُ بَغِيٌّ مِنْ بَغَايَا بَنِي إِسْرَائِيْلَ فَنَزَعَتْ مُوْقَهَا فَسَقَتْهُ فَغُفِرَ لَهَا بِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
11: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: أحاديث الأنبيائ، باب: حديث الغار، 3 / 1279، الرقم:3280، ومسلم في الصحيح، کتاب: السلام، باب: فضل سقي البهائم المحترمة وإطعامها، 4 / 1761،الرقم: 2245، والبيهقي في السنن الکبری، 8 / 14، الرقم: 15597، والنووي في رياض الصالحين، 1 / 50، الرقم:50، والعيني في عمدة القاري، 16 / 54، الرقم: 7643.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک کتا کسی کنوئیں کے گرد گھوم رہا تھا. معلوم ہوتا تھا کہ عنقریب پیاس سے مر جائے گا. اِسی اثنا میں بنی اسرائیل کی ایک بدکار عورت کا اُدھر سے گزر ہوا. اُس نے اپنا موزہ اُتارا اور اُس سے پانی نکال کر کتے کو پلا دیا. اُس کے اِس عمل کی وجہ سے اُس کی مغفرت فرما دی گئی.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے.
72 / 12. عَنْ حُذَيْفَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : تَلَقَّتِ الْمَلَائِکَة رُوْحَ رَجُلٍ مِمَّنْ کَانَ قَبْلَکُمْ فَقَالُوْا: أَعَمِلْتَ مِنَ الْخَيْرِ شَيْئًا قَالَ: لَا قَالُوْا: تَذَکَّرْ قَال:َ کُنْتُ أدَاينُ النَّاسَ فَامُرُ فِتْيَانِي أَنْ يُنْظِرُوْا الْمُعْسِرَ وَيَتَجَوَّزُوْا عَنِ الْمُوْسِرِ. قَالَ: قَالَ اﷲُ ل: تَجَوَّزُوْا عَنْهُ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
12: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: المساقاة، باب: فضل إنظار المعسر، 3 / 1194، الرقم: 1560، والنسائي في السنن، کتاب: البيوع، باب: حسن المعاملة والرفق في المطالبة، 7 / 318، الرقم: 4694، وأيضا في السنن الکبری، 4 / 60، الرقم: 6293، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 361، الرقم: 8715، والدارمي في السنن، 2 / 324، الرقم: 2546.
’’حصرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلی اُمتوں کے ایک شخص کا واقعہ ہے کہ (مرنے کے بعد) فرشتے اُس کی روح سے ملے اور پوچھا: کیا تم نے کوئی نیک کام کیا ہے؟ اُس نے کہا: نہیں. فرشتوں نے کہا: یاد کرو، اُس نے کہا: میں لوگوں کو قرض دیتا تھا اور اپنے نوکروں سے کہتا تھا کہ مفلس کو مہلت دینا اور مالدار سے درگزر کرنا، اللہ ل نے فرمایا:(اے فرشتو!) تم بھی اِس سے درگذر کرو.‘‘
اسے امام مسلم، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے.
73 / 13. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: دَخَلَتِ امْرَأَة النَّارَ فِي هِرَّة رَبَطَتْهَا فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْکُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْض.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ .
13: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: بدء الخلق، باب: خمس من الدواب فواسق يقتلن في الحرم، 3 / 1205، الرقم: 3140، والنسائي في السنن، کتاب: الکسوف، باب: نوع اخر، 3 / 137، الرقم: 1482، وابن ماجه في السنن، کتاب: الزهد، باب: ذکر التوبة، 2 / 1421، الرقم: 4256، وعبد الرزاق في المصنف، 11 / 284، الرقم: 20549.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک عورت بلی کی وجہ سے دوزخ میں ڈالی گئی. اُس نے اُسے باندھ رکھا تھا لیکن نہ اُسے کھانے کو دیتی تھی اور نہ ہی چھوڑتی تھی کہ وہ کیڑے مکوڑے ہی کھا لیتی.‘‘
اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے.
74 / 14. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: دَخَلَتِ امْرَأَة النَّارَ فِي هِرَّة رَبَطَتْهَا فَـلَا هِيَ أَطْعَمَتْهَا وَلَا هِيَ أَرْسَلَتْهَا تَأکُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ حَتَّی مَاتَتْ هَزْلًا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
14: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: البر والصلة والأداب، باب: تحريم تعذيب الهرة ونحوها من الحيوان الذي لا يوذی، 4 / 2110، والنسائي في السنن، کتاب: الکسوف، باب: نوع اخر، 3 / 137، الرقم: 1482، وابن ماجه في السنن، کتاب: الزهد، باب: ذکر التوبة، 2 / 1421، الرقم: 4256، وعبد الرزاق في المصنف، 11 / 284، الرقم: 20549.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک عورت بلی کی وجہ سے دوزخ میں داخل ہو گئی، اُس نے ایک بلی کو باندھ کر رکھا، اُس کو نہ کھلایا، نہ پلایا اور نہ ہی اُس کو آزاد کیا کہ وہ حشرات الارض کو کھا لیتی حتیٰ کہ وہ بلی کمزوری کی وجہ سے مر گئی.‘‘ اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے.
75 / 15. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: بَيْنَا رَجُلٌ يَمْشِي فَاشْتَدَّ عَلَيْهِ الْعَطَشُ فَنَزَلَ بِئْرًا فَشَرِبَ مِنْهَا ثُمَّ خَرَجَ فَإِذَا هُوَ بِکَلْبٍ يَلْهَثُ يَأْکُلُ الثَّرَی مِنَ الْعَطَشِ فَقَالَ: لَقَدْ بَلَغَ هَذَا مِثْلُ الَّذِي بَلَغَ بِي فَمَلَأَ خُفَّهُ ثُمَّ أَمْسَکَهُ بِفِيْهِ ثُمَّ رَقِيَ فَسَقَی الْکَلْبَ فَشَکَرَ اﷲُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ. قَالُوْا: يَا رَسُولَ اﷲِ، وَإِنَّ لَنَا فِي الْبَهَائِمِ أَجْرًا؟ قَالَ: فِي کُلِّ کَبِدٍ رَطْبَة أَجْرٌ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمَالِکٌ.
15: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المساقاة، باب: فضل سقي المائ، 2 / 833، الرقم: 2234، وأيضًا في کتاب: المظالم والغضب، باب: الأبار علی الطرق إذا لم يتأذ بها، 2 / 870، الرقم: 2334، وأبو داود في السنن، کتاب: الجهاد، باب: ما يومر به من القيام علی الدّواب والبهائم، 3 / 24، الرقم:2550، ومالک في الموطأ، 2 / 929، الرقم: 1661.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی جا رہا تھا کہ اُسے سخت پیاس لگی. وہ ایک کنوئیں میں اُترا اور اُس سے پانی پیا جب باہر نکلا تو ایک کتے کو ہانپتے دیکھا جو پیاس کی وجہ سے مٹی چاٹ رہا تھا. اُس نے دل میں کہا کہ اِسے بھی اُسی طرح پیاس لگی ہو گی جیسے مجھے پیاس لگی تھی. اُس نے اپنا موزہ پانی سے بھرا اور منہ میں لے کر نکلا اور کتے کو پانی پلا دیا. اللہ تعالیٰ نے اُس کی یہ نیکی قبول کی اور اُسے بخش دیا. صحابہ کرام ث عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! کیا جانوروں کی وجہ سے بھی ہمیں ثواب ملتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر جاندار پر ثواب ملتا ہے.‘‘
اس حدیث کو امام بخاری اور مالک نے روایت کیا ہے.
76 / 16. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي بِطَرِيْقٍ اشْتَدَّ عَلَيْهِ الْعَطَشُ فَوَجَدَ بِئْرًا فَنَزَلَ فِيهَا فَشَرِبَ ثُمَّ خَرَجَ فَإِذَا کَلْبٌ يَلْهَثُ يَأکُلُ الثَّرَی مِنَ الْعَطَشِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: لَقَدْ بَلَغَ هَذَا الْکَلْبَ مِنَ الْعَطَشِ مِثْلُ الَّذِي کَانَ بَلَغَ مِنِّي، فَنَزَلَ الْبِئْرَ فَمَلَأَ خُفَّهُ مَائً ثُمَّ أَمْسَکَهُ بِفِيهِ حَتَّی رَقِيَ، فَسَقَی الْکَلْبَ فَشَکَرَ اﷲُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ. قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، وَإِنَّ لَنَا فِي هَذِهِ الْبَهَائِمِ لَأَجْرًا فَقَالَ: فِي کُلِّ کَبِدٍ رَطْبَة أَجْرٌ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
16: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: السلام، باب: فضل سقي البهائم المحترمة وإطعامها، 4 / 1761، الرقم: 2245، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 517، الرقم: 10710، والنووي في شرحه علی صحيح مسلم، 14 / 242.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص جا رہا تھا کہ اُسے راستے میں شدید پیاس لگی، اُس نے ایک کنواں دیکھا تو اُس کنویں میں اُتر کر پانی پیا، جب وہ کنویں سے نکلا تو اُس نے دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی وجہ سے کیچڑ چاٹ رہا ہے اور ہانپ رہا ہے، اُس شخص نے سوچا اِس کتے کی بھی پیاس سے وہی حالت ہو رہی ہے جو (کچھ دیر قبل) میری ہو رہی تھی، پس وہ کنویں میں اُترا اور اپنے موزے میں پانی بھرا، پھر اُس موزے کو منہ سے پکڑ کر اُوپر چڑھا اور کتے کو پانی پلایا، اللہ تعالیٰ نے اُس کی یہ نیکی قبول کی اور اُسے بخش دیا، صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اِن جانوروں میں بھی ہمارے لئے اجر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر تر جگر والے میں اَجر ہے (یعنی ہر زندہ سے نیکی کرنے پر اجر ملتا ہے).‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے.
77 / 17. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّ امْرَأَةً بَغِيًّا رَأَتْ کَلْبًا فِي يَوْمٍ حَارٍّ يُطِيْفُ بِبِئْرٍ قَدْ أَدْلَعَ لِسَانَهُ مِنَ الْعَطَشِ فَنَزَعَتْ لَهُ بِمُوْقِهَا فَغُفِرَ لَهَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلَی وَابْنُ حِبَّانَ.
17: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: السلام، باب: فضل سقي البهائم المحترمة وإطعامها، 4 / 1761، الرقم: 2245، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 507، الرقم: 10591، وأبو يعلی في المسند، 10 / 423، الرقم: 6035، وابن حبان في الصحيح، 2 / 110، الرقم: 386، وابن عبد البر في التمهيد، 14 / 234، وأيضًا في الاستذکار، 8 / 498، وابن قتيبة في غريب الحديث، 2 / 340.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک فاحشہ عورت نے گرمی کے دنوں میں ایک کتے کو ایک کنویں کے گرد چکر لگاتے دیکھا جس کی پیاس کی وجہ سے زبان باہر نکلی ہوئی تھی، اُس عورت نے اپنے موزے میں پانی لے کر اُس کتے کو پانی پلایا، تو اُس کی بخشش کر دی گئی.‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، احمد، ابو یعلی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے.
78 / 18. عَنْ أَبِي أمَامَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ رَحِمَ وَلَوْ ذَبِيْحَةَ عَصْفُوْرٍ رَحِمَهُ اﷲُ يَوْمَ الْقِيَامَة.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الأَدَبِ.
وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ:رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
18: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 8 / 234، الرقم: 7915، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 / 482، الرقم: 11070، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 138، الرقم: 181.
’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے ایک چڑیا کو ذبیح کرتے وقت بھی رحم کیا، اﷲ تعالیٰ قیامت کے روز اُسے بخش دے گا.‘‘
اِس حدیث کو امام طبرانی، بیہقی اور بخاری نے ’’الادب المفرد‘‘ میں روایت کیا ہے. امام ہیثمی نے فرمایا کہ اسے امام طبرانی نے ثقہ رجال کے ساتھ روایت کیا ہے.
79 / 19. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اﷲ عنهما لَعَنَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم مَنْ مَثَّلَ بِالْحَيَوَانِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَالدَّارِمِيُّ.
19: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الذبائح والصيد، باب: ما يکره من المثلة والمصبورة والمجثمة، 5 / 2100، الرقم: 5196، والنسائي في السنن، کتاب: الضحايا، باب: النهي عن المجثمة، 7 / 238، الرقم: 4442، والدارمي في السنن، 2 / 113، الرقم: 1973، وابن حبان في الصحيح، 12 / 434، الرقم: 5617.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو جانور کے ناک کان وغیرہ کاٹے.‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری، نسائی اور دارمی نے روایت کیا ہے.
80 / 20. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما أَنَّهُ مَرَّ عَلَی قَوْمٍ وَقَدْ نَصَبُوْا دَجَاجَةً حَيَةً يَرْمُوْنَهَا فَقَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم لَعَنَ مَنْ مَثَّلَ بِالْبَهَائِمِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ.
20: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 13، الرقم: 4622.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضي اﷲ عنہما کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جنہوں نے ایک زندہ مرغی کو زمین میں گاڑ رکھا تھا اور اُس پر نشانہ بازی کر رہے تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جانوروں کے مثلہ کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے.‘‘ اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے.
81 / 21. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ جُبَيْرٍ رضی الله عنه يَقُولُ: خَرَجْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما فِي طَرِيْقٍ مِنْ طُرُقِ الْمَدِيْنَة فَإِذَا غِلْمَة يَرْمُوْنَ دَجَاجَةً فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: مَنْ فَعَلَ هَذَا؟ فَتَفَرَّقُوْا فَقَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم لَعَنَ مَنْ يُمَثِّلُ بِالْحَيَوَانِ. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.
21: أخرجه الدّارمي في السنن، 2 / 113، الرقم: 1973، والحاکم في المستدرک، 4 / 261، الرقم: 7575، وأبو نعيم في حلية الأوليائ، 4 / 296،
’’حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عبد اﷲ بن عمر رضي اﷲ عنہما کے ساتھ مدینہ کی ایک راہ پر جا رہا تھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ لڑکے ایک مرغی کو باندھے اُس پر نشانہ بازی کر رہے ہیں. پس حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا: یہ کس نے کیا ہے؟ (یہ سن کر) لڑکے بھاگ گئے. آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جانوروں کے مثلہ کرنے والے پر لعنت بھیجی ہے.‘‘
اس حدیث کو امام دارمی، حاکم اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے. امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث امام بخاری اور مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے.
82 / 22. عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ أَنَسٍ رضی الله عنه عَلَی الْحَکَمِ بْنِ أَيُوْبَ فَرَأَی غِلْمَانًا أَوْ فِتْيَانًا نَصَبُوْا دَجَاجَةً يَرْمُوْنَهَا فَقَالَ أَنَسٌ رضی الله عنه: نَهَی النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنْ تُصْبَرَ الْبَهَائِمُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ.
22: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الذبائح والصيد، باب: ما يکره من المثلة والمصبورة والمجثمة، 5 / 2100، الرقم: 5194، وأبو داود في السنن، کتاب: الضحايا، باب: في النهي أن تصبر البهائم والرفق بالذبيحة، 3 / 100، الرقم: 2816، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 171، الرقم: 12769، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 86، الرقم: 17908.
’’حضرت ہشام بن زیاد کا بیان ہے کہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت حکم بن ایوب کی خدمت میں حاضر ہوا پس اُنہوں نے چند لڑکوں یا نوجوانوں کو دیکھا کہ ایک مرغی کو باندھ کر اُس پر تیر چلا رہے ہیں. حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جانوروں کو باندھ کر مارنے سے منع فرمایا ہے.‘‘
اسے امام بخاری اور ابو داود نے روایت کیا ہے.
83 / 23. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما أَنَّهُ دَخَلَ عَلَی يَحْيَی بْنِ سَعِيْدٍ وَغُلَامٌ مِنْ بَنِي يَحْيَی رَابِطٌ دَجَاجَةً يَرْمِيْهَا فَمَشَی إِلَيْهَا ابْنُ عُمَرَ حَتَّی حَلَّهَا ثُمَّ أَقْبَلَ بِهَا وَبِالْغُـلَامِ مَعَهُ فَقَالَ: ازْجُرُوْا غُلَامَکُمْ عَنْ أَنْ يَصْبِرَ هَذَا الطَّيْرَ لِلْقَتْلِ فَإِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم نَهَی أَنْ تُصْبَرَ بَهِيْمَة أَوْ غَيْرُهَا لِلْقَتْلِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَ أحْمَدُ.
23: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الذبائح والصيد، باب: ما يکره من المثلة والمصبورة والمجثمة، 5 / 2100، الرقم: 5195، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 94، الرقم: 5682، وأبو عوانة في المسند، 5 / 53، الرقم: 7765، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 334، الرقم: 19268.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضي اﷲ عنہما، حضرت یحییٰ بن سعید کے پاس گئے تو حضرت یحییٰ کی اولاد میں سے ایک لڑکے کو دیکھا کہ مرغی کو باندھ کر اُسے پتھر مار رہا ہے. حضرت عبد اﷲ بن عمر رضي اﷲ عنہما نے اُس کے پاس جا کر اُسے آزاد کیا. پھر مرغی اور اُس لڑکے کو ساتھ لے کر حضرت یحییٰ بن سعید کے پاس گئے اور فرمایا: اپنے لڑکے کو تنبیہ کریں کہ پرندے کو اِس طرح بے بس نہ کیا کرے کیونکہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مویشی وغیرہ کو باندھ کر قتل کرنے سے منع فرمایا ہے.‘‘
اس حدیث کو امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے.
84 / 24. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ جُبَيْرٍ رضی الله عنه قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما فَمَرُّوْا بِفِتْيَة أَوْ بِنَفَرٍ نَصَبُوْا دَجَاجَةً يَرْمُوْنَهَا فَلَمَّا رَأَوْا ابْنَ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما تَفَرَّقُوْا عَنْهَا وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: مَنْ فَعَلَ هَذَا إِنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم لَعَنَ مَنْ فَعَلَ هَذَا. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
24: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الذبائح والصيد، باب: ما يکره من المثلة والمصبورة والمجثمة، 5 / 2100، الرقم: 5196، وابن سرايا في سلاح المؤمن في الدعائ، 1 / 229، الرقم: 412، والحسيني في البيان والتعريف، 2 / 162، الرقم: 1367، والعسقلاني في الوقوف علی الموقوف، 1 / 105، الرقم: 134.
’’حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضرت عبد اﷲ بن عمر رضي اﷲ عنہما کے ساتھ تھا کہ آپ کا گزر چند لڑکوں یا آدمیوں کے پاس سے ہوا جو ایک مرغی کو باندھ کر نشانہ بازی کر رہے تھے. جب اُنہوں نے حضرت عبد اﷲ بن عمر رضي اﷲ عنہما کو دیکھا تو منتشر ہوگئے اور حضرت عبد اﷲ بن عمر رضي اﷲ عنہما نے دریافت فرمایا: یہ کام کس نے کیا ہے؟ بیشک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس پر لعنت فرمائی ہے جو ایسا کام کرے.‘‘
اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے.
85 / 25. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ جُبَيْرٍ رضی الله عنه قَالَ: مَرَّ ابْنُ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما بِفِتْيَانٍ مِنْ قُرَيْشٍ قَدْ نَصَبُوْا طَيْرًا وَهُمْ يَرْمُوْنَهُ وَقَدْ جَعَلُوْا لِصَاحِبِ الطَّيْرِ کُلَّ خَاطِئَة مِنْ نَبْلِهِمْ فَلَمَّا رَأَوْا ابْنَ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما تَفَرَّقُوْا، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: مَنْ فَعَلَ هَذَا لَعَنَ اﷲُ مَنْ فَعَلَ هَذَا إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم لَعَنَ مَنِ اتَّخَذَ شَيْئًا فِيْهِ الرُّوْحُ غَرَضًا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.
25: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الصيد، والذبائح وما يؤکل من الحيوان، باب: النهي عن صبر البهائم، 3 / 1550، الرقم: 1958، والترمذي في السنن، کتاب: الصيد عن رسول اﷲ، باب: ما جاء في کراهية أکل المصبورة، 4 / 72، الرقم: 1475، وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، والنسائي في السنن، کتاب: الضحایا، باب: النهي المجثمة، 7 / 239، الرقم: 4444، وابن ماجه في السنن، کتاب: الذبائح، باب: النهي عن صبر البهائم وعن المثلة، 2 / 1063، الرقم: 3187.
’’امام سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضي اﷲ عنہما کا قریش کے چند جوانوں پر گذر ہوا جو ایک پرندے کو باندھ کر اُس پر تیر اندازی کی مشق کر رہے تھے اور اُنہوں نے پرندے والے سے یہ طے کر لیا تھا کہ جس کا تیر نشانہ پر نہیں لگے گا وہ اُس کو کچھ دے گا، جب اُنہوں نے حضرت عبد اﷲ بن عمر رضي اﷲ عنہما کو دیکھا تو اِدھر اُدھر ہو گئے. حضرت عبد اﷲ بن عمر رضي اﷲ عنہما نے فرمایا: جو شخص اِس طرح کرے اُس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو، جو شخص کسی جاندار کو ہدف بنائے بلاشبہ اُس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعنت کی ہے.‘‘ اِس حدیث کو امام مسلم، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے.
86 / 26. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ: نَزَعَ رَجُلٌ لَمْ يَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ غُصْنَ شَوْکٍ عَنِ الطَّرِيْقِ إِمَّا کَانَ فِي شَجَرَة فَقَطَعَهُ وَأَلْقَاهُ وَإِمَّا کَانَ مَوْضُوْعًا فَأَمَاطَهُ فَشَکَرَ اﷲُ لَهُ بِهَا فَأَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
26: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب: الأدب، باب: في إماطة الأذی عن الطريق، 4 / 362، الرقم: 5245، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 286،الرقم: 7834، وابن حبان في الصحيح، 2 / 297، الرقم: 540، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 276، الرقم: 3133، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 99، الرقم: 4276.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی نے قطعاً کوئی نیکی نہیں کی تھی سوائے ایک کانٹے دار ٹہنی کو راستے سے ہٹانے کے. شاید اُسے کسی نے درخت سے کاٹ کر پھینک دیا تھا یا کسی اور وجہ سے گری پڑی تھی. اُس کا اُسے (لوگوں کی) تکلیف کے باعث راہ سے ہٹانا اﷲ تعالیٰ نے قبول فرمایااور اُس کی وجہ سے اُسے جنت میں داخل فرما دیا.‘‘ اسے امام ابو داود، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے.
87 / 27. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ يَزِيدَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ نَهَی عَنِ النُّهْبَة وَالْمُثْلَة. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
27: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الذبائح والصيد، باب: ما يکره من المثلة والمصبورة والمجثمة، 5 / 2100، الرقم: 5197، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 307، الرقم: 18762،18764، وابن الجعد في المسند، 1 / 85، الرقم: 476، وابن أبي شيبة في المصنف، 4 / 481، الرقم: 22321، والشيباني في الأحاد والمثاني، 4 / 137، الرقم: 2117، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 124، الرقم: 3872.
’’حضرت عبد اﷲ بن یزید ص، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نے لوٹ مار کرنے اور ناک کان وغیرہ اعضاء کاٹنے سے منع فرمایا.‘‘
اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے.
88 / 28. عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي سَفَرٍ فَانْطَلَقَ لِحَاجَتِهِ فَرَأَيْنَا حُمَرَةً مَعَهَا فَرْخَانِ فَأَخَذْنَا فَرْخَيْهَا فَجَائَتِ الْحُمَرَة فَجَعَلَتْ تَفْرِشُ فَجَائَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: مَنْ فَجَعَ هَذِهِ بِوَلَدِهَا رُدُّوْا وَلَدَهَا إِلَيْهَا وَرَأَی قَرْيَةَ نَمْلٍ قَدْ حَرَّقْنَاهَا فَقَالَ: مَنْ حَرَّقَ هَذِهِ؟ قُلْنَا: نَحْنُ قَالَ: إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي أَنْ يُعَذِّبَ بِالنَّارِ إِلَّا رَبُّ النَّارِ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ.
28: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب: الجهاد، باب: في کراهية حرق العدو بالنار، 3 / 55، الرقم: 2675، وأيضًا فيکتاب: الأدب، باب: في قتل الذر، 4 / 367، الرقم: 5268، والذهبي في الکبائر، 1 / 206، والزيلعي في نصب الراية، 3 / 407، والنووي في رياض الصالحين، 1 / 367، الرقم: 367.
’’حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سفر میں ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے تو ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے ساتھ دو بچے تھے. ہم نے اُس کے بچے پکڑ لئے تو چڑیا پر بچھانے لگی. پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کس نے اِسے اِس کے بچوں کی وجہ سے تڑپایا ہے؟ اِس کے بچے اِسے لوٹا دو. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چیونٹیوں کا ایک بل دیکھا جسے ہم نے جلا دیا تھا. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِسے کس نے جلایا ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے: (یا رسول اﷲ!) ہم نے. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آگ کے ساتھ عذاب دینا، آگ (کو پیدا کرنے والے اس) کے رب کے سوا کسی کے لئے مناسب نہیں ہے.‘‘
اسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے.
89 / 29. عَنِ عَبْدِ اﷲِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم فِي سَفَرٍ وَمَرَرْنَا بِشَجَرَة فِيْهَا فَرْخَا حُمَّرَة، فَأَخَذْنَهُمَا. قَالَ: فَجَائَتِ الْحُمَّرَة إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَهيَ تَصِيْحُ، فَقَالَ: مَنْ فَجَعَ هَذِهِ بِفَرْخَيْهَا؟ قَالَ: فَقُلْنَا: نَحْنُ. قَالَ: رُدُّوْهُمَا.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
29: أخرجه الحاکم في المستدرک علی الصحيحين، 4 / 267، الرقم: 7599، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 / 321، والهناد في الزهد، 2 / 620، الرقم: 1337، والجزري في النهاية، 4 / 121.
’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے، ہم ایک درخت کے پاس سے گزرے جس میں چَنڈُول(ایک خوش آواز چڑیا) کے دو بچے تھے، ہم نے وہ دوبچے اُٹھا لئے. راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ چَنڈُول حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں شکایت کرتے ہوئے حاضر ہوئی. پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کس نے اِس چَنڈُول کو اِس کے بچوں کی وجہ سے تکلیف دی ہے؟ راوی بیان کرتے ہیں: ہم نے عرض کیا: ہم نے. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِس کے بچے اِسے لوٹا دو.‘‘
اس حدیث کو امام حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے. امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے.
90 / 30. عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه أَنَّهُ قَالَ: نَزَلَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم مَنْزِلًا فَانْطَلَقَ لِحَاجَتِهِ فَجَائَ وَقَدْ أَوْقَدَ رَجُلٌ عَلَی قَرْيَة نَمْلٍ إِمَّا فِي الْأَرْضِ وَإِمَّا فِي شَجَرَة فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَيُکُمْ فَعَلَ هَذَا؟ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَنَا يَا رَسُوْلَ اﷲِ. قَالَ: اطْفُهَا اطْفُهَا. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ أَحْمَدُ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
30: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 396، الرقم: 3763، والطيالسي في المسند، 1 / 46، الرقم: 345، والفاکهي في أخبار مکة، 5 / 141، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 41.
’’حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی کسی حاجت کے لئے تشریف لے گئے، دیکھا کہ کسی شخص نے زمین پر یا ایک درخت پر چیونٹیوں کے بل میں آگ لگا رکھی ہے. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کس نے یہ کیا ہے؟ لوگوں میں سے ایک آدمی بولا: یا رسول اﷲ! میں نے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِسے بجھاؤ، اِسے بجھاؤ.‘‘
اسے امام احمد نے روایت کیا ہے. امام ہیثمی نے فرمایا کہ اِسے امام احمد نے صحیح رجال کے ساتھ روایت کیا ہے.
91 / 31. عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ رضی الله عنه عَنْ أَبِيْهِ، قَالَ: جَائَ مَاعِزُ بْنُ مَالِکٍ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، طَهِرْنِي. فَقَالَ: وَيْحَکَ ارْجِعْ فَاسْتَغْفِرِ اﷲَ وَتُبْ إِلَيْهِ، قَالَ: فَرَجَعَ غَيْرَ بَعِيْدٍ ثُمَّ جَائَ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، طَهِرْنِي، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : وَيْحَکَ ارْجِعْ فَاسْتَغْفِرِ اﷲَ وَتُبْ إِلَيْهِ، قَالَ: فَرَجَعَ غَيْرَ بَعِيْدٍ ثُمَّ جَائَ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ: طَهِرْنِي فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم مِثْلَ ذَلِکَ حَتَّی إِذَا کَانَتِ الرَّابِعَة قَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ: فِيْمَ أطَهِرُکَ فَقَالَ: مِنَ الزِّنَی فَسَأَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَبِهِ جُنُوْنٌ فَأخْبِرَ أَنَّهُ لَيْسَ بِمَجْنُوْنٍ. فَقَالَ: أَشَرِبَ خَمْرًا فَقَامَ رَجُلٌ فَاسْتَنْکَهَهُ فَلَمْ يَجِدْ مِنْهُ رِيْحَ خَمْرٍ. قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَزَنَيْتَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ فَأَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ فَکَانَ النَّاسُ فِيْهِ فِرْقَتَيْنِ قَائِلٌ يَقُوْلُ: لَقَدْ هَلَکَ لَقَدْ أَحَاطَتْ بِهِ خَطِيْئَتُهُ وَقَائِلٌ يَقُوْلُ: مَا تَوْبَة أَفْضَلَ مِنْ تَوْبَة مَاعِزٍ أَنَّهُ جَائَ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَوَضَعَ يَدَهُ فِي يَدِهِ ثُمَّ قَالَ: اقْتُلْنِي بِالْحِجَارَة. قَالَ: فَلَبِثُوْا بِذَلِکَ يَوْمَيْنِ أَوْ ثَـلَاثَةً ثُمَّ جَائَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُمْ جُلُوْسٌ فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ فَقَالَ: اسْتَغْفِرُوْا لِمَاعِزِ بْنِ مَالِکٍ. قَالَ: فَقَالُوْا: غَفَرَ اﷲُ لِمَاعِزِ بْنِ مَالِکٍ. قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ أمَّة لَوَسِعَتْهُمْ. قَالَ: ثُمَّ جَائَتْهُ امْرَأَة مِنْ غَامِدٍ مِنَ الْأَزْدِ فَقَالَتْ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ طَهِرْنِي فَقَالَ: وَيْحَکِ ارْجِعِي فَاسْتَغْفِرِي اﷲَ وَتُوْبِي إِلَيْهِ. فَقَالَتْ: أَرَاکَ تُرِيْدُ أَنْ تُرَدِّدَنِي کَمَا رَدَّدْتَ مَاعِزَ بْنَ مَالِکٍ. قَالَ: وَمَا ذَاکِ؟ قَالَتْ: إِنَّهَا حُبْلَی مِنَ الزِّنَی. فَقَالَ: أَنْتِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ فَقَالَ لَهَا: حَتَّی تَضَعِي مَا فِي بَطْنِکِ. قَالَ: فَکَفَلَهَا رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ حَتَّی وَضَعَتْ قَالَ: فَأَتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: قَدْ وَضَعَتِ الْغَامِدِيَة. فَقَالَ: إِذًا لَا نَرْجُمُهَا وَنَدَعُ وَلَدَهَا صَغِيْرًا لَيْسَ لَهُ مَنْ يُرْضِعُهُ فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ إِلَيَّ رَضَاعُهُ يَا نَبِيَّ اﷲِ. قَالَ فَرَجَمَهَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَالدَّارُقُطْنِيُّ.
31: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الحدود، باب: من اعترف علی نفسه بالزنی، 3 / 1321، الرقم: 1695، والنسائي في السنن الکبری، 4 / 276، الرقم: 7163، والدار قطني في السنن، 3 / 91، الرقم: 39، وأبو عوانة في المسند، 4 / 134، الرقم: 6292، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 117، الرقم: 4843، والبيهقي في السنن الکبری، 8 / 214، الرقم: 16705.
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے پاک کر دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تیری خرابی ہو، جاؤ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو، اور توبہ کرو، انہوں نے پھر تھوڑی دیر بعد واپس آ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے پاک کر دیجئے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اسی طرح فرمایا، حتی کہ چوتھی بار ان کے کہنے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں کس چیز سے پاک کروں؟ انہوں نے عرض کیا: زنا سے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے متعلق پوچھا: کیا ان کا دماغ خراب ہے؟ لوگوں نے کہا: نہیں وہ پاگل نہیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : کیا اس نے شراب پی ہے؟ ایک شخص نے کھڑے ہوکر ان کا منہ سونگھا تو شراب کی بدبو محسوس نہیں کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے زنا کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو رجم کرنے کا حکم دیا، بعد میں حضرت ماعز کے متعلق لوگوں کی دو رائیں ہو گئیں، بعض کہتے تھے کہ حضرت ماعز ہلاک ہو گئے اور اس گناہ نے انہیں گھیر لیا اور بعض لوگ یہ کہتے تھے کہ حضرت ماعز کی توبہ سے کسی کی توبہ افضل نہیں ہے کیونکہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر عرض کیا: مجھے پتھروں سے مار ڈالیے، حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ دو، تین دن صحابہ میں یہی اختلاف رہا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے درآں حالیکہ وہ بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلام کرنے کے بعد بیٹھ گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ماعز بن مالک کے لئے استغفار کرو، صحابہ نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ ماعز بن مالک کی مغفرت کرے، پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ماعز نے ایسی توبہ کی ہے اگر اس کو تمام امت پر تقسیم کردیا جائے تو اسے کافی ہو گی. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس قبیلہ غامد سے جو ازد کی شاخ ہے ایک عورت آئی اور کہنے لگی: یا رسول اللہ! مجھے پاک کر دیجئے. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تیری خرابی ہو، جاؤ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو اور توبہ کرو، وہ کہنے لگی میرا خیال ہے کہ آپ مجھے بھی اسی طرح واپس کر رہے ہیں جس طرح آپ نے ماعز بن مالک کو واپس کر دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم نے کیا کیا ہے؟ اس نے عرض کیا: وہ زنا سے حاملہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم خود؟ اس نے عرض کیا: جی! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم وضع حمل تک رک جاؤ. حضرت بریدہ کہتے ہیں پھر ایک انصاری شخص نے اس کی خبرگیری اپنے ذمہ لے لی حتی کہ اس کا وضع حمل ہوگیا، حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ پھر وہ (انصاری) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ غامدیہ کا وضع حمل ہو گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہم اس حال میں اس کو رجم نہیں کریں گے کہ اس کا بچہ چھوٹا ہو اور اسے دودھ پلانے والا کوئی نہ ہو، پھر ایک انصاری نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اسے دودھ پلوانا میرے ذمہ ہے. راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عورت کو رجم کر دیا.‘‘
اسے امام مسلم، نسائی اور دارقطنی نے روایت کیا ہے.
92 / 32. عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رضی الله عنه أَنَّ امْرَأَةً مِنْ جُهَيْنَةَ أَتَتْ نَبِيَّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَهِيَ حُبْلَی مِنَ الزِّنَی فَقَالَتْ: يَا نَبِيَّ اﷲِ، أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ فَدَعَا نَبِيُّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَلِيَهَا فَقَالَ: أَحْسِنْ إِلَيْهَا فَإِذَا وَضَعَتْ فَأتِنِي بِهَا فَفَعَلَ فَأَمَرَ بِهَا نَبِيُّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَشُکَّتْ عَلَيْهَا ثِيَابُهَا ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَرُجِمَتْ ثُمَّ صَلَّی عَلَيْهَا فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: تُصَلِّي عَلَيْهَا يَا نَبِيَّ اﷲِ وَقَدْ زَنَتْ فَقَالَ: لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ سَبْعِيْنَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِيْنَة لَوَسِعَتْهُمْ وَهَلْ وَجَدْتَ تَوْبَةً أَفْضَلَ مِنْ أَنْ جَادَتْ بِنَفْسِهَا ِﷲِ تَعَالَی.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالدَّارِمِيِّ.
32: أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب: الحدود، باب: من اعترف علی نفسه بالزنی، 3 / 1324، الرقم: 1696، والدارمي في السنن، 2 / 235، الرقم: 2325، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 117، الرقم: 4843، والمزي في تهذيب الکمال، 34 / 325، الرقم: 7654، والشوکاني في نيل الأوطار، 7 / 280، وابن حزم في المحلی، 11 / 127.
’’حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی درآں حالیکہ وہ زنا سے حاملہ تھی، اس نے عرض کیا: یا نبی اللہ! میں نے لائق حد جرم کیا ہے، آپ مجھ پر حد قائم کیجئے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے سرپرست کو بلایا اور فرمایا: اس کی اچھی طرح نگہداشت کرنا اور جب اس کا وضع حمل ہو جائے تو اسے میرے پاس لے کر آنا، اس نے ایسا ہی کیا، پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے کپڑے کس کر باندھنے کا حکم دیا (تاکہ اس کی بے پردگی نہ ہو) پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے اسے رجم کر دیا گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اس کی نماز جنازہ پڑھا رہے ہیں حالانکہ یہ زانیہ ہے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اس کو مدینہ کے ستر آدمیوں پر تقسیم کیا جائے تو انہیں کافی ہو گی، اور کیا تم نے اس سے افضل کوئی توبہ دیکھی ہے کہ اس (توبہ کرنے والے) نے اللہ کے لئے اپنی جان دے دی ہو!‘‘
اسے امام مسلم اور دارمی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved