1۔ اِذْ یُوْحِيْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَةِ اَنِّيْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ط سَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْهُمْ کُلَّ بَنَانٍo
(الأنفال، 8 : 12)
’’(اے حبیب مکرم! اپنے اعزاز کا وہ منظر بھی یاد کیجئے) جب آپ کے رب نے فرشتوں کو پیغام بھیجا کہ (اصحابِ رسول کی مدد کے لیے) میں (بھی) تمہارے ساتھ ہوں، سو تم (بشارت و نصرت کے ذریعے) ایمان والوں کو ثابت قدم رکھو میں ابھی کافروں کے دلوں میں (لشکر محمدی ﷺ کا) رعب و ہیبت ڈالے دیتا ہوں سو تم(کافروں کی) گردنوں کے اوپر سے ضرب لگانا اور ان کے ایک ایک جوڑ کو توڑ دیناo‘‘
2۔ فَلَمْ تَقْتُلُوْھُمْ وَلٰـکِنَّ اللهَ قَتَلَھُمْ ص وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰـکِنَّ اللهَ رَمٰی ج وَلِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِيْنَ مِنْهُ بَـلَآءً حَسَنًا ط اِنَّ اللهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌo
(الأنفال، 8 : 17)
’’(اے سپاہیانِ لشکرِ اسلام!) ان کافروں کو تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کر دیا اور (اے حبیب محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے اور یہ (اس لیے) کہ وہ اہلِ ایمان کو اپنی طرف سے اچھے انعامات سے نوازے، بے شک اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہےo‘‘
3۔ اِنَّ الَّذِيْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللهَ ط یَدُ اللهِ فَوْقَ اَيْدِيْھِمْ ج فَمَنْ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنْکُثُ عَلٰی نَفْسِهٖ ج وَ مَنْ اَوْفٰی بِمَا عٰـھَدَ عَلَيْهُ اللهَ فَسَیُؤْتِيْهِ اَجْرًا عَظِيْمًاo
(الفتح، 48 : 10)
’’(اے حبیب!) بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اللہ کا ہاتھ ہے۔ پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہو گا اور جس نے (اس) بات کو پورا کیا جس (کے پورا کرنے) پر اس نے اللہ سے عہد کیا تھا تو وہ عنقریب اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گاo‘‘
4۔ یُرِيْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللهِ بِاَفْوَاهِھِمْ وَاللهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَلَوْ کَرِهَ الْکٰفِرُوْنَo
(الصّف، 61 : 8)
’’یہ (منکرینِ حق) چاہتے ہیں کہ وہ اللہ کے نور کواپنے منہ(کی پھونکوں) سے بجھا دیں، جب کہ اللہ اپنے نور کو پورا فرمانے والا ہے اگرچہ کافر کتنا ہی ناپسند کریںo‘‘
1۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : خَرَجَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِلَی الْخَنْدَقِ، فَإِذَا الْمُھَاجِرُوْنَ وَالْأَنْصَارُ یَحْفِرُوْنَ فِي غَدَاةٍ بَارِدَةٍ، فَلَمْ یَکُنْ لَھُمْ عَبِيْدٌ یَعْمَلُوْنَ ذَلِکَ لَھُمْ، فَلَمَّا رَأَی مَا بِھِمْ مِنَ النَّصَبِ وَالْجُوْعِ، قَالَ :
اَللَّھُمَّ إِنَّ الْعَيْشَ عَيْشُ الآخِرَۃ
فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُھَاجِرَۃ
فَقَالُوْا مُجِيْبِيْنَ لَهُ :
نَحْنُ الَّذِيْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدَا
عَلَی الْجِھَادِ مَا بَقِيْنَا أَبَدَا
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : المغازي، باب : غزوۃ الخندق، وھي الأحزاب، 4 / 1504، الرقم : 3873، وفي کتاب : الجهاد والسیر، باب : التحریض علی القتال، 3 / 1043، الرقم : 2679، ومسلم في الصحیح، کتاب : الجهاد والسیر، باب : غزوۃ الأحزاب، وھي الخندق، 3 / 1431، الرقم : 1805، وابن ماجه نحوه في السنن، کتاب : المساجد والجماعات، باب : أن یجوز بناء المساجد، 1 / 245، الرقم : 742، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 276، الرقم : 13951، وابن حبان في الصحیح، 16 / 249، الرقم : 7259، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 400، الرقم : 32371۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ (غزوۂ خندق کے موقع پر) خندق کی کھدائی والی جگہ تشریف لے گئے جہاں مہاجرین و انصار صحابہ سخت سردی میں صبح صبح ہی کھدائی میں لگ گئے تھے۔ ان حضرات کے پاس کوئی خادم اور غلام نہ تھے جو ان کی طرف سے اس کام کو انجام دیتے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ان کی مشقت اور بھوک دیکھ کر فرمایا : اے میرے اللہ! بلا شبہ زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔ اے اللہ! ان انصار و مہاجرین کی مغفرت فرما! انصار و مہاجرین نے آپ ﷺ کی بات کا جواب دیتے ہوئے عرض کیا : ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد مصطفی ﷺ کے ہاتھوں پر جہاد کی بیعت کی ہے جب تک ہم باقی رہیں (اس عہد پر قائم رہیں گے)۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَلَمْ آتِکُمْ ضُلَّالًا فَهَدَاکُمُ اللهُ عزوجل بِي؟ أَلَمْ آتِکُمْ مُتَفَرِّقِيْنَ فَجَمَعَکُمُ اللهُ بِي؟ أَلَمْ آتِکُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ اللهُ بَيْنَ قُلُوْبِکُمْ بِي؟ قَالُوْا : بَلَی یَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ : أَفَـلَا تَقُوْلُوْنَ جِئْتَنَا خَائِفًا فَآمَنَّاکَ، وَطَرِيْدًا فآوَيْنَاکَ، وَمَخْذُوْلًا فَنَصَرْنَاکَ۔ فَقَالُوْا : بَلْ ِللهِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی الْمَنُّ بِهِ عَلَيْنَا وَلِرَسُوْلِهِ ﷺ ۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ نَحْوَهُ فِي حَدِيْثٍ طَوِيْلٍ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدٍ، وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ حِبَّانَ۔
2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : المغازي، باب : عزوۃ الطائف في شوال سنۃ ثمان، 4 / 1574، الرقم : 4075، ومسلم في الصحیح، کتاب : الزکاۃ، باب : إعطاء المؤلفۃ لقلوبهم علی الإسلام، 2 / 738، الرقم : 1061، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 91، الرقم : 8347، وفي فضائل الصحابۃ، 1 / 72، الرقم : 242، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 104، الرقم : 12040، وفي فضائل الصحابۃ، 2 / 800، الرقم : 1435، وابن حبان في الثقات، 2 / 81، والعسقلاني في فتح الباري، 8 / 51۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے گروهِ انصار! کیا میں تمہارے پاس اس وقت نہیں آیا جب تم راهِ راست سے بھٹکے ہوئے تھے پس اللہ تعالیٰ نے میرے سبب تمہیں ہدایت عطا فرمائی؟ کیا میں تمہارے پاس اس وقت نہیں آیا جب تم مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے تھے، پس اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہیں جمع فرما دیا؟ کیا میں تمہارے پاس اس وقت نہیں آیا جب تم باہم (جانی) دشمن تھے پھر اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہارے دلوں میں محبت و الفت پیدا فرما دی؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں، یا رسول اللہ! پھر آپ ﷺ نے فرمایا : تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ آپ ہمارے پاس حالتِ خوف میں تشریف لائے پس ہم نے آپ کو امان دی، اور آپ ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب آپ کی قوم نے آپ کو ملک بدر کر دیا تو ہم نے آپ کو پناہ دی، اور آپ ہمارے پاس حالتِ شکست میں تشریف لائے تو ہم نے آپ کی مدد و نصرت کی۔ انہوں نے عرض کیا : (یہ آپ پر ہمارا کوئی احسان نہیں) بلکہ (آپ کا ہمارے پاس تشریف لانا) تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا ہم پر احسان ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری و مسلم نے طویل روایت میں حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ کے طریق سے روایت کیا ہے اور امام نسائی، احمد نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
3۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ الْمِقْدَادُ یَومَ بَدْرٍ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّا لاَ نَقُوْلُ لَکَ کَمَا قَالَتْ بَنُوْ إِسْرَائِيْلَ لِمُوْسَی عليه السلام : {فَاذْھَبْ أَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَ إِنَّا ھَاھُنَا قَاعِدُوْنَ} [المائدۃ، 5 : 24]، وَلَکِنِ امْضِ وَنَحْنُ مَعَکَ فَکَأَنَّهُ سُرِّيَ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ۔
3 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : تفسیر القرآن، باب : قوله : فاذھب أنت وربک فقاتلا إنا ھاھنا قاعدون، 4 / 1684، الرقم : 4333، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 333، الرقم : 11140، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 314، الرقم : 18073، وابن أبي عاصم في الجھاد، 2 / 555، الرقم : 220، وقال : إسناده حسن۔
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ بدر کے وقت حضرت مقداد رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالتِ مآب ﷺ میں یوں عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ! ہم آپ سے وہ بات ہر گز نہیں کہیں گے جو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی : ’’پس تم جاؤ اور تمہارا رب (ساتھ جائے) سو تم دونوں (ہی ان سے) جنگ کرو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔‘‘ [المائدۃ، 5 : 24] بلکہ آپ تشریف لے چلیں، ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کو ان کے اس جواب سے بہت خوشی و مسرت ہوئی۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
4۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ : شَھِدْتُ مِنَ الْمِقْدَادِ مَشْھَدًا لَأَنْ أَکُوْنَ أَنَا صَاحِبَهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا عَلَی الْأَرْضِ مِنْ شَيئٍ قَالَ : أَتَی النَّبِيَّ ﷺ وَکَانَ رَجُـلًا فَارِسًا قَالَ : فَقَالَ : أَبْشِرْ، یَا نَبِيَّ اللهِ، وَاللهِ، لَا نَقُوْلُ لَکَ کَمَا قَالَتْ بَنُوْ إِسْرَائِيْلَ لِمُوْسَی عليه السلام : {اِذْھَبْ أَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَ إِنَّا ھَاھُنَا قَاعِدُوْنَo} [المائدۃ، 5 : 24] وَلَکِنِ الَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَنَکُوْنَنَّ بَيْنَ یَدَيْکَ، وَعَنْ یَمِيْنِکَ وَعَنْ شِمَالِکَ وَمِنْ خَلْفِکَ حَتَّی یَفْتَحَ اللهُ عَلَيْکَ۔ فَرَأَيْتُ وَجْهَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ یُشْرِقُ لِذَلِکَ وَسَرَّهُ ذَلِکَ۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالْبَزَّارُ۔
4 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : المغازی، باب : قول الله تعالی : إذ تستغیثون ربکم فاستجاب لکم أني ممددکم بألف من الملائکۃ مردفین الخ، 4 / 1456، الرقم : 3736 وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 457، الرقم : 4376، والبزار في المسند، 4 / 285، الرقم : 1455، 1 / 389، الرقم : 3698، 4070، والحاکم في المستدرک، 3 / 392، الرقم : 5486، والطبراني في المعجم الکبیر بإسناد جید، 17 / 124، الرقم : 306، والشاشي في المسند، 2 / 197، الرقم : 766 وابن أبي عاصم في الجھاد، 2 / 556، الرقم : 221، وإسناده صحیح۔
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کا ایک ایسا منظر دیکھا کہ اس منظر کا مالک ہونا میرے لیے دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر محبوب ہے (یعنی کاش اس وقت ان کی جگہ میں ہوتا) وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ (یعنی حضرت مقداد ص) حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ ایک بہادر شخص تھے، انہوں نے عرض کیا : یا نبی اللہ! آپ کو خوشخبری ہو۔ خدا کی قسم! ہم آپ سے اس طرح نہیں کہیں گے جس طرح بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا : {پس تم جاؤ اور تمہارا رب (ساتھ جائے) سو تم دونوں (ہی ان سے) جنگ کرو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں}۔ لیکن اس ذات کی قسم! جس نے حق کے ساتھ آپ کو مبعوث فرمایا ہے ہم (جہاد میں) آپ کے سامنے، دائیں طرف اور بائیں طرف اور آپ کے پیچھے ہوں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ آپ کو فتح عطا فرما دے، پس میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کا چہرۂ اقدس دیکھا کہ وہ خوشی سے چمک اٹھا اور آپ ﷺ کو ان کی اس بات نے بہت خوش کیا۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، احمد، حاکم نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور بزار نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَا یُؤْمِنُ عَبْدٌ (وَفِي حَدِيْثِ عَبْدِ الْوَارِثِ : الرَّجُلِ) حَتَّی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَھْلِهِ وَمَالِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدَ وَأَبُوْ یَعْلَی۔
5 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الإیمان، باب : وجوب محبۃ رسول الله ﷺ أکثر من الأھل والولد والوالد والناس أجمعین وإطلاق عدم الإیمان علی من لم یحبه ھذه المحبۃ،1 / 67، الرقم : 44، وأحمد بن حنبل مثله في المسند، 5 / 162، الرقم : 21480، وأبو یعلی في المسند، 7 / 6، الرقم : 3895، والبیهقي في شعب الإیمان، 2 / 129، الرقم : 1375، وابن حیان في العظمۃ، 5 / 1780، الرقم : 2824، والدیلمي في مسند الفردوس، 4 / 53، الرقم : 6169، وابن منصور في کتاب السنن، 2 / 204، الرقم : 2443۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے گھروالوں، اس کے مال اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہو جاؤں۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم، احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے
6۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ شَاوَرَ حِيْنَ بَلَغَهُ إِقْبَالُ أَبِي سُفْیَانَ۔ قَالَ : فَتَکَلَّمَ أَبُوْ بَکْرٍ رضی الله عنه فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ تَکَلَّمَ عُمَرُ رضی الله عنه فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ رضی الله عنه فَقَالَ : إِيَّانَا تُرِيْدُ یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهِ، لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِيْضَھَا الْبَحْرَ لَأَخَضْنَاھَا، لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَکْبَادَھَا إِلَی بَرْکِ الْغِمَادِ لَفَعَلْنَا، قَالَ : فَنَدَبَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ النَّاسَ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔
6 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الجهاد والسیر، باب : غزوۃ بدر، 3 / 1403، الرقم : 1779، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 257، الرقم : 13729، 3 / 219۔220، الرقم : 13320۔ 13321، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 362، الرقم : 36708، وأبو عوانۃ في المسند، 4 / 283، الرقم : 6767، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 60 / 159، 20 / 250، والنووي في شرحه علی صحیح مسلم، 12 / 124، والمزي في تھذیب الکمال، 10 / 280، والشوکاني في نیل الأوطار، 8 / 45۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کو جب ابو سفیان کے تجارتی قافلہ کی آمد کا پتہ چلا توآپ ﷺ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کچھ کہنا چاہا، آپ ﷺ نے منہ پھیر لیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کچھ کہنا چاہا آپ ﷺ نے ان کی طرف سے بھی منہ پھیر لیا۔ تو حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا آپ ہم لوگوں (یعنی انصار) سے رائے لینا چاہتے ہیں؟ تو قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر آپ ہمیں حکم دیں کہ ہم اپنی سواریاں سمندر میں ڈال دیں تو ہم سمندر میں ڈال کر رہیں گے اور اگر آپ حکم دیں کہ ہم اپنی اونٹنیوں کے سینے برک الغماد پہاڑ سے جا ماریں تو ہم ایسا ضرور کر کے رہیں گے اس پر رسول اللہ ﷺ (خوش ہوئے اور آپ ﷺ نے) لوگوں کو دعوتِ (جہاد) دی۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
7۔ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ رضی الله عنه عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی الله عنه یَقُوْلُ : أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَنْ نَتَصَدَّقَ، فَوَافَقَ ذَلِکَ عِنْدِي مَالًا، فَقُلْتُ : اَلْیَوْمَ أَسْبِقُ أَبَا بَکْرٍ إِنْ سَبَقْتُهُ یَوْمًا، قَالَ : فَجِئْتُ بِنِصْفِ مَالِي، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِکَ؟ قُلْتُ : مِثْلَهُ، وَأَتَی أَبُوْ بَکْرٍ بِکُلِّ مَا عِنْدَهُ، فَقَالَ ﷺ : یَا أَبَا بَکْرٍ، مَا أَبْقَيْتَ لِأَھْلِکَ؟ قَالَ : أَبْقَيْتُ لَهُمُ اللهَ وَرَسُوْلَهُ، قُلْتُ : لاَ أَسْبِقُهُ إِلَی شَيئٍ أَبَدًا۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالدَّارِمِيُّ۔ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔
7 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : في مناقب أبي بکر وعمر رضي الله عنھما کلیھما، 6 / 614، الرقم : 3675، وأبو داود في السنن، کتاب : الزکاۃ، باب : الرخصۃ في ذالک، 2 / 129، الرقم : 1678، والدارمي في السنن، 1 / 480، الرقم : 1660، والحاکم في المستدرک، 1 / 574، الرقم : 1510۔
’’حضرت زیدبن اسلم رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمیں حضور نبی اکرم ﷺ نے صدقہ دینے کا حکم فرمایا۔اس حکم کی تعمیل کے لئے میرے پاس مال تھا۔ میں نے (اپنے آپ سے)کہا، اگر میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کبھی سبقت لے جا سکا تو آج سبقت لے جاؤں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اپنا نصف مال لے کر حاضرِ خدمت ہوا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟ میں نے عرض کیا : اتنا ہی مال اُن کے لئے چھوڑ آیا ہوں۔ (اتنے میں) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جوکچھ اُن کے پاس تھا وہ سب کچھ لے کر حاضرِخدمت ہوئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اے ابو بکر! اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟ انہوں نے عرض کی : میں ان کے لئے اللہ تعالیٰ اور اُس کا رسول ﷺ چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے (دل میں) کہا، میں اِن سے کسی شے میں آگے نہ بڑھ سکوں گا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، اور ابو داود اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
8۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالکٍ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا أَمَرَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِبَيْعَةِ الرِّضْوَانِ کَانَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رضی الله عنه رَسُوْلَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ إِلَی أَھْلِ مَکَّةَ، قَالَ : فَبَایَعَ النَّاسُ۔ قَالَ : فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إنَّ عُثْمَانَ فِي حَاجَةِ اللهِ وَحَاجَةِ رَسُوْلِهِ۔ فَضَرَبَ بِإِحْدَی یَدَيْهِ عَلَی الْأُخْرَی، فَکَانَتْ یَدُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ لِعُثْمَانَ خَيْرًا ِمنْ أَيْدِيْھِمْ لِأَنْفُسِھِمْ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ۔ وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔
8 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : في مناقب عثمان بن عفان، 5 / 626، الرقم : 3702، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 232، الرقم : 8494، والمزي في تهذیب الکمال، 5 / 402، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 39 / 15، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 7 / 26، الرقم : 2407، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 4 / 187، والسیوطي في الدر المنثور، 7 / 523۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے بیعت رضوان کا حکم دیا تو اس وقت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے سفیر بن کر مکہ والوں کے پاس گئے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عثمان، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے کام میں مصروف ہے۔ یہ فرما کر آپ ﷺ نے (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کے لیے) اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارا پس حضرت عثمان کے لئے حضور نبی اکرم ﷺ کا دستِ مبارک لوگوں کے اپنے ہاتھوں سے (کئی گنا) اچھا تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
9۔ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ رضی الله عنه أَنَّ عُثْمَانَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ حِيْنَ حَصَرُوْهُ فَقَالَ : أَنْشُدُ بِاللهِ رَجُـلًا سَمِعَ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ یَوْمَ الْجَبَلِ حِيْنَ اھْتَزَّ فَرَکَلَهُ بِرِجْلِهِ وَقَالَ : اسْکُنْ فَإِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْکَ إِلاَّ نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدَانِ، وَأَنَا مَعَهُ، فَأَنْشَدَ لَهُ رِجَالٌ ثُمَّ قَالَ : أَنْشُدُ بِاللهِ رَجُـلًا شَهِدَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَوْمَ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ یَقُوْلُ : ھَذِهِ یَدُ اللهِ، وَھَذِهِ یَدُ عُثْمَانَ، فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ۔ ثُمَّ قَالَ : أَنْشُدُ بِاللهِ رَجُـلًا سَمِعَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَوْمَ جَيْشِ الْعُسْرَةِ یَقُوْلُ : مَنْ یُنْفِقُ نَفَقَةً مَتَقَبَّلَةً؟ فَجَهَّزْتُ نِصْفَ الْجَيْشِ مِنْ مَالِي۔ فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ ثُمَّ قَالَ : أَنْشُدُ بِاللهِ رَجُـلًا سَمِعَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : مَنْ یَزِيْدُ فِي ھَذَا الْمَسْجِدِ ِببَيْتٍ فِي الْجَنَّةَ؟ فَاشْتَرَيْتُهُ مِنْ مَالِي فَانْتَشَدَ لَهُ رِجَالٌ۔ ثُمَّ قَالَ : أَنْشُدُ بِاللهِ رَجُـلًا شَھِدَ رُوْمَةَ تُبَاعُ فَاشْتَرَيْتُھَا مِنْ مَالِي، فَأَبَحْتُھَا لِابْنِ السَّبِيْلِ۔ فَانْشَدَ لَهُ رِجَالٌ۔ رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ۔
9 : أخرجه النسائي في السنن، کتاب : الأحباس، باب : وقف المساجد، 6 / 236، الرقم : 3609، وفي السنن الکبری، 4 / 97، الرقم : 6436، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 59، الرقم : 420، وفي فضائل الصحابۃ، 1 / 463، الرقم : 751، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 1 / 528، الرقم : 395، وابن أبي عاصم في السنۃ، 2 / 595، الرقم : 1309۔
’’حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے مکان کے اوپر سے لوگوں پر جھانکا جس دن باغیوں نے ان کے گھر کا محاصرہ کیا ہوا تھا پھر انہوں نے فرمایا : میں اس شخص سے سوال کرتا ہوں جس نے جبل (اُحد )کے دن کا کلام سنا ہو جو حضور نبی اکرم ﷺ نے پہاڑ کے ہلنے کے وقت فرمایا تھا کہ اے پہاڑ! ٹھہر جاؤ کیونکہ تیرے اوپر سوائے نبی صدیق اور دو شہیدوں کے اور کوئی نہیں۔ اور میں اس وقت حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا۔ لوگوں نے اس بات کی تصدیق کی، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں اس شخص سے دریافت کرتا ہوں جو حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں بیعتِ رضوان کے دن حاضر تھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے (اپنے ہی دونوں مبارک ہاتھوں کے لئے) فرمایا تھا : یہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے اور یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔ سب لوگوں نے اس بات کی تصدیق کی، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں اس شخص سے سوال کرتا ہوں جس نے حضور نبی اکرم ﷺ سے جیش عسرہ کے دن سنا ہو کہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا : ایسا شخص کون ہے جو مالِ مقبول کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے؟ اور میں نے آپ ﷺ کی یہ خواہش سنتے ہی آدھے لشکرکی تیاری اپنے مال سے کرادی۔ سب لوگوں نے حضرت عثمان صکی اس بات کی تصدیق کی۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں اس شخص سے پوچھتا ہوں جس نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہو کہ کون ایسا آدمی ہے جو اس مسجد کی توسیع جنت میں گھر کے بدلے میںکرے؟ پھر میں نے اس زمین کو اپنے مال کے بدلے میں خرید لیا سب لوگوں نے ان کی اس بات کی تصدیق کی۔ بعد ازاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے دریافت فرمایا : میں اس شخض سے پوچھتا ہوں جو بئرِ رومہ (رومہ کے کنویں) کے سودے کے وقت حاضر تھا میں نے اسے اپنے مال سے خریدا اور مسافروں کے لیے مباح کردیا تھا۔ حاضرین نے آپ رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کی بھی من و عن تصدیق کی۔‘‘ اس حدیث کو امام نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
10۔ عَنْ بَشِيْرٍ الْأَسْلَمِيِّ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا قَدِمَ الْمُھَاجِرُوْنَ الْمَدِيْنَةَ اسْتَنْکَرُوا الْمَائَ۔ وَکَانَتْ لِرَجُلٍ مِنْ بَنِي غَفَّارٍ عَيْنٌ یُقَالُ لَھَا رُوْمَةُ۔ وَکَانَ یَبِيْعُ مِنْھَا الْقِرْبَةَ بِمُدٍّ۔ فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : بِعْنِيْھَا بِعَيْنٍ فِي الْجَنْةِ۔ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، لَيْسَ لِي وَلَا لِعِیَالِي غَيْرُھَا۔ لَا أَسْتَطِيْعُ ذَلِکَ۔ فَبَلَغَ ذَلِکَ عُثْمَانَ رضی الله عنه، فَاشْتَرَاھَا بِخَمْسَةٍ وَثَلاَثِيْنَ أَلْفَ دِرْھَمٍ، ثُمَّ أَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَتَجْعَلُ لِي مِثْلَ الَّذِي جَعَلْتَهُ لَهُ عَيْنًا فِي الْجَنَّةِ إِنِ اشْتَرَيْتُھَا؟ قَالَ : نَعَمْ۔ قَالَ : قَدِ اشْتَرَيْتُھَا وَجَعَلْتُھَا لِلْمُسْلِمِيْنَ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
10 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 2 / 41، الرقم : 1226، والهیثمي في مجمع الزوائد، 3 / 129، والشافعي في تاریخ مدینۃ دمشق، 39 / 71، وابن حجر العسقلاني في فتح الباری، 5 / 407، الرقم : 2626، وفي الأصابۃ، 2 / 543، والعیني في عمدۃ القاري، 14 / 72، الرقم : 8772، والشوکاني في نیل الأوطار، 6 / 131، والزیلعي في نصب الرایۃ، 3 / 477، والحموي في معجم البلدان، 1 / 299۔
’’حضرت بشیر اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : جب مہاجرین مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو انہیں پانی کی قلت محسوس ہوئی اور قبیلہ بنی غفار کے ایک آدمی کے پاس ایک چشمہ تھا جسے رومہ کہا جاتا تھا اور وہ اس چشمہ کے پانی کا ایک قربہ ایک مد کے بدلے میں بیچتا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے یہ چشمہ جنت کے چشمہ کے بدلے میں بیچ دو۔ تو وہ آدمی کہنے لگا : یا رسول اللہ! میرے اور میرے عیال کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی چشمہ نہیں ہے۔ اس لئے میں ایسا نہیں کر سکتا۔ جب یہ خبر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس آدمی سے وہ چشمہ پینتیس ہزار دینار کا خرید لیا، پھر حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یارسول اللہ! اگر میں اس چشمہ کو خرید لوں تو کیا آپ ﷺ مجھے بھی اس کے بدلہ میں جنت میں چشمہ عطا فرمائیں گے جس طرح اس آدمی کو آپ ﷺ نے فرمایا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں (عطا کروں گا)۔ تو اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ! وہ چشمہ میں نے خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
11۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه، قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یُکْثِرُ أَنْ یَقُوْلَ : یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ، ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَی دِيْنِکَ فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، آمَنَّا بِکَ وَبِمَا جِئْتَ بِهِ فَهَلْ تَخَافُ عَلَيْنَا؟ قَالَ : نَعَمْ، إِنَّ الْقُلُوْبَ بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللهِ یُقَلِّبُهَا کَيْفَ یَشَاء۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ أَبِی شَيْبَةَ۔
11 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : القدر، باب : ما جاء أن القلوب بین اصبعي الرحمن، 4 / 448، الرقم : 2140، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 25، الرقم : 29196، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 112، الرقم : 12128، وأبو یعلی في المسند، 6 / 359، الرقم : 3687۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ اکثر یہ دعا پڑھا کرتے تھے : اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔‘‘ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی! ہم آپ پر اور آپ کے لائے ہوئے دین پر ایمان لائے، کیا آپ کو ہمارا (دین سے پھر جانے کا) ڈر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں (انسانوں کے) دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں جس طرح چاہے پھیر دے (یعنی اس کے قبضہ میں ہیں)۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
12۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا کَانَ یَوْمُ أُحُدٍ حَاصَ أَھْلُ الْمَدِيْنَةِ حَيْصَةً، قَالُوْا : قُتِلَ مُحَمَّدٌ (ﷺ) حَتَّی کَثُرَتْ الصَّوَارِخُ فِي نَاحِیَةِ الْمَدِيْنَةِ، فَخَرَجَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ مُتَحَزِّمَةً فَاسْتَقْبَلَتْ بِابْنِھَا وَأَبِيْھَا وَزَوْجِھَا وَأَخِيْھَا لَا أَدْرِي أَيَّھُمُ اسْتَقْبَلَتْ بِهِ أَوَّلًا۔ فَلَمَّا مَرَّتْ عَلَی آخِرِھِمْ قَالَتْ : مَنْ ھَذَا؟ قَالُوْا : أَبُوْکِ، أَخُوْکِ، زَوْجُکِ، ابْنُکِ، تَقُوْلُ : مَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ؟ یَقُوْلُوْنَ : أَمَامَکِ حَتَّی دُفِعَتْ إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَأَخَذَتْ بِنَاحِیَةِ ثَوْبِهِ ثُمَّ قَالَتْ : بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي یَا رَسُوْلَ اللهِ! لَا أُبَالِي إِذْ سَلِمْتَ مِنْ عَطَبٍ۔
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ۔ وَقَالَ الْھَيْثَمِيُّ : رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ عَنْ شَيْخِهِ مُحَمَّدِ بْنِ شُعَيْبٍ وَلَمْ أَعْرِفْهُ وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ ثِقَاتٌ۔
وفي روایۃ : عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه قَالَ : مَرَّ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِامْرَأَةٍ مِنْ بَنِي دِيْنَارٍ وَ قَدْ أُصِيْبَ زَوْجُهَا وَأَخُوْھَا وَأَبُوْھَا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ بِأُحُدٍ فَلَمَّا نَعَوْا لَھَا قَالَتْ : فَمَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ؟ قَالُوْا : خَيْرًا یَا أُمَّ فُلاَنٍ، ھُوَ بِحَمْدِ اللهِ کَمَا تُحِبِّيْنَ۔ قَالَتْ : أَرُوْنِيْهِ حَتَّی أَنْظُرَ إِلَيْهِ فَأُشِيْرَ لَھَا إِلَيْهَ حَتَّی إِذَا رَأَتْهُ قَالَتْ : کُلُّ مُصِيْبَةٍ بَعْدَکَ جَلَلٌ۔ رَوَاهُ ابْنُ جَرِيْرٍ الطَّبَرِيُّ وَالْقَاضِي عِیَاضٌ۔
12 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 280، الرقم : 7499، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 2 / 72، 332، وابن جریر الطبري في تاریخ الأمم والملوک، 2 / 74، وابن هشام في السیرۃ النبویۃ، 4 / 50، والقاضي عیاض في الشفا، 1 / 497، الرقم : 1215، والهیثمي في مجمع الزوائد، 6 / 115، وابن الجوزي في صفوۃ الصفوۃ، 1 / 190، 2 / 74۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب غزوہ اُحد کا دن تھا تو اہل مدینہ سخت تنگی و پریشانی میں مبتلا ہوگئے (کیونکہ)، انہوں نے (غلط فہمی اور منافقین کی افواہیں سن کر) سمجھا کہ محمد مصطفی ﷺ کو (العیاذ باللہ) شہید کر دیا گیا ہے، یہاں تک کہ مدینہ منورہ میں چیخ و پکار کرنے والی عورتوں کی کثیر تعداد (جمع) ہوگئی، یہاں تک کہ انصار کی ایک عورت پیٹی باندھے ہوئے باہر نکلی اور اپنے بیٹے، باپ، خاوند اور بھائی (کی لاشوں کے پاس) سے گذری، (راوی کہتے ہیں : ) میں نہیں جانتا کہ وہ سب سے پہلے کس سے ملیں۔ پس جب وہ ان میں سے سب سے آخری شحص کے پاس سے گزری تو پوچھنے لگی : یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا : تمہارا باپ، بھائی، خاوند اور تمہارا بیٹا ہے۔ (جوکہ شہید ہو چکے ہیں) وہ کہنے لگی : (مجھے صرف یہ بتاؤ کہ) رسول اللہ ﷺ کس حال میں ہیں؟ لوگ کہنے لگے : وہ تمہارے سامنے تشریف فرما ہیں یہاں تک کہ اسے حضور نبی اکرم ﷺ تک پہنچایا گیا اس نے حضور نبی اکرم ﷺ کے کرتہ مبارک کا پلو پکڑ لیا اور پھر عرض کرنے لگی : یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، جب آپ کسی نقصان سے محفوظ ہیں تو مجھے اور کسی کی پرواہ نہیں (یعنی آپ سلامت ہیں تو سب کچھ سلامت ہے)۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اسے امام طبرانی نے اپنے شیخ محمد بن شعیب سے روایت کیا ہے انہیں میں نہیں جانتا اور باقی تمام رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
’’ایک اور روایت میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ قبیلہ بنی دینار کی ایک عورت کے پاس سے گزرے جس کا باپ، بھائی اور شوہرجنگ اُحد کے دن آپ ﷺ کے سامنے شہید ہوئے تھے۔ جب اسے یہ بتایا گیا تو اس نے کہا : (میرے آقا) رسول اللہ ﷺ کا کیا حال ہے؟ صحابہ کرام نے کہا : اے فلاں کی ماں! اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ ﷺ خیریت سے ہیں۔ جیسا کہ تو چاہتی ہے تو اس نے کہا : مجھے آپ ﷺ کی زیارت کرواؤ تاکہ میں انہیں دیکھ لوں۔ تو میں نے اسے (دکھانے) کے لئے حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف اشارہ کیا یہاں تک کہ اس نے آپ ﷺ کو دیکھ لیا اور کہنے لگی آپ ﷺ کی (سلامتی کے) بعد ساری مصیبتیں آسان ہیں۔ (مجھے کسی بھی مصیبت کی پروا نہیں)۔‘‘ اسے امام ابن جریر طبری اور قاضی عیاض نے روایت کیا ہے۔
13۔ عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَعْرِضُ نَفْسَهُ فِي کُلِّ سَنَةٍ عَلَی قَبَائِلَ مِنَ الْعَرَبِ، أَنْ یُؤْوُوْهُ إِلَی قَوْمِھِمْ حَتَّی یُبَلِّغَ کَـلَامَ اللهِ وَرِسَالَاتِهِ، وَلَھُمُ الْجَنَّةُ۔ فَلَيْسَتْ قَبِيْلَةٌ مِنَ الْعَرَبِ تَسْتَجِيْبُ لَهُ، حَتَّی أَرَادَ اللهُ إِظْھَارَ دِيْنِهِ، وَنَصْرَ نَبِيِّهِ، وَإِنْجَازَ مَا وَعَدَهُ، سَاقَهُ اللهُ إِلَی ھَذَا الْحَيِّ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَاسْتَجَابُوْا لَهُ وَجَعَلَ اللهُ لِنَبِيِّهِ ﷺ دَارَ ھِجْرَتِهِ۔رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ۔
13 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 294، الرقم : 6454، والھیثمي في مجمع الزوائد، 6 / 42۔
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ ہر سال قبائلِ عرب کے ہاں تشریف لے جاتے کہ وہ آپ ﷺ کو اپنی قوم میں لے چلیں تاکہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں اور (یہ مژدہ بھی سنائیں کہ جو آپ ﷺ کی مدد کریں گے) ان کے لئے جنت ہے۔ عرب کے کسی قبیلہ نے آپ ﷺ کی یہ بات منظور نہ کی۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے ظاہر کرنے اور اپنے نبی مکرم ﷺ کی مدد کرنے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ سے وعدہ کیا تھا اس کے وفا کرنے کا ارادہ فرمایا تو اس خیر کو اللہ تعالیٰ نے انصار کے قبیلوں کی طرف روانہ کر دیا، انہوں نے آپ ﷺ کی دعوت پر لبیک کہا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم ﷺ کے لئے ان کے وطن کو دارِ ہجرت بنا دیا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقات ہیں۔
14۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه، قَالَ : خَرَجَ عُثْمَانَ بْنُ عَفَّانَ مُهَاجِراً إِلَی أَرْضِ الْحَبْشَةِ وَمَعَهُ رُقَيَّةُ بِنْتُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَاحْتَبَسَ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ خَبَرُھُمْ وَکَانَ یَخْرُجُ یَتَوَکَّفَ عَنْهُمُ الْخَبَرَ، فَجَاءَ تْهُ امْرَأَةٌ فَأَخْبَرَتْهُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : إِنَّ عُثْمَانَ أَوَّلُ مَنْ هَاجَرَ إِلَی اللهِ بِأَهْلِهِ بَعْدَ لُوْطٍ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ۔
14 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 1 / 90، الرقم : 143، والشیباني في الآحاد والمثانی، 1 / 123، الرقم : 123۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سرزمین حبشہ کی طرف ہجرت کی غرض سے نکلے اور آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ کی اہلیہ حضور نبی اکرم ﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں پس کافی عرصہ تک ان کی خبر حضور نبی اکرم ﷺ کو نہ پہنچی اور آپ ﷺ روزانہ ان کی خبر معلوم کرنے کے لئے باہر تشریف لاتے پس ایک دن ایک عورت ان کی خیریت کی خبر لے کر حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : بے شک عثمان حضرت لوط علیہ السلام کے بعد پہلا شخص ہے جس نے اپنی اہلیہ کے ساتھ اللہ کی راہ میں ہجرت کی۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں بیان کیا ہے۔
15۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه، قَالَ : نَظَرَ النَّبِيُّ ﷺ إِلَی مُصْعَبِ بْنِ عُمَيْرٍ مُقْبِلاً وَعَلَيْهِ إِهَابُ کَبْشٍ قَدْ تَنَطَّقَ بِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : انْظُرُوْا إِلَی هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي قَدْ نَوَّرَ اللهُ قَلْبَهُ، لَقَدْ رَأَيْتُهُ بَيْنَ أَبَوَيْنِ یَغْذُوَانِهِ بِأَطْیَبِ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ، فَدَعَاهُ حُبُّ اللهِ وَرَسُوْلِهِ إِلَی مَا تَرَوْنَ۔ رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَيْھَقِيُّ۔
15 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 108، والبیهقي في شعب الإیمان، 5 / 160، الرقم : 6189، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 36 / 333، والمنذري في الترغیب والترهیب، 3 / 81، الرقم : 3163، وابن الجوزي في صفۃ الصفوۃ، 1 / 391۔
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو دنبہ کی کھال میں ملبوس دیکھ کر صحابہ سے فرمایا : اِس شخص دیکھو جس کے قلب کو اللہ نے روشن فرما دیا ہے ۔ میں نے ان کی عیش و عشرت والی زندگی بھی دیکھی ہے۔ اِس کے والدین اس کو سب سے اچھا کھانا اور سب سے اچھا مشروب دیتے تھے۔ لیکن اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کی وجہ سے ان میں کس قدر تبدیلی آئی جسے تم دیکھ رہے ہو۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو نعیم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
1۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ فَرَضَ لِلْمُھَاجِرِيْنَ الْأَوَّلِيْنَ أَرْبَعَةَ آلَافٍ فِي أَرْبَعةٍ وَفَرَضَ لِابْنِ عُمَرَ ثَـلَاثَةَ آلَافٍ وَخَمْسَ مِائَةٍ فَقِيْلَ لَهُ : ھُوَ مِنَ الْمُھَاجِرِيْنَ فَلِمَ نَقَصْتَهُ مِنْ أَرْبَعَةِ آلَافٍ؟ فَقَالَ : إِنَّمَا ھَاجَرَ بِهِ أَبَوَاهُ : یَقُولُ لَيْسَ ھُوَ کَمَنْ ھَاجَرَ بِنَفْسِهِ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالْبَيْھَقِيُّ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : المناقب، باب : ھجرۃ النبي ﷺ وأصحابه إلی المدینۃ، 3 / 1424، الرقم : 3700، والبیھقي في السنن الکبری، 6 / 349، الرقم : 12772، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 254، وفي الإصابۃ، 7 / 680۔
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے ہجرت کرنے والوں کا چار ہزار درہم سالانہ وظیفہ چار قسطوں میں مقرر فرمایا اور عبد اللہ بن عمر کا ساڑھے تین ہزار درہم سالانہ وظیفہ مقرر کیا۔ آپ سے کہا گیا : یہ بھی تو مہاجرین میں سے ہیں پھر آپ نے ان کا وظیفہ چار ہزار درہم سالانہ سے کیوں گھٹایا ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس کے والدین اسے اپنے ساتھ ہجرت پر لے کر گئے تھے کہ یہ خود ہجرت پر گیا تھا (اس لیے اس کا وظیفہ دوسروں کی نسبت کم ہے)۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری اور امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
2۔ عَنْ یَحْيَ بْنِ سَعِيْدٍ … قَالَ سَعْدُ بْنُ رَبِيْعٍ رضی الله عنه لِأُبَيِّ بِنْ کَعْبٍ رضی الله عنه إِذَا جُرِحَ بِأُحُدٍ : فَاذْھَبْ إِلَيْهِ ﷺ فَأَقْرِئْهُ مِنِّي السَّـلَامَ، وَأَخْبِرْهُ أَنِّي قَدْ طُعِنْتُ اثْنَتَی عَشْرَ طَعْنَةً، وَأَنِّي قَدْ أَنْفَذْتُ مُقَاتِلِي، وَأَخْبِرْ قَوْمَکَ أَنَّهُ لَا عُذْرَ لَھُمْ عِنْدَ اللهِ إِنْ قُتِلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَوَاحِدٌ مِنْھُمْ حَيٌّ۔ رَوَاهُ مَالِکٌ وَابْنُ سَعْدٍ۔
2 : أخرجه مالک في الموطأ، 2 / 465۔466، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 524، وابن عبد البر في الاستیعاب، 2 / 590، وفي التمهید، 24 / 94، وابن الجوزي في صفوۃ الصفوه، 1 / 481، والعسقلاني في الإصابه، 3 / 59، والزرقاني في شرحه علی الموطأ، 3 / 59۔
’’امام یحییٰ بن سعید سے مروی ہے کہ … حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے حضرت أبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے اس وقت کہا جب وہ (حضرت سعد بن ربیع) میدانِ اُحد میں زخمی حالت میں تھے کہ میرے آقا ﷺ کی بارگاہ میں میرا سلام عرض کرنا اور کہنا کہ مجھے نیزے کے بارہ زخم لگے ہیں اور میں نے اپنے مقابل کے جسم سے نیزہ آر پار کر دیا ہے۔ اپنے قبیلہ کے لوگوں سے کہنا کہ اگر حضور نبی اکرم ﷺ کو کچھ ہوا اور تم میں سے ایک فرد بھی زندہ بچا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کا کوئی بھی عذر قابلِ قبول نہ ہوگا۔‘‘ اسے امام مالک اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
3۔ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ قَالَ : کَانَ أَبُوْ بَکْرٍ مَعْرُوْفًا بِالتِّجَارَةِ۔ لَقَدْ بُعِثَ النَّبِيُّ ﷺ وَعِنْدَهُ أَرْبَعُوْنَ أَلْفَ دِرْھَمٍ۔ فَکَانَ یُعْتِقُ مِنْھَا، وَیُقَوِّي الْمُسْلِمِيْنَ حَتَّی قَدِمَ الْمَدِيْنَةَ الْقَدِرَةَ آلَافَ دِرْھَمٍ ثُمَّ کَانَ یَفْعَلُ فِيْھَا مَا کَانَ یَفْعَلُ بِمَکَّةَ۔
رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ۔
3 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 172، وابن عساکر في تاریخ دمشق الکبیر، 30 / 68۔
’’حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مشہور تاجر تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا تو آپ کے پاس چالیس ہزار درہم موجود تھے۔ آپ اس رقم سے غلاموں کو آزاد کرواتے اور مسلمانوں کو تقویت پہنچاتے تھے یہاں تک کہ آپ ہجرت کرکے ہزاروں درہموں کے ساتھ مدینہ طیبہ آگئے۔ یہاں بھی آپ مکہ معظمہ کی طرح دل کھول کر اسلام پر خرچ کرتے رہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن سعد اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
4۔ قال الإمام القسطلاني : ومن علامات محبته ﷺ نصر دینه بالقول والفعل، والذب عن شریعته، والتخلق بأخلاقه في الجود والإیثار، والحلم والصبر والتواضع وغیرها۔
4 : القسطلاني في المواھب اللّدنّیّۃ بِالْمنحِ الْمحمّدیّۃ، 2 / 494۔
’’امام قسطلانی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے محبت کی ایک علامت یہ ہے کہ اپنے قول و فعل سے آپ ﷺ کے دین کی مدد کرے، آپ ﷺ کی شریعت کا دفاع کرے اور سخاوت میں آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کو اپنائے۔ بردباری، صبر، تواضع وغیرہ میں آپ ﷺ کے نقش قدم پر چلے، یعنی آپ ﷺ کے تمام اخلاق جن کا ذکر ہوچکا ہے اپنے سامنے رکھے۔‘‘
تمّ بعونہ تعالی الجزء الأوّل من ((ھدایۃ الأمّۃ علی منھاجِ القرآن والسّنّۃ))
وسیلیه، إن شاء الله تعالی، الجزء الثاني۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved