1۔ اَلَّذِيْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ یَجِدُوْنَهٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰةِ وَ الْاِنْجِيْلِ یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ کَانَتْ عَلَيْھِمْ ط فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَعَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَهٓٗ لا اُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَo
(الأعراف، 7 : 157)
’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول ( ﷺ ) کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور اُن سے اُن کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) - جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے - ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔ پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول ﷺ ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیںo‘‘
2۔ اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰـتُهُمْ ط وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِيْ کِتٰبِ اللهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓی اَوْلِیٰٓـئِکُمْ مَّعْرُوْفًا ط کَانَ ذٰلِکَ فِی الْکِتٰبِ مَسْطُوْرًاo
(الأحزاب، 33 : 6)
’’یہ نبیِ (مکرّم) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حقدار ہیں اور آپ کی ازواجِ (مطہّرات) اُن کی مائیں ہیں۔ اور خونی رشتہ دار اللہ کی کتاب میں (دیگر) مومنین اور مہاجرین کی نسبت (تقسیمِ وراثت میں) ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں سوائے اس کے کہ تم اپنے دوستوں پر احسان کرنا چاہو، یہ حکم کتابِ (الٰہی) میں لکھا ہوا ہےo‘‘
3۔ مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ط وَ کَانَ اللهُ بِکُلِّ شَيْئٍ عَلِيْمًاo
(الأحزاب، 33 : 40)
’’محمد ( ﷺ ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں (یعنی سلسلۂ نبوت کو ختم کرنے والے) اور اللہ تعالیٰ سب چیزوں کا جاننے والا ہے (اسے علم ہے کہ ختم رسالت اور ختم نبوت کا وقت آگیا ہے)o‘‘
4۔ اِنَّ الَّذِيْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللهَ ط یَدُ اللهِ فَوْقَ اَيْدِيْھِمْ ج فَمَنْ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنْکُثُ عَلٰی نَفْسِهٖ ج وَمَنْ اَوْفٰی بِمَا عٰـھَدَ عَلَيْهُ اللهَ فَسَیُؤْتِيْهِ اَجْرًا عَظِيْمًاo
(الفتح، 48 : 10)
’’(اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اللہ کا ہاتھ ہے۔ پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہو گا اور جس نے (اس) بات کو پورا کیا جس (کے پورا کرنے) پر اس نے اللہ سے عہد کیا تھا تو وہ عنقریب اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گاo‘‘
5۔ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللهِ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ اَشِدَّآء عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ تَرٰهُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُودِ ط ذٰلِکَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرَاةِ ج وَمَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِيْلِ ج کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْاَهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِهٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِيْظَ بِهِمُ الْکُفَّارَ ط وَعَدَ اللهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًاo
(الفتح، 48 : 28، 29)
’’محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مقابلہ میں سخت (اور زور آور) ہیں (لیکن) آپس میں رحم دل (ایک دوسرے کے ساتھ اخلاص اور محبت سے پیش آتے ہیں۔ ان کی حالت یہ ہے کہ ان کا غصہ ان کی محبت سب اللہ کے لئے ہے، اے دیکھنے والے) تو (بھی) دیکھتا ہے کہ وہ (کبھی) رکوع (کبھی) سجود میں ہیں (غرض ہر طرح) اللہ سے اس کے فضل اور اس کی رضا مندی کے طلبگار ہیں ان کی علامت (ان کے پر نور پر رونق نشانِ سجدہ سے) ان کے چہروں پر نمایاں ہے جو سجدوں کا اثر ہے (ان کے چہروں پر عبادت کے آثار، پیشانی پر سجدہ کے نشان، ولایت کا باران کی جبین پر ہے یہ تو الگ پہچانے جاتے ہیں) ان (صحابہ) کی تعریف توریت میں اور ان کے اوصاف انجیل میں (آئے) ہیں ان کی مثال ایک کھیتی کی مانند ہے کہ اس نے (پہلے) سوئی (کی طرح کی ایک پتی) نکالی، پھر (ارد گرد کے ماحول اور زمین سے قوت حاصل کرکے) اس کو مضبوط (اور قوی) کیا۔ پھر وہ اور موٹی ہوئی پھر (بڑھ کر) اپنے بل پر کھڑی ہو گئی (اور یہ سرسبز و لہلہاتی ہوئی کھیتی) کاشتکاروں کو بھلی معلوم ہونے لگی (اسلام کی کھیتی بھی لہلہا رہی ہے) تاکہ کافروں کا جی جلے (اور یہ تو دنیا میں ان صحابہ کرام اور مومنوں کا انعام ہے، آخرت میں تو) اللہ نے ان سے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ہیں مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ کیا ہےo‘‘
1۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ دَخَلَ عَامَ الْفَتْحِ وَعَلَی رَأْسِهِ الْمِغْفَرُ فَلَمَّا نَزَعَهُ جَائَ رَجُلٌ فَقَالَ : إِنَّ ابْنَ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْکَعْبَةِ فَقَالَ : اقْتُلُوْهُ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الحج، باب : دخول الحرم ومکۃ بغیر إحرام، 2 / 655، الرقم : 1749، وفي کتاب : الجهاد والسیر، 3 / 1107، الرقم : 2879، وفي کتاب : المغازي، باب : أین رکز النبي ﷺ الرأیۃ یوم الفتح، 4 / 1561، الرقم : 4035، ومسلم في الصحیح، کتاب : الحج، باب : جواز دخول مکۃ بغیر إحرام، 2 / 989، الرقم : 1357، والترمذي في السنن، کتاب : الجهاد، باب : ما جاء في المغفر، وقال : ھذا حدیث حسن صحیح، 4 / 202، الرقم : 1693، وأبو داود في السنن، کتاب : الجهاد، باب : قتل الأسیر ولایعرض علیه الإسلام، 3 / 60، الرقم : 2685، والنسائي في السنن، کتاب : مناسک الحج، باب : دخول مکۃ بغیر إحرام، 5 / 200، الرقم : 2867، وفي السنن الکبری، 2 / 382، الرقم : 3850، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 185، 231۔232، الرقم : 12955، 13437، 13461، 13542، وابن حبان في الصحیح، 9 / 37، الرقم : 3721، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 2 / 259، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 29، الرقم : 9034۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فتح (مکہ) کے سال رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر مبارک پر لوہے کا خود تھا جب آپ ﷺ نے اسے اتارا تو ایک شخص نے آکر عرض کیا : (یا رسول اللہ! آپ کا گستاخ) ابنِ خطل (جان بچانے کے لئے) کعبہ کے پردوں سے لٹکا ہوا ہے (ہمارے لئے کیا حکم ہے کیونکہ مکہ میں کسی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں)۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسے (وہیں) قتل کر دو۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : بَيْنَا النَّبِيُّ ﷺ یَقْسِمُ ذَاتَ یَوْمٍ قِسْمًا فَقَالَ ذُوالْخُوَيْصَرَةِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيْمٍ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، اعْدِلْ، قَالَ : وَيْلَکَ مَنْ یَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ؟ فَقَالَ عُمَرُ : اِئْذَنْ لِي فَـلْأَضْرِبْ عُنُقَهُ، قَالَ : لَا، إِنَّ لَهُ أَصْحَابًا یَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِھِمْ، وَ صِیَامَهُ مَعَ صِیَامِھِمْ، یَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمُرُوْقِ السَّھْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ یَنْظُرُ إِلَی نَصْلِهِ فَـلَا یُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمَّ یَنْظُرُ إِلَی رِصَافِهِ فَـلَا یُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمَّ یَنْظُرُ إِلَی نَضِيِّهِ فَـلَا یُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمَّ یَنْظُرُ إِلَی قُذَذِهِ فَـلَا یُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، قَدْ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ یَخْرُجُوْنَ عَلَی حِيْنَ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ آیَتُھُمْ رَجُلٌ إِحْدَی یَدَيْهِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ أَوْ مِثْلُ الْبَضْعَةِ تَدَرْدَرُ۔ قَالَ أَبُوْسَعِيْدٍ : أَشْھَدُ لَسَمِعْتُهُ مِنَ النَّبِيِّ ﷺ، وَأَشْھَدُ أَنِّي کُنْتُ مَعَ عَلِيٍّ حِيْنَ قَاتَلَھُمْ فَالْتُمِسَ فِي الْقَتْلَی فَأُتِيَ بِهِ عَلَی النَّعْتِ الَّذِي نَعْتَ النَّبِيُّ ﷺ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الأدب، باب : ماجاء في قول الرجل ویلک، 5 / 2281، الرقم : 5811، وفي کتاب : استتابۃ المرتدین والمعاندین وقتالھم، باب : من ترک قتال الخوارج للتألف وأن لا ینفر الناس عنه، 6 / 2540، الرقم : 6534، ومسلم في الصحیح، کتاب : الزکاۃ، باب : ذکر الخوارج وصفاتھم، 2 / 744، الرقم : 1064، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 159، الرقم : 8560۔8561، 6 / 355، الرقم : 11220، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 65، الرقم : 11639، وابن حبان في الصحیح، 15 / 140، الرقم : 6741، والبیھقي في السنن الکبری، 8 / 171، وعبد الرزاق في المصنف، 10 / 146۔
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : کہ ایک روز حضور نبی اکرم ﷺ مالِ (غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے تو ذوالخویصرہ نامی شخص نے جو کہ بنی تمیم سے تھا کہا : یا رسول اللہ! انصاف کیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تو ہلاک ہو، اگر میں انصاف نہ کروں تو اور کون انصاف کرے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) مجھے اجازت دیں کہ اس کی گردن اڑا دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، کیونکہ اس کے (ایسے) ساتھی بھی ہیں کہ تم ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر جانو گے۔ وہ دین سے اس طرح نکلے ہوئے ہوں گے جیسے شکار سے تیر نکل جاتا ہے، پھر اس کے پیکان پر کچھ نظر نہیں آتا، اس کے پٹھے پر بھی کچھ نظر نہیں آتا، اس کی لکڑی پر بھی کچھ نظر نہیں آتا اور نہ اس کے پروں پر کچھ نظر آتا ہے، وہ گوبر اور خون کو بھی چھوڑ کر نکل جاتا ہے۔ وہ لوگوں میں فرقہ بندی کے وقت (اسے ہوا دینے کے لئے) نکلیں گے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی کا ہاتھ عورت کے پستان یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہلتا ہو گا۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث پاک حضور نبی اکرم ﷺ سے سنی ہے اور میں (یہ بھی) گواہی دیتا ہے کہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا جب ان (خارجی) لوگوں سے جنگ کی گئی، اس شخص کو مقتولین میں تلاش کیا گیا تو اس وصف کا ایک آدمی مل گیا جو حضور نبی اکرم ﷺ نے بیان فرمایا تھا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
3۔ عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ لِحَسَّانَ : إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ لَا یَزَالُ یُؤَيِّدُکَ مَا نَافَحْتَ عَنِ اللهِ وَرَسُوْلِهِ، وَقَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ، یَقُوْلُ : ھَجَاھُمْ حَسَّانُ، فَشَفَی وَاشْتَفَی۔ قَالَ حَسَّانُ :
ھَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَأَجَبْتُ عَنْهُ
وَعِنْدَ اللهِ فِي ذَاکَ الْجَزَاء
ھَجَوْتَ مُحمَّدًا بَرًّا حَنِيْفًا
رَسُوْلَ اللهِ شِيْمَتُهُ الْوَفَاءُ
فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي
لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاءُ
مَتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَھَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ۔
3 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : المناقب، باب : من أحب أن لا یسب نسبه، 3 / 1299، الرقم : 3338، وفي کتاب : المغازي، باب : حدیث الإفک، 4 / 1523، الرقم : 3914، وفي کتاب : الأدب، باب : ھجاء المشرکین، 5 / 2278، الرقم : 5798، ومسلم في الصحیح، کتاب : فضائل الصحابۃ، باب : فضائل حسان بن ثابت رضی الله عنه، 4 / 1934۔ 1935، الرقم : 2489۔2490، وابن حبان في الصحیح، 13 / 103، الرقم : 5787۔
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو (حضرت حسان سے) یہ فرماتے سنا : (اے حسان) جب تک تم اللہ عزوجل اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ان کا دفاع کرتے رہو گے روح القدس (جبرائیل ں) تمہاری تائید کرتے رہیں گے، نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : میںنے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ حسان نے کفارِ قریش کی ہجو کر کے مسلمانوں کو شفا دی (یعنی ان کا دل ٹھنڈا کر دیا) اور اپنے آپ کو شفا دی (یعنی اپنا دل ٹھنڈا کیا) حضرت حسان نے (کفار کی ہجو میں) کہا :
’’تم نے محمد مصطفی ﷺ کی ہجو کی، تو میں نے آپ ﷺ کی طرف سے جواب دیا ہے اور اس کی اصل جزا اللہ عزوجل ہی کے پاس ہے۔
’’تم نے محمد مصطفی ﷺ کی ہجو کی، جو نیک اور ادیانِ باطلہ سے اعراض کرنے والے ہیں، وہ اللہ عزوجل کے (سچے) رسول ہیں اور ان کی خصلت وفا کرنا ہے۔
’’بلا شبہ میرا باپ، میرے اجداد اور میری عزت (ہمارا سب کچھ)، محمد مصطفی ﷺ کی عزت و ناموس کے دفاع کے لئے تمہارے خلاف ڈھال ہیں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
4۔ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بِلْقِيْنَ : أَنَّ امْرَأَةً کَانَتْ تَسُبُّ النَّبِيَّ ﷺ۔ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : مَنْ یَکْفِيْنِي عَدُوِّي؟ فَخَرَجَ إِلَيْهَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيْدِ رضی الله عنه فَقَتَلَهَا۔ رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالْبَيْهَقِيُّ۔
4 : أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 5 / 307، الرقم : 9705، والبیهقي في السنن الکبری، 8 / 202، وابن تیمیۃ في الصارم المسلول، 1 / 140۔
’’عروہ بن محمد نے بلقین کے کسی شخص سے روایت کی کہ ایک عورت حضور نبی اکرم ﷺ کو گالیاں دیا کرتی تھی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے دشمن سے میرا بدلہ کون لے گا؟ تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اس کی طرف گئے اور اسے قتل کردیا۔‘‘
اس حدیث کو امام عبد الزراق اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما أَنَّ رَجُـلًا مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ شَتَمَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : مَنْ یَکفِيْنِي عَدُوِّي؟ فَقَالَ الزُّبَيْرُ : أَنَا، فَبَارَزَهُ، فَقَتَلَهُ، فَأَعْطَاهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ سَلَبَهُ۔ رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ۔
5 : أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 5 / 237، 307، الرقم : 9477، 9704، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 8 / 45، وابن تیمیۃ في الصارم المسلول، 1 / 154۔
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مشرک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ کو گالیاں دیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کون میرے دشمن سے بدلہ لے گا؟ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں پھر میدان میں نکل کر اسے قتل کر دیا، حضور نبی اکرم ﷺ نے مقتول کے جسم کا سامان حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔‘‘ اس حدیث کو امام عبد الرزاق اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
6۔ عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَةَ رضی الله عنه في قصۃ طویلۃ : أَرْسَلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رضی الله عنه إِلَی قُرَيْشٍ … فَدَعُوْا عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رضی الله عنه لِیَطُوْفَ بِالْبَيْتِ، فَأَبَی أَنْ یَطُوْفَ وَقَالَ : کُنْتُ لَا أَطُوْفُ بِهِ حَتَّی یَطُوْفَ بِهِ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، فَرَجَعَ إِلیَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ۔ رَوَاهُ الْبَيْھَقِيُّ۔
6 : أخرجه البیھقي في السنن الکبری، 9 / 221، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 2 / 369۔
’’حضرت موسیٰ بن عقبہ رضی اللہ عنہ سے طویل واقعہ میں مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو (صلح حدیبیہ کے موقع پر) کفارکی طرف (سفیربنا کر) روانہ کیا (مذاکرات کے بعد) انہوںنے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو طواف کعبہ کی دعوت دی توآپ رضی اللہ عنہ نے انکار کردیا اورفرمایا : اللہ کی قسم! میں اس وقت تک طواف نہیں کروں گاجب تک رسول اللہ ﷺ طواف نہیںکرلیتے اورپھر (بغیر طواف کئے) پلٹ کر حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آگئے۔‘‘ اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
7۔ عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ قَالَ : اِخْتَصَمَ رَجُلَانِ إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَضَی بَيْنَهُمَا، فَقَالَ الْمُقْتَضَی عَلَيْهِ : رُدْنَا إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : نَعَمْ، إِنْطَلَقَا إِلَيْهِ، فَلَمَّا أَتَیَا إِلَيْهِ فَقَالَ الرَّجُلُ : یَا ابْنَ الْخَطَّابِ، قَضَی لِي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَلَی هَذَا، فَقَالَ : رُدْنَا إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَرُدَّنَا إِلَيْکَ۔ فَقَالَ : أَکَذَاکَ؟ قَالَ : نَعَمْ، فَقَالَ عُمَرُ : مَکَانَکُمَا حَتَّی أَخْرُجَ إِلَيْکُمَا فَأَقْضِي بَيْنَکُمَا، فَخَرَجَ إِلَيْهِمَا مُشْتَمِلًا عَلَی سَيْفِهِ، فَضَرَبَ الَّذِي قَالَ : رُدْنَا إِلَی عُمَرَ، فَقَتَلَهُ فَأَدْبَرَ الْآخَرُ، فَأَتَی رَسُوْلَ اللهِ ﷺ، فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، قَتَلَ عُمَرُ، وَاللهِ، صَاحِبِي، وَلَوْ لَا أَعْجَزْتَهُ لَقَتَلَنِي۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَا کُنْتُ أَظُنُّ أَنْ یَجْتَرِیَٔ عُمَرُ عَلَی قَتْلِ مُؤْمِنٍ۔ فَأَنْزَلَ اللهُ : {فَـلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ} [النساء، 4 : 65]۔
وَفِي رِوَایَةِ : عَنْ عَتْبَةَ بْنِ ضَمْرَةَ عَنْ أَبِيْهِ أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَی النَّبَيِّ ﷺ فَقَضَی لِلْمُحِقِّ عَلَی الْمُبْطِلِ، فَقَالَ الْمَقْضِيُّ عَلَيْهِ : لَا أَرْضَی، فَقَالَ صَاحِبُهُ : فَمَا تُرِيْدُ؟ قَالَ : أَنْ تَذْھَبَ إِلَی أَبِي بَکْرٍ الصِدِّيْقِ۔ فَذَهَبَا إِلَيْهِ، فَقَالَ الَّذِي قُضِیَ لَهُ : قَدِ اخْتَصَمْنَاهُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَضَی لِي۔ فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ : أَنْتُمَا عَلَی مَا قَضَی بِهِ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ۔ فَأَبَی صَاحِبُهُ أَنْ یَرْضَی فَقَالَ : نَأْتِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ۔ فَقَالَ الَّذِي الْمَقْضِيُّ لَهُ : قَدِ اخْتَصَمْنَاهُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَضَی لِي عَلَيْهِ۔ فَأَبَی أَنْ یَرْضَی۔ فَسَأَلَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ : کَذَلِکَ۔ فَدَخَلَ عُمَرُ مَنْزِلَهُ وَخَرَجَ وَالسَّيْفُ فَي یَدِهِ قَدْ سَلَّهُ فَضَرَبَ بِهِ رَأْسَ الَّذِي أَبَی أَنْ یَرْضَی فَقَتَلَهُ۔
وَفِي رِوَایَةِ : قَالَ (عُمَرُ) : هَکَذَا أَقْضِي بَيْنَ مَنْ لَمْ یَرْضَ بِقَضَاءِ اللهِ وَقَضَاءِ رَسُوْلِهِ۔ فَأَتَی جِبْرَئِيْلُ علیه السلام رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ عُمَرَ قَدْ قَتَلَ الرَّجُلَ وَفَرَّقَ اللهُ بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ عَلَی لِسَانِ عُمَرَ ص۔
رَوَاهُ ابْنُ کَثِيْرٍ، وَالسَّیُوطِيُّ، وَالْحَکِيْمُ التِّرْمِذِيُّ۔
7 : أخرجه ابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 1 / 522، والسیوطي في الدر المنثور، 2 / 582، 585، والعیني في عمدۃ القاري، 12 / 203، والحکیم الترمذي في نوارد الأصول، 2321، والزیلعي في تخریج الأحادیث والآثار، 1 / 329، الرقم : 339۔
’’حضرت ابو اسود بیان کرتے ہیں کہ دو آدمی اپنا جھگڑا (تصفیہ کی غرض سے) لے کر بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے ان کے درمیان فیصلہ فرما دیا۔ جس شخص کے خلاف فیصلہ ہوا اس نے کہا کہ ہمیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس (برائے تصفیہ) بھیج دیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ٹھیک ہے، اسی کے پاس چلے جاؤ۔ جب وہ دونوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو ایک شخص نے (سارا قصہ بیان کرتے ہوئے) کہا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس کے خلاف میرے حق میں فیصلہ فرمایا ہے۔ جس پر اس نے کہا کہ ہمیں عمر کے پاس بھیج دیں تو حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمیں آپ کے پاس بھیج دیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (دوسرے آدمی سے) پوچھا : کیا ایسا ہی ہوا ہے؟ اس نے کہا : ہاں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہاں اپنی جگہ پر ہی رکے رہو، میں ابھی تمہارے پاس آ کر تمہارے درمیان فیصلہ کر دیتا ہوں۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ دوبارہ ان کے پاس تشریف لائے تو ان کے ہاتھ میں تلوار تھی آپ رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو قتل کر دیا جس نے کہا تھا کہ ہمیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیں۔ (یہ حالات دیکھ کر) دوسرا شخص وہاں سے بھاگ نکلا اور بارگاہ نبوی میں حاضر ہو کرعرض گزار ہوا : یا رسول اللہ، بخدا! عمر نے میرے ساتھی کو قتل کر دیا ہے اور اگر میں وہاں سے نہ بھاگتا تو وہ مجھے بھی قتل کر دیتے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرا نہیں خیال کہ عمر کسی مومن کو قتل کرنے کی جرأت کر سکتا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : {پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ آپ کو حاکم بنا لیں}۔
’’دوسری روایت میں ہے : حضرت عتبہ بن ضمرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ دو آدمی اپنا جھگڑا (تصفیہ کی غرض سے) لے کر بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے جھوٹے کے خلاف حق دار کے لیے فیصلہ فرما دیا۔ جس شخص کے خلاف فیصلہ ہوا اس نے کہا کہ میں اس فیصلے کو قبول نہیں کرتا۔ اس کے ساتھی نے کہا کہ (اب) تم کہا چاہتے ہو؟ اس نے کہا کہ اب تم میرے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس چلو۔ وہ دونوں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس چلے گئے۔ جس شخص کے حق میں فیصلہ ہوا تھا اس نے کہا کہ (قبل ازیں) ہم اپنے جھگڑا لے کر بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے تھے تو آپ ﷺ نے میرے حق میں فیصلہ فرما دیا تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تمہارے حق میں جو رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا تھا وہی برقرار ہے۔ اس کے ساتھی نے اس پر راضی ہونے سے انکار کر دیا اور کہنے لگا کہ ہم حضرت عمر کے پاس جائیں گے۔ جس شخص کے حق میں فیصلہ ہوا تھا اس نے(حضرت عمر سے) کہا کہ (قبل ازیں) ہم اپنے جھگڑا لے کر بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے تھے تو آپ ﷺ نے میرے حق میں فیصلہ فرما دیا تھا لیکن یہ شخص اس فیصلے پرراضی نہیں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (دوسرے آدمی سے اس معاملے کے بارے میں ) پوچھا تو اس نے کہا : (معاملہ) ایسے ہی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ (یہ سن کر) اپنے گھر میں داخل ہوئے اور جب باہر نکلے تو ان کے ہاتھ میں تلوار تھی اور انہوں نے اس شخص کی گردن اڑا دی جس نے آپ ﷺ کا فیصلہ ماننے سے انکار کیا تھا۔‘‘
’’ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے پر راضی نہیں ہوتا اس کے درمیان میں اس طرح سے فیصلہ کرتا ہوں۔ حضرت جبریل علیہ السلام (فوراً) بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ اے اللہ کے رسول! بے شک عمر نے (منافق) شخص کو قتل کیا ہے (جس کے نتیجے میں) اللہ تعالیٰ نے حق و باطل کے درمیان فرق کو عمر کی زبان پر رکھ دیا ہے۔‘‘
اس حدیث کو حافظ ابن کثیر، امام سیوطی اور حکیم ترمذی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved