1۔ مَنْ ذَا الَّذِيْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ۔
(البقرۃ، 2 : 255)
’’کون ایسا شخص ہے جو اس کے حضور اس کے اِذن کے بغیر سفارش کر سکے۔‘‘
2۔ مَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَّکُنْ لَّهٗ نَصِيْبٌ مِّنْهَا ج وَمَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَّکُنْ لَّهٗ کِفْلٌ مِّنْهَا ط وَکَانَ اللهُ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ مُّقِيْتًاo
(النساء، 4 : 85)
’’جو شخص کوئی نیک سفارش کرے تو اس کے لئے اس (کے ثواب) سے حصہ (مقرر) ہے، اور جو کوئی بری سفارش کرے تو اس کے لئے اس (کے گناہ) سے حصہ (مقرر) ہے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہےo‘‘
3۔ عَسٰٓی اَنْ يَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo
(بنی اسرائیل، 17 : 79)
’’یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا (یعنی وہ مقامِ شفاعتِ عظمیٰ جہاں جملہ اوّلین و آخرین آپ کی طرف رجوع اور آپ کی حمد کریں گے)o‘‘
4۔ لَا یَمْلِکُوْنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًاo
(مریم، 19 : 87)
’’(اس دن) لوگ شفاعت کے مالک نہ ہوں گے سوائے ان کے جنہوں نے (خدائے) رحمن سے وعدۂِ (شفاعت) لے لیا ہےo‘‘
5۔ یَوْمَئِذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ اِلَّامَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَ رَضِیَ لَهٗ قَوْلًاo
(طه، 20 : 109)
’’اس دن سفارش سود مند نہ ہوگی سوائے اس شخص (کی سفارش) کے جسے (خدائے) رحمن نے اذن (و اجازت) دے دی ہے اور جس کی بات سے وہ راضی ہوگیا ہے (جیسا کہ انبیاء و مرسلین، اولیائ، متقین، معصوم بچوں اور دیگر کئی بندوں کا شفاعت کرنا ثابت ہے)o‘‘
6۔ یَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ وَلَا یَشْفَعُوْنَ لا اِلاَّ لِمَنِ ارْتَضٰی وَ ھُمْ مِّنْ خَشْیَتِهٖ مُشْفِقُوْنَo
(الأنبیاء، 21 : 28)
’’وہ (اللہ) ان چیزوں کو جانتا ہے جو ان کے سامنے ہیں اور جو ان کے پیچھے ہیں اور وہ (اس کے حضور) سفارش بھی نہیں کرتے مگر اس کے لئے (کرتے ہیں) جس سے وہ خوش ہوگیا ہو اور وہ اس کی ہیبت و جلال سے خائف رہتے ہیںo‘‘
7۔ وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ ط حَتّٰیٓ اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِهِمْ قَالُوْا مَاذَا لا قَالَ رَبُّکُمْ ط قَالُوا الْحَقَّ ج وَھُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِيْرُo
(سبا، 34 : 23)
’’اور اس کی بارگاہ میں شفاعت نفع نہ دے گی سوائے جس کے حق میں اس نے اِذن دیا ہو گا، یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کردی جائے گی تو وہ (سوالاً) کہیں گے کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ (جواباً) کہیں گے’حق فرمایا‘ (یعنی اذن دے دیا) وہی نہایت بلند، بہت بڑا ہےo‘‘
8۔ وَلَا یَمْلِکُ الَّذِيْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ یَعْلَمُوْنَo
(الزخرف، 43 : 86)
’’اور جن کی یہ (کافر لوگ) اللہ کے سوا پرستش کرتے ہیں وہ (تو) شفاعت کا (کوئی) اختیار نہیں رکھتے مگر (ان کے برعکس شفاعت کا اختیار ان کو حاصل ہے) جنہوں نے حق کی گواہی دی اور وہ اسے (یقین کے ساتھ) جانتے بھی تھےo‘‘
1۔ عَنْ مَعْبَدِ بْنِ هِلَالٍ الْعَنَزِيِّ قَالَ : اجْتَمَعْنَا نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ فَذَهَبْنَا إِلَی أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ وَذَهَبْنَا مَعَنَا بِثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ إِلَيْهِ یَسْأَلُهُ لَنَا عَنْ حَدِیثِ الشَّفَاعَةِ فَإِذَا هُوَ فِي قَصْرِهِ فَوَافَقْنَاهُ یُصَلِّي الضُّحَی فَاسْتَأْذَنَّا فَأَذِنَ لَنَا وَهُوَ قَاعِدٌ عَلَی فِرَاشِهِ فَقُلْنَا لِثَابِتٍ : لَا تَسْأَلْهُ عَنْ شَيْئٍ أَوَّلَ مِنْ حَدِیثِ الشَّفَاعَةِ فَقَالَ : یَا أَبَا حَمْزَةَ، هَؤُلَائِ إِخْوَانُکَ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ جَائُوْکَ یَسْأَلُوْنَکَ عَنْ حَدِيْثِ الشَّفَاعَةِ فَقَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ ﷺ قَالَ : إِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَةِ مَاجَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ فِي بَعْضٍ فَیَأْتُوْنَ آدَمَ فَیَقُوْلُوْنَ : اشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّکَ فَیَقُوْلُ : لَسْتُ لَهَا وَلَکِنْ عَلَيْکُمْ بِإِبْرَاهِیمَ فَإِنَّهُ خَلِيْلُ الرَّحْمٰنِ فَیَأْتُوْنَ إِبْرَاهِيْمَ فَیَقُوْلُ : لَسْتُ لَهَا وَلَکِنْ عَلَيْکُمْ بِمُوْسَی فَإِنَّهُ کَلِيْمُ اللهِ فَیَأْتُوْنَ مُوْسَی فَیَقُوْلُ : لَسْتُ لَهَا وَلَکِنْ عَلَيْکُمْ بِعِيْسَی فَإِنَّهُ رُوْحُ اللهِ وَکَلِمَتُهُ فَیَأْتُوْنَ عِيْسَی فَیَقُوْلُ : لَسْتُ لَهَا وَلَکِنْ عَلَيْکُمْ بِمُحَمَّدٍ ﷺ فَیَأْتُوْنِي فَأَقُوْلُ : أَنَا لَهَا فَأَسْتَأْذِنُ عَلَی رَبِّي فَیُؤْذَنُ لِي وَیُلْهِمُنِي مَحَامِدَ أَحْمَدُهُ بِهَا لَا تَحْضُرُنِي الْآنَ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ وَأَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا فَیَقُوْلُ : یَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَکَ وَقُلْ یُسْمَعْ لَکَ، وَسَلْ تُعْطَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَقُوْلُ : یَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي فَیَقُوْلُ : انْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ شَعِيْرَةٍ مِنْ إِيْمَانٍ فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ ثُمَّ أَعُوْدُ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا فَیُقَالُ : یَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَکَ وَقُلْ یُسْمَعْ لَکَ وَسَلْ تُعْطَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَقُوْلُ : یَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي فَیَقُوْلُ : انْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ أَوْ خَرْدَلَةٍ مِنْ إِيْمَانٍ فَأَخْرِجْهُ فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ ثُمَّ أَعُوْدُ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا فَیَقُوْلُ : یَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَکَ وَقُلْ یُسْمَعْ لَکَ وَسَلْ تُعْطَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ۔ فَأَقُوْلُ : یَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي۔ فَیَقُوْلُ : انْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ أَدْنَی أَدْنَی أَدْنَی مِثْقَالِ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيْمَانٍ فَأَخْرِجْهُ مِنْ النَّارِ فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ۔…
عَنِ الْحَسَنْ الْبَصْرِيِّ قَالَ : حَدَّثَنِي کَمَا حَدَّثَکُمْ بِهِ قَالَ : ثُمَّ أَعُوْدُ الرَّابِعَةَ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا فَیُقَالُ : یَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَکَ وَقُلْ یُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَهْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ۔ فَأَقُوْلُ : یَا رَبِّ، ائْذَنْ لِي فِيْمَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ فَیَقُوْلُ : وَعِزَّتِي وَجَلَالِي وَکِبْرِیَائِي وَعَظَمَتِي لَأُخْرِجَنَّ مِنْهَا مَنْ قَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : التوحید، باب : کلام الرب مع الأنبیاء وغیره، 6 / 2727، الرقم : 7072، ومسلم في الصحیح، کتاب : الإیمان، باب : أدنی أهل الجنۃ منزلۃ فیها، 1 / 182، الرقم : 193، والترمذي في الصحیح، أبواب : الزھد، باب : ما جاء في الشفاعۃ، 2 / 66، الرقم : 4434، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 16، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 11 / 450، الرقم : 11723، والبیهقي في شعب الإیمان، 1 / 285، الرقم : 308، وابن حبان في الصحیح، 14 / 377، الرقم : 6464، والدارمي في السنن ، 2 / 235، الرقم : 2807۔
’’معبد بن ہلال عنزی سے روایت کی ہے کہ اہل بصرہ سے ہم کچھ لوگ جمع ہو کر حضرت انس بن مالک کی خدمت میں گئے اور اپنے ساتھ حضرت ثابت کو بھی لے گئے تاکہ وہ ہمیں حدیثِ شفاعت سنانے کا ان سے مطالبہ کریں۔ جب ہم ان کی خدمت میں گئے تو وہ اپنے مکان میں چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ہم نے اجازت طلب کی تو ہمیں اجازت دے دی گئی اور وہ (یعنی حضرت انس بن مالک) اپنے بستر پر بیٹھے تھے۔ ہم نے ثابت سے کہا کہ حدیثِ شفاعت سے پہلے ان سے کسی اور چیز کے بارے میں نہ پوچھنا۔ انہوں نے کہا کہ اے ابو حمزہ! اہل بصرہ سے آپ کے یہ بھائی آپ سے حدیثِ شفاعت پوچھنے آئے ہیں۔ (حضرت انس بن مالک)بیان کرتے ہیں کہ ہم سے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قیامت کے روز لوگ دریا کی موجوں کی مانند بے قرار ہوں گے۔ وہ حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے کہ اپنے رب کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کیجئے۔ وہ فرمائیں گے کہ میں اس کام کے لائق نہیں ہوں۔ تمہیں چاہیے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائو کیونکہ وہ اللہ کے خلیل ہیں۔ پس وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو جائیں گے، وہ فرمائیں گے کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں، تمہیں چاہیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جائو کیونکہ وہ کلیم اللہ ہیں۔ پس وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں جائیں گے۔ وہ فرمائیں گے کہ میں اس کام کا اہل نہیں ہوں، لیکن تمہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جانا چاہیے کیونکہ وہ روح اللہ اور اس کا کلمہ ہیں۔ پس وہ حضرت عیسیٰ ںٰ کے پاس جائیں گے۔ وہ فرمائیں گے کہ میں اس کام کے قابل نہیں۔ تمہیں محمد مصطفی ﷺ کے پاس جانا چاہیے۔ پس وہ میری خدمت میں حاضر ہو جائیں گے تو میں کہوں گا کہ یہ تو میرا کام ہے۔ پس میں اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا تو مجھے اجازت مل جائے گی اور مجھے ایسی محامد (حمد کی جمع) کا الہام کیا جائے گا جن کے ساتھ میں حمد و ثنا کروں گا اور مجھے وہ اب یاد نہیں ہیں۔ پس میں ان محامد کے ساتھ اس کی حمدوثنا کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہو جائوں گا۔ مجھ سے کہا جائے گا کہ اے محمد(صلی اللہ علیک وسلم)! اپنا سر اٹھائو اور کہو کہ تمہاری سنی جائے گی، مانگو کہ تمہیں دیا جائے گا اور شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا : اے رب! میری اُمت، میری اُمت۔ پس فرمایا جائے گا کہ جائو اور جس کے دل میںجو کے برابر بھی ایمان ہو اسے جہنم سے نکال لو۔ میں جا کر یہی کروں گا۔ پھر واپس آ کر ان محامد کے ساتھ دوبارہ اس کی حمدوثنا بیان کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہو جائوں گا۔ کہا جائے گا کہ اے محمد (صلی اللہ علیک وسلم)! اپنا سر اٹھائو اور کہو کہ تمہاری سنی جائے گی اور مانگو کہ تمہیں دیا جائے گا اور شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا کہ اے رب! میری اُمت، میری اُمت۔ پس فرمایا جائے گا کہ جائو اور جہنم سے اسے بھی نکال لو جس کے دل میں ذرے کے برابر یا رائی کے برابر بھی ایمان ہو۔ پس میں جا کر ایسا ہی کروں گا۔ پھر واپس آ کر ان محامد کے ساتھ اس کی حمدوثنا بیان کروں گا اور پھر اس کے حضور سجدہ ریز ہو جائوں گا۔ پس فرمایا جائے گا کہ اے محمد(صلی اللہ علیک وسلم)! اپنا سر اٹھائو اور کہو کہ تمہاری سنی جائے گی اور مانگو کہ تمہیں دیا جائے گا اور شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا کہ اے رب! میری امت، میری امت۔ پس فرمایا جائے گا کہ جائو اور اسے بھی جہنم سے نکال لو جس کے دل میں رائی کے دانے سے بھی بہت ہی کم ایمان ہو۔ پس میں جا کر ایسا ہی کروں گا۔…
’’حضرت حسن بصری رَحِمَهُ اللہ ( حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ہی مروی یہ اضافہ) بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ پھر میں چوتھی دفعہ جائوں گا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے محمد(صلی اللہ علیک وسلم)! اپنا سر اٹھائو اور کہو کہ تمہاری سنی جائے گی اور مانگو کہ تمہیں دیا جائے گا اور شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا کہ اے رب! مجھے ان کی اجازت بھی دیجئے جنہوں نے لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ کہا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ مجھے اپنی عزت، اپنے جلال، اپنی کبریائی اور عظمت کی قسم ہے، میں ضرور دوزخ سے انہیں بھی نکال دوں گا جنہوں نے لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُکہا ہے۔‘‘
2۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : إِنَّ الشَّمْسَ تَدْنُوْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، حَتَّی یَبْلُغَ الْعَرَقُ نِصْفَ الْأُذُنِ۔ فَبَيْنَاھُمْ کَذَلِکَ اسْتَغَاثُوْا بِآدَمَں، ثُمَّ بِمُوْسَی علیه السلام، ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ ﷺ ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ۔
2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الزکاۃ، باب : من سأل الناس تکثرًا، 2 / 536، الرقم : 1405، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 30، الرقم : 8725، والبیھقي في شعب الإیمان، 3 / 269، الرقم : 3509، وابن منده في کتاب الإیمان، 2 / 854، الرقم : 884، والدیلمي في مسند الفردوس، 2 / 377، الرقم : 3677، والهیثمي في مجمع الزوائد، 10 / 371، ووثّقه۔
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قیامت کے روز سورج لوگوں کے بہت قریب آ جائے گا یہاں تک کہ پسینہ نصف کانوں تک پہنچ جائے گا۔ لوگ اس حالت میں (پہلے) حضرت آدم علیہ السلام سے استغاثہ کرنے جائیں گے، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے، پھر بالآخر حضرت محمد مصطفی ﷺ سے استغاثہ کریں گے۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
3۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : جَلَسَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ یَنْتَظِرُوْنَهُ قَالَ : فَخَرَجَ حَتّٰی إِذَا دَنَا مِنْھُمْ سَمِعَھُمْ یَتَذَاکَرُوْنَ فَسَمِعَ حَدِيْثَھُمْ فَقَالَ بَعْضُھُمْ عَجَباً : إِنَّ اللهَ عزوجل اتَّخَذَ مِنْ خَلْقِهِ خَلِيْلًا اِتَّخَذَ اِبْرَاھِيْمَ خَلِيْلًا وَقَالَ آخَرُ : مَاذَا بِأَعْجَبَ مِنْ کَلَامِ مُوْسَی کَلَّمَهُ تکْلِيْماً وَقَالَ آخَرَ : فَعِيْسَی کَلِمَةُ اللهِ وَرُوْحُهُ وَقَالَ آخَرُ : آدَمُ اصْطَفَاهُ اللهُ فَخَرَجَ عَلَيْھِمْ فَسَلَّمَ وَقَالَ : قَد سَمِعْتُ کَلَامَکُمْ وَعَجَبَکُمْ إِنَّ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلُ اللهِ وَھُوَ کَذَلِکَ وَمُوْسَی نَجِيُّ اللهِ وَھُوَ کَذَلِکَ وَعِيْسَی رُوْحُ اللهِ وَکَلِمَتُهُ وَھُوَ کَذَلِکَ وَآدَمُ اصْطَفَاهُ اللهُ وَھُوَ کَذَلِکَ أَ لَا وَأَناَ حَبِيْبُ اللهِ وَلَا فَخْرَ وَأَناَ حَامِلُ لِوَاء الْحَمْدِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلاَ فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ یُحَرِّکُ حِلَقَ الْجَنَّةِ فَیَفْتَحُ اللهُ لِي فَیُدْخِلُنِيْھَا وَمَعِيَ فُقَرَآئُ الْمُؤْمِنِيْنَ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَکْرَمُ الأَوَّلِيْنَ وَالْاٰخِرِيْنَ وَلَا فَخْرَ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ۔
3 : أخرجه والترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : في فضل النبي ﷺ ، 5 / 587، الرقم : 3616، والدارمي في السنن، 1 / 39، الرقم : 47، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 1 / 561۔
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضي اللہ عنھما سے روایت ہے کہ چند صحابہ کرام ث نبی اکرم ﷺ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں آپ ﷺ تشریف لائے۔ جب آپ ﷺ قریب پہنچے تو اِن صحابہ کو کچھ گفتگو کرتے ہوئے سنا۔ ان میں سے بعض نے کہا! تعجب کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا۔ دوسرے نے کہا یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے سے زیادہ تعجب خیز تو نہیں۔ ایک نے کہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں کسی نے کہا اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو چن لیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے۔ سلام کیا اور فرمایا؛ میں نے تمہاری گفتگو اور تمہارا تعجب کرنا سنا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں۔ بے شک وہ اسی طرح ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نجی اللہ ہیں۔ بے شک وہ اسی طرح ہیں‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ ہیں اور کلمۃ اللہ ہیں۔ واقعی وہ اسی طرح ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا۔ وہ بھی یقیناً اسی طرح ہیں۔ مگر سنو! اچھی طرح آگاہ ہو جائو کہ (میری شان یہ ہے) میں اللہ کا حبیب ہوں اور (اس پر) مجھے کوئی فخر نہیں۔ میں قیامت کے دن (اللہ تعالیٰ کی) حمد کا جھنڈا اٹھانے والا ہوں اور مجھے کوئی فخر نہیں اور قیامت کے دن سب سے پہلے شفاعت کرنے والا میں ہوں گا اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی اور مجھے کوئی فخر نہیں۔ سب سے پہلے جنت کا کنڈا کھٹکھٹانے والا بھی میں ہوں گا۔ اللہ تعالیٰ میرے لئے اسے کھول دے گا اور مجھے اس میں داخل فرما دے گا۔ میرے ساتھ فقیر و غریب مؤمن ہونگے اور مجھے کوئی فخر نہیں۔ میں اولین و آخرین میں سب سے زیادہ مکرم و معزز ہوں۔ لیکن مجھے کوئی فخر نہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور دارمی نے روایت کیا ہے۔
4۔ رَوَی أَبُوْ حَنِيْفَةَ رضی الله عنه عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِهِ تَعَالَی : {عَسَی أَنْ يَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَحْمُوْدًا} ]بنی اسرائیل، 17 : 79[ قَالَ : اَلْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ : الشَّفَاعَةُ، یُعَذِّبُ اللهُ تَعَالَی قَوْمًا مِنْ أَھْلِ الْإِيْمَانِ بِذُنُوْبِھِمْ ثُمَّ یُخْرِجُھُمْ بِشَفَاعَةِ مُحَمَّدٍ ﷺ فَیُوْتَی بِهِمْ نَهَرًا یُقَالُ لَهُ الْحَیَوَانُ، فَیَغْتَسِلُوْنَ فِيْهِ ثُمَّ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ، فَیُسَمَّوْنَ الْجَهَنَّمِیُّوْنَ، ثُمَّ یَطْلُبُوْنَ مِنَ اللهِ تَعَالَی فَیُذْھِبُ عَنْهُمْ ذَلِکَ الْاِسْمَ۔ رَوَاهُ أَبُوْ حَنِيْفَةَ۔
4 : أخرجه الخوارزميفي جامع المسانید للإمام أبي حنیفۃ، 1 / 147، 148، وأخرج المحدثون ھذا الحدیث بأسانیدھم مختصراً منھم : البخاري في الصحیح، کتاب : الرقاق، باب : صفۃ الجنۃ والنار، 5 / 2401، الرقم : 6198، وأبو داود في السنن، کتاب : السنۃ، باب : في الشفاعۃ، 4 / 236، الرقم : 4740، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 434۔
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ حضور ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے فرمان کے بارے میں روایت کرتے ہیں : {یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا (یعنی وہ مقامِ شفاعتِ عظمیٰ جہاں جملہ اوّلین و آخرین آپ ﷺ کی طرف رجوع اور آپ کی حمد کریں گے)}۔ آپ ﷺ نے فرمایا : مقام محمود سے مراد شفاعت ہے، اللہ تعالیٰ اہل ایمان میں سے ایک قوم کو ان کے گناہوں کے سبب عذاب دے گا، پھر انہیں محمد ﷺ کی شفاعت کے واسطہ سے (جہنم سے) نکالے گا تو انہیں نہر حیات پر لایا جائے گا۔ پس وہ اس میں غسل کر کے جنت میں داخل ہوں گے تو (وہاں) انہیں جہنمی کے نام سے پکارا جائے گا، پھر وہ اللہ تعالیٰ سے (اس نام کے خاتمہ کی) گزارش کریں گے تو وہ ان سے اس نام کو بھی ختم فرما دے گا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو حنیفہ نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : شَفَاعَتِي لِأَھْلِ الْکَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِي۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔
5 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب : ما جاء في الشفاعۃ، 4 / 625، الرقم : 2435، وأبو داود في السنن، کتاب : السنۃ، باب : في الشفاعۃ، 4 / 236، الرقم : 4739، وابن ماجه عن جابر رضی الله عنه في السنن، کتاب : الزھد، باب : ذکر الشفاعۃ، 2 / 1441، الرقم : 4310، والحاکم في المستدرک، 1 / 139، الرقم : 228، وقال الحاکم : ھذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین، وأبو یعلی في المسند، 6 / 40، الرقم : 3284، والطبراني في المعجم الصغیر، 1 / 272، الرقم : 448، والطیالسي في المسند، 1 / 233، الرقم : 1669۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میری شفاعت میری امت کے ان افراد کے لئے ہے جنہوں نے کبیرہ گناہ کئے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور ابو داود نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی فرماتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
6۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : سَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ أَنْ یَشْفَعَ لِي یَوْمَ الْقِیَامَةِ؟ فَقَالَ : أَنَا فَاعِلٌ، قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، فَأَيْنَ أَطْلُبُکَ؟ قَالَ : اُطْلُبْنِي أَوَّلَ مَا تَطْلُبُنِي عَلَی الصِّرَاطِ، قَالَ : قُلْتُ : فَإِنْ لَمْ أَلْقَکَ عَلَی الصِّرَاطِ؟ قَالَ : فَاطْلُبْنِي عِنْدَ الْمِيْزَانِ، قُلْتُ : فَإِنْ لَمْ أَلْقَکَ عِنْدَ الْمِيْزَانِ؟ قَالَ : فَاطْلُبْنِي عِنْدَ الْحَوْضِ، فَإِنِّي لَا أُخْطِیئُ ھَذِهِ الثَّـلَاثَ الْمَوَاطِنَ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ۔ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔ وَرِجَالُ أَحْمَدَ رِجَالُ الصَّحِيْحِ۔
6 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفۃ القیامۃ والرقائق، باب : ما جاء في شأن الصراط، 4 / 621، الرقم : 2433، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 178، الرقم : 12825، ورجاله رجال الصحیح، والبخاري في التاریخ الکبیر، 8 / 453، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 7 / 246۔248، الرقم : 2691۔2694، وإسناده صحیح، والمنذري في الترغیب والترھیب، 4 / 230، الرقم : 5486، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 9 / 360۔361، والمزي في تهذیب الکمال، 5 / 537، والعسقلاني في تهذیب التهذیب، 2 / 198، الرقم : 418۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا : (یا رسول اللہ!) آپ قیامت کے دن میری شفاعت فرمائیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں میں ہی ایسا کرنے والا ہوں، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! (اس دن) میں آپ کو کہاں تلاش کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پہلے مجھے پل صراط پر تلاش کرنا۔ میں نے عرض کیا : اگر آپ وہاں نہ ملیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میزان کے پاس ڈھونڈنا۔ میں نے عرض کیا : اگر وہاں بھی نہ ملیں تو کہاں تلاش کروں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم مجھ کو حوضِ کوثر پر تلاش کرنا کیونکہ ان تین جگہوں میں سے ہی کسی جگہ پر میں ہوں گا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، احمد اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔ امام احمد کی سند کے رجال بھی صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
7۔ عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِي رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : مَنْ صَلَّی عَلَی مُحَمَّدٍ، وَقَالَ : اَللَّھُمَّ أَنْزِلْهُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَکَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِي۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ۔ وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ : وَهَذَا إِسْنَادٌ لَا بَأْسَ بِهِ۔ وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ وَالْکَبِيْرِ وَأَسَانِيْدُهُمْ حَسَنَةٌ۔
7 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 108، الرقم : 17032، والبزار في المسند، 6 / 299، الرقم : 2315، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 321، الرقم : 3285، وفي المعجم الکبیر، 5 / 25، الرقم : 4480، وابن أبي عاصم في السنۃ، 2 / 329، الرقم : 2587، وابن قانع في معجم الصحابۃ، 1 / 217، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2 / 329، الرقم : 2587، والهیثمي في مجمع الزوائد، 10 / 163، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 3 / 514، والجھضمي في فضل الصلاۃ علی النبي ﷺ ، 1 / 52۔
’’حضرت رُوَیفع بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے محمد مصطفی ﷺ پر درود بھیجا اور یہ کہا : یا اللہ! حضور نبی اکرم ﷺ کو قیامت کے روز اپنے نزدیک مقامِ قرب پر فائز فرما، اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو جاتی ہے۔‘‘
اسے امام احمد، بزار اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ابن کثیر نے فرمایا کہ اس کی اسناد میں کوئی نقص نہیں ہے اور امام ہیثمی نے فرمایا کہ اسے امام بزار نے اور طبرانی نے المعجم الأوسط اور المعجم الکبیر میں روایت کیا ہے۔ ان سب کی سند حسن ہے۔
8۔ عَنْ أَبِي مُوْسَی الْأَشْعَرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : خُيِّرْتُ بَيْنَ الشَّفَاعَةِ وَبَيْنَ أَنْ يَّدْخُلَ نِصْفُ أُمَّتِي الْجَنَّةَ۔ فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ لِأَنَّھَا أَعَمُّ وَأَکْفَی۔ أَتُرَوْنَھَا لِلْمُتَّقِيْنَ؟ لَا، وَلَـکِنَّھَا لِلْمُذْنِبِيْنَ، الْخَطَّائِيْنَ، الْمُتَلَوِّثِيْنَ۔
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ۔
8 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الزھد، باب : ذکر الشفاعۃ، 2 / 1441، الرقم : 4311، وأحمد بن حنبل عن ابن عمر رضي الله عنهما في المسند، 2 / 75، الرقم : 5452، والبیهقي في الاعتقاد، 1 / 202، والهیثمي في مجمع الزوائد، 10 / 378، والکناني في مصباح الزجاجۃ، 4 / 260، الرقم : 1549۔
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مجھے یہ اختیار دیا گیا کہ خواہ میں قیامت کے روز شفاعت کر لوں یا میری آدھی اُمت کو (بلاحساب و کتاب) جنت میں داخل کر دیا جائے۔ تو میں نے اس میں سے شفاعت کو اختیار کیا ہے کیونکہ وہ عام اور (پوری اُمت کے لئے)کافی ہو گی۔ اور تم شائد یہ خیال کرو کہ وہ پرہیزگاروں کے لئے ہو گی؟ نہیں بلکہ وہ گناہگاروں ، خطاکاروں اور بدکرداروں کے لئے ہو گی۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔
9۔ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الْأَشْجَعِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَتَدْرُوْنَ مَا خَيَّرَنِي رَبِّيَ اللَّيْلَةَ؟ قُلْنَا : اللهُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ۔ قَالَ : فَإِنَّهُ خَيَّرَنِي بَيْنَ أَنْ یَدْخُلَ نِصْفُ أُمَّتِي الْجَنَّةَ، وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ، فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ۔ قُلْنَا : یَا رَسُوْلَ اللهِ، ادْعُ اللهَ أَنْ یَجْعَلَنَا مِنْ أَھْلِھَا۔ قَالَ : ھِيَ لِکُلِّ مُسْلِمٍ۔
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ۔
9 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الزهد، باب : ذکر الشفاعۃ، 2 / 1444، الرقم : 4317، والحاکم في المستدرک، 1 / 135، الرقم : 221، والطبراني في المعجم الکبیر، 18 / 68، الرقم : 126، وفي مسند الشامیین، 1 / 326، الرقم : 575، وابن منده في کتاب الإیمان، 20 / 873، الرقم : 932۔
’’حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم جانتے ہو رات میرے رب نے مجھے کیا اختیار دیا ہے؟ ہم نے عرض کیا : اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ سب سے بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اس نے مجھے یہ اختیار دیا کہ اگر میں چاہوں تو میری نصف اُمت (بلاحساب و کتاب) جنت میں داخل ہو جائے یا یہ کہ میں شفاعت کروں، تو میں نے شفاعت کو پسند کیا۔ صحابہ ث نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے ہمارے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ ہم کو (بھی) شفاعت کے حقداروں میں کر دے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ (شفاعت) ہر مسلمان کے لئے ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
10۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ زَارَ قَبْرِي وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِي۔ رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيُّ وَالْبَيْھَقِيُّ۔
10 : أخرجه الدارقطني في السنن، 2 / 278، الرقم : 194، والبیهقي في شعب الإیمان، 3 / 490، الرقم : 4159، والهیثمي في مجمع الزوائد، 4 / 2، وقال الھیثمي : رواه البزار، والحکیم الترمذي في نوادر الأصول، 2 / 67۔
’’حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے حق میں میری شفاعت واجب ہو گئی۔‘‘
اس حدیث کو امام دارقطنی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
11۔ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُھَنِيِّ رضی الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : إِذَا جَمَعَ اللهُ الْأَوَّلِيْنَ وَالْآخِرِيْنَ فَقَضَی بَيْنَھُمْ وَفَرَغَ مِنَ الْقَضَاءِ۔ قَالَ الْمُؤْمِنُوْنَ : قَد قَضَی بَيْنَنَا رَبُّنَا، فَمَنْ یَشْفَعُ لَنَا إِلَی رَبِّنَا؟ فَیَقُوْلُوْنَ : انْطَلِقُوْا إِلَی آدَمَ، فَإِنَّ اللهَ خَلَقَهُ بِیَدِهِ، وَکَلَّمَهُ۔ فَیَأْتُوْنَهُ، فَیَقُوْلُوْنَ : قُمْ فَاشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّنَا، فَیَقُوْلُ آدَمُ : عَلَيْکُمْ بِنُوْحٍ۔ فَیَأْتُوْنَ نُوْحًا، فَیَدُلُّھُمْ عَلَی إِبْرَاھِيْمَ۔ فَیَأْتُوْنَ إِبْرَاھِيْمَ، فَیَدُلُّھُمْ عَلَی مُوْسَی۔ فَیَأْتُوْنَ مُوْسَی، فَیَدُلُّھُمْ عَلَی عِيْسَی۔ فَیَأْتُوْنَ عِيْسَی، فَیَقُوْلُ : أَدُلُّکُمْ عَلَی النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ ﷺ ۔ قَالَ : فَیَأْتُوْنِي، فَیَأْذَنُ اللهُ لِي أَنْ أَقُوْمَ إِلَيْهِ، فَیَثُوْرُ مَجْلِسِي أَطْیَبَ رِيْحٍ شَمَّھَا أَحَدٌ قَطُّ، حَتَّی آتِيَ رَبِّي فَیُشَفِّعَنِي وَیَجْعَلَ لِي نُوْرًا مِنْ شَعْرِ رَأْسِي إِلَي ظُفْرِ قَدَمِي۔ فَیَقُوْلُ الْکَافِرُوْنَ عِنْدَ ذَلِکَ لِإِبْلِيْسَ : قَدْ وَجَدَ الْمُؤْمِنُوْنَ مَنْ یَشْفَعُ لَھُمْ، فَقُمْ أَنْتَ فَاشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّکَ فَإِنَّکَ أَنْتَ أَضْلَلْتَنَا۔ قَالَ : فَیَقُوْمُ، فَیَثُوْرُ مَجْلِسُهُ أَنْتَنَ رِيْحٍ شَمَّھَا أَحَدٌ قَطُّ، ثُمَّ یَعْظُمُ لِجَھَنَّمَ، فَیَقُوْلُ عِنْدَ ذَلِکَ : {وَقَالَ الشَّيْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْأَمْرُ إِنَّ اللهَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَ وَعَدْتُّکُمْ فَأَخْلَفْتُکُمْ} إِلی آخر الآیۃ۔ [إبراهیم، 14 : 22]۔
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَکِ۔
11 : أخرجه الدارمي في السنن، 2 / 421، الرقم : 2804، والطبراني في المعجم الکبیر، 17 / 320، الرقم : 887، وابن المبارک في المسند، 1 / 63، الرقم : 102، وفي الزهد، 1 / 111، الرقم : 374، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 7 / 453، والهیثمي في مجمع الزوائد، 10 / 376، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 2 / 530۔
’’حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جب اللہ تعالیٰ اولین و آخرین کو جمع فرمائے گا اور حساب کتاب کے فیصلہ سے فارغ ہو جائے گا تو مومن عرض کریں گے : ہمارے رب نے ہمارے درمیان فیصلہ فرما دیا سو اب کون ہمارے رب کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کرے گا؟ وہ (آپس میں مشورہ کر کے) کہیں گے : حضرت آدم علیہ السلام کے پاس چلو، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا اور ان کے ساتھ گفتگو فرمائی تو وہ ان کے پاس حاضر ہوکر عرض کریں گے : اٹھیے اور اپنے رب کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کیجئے۔ حضرت آدم علیہ السلام فرمائیں گے : تم لوگ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ پس وہ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے۔ وہ انہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جانے کا کہیں گے۔ پس وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ انہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیج دیں گے۔ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں آئیں گے تو وہ انہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیج دیں گے۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ فرمائیں گے : میں نبی اُمّی (محمد مصطفی) ﷺ کے پاس جانے کے لئے تمہاری رہنمائی کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : پھر وہ لوگ میرے پاس آئیں گے تو اللہ تعالیٰ مجھے اپنے حضور کھڑا ہونے کی توفیق عطا فرمائے گا، میری نشست سے ایسی خوشبو پھیلے گی کہ اس جیسی مہک کو کسی نے کبھی نہیں سونگھا ہوگا۔ یہاں تک کہ میں اپنے رب کے حضور آؤں گا تو وہ مجھے حقِ شفاعت عطا فرمائے گا اور مجھے سر کے بالوں سے لے کر قدموں کے ناخن تک سراپائے نور بنا دے گا۔ اس پر کافر ابلیس مردود سے کہیں گے : ایمان والوں نے ایسی ہستی کو پا لیا ہے جو ان کی شفاعت کرے گی پس تو کھڑا ہو اور اپنے رب سے ہماری شفاعت کر کیونکہ تو نے ہی ہمیں گمراہ کیا۔ راوی فرماتے ہیں : وہ کھڑا ہو گا تو اس کی نشست سے اتنی سخت بدبو پھیلے گی کہ کسی نے اس جیسی بدبو کبھی نہ سونگھی ہوگی، پھر وہ عذابِ جہنم کے لئے بڑا ہو جائے گا تو اس وقت وہ کہے گا (آیت کریمہ) : ’’اور شیطان کہے گا جبکہ فیصلہ ہو چکا ہوگا بے شک اللہ تعالیٰ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے (بھی) تم سے وعدہ کیا تھا سو میںنے تم سے وعدہ خلافی کی ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام دارمی، طبرانی اور ابن مبارک نے روایت کیا ہے۔
12۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ : حَدَّثَنَا نَبِيُّ اللهِ ﷺ قَالَ : إِنِّي لَقَائِمٌ أَنْتَظِرُ أُمَّتِي تَعْبُرُ عَلَی الصِّرَاطِ إذْ جَائَنِي عِيْسَی، فَقَالَ : ھَذِهِ الْأَنْبِیَاءُ قَدْ جَائَتْکَ؟ یَا مُحَمَّدُ، یَشْتَکُوْنَ۔ أَوْ قَالَ : یَجْتَمِعُوْنَ إِلَيْکَ۔ وَیَدْعُوْنَ اللهَ عزوجل أَنْ یُفَرِّقَ جَمْعَ الْأُمَمِ إِلَی حَيْثُ یَشَاءُ اللهُ لَھُمْ لِغَمِّ مَا ھُمْ فِيْهِ، وَالْخَلْقُ مُلْجَمُوْنَ بِالْعَرَقِ فَأَمَّا الْمُوْمِنُ فَھُوَ عَلَيْهِ کَالزَّکْمَةِ، وَأَمَّا الْکَافِرُ فَیَتَغَشَّاهُ الْمَوْتُ، قَالَ : فَأَقُوْلُ : یَا عِيْسَی، اْنتَظِرْ حَتَّی أَرْجِعَ إِلَيْکَ قَالَ : فَذَھَبَ نَبِيُّ اللهُ حَتّٰی قَامَ تَحْتَ الْعَرْشِ فَلَقِيَ مَا لَمْ یَلْقَ نَبِيٌّ مُصْطَفَی وَلَا نَبِيٌّ مُرْسَلٌ۔ فَأَوْحَی اللهُ عزوجل إِلَی جِبْرِيْلَ : اِذْھَبْ إِلَی مُحَمَّدٍ فَقُلْ لَّهُ : اِرْفَعْ رَأْسَکَ سَلْ تُعْطَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، قَالَ : فَشَفَّعْتُ فِي أُمَّتِي أَنْ أُخْرِجَ مِنْ کُلِّ تِسْعَةٍ وَتِسْعِيْنَ إِنْسَاناً وَّاحِداً قَالَ : فَمَازِلْتُ أَتَرَدَّدُ عَلَی رَبِّي عزوجل فَـلَا أَقُوْمُ بيْنَ یَدَيْهِ مَقَامًا إِلَّا شُفِّعْتُ، حَتَّی أَعْطَانِيَ اللهُ عزوجل مِنْ ذَالِکَ أَنْ قَالَ : یَا مُحَمَّدُ، أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِکَ مِنْ خَلْقِ اللهِ عزوجل مَنْ شَھِدَ أَنَّهُ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ یَوْمًا وَاحِداً مُخْلِصًا وَّمَاتَ عَلَی ذَالِکَ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ۔
12 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 178، الرقم : 2847۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں پل صراط پر اپنی اُمت کا عبور کرتے ہوئے انتظار کروں گا کہ اس اثناء میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیں گے وہ کہیں گے کہ اے محمد! یہ انبیاء آپ کے پاس التجا لے کر آئے ہیں یا آپ کے پاس اکھٹے ہو کر آئے ہیں (راوی کو شک ہے) اور اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں کہ تمام گروہوں کو وہ اپنی منشاء کے مطابق الگ کر دے تاکہ انہیں پریشانی سے نجات مل جائے۔ اس دن لوگ اپنے پسینوں میں ڈوبے ہوں گے مومن پر اس کا اثر ایسے ہو گا جیسے زکام میں (ہلکا پُھلکا پسینہ) اور جو کافر ہوگا اسے موت نے آ لیا ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا پس میں کہوں گا : اے عیسی! ذرا ٹھرے رہیے یہاں تک کہ میں آپ کے پاس لوٹ آؤں ۔پھر حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لے جائیں گے یہاں تک کہ عرش کے نیچے کھڑے ہوں گے۔ پس آپ ﷺ کو وہ شرف باریابی حاصل ہو گا جو کسی برگزیدہ نبی کو حاصل ہوا نہ کسی نبی مرسل کو۔پھر اللہ تعالیٰ حضرت جبریل علیہ السلام کو وحی فرمائے گا کہ محمد ( ﷺ ) کے پاس جا کر کہو : سر انور اٹھائیے۔ مانگیے آپ کو عطا کر دیا جائے گا۔ شفاعت کیجیے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پس میں اپنی اُمت کی شفاعت کروں گا۔ ہر 99 لوگوں میں سے ایک کو نکالتا جاؤں گا، آپ ﷺ نے فرمایا : میں بار بار اپنے رب کے حضور جائوں گا اور جب بھی اس کے حضور کھڑا ہوں گا، شفاعت کروں گا۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ مجھے شفاعت کا مکمل اختیار عطا فرمائے گا اور فرمائے گا : اے محمد، اللہ کی مخلوق میں سے اپنی اُمت کے ہر اُس شخص کو بھی جنت میں داخل کر دے جس نے ایک دن بھی اخلاص کے ساتھ یہ گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور اسی پر اس کی موت آئی ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔
13۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لِلْاَنْبِیَاء مَنَابِرُ مِنَ ذَھَبٍ قَالَ : فَیَجْلِسُوْنَ عَلَيْھَا وَیَبْقَی مِنْبَرِي لَا أَجْلِسُ عَلَيْهِ أَوْ لَا أَقْعُدُ عَلَيْهِ قَائِمًا بَيْنَ یَدَي رَبِّي مَخَافَةَ أَنْ یَبْعَثَ بِي إِلَی الْجَنَّةِ وَ یَبْقَی أُمَّتِي مِنْ بَعْدِي فَأَقُوْلُ : یَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي۔ فَیَقُوْلُ اللهُ عزوجل : یَا مُحَمَّدُ، مَا تُرِيْدُ أَنْ أَصْنَعَ بِأُمَّتِکَ فَأَقُوْلُ : یَا رَبِّ، حِسَابُھُمْ فَیُدْعَی بِھِمْ فَیُحَاسَبُوْنَ فَمِنْھُمْ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِرَحْمَةِ اللّٰهِ وَمِنْھُمْ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَتِي فَمَا أَزَالُ أَشْفَعُ حَتَّی أُعْطَی صِکَاکًا بِرِجَالٍ قَدْ بُعِثَ بِھِمْ إِلَی النَّارِ وَأَتَی مَالِکٌ : خَازِنُ النَّارِ فَیَقُوْلُ : یَا مُحَمَّدُ، مَا تَرَکْتَ لِلنَّارِ لِغَضْبِ رَبِّکَ فِي أُمَّتِکَ مِنْ بَقِيَّةٍ۔ رَوَاهُ الْحَاکِمُ۔
13 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 1 / 135، الرقم : 220۔
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (قیامت کے دن) تمام انبیاء علیہم السلام کے لئے سونے کے منبر بچھائے جائیں گے۔ وہ ان پر بیٹھیں گے اور میرا منبر خالی رہے گا۔ میں اس پر نہیں بیٹھوں گا بلکہ اپنے رب کریم کے حضور کھڑا رہوں گا اس ڈر سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے جنت میں بھیج دے اور میری امت، میرے بعد کہیں بے یار و مددگار نہ رہ جائے۔ اس لئے عرض کروں گا : اے میرے رب! میری امت، میری امت۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے محمد! تیری کیامرضی ہے، تیری امت کے ساتھ کیا سلوک کروں۔ حضور نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں : میں عرض کروں گا، اے میرے رب! ان کا حساب جلدی فرما دے۔ بس ان کو بلا یا جائے گا اور ان کا حساب ہوگا، کچھ ان میں سے اللہ کی رحمت سے جنت میں داخل ہونگے اور کچھ میری شفاعت سے، میں شفاعت کرتا رہوں گا یہاں تک کہ میں ایسے لوگوں کی رہائی کا پروانہ بھی حاصل کر لوں گا جنہیں دوزخ میں بھیجا جا چکا تھا یہاں تک کہ مالک دار و غہ جہنم عرض کرے گا : اے محمد (صلی اللہ علیک وآلک وسلم)! آپ نے اپنی اُمت میں سے کوئی بھی آگ میں باقی نہیں چھوڑا کہ جس پر اللہ رب العزت ناراض ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔
14۔ عَنْ حَرْبِ بْنِ سُرَيْجٍ الْبَزَّازِ قَالَ : قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ رضی الله عنه : جُعِلْتُ فِدَاکَ أَرَأَيْتَ ھَذِهِ الشَّفَاعَةَ الَّتِي یَتَحَدَّثُ بِھَا أَھْلُ الْعِرَاقِ، أَحَقٌّ ھِيَ؟ قَالَ : شَفَاعَةُ مَاذَا؟ قُلْتُ : شَفَاعَةُ مُحَمَّدٍ ﷺ فَقَالَ : حَقٌّ وَاللهِ، وَاللهِ لَحَدَّثَنِي عَمِّي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ، عَنْ عَلِيِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : أَشْفَعُ لِأُمَّتِي حَتَّی یُنَادِیَنِي رَبِّي عزوجل فَیَقُوْلُ : أَرَضِيْتَ یَا مُحَمَّدُ؟ فَأَقُوْلُ : نَعَمْ رَضِيْتُ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ وَالْبَزَّارُ۔
14 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 44، الرقم : 2084، والبزار في المسند، 2 / 240، الرقم : 638، وأبو نعیم الأصبھاني في حلیۃ الأولیاء، 3 / 179، وابن کثیر في البدایۃ والنھایۃ، 10 / 457۔
’’حرب بن سریج بزاز سے روایت ہے کہ میں نے امام ابو جعفر محمد بن علی بن حسین باقر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : میں آپ پر قربان! آپ کا اس شفاعت کے بارے کیا خیال ہے جس کے بارے میں اہلِ عراق تذکرہ کرتے ہیں، کیا یہ حق ہے؟ انہوں نے فرمایا : کون سی شفاعت؟ میں نے عرض کیا : حضور نبی اکرم ﷺ کی شفاعت! انہوں نے فرمایا : اللہ رب العزت کی قسم! حق ہے، اللہ تعالیٰ کی قسم! مجھ سے میرے چچا محمد بن علی بن حنفیہ نے حضرت علی بن ابی طالب ث سے روایت کیا : انہوں نے کہا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (قیامت کے دن) میں اپنی امت کے لئے شفاعت کرتا رہوں گا حتی کہ میرا رب مجھے ندا دے کر پوچھے گا : اے محمد( ﷺ )! کیا آپ راضی ہو گئے؟ میں عرض کروں گا : ہاں! میں راضی ہو گیا۔‘‘ اسے امام طبرانی اور بزار نے روایت کیا ہے۔
1۔ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما : اَلسَّابِقُ بِالْخَيْرَاتِ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ، وَالْمُقْتَصِدُ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِرَحْمَةِ اللهِ، وَالظَّالِمُ لِنَفْسِهِ وَأَصْحَابُ الأَعْرَافِ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَةِ مُحَمَّدٍ ﷺ ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْکَبِيْرِ۔
1 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 11 / 189، الرقم : 11454، والدیلمي في مسند الفردوس، 5 / 466، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 3 / 556، والسیوطي في الدر المنثور، 7 / 25۔
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں خیرات (نیکیوں) کی طرف سبقت لے جانے والا جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوگا، اور مقتصد (درمیانہ درجہ کا) جنت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے داخل ہو گا، اور ظالم لنفسهٖ (اپنے اوپر ظلم کرنے والا) اور اصحابِ اعراف جنت میں حضور نبی اکرم ﷺ کی شفاعت سے داخل ہوں گے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں روایت کیا ہے۔
2۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنهما قَالَ : لَا تَزَالُ الشَّفَاعَةُ بِالنَّاسِ، وَھُمْ یَخْرُجُوْنَ مِنَ النَّارِ حَتَّی إِنَّ إِبْلِيْسَ الْأَبَالِسِ لَیَتَطَاوَلُ لَھَا رَجَاءَ أَنْ تُصِيْبَهُ۔
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْکَبِيْرِ۔
2 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 10 / 215، الرقم : 10513، والھیثمي في مجمع الزوائد، 10 / 380، وأبو نعیم الأصبھاني في حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیائ، 4 / 130۔
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا : لوگوں کے ساتھ شفاعت کا معاملہ جاری رہے گا، اور وہ دوزخ سے نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ ابلیسوں کا ابلیس بھی اس سے بہرہ ور ہونے کی خواہش کرے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں روایت کیا ہے۔
3۔ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْیَمَانِ رضی الله عنه أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا یَقُوْلُ : اَللَّھُمْ اجْعَلْنِي فِيْمَنْ تُصِيْبُهُ شَفَاعَةُ مُحَمَّدٍ ﷺ ، قَالَ : إِنَّ اللهَ یُغْنِي الْمُؤْمِنِيْنَ عَنْ شَفَاعَةِ مُحَمَّدٍ ﷺ وَلَکِنَّ الشَّفَاعَةَ لِلْمُذْنِبِيْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُسْلِمِيْنَ۔ رَوَاهُ الْبَيْھَقِيُّ فِي الْاِعْتِقَادِ۔
3 : أخرجه البیھقي في الاعتقاد، 1 / 203۔
’’حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا : اے اللہ! تو مجھے ان میں شامل کر جن کو حضور ﷺ کی شفاعت نصیب ہو گی، انہوں نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ مؤمنین کو حضور ﷺ کی شفاعت سے مستغنی کر دے گا، لیکن وہ شفاعت خاص طور پر مؤمن اور مسلمان گناہگاروں کے لئے ہے۔‘‘ اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
4۔ عَنِ الْحَسَنِ رَحِمَهُ الله قَالَ : إِذَا سَمِعْتَ الْمُؤَذِّنَ، فَقُلْ کَمَا یَقُوْلُ، فَإِذَا قَالَ : حَيَّ عَلَی الصَّلَاةِ، فَقُلْ : لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ، فَإِذَا قَالَ : قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، فَقُلْ : اَللّٰھُمَّ، رَبَّ ھَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ، أَعْطِ مُحَمَّدًا سُؤْلَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فَلَنْ یَقُوْلَھَا رَجُلٌ حِيْنَ یُقِيْمُ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللهُ فِي شَفَاعَةِ مُحَمَّدٍ ﷺ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔ رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔
4 : أخرجه ابن أبي شیبۃ في المصنف، 1 / 206، الرقم : 2365، وأیضاً، 6 / 97، الرقم : 29772۔
’’حضرت حسن بصری رَحِمَهُ اللہ فرماتے ہیں : جب تو مؤذن کو (اذان دیتا) سنے تو جو وہ کہتا ہے تو بھی کہہ، پس جس وقت وہ کہے : حَيَّ عَلَی الصَّلَاةِ، تَو تُو کہہ : لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ، جس وقت وہ (اقامت میں) قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ کہے تَو توُ کہہ : اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ أَعْطِ مُحَمَّدًا سُؤْلَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، {اے اللہ! اس دعوتِ کامل اور قائم ہونے والی نماز کے رب! محمدمصطفی ﷺ کو ان کا طلب کیا ہوا روزِ قیامت عطا فرما} ہر ایسا کہنے والے کو اللہ تعالیٰ حضور نبی اکرم ﷺ کی شفاعت میں داخل فرمائے گا۔‘‘ اسے امام ابنِ ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيْبٍ قَالَ : کُنْتُ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ تَکْذِيْباً بِالشَّفَاعَةِ، حَتَّی لَقِيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما، فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ کُلَّ آیَةٍ ذَکَرَھَا اللهُ عَزَّوَجَلَّ فِيْھَا خُلُوْدُ أَھْلِ النَّارِ، فَقَالَ : یَا َطلْقُ، أَتُرَاکَ أَقْرَأَ ِلکِتَابِ اللهِ مِنِّي وَأَعْلَمَ بِسُنَّةِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَاتُّضِعْتُ لَهُ؟ فَقُلْتُ : لَا وَاللهِ! بَلْ أَنْتَ أَقْرَأُ لِکِتَابِ اللهِ مِنِّي وَأَعْلَمُ بِسُنَّتِهِ مِنِّي۔ قَالَ : فَإِنَّ الَّذِي قَرَأْتَ، أَھْلُھَا ھُمُ الْمُشْرِکُوْنَ، وَلَـکِنْ قَوْمٌ أَصَابُوْا ذُنُوْبًا فَعُذِّبُوْا بِھَا، ثُمَّ أُخْرِجُوْا مِنَ النَّارِ، صُمَّتَا، وَأَھْوَی بِیَدَيْهِ إِلَی أُذُنَيْهِ۔ إِنْ لَمْ أَکُنْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : یَخْرُجُوْنَ مِنَ النَّارِ۔ وَنَحْنُ نَقْرَأُ مَا تَقْرَأُ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَمَعْمَرُ بْنُ رَاشِدٍ وَابْنُ الْجَعْدِ۔
5 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 330، الرقم : 14534، ومعمر بن راشد في الجامع، 11 / 412، وابن الجعد في المسند، 1 / 486، الرقم : 3384، والبیھقي في شعب الإیمان، 1 / 294، الرقم : 323، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 2 / 55۔
’’طلق بن حبیب روایت کرتے ہیں کہ میں لوگوں میں سب سے زیادہ سخت شفاعت کو جھٹلانے والا تھا یہاں تک کہ میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے ملا۔ میں نے انہیں ہر وہ آیت پڑھ کر سنائی جس میں اللہ رب العزت نے اہلِ جہنم کا (جہنم میں) ہمیشہ رہنے کا ذکر کیا ہے تو انہوں نے فرمایا : اے طلق! کیا تم مجھ سے زیادہ قرآن مجید پڑھے ہو اور مجھ سے زیادہ حضور نبی اکرم ﷺ کی سنت جانتے ہو کہ میں اس کے آگے سر تسلیمِ خم کروں؟ میں نے کہا : اللہ تعالیٰ کی قسم نہیں! بلکہ آپ مجھ سے زیادہ قرآن مجید پڑھے ہیں اور مجھ سے زیادہ حضور نبی اکرم ﷺ کی سنت جانتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا : جن آیات کی تُو نے تلاوت کی ہیں ان کے اہل، مشرکین ہیں، البتہ دوسرے وہ لوگ جنہوں نے گناہ کیا تو انہیں ان کے سبب عذاب دیا جائے گا پھر انہیں آگ سے نکال لیا جائے گا، انہوں نے اپنے ہاتھوں سے کانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ بہرے ہو جائیں اگر میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہو کہ وہ آگ سے نکلیں گے۔ ہم وہی پڑھتے ہیں جو تم پڑھتے ہو۔‘‘
اسے امام احمد، معمر بن راشد اور ابن الجعد نے روایت کیا ہے۔
6۔ عَنْ أَیُّوْبَ وَجَعْفَرٍ الْجُعْفِيِّ قَالَا : مَنْ قَالَ عِنْدَ الْإِقَامَةِ : اَللّٰھُمَّ، رَبَّ ھَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَةِ وَالصَّلَاةِ القَائِمَةِ أَعْطِ سَيِّدَنَا مُحَمَّدًا الْوَسِيْلَةَ وَارْفَعْ لَهُ الدَّرَجَاتِ، حَقَّتْ لَهُ الشَّفَاعَةُ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ ۔ رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ۔
6 : أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 1 / 496، الرقم : 1911۔
وأخرج ابن القیسراني في تذکرۃ الحفاظ، 1 / 369، الرقم : 363، والذھبي في سیر أعلام النبلاء، 10 / 113۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : إِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ فَقَالَ الرَّجُلُ : اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ، أَعْطِ مُحَمَّدًا سُؤْلَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِلَّا نَالَتْهُ شَفَاعَةُ مُحَمَّدٍ ﷺ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔
’’حضرت ایوب اور جعفر جعفی فرماتے ہیں : جس شخص نے اقامت کے وقت کہا : اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَةِ وَالصَّلَاةِ القَائِمَةِ أَعْطِ سَيِّدَنَا مُحَمَّدَا نِالْوَسِيْلَةَ وَارْفَعْ لَهُ الدَّرَجَاتِ {اے اللہ! اس دعوتِ کامل اور قائم ہونے والی نماز کے رب! سیدنا محمدمصطفی ﷺ کو مقام وسیلہ عطا فرما اور ان کے درجات بلند فرما} ایسا کہنے والے کے لئے حضور نبی اکرم ﷺ کی شفاعت لازم ہو گی۔‘‘
اسے امام عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔
7۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : مَنْ کَذَبَ بِالشَّفَاعَةِ فَلَيْسَ لَهُ فِيْهَا نَصِيْبٌ۔
رَوَاهُ الْھَنَّادُ وَالْآجُرِّيُّ۔
7 : أخرجه الهناد في الزهد، 1 / 143، الرقم : 189، والآجري في الشریعۃ : 337، وابن حجر العسقلاني في فتح الباري، 11 / 426۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : جس نے شفاعت کو جھٹلایا تو اس کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔‘‘ اسے امام ہناد اور آجری نے روایت کیا ہے۔
8۔ قال الشیخ تقي الدین السبکي : اعلم أنه یجوز ویحسن التوسّل والاستعانۃ والتشفع بالنبي ﷺ إلی ربّه سبحانه و تعالیٰ وجوز ذلک وحسنه من الأمور المعلومۃ لکل ذي دین، المعروفۃ من فعل الأنبیاء والمرسلین وسیر السلف الصالحین والعلماء والعوام من المسلمین، ولم ینکر أحد ذلک من أهل الأدیان ولا سمع به في زمن من الأزمان۔
8 : تقي الدین السبکي في شفاء السقام في زیارۃ خیر الأنام : 119۔
’’شیخ تقی الدین سبکی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا وسیلہ اور آپ ﷺ کی مدد و شفاعت چاہنا جائز ہی نہیں بلکہ ایک امرِ مستحسن ہے۔ اس کا جائز اور مستحسن ہونا ہر دین دار کے لیے ایک بدیہی امر ہے جو انبیائے کرام ، رسلِ عظام علیہم السلام، سلف صالحین، علمائے کرام اور مسلمانوں کے عوام الناس سے ثابت ہے اور کسی مذہب والے نے اس کا انکار نہیں کیا اور نہ کسی زمانہ میں ان امور کی برائی کی بات سنی گئی۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved