1۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ، وَتَوَلَّی عَنْهُ أَصْحَابُهُ، وَإِنَّهُ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِھِمْ، أَتَاهُ مَلَکَانِ، فَیُقْعِدَانِهِ فَیَقُوْلاَنِ : مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِي ھَذَا الرَّجُلِ، لِمُحَمَّدٍ ﷺ ؟ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَیَقُوْلُ : أَشْھَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللهِ وَرَسُوْلُهُ، فَیُقَالُ لَهُ : اُنْظُرْ إِلَی مَقْعَدِکَ مِنَ النَّارِ، قَدْ أَبْدَلَکَ اللهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّةِ۔ فَیَرَاھُمَا جَمِيْعًا۔ قَالَ : وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْکَافِرُ فَیُقَالُ لَهُ : مَاکُنْتَ تَقُوْلُ فِي ھَذَا الرَّجُلِ؟ فَیَقُوْلُ : لَا أَدْرِي، کُنْتُ أَقُوْلُ مَا یَقُوْلُ النَّاسُ، فَیُقَالُ : لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ۔ وَیُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيْدٍ ضَرْبَةً، فَیَصِيْحُ صَيْحَةً، یَسْمَعُھَا مَنْ یَلِيْهِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا اللَّفْظُ لِلْبُخَارِيِّ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الجنائز، باب : ما جاء في عذاب القبر، 1 / 462، الرقم : 1308، وفي کتاب : الجنائز، باب : المیت یسمع خفق النعال، 1 / 448، الرقم : 1673، ومسلم في الصحیح، کتاب : الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، باب : التی یصرف بھا في الدنیا أھل الجنۃ وأھل النار، 4 / 2200، الرقم : 2870، وأبو داود في السنن، کتاب : السنۃ، باب : في المسألۃ في القبر وعذاب القبر، 4 / 238، الرقم : 4752، والنسائي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : المسألۃ في القبر 4 / 97، الرقم : 2051۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بندے کو جب اس کی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اسے وہاں چھوڑ کر لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے۔ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر کہتے ہیں : تو اس شخص یعنی (سیدنا محمد ﷺ ) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟ اگر مومن ہو تو کہتا ہے : میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ﷺ ہیں۔ اس سے کہا جائے گا : (اگر تو ایمان نہ لاتا تو جہنم میں تیرا ٹھکانہ ہوتا) جہنم میں اپنے اس ٹھکانے کی طرف دیکھ کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے (نیک اعمال کے سبب) اس کے بدلے جنت میں ٹھکانہ دے دیا ہے۔ پس وہ دونوں کو دیکھتا ہو گا اور اگر منافق یا کافر ہو تو اس سے پوچھا جائے گا تو اس شخص (یعنی سیدنا محمد ﷺ ) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟ وہ کہتا ہے کہ مجھے تو معلوم نہیں۔ میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔ اس سے کہا جائے گا تو نے نہ جانا اور نہ پڑھا۔ اسے لوہے کے گُرز سے مارا جائے گا تو وہ (شدتِ تکلیف) سے چیختا چلاتا ہے، جسے سوائے جنات اور انسانوں کے سب قریب والے سنتے ہیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ بخاری کے ہیں۔
2۔ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَکْرٍ رضي الله عنهما في روایۃ طویلۃ قَالَتْ : فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ حَمِدَ اللهَ وَأَثْنَی عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ : مَا مِنْ شَيئٍ کُنْتُ لَمْ أَرَهُ إِلاَّ قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي ھَذَا حَتَّی الْجَنَّةَ وَالنَّارَ، وَلَقَدْ أُوْحِيَ إِلَيَّ أَنَّکُمْ تُفْتَنُوْنَ فِي الْقُبُوْرِ مِثْلَ أَوْ قَرِيْبَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِکَ قَالَتْ أَسْمَائُ۔ یُؤْتَی أَحَدُکُمْ فَیُقَالُ : مَا عِلْمُکَ بِهَذَا الرَّجُلِ؟ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ أَوِ الْمُوْقِنُ فَیَقُوْلُ : ھُوَ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ، جَاء نَا بِالْبَيِّنَاتِ وَالْھُدَی، فَأَجَبْنَا وَآمَنَّا وَاتَّبَعْنَا۔ فَیُقَالُ : نَمْ صَالِحًا، فَقَدْ عَلِمْنَا إِنْ کُنْتَ لَمُؤْمِنًا۔ وَأَمَّا الْمُنَافِقُ أَوِ الْمُرْتَابُ، لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِکَ قَالَتْ أَسْمَاءُ، فَیَقُوْلُ : لَا أَدْرِي۔ سَمِعْتُ النَّاسَ یَقُوْلُوْنَ شَيْئًا فَقُلْتُهُ۔
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا اللَّفْظُ لِلْبُخَارِيِّ۔
2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الوضوئ، باب : من لم یتوضأ إلا من الغشی المثقل، 1 / 79، الرقم : 182، وفي کتاب : الجمعۃ، باب : صلاۃ النساء مع الرجال في الکسوف، 1 / 358، الرقم : 1005، وفي کتاب : الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب : الاقتداء بسنن رسول الله ﷺ ، 6 / 2657، الرقم : 6857، ومسلم في الصحیح، کتاب : الکسوف، باب : ما عرض علی النبي ﷺ في صلاۃ الکسوف من أمر الجنۃ والنار، 2 / 624، الرقم : 905۔
’’حضرت اَسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے ایک طویل روایت میں مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ (نماز کسوف سے) فارغ ہو گئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا : کوئی ایسی چیز نہیں جسے میں نے اپنی اس جگہ پر نہ دیکھ لیا ہو یہاں تک کہ جنت و دوزخ بھی اور مجھ پر وحی کی گئی ہے کہ قبروں میں تمہارا امتحان ہوگا۔ دجال کے فتنے جیسی آزمائش یا اُس کے قریب تر کوئی شے۔ (راوی کہتے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ حضرت اسماء نے ان میں سے کون سی بات فرمائی) تم میں سے ہر ایک کو لایا جائے گا اور کہا جائے گا : اس شخص (حضور نبی اکرم ﷺ ) کے متعلق تو کیا جانتا ہے؟ جو ایمان والا یا یقین والا ہوگا وہ کہے گا کہ یہ اللہ کے رسول محمد ﷺ ہیں جو ہمارے پاس نشانیاں اور ہدایت کے ساتھ تشریف لائے۔ ہم نے ان کی بات مانی، اِن پر ایمان لائے اور اِن کی پیروی کی۔ اسے کہا جائے گا : آرام سے سو جا، ہمیں معلوم تھا کہ تو ایمان والا ہے۔ اگر وہ منافق یا شک کرنے والا ہوگا (راوی کہتے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ حضرت اسماء نے ان میں سے کون سی بات فرمائی) تو کہے گا : مجھے نہیں معلوم۔ میں لوگوں کو جو کچھ کہتے ہوئے سنتا تھا وہی کہہ دیتا تھا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ بخاری کے ہیں۔
3۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِذَا قُبِرَ الْمَيِّتُ، أَوْ قَالَ : أَحَدُکُمْ، أَتَاهُ مَلَکَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ۔ یُقَالُ لِأَحَدِهِمَا : اَلْمُنْکَرُ، وَالآخَرُ النَّکِيْرُ۔ فَیَقُوْلَانِ : مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَیَقُوْلُ مَا کَانَ یَقُوْلُ : ھُوَ عَبْدُ اللهِ وَرَسُوْلُهُ۔ أَشْھَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ۔ فَیَقُوْلَانِ : قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُوْلُ ھَذَا۔ ثُمَّ یُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فِي سَبْعِيْنَ، ثُمَّ یُنَوَّرُ لَهُ فِيْهِ، ثُمَّ یُقَالُ لَهُ : نَمْ۔ فَیَقُوْلُ : أَرْجِعُ إِلَی أَھْلِي فَأُخْبِرُھُمْ؟ فَیَقُوْلَانِ : نَمْ کَنَوْمَةِ الْعَرُوْسِ الَّذِي لَا یُوْقِظُهُ إِلَّا أَحَبُّ أَھْلِهِ إِلَيْهِ، حَتَّی یَبْعَثَهُ اللهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِکَ۔ وَإِنْ کَانَ مُنَافِقًا، قَالَ : سَمِعْتُ النَّاسَ یَقُوْلُوْنَ، فَقُلْتُ مِثْلَهُ، لَا أَدْرِي۔ فَیَقُوْلَانِ : قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُوْلُ ذَلِکَ۔ فَیُقَالُ لِلْأَرْضِ : الْتَئِمِي عَلَيْهِ، فَتَلْتَئِمُ عَلَيْهِ، فَتَخْتَلِفُ فِيْھَا أَضْلَاعُهُ۔ فَـلَا یَزَالُ فِيْھَا مُعَذَّبًا، حَتَّی یَبْعَثَهُ اللهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِکَ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ وَابْنُ حِبَّانَ۔
3 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : ما جاء في عذاب القبر، 3 / 383، الرقم : 1071، وابن حبان في الصحیح، 7 / 386، الرقم : 3117، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 3 / 56، الرقم : 12062، وابن أبي عاصم في السنۃ، 2 / 416، الرقم : 864، والمنذري في الترغیب والترغیب، 4 / 199، الرقم : 5399، والمبارکفوري في تحفۃ الأحوذي، 4 / 156، والمناوي في فیض القدیر، 2 / 331۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب میت کو یا (فرمایا : ) تم میں سے کسی ایک کو قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو اس کے پاس سیاہ رنگ کے نیلگوں آنکھوں والے دو فرشتے آتے ہیں۔ ایک کا نام منکر اور دوسرے کا نام نکیر ہے۔ وہ دونوں اس میت سے پوچھتے ہیں : اس عظیم ہستی (رسولِ مکرم ﷺ ) کے بارے میں تو کیا کہتا تھا؟ وہ شخص و ہی بات کہتا ہے جو دنیا میں کہا کرتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے اوررسول ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بیشک حضور نبی اکرم ﷺ اس کے (خاص) بندے اور رسول ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا۔ پھر اس کی قبر کو لمبائی و چوڑائی میں ستر ستر ہاتھ کشادہ کر دیا جاتا ہے اور نور سے بھر دیا جاتا ہے پھر اسے کہا جاتا ہے : (آرام سے) سو جا۔ وہ کہتا ہے میں واپس جاکر گھر والوں کو بتا آؤں۔ وہ کہتے ہیں نہیں، دلہن کی طرح سو جائو جسے گھر والوں میں سے جو اسے محبوب ترین ہوتا ہے وہی اٹھاتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ (روزِ محشر) اُسے اس کی خواب گاہ سے اٹھائے گا۔ اور اگر وہ شخص منافق ہو تو (سوالات کے نتیجے میں) کہے گا : میںنے ایسا ہی کہا جیسا میں لوگوں کو کہتے ہوئے سنا، (اس کے علاوہ)میں نہیں جانتا۔ پس وہ دونوں فرشتے کہیں گے کہ ہم جانتے تھے کہ تم ایسا ہی کہو گے۔ پس زمین سے کہا جائے گا کہ اس پر مِل جا۔ بس وہ اس پر اکٹھی ہو جائے گی یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں دھنس جائیں گی۔ وہ مسلسل عذاب میں مبتلا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس کی خواب گاہ سے اٹھائے گا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور حسن قرار دیا ہے اور امام ابن حبان نے بھی اسے روایت کیا ہے۔
4۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه في روایۃ طویلۃ قَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ، أَتَاهُ مَلَکٌ فَیَقُوْلُ لَهُ : مَا کُنْتَ تَعْبُدُ؟ فَإِنِ اللهُ هَدَاهُ قَالَ : کُنْتُ أَعْبُدُ اللهَ۔ فَیُقَالُ لَهُ : مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَیَقُوْلُ : هُوَ عَبْدُ اللهِ وَرَسُوْلُهُ : فَمَا یُسْأَلُ عَنْ شَيئٍ غَيْرِهَا … فَیَقُوْلُ : دَعُونِي حَتَّی أَذْهَبَ فَأُبَشِّرَ أَهْلِي فَیُقَالُ لَهُ : اسْکُنْ۔ رَوَاهُ أَبُودَاوُدَ وَأَحْمَدُ۔
4 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : السنۃ، باب : في المسألۃ في القبر وعذاب القبر، 4 / 238، الرقم : 4751، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 233، الرقم : 13472، والمنذري في الترغیب والترھیب، 4 / 194، الرقم : 5394، والعسقلاني في فتح الباري، 3 / 237۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مومن کو جب اس کی قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے جو پوچھتا ہے : تو کس کی عبادت کیا کرتا تھا؟ پس اگر اللہ تعالیٰ اسے ہدایت عطا فرما دے تو وہ کہتا ہے : میں اللہ کی عبادت کیا کرتا تھا۔ پھر اس سے پوچھا جاتا ہے : تو اس عظیم ہستی (سیدنا محمد ﷺ ) کے متعلق کیا کہا کرتا تھا؟ وہ کہتا ہے کہ یہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ پس اس کے سوا اس سے کسی اور شے کے متعلق نہیں پوچھا جاتا … پھر وہ کہتا ہے کہ مجھے چھوڑ دو تاکہ میں اپنے گھر والوں کو بشارت دوں۔ اسے کہا جاتا ہے : یہیں (راحت و سکون سے) رہو۔‘‘ اِس حدیث کو امام ابو داود اور احمد نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ رضی الله عنه قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فِي جَنَازَةِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَانْتَھَيْنَا إِلَی الْقَبْرِ وَلَمَّا یُلْحَدْ، فَجَلَسَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ کَأَنَّمَا عَلَی رُئُ وْسِنَا الطَّيْرُ۔ وَفِي یَدِهِ عُوْدٌ یَنْکُتُ بِهِ فِي الْأَرْضِ فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ : اسْتَعِيْذُوْا بِاللهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَـلَاثًا وَقَالَ : وَإِنَّهُ لَیَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ حِيْنَ یُقَالُ لَهُ : یَا هَذَا، مَنْ رَبُّکَ؟ وَمَا دِيْنُکَ؟ وَمَنْ نَبِیُّکَ؟
وفي روایۃ له قَالَ : وَیَأْتِيْهِ مَلَکَانِ فَیُجْلِسَانِهِ فَیَقُوْلاَنِ لَهُ : مَنْ رَبُّکَ؟ فَیَقُوْلُ : رَبِّيَ اللهُ۔ فَیَقُوْلاَنِ لَهُ : مَا دِيْنُکَ؟ فَیَقُوْلُ : دِيْنِيَ الْإِسْلَامُ۔ فَیَقُوْلاَنِ لَهُ : مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيْکُمْ؟ قَالَ : فَیَقُوْلُ : هُوَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ۔ فَیَقُوْلاَنُ : وَمَا یُدْرِيْکَ؟ فَیَقُوْلُ : قَرَأْتُ کِتَابَ اللهِ فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ۔ رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَأَحْمَدُ۔
5 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : السنۃ، باب : في المسألۃ في القبر وعذاب القبر، 4 / 238، الرقم : 4753، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 233، الرقم : 13472۔
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ہم ایک انصاری کے جنازہ کے لئے گئے اور قبر کے قریب بیٹھ گئے۔ جب تک وہ دفن نہ کر دیا گیا حضور نبی اکرم ﷺ بیٹھے رہے اور آپ ﷺ کے اردگرد ہم بھی یوں خاموش ہو کر بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ آپ ﷺ کے دستِ اقدس میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ ﷺ زمین کو کریدنے لگے اور سر مبارک کو اٹھایا اور دو یا تین مرتبہ فرمایا : عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگو۔ پھر فرمایا : مردہ لوگوں کے جوتوں کی آواز سنتا ہے، جب وہ پیٹھ پھیر کر جاتے ہیں۔ اس وقت اس سے پوچھا جاتا ہے : اے انسان! تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ اور تیرا نبی کون ہے؟‘‘
’’اور ایک روایت میں ہے کہ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، پس اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں : تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے : میرا رب اللہ تعالیٰ ہے۔ دونوں فرشتے اس سے پوچھتے ہیں : تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے : میرا دین اسلام ہے۔ دونوں اس سے پوچھتے ہیں : یہ ہستی کون ہے جو تمہاری طرف مبعوث کی گئی تھی؟ وہ کہتا ہے : یہ تو محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ دونوں پوچھتے ہیں : تمہیں کیسے معلوم ہوا؟ وہ کہتا ہے : میں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب پڑھی، لهٰذا ان پر ایمان لایا اور ان کی تصدیق کی۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو داود اوراحمد نے روایت کیا ہے۔
6۔ عَنْ عَائِشَةَ وَأَبِي ھُرَيْرَةَ رضي الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : وَأَمَّا فِتْنَةُ الْقَبْرِ فَبِي تُفْتَنُوْنَ وَعَنِّي تُسْأَلُوْنَ۔ فَإِذَا کَانَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ أُجْلِسَ فِي قَبْرِهِ، غَيْرَ فَزِعٍ وَلَا مَشْعُوْفٍ۔ ثُمَّ یُقَالُ لَهُ : فِيْمَ کُنْتَ؟ فَیَقُوْلُ : فِي الإِسْلَامِ۔ فَیُقَالُ لَهُ : مَا هَذَا الرَّجُلُ؟ فَیَقُوْلُ : مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ۔ جَائَنَا بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ عِنْدِ اللهِ، فَصَدَّقْنَاهُ۔ فَیُقَالُ لَهُ : ھَلْ رَأَيْتَ اللهَ؟ فَیَقُوْلُ : مَا یَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ یَرَی اللهَ۔ فَیُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ۔ فَیَنْظُرُ إِلَيْهَا یَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا۔ فَیُقَالُ لَهُ : اُنْظُرْ إِلَی مَا وَقَاکَ اللهُ ل۔ ثُمَّ یُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ إِلَی الْجَنَّةِ، فَیَنْظُرُ إِلَی زَهَرَتِهَا وَمَا فِيْهَا۔ فَیُقَالُ لَهُ : هَذَا مَقْعَدُکَ۔ وَیُقَالُ لَهُ : عَلَی الْیَقِيْنِ کُنْتَ، وَعَلَيْهِ مِتَّ، وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ إِنْ شَاء اللهُ تَعَالَی … الحدیث۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ واللَّفْظُ لَهُ۔ وَإِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ۔
6 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الزھد، باب : ذکر القبر والبلی، 2 / 1426، الرقم : 4268، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 139، الرقم : 25133، وابن منده في کتاب الإیمان، 2 / 967، الرقم : 1067، وعبد الله بن أحمد في کتاب السنۃ، 1 / 308، الرقم : 602، والعسقلاني في فتح الباري، 3 / 240۔
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : رہی قبر کی آزمائش تو میری وجہ سے تمہیں قبر میں آزمایا جائے گا، اور (قبر میں) تم سے میرے ہی متعلق پوچھا جائے گا۔ پس اگر کوئی نیک آدمی ہو گا تو اسے بغیر کسی ڈر اور خوف کے اس کی قبر میں بٹھایا جائے گا، پھر اسے کہا جائے گا تو کس ملّت پر تھا؟ تو وہ کہے گا : دین اسلام پر۔ پھر اس سے کہا جائے گا : یہ ہستی کون ہیں؟ پس وہ کہے گا : یہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے ہمارے پاس واضح نشانیاں لے کر مبعوث ہوئے۔ پس ہم نے ان کی تصدیق کی۔ پھر اس سے کہا جائے گا : کیا تو نے اللہ کو دیکھ رکھا ہے؟ تو وہ کہے گا کہ کوئی شخص اللہ کو نہیں دیکھ سکتا۔ پھر جہنم کی طرف سے اس کی قبر میں سوراخ کر دیا جائے گا پس وہ اس کی طرف دیکھے گا کہ اس کا بعض اس کے بعض کو تباہ کر رہا ہے۔ پھر اسے کہا جائے گا : اس کی طرف دیکھ جس سے اللہ عزوجل نے تمہیں بچا لیا۔ پھر جنت کی طرف سے اس کی قبر میں ایک سوراخ کر دیا جائے گا تو وہ اس کی رونق و جمال کی طرف دیکھے گا ۔پس اُسے کہا جائے گا : یہ ہے تیرا جنت میں ٹھکانہ۔ پھر اسے کہا جائے گا : تو یقین پر زندہ رہا اِسی پر مرا اور اِسی پر تجھے، اگر اللہ نے چاہا، تو (دوبارہ) زندہ کیا جائے گا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔ الفاظ احمد کے ہیں اور اس کی اِسناد صحیح ہیں۔
7۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : شَھِدْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ جِنَازَةً۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَیُّھَا النَّاسُ، إِنَّ ھَذِهِ الْأَمَّةَ تُبْتَلَی فِي قُبُوْرِھَا۔ فَإِذَا الإِنْسَانُ دُفِنَ فَتَفَرَّقَ عَنْهُ أَصْحَابُهُ، جَائَ هُ مَلَکٌ فِي یَدِهِ مِطْرَاقٌ فَأَقْعَدَهُ۔ قَالَ : مَا تَقُوْلُ فِي ھَذَا الرَّجُلِ؟ فَإِنْ کَانَ مُؤْمِنًا قَالَ : أَشْھَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ۔ فَیَقُوْلُ : صَدَقْتَ۔ ثُمَّ یُفْتَحُ لَهُ بَابٌ إِلَی النَّارِ فَیَقُوْلُ : ھَذَا کَانَ مَنْزِلُکَ لَوْ کَفَرْتَ بِرَبِّکَ۔ فَأَمَّا إِذَا آمَنْتَ فَھَذَا مَنْزِلُکَ۔ فَیُفْتَحُ لَهُ بَابٌ إِلَی الْجَنَّةِ۔ فَیُرِيْدُ أَنْ یَنْھَضَ إِلَيْهِ فَیَقُوْلُ لَهُ : اسْکُنْ۔ وَیُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ … الحدیث۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ۔
7 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 3، الرقم : 11013، 14864، وابن أبي عاصم في السنۃ، 2 / 417، الرقم : 565، وعبد الله بن أحمد في السنۃ، 2 / 612، الرقم : 1456۔
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک جنازہ میں حاضر ہوا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے لوگو! اس امت (کے لوگوں) کی قبر میں آزمائش ہوگی۔ پس جب انسان دفن کر دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی (اس کے پاس سے) منتشر ہو جاتے ہیں تو اس کے پاس فرشتہ جس کے ہاتھ میں ہتھوڑا ہوتا ہے، اسے وہ بٹھاتا ہے اور کہتا ہے : اس ہستی (محمد ﷺ ) کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ پس اگر وہ مومن ہو تو کہتا ہے : میں گواہی دیتا ہوںکہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد ﷺ اس کے (خاص) بندے اور (افضل ترین) رسول ہیں۔ پس وہ (فرشتہ) اسے کہتا ہے : تو نے سچ کہا۔ پھر وہ فرشتہ اس کے لئے دوزخ کی طرف ایک دووازہ کھولتا ہے اور کہتا ہے : تیرا یہ ٹھکانہ ہوتا اگر تو اپنے رب کے ساتھ کفر کرتا۔ لیکن تو ایمان لایا پس تیرا یہ (جنت) ٹھکانہ ہے۔ پھر اس کے لئے جنت کی طرف دروازہ کھولا جاتا ہے۔ وہ شخص (فرحت و خوشی کے مارے بے اختیار ہو کر) اس دروازے کی طرف بڑھتا ہے تو فرشتہ اس سے کہتا ہے : ٹھہر جاؤ۔ اور اس کے لئے اس کی قبر میں ہی وسعت پیدا کر دی جاتی ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔
8۔ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَکْرٍ رضي الله عنهما في روایۃ طویلۃ قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَیُّھَا النَّاسُ، إِنَّهُ لَمْ یَبْقَ شَيئٌ لَمْ أَکُنْ رَأَيْتُهُ إِلاَّ وَقَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي ھَذَا، وَقَدْ أُرِيْتُکُمْ تُفْتَنُوْنَ فِي قُبُوْرِکُمْ۔ یُسْأَلُ أَحَدُکُمْ : مَا کُنْتَ تَقُوْلُ؟ وَمَا کُنْتَ تَعْبُدُ؟ فَإِنْ قَالَ : لَا أَدْرِي۔ رَأَيْتُ النَّاسَ یَقُوْلُوْنَ شَيْئًا فَقُلْتُهُ وَیَصْنَعُوْنَ شَيْئًا فَصَنَعْتُهُ۔ قِيْلَ لَهُ : أَجَلْ، عَلَی الشَّکِّ عِشْتَ وَعَلَيْهِ مِتَّ۔ هَذَا مَقْعَدُکَ مِنَ النَّارِ۔ وَإِنْ قَالَ : أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلاَّاللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ قِيْلَ لَهُ : عَلَی الْیَقِيْنِ عِشْتَ، وَعَلَيْهِ مِتَّ۔ هَذَا مَقْعَدُکَ مِنَ الْجَنَّةِ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ۔
8 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 354، الرقم : 27037۔
’’حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما ایک طویل روایت میں بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے لوگو! کوئی بھی چیز ایسی نہیں جسے میں اپنی اس جگہ سے دیکھ نہ رہا ہوں اور تحقیق مجھے تمہیں تمہاری قبروں میں آزمائش میں مبتلا ہوتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے۔ تم میں سے کسی سے سوال کیا جائے گا : تو (دنیا میں) اس ہستی (یعنی حضور نبی اکرم ﷺ کے) بارے میں کیا کہا کرتا تھا؟ اور تو (دنیا میں) کس کی عبادت کیا کرتا تھا؟ پھر اگر اس نے کہا میں نہیں جانتا، میں نے جس طرح لوگوں کو (ان کے بارے) کہتے سنا میں نے بھی اسی طرح کہہ دیا اور جو کچھ انہیں کرتے ہوئے دیکھا اسی طرح کر دیا، تو اس سے کہا جائے گا کہ ہاں تو شک پر زندہ رہا اور اسی پر مرا۔ اب یہ رہا تیرا آگ کا ٹھکانہ۔ اور اگر اس نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں تو اس سے کہا جائے گا کہ تو یقین پر زندہ رہا اور اسی پر مرا۔ تیرا ٹھکانہ یہ جنت ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی اِسناد صحیح ہے۔
1۔ قال الإمام القسطلاني : وأن المیت یسأل عنه ﷺ في قبره۔
1 : القسطلاني في المواهِب اللّدنّیّۃ بِالْمنحِ الْمحمّدیّۃ، 2 / 289۔
’’امام قسطلانی بیان کرتے ہیں کہ یہ آپ ﷺ کی خصوصیت ہے کہ قبر میں آپ کے بارے میں سوال ہوتا ہے (یعنی قبر کی آزمائش یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات کے بارے میں سوال ہوگا)۔‘‘
2۔ قال الشیخ أبو العباس المرسي رَحِمَهُ الله : لي أربعون سنۃ ما حجبت عن رسول الله ﷺ ولو حجبت طرفۃ عین ما عددت نفسي من جملۃ المسلمین۔
2 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 315۔
’’شیخ ابو العباس مرسی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : مجھے چالیس سال کا عرصہ ہوا ہے کہ رسول کریم ﷺ سے مجھے حجاب نہیں ہوا۔ اور اگر پلک جھپکنے کے برابر بھی محجوب ہو جاؤں تو میں اپنے آپ کو مسلمانوں میں سے شمار ہی نہ کروں۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved