1۔ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ بَشِيْراً وَّ نَذِيْراً وَّلَا تُسْئَلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِيْمِo
(البقرۃ، 2 : 119)
’’(اے محبوب مکرم!) بیشک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، اور اہل دوزخ کے بارے میں آپ سے پرسش نہیں کی جائے گیo‘‘
2۔ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰیَاتِکَ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَیُزَکِّيْهِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُo
(البقرۃ، 2 : 129)
’’اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول ( ﷺ ) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہےo‘‘
3۔ وَاِذْ اَخَذَ اللهُ مِيْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَيْتُکُمْ مِّنْ کِتَابٍ وَّحِکْمَةٍ ثُمَّ جَآء کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهٗ ط قَالَ ئَاَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِيْ ط قَالُوْا اَقْرَرْنَا ط قَالَ فَاشْهَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشَّاهِدِيْنَo
(آل عمران، 3 : 81)
’’اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اللہ نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا رسول ﷺ ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے۔ فرمایا : کیا تم نے اقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا : ہم نے اقرار کر لیا۔ فرمایا : تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوںo‘‘
4۔ لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْهِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَيْهِمْ آیَاتِهٖ وَیُزَکِّيْهِمْ وَیعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلَالٍ مُّبِيْنٍo
(آل عمران، 3 : 164)
’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول( ﷺ ) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھےo‘‘
5۔ فَکَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی هٰٓؤُلَآء شَهِيْدًاo
(النساء، 4 : 41)
’’پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گےo‘‘
6۔ یٰٓایُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا اَطِيْعُوْا اللهَ وَاَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْئٍ فَرُدُّوْهُ اِلَی اللهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ذٰلِکَ خَيْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِيْلاًo
(النساء، 4 : 59)
’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( ﷺ ) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول ( ﷺ ) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہےo‘‘
7۔ وَ لَوْلَا فَضْلُ اللهِ عَلَيْکَ وَرَحْمَتُهٗ لَهَمَّتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْهُمْ اَنْ یُّضِلُّوْکَ ط وَمَا یُضِلُّوْنَ اِلَّا اَنْفُسَهُمْ وَمَا یَضُرُّوْنَکَ مِنْ شَيْئٍ ط وَاَنْزَلَ اللهُ عَلَيْکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَ عَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ط وَکَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْکَ عَظِيْمًاo
(النساء، 4 : 113)
’’اور (اے حبیب) اگر آپ پر اللہ کا فضل اور اسکی رحمت نہ ہوتی تو ان (دغابازوں) میں سے ایک گروہ یہ ارادہ کر چکا تھا کہ آپ کو بہکا دیں جبکہ وہ محض اپنے آپ کو ہی گمراہ کر رہے ہیں اور آپ کا تو کچھ بگاڑ ہی نہیں سکتے اوراللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہےo‘‘
8۔ وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰی وَیَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ط وَسَآئَتْ مَصِيْرًاo
(النساء، 4 : 115)
’’اور جو شخص رسول( ﷺ ) کی مخالفت کرے اس کے بعد کہ اس پر ہدایت کی راہ واضح ہو چکی اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ کی پیروی کرے تو ہم اسے اسی (گمراہی) کی طرف پھیرے رکھیں گے جدھر وہ (خود) پھر گیا ہے اور (بالآخر) اسے دوزخ میں ڈالیں گے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہےo‘‘
9۔ یٰـٓاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآء کُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ اَنْزَلْنَا اِلَيْکُمْ نُوْرًا مُّبِيْنًاo
(النساء، 4 : 174)
’’اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے (ذات محمدی ﷺ کی صورت میں ذات حق جل مجدهٗ کی سب سے زیادہ مضبوط، کامل اور واضح) دلیلِ قاطع آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف (اسی کے ساتھ قرآن کی صورت میں) واضح اور روشن نور (بھی) اتار دیا ہےo‘‘
10۔ یٰـٓاَهْلَ الْکِتَابِ قَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَيِّنُ لَکُمْ کَثِيْرًا مِّمَّا کُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتَابِ وَیَعْفُوْ عَنْ کَثِيْرٍ ط قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللهِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِيْنٌo
(المائدۃ، 5 : 15)
’’اے اہلِ کتاب! بے شک تمہارے پاس ہمارے (یہ) رسول( ﷺ ) تشریف لائے ہیں جو تمہارے لئے بہت سی ایسی باتیں (واضح طور پر) ظاہر فرماتے ہیں جو تم کتاب میں سے چھپائے رکھتے تھے اور (تمہاری) بہت سی باتوں سے در گزر (بھی) فرماتے ہیں۔ بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد ﷺ ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)o‘‘
11۔ یٰاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ ط وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ط اِنَّ اللهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِيْنَo
(المائدۃ، 5 : 67)
’’اے (برگزیدہ) رسول ( ﷺ ) جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارالوگوں کو) پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو آپ نے اس (رب) کا پیغام پہنچایا ہی نہیں اور اللہ (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا۔ بے شک اللہ کافروں کو راهِ ہدایت نہیں دکھاتاo‘‘
12۔ اَلَّذِيْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ یَجِدُوْنَهٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَالْاِنْجِيْلِ یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَیَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ کَانَتْ عَلَيْهِمْط فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَعَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْ اُنْزِلَ مَعَهٗ اُولٰٓـئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَo قُلْ یٰٓاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللهِ اِلَيْکُمْ جَمِيْعًا نِالَّذِيْ لَهٗ مُلْکُ السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ هُوَ یُحْیٖ وَیُمِيْتُ فَآمِنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَکَلِمٰاتِهٖ وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّکُمْ تَهْتَدُوْنَo
(الأعراف، 7 : 157،158)
’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول ( ﷺ )کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبار غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور ان سے ان کے بارگراں اور طوق (قیود) جو ان پر (نافرمانیوں کے باعث مسلط) تھے، ساقط فرماتے (اور انہیں نعمت آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول ﷺ ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیںoآپ فرمادیں : اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں جس کے لئے تمام آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی جلاتا اور مارتا ہے سو تم اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) پر ایمان لاؤ جو (شان امیت کا حامل) نبی ہے (یعنی اس نے اللہ کے سوا کسی سے کچھ نہیں پڑھا مگر جمیع خلق سے زیادہ جانتا ہے اور کفر و شرک کے معاشرے میں جوان ہوا مگر بطن مادر سے نکلے ہوئے بچے کی طرح معصوم اور پاکیزہ ہے) جو اللہ پر اور اس کے (سارے نازل کردہ) کلاموں پر ایمان رکھتا ہے اور تم انہی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پا سکوo‘‘
13۔ لَقَدْ جَاء کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْکُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَؤُوْفٌ رَّحِيْمٌo
(التوبۃ، 9 : 128)
’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک با عظمت) رسول تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزومند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیںo‘‘
14۔ وَ مَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَo
(الأنبیاء، 21 : 107)
’’اور (اے رسول محتشم) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کرo‘‘
15۔ اِنَّا اَرْسَلْنَا اِلَيْکُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَا اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًاo
(المزمل، 73 : 15)
’’بے شک ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جو تم پر (اَحوال کا مشاہدہ فرما کر) گواہی دینے والا ہے، جیسا کہ ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول کو بھیجا تھاo‘‘
1۔ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لِي خَمْسَةُ أَسْمَاءٍ : أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَحْمَدُ وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي یَمْحُو اللهُ بِيَ الْکُفْرَ وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي یُحْشَرُ النَّاسُ عَلی قَدَمِي وَأَنَا الْعَاقِبُ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : المناقب، باب : ما جاء في أسماء رسول الله، 3 / 1299، الرقم : 3339، وفي کتاب : التفسیر، باب : تفسیر سورۃ الصف، 4 / 1858، الرقم : 4614، ومسلم في الصحیح، کتاب : الفضائل، باب في أسمائه ﷺ ، 4 / 828، الرقم : 2354، والترمذي في السنن، کتاب : الأدب، باب : ما جاء في أسماء النبي ﷺ ، 5 / 135، الرقم : 2840، وقال الترمذي : هذا حدیث حسن صحیح، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 489، الرقم : 11590۔
’’حضرت جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے پانچ نام ہیں : میں محمد اور احمد ہوں اور میں ماحی (مٹانے والا) ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعے سے کفر کو محو کر دے گا اور میںحاشر ہوں کہ سب لوگ میری پیروی میں ہی(روزِ حشر) جمع کیے جائیں گے اور میں عاقب ہوں (یعنی سب سے آخر میں آنے والا ہوں)۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2۔ عَنْ أَبِي مُوْسَی الْأَشْعَرَيِّ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یُسَمِّي لَنَا نَفْسَهُ أَسْمَاءً۔ فَقَالَ : أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَحْمَدُ، وَالْمُقَفِّي، وَالْحَاشِرُ وَنَبِيُّ التَّوْبَةِ وَنَبِيُّ الرَّحْمَةِ۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ۔
2 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الفضائل، باب : في أسمائه ﷺ ، 4 / 1828، الرقم : 2355، وابن أبی شیبۃ في المصنف، 6 / 311، الرقم : 31692۔ 31693، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 395، 404، 407، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 327، الرقم : 4338، 4417، والحاکم في المستدرک، 2 / 659، الرقم : 4185۔4186، وابن الجعد في المسند، 1 / 479، الرقم : 3322۔
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمارے لئے اپنے کئی نام بیان کئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور مُقَفِّی (بعد میں آنے والا) اور حاشر ہوں اور نبی التوبہ اور نبی الرحمہ ہوں۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
3۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الْأَنْبِیَائِ مِنْ قَبْلِي کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِیَةٍ۔ فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوْفُوْنَ بِهِ وَیَعْجَبُوْنَ لَهُ وَیَقُوْلُوْنَ : ھَلَّا وُضِعَتْ ھَذِهِ اللَّبِنَةُ! قَالَ : فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
3 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : المناقب، باب : خاتم النبیین ﷺ ، 3 / 1300، الرقم : 3341۔3342، ومسلم في الصحیح، کتاب : الفضائل، باب : ذکر کونه ﷺ خاتم النبیین، 4 / 1791، الرقم : 2286، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 398، الرقم : 9156، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 436، الرقم : 11422، وابن حبان في الصحیح، 14 / 315، الرقم : 6405۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : میری مثال گزشتہ انبیاے کرام کے مقابلے میں ایسی ہے، جیسے کسی نے ایک بہت خوبصورت مکان بنایا اور اس کو خوب آراستہ کیا، لیکن ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ آکر اس مکان کو یکھنے لگے اور تعجب کا اظہار کرتے ہوئے بولے : یہاں اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی! حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سو میں وہی اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں (میرے بعد نبوت ختم ہو گئی)۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
4۔ عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ رضی الله عنه یَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : إِنَّ اللهَ اصْطَفَی کِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيْلَ، وَاصْطَفَی قُرَيْشًا مِنْ کِنَانَةَ، وَاصْطَفَی مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي ھَاشِمٍ وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ۔
4 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الفضائل، باب : فضل نسب النبي ﷺ ، 4 / 1782، الرقم : 2276، والترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : ما جاء في فضل النبي ﷺ ، 5 / 583، الرقم : 3605، وابن حبان في الصحیح، 14 / 135، الرقم : 6242، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 107، والبیھقي في السنن الکبری، 6 / 365، الرقم : 12852۔
’’حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اولادِ اسماعیلں سے بنی کنانہ کو اور اولاد کنانہ میں سے قریش کو اور قریش میں سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں سے مجھے شرفِ انتخاب بخشا اور پسندیدہ قرار دیا۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ رضی الله عنه قَالَ : جَائَ الْعَبَّاسُ إِلیَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَکَأَنَّهُ سَمِعَ شَيْئًا، فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ : مَنْ أَنَا؟ قَالُوْا : أَنْتَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَلَيْکَ السَّلَامُ۔ قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ۔ إِنَّ اللهَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِھِمْ فِرْقَةً۔ ثُمَّ جَعَلَھُمْ فِرْقَتَيْنِ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِھِمْ فِرْقَةً۔ ثُمَّ جَعَلَھُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِھِمْ قَبِيْلَةً۔ ثُمَّ جَعَلَھُمْ بُیُوْتًا فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِھِمْ بَيْتًا وَخَيْرِھِمْ نَسَبًا۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ۔ وَقَالَ أَبُوعِيْسَی : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔
5 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات، 5 / 543، الرقم : 3532، وفي کتاب : المناقب، باب : في فضل النبي ﷺ ، 5 / 584، الرقم : 3607۔36078، وأحمد بن حنبل في المسند 1 / 210، الرقم : 1788، والبیهقي في دلائل النبوۃ، 1 / 149، والدیلمي في مسند الفردوس، 1 / 41، الرقم : 95۔
’’حضرت مطلب بن ابی وداعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے وہ اس وقت (کافروں سے کچھ ناشائستہ کلمات) سنکر (غصہ کی حالت میں تھے۔ پس واقعہ پر مطلع ہو کر) حضور نبی اکرم ﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا : میں کون ہوں؟ صحابہ نے عرض کیا : آپ پر سلامتی ہو آپ رسولِ خدا ہیں۔ فرمایا : میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہوں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تومجھے بہترین خلق (یعنی انسانوں) میں پیدا کیا۔ پھر مخلوق کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا (یعنی عرب و عجم) تو مجھے بہترین طبقہ میں داخل کیا۔ پھر ان کے مختلف قبائل بنائے تو مجھے بہترین قبیلہ میں داخل فرمایا (یعنی قریش)۔ پھر ان کے گھرانے بنائے تو مجھے بہترین گھرانہ میں داخل کیا اور بہترین نسب والا بنایا (اس لئے میں ذاتی شرف اور حسب و نسب کے لحاظ سے تمام مخلوق سے افضل ہوں)۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ اور ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔
6۔ عَنْ أَبِي مُوْسَی الأَشْعَرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : خَرَجَ أَبُوْ طَالِبٍ إِلَی الشَّامِ، وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ ﷺ فِي أَشْیَاخٍ مِنْ قُرِيْشٍ، فَلَمَّا أَشْرَفُوْا عَلَی الرَّاھِبِ ھَبَطُوْا، فَحَلُّوْا رِحَالَھُمْ، فَخَرَجَ إِلَيْھِمُ الرَّاھِبُ، وَکَانُوْا قَبْلَ ذَلِکَ یَمُرُّوْنَ بِهِ فَـلَا یَخْرُجُ إِلَيْھِمْ وَلَا یَلْتَفِتُ، قَالَ : فَھُمْ یَحُلُّوْنَ رِحَالَھُمْ، فَجَعَلَ یَتَخَلَّلُھُمُ الرَّاھِبُ، حَتَّی جَاء فَأَخَذَ بِیَدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ، فَقَالَ : ھَذَا سَيِّدُ الْعَالَمِيْنَ، ھَذَا رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، یَبْعَثُهُ اللهُ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ، فَقَالَ لَهُ أَشْیَاخٌ مِنْ قُرَيْشٍ : مَا عِلْمُکَ؟ فَقَالَ : إِنَّکُمْ حِيْنَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَةِ لَمْ یَبْقَ شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا، وَلَا یَسْجُدَانِ إِلَّا لِنَبِيٍّ، وَإِنِّيْ أَعْرِفُهُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوْفِ کَتِفِهِ مِثْلَ التُّفَاحَةِ، ثُمَّ رَجَعَ فَصَنَعَ لَھُمْ طَعَامًا، فَلَمَّا أَتَاھُمْ بِهِ، وَکَانَ ھُوَ فِي رِعْیَةِ الإِبِلِ، قَالَ : أَرْسِلُوْا إِلَيْهِ، فَأَقْبَلَ وَعَلَيْهِ غَمَامَةٌ تُظِلُّهُ۔ فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْقَوْمِ وَجَدَھُمْ قَدْ سَبَقُوْهُ إِلَی فَيئِ الشَّجَرَةِ، فَلَمَّا جَلَسَ مَالَ فَيئُ الشَّجَرَةِ عَلَيْهِ، فَقَالَ : انْظُرُوْا إِلَی فَيئِ الشَّجَرَةِ مَالَ عَلَيْهِ۔ … قَالَ : أَنْشُدُکُمُ اللهَ أَیُّکُمْ وَلِیُّهُ؟ قَالُوْا : أَبُوْ طَالِبٍ۔ فَلَمْ یَزَلْ یُنَاشِدُهُ حَتَّی رَدَّهُ أَبُوْ طَالِبٍ، وَبَعَثَ مَعَهُ أَبُوْ بَکْرٍ وَبِلَالًا، وَزَوَّدَهُ الرَّاھِبُ مِنَ الْکَعْکِ وَالزَّيْتِ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ۔
6 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : ما جاء في نبوۃ النبي ﷺ ، 5 / 590، الرقم : 3620، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 317، الرقم : 31733، 36541، وابن حبان في الثقات، 1 / 42، والأصبھاني في دلائل النبوۃ، 1 / 45، الرقم : 19، والطبري في تاریخ الأمم والملوک، 1 / 519۔
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابو طالب روسائے قریش کے ہمراہ شام کے سفر پر روانہ ہوئے تو حضور نبی اکرم ﷺ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ جب راہب کے پاس پہنچے تو ابو طالب اترے، لوگوں نے بھی اپنے کجاوے کھول دیئے۔ راہب ان کی طرف آنکلا حالانکہ (روسائے قریش) اس سے قبل بھی اس کے پاس سے گزرا کرتے تھے لیکن وہ ان کے پاس نہیں آتا تھا اور نہ ہی ان کی طرف کوئی توجہ کرتا تھا۔ حضرت ابو موسی فرماتے ہیں کہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ وہ راہب ان کے درمیان چلنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے قریب پہنچا اور آپ ﷺ کا دستِ اقدس پکڑ کر کہا : یہ تمام جہانوں کے سردار اور رب العالمین کے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گا (ظاہر فرمائے گا)۔ روسائے قریش نے اس سے پوچھا آپ کیسے جانتے ہیں؟ اس نے کہا : جب تم لوگ گھاٹی سے نمودار ہوئے تو کوئی پتھر اور درخت سجدہ کئے بغیر نہ رہا اور وہ صرف نبی کو سجدہ کرتے ہیں نیز میں انہیں مہرِ نبوت سے بھی پہچانتا ہوں جو ان کے کاندھے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مثل ہے۔ پھر وہ واپس چلا گیا اور اس نے ان لوگوں کے لئے کھانا تیار کیا۔ جب وہ کھانا لے آیا تو آپ ﷺ اونٹوں کی چراگاہ میں تھے۔ راہب نے کہا انہیں بلا لو۔ آپ ﷺ تشریف لائے تو سرِ انور پر بادل سایہ فگن تھا۔ قوم کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ تمام لوگ درخت کے سایہ میں پہنچ چکے ہیں لیکن جب آپ ﷺ تشریف فرما ہوئے تو سایہ آپ ﷺ کی طرف جھک گیا۔ راہب نے کہا : درخت کے سائے کو دیکھو وہ آپ پر جھک گیا ہے۔ پھر راہب نے کہا : میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ ان کا سر پرست کون ہے؟ انہوں نے کہا ابو طالب! چنانچہ وہ ابو طالب کو مسلسل واسطہ دیتا رہا یہاں تک کہ ابو طالب نے آپ ﷺ کو واپس کر دیا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ کے ہمراہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور راہب نے آپ ﷺ کے ساتھ زادِ راہ کے طور پر کیک اور زیتون دیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
7۔ عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ عَنْ جِبْرِيْلَ علیه السلام قَالَ : قَلَّبْتُ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَھَا، فَلَمْ أَجِدْ رَجُلًا أَفْضَلَ مِنْ مُحَمَّدٍ ﷺ وَلَمْ أَرَ بَيْتًا أَفْضَلَ مِنْ بَيْتِ بَنِي ھَاشِمٍ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
7 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 237، الرقم : 6285، والھیثمي في مجمع الزوائد، 8 / 217، واللالکائي في اعتقاد أھل السنۃ، 4 / 752، الرقم : 1402۔
’’اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حضرت جبریلں نے کہا : میں نے تمام زمین کے اطراف و اکناف اور گوشہ گوشہ کو چھان مارا، مگر نہ تو میں نے محمد مصطفی ﷺ سے بہتر کسی کو پایا اور نہ ہی میں نے بنو ہاشم کے گھر سے بڑھ کر بہتر کوئی گھر دیکھا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
8۔ عَنْ جُنْدَبٍ رضی الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَهُوَ یَقُوْلُ : إِنِّي أَبْرَأُ إِلَی اللهِ أَنْ يَّکُوْنَ لِي مِنْکُمْ خَلِيْلٌ، فَإِنَّ اللهَ تَعَالَی قَدِ اتَّخَذَنِي خَلِيْـلًا کَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلًا۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ مَاجَه۔
وَزَادَ ابْنُ مَاجَه : فَمَنْزِلِي وَمَنْزِلُ إِبْرَاهِيْمَ فِي الْجَنَّةِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ تُجَاهَيْنِ۔
وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ۔
8 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : المساجد ومواضع الصلاۃ، باب : النهي عن بناء المسجد علی القبور، 1 / 377، الرقم : 532، وابن ماجه في السنن، المقدمۃ، باب : فضل العباس بن عبد المطلب رضی الله عنه، 1 / 50، الرقم : 141، وابن حبان في الصحیح، 14 / 334، الرقم : 6425، وأبو عوانۃ في المسند، 1 / 335، الرقم : 1192، والحاکم في المستدرک، 2 / 599، الرقم : 4018۔
’’حضرت جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا : میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اس چیز سے بری ہوتا ہوں کہ تم میں سے کسی کو اپنا خلیل بناؤں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا خلیل بنا لیا ہے جیسا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
امام ابن ماجہ نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’پس قیامت کے روز میری منزل اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی منزل آمنے سامنے ہو گی۔‘‘ امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
9۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتَی وَجَبَتْ لَکَ النُّبُوَّةُ؟ قَالَ : وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ۔ وَقَالَ أَبُوْعِيْسیَ : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔
9 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : في فضل النبي ﷺ ، 5 / 585، الرقم : 3609، والحاکم في المستدرک، 2 / 665، الرقم : 4209۔4210، وقال الحاکم : هذا حدیث صحیح الإسناد، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 66 : 5 / 379، الرقم : 23260، وابن أبی شیبۃ في المصنف، 7 / 329، الرقم : 36553، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 272، الرقم : 4175۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام ث نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ شرفِ نبوت سے کس وقت بہرہ وَر ہوئے تھے (آپ ﷺ کے لئے نبوت کب واجب یا ثابت ہوئی)؟ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب کہ آدم کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے مرحلہ میں تھی(یعنی روح اور جسم کاباہمی تعلق ابھی نہ ہوا تھا)۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، احمد، حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور امام ابو عیسی ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
10۔ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : إِنَّ اللهَ فَضَّلَنِي عَلَی الْأَنْبِیَائِ أَوْ قَالَ : أُمَّتِي عَلَی الْأُمَمِ وَأَحَلَّ لِيَ الْغَنَائِمَ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ۔ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : حَدِيْثٌ أَبِي أُمَامَةَ حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔
10 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : السیر، باب : ما جاء في الغنیمۃ، 4 / 123، الرقم : 1553، والطبراني نحوه في المعجم الکبیر، 8 / 257، الرقم : 8001، والرویاني في المسند، 2 / 308، الرقم : 1260، والبیهقي في السنن الکبری، 1 / 222، الرقم : 999، وفي السنن الصغری، 1 / 180، الرقم : 245۔
’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء سے زیادہ فضیلت عطا فرمائی یا فرمایا : میری امت کو دیگر تمام امتوں پر فضیلت عطا کی اور میرے لئے مال غنیمت کو حلال فرما دیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام ابو عیسیٰ نے فرمایا کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔
11۔ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : لَقَدْ جَائَکُمْ رَسُوْلٌ إِلَيْکُمْ لَيْسَ بِوَهِنٍ وَلَا کَسِلٍ لِیَخْتِنَ قُلُوْبًا غُلْفًا وَیَفْتَحَ أَعْیُنًا عُمْیًا وَیُسْمِعَ آذَاناً صُمًّا وَیُقِيْمَ أَلْسِنَةً عَوْجَائَ حَتَّی یُقَالَ : لَا إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ۔
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ۔ وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ۔
11 : أخرجه الدارمي في السنن، 1 / 17، الرقم : 9، والعسقلاني في فتح الباري، 8 / 586، وابن أبي حاتم في تفسیره، 6 / 1917۔
’’حضرت جبیر بن نفیر حضرمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ کا (وہ) رسول ( ﷺ ) تمہارے پاس آیا ہے جو کہ نہ کمزور ہے اور نہ ہی سست، تاکہ وہ دلوں پر پڑے ہوئے غفلت کے پردوں کو ہٹا کر (مردہ دلوں کو پھر سے) زندہ کر دے، اور بند آنکھوں کو کھول دے اور بہرے کانوں کو سنا سکے، اور ٹیڑی زبانوںکو سیدھا کر سکے، یہاں تک کہ(ہر طرف) ایک ہی نغمہ توحید ( و رسالت ) سنائی دیا جانے لگے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں (اور محمد مصطفی ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں)۔‘‘
اس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے، اور امام عسقلانی نے فرمایاکہ اس حدیث کو امام دارمی نے سند صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے۔
12۔ عَنْ نَبِيْهِ بْنِ وَھَبٍ رضی الله عنه أَنَّ کَعْبًا دَخَلَ عَلَی عَائِشَةَ رضي الله عنھا، فَذَکَرُوْا رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَقَالَ کَعْبٌ : مَا مِنْ یَوْمٍ یَطْلُعُ إِلَّا نَزَلَ سَبْعُوْنَ أَلْفًا مِنَ الْمَلَائِکَةِ حَتَّی یَحُفُّوْا بِقَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ یَضْرِبُوْنَ بِأَجْنِحَتِهِمْ، وَیُصَلُّوْنَ عَلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ، حَتَّی إِذَا أَمْسَوْا عَرَجُوْا وَھَبَطَ مِثْلُھُمْ فَصَنَعُوْا مِثْلَ ذَلِکَ، حَتَّی إِذَا انْشَقَّتْ عَنْهُ الْأَرْضُ خَرَجَ فِي سَبْعِيْنَ أَلْفًا مِنَ الْمَلَائِکَةِ یَزِفُّوْنَهُ۔
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ۔
12 : أخرجه الدارمي في السنن، باب : ما أکرم الله تعالی نبیه بعد موته، 1 / 57، الرقم : 94، والبیهقي في شعب الإیمان، 3 / 492، الرقم : 4170، وابن حیان في العظمۃ، 3 / 1018، الرقم : 537، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 5 / 390، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، في قول الله تعالی : ھو الذي یصلي علیکم وملائکته۔۔۔ الخ 3 / 518۔
’’حضرت نبیہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے حضورنبی اکرم ﷺ کا ذکر کیا۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا : جب بھی دن نکلتا ہے ستر ہزار فرشتے اترتے ہیں اور وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی قبرِ اقدس کو (اپنے نورانی وجود سے) گھیر لیتے ہیں اور قبر اقدس پر (حصول برکت و توسل کے لئے) اپنے پَر مس کرتے ہیں اور حضور نبی اکرم ﷺ پر درود (و سلام) بھیجتے ہیں اور شام ہوتے ہی آسمانوں پر چلے جاتے ہیں اور اتنے ہی فرشتے مزید اُترتے ہیں اور وہ بھی دن والے فرشتوں کی طرح کا عمل دہراتے ہیں۔ حتی کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ کی قبرِ مبارک (روزِ قیامت) شق ہو گی تو آپ ﷺ ستر ہزار فرشتوں کے جھرمٹ میں (میدانِ حشر میں) تشریف لائیں گے۔‘‘ اسے امام دارمی، بیہقی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
13۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : أَوْحَی اللهُ إِلَی عِيْسَیں، یَا عِيْسَی، آمِنْ بِمُحَمَّدٍ، وَأْمُرْ مَنْ أَدْرَکَهُ مِنْ أُمَّتِکَ أَنْ یُؤْمِنُوْا بِهِ، فَلَوْلَا مُحَمَّدٌ، مَا خَلَقْتُ آدَمَ، وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ، مَا خَلَقْتُ الْجَنَّةَ وَلَا النَّارَ۔ وَلَقَدْ خَلَقْتُ الْعَرْشَ عَلَی الْمَائِ فَاضْطَرَبَ، فَکَتَبْتُ عَلَيْهِ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ، فَسَکَنَ۔
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْخَـلَالُ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ، وَوَافَقَهُ الذَّھَبِيُّ۔
13 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 671، الرقم : 4227، والخلال في السنۃ، 1 / 261، الرقم : 316، والذھبي في میزان الاعتدال، 5 / 299، الرقم : 6336، والعسقلاني في لسان المیزان، 4 / 354، الرقم : 1040، وابن حیان في طبقات المحدثین بأصبھان، 3 / 287۔
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰں پر وحی نازل فرمائی : اے عیسیٰ! حضرت محمد ( ﷺ ) پر ایمان لے آؤ، اور اپنی امت کو بھی حکم دو کہ جو بھی ان کا زمانہ پائے تو (ضرور) ان پر ایمان لائے۔ (جان لو!) اگر محمد ( ﷺ ) نہ ہوتے، تو میں حضرت آدم (ں) کو بھی پیدا نہ کرتا۔ اور اگر محمد مصطفی ( ﷺ ) نہ ہوتے، تو میں نہ جنت پیدا کرتا اور نہ دوزخ، جب میں نے پانی پر عرش بنایا تو اس میں لرزش پیدا ہوگئی، لهٰذا میں نے اس پر لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ لکھ دیا تو وہ ٹھہر گیا۔‘‘
اِس حدیث کو امام حاکم اور خلال نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور امام ذہبی نے بھی ان کی تائید کی ہے۔
1۔ قال الأستاذ أبو علي الدّقاق : المریدُ متحمِّل، والمراد محمول۔ وسمعته یقول : کان موسی علیه السلام، مریداً، فقال : {رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ} [طه، 20 : 25]، وکان نبینا ﷺ ، مراداً، فقال الله تعالی : {اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَo وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَo الَّذِيْٓ اَنْقَضَ ظَهْرَکَo وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ ط} [الم نشرح، 94 : 1۔4] وکذلک قال موسی علیه السلام : {رَبِّ اَرِنِيْٓ اَنْظُرْ اِلَيْکَ ط قَالَ لَنْ تَرٰنِيْ} [الأعراف، 7 : 143] وقال لنبینا ﷺ : {اَلَمْ تَرَ اِلٰی رَبِّکَ کَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ} [الفرقان، 25 : 45]۔
1 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 204۔
’’حضرت ابو علی دقاق رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں : مرید وہ ہے جو طریقِ ریاضت میں مشقتیں جھیلے اور مراد وہ ہے جس سے یہ مشقتیں اٹھا دی گئی ہوں۔ (راوی کہتا ہے کہ)انہوں نے مزید فرمایا : حضرت موسیٰں مرید(یعنی رؤیتِ باری کے طلبگار) تھے جبھی تو انہوں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور عرض کیا {اے میرے رب! میرے لیے میرا سینہ کشادہ فرمادے}، اور ہمارے نبی ﷺ چونکہ مراد تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا : {کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لیے) کشادہ نہیں فرما دیاo اور ہم نے آپ کا (غمِ اُمت کا وہ) بار آپ سے اتار دیاo جو آپ کی پشتِ (مبارک) پر گراں ہو رہا تھاo اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا} اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا : { اے رب! مجھے (اپنا جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کرلوں اللہ تعالیٰ نے جواب دیا : تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتا }اور ہمارے نبی ﷺ کو فرمایا : {کیا آپ نے اپنے رب (کی قدرت) کی طرف نگاہ نہیں ڈالی کہ وہ کس طرح (دوپہر تک) سایہ دراز کرتا ہے}۔‘‘
2۔ ذکر القاضي عیاض في کتابه : قَالَ بَعْضُ الْعُلَمَاء فِي قَوْلِهِ تَعَالَی {وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَo} [الأنبیاء، 21 : 107] : لِجَمِيْعِ الْخَلْقِ لِلْمُؤْمِنِ رَحْمَةً بِالْهِدَایَةِ وَرَحْمَةً لِلْمُنَافِقِ بِالأَمَانِ مِنَ الْقَتْلِ وَرَحْمَةً لِلْکَافِرِ بِتَأْخِيْرِ الْعَذَابِ۔
2 : أخرجه القاضي عیاض في الشفا بتعریف حقوق المصطفٰی ﷺ : 58۔
’’قاضی عیاض نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ اللہ رب العزت کے فرمان : {اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کرo} کی تفسیر میں بعض علما نے کہا : آپ ﷺ تمام مخلوقات کے لیے رحمت ہیں۔ مومنین کے لیے ہدایت کی صورت میں رحمت ہیں، منافقین کے لیے رحمت (اس طرح ہیں کہ) ان کو قتل سے امان مل گی اور کفار کے لیے (رحمت یہ ہے کہ) ان پرعذاب میں تاخیر کر دی گئی۔‘‘
3۔ قَالَ الْعِزُّ بْنُ عَبْدِ السَّلَامِ رَحِمَهُ الله : وَمِنْ خَصَائِصِهِ أَنَّهُ بُعِثَ بِجَوَامِعِ الْکَلِمِ، وَاخْتُصِرَ لَهُ الْحَدِیثُ اخْتِصَارًا، وَفَاقَ الْعَرَبَ فِي فَصَاحَتِهِ وَبَلَاغَتِهِ۔
3 : ابن الملقن في غایۃ السول في تفضیل الرسول : 37۔
’’عز بن عبد السلام رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کے خصائص میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ کو جوامع الکلم کے ساتھ مبعوث کیا گیا اور آپ ﷺ کی گفتگو میں اختصار ہے، اور آپ ﷺ فصاحت و بلاغت میں عربوں پر فوقیت لے گئے۔‘‘
4۔ قَالَ الْعِزُّ بْنُ عَبْدِ السَّلَامِ رَحِمَهُ الله : وَمِنْ خَصَائِصِهِ أَنَّ مُعْجِزَةَ کُلِّ نَبِيٍّ تَصَرَّمَتْ وَانْقَرَضَتْ وَمُعْجِزَةُ سَيِّدِ الْأَوَّلِيْنَ وَالْآخِرِيْنَ وَهِيَ الْقُرْآنُ الْعَظِيْمُ بَاقِیَةٌ إِلَی یَوْمِ الدِّيْنِ۔
4 : ابن الملقن في غایۃ السول في تفضیل الرسول : 39
’’عز بن عبد السلام رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کے خصائص میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر نبی کا معجزہ ختم ہو گیا لیکن حضور نبی اکرم ﷺ جو اگلے پچھلوں کے آقا و مولی ہیں، کا معجزہ قرآن یومِ قیامت تک باقی ہے۔‘‘
5۔ قال الشیخ أبو العباس المرسي رَحِمَهُ الله : جمیع الأنبیاء علیهم الصلاۃ والسلام خلقوا من الرحمۃ، ونبینا ﷺ، هو عین الرحمۃ۔
5 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 314۔
’’شیخ ابو العباس مرسی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : تمام انبیاء علیہم و السلام رحمت سے پیدا فرمائے گئے جبکہ ہمارے نبی مکرم ﷺ عین رحمت(سراپا رحمت) ہیں۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved