1۔ وَمَا کَانَ اللهُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الغَيْبِ وَلٰـکِنَّ اللهَ یَجْتَبِيْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ يَّشَآءُ فَاٰمِنُوْا بِاللهِ وَرُسُلِهٖ ج وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَلَکُمْ اَجْرٌ عَظِيْمٌo
(آل عمران، 3 : 179)
’’اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ (اے عامۃ الناس) تمہیں غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے (غیب کے علم کیلئے) چن لیتا ہے۔ سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو اور اگر تم ایمان لے آئو اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہارے لیے بڑا ثواب ہےo‘‘
2۔ وَ اَنْزَلَ اللهُ عَلَيْکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَ عَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ط وَکَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْکَ عَظِيْمًاo
(النساء، 4 : 113)
’’اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہےo‘‘
3۔ یٰٓـاَهْلَ الْکِتَابِ قَدْ جَآء کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَيِّنُ لَکُمْ کَثِيْرًا مِّمَّا کُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتَابِ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِيْرٍ ط قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللهِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِيْنٌo
(المائدۃ، 5 : 15)
’’اے اہل کتاب! بے شک تمہارے پاس ہمارے (یہ) رسول( ﷺ ) تشریف لائے ہیں جو تمہارے لئے بہت سی ایسی باتیں (واضح طور پر) ظاہر فرماتے ہیں جو تم کتاب میں سے چھپائے رکھتے تھے اور (تمہاری) بہت سی باتوں سے در گزر (بھی) فرماتے ہیں۔ بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد ﷺ ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)o‘‘
4۔ اَلَّذِيْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ یَجِدُوْنَهٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَالْاِنْجِيْلِ۔
(الأعراف، 7 : 157، 158)
’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول ( ﷺ )کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبار غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔‘‘
5۔ ذٰلِکَ مِنْ اَنْبَآءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْکَ ج وَ مَا کُنْتَ لَدَيْھِمْ اِذْ اَجْمَعُوْا اَمْرَهُمْ وَ هُمْ یَمْکُرُوْنَo
(یوسف، 12 : 102)
’’اے حبیب مکرم یہ (قصّہ) غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم آپ کی طرف وحی فرما رہے ہیں اور آپ (کوئی) ان کے پاس موجود نہ تھے جب وہ (برادران یوسف) اپنی سازشی تدبیر پر جمع ہو رہے تھے اور وہ مکر و فریب کر رہے تھےo‘‘
6۔ وَمَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ کِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِيْنِکَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَo
(العنکبوت، 29 : 48)
’’اور (اے حبیب) اس سے پہلے آپ کوئی کتاب نہیں پڑھا کرتے تھے اور نہ ہی آپ اسے اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے ورنہ اہلِ باطل اسی وقت ضرور شک میں پڑ جاتےo‘‘
7۔ عٰلِمُ الْغَيْبِ فَـلَا یُظْھِرُ عَلٰی غَيْبِهٖ اَحَدًاo اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٗ یَسْلُکُ مِنْم بَيْنِ یَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًاo
(الجن، 72 : 26،27)
’’(وہ) غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی(عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتاo سوائے اپنے پسندیدہ رسولوںکے (اُنہی کو مطلع علی الغیب کرتا ہے کیونکہ یہ خاصۂ نبوت اور معجزۂ رسالت ہے)، تو بیشک وہ اس (رسول ﷺ ) کے آگے اور پیچھے (علمِ غیب کی حفاظت کے لئے) نگہبان مقرر فرما دیتا ہےo‘‘
8۔ وَ مَا ھُوَ عَلَی الْغَيْبِ بِضَنِيْنٍo
(التکویر، 81 : 24)
’’اور وہ (نبی اکرم ﷺ ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں (مالکِ عرش نے ان کے لئے کوئی کمی نہیں چھوڑی)o‘‘
9۔ اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَo
(ألم نشرح، 94 : 1۔8)
’’کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لئے) کشادہ نہیں فرما دیاo‘‘
1۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَرَجَ حِيْنَ زَاغَتِ الشَّمْسُ‘ فَصَلَّی الظُّهْرَ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ عَلَی الْمِنْبَرِ، فَذَکَرَ السَّاعَةَ، وَذَکَرَ أَنَّ بَيْنَ یَدَيْھَا أُمُوْرًا عِظَامًا، ثُمَّ قَالَ : مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَسْأَلَ عَنْ شَيئٍ فَلْیَسْأَلْ عَنْهُ : فَوَاللهِ، لَا تَسْأَلُوْنِي عَنْ شَيئٍ إِلَّا أَخْبَرْتُکُمْ بِهِ مَا دُمْتُ فِي مَقَامِي ھَذَا‘ قَالَ أَنَسٌ : فَأَکْثَرَ النَّاسُ الْبُکَاءَ، وَأَکْثَرَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَنْ یَقُوْلَ : سَلُوْنِي۔ فَقَالَ أَنَسٌ : فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَقَالَ : أَيْنَ مَدْخَلِي یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ : النَّارُ۔ فَقَامَ عَبْدُ اللهِ بْنُ حُذَافَةَ فَقَالَ : مَنْ أَبِي یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ : أَبُوْکَ حُذَافَةُ۔ قَالَ : ثُمَّ أَکْثَرَ أَنْ یَقُوْلَ : سَلُوْنِي، سَلُوْنِي۔ فَبَرَکَ عُمَرُ عَلَی رُکْبَتَيْهِ فَقَالَ : رَضِيْنَا بِاللهِ رَبًّا، وَبِالإِسْـلاَمِ دِيْنًا، وَبِمُحَمَّدٍ ﷺ رَسُوْلاً۔ قَالَ : فَسَکَتَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ حِيْنَ قَالَ عُمَرُ ذَلِکَ ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهِ، لَقَدْ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ آنِفًا فِي عُرْضِ ھَذَا الْحَائِطِ، وَأَنَا أُصَلِّي، فَلَمْ أَرَ کَالْیَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
وذکر الإمام ابن کثیر في قوله تعالی : {یَا أَیُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا تَسْأَلُوْا عَنْ أَشْیَاءَ إِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤْکُمْ} [المائدۃ، 5 : 101]، عَنِ السَّدِّيِّ أَنَّهُ قَالَ : غَضِبَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَوْمًا مِنَ الْأَيَّامِ فَقَامَ خَطِيْبًا فَقَالَ : سَلُوْنِي فَإِنَّکُمْ لَا تَسْأَلُوْنِي عَنْ شَيئٍ إِلَّا أَنْبَأْتُکُمْ بِهِ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ بَنِي سَهْمٍ یُقَالُ لَهُ : عَبْدُ اللهِ بْنُ حُذَافَةَ وَکَانَ یُطْعَنُ فِيْهِ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَنْ أَبِي؟ فَقَالَ : أَبُوْکَ فُـلَانٌ فَدَعَاهُ ِلأَبِيْهِ فَقَامَ إِلَيْهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضی الله عنه فَقَبَّلَ رِجْلَهُ وَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، رَضِيْنَا بِاللهِ رَبًّا وَبِکَ نَبِیًّا وَبِالإِسْلَامِ دِيْنًا وَبِالْقُرْآنِ إِمَامًا فَاعْفُ عَنَّا عَفَا اللهُ عَنْکَ فَلَمْ یَزَلْ بِهِ حَتَّی رَضِيَ …الحدیث۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب : ما یکره من کثرۃ السؤال وتکلف ما لا یعنیه ، 6 / 2660، الرقم : 6864، وفي کتاب : مواقیت الصلاۃ، باب : وقت الظھر عند الزوال، 1 / 200، الرقم : 2001، 2278، وفي کتاب : العلم، باب : حسن برک علی رکبتیه عند الإمام أو المحدث، 1 / 47، الرقم : 93، وفي الأدب المفرد، 1 : 404، الرقم : 1184، ومسلم في الصحیح، کتاب : الفضائل، باب : توقیره ﷺ وترک إکثار سؤال عما لا ضرورۃ إلیه ، 4 / 1832، الرقم : 2359، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 162، الرقم : 12681، وأبو یعلی في المسند، 6 / 286، الرقم : 3201، وابن حبان في الصحیح، 1 / 309، الرقم : 106، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 72، الرقم : 9155، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 2 / 106۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آفتاب ڈھلا تو حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھائی پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ ﷺ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا اور پھر فرمایا : اس (قیامت)سے پہلے بڑے بڑے واقعات و حادثات ہیں، پھر فرمایا : جو شخص کسی بھی نوعیت کی کوئی بات پوچھنا چاہتا ہے تو وہ پوچھے، خدا کی قسم! میں جب تک یہاں کھڑا ہوں تم جو بھی پوچھو گے اس کا جواب دوں گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے زاروقطار رونا شروع کر دیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ جلال کے سبب بار بار یہ اعلان فرما رہے تھے کہ کوئی سوال کرو، مجھ سے (جو چاہو) پوچھ لو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا : یا رسول اللہ! میرا ٹھکانہ کہاں ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : دوزخ میں۔ پھر حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تیرا باپ حذافہ ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر آپ ﷺ بار بار فرماتے رہے مجھ سے سوال کرو مجھ سے سوال کرو، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض گذار ہوئے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد مصطفی ﷺ کے رسول ہونے پر راضی ہیں (اور ہمیں کچھ نہیں پوچھنا)۔ راوی کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ گذارش کی تو حضور نبی اکرم ﷺ خاموش ہو گئے پھر آپ ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! ابھی ابھی اس دیوار کے سامنے مجھ پر جنت اور دوزخ پیش کی گئیں جبکہ میں نماز پڑھ رہا تھا تو آج کی طرح میں نے خیر اور شر کو کبھی نہیں دیکھا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
’’حافظ ابن کثیر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان {اے ایمان والو! تم ایسی چیزوں کی نسبت سوال مت کیا کرو (جن پر قرآن خاموش ہو) کہ اگر وہ تمہارے لئے ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں مشقت میں ڈال دیں (اور تمہیں بری لگیں)} کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ امام سدی سے مروی ہے کہ ایک دن حضور نبی اکرم ﷺ (کسی بات پر خفا ہو کر) جلال میں آ گئے اور آپ ﷺ خطاب کے لئے قیام فرما ہوئے اور فرمایا : مجھ سے پوچھو! پس تم مجھ سے جس چیز کے بارے میں بھی پوچھو گے میں تمہیں (اِسی جگہ) اس کے بارے میں بتاؤں گا۔ بنو سُہم میں سے قبیلہ قریش کے ایک آدمی جنہیں عبد اللہ بن حذافہ کہا جاتا تھا اور جن کے نسب میں طعن زنی کی جاتی تھی(یعنی لوگ ان کے نسب میں شک کرتے تھے)، کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تیرا باپ فلاں(حذافہ) شخص ہے۔ آپ ﷺ نے انہیں (ان کے اپنے) باپ کے نام کے ساتھ پکارا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور آپ ﷺ کے قدم مبارک چوم کر عرض کیا : یا رسول اللہ! ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے، آپ کے نبی ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام و راہنما ہونے پر راضی ہیں، ہمیں معاف فرما دیجئے۔ اللہ تعالیٰ آپ سے مزید راضی ہو گا۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلسل عرض کرتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ راضی ہو گئے۔‘‘
2۔ عَنْ حُذَيْفَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَامَ فِيْنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مَقَامًا۔ مَا تَرَکَ شَيْئًا یَکُوْنُ فِي مَقَامِهِ ذَلِکَ إِلَی قِیَامِ السَّاعَةِ، اِلَّا حَدَّثَ بِهِ۔ حَفِظَهُ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِیَهُ مَنْ نَسِیَهُ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ۔
2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : القدر، باب : وکان أمر الله قدرًا مقدورًا، 6 / 2435، الرقم : 6230، ومسلم في الصحیح، کتاب : الفتن وأشراط الساعۃ، باب : إخبار النبي ﷺ في ما یکون إلی قیام الساعۃ، 4 / 2217، الرقم : 2891، والترمذي مثله عن أبي سعید الخدري رضی الله عنه في السنن، کتاب : الفتن، باب : ما جاء أخبر النبي ﷺ أصحابه بما ھو کائن إلی یوم القیامۃ، 4 / 483، الرقم : 2191، وأبو داود في السنن، کتاب : الفتن والملاحم، باب : ذکر الفتن ودلائلھا، 4 / 94، الرقم : 4240۔
’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے ہمارے درمیان ایک مقام پر کھڑے ہو کر ہم سے خطاب فرمایا۔ آپ ﷺ نے اپنے اس دن کھڑے ہونے سے لے کر قیامت تک کی کوئی ایسی چیز نہ چھوڑی جس کو آپ ﷺ نے بیان نہ فرما دیا ہو۔ جس نے اسے یاد رکھا یاد رکھا اورجو اسے بھول گیا سو بھول گیا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ اور الفاظ مسلم کے ہیں۔
3۔ عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه یَقُوْلُ : قَامَ فِيْنَا النَّبِيُّ ﷺ مَقَامًا، فَأَخْبَرَنَا عَنْ بَدْئِ الْخَلْقِ حَتَّی دَخَلَ أَھْلُ الْجَنَّةِ مَنَازِلَھُمْ وَأَھْلُ النَّارِ مَنَازِلَھُمْ۔ حَفِظَ ذَلِکَ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِیَهُ مَنْ نَسِیَهُ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ۔
3 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : بدء الخلق، باب : ما جاء في قول الله تعالی وھو الذي یبدأ الخلق ثم یعیده وھو أھون علیه، 3 / 1166، الرقم : 3020، وابن حجر العسقلاني في تغلیق التعلیق، 3 / 486، الرقم : 3192۔
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ ایک روز ہمارے درمیان قیام فرما ہوئے اور آپ ﷺ نے مخلوقات کی ابتدا سے لے کر جنتیوں کے جنت میں داخل ہو جانے اور دوزخیوں کے دوزخ میں داخل ہو جانے تک ہمیں سب کچھ بتا دیا۔ جس نے اسے یاد رکھا سو یاد رکھا اور جو اسے بھول گیا سو بھول گیا۔‘‘ اسے اِمام بخاری نے روایت کیا ہے۔
4۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَعَی زَيْدًا وَجَعْفَرًا وَابْنَ رَوَاحَةَ ث لِلنَّاسِ قَبْلَ أَنْ یَأْتِیَھُمْ خَبَرُھُمْ۔ فَقَالَ : أَخَذَ الرَّایَةَ زَيْدٌ فَأُصِيْبَ، ثُمَّ أَخَذَ جَعْفَرٌ فَأُصِيْبَ، ثُمَّ أَخَذَ ابْنُ رَوَاحَةَ فَأُصِيْبَ وَعَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ حَتَّی أَخَذَ الرَّایَةَ سَيْفٌ مِنْ سُیُوْفِ اللهِ، حَتَّی فَتَحَ اللهُ عَلَيْهِمْ۔رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ۔
4 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : المغازي، باب : غزوۃ مؤته من أرض الشام، 4 / 1554، الرقم : 4014، وفي کتاب : الجنائز، باب : الرجل ینعی إلی أھل المیت بنفسه، 1 / 420، الرقم : 1189، وفي کتاب : الجھاد، باب : تمني الشھادۃ، 3 / 1030، الرقم : 2645، وفي باب : من تأمر في الحرب من غیر إمرۃ إذا خاف العدو، 3 / 1115، الرقم : 2898، وفي کتاب : المناقب، باب : علامات النبوۃ في الإسلام، 3 / 1328، الرقم : 3431، وفي کتاب : فضائل الصحابۃ، باب : مناقب خالد بن الولید رضی الله عنه، 3 / 1372، الرقم : 3547، ونحوه النسائي في السنن الکبری، 5 / 180، الرقم : 8604، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 204، الرقم : 1750، والحاکم في المستدرک، 3 / 337، الرقم : 5295۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت زید، حضرت جعفر اور حضرت ابن رواحہ ث کے شہید ہو جانے کے متعلق میدانِ جنگ سے خبر آنے سے پہلے ہی لوگوں کو بتا دیا تھا۔ آپ ﷺ نے(میدان جنگ سے سیکڑوں میل دور مدینہ میں) فرمایا : اب جھنڈا زید نے سنبھالا ہوا ہے لیکن وہ شہید ہوگئے۔ اب جعفر نے جھنڈا سنبھال لیا ہے اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ اب ابن رواحہ نے جھنڈا سنبھالا ہے اور وہ بھی جامِ شہادت نوش کرگئے۔ یہ فرماتے ہوئے آپ ﷺ کی چشمانِ مبارک اشک بار تھیں۔ (پھر فرمایا : ) یہاں تک کہ اب اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار (خالد بن ولید) نے جھنڈا سنبھال لیا ہے۔ اس کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے (مسلمانوں کو) کافروں پر فتح عطا فرمائی ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا فُتِحَتْ خَيْبَرُ أُهْدِیَتْ لِلنَّبِيِّ ﷺ شَاةٌ فِيْهَا سُمٌّ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : اجْمَعُوْا إِلَيَّ مَنْ کَانَ هَاهُنَا مِنْ یَهُوْدَ فَجُمِعُوْا لَهُ فَقَالَ : إِنِّي سَائِلُکُمْ عَنْ شَيئٍ فَهَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْهُ؟ فَقَالُوْا : نَعَمْ، قَالَ لَهُمُ النَّبِيُّ ﷺ : مَنْ أَبُوْکُمْ؟ قَالُوْا : فُـلَانٌ۔ فَقَالَ : کَذَبْتُمْ بَلْ أَبُوْکُمْ فُـلَانٌ۔ قَالُوْا : صَدَقْتَ۔ قَالَ : فَهَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْ شَيئٍ إِنْ سَأَلْتُ عَنْهُ؟ فَقَالُوْا : نَعَمْ یَا أَبَا الْقَاسِمِ، وَإِنْ کَذَبْنَا عَرَفْتَ کَذِبَنَا کَمَا عَرَفْتَهُ فِي أَبِيْنَا فَقَالَ لَهُمْ : مَنْ أَهْلُ النَّارِ؟ قَالُوْا : نَکُوْنُ فِيْهَا یَسِيْرًا ثُمَّ تَخْلُفُوْنَا فِيْهَا فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : اخْسَئُوْا فِيْهَا وَاللهِ لَا نَخْلُفُکُمْ فِيْهَا أَبَدًا ثُمَّ قَالَ : هَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْ شَيئٍ إِنْ سَأَلْتُکُمْ عَنْهُ؟ فَقَالُوْا : نَعَمْ، یَا أَبَا الْقَاسِمِ، قَالَ : هَلْ جَعَلْتُمْ فِي هَذِهِ الشَّاةِ سُمًّا؟ قَالُوْا : نَعَمْ۔ قَالَ : مَا حَمَلَکُمْ عَلَی ذَلِکَ قَالُوْا : أَرَدْنَا إِنْ کُنْتَ کَاذِبًا نَسْتَرِيْحُ وَإِنْ کُنْتَ نَبِیًّا لَمْ یَضُرَّکَ۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالدَّارِمِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔
5 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الجزیۃ، باب : إذا غدر المشرکون بالمسلمین هل یعفی عنهم، 3 / 1156، الرقم : 2998، وأیضًا في کتاب : الطب، باب : ما یذکر في سم النبي ﷺ ، 5 / 2178، وأبو داود في السنن، کتاب : الدیات، باب : فیمن سقی رجلا سما أو أطعمه فمات أیقاد منه، 4 / 174، الرقم : 4512، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 5 / 41، الرقم : 23520، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 451، الرقم : 9826، والدارمي في السنن، 1 / 47، الرقم : 69۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب خیبر فتح ہوا تو بارگاهِ نبوت میں بھنا ہوا بکری کا گوشت (یہود کی جانب سے) بطور ہدیہ پیش کیا گیا، جس میں زہر ملایا گیا تھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جتنے یہودی یہاں موجود ہیں انہیں میرے پاس بلاؤ۔ انہیں بلایا گیا۔ تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : میں تم سے ایک بات دریافت کرنا چاہتا ہوں، کیا تم صحیح جواب دو گے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا : تمہارا جد اعلیٰ کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ فلاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تم جھوٹ بول رہے ہو، تمہارے جد اعلیٰ کا نام تو فلاں ہے۔ وہ کہنے لگے : آپ ﷺ نے سچ فرمایا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اگر میں تم سے کوئی بات پوچھوں تو کیا تم صحیح جواب دو گے؟ انہوں نے جواب دیا : ہاں اے ابو القاسم! اگر ہم نے غلط بیانی سے بھی کام لیا تو آپ(علم غیب کے حامل ہونے کی وجہ سے) ہمارے جھوٹ سے اسی طرح آگاہ ہو جائیں گے جیسے ہمارے جد اعلیٰ کے بارے میں آپ کو معلوم ہو گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : جہنمی کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا : تھوڑے سے دن تو ہم دوزخ میں رہیں گے اور پھر ہمارے بعد آپ (یعنی مسلمان) اس میں رہیں گے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (ہمیشہ) تم لوگ ہی اس میں ذلت اٹھاتے رہو گے۔ اور خدا کی قسم! ہم (اہل اسلام) تو کبھی بھی اس میں تمہارے جانشین نہیں بنیں گے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اگر میں تم سے کوئی بات پوچھوں تو سچ سچ بتا دو گے؟ وہ کہنے لگے : جی ہاں اے ابو القاسم! تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا : کیا تم نے بکری کے اس گوشت میں زہر ملایا ہے؟ انہوں نے جواب دیا : ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہیں اس بات پر کس چیز نے ابھارا؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس سے ہم نے یہ ارادہ کیا کہ اگر آپ جھوٹے ہیں تو ہماری آپ سے گلو خلاصی ہو جائے گی اور اگر آپ سچے نبی ہیں تو زہر آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، ابو داود، درامی، احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
6۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي الْحِجْرِ، وَقُرَيْشٌ تَسْأَلُنِي عَنْ مَسْرَايَ، فَسَأَلَتْنِي عَنْ أَشْیَائَ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ لَمْ أُثْبِتْھَا، فَکُرِبْتُ کُرْبَةً مَا کُرِبْتُ مِثْلَهُ قَطُّ، قَالَ : فَرَفَعَهُ اللهُ لِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ۔ مَا یَسْأَلُوْنِي عَنْ شَيئٍ إِلَّا أَنْبَأْتُھُمْ بِهِ۔ وَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي جَمَاعَةٍ مِنَ الأنبیاء، فَإِذَا مُوْسَی علیه السلام قَائِمٌ یُصَلِّي، فَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جَعْدٌ کَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوْئَةَ۔ وَإِذَا عِيْسَی ابْنُ مَرْیَمَ علیه السلام قَائِمٌ یُصَلِّي، أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَھًا عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُوْدٍ الثَّقَفِيُّ۔ وَإِذَا إِبْرَاهِيْمُ علیه السلام قَائِمٌ یُصَلِّي، أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ صَاحِبُکُمْ (یَعْنِي نَفْسَهُ) فَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَأَمَمْتُهُمْ فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنَ الصَّلَاةِ، قَالَ قَائِلٌ : یَا مُحَمَّدُ، ھَذَا مَالِکٌ صَاحِبُ النَّارِ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ۔ فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ فَبَدَأَنِي بِالسَّـلَامِ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَأَبُوْ عَوَانَةَ۔
6 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الإیمان، باب : ذکر المسیح ابن مریم والمسیح الدجال، 1 / 156، الرقم : 172، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 455، الرقم : 11480، وأبو عوانۃ في المسند، 1 / 116 الرقم : 350، وأبو نعیم في المسند المستخرج، 1 / 239، الرقم : 433، والعسقلاني في فتح الباری، 6 / 487۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں حطیمِ کعبہ میں موجود تھا اور قریش مجھ سے سفرِ معراج کے بارے میں سوالات کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی کچھ چیزیں پوچھیں جنہیں میں نے (یاد داشت میں) محفوظ نہیں رکھا تھا جس کی وجہ سے میں اتنا پریشان ہوا کہ اس سے پہلے کبھی اتنا پریشان نہیں ہوا تھا، تب اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو اٹھا کر میرے سامنے رکھ دیا۔ وہ مجھ سے بیت المقدس کے متعلق جو بھی چیز پوچھتے میں (اسے دیکھ دیکھ کر) انہیں بتا دیتا اور (دورانِ سفر معراج) میں نے خود کو گروهِ انبیائے کرام علیہم السلام میں پایا۔ میں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے، اور وہ قبیلہ شنوء ہ کے لوگوں کی طرح گھنگریالے بالوں والے تھے اور پھر (دیکھا کہ) حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے اور عروہ بن مسعود ثقفی ان سے بہت مشابہ ہیں، اور پھر دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے اور تمہارے آقا (یعنی خود حضور نبی اکرم ﷺ ) ان کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ ہیں، پھر نماز کا وقت آیا، اور میں نے ان سب انبیائے کرام علیہم السلام کی امامت کرائی۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو مجھے ایک کہنے والے نے کہا : یہ مالک ہیں جو جہنم کے داروغہ ہیں، انہیں سلام کیجئے۔ پس میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو انہوں نے پہلے بڑھ کر مجھے سلام کیا۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم، نسائی اور ابو عوانہ نے روایت کیا ہے۔
7۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَخْطَبَ رضی الله عنه قَالَ : صَلَّی بِنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الْفَجْرَ۔ وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتَّی حَضَرَتِ الظُّهْرُ۔ فَنَزَلَ فَصَلَّی۔ ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتَّی حَضَرَتِ الْعَصْرُ۔ ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّی ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ۔ فَخَطَبَنَا حَتَّی غَرَبَتِ الشَّمْسُ۔ فَأَخْبَرَنَا بِمَا کَانَ وَبِمَا ھُوَ کَائِنٌ۔ قَالَ : فَأَعْلَمُنَا أَحْفَظُنَا۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ۔
7 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الفتن وأشراط الساعۃ، باب : إخبار النبي ﷺ في ما یکون إلی قیام الساعۃ، 4 / 2217، الرقم : 2892، والترمذي في السنن، کتاب : الفتن عن رسول الله ﷺ ، باب : ما جاء ما أخبر النبي ﷺ أصحابه بما ھو کائن إلی یوم القیامۃ، 4 / 483، الرقم : 2191، وابن حبان في الصحیح، 15 / 9، الرقم : 6638۔
’’حضرت عمرو بن اخطب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے نمازِ فجر میں ہماری امامت فرمائی اور منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور ہمیں خطاب فرمایا یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہوگیا۔ پھر آپ ﷺ نیچے تشریف لے آئے، نماز پڑھائی بعد ازاں پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ہمیں خطاب فرمایا حتی کہ عصر کا وقت ہو گیا پھر منبر سے نیچے تشریف لائے اور نماز پڑھائی پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ہمیں خطاب فرمایا یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا۔ پس آپ ﷺ نے ہمیں ہر اس بات کی خبر دے دی جو آج کے دن تک وقوع پذیر ہو چکی تھی اور جو قیامت تک ہونے والی تھی۔ حضرت عمرو بن اخطب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم میں زیادہ جاننے والا وہی ہے جو سب سے زیادہ حافظہ والا تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
8۔ عَنْ حُذَيْفَةَ رضی الله عنه أَنَّهُ قَالَ : أَخْبَرَنِي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : بِمَا ھُوَکَاءنٌ إِلَی أَنْ تَقُوْمَ السَّاعَةُ۔ فَمَا مِنْهُ شَيئٌ إِلاَّ قَدْ سَأَلْتُهُ، إِلاَّ أَنِّي لَمْ أَسْأَلْهُ مَا یُخْرِجُ أَھْلَ الْمَدِيْنَةِ مِنَ الْمَدِيْنَةِ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ۔
8 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الفتن وأشراط الساعۃ، باب : إخبار النبي ﷺ في ما یکون إلی قیام الساعۃ، 4 / 2217، الرقم : 2891، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 386، الرقم : 23329، والحاکم في المستدرک، 4 / 472، الرقم : 8311، والبزار في المسند، 7 / 222، الرقم : 2795، والطیالسي في المسند، 1 / 58، الرقم : 433، وابن منده في کتاب الإیمان، 2 / 912، الرقم : 996، وقال : إسناده صحیح، والمقرئ في السنن الواردۃ في الفتن، 4 / 889، الرقم : 458۔
’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھے قیامت تک رونما ہونے والی ہر ایک بات بتا دی اور کوئی ایسی بات نہ رہی جسے میں نے آپ ﷺ سے پوچھا نہ ہو البتہ میں یہ نہ پوچھ سکا کہ اہلِ مدینہ کو کون سی چیز مدینہ سے نکالے گی۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔
9۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه في روایۃ طویلۃ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ شَاوَرَ، حِيْنَ بَلَغَهُ إِقْبَالُ أَبِي سُفْیَانَ۔ وَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ رضی الله عنه فَقَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهِ، لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِيْضَھَا الْبَحْرَ لَأَخَضْنَاھَا۔ وَلَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَکْبَادَھَا إلَی بَرْکِ الْغِمَادِ لَفَعَلْنَا۔ قَالَ : فَنَدَبَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ النَّاسَ۔ فَانْطَلَقُوْا حَتَّی نَزَلُوْا بَدْرًا۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ھَذَا مَصْرَعُ فُـلَانٍ قَالَ : وَیَضَعُ یَدَهُ عَلَی الْأَرْضِ، ھَاهُنَا ھَاھُنَا۔ قَالَ : فَمَا مَاطَ أَحَدُھُمْ عَنْ مَوْضِعِ یَدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْدَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ۔
9 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الجھاد والسیر، باب : غزوۃ بدر، 3 / 1403، الرقم : 1779، ونحوه في کتاب : الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، باب : عرض مقعد المیت من الجنۃ أو النار علیه وإثبات عذاب القبر والتعوذ منه، 4 / 2202، الرقم : 2873، وأبو داود في السنن، کتاب : الجھاد، باب : في الأسیر ینال منه ویضرب ویقرن، 3 / 58، الرقم : 2681، والنسائي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : أرواح المؤمنین، 4 / 108، الرقم : 2074، وفي السنن الکبری، 1 / 665، الرقم؛ 2201۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ کو ابوسفیان کے (قافلہ کی شام سے) آنے کی خبر پہنچی تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام ث سے مشورہ فرمایا۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر آپ ہمیں سمندر میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دیں تو ہم سمندر میں گھوڑے ڈال دیں گے۔ اگر آپ ہمیں برک غمادپہاڑ سے گھوڑوں کے سینے ٹکرانے کا حکم دیں تو ہم ایسا بھی کریں گے۔ تب حضور نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کو بلایا۔ لوگ (آپ ﷺ کی معیت میں) چلے یہاں تک کہ وادی بدر میں اُترے۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ فلاں کافر کے گرنے کی جگہ ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ زمین پر اس جگہ اور کبھی اس جگہ دستِ اقدس رکھتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر (دوسرے دن) کوئی کافر حضور نبی اکرم ﷺ کی بتائی ہوئی جگہ سے ذرا برابر بھی ادھر ادھر نہیں مرا۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
10۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : أَتَانِي رَبِّي فِي أَحْسَنِ صُوْرَةٍ، فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ، قُلْتُ : لَبَّيْکَ وَسَعْدَيْکَ۔ قَالَ : فِيْمَ یَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الأَعْلَی؟ قُلْتُ : رَبِّي لَا أَدْرِي۔ فَوَضَعَ یَدَهُ بَيْنَ کَتِفَيَّ حَتَّی وَجَدْتُ بَرْدَھَا بَيْنَ ثَدْیَيَّ، فَعَلِمْتُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ۔
10 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسیر القرآن، باب : ومن سورۃ رضی الله عنه، 5 / 366۔368، الرقم : 3233۔3235، والدارمي في السنن، کتاب : الرؤیا، باب : في رؤیۃ الرب تعالی في النوم، 2 / 170، الرقم : 2149، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 368، الرقم : 3484، 4 / 66، 5 / 243، الرقم : 22162،23258، والطبراني في المعجم الکبیر، 8 / 290، الرقم : 8117، 20 / 109، الرقم : 216،690۔
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرا رب میرے پاس نہایت اَحسن صورت میں آیا اور فرمایا : اے محمد! میں نے عرض کیا : میرے رب! حاضر ہوں، بار بار حاضر ہوں۔ فرمایا : عالم بالا کے فرشتے کس بات پر جھگڑتے ہیں؟ میں نے عرض کیا : اے میرے رب! میں نہیں جانتا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنا دستِ قدرت میرے کندھوں کے درمیان رکھا اور میں نے اپنے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس کی اور میں وہ سب کچھ جان گیا جو مشرق و مغرب کے درمیان ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی، دارمی، احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved