1۔ لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰیٰـتِهٖ وَ یُزَکِّيْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ ج وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰـلٍ مُّبِيْنٍo
(آل عمران، 3 : 164)
’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول ( ﷺ ) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھےo‘‘
2۔ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَo
(الأنفال، 8 : 20)
’’اے ایمان والو! تم اللہ کی اور اس کے رسول( ﷺ ) کی اطاعت کرو اور اس سے رُوگردانی مت کرو حالانکہ تم سن رہے ہوo‘‘
3۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُو اللهَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللهَ کَثِيْرًاo
(الأحزاب، 33 : 21)
’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ ( ﷺ کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہےo‘‘
4۔ وَمَآ اٰتٰـکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ج وَاتَّقُواللهَ ط اِنَّ اللهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِo
(الحشر، 59 : 7)
’’اور جو کچھ رسول( ﷺ ) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو (یعنی رسول ﷺ کی تقسیم و عطا پر کبھی زبانِ طعن نہ کھولو)، بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہےo‘‘
1۔ عَنْ حُذَيْفَةَ رضی الله عنه قَالَ : حَدَّثَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَنَّ الْأَمَانَةَ نَزَلَتْ مِنَ السَّمَاءِ فِي جَذْرِ قُلُوْبِ الرِّجَالِ، وَنَزَلَ الْقُرْآنُ فَقَرَؤُوْا الْقُرْآنَ، وَعَلِمُوْا مِنَ السُّنَّةِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
1 : أخرجه البخاری فی الصحیح، کتاب : الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب : الاقتداء بسنن رسول الله ﷺ ، 6 / 2655، الرقم : 6848، ومسلم في الصحیح، کتاب : الإیمان، باب : رفع الأمانۃ والإیمان من بعض القلوب، وعرض الفتن علی القلوب، 1 / 126، الرقم : 143، والترمذي في السنن، کتاب : الفتن، باب : ما جاء في رفع الأمانۃ، 4 / 474، الرقم : 2179، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 383، الرقم : 23303۔
’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ہم سے بیان فرمایا : (وحی الٰہی کی) امانت آسمان سے لوگوں کے دلوں کی تہہ میں نازل فرمائی گئی اور قرآن کریم نازل ہوا۔ سو انہوں نے قرآن کریم پڑھا اور سنت سیکھی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : کُلُّ أُمَّتِي یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبَي۔ قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَمَنْ یَأْبَی؟ قَالَ : مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَی۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ۔
2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب : الاقتداء بسنن رسول الله ﷺ ، 6 / 2655، الرقم : 6851، وابن حبان في الصحیح، 1 / 196، الرقم : 17، والحاکم في المستدرک، 1 / 122، الرقم : 182، 4 / 275، الرقم : 8626، وقال : صحیح الإسناد، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 361، الرقم : 8713۔
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میری ساری امت جنت میں داخل ہوگی سوائے اس کے جس نے انکار کیا۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کس نے انکار کیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کیا۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
3۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاھَا وَحَفِظَھَا وَبَلَّغَھَا۔ فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَی مَنْ ھُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ۔ ثَـلَاثٌ لَا یُغَلُّ عَلَيْھِنَّ قَلْبُ مُسْلِمٍ : إِخْلاَصُ الْعَمَلِ ِللهِ وَمُنَاصَحَةُ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِيْنَ وَلُزُوْمُ جَمَاعَتِھِمْ فَإِنَّ الدَّعْوَةَ تُحِيْطُ مِنْ وَرَائِھِمْ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَالدَّارِمِيُّ۔
3 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : العلم، باب : ما جاء في الحث علی تبلیغ السماع، 5 / 34، الرقم : 2658، وابن ماجه في السنن، کتاب : المناسک، باب : الخطبۃ یوم النحر، 2 / 1015، الرقم : 3056، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 80، والدارمي في السنن، 1 / 87، الرقم : 230، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 233، 234، الرقم : 5179۔
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش رکھے جس نے مجھ سے حدیث سنی ، اسے اپنے ذہن میں محفوظ کر لیا اور اسے اچھی طرح یاد کر لیا اور پھر اسے آگے پہنچا دیا۔ کئی حاملینِ فقہ اپنے سے زیادہ فقیہ تک بات پہنچاتے ہیں۔ تین چیزیں ایسی ہیں جن میں مسلمان کا دل خیانت نہیں کرتا : اول خالص اللہ تعالیٰ کے لئے عمل کرنا، دوسرا مسلمان حکمرانوں کی بھلائی چاہنا اور تیسرا مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ ملے رہنا کیونکہ (مسلمانوں کی) دعا ان کے پیچھے ہوتی ہے۔‘‘ اسے امام ترمذی، ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔
4۔ عَنْ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : تَرَکْتُ فِيْکُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا : کِتَابَ اللهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ۔
رَوَاهُ مَالِکٌ وَالْحَاکِمُ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه۔
4 : أخرجه مالک فی الموطأ، کتاب : القدر، باب : النھي عن القول بالقدر،2 / 899، الرقم : 1594، والحاکم في المستدرک، 1 / 172، الرقم : 319، وابن عبد البر في التمھید،24 / 331، الرقم : 128، والواسطي في تاریخ واسط، 1 / 50۔
’’امام مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم انہیں تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے یعنی اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اُس کے نبی ﷺ کی سنت۔‘‘
اس حدیث کو امام مالک نے، اور امام حاکم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔
5۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ خَطَبَ النَّاسَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَقَالَ : یَا أَیُّھَا النَّاسُ، إِنِّي قَدْ تَرَکْتُ فِيْکُمْ مَا إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ فَلَنْ تَضِلُّوْا أَبَدًا : کِتَابَ اللهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ۔ رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحُ الإِسْنَادِ۔
5 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 1 / 171، الرقم : 318، والبیهقي في السنن الکبری، 10 / 114، وفي الاعتقاد، 1 / 228، والمروزي في السنۃ، 1 / 26، الرقم : 68، والمنذري في الترغیب والترھیب، 1 / 41، الرقم : 66، والسیوطي في مفتاح الجنۃ، 1 / 21، وابن حزم في الأحکام، 6 / 243، والطبري في تاریخ الأمم والملوک، 2 / 206، وابن ھشام في السیرۃ النبویۃ، 6 / 10۔
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں سے خطاب فرمایا اور فرمایا : اے لوگو! یقینا میں تمہارے درمیان ایسی شے چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے یعنی اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت۔‘‘
6۔ عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَةَ رضی الله عنه قَالَ : وَعَظَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَوْمًا بَعْدَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مَوْعِظَةً بَلِيْغَةً ذَرَفَتْ مِنْھَا الْعُیُوْنُ وَ وَجِلَتْ مِنْھَا الْقُلُوْبُ، فَقَالَ رَجُلٌ : إِنَّ ھَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْھَدُ إِلَيْنَا یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ : أُوْصِيْکُمْ بِتَقْوَی اللهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ، فَإِنَّهُ مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ یَرَی اخْتِـلَافًا کَثِيْرًا، وَإِيَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ، فَإِنَّھَا ضَلَالَةٌ، فَمَنْ أَدْرَکَ ذَلِکَ مِنْکُمْ، فَعَلَيْکُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاء الرَّاشِدِيْنَ الْمَھْدِيِّيْنَ، عَضُّوْا عَلَيْھَا بِالنَّوَاجِذِ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔
6 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : العلم، باب : ما جاء في الأخذ بالسنۃ واجتناب البدع، 5 / 44، الرقم : 2676، وأبوداود في السنن، کتاب : السنۃ، باب : في لزوم السنۃ، 4 / 200، الرقم : 4607، وابن ماجه في السنن، المقدمۃ، باب : اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین، 1 / 15، الرقم : 42، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 126، وابن حبان في الصحیح، 1 / 178، الرقم : 5، والحاکم في المستدرک، 1 / 174، الرقم : 329، وقال : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ لَيْسَ لَهُ عِلَّةٌ، والطبراني في المعجم الکبیر، 18 / 246، الرقم : 618۔
’’حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضور نبی اکرم ﷺ نے فجر کی نماز کے بعد ہمیں نہایت فصیح و بلیغ وعظ فرمایا، جس سے آنکھوں میں آنسو جاری ہو گئے اور دل کانپنے لگے۔ ایک شخص نے کہا : یہ تو الوداع ہونے والے شخص کے وعظ جیسا (خطاب) ہے۔ یا رسول اللہ! آپ ہمیں کیا وصیت فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں تمہیں پرہیزگاری اور سننے اور ماننے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ تمہارا حاکم حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔ خبردار (شریعت کے خلاف) نئی باتوں سے بچنا کیونکہ یہ گمراہی کا راستہ ہے لهٰذا تم میں سے جو یہ زمانہ پائے تو وہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑے، تم لوگ (میری سنت کو) دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ لینا (یعنی اس پر سختی سے کاربند رہنا)۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
7۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : اَلْمُتَمَسِّکُ بِسُنَّتِي عِنْدَ فَسَادِ أُمَّتِي لَهُ أَجْرُ شَهِيْدٍ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادٍ لَا بَأْسَ بِهِ وَأَبُوْنُعَيْمٍ۔
وفي روایۃ لأبي نعیم : عَنِ ابْنِ فَارِسٍ رضی الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ مِثْلَهُ، وَقَالَ : لَهُ أَجْرُ مِائَةِ شَهِيْدٍ۔
7 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 315، الرقم : 5414، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 8 / 200، والدیلمي عن ابن عباس رضي الله عنهما في مسند الفردوس، 4 / 198، الرقم : 6608، والمنذري في الترغیب والترهیب، 1 / 41، الرقم : 65، وقال : رواه الطبراني بإسناد لا بأس به، والهیثمي في مجمع الزوائد، 1 / 172، وقال : رجاله ثقات، وابن عدي عن ابن عباس رضي الله عنهما في الکامل، 2 / 327، الرقم : 460، وقال : وأرجو أنه لا بأس به، والذھبي في میزان الاعتدال، 2 / 270، والعسقلاني في لسان المیزان، 2 / 246، الرقم : 1033، والسیوطي في مفتاح الجنۃ، 1 / 13۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میری سنت کو اس وقت مضبوطی سے تھامے رکھنے والے کے لئے جبکہ میری امت فساد میں مبتلا ہوگئی شہید کے برابر ثواب ہے۔
’’اور امام ابو نعیم کی روایت میں ہے کہ حضرت ابن فارس رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی اور اس میں آپ ﷺ نے فرمایا : ’’تو اس کے لئے سو شہیدوں کے برابر ثواب ہے۔‘‘
8۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ : سَیَأْتِيْکُمْ عَنِّي أَحَادِيْثُ مُخَتَلِفَةٌ فَمَا جَاءَ کُمْ مُوَافِقًا لِکِتَابِ اللهِ وَسُنَّتِي فَھُوَ مِنِّي وَمَا جَاءَ کُمْ مُخَالِفًا لِکِتَابِ اللهِ وَسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي۔ رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ وَالْخَطِيْبُ۔
8 : أخرجه الدیلمي في مسند الفردوس، 2 / 321، الرقم : 3456، والخطیب البغدادي في الکفایۃ في علم الروایۃ، 1 / 430، والذھبي في میزان الاعتدال، 3 / 315، والسیوطي في مفتاح الجنۃ، 1 / 23، وابن عدي في الکامل، 4 / 69۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے پاس میری طرف (منسوب شدہ) مختلف احادیث پہنچیں گی، سو جو تمہارے پاس قرآن پاک اور میری سنت کے موافق پہنچے تو (جان لو کہ) وہ میری طرف سے (ہی) ہے اور جو تمہارے پاس قرآن پاک اور میری سنت سے متصادم قول پہنچے تو (جان لو کہ) وہ میری طرف سے نہیں ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام دیلمی اور خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔
1۔ عَنِ ابْنِ عَوْنٍ رضی الله عنه قَالَ : ثَـلاَثٌ أُحِبُّهُنَّ لِنَفْسِي وَلِإخْوَانِي : هَذِهِ السُّنَّةُ أَنْ یَتَعَلَّمُوْهَا وَیَسْأَلُوْا عَنْهَا، وَالْقُرْآنُ أَنْ یَتَفَهَّمُوْهُ وَیَسْأَلُوْا عَنْهُ، وَیَدَعُوا النَّاسَ إِلَّا مِنْ خَيْرٍ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب : الاقتداء بسنن رسول الله ﷺ ، 6 / 2654، والبیهقي في کتاب الزھد الکبیر، 2 / 96، الرقم : 132، واللالکائي في اعتقاد أهل السنۃ، 1 / 61، الرقم : 36۔
’’حضرت ابن عون رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ تین چیزیں میں اپنے لئے اور اپنے بھائی کے لئے پسند کرتا ہوں : ایک یہ کہ وہ اِس سنت کو سیکھیں اور اس کے متعلق سوال کریں۔ دوسرا قرآن کریم کہ اسے سمجھیں اور اس کے متعلق پوچھیں، تیسرا یہ کہ بھلائی کے سوا لوگوں سے کنارہ کش رہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
2۔ قال سهل بن عبد الله : علامۃ حب الله حب القرآن، وعلامۃ حب القرآن حب النبي ﷺ، وعلامۃ حب النبي ﷺ حب السنّۃ۔
2 : أخرجه القاضي عیاض في الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ : 503۔
’’حضرت سہل بن عبد اللہ رَحِمَهُ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل سے محبت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن سے محبت کرے اور قرآن سے محبت کرنے کا معنی یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے محبت کرے اور آپ ﷺ سے محبت کرنے کی پہچان یہ ہے کہ آپ ﷺ کی سنت سے محبت کرے ۔‘‘
3۔ قال الجُنَيْدُ : الطرقُ کلُّها مسدودةٌ علی الخَلْق، إلا من اقتضی أَثَر الرَّسول ﷺ ، واتَّبع سُنَّتَه، ولَزِم طریقتَه؛ فإن طُرُق الخیراتِ کلّها مفتوحةٌ علیه۔
3 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 159۔
’’حضرت جنید بغدادی رَحِمَهُ اللہ فرماتے ہیں کہ مخلوق پر تمام راستے بند ہیں سوائے اس راستے کے جو رسول اکرم ﷺ کا ہے۔ آپ ﷺ کے راستے کی پیروی کر اور آپ کی سنت کی پابندی کر نتیجتاً تم پر خیر کے تمام راستے کھل جائیں گے۔‘‘
4۔ قال الجنید : مذھبنا مقید بالکتاب والسنۃ۔ فمن لم یقرأ القرآن، ویکتب الحدیث، لا یُقتدی به في طریقنا۔
4 : أخرجه ابن قیم الجوزیۃ في مدارج السالکین، 2 / 31۔
’’حضرت جنید بغدادی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : ہمارا مذہب (مراد صوفیا کا مسلک) کتاب و سنت کا پابند ہے، پس جو شخص قرآن نہیں پڑھتا اور حدیث نہیں لکھتا(یعنی قرآن وحدیث کی درس و تدریس نہیں کرتا)، اس کی ہمارے طریق میں اقتداء نہیں کی جاتی۔‘‘
5۔ قال الجنید البغدادي : الطرق کلھا مسدودۃ علی الخلق، إلا علی من اقتفی أثر الرسول ﷺ ۔
5 : أخرجه ابن قیم الجوزیۃ في مدارج السالکین، 2 / 75۔
’’حضرت جنید بغدادی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : مخلوق پر تمام راستے بند ہیں سوائے اس شخص کے جو حضور نبی اکرم ﷺ کے نقش قدم پر چلا۔‘‘
6۔ قال الجنید البغدادي : علمنا هذا مشید بحدیث رسول الله ﷺ ۔
6 : أخرجه ابن قیم الجوزیۃ في مدارج السالکین، 2 / 75۔
’’حضرت جنید بغدادی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : ہمارا یہ علم (علم تصوف) حدیث رسول اللہ ﷺ کی بدولت مضبوط و مستحکم ہے۔‘‘
7۔ قال الشافعي : لیس في سنۃ رسول الله إلا اتباعها۔
7 : أخرجه القاضي عیاض في الشفا بتعریف حقوق المصطفی ﷺ : 487۔
’’امام شافعی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ سنت رسول پر عمل کیا جائے۔‘‘
8۔ قال الشافعي رَحِمَهُ الله : أجمع المسلمون علی أن من استبانت له سنۃ رسول الله ﷺ لم یحل له أن یَدَعھَا لقول أحد۔
8 : أخرجه ابن قیم الجوزیۃ في مدارج السالکین، 2 / 247۔
’’حضرت شافعی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس شخص کے لئے حضور نبی اکرم ﷺ کی سنت ظاہر ہو جائے اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اس سنت کو کسی کے قول کی بنا پر چھوڑ دے۔‘‘
9۔ قال الحارث المحاسبي رَحِمَهُ الله : من صحح باطنه بالمراقبۃ والإخلاص زین الله تعالی ظاهره بالمجاهدۃ واتباع السنۃ۔
9 : أخرجه الشعرانيفي الطبقات الکبری : 113
’’حضرت حارث محاسبی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جس نے اپنے باطن کو خوفِ خدا اور اخلاص کے ساتھ درست کیا اللہ تعالیٰ اس کے ظاہر کو مجاہدہ اور سنت کی پیروی کے ساتھ زینت بخشتا ہے۔‘‘
10۔ قال محمدُ بنُ الفَضْل : أَعرَفُ الناس بالله أشدُّهم مُجاهدۃ في أوامِرِه، وأَتْبَعهمْ لِسُنَّۃ نبیه ﷺ ۔
10 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 214۔
’’حضرت محمد بن فضل رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : لوگوں میں سب سے بڑا عارف باللہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے اوامر میں سب سے زیادہ مجاہدہ کرنے والا اور اپنے نبی ﷺ کی سنت کی سب سے زیادہ اتباع کرنے والا ہو۔‘‘
11۔ قال أبو العباس بن عطاء : من ألزم نفسه آداب السُّنۃ نوَّر الله قلبه بنور المعرفۃ؛ ولا مقام أشرف من مقام متابعۃ الحبیب، ، في أوامره وأفعاله وأخلاقه، والتأدب بآدابه قولاً وفعلاً، وعزماً وعقداً ونیةً۔
11 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 265۔
’’حضرت ابو العباس بن عطاء رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جس نے اپنے نفس کے لئے سنت نبویہ ﷺ کے آداب لازم کر لئے اللہ تعالیٰ اس کے دل کو نورِ معرفت سے منور فرمائے گا۔ اور محبوب حقیقی کی اتباع سے بڑھ کر کوئی مقام نہیں۔ اس کے ارشادات میں اتباع، اس کے افعال و اخلاق میں اتباع اور اپنے قول و فعل، ارادے، عقیدے اور نیت میں اس کے آداب کی پیروی کرنا لازم ہے۔‘‘
12۔ قال سهل : الحبُّ : مُعَانَقَةُ الطَّاعةِ ومُبَایَنَةُ الْمُخَالَفَةِ۔
12 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 321۔
’’حضرت سہل رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں : محبت یہ ہے کہ تو اطاعت گزاری پر قائم رہے اور (محبوب کی) مخالفت سے دور رہے۔‘‘
13۔ قال القاضي عیاض : اعلم أن من أحب شیئاً آثره وآثر موافقته، وإلا لم یکن صادقاً في حبه، وکان مدعیاً۔ فالصادق في حب النبي ﷺ من تظهر علامۃ ذلک علیه، وأولها : الاقتداء به، واستعمال سنته، واتباع أقواله وأفعاله وامتثال أوامره، واجتناب نواهیه، والتأدب بآدابه في عسره ویسره، ومنشطه ومکرهه، وشاهد هذا قوله تعالی {قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللهُ} [آل عمران، 3 : 31]۔
13 : أخرجه القاضي عیاض في الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ : 499۔
’’قاضی عیاض رَحِمَهُ اللہ فرماتے ہیں : اس بات کو خوب جان لو کہ جو شخص جس کی محبت رکھتا ہے وہ اس کو اختیار کر لیتا ہے اور اسی کی موافقت کرتا ہے بصورت دیگر وہ اس کی محبت میں سچا نہیں جس کی وہ محبت کا دھرم بھرتا ہے۔ لهٰذا حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت میں صرف وہ سچا ہے جس پر اس کی علامتیں ظاہر ہوں۔ محبت کی پہلی علامت یہ ہے کہ آپ ﷺ کی پیروی کرے اور آپ ﷺ کی سنت کا عامل ہو۔ آپ ﷺ کے افعال و اقوال کی اتباع کرے، آپ ﷺ کے حکم کو بجا لائے اور ممنوع اُمور سے اجتناب کرے، تنگی و فراخی، خوشی و غمی ہر حال میں آپ ﷺ کے آداب سے موعظت و نصیحت حاصل کرے۔ اس علامت کی حجت و دلیل اس آیت کریمہ میں ہے کہ : ’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں : اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا۔‘‘
14۔ قال الإمام القسطلاني : ولا یحبک إلا إذا اتبعت حبیبه ظاهراً وباطناً، وصدقته خبراً، وأطعته أمراً، وأجبته دعوۃ، وآثرته طوعاً، وفنیت عن حکم غیره بحکمه، وعن محبۃ غیره من الخلق وعن طاعۃ غیره بطاعته، وإن لم تکن کذلک فلا تتعن، فلست بشيئ۔
14 : أخرجه الإمام القسطلاني في المواھب اللّدنّیّۃ بِالْمنحِ الْمحمّدیّۃ، 2 / 491۔
’’امام قسطلانی ؒ بیان کرتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ تم سے محبت نہیں کرے گا مگر جب تم ظاہری و باطنی طور پر اس کے محبوب ﷺ کی اتباع کرو ۔ان کی خبر کی تصدیق کرو۔ ان کا حکم مانو، ان کی دعوت قبول کرو اور خوشی خوشی اسے ترجیح دو۔ ان کے حکم کے مقابلے میں ان کے غیر کے حکم سے، ان کی محبت میں غیر کی محبت اور ان کی اطاعت میں غیر کی اطاعت کے مقابلہ میں اپنے آپ کو فنا کر دو، اگر ایسا نہ ہو تو پھر تھکاوٹ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ (بغیر اطاعت مصطفی کے)تم کسی راہ پر نہیں ہو۔‘‘
15۔ قال الإمام القسطلاني : فاتباع ھذا النبي الکریم حیاۃ القلوب، ونور البصائر، وشفاء الصدور، وریاض النفوس، ولذۃ الأرواح، وأنس المستوحشین، ودلیل المتحیرین۔ وقال أیضاً من علامات محبته ﷺ محبۃ سنته، وقراء ۃ حدیثه، فإن من دخلت حلاوۃ الإیمان في قلبه إذا سمع کلمۃ من کلام الله تعالی، أو من حدیث رسول الله ﷺ تشربتھا روحه وقلبه ونفسه
15 : أخرجه الإمام القسطلاني في المواھب اللّدنّیّۃ بِالْمنحِ الْمحمّدیّۃ، 2 / 493، 499۔
’’امام قسطلانی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی اتباع دلوں کی حیات، بصیرتوں کا نور، دلوں کی شفاء، نفسوس کے باغات، ارواح کی لذت، وحشت زدہ لوگوں کا اُنس اور حیران لوگوں کی رہنما ہے۔ امام قسطلانی مزید بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت کی ایک علامت یہ ہے کہ آپ ﷺ کی سنت پر عمل اور آپ ﷺ کی حدیث مبارک پڑھنے کی چاہت ہو، بے شک جس آدمی کے دل میں ایمان کی چاشنی داخل ہو جب وہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں سے کوئی کلمہ یا کوئی حدیث رسول ﷺ سنتا ہے تو وہ اس کی روح، دل اور نفس میں جاگزیں ہوجاتا ہے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved