1۔ یٰٓایُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا اَطِيْعُوْا اللهَ وَاَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْئٍ فَرُدُّوْهُ اِلَی اللهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ذٰلِکَ خَيْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِيْلاًo
(النساء، 4 : 59)
’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول( ﷺ ) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول( ﷺ ) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہےo‘‘
2۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ ج وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنَاکَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًاo
(النساء، 4 : 80)
’’جس نے رسول( ﷺ ) کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا اور جس نے روگردانی کی تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجاo‘‘
3۔ قُلْ اَطِيْعُوا اللهَ وَ الرَّسُوْلَ ج فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللهَ لاَ یُحِبُّ الْکٰـفِرِيْنَo
(آل عمران، 3 : 22)
’’آپ فرما دیں کہ اللہ اور رسول ( ﷺ ) کی اطاعت کرو پھر اگر وہ روگردانی کریں تو اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتاo‘‘
4۔ وَاَطِيْعُوا اللهَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَo
(آل عمران، 3 : 22)
’’اور اللہ کی اور رسول ( ﷺ ) کی فرمانبرداری کرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائےo‘‘
5۔ وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللهُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَيْتَ الْمُنٰـفِقِيْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًاo
(النساء، 4 : 61)
’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ (قرآن) کی طرف اور رسول( ﷺ ) کی طرف آجاؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ (کی طرف رجوع کرنے) سے گریزاں رہتے ہیںo‘‘
6۔ وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ الِاَّ لِیُطَاعَ بِاذْنِ اللهِ۔
(النساء، 4 : 64)
’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘
7۔ وَمَنْ یُّطِعِ اللهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ وَ الشُّھَدَآء وَ الصّٰلِحِيْنَ ج وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِيْقًاo
(النساء، 4 : 69)
’’اور جو کوئی اللہ اور رسول ( ﷺ ) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیائ، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیںo‘‘
8۔ وَاَطِيْعُوا اللهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا ج فَاِنْ تَوَ لَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْآ اَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُo
(المائده، 5 : 92)
’’اور تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( ﷺ ) کی اطاعت کرو اور (خدا اور رسول ﷺ کی مخالفت سے) بچتے رہو، پھر اگر تم نے روگردانی کی تو جان لو کہ ہمارے رسول ( ﷺ ) پر صرف (اَحکام کا) واضح طور پر پہنچا دینا ہی ہے (اور وہ یہ فریضہ ادا فرما چکے ہیں)o‘‘
9۔ قُلْ اَطِيْعُوااللهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ ج فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْکُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ ط وَاِنْ تُطِيْعُوْهُ تَهْتَدُوْا ط وَمَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُo
(النور، 24 : 54)
’’فرما دیجئے : تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( ﷺ ) کی اطاعت کرو، پھر اگر تم نے (اطاعت) سے رُوگردانی کی تو (جان لو) رسول ( ﷺ ) کے ذمہ وہی کچھ ہے جو ان پر لازم کیا گیا اور تمہارے ذمہ وہ ہے جو تم پر لازم کیا گیا ہے، اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا جائو گے، اور رسول ( ﷺ ) پر (احکام کو) صریحاً پہنچا دینے کے سوا (کچھ لازم) نہیں ہےo‘‘
10۔ یٰٓـاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَکُمْo
(محمد، 47 : 33)
’’اے ایمان والو! تم اللہ کی اطاعت کیا کرو اور رسول ( ﷺ ) کی اطاعت کیا کرو اور اپنے اعمال برباد مت کروo‘‘
11۔ اِنَّ الَّذِيْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللهَ ط یَدُ اللهِ فَوْقَ اَيْدِيْھِمْ ج فَمَنْ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنْکُثُ عَلٰی نَفْسِهٖ ج وَ مَنْ اَوْفٰی بِمَا عٰـھَدَ عَلَيْهُ اللهَ فَسَیُؤْتِيْهِ اَجْرًا عَظِيْمًاo
(الفتح، 48 : 10)
’’(اے حبیب!) بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اللہ کا ہاتھ ہے۔ پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہو گا اور جس نے (اس) بات کو پورا کیا جس (کے پورا کرنے) پر اس نے اللہ سے عہد کیا تھا تو وہ عنقریب اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گاo‘‘
1۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَی اللهَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الأحکام، باب : قول الله تعالی : أَطِيْعُوا اللهَ وَ أَطِيْعُوا الرَّسُولَ وَ أَوْلِی الأَمْرِ مِنْکُمْ : [النساء، 4 : 59]، 6 / 2611، الرقم : 6718، وفي کتاب : الجهاد، باب : یقاتل مِن وراء الإمام ویُتّقَی به، 3 / 1080، الرقم : 2797، ومسلم في الصحیح، کتاب : الإمارۃ، باب : وجوب طاعۃ الأمراء معصیۃ وتحریمها في المعصعیۃ، 3 / 1466، الرقم : 1835، والنسائي في السنن، کتاب : البیعۃ، باب : الترغیب في طاعۃ الإمام، 7 / 154، الرقم : 4193، 5510، وابن ماجه في السنن، المقدمۃ، باب : اتباع سنۃ رسول الله ﷺ ، 1 / 4، الرقم : 3، وفي کتاب : الجھاد، باب : طاعۃ الإمام، الرقم : 2859، 2859، وابن خزیمۃ في الصحیح، 3 / 46، الرقم : 1597، وابن حبان في الصحیح، 10 / 420، الرقم : 4556، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 252، الرقم : 7428۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے میری اطاعت کی سو اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی سو اس نے اللہ عزوجل کی نافرمانی کی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ : جَاءَتْ مَـلَائِکَةٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ نَائِمٌ… فَقَالَ بَعْضُهُمْ : إِنَّهُ نَائِمٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ یَقْظَانُ، فَقَالُوْا : فَالدَّارُ الْجَنَّةُ، وَالدَّاعِي مُحَمَّدٌ ﷺ ، فَمَنْ أَطَاعَ مُحَمَّدًا، فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ، وَمَنْ عَصَی مُحَمَّدًا، فَقَدْ عَصَی اللهَ، وَمُحَمَّدٌ فَرَّقَ بَيْنَ النَّاسِ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ۔
2 : أخرجه البخاری فی الصحیح، کتاب : الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب : الاقتداء بِسُنَنِ رسول الله ﷺ ، 6 / 2655، الرقم : 6852، والسیوطي في مفتاح الجنۃ، 1 / 18۔
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کچھ فرشتے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے جبکہ آپ ﷺ سوئے ہوئے تھے۔ تو ان میں سے ایک نے کہا : یہ تو سوئے ہوئے ہیں۔ دوسرے نے کہا : (ان کی) آنکھ سوتی ہے مگر دل بیدار رہتا ہے۔ پھر انہوں نے کہا : حقیقی گھر جنت ہی ہے اور محمد ﷺ (حق کی طرف) بلانے والے ہیں۔ جس نے محمد ﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے محمد ﷺ کی نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، محمد ﷺ اچھے اور برے لوگوں میں فرق کرنے والے ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
3۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَی اللهَ، وَمَنْ أَطَاعَ عَلِیًّا فَقَدْ أَطَاعَنِي وَمَنْ عَصَی عَلِیًّا فَقَدْ عَصَانِي۔ رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَقَالَ : هَذَا الْحَدِيْثُ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ۔
3 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 131، الرقم : 4617، والجرجاني في الکامل في ضعفاء الرجال، 7 / 233، الرقم : 2132، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 42 / 307۔
’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ عزوجل کی نافرمانی کی اور جس نے علی کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے علی کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔‘‘ امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کے اسناد صحیح ہیں۔
4۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ حَدَّثَّهُ، أَنَّهُ کَانَ ذَاتَ یَوْمٍ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ مَعَ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِمْ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَقَالَ : یَا هَؤُلَاءِ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أَنِّي رَسُوْلُ اللهِ إلَيْکُمْ؟ قَالُوْا : بَلَی، نَشْهَدُ أَنَّکَ رَسُوْلُ اللهِ، قَالَ : أَلَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أَنَّ اللهَ أَنْزَلَ فِي کِتَابِهِ : مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ قَالُوْا : بَلَی، نَشْهَدُ أَنَّهُ مَنْ أَطَاعَکَ فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ وَأَنَّ مِنْ طَاعةِ اللهِ طَاعَتَکَ، قَالَ : فَإنَّ مِنْ طَاعَةِ اللهِ أَنْ تُطِيْعُوْنِي، وَإِنَّ مِنْ طَاعَتِي أَنْ تُطِيْعُوْا أَئِمَّتَکُمْ، أَطِيْعُوْا أَئِمَّتَکُمْ، فَإِنْ صَلُّوْا قُعُوْدًا فَصَلُّوْا قُعُوْدًا۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ یَعْلَی۔
4 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 93، الرقم : 5679، وأبو یعلی في المسند، 9 / 340، الرقم : 5450، وابن حبان في الصحیح، 5 / 470، الرقم : 2109، والطبراني في المعجم الکبیر، 12 / 321، الرقم : 13238، والهیثمي في موارد الظمآن، 1 / 108، الرقم : 364۔
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک دن صحابہ کے ایک گروہ کے ساتھ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں موجود تھے، پس حضور نبی اکرم ﷺ ان کی طرف تشریف لائے اور فرمایا : اے لوگو! کیا تم نہیں جانتے کہ میں تمہاری طرف مبعوث کیا ہوا اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : کیوں نہیں، ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ جس شخص نے آپ کی اطاعت کی تو اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور بے شک آپ کی اطاعت، اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں سے یہ بھی ہے کہ تم میری اطاعت کرو، اور میری اطاعت میں سے یہ ہے کہ تم اپنے ائمہ کی اطاعت کرو۔ اپنے ائمہ کی اطاعت کرو پس اگر وہ بیٹھ کر نماز ادا کریں تو تم بھی بیٹھ کر ادا کرو۔‘‘ اس حدیث کو امام اَحمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنْ أَبِي مُوْسَی رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللهُ بِهِ کَمَثَلِ رَجُلٍ أَتَی قَوْمًا فَقَالَ : یَا قَوْمِ، إِنِّي رَأَيْتُ الْجَيْشَ بِعَيْنَيَّ۔ وَإِنِّي أَنَا النَّذِيْرُ الْعُرْیَانُ، فَالنَّجَائَ، فَأَطَاعَهُ طَائِفَةٌ مِنْ قَوْمِهِ، فَأَدْلَجُوْا، فَانْطَلَقُوْا عَلَی مَهَلِهِمْ، فَنَجَوْا۔ وَکَذَّبَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ فَأَصْبَحُوْا مَکَانَهُمْ، فَصَبَّحَهُمْ الْجَيْشُ فَأَهْلَکَهُمْ وَاجْتَاحَهُمْ۔ فَذَلِکَ مَثَلُ مَنْ أَطَاعَنِي فَاتَّبَعَ مَا جِئتُ بِهِ۔ وَمَثَلُ مَنْ عَصَانِي وَکَذَّبَ مَا جِئْتُ بِهِ مِنَ الْحَقِّ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
5 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب : الاقتداء بسنن رسول الله ﷺ ، 6 / 2656، الرقم : 6854، ومسلم في الصحیح، کتاب : الفضائل، باب : شفقته ﷺ علی أمته ومبالغۃ في تحذیرھم مما یضرهم، 4 / 1788، الرقم : 2283، وابن حبان في الصحیح، 1 / 176، الرقم : 3، وأبو یعلی في المسند، 13 / 294، الرقم : 7310، واللالکائي في اعتقاد أهل السنۃ، 1 / 78، الرقم : 86، والرامھرمزي في أمثال الحدیث، 1 / 23، الرقم : 10، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 2 / 559۔
’’حضرت ابو موسیٰ (اشعری) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بے شک میری اور اس (دین حق) کی جس کے ساتھ مجھے مبعوث کیا گیا ہے مثال اس شخص کی سی ہے جس نے اپنی قوم کے پاس آکر کہا : اے میری قوم! میں نے اپنی آنکھوں سے ایک فوج دیکھی ہے میں تمہیں واضح طور پر اس سے ڈرانے والا ہوں لهٰذا اپنی حفاظت کا سامان کر لو چنانچہ اس کی قوم سے ایک جماعت نے اس کی بات مانی، راتوں رات نکل کر اپنی پناہ گاہ میں جا چھپے اور بچ گئے جبکہ ایک جماعت نے اسے جھٹلایا اور صبح تک اپنے اپنے مقامات پر ہی (بے فکری سے پڑے) رہے۔ منہ اندھیرے ایک لشکر نے ان پر حملہ کردیا انہیں ہلاک کر کے غارت گری کا بازار گرم کردیا۔ سو یہ مثال ہے اس کی جس نے میری اطاعت کی اور جو (دین حق) میں لے کر آیا ہوں اس کی پیروی کی اور اس شخص کی مثال جس نے میری نافرمانی کی اور جو حق میں لے کر آیا ہوں اسے جھٹلایا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
6۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَلَمْ آتِکُمْ ضُلَّالًا فَهَدَاکُمُ اللهُ عزوجل بِي؟ أَلَمْ آتِکُمْ مُتَفَرِّقِيْنَ فَجَمَعَکُمُ اللهُ بِي؟ أَلَمْ آتِکُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ اللهُ بَيْنَ قُلُوْبِکُمْ بِي؟ قَالُوْا : بَلَی یَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ : أَفَـلَا تَقُوْلُوْنَ جِئْتَنَا خَائِفًا فَآمَنَّاکَ، وَطَرِيْدًا فآوَيْنَاکَ، وَمَخْذُوْلًا فَنَصَرْنَاکَ۔ فَقَالُوْا : بَلْ ِللهِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی الْمَنُّ بِهِ عَلَيْنَا وَلِرَسُوْلِهِ ﷺ ۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ نَحْوَهُ فِي حَدِيْثٍ طَوِيْلٍ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدٍ، وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ حِبَّانَ۔
6 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : المغازي، باب : عزوۃ الطائف في شوال سنۃ ثمان، 4 / 1574، الرقم : 4075، ومسلم في الصحیح، کتاب : الزکاۃ، باب : إعطاء المؤلفۃ لقلوبهم علی الإسلام، 2 / 738، الرقم : 1061، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 91، الرقم : 8347، وفي فضائل الصحابۃ، 1 / 72، الرقم : 242، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 104، الرقم : 12040، وفي فضائل الصحابۃ، 2 / 800، الرقم : 1435، وابن حبان في الثقات، 2 / 81، والعسقلاني في فتح الباري، 8 / 51۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے گروهِ انصار! کیا میں تمہارے پاس اس وقت نہیں آیا جب تم راهِ راست سے بھٹکے ہوئے تھے، پس اللہ تعالیٰ نے میرے سبب تمہیں ہدایت عطا فرمائی؟ کیا میں تمہارے پاس اس وقت نہیں آیا جب تم مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے تھے، پس اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہیں جمع فرما دیا؟ کیا میں تمہارے پاس اس وقت نہیں آیا جب تم باہم (جانی) دشمن تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہارے دلوں میں محبت و الفت پیدا فرما دی؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں، یا رسول اللہ! پھر آپ ﷺ نے فرمایا : تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ آپ ہمارے پاس حالتِ خوف میں تشریف لائے، پس ہم نے آپ کو امان دی، اور آپ ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب آپ کی قوم نے آپ کو ملک بدر کر دیا تو ہم نے آپ کو پناہ دی، اور آپ ہمارے پاس حالتِ شکست میں تشریف لائے، تو ہم نے آپ کی مدد و نصرت کی۔ انہوں نے عرض کیا : (یہ آپ پر ہمارا کوئی احسان نہیں) بلکہ (آپ کا ہمارے پاس تشریف لانا) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا ہم پر احسان ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری و مسلم نے طویل روایت میں حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کے طریق سے روایت کیا ہے اور امام نسائی، احمد نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
7۔ عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي کَرِبَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَلاَ، هَلْ عَسَی رَجُلٌ یَبْلُغُهُ الْحَدِيْثُ عَنِّي وَهُوَ مُتَّکِیئٌ عَلَی أَرِيْکَتِهِ فَیَقُوْلُ : بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ کِتَابُ اللهِ فَمَا وَجَدْنَا فِيْهِ حَـلَالًا اسْتَحْلَلْنَاهُ وَمَا وَجَدْنَا فِیهِ حَرَامًا حَرَّمْنَاهُ وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ کَمَا حَرَّمَ اللهُ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَالدَّارُ قُطْنِيُّ۔ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔
7 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : العلم، باب : ما نھي عنه أن یقال عند حدیث النبي ﷺ ، 5 / 38، الرقم : 2664، وابن ماجه في السنن، المقدمۃ، باب : تعظیم حدیث رسول الله ﷺ والتغلیظ علی من عارضه، 1 / 6، الرقم : 12، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 132، الرقم : 17233، والدارمي في السنن، 1 / 153، الرقم : 586، والدارقطني في السنن، 4 / 286۔ 287، الرقم : 58،63، والحاکم في المستدرک، 1 / 191، الرقم : 13۔
’’حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سن لو! عنقریب ایک آدمی کے پاس میری حدیث پہنچے گی، وہ اپنی مسہری پر ٹیک لگائے بیٹھا ہوا کہے گا : ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کی کتاب (ہی کافی ہے)، ہم جو چیز اس میں حلال پائیں گے اسے حلال سمجھیں گے اورجو اس میں حرام پائیں گے اسے حرام سمجھیں گے، جبکہ (خبردار جان لو !) رسول اللہ ﷺ کا کسی شے کو حرام قرار دینا بھی اللہ تعالیٰ کے حرام قرار دینے کی طرح ہی ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، ابن ماجہ، احمد، دارمی اور دارقطنی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
8۔ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ رضي الله عنها قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یُوْحَی إِلَيْهِ وَرَأْسُهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ رضی الله عنه۔ فَلَمْ یُصَلِّ الْعَصْرَ حَتَّی غَرَبَتِ الشَّمْسُ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَللَّھُمَّ، إِنَّ عَلِیًّا کَانَ فِي طَاعَتِکَ وَطَاعَةِ رَسُوْلِکَ، فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ۔ قَالَتْ أَسْمَاءُ رضي الله عنها : فَرَأَيْتُھَا غَرَبَتْ وَرَأَيْتُھَا طَلَعَتْ بَعْدَ مَا غَرَبَتْ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
8 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 24 / 147، الرقم : 390، والهیثمي في مجمع الزوائد، 8 / 297، وابن کثیر في البدایۃ والنھایۃ، 6 / 83، والقاضي عیاض في الشفائ، 1 / 400، والسیوطي في الخصائص الکبری، 2 / 137، والحلبي في السیرۃ الحلبیۃ، 2 / 103، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 15 / 197۔
رواه الطبراني بأسانید، ورجال أحدھما رجال الصحیح غیر إبراهیم بن حسن، وھو ثقۃ، وثّقه ابن حبان، ورواه الطحاوي في مشکل الآثار (2 / 9، 4 / 388۔ 389) وللحدیث طرق أخری عن أسماء عن أبي هریرۃ وعلي ابن أبي طالب وأبي سعید الخدري رضی الله عنهم ۔
وقد جمع طرقه أبو الحسن الفضلي وعبید الله بن عبد الله الحسکا المتوفی سنۃ (470) في (مسألۃ في تصحیح حدیث ردّ الشمس)، والسیوطي في (کشف اللبس عن حدیث الشمس)۔ وقال السیوطي في الخصائص الکبری (2 / 137) : أخرجه ابن منده وابن شاھین والطبراني بأسانید بعضھا علی شرط الصحیح۔ وقال الشیباني في حدائق الأنوار (1 / 193) : أخرجه الطحاوي في مشکل الحدیث ۔ الآثار۔ بإسنادین صحیحین۔
وقال الإمام النووي في شرح مسلم (12 / 52) : ذکر القاضي رضی الله عنه : أن نبینا ﷺ حبست له الشمس مرّتین… ذکر ذلک الطحاوي وقال : رواته ثقات۔
ونقله عنه الحافظ ابن حجر في تلخیص الحبیر (1 / 195) وحسّنه الحافظ أبو زرعۃ العراقي في تکملۃ کتاب والده ’’طرح التثریب‘‘ (7 / 274)۔
’’حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے : حضور نبی اکرم ﷺ پر وحی نازل ہو رہی تھی اور آپ ﷺ کا سرِ اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔ وہ عصر کی نماز نہ پڑھ سکے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے دعا کی : اے اللہ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا اس پر سورج واپس لوٹا دے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے اسے غروب ہوتے ہوئے بھی دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ وہ غروب ہونے کے بعد دوبارہ طلوع ہوا۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
1۔ قال أبوالحسین الوراق : علامۃ محبۃ الله تعالی متابعۃ حبیبه۔
1 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 299۔
’’حضرت ابو الحسین وراق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کی علامت اس کے رسول ﷺ کی اتباع ہے۔‘‘
2۔ سئل ذو النون المصري عن المحبَّۃ - قال : أن تُحبَّ ما أحَبَّ اللهُ؛ وتبْغضَ ما أبغض اللهُ … واتِّباع رسولِ الله ﷺ في الدِّین۔
2 : أخرجه السُّلمي في طبقات الصّوفیه : 18۔
’’حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ سے محبت کے متعلق پوچھا گیا، تو انہوں نے فرمایا کہ تو اس چیز سے محبت کرے جس سے اللہ تعالیٰ محبت کرتاہے، اور اس چیز کو ناپسند کرے جسے اللہ تعالیٰ نا پسند کرتا ہے … اور دین کے معاملہ میں حضورنبی اکرم ﷺ کی اتباع و پیروی کرلے(تو یہ حقیقی محبت ہے)۔‘‘
3۔ قال ذو النون المصري : من علاماتِ المحبِّ ﷲ، متابعةُ حبیبِ الله في أخلاقه، وأفعاله، أمره وسُنَنهِ۔
3 : أخرجه السُّلمي في طبقات الصّوفیه : 21۔
’’حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے کی علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب حضرت محمد ﷺ کے اخلاق، افعال اور آپ ﷺ کے حکم اور سنن میں اتباع و پیروی کرے۔‘‘
4۔ قال سفیان : المحبۃ اتباع الرسول ں، کأنه التفت إلی قوله تعالی : {قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللهُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ} [آل عمران، 3 : 31]۔
4 : أخرجه القاضي عیاض في الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ : 505۔
’’حضرت سفیان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : محبت اتباعِ رسول ﷺ کا نام ہے۔ گویا کہ انہوں نے اللہ عزوجل کے اس فرمان کی طرف اشارہ کیا : ’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں : ’’اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved