1۔ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيْمَ مُصَلًّی۔
(البقرۃ، 2 : 125)
’’اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (ں) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو۔‘‘
2۔ وَقَالَ لَھُمْ نَبِیُّھُمْ اِنَّ اٰیَةَ مُلْکِهٖٓ اَنْ يَّاْتِیَکُمُ التَّابُوْتُ فِيْهِ سَکِيْنَةٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْسٰی وَاٰلُ ھٰرُوْنَ تَحْمِلُهُ الْمَلٰٓئِکَةُ ط اِنَّ فِيْ ذٰلِکَ لَاٰیَةً لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَo
(البقرۃ، 2 : 248)
’’اور ان کے نبی نے ان سے فرمایا اس کی سلطنت (کے من جانب اللہ ہونے ) کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس صندوق آئے گا اس میں تمہارے رب کی طرف سے سکونِ قلب کا سامان ہوگا اور کچھ آلِ موسیٰ اور آلِ ہارون کے چھوڑے ہوئے تبرکات ہوں گے اسے فرشتوں نے اٹھایا ہوا ہو گا، اگر تم ایمان والے ہو تو بیشک اس میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہےo‘‘
3۔ ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِيَّا رَبَّهٗ ج قَالَ رَبِّ ھَبْ لِيْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً اِنَّکَ سَمِيْعُ الدُّعَآء۔
(آل عمران، 3 : 38)
’’اسی جگہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی، عرض کیا : میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا کا سننے والا ہے۔‘‘
4۔ اِذْھَبُوْا بِقَمِيْصِيْ هٰذَا فَاَلْقُوْهُ عَلٰی وَجْهِ اَبِيْ یَاْتِ بَصِيْرًا۔
(یوسف، 12 : 93)
’’میرا یہ قمیض لے جاؤ، سو اسے میرے باپ کے چہرے پر ڈال دینا، وہ بینا ہو جائیں گے۔‘‘
5۔ سُبْحٰنَ الَّذِٓيْ اَسْرٰی بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَکْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا ط اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُo
(بنی إسرائیل، 17 : 1)
’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہےo‘‘
1۔ عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِيْدَ رضی الله عنه یَقُوْلُ : ذَھَبَتْ بِي خَالَتِي إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ ابْنَ أُخْتِي وَجِعٌ۔ فَمَسَحَ رَأْسِي وَدَعَا لِي بِالْبَرَکَةِ، ثُمَّ تَوَضَّأَ۔ فَشَرِبْتُ مِنْ وَضُوْئِهِ، ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَھْرِهِ، فَنَظَرْتُ إِلَی خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ کَتِفَيْهِ، مِثْلَ زِرِّ الْحَجَلَةِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الوضوئ، باب : استعمال فضل وضوء الناس، 1 / 81، الرقم : 187، وفي کتاب : المناقب، باب : کنیۃ النبي ﷺ ، 3 / 1301، الرقم : 3347، وفي باب : خاتم النبوۃ، 3 / 1301، الرقم : 3348، وفي کتاب : المرضی، باب : من ذھب بالصبي المریض لیدعی له، 5 / 2146، الرقم : 5346، وفي کتاب : الدعوات، باب : الدعاء للصبیان بالبرکۃ ومسح رؤوسھم، 5 / 2337، الرقم : 5991، ومسلم في الصحیح، کتاب : الفضائل، باب : إثبات خاتم النبوۃ وصفته ومحله من جسده ﷺ ، 4 / 1823، الرقم : 2345۔
’’حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، میری خالہ جان مجھے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں لے جا کر عرض گزار ہوئیں : یا رسول اللہ! میرا بھانجا بیمار ہے۔ آپ ﷺ نے میرے سر پر اپنا دستِ اقدس پھیرا اور میرے لئے برکت کی دعا فرمائی پھر وضو فرمایا۔ تو میں نے آپ ﷺ کے وضو کا پانی پیا پھر آپ ﷺ کے پیچھے کھڑا ہو گیا تو آپ ﷺ کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان مہرِ نبوت کی زیارت کی جو کبوتر کے انڈے یا حجلۂ عروسی کے جھالر جیسی تھی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2۔ عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ رضی الله عنه یَقُوْلُ : خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِالْھَاجِرَةِ۔ فَأُتِيَ بِوَضُوْء فَتَوَضَّأَ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَأْخُذُوْنَ مِنْ فَضْلِ وَضُوْئِهِ فَیَتَمَسَّحُوْنَ بِهِ۔ فَصَلَّی النَّبِيُّ ﷺ الظُّھْرَ رَکْعَتَيْنِ، وَالْعَصْرَ رَکْعَتَيْنِ، وَبَيْنَ یَدَيْهِ عَنَزَةٌ۔ وَقَالَ أَبُوْ مُوْسَی : دَعَا النَّبِيُّ ﷺ بِقَدَحٍ فِيْهِ مَاءٌ۔ فَغَسَلَ یَدَيْهِ وَوَجْھَهُ فِيْهِ، وَمَجَّ فِيْهِ، ثُمَّ قَالَ لَھُمَا : اشْرَبَا مِنْهُ، وَأَفْرِغَا عَلَی وُجُوْھِکُمَا وَنُحُوْرِکُمَا۔
وفي روایۃ عنه : قَالَ : رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فِي قُبَّةٍ حَمْرَاء مِنْ أَدَمٍ، وَرَأَيْتُ بِلَالًا أَخَذَ وَضُوْءَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ، وَرَأَيْتُ النَّاسَ یَبْتَدِرُوْنَ ذَاکَ الْوَضُوْءَ۔ فَمَنْ أَصَابَ مِنْهُ شَيْئًا تَمَسَّحَ بِهِ، وَمَنْ لَمْ یُصِبْ مِنْهُ شَيْئًا أَخَذَ مِنْ بَلَلِ یَدِ صَاحِبِهِ۔ ثُمَّ رَأَيْتُ بِلَالًا أَخَذَ عَنَزَةً فَرَکَزَھَا، وَخَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ فِي حُلَّةٍ حَمْرَائَ مُشَمِّرًا، صَلَّی إِلَی الْعَنَزَةِ بِالنَّاسِ رَکْعَتَيْنِ، وَرَأَيْتُ النَّاسَ وَالدَّوَابَّ یَمُرُّوْنَ مِنْ بَيْنِ یَدَيِ الْعَنَزَةِ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ مُخْتَصَرًا۔
2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الوضوئ، باب : استعمال فضل وضوء الناس، 1 / 80، الرقم : 185، وفي کتاب : الصلاۃ في الثیاب، باب : الصلاۃ في الثوب الأحمر، 1 / 147، الرقم : 369، وفي کتاب : الصلاۃ، باب : سترۃ الإمام سترۃ من خلفه، 1 / 187، الرقم : 473، وفي کتاب : الوضوئ، باب : الغسل والوضوء في المخضب والقدح والخشب والحجارۃ، 1 / 83، الرقم : 193، ومسلم في الصحیح، کتاب : فضائل الصحابۃ، باب : من فضائل أبي موسی وأبي عامر الأشعریین رضي الله عنهما، 4 / 1943، الرقم : 2497، وأبو یعلی في المسند، 13 / 301، الرقم : 301۔
’’حضرت ابوجُحَیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ دوپہر کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے۔ پانی لایا گیا تو آپ ﷺ نے وضو فرمایا۔ لوگ آپ ﷺ کے وضو کے بچے ہوئے پانی کو لینے لگے اور اُسے اپنے اوپر ملنے لگے۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ نے ظہر کی دو رکعتیں اور عصر کی دو رکعتیں ادا فرمائیں اور آپ ﷺ کے سامنے نیزہ تھا۔ حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا۔ پس اپنے ہاتھوں اور چہرہ اقدس کو اُسی میں دھویا اور اُسی میں کلی کی پھر اُن دونوں سے فرمایا : اس میں سے پی لو اور اپنے چہروں اور سینوں پر ڈال لو۔‘‘
’’اور ابو جُحَیفہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو چمڑے کے ایک سرخ خیمے میں دیکھا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم ﷺ کا استعمال شدہ پانی لیتے دیکھا اور میں نے لوگوں کو آپ ﷺ کے استعمال شدہ پانی کی طرف لپکتے دیکھا۔ جسے کچھ مل گیا اُس نے اسے اپنے اُوپر مل لیا اور جسے اس میں سے ذرا بھی نہ ملا اُس نے اپنے ساتھی کے ہاتھ سے تری حاصل کی (اور اسے اپنے جسم پر مل لیا)۔ پھر میں نے دیکھا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے نیزہ لے کر گاڑ دیا اور حضور نبی اکرم ﷺ سُرخ لباس میں ملبوس تھے اور اپنے کپڑے سمیٹتے ہوئے باہر تشریف لائے اور نیزے کی طرف منہ کرکے لوگوں کو دو رکعتیں پڑھائیں۔ اور میں نے دیکھا کہ نیزے سے پرے آدمی اور جانور گزر رہے ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری اور مسلم نے مختصراً بیان کیا ہے۔
3۔ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَمَرْوَانَ رضي الله عنهما قَالَا : إِنَّ عُرْوَةَ جَعَلَ یَرْمُقُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ ﷺ بِعَيْنَيْهِ، قَالَ : فَوَاللهِ، مَا تَنَخَّمَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي کَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَدَلَکَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ۔ وَإِذَا أَمَرَهُمْ ابْتَدَرُوْا أَمْرَهُ۔ وَإِذَا تَوَضَّأَ کَادُوْا یَقْتَتِلُوْنَ عَلَی وَضُوْئِهِ۔ وَإِذَا تَکَلَّمَ خَفَضُوْا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ، وَمَا یُحِدُّوْنَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيْمًا لَهُ۔ فَرَجَعَ عُرْوَةُ إِلَی أَصْحَابِهِ فَقَالَ : أَي قَوْمِ، وَاللهِ، لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَی الْمُلُوْکِ، وَوَفَدْتُ عَلَی قَيْصَرَ وَکِسْرَی وَالنَّجَاشِيِّ۔ وَاللهِ، إِنْ رَأَيْتُ مَلِکًا قَطُّ یُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا یُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ ﷺ مُحَمَّدًا … الحدیث۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ۔
3 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الشروط، باب : الشروط في الجھاد والمصالحۃ مع أھل الحرب وکتابۃ الشروط في القرض، 2 / 974، الرقم : 2581، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 329، والطبراني في المعجم الکبیر، 20 / 9، الرقم : 13، وابن حبان في الصحیح، 11 / 216، الرقم : 4872، والبیھقي في السنن الکبری، 9 / 220۔
’’حضرت مسور بن مخرمہ اور حضرت مروان رضی اللہ عنہما سے روایت ہے : عروہ بن مسعود (جب بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں کفار کا وکیل بن کر آیا تو) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھتا رہا کہ جب بھی آپ ﷺ اپنا لعابِ دہن (زمین پر) پھینکتے تو کوئی نہ کوئی صحابی اسے اپنے ہاتھ میں لے لیتا اور وہ اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا تھا۔ جب آپ ﷺ کسی بات کا حکم دیتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی فوری تعمیل کرتے تھے۔ جب آپ ﷺ وضو فرماتے تو لوگ آپ ﷺ کے استعمال شدہ پانی کو حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے۔ جب آپ ﷺ گفتگو فرماتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی آوازوں کو پست کر لیتے تھے اور انتہائی تعظیم کے باعث آپ ﷺ کی طرف نظر جما کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔ اس کے بعد عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور ان سے کہنے لگا : اے میری قوم! خدا کی قسم! میں (عظیم الشان) بادشاہوں کے درباروں میں سفیر بن کر گیا ہوں، میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں۔ لیکن خدا کی قسم! میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ اس کے درباری اس کی اس طرح تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد ﷺ کے اصحاب ان کی تعظیم کرتے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔
4۔ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنه قَالَ : جَائَتِ امْرَأَةٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ بِبُرْدَةٍ فَقَالَ سَهْلٌ لِلْقَوْمِ : أَتَدْرُوْنَ مَا الْبُرْدَةُ؟ فَقَالَ الْقَوْمُ : هِيَ الشَّمْلَةُ۔ فَقَالَ سَهْلٌ : هِيَ شَمْلَةٌ مَنْسُوْجَةٌ فِيْهَا حَاشِیَتُهَا، فَقَالَتْ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَکْسُوْکَ هَذِهِ فَأَخَذَهَا النَّبِيُّ ﷺ مُحْتَاجًا إِلَيْهَا، فَلَبِسَهَا فَرَآهَا عَلَيْهِ رَجُلٌ مِنَ الصَّحَابَةِ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا أَحْسَنَ هَذِهِ فَاکْسُنِيْهَا فَقَالَ : نَعَمْ، فَلَمَّا قَامَ النَّبِيُّ ﷺ لَامَهُ أَصْحَابُهُ قَالُوْا : مَا أَحْسَنْتَ حِيْنَ رَأَيْتَ النَّبِيَّ ﷺ أَخَذَهَا مُحْتَاجًا إِلَيْهَا ثُمَّ سَأَلْتَهُ إِيَّاهَا وَقَدْ عَرَفْتَ أَنَّهُ لَا یُسْأَلُ شَيْئًا فَیَمْنَعَهُ فَقَالَ : رَجَوْتُ بَرَکَتَهَا حِيْنَ لَبِسَهَا النَّبِيُّ ﷺ لَعَلِّي أُکَفَّنُ فِيْهَا۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ۔
4 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الأدب، باب : حسن الخلق والسخاء وما یکره ما البخل، 5 / 2245، الرقم : 5689، والطبراني في المعجم الکبیر، 6 / 143، الرقم : 5785، وعبد بن حمید في المسند، 1 / 170، الرقم : 462۔
’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ایک عورت چادر لے کر حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی۔ حضرت سہل نے دوسرے حضرات سے کہا : کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ چادر کیسی ہے؟ دوسرے حضرات نے جواب دیا کہ یہ شملہ ہے۔ حضرت سہل نے کہا کہ یہ ایسی شملہ ہے جس کے حاشیے بنے ہوئے ہیں۔ وہ عرض گزار ہوئی کہ یا رسول اللہ! میں اسے آپ کے پہننے کی خاطر لائی ہوں۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ نے وہ قبول فرما لی اور آپ کو ضرورت بھی تھی اور اسے پہننے کا شرف بخشا، جب صحابہ کرام میں سے ایک شخص نے اسے آپ ﷺ کے جسم اطہر پر دیکھا تو وہ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ! یہ تو بہت اچھی ہے لهٰذا یہ مجھے پہنا دیجئے۔ فرمایا : اچھا۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ اٹھ کر چلے گئے تو دوسرے صحابہ کرام نے انہیں ملامت کی اور کہا کہ آپ نے اچھا نہیں کیا۔ کیونکہ جب آپ نے یہ دیکھ لیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے قبول فرما لیا اور آپ ﷺ کو اس کی ضرورت بھی ہے اس کے باوجود آپ نے وہی مانگ لی اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ جب آپ ﷺ سے سوال کیا جائے تو آپ ﷺ انکار نہیں فرماتے۔ اس صحابی نے کہا کہ میں اس کی برکت کا امیدوار ہوں کیونکہ اس کو حضور نبی اکرم ﷺ کے جسم اطہر سے لگنے کا شرف حاصل ہو گیا ہے لهٰذا میں چاہتا ہوں کہ اسی میں کفن دیا جائوں۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا رَمَی رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الْجَمْرَةَ، وَنَحَرَ نُسُکَهُ، وَحَلَقَ، نَاوَلَ الْحَالِقَ شِقَّهُ الْأَيْمَنَ، فَحَلَقَهُ۔ ثُمَّ دَعَا أَبَا طَلْحَةَ الْأَنْصَارِيَّ فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ۔ ثُمَّ نَاوَلَهُ الشِّقَّ الْأَيْسَرَ، فَقَالَ : احْلِقْ۔ فَحَلَقَهُ فَأَعْطَاهُ أَبَا طَلْحَةَ فَقَالَ : اقْسِمْهُ بَيْنَ النَّاسِ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْدَاوُدَ۔
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔
5 : أخرجه مسلم في الصحیح،2 / 948، کتاب : الحج، باب : بیان أن السنۃ یوم النحر أن یرمي ثم ینحر ثم یحلق، الرقم : 1305، والترمذي في السنن، کتاب : الحج، باب : ما جاء بأي جانب الرأس یبدأ في الحلق، 3 / 255، الرقم : 912، وأبو داود في السنن، کتاب : المناسک، باب : الحلق والتقصیر، 2 / 203،الرقم : 1981، والنسائي في السنن الکبری، 2 / 449، الرقم : 4114۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے مقام جمرہ پر کنکریاں ماریں اور اپنی قربانی کا فریضہ ادا فرما لیا تو آپ ﷺ نے سر انور کا دایاں حصہ حجام کے سامنے کر دیا، اس نے بال مبارک مونڈے۔ پھر آپ ﷺ نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور انہیں بال عطا فرمائے۔ اِس کے بعد حجام کے سامنے (سر انور کی) بائیں جانب کی اور فرمایا : یہ بھی مونڈو۔ اس نے ادھر کے بال مبارک بھی مونڈ دیئے۔ آپ ﷺ نے وہ بال بھی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمائے اور فرمایا : یہ بال لوگوں میں تقسیم کر دو۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی اور ابو داود نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
6۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ وَالْحَلاَّقُ یَحْلِقُهُ وَأَطَافَ بِهِ أَصْحَابُهُ۔ فَمَا یُرِيْدُوْنَ أَنْ تَقَعَ شَعْرَةٌ إِلَّا فِي یَدِ رَجُلٍ۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ۔
6 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الفضائل، باب : قرب النبي ﷺ من الناس وتبرکھم به، 4 / 1812، الرقم : 2325، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 133،137، الرقم : 12423، وعبد بن حمید في المسند، 1 / 380، الرقم : 1273۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا : حجام آپ ﷺ کے سر مبارک کی حجامت بنا رہا تھا اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کے گرد گھوم رہے تھے اور ان کی کوشش یہ تھی کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا کوئی ایک بال مبارک بھی زمین پر گرنے نہ پائے بلکہ ان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں آ جائے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔
7۔ عَنْ أَبِي قِرَادِ السُّلَمِيِّ رضی الله عنه قَالَ : کُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَدَعَا بِطَهُوْرٍ فَغَمَسَ یَدَهُ فَتَوَضَّأَ فَتَتَبَّعْنَاهُ فَحَسَوْنَاهُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : مَا حَمَلَکُمْ عَلَی مَا فَعَلْتُمْ؟ قُلْنَا : حُبُّ اللهِ وَرَسُوْلِهِ، قَالَ : فَإِنْ أَحْبَبْتُمْ أَنْ یُحِبَّکُمُ اللهُ وَرَسُوْلُهُ فَادُّوْا إِذَا اؤْتِمِنْتُمْ وَاصْدُقُوْا إِذَا حَدَّثْتُمْ وَأَحْسِنُوْا جِوَارَ مَنْ جَاوَرَکُمْ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
7 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 320، الرقم : 6517، والشیباني في الآحاد والمثاني، 3 / 81، الرقم : 1397۔
’’حضرت ابو قراد سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک دفعہ حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے تھے، آپ ﷺ نے وضو کے لئے پانی منگوایا، اپنا ہاتھ اس میں ڈبویا اور وضو کیا ہم نے باقی ماندہ پانی لیا اور پی لیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم نے ایسے کیوں کیا؟ ہم نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت کے پیش نظر۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول تم سے محبت کرے تو جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو اسے لوٹا دیا کرو، سچ بولو اور جو بھی تمہارے ہمسائے میں ہو اس سے اچھا سلوک کرو۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
8۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه أَنَّ أَبَاهَ مَالِکَ بْنَ سَنَانٍ رضی الله عنه لَمَّا أُصِيْبَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فِي وَجْهِهِ یَوْمَ أُحَدٍ مَصَّ دَمَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَازْدَرْدَهُ فَقِيْلَ لَهُ : أَتَشْرَبُ الدَّمَ؟ قَالَ : نَعَمْ، أَشْرَبُ دَمَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : خَالَطَ دَمِي بِدَمِهِ لَا تَمَسُّهُ النَّارُ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
8 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 47، الرقم : 9098، والھیثمي في مجمع الزوائد، 8 / 270۔
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد حضرت مالک بن سنان رضی اللہ عنہ غزوہ اُحد میں حضور نبی اکرم ﷺ کے (چہرئہ اقدس پر آنے والے) زخم مبارک کو (اپنی زبان سے) چاٹنے اور (اس میں سے بہنے والا خون) چوسنے لگے۔ جس سے زخم کی جگہ چمکنے لگی ان سے کہا گیا کہ کیا تم خون پی رہے ہو؟ انہوں نے کہا : ہاں میں حضورنبی اکرم ﷺ کا (پاک) خون پی رہا ہوں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس کے خون سے میرا خون مل گیا اسے دوزخ کی آگ کبھی نہیں چھوئے گی۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
1۔ عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِیعَةَ عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه أَنَّهُ جَائَ إِلَی الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ فَقَبَّلَهُ فَقَالَ : إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ یُقَبِّلُکَ مَا قَبَّلْتُکَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الحج، باب : ما ذکر في الحجر الأسود، 2 / 579، الرقم : 1520، ومسلم في الصحیح، کتاب : الحج، باب : استحباب تقبیل الحجر الأسود في الطواف، 2 / 925، الرقم : 1270، والنسائي في السنن، کتاب : مناسک الحج، باب : تقبیل الحجر، 5 / 277، الرقم : 2937، وأبو داود في السنن، کتاب : المناسک، باب : في تقبیل الحجر، 2 / 175، الرقم : 1873، وابن ماجه في السنن، کتاب : المناسک، باب : استلام الحجر، 2 / 981، الرقم : 2943۔
’’حضرت عابس بن ربیعہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر کہا : میں خوب جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے جو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع۔ اگر میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں بھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2۔ عَنِ ابْنِ سِيْرِيْنَ قَالَ : قُلْتُ لِعَبِيْدَةَ : عِنْدَنَا مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ ﷺ ۔ أَصَبْنَاهُ مِنْ قِبَلِ أَنَسٍص أَوْ مِنْ قِبَلِ أَھْلِ أَنَسٍ۔ فَقَالَ : لَأَنْ تَکُوْنَ عِنْدِي شَعَرَةٌ مِنْهُ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِيْھَا۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ۔
2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الوضوئ، باب : الماء الذي یغسل به شعر الإنسان، 1 / 75، الرقم : 168، والبیهقي في السنن الکبری، 7 / 67، الرقم : 13188۔
’’امام ابن سیرین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ سے کہا : ہمارے پاس حضورنبی اکرم ﷺ کے کچھ موئے مبارک ہیں جنہیں ہم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یا ان کے گھر والوں سے حاصل کیا ہے۔ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اگر ان میں سے ایک موئے مبارک بھی میرے پاس ہوتا تو وہ مجھے دنیا و مافیہا سے کہیں زیادہ محبوب ہوتا۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
3۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ مَوْلَی رضی الله عنه أَسْمَاء بِنْتِ أَبِي بَکْرٍ رضي الله عنهما في روایۃ طویلۃ قَالَ : أَخْبَرَتْهُ أَسْمَاء بِنْتُ أَبِي بَکْرٍ رضي الله عنهما عَنْ جُبَّةِ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ : ھَذِهِ جُبَّةُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ۔ فَأَخْرَجَتْ إِلَيَّ جُبَّةَ طَیَالِسَةٍ کِسْرَوَانِيَّةٍ۔ لَھَا لِبْنَةُ دِيْبَاجٍ فَرْجَيْھَا مَکْفُوْفَيْنِ بِالدِّيْبَاجِ فَقَالَتْ : ھَذِهِ کَانَتْ عِنْدَ عَائِشَةَ حَتَّی قُبِضَتْ۔ فَلَمَّا قُبِضَتْ قَبَضْتُھَا وَکَانَ النَّبِيُّ ﷺ یَلْبَسُھَا۔ فَنَحْنُ نَغْسِلُھَا لِلْمَرْضَی یُسْتَشْفَی بِھَا۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْدَاوُدَ۔
3 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : اللباس والزینۃ، باب : تحریم استعمال إناء الذھب والفضۃ علی الرجال، 3 / 1641، الرقم : 2069، وأبو داود في السنن، کتاب : اللباس، باب : الرخصۃ في العلم وخیط الحریر، 4 / 49، الرقم : 4054، والبیهقي في السنن الکبری، 2 / 423، الرقم : 4010، وفي شعب الإیمان 5 / 141، الرقم : 6108، وأبو عوانۃ في المسند، 1 / 230، الرقم : 511 وابن راهویه في المسند، 1 / 133، الرقم : 30۔
’’حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنھما کے غلام حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ انہیں حضرت اسماء رضی اللہ عنھا نے حضور نبی اکرم ﷺ کے جبّہ مبارک کے متعلق بتایا اور فرمایا : یہ حضور نبی اکرم ﷺ کا جبّہ مبارک ہے اور پھر ایک جبّہ نکال کر دکھایا جو موٹا دھاری دار کسروانی (کسریٰ کے بادشاہ کی طرف منسوب) جبّہ تھا جس کا گریبان دیباج کا تھا اور اس کے دامنوں پر دیباج کے جھالر تھے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنھا نے فرمایا : یہ مبارک جبّہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس ان کی وفات تک محفوظ رہا۔ جب ان کی وفات ہوئی تویہ میں نے لے لیا۔ یہی وہ مبارک جبّہ ہے جسے حضورنبی اکرم ﷺ پہنتے تھے۔ سو ہم اسے دھو کر اس کا پانی بیماروں کو پلاتے ہیں اور اس کے ذریعے شفا طلب کی جاتی ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔
4۔ عن سلمی أن الحسن بن علي، وابن عباس، وابن جعفر أتوها فقالوا لها : اصنعي لنا طعاماً مما کان یعجب رسول الله ﷺ۔
4 : أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدیه، 1 / 148، الرقم : 179، والطبراني في المعجم الکبیر، 24 / 299، الرقم : 759، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 4 / 241، والهیثمي في مجمع الزوائد، 10 / 325۔
’’حضرت سلمیٰ بیان کرتی ہیں کہ حضرت امام حسن بن علی، حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت ابن جعفر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور انہوں نے ان سے فرمائش کی کہ آپ ہمیں وہ کھانا تیار کر دیجئے جو رسول اللہ ﷺ پسند فرمایا کرتے تھے۔‘‘
5۔ قال الغزالي : کل من یتبرک بمشاھدته في حیاته یتبرک بزیارته بعد وفاته۔
5 : أخرجه الغزالي في إحیاء علوم الدین، 2 / 247۔
’’امام غزالی فرماتے ہیں کہ ہر وہ شخص کہ زندگی میں جس کی زیارت سے برکت حاصل کی جاسکتی ہے، وفات کے بعد بھی اس کی زیارت سے برکت حاصل کی جاسکتی ہے۔‘‘
6۔ قالت صفیۃ بنت نجدۃ : کان لأبي محذورۃ قُصَّۃ في مقدم رأسه إذا قعد وأرسلها أصابت الأرض۔ فقیل له : ألا تحلقها؟ فقال : لم أکن بالذي أحلقها، وقد مسها رسول الله ﷺ بیده۔
6 : أخرجه القاضي عیاض في الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ : 540۔
’’صفیہ بنت نجدہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کے سر کے اگلے بال اتنے دراز تھے جب وہ بیٹھ کر لٹکاتے تو زمین سے لگ جاتے تھے۔ کسی نے ان سے دریافت کیا کہ تم اسے کٹواتے کیوں نہیں؟ فرمایا : میں اسے ہرگز کٹوانے کے لئے تیار نہیں کیونکہ اسے رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے چھوا ہے۔‘‘
7۔ عن صَفِيَّۃ بنت نَجدَۃ قالت : وکانت في قلنسوۃ خالد بن ولید شَعَراتٌ من شَعره فسقطت قلنسوتُه في بعض حُروبِه، فشدَّ علیھا شدةً أنکر علیه أصحاب النبي ﷺ کَثرةَ مَن قُتِل فیھا، فقال : لم أفعلْھا بسبب القَلَنْسُوۃ، بل لما تضَمَّنَتْه من شَعرِه ﷺ لئلا أُسْلَب برکتھا وتقع في أیدي المشرکین۔
7 : أخرجه القاضي عیاض في الشفا بتعریف حقوق المصطفٰی ﷺ ، 2 : 619۔
’’حضرت صفیہ بنت نجدہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی میں حضور نبی اکرم ﷺ کے چند موئے مبارک تھے۔ ایک مرتبہ جب وہ ٹوپی کسی جہاد میں گرپڑی تو(آپ سب کچھ وہیں چھوڑ کر فوراً) اس کے لینے کیلئے تیزی سے دوڑ پڑے(اور انہیں دوبارہ حاصل کر لیا)۔ جب اس جہاد میں بکثرت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے تو لوگوں نے آپ پر اعتراض کیا۔ فرمایا : میں نے صرف ٹوپی کے حاصل کرنے کے لیے اتنی تگ و دو نہیں کی بلکہ اس ٹوپی میں حضور نبی اکرم ﷺ کے موئے مبارک تھے۔ مجھے خوف ہوا کہ کہیں اگر یہ مشرکین کے ہاتھ لگ گئی تو میں ان کی برکت سے محروم ہوجاؤں گا۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved