1۔ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه قَالَ : رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَوْمَ أُحُدٍ، وَمَعَهُ رَجُـلَانِ یُقَاتِـلَانِ عَنْهُ، عَلَيْهِمَا ثِیَابٌ بِيْضٌ، کَأَشَدِّ الْقِتَالِ، مَا رَأَيْتُھُمَا قَبْلُ وَلَا بَعْدُ یَعْنِي جِبْرِيْلَ وَمِيْکَائِيْلَ علیھما السلام۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
1 : أخرجه البخاري فی الصحیح، کتاب : المغازی، باب : إِذَ ھَمَّتَ طَائِفَتَانَ مِنْکُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاللهُ وَلِیُّھُمَا وَعَلَی اللهِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ، ]آل عمران، 3 : 122[، 4 / 1489، الرقم : 3828، وفی کتاب : اللباس، باب : الثیاب البیض، 5 / 2192، الرقم : 5488، ومسلم فی الصحیح، کتاب : الفضائل، باب : فی قتال جبریل ومیکائیل عن النبی ﷺ یوم أحد، 4 / 1802، الرقم : 2306، وأحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 171، الرقم : 1468، والشاشی فی المسند، 1 / 185، الرقم : 133، والأصبهاني فی دلائل النبوۃ، 1 / 51، الرقم : 34۔
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جنگ اُحد کے روز میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس دو ایسے حضرات کو دیکھا جو آپ ﷺ کی جانب سے لڑ رہے تھے۔ انہوں نے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے اور بڑی بہادری سے برسرپیکار تھے۔ میں نے انہیں اس سے پہلے دیکھا تھا نہ بعد میں، یعنی وہ جبرائیل و میکائیل علیہما السلام تھے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2۔ عَنْ رِفاَعَةَ بْنِ أَبِي رَافِعٍ رضی الله عنه وَکَانَ مِنْ أَھْلِ بَدْرٍ قَالَ : جَاءَ جِبْرِيْلُ إِلَي النَّبِيِّ ﷺ وَقَالَ : مَا تَعُدُّوْنَ أَھْلَ بَدْرٍ فِيْکُمْ؟ قَالَ : مِنْ أَفْضَلِ الْمُسْلِمِيْنَ۔ أَوْ کَلِمَةً نَحْوَھَا قَالَ : وَکَذَلِکَ مَنْ شَھِدَ بَدْرًا مِنَ الْمَـلَائِکَةِ۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَهَذَا َلَفْظُھُمَا۔
2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : المغازی، باب : شهود الملائکۃ بدرا، 4 / 1487، الرقم : 3771، وابن ماجه في السنن، المقدمۃ، باب : فضل أھل بدر، 1 / 56، الرقم : 160، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 : 465، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 364، الرقم : 36725۔36729، 36731، والخطیب التبریزي في مشکاۃ المصابیح، 2 / 451، الرقم : 6226، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 2 / 291، والکناني في مصباح الزجاجۃ، 1 / 24، الرقم : 58۔
’’حضرت رفاعہ بن ابی رافع رضی اللہ عنہ جو کہ اہلِ بدر صحابہ میں سے ہیں، فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ (یا رسول اللہ!) آپ غزوئہ بدر میں شرکت کرنے والے (صحابہ) کو کیسا سمجھتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں انہیں مسلمانوں میں سب سے افضل شمار کرتا ہوں یا ایسا ہی کوئی دوسرا کلمہ استعمال فرمایا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا : غزوئہ بدر میں شمولیت کرنے والے فرشتے بھی دوسرے فرشتوں میں اسی طرح ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ ابن ماجہ کے ہیں۔
3۔ عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ عَنْ جِبْرِيْلَ علیه السلام قَالَ : قَلَّبْتُ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَھَا فَلَمْ أَجِدْ رَجُلًا أَفْضَلَ مِنْ مُحَمَّدٍ ﷺ ، وَلَمْ أَرَ بَيْتًا أَفْضَلَ مِنْ بَيْتِ بَنِي ھَاشِمٍ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَاللاَّلْکَائِيُّ۔
3 : أخرجه الطبرانی فی المعجم الأوسط، 6 / 237، الرقم : 6285، واللالکائي فی اعتقاد أھل السنۃ، 4 / 752، الرقم : 1402، والھیثمی فی مجمع الزوائد، 8 / 217۔
’’اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حضرت جبریلں نے کہا : میں نے تمام زمین کے اطراف و اکناف اور گوشہ گوشہ کو چھان مارا، مگر نہ تو میں نے محمد مصطفی ﷺ سے بہتر کسی کو پایا اور نہ ہی میں نے بنو ہاشم کے گھر سے بڑھ کر بہتر کوئی گھر دیکھا۔‘‘ اسے امام طبرانی اور لالکائی نے روایت کیا ہے۔
4۔ عَنْ رَبِيْعَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُصَلِّي عَلَيَّ إِلاَّ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَـلَائِکَةُ مَا صَلَّی عَلَيَّ فَلْیُقِلَّ الْعَبْدُ مِنْ ذَلِکَ أَوِ لْیُکْثِرْ۔
رَوَاهُ ابنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ۔
4 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب : الاعتدال في السجود، 1 / 294، الرقم : 907، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 446، وأبو یعلی في المسند، 13 / 154، الرقم : 7196، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 182، الرقم : 1654۔
’’حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جوبندہ بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے تو فرشتے اس پر اسی طرح درود (بصورتِ دعا) بھیجتے ہیں جس طرح اس نے مجھ پر درود بھیجا۔ پس اب بندہ کو اختیار ہے کہ وہ مجھ پراس سے کم درود بھیجے یازیادہ۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنْ أَبِي طَلْحَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ جَاء ذَاتَ یَوْمٍ وَالْبِشْرُ یُرَی فِي وَجْھِهِ، فَقَالَ : إِنَّهُ جَاءَ نِي جِبْرِيْلُ علیه السلام فَقَالَ : أَمَا یُرْضِيْکَ یَامُحَمَّدُ، أَنْ لاَ یُصَلِّيَ عَلَيْکَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِکَ إِلاَّ صَلَّيْتُ عَلَيْهِ عَشْراً، وَلاَ یُسَلِّمُ عَلَيْکَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِکَ إِلاَّ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا؟ رَوَاهُ النَّسَائِيُّ۔
5 : أخرجه النسائی فی السنن الکبری، 1 / 384، الرقم : 1218۔
قَالَ ابنُ المُبَارک في الزُّهد : عَنْ کَعْبٍ قَالَ : مَا مِنْ فَجْرٍ یَطْلُعُ إِلاَّ ھَبَطَ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ یَضْرِبُوْنَ الْقَبْرَ بِأَجْنِحَتِھِمْ وَیَحُفُّوْنَ بِهِ فَیَسْتَغْفِرُوْنَ لَهُ، وَأَحْسِبُهُ قَالَ : وَیُصَلُّوْنَ عَلَيْهِ حَتَّی یُمْسُوْا فَإِذَا أَمْسَوْا عَرَجُوْا وَھَبَطَ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ، یَضْرِبُوْنَ الْقَبْرَ بِأَجْنِحَتِھِمْ وَیَحُفُّوْنَ بِهِ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لَهُ، وَأَحْسِبُهُ قَالَ : وَیُصَلُّوْنَ عَلَيْهِ حَتَّی یُصْبِحُوْا، وَکَذَلِکَ حَتَّی تَکُوْنَ السَّاعَةُ، فَإِذَا کَانَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ فِيْ سَبْعِيْنَ أَلْفَ مَلَکٍ۔(1)
(1) أخرجه ابن المبارک في الزهد : 558، الرقم : 1600، والسیوطی في الخصائص الکبریٰ، 2 / 217، والصالحي في سبل الهدیٰ و الرشاد، 12 / 452، 453۔
أَخْرَجَهُ القُرْطُبِيُّ فِي التَّذْکِرَةِ عَنْ کَعْبٍ قَالَ : مَا مِنْ فَجْرٍ یَطْلُعُ إِلاَّ نَزَلَ سَبْعُوْنَ أَلْفًا مِنَ الْمَلاَئِکَةِ حَتَّی یَحُفُّوْا بِالْقَبْرِ، یَضْرِبُوْنَ بِأَجْنِحَتِھِمْ وَیُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ حَتَّی إِذَا أَمْسَوْا عَرَجُوْا، وَھَبَطَ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ یَحُفُّوْنَ بِالْقَبْرِ وَیَضْرِبُوْنَ بِأَجْنِحَتِھِمْ وَیُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ سَبْعُوْنَ أَلْفًا بِاللَّيْلِ وَسَبْعُوْنَ أَلْفًا بِالنَّھَارِ۔ وَحَتَّی إِذَا انْشَقَّتْ عَنْهُ الْأَرْضُ خَرَجَ فِيْ سَبْعِيْنَ أَلْفًا مِنَ الْمَلاَئِکَةِ یُوَقِّرُوْنَهُ ﷺ ۔
رَوَاهُ الْقُرْطَبِيُّ وَالدَّارِمِيُّ۔(2)
(2) أخرجه القرطبی في التذکره فی اُمور اَحوال الموتیٰ و اُمور الآخرۃ : 213، 214، والدارمی في السنن مختصرًا، 1 / 57، الرقم : 94۔
قَالَ الإِمَامُ السَّیُّوْطِيُّ فِي الْخَصَائص : إِنَّ مَهْدَهُ کَانَ یَتَحَرَّکُ بِتَحْرِيْکِ الْمَلَائِکَةِ۔(3)
(3) السیوطي في الخصائص الکبری، 1 / 53، وکذا فی المواهب والزرقانی۔
’’حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیںکہ حضور نبی اکرم ﷺ ایک دن تشریف لائے اور آپ ﷺ کے چہرہ انور پر خوشی کے آثار نمایاں تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس جبرائیل آئے اور کہا : اے محمد! کیا آپ اس بات پر خوش نہیں ہوں گے کہ آپ کی امت میں سے جو کوئی بھی آپ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے میں اس پر دس مرتبہ درود (بصورت دعا) بھیجتا ہوں اورجو آپ پر ایک مرتبہ سلام بھیجتا ہے میں اس پر دس مرتبہ سلام بھیجتا ہوں؟‘‘ اس حدیث کو امام نسائی نے روایت کیا ہے۔
’’امام عبد اللہ ابن مبارک ’’کتاب الزہد‘‘ میں حضرت کعب سے روایت کرتے ہیں کہ ہر روز صبح سویرے ستر ہزار ملائکہ (آسمان سے زمین پر) اُترتے ہیں، وہ اپنے پَر (تبرکاً آپ ﷺ کی) قبرِ انور سے مس کرتے اور اُسے ڈھانپ لیتے ہیں، پھر آپ ﷺ (کی اُمت) کے لئے مغفرت طلب کرتے ہیں، اور میرا خیال ہے کہ راوی نے یہ کہا کہ وہ آپ ﷺ پر درود بھیجتے ہیں یہاں تک کہ اُنہیں (اِسی حالت میں) شام ہو جاتی ہے اور جب شام ہوتی ہے تو وہ (آسمان کی طرف) لوٹ جاتے ہیں اور پھر (اُسی طرح دوسرے) ستر ہزار ملائکہ اُتر آتے ہیں، جو اپنے پَر (تبرکاً آپ ﷺ کی) قبرِ انور سے مس کرتے اور اُسے ڈھانپ لیتے ہیں، اور آپ ﷺ کے لئے بلندئ درجات کی دُعا کرتے ہیں، اور میرا خیال ہے کہ راوی نے یہ کہا کہ وہ آپ ﷺ پر درود بھیجتے ہیں، یہاں تک کہ (اِسی حالت میں) صبح کرتے ہیں اور اِسی طرح قیامت تک (ملائکہ کی جماعتوں کا یہ سلسلہ) جاری رہے گا، پھر جب قیامت کا دن آئے گا تو حضور ﷺ ستر ہزار ملائکہ کے جَلو میں (قبرِ انور سے) باہر تشریف لائیں گے۔‘‘
’’امام قرطبی ’’تذکرۃ‘‘ میں حضرت کعب سے روایت کرتے ہیں کہ ہر روز صبح سویرے ستر ہزار فرشتے (آسمان سے زمین پر) اُترتے ہیں، یہاں تک کہ قبرِ انور کو (اپنے پروں سے) ڈھانپ لیتے ہیں، وہ اپنے پَر (تبرکًااُس سے) مَس کرتے اور حضور نبی اکرم ﷺ پردرود بھیجتے ہیں، یہاں تک کہ جب شام ہوتی ہے تو وہ (آسمان کی طرف) لوٹ جاتے ہیں اور پھر (اُسی طرح دوسرے) ستر ہزار فرشتے قبرِ انور کو (اپنے پروں سے) ڈھانپ لیتے ہیں اور اپنے پَر (تبرکًا) اُس سے مس کرتے ہیں، اور ستر ہزار فرشتے رات کو اور ستر ہزار فرشتے دن کو حضور نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجتے ہیں، اور یہاں تک کہ جب (روزِ محشر) آپ ﷺ (کی قبرِ انور) کی زمین شق ہو جائے گی تو آپ ﷺ (ایسے) ستر ہزار فرشتوں کے جُھرمٹ میں (وہاں سے) جلوہ افروز ہوں گے جو آپ ﷺ کی (عظمت و) توقیر کے ڈنکے بجا رہے ہوں گے۔‘‘ اس حدیث کو امام قرطبی اور دارمی نے روایت کیا ہے۔
’’امام سیوطی نے ’’الخصائص الکبری‘‘ میں روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا جھولا ملائکہ کے ہلانے سے ہمیشہ ہلتا رہتا تھا۔‘‘
1۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : أُتِيْتُ بِالْبُرَاقِ وَهُوَ دَابَّةٌ أَبْیَضُ طَوِيْلٌ فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُوْنَ الْبَغْلِ یَضَعُ حَافِرَهُ عِنْدَ مُنْتَهَی طَرْفِهِ قَالَ : فَرَکِبْتُهُ حَتَّی أَتَيْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ قَالَ : فَرَبَطْتُهُ بِالْحَلْقَةِ الَّتِي یَرْبِطُ بِهِ الْأَنْبِیَاء قَالَ : ثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَصَلَّيْتُ فِيْهِ رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَائَنِي جِبْرِيْلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ فَاخْتَرْتُ اللَّبَنَ فَقَالَ جِبْرِيْلُ : اخْتَرْتَ الْفِطْرَةَ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَاءِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيْلُ فَقِيْلَ : مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ : جِبْرِيْلُ۔ قِيْلَ : وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ : مُحَمَّدٌ۔ قِيْلَ : وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ : قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا… رَوَاهُ مُسْلِمٌ۔
1 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الْإِیمَانِ، باب : الْإِسْرَاء بِرَسُولِ اللهِ ﷺ إِلَی السَّمَاوَاتِ وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ، 1 / 145، الرقم : 162، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 333، الرقم : 36570، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 148، الرقم : 12527، وأبو یعلی في المسند، 6 / 109، الرقم : 3375، والطیالسي في المسند، 1 / 55، الرقم : 411، وأبو عوانۃ في المسند، 1 / 144، الرقم : 344، وابن منده في الإیمان، 2 / 709، الرقم : 707۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس براق لایا گیا، وہ ایک لمبے قد اور سفید رنگ کا چوپایہ تھا۔ گدھے سے بڑا اور خچر سے کم تھا۔ اس کا قدم نظر کی انتہاء پر پڑتا تھا۔ میں اس پر سوار ہو کر بیت المقدس تک پہنچا اور جس جگہ انبیاء علیہم السلام اپنی سواریوں کو باندھتے تھے وہاں میں نے اس کو باندھ دیا۔ پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور اس میں دو رکعات پڑھ کر باہر آیا۔ جبرئیل میرے پاس ایک برتن میں شراب اور دوسرے میں دودھ لے کر آئے، میں نے دودھ لے لیا، جبرئیل نے کہا کہ آپ نے فطرت کو اختیار کیا، پھر مجھے آسمان پر لے جایا گیا اور جبرائیل نے آسمان کا دروازہ کھٹکھٹایا، پوچھا تم کون ہو؟ کہا جبرئیل، پوچھا تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد ﷺ ۔ پوچھا کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ کہا ہاں انہیں بلایا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پھر ہمارے لیے آسمان کا دروازہ کھول دیا گیا۔…‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
2۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أُتِيَ بِالْبُرَاقِ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ مُلْجَمًا مُسْرَجًا، فَاسْتَصْعَبَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ جِبْرِيْلُ : أَبِمُحَمَّدٍ تَفْعَلُ ھَذَا؟ قَالَ : فَمَا رَکِبَکَ أَحَدٌ أَکْرَمُ عَلَی اللهِ مِنْهُ۔ قَالَ : فَارْفَضَّ عَرَقًا۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْیَعْلَی وَابْنُ حِبَّانَ وَأَحْمَدُ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔
2 : أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : تفسیر القرآن، باب : ومن سورۃ بنی إسرائیل، 5 / 301، الرقم : 3131، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3 / 164، الرقم : 12694، وابن حبان فی الصحیح، 1 / 234، وأبو یعلی فی المسند، 5 / 459، الرقم : 3184، وعبد بن حمید فی المسند، 1 / 357، الرقم : 1185، والمقدسی فی الأحادیث المختارۃ، 7 / 23، الرقم : 2404، والخطیب البغدادی فی تاریخ بغداد، 3 / 435، الرقم : 1574، وابن حجر العسقلانی فی فتح الباري، 7 / 206۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں شب معراج براق لایا گیا جس پر زین کسی ہوئی تھی اور لگام ڈالی ہوئی تھی۔ (حضور نبی اکرم ﷺ کی سواری بننے کی خوشی میں) اس براق کے رقص کی وجہ سے آپ ﷺ کا اس پر سوار ہونا مشکل ہو گیا تو حضرت جبرئیلں نے اسے کہا : کیا تو حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ اس طرح کر رہا ہے؟ حالانکہ آج تک تجھ پر کوئی ایسا شخص سوار نہیں ہوا جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ ﷺ جیسا معزز و محترم ہو۔ یہ سن کر وہ براق شرم سے پسینہ پسینہ ہو گیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، ابو یعلی، ابن حبان اور احمد نے روایت کیاہے۔ اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
1۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ : انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَی عَھْدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فِلْقَتَيْنِ۔ فَسَتَرَ الْجَبَلُ فِلْقَةً وَکَانَتْ فِلْقَةٌ فَوْقَ الْجَبَلِ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَللَّھُمَّ اشْھَدْ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ۔
1-2 : أخرجه البخاری فی الصحیح، کتاب : المناقب، باب : سؤال المشرکین أن یریھم النبي ﷺ آیۃ، فأراھم انشقاق القمر، 3 / 1330، الرقم : 3437۔3439، وفی کتاب : التفسیر / القمر، باب : وَانْشَقَّ الْقَمَرُ : وَإِنْ یَرَوْا آیَةً یُعْرِضُوْا، 4 / 1843، الرقم : 4583۔4587، ومسلم فی الصحیح، کتاب : صفات المنافقین وأحکامھم، باب : انشقاق القمر، 4 / 2158۔2159، الرقم : 2800۔2801، والترمذی فی السنن، کتاب : تفسیر القرآن، باب : من سورۃ القمر، 5 / 398، الرقم : 3285۔3289، والنسائی فی السنن الکبری، 6 / 476، الرقم : 1552۔ 1553، وأحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 377، الرقم : 3583، 3924،4360، وابن حبان فی الصحیح، 4 / 420، الرقم : 6495، والحاکم فی المستدرک، 2 / 513، الرقم : 3758۔ 3761، وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ۔ والبزار فی المسند، 5 / 202، الرقم : 1801۔ 1802، وأبویعلی فی المسند، 5 / 306، الرقم : 2929، والطبرانی فی المعجم الکبیر، 2 / 132، الرقم : 1559۔1561، والطیالسی فی المسند، 1 / 37، الرقم : 280، والشاشی فی المسند، 1 / 402، الرقم : 404۔
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا واقعہ حضور نبی اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں پیش آیا، ایک ٹکڑا پہاڑ میں چھپ گیا اور ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ تعالیٰ توگواہ رہنا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور یہ الفاظ امام مسلم کے ہیں۔
2۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ أَھْلَ مَکَّةَ سَأَلُوْا رَسُوْلَ اللهِ ﷺ أَنْ یُرِیَھُمْ آیَةً، فَأَرَاھُمُ انْشِقَاقَ الْقَمَرِ مَرَّتَيْنِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ اہل مکہ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا تو آپ ﷺ نے انہیں دو مرتبہ چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھائے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور یہ الفاظ امام مسلم کے ہیں۔
3۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ : انْشَقَّ الْقَمَرُ وَنَحْنُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فَصَارَ فِرْقَتَيْنِ فَقَالَ لَنَا : اشْهَدُوْا اشْهَدُوْا۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
3 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : التفسیر، باب : وانشق القمر وإن یروا آیۃ یعرضوا، 4 / 1843، الرقم : 4584، وفي کتاب : المناقب، باب : سؤال المشرکین أن یریھم النبي ﷺ آیۃ فأراھم انشقاق القمر، 3 / 1330، الرقم : 3437، ومسلم في الصحیح، کتاب : صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب : انشقاق القمر، 4 / 2158، الرقم : 2800، والترمذي في السنن، کتاب : تفسیر القرآن، باب : ومن سورۃ القمر، 5 / 398، الرقم : 3285، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 37، الرقم : 3583۔
’’حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب (حضور نبی اکرم ﷺ کے حکم پر) چاند شق کیا گیا تو اس وقت ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھے پس چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ پھر آپ ﷺ نے ہم سے فرمایا : گواہ رہنا، گواہ رہنا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
4۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَی عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ حَتَّی صَارَ فِرْقَتَيْنِ عَلَی هَذَا الْجَبَلِ وَعَلَی هَذَا الْجَبَلِ فَقَالُوْا : سَحَرَنَا مُحَمَّدٌ۔ فَقَالَ بَعْضُهُمْ : لَئِنْ کَانَ سَحَرَنَا فَمَا یَسْتَطِيْعُ أَنْ یَسْحَرَ النَّاسَ کُلَّهُمْ۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ۔
4 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : التفسیر، باب : وانشق القمر وإن یروا آیۃ یعرضوا، 4 / 1843، الرقم : 4584، وفي کتاب : المناقب، باب : سؤال المشرکین أن یریھم النبي ﷺ آیۃ فأراھم انشقاق القمر، 3 / 1330، الرقم : 3437، ومسلم في الصحیح، کتاب : صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب : انشقاق القمر، 4 / 2158، الرقم : 2800، والترمذي في السنن، کتاب : تفسیر القرآن، باب : ومن سورۃ القمر، 5 / 398، الرقم : 3289۔
’’حضرت جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عہد نبوت میں چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوا ایک ٹکڑا پہاڑ کی اس طرف اور ایک اس جانب ہوگیا کفار نے کہا (حضرت) محمد ( ﷺ ) نے ہم پر جادو کیا ہے۔ بعض کہنے لگے اگر ہم پر جادو کیا تو وہ سب لوگوں پر جادو نہیں کر سکتے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری اور ترمذی نے روایت کیا ہے، مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں۔
5۔ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، دَعَانِي، إِلی الدَّخُوْلِ فِي دِيْنِکَ أَمَارَةٌ لِنُبُوَّتِکَ رَأَيْتُکَ فِي الْمَهْدِ تُنَاغِي الْقَمَرَ وَتُشِيْرُ بِاصْبَعِکَ فَحَيْثُ أَشَرْتَ إلَيْهِ مَالَ قَالَ : إِنِّی کُنْتُ أُحَدِّثُهُ وَیُحَدِّثُنِي وَیُلْهِيْنِي عَنِ الْبُکَاء۔ رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَالسَّیُوْطِيُّ۔
5 : أخرجه ابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 4 / 360، والسیوطی في الخصائص الکبری، 1 / 53۔
’’حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ کی نبوت پر دلالت کرنے والی ایک خاص نشانی نے مجھے آپ کے دین میں داخل ہونے کی ترغیب دی۔ میں نے دیکھا کہ آپ ایام طفولیت میں گہوارے کے اندر چاند کے ساتھ کھیلا کرتے تھے اور انگلی مبارک کے ساتھ جس طرف اشارہ فرمایا کرتے تھے چاند اسی طرف جھک جاتا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں اس کے ساتھ باتیں کرتا تھا اور وہ میرے ساتھ باتیں کرتا تھا اور مجھے رونے نہیں دیتا تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن عساکر اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔
1۔ عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ عُمَيْسٍ رضي الله عنها قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یُوْحَی إِلَيْهِ وَرَأْسُهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ رضی الله عنه فَلَمْ یُصَلِّ الْعَصْرَ حَتَّی غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَللَّھُمَّ إِنَّ عَلِیًّا فِي طَاعَتِکَ وَطَاعَةِ رَسُوْلِکَ فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ قَالَتْ أَسْمَائُ رضي الله عنها : فَرَأَيْتُھَا غَرَبَتْ وَرَأَيْتُھَا طَلَعَتْ بَعْدَ مَا غَرَبَتْ۔
رَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ۔
1 : أخرجه الطبرانی فی المعجم الکبیر، 24 / 147، الرقم : 390، والهیثمی فی مجمع الزوائد، 8 / 297، والذھبی فی میزان الاعتدال، 5 / 205، وابن کثیر فی البدایۃ والنھایۃ، 6 / 83، والقاضی عیاض فی الشفائ، 1 / 400، والسیوطی فی الخصائص الکبری، 2 / 137، والحلبی فی السیرۃ الحلبیۃ، 2 / 103، والقرطبی فی الجامع لأحکام القرآن، 15 / 197۔
رواه الطبرانی بأسانید، ورجال أحدھما رجال الصحیح غیر إبراهیم بن حسن، وھو ثقۃ، وثّقهٗ ابن حبان، ورواه الطحاوی في مشکل الآثار (2 / 9، 4 / 388، 389) وللحدیث طرق أخری عن أسماء، وعن أبي هریرۃ، وعليّ ابن أبي طالب، وأبي سعید الخدري رضی الله عنهم ۔
وقد جمع طرقه أبو الحسن الفضلي، وعبید الله بن عبد الله الحسکا (م470ھ) في (مسألۃ في تصحیح حدیث ردّ الشمس)، والسیوطي في (کشف اللبس عن حدیث الشمس)۔ وقال السیوطي فی الخصائص الکبری (2 / 137) : أخرجه ابن منده، وابن شاھین، والطبرانی بأسانید بعضھا علی شرط الصحیح۔ وقال الشیباني في حدائق الأنوار (1 / 193) : أخرجه الطحاوي في مشکل الحدیث والآثار بإِسنادین صحیحین۔
وقال الإمام النووي فی شرحه علی مسلم (12 / 52) : ذکر القاضی رضی الله عنه : أن نبینا ﷺ حبست له الشمس مرّتین … ذکر ذلک الطحاوي وقال : رواته ثقات۔
’’حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ پر وحی نازل ہو رہی تھی اور آپ ﷺ کا سر اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔ وہ عصر کی نماز نہ پڑھ سکے یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے دعا کی : اے اللہ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا اس پر سورج واپس لوٹا دے۔ حضرت اسماء فرماتی ہیں : میں نے اسے غروب ہوتے ہوئے بھی دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ وہ غروب ہونے کے بعد دوبارہ طلوع ہوا۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
1۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : أَصَابَتِ النَّاسَ سَنَةٌ عَلَی عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ فَبَيْنَا النَّبِيُّ ﷺ یَخْطُبُ فِي یَوْمِ جُمُعَةٍ قَامَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، هَلَکَ الْمَالُ وَجَاعَ الْعِیَالُ فَادْعُ اللهَ لَنَا۔ فَرَفَعَ یَدَيْهِ وَمَا نَرَی فِي السَّمَائِ قَزَعَةً فَوَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهِ، مَا وَضَعَهَا حَتَّی ثَارَ السَّحَابُ أَمْثَالَ الْجِبَالِ ثُمَّ لَمْ یَنْزِلْ عَنْ مِنْبَرِهِ حَتَّی رَأَيْتُ الْمَطَرَ یَتَحَادَرُ عَلَی لِحْیَتِهِ ﷺ فَمُطِرْنَا یَوْمَنَا ذَلِکَ وَمِنْ الْغَدِ وَبَعْدَ الْغَدِ وَالَّذِي یَلِيْهِ حَتَّی الْجُمُعَةِ الْأُخْرَی وَقَامَ ذَلِکَ الْأَعْرَابِيُّ أَوْ قَالَ : غَيْرُهُ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، تَهَدَّمَ الْبِنَائُ وَغَرِقَ الْمَالُ فَادْعُ اللهَ لَنَا فَرَفَعَ یَدَيْهِ فَقَالَ : اَللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَمَا یُشِيْرُ بِیَدِهِ إِلَی نَاحِیَةٍ مِنَ السَّحَابِ إِلَّا انْفَرَجَتْ وَصَارَتِ الْمَدِيْنَةُ مِثْلَ الْجَوْبَةِ وَسَالَ الْوَادِي قَنَاةُ شَهْرًا وَلَمْ یَجِيئْ أَحَدٌ مِنْ نَاحِیَةٍ إِلَّا حَدَّثَ بِالْجَوْدِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الجمعۃ، باب : الاستسقاء في الخطبۃ یوم الجمعۃ، 1 / 315، الرقم : 891، وفي باب : من تمطر في المطر حتی یتحادر علی لحیته، 1 / 349، الرقم : 986، ومسلم في الصحیح، کتاب : صلاۃ الاستسقاء، باب، الدعاء في الاستسقاء، 2 / 614، الرقم : 897، والنسائي في السنن، کتاب : الاستسقاء، باب : رفع الإمام یدیه عند مسألۃ إمساک المطر، 3 / 166، الرقم : 1528، وابن الجارود في المنتقی، 1 / 75، الرقم : 256، والطبراني في الدعائ، 1 / 297، الرقم : 957۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں لوگ قحط سالی میں مبتلا ہو گئے۔ ایک مرتبہ جب حضور نبی اکرم ﷺ جمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھے تو ایک اعرابی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! مال ہلاک ہو گیا اور بچے بھوکے مر گئے، اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا کیجئے۔ آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھائے۔ ہم نے اس وقت آسمان میں بادل کا کوئی ٹکڑا تک نہیں دیکھا تھا، پھر قسم اس کی ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! آپ ﷺ نے ہاتھ کیا اٹھائے کہ پہاڑوں جیسے بادل آ گئے۔ آپ ﷺ منبر سے اترے بھی نہیں کہ میں نے بارش کے قطرے آپ ﷺ کی ریش مبارک سے ٹپکتے دیکھے۔ اس روز بارش برسی، اگلے روز بھی، اس سے اگلے روز بھی یہاں تک کہ اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پس وہی اعرابی کھڑا ہوا یا کوئی دوسرا شخص اور عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! مکانات گر گئے اور مال ڈوب گیا۔ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا کیجئے۔ پس آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھائے اور کہا : اے اللہ! ہمارے اردگرد برسا، ہم پر نہیں۔ پس جس طرف دست مبارک سے اشارہ کرتے ادھر کے بادل چھٹ جاتے یہاں تک کہ مدینہ منورہ ایک دائرہ سا بن گیا۔ قناہ نامی نالہ مہینہ بھر بہتا رہا اور جو بھی آتا وہ اس بارش کا حال بیان کرتا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : أَصَابَ أَهْلَ الْمَدِيْنَةِ قَحْطٌ عَلَی عَهْدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَبَيْنَا هُوَ یَخْطُبُ یَوْمَ جُمُعَةٍ إِذْ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، هَلَکَتِ الْکُرَاعُ هَلَکَتِ الشَّاءُ فَادْعُ اللهَ یَسْقِيْنَا فَمَدَّ یَدَيْهِ وَدَعَا قَالَ أَنَسٌ : وَإِنَّ السَّمَاءَ لَمِثْلُ الزُّجَاجَةِ فَهَاجَتْ رِیحٌ أَنْشَأَتْ سَحَابًا ثُمَّ اجْتَمَعَ ثُمَّ أَرْسَلَتِ السَّمَائُ عَزَالِیَهَا فَخَرَجْنَا نَخُوْضُ الْمَاءَ حَتَّی أَتَيْنَا مَنَازِلَنَا فَلَمْ نَزَلْ نُمْطَرُ إِلَی الْجُمُعَةِ الْأُخْرَی فَقَامَ إِلَيْهِ ذَلِکَ الرَّجُلُ أَوْ غَيْرُهُ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، تَهَدَّمَتِ الْبُیُوْتُ فَادْعُ اللهَ یَحْبِسْهُ فَتَبَسَّمَ ثُمَّ قَالَ : حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَنَظَرْتُ إِلَی السَّحَابِ تَصَدَّعَ حَوْلَ الْمَدِيْنَةِ کَأَنَّهُ إِکْلِيْلٌ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ۔
2 : أخرجه البخاری فی الصحیح،کتاب : المناقب، باب : علامات النبوۃ فی الإسلام، 3 / 1313، الرقم : 3389، ومسلم فی الصحیح، کتاب : الاستسقاء، باب : الدعاء فی الاستسقاء، 2 / 614، الرقم : 897، وأبوداود فی السنن، کتاب : صلاۃ الاستسقاء، باب : رفع الیدین فی الاستسقاء، 1 / 304، الرقم : 1174، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 95، الرقم : 2601، وفي الدعائ، 1 / 596۔ 597، الرقم : 2179، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 214، الرقم : 612، وابن عبد البر في الاستذکار، 2 / 434، والحسیني في البیان والتعریف، 2 / 26، الرقم : 957۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانۂ مبارک میں ایک دفعہ اہل مدینہ (شدید) قحط سے دوچار ہوگئے۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کیا : یا رسول اللہ! گھوڑے ہلاک ہوگئے، بکریاں مرگئیں، اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہمیں پانی مرحمت فرمائے۔ آپ ﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس وقت آسمان شیشے کی طرح صاف تھا لیکن ہوا چلنے لگی، بادل گھر کر جمع ہوگئے اور آسمان نے ایسا اپنا منہ کھولا کہ ہم برستی ہوئی بارش میں اپنے گھروں کو گئے اور متواتر اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پھر (آئندہ جمعہ) وہی شخص یا کوئی دوسرا آدمی کھڑا ہوکر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! گھر تباہ ہو رہے ہیں، لهٰذا اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ اب اس (بارش) کو روک لے۔ تو آپ ﷺ (اس شخص کی بات سن کر) مسکرا پڑے اور (اپنے سرِ اقدس کے اوپر بارش کی طرف انگلی مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے) فرمایا : ’’ہمیں چھوڑ کر ہمارے گردا گرد برسو۔‘‘ تو ہم نے دیکھا کہ اسی وقت بادل مدینہ منورہ کے اوپر سے ہٹ کر یوں چاروں طرف چھٹ گئے گویا وہ تاج ہیں (یعنی تاج کی طرح دائرہ کی شکل میں پھیل گئے)۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، مسلم اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔
3۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، هَلَکَتِ الْمَوَاشِي وَانْقَطَعَتِ السُّبُلُ فَادْعُ اللهَ فَدَعَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَمُطِرُوْا مِنْ جُمُعَةٍ إِلَی جُمُعَةٍ فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، تَهَدَّمَتِ الْبُیُوْتُ وَتَقَطَّعَتِ السُّبُلُ وَهَلَکَتِ الْمَوَاشِي فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَللَّھُمَّ، عَلَی رُئُوْسِ الْجِبَالِ وَالْآکَامِ وَبُطُوْنِ الْأَوْدِیَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ فَانْجَابَتْ عَنِ الْمَدِيْنَةِ انْجِیَابَ الثَّوْبِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
3 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الاستسقاء، باب : الدعاء إذا انقطعت السبل من کثرۃ المطر، 1 / 345، الرقم : 971، ومسلم في الصحیح، کتاب : صلاۃ الاستسقاء، باب : الدعاء في الاستسقاء، 2 / 614، الرقم : 897، والنسائي في السنن، کتاب : الاستسقاء، باب : متی یستسقی الإمام، 3 / 154، الرقم : 1504، وفي السن الکبری، 1 / 555، الرقم : 1805، ومالک في الموطأ، کتاب : النداء للصلاۃ، باب : ما جاء في الاستسقاء، 1 / 191، الرقم : 450، والشافعي في المسند، 1 / 79، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 92، الرقم : 4911، وابن حبان في الصحیح، 7 / 104، الرقم : 2857، والربیع في المسند، 1 / 200، الرقم : 496، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 297، والطبراني في الدعائ، 1 / 600، الرقم : 2187۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! (قحط سالی کی وجہ سے) مویشی ہلاک ہو گئے اور راستے بند ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں (اس کی التجاء پر) حضور نبی اکرم ﷺ نے دعا فرمائی تو اس جمعہ سے اگلے جمعہ تک مسلسل بارش ہوتی رہی۔ پھر ایک آدمی آ کر آپ ﷺ کی بارگاہ میں عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! گھر گر گئے، راستے بند ہو گئے اور مویشی ہلاک ہو گئے۔ تو آپ ﷺ نے دعا فرمائی : اے اللہ! پہاڑوں کی چوٹیوں، ٹیلوں، وادیوں کے درمیان اور درختوں کے اگنے کی جگہوں پر (برسا)۔ پس مدینہ منورہ کے اوپر سے بادل کپڑے کی طرح پھٹ گیا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
4۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ رَجُـلًا جَاءَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ یَوْمَ الْجُمُعَةِ وَھُوَ یَخْطُبُ بِالْمَدِيْنَةِ، فَقَالَ : قَحَطَ الْمَطَرُ، فَاسْتَسْقِ رَبَّکَ۔ فَنَظَرَ إِلَی السَّمَاءِ وَمَا نَرَی مِنْ سَحَابٍ، فَاسْتَسْقَی، فَنَشَأَ السَّحَابُ بَعْضُهُ إِلَی بَعْضٍ، ثُمَّ مُطِرُوْا حَتَّی سَالَتْ مَثَاعِبُ الْمَدِيْنَةِ، فَمَا زَالَتْ إِلَی الْجُمُعَةِ الْمُقْبِلَةِ مَا تُقْلِعُ، ثُمَّ قَامَ ذَلِکَ الرَّجُلُ أَوْ غَيْرُهُ وَالنَّبِيُّ ﷺ یَخْطُبُ، فَقَالَ : غَرِقْنَا، فَادْعُ رَبَّکَ یَحْبِسْھَا عَنَّا، فَضَحِکَ ثُمَّ قَالَ : اَللَّھُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا۔ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَـلَاثًا، فَجَعَلَ السَّحَابُ یَتَصَدَّعُ عَنِ الْمَدِيْنَةِ یَمِيْنًا وَشِمَالًا، یُمْطَرُ مَا حَوَالَيْنَا وَلَا یُمْطَرُ مِنْھَا شَيئٌ، یُرِيْھِمُ اللهُ کَرَامَةَ نَبِيِّهِ ﷺ وَإِجَابَةَ دَعْوَتِهِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
4 : أخرجه البخاری فی الصحیح، کتاب : الأدب، باب : التبسم والضحک، 5 / 2261، الرقم : 5742، وفی کتاب : الدعوات، باب : الدعاء غیر مستقبل القبلۃ، 5 / 2335، الرقم : 5982، وفی کتاب : الجمعۃ، باب : الاستسقاء فی الخطبۃ یوم الجمعۃ، 1 / 315، الرقم : 891، وفی کتاب : الاستسقاء، باب : الاستسقاء فی المسجد الجامع، 1 / 343، الرقم : 967، وفی باب : الاستسقاء فی خطبۃ مستقبل القبلۃ، 1 / 344، الرقم : 968، وفی باب : إذا استشفع المشرکون بالمسلمین عند القحط، 1 / 346، الرقم : 974، وفی باب : من تمطر فی المطر حتی یتحادر علی لحیته، 1 / 349، الرقم : 986، وفی کتاب : المناقب، باب : علامات النبوۃ فی الإسلام، 3 / 1313، الرقم : 3389، ومسلم فی الصحیح، کتاب : الاستسقاء، باب : الدعاء فی الاستسقاء، 2 / 612۔614، الرقم : 897، وأبوداود فی السنن، کتاب : صلاۃ الاستسقاء، باب : رفع الیدین فی الاستسقاء، 1 / 304، الرقم : 1174، والنسائی فی السنن، کتاب : الاستسقاء، باب : کیف یرفع، 3 / 159۔166، الرقم : 1515،1517،1527۔1528، وابن ماجه فی السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب : ما جاء فی الدعاء فی الاستسقاء، 1 / 404، الرقم : 1269، والنسائی فی السنن الکبری، 1 / 558، الرقم : 1818۔
قَالَ الإِمَامُ السَّیُّوْطِيُّ فِي الْخَصَائص عَنِ ابْنِ عَبَاسٍ قَالَ : کَانَتْ حَلِيْمَةُ لَا تَدَعُهُ یَذْهَبُ مَکَانًا بَعِيْدًا فَغَفَلَتْ عَنْهُ فَخَرَجَ مَعَ أُخْتِهِ الشَّيْمَاءِ فِي الظَّهِيْرَةِ إلَی الْبَهْمِ فَخَرَجَتْ حَلِيْمَةُ تَطْلُبُهُ حَتَّی تَجِدَهُ مَعَ أُخْتِهِ فَقَالَتْ : فِي هَذَا الْحَرَّةِ فَقَالَتْ أُخْتُهُ : یَا أُمَّه! مَا وَجَدَ أَخِي حَرًّا رَأَيْتُ غُمَامَةً تُظِلُّ عَلَيْهِ إِذَا وَقَفَ وَقَفَتْ، وَإِذَا سَارَ سَارَتْ، حَتَّی انْتَهَی إِلَی هَذَا الْمَوْضِعِ، قَالَتْ : أَحَقَّا یَا بُنَيَّۃ، قَالَتْ : أَيْ وَاللهِ۔
أخرجه السیوطي في الخصائص الکبری، 1 : 58۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ مدینہ منورہ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے اس نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) بارش نہ ہونے کے باعث قحط پڑ گیا ہے لهٰذا اپنے رب سے بارش مانگئے، تو آپ ﷺ نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور ہمیں کوئی بادل نظر نہیں آ رہا تھا۔ آپ ﷺ نے بارش مانگی تو فوراً بادلوں کے ٹکڑے آ کر آپس میں ملنے لگے پھر بارش ہونے لگی یہاں تک کہ مدینہ منورہ کی گلیاں بہہ نکلیں اور بارش متواتر اگلے جمعہ تک ہوتی رہی پھر وہی یا کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا جبکہ حضور نبی اکرم ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے : (یا رسول اللہ!) ہم تو غرق ہونے لگے لهٰذا اپنے رب سے دعا کیجئے کہ اس بارش کو ہم سے روک دے۔ آپ ﷺ مسکرا پڑے اور دعا کی : اے اللہ! ہمارے اردگرد برسا اور ہمارے اوپر نہ برسا، ایسا دو یا تین دفعہ فرمایا۔ سو بادل چھٹنے لگے اور مدینہ منورہ کی دائیں بائیں جانب جانے لگے۔ چنانچہ ہمارے اردگرد (کھیتوں اور فصلوں پر) بارش ہونے لگی ہمارے اوپر بند ہو گئی۔ یونہی اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی برکت اور ان کی قبولیتِ دعا دکھاتا ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
’’امام سیوطی نے الخصائص الکبری میں روایت کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : حلیمہ سعدیہ آپ کا بہت خیال رکھتی تھی ایک روز قدرے غافل ہو گئی تو آپ اپنی رضاعی بہن شیماء کے ساتھ دوپہر کے وقت ریوڑ کی طرف نکل گئے حلیمہ بے قرار ہو گئی اور فوراً تلاش میں نکلی۔ جب بہن کے ساتھ دیکھا تو اس کی جان میں جان آئی۔ بیٹی کو ناراض ہوئی کہ اتنی سخت دھوپ میں انہیں لے کر کیوں آئی ہو؟ شیماء نے جواب دیا : امی جان! میرے بھائی کو دھوپ نے کچھ نہیں کہا۔ بادل ان پر مسلسل سایہ فگن رہا، جب یہ ٹھہرتے تو وہ بھی ٹھہر جاتا اور جب یہ چلتے تو وہ بھی چل پڑتا تھا یہاں تک کہ ہم یہاں پہنچ گئے۔ حلیمہ یہ سن کر خوشگوار حیرت کے عالم میں چیخ پڑی۔ میری بیٹی! کیا یہ سچ ہے؟ شیما نے جواب دیا : ہاں، امی جان یہ بالکل سچ ہے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved