1۔ عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ رضی الله عنه قَالَ : أَقْبَلْنَا مَعَ النَّبِيِ ﷺ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوْکَ حَتَّی إِذَا أَشْرَفْنَا عَلَی الْمَدِيْنَةِ قَالَ : ھَذِهِ طَابَةُ وَھَذَا أُحُدٌ جَبَلٌ یُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : المغازي، باب نزول النبي ﷺ الحجر، 4 / 1610، الرقم : 4160، وفي کتاب : الزکاۃ، باب : خرص التمر، 2 / 539، الرقم : 1411، ومسلم في الصحیح، کتاب : الفضائل، باب : في معجزات النبي ﷺ ، 4 / 1785، الرقم : 1392، وفي کتاب : الحج، باب : أحد جبل یحبنا ونحبه، 2 / 1011، الرقم : 1392، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 423، الرقم : 37006، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 424، الرقم : 23652، وابن حبان في الصحیح، 10 / 355، والبیھقي في السنن الکبری، 6 / 372، الرقم : 12889، وأبو نعیم في دلائل النبوۃ : 171، الرقم : 212۔
’’حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم غزوہ تبوک سے واپسی کے دوران حضورنبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھے۔ جب ہم مدینہ منورہ کے نزدیک پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ طابہ (یعنی مدینہ منورہ) ہے اور یہ اُحد پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : صَعِدَ النَّبِيُّ ﷺ إِلَی أُحُدٍ وَمَعَهُ أَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ۔ فَرَجَفَ بِهِمْ فَضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ وَقَالَ : اثْبُتْ أُحُدُ۔ فَمَا عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدَانِ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ یَعْلَی۔
2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : المناقب، باب : مناقب عمر بن الخطاب أبي حفص القرشي العدوي، 3 / 1348، الرقم : 3483، وأبو یعلی في المسند، 13 / 509، 510، الرقم : 7518، وابن حبان في الصحیح، 14 / 415، الرقم : 6492، وابن أبي عاصم في السنۃ، 2 / 621، الرقم : 1440 وأبو حاتم في الثقات، 2 / 242۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز حضور نبی اکرم ﷺ کوهِ اُحد پر چڑھے اور آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم تھے۔ پہاڑ کو وجد آیا تو آپ ﷺ نے اسے اپنے پاؤں کے ساتھ ٹھوکر مارتے ہوئے فرمایا : اُحد ٹھہر جا! تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اور کوئی نہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری، ابن حبان اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
3۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ عَلَی حِرَاءٍ ھُوَ وَأَبُوْبَکْرِ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ فَتَحَرَّکَتِ الصَّخْرَةُ۔ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : اھْدَأْ، فَمَا عَلَيْکَ إلاَّ نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَھِيْدٌ۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ۔
3 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : فضائل الصحابۃ، باب : من فضائل طلحۃ والزبیر، 4 / 1880، الرقم : 2417، والترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : في مناقب عثمان بن عفان، 5 / 624، الرقم : 3696، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 55، الرقم : 8190۔
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ حرا پہاڑ پر تشریف فرما تھے۔ آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ اتنے میں پہاڑ نے حرکت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : ٹھہر جا، کیونکہ تیرے اوپر نبی، صدیق اور شہید کے سوا کوئی نہیں ہے۔‘‘
اسے امام مسلم اور امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
4۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ عَلَی جَبَلِ حِرَاء فَتَحَرَّکَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اسْکُنْ حِرَاءُ، فَمَا عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدٌ وَعَلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنهم ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔
4 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : فضائل الصحابۃ، باب : من فضائل طلحۃ والزبیر، 4 / 1880، الرقم : 2417، وأبو داود عن سعید بن زید في السنن، کتاب : السنۃ، باب : في الخلفائ، 4 / 211، الرقم : 4648، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 351، الرقم : 31948، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 419، الرقم : 9420، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 55، الرقم : 8190۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ حرا پہاڑ پر تھے، وہ ہلنے لگا، حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے حرا ٹھہر جا! تجھ پر صرف نبی ہے، یا صدیق ہے، یا شہید ہے۔ اس پہاڑ پر حضور نبی اکرم ﷺ تھے اور حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم تھے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم، ابو داود اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَلَی حِرَاءٍ فَتَزَلْزَلَ الْجَبَلُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اثْبُتْ حِرَاءُ، مَا عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدٌ۔ وَعَلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَسَعِيْدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ رضی الله عنهم ۔
رَوَاهُ أَبُوْ یَعْلَی وَالطَّبَرَانِيُّ۔
5 : أخرجه أبو یعلی في المسند، 4 / 333، الرقم : 2445، والطبراني في المعجم الکبیر، 11 / 159، الرقم : 11671، وابن أبي عاصم في السنۃ، 2 / 622، الرقم : 1446، ومحب طبري في الریاض النضرۃ، 1 / 222۔
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جبلِ حراء پر تھے کہ وہ کانپنے لگا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے حراء ٹھہر جا، تجھ پر سوائے نبی، صدیق یا شہید کے کوئی نہیں۔ اور اس پر حضور نبی اکرم ﷺ ، ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر عبد الرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص اور سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہم تھے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
6۔ عَنْ عَبْدِ الله بْنِ سَالِمِ الْمَازِنِيِّ قَالَ : سَمِعْتُ سَعِيْدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ قَالَ : لَمَّا قَدِمَ فُـلَانٌ إِلَی الْکُوْفَةِ أَقَامَ فُـلَانٌ خَطِيْبًا فَأَخَذَ بِیَدِي سَعِيْدُ بْنُ زَيْدٍ فَقَالَ : أَلَا تَرَی إِلَی هَذَا الظَّالِمِ فَأَشْهَدُ عَلَی التِّسْعَةِ إِنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَی الْعَاشِرِ لَمْ إِيْثَمْ قَالَ ابْنُ إِدْرِيْسَ : وَالْعَرَبُ تَقُوْلُ آثَمُ قُلْتُ : وَمَنْ التِّسْعَةُ؟ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَهُوَ عَلَی حِرَاءٍ : اثْبُتْ حِرَاءُ، إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدٌ قُلْتُ : وَمَنْ التِّسْعَةُ؟ قَالَ : رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ قُلْتُ وَمَنِ الْعَاشِرُ؟ فَتَلَکَّأَ هُنَيَّةً ثُمَّ قَالَ : أَنَا۔
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَحْمَدُ۔
6 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : السنۃ، باب : في الخلفائ، 4 / 211، الرقم : 4648، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 351، الرقم : 31948، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 188، الرقم : 1638، والبزار في المسند، 4 / 91، الرقم : 2163، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 55، الرقم : 8190، وابن حبان في الصحیح، 15 / 457، الرقم : 6996، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 273، الرقم : 890۔
’’عبد اللہ بن سالم مازنی کا بیان ہے کہ میں نے حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے سنا۔ عبد اللہ کا بیان ہے کہ جب فلاں کوفے میں آیا اور اُس نے فلاں کو خطبہ دینے کے لیے کھڑا کیا تو حضرت سعید بن زید نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا تم اس ظالم کو نہیں دیکھتے۔ نو (9) حضرات کے متعلق تو میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ جنتی ہیں اور اگر دسویں کے متعلق بھی گواہی دوں تو گنہگار نہیں ہوں گا۔ میں عرض گزار ہوا کہ وہ نو حضرات کون ہیں؟ ارشاد ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جبکہ آپ حراء کے اوپر تھے : اے حراء ٹھہر جا کیونکہ تیرے اوپر نبی، صدیق اور شہیدوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ نو حضرات کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد بن ابی وقاص اور عبد الرحمن بن عوف ہیں۔ میں عرض گزار ہوا کہ دسواں کون ہے؟ وہ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا کہ میں ہوں۔‘‘
اس حدیث کو امام ابوداود، ابن ابی شیبہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔
7۔ عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ حَزْنٍ الْقُشَيْرِيِّ قَالَ : شَهِدْتُ الدَّارَ حِيْنَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ عُثْمَانُ فَقَالَ۔۔۔۔أَنْشُدُکُمْ بِاللهِ وَالْإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ عَلَی ثَبِيْرِ مَکَّةَ وَمَعَهُ أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَأَنَا فَتَحَرَّکَ الْجَبَلُ حَتَّی تَسَاقَطَتْ حِجَارَتُهُ بِالْحَضِيْضِ قَالَ : فَرَکَضَهُ بِرِجْلِهِ وَقَالَ : اسْکُنْ ثَبِيْرُ، فَإِنَّمَا عَلَيْکَ نَبِيٌّ وَصِدِّیقٌ وَشَهِيْدَانِ قَالُوْا : اَللّٰھُمَّ، نَعَمْ۔ قَالَ : اللهُ أَکْبَرُ شَهِدُوْا لِي وَرَبِّ الْکَعْبَةِ أَنِّي شَهِيْدٌ ثَـلَاثًا۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ۔ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ۔
7 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : في مناقب عثمان بن عفان رضی الله عنه، 5 / 627، الرقم : 3703، والنسائي في السنن، کتاب : الأحباس، باب : وقف المساجد، 6 / 235، الرقم : 3608، وفي السنن الکبری، 4 / 97، الرقم : 6435، والدارقطني في السنن، 4 / 196، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 1 / 446، 447، الرقم : 321، 322، وابن أبي عاصم في السنۃ، 2 / 594، الرقم : 1305۔
قال القاضي أبو بکر بن العربي رحمه الله تعالی في العارضۃ : … إنما اضطربت الصخرۃ ورجف الجبل استعظاماً لما کان علیه من الشرف، وبمن کان علیه من الأشراف۔(1)
(1) أبو بکر بن العربي في عارضۃ الأحوذي، 13 / 151-154۔
قال ابن المنیر - فیما نقله القسطلاني - رحمهما الله تعالی، في الإرشاد : الحکمۃ في ذلک أنه لما ارتجف أراد النبي ﷺ أن یبین أن هذه الرجفۃ لیست من جنس رجفۃ الجبل بقوم موسی علیه السلام لَمَّا حرَّفوا الکَلِمَ، فتلک رجفۃ الغضب، وهذه هزۃ الطرب، ولهذا نص علی مقام النبوۃ والصِّدِّیقیۃ والشهادۃ، التي توجب سرور ما اتصلت به، فأقر الجبل بذلک، فاستقر۔(2)
(2) إرشاد الساري، 6 / 97، ولامع الدراري، 6 / 97۔
’’حضرت ثمامہ بن حزم قشیری بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دولت کدہ کے پاس آیا۔ اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ گھر کے اوپر سے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرما رہے تھے۔۔۔۔۔میں تمہیں اللہ تعالیٰ اور اسلام کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ حضور نبی اکرم ﷺ ثبیرِ مکہ پر تھے اور آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر، عمر اور میں (ث) بھی تھا۔ پہاڑ متحرک ہوا یہاں تک کہ اس کے پتھر نیچے گرنے لگے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے پائوں کی ٹھوکر مار کر فرمایا ٹھہر ثبیر! ٹھہر جا، کیونکہ تیرے اُوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔ محاصرین نے کہا ہاں (ٹھیک ہے)۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ اکبر! ان لوگوں نے میرے حق میں گواہی دی۔ رب کعبہ کی قسم میں شہید ہوں، تین مرتبہ فرمایا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ اور امام ابو عیسیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
’’قاضی ابو بکر بن العربی رحمہ اللہ تعالی ’’عارضۃ الأحوذي‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ بے شک چٹان تھرتھرانے لگی اور پہاڑ لرزاں ہوگئے، اُس شرف کو بڑا جانتے ہوئے جو اشرافِ عرب کاان پر جلوہ افروز ہونے سے انہیں ملا۔‘‘
’’ابن منیر نے - امام قسطلانی رحمہما اللہ تعالی نے جو کچھ نقل کیا ہے - کے بارے میں ’’الارشاد الساري‘‘ میں بیان کیا ہے کہ اس چیز میں جو حکمت پنہاں ہے وہ یہ ہے کہ جب وہ پہاڑ لرزاں ہوا تو حضورنبی اکرم ﷺ نے چاہا کہ وہ یہ بیان فرما دیں کہ یہ وہ لرزہ اور تھرتھراہٹ نہیں ہے جو قوم موسیٰ علیہ السلام پر پہاڑ کی ہوئی تھی جب انہوں نے کلمات میں تحریف کے جرم کا ارتکاب کیا، پس وہ تھرتھراہٹ غضب کی تھی، اور یہ خوشی اور قرب کی تھی، اسی لیے آپ ﷺ نے مقام نبوت، صدیقیت اور شہادت کو بیان فرما دیا، جو موجب سرور و فرحت ہیں، پس پہاڑ نے بھی اس چیز کا اقرار کیا اور پھر استقرار پکڑ لیا۔‘‘
1۔ عَنْ أَبِي مُوْسَی الْأَشْعَرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : خَرَجَ أَبُوْ طَالِبٍ إِلَی الشَّامِ وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ ﷺ فِي أَشْیَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ۔ فَلَمَّا أَشْرَفُوْا عَلَی الرَّاهِبِ هَبَطَ فَحَلُّوْا رِحَالَهُمْ فَخَرَجَ إِلَيْهِمُ الرَّاهِبُ وَکَانُوْا قَبْلَ ذَلِکَ یَمُرُّوْنَ بِهِ فَـلَا یَخْرُجُ إِلَيْهِمْ وَلَا یَلْتَفِتُ۔ قَالَ : فَهُمْ یَحُلُّوْنَ رِحَالَهُمْ، فَجَعَلَ یَتَخَلَّلُهُمُ الرَّاهِبُ حَتَّی جَائَ فَأَخَذَ بِیَدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَقَالَ : هَذَا سَيِّدُ الْعَالَمِيْنَ، هَذَا رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، یَبْعَثُهُ اللهُ رَحْمَةً لِلْعَالَمِيْنَ۔ فَقَالَ لَهُ أَشْیَاخٌ مِنْ قُرَيْشٍ : مَا عِلْمُکَ؟ فَقَالَ : إِنَّکُمْ حِيْنَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَةِ لَمْ یَبْقَ شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا وَلَا یَسْجُدَاِن إِلَّا لِنَبِيٍّ… الحدیث۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَزَّارُ۔ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ۔
1 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : ما جاء في بدء نبوۃ النبي ﷺ ، 5 / 590، الرقم : 3620، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 317، الرقم : 31733، و 7 / 327، الرقم : 36541، والبزار في المسند، 8 / 97، الرقم : 3096، والحاکم في المستدرک، 2 / 672، الرقم : 4229، وأبو نعیم في دلائل النبوۃ، 1 / 45، الرقم : 19۔
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں : حضرت ابو طالب روسائے قریش کے ہمراہ شام کی طرف روانہ ہوئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ راستے میں جب وہ راہب کے پاس پہنچے تو حضرت ابو طالب اپنی سواری سے نیچے اتر آئے۔ باقی لوگوں نے بھی اپنے کجاوے کھول دیئے۔ راہب ان کی طرف نکلا حالانکہ اس سے پہلے وہ اس کے پاس سے گزرا کرتے تھے لیکن وہ ان کے پاس نہیں آیا کرتا تھا اور نہ ہی ان کی طرف متوجہ ہوتا تھا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ وہ ان کے درمیان چلنے لگا یہاں تک کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے قریب پہنچا اور آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑ کر کہا : یہ تمام جہانوں کا سردار اور رب العالمین کا رسول ہے! وہ انہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث کرے گا۔ روسائے قریش نے اس سے پوچھا : تمہیں کس نے بتایا؟ اس نے کہا : جب تم لوگ عقبہ سے چلے تو تمام درخت اور پتھر ان کو سجدہ کر رہے تھے اور وہ صرف نبی کو ہی سجدہ کرتے ہیں۔…‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، حاکم، ابن ابی شیبہ اور بزار نے روایت کیا ہے۔
2۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ بِمَکَّةَ حَجَرًا کَانَ یُسَلِّمُ عَلَيَّ لَیَالِيَ بُعِثْتُ؛ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ الْآنَ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالطِّیَالِسِيُّ وَأَبُویَعْلَی وَالطَّبَرَانِيُّ۔ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔
2 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : في آیات إثبات نبوۃ النبي ﷺ وما قد خصه الله عزوجل، 5 / 592، الرقم : 3624، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 105، الرقم : 21043، وأبو یعلی في المسند، 13 / 459، الرقم : 7469، والطبراني في المعجم الکبیر، 2 / 231، الرقم : 1961، والطیالسي في المسند، 1 / 106، الرقم : 781، والبیهقي في دلائل النبوۃ، 2 / 153۔
’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مکہ مکرمہ میں ایک پتھر ہے جو مجھے بعثت کی راتوں میں سلام کیا کرتا تھا۔ میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، احمد، طیالسی، ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور ابوعیسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔
3۔ عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ بِمَکَّةَ۔ فَخَرَجَ فِي بَعْضِ نَوَاحِيْهَا فَمَا اسْتَقْبَلَهُ شَجَرٌ وَلَا جَبَلٌ إِلَّا قَالَ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ، یَا رَسُوْلَ اللهِ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ والْحَاکِمُ وَاللَّفْظُ لَهُ۔ وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ۔
3 : أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : المناقب، باب : 6، 5 / 593، الرقم : 3626، والدارمی فی السنن، باب : ما أکرم الله به نبیه من إیمان الشجر به والبھائم والجن، 1 / 31، الرقم : 21، والحاکم فی المستدرک، 2 / 677، الرقم : 4238، والمقدسی فی الأحادیث المختارۃ، 2 / 134، الرقم : 502، والمنذری فی الترغیب والترھیب، 2 / 150، الرقم : 1880، والمزي فی تھذیب الکمال، 14 / 175، الرقم : 3103، والجرجانی فی تاریخ جرجان، 1 / 329، الرقم : 600۔
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم مکہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھے۔ آپ ﷺ مکہ کے گرد و نواح میں گئے تو راستے میں جو پتھر اور درخت آپ ﷺ کے سامنے آتا تو وہ کہتا : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ، یَا رَسُولَ اللهِ ’یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ الفاظ حاکم کے ہیں اور امام حاکم فرماتے ہیں : یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
4۔ عَنْ عِبَادٍ قَالَ : سَمِعْتُ عَلِیًّا رضی الله عنه یَقُوْلُ : لَقَدْ رَأَيْتُنِي أَدْخُلُ مَعَهُ یَعْنِي النَّبِيَّ ﷺ الْوَادِيَّ۔ فَـلَا یَمُرُّ بِحَجَرٍ وَلَا شَجَرٍ إِلَّا قَالَ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ، یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَأَنَا أَسْمَعُهُ۔ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ۔
4 : أخرجه البیهقي في دلائل النبوۃ، 2 / 154، وابن کثیر في شمائل الرسول : 259، 260، وفي البدایۃ والنهایۃ، 3 : 16۔
’’حضرت عباد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا : میں نے دیکھا کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ فلاں فلاں وادی میں داخل ہوا۔ آپ ﷺ جس بھی پتھر یا درخت کے پاس سے گزرتے تو وہ کہتا : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ، یَا رَسُوْلَ اللهِ ’یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو‘ اور میں یہ تمام سن رہا تھا۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : قَدِمَ وَفْدُ الْیَمَنِ عَلَی رَسُوْلِ اللهِ، ﷺ فَقَالُوْا : … یَا أَبَا الْقَاسِمِ، إِنَّا قَدْ خَبَأْنَا لَکَ خَبِيْئًا۔ فَقَالَ : سُبْحَانَ اللهِ، إِنَّمَا یُفْعَلُ ھَذَا بِالْکَاھِنِ؛ وَالْکَاھِنُ وَالْمُتَکَھِّنُ وَالْکَھَانَةُ فِي النَّارِ۔ فَقَالَ لَهُ أَحَدُھُمْ : فَمَنْ یَشْھَدُ لَکَ أَنَّکَ رَسُوْلُ اللهِ؟ قَالَ : فَضَرَبَ بِیَدِهِ إِلَی حَفْنَةِ حَصْبَائَ فَأَخَذَھَا فَقَالَ : ھَذَا یَشْھَدُ أَنِّي رَسُوْلُ اللهِ۔ قَالَ : فَسَبَّحْنَ فِي یَدِهِ وَقُلْنَ : نَشْھَدُ أَنَّکَ رَسُوْلُ اللهِ۔ رَوَاهُ الْحَکِيْمُ التِّرْمِذِيُّ۔
5 : أخرجه الحکیم الترمذي في نوادر الأصول 2 / 216، 217، والعیني في عمدۃ القاري، 11 / 78۔
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے : یمن سے ایک وفد حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا : … اے ابو القاسم! ہم نے آزمائش کے طور پر آپ سے ایک چیز چھپا رکھی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : سبحان اللہ، ایسا تو کاہنوں سے کیا جاتاہے۔ اور کاہن (اٹکل سے آئندہ کی باتیں بتانے والا) اور متکہن (اپنے آپ کو کاہن ظاہر کرنے والا) اور کہانت جہنم میں ہوں گے۔ اُن میں سے کسی نے کہا : اس بات کی کون گواہی دیتا ہے کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے تھوڑی سی کنکریوں کی طرف ہاتھ بڑھایا ور انہیں مٹھی میں لے کر فرمایا : یہ گواہی دیں گی کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ کنکریوں نے تسبیح پڑھی اور پکار اٹھیں کہ ہم گواہی دیتی ہیں کہ آپ ﷺ بلا شبہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے رسول ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام حکیم ترمذی نے روایت کیا ہے۔
6۔ عَنْ عَبَّاسٍ قَالَ : شَهِدْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ یَوْمَ حُنَيْنٍ فَلَزِمْتُ أَنَا وَأَبُوْ سُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَلَمْ نُفَارِقْهُ وَرَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَلَی بَغْلَةٍ لَهُ بَيْضَاءَ أَهْدَاهَا لَهُ فَرْوَةُ بْنُ نُفَاثَةَ الْجُذَامِيُّ فَلَمَّا الْتَقَی الْمُسْلِمُوْنَ وَالْکُفَّارُ وَلَّی الْمُسْلِمُوْنَ مُدْبِرِيْنَ فَطَفِقَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَرْکُضُ بَغْلَتَهُ قِبَلَ الْکُفَّارِ ۔۔۔۔ أَخَذَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ حَصَیَاتٍ فَرَمَی بِهِنَّ وُجُوْهَ الْکُفَّارِ ثُمَّ قَالَ : انْهَزَمُوْا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ قَالَ : فَذَهَبْتُ أَنْظُرُ فَإِذَا الْقِتَالُ عَلَی هَيْئَتِهِ فِيْمَا أَرَی قَالَ : فَوَاللهِ، مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَمَاهُمْ بِحَصَیَاتِهِ فَمَا زِلْتُ أَرَی حَدَّهُمْ کَلِيْلًا وَأَمْرَهُمْ مُدْبِرًا۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَحْمَدُ۔
6 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الجهاد والسیر، باب : في غزوۃ حنین، 3 / 1398، الرقم : 1775، وعبد الرزاق في المصنف، 5 / 380، 381، الرقم : 9741، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 207، الرقم : 1775، وفي فضائل الصحابۃ، 2 / 927، الرقم : 1775، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 194، الرقم : 8647، وابن حبان في الصحیح، 15 / 523، 524، الرقم : 7049، والحمیدي في المسند، 1 / 218، الرقم : 459، وأبو عوانۃ في المسند، 4 / 276، الرقم : 6748، وابن سعد في الطبقات الکبری، 2 / 155، والشیباني في الآحاد والمثاني، 1 / 273، الرقم : 356، والمزي في تهذیب الکمال، 24 / 135، وابن حجر العسقلاني في فتح الباري، 8 / 31۔
’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ حنین میں، میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا، میں اور حضرت ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ساتھ رہے، اور آپ سے بالکل الگ نہیں ہوئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ اس سفید رنگ کی خچر پر سوار تھے جو آپ کو فروہ بن نفاثہ جذامی نے ہدیہ کی تھی، جب مسلمانوں اور کفار کا مقابلہ ہوا تو مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگے۔ حضور نبی اکرم ﷺ اپنے خچر کو کفار کی جانب دوڑا رہے تھے … پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے چند کنکریاں اُٹھائیں اور کفار کے چہروں کی طرف پھینکیں اور فرمایا : رب محمد کی قسم! یہ ہار گئے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا لڑائی اسی تیزی کے ساتھ جاری تھی، میں اسی طرح دیکھ رہا تھا کہ اچانک آپ نے کنکریاں پھینکیں بخدا میں نے دیکھا کہ ان کا زور ٹوٹ گیا اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، عبدالرزاق اور احمد نے روایت کیا ہے۔
7۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : دَخَلْنَا مَعَ النَّبَيِّ ﷺ مَکَّةَ فِي الْبَيْتِ وَحَوْلَ الْبَيْتِ ثَـلَاثُمِائَةٍ وَسِتُّوْنَ صَنَمًا تُعْبَدُ مِنْ دُوْنِ اللهِ۔ قَالَ : فَأَمَرَ بِھَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَکَبَّتْ کُلُّھَا لِوَجْهِهَا ثُمَّ قَالَ : {جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوْقًاo} [الإسراء، 17 : 81]۔ رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔
7 : أخرجه ابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 403، الرقم : 36905، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 3 / 60۔
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کی معیت میں مکہ مکرمہ میں بیت اللہ میں داخل ہوئے اور خانہ کعبہ میں اس وقت تین سو ساٹھ بت تھے، جن کی اللہ کے مقابلہ میں عبادت کی جاتی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا تو وہ سارے کے ساے منہ کے بل گر پڑے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : {حق آگیا اور باطل بھاگ گیا، بے شک باطل نے زائل و نابود ہی ہو جانا ہےo}۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
8۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : دَخَلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَوْمَ الْفَتْحِ وَعَلَی الْکَعْبَةِ ثَـلَاثُ مِائَةِ صَنَمٍ وَسِتُّوْنَ صَنَمًا، قَدْ شَدَّ لَھُمْ إِبْلِيْسُ أَقْدَامَھُمْ بِالرَّصَاصِ، فَجَاءَ وَمَعَهُ قَضِيْبُهُ، فَجَعَلَ یَهْوِي بِهِ إِلَی کُلِّ صَنَمٍ مِنْھَا، فَیَخِرُّ لِوَجْهِهِ وَیَقُوْلُ : {جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوْقًاo} [الإسراء، 17 : 81] حَتَّی أَمَّرَ بِهِ عَلَيْھَا کُلِّھَا۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
8 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 10 / 279، الرقم : 10656، وفي المعجم الصغیر، 2 / 272، الرقم : 1152، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 3 / 212، والتمیمي في دلائل النبوۃ، 1 / 196، الرقم : 263، والهیثمي في مجمع الزوائد، 6 / 176، وقال : رواه الطبراني ورجاله ثقات، وأیضاً، 7 / 51، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 10 / 314، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 3 / 60۔
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ فتح مکہ والے دن کعبہ میں داخل ہوئے، اور (اس وقت) اس میں تین سو ساٹھ بت پڑے ہوئے تھے، شیطان نے جن کے پاؤں آہنی زنجیروں سے جکڑ رکھے تھے، پس حضور نبی اکرم ﷺ ادھر تشریف لائے اور آپ ﷺ کے دست اقدس میں اپنا عصا مبارک بھی تھا۔ آپ ﷺ اس عصا کے ساتھ ان بتوںمیں سے ہر بت کی طرف آئے تو ہر بت اوندھے منہ گرتا جاتا اور آپ ﷺ اس وقت یہ آیہ کریمہ پڑھ رہے تھے : {حق آگیا اور باطل بھاگ گیا، بے شک باطل نے زائل و نابود ہی ہو جانا ہےo} یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اپنے اس عصا کے ذریعے سارے بت گرا دیے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved