1۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما أَنَّ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَتْ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَ لَا أَجْعَلُ لَکَ شَيْئًا تَقْعُدُ عَلَيْهِ، فَإِنَّ لِي غُـلَامًا نَجَّارًا۔ قَالَ : إِنْ شِئْتِ قَالَ : فَعَمِلَتْ لَهُ الْمِنْبَرَ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ الْجُمُعَةِ، قَعَدَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَی الْمِنْبَرِ الَّذِي صُنِعَ فَصَاحَتِ النَّخْلَةُ الَّتِي کَانَ یَخْطُبُ عِنْدَھَا، حَتَّی کَادَتْ أَنْ تَنْشَقَّ، فَنَزَلَ النَّبِيُّ ﷺ حَتَّی أَخَذَھَا فَضَمَّھَا إِلَيْهِ، فَجَعَلَتْ تَئِنُّ أَنِيْنَ الصَّبِيِّ الَّذِي یُسَکَّتُ، حَتَّی اسْتَقَرَّتْ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : البیوع، باب : النجار، 2 / 378، الرقم : 1989، وأیضا في کتاب : المناقب، باب : علامات النبوۃ في الإسلام، 3 / 1314، الرقم : 3391۔3392، وأیضا في کتاب : المساجد، باب : الاستعانۃ بالنجار والصناع في أعواد المنبر والمسجد، 1 / 172، الرقم : 438، والترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : 6، 5 / 594، الرقم : 3627، والنسائی في السنن، کتاب : الجمعۃ، باب : مقام الإمام في الخطبۃ، 3 / 102، الرقم : 1396، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب : ما جاء في بدء شأن المنبر، 1 / 454، الرقم : 1414۔1417، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 226، والدارمی نحوه في السنن، 1 / 23، الرقم : 42۔
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک انصاری عورت نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا میں آپ کے تشریف فرما ہونے کے لئے کوئی چیز نہ بنوا دوں؟ کیونکہ میرا غلام بڑھئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم چاہو (تو بنوا دو)۔ اس عورت نے آپ ﷺ کے لئے ایک منبر بنوا دیا۔ جمعہ کا دن آیا تو حضور نبی اکرم ﷺ اسی منبر پر تشریف فرما ہوئے جو تیار کیا گیا تھا لیکن (حضور نبی اکرم ﷺ کے منبر پر تشریف رکھنے کی وجہ سے) کھجور کا وہ تنا جس سے ٹیک لگا کر آپ ﷺ خطبہ ارشاد فرماتے تھے (ہجر و فراق رسول ﷺ میں) چِلاَّ (کر رو) پڑا یہاں تک کہ پھٹنے کے قریب ہو گیا۔ یہ دیکھ کر حضور نبی اکرم ﷺ منبر سے اُتر آئے اور کھجور کے ستون کو گلے سے لگا لیا۔ ستون اس بچہ کی طرح رونے لگا، جسے تھپکی دے کر چپ کرایا جاتا ہے، یہاں تک کہ اسے سکون آ گیا۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
2۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما کَانَ النَّبِيُّ ﷺ یَخْطُبُ إِلَی جِذْعٍ۔ فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ تَحَوَّلَ إِلَيْهِ فَحَنَّ الْجِذْعُ۔ فَأَتَاهُ فَمَسَحَ یَدَهُ عَلَيْهِ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ۔
2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : المناقب، باب : علامات النبوۃ في الإسلام، 3 / 1313، الرقم : 3390، وابن حبان في الصحیح، 14 / 435، الرقم : 6506، واللالکائي في اعتقاد أھل السنۃ، 4 / 797، الرقم : 1469۔
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں : حضورنبی اکرم ﷺ ایک درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر خطاب فرمایا کرتے تھے۔ جب منبر بنا اور آپ ﷺ اس پر جلوہ افروز ہوئے تو لکڑی کا وہ ستون (آپ ﷺ کے ہجر و فراق میں) گریہ و زاری کرنے لگا۔ آپ ﷺ اس کے پاس تشریف لائے او راس پر اپنا دستِ شفقت پھیرا (تو وہ پرسکون ہو گا)۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
3۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ خَطَبَ إِلَی لِزْقِ جِذْعٍ وَاتَّخَذُوْا لَهُ مِنْبَرًا۔ فَخَطَبَ عَلَيْهِ فَحَنَّ الْجِذْعُ حَنِيْنَ النَّاقَةِ۔ فَنَزَلَ النَّبِيُّ ﷺ فَمَسَّهُ فَسَکَنَ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔
3 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : فيآیات إثبات نبوۃ النبي ﷺ وما قد خصه الله عزوجل به، 5 / 594، الرقم : 3627۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کجھور کے ایک تنے کے ساتھ کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ ﷺ کے لئے منبر بنوا دیا۔ آپ ﷺ جب اس پر تشریف فرما ہو کر خطبہ دینے لگے تو وہ تنا اس طرح رونے لگا جس طرح اُونٹنی اپنے بچے کی خاطر روتی ہے۔ حضورنبی اکرم ﷺ منبر سے نیچے تشریف لائے اور اس پر ہاتھ پھیرا تو وہ خاموش ہوگیا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
4۔ عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یُصَلِّي إِلَی جِذْعٍ إِذْ کَانَ الْمَسْجِدُ عَرِيْشًا وَکَانَ یَخْطُبُ إِلَی ذَلِکَ الْجِذْعِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ : هَلْ لَکَ أَنْ نَجْعَلَ لَکَ شَيْئًا تَقُوْمُ عَلَيْهِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ حَتَّی یَرَاکَ النَّاسُ وَتُسْمِعَهُمْ خُطْبَتَکَ؟ قَالَ : نَعَمْ فَصَنَعَ لَهُ ثَـلَاثَ دَرَجَاتٍ فَهِيَ الَّتِي أَعْلَی الْمِنْبَرِ فَلَمَّا وُضِعَ الْمِنْبَرُ وَضَعُوْهُ فِي مَوْضِعِهِ الَّذِي هُوَ فِيْهِ فَلَمَّا أَرَادَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَنْ یَقُوْمَ إِلَی الْمِنْبَرِ مَرَّ إِلَی الْجِذْعِ الَّذِي کَانَ یَخْطُبُ إِلَيْهِ فَلَمَّا جَاوَزَ الْجِذْعَ خَارَ حَتَّی تَصَدَّعَ وَانْشَقَّ فَنَزَلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ لَمَّا سَمِعَ صَوْتَ الْجِذْعِ فَمَسَحَهُ بِیَدِهِ حَتَّی سَکَنَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَی الْمِنْبَرِ فَکَانَ إِذَا صَلَّی صَلَّی إِلَيْهِ فَلَمَّا هُدِمَ الْمَسْجِدُ وَغُيِّرَ أَخَذَ ذَلِکَ الْجِذْعَ أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ رضی الله عنه وَکَانَ عِنْدَهُ فِي بَيْتِهِ …الحدیث۔
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالدَّارِمِيُّ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ۔ وَقَالَ الْمَقْدَسِيُّ : رَوَاهُ أَبُوْ عَبْدِ اللهِ ابْنِ مَاجَه عَنْ إِسْمَاعِيْلَ بْنِ عَبْدِ اللهِ لَهُ شَاهِدٌ فِي الصَّحِيْحِ مِنْ حَدِيْثِ ابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ رضی الله عنهم وَلَهُ طُرُقٌ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنَ الصَّحَابَةِ وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ۔ وَقَالَ الْکِنَانِيُّ : هَذَا إِسْنَادٌ حَسَنٌ وَرَوَاهُ أَبُوْ یَعْلَی الْمُوْصِلِيُّ فِي مُسْنَدِهِ۔
4 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیها، باب : ما جاء في بدء شأن المنبر، 1 / 454، الرقم : 1414، والدارمي في السنن، 1 / 30، الرقم : 36، والشافعي في المسند، 1 / 65، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 137۔ 138، الرقم : 21285، 21289، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 252، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 1 / 393، الرقم : 1192، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 4 / 392، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 603، الرقم : 3390، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 1 / 9، والعیني في عمدۃ القاري، 6 / 215۔
’’حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کھجور کے ایک تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے اور اس وقت مسجد نبوی چھپر کی تھی۔ ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیوں نہ ہم آپ کے لئے ایسی چیز تیار کر دیں جس پر آپ جمعہ کے دن قیام فرما ہوں تاکہ لوگ آپ ﷺ کی زیارت بھی کر سکیں اور خطبہ بھی سن سکیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ٹھیک ہے۔ منبر تیار کیا گیا جس کی تین سیڑھیاں تھیں۔ صحابہ کرام نے اس منبر کو اس مقام پر رکھ دیا جہاں منبر کی جگہ تھی۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے منبر پر کھڑے ہونے کا ارادہ فرمایا اور اس ستون کے قریب سے گزرے جس پر ٹیک لگا کر آپ ﷺ خطبہ دیا کرتے تھے تو اس ستون میں سے (ہجر و فراقِ رسول ﷺ میں) رونے کی آواز آئی اور وہ ستون درمیان سے شق ہو گیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس کے رونے کی یہ حالت دیکھی تو آپ ﷺ نے اس پر اپنا دستِ شفقت پھیرا جس سے اس ستون کی حالت گریہ ختم ہو گئی پھر آپ ﷺ منبر پر تشریف لے گئے۔ جب آپ ﷺ نماز پڑھتے تو اس کے پاس نماز پڑھتے جب مسجد منہدم کی گئی تو اس ستون کو حضرت ابی کعب رضی اللہ عنہ نے لے لیا اور انہی کے گھر میں رہا…الحدیث۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ، دارمی، شافعی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام مقدسی نے فرمایا کہ اسے امام ابو عبد اللہ ابن ماجہ نے حضرت اسماعیل بن عبد اللہ سے روایت کیا ہے اور اس کے شواہد حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی احادیث صحیح (بخاری و مسلم) میں بھی ہیں اور اس کے بے شمار صحابہ کرام سے دیگر طرق بھی مروی ہیں اور اس کی اسناد حسن ہیں۔ امام کنانی نے فرمایا کہ یہ اسناد حسن ہے اور اسے امام ابو یعلی الموصلی نے بھی اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔
5۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ کَانَ یَخْطُبُ إِلَی جِذْعٍ۔ فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ ذَھَبَ إِلَی الْمِنْبَرِ۔ فَحَنَّ الْجِذْعُ، فَأَتَاهُ، فَاحْتَضَنَهُ، فَسَکَنَ۔ فَقَالَ : لَوْ لَمْ أَحْتَضِنْهُ لَحَنَّ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَبُوْ یَعْلَی وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ۔
وفي روایۃ عن جابر رضی الله عنه : حَتَّی سَمِعَهُ أَھْلُ الْمَسْجِدِ حَتَّی أَتَاهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَمَسَحَهُ فَسَکَنَ۔ فَقَالَ بَعْضُھُمْ : لَوْ لَمْ یَأْتِهِ، لَحَنَّ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ۔
5 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب : ما جاء في بدء شأن المنبر، 1 / 454، الرقم : 1415، والبخاري في التاریخ الکبیر، 7 / 26، الرقم : 108، وأبو یعلی في المسند، 6 / 114، الرقم : 3384، وعبد بن حمید في المسند، 1 / 396، الرقم : 1336، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 5 / 37، الرقم : 1643۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ ایک ستون سے ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے۔ پھر جب آپ ﷺ کے لئے منبر تیار ہوگیا تو آپ ﷺ منبر کی طرف تشریف لے گئے تو وہ ستون رونے لگا۔ آپ ﷺ اس کے پاس تشریف لائے اور اسے سینہ سے لگایا تو وہ پر سکون ہوگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اگرمیں اسے سینہ سے نہ لگاتا تو یہ قیامت تک روتا رہتا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ، ابو یعلی اور بخاری نے ’’التاریخ الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور روایت میں ہے کہ (ستون کے رونے کی) آواز تمام اہلِ مسجد نے سنی۔ (اس کا رونا سن کر) حضورنبی اکرم ﷺ اس کے پاس تشریف لائے اور اس پر اپنا دستِ شفقت پھیرا تو وہ پرسکون ہو گیا۔ بعض صحابہ کہنے لگے : اگر حضورنبی اکرم ﷺ اس کے پاس تشریف نہ لاتے تو یہ قیامت تک روتا رہتا۔‘‘
6۔ عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ رضي الله عنهما عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : کَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا خَطَبَ قَامَ فَأَطَالَ الْقِیَامَ فَکَانَ یَشُقُّ عَلَيْهِ قِیَامُهُ فَأُتِيَ بِجِذْعِ نَخْلَةٍ فَحُفِرَ لَهُ وَأُقِيْمَ إِلَی جَنْبِهِ قَائِمًا لِلنَّبِيِّ ﷺ فَکَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا خَطَبَ فَطَالَ الْقِیَامُ عَلَيْهِ وَغَلَبَهُ اسْتَنَدَ إِلَيْهِ فَاتَّکَأَ عَلَيْهِ فَبَصُرَ بِهِ رَجُلٌ کَانَ وَرَدَ الْمَدِيْنَةَ فَرَآهُ قَائِمًا إِلَی جَنْبِ ذَلِکَ الْجِذْعِ فَقَالَ لِمَنْ یَلِيْهِ مِنَ النَّاسِ : لَوْ أَعْلَمُ أَنَّ مُحَمَّدًا یَحْمَدُنِي فِي شَيئٍ یَرْفُقُ بِهِ لَصَنَعْتُ لَهُ مَجْلِسًا یَقُوْمُ عَلَيْهِ فَإِنْ شَاءَ جَلَسَ مَا شَاءَ وَإِنْ شَاءَ قَامَ۔ فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ : اِئْتُوْنِي بِهِ۔ فَأَتَوْهُ بِهِ فَأُمِرَ أَنْ یَصْنَعَ لَهُ هَذِهِ الْمَرَاقِيَ الثَّلاَثَ أَوِ الْأَرْبَعَ، هِيَ الآنَ فِي مِنْبَرِ الْمَدِيْنَةِ، فَوَجَدَ النَّبِيُّ ﷺ فِي ذَلِکَ رَاحَةً فَلَمَّا فَارَقَ النَّبِيُّ ﷺ الْجِذْعَ وَعَمَدَ إِلَی هَذِهِ الَّتِي صُنِعَتْ لَهُ جَزِعَ الْجِذْعُ فَحَنَّ کَمَا تَحِنُّ النَّاقَةُ حِيْنَ فَارَقَهُ النَّبِيُّ ﷺ فَزَعَمَ ابْنُ بُرَيْدَةَ رضی الله عنه عَنْ أَبِيْهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ حِيْنَ سَمِعَ حَنِيْنَ الْجِذْعِ رَجَعَ إِلَيْهِ فَوَضَعَ یَدَهُ عَلَيْهِ وَقَالَ : اِخْتَرْ أَنْ أَغْرِسَکَ فِي الْمَکَانِ الَّذِي کُنْتَ فِيْهِ فَتَکُوْنَ کَمَا کُنْتَ وَإِنْ شِئْتَ أَنْ أَغْرِسَکَ فِي الْجَنَّةِ فَتَشْرَبَ مِنْ أَنْهَارِهَا وَعُیُوْنِهَا فَیَحْسُنَ نَبْتُکَ وَتُثْمِرَ فَیَأْکُلَ أَوْلِیَاءُ اللهِ مِنْ ثَمَرَتِکَ وَنَخْلِکَ فَعَلْتُ۔ فَزَعَمَ أَنَّهُ سَمِعَ مِنَ النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ یَقُوْلُ لَهُ : نَعَمْ، قَدْ فَعَلْتُ مَرَّتَيْنِ۔ فَسُئِلَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ : اِخْتَارَ أَنْ أَغْرِسَهُ فِي الْجَنَّةِ۔ رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ۔
وفي روایۃ : عَنْ عَمْرِو بْنِ یَخْلُو السِّرَحِيِّ عَنِ الشَّافِعِيِّ رضی الله عنه قَالَ : مَا أَعْطَی اللهُ نَبِیًّا مَا أَعْطَی مُحَمَّدًا ﷺ ؟ فَقُلْتُ : أَعْطَی عِيْسَی علیه السلام إِحْیَاءَ الْمَوْتَی فَقَالَ : أَعْطَی مُحَمَّدًا ﷺ حَنِيْنَ الْجِذْعِ الَّذِي کَانَ یَخْطُبُ إِلَی جَنْبِهِ ھُيِّیَٔ لَهُ الْمِنْبَرُ حَنَّ الْجِذْعُ حَتَّی سُمِعَ صَوْتُهُ فَهَذَا أَکْبَرُ مِنْ ذَلِکَ۔
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ۔
6 : أخرجه الدارمي في السنن، 1 / 29، الرقم : 32، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 9 / 116، والبیهقي في الاعتقاد، 1 / 271، وفي دلائل النبوۃ، 6 / 68، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 4 / 391، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 603، الرقم : 3393، وابن کثیر في شمائل الرسول، 1 / 251، والعیني في عمدۃ القاري، 16 / 129، الرقم : 5853۔
’’حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنہما اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب خطاب فرماتے تو کھڑے ہو کر فرماتے اور دوران خطاب کبھی قیام طویل ہو جاتا تو یہ طوالت آپ ﷺ کی طبیعت مقدسہ پر گراں گزرتی، تب ایک کھجور کا خشک تنا ایک گڑھا کھود کر گاڑھ دیا گیا، پس حضور نبی اکرم ﷺ جب خطاب فرماتے اور آپ ﷺ کا قیام طویل اور تھکا دینے والا ہو جاتا تو آپ ﷺ اس کھجور کے خشک تنے کا سہارا لے لیتے اور اس کے ساتھ ٹیک لگا لیتے، پس ایک شخص نے جو کہ یہیں سے مدینہ منورہ آیا ہوا تھا آپ ﷺ کو اس حالت میں دیکھا کہ آپ ﷺ اس کھجور کے تنے کے پہلو میں کھڑے ہیں، تو اس شخص نے اپنے آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہا : اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ محمد مصطفی ﷺ میری اس چیز کو پسند فرمائیں گے جو ان کے لئے آرام دہ ہوگی تو میں ان کے لئے ایک ایسی مسند تیار کردوں، جس پر آپ ﷺ قیام فرما ہو سکیں اور اگر جتنی دیر چاہیں اس پر تشریف فرما بھی ہو جائیں۔ یہ بات حضور نبی اکرم ﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس شخص کو میرے پاس لے کر آؤ۔ تو صحابہ کرام اس شخص کو حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں لے آئے۔ پس اس شخص کو حکم دے دیا گیا کہ وہ تین یا چار پائیدان والا منبر تیار کر دے، جسے آج ’’منبر المدینہ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس میں راحت محسوس کی۔ پس جب حضور نبی اکرم ﷺ نے اس خشک کھجور کے تنے سے جدائی اختیار کی اور اس منبر پر جلوہ افروز ہوئے جو ان کے لئے بنایا گیا تھا، تو وہ خشک لکڑی کا تنا غمناک ہوگیا، اور ایسے دھاڑیں مارنے لگا جیسے اونٹنی اپنے (گمشدہ) بچے کے لئے دھاڑیں مارتی ہے۔ حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنہما اپنے والد سے یہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے اس خشک تنے کی آہ و بکاء سنی تو اس کے پاس تشریف لائے اور اپنا دستِ اقدس اس پر رکھا اور فرمایا : تم چاہے یہ چیز اختیار کر لو کہ میں تمہیں اسی جگہ میں دوبارہ لگا دوں جہاں تم پہلے تھے، اور تم دوبارہ ایسے ہی سرسبز ہو جاؤ جیسا کہ کبھی تھے، اور اگر چاہو تو (اپنی اس خدمت کے صلہ میں جو تم نے میری کچھ عرصہ کی ہے) تمہیں جنت میں لگا دوں، وہاں تم جنت کے نہروں اور چشموں سے سیراب ہوتے رہو، پھر تمہاری پیداوار بہترین ہو جائے اور تم پھل دینے لگو، اور پھر اولیاء اللہ، تیرا پھل کھائیں، اگر تم چاہو تو میں تمہیں ایسا کر دیتا ہوں۔ راوی کا بیان ہے کہ اس نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ نے اسے دو مرتبہ فرمایا : ہاں میں نے ایسا کر دیا۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس کھجور کے تنے نے یہ اختیار کیا کہ میں اسے جنت میں لگاؤں۔‘‘
اس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں حضرت عمرو بن ابی یخلو بیان کرتے ہیں : امام شافعی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو جو کچھ عطا فرمایا ہے وہ کسی اور نبی کو عطا نہیں فرمایا۔ میں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ عطا کیا۔ انہوں نے فرمایا : حضرت محمد ﷺ کو کھجور کا وہ تنا عطا کیا گیا ہے جس کے ساتھ آپ ﷺ ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے۔یہاں تک کہ آپ ﷺ کے لئے منبر تیار کیا گیا۔ جب آپ ﷺ کے لئے منبر تیار کیا گیا وہ کھجور کا تنا رونے لگا یہاں تک کہ اس کے رونے کی آواز سنی گئی اور یہ اس سے بڑا معجزہ ہے۔‘‘
اسے امام ابو نعیم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
7۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ کَانَ یَقُوْمُ یَوْمَ الْجُمُعَةِ فَیُسْنِدُ ظَهْرَهُ إِلَی جِذْعٍ مَنْصُوْبٍ فِي الْمَسْجِدِ فَیَخْطُبُ النَّاسَ فَجَاءَ هُ رُوْمِيٌّ فَقَالَ : أَلاَ أَصْنَعُ لَکَ شَيْئًا تَقْعُدُ عَلَيْهِ وَکَأَنَّکَ قَائِمٌ فَصَنَعَ لَهُ مِنْبَرًا لَهُ دَرَجَتَانِ وَیَقْعُدُ عَلَی الثَّالِثَةِ فَلَمَّا قَعَدَ نَبِيُّ اللهِ ﷺ عَلَی ذَلِکَ الْمِنْبَرِ خَارَ الْجِذْعُ کَخُوَارِ الثَّوْرِ حَتَّی ارْتَجَّ الْمَسْجِدُ حُزْنًا عَلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَنَزَلَ إِلَيْهِ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مِنَ الْمِنْبَرِ فَالْتَزَمَهُ وَهُوَ یَخُوْرُ فَلَمَّا الْتَزَمَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ سَکَتَ ثُمَّ قَالَ : أَمَا وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، لَوْ لَمْ أَلْتَزِمْهُ لَمَا زَالَ هَکَذَا إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ حُزْنًا عَلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَأَمَرَ بِهِ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَدُفِنَ۔
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَصَحَّحَهُ وَاللَّالْکَائِيُّ۔ وَقَالَ الْمَقْدَسِيُّ : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ۔
7 : أخرجه الدارمي في السنن،1 / 32، الرقم : 41، وابن خزیمۃ في الصحیح، 3 / 104، الرقم : 1777، واللالکائي في اعتقاد أهل السنۃ، 4 / 798، الرقم : 1472، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 4 / 356۔357، الرقم : 1519۔1520، والعسقلاني في فتح الباري، 2 / 399۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ کا یہ معمول مبارک تھا کہ آپ ﷺ جمعہ کے دن مسجد میں نصب شدہ ایک کجھور کے تنے سے ٹیک لگا کر کھڑے ہو جاتے اور لوگوں سے خطاب فرماتے۔ ایک رومی صحابی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : (یارسول اللہ!) کیا میں آپ کے لئے ایسی چیز تیار نہ کر لائوں کہ آپ اس پر بیٹھ جائیں اور یوں محسوس ہو کہ آپ قیام فرما ہیں؟ پس اس نے آپ ﷺ کے لئے منبر تیار کیا۔ اس منبر کے دو درجے تھے۔ اور آپ ﷺ تیسرے درجہ پر جلوہ افروز ہوئے۔ جب حضورنبی اکرم ﷺ (پہلی مرتبہ) اس منبر پر جلوہ افروز ہوئے تو وہ کجھور کا تنا حضور نبی اکرم ﷺ کی جدائی کی وجہ سے بیل جیسی آواز نکالنے لگا یہاں تک کہ پوری مسجد اس کی آواز سے غمگین ہوگئی۔ حضورنبی اکرم ﷺ اس کی خاطر منبر سے نیچے تشریف لائے۔ اس کے پاس گئے اور اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا جبکہ وہ بلبلا رہا تھا۔ جب حضورنبی اکرم ﷺ نے اسے اپنے ساتھ لگایا تو وہ پر سکون ہو گیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں محمد( ﷺ ) کی جان ہے اگر میں اسے اپنے ساتھ نہ ملاتا تو یہ اللہ کے رسول کے غم کی وجہ سے قیامت تک اسی طرح روتا رہتا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کے بارے میں حکم فرمایا تو اسے دفن کردیاگیا۔‘‘
اس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے۔
8۔ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنه قَالَ : حَنَّتِ الْخَشَبَةُ الَّتِي کَانَ یَقُوْمُ عِنْدَهَا، فَقَامَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِلَيْهَا : فَوَضَعَ یَدَهُ عَلَيْهَا فَسَکَنَتْ۔
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوْ یَعْلَی وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ۔ وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رَوَاهُ أَبُوْ یَعْلَی عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه وَرِجَالُهُ مُوَثَّقُوْنَ۔
8 : أخرجه الدارمي في السنن، 1 / 32، 442، الرقم : 40، 1565، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 319، الرقم : 31747، وأبو یعلی في المسند، 2 / 328، الرقم : 1067، 4 / 128، الرقم : 2177، 5 / 142، الرقم : 2756، وابن خزیمۃ في الصحیح، 3 / 139، الرقم : 1776، وابن حبان في الصحیح، 14 / 436، الرقم : 6507، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 108، الرقم : 1408، وابن الجعد في المسند، 1 / 466، الرقم : 3219، والهیثمي في مجمع الزوائد، 2 / 180۔181۔
’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ (کھجور کے تنے کی خشک) لکڑی جس کے پاس کھڑے ہو کر حضور نبی اکرم ﷺ خطاب فرمایا کرتے تھے، آپ ﷺ کی محبت میں چیخ چیخ کر رونے لگی تو حضور نبی اکرم ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے اور اپنا دستِ اقدس اس پر رکھا تو وہ خاموش ہو گئی۔‘‘
اس حدیث کو امام دارمی، ابن ابی شیبہ، ابو یعلی، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے اور امام ہیثمی نے فرمایا کہ اسے امام ابو یعلی نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔
9۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ : حَنَّتِ الْخَشَبَةُ حَنِيْنَ النَّاقَةِ الْخَلُوْجِ۔ رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَأَبُوْ یَعْلَی وَالْأَصْبَهَانِيُّ۔
9 : أخرجه الدارمي في السنن، 1 / 30، الرقم : 35، وأبو یعلی في المسند، 2 / 329، الرقم : 1068، والأصبهاني في دلائل النبوۃ، 1 / 155، الرقم : 173، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 603، وابن الأثیر في النهایۃ في غریب الحدیث والأثر، 2 / 60، والخطابي في غریب الحدیث، 1 / 418، وابن الجوزي في غریب الحدیث، 1 / 295۔
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ کھجور کا خشک تنا حضور نبی اکرم ﷺ کے فراق میں اس طرح تڑپا جس طرح وہ اونٹنی تڑپتی اور بے چین ہوتی ہے جس کا (چھوٹا سا) بچہ اس سے جدا کر دیا جائے۔‘‘ اس حدیث کو امام دارمی، ابو یعلی اور اصبہانی نے روایت کیا ہے۔
10۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَخْطُبُ إِلَی لِزْقِ جِذْعٍ فَأَتَاهُ رَجُلٌ رُوْمِيٌّ فَقَالَ : أَصْنَعُ لَکَ مِنْبَرًا تَخْطُبُ عَلَيْهِ، فَصَنَعَ لَهُ مِنْبَرًا هَذَا الَّذِي تَرَوْنَ۔ قَالَ : فَلَمَّا قَامَ النَّبِيُّ ﷺ یَخْطُبُ حَنَّ الْجِذْعُ حَنِيْنَ النَّاقَةِ إِلَی وَلَدِهَا فَنَزَلَ إِلَيْهِ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَضَمَّهُ إِلَيْهِ فَسَکَنَ فَأُمِرَ بِهِ أَنْ یُحْفَرَ لَهُ وَیُدْفَنَ۔
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔
10 : أخرجه الدارمي في السنن، 1 / 31، الرقم : 37، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 319، الرقم : 31749، والعسقلاني في المطالب العالیۃ، 4 / 698، الرقم : 2، وأیضا في فتح الباري، 6 / 602، الرقم : 3390، والعیني في عمدۃ القاري، 16 / 128۔
’’حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کھجور کے ایک خشک تنے کے پاس قیام فرما ہو کر خطاب فرمایا کرتے تھے، تو ایک رومی شخص آیا اور عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میں آپ کے لئے منبر تیار کر دیتا ہوں جس پر تشریف فرما ہو کر آپ خطاب کرسکیں گے۔ پھر (اجازت ملنے پر) اس نے یہ منبر تیار کر دیا جسے تم دیکھ رہے ہو۔ راوی بیان کرتے ہیں : جب حضور نبی اکرم ﷺ اس منبر پر خطاب فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے تو کھجور کا وہ خشک تنا یوں تڑپنے لگا جیسے اونٹنی اپنے (گمشدہ) بچے کے لئے تڑپتی ہے۔ تو حضور نبی اکرم ﷺ اس منبر سے اتر کر اس کھجور کے خشک تنے کی طرف تشریف لائے، اور اسے اپنے سینے سے لگایا تو وہ پر سکون ہوگیا، پھر آپ ﷺ نے اس کے بارے میں حکم دیا کہ (اسی منبر کے نیچے) گڑھا کھود کر اسے اس میں دفن کر دیا جائے۔‘‘
اس حدیث کو امام دارمی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
11۔ عَنِ الصَّعْقِ قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ رضی الله عنه یَقُوْلُ : لَمَّا أَنْ قَدِمَ النَّبِيُّ ﷺ الْمَدِيْنَةَ جَعَلَ یُسْنِدُ ظَهْرَهُ إِلَی خَشَبَةٍ وَیُحَدِّثُ النَّاسَ فَکَثُرُوْا حَوْلَهُ فَأَرَادَ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ یُسْمِعَهُمْ فَقَالَ : ابْنُوْا لِي شَيْئًا أَرْتَفِعْ عَلَيْهِ۔ قَالُوْا : کَيْفَ یَا نَبِيَّ اللهِ؟ قَالَ : عَرِيْشٌ کَعَرِيْشِ مُوْسَی علیه السلام۔ فَلَمَّا أَنْ بَنَوْا لَهُ۔ قَالَ الْحَسَنُ : حَنَّتْ، وَاللهِ، الْخَشَبَةُ۔ قَالَ الْحَسَنُ : سُبْحَانَ اللهِ هَلْ تَشْقَی قُلُوْبُ قَوْمٍ سَمِعُوْا قَالَ أَبُوْ مُحَمَّدٍ : یَعْنِي هَذَا۔ رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ۔
11 : أخرجه الدارمي في السنن، 1 / 31، الرقم : 38۔
’’حضرت صعق بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو دورانِ خطاب اپنی پشت مبارک کھجور کے خشک تنے سے لگا لیا کرتے تھے۔ پھر آپ ﷺ کے سامعین زیادہ ہوگئے، تو آپ ﷺ نے ان سب کو اپنی آواز سنانے کا ارادہ فرمایا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : میرے لئے کوئی ایسی چیز بناؤ جس پر بیٹھ کر میں لوگوں سے خطاب کر سکوں۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! وہ کیا ہو؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ایسا چبوترہ (نما تختہ) جیسا کہ حضرت موسی علیہ السلام کا تھا۔ پس جب انہوں نے وہ منبر بنایا تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قسم! وہ خشک لکڑی (فراقِ رسول ﷺ میں) زار و قطار رو پڑی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سبحان اللہ! کیا ان لوگوں کے دل بدبخت ہو سکتے ہیں جنہوں نے یہ ایمان افروز واقعہ (خود دیکھا ہو اور اس خشک لکڑی کا رونا اپنے کانوں سے) سن رکھا ہو۔‘‘ اس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے۔
12۔ عَنْ مُبَارَکِ بْنِ فُضَالَةَ قَالَ : حَدَّثَنَا الْحَسَنُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَخْطُبُ یَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلَی جَنْبِ خَشَبَةٍ یُسْنِدُ ظَھْرَهُ إِلَيْھَا۔ فَلَمَّا کَثُرَ النَّاسُ قَالَ : ابْنُوْا لِي مِنْبَرًا۔ فَبَنَوْا لَهُ مِنْبَرًا لَهُ عَتَبَتَانِ۔ فَلَمَّا قَامَ عَلَی الْمِنْبَرِ لِیَخْطُبَ، حَنَّتِ الْخَشَبَةُ إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ۔ فَقَالَ أَنَسٌ : وَأَنَا فِي الْمَسْجِدِ فَسَمِعْتُ الْخَشَبَةَ حَنَّتْ حَنِيْنَ الْوَلَدِ۔ فَمَا زَالَتْ تَحِنُّ حَتَّی نَزَلَ إِلَيْهَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَاحْتَضَنَهَا فَسَکَنَتْ۔
قَالَ : وَکَانَ الْحَسَنُ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيْثِ بَکَی ثُمَّ قَالَ : یَا عِبَادَ اللهِ، اَلْخَشَبَةُ تَحِنُّ إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ شَوْقًا إِلَيْهِ لِمَکَانِهِ مِنَ اللهِ۔ فَأَنْتُمْ أَحَقُّ أَنْ تَشْتَاقُوْا إِلَی لِقَائِهِ۔ رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ یَعْلَی۔
12 : أخرجه ابن حبان في الصحیح، 14 / 436، 437، الرقم : 6507، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 108، 109، الرقم : 1409، وابن الجعد في المسند، 1 / 466، الرقم : 3219، وأبو یعلی في المسند، 5 / 142، الرقم : 2756، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 5 / 289، 230، الرقم : 6507، والهیثمي في موارد الظمآن، 1 / 151، الرقم : 574، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 602، وابن کثیر في شمائل الرسول : 240۔
’’حضرت مبارک بن فضالہ کا بیان ہے : ہم سے حضرت حسن بصری رَحِمَهُ اللہ نے بیان کیا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : حضور نبی اکرم ﷺ جمعہ کے دن ایک لکڑی کے ساتھ اپنی کمر کی ٹیک لگا کر خطاب فرمایا کرتے تھے۔ پھر جب لوگ کثرت سے آنے لگے تو آپ ﷺ نے فرمایا : میرے لئے منبر تیار کرو۔ پس لوگوں نے آپ ﷺ کے لئے منبر تیار کیا جس کے دو درجے تھے۔ جب آپ ﷺ خطاب فرمانے کے لیے منبر پر تشریف فرما ہوئے تو وہ لکڑی حضور نبی اکرم ﷺ کے فراق میں رونے لگی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں اس وقت مسجد میں موجود تھا۔ میں نے اس لکڑی کو بچے کی طرح روتے ہوئے سنا۔ وہ لکڑی مسلسل روتی رہی یہاں تک کہ حضور نبی اکرم ﷺ اس کے لیے منبر سے نیچے تشریف لائے اور اسے سینے سے لگایا تو وہ پرسکون ہوگئی۔
’’راوی بیان کرتے ہیں : حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ جب یہ حدیث بیان کرتے تو رو پڑتے اور فرماتے : اے اللہ کے بندو! لکڑی حضور نبی اکرم ﷺ سے ملنے کے شوق میں اور اللہ کے حضور آپ ﷺ کے مقام و مرتبہ کی وجہ سے روتی ہے۔ پس تم اس بات کے زیادہ حقدار ہو کہ تم ان سے ملاقات کا اشتیاق رکھو۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن حبان، طبرانی اور ابویعلی نے روایت کیا ہے۔
1۔ عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه في روایۃ طویلۃ قَالَ : سِرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ حَتَّی نَزَلَ وَادِیًا أَفْیَحَ۔ فَذَھَبَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَقْضِي حَاجَتَهُ۔ فَاتَّبَعْتُهُ بِإِدَاوَةٍ مِنْ مَاءٍ۔ فَنَظَرَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَلَمْ یَرَ شَيْئًا یَسْتَتِرُ بِهِ فَإِذَا شَجَرَتَانِ بِشَاطِیئِ الْوَادِي۔ فَانْطَلَقَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِلَی إِحْدَاھُمَا فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِھَا۔ فَقَالَ : انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللهِ۔ فَانْقَادَتْ مَعَهُ کَالْبَعِيْرِ الْمَخْشُوْشِ، الَّذِي یُصَانِعُ قَائِدَهُ۔ حَتَّی أَتَی الشَّجَرَةَ الْأُخْرَی۔ فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِھَا۔ فَقَالَ : انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللهِ فَانْقَادَتْ مَعَهُ کَذَلِکَ، حَتَّی إِذَا کَانَ بِالْمُنْصَفِ مِمَّا بَيْنَھُمَا، قَالَ : الْتَئِمَا عَلَيَّ بِإِذْنِ اللهِ فَالْتَأَمَتَا۔ فَجَلَسْتُ أُحَدِّثُ نَفْسِي۔ فَحَانَتْ مِنِّي لَفْتَهٌ، فَإِذَا أَنَا بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ مُقْبِـلًا۔ وَإِذَا الشَّجَرَتَانِ قَدِ افْتَرَقَتَا۔ فَقَامَتْ کُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْھُمَا عَلَی سَاقٍ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : یَا جَابِرُ، ھَلْ رَأَيْتَ مَقَامِي؟ قُلْتُ : نَعَمْ، یَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ : فَانْطَلِقْ إِلَی الشَّجَرَتَيْنِ فَاقْطَعْ مِنْ کُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْھُمَا غُصْنًا۔ فَأَقْبِلْ بِھِمَا۔ حَتَّی إِذَا قُمْتَ مَقَامِي فَأَرْسِلْ غُصْنًا عَنْ یَمِيْنِکَ وَعَنْ یَسَارِک۔ قَالَ جَابِرٌ : فَقُمْتُ فَأَخَذْتُ حَجَرًا فَکَسَرْتُهُ وَحَسَرْتُهُ۔ فَانْذَلَقَ لِي۔ فَأَتَيْتُ الشَّجَرَتَيْنِ فَقَطَعْتُ مِنْ کُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْھُمَا غُصْنًا۔ ثُمَّ أَقْبَلْتُ أَجُرُّھُمَا حَتَّی قُمْتُ مَقَامَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ، أَرْسَلْتُ غُصْنًا عَنْ یَمِيْنِي وَغُصْنًا عَنْ یَسَارِي، ثُمَّ لَحِقْتُهُ فَقُلْتُ : قَدْ فَعَلْتُ یَا رَسُوْلَ اللهِ، فَعَمَّ ذَاکَ؟ قَالَ : إِنِّي مَرَرْتُ بِقَبْرَيْنِ یُعَذَّبَانِ۔ فَأَحْبَبْتُ : بِشَفَاعَتِي، أَنْ یُرَفَّهَ عَنْھُمَا مَا دَامَ الغُصْنَانِ رَطْبَيْنِ … الحدیث۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ۔
1 : أخرجه مسلم فی الصحیح، کتاب : الزھد والرقائق، باب : حدیث جابر الطویل، وقصۃ أبي الیَسَر، 4 / 2306، الرقم : 3012، وابن حبان فی الصحیح، 14 / 455۔ 456، الرقم : 6524، والبیهقی فی السنن الکبری، 1 / 94، الرقم : 452، والأصبهاني فی دلائل النبوۃ، 1 / 53۔55، الرقم : 37، وابن عبد البر فی التمهید، 1 / 222، والخطیب التبریزی فی مشکاۃ المصابیح، 2 / 383، الرقم : 5885۔
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ (ایک غزوہ) کے سفر پر روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہم ایک کشادہ وادی میں پہنچے۔ حضور نبی اکرم ﷺ رفع حاجت کے لئے تشریف لے گئے۔ میں پانی وغیرہ لے کر آپ ﷺ کے پیچھے گیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے (اردگرد) دیکھا لیکن آپ ﷺ کو پردہ کے لئے کوئی چیز نظر نہ آئی، وادی کے کنارے دو درخت تھے، حضور نبی اکرم ﷺ ان میں سے ایک درخت کے پاس گئے۔ آپ ﷺ نے اس کی شاخوںمیں سے ایک شاخ پکڑی اور فرمایا : اللہ تعالیٰ کے حکم سے میری اطاعت کر۔ وہ درخت اس اونٹ کی طرح آپ ﷺ کا فرمانبردار ہوگیا جس کی ناک میں نکیل ہو اور وہ اپنے ہانکنے والے کے تابع ہوتا ہے پھر آپ ﷺ دوسرے درخت کے پاس گئے اور اس کی شاخوں میں سے ایک شاخ پکڑ کر فرمایا : اللہ کے اذن سے میری اطاعت کر، وہ درخت بھی پہلے درخت کی طرح آپ ﷺ کے تابع ہو گیا یہاں تک کہ جب آپ ﷺ دونوں درختوں کے درمیان پہنچے تو آپ ﷺ نے ان دونوں درختوں کو ملا دیا اور فرمایا : اللہ کے اذن سے جڑ جاؤ، سو وہ دونوں درخت جڑ گئے۔ میں وہاں بیٹھا اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا، میں نے اچانک دیکھا کہ حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لا رہے ہیں اور وہ دونوں درخت اپنے اپنے سابقہ اصل مقام پر کھڑے تھے۔
’’پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اے جابر! تم نے وہ مقام دیکھا تھا جہاں میں کھڑا تھا۔ میں نے عرض کیا : جی! یا رسول اللہ! فرمایا : ان دونوں درختوں کے پاس جاؤ اور ان میں سے ہر ایک کی ایک ایک شاخ کاٹ کر لاؤ اور جب اس جگہ پہنچو جہاں میں کھڑا تھا تو ایک شاخ اپنی دائیں جانب اور ایک شاخ اپنی بائیں جانب ڈال دینا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کھڑے ہو کر ایک پتھر توڑا اور تیز کیا، پھر میں ان درختوں کے پاس گیا اور ہر ایک سے ایک شاخ توڑی، پھر میں انہیں گھسیٹ کر حضور نبی اکرم ﷺ کے کھڑے ہونے کی جگہ لایا اس جگہ ایک شاخ دائیں جانب اور ایک شاخ بائیں جانب ڈال دی۔ پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے آپ کے حکم پر عمل کر دیا ہے۔ مگر اس عمل کا سبب کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں اس جگہ دو قبروں کے پاس سے گزرا جن میں قبر والوں کو عذاب ہو رہا تھا، میں نے چاہا کہ میری شفاعت کے سبب جب تک وہ شاخیں سرسبز و تازہ رہیں ان کے عذاب میں کمی رہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
2۔ عَنْ یَعْلَی بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ فَأَرَادَ أَنْ یَقْضِيَ حَاجَتَهُ فَقَالَ لِي : ائْتِ تِلْکَ الْأَشَائَتَيْنِ قَالَ وَکِيْعٌ : یَعْنِي النَّخْلَ الصِّغَارَ فَقُلْ لَهُمَا إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَأْمُرُکُمَا أَنْ تَجْتَمِعَا فَاجْتَمَعَتَا فَاسْتَتَرَ بِهِمَا فَقَضَی حَاجَتَهُ ثُمَّ قَالَ لِي : ائْتِهِمَا فَقُلْ لَهُمَا لِتَرْجِعْ کُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْکُمَا إِلَی مَکَانِهَا فَقُلْتُ لَهُمَا : فَرَجَعَتَا۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔
2 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الطهارۃ، باب : الارتیاد للغائط والبول، 1 / 122، الرقم : 339، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 321، الرقم : 31753، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 170، والهیثمي في مجمع الزوائد، 9 / 5، والکناني في مصباح الزجاجۃ، 1 / 50۔
’’یعلی بن مرہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک سفر کے دوران میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا۔ آپ ﷺ نے حاجت کے لیے جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو مجھ سے فرمایا : ان دو درختوں کو بلا لاؤ ۔وکیع فرماتے ہیں کہ چھوٹے کھجور کے درختوں کو۔ مرہ کہتے ہیں کہ میں ان کے پاس گیا اور ان سے کہا تمہیں رسول اللہ ﷺ حکم دیتے ہیں کہ ایک جگہ جمع ہو جاؤ۔ وہ دونوں جمع ہوگئے اور آپ ﷺ نے ان کے ذریعہ پردہ فرمایا۔ جب آپ ﷺ حاجت سے فارغ ہوئے تو مجھ سے فرمایا : جاؤ ان دونوں سے کہو کہ اپنی جگہ پر لوٹ جائیں، میں نے ان سے جاکر کہا وہ اپنی جگہ واپس چلے گئے۔‘‘
اس حدیث کو ابن ماجہ اور ابن ابی شیبہ کی روایت کیا ہے۔
3۔ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ بِمَکَّةَ، فَخَرَجْنَا فِي بَعْضِ نَوَاحِيْھَا، فَمَا اسْتَقْبَلَهُ جَبَلٌ وَلَا شَجَرٌ إِلَّا وَهُوَ یَقُوْلُ : اَلسَّـلَامُ عَلَيْکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَالْحَاکِمُ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ۔
3 : أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : المناقب، باب : 6، 5 / 593، الرقم : 3626، والدارمی فی السنن، باب : ما أکرم الله به نبیه من إیمان الشجر به والبھائم والجن، 1 / 31، الرقم : 21، والحاکم فی المستدرک، 2 / 677، الرقم : 4238، والمقدسی فی الأحادیث المختارۃ، 2 / 134، الرقم : 502، والمنذری فی الترغیب والترھیب، 2 / 150، الرقم : 1880۔
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں مکہ مکرمہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھا۔ ہم مکہ مکرمہ کی ایک طرف چلے تو جو پہاڑ اور درخت بھی آپ ﷺ کے سامنے آتا (وہ آپ ﷺ سے) عرض کرتا : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ ’یا رسول اللہ! آپ پر سلامتی ہو‘۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، دارمی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے اس کو حسن کہا ہے جبکہ حاکم نے کہا ہے کہ یہ صحیح الاسناد ہے۔
4۔ عَنْ أَبِي مُوْسَی الأَشْعَرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : خَرَجَ أَبُوْطَالِبٍ إِلَی الشَّامِ، وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ ﷺ فِي أَشْیَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَلَمَّا أَشْرَفُوْا عَلَی الرَّاھِبِ ھَبَطُوْا، فَحَلُّوْا رِحَالَھُمْ، فَخَرَجَ إِلَيْھِمُ الرَّاھِبُ، وَکَانُوْا قَبْلَ ذَلِکَ یَمُرُّوْنَ بِهِ فَـلَا یَخْرُجُ إِلَيْھِمْ وَلَا یَلْتَفِتُ، قَالَ : فَھُمْ یَحُلُّوْنَ رِحَالَھُمْ، فَجَعَلَ یَتَخَلَّلُھُمُ الرَّاھِبُ، حَتَّی جَاءَ فَأَخَذَ بِیَدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ، فَقَالَ : ھَذَا سَيِّدُ الْعَالَمِيْنَ، ھَذَا رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، یَبْعَثُهُ اللهُ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ، فَقَالَ لَهُ أَشْیَاخٌ مِنْ قُرَيْشٍ : مَا عِلْمُکَ؟ فَقَالَ : إِنَّکُمْ حِيْنَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَةِ لَمْ یَبْقَ شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا، وَلَا یَسْجُدَانِ إِلَّا لِنَبِيٍّ، وَإِنِّي أَعْرِفُهُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوْفِ کَتِفِهِ مِثْلَ التُّفَاحَةِ، ثُمَّ رَجَعَ فَصَنَعَ لَھُمْ طَعَامًا، فَلَمَّا أَتَاھُمْ بِهِ، وَکَانَ ھُوَ فِي رِعْیَةِ الْإِبِلِ، قَالَ : أَرْسِلُوْا إِلَيْهِ، فَأَقْبَلَ وَعَلَيْهِ غَمَامَةٌ تُظِلُّهُ۔ فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْقَوْمِ وَجَدَھُمْ قَدْ سَبَقُوْهُ إِلَی فَيئِ الشَّجَرَةِ، فَلَمَّا جَلَسَ مَالَ فَيئُ الشَّجَرَةِ عَلَيْهِ، فَقَالَ : انْظُرُوْا إِلَی فَيئِ الشَّجَرَةِ مَالَ عَلَيْهِ … قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاللهِ أَیُّکُمْ وَلِیُّهُ؟ قَالُوْا : أَبُوْطَالِبٍ۔ فَلَمْ یَزَلْ یُنَاشِدُهُ حَتَّی رَدَّهُ أَبُوْطَالِبٍ، وَبَعَثَ مَعَهُ أَبُوْبَکْرٍ بِلَالًا، وَزَوَّدَهُ الرَّاھِبُ مِنَ الْکَعْکِ وَالزَّيْتِ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔
4 : أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : المناقب، باب : ما جاء فی نبوۃ النبي ﷺ ، 5 / 590، الرقم : 3620، وابن أبی شیبۃ فی المصنف، 6 / 317، الرقم : 31733، 36541، وابن حبان فی الثقات، 1 / 42، والأصبھانی فی دلائل النبوۃ، 1 / 45، الرقم : 19، والطبری فی تاریخ الأمم والملوک، 1 / 519۔
’’حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو طالب روسائے قریش کے ہمراہ شام کے سفر پر روانہ ہوئے تو حضور نبی اکرم ﷺ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ جب راہب کے پاس پہنچے وہ سواریوں سے اترے اور انہوں نے اپنے کجاوے کھول دیئے۔ راہب ان کی طرف آنکلا حالانکہ (روسائے قریش) اس سے قبل بھی اس کے پاس سے گزرا کرتے تھے لیکن وہ ان کے پاس نہیں آتا تھا اور نہ ہی ان کی طرف کوئی توجہ کرتا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ وہ راہب ان کے درمیان چلنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے قریب پہنچا اور آپ ﷺ کا دستِ اقدس پکڑ کر کہا : یہ تمام جہانوں کے سردار اور رب العالمین کے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث فرمائے گا۔ روسائے قریش نے اس سے پوچھا آپ یہ سب کیسے جانتے ہیں؟ اس نے کہا : جب تم لوگ گھاٹی سے نمودار ہوئے تو کوئی پتھر اور درخت ایسا نہیں تھا جو سجدہ میں نہ گر پڑا ہو۔ اور وہ صرف نبی ہی کو سجدہ کرتے ہیں نیز میں انہیں مہر نبوت سے بھی پہچانتا ہوں جو ان کے کاندھے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مثل ہے۔ پھر وہ واپس چلا گیا اور اس نے ان لوگوں کے لئے کھانا تیار کیا۔ جب وہ کھانا لے آیا تو آپ ﷺ اونٹوں کی چراگاہ میں تھے۔ راہب نے کہا انہیں بلا لو۔ آپ ﷺ تشریف لائے تو آپ کے سرِ انور پر بادل سایہ فگن تھا اور جب آپ لوگوں کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ تمام لوگ (پہلے سے ہی) درخت کے سایہ میں پہنچ چکے ہیں لیکن جیسے ہی آپ ﷺ تشریف فرما ہوئے تو سایہ آپ ﷺ کی طرف جھک گیا۔ راہب نے کہا : درخت کے سائے کو دیکھو وہ آپ ﷺ پر جھک گیا ہے۔ پھر راہب نے کہا : میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ ان کا سرپرست کون ہے؟ انہوں نے کہا ابو طالب! چنانچہ وہ حضرت ابوطالب کو مسلسل واسطہ دیتا رہا (کہ انہیں واپس بھیج دیں) یہاں تک کہ حضرت ابو طالب نے آپ ﷺ کو واپس (مکہ مکرمہ) بھجوا دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کے ہمراہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور راہب نے آپ ﷺ کے ساتھ زادِ راہ کے طور پر کیک اور زیتون پیش کیا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنھما قَالَ : جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ : بِمَا أَعْرِفُ أَنَّکَ نَبِيٌّ؟ قَالَ : إِنْ دَعَوْتُ هَذَا الْعِذْقَ مِنْ هَذِهِ النَّخْلَةِ، أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُوْلُ اللهِ؟ فَدَعَاهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَجَعَلَ یَنْزِلُ مِنَ النَّخْلَةِ حَتَّی سَقَطَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ قَالَ : ارْجِعْ۔ فَعَادَ، فَأَسْلَمَ الْأَعْرَابِيُّ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ۔ وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ۔
5 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : في آیات إثبات نبوۃ النبي ﷺ وما قد خصه الله عزوجل، 5 / 594، الرقم : 3628، والبخاري في التاریخ الکبیر، 3 / 3، الرقم : 6، والحاکم في المستدرک علی الصحیحین، 2 / 676، الرقم : 4237، والطبراني في المعجم الکبیر، 12 / 110، الرقم : 12622، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 9 / 538، 539، الرقم : 527، والبیهقي في الاعتقاد، 1 / 48۔
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : مجھے کیسے علم ہوگا کہ آپ نبی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر میں کھجور کے اس درخت کے اس گچھے کو بلاؤں تو کیا تو گواہی دے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ پھر آپ ﷺ نے اسے بلایا تو وہ درخت سے اترنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے قدموں میں آگرا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : واپس چلے جاؤ۔ تو وہ واپس چلا گیا۔ اس اعرابی نے یہ دیکھ کر اسلام قبول کرلیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، حاکم طبرانی اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے اور امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور امام حاکم بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
6۔ عَنْ یَعْلَی بْنِ سِیَابَةَ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي مَسِيْرٍ لَهُ، فَأَرَادَ أَنْ یَقْضِيَ حَاجَةً، فَأَمَرَ وَدْیَتَيْنِ فَانْضَمَّتْ إِحْدَاھُمَا إِلَی الْأُخْرَی، ثُمَّ أَمَرَھُمَا فَرَجَعَتَا إِلَی مَنَابَتِھِمَا۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ۔
6 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 172، والھیثمي في مجمع الزوائد، 9 / 6۔
’’حضرت یعلی بن سیابہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں ایک سفر میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھا۔ آپ ﷺ نے ایک جگہ قضائے حاجت کا ارادہ فرمایا تو آپ ﷺ نے کھجور کے درختوں کو حکم دیا۔ وہ آپ کے حکم سے ایک دوسرے سے مل گئے (اور آپ ﷺ کے لیے پردہ بن گئے۔ آپ ﷺ نے ان کے پیچھے قضائے حاجت فرمائی)۔ پھر آپ ﷺ نے انہیں دوبارہ حکم دیا تو وہ اپنی اپنی جگہ پر واپس چلے گئے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
7۔ عَنْ یَعْلَی بْنِ مُرَّةَ الثَّقَفِيِّ رضی الله عنه قَالَ : ثُمَّ سِرْنَا فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا، فَنَامَ النَّبِيُّ ﷺ ، فَجَاءَتْ شَجَرَهٌ تَشُقُّ الْأَرْضَ حَتَّی غَشِیَتْهُ، ثُمَّ رَجَعَتْ إِلَی مَکَانِھَا۔ فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ ذَکَرْتُ لَهُ، فَقَالَ : ھِيَ شَجَرَةٌ اسْتَأْذَنَتْ رَبَّھَا عزوجل أَنْ تُسَلِّمَ عَلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَأَذِنَ لَھَا۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ۔
7 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 170، 173، وأبو نعیم في دلائل النبوۃ، 1 / 158، الرقم : 184، والمنذري في الترغیب والترھیب، 3 / 144، الرقم : 3430، الھیثمي في مجمع الزوائد، 9 / 5۔
’’حضرت یعلی بن مروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم روانہ ہوئے اور ہم نے ایک جگہ پڑائو کیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ وہاں محو استراحت ہو گئے۔ اتنے میں ایک درخت زمین کو چیرتا ہوا آیا اور آپ ﷺ پر سایہ فگن ہو گیا پھر کچھ دیر بعد وہ واپس اپنی جگہ پر چلا گیا۔ جب آپ ﷺ بیدار ہوئے تو میں نے آپ ﷺ سے اس واقعہ کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اس درخت نے اپنے رب سے اجازت طلب کی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی بارگاہ میں سلام عرض کرے، پس اس نے اسے اجازت دے دی۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور ابونعیم نے روایت کیا ہے۔
8۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنھما قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَامِرٍ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ کَأَنَّهُ یُدَاوِي وَیُعَالِجُ فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ، إِنَّکَ تَقُوْلُ أَشْیَاءَ؛ هَلْ لَکَ أَنْ أُدَاوِیَکَ؟ قَالَ : فَدَعَاهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِلَی اللهِ ثُمَّ قَالَ : هَلْ لَکَ أَنْ أُرِیَکَ آیَةً؟ وَعِنْدَهُ نَخْلٌ وَشَجَرٌ۔ فَدَعَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عِذْقًا مِنْهَا، فَأَقْبَلَ إِلَيْهِ وَهُوَ یَسْجُدُ، وَیَرْفَعُ رَأْسَهُ وَیَسْجُدُ، وَیَرْفَعُ رَأْسَهُ حَتَّی انْتَهَی إِلَيْهِ ﷺ ، فَقَامَ بَيْنَ یَدَيْهِ۔ ثُمَّ قَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ارْجِعْ إِلَی مَکَانِکَ۔ فَقَالَ الْعَامِرِيُّ : وَاللهِ، لَا أُکَذِّبُکَ بِشَيئٍ تَقُوْلُهُ أَبَدًا، ثُمَّ قَالَ : یَا آلَ عَامِرِ بْنِ صَعْصَعَةَ، وَاللهِ، لَا أُکَذِّبُهُ بِشَيئٍ۔ رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ یَعْلَی وَالطَّبَرَانِيُّ۔
8 : أخرجه ابن حبان في الصحیح، 14 / 454، الرقم : 6523، وأبو یعلی في المسند، 4 / 237، الرقم : 2350، والطبراني في المعجم الکبیر، 12 / 100، الرقم : 12595، وأبو نعیم في دلائل النبوۃ، 2 / 506، والهیثمي في موارد الظمآن، 1 / 520، الرقم : 2111، وفي مجمع الزوائد، 9 / 10۔
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : قبیلہ بنو عامر کا ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا۔ وہ شخص علاج معالجہ کرنے والا (حکیم) دکھائی دیتا تھا۔ پس اس نے کہا : اے محمد! آپ بہت سی (نئی) چیزیں (امورِ دین میں سے) بیان کرتے ہیں۔ (پھر اس نے ازراہ تمسخر کہا : ) کیا آپ کو اس چیز کی حاجت ہے کہ میں آپ کا علاج کروں؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اسے اللہ کے دین کی دعوت دی پھر فرمایا : کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں کوئی معجزہ دکھاؤں؟ آپ ﷺ کے پاس کھجور اور کچھ اور درخت تھے۔ آپ ﷺ نے کھجور کی ایک شاخوں والی ٹہنی کواپنی طرف بلایا، وہ ٹہنی (کھجور سے جدا ہو کر) آپ کی طرف سجدہ کرتے اور سر اٹھاتے، سجدہ کرتے اور پھر سر اٹھاتے ہوئے بڑھی یہاں تک کہ آپ کے قریب پہنچ گئی، پھر آپ ﷺ کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے حکم دیا کہ وہ اپنی جگہ واپس چلی جائے۔ (یہ واقع دیکھ کر) قبیلہ بنو عامر کے اس شخص نے کہا : خدا کی قسم! میں کبھی بھی کسی شے میں بھی آپ کی تکذیب نہیں کروں گا جو آپ فرماتے ہیں۔ پھر اس نے برملا اعلان کرکے کہا : اے آلِ عامر بن صعصعہ! اللہ کی قسم! میں انہیں (یعنی حضور نبی اکرم ﷺ کو) آئندہ کسی چیز میں نہیں جھٹلاؤں گا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن حبان، ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved