1۔ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَيْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْھُنَّ جُزْئًا ثُمَّ ادْعُھُنَّ یَاْتِيْنَکَ سَعْیًا ط وَاعْلَمْ اَنَّ اللهَ عَزِيْزٌ حَکِيْمٌo
(البقرۃ، 2 : 260)
’’ارشاد فرمایا : سو تم چار پرندے پکڑ لو پھر انہیں اپنی طرف مانوس کر لو پھر (انہیں ذبح کر کے) ان کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو پھر انہیں بلاؤ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آ جائیں گے، اور جان لو کہ یقینا اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہےo‘‘
2۔ اَلَمْ یَرَوْا اِلَی الطَّيْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِيْ جَوِّ السَّمَآء ط مَا یُمْسِکُھُنَّ اِلَّا اللهُ ط اِنَّ فِيْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَo
(النحل، 16 : 79)
’’کیا انہوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا جو آسمان کی ہوا میں (قانونِ حرکت و پرواز کے) پابند (ہو کر اڑتے رہتے) ہیں، انہیں اللہ کے (قانون کے) سوا کوئی چیز تھامے ہوئے نہیں ہے۔ بیشک اس (پرواز کے اصول) میں ایمان والوں کے لئے نشانیاں ہیںo‘‘
3۔ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ط وَکُنَّا فٰعِلِيْنَo
(الأنبیاء، 21 : 79)
’’اور ہم نے پہاڑوں اور پرندوں (تک) کو داؤد (علیہ السلام) کے (حکم کے) ساتھ پابند کر دیا تھا وہ (سب ان کے ساتھ مل کر) تسبیح پڑھتے تھے، اور ہم ہی (یہ سب کچھ) کرنے والے تھےo‘‘
4۔ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللهَ یُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰـوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّيْرُ صٰٓـفّٰتٍ ط کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيْحَهٗ ط وَاللهُ عَلِيْمٌم بِمَا یَفْعَلُوْنَo
(النور، 24 : 41)
’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ (سب) اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں اور پرندے (بھی فضائوں میں) پر پھیلائے ہوئے (اسی کی تسبیح کرتے ہیں)، ہر ایک (اللہ کے حضور) اپنی نماز اور اپنی تسبیح کو جانتا ہے، اور اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو وہ انجام دیتے ہیںo‘‘
5۔ فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيْحَ تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖ رُخَآءً حَيْثُ اَصَابَo وَالشَّیٰطِيْنَ کُلَّ بَنَّآءٍ وَّغَوَّاصٍo وَّاٰخَرِيْنَ مُقَرَّنِيْنَ فِی الْاَصْفَادِo
(ص، 38 : 36۔38)
’’پھر ہم نے اُن کے لئے ہوا کو تابع کر دیا، وہ اُن کے حکم سے نرم نرم چلتی تھی جہاں کہیں (بھی) وہ پہنچنا چاہتےo اور کل جنّات (و شیاطین بھی ان کے تابع کر دیئے) اور ہر معمار اور غوطہ زَن (بھی)o اور دوسرے (جنّات) بھی جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھےo‘‘
1۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَعْفَرٍ رضی الله عنه قَالَ : فَدَخَلَ حَائِطًا لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَإِذَا جَمَلٌ۔ فَلَمَّا رَأَی النَّبِيَّ ﷺ حَنَّ وَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ۔ فَأَتَاهُ النَّبِيُّ ﷺ فَمَسَحَ ذِفْرَاهُ فَسَکَتَ فَقَالَ : مَنْ رَبُّ ھَذَا الْجَمَلِ؟ لِمَنْ ھَذَا الْجَمَلُ؟ فَجَائَ فَتًی مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ : لِي، یَا رَسُوْلَ اللهِ۔ فَقَالَ : أَفَـلَا تَتَّقِي اللهَ فِي ھَذِهِ الْبَھِيْمَةِ الَّتِي مَلَّکَکَ اللهُ إِيَّاھَا، فَإِنَّهُ شَکَا إِلَيَّ أَنَّکَ تُجِيْعُهُ وَتُدْئِبُهُ۔ رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ۔
1 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : الجهاد، باب : ما یؤمر به من القیام علی الدواب والبھائم، 3 / 23، الرقم : 2549، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 205، الرقم : 1754، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 9 / 159، الرقم : 135، وأبو عوانۃ فی المسند، 1 : 197، وأبو المحاسن فی معتصر المختصر، 2 : 19، والمزی فی تهذیب الکمال، 6 : 165، الرقم : 1232، والشافعی فی تاریخ مدینۃ دمشق، 27، 249، الرقم : 3222۔
’’حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : حضور نبی اکرم ﷺ ایک انصاری شخص کے باغ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک اُونٹ تھا۔ جب اس نے حضور نبی اکرم ﷺ کو دیکھا تو وہ رو پڑا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ حضور نبی اکرم ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس کے سر پر دست شفقت پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اس اُونٹ کا مالک کون ہے اور یہ کس کا اونٹ ہے؟ انصار کا ایک نوجوان حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! یہ میرا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم اس بے زبان جانور کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایا ہے۔ اس نے مجھے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے بہت زیادہ کام لیتے ہو۔‘‘ اس حدیث کو امام ابوداود اور احمد نے روایت کیا ہے۔
2۔ عَنْ یَعْلَی بْنِ سِیَابَةَ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي مَسِيْرٍ لَهُ، فَأَرَادَ أَنْ یَقْضِيَ حَاجَةً، فَأَمَرَ وَدْیَتَيْنِ فَانْضَمَّتْ إِحْدَاھُمَا إِلَی الْأُخْرَی، ثُمَّ أَمَرَھُمَا فَرَجَعَتَا إِلَی مَنَابِتِھِمَا۔ وَجَائَ بَعِيْرٌ فَضَرَبَ بِجِرَانِهِ إِلَی الْأَرْضِ ثُمَّ جَرْجَرَ حَتَّی ابْتَلَّ مَا حَوْلَهُ۔ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : أَتَدْرُوْنَ مَا یَقُوْلُ الْبَعِيْرُ؟ إِنَّهُ یَزْعُمُ أَنَّ صَاحِبَهُ یُرِيْدُ نَحْرَهُ۔ فَبَعَثَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ : أَوَاھِبُهُ أَنْتَ لِي؟ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا لِي مَالٌ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ۔ قَالَ : اسْتَوْصِ بِهِ مَعْرُوْفًا۔ فَقَالَ : لَا جَرَمَ لَا أُکْرِمُ مَالًا لِي کَرَامَتُهُ، یَا رَسُوْلَ اللهِ۔ وَأَتَی عَلَی قَبْرٍ یُعَذَّبُ صَاحِبُهُ فَقَالَ : إِنَّهُ یُعَذَّبُ فِي غَيْرِ کَبِيْرٍ۔ فَأَمَرَ بِجَرِيْدَةٍ فَوُضِعَتْ عَلَی قَبْرِهِ فَقَالَ : عَسَی أَنْ یُخَفَّفَ عَنْهُ مَا دَامَتْ رَطْبَةً۔ رَوَاهُ أَحْمَدَُ۔
2 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 172، وابن حمید في المسند، 1 / 154، الرقم : 405، والخطیب البغدادی فی موضح أوھام الجمع والتفریق، 1 / 272، الرقم : 271 والنووي فی ریاض الصالحین، 1 / 243، الرقم : 243، والھیثمي في مجمع الزوائد، 9 / 6۔
’’حضرت یعلی بن سیابہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں ایک سفر میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھا۔ آپ ﷺ نے ایک جگہ قضائے حاجت کا ارادہ فرمایا تو آپ ﷺ نے کھجور کے دو درختوں کو حکم دیا۔ وہ آپ ﷺ کے حکم سے ایک دوسرے سے مل گئے (اور آپ ﷺ کے لیے پردہ بن گئے۔ آپ ﷺ نے ان کے پیچھے قضائے حاجت فرمائی)۔ پھر آپ ﷺ نے انہیں دوبارہ حکم دیا تو وہ اپنی اپنی جگہ پر واپس آ گئے۔ پھر ایک اونٹ آپ ﷺ کی خدمت میں اپنی گردن کو زمین پر رگڑتا ہوا حاضر ہوا۔ وہ اتنا بلبلایا کہ اس کے اردگرد کی جگہ گیلی ہو گئی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ یہ اونٹ کیا کہہ رہا ہے؟ اس کا خیال ہے کہ اس کا مالک اسے ذبح کرنا چاہتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس کے مالک کی طرف آدمی بھیجا (کہ اسے بلا لائے۔ جب وہ آ گیا تو) آپ ﷺ نے اس سے فرمایا : کیا یہ اونٹ مجھے ہبہ کرتے ہو؟ اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے اس سے بڑھ کر اپنے مال میں سے کوئی چیز محبوب نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں تم سے اس کے معاملہ میں بھلائی کی توقع رکھتا ہوں۔ اس صحابی نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اپنے تمام مال سے بڑھ کر اس کا خیال رکھوں گا۔ پھر آپ ﷺ کا گزر ایک قبر سے ہوا جس کے اندر موجود میت کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اسے گناہ کبیرہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا۔ پھر آپ ﷺ نے ایک درخت کی ٹہنی طلب فرمائی اور اسے اس قبر پر رکھ دیا اور فرمایا : جب تک یہ ٹہنی خشک نہیں ہو جاتی اسے عذاب میں تخفیف دی جاتی رہے گی۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
3۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ : غَزَوْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ۔ قَالَ : فَتَـلَاحَقَ بِيَ النَّبِيُّ ﷺ وَأَنَا عَلَی نَاضِحٍ لَنَا قَدْ أَعْیَا، فَلَا یَکَادُ یَسِيْرُ۔ فَقَالَ لِي : مَا لِبَعِيْرِکَ؟ قَالَ : قُلْتُ : عَیِيَ۔ قَالَ : فَتَخَلَّفَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَزَجَرَهُ وَدَعَا لَهُ۔ فَمَا زَالَ بَيْنَ یَدَيِ الإِبِلِ قُدَّامَھَا یَسِيْرُ۔ فَقَالَ لِي : کَيْفَ تَرَی بَعِيْرَکَ؟ قَالَ : قُلْتُ : بِخَيْرٍ، قَدْ أَصَابَتْهُ بَرَکَتُکَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
3 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الجهاد والسیر، باب : استئذان الرجل الإمام، 3 / 1083، الرقم : 2805، ومسلم في کتاب : المساقاۃ، باب : بیع البعیر واستثناء رکوبه، 3 / 1221، الرقم : 715، وأبوعوانۃ في المسند، 3 / 249، الرقم : 4843۔
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں ایک غزوہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھا۔ وہ فرماتے ہیں کہ اتفاق سے حضور نبی اکرم ﷺ میرے ساتھـ آملے میں اپنے پانی ڈھونے والے اونٹ پر سوار تھا جو تھکاوٹ کے باعث چل نہیں رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے اونٹ کو کیا ہو گیا ہے؟ ان کا بیان ہے کہ میں عرض گزار ہوا : یہ تھک گیا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ پیچھے کی جانب تشریف لائے، اونٹ کو ڈانٹا اور اس کے لیے دعا کی تو وہ آسانی سے دوسرے اونٹوں سے آگے چلنے لگا۔ پھر ارشاد فرمایا : اب تم اپنے اونٹ کو کیسا دیکھتے ہو؟ میں نے عرض کی : اب تو اچھا ہے۔ اسے آپ ﷺ کی برکت حاصل ہوگئی ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
4۔ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ قَالَ : سَمِعْتُ شَيْخًا مِنْ قَيْسٍ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِيْهِ أَنَّهُ قَالَ : جَاءَ نَا النَّبِيُّ ﷺ وَعِنْدَنَا بَکْرَةٌ صَعْبَةٌ لَا یُقْدَرُ عَلَيْھَا قَالَ : فَدَنَا مِنْھَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ، فَمَسَحَ ضَرْعَھَا، فَحَفَلَ فَاحْتَلَبَ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ۔
4 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 73، الرقم : 19777، والحارث في المسند، 1 / 368، الرقم : 268، والھیثمي في مجمع الزوائد، 3 / 25، والبیھقي في دلائل النبوۃ، 6 / 29۔
’’حضرت حماد بن سلمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے بنی قیس کے ایک بزرگ کو اپنے والد کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم ﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے۔ ہمارے پاس ایک سرکش اونٹنی تھی جو قابو میں نہ آتی تھی۔ حضور نبی اکرم ﷺ اس اونٹنی کے پاس گئے، اس کے تھنوں پر دستِ اقدس پھیرا تو وہ دودھ سے بھر گئے۔ پھر آپ ﷺ نے انہیں دوہا۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ : کُنَّا جُلُوْسًا حَوْلَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ، إِذْ دَخَلَ أَعْرَابِيٌّ جَھُوْرِيٌّ، بَدَوِيٌّ یَمَانِيٌّ، عَلَی نَاقَةٍ حَمْرَاءَ، فَأَنَاخَ بِبَابِ الْمَسْجِدِ فَدَخَلَ فَسَلَّمَ ثُمَّ قَعَدَ، فَلَمَّا قَضَی نُحْبَهُ، قَالُوْا : یَارَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ النَّاقَةَ الَّتِي تَحْتَ الْأَعْرَابِيِّ سَرِقَةٌ، قَالَ : أَثَمَّ بَيِّنَةٌ؟ قَالُوْا : نَعَمْ، یَارَسُوْلَ اللهِ، قَالَ : یَا عَلِيُّ، خُذْ حَقَّ اللهِ مِنَ الْأَعْرَابِيِّ إِنْ قَامَتْ عَلَيْهِ الْبَيِّنَةُ، وَإِنْ لَمْ تَقُمْ، فَرُدَّهُ إِلَيَّ، قَالَ : فَأَطْرَقَ الْأَعْرَابِيُّ سَاعَةً، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ : قُمْ یَا أَعْرَابِيُّ، لِأَمْرِ اللهِ وَإِلَّا فَأَدِلَّ بِحُجَّتِکَ، فَقَالَتِ النَّاقَةُ مِنْ خَلْفِ الْبَابِ : وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْکَرَامَةِ یَارَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ ھَذَا مَا سَرَقَنِي، وَلَا مَلَکَنِي أَحَدٌ سِوَاهُ۔ فَقَال لَهُ النَّبِيُّ ﷺ : یَا أَعْرَابِيُّ، بِالَّذِي أَنْطَقَھَا بِعُذْرِکَ، مَا الَّذِي قُلْتَ؟ قَالَ : قُلْتُ : اَللَّھُمَّ إِنَّکَ لَسْتَ بِرَبٍّ اسْتَحْدَثْنَاکَ، وَلَا مَعَکَ إِلَـهٌ أَعَانَکَ عَلَی خَلْقِنَا، وَلَا مَعَکَ رَبٌّ فَنَشُکُّ فِي رَبُوْبِيَّتِکَ، أَنْتَ رَبُّنَا کَمَا نَقُوْلُ، وَفَوْقَ مَا یَقُوْلُ الْقَائِلُوْنَ۔ أَسْأَلُکَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَی مُحَمَّدٍ، وَأَنْ تُبَرِّئَنِي بِبَرَاءَ تِي۔ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ : وَالَّذِي بَعَثَنِي بِالْکَرَامَةِ یَا أَعْرَابِيُّ، لَقَدْ رَأَيْتُ الْمَـلَائِکَةَ یَبْتَدِرُوْنَ أَفْوَاهَ الْأَزِقَّةِ یَکْتُبُوْنَ مَقَالَتَکَ، فَأَکْثِرِ الصَّلَاةَ عَلَيَّ۔
رَوَاهُ الْحَاکِمُ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : رَوَاهُ هَذَا الْحَدِيْث عَنْ آخِرِهِمْ ثِقَاتٌ وَیَحْیَی بْنُ عَبْدِ اللهِ الْمِصْرِيُّ هَذَا لَسْتُ أَعْرِفُهُ بِعَدَالَةٍ وَلَا جَرْحٍ۔
5 : أخرجه الحاکم في المستدرک 2 / 676، الرقم : 4236۔
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک بلند آواز والا یمنی دیہاتی بدو اپنی سرخ اونٹنی کے ساتھ ادھر آیا، اس نے اپنی اونٹنی مسجدکے دروازے کے سامنے بٹھائی اور خود آکر بیٹھ گیا پھر جب اس نے اپنا کام پورا کر لیا تو صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ! یہ اونٹنی جو دیہاتی کے قبضہ میں ہے چوری کی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : کیا اس پر کوئی دلیل ہے؟ صحابہ نے عرض کیا : ہاں، یارسول اللہ! تو آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اگراس اعرابی پر چوری کی گواہی مل جاتی ہے تو اس سے اللہ کا حق لو (یعنی اس پر چوری کی حد جاری کرو) اور اگر چوری کی شہادت نہیں ملتی تو اس کو میری طرف لوٹا دو۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر اعرابی نے کچھ دیر کے لئے اپنا سر جھکایا۔ پھر حضور ﷺ نے فرمایا : اے اعرابی! اللہ کے حکم کی پیروی کرنے کے لئے کھڑے ہو جاؤ وگرنہ میں تمہاری حجت سے دلیل پکڑوں گا، پس اسی اثناء میں دروازے کے پیچھے سے اونٹنی بول پڑی اور کہنے لگی : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ﷺ کو بڑی عزت وکرامت کے ساتھ مبعوث فرمایا! نہ تو اس شخص نے مجھے چوری کیا ہے اور نہ ہی اس کے سوا میرا کوئی اور مالک ہے۔ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قسم ہے تجھے اس ذات کی جس نے اس اونٹنی کو تیرا عذر بیان کرنے کے لئے قوتِ گویائی بخشی، اے اعرابی یہ بتا تو نے (سر جھکا کر) کیا کہا تھا! اعرابی نے عرض کیا : یارسول اللہ! میں نے کہا : اے اللہ! تو ایسا خدا نہیں ہے جسے ہم نے پیدا کیاہو، نہ ہی تیرے ساتھ کوئی اور معبود ہے جس نے مخلوق بنانے پر تیری اعانت کی ہو، اور نہ ہی تیرے ساتھ کوئی اور رب ہے کہ ہم تیری ربوبیت میں شک کریں، تو ہمارا رب ہے جیسا کہ ہم کہتے ہیں اور کہنے والوں کے کہنے سے بھی بہت بلندہے۔ پس اے میرے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو حضور ﷺ پر درود بھیج اور یہ کہ مجھے میرے الزام سے بری کر دے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس رب کی قسم جس نے مجھے عزت کے ساتھ مبعوث کیا! اے اعرابی! میں نے دیکھا کہ فرشتے تمہاری بات کو لکھنے کے لئے تنگ گلیوں کے موڑوں سے لپک کر آ رہے ہیں، پس تُو کثرت سے مجھ پر درود بھیجا کر۔‘‘
اسے امام حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کو ثقات نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں یحییٰ بن عبد اللہ مصری کے بارے میں کوئی جرح و تعدیل میں نہیں جانتا۔
1۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : دَخَلَ النَّبِيُّ ﷺ حَائِطًا لِلْأَنْصَارِ، وَمَعَهُ أَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ وَرِجَالٌ مِنَ الْأَنْصَارِ۔ قَالَ : وَفِي الْحَائِطِ غَنَمٌ فَسَجَدَتْ لَهُ۔ قَالَ أَبُوْبَکْرٍ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّا نَحْنُ أَحَقُّ بِالسُّجُوْدِ لَکَ مِنْ هَذِهِ الْغَنَمِ۔ فَقَالَ : إِنَّهُ لَا یَنْبَغِي أَنْ یَسْجُدَ أَحَدٌ لِأَحَدٍ۔ وَلَوْ کَانَ یَنْبَغِي أَنْ یَسْجُدَ أَحَدٌ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا۔ رَوَاهُ أَبُونُعَيْمٍ وَالْمَقْدَسِيُّ وَهَذَا لَفْظُهُ۔
1 : أخرجه أبو نعیم في دلائل النبوۃ، 2 / 379، الرقم : 276، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 6 / 130، الرقم : 2129، وفي 6 / 131، الرقم : 2130۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک دفعہ حضور نبی اکرم ﷺ ، حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور چند دیگر انصار صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہمراہ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ باغ میں بکریاں تھیں۔ انہوں نے آپ ﷺ کو سجدہ کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ان بکریوں سے زیادہ ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کسی انسان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرے اور اگر ایک دوسرے کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو نعیم اور مقدسی نے روایت کیا ہے، اور مذکورہ الفاظ مقدسی کے ہیں۔
2۔ عَنِ الْوَضِيْنِ بْنِ عَطَاءٍ رضی الله عنه أَنَّ جَزَّارًا فَتَحَ بَابًا عَلَی شَاةٍ لِیَذْبَحَھَا، فَانْفَلَتَتْ مِنْهُ حَتَّی أَتَتِ النَّبِيَّ ﷺ وَاتَّبَعَھَا۔ فَأَخَذَھَا یَسْحَبُھَا بِرِجْلِھَا۔ فَقَالَ لَھَا النَّبِيُّ ﷺ : اِصْبِرِي لِأَمْرِ اللهِ، وَأَنْتَ یَا جَزَّارُ، فَسُقْھَا إِلَی الْمَوْتِ سَوْقًا رَفِيْقًا۔
رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ۔
2 : أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 4 / 493، الرقم : 8609، والمنذري في الترغیب والترھیب، 2 / 102، الرقم : 1675، وابن رجب الحنبلی في جامع العلوم والحکم، 1 / 156، والمناوي في فیض القدیر، 6 : 135۔
’’حضرت وضین بن عطا رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک قصاب نے بکری ذبح کرنے کے لئے دروازہ کھولا تو وہ اس کے ہاتھ سے نکل بھاگی اور حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں آ گئی۔ وہ قصاب بھی اس کے پیچھے آ گیا اور اس بکری کو پکڑ کر ٹانگ سے کھینچنے لگا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے بکری سے فرمایا : اللہ عزوجل کے حکم پر صبر کر اور اے قصاب! تو اسے نرمی کے ساتھ موت کی طرف لے جا۔‘‘
اس حدیث کو امام عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔
3۔ عَنِ ابْنَةٍ لِخُبَابٍ رضي الله عنهما قَالَتْ : خَرَجَ أَبِي فِي غَزَاةٍ فِي عَھْدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَکَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَتَعَاھَدُنَا فَیَحْلِبُ عَنْزًا لَنَا فَکَانَ یَحْلِبُھَا فِي جَفْنَةٍ لَنَا فَتَمْتَلِئُ فَلَمَّا قَدِمَ خُبَابٌ حَلَبَھَا فَعَادَ حِـلَابُھَا کَمَا کَانَ۔
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ۔
3 : أخرجه ابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 322، الرقم : 31761، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 111، الرقم : 21108، والطبراني في المعجم الکبیر، 25 / 187، الرقم : 640، والھیثمي في مجمع الزوائد، 8 / 312۔
’’حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی بیٹی روایت کرتی ہیں کہ میرے والد، حضورنبی اکرم ﷺ کے زمانہ مبارکہ میں کسی غزوہ میں (شرکت کی غرض سے گھرسے) باہر تشریف لے گئے۔ (والد کی غیر موجودگی میں) حضورنبی اکرم ﷺ ہماری دیکھ بھال فرماتے تھے اور ہماری بکری کا دودھ (بھی) دوہتے تھے۔ آپ ﷺ اس کا دودھ ہمارے پیالے میں دوہتے تھے یہاں تک کہ وہ بھر جاتا۔ جب حضرت خباب رضی اللہ عنہ (واپس) گھر تشریف لائے اور بکری کا دودھ دوہا تو اس (کے تھنوں میں دوبارہ) دودھ لوٹ آیا جیسے وہ پہلے تھا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ، احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
4۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ غُلَامًا یَافِعًا أَرْعَی غَنَمًا لِعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ، فَجَاءَ النَّبِيُّ ﷺ وَأَبُوْ بَکْرٍ رضی الله عنه وَقَدْ فَرَّا مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ فَقَالَا : یَا غُـلَامُ، ھَلْ عِنْدَکَ مِنْ لَبَنٍ تَسْقِيْنَا؟ قُلْتُ : إِنِّي مُؤْتَمَنٌ وَلَسْتُ سَاقِیَکُمَا، فَقَالَ النَّبِيِّ ﷺ : هَلْ عِنْدَکَ مِنْ جَذَعَةٍ لَمْ یَنْزُ عَلَيْھَا الْفَحْلُ؟ قُلْتُ : نَعَمْ، فَأَتَيْتُھُمَا بِھَا، فَاعْتَقَلَھَا النَّبِيُّ ﷺ وَمَسَحَ الضَّرْعَ، وَدَعَا فَحَفَلَ الضَّرْعُ ثُمَّ أَتَاهُ أَبُوْ بَکْرٍ رضی الله عنه بِصَخْرَةٍ مُنْقَعِرَةٍ، فَاحْتَلَبَ فِيْھَا، فَشَرِبَ، وَشَرِبَ أَبُوْ بَکْرٍ، ثُمَّ شَرِبْتُ، ثُمَّ قَالَ لِلضَّرْعِ : اقْلِصْ، فَقَلَصَ، فَأَتَيْتُهُ بَعْدَ ذَلِکَ، فَقُلْتُ : عَلِّمْنِي مِنْ ھَذَا الْقَوْلِ، قَالَ : إِنَّکَ غُلَامٌ مُعَلَّمَ قَالَ : فَأَخَذْتُ مِنْ فِيْهِ سَبْعِيْنَ سُوْرَةً لَا یُنَازِعُنِي فِيْھَا أَحَدٌ۔
رَوَاهُ أَحْمَد وَ ابْنُ أبِي شَيْبَةَ وَ أَبُوْ یَعْلَی۔
4 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 462، الرقم : 4412، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 327، الرقم : 31801، وأبو یعلی في المسند، 8 / 402، الرقم : 4985، وفي 9 / 210، الرقم : 5311، والطیالسي في المسند، 1 / 47، الرقم : 353، والشاشي في المسند، 2 / 122، الرقم : 659، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 125، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 150، والأصبهاني في دلائل النبوۃ، 1 / 58، الرقم : 39، وابن حجر العسقلاني في مقدمۃ فتح الباري، 1 / 299، والطبري في ریاض النضرۃ، 1 / 464، الرقم : 385، وابن جوزي في صفوۃ الصفوۃ، 12 / 395۔
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک نو عمر لڑکا تھا اور عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چراتا تھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ادھر تشریف لائے اور آپ دونوں مشرکین سے رائے فرار اختیار کر کے آئے تھے۔ انہوں نے فرمایا : اے لڑکے! کیا تمہارے پاس ہمیں پلانے کے لئے دودھ ہے؟ میں نے کہا : میں (کسی کی بکریوں پر) امین ہوں لهٰذا میں آپ کو دودھ نہیں پلا سکتا، پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس ایک سالہ بکری ہے جس سے بکرے نے جفتی نہ کی ہو؟ میں نے عرض کیا : ہاں (ہے)، میں ان دونوں کو اس بکری کے پاس لے کر آیا تو اسے حضور نبی اکرم ﷺ نے پکڑا اور اس کے تھن پر ہاتھ پھیرا اور دعا کی تو وہ تھن دودھ سے بھر آیا پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے دوہا، پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پیندے والا پتھر آپ ﷺ کے پاس لے کر حاضر ہوئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس میں دودھ دوہا، پھر آپ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وہ دودھ نوش فرمایا اور پھر میں نے وہ دودھ پیا۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے تھن کو حکم دیا کہ وہ سکڑ جائے تو وہ سکڑ گیا (جس طرح وہ دودھ دوہنے سے پہلے تھا) پھر میں حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی (یا رسول اللہ!) جو کلمات آپ نے پڑھے وہ) مجھے بھی سکھائیے آپ ﷺ نے فرمایا : بے شک تو سیکھنے والا لڑکا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے ستر سورتیں سیکھیں، اور اس چیز میں میرا کوئی مدمقابل نہیں ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد، ابن ابی شیبہ اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنْ جَيْشِ بْنِ خَالِدٍ صَاحِبِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ حِيْنَ خَرَجَ مِنْ مَکَّةَ وَخَرَجَ مِنْهَا مُهَاجِرًا إِلَی الْمَدِيْنَةِ وَھُوَ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَمَوْلَی أَبِي بَکْرٍ عَامِرُ بْنُ فُھَيْرَةٍ رضي الله عنهما وَدَلِيْلُھُمَا اللَّيْثِيُّ عَبْدُ اللهِ بْنُ الْأَرِيْقَطِ، مَرُّوْا عَلَی خَيْمَتَي أُمِّ مَعْبَدٍ الْخُزَاعِيَّةِ وَکَانَتْ بَرْزَةً جَلْدَةً تَحْتَبِیُٔ بِفَنَاءِ الْقُبَّةِ، ثُمَّ تَسْقِي وَتُطْعِمُ، فَسَأَلُوْھَا لَحْمًا وَتَمْرًا لِیَشْتَرُوْهُ مِنْھَا فَلَمْ یَصِيْبُوْا عِنْدَھَا شَيْئًا مِنْ ذَلِکَ وَکَانَ الْقَوْمُ مُرْمِلِيْنَ مُسْنِتِيْنَ فَنَظَرَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِلَی شَاةٍ فِي کِسْرِ الْخَيْمَةِ، فَقَالَ : مَا ھَذِهِ الشَّاةُ یَا أُمَّ مَعْبَدٍ؟ قَالَتْ : شَاةٌ خَلَّفَھَا الْجَهْدُ عَنِ الْغَنَمِ قَالَ : فَھَلْ بِھَا مِنْ لَبَنٍ؟ قَالَتْ : ھِيَ أَجْهَدُ مِنْ ذَلِکَ قَالَ : أَتَأْذِنِيْنَ أَنْ أَحْلُبَھَا؟ قَالَتْ : بَلَی بَأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي نَعَمْ إِنْ رَأَيْتَ بِهَا حَلْبًا فَاحْلُبْھَا، فَدَعَا بِهَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَمَسَحَ بِیَدِهِ ضَرْعَھَا وَسَمَّی اللهَ عزوجل، وَدَعَا لَھَا فِي شَاتِهَا، فَتَفَاجَّتْ عَلَيْهِ، وَدَرَّتْ وَاجْتَرَّتْ وَدَعَا بِإِنَاءٍ یُرْبِضُ الرَّھْطَ، فَحَلَبَ فِيْهَا ثَجًّا حَتَّی عَلَاهُ الْبَهَاءُ ثُمَّ سَقَاھَا حَتَّی رَوِیَتْ وَسَقَی أَصْحَابَهُ حَتَّی رَوُوْا وَشَرِبَ آخِرُھُمْ ﷺ ثُمَّ أَرَاضُوْا ثُمَّ حَلَبَ فِيْهِ ثَانِیًا بَعْدَ بَدْءٍ حَتَّی مَلَأَ الْإِنَاءَ ثُمَّ غَادَرَهُ عِنْدَھَا ثُمَّ بَایَعَھَا، ثُمَّ ارْتَحَلُوْا عَنْھَا۔
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ۔
5 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 4 / 48، الرقم : 3605، والحاکم في المستدرک، 3 / 10، الرقم : 4274، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 230، والطبري في ریاض النضرۃ، 1 / 470، الرقم : 387، والأصبهاني في دلائل النبوۃ، 1 / 59، 60، الرقم، 42، وابن عبد البر في الاستعاب، 4 / 1958، الرقم : 4215، وابن جوزي في صفوۃ الصفوۃ، 1 / 137، واللالکائي في اعتقاد أھل السنۃ، 4 / 777، الرقم : 1437۔
’’حضرت جیش بن خالد صحابی رسول سے مروی ہے کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ ، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، آپ رضی اللہ عنہ کے غلام عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ اور ان کے گائیڈ لیثی عبد اللہ بن اریقط مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی غرض سے نکلے تو وہ اُم معبد خزاعیہ کے دو خیموں کے پاس سے گزرے اور وہ بڑی بہادر اور دلیر خاتون تھیں۔ وہ اپنے خیمے کے آگے میدان میں چادر اوڑھ کر بیٹھتی تھیں اور لوگوں کو کھلاتی پلاتی تھیں۔ ان حضرات نے ان سے کھجور یا گوشت دریافت کیا کہ خریدیں مگر ان میں سے کوئی چیز بھی ان کے پاس نہ پائی۔ لوگوں کا زادِ راہ ختم ہوچکا تھا اور لوگ قحط کی حالت میں تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے خیمہ کے ایک کونے میں ایک بھیڑ دیکھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اے اُم معبد! یہ بھیڑ کیسی ہے؟ انہوں نے عرض کیا : یہ وہ بکری ہے جس کو تھکن نے بکریوں سے پیچھے کر دیا ہے (جس کی وجہ سے اور بکریاں چرنے گئیں اور یہ رہ گئی ہے)۔ فرمایا : اس کا کچھ دودھ بھی ہے؟ انہوں نے عرض کیا : (اس بکری کے لئے دودھ دینا) اس سے (یعنی جنگل جانے سے) بھی زیادہ دشوار ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم مجھے اجازت دیتی ہو کہ میں اس کا دودھ دوہوں؟ انہوں نے عرض کیا : میرے ماں باپ آپ پر قربان، ہاں اگر آپ اس کے دودھ دیکھیں (تو دوہ لیجئے) آپ ﷺ نے بسم اللہ پڑھ کر تھن پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا کہ اے اللہ! اُم معبد کو ان کی بکریوں میں برکت دے۔ اس بکری نے ٹانگیں پھیلا دیں، کثرت سے دودھ دیا اور فرمانبردار ہو گئی۔ آپ ﷺ نے ان کا وہ برتن مانگا جو ساری قوم کو سیراب کر دے۔ اس میں آپ ﷺ نے دودھ کو سیلاب کی طرح دوہا یہاں تک کہ کف اس کے اوپر آگیا۔ آپ ﷺ نے اسے پلایا، اُم معبد نے پیا یہاں تک کہ وہ بھی سیراب ہو گئیں اور آپ ﷺ نے اپنے اصحاب کو پلایا، وہ بھی سیراب ہو گئے۔ سب سے آخر میں حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی نوش فرمایا اور فرمایا کہ قوم کے ساقی کو سب سے آخر میں پینا چاہیے۔ سب نے ایک بار پینے کے بعد دوبارہ پیا اور خوب سیر ہو گئے۔ پھر آپ ﷺ نے اسی برتن میںابتدائی طریقہ پر دوبارہ دودھ دوہا اور اس کو ام معبد کے پاس چھوڑ دیا۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
1۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : مَرَّ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَلَی قَوْمٍ قَدْ صَادُوْا ظَبْیَةً فَشَدُّوْھَا إِلَی عَمُوْدِ الْفُسْطَاطِ۔ فَقَالَتْ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي وَضَعْتُ وَلِي خَشْفَانِ۔ فَاسْتَأْذِنْ لِي أَنْ أُرْضِعَھُمَا ثُمَّ أَعُوْدُ إِلَيْھِمْ۔ فَقَالَ : أَيْنَ صَاحِبُ ھَذِهِ؟ فَقَالَ الْقَوْمُ : نَحْنُ، یَا رَسُوْلَ اللهِ۔ فَقَالَ : رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : خُلُّوْا عَنْهَا حَتَّی تَأْتِيَ خَشْفَيْھَا تُرْضِعُھُمَا وَتَأْتِيَ إِلَيْکُمْ۔ قَالُوْا : وَمَنْ لَنَا بِذَلِکَ، یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ : أَنَا۔ فَأَطْلَقُوْھَا فَذَھَبَتْ فَأَرْضَعَتْ ثُمَّ رَجَعَتْ إِلَيْھِمْ فَأَوْثَقُوْھَا۔ فَمَرَّ بِھِمُ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ : أَيْنَ أَصْحَابُ ھَذِهِ؟ قَالُوْا : ھُوَ ذَا نَحْنُ، یَارَسُوْلَ اللهِ۔ قَالَ : تَبِيْعُوْنِھَا؟ قَالُوْا : یَارَسُوْلَ اللهِ، ھِيَ لَکَ۔ فَخَلُّوْا عَنْھَا فَأَطْلَقُوْھَا فَذَھَبَتْ۔
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْنُعَيْمٍ۔
1 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 358، الرقم : 5547، وأبو نعیم في دلائل النبوۃ : 376، الرقم : 274، وابن کثیر في شمائل الرسول ﷺ : 347۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ ایک دفعہ حضورنبی اکرم ﷺ ایک گروہ کے پاس سے گزرے۔ انہوں نے ایک ہرنی کو شکار کرکے ایک بانس کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔ اس ہرنی نے عرض کیا : یارسول اللہ! میرے دو چھوٹے بچے ہیں جنہیں میں نے حال ہی میں جنا ہے۔ پس آپ ﷺ مجھے ان سے اجازت دلوا دیں کہ میں اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس آجائوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کا مالک کہاں ہے؟ اس گروہ نے کہا : یارسول اللہ، ہم اس کے مالک ہیں۔ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ یہ اپنے بچوں کو دودھ پلا کر تمہارے پاس واپس آجائے۔ انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ! اس کی واپسی کی ہمیں کون ضمانت دے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں۔ انہوں نے ہرنی کو چھوڑ دیا پس وہ گئی اور اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس لوٹ آئی۔ انہوں نے اسے پھر باندھ دیا۔ جب حضورنبی اکرم ﷺ دوبارہ ان لوگوں کے پاس سے گزرے اور ان سے پوچھا : اس کا مالک کہاں ہے؟ اس گروہ نے عرض کیا : یارسول اللہ! وہ ہم ہی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم اس ہرنی کو مجھے فروخت کروگے؟ انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ! یہ آپ ہی کی ہے۔ پس انہوں نے اسے کھول کر آزاد کردیا اور وہ چلی گئی۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
2۔ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضي الله عنها قَالَتْ : کَانَ رَسُولُ الله ﷺ فِي الصَّحْرَاءِ فَإِذَا مُنَادٍ یُنَادِيْهِ : یَارَسُوْلَ اللهِ، فَالْتَفَتَ فَلَمْ یَرَ أَحَدًا۔ ثُمَّ الْتَفَتَ فَإِذَا ظَبْیَةٌ مُوْثَقَةٌ۔ فَقَالَتْ : أُدْنُ مِنِّي، یَا رَسُوْلَ اللهِ۔ فَدَنَا مِنْھَا فَقَالَ : حَاجَتُکِ؟ قَالَتْ : إِنَّ لِي خَشْفَيْنِ فِي ذَلِکَ الْجَبَلِ۔ فَخَلِّنِي حَتَّی أَذْھَبَ فَأُرْضِعَھُمَا ثُمَّ أَرْجِعُ إِلَيْکَ۔ قَالَ : وَتَفْعَلِيْنَ؟ قَالَتْ : عَذَّبَنِيَ اللهُ عَذَابَ الْعَشَّارِ إِنْ لَمْ أَفْعَلْ۔ فَأَطْلَقَھَا فَذَھَبَتْ فَأَرْضَعَتْ خَشْفَيْھَا ثُمَّ رَجَعَتْ فَأَوْثَقَھَا۔ وَانْتَبَهَ الأَعْرَابِيُّ فَقَالَ : لَکَ حَاجَةٌ، یَارَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ : نَعَمْ، تُطْلِقُ ھَذِهِ۔ فَأَطْلَقَھَا فَخَرَجَتْ تَعْدُوْ وَھِيَ تَقُوْلُ : أَشْھَدُ أَنْ لَا إِلٓهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّکَ رَسُوْلُ اللهِ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
2 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 23 / 331، الرقم : 763، والھیثمي في مجمع الزوائد، 8 / 295، والمنذري في الترغیب والترھیب، 1 : 321، الرقم : 1176۔
’’حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : ایک دفعہ حضورنبی اکرم ﷺ ایک صحراء میں سے گزر رہے تھے۔ کسی ندا دینے والے نے آپ ﷺ کو ’یارسول اللہ‘ کہہ کر پکارا۔ آپ ﷺ آواز کی طرف متوجہ ہوئے لیکن آپ ﷺ کو سامنے کوئی نظر نہ آیا۔ آپ ﷺ نے دوبارہ غور سے دیکھا تو وہاں ایک ہرنی بند ھی ہوئی تھی۔ اس نے عرض کیا : یارسول اللہ، میرے نزدیک تشریف لائیے۔ پس آپ ﷺ اس کے قریب ہوئے اور اس سے پوچھا : تمہاری کیا حاجت ہے؟ اس نے عرض کیا : اس پہاڑ میں میرے دو چھوٹے چھوٹے نومولود بچے ہیں۔ پس آپ مجھے آزاد کر دیجئے کہ میں جا کر انہیں دودھ پلا سکو پھرمیں واپس لوٹ آؤں گی۔ آپ ﷺ نے پوچھا : کیا تم ایسا ہی کرو گی؟ اس نے عرض کیا : اگر میں ایسا نہ کروں تو اللہ تعالیٰ مجھے سخت عذاب دے۔ پس آپ ﷺ نے اسے آزاد کردیا۔ وہ گئی اس نے اپنے بچوں کو دودھ پلایا اور پھر واپس لوٹ آئی۔ آپ ﷺ نے اسے دوبارہ باندھ دیا۔ پھر اچانک وہ اعرابی (جس نے اس ہرنی کو باندھ رکھا تھا) متوجہ ہوا اور اس نے عرض کیا : یارسول اللہ! میں آپ کی کوئی خدمت کرسکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، اس ہرنی کو آزاد کردو۔ پس اس اعرابی نے اسے فوراً آزاد کر دیا۔ وہ وہاں سے دوڑتی ہوئی نکلی اور وہ یہ کہتی جارہی تھی : میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
1۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَحْسَنَ النَّاسِ وَکَانَ أَجْوَدَ النَّاسِ وَکَانَ أَشْجَعَ النَّاسِ وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِيْنَةِ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَانْطَلَقَ نَاسٌ قِبَلَ الصَّوْتِ فَتَلَقَّاهُمْ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ رَاجِعًا وَقَدْ سَبَقَهُمْ إِلَی الصَّوْتِ وَهُوَ عَلَی فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ فِي عُنُقِهِ السَّيْفُ وَهُوَ یَقُوْلُ لَمْ تُرَاعُوْا لَمْ تُرَاعُوْا قَالَ : وَجَدْنَاهُ بَحْرًا أَوْ إِنَّهُ لَبَحْرٌ قَالَ : وَکَانَ فَرَسًا یُبَطَّأُ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَھَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الْجِهَادِ وَالسِّیَرِ، باب : الْحَمَائِلِ وَتَعْلِیقِ السَّيْفِ بِالْعُنُقِ، 3 / 1065، الرقم : 2751، ومسلم في الصحیح، کتاب : الفضائل، بَابُ فِي شجاعۃ النّبِي علیه السلَام وتقدمه للحرب، 4 / 1802، الرقم : 2307، والبیھقي في دلائل النبوۃ، 6 / 153، والرویاني في المسند، 2 / 488، الرقم : 1514، وابن قانع في معجم الصحابۃ، 1 / 157۔158۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ حسین، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات اہلِ مدینہ (ایک دہشت ناک آواز کی وجہ سے)خوف زدہ ہوگئے۔ صحابہ کرام اس آواز کی طرف گئے۔ راستہ میں اُنہیں حضور نبی اکرم ﷺ اس جگہ سے واپس آتے ہوئے ملے، آپ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے۔ آپ کی گردن مبارک میں تلوار(لٹک رہی) تھی اور آپ فرما رہے تھے! تم کو خوفزدہ نہیں کیا گیا، تم کو خوفزدہ نہیں کیا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہم نے اس (گھوڑے) کو سمندر کی طرح رواں دواں پایا، یا وہ سمندر تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ گھوڑا بہت آہستہ چلتا تھا (مگر حضور ﷺ کے اس پر سوار ہونے کی برکت سے یہ نہایت تیز رفتار ہو گیا)۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
2۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ النَّبِيُّ ﷺ أَحْسَنَ النَّاسِ وَأَشْجَعَ النَّاسِ وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِيْنَةِ لَيْلَةً فَخَرَجُوْا نَحْوَ الصَّوْتِ فَاسْتَقْبَلَهُمْ النَّبِيُّ ﷺ وَقَدْ اسْتَبْرَأَ الْخَبَرَ وَهُوَ عَلَی فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ وَفِي عُنُقِهِ السَّيْفُ وَهُوَ یَقُولُ : لَمْ تُرَاعُوْا لَمْ تُرَاعُوا ثُمَّ قَالَ : وَجَدْنَاهُ بَحْرًا أَوْ قَالَ : إِنَّهُ لَبَحْرٌ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الْجِهَادِ وَالسِّیَرِ، باب : الْحَمَائِلِ وَتَعْلِیقِ السَّيْفِ بِالْعُنُقِ، 3 / 1065، الرقم : 2751، ومسلم في الصحیح، کتاب : الفضائل، بَابُ : فِي شجاعۃ النّبِي علیه السلَام وتقدمه للحرب، 4 / 1802، الرقم : 2307، والبیھقي في دلائل النبوۃ، 6 / 153، والرویاني في المسند، 2 / 488، الرقم : 1514، وابن قانع في معجم الصحابۃ، 1 / 157۔158۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ سب لوگوں سے حسین و جمیل اور دلیر تھے۔ ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا۔ لوگ آواز کی جانب دوڑے تو آپ لوگوں کو واپس آتے ہوئے ملے اور صورتِ حال کی خبر بھی لے آئے۔ اس وقت نبی کریم ﷺ حضرت ابو طلحہ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے اور تلوار آپ کی گردن مبارک میں لٹک رہی تھی۔ آپ لوگوں سے فرما رہے تھے ڈرو نہیں، ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے پھر ارشاد فرمایا : ہم نے اسے (گھوڑے کو ) دریا کی طرح (تیز رفتار) پایا ہے۔ یا یہ فرمایا : یہ تو دریا (کی طرح تیز رفتار) ہے (جبکہ اس سے پہلے وہ لاغرو کمزور گھوڑا تھا)۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
3۔ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا رضی الله عنه یَقُولُ : کَانَ فَزَعٌ بِالْمَدِيْنَةِ فَاسْتَعَارَ النَّبِيُّ ﷺ فَرَسًا مِنْ أَبِي طَلْحَةَ یُقَالُ لَهُ : الْمَنْدُوْبُ فَرَکِبَ فَلَمَّا رَجَعَ قَالَ : مَا رَأَيْنَا مِنْ شَيئٍ وَإِنْ وَجَدْنَاهُ لَبَحْرًا۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
3 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا، باب : الِاسْتِعَارَةِ لِلْعَرُوسِ عِنْدَ الْبِنَائ، 2 / 926، الرقم : 2484، ومسلم في الصحیح، کتاب : الفضائل، بَاب : فِي شجاعۃ النّبِي علیه السلَام وتقدمه للحرب، 4 / 1802، الرقم : 2307، والبیھقي في دلائل النبوۃ، 6 / 153، والرویاني في المسند، 2 / 488، الرقم : 1514۔
’’حضرت قتادہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا۔ مدینہ منورہ میں حملے کا خطرہ محسوس ہوا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے گھوڑا مستعار لیا، جس کو مندوب کہتے تھے۔ آپ ﷺ اس پر سوار ہو گئے، جب واپس لوٹے تو فرمایا کہ ہم نے (خطرے والی) کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی اور ہم نے تو اس (گھوڑے) کو دریا کی طرح پایا ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
4۔ عَنْ جُعَيْلٍ الْأَشْجَعِيِّ قَالَ : غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ (فِي بَعْضِ غَزَوَاتِهِ) وَأَنَا عَلَی فَرَسٍ لِي عَجْفَائَ ضَعِيْفَةٍ۔ قَالَ : فَکُنْتُ فِي أُخْرَیَاتِ النَّاسِ۔ فَلَحِقَنِي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَقَالَ : سِرْ، یَا صَاحِبَ الْفَرَسِ۔ فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، عَجْفَاءُ ضَعِيْفَةٌ۔ قَالَ : فَرَفَعَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مِخْفَقَةً کَانَتْ مَعَهُ فَضَرَبَھَا بِھَا وَقَالَ : اَللَّھُمَّ، بَارِکْ لَهُ فِيْھَا۔ قَالَ : فَلَقَدْ رَأَيْتُنِي مَا أَمْسِکُ رَأْسَهُ إِلَی أَنْ أَتَقَدَّمَ النَّاسَ۔ قَالَ : فَلَقَدْ بِعْتُ مِنْ بَطْنِھَا بِاثْنَي عَشَرَ أَلْفًا۔ رَوَاهُ الْبَيْھَقِيُّ۔
4 : أخرجه البیھقي في دلائل النبوۃ، 6 / 153، والرویاني في المسند، 2 / 488، الرقم : 1514، وابن قانع في معجم الصحابۃ، 1 / 157۔158۔
’’حضرت جعیل اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک غزوہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ جہاد کیا۔ میں اپنی نڈھال و لاغر گھوڑی پر سوار تھا۔ میں لوگوں کے آخری گروہ میں تھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا : اے گھڑ سوار، آگے بڑھو۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ، یہ نڈھال و لاغر گھوڑی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنا چابک ہوا میں لہرا کر گھوڑی کو مارا اور یہ دعا فرمائی : اے اللہ، جعیل کی اس گھوڑی میں برکت عطا فرما۔ جعیل کہتے ہیں : میں اس گھوڑی کو پھر قابو نہ کر سکا، یہاں تک کہ میں لوگوں سے آگے نکل گیا۔ نیز میں نے اس کے پیٹ سے پیدا ہونے والے بچے بارہ ہزار میں فروخت کیے۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
1۔ عَنْ عِصْمَةَ بْنِ مَالِکٍ الْخَطَمِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ : زَارَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِلَی قُبَاءٍ۔ فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ یَرْجِعَ جِئْنَاهُ بِحِمَارٍ قَحَاطِيٍّ قَطُوْفٍ فَرَکِبَهُ۔ قُلْنَا : یَا رَسُوْلَ اللهِ، ھَذَا غُلَامٌ یَأْتِي مَعَکَ یَرُدُّ الدَّابَةَ۔ قَالَ : صَاحِبُ الدَّابَةِ أَحَقُّ بِصَدْرِھَا۔ قُلْنَا : یَا رَسُوْلَ اللهِ، ارْکَبْ وَرُدَّھَا لَنَا۔ فَذَھَبَ فَرَدَّهُ عَلَيْنَا وَھُوَ ھِمْلَاجٌ مَا یُسَایَرُ۔
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
1 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 17 / 178، الرقم : 470، والھیثمي في مجمع الزوائد، 8 / 107، والحسیني في البیان والتعریف، 2 / 79، والمناوي في فیض القدیر، 4 / 187۔
’’حضرت عصمہ بن مالک خطمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ قُبَاء کی طرف ہمارے پاس تشریف لائے۔ جب آپ ﷺ نے واپس لوٹنے کا ارادہ فرمایا تو ہم آپ کے پاس ایک انتہائی خستہ حال اور سست رفتار دراز گوش (گدھا) لائے ۔ آپ ﷺ اس پر سوار ہوئے۔ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! یہ لڑکا آپ کے ساتھ آتا ہے تاکہ جانور واپس لے آئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : جانور کا مالک اس کے اگلے حصہ کا زیادہ حقدار ہے (کہ وہ آگے بیٹھے)۔ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اس پر (صرف آپ ہی) سوار ہو جائیں اور پھر اسے ہماری طرف لوٹا دیں۔ آپ ﷺ (اس پر سوار ہو کر) چلے گئے اور جب ہمیں وہ جانور لوٹایا تو (آپ ﷺ کی برکت سے) وہ اس قدر تیز رفتار ہو چکا تھا کہ اس کا مقابلہ ہی نہیں کیا جا سکتا تھا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
2۔ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ قَالَ : زَارَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ سَعْدًا فَقَالَ عِنْدَهُ، فَلَمَّا أَبْرَدُوْ جَاؤُوْا بِحِمَارٍ لَھُمْ أَعْرَابِيٍّ قَطُوْفٍ، قَالَ : فَوَطَؤُا لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ بِقَطِيْفَةٍ عَلَيْهِ فَرَکِبَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَأَرَادَ سَعْدٌ أَنْ يَّرْدِفَ ابْنُهُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ لِیَرُدَّ الْحِمَارَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنْ کُنْتَ بَاعِثَهُ مَعِي فَاحْمِلْهُ بَيْنَ یَدَيَّ قَالَ : لَا بَلْ خَلْفَکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَھْلُ الدَّابَةِ ھُمْ أَوْلَی بِصَدْرِھَا۔ قَالَ سَعْدٌ : لَا أَبْعَثُهُ مَعَکَ وَلَکِنْ رُدَّ الْحِمَارَ۔ قَالَ : فَرَدَّهُ وَھُوَ ھِمْلَاجٌ فَرِيْغٌ مَا یُسَایَرُ۔ رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ۔
2 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 176۔
’’حضرت اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت سعد کو شرفِ ملاقات بخشا۔ جب گرمی کی حدّت کم ہوئی تو وہ ایک خستہ حال اور سست رفتا دراز گوش (آپ ﷺ کے لئے) لے کر آئے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے لئے اس گدھے پر مخمل ڈال دیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ اس پر سوار ہوئے، پس سعد نے چاہا کہ اس کا بیٹا حضور نبی اکرم ﷺ کے پیچھے بیٹھ جائے تاکہ وہ گدھا واپس لے آئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر تم اسے میرے ساتھ بھیجنا ہی چاہتے ہو تو اسے میرے آگے سوار کرو۔ اس نے عرض کیا : نہیں، یا رسول اللہ! بلکہ آپ کے پیچھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سواری کا مالک اس کے آگے بیٹھنے کا زیادہ حقدار ہے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں اسے آپ کے ساتھ نہیں بھیجتا لیکن آپ خود ہی دراز گوش کو لوٹا دیجئے گا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اسے واپس لوٹایا تو وہ نہایت تیز رفتار ہوچکا تھا اور اس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
3۔ عَنْ أَبِي مَنْظُوْرٍ قَالَ : لَمَّا فَتَحَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَعْنِي خَيْبَرَ… أَصَابَ فِيْھَا حِمَارًا أَسْوَدَ، مُکَبَّـلًا قَالَ : فَکَلَّمَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الْحِمَارَ فَکَلَّمَهُ الْحِمَارُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ : مَا اسْمُکَ؟ قَالَ : یَزِيْدُ بْنُ شِھَابٍ أَخْرَجَ اللهُ تَعَالَی مِنْ نَسْلِ جَدِّي سِتِّيْنَ حِمَارًا کُلَّھُمْ لَا یَرْکَبُھُمْ إِلَّا نَبِيٌّ قَدْ کُنْتُ أَتَوَقَّعُکَ أَنْ تَرْکَبَنِي لَمْ یَبْقَ مِنْ نَسْلِ جَدِّي غَيْرِي وَلَا مِنَ الْأَنْبِیَاءِ غَيْرُکَ۔ قَدْ کُنْتُ قَبْلَکَ لِرَجُلٍ یَھُوْدِيٍّ وَکُنْتُ أَتَعَثَّرُ بِهِ عَمَدًا، وَکَانَ یُجِيْعُ بَطْنِي وَیَضْرِبُ ظَھْرِي، قَالَ : فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ : فَأَنْتَ یَعْفُوْرُ۔ یَا یَعْفُوْرُ، قَالَ : لَبَّيْکَ … قَالَ : فَکَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَرْکَبُهُ فِي حَاجَتِهِ وَإِذَا نَزَلَ عَنْهُ بَعَثَ بِهِ إِلَی بَابِ الرَّجُلٍ فَیَأْتِي الْبَابَ فَیَقْرَعُهُ بِرَأْسِهِ، فَإِذَا خَرَجَ إِلَيْهِ صَاحِبُ الدَّارِ أَوْمَأَ إِلَيْهِ أَنْ أَجِبْ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ ، فَلَمَّا قُبِضَ النَّبِيُّ ﷺ جَاءَ إِلَی بِئْرٍ کَانَتْ لِأَبِي الْھَيْثَمِ بْنِ التَّيْھَانِ فَتَرَدَّی فِيْھَا جَزِعًا عَلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَصَارَتْ قَبْرَهُ۔ رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ۔
3 : أخرجه ابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق،4 / 232، وابن کثیر في البدایۃ والنهایۃ، 6 / 151 ، والقاضی عیاض في الشفائ، 1 : 341۔
’’ابو منظور بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے خیبر کو فتح کیا تو آپ ﷺ نے مالِ غنیمت میں ایک سیاہ گدھا پایااور وہ پابہ زنجیر تھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس سے کلام فرمایا تو اس نے بھی آپ ﷺ سے کلام کیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے فرمایا : تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے عرض کیا : میرا نام یزید بن شہاب ہے، اللہ تعالیٰ نے میرے دادا کی نسل سے ساٹھ گدھے پیدا کئے، ان میں سے ہر ایک پر سوائے نبی کے کوئی سوار نہیں ہوا۔ میں توقع کرتا تھا کہ آپ مجھ پر سوار ہوں، کیونکہ میرے دادا کی نسل میں سوائے میرے کوئی باقی نہیں رہا اور انبیاء کرام میں سوائے آپ کے کوئی باقی نہیں رہا۔ میں آپ سے پہلے ایک یہودی کے پاس تھا، میں اسے جان بوجھ کر گرا دیتا تھا۔ وہ مجھے بھوکا رکھتا اور مجھے مارتا پیٹتا تھا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے فرمایا : آج سے تیرا نام یعفور ہے۔ اے یعفور! اس نے لبیک کہا … راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ اس پر سواری فرمایا کرتے تھے اور جب اس سے نیچے تشریف لاتے تو اسے کسی شخص کی طرف بھیج دیتے۔ وہ دروازے پر آتا اسے اپنے سر سے کھٹکھٹاتا اور جب گھر والا باہر آتا تو وہ اسے اشارہ کرتا کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بات سنے۔ پس جب حضور نبی اکرم ﷺ اس دنیا سے ظاہری پردہ فرما گئے تو وہ ابو ہیثم بن تیہان کے کنویں پر آیا اور حضور نبی اکرم ﷺ کے فراق کے غم میں اس میں کود پڑا۔ وہ کنواں اس کی قبر بن گیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
1۔ عَنْ سَفِيْنَةَ رضی الله عنه قَالَ : رَکِبْتُ الْبَحْرَ فِي سَفِيْنَةٍ فَانْکَسَرَتْ فَرَکِبْتُ لَوْحًا مِنْھَا فَطَرَحَنِي فِي أَجَمَةٍ فِيْھَا أَسَدٌ فَلَمْ یَرُعْنِي إِلاَّ بِهِ۔ فَقُلْتُ : یَا أَبَا الْحَارِثِ، أَنَا مَوْلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ۔ فَطَأْطَأَ رَأْسَهُ وَغَمَزَ بِمَنْکَبِهِ شِقِّي۔ فَمَا زَالَ یَغْمِزُنِي وَیَھْدِيْنِيِ إِلَی الطَّرِيْقِ حَتَّی وَضَعَنِي عَلَی الطَّرِيْقِ۔ فَلَمَّا وَضَعَنِي ھَمْھَمَ فَظَنَنْتُ أَنَّهُ یَوَدِّعُنِي۔
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَغَوِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ۔
1 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 675، الرقم : 4235 : 3 / 702، الرقم : 6550، والبخاري في التاریخ الکبیر، 3 / 195، الرقم : 663، والطبراني في المعجم الکبیر، 7 / 80، الرقم : 6432، وابن راشد في الجامع ، 11 / 281، واللالکائي في کرامات الأولیاء، 1 / 158، الرقم : 114، والبغوي في شرح السنۃ، 13، 313، الرقم : 3732، والخطیب التبریزي في مشکاۃ المصابیح، 2 / 400، الرقم : 5949۔
’’حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : میں سمندر میں ایک کشتی پر سوار ہوا۔ وہ کشتی ٹوٹ گئی تو میں اس کے ایک تختے پر سوار ہوگیا۔ اس نے مجھے ایک ایسی جگہ پھینک دیا جو شیر کی کچھار تھی۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ وہ (شیر) سامنے تھا۔ میں نے کہا : اے ابو الحارث (شیر کی کنیت)! میں حضور نبی اکرم ﷺ کا غلام ہوں۔ تو اس نے فوراً اپنا سر خم کردیا اور اپنے کندھے سے مجھے اشارہ کیااور وہ اس وقت تک مجھے اشارہ اور رہنمائی کرتا رہا جب تک کہ اس نے مجھے صحیح راہ پرنہ ڈال دیا۔ پھر جب اس نے مجھے صحیح راہ پر ڈال دیا تو وہ دھیمی آواز میں غرایا۔ سو میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے الوداع کہہ رہا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم، طبرانی، بغوی اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے اور امام حاکم فرماتے ہیں : یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
2۔ عَنِ ابْنِ الْمُنْکَدِرِ أَنَّ سَفِيْنَةَ مَوْلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَخْطَأَ الْجَيْشَ بَأَرْضِ الرُّوْمِ أَوْ أُسِرَ فِي أَرْضِ الرُّوْمِ۔ فَانْطَلَقَ ھَارِبًا یَلْتَمِسُ الْجَيْشَ فَإِذَا بِالْأَسَدِ۔ فَقَالَ لَهُ : یَا أَبَا الْحَارِثِ، أَنَا مَوْلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَإِنَّ مِنْ أَمْرِي کَيْتَ وَکَيْتَ۔ فَأَقْبَلَ الْأَسَدُ لَهُ بَصْبَصَةً حَتَّی قَامَ إِلَی جَنْبِهِ۔ کُلَّمَا سَمِعَ صَوْتًا أَتَی إِلَيْهِ ثُمَّ أَقْبَلَ یَمْشِي إِلَی جَنْبِهِ۔ فَلَمْ یَزَلْ کَذَلِکَ حَتَّی بَلَغَ الْجَيْشَ ثُمَّ رَجَعَ الْأَسَدُ۔
رَوَاهُ ابْنُ رَاشِدٍ وَالْبَيْهَقِيُّ۔
2 : أخرجه معمر بن راشد في الجامع، 11 / 281، والبیھقي في دلائل النبوۃ، 6 / 46، واللالکائي في کرامات الأولیاء، 1 / 159، الرقم : 114، وابن کثیر في شمائل الرسول ﷺ : 346، 347، والخطیب التبریزي في مشکاۃ المصابیح، 2 / 400، الرقم : 5949۔
’’حضرت ابن منکدر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ جو کہ حضورنبی اکرم ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے، ایک دفعہ روم کے علاقہ میں لشکرِ اسلام سے بچھڑ گئے یا وہ ارضِ روم میں قید کردیئے گئے۔ وہ وہاں سے بھاگے تاکہ لشکر سے مل سکیں کہ اچانک ایک شیر ان کے سامنے آگیا۔ انہوں نے اس سے کہا : اے ابو حارث (شبیر کی کنیت)! میں حضورنبی اکرم ﷺ کا غلام ہوں اور میرا معاملہ اس طرح ہے (کہ میں لشکر سے بچھڑ گیا ہوں)۔ یہ سننا تھا کہ شیر فوراً دُم ہلاتا ہوا ان کی طرف آیا اور ان کے پہلو میں کھڑا ہوگیا۔ جب بھی وہ (کسی درندے کی) آواز سنتا تو وہ شیر فوراً حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کے آگے آجاتا (جب خطرہ ٹل جاتا تو) پھر وہ واپس آجاتا اور ان کے پہلو میں چلنا شروع کردیتا۔ وہ اسی طرح ان کے ساتھ چلتا رہا یہاں تک کہ وہ لشکر میں پہنچ گئے۔ اس کے بعد شیر واپس لوٹ آیا۔‘‘
اس حدیث کو ابن راشد اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
1۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : عَدَا الذِّئْبُ عَلَی شَاةٍ فَأَخَذَهَا، فَطَلَبَهُ الرَّاعِي، فَانْتَزَعَهَا مِنْهُ، فَأَقْعَی الذِّئْبُ عَلَی ذَنَبِهِ۔ قَالَ : أَ لَا تَتَّقِي اللهَ تَنْزِعُ مِنِّي رِزْقًا سَاقَهُ اللهُ إِلَيَّ؟ فَقَالَ : یَا عَجَبِي، ذِئْبٌ مُقْعٍ عَلَی ذَنَبِهِ یُکَلِّمُنِي کَلَامَ الإِنْسِ؟ فَقَالَ الذِّئْبُ : أَ لَا أُخْبِرُکَ بِأَعْجَبَ مِنْ ذَلِکَ؟ مُحَمَّدٌ ﷺ بِیَثْرِبَ یُخْبِرُ النَّاسَ بِأَنْبَاءِ مَا قَدْ سَبَقَ۔ قَالَ : فَأَقْبَلَ الرَّاعِي یَسُوْقُ غَنَمَهُ حَتَّی دَخَلَ الْمَدِيْنَةَ، فَزَوَاهَا إِلَی زَاوِیَةٍ مِنْ زَوَایَاهَا، ثُمَّ أَتَی رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَأَخْبَرَهُ۔ فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَنُوْدِيَ : الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ، ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ لِلرَّاعِي : أَخْبِرْهُمْ۔ فَأَخْبَرَهُمْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : صَدَقَ۔ وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهِ، لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتَّی یُکَلِّمَ السِّبَاعُ الإِنْسَ، وَیُکَلِّمُ الرَّجُلَ عَذَبَةُ سَوْطِهِ، وَشِرَاکُ نَعْلِهِ، وَیُخْبِرَهُ فَخِذُهُ بِمَا أَحْدَثَ أَهْلُهُ بَعْدَهُ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ۔ وَقَدْ صَحَّحَهُ الْبَيْهَقِيُّ۔ وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ : هَذَا إِسْنَادٌ عَلَی شَرْطِ الصَّحِيْحِ۔
1 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 83، 88، الرقم : 11809، 11859، والحاکم في المستدرک، 4 : 514، الرقم : 8444، وعبد بن حمید في المسند ، 1 : 277، الرقم : 877، والبیهقي في دلائل النبوۃ، 6 / 41، 42، 43، وابن کثیر في شمائل الرسول : 339، والهیثمي في مجمع الزوائد، 8 / 291، والأصبھاني في دلائل النبوۃ، 1 : 113، الرقم : 116۔
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک دفعہ ایک بھیڑیا بکریوں پر حملہ آور ہوا اور ان میں سے ایک بکری کو اٹھا لیا۔ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور اس سے بکری چھین لی۔ بھیڑیا پچھلی ٹانگوں کو زمین پر پھیلا کر سرین پر بیٹھ گیا اور اگلی ٹانگوں کو کھڑا کرلیا اور اس نے چرواہے سے کہا : کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے کہ مجھ سے اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ رزق چھین رہے ہو؟ چرواہے نے حیران ہو کر کہا : بڑی حیران کن بات ہے کہ بھیڑیا اپنی دم پر بیٹھا مجھ سے انسانوں جیسی باتیں کر رہا ہے؟ بھیڑیے نے کہا : کیا میں تمہیں اس سے بھی عجیب تر بات نہ بتاؤں؟ محمد ﷺ جو کہ یثرب (مدینہ منورہ) میں تشریف فرما ہیں لوگوں کو گزرے ہوئے زمانے کی خبریں دیتے ہیں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ چرواہا فوراً اپنی بکریوں کو ہانکتا ہوا مدینہ منورہ میں داخل ہوا اور ان کو اپنے ٹھکانوں میں سے کسی ٹھکانہ پر چھوڑ کر حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ پھر اس نے آپ ﷺ کو اس معاملہ کی خبر دی۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے حکم پر باجماعت نماز کے لئے اذان کہی گئی۔ پھر آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور چرواہے سے فرمایا : سب لوگوں کو اس واقعہ کی خبر دو۔ پس اس نے وہ واقعہ سب کو سنایا۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس نے سچ کہا۔ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ درندے انسان سے کلام نہ کریں اور انسان سے اس کے چابک کی رسی اور جوتے کے تسمے کلام نہ کریں۔ اس کی ران اسے خبر دے گی کہ اس کے بعد اس کے گھر والے کیا کرتے رہے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام بیہقی نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس کی سند صحیح کی شرط کے مطابق (صحیح) ہے۔
2۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : جَاءَ ذِئْبٌ إِلَی رَاعِي غَنَمٍ فَأَخَذَ مِنْهَا شَاةً۔ فَطَلَبَهُ الرَّاعِي حَتَّی انْتَزَعَهَا مِنْهُ۔ قَالَ : فَصَعِدَ الذِّئْبُ عَلَی تَلٍّ، فَأَقْعَی وَاسْتَذْفَرَ فَقَالَ : عَمَدْتَ إِلَی رِزْقٍ رَزَقَنِيْهِ اللهُ عزوجل انْتَزَعْتَهُ مِنِّي۔ فَقَالَ الرَّجُلُ : تَاللهِ، إِنْ رَأَيْتُ کَالْیَوْمِ ذِئْبًا یَتَکَلَّمُ۔ قَالَ الذِّئْبُ : أَعْجَبُ مِنْ ھَذَا رَجُلٌ فِي النَّخَلَاتِ بَيْنَ الْحَرَّتَيْنِ یُخْبِرُکُمْ بِمَا مَضَی وَبِمَا هُوَ کَائِنٌ بَعْدَکُمْ۔ وَکَانَ الرَّجُلُ یَهُوْدِیًّا۔ فَجَائَ الرَّجُلُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَأَسْلَمَ وَخَبَّرَهُ۔ فَصَدَّقَهُ النَّبِيُّ ﷺ ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : إِنَّهَا أَمَارَةٌ مِنْ أَمَارَاتٍ بَيْنَ یَدَيِ السَّاعَةِ۔ قَدْ أَوْشَکَ الرَّجُلُ أَنْ یَخْرُجَ فَـلَا یَرْجِعُ حَتَّی تُحَدِّثَهُ نَعْلَاهُ وَسَوْطُهُ مَا أَحْدَثَ أَهْلُهُ بَعْدَهُ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ رَاهَوَيْهِ۔ وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ : تَفَرَّدَ بِهِ أَحْمَدُ وَهُوَ عَلَی شَرْطِ السُّنَنِ۔
2 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 306، الرقم : 8049، وعبد الرزاق في المصنف، 11 : 383، الرقم : 20808، وابن راھویه في المسند، 1 / 357، الرقم : 360، وابن کثیر في شمائل الرسول : 341، والهیثمي في مجمع الزوائد، 8 / 291، والأزدي في الجامع، 11 : 383، الرقم : 20808وعبد بن حمید في المسند ، 1 : 277، الرقم : 877، والبیهقي في دلائل النبوۃ، 6 / 41، 42، 43، والأصبھاني في دلائل النبوۃ، 1 : 113، الرقم : 116۔
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک بھیڑیا کسی چرواہے کی بکریوں کے پاس آیا اور اُن میں سے ایک بکری اٹھا کر لے گیا۔ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا یہاں تک کہ اس کے منہ سے بکری نکلوا لی۔ بھیڑیا ایک ٹیلے پر چڑھ گیا اور وہاں اپنی پشت کے بل گھٹنے اوپر اٹھا کر بیٹھ گیا اور اپنی دم اوپر اٹھا کر کہنے لگا : تم نے میرے منہ سے وہ رزق چھین لیا ہے جو اللہ عزوجل نے مجھے عطا کیا تھا۔ اس چرواہے نے کہا : بخدا میں نے آج سا دن پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا کہ بھیڑیا باتیں کر رہا ہے۔ بھیڑئیے نے جواب دیا : اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ ایک آدمی ( یعنی حضور نبی اکرم ﷺ ) دو میدانوں کے درمیان واقع نخلستانوں (مدینہ) میں بیٹھا جو کچھ ہوچکا اور جو ہونے والا ہے اُس کی خبریں لوگوں کو دے رہا ہے۔ وہ آدمی ( یعنی چرواہا) یہودی تھا۔ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوگیا اور پھر اس نے آپ ﷺ کو اس واقعہ کی خبر دی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس کی تصدیق کی اور پھر فرمایا : یہ قیامت سے قبل واقع ہونے والی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ وہ وقت قریب ہے کہ ایک آدمی اپنے گھر سے نکلے گا اس کی واپسی پر اس کے جوتے اور اس کا چابک اسے بتائیں گے کہ اس کے گھر والوں نے اس کے بعد کیاکیا۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور ابن راہویہ نے روایت کیا ہے اور امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو تنہا امام احمد نے روایت کیا ہے اور یہ سنن کی شرائط پر ہے۔
3۔ عَنْ أُھْبَانَ بْنِ أَوْسٍ : کُنْتُ فِي غَنَمٍ لِي، فَکَلَّمَهُ الذِّئْبُ، فَأَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَأَسْلَمَ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ۔
3 : أخرجه البخاري في التاریخ الکبیر، 2 / 44، الرقم : 1633، والعسقلاني في فتح الباری، 7 / 452، والبیهقي في دلائل النبوۃ، 6 / 44۔
’’حضرت اُھبان بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں اپنی بکریوں کے پاس تھا کہ ایک بھیڑیا آیا اور اس نے مجھ سے (حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت کے متعلق) کلام کیا۔ پس وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری نے ’’التاریخ الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔
4۔ عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِيَّةَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ مُزَيْنَةَ أَوْ جُھَيْنَةَ قَالَ : صَلَّی رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الْفَجْرَ فَإِذَا ھُوَ بِقَرِيْبٍ مِنْ مِائَةِ ذِئْبٍ قَدْ أَقْعَيْنَ وَفُوْدُ الذِّئَابِ۔ فَقَالَ لَھُمْ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : تَرْضَخُوْا لَھُمْ شَيْئًا مِنْ طَعَامِکُمْ وَتَأْمَنُوْنَ عَلَی مَا سِوَی ذَلِکَ؟ فَشَکَوْا إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ الْحَاجَةَ۔ قَالَ : فَآذِنُوْھُنَّ۔ قَالَ : فَآذَنُوْھُنَّ فَخَرَجْنَ وَلَھُنَّ عُوَاءٌ۔ رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ۔
4 : أخرجه الدارمي في السنن، 1 / 25، الرقم : 22، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 4 / 376۔
’’حضرت شمر بن عطیہ، مزینہ یا جہینہ کے ایک آدمی سے روایت بیان کرتے ہیں : حضور نبی اکرم ﷺ نے نمازِ فجر ادا فرمائی۔ اچانک تقریباً ایک سو بھیڑئیے پچھلی ٹانگوں کو زمین پر پھیلا کر اور اگلی ٹانگوں کو اٹھائے ہوئے اپنی سرینوں پر بیٹھے ہوئے (باقی) بھیڑیوں کے قاصد بن کر حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (اے گروہ صحابہ!) تم اپنے کھانے پینے کی اشیاء میں سے تھوڑا بہت ان کا حصہ بھی نکالا کرو اور باقی ماندہ کھانے کو (ان بھیڑیوں سے) محفوظ کر لیا کرو۔ پھر انہوں (بھیڑیوں) نے حضور نبی اکرم ﷺ سے اپنی کسی حاجت کی شکایت کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : انہیں اجازت دو۔ راوی بیان کرتے ہیں انہوں نے ان (بھیڑیوں) کو اجازت دی پھر وہ تھوڑی دیر بعد اپنی مخصوص آواز نکالتے ہوئے چل دیے۔‘‘
اس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : جَاءَ الذِّئْبُ فَأَقْعَی بَيْنَ یَدَيِ النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ بَصْبَصَ بِذَنَبِهِ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ھَذَا الذِّئْبُ وَھُوَ وَافِدُ الذِّئَابِ۔ فَھَلْ تَرَوْنَ أَنْ تَجْعَلُوْا لَهُ مِنْ أَمْوَالِکُمْ شَيْئًا؟ قَالَ : فَقَالُوْا بَأَجْمَعِھِمْ : لَا وَاللهِ، مَا نَجْعَلُ لَهُ شَيْئًا۔ قَالَ : وَأَخَذَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ حَجَرًا فَرَمَاهُ، فَأَدْبَرَ الذِئْبُ وَلَهُ عُوَاءٌ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : الذِّئْبُ وَمَا الذِّئْبُ۔ رَوَاهُ ابْنُ رَاھَوَيْهِ۔
5 : أخرجه ابن راھویه في المسند، 1 / 269، الرقم : 239، البیهقي في دلائل النبوۃ، 6 / 40، والھیثمي في مجمع الزوائد، 8 / 292، وابن کثیر في شمائل الرسول : 344،وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 359۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک بھیڑیا آیا اور حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے بیٹھ گیا اور اپنی دم ہلانے لگا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ بھیڑیا دیگر بھیڑیوں کا نمائندہ بن کر تمہارے پاس آیا ہے۔ کیا تم ان کے لئے اپنے مال سے کچھ حصہ مقرر کرتے ہو؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیک زبان کہا : خدا کی قسم! ہم ایسا نہیں کریں گے۔ ایک شخص نے پتھر اٹھایا اور اس بھیڑئیے کو دے مارا۔ بھیڑیا مڑا اور غراتا ہوا بھاگ گیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : واہ کیا بھیڑیا تھا، واہ کیا بھیڑیا تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن راہویہ نے روایت کیا ہے۔
6۔ عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَنْطَبٍ رضی الله عنه قَالَ : بَيْنَمَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ جَالِسٌ بِالْمَدِيْنَةِ فِي أَصْحَابِهِ إِذْ أَقْبَلَ ذِئْبٌ فَوَقَفَ بَيْنَ یَدَي رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَعَوَی بَيْنَ یَدَيْهِ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ھَذَا وَافِدُ السِّبَاعِ إِلَيْکُمْ۔ فَإِنْ أَحْبَبْتُمْ أَنْ تَفْرِضُوْا لَهُ شَيْئًا لَا یَعْدُوْهُ إِلَی غَيْرِهِ، وَإِنْ أَحْبَبْتُمْ تَرَکْتُمُوْهُ وَتحَرَّزْتُمْ مِنْهُ۔ فَمَا أَخذَ فَھُوَ رِزْقُهُ۔ فَقَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا تَطِيْبُ أَنْفُسُنَا لَهُ بِشَيئٍ۔ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺ بِأَصَابِعِهِ أَيْ خَالِسْھُمْ۔ فَوَلَّی وَلَهُ عَسَلَانُ۔ رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ۔
6 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 359، وابن کثیر في شمائل الرسول : 344، 345۔
’’حضرت مطلب بن عبد اللہ بن حنطب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : حضور نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ میں اپنے اصحاب کے درمیان جلوہ افروز تھے کہ اچانک ایک بھیڑیا ادھر آیا اور حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اپنی مخصوص آواز میں کچھ کہنے لگا۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ تمہاری طرف درندوں کا نمائندہ بن کر آیا ہے۔ اگر تم پسند کرو تو (اپنے مویشیوں میں سے) ان کے لیے کوئی حصہ مقرر کر دو تاکہ یہ اس (مقرر کردہ) حصے کے علاوہ کسی اور(مویشی) کی طرف نہ بڑھیں، اور اگر تم چاہو تو تم انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو اور اس سے کنارہ کشی کر لو۔ پھر یہ جو جانور پکڑ لیں گے وہ ان کا رزق ہو گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اس (بھیڑیے کو) کچھ دینے پر ہمارے دل رضامند نہیں ہوتے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی مبارک انگلیوں سے اس کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ ان سے اپنا حصہ چھین لیا کرے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ غصہ سے پیچ و تاب کھاتا ہوا واپس چلا گیا۔‘‘
اس حدیث کو ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
7۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي غَزْوَةِ تَبُوْکَ فَشَدَدْتُ عَلَی غَنَمِي۔ فَجَاءَ الذِّئْبُ فَأَخَذَ مِنْهَا شَاةً۔ فَاشْتَدَّ الرِّعَاءُ خَلْفَهُ۔ فَقَالَ : طُعْمَةٌ أَطْعَمَنِيْهَا اللهُ تَنْزِعُوْنَهَا مِنِّي؟ قَالَ : فَبُهِتَ الْقَوْمُ۔ فَقَالَ : مَا تَعْجَبُوْنَ مِنْ کَلَامِ الذِّئْبِ، وَقَدْ نَزَلَ الْوَحْيُ عَلَی مُحَمَّدٍ، فَمَنْ مُصَدِّقٌ وَمُکَذِّبٌ۔
رَوَاهُ أَبُو نُعَيْمٍ کَمَا قَالَ ابْنُ کَثِیرٍ۔
7 : أخرجه ابن کثیر في شمائل الرسول : 342، والعیني في عمدۃ القاري، 12 / 160، الرقم : 4232۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں غزوہ تبوک میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھا۔ میں اپنی بکریوں کی رکھوالی کر رہا تھا کہ ایک بھیڑیا آیا اور ان میں سے ایک بکری کو اٹھا کرلے گیا۔ چرواہوں نے اس کا پیچھا کیا۔ اس نے کہا : یہ میرا کھانا ہے جو مجھے اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے۔ تم مجھ سے یہ چھین رہے ہو؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ یہ سن کر لوگ مبہوت ہو گئے۔ اس نے کہا : تم بھیڑئیے کے کلام کرنے پر تعجب کا اظہار کر رہے ہو جبکہ محمد ﷺ پر وحی کا نزول ہوا ہے تو کون ہے جو ان کی تصدیق کرتا ہے اور کون ہے جو انہیں جھٹلاتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے جیسا کہ امام ابن کثیر نے فرمایا ہے۔
8۔ عَنْ حَمَزَةَ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ رضی الله عنه قَالَ : خَرَجَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فِي جِنَازَةِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ بِالْبَقِيْعِ، فَإِذَا الذِّئْبُ مُفْتَرِشًا ذِرَاعَيْهِ عَلَی الطَّرِيْقِ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ھَذَا أُوَيْسٌ یَسْتَفْرِضُ فَافْرِضُوْا لَهُ۔ قَالُوْا : نَرَی رَأْیَکَ، یَارَسُوْلَ اللهِ۔ قَالَ : مِنْ کُلِّ سَائِمَةٍ شَاةٌ فِي کُلِّ عَامٍ۔ قَالُوْا : کَثِيْرٌ۔ قَالَ : فَأَشَارَ إِلَی الذِّئْبِ أَنْ خَالِسْھُمْ۔ فَانْطَلَقَ الذِّئْبُ۔ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ۔
قَالَ الْحَافِظُ ابْنُ عَدِيٍّ : قَالَ لَنَا أَبُوْ بَکْرِ بْنِ أَبِي دَاوُدَ : وَلَدُ ھَذَا الرَّاعِي یُقَالُ لَھُمْ : بَنُوْ مُکَلِّمِ الذِّئْبِ۔ وَلَھُمْ أَمْوَالٌ وَنَعَمٌ، وَھُمْ مِنْ خَزَاعَةَ۔ وَاسْمُ مُکَلِّمِ الذِّئْبِ أُھْبَانُ۔ قَالَ : وَمُحَمَّدُ بْنُ أَشْعَثَ الْخَزَاعِيُّ مِنْ وَلَدِهِ۔
8 : أخرجه البیهقي في دلائل النبوۃ، 6 / 40، وابن کثیر في البدایۃ والنھایۃ، 6 / 146، وفي شمائل الرسول : 343، 344، والسیوطي في الخصائص الکبری، 2 / 62۔
’’حضرت حمزہ بن ابی عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : حضور نبی اکرم ﷺ انصار میں سے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے جنت البقیع کی طرف تشریف لے گئے۔ پس آپ ﷺ نے اچانک دیکھا کہ ایک بھیڑیا اپنے بازو پھیلائے راستے میں بیٹھا ہوا ہے۔ (اسے دیکھ کر) حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ بھیڑیا (تم سے اپنا) حصہ مانگ رہا ہے پس اسے اس کا حصہ دو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! (اس کے حصہ کے بارے میں) ہم آپ کی رائے جاننا چاہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ہر سال ہر چرنے والے جانور کے بدلہ میں ایک بھیڑ۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! یہ زیادہ ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے بھیڑئیے کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ ان سے اپنا حصہ چھین لیا کرے۔ پس (یہ سننے کے بعد) بھیڑیا چل دیا۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
حافظ ابن عدی کہتے ہیں : ’’ہمیں ابو بکر بن ابی داود نے بتایا کہ اس چرواہے کی اولاد کو ’’مکلم الذئب‘‘ (بھیڑئیے سے کلام کرنے والا) کی اولاد کہا جاتا تھا۔ ان کے پاس بہت سا مال و اسباب تھا۔ اور ان کا تعلق خزاعہ قبیلہ سے تھا اور بھیڑئیے سے کلام کرنے والے شخص کا نام أُھْبَان تھا۔ اور انہوں نے کہا کہ محمد بن أشعث خزاعی ان کی اولاد میں سے تھے۔‘‘
9۔ رَوَی ابْنُ وَھْبٍ مِثْلَ ھَذَا أَنَّهُ جَرَی لِأَبِي سُفْیَانَ بْنِ حَرْبٍ وَصَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ مَعَ ذِئْبٍ وَجَدَاهُ أَخَذَ ظَبْیاً۔ فَدَخَلَ الظَّبْيُ الْحَرَمَ، فَانْصَرَفَ الذِّئْبُ، فَعَجِبَا مِنْ ذَلِکَ۔ فَقَالَ الذِّئْبُ : أَعْجَبُ مِنْ ذَلِکَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بِالْمَدِيْنَةِ یَدْعُوْکُمْ إِلَی الْجَنَّةِ وَتَدْعُوْنَهُ إِلَی النَّارِ۔ فَقَالَ أَبُوْ سُفْیَانَ : وَاللَّاتِ وَالْعُزَّی! لَئِنْ ذَکَرْتَ ھَذَا بِمَکَّةَ لَتَتْرُکَنَّھَاخُلُوْفًا۔ رَوَاهُ الْقَاضِي عِیَاضٌ۔
9 : أخرجه القاضي عیاض في الشفائ : 379، وابن کثیر في شمائل الرسول : 345۔
’’ابن وہب نے بھی اسی کی مثل حدیث روایت کی ہے کہ ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ کا بھی بھیڑیے کے ساتھ اسی طرح کا واقعہ پیش آیا۔ ان دونوں نے دیکھا کہ ایک بھیڑیا ایک ہرن کو پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ پس ہرن حرم میں داخل ہو گیا تو بھیڑیا واپس مڑ گیا (اور حرم میں داخل نہیں ہوا)۔ اس پر ان دونوں نے اس سے بڑا تعجب کیا۔ بھیڑیے نے کہا اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ محمد بن عبد اللہ( ﷺ ) مدینہ میں تمہیں جنت کی طرف بلا رہے ہیں اور تم انہیں دوزخ کی طرف بلاتے ہو۔ اس پر ابو سفیان نے کہا : لات و عزّی کی قسم، اگر تویہ بات مکہ میں کہتا تو ضرور مکہ والوں کو خالی گھروں والا کردیتا (یعنی وہ یہ معجزہ دیکھ کر مدینہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں چلے جاتے)۔‘‘ اس حدیث کو قاضی عیاض نے روایت کیا ہے۔
1۔ عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ : کَانَ ِلآلِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَحْشٌ۔ فَإِذَا خَرَجَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ لَعِبَ وَاشْتَدَّ وَأَقْبَلَ وَأَدْبَرَ۔فَإِذَا أَحَسَّ بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَدْ دَخَلَ، رَبَضَ فَلَمْ یَتَرَمْرَمْ، مَا دَامَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فِي الْبَيْتِ، کَرَاھِیَةَ أَنْ یُؤْذِیَهُ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْیَعْلَی۔
1 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 112، 150، الرقم : 24862، 25210، وأبویعلی في المسند، 8 / 121، الرقم : 4660، وابن راھویه في المسند، 3 / 617، الرقم : 1192، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 195، والبیھقي في دلائل النبوۃ، 6 / 31، وابن عبد البر في التمهید، 6 / 314، والھیثمي في مجمع الزوائد، 9 / 3۔
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی آل (یعنی اہلِ بیت) کے لئے ایک بیل رکھا گیا۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ باہر تشریف لاتے تو وہ کھیلتا کودتا اور (خوشی سے) جوش میں آجاتا اور (حالتِ وجد میں) کبھی آگے بڑھتا اور کبھی پیچھے آتا۔ اور جب وہ یہ محسوس کرتا کہ حضور نبی اکرم ﷺ اندر تشریف لے گئے ہیں تو پھر ساکت کھڑا ہو جاتا اور کوئی حرکت نہ کرتا جب تک کہ آپ ﷺ گھر میں موجود رہتے اس ڈر سے کہ کہیں آپ ﷺ کو تکلیف نہ ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
2۔ عَنْ مُجاهِدٍ عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ : کَانَ لِآلِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَحْشٌ۔ فَکانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إذا خَرَجَ لَعِبَ وَاشْتَدَّ وَأَقْبَلَ وَأَدْبَرَ۔ فَإِذَا أَحَسَّ أنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَدْ دَخَلَ، رَبَضَ فَلَمْ یَتَرَمْرَمْ، مَا دَامَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فِي الْبَيْتِ، مَخَافَةَ أَنْ یُؤْذِیَهُ۔ رَوَاهُ أَبُوْ یَعْلَی۔
2 : أخرجه أبو یعلی في المسند، 8 / 121، الرقم : 4660، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 112، الرقم : 24862، وابن راھویه في المسند، 3 / 617، الرقم : 1192، والبیھقي في دلائل النبوۃ، 6 / 31، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 195، وابن عبد البر في التمهید، 6 / 314۔
’’حضرت مجاہد سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : حضور نبی اکرم ﷺ کی اہلِ بیت کے لئے ایک بیل تھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ جب باہر تشریف لاتے تو وہ کھیلتا اور (فرحتِ دیدار سے) جوش میں آجاتا اور(وجد کرتا ہوا) کبھی آگے بڑھتا اور کبھی پیچھے آتا ۔ جب وہ یہ محسوس کرتا کہ حضور نبی اکرم ﷺ اندر تشریف لے گئے ہیں تو پھر اس ڈر سے کہ کہیں آپ ﷺ کو تکلیف نہ ہو سکون سے کھڑا ہوجاتا اور کوئی حرکت نہ کرتا جب تک کہ آپ ﷺ گھر میں موجود رہتے ۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
1۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قاَلَ : کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ فَمَرَرْنَا بِشَجَرَةٍ فِيْھَا فَرْخَا حُمَّرَةٍ، فَأَخَذْنَاھُمَا۔ قَالَ : فَجَاءَتِ الْحُمَّرَةُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ وَھِيَ تَعَرَّضُ، فَقَالَ : مَنْ فَجَعَ ھَذِهِ بِفَرْخَيْھَا؟ قَالَ : قُلْنَا : نَحْنُ۔ قَالَ : رُدُّوْھُمَا قَالَ : فَرَدَدْنَاھُمَا إِلَی مَوَاضِعِھِمَا۔ رَوَاهُ الْبَيْھَقِيُّ۔
1 : أخرجه البیھقي في دلائل النبوۃ، 1۔321، والھناد في الزھد، 2 / 620، الرقم : 1337۔
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں حضورنبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے ہم ایک درخت کے پاس سے گزرے جس میں چَنڈُول (ایک خوش آواز چڑیا) کے دو بچے تھے۔ ہم نے وہ دوبچے اُٹھا لئے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ چَنڈُول حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں شکایت کرتے ہوئے حاضر ہوئی۔ پس آپ ﷺ نے فرمایا : کس نے اس چَنڈُول کو اس کے بچوں کی وجہ سے تکلیف دی ہے؟ راوی بیان کرتے ہیں : ہم نے عرض کیا : ہم نے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کے بچے اسے لوٹا دو۔ راوی بیان کرتے ہیں : پس ہم نے وہ دو بچے جہاں سے لئے تھے وہیں رکھ دیے۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
2۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا أَرَادَ الْحَاجَةَ أَبْعَدَ الْمَشْيَ فَانْطَلَقَ ذَاتَ یَوْمٍ لِحَاجَتِهِ ثُمَّ تَوَضَّأَ وَلَبِسَ أَحَدَ خَفَّيْهِ فَجَاءَ طَائِرٌ أَخْضَرُ فَأَخَذَ الْخُفَّ الْآخَرَ فَارْتَفَعَ بِهِ ثُمَّ أَلْقَاهُ فَخَرَجَ مِنْهُ أَسْوَدُ سَابِحٌ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ھَذِهِ کَرَامَةٌ أَکْرَمَنِيَ اللهُ بِھَا ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَللَّھُمَّ، إِنِّي أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَنْ یَمْشِي عَلَی بَطْنِهِ وَمِنْ شَرِّ مَنْ یَمْشِي عَلَی رِجْلَيْنِ وَمِنْ شَرِّ مَنْ یَمْشِي عَلَی أَرْبَعٍ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ۔
2 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 121، الرقم : 9304، وأبونعیم في دلائل النبوۃ، 1 / 198، الرقم : 150، والھیثمي في مجمع الزوائد، 1 / 203۔
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضي اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تو آبادی سے دور تشریف لے جاتے۔ آپ ﷺ ایک دن قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے پھر وضو فرمایا اور اپنے دو موزوں میں سے ایک موزہ پہنا کہ اچانک ایک سبز پرندہ آیا اور آپ ﷺ کا دوسرا موزہ لے اڑا، پھر اسے نیچے پھینکا تو اس میں سے ایک سیاہ سانپ نکلا (اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کی اس موذی جانور سے حفاظت فرمائی) آپ ﷺ نے فرمایا : یہ وہ چیز ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے میری تکریم فرمائی ہے۔ پھر حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں ہر اس (موذی جانور) سے جو پیٹ کے بل چلتاہے اور ہر اس کے شر سے جو دو ٹانگوں پر چلتا ہے اور اس کے شر سے جو چار ٹانگوں پر چلتاہے۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
3۔ عَنْ أَبِيأُمَامَةَ قَالَ : دَعَا رَسُولُ الله ﷺ بِخُفَّيْهِ، یَلْبَسُهُمَا فَلَبِسَ أَحَدَھُمَا، ثُمَّ جَاءَ غُرَابٌ فَاحْتَمَلَ الآخَرَ فَرَمَی بَهِ، فَخَرَجَتْ مِنْهُ حَيَّةٌ، فَقَالَ رَسُوْلُ الله ﷺ : مَنْ کَانَ یُؤمِنُ بِاللهِ وَالیَوْمِ الآخِرِ فَـلَا یَلْبَسْ خُفَّيْهِ حَتّی یَنْفُضَھُمَا۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
3 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 8 / 137، الرقم : 7620، وفي مسند الشامیین، 1 / 312، الرقم : 547، والدیلمي في مسند الفردوس، 3 / 511، الرقم : 5591، والهیثمي في مجمع الزوائد، 5 / 140، والمناوي في فیض القدیر، 6 / 211۔
’’حضرت ابو اُمامہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے دونوں موزے پہننے کے لیے منگوائے۔ آپ ﷺ نے ایک موزہ پہنا تھا کہ ایک کوا آیا اور دوسرا موزہ اُٹھا کر لے گیا اور اُوپر جا کر پھینک دیا۔ اس موزے میں سے ایک سانپ نکلا، حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پراِیمان رکھتا ہے تو وہ اپنے موزے جھاڑے بغیر نہ پہنے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
1۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه قَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ فِي مَحْفَلٍ مِنْ أَصْحَابِهِ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ أَعْرَابِيٌّ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ قَدْ صَادَ ضَبًّا وَجَعَلَهُ فِي کُمِّهِ فَذَھَبَ بِهِ إِلَی رَحْلِهِ۔ فَرَأَی جَمَاعَةً فَقَالَ : عَلَی مَنْ ھَذِهِ الْجَمَاعَةُ؟ فَقَالُوْا : عَلَی ھَذَا الَّذِي یَزْعَمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ۔ فَشَقَّ النَّاسَ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ، مَا اشْتَمَلَتِ النِّسَاءُ عَلَی ذِي لَھْجَةٍ أَکْذَبَ مِنْکَ وَلاَ أَبْغَضَ۔ وَلَوْ لَا أَنْ یُّسَمِّیَنِي قَوْمِي عَجُوْلاً لَعَجِلْتُ عَلَيْکَ فَقَتَلْتُکَ، فَسَرَرْتُ بِقَتْلِکَ النَّاسَ جَمِيْعًا۔ فَقَالَ عُمَرُ رضی الله عنه : یَارَسُوْلَ اللهِ، دَعْنِي أَقْتُلْهُ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْحَلِيْمَ کَادَ أَنْ یَکُوْنَ نَبِیًّا ثُمَّ أَقْبَلَ ]الْأَعْرَابِيُّ[ عَلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ : وَاللاَّتِ وَالْعُزَّی، لَا آمَنْتُ بِکَ۔ وَقَدْ قَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : یَا أَعْرَابِيُّ، مَاحَمَلَکَ عَلَی أَنْ قُلْتَ مَا قُلْتَ، وَقُلْتَ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَمْ تُکْرِمْ مَجْلِسِي؟ فَقَالَ : وَتُکَلِّمُنِي أَيْضًا! اِسْتِخْفَافًا بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ ، وَاللاَّتِ وَالْعُزَّی، لَا آمَنْتُ بِکَ أَوْ یُؤْمِنُ بِکَ ھَذَا الضَّبُ۔ فَأَخْرَجَ ضَبًّا مِنْ کُمِّهِ وَطَرَحَهُ بَيْنَ یَدَيْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ : إِنْ آمَنَ بِکَ ھَذَا الضَّبُ آمَنْتُ بِکَ۔
فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : یَاضَبُّ۔ فَتَکَلَّمَ الضَّبُ بِکَلاَمٍ عَرَبِيٍّ مُبِيْنٍ فَھِمَهُ الْقَوْمُ جَمِيْعًا : لَبَّيْکَ وَسَعْدَيْکَ، یَارَسُوْلَ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ تَعْبُدُ؟ قَالَ : الَّذِي فِي السَّمَائِ عَرْشُهُ وَفِي الْأَرْضِ سُلْطَانُهُ وَفِي الْبَحْرِ سَبِيْلُهُ وَفِي الْجَنَّةِ رَحْمَتُهُ وَفِي النَّارِ عَذَابُهُ۔ قَالَ : فَمَنْ أَنَا، یَا ضَبُّ؟ قَالَ : أَنْتَ رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ صَدَّقَکَ، وَقَدْ خَابَ مَنْ کَذَّبَکَ۔
فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ : أَشْھَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّکَ رَسُوْلُ اللهِ حَقًّا۔ لَقَدْ أَتَيْتُکَ وَمَا عَلَی وَجْهِ الْأَرْضِ أَحَدٌ ھُوَ أَبْغَضُ إِلَيَّ مِنْکَ، وَاللهِ، لَأَنْتَ السَّاعَةَ أَحَبُّ إِلَيَّ مَنْ نَفْسِي وَمِنْ وَالِدِي۔ وَقَدْ آمَنَتْ بِکَ شَعَرِي وَبَشَرِي وَدَاخِلِي وَخَارِجِي وَسِرِّي وَعَـلَانِیَتِي۔ فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَلْحَمْدُ ِللهِ الَّذِي ھَدَاکَ إِلَی ھَذَا الدِّيْنِ الَّذِي یَعْلُوْ وَلاَ یُعْلَی۔ لَا یَقْبَلُهُ اللهُ إِلاَّ بِصَلَاةٍ وَلاَ یُقْبَلُ الصَّلَاةُ إِلاَّ بِقِرَائَ ةٍ۔ فَعَلَّمَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ’’اَلْحَمْدُ‘‘ وَ ’’قُلْ ھُوَاللهُ أَحَدٌ‘‘۔ فَقَالَ : یَارَسُوْلَ اللهِ، مَا سَمِعْتُ فِي الْبَسِيْطِ وَلاَ فِي الرَّجَزِ أَحْسَنَ مِنْ ھَذَا۔ فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ ھَذَا کَلَامُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ وَلَيْسَ بِشِعْرٍ۔ إِذَا قَرَأْتَ ’’قُلْ ھُوَ اللهُ أَحَدٌ‘‘ مَرَّةً فَکَأَنَّمَا قَرَأْتَ ثُلُثَ الْقُرْآنِ وَإِذَا قَرَأْتَ ’’قُلْ ھُوَ اللهُ أَحَدٌ‘‘ مَرَّتَيْنِ فَکَأَنَّمَا قَرَأْتَ ثُلُثَيِ الْقُرْآنِ، وَإِذَا قَرَأْتَ ’’قُلْ ھُوَ اللهُ أَحَدٌ‘‘ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ فَکَأَنَّمَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ کُلَّهُ۔ فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ وَنِعْمَ الْإِلٓهُ إِلٓھُنَا، یَقْبَلُ الْیَسِيْرَ وَیُعْطِي الْجَزِيْلَ۔
فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَعْطُوْا الْأَعْرَابِيَّ۔ فَأَعْطُوْهُ حَتَّی أَبْطَرُوْهُ۔ فَقَامَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ فَقَالَ : یَارَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي أُرِيْدُ أَنْ أُعْطِیَهُ نَاقَةً أَتَقَرَّبُ بِھَا إِلَی اللهِ دُوْنَ الْبُخْتِي وَفَوْقَ الْأَعْرَابِيِّ وَھِيَ عُشَرَاءُ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : قَدْ وَصَفْتَ مَا تُعْطِي، فَأَصِفُ لَکَ مَا یُعْطِيْکَ اللهُ جَزَاءً؟ قَالَ : نَعَمْ۔ قَالَ : لَکَ نَاقَةٌ مِنْ دُرَّةٍ جَوْفَاءَ، قَوَائِمُھَا مِنْ زَبَرْجَدٍ أَخْضَرَ وَعُنُقُھَا مِنْ زَبَرْجَدٍ أَصْفَرَ۔ عَلَيْھَا ھَوْدَجٌ، وَعَلَی الْھَوْدَجِ السُّنْدُسُ وَالإِسْتَبْرَقُ تَمُرُّ بِکَ عَلَی الصِّرَاطِ کَالْبَرْقِ الْخَاطِفِ۔ فَخَرَجَ الْأَعْرَابِيُّ مِنْ عِنْدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ، فَلَقِیَهُ أَلْفُ أَعْرَابِيٍ عَلَی أَلْفِ دَابَةٍ بِأَلْفِ رُمْحٍ وَأَلْفِ سَيْفٍ۔ فَقَالَ لَھُمْ : أَيْنَ تُرِيْدُوْنَ؟ فَقَالُوْا : نُقَاتِلُ ھَذَا الَّذِي یَکْذِبُ وَیَزْعَمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ۔ فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ : أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ۔ فَقَالُوْا لَهُ : صَبَوْتَ؟ قَالَ : مَا صَبَوْتُ وَحَدَّثَهُمُ الْحَدِيْثَ۔ فَقَالُوْا بِأَجْمِعِهِمْ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ۔ فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِيَّ ﷺ ، فَتَلَقَّاهُمْ بِلَا رِدَاءٍ فَنَزَلُوْا عَنْ رِکَابِهِمْ یُقَبِّلُوْنَ مَا وَلَّوْا مِنْهُ وَهُمْ یَقَوْلُوْنَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ۔ فَقَالُوْا : مُرْنَا بِأَمْرٍ تُحِبُّهُ، یَا رَسُوْلَ اللهِ۔ قَالَ : تَکُوْنُوْنَ تَحْتَ رَایَةِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيْدِ۔ قَالَ : فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنَ الْعَرَبِ آمَنَ مِنْهُمْ أَلْفُ رَجُلٍ جَمِيْعًا غَيْرَ بَنِي سُلَيْمٍ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَيْھَقِيُّ۔
1 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 126۔129، الرقم : 5996، وفي المعجم الصغیر، 2 / 153۔155، الرقم : 948، وأبو نعیم في دلائل النبوۃ : 377۔379، والبیهقي في دلائل النبوۃ، 6 / 36۔38، والهیثمي فيمجمع الزوائد، 8 / 292۔294، وابن کثیر في شمائل الرسول، 351۔353، والسیوطی في الخصائص الکبری، 2 / 65۔
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم ﷺ اپنے صحابہ کی محفل میں تشریف فرما تھے کہ بنو سلیم کا ایک آیا۔ اس نے ایک گوہ کا شکار کیا تھا اور اسے اپنی آستین میں چھپا کر اپنی قیام گاہ کی طرف لے جارہا تھا۔ اس نے جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کو دیکھا تو اس نے کہا : یہ لوگ کس کے گرد جمع ہیں؟ لوگوں نے کہا : اس کے گرد جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ وہ لوگوں کے درمیان سے گزرتا ہوا حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے آ کھڑا ہوا اور کہنے لگا : اے محمد ( ﷺ )! کسی عورت کا بیٹا تم سے بڑھ کر جھوٹا اور مجھے ناپسند نہیں ہو گا۔ اگر مجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ میری قوم مجھے جلد باز کہے گی تو تمہیں قتل کرنے میں جلدی کرتا اور تمہارے قتل سے تمام لوگوں کو خوش کرتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ سے عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس (گستاخ) کو قتل کر دوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اے عمر! کیا تم جانتے نہیں کہ حلیم و بردبار آدمی ہی نبوت کے لائق ہوتا ہے۔ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا : مجھے لات و عزیٰ کی قسم! میں تم پر ایمان نہیں رکھتا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا : اے اعرابی! کس چیز نے تمہیں اس بات پر ابھارا ہے کہ تم میری مجلس کی تکریم کو بالائے طاق رکھ کر ناحق گفتگو کرو؟ اس نے بے ادبی سے رسول اللہ ﷺ سے کہا : کیا آپ بھی میرے ساتھ ایسے ہی گفتگو کریں گے؟ اور کہا : مجھے لات و عزیٰ کی قسم! میں آپ پر اس وقت تک ایمان نہیں لاؤں گا جب تک یہ گوہ آپ پر ایمان نہیں لاتی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی آستین سے گوہ نکال کر حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے پھینک دی اور کہا : اگر یہ گوہ آپ پر ایمان لے آئے تو میں بھی ایمان لے آؤں گا۔
’’پس حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے گوہ (کلام کر)! پس گوہ نے ایسی واضح اورفصیح عربی میں کلام کیا کہ جسے تمام لوگوں نے سمجھا۔ اس گوہ نے عرض کیا : اے دوجہانوں کے رب کے رسول! میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا : تم کس کی عبادت کرتی ہو؟ اس نے عرض کیا : میں اس کی عبادت کرتی ہوں جس کا عرش آسمانوں میں ہے، زمین پر جس کی حکمرانی ہے اور سمندر پر جس کا قبضہ ہے، جنت میں جس کی رحمت ہے اور دوزخ میں جس کا عذاب ہے۔ آپ ﷺ نے پھر پوچھا : اے گوہ! میں کون ہوں؟ اس نے عرض کیا : آپ دو جہانوں کے رب کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔ جس نے آپ کی تصدیق کی وہ فلاح پاگیا اور جس نے آپ کی تکذیب کی وہ ذلیل و خوار ہوگیا۔
’’اعرابی یہ دیکھ کر بول اٹھا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ جب میں آپ کے پاس آیا تھا تو روئے زمین پر آپ سے بڑھ کر کوئی شخص مجھے ناپسند نہ تھا، اور بخدا! اِس وقت آپ مجھے اپنی جان اور اولاد سے بھی بڑھ کر محبوب ہیں۔ میرے جسم کا ہر بال اور ہر رونگٹا، میرا عیاں و نہاں اور میرا ظاہر و باطن آپ پر ایمان لاچکا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس اللہ جل مجدهٗ کے لئے ہی ہر تعریف ہے جس نے تجھے اس دین کی طرف ہدایت دی جو ہمیشہ غالب رہے گا اور کبھی مغلوب نہیں ہوگا۔ اس دین کو اللہ تعالیٰ صرف نماز کے ساتھ قبول کرتا ہے اور نماز قرآن پڑھنے سے ہی قبول ہوتی ہے۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص سکھائیں۔ وہ عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! میں نے بسیط اور رجز (عربی شاعری کے سولہ اوزان میں سے دو وزن) میں اس سے حسین کلام کبھی نہیں سنا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس سے فرمایا : یہ رب دوجہاں کا کلام ہے، شاعری نہیں۔ جب تم نے سورہ اخلاص کو ایک مرتبہ پڑھ لیا تو گویا تم نے ایک تہائی قرآن پڑھنے کا ثواب پالیا اور اگر اسے دو مرتبہ پڑھا تو سمجھو کہ تم نے دو تہائی قرآن پڑھنے کا ثواب پالیا۔ اور تم نے اسے تین مرتبہ پڑھ لیا تو گویا تم نے پورے قرآن کا ثواب پالیا۔ پھر اعرابی نے کہا ہمارا معبود تمام معبودوں سے بہتر ہے جو تھوڑے عمل کو قبول فرماتا ہے اور بے حد و حساب عطا فرماتا ہے۔
’’پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا : اس اعرابی کی کچھ مدد کرو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے اتنا دیا کہ اسے (کثرتِ مال کی وجہ سے) بے نیاز کر دیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میں انہیں ایک اونٹنی دے کر قربِ الٰہی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ یہ فارسی النسل اونٹنی سے چھوٹی اور عربی النسل اونٹوں سے تھوڑی بڑی ہے اور یہ دس ماہ کی حاملہ ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم جو اونٹنی اسے دوگے اس کی تم نے صفات بیان کردی ہیں، اب میں تمہارے لئے اس اونٹنی کی صفات بیان کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی جزاء میں عطا فرمائے گا؟ انہوں نے عرض کیا : ہاں (ضرور بیان فرمائیے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہیں سوراخ دار موتیوں کی اونٹنی ملے گی جس کے پاؤں سبز زمرد کے ہوں گے اور جس کی گردن زرد زبرجد کی ہوگی اور اس پر کجاوہ ہوگا جو کہ کریب اور ریشم کا بنا ہوگا۔ وہ پل صراط سے تمہیں بجلی کے کوندے کی طرح گزار دے گی۔ پھر وہ اعرابی حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ سے باہر نکلا۔ راستے میں اسے ایک ہزار اعرابی ملے جو ہزار سواریوں پر سوار تھے اور ہزار تیروں اور ہزار تلواروں سے مسلح تھے۔ اس نے ان سے پوچھا : تم کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے کہا : ہم اس سے لڑنے جا رہے ہیں جو کذب بیانی سے کام لیتا ہے اور یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ نبی ہے۔ اس اعرابی نے ان سے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ انہوں نے کہا : تم نے بھی نیا دین اختیار کرلیا ہے؟ اس نے کہا : میں نے نیا دین اختیار نہیں کیا (بلکہ دین حق اختیار کیا ہے)۔ پھر اس نے انہیں (گوہ سے متعلق) تمام بات سنائی۔ یہ سن کر ہر کوئی کہنے لگا : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ تک جب یہ خبر پہنچی تو آپ ﷺ انہیں ملنے کے لئے (تیزی سے) بغیر چادر کے باہر تشریف لائے۔ وہ آپ ﷺ کو دیکھ کر اپنی سواریوں سے کود پڑے اور حضور نبی اکرم ﷺ کے جس حصہ تک ان کی رسائی ہوئی اسے چومنے لگے اور ساتھ ساتھ کہنے لگے : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ پھر انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ ہمیں اس چیز کا حکم دیں جو آپ کو پسند ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تم خالد بن ولید کے جھنڈے تلے ہوگے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ سارے عرب میں صرف بنو سلیم کے ہی ایک ہزار لوگ بیک وقت ایمان لائے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی، ابو نعیم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved