1۔ وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَآءوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِيْمًاo
(النساء، 4 : 64)
’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول( ﷺ ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتےo‘‘
2۔ وَمَنْ يَّخْرُجْ مِنْم بَيْتِهٖ مُهَاجِرًا اِلَی اللهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ یُدْرِکْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُهٗ عَلَی اللهِ ط وَکَانَ اللهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًاo
(النساء، 4 : 100)
’’اور جو شخص بھی اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلے پھر اسے (راستے میں ہی) موت آپکڑے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ثابت ہو گیا، اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہےo‘‘
3۔ لَآ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِo وَ اَنْتَ حِلٌّم بِهٰذَا الْبَلَدِo
(البلد، 90 : 1۔2)
’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوںo
(اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیںo‘‘
1۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَا تَجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قُبُوْرًا وَلَا تَجْعَلُوْا قَبْرِي عِيْدًا وَصَلُّوْا عَلَيَّ فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ تَبْلُغُنِي حَيْثُ کُنْتُمْ۔
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْھَقِيُّ۔ وَقَالَ النَّوَوِيُّ : رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ وَأَيَّدَهُ ابْنُ کَثِيْرٍ۔
1 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : المناسک، باب : زیارۃ القبور، 2 / 218، الرقم : 2042، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 367، الرقم : 8790، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 2 / 150، الرقم : 7542، 3 / 30، الرقم : 11818، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 81، الرقم : 8030، والبزار عن علي رضی الله عنه في المسند، 2 / 147، الرقم : 509، والبیهقي في شعب الإیمان، 3 / 491، الرقم : 4162، والدیلمي في مسند الفردوس، 5 / 15، الرقم : 7307، وابن سرایا في سلاح المؤمن في الدعائ، 1 / 44، الرقم : 27، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 13 / 516، والنووي في ریاض الصالحین، 1 / 316۔
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنائو (یعنی اپنے گھروں میں بھی نماز پڑھا کرو انہیں قبرستان کی طرح ویران نہ رکھو) اور نہ ہی میری قبر کو عیدگاہ بناؤ (کہ جس طرح عید سال میں دو مرتبہ آتی ہے اس طرح تم سال میں صرف ایک یا دو دفعہ میری قبر کی زیارت کرو بلکہ میری قبر کی جس قدر ممکن ہو کثرت سے زیارت کیا کرو) اور مجھ پر (کثرت سے) درود بھیجا کرو پس تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو تمہارا درود مجھے پہنچ جاتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو داود، احمد، ابن ابی شیبہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام نووی نے فرمایا کہ اسے امام ابو داود نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے اور امام ابن کثیر نے بھی ان کی تائید کی ہے۔
2۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ زَارَ قَبْرِي وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِي۔ رَوَاهُ الدَّارُ قُطْنِيُّ وَالْبَيْھَقِيُّ۔
2 : أخرجه الدارقطني في السنن، 2 / 278، الرقم : 194، والبیهقي في شعب الإیمان، 3 / 490، الرقم : 4159، والهیثمي في مجمع الزوائد، 4 / 2، وَقَالَ الھَيْثَمِيُّ : رَوَاهُ البَزَّارُ، والحکیم الترمذي في نوادر الأصول، 2 / 67۔
وأقل ما یقال في ھذا الحدیث إنه حسن، و قد قال الحافظ السیوطي في (المناھل : 208) : له طرق وشواھد حسنه لأجلھا الذھبي، وقال العلامۃ المناوي في (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر 6 / 140) قال الذھبي : طرقه لینۃ لکن یتقوی بعضھا ببعض۔ قال الملا علي القاري : حدیث ابن عمر له طرق وشواھد حسنۃ الذهبي لأجلها وصححه جماعۃ من أئمۃ الحدیث (شرحه علی الشفا 3 / 842)۔ ونقل الخفاجي أن الذھبي حسنه، کذا في (شرح الشفا، 3 / 511)، ومما یدل علی ھذا ذکر الأئمۃ له في الفضائل وعدم إدخاله في الأحادیث الضعیفۃ أو الموضوعۃ۔
وممن ذکره في الفضائل والمناسک الحافظ الضیاء المقدسي في (فضائل الأعمال) في فضل زیارۃ قبر المصطفی ﷺ (413۔ 414) والحافظ أبو عبد الله الحلیمي في (الشعب 2 / 13)، والإمام الرافعي في المناسک (التلخیص الحبیر 2 / 267)، والإمام النووي في (الإیضاح ص488) وابن الملقن في (تحفۃ المحتاج، 2 / 189)۔
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے میری قبر کی زیارت کی (روزِ قیامت) اس کے حق میں میری شفاعت واجب ہو گئی۔‘‘
اس حدیث کو امام دارقطنی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
3۔ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ سَحِيْمٍ رضی الله عنه قَالَ : رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فِي النَّوْمِ قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، هَؤُلَاء الَّذِيْنَ یَأْتُوْنَ فَیُسَلِّمُوْنَ عَلَيْکَ أَتَفْقَهُ سَلَامَهُمْ؟ قَالَ : نَعَمْ، وَأَرُدُّ عَلَيْهِمْ۔ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالْقَاضِي عِیَاضٌ۔
3 : أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 3 / 491، الرقم : 4165، وأیضا في حیاۃ الأنبیاء في قبورهم، 1 / 20، الرقم : 19، وأیضا في ما ورد في حیاۃ الأنبیاء بعد وفاتهم، 1 / 3، والقاضي عیاض في الشفا، 1 / 576، الرقم : 1444، والسمهودي في خلاصۃ الوفا بأخبار دار المصطـفی ﷺ ، 1 / 42، والیسوطي في الدر المنثور، 1 / 570، والصالحي في سبل الهدی والرشاد، 12 / 357، وابن منظور في مختصر تاریخ دمشق، 1 / 307۔
’’حضرت سلیمان بن سحیم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے خواب میں حضورنبی اکرم ﷺ کی زیارت کی تو عرض کیا : یارسول اللہ! یہ لوگ جو آپ کی قبرِ انور پر سلام پیش کرنے کے لئے حاضر ہوئے ہیں، کیا آپ ان کا سلام سمجھتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں (بارگاهِ الٰہی میں اُن کی شفاعت بھی کرتا ہوں) ، اور میں خود ان کے سلام کا جواب بھی دیتا ہوں۔‘‘
اس حدیث کو امام بیہقی اور قاضی عیاض نے روایت کیا ہے۔
4۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ الله ﷺ : مَا مِنْ عَبْدٍ یُسَلِّمُ عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي (وفي روایۃ : مَنْ صَلَّی عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي) إِلَّا وَکَّلَ اللهُ بِهِ مَلَکًا یُبَلِّغُنِي وَکُفِيَ أَمْرُ آخِرَتِهِ وَدُنْیَاهُ وَکُنْتُ لَهُ شَهِيْدًا وَشَفِيْعًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالْهِنْدِيُّ وَالْخَطِيْبُ۔
4 : أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 3 / 489، الرقم : 4156، والخطیب البغدادي في تاریخ بغداد، 3 / 292، والهندي في کنز العمال، 1 / 498، الرقم : 2197۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو (شخص) میری قبر کے نزدیک مجھ پر درود بھیجتا ہے، میں خود اسے سنتا ہوں اور جو دور سے مجھ پر درود بھیجتا ہے، تو (بارگاہ الٰہی سے) اس کے لیے ایک فرشتہ مقرر ہے جو میری خدمت میں وہ (تحفۂ) درود پہنچاتا ہے، اور یہ درود اس بھیجنے والے کے لئے دنیا وآخرت کے معاملات کا کفیل ہوجاتا ہے، اور (قیامت کے روز) میں خود اس درود پڑھنے والے کا گواہ اور شفاعت کرنے والا ہوں گا۔‘‘
اس حدیث کو امام بیہقی، ہندی اور خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : مَنْ صَلَّی عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ وَمَنْ صَلَّی عَلَيَّ نَائِیًا أُبْلِغْتُهُ۔ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ۔
6۔ وفي روایۃ عنه : قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ صَلَّی عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ وَمَنْ صَلَّی عَلَيَّ مِنْ بَعِيْدٍ عُلِّمْتُهُ۔ رَوَاهُ الْمُتَّقِيُّ الْهِنْدِيُّ۔
5-6 : أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 2 / 218، الرقم : 1583، والزیلعي في تخریج الأحادیث والآثار، 3 / 135، والذهبي في میزان الاعتدال، 6 / 328، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 3 / 516، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 488، والهندي في کنز العمال، 1 / 492، الرقم : 2165، والمناوي في فیض القدیر، 6 / 170، والعظیم آبادي في عون المعبود، 6 / 21۔22۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو (شخص) میری قبر کے پاس مجھ پر درود پڑھتا ہے میں بذاتِ خود اسے سنتا ہوں اور جو دور سے مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ(بھی) مجھے پہنچا دیا جاتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
’’ایک اور روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو (شخص) میری قبر کے نزدیک مجھ پر درود بھیجتا ہے میں خود اسے سنتا ہوں، (اور جواب بھی دیتا ہوں) اور جو دور سے مجھ پر درود بھیجتا ہے، تو اس کے لیے ایک فرشتہ مقرر ہے، جو مجھے وہ درود پہنچاتا ہے اور جو دور سے مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ بھی مجھے بتا دیا جاتا ہے۔‘‘ اسے امام متقی ہندی نے روایت کیا ہے۔
7۔ عَنْ حَاطِبٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ زَارَنِي بَعْدَ مَوْتِي فَکَأَنَّمَا زَارَنِي فِي حِیَاتِي وَمَنْ مَاتَ بِأَحَدِ الْحَرَمَيْنِ بُعِثَ مِنَ الْآمِنِيْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔
رَوَاهُ الدَّارُ قُطْنِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ۔
7 : أخرجه االدارقطني في السنن، 2 / 278، الرقم : 913، والبیهقي في شعب الإیمان، 3 / 488، الرقم : 4151، والمقدسي في فضائل الأعمال، 1 / 89، الرقم : 386، والذهبي في میزان الاعتدال، 7 / 63، وابن حجر العسقلاني في لسان المیزان، 6 / 180، والمنذري في الترغیب والترھیب، 2 / 147، الرقم : 1865، والسیوطي في الدر المنثور، 1 / 569۔
’’حضرت حاطب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے میرے وصال کے بعد میری زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی اور جو حرمین میں سے کسی ایک میں فوت ہو گیا۔ روزِ قیامت وہ امان پانے والوں میں اٹھایا جائے گا۔‘‘
اس حدیث کو امام دار قطنی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
8۔ عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : مَنْ زَارَ قَبْرِي أَوْ قَالَ : مَنْ زَارَنِي کُنْتُ لَهُ شَفِيْعًا أَوْ شَهِيْدًا وَمَنْ مَاتَ فِي أَحَدِ الْحَرَمَيْنِ بَعَثَهُ اللهُ فِي الْآمِنِيْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ۔
8 : أخرجه البیهقي في السنن الکبری، 5 / 245، الرقم : 10053، والطیالسي في المسند، 1 / 12، الرقم : 65، وابن حجر العسقلاني في المطالب العالیۃ، 7 / 155، الرقم : 1322۔
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے میری قبرِ انور یا فرمایا : جس نے میری زیارت کی میں اس کے لیے شافع یا گواہ ہوں گا۔ اور جو دو حرموں میں سے کسی ایک میں بھی فوت ہوا اسے اللہ تعالیٰ بروزِ قیامت اہل ایمان میں اٹھائے گا۔‘‘
اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
9۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ زَارَ قَبْرِي بَعْدَ مَوْتِي کَانْ کَمَنْ زَارَنِي فِي حَیَاتِي۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
9-10 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 12 / 406، الرقم : 13496، 13497، وفي المعجم الأوسط، 1 / 94، الرقم : 287، 3 / 351، الرقم : 3376، والبیهقي في السنن الکبری، 5 / 246، الرقم : 10054، والدارقطني في السنن، 2 / 278، الرقم : 192۔
10۔ وَفِي رِوَایَةٍ : مَنْ حَجَّ فَزَارَ قَبْرِي بَعْدَ وَفَاتِي کَانْ کَمَنْ زَارَنِي فِي حَیَاتِي۔
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے میرے وصال کے بعد میری قبر انور کی زیارت کی اس نے گویا میری حیاتِ مبارکہ میں میری زیارت کی۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں : ’’جس نے حج کیا اور میرے وصال کے بعد میری قبر انور کی زیارت کی گویا اس نے میری حیاتِ مبارکہ میں میری زیارت کی۔‘‘
11۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَیَهْبُطَنَّ عِيْسَی ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلًا وَإِمَامًا مُقْسِطًا، وَلَیَسْلُکَنَّ فَجًّا حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا أَوْ بِنِيَّتِهِمَا، وَلَیَأْتِیَنَّ قَبْرِي حَتَّی یُسَلِّمَ عَلَيَّ وَلَأَرُدَّنَّ عَلَيْهِ۔ رَوَاهُ الْحَاکِمُ۔
11 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 651، الرقم : 4162، والعظیم آبادي في عون المعبود، 11 / 310، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 47 / 493۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حضرت عیسیٰ بن مریم عادل حاکم اور منصف امام کے طور پر ضرور آئیں گے۔ وہ فوری طور پر حج یا عمرہ یا دونوں کی نیت سے چل پڑیں گے اور میری قبر پر ضرور آئیں گے، مجھے سلام کریں گے اور میں انہیں ضرور جواب دوں گا۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔
12۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ جَاءَ نِي زَائِراً لَا یَعْمَلُهُ حَاجَةٌ إِلَّا زِیَارَتِي کَانَ حَقًّا عَلَيَّ أَنْ أَکُوْنَ لَهُ شَفِيْعًا۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
12 : أخرجه الطبراني في المجعم الکبیر، 12 / 291، رقم : 13149، وأبو نعیم في تاریخ أصبهان، 2 / 190، والذهبي في میزان الاعتدال، 6 / 415، وابن حجر العسقلاني في لسان المیزان، 6 / 29، وفي تلخیص الحبیر، 2 / 267، والهیثمي في مجمع الزوائد، 4 / 2، والسیوطي في الدر المنثور، 1 / 569۔
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص میری زیارت کے لئے آیا اور اسے میری زیارت کے علاوہ کوئی اور سروکار نہیں تھا، تو مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کی شفاعت کرنے والا ہوجاؤں۔‘‘ امام طبرانی نے اسے روایت کیا ہے۔
13۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ (بْنِ مَسْعُوْدٍ) رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : إِنَّ ِللهِ مَـلَائِکَةً سَيَّاحِيْنَ یُبَلِّغُوْنِي عَنْ أُمَّتِي السَّـلَامَ قَالَ : وَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : حَیَاتِي خَيْرٌ لَکُمْ، تُحْدِثُوْنَ وَتُحْدَثُ لَکُمْ، وَوَفَاتِي خَيْرٌ لَکُمْ تُعْرَضُ عَلَيَّ أَعْمَالُکُمْ، فَمَا رَأَيْتُ مِنْ خَيْرٍ حَمِدْتُ اللهَ عَلَيْهِ، وَمَا رَأَيْتُ مِنْ شَرٍّ اِسْتَغْفَرْتُ اللهَ لَکُمْ۔
رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَالْجَهْضَمِيُّ وَالشَّاشِيُّ وَابْنُ سَعْدٍ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ۔
13 : أخرجه البزار في المسند، 5 / 308، الرقم : 1925، والجهضمي في فضل الصلاۃ علی النبي ﷺ ، 1 / 38۔39، الرقم : 25۔26، وابن سعد في الطبقات الکبری، 2 / 194، والشاشي في المسند، 2 / 253، الرقم : 826، والدیلمي في مسند الفردوس، 1 / 183، الرقم : 686، والهیثمي في مجمع الزوائد، 9 / 24۔
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میری زندگی بھی تمہارے لئے خیر ہے کیونکہ (بذریعہ وحی الٰہی اور میری سنت) تمہیں نئے نئے احکام ملتے ہیں اور میری وفات بھی تمہارے لئے خیر ہے کیونکہ (میری قبر میں بھی) تمہارے اعمال میرے سامنے پیش ہوا کریں گے۔ چنانچہ اگر (تمہاری) نیکیاں دیکھوں گا تو اللہ کا شکر بجا لایا کروں گا اور اگر برائیاں دیکھوں گا تو تمہارے لئے اللہ تعالیٰ سے استغفار کیا کروں گا۔‘‘
اس حدیث کو امام بزار، جہضمی، شاشی اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
14۔ عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ رضي الله عنهما یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ اللهَ وَکَّلَ بِقَبْرِي مَلَکًا أَعْطَاهُ أَسْمَاعَ الْخَـلَائِقِ، فَـلَا یُصَلِّي عَلَيَّ أَحَدٌ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ، إِلاَّ بَلَغَنِي بِاسْمِهِ واسْمِ أَبِيْهِ، ھَذَا فُـلَانُ بْنُ فُـلَانٍ قَدْ صَلَّی عَلَيْکَ۔
رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ۔ وَقَالَ الْھَيْثَمِيُّ : فِيْهِ ابْنُ الْحِمْیَرِيِّ لَا أَعْرِفُهُ وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ رِجَالُ الصَّحِيْحِ۔
وَرَوَی أَبُو الشَّيْخِ ابْنُ حَيَّانَ وَلَفْظُهُ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ ِللهِ تَبَارَکَ وَتعَالَی مَلَکًا أَعْطَاهُ أَسْمَاعَ الْخَـلَائِقِ کُلِّھِمْ، فَھُوَ قَائِمٌ عَلَی قَبْرِي، إِذَا مُتُّ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ، فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِي صَلَّی عَلَيَّ صَـلَاةً إِلاَّ سَمَّاهُ بِاسْمِهِ وَاسْمِ أَبِيْهِ، فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ (صَلَّی اللهُ عَلَيْکَ وَآلِکَ وَسَلَّمَ تَسْلِيْمًا کَثِيْرًا)! صَلَّی عَلَيْکَ فُـلَانٌ، فَیُصَلِّي الرَّبُّ تَبَارَکَ وَتَعَالَی عَلَی ذَلِکَ الرَّجُلِ بِکُلِّ وَاحِدٍ عَشَرًا۔
14 : أخرجه البزار في المسند، 4 / 255، الرقم : 1425، 1426، والبخاري في التاریخ الکبیر، 6 / 416، الرقم : 2831، وابن حیان في العظمۃ، 2 / 762، الرقم : 1، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2 / 326، الرقم : 2574، وقال : رواه الطبراني في الکبیر بنحوه، والعسقلاني في لسان المیزان، 4 / 249، الرقم : 678۔
’’حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ نے میری قبر پر ایک فرشتہ مقرر کیا ہوا ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی آوازیں سننے (اور سمجھنے)کی قوت عطاء فرمائی ہے، پس روزِ قیامت تک جو بھی مجھ پر درود پڑھے گا، وہ فرشتہ اس درود پڑھنے والے کا نام اور اس کے والد کا نام مجھے پہنچائے گا، اور عرض کرے گا : یا رسول اللہ! فلاں بن فلاں نے آپ پر درود بھیجا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام بزار نے اور بخاری نے ’’التاریخ الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کی سند میں ابن حمیری راوی ہے میں اسے نہیں جانتا اس کے علاوہ تمام رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
’’امام ابو شیخ ابن حیان کی روایت کردہ حدیث کے الفاظ یوں ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی آوازیں سننے (اور سمجھنے) کی قوت عطا فرمائی ہے، پس وہ فرشتہ میری قبر پر کھڑا ہے، جب سے میں نے اس دنیا سے (ظاہراً) پردہ کیا ہے، وہ قیامت تک کھڑا رہے گا۔ پس میری اُمت میں سے جو بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے، وہ فرشتہ اس کا نام اور اس کے باپ کا نام مجھے بتاتا ہے، اور یوں کہتا ہے، اے محمد! فلاں شخص نے آپ پر درود بھیجا ہے، پس اللہ تعالیٰ اس شخص پر ہر ایک درود کے بدلے میں دس رحمتیں بھیجے گا۔‘‘
1۔ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ رضی الله عنه عَنْ أَبِيْهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه أَنَّهُ خَرَجَ یَوْمًا إِلَی مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَوَجَدَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ رضی الله عنه قَاعِدًا عِنْدَ قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ یَبْکِي… الحدیث۔
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالطَّبَرِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْقُضَاعِيُّ وَابْنُ أَبِي الدُّنْیَا۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ۔
وفي روایۃ : عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ قَالَ : رَأَيْتُ جَابِرًا رضی الله عنه وَهُوَ یَبْکِي عِنْدَ قَبْرِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَهُوَ یَقُوْلُ : هَاهُنَا تُسْکَبُ الْعَبَرَاتُ۔ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : مَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّةِ۔ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ۔
1 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الفتن، باب من ترجی له السلامۃ من الفتن، 2 / 1320، الرقم : 3989، والحاکم في المستدرک، 1 / 44، الرقم : 4، والبیهقي في شعب الإیمان، 3 / 491، الرقم : 4163، والطبري في تهذیب الآثار، 2 / 795، الرقم : 1118، والقضاعي في مسند الشهاب، 2 / 147، الرقم : 1071، والطبراني في المعجم الکبیر، 20 / 153۔154، الرقم : 321۔322۔
’’حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ بواسطہ اپنے والد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : ایک دن وہ مسجد نبوی کی طرف گئے تو وہاں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو حضورنبی اکرم ﷺ کی قبرِ انور کے پاس بیٹھ کر زار و قطار روتے ہوئے پایا…الحدیث۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ، طبری، حاکم، طبرانی، قضاعی اور ابن ابی دنیا نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
’’ایک روایت میں امام محمد بن منکدر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی قبرِ انور کے قریب (زار و قطار) روتے جا رہے تھے اور ساتھ ساتھ وہ کہتے جا رہے تھے : ’’یہی وہ درِ محبوب ہے جہاں (نذرانۂ محبت) آنسوؤں کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔‘‘ پھر حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : میری قبر اور میرے منبر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
2۔ عَنِ الْقَاسِمِ (بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيْقِ رضی الله عنهم ) قَالَ : دَخَلْتُ عَلَی عَائِشَةَ رضي الله عنها فَقُلْتُ : یَا أُمَّهْ، اکْشِفِي لِي عَنْ قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ وَصَاحِبَيْهِ رضي الله عنهما فَکَشَفَتْ لِي عَنْ ثَـلَاثَةِ قُبُوْرٍ۔
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَبُوْ یَعْلَی وَالْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ۔
وفي روایۃ : عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ، إِنَّ امْرَأَةً قَالَتْ لِعَائِشَةَ رضي الله عنها : اکْشِفِي لِي عَنْ قَبْرِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَکَشَفَتْ لَهَا عَنْهُ فَبَکَتْ حَتَّی مَاتَتْ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ فِي الزُّهْدِ۔
2 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : الجنائز، باب : في تسویۃ القبر، 3 / 215، الرقم : 3220، وأبو یعلی في المسند، 8 / 53، الرقم : 4571، والحاکم في المستدرک، 1 / 524، الرقم : 1368، والبیهقي في السنن الکبری، 4 / 3، الرقم : 6549، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 209، والنمیري في أخبار المدینۃ، 2 / 93، الرقم : 1628، وأحمد بن حنبل في الزھد، 1 / 369، والوادیاشي في تحفۃ المحتاج، 1 / 610، الرقم : 823، والمزي في تهذیب الکمال، 22 / 158۔
’’حضرت قاسم (بن محمد بن ابو بکر الصدیق) رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوا : اماں جان! میرے لیے حضور نبی اکرم ﷺ کی قبر انور اور آپ ﷺ کے دونوں ساتھیوں (یعنی حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما) کی قبر انور بھی کھول دیں، انہوں نے میرے لیے تینوں مقدس قبور (کا دروازہ) کھول دیا (لهٰذا میں زیارت قبور سے مستفید ہوا)۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو داود، ابو یعلی، حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
’’حضرت ابن مبارک رَحِمَهُ اللہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے عرض کیا کہ وہ اس کے لئے حضور نبی اکرم ﷺ کا روضۂ اقدس کھول دیں۔تو انہوں نے اس عورت کے لئے روضۂ اقدس کھول دیا تو وہ عورت (روضۂ اقدس کے پاس) اتنا روئی کہ(فراقِ رسول ﷺ میں) اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد نے ’’کتاب الزھد‘‘ میں روایت کیا ہے۔
3۔ عَنْ مَالِکٍ علیه الرحمۃ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ دِيْنَارٍ رضی الله عنه قَالَ : رَأَيْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ رضي الله عنھما یَقِفُ عَلَی قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ فَیُصَلِّي عَلَی النَّبِيِّ ﷺ وَعَلَی أَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ رضي الله عنھما۔
رَوَاهُ مَالِکٌ وَالْجَهْضَمِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ سَعْدٍ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَالْقَاضِي عِیَاضٌ۔
3 : أخرجه مالک في الموطأ، 1 / 166، الرقم : 397، والجهضمي في فضل الصلاۃ علی النبي ﷺ ، 1 / 83، الرقم : 98، والبیهقي في السنن الکبری، 5 / 245، الرقم : 10052، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 210، وابن عبد البر في الاستذکار، 2 / 323، الرقم : 368، وفي التمھید، 17 / 304، والقاضي عیاض في الشفا، 1 / 587، الرقم : 1480، والزرقاني في شرحه، 1 / 477۔
’’امام مالک علیہ الرحمۃ نے حضرت عبد اللہ بن دینار رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا : میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کو حضورنبی اکرم ﷺ کی قبرِ انور کے پاس کھڑے ہو کر بارہا حضور نبی اکرم ﷺ اور حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنھما پر درود و سلام بھیجتے ہوئے دیکھا۔‘‘
اس روایت کو امام مالک، جہضمی، بیہقی، ابن سعد، ابن عبد البر اور قاضی عیاض نے روایت کیا ہے۔
4۔ عَنْ نَبِيْهِ بْنِ وَھَبٍ رضی الله عنه أَنَّ کَعْبًا دَخَلَ عَلَی عَائِشَةَ رضي الله عنھا، فَذَکَرُوْا رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَقَالَ کَعْبٌ : مَا مِنْ یَوْمٍ یَطْلُعُ إِلَّا نَزَلَ سَبْعُوْنَ أَلْفًا مِنَ الْمَلَائِکَةِ حَتَّی یَحُفُّوْا بِقَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ یَضْرِبُوْنَ بِأَجْنِحَتِهِمْ، وَیُصَلُّوْنَ عَلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ، حَتَّی إِذَا أَمْسَوْا عَرَجُوْا وَھَبَطَ مِثْلُھُمْ فَصَنَعُوْا مِثْلَ ذَلِکَ، حَتَّی إِذَا انْشَقَّتْ عَنْهُ الْأَرْضُ خَرَجَ فِي سَبْعِيْنَ أَلْفًا مِنَ الْمَلَائِکَةِ یَزِفُّوْنَهُ۔
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ۔
4 : أخرجه الدارمي في السنن، باب : ما أکرم الله تعالی نبیه بعد موته، 1 / 57، الرقم : 94، والبیهقي في شعب الإیمان، 3 / 492، الرقم : 4170، وابن حیان في العظمۃ، 3 / 1018، الرقم : 537، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 5 / 390، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، في قول الله تعالی : ھو الذي یصلي علیکم وملائکته۔۔۔ الخ 3 / 518۔
’’حضرت نبیہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے حضورنبی اکرم ﷺ کا ذکر کیا۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا : جب بھی دن نکلتا ہے ستر ہزار فرشتے اترتے ہیں اور وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی قبرِ اقدس کو (اپنے نورانی وجود سے) گھیر لیتے ہیں اور قبر اقدس پر (حصول برکت و توسل کے لئے) اپنے پَر مس کرتے ہیں اور حضور نبی اکرم ﷺ پر درود (و سلام) بھیجتے ہیں اور شام ہوتے ہی آسمانوں پر چلے جاتے ہیں اور اتنے ہی فرشتے مزید اُترتے ہیں اور وہ بھی دن والے فرشتوں کی طرح کا عمل دہراتے ہیں۔ حتی کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ کی قبرِ مبارک (روزِ قیامت) شق ہو گی تو آپ ﷺ ستر ہزار فرشتوں کے جھرمٹ میں (میدانِ حشر میں) تشریف لائیں گے۔‘‘ اسے امام دارمی، بیہقی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنْ أَبِي الْجَوْزَاء أَوْسِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنه قَالَ : قُحِطَ أَھْلُ الْمَدِيْنَةِ قَحْطًا شَدِيْدًا، فَشَکَوْا إِلَی عَائِشَةَ رضي الله عنها فَقَالَتْ : انْظُرُوْا قَبْرَ النَّبِيِّ ﷺ فَاجْعَلُوْا مِنْهُ کُوًی إِلَی السَّمَاء، حَتَّی لَا یَکُوْنَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ سَقْفٌ، قَالَ : فَفَعَلُوْا، فَمُطِرْنَا مَطَرًا، حَتَّی نَبَتَ الْعُشْبُ، وَسَمِنَتِ الإِبِلُ، حَتَّی تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ، فَسُمِّيَ عَامَ الْفَتْقِ۔ رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالْخَطِيْبُ التَّبْرِيْزِيُّ۔
5 : أخرجه الدارمي في السنن، باب : (15) : ما أکرم الله تعالی نبیّه ﷺ بعد موته، 1 / 56، الرقم : 92، والخطیب التبریزي في مشکاۃ المصابیح، 4 / 400، الرقم : 5950، وابن الجوزي في الوفاء بأحوال المصطفی ﷺ ، 2 / 801، وتقي الدین السبکي في شفاء السقام، 1 / 128، والقسطلاني في المواهب اللدنیۃ، 4 / 276، الزرقاني في شرحه، 11 / 150۔
’’حضرت ابو جوزاء اوس بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے، تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے (اپنی ناگفتہ بہ حالت کی) شکایت کی۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : حضور نبی اکرم ﷺ کی قبر انور (یعنی روضہ اقدس) کے پاس جاؤ اور وہاں سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھولو کہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے ایسا ہی کیا تو بہت زیادہ بارش ہوئی، یہاں تک کہ خوب سبزہ اگ آیا اور اونٹ اتنے موٹے ہو گئے کہ (محسوس ہوتا تھا) جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے لهٰذا اس سال کا نام ہی ’’عَامُ الْفَتْق‘‘ (پیٹ) پھٹنے کا سال رکھ دیا گیا۔‘‘
اس حدیث کو امام دارمی اور خطیب تبریزی نے روایت کیا ہے۔
6۔ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي صَالِحٍ قَالَ : أَقْبَلَ مَرْوَانُ یَوْمًا فَوَجَدَ رَجُـلًا وَاضِعًا وَجْهَهُ عَلَی الْقَبْرِ، فَقَالَ : أَتَدْرِي مَا تَصْنَعُ؟ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ فَإِذَا هُوَ أَبُوْ أَیُّوْبَ رضی الله عنه فَقَالَ : نَعَمْ، جِئْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ وَلَمْ آتِ الْحَجَرَ (وفي روایۃ : وَلَا الْخَدَرَ) سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : لَا تَبْکُوْا عَلَی الدِّيْنِ إِذَا وَلِیَهُ أَهْلُهُ وَلَکِنِ ابْکُوْا عَلَيْهِ إِذَا وَلِیَهُ غَيْرُ أَهْلِهِ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ۔
6 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 422، الرقم : 23632، والحاکم في المستدرک، 4 / 560، رقم : 8571، والطبراني في المعجم الکبیر، 4 / 158، الرقم : 3999، وفي المعجم الأوسط، 1 / 94، الرقم : 284، 9 / 144، الرقم : 9366، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 57 / 249، 250، والسبکي في شفاء السقام1 / 113، والهیثمي في مجمع الزوائد، 5 / 245، والهندي في کنز العمال، 6 / 88، الرقم : 14967۔
’’حضرت داؤد بن ابو صالح رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز (خلیفہ وقت) مروان آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم ﷺ کی قبرِ انور پر اپنا چہرہ جھکائے ہوئے ہے، تو اس نے اس آدمی سے کہا : کیا تو جانتا ہے کہ تو یہ کیا کررہا ہے؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تو دیکھا کہ وہ (صحابی رسول) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے (جواب میں) فرمایا : ہاں (میں جانتا ہوں) میں رسول اللہ ﷺ کی بارگاهِ اقدس میں حاضر ہوا ہوں۔ کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : میں کسی تاریک جگہ پر نہیں آیا) میں نے رسول خدا ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے : دین(ملک و ریاست) پر مت رؤو جب اس کا ولی اس کا اہل ہو، ہاں دین پر اس وقت رؤو جب اس کا ولی نااہل ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
7۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُنِيْبِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنهم عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : رَأَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رضی الله عنه أَتَی قَبْرَ النَّبِيِّ ﷺ فَوَقَفَ، فَرَفَعَ یَدَيْهِ حَتَّی ظَنَنْتُ أَنَّهُ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، فَسَلَّمَ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ انْصَرَفَ۔ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالْقَاضِي عِیَاضٌ۔
7 : أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 3 / 491، الرقم : 4164، والقاضي عیاض في الشفا، 1 / 586، الرقم : 1473، والسیوطي في الدر المنثور، 1 / 570۔
’’حضرت عبد اللہ بن منیب بن عبد اللہ بن ابی امامہ رضی اللہ عنہم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو حضورنبی اکرم ﷺ کی قبرِ انور کی طرف آتے ہوئے اور پھر وہاں ٹھہرتے ہوئے دیکھا، پھر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے، یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ آپ نماز پڑھنے لگے ہیں (لیکن وہ روضہ انور پر سلام عرض کر رہے تھے) پھر وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں سلام عرض کرنے کے بعد وہاں سے تشریف لے گئے۔‘‘
اس حدیث کو امام بیہقی اور قاضی عیاض نے روایت کیا ہے۔
8۔ عَنْ مَالِکٍ الدَّارِ رضی الله عنه قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِيْ زَمَنِ عُمَرَ رضی الله عنه، فَجَاء رَجُلٌ إِلَی قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، اسْتَسْقِ لِأُمَّتِکَ فَإِنَّهُمْ قَدْ ھَلَکُوْا، فَأَتَی الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيْلَ لَهُ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُ أَنَّکُمْ مَسْقِیُّوْنَ وَقُلْ لَهُ : عَلَيْکَ الْکِيْسُ، عَلَيْکَ الْکِيْسُ، فَأَتَی عُمَرَ، فَأَخْبَرَهُ، فَبَکَی عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ : یَا رَبِّ، لَا آلُوْ إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ۔
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّلَائِلِ۔ وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ۔ وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ۔
8 : أخرجه ابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 356، الرقم : 32002، والبیهقي في دلائل النبوۃ، 7 / 47، وابن عبد البر في الاستیعاب، 3 / 1149، والسبکي في شفاء السقام، 1 / 130، والھندي في کنز العمال، 8 / 431، الرقم : 23535، وابن تیمیۃ في اقتضاء الصراط المستقیم، 1 / 373، وابن کثیر في البدایۃ والنھایۃ، 5 / 167، وقال : إسناده صحیح، والعسقلاني في الإصابۃ، 3 / 484۔
’’حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط سالی میں مبتلا ہو گئے تو ایک صحابی حضور نبی اکرم ﷺ کی قبر اطہر پر حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ (اللہ تعالیٰ سے) اپنی اُمت کے لئے سیرابی مانگیں کیونکہ وہ (قحط سالی کے باعث) ہلاک ہو گئی ہے تو خواب میں حضور نبی اکرم ﷺ اس صحابی کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : عمر کے پاس جاؤ اسے میرا سلام کہو اور اسے بتاؤ کہ تم سیراب کئے جاؤ گے اور عمر سے (یہ بھی) کہہ دو (دین کے دشمن تمہاری جان لینے کے درپے ہیں ان سے) ہوشیار رہو، ہوشیار رہو۔ پھر وہ صحابی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہیں خبر دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمایا : اے اللہ! میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ کسی کام میں عاجز ہو جاؤں۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے اور بیہقی نے ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں روایت کیا ہے۔ امام ابن کثیر نے فرمایا کہ اس کی اسناد صحیح ہے۔امام عسقلانی نے بھی فرمایا کہ امام ابن ابی شیبہ نے اسے اسنادِ صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے۔
9۔ عَنْ أَبِي حَرْبٍ الْهَـلَالِيِّ رضی الله عنه قَالَ : حَجَّ أَعْرَابِيٌّ فَلَمَّا جَاءَ إِلَی بَابِ مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَنَاخَ رَاحِلَتَهُ فَعَقَلَهَا ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ حَتَّی أَتَی الْقَبْرَ وَوَقَفَ بِحَذَاءِ وَجْهِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ : ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ‘‘ ثُمَّ سَلَّمَ عَلَی أَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ رضي الله عنھما ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ : بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي یَا رَسُوْلَ اللهِ، جِئْتُکَ مُثْقَـلًا بِالذُّنُوْبِ وَالْخَطَایَا مُسْتَشْفِعَا بِکَ عَلَی رَبِّکَ لِأَنَّهُ قَالَ فِي مُحْکَمِ کِتَابِهِ : {وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَحِيْمًا} [النساء، 4 : 64] وَقَدْ جِئْتُکَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي مُثْقَـلًا بِالذُّنُوْبِ وَالْخَطَایَا أَسْتَشْفِعُ بِکَ عَلَی رَبِّکَ أَنْ یَغْفِرَ لِي ذُنُوْبِي وَأَنْ تُشَفِّعَ فِيَّ ثُمَّ أَقْبَلَ فِي عُرْضِ النَّاسِ وَهُوَ یَقُوْلُ :
یَا خَيْرَ مَنْ دُفِنَتْ فِي الْأَرْضِ أَعْظُمُهُ
فَطَابَ مِنْ طِيْبِهِ الْأَبْقَاعُ وَالْأَکَمُ
نَفْسِي الْفِدَاءُ لِقَبْرٍ أَنْتَ سَاکِنُهُ
فِيْهِ الْعَفَافُ وَفِيْهِ الْجُوْدُ وَالْکَرَمُ
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ۔
9 : أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 3 / 495، الرقم : 4178۔
’’حضرت ابو حرب ہلالی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نے فریضہ حج ادا کیا، پھر وہ مسجد نبوی ﷺ کے دروازے پر آیا، وہاں اپنی اونٹنی بٹھا کر اسے باندھنے کے بعد وہ مسجد میں داخل ہو گیا، یہاں تک کہ آپ ﷺ کی قبر انور کے پاس آیا اور حضور نبی اکرم ﷺ کے قدمین مبارک کی جانب کھڑا ہو گیا اور عرض کیا : ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ‘‘ پھر حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما کی خدمت میں سلام عرض کیا، پھر حضورنبی اکرم ﷺ (کے روضۂ اقدس) کی جانب (دوبارہ) بڑھا اور عرض کرنے لگا : یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں گناہوں اور خطاؤں سے لدا ہوا آپ کے دربار میں حاضر ہوا ہوں تاکہ آپ کے رب کی بارگاہ میں آپ کو اپنی بخشش کا وسیلہ بنا سکوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآنِ مجید میں فرمایا ہے : ’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول( ﷺ ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔‘‘ اور (یا رسول اللہ!) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں آپ کے پاس گناہوں اور خطاؤں سے لدا ہوا آیا ہوں، اور میں آپ کے رب کے حضور آپ کو اپنا وسیلہ بناتا ہوں اور یہ (عرض ہے) کہ آپ (اپنے رب کی بارگاہ میں) میرے حق میں سفارش فرمائیں، پھر وہ صحابہ کے ایک بڑے گروہ کی طرف بڑھا (جو کہ اسے دیکھ رہے تھے) اور (ان اشعار میں اپنے دل کی کیفیت) بیان کرنے لگا :
’’اے وہ بہترین (ہستی!) جن کی مبارک استخوان(مراد جسم اقدس) اس (با برکت) زمین میں مدفون ہیں، پس ان (کے جسدِ اقدس) کی پاکیزہ خوشبو سے اس زمین کے ٹکڑے اور ٹیلے بھی معطر و پاکیزہ ہیں، (یارسول اللہ!) میری جان اس روضہ اقدس پر فدا ہو جس میں آپ آرام فرما ہیں اور (آپ ﷺ اپنی) اس قبر انور میں (بھی اسی طرح) پاکدامنی اور جود و کرم کا سرچشمہ اور منبع ہیں (جیسے اپنی ظاہری حیاتِ طیبہ میں تھے)۔‘‘
اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
10۔ قال العـلامۃ ابن قدامۃ وابن کثیر : وَقَدَ ذَکَرَ جَمَاعَةٌ مِنْهُمْ الشَّيْخُ أَبُوْ مَنْصُوْرٍ الصَبَّاغُ فِي کِتَابِهِ ’’الشَّامِلُ الْحِکَایَةِ الْمَشْهُوْرَةِ‘‘ عَنِ الْعُتْبِيِّ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ : ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ‘‘ سَمِعْتُ اللهَ عزوجل یَقُوْلُ : {وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَحِيْمًا} [النساء، 4 : 64] وَقَد جِئْتُکَ مُسْتَغْفِرًا لِذَنْبِي مُسْتَشْفِعًا إِلَی رَبِّي ثُمَّ أَنْشَأَ یَقُوْلُ :
یَا خَيْرَ مَنْ دُفِنَتْ بِالْقَاعِ أَعْظُمُهُ
فَطَابَ مِنْ طِيْبِهِنَّ الْقَاعُ وَالْأَکَمُ
نَفْسِي الْفِدَاءُ لِقَبْرٍ أَنْتَ سَاکِنُهُ
فِيْهِ الْعَفَافُ وَفِيْهِ الْجُوْدُ وَالْکَرَم
ثَمَّ اَنْصَرَفَ الْأَعْرَابِيُّ فَغَلَبَتْنِي عَيْنِي فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فِي النَّوْمِ فَقَالَ : عُتْبِيُّ، اِلْحَقِ الْأَعْرَابِيَّ فَبَشِّرْهُ أَنَّ اللهَ عزوجل قَدَ غَفَرَ لَهُ۔
وزاد ابن قدامۃ بعد تخریج هذا الحدیث : ثُمَّ تَأْتِي الْقَبْرَ فَتُوَلِّي ظَهْرَکَ الْقِبْلَةَ وَتَسْتَقْبِلُ وَسَطَهُ وَتَقُوْلُ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَیُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَکَاتُهُ، اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ یَا نَبِيَّ اللهِ وَخِيْرَتَهُ مِنْ خَلْقِهِ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْکَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ، أَشْهَدُ أَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ رِسَالَاتِ رَبِّکَ وَنَصَحْتَ لِأُمَّتِکَ وَدَعَوْتَ إِلَی سَبِيْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ، وَعَبَدْتَ اللهَ حَتَّی أَتَاکَ الْیَقِيْنُ، فَصَلَّی اللهُ عَلَيْکَ کَثِيْرًا کَمَا یُحِبُّ رَبُّنَا وَیَرْضَی۔
اَللَّهُمَّ اجْزِ عَنَّا نَبِيَّنَا أَفْضَلَ مَا جَزَيْتَ أَحَدًا مِنَ النَّبِيِّيْنَ وَالْمُرْسَلِيْنَ وَابْعَثْهُ الْمَقَامَ الْمَحْمُوْدَ الَّذِي وَعَدْتَهُ یَغْبِطُهُ بِهِ الْأَوَّلُوْنَ وَالآخِرُوْنَ۔ اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ عَلَی إِبْرَاهِيْمَ وَآلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ۔ اَللَّهُمَّ إِنَّکَ قُلْتَ وَقَوْلُکَ الْحَقُّ : {وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَحِيْمًا} [النساء، 4 : 64] وَقَدْ أَتَيْتُکَ مُسْتَغْفِرًا مِنْ ذُنُوْبِي وَمُسْتَشْفِعًا بِکَ إِلَی رَبِّي، فَأَسْأَلُکَ یَا رَبِّ، أَنْ تُوْجِبَ لِيَ الْمَغْفِرَةَ کَمَا أَوْجَبْتَهَا لِمَنْ أَتَاهُ فِي حَیَاتِهِ، اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ أَوَّلَ الشَّافِعِيْنَ وَأَنْجَحَ السَّائِلِيْنَ وَأَکْرَمَ الْآخِرِيْنَ وَالْأَوَّلِيْنَ بِرَحْمَتِکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ۔
ثُمَّ یَدْعُوْ لِوَالِدَيْهِ وَلِإِخْوَانِهِ وَلِلْمُسْلِمِيْنَ أَجْمَعِيْنَ ثُمَّ یَتَقَدَّمُ قَلِيْـلًا وَیَقُوْلُ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ یَا أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّيْقَ۔ اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ یَا عُمَرُ الْفَارُوْقُ، اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمَا یَا صَاحَبَي رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَضَجِيْعَيْهِ وَوَزِيْرَيْهِ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَکَاتُهُ۔ اَللَّهُمَّ اجْزَهُمَا عَنْ نَبِّیِهِمَا وَعَنِ الإِسْلَامِ خَيْرًا۔ سَلَامٌ عَلَيْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ۔
اَللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْهَ آخِرَ الْعَهْدِ مِنْ قَبْرِ نَبِيِّکَ ﷺ وَمِنْ حَرَمِ مَسْجِدِکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ۔
10 : أخرجه ابن قدامۃ في المغني، 3 / 298، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 1 / 521، والسیوطي في الدر المنثور، 1 / 570۔
’’علامہ ابن قدامہ اور ابن کثیر نے بیان کیا ہے کہ (ثقہ اصحاب کی) ایک جماعت نے حضرت عتبی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، انہیں میں سے شیخ ابو منصور صباغ بھی اپنی کتاب ’’الشامل الحکایۃ المشہورۃ‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی قبرِ انور کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اعرابی قبر انور پر حاضر ہوا اور عرض گزار ہوا : ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ‘‘ (پھر عرض کیا : ) میں نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنا ہے : ’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول( ﷺ ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔‘‘ اور (یارسول اللہ!) بے شک میں آپ کے پاس اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرنے اور اپنے رب کے ہاں آپ کو وسیلہ بنانے کے لیے آیا ہوں۔ پھر وہ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے) ان اشعار میں اپنا حال دل عرض کرنے لگا :
’’اے وہ بہترین ہستی! جن کی مبارک استخوان اس (با برکت) زمین میں مدفون ہیں، پس ان (کے جسدِ اقدس) کی پاکیزہ خوشبو سے اس زمین کے ٹکڑے اور ٹیلے بھی معطر و پاکیزہ ہیں، (یا رسول اللہ!) میری جان اس روضہ اقدس پر فدا ہو جس میں آپ آرام فرما ہیں اور (آپ ﷺ اپنی) اس قبر انور میں پاکدامنی اور جود و کرم کا سرچشمہ اور منبع ہیں (جیسے اپنی ظاہری حیاتِ طیبہ میں تھے)۔‘‘
’’پھر (حضرت عتبی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ) وہ اعرابی (روتا ہوا وہاں سے) چلا گیا اور میری آنکھ لگ گئی، تو میں اسی وقت خواب میں حضور نبی اکرم ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوا، آپ ﷺ نے مجھے فرمایا : اے عتبی! فوراً اس اعرابی کے پاس جاؤ اور اسے یہ خوشخبری سناؤ کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا ہے۔
’’امام ابن قدامہ نے اس حدیث کی تخریج کے بعد (روضہ انور کی زیارت کے آداب بیان کرتے ہوئے) یہ اضافہ فرمایا ہے کہ (اے زائر روضہ رسول ﷺ !) پھر تو قبر انور کے پاس حاضر ہو اور قبلہ کی طرف پشت کر کے اور قبرِ انور (کی طرف منہ کر کے حجرۂ مبارک) کے وسط میں کھڑا ہو جا اور یوں عرض گزار ہو : ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَیُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَکَاتُهُ، اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ یَا نَبِيَّ اللهِ وَخِيْرَتُهُ مِنْ خَلْقِهِ‘‘ سلام کے بعد (یوں عرض کرے یا رسول اللہ!) میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفی ﷺ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے اپنے رب کے پیغامات کو بندوں تک (نہایت احسن طریقہ سے) پہنچا دیا ہے، اور آپ نے ہمیشہ اپنی اُمت کی خیر خواہی چاہی، اور لوگوں کو اپنے رب تعالیٰ کے راستے کی طرف اور حکمت اور موعظتِ حسنہ کے ساتھ دعوت دی۔ اور آپ نے اپنے پروردگار کی اس قدر عبادت کی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حق الیقین کی دولت سے نواز دیا۔ پس اللہ تعالیٰ آپ پر (اپنی شان کے لائق) بے پناہ درود و سلام بھیجے جیسا ہمارا رب چاہتا ہے اور پسند کرتا ہے۔
’’اے ہمارے اللہ! تو ہماری طرف سے ہمارے نبی مکرم ﷺ کو وہ افضل ترین جزاء عطا فرما جو تو نے(مجموعی طور پر) انبیاء و رسل میں سے کسی کو بھی عطا فرمائی ہے۔ اور انہیں اس مقامِ محمود پر پہنچا دیا جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا تھا اور جس پر اگلے اور پچھلے (انبیاء و اولیائ) تمام لوگ رشک کرتے ہیں۔ اے اللہ! تو درود بھیج محمد مصطفی ﷺ اور آپ ﷺ کی آل پر جیسا کہ تو نے درود بھیجا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کیا ہوا اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! بے شک تو نے ہی یہ فرمایا ہے اور تیرا فرمان (یقینا) حق ہے : ’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول( ﷺ ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔‘‘ اور (پھر آپ ﷺ کی خدمت میں براهِ راست توسل کرتے ہوئے یوں عرض کرے) (یا رسول اللہ!) بے شک میں آپ کے پاس اپنے گناہوں کی معافی اور آپ کو اپنے رب کے ہاں وسیلہ بنا کر مغفرت طلب کرنے کے لئے حاضر ہوا ہوں، اے میرے رب! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو میرے لئے مغفرت کو اسی طرح واجب کر دے جس طرح تو نے اس شخص کے لئے واجب کی جو آپ ﷺ کی ظاہری حیاتِ طیبہ میں آپ ﷺ کے پاس (گناہوں کی مغفرت کے لئے) حاضر ہوا (کیونکہ آپ ﷺ اب بھی اپنی ظاہری حیاتِ طیبہ کی طرح ہی جلوہ افروز ہیں۔) اے اللہ! میرے آقا ﷺ کو روز محشر سب سے پہلا شفاعت کرنے والا اور تیری بارگاہ میں سب سے کامیاب (و احسن انداز میں) سوال کرنے والا بنا اور اے رحم کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ رحم فرمانے والے رب! تو اپنی رحمت کے وسیلہ جلیلہ سے آپ ﷺ کو اگلوں اور پچھلوں (انبیاء و اولیائ) میں سب سے معزز بنا۔
’’پھر اپنے والدین، بہن بھائیوں، اور تمام مسلمانوں کے لئے دعا مانگے، پھر تھوڑا سا آگے بڑھے اور (حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنھما کے مزارات پر کھڑے ہو کر) یوں عرض کرے : ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ یَا أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّيْقَ۔ اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ یَا عُمَرُ الْفَارُوْقُ، اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمَا یَا صَاحَبَي رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَضَجِيْعَيْهِ وَوَزِيْرَيْهِ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَکَاتُهُ۔ اَللَّهُمَّ اجْزَهُمَا عَنْ نَبِّیِهِمَا وَعَنِ الإِسْلَامِ خَيْرًا۔ سَلَامٌ عَلَيْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ‘‘ (اے ابو بکر صدیق آپ پر سلامتی ہو، اے عمر فاروق آپ پر سلامتی ہو، اے حضور نبی اکرم ﷺ کے دونوں محبوب اور اُن ﷺ کے قرب میں آرام کرنے والے اصحاب! اور اُن ﷺ کے دونوں وزیرو! آپ پر سلامتی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکتیں ہوں۔ اے اللہ! انہیں (یعنی حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنھما) ان کے نبی مکرم ﷺ اور اسلام کی طرف سے جزائے خیر عطا فرما۔ پس آپ پر سلامتی ہو آپ کے صبر کرنے کے صلہ میں، پس (اب دیکھو) آخرت کا گھر کیا خوب ہے۔)
’’(پھر یوں عرض کرے : ) اے اللہ! اے تمام رحم کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ رحم فرمانے والے! میری اس زیارت کو حضورنبی اکرم ﷺ کی قبر انور اور اپنی مسجد کے حرم کی آخری زیارت نہ بنا (بلکہ بار بار مجھے حاضری کی توفیق عطا فرما)۔‘‘
11۔ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رضي الله عنھما کَانَ إذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ صَلَّی سَجْدَتَيْنِ فِي الْمَسْجِدِ ثُمَّ یَأْتِي النَّبِيَّ ﷺ فَیَضَعُ یَدَهُ الْیُمْنیَ عَلَی قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ وَیَسْتَدِيْرُ الْقِبْلَةَ ثُمَّ یُسَلِّمُ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ عَلَی أَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ رضي الله عنھما۔
رَوَاهُ الْجَهْضَمِيُّ۔ وَذَکَرَ الذَّهَبِيُّ : نَافِعٌ هُوَ أَبُوْ عَبْدِ اللهِ الْمَدَنِيُّ، مَوْلَی ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنھما تَابِعِيٌّ، ثِقَةٌ، ثَبَتٌ، فَقِيْهٌ مَشْهُوْرٌ مَاتَ سَنَةَ (117)ھ أَوْ بَعْدَ ذَلِکَ۔
وفي روایۃ : عَنْ نَافِعٍ قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ رضي الله عنھما یُسَلِّمُ عَلَی الْقَبْرِ، رَأَيْتُهُ مِائَةَ مَرَّةٍ وَأَکْثَرَ، یَجِيئُ إِلَی الْقَبْرِ فَیَقُوْلُ : اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ ، اَلسَّلَامُ عَلَی أَبِي بَکْرٍ، اَلسَّلَامُ عَلَی أَبِي، ثُمَّ انْصَرَفَ۔ رَوَاهُ الْقَاضِي عِیَاضٌ وَنَحْوَهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ۔
11 : أخرجه الجهضمي في فضل الصلاۃ علی النبي ﷺ ، 1 / 84، الرقم : 101، والقاضي عیاض في الشفا، 1 / 586، الرقم : 1477، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 308، والذهبي في سیر أعلام النبلاء، 5 / 95۔101۔
’’حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما جب اپنے کسی سفر سے واپس لوٹتے تو (سب سے پہلے) مسجد نبوی میں دو رکعت نفل نماز ادا کرتے پھر حضور نبی اکرم ﷺ کی قبرِ انور پر حاضری دیتے اور اپنا دائیاں ہاتھ قبرِ انور پر رکھتے اور قبلہ کی طرف پشت کرلیتے اور پھر حضور نبی اکرم ﷺ ، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما کی خدمت میں سلام عرض کرتے۔‘‘
اس حدیث کو امام جہضمی نے روایت کیا ہے۔
’’اور امام ذہبی نے فرمایا کہ حضرت نافع سے مراد حضرت ابو عبد اللہ مدنی رضی اللہ عنہ ہیں جو کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کے آزاد کردہ غلام اور نہایت جلیل القدر تابعی، ثقہ، ثبت اور مشہور فقیہ ہیں، اور ان کا وصال سن 117 ھ یا اس کے بھی بعد ہوا۔‘‘
’’اور ایک روایت میں حضرت نافع رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کو 100 سے بھی زائد مرتبہ حضورنبی اکرم ﷺ کی قبر انور پر (باقاعدگی سے حاضر ہو کر) سلام عرض کرتے دیکھا ہے۔ آپ روضہ اقدس پر حاضر ہو کر یوں سلام عرض کرتے : ’’اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ ، اَلسَّلَامُ عَلَی أَبِي بَکْرٍ، اَلسَّلَامُ عَلَی أَبِي‘‘ اس کے بعد آپ کہیں اور تشریف لے جاتے۔‘‘ اس روایت کو امام قاضی عیاض اور اسی طرح امام ابو نعیم نے بیان کیا ہے۔
12۔ وذکر الإمام العسقـلاني في ’’الفتح‘‘ : نُقِلَ عَنِ الإِمَامِ أَحْمَدَ رَحِمَهُ الله عَنْ تَقْبِيْلِ مِنْبَرِ النَّبِيِّ ﷺ وَتَقْبِيْلِ قَبْرِهِ ﷺ فَلَمْ یَرَ بِهِ بَأْسًا… وَنُقِلَ عَنْ أَبِي الصَّيْفِ الْیَمَانِيِّ أَحَدِ عُلَمَائِ مَکَّةَ مِنَ الشَّافِعِيَّةِ جَوَازُ تَقْبِيْلِ الْمُصْحَفِ وَأَجْزَاء الْحَدِيْثِ وَقُبُوْرِ الصَّالِحِيْنَ وَبِاللهِ التَّوْفِيْقُ۔
12 : أخرجه العسقلاني في فتح الباري، 3 / 475، والشوکاني في نیل الأوطار، 5 / 115۔
’’امام عسقلانی علیہ الرحمہ نے ’’فتح الباری‘‘ میں بیان کیا ہے کہ امام احمد بن حنبل رَحِمَهُ اللہ سے حضورنبی اکرم ﷺ کی قبر انور اور آپ ﷺ کے منبر شریف کو چومنے کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اس میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے تھے … اور اسی طرح مکہ کے شافعی علماء میں سے ایک جید حضرت عالم ابو صیف یمانی رَحِمَهُ اللہ سے بھی قرآن مجید، اَحادیث مبارکہ کے اجزاء اور قبورِ صالحین تک کو چومنے کا جواز بھی منقول ہے اور اللہ تعالیٰ جسے توفیق عطا فرماتا ہے (وہی ایسے اچھے اعمال بجا لاتا ہے)۔‘‘
13۔ عَنِ ابْنِ أَبِي فُدَيْکٍ قَالَ : سَمِعْتُ بَعْضَ مَنْ أَدْرَکْتُ یَقُوْلُ : بَلَغَنَا أَنَّهُ مَنْ وَقَفَ عِنْدَ قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ فَتَـلَا هَذِهِ الْآیَةَ : {إِنَّ اللهَ وَمَـلَائِکَتَهُ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ یَا أَیُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًاo} [الأحزاب، 33 : 56] صَلَّی اللهُ عَلَيْکَ یَا مُحَمَّدُ : حَتَّی یَقُوْلَهَا سَبْعِيْنَ مَرَّةً فَأَجَابَهُ مَلَکٌ صَلَّی اللهُ عَلَيْکَ یَا فُـلَانُ، لَمْ یَسْقُطْ لَکَ حَاجَةٌ۔ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالْقَاضِي عِیَاضٌ۔
وذکر القاضي عیاض في ’’الشِّفا‘‘ : قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيْمَ الْفَقِيْهُ : وَمِمَّا لَمْ یَزَلْ مِنْ شَأْنِ مَنْ حَجَّ، الْمَرُوْرُ بِالْمَدِيْنَةِ، وَالْقَصَدُ إِلَی الصَّـلَاةِ فِي مَسْجِدِ رَسُوْلِ الله ﷺ ، وَالتَّبَرُّکُ بِرُؤْیَةِ رَوْضَتِهِ وَمِنْبَرِهِ، وَقَبْرِهِ، وَمَجْلِسِهِ، وَمَـلَامِسِ یَدَيْهِ، وَمَوَاطِئِ قَدَمَيْهِ، وَالْعَمُوْدِ الَّذِي کَانَ یَسْتَنِدُ إِلَيْهِ وَیَنْزِلُ جِبْرِيْلُ بِالْوَحْيِ فِيْهِ عَلَيْهِ، وَبِمَنْ عَمَرَهُ وَقَصَدَهُ مِنَ الصَّحَابَةِ وَأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِيْنَ، وَالاعْتِبَارُ بِذَلِکَ کُلِّهِ۔
13 : أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 3 / 492، الرقم : 4169، والقاضي عیاض في الشفا، 1 / 585، الرقم : 1471، والجرجاني في تاریخ جرجان، 1 / 220، الرقم : 347، والسیوطي في الدر المنثور، 1 / 570۔
’’حضرت ابن ابی فدیک سے روایت ہے کہ میں نے بعض (تابعین) سے سنا انہوں نے فرمایا کہ ہمیں (صحابہ کرام سے) یہ بات پہنچی ہے کہ جو شخص حضورنبی اکرم ﷺ کی قبر انور کے پاس حاضر ہو کر یہ آیت کریمہ : ’’بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ ﷺ ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔‘‘ تلاوت کرے اور ساتھ ہی ستر مرتبہ یہ بھی پڑھے : ’’صَلَّی اللهُ عَلَيْکَ یَا مُحَمَّدُ‘‘ (اے محمد مصطفی! اللہ تعالیٰ آپ پر (اپنی شان کے لائق بے شمار) رحمتیں نازل فرمائے۔‘‘ تو (اس کے فارغ ہونے سے قبل) ایک فرشتہ اسے جواب دے گا : اے فلاں درود بھیجنے والے! اللہ تعالیٰ تجھ پر بھی درود (بصورتِ رحمت) بھیجے، اور تمہاری کوئی حاجت ایسی باقی نہ رہے جو پوری نہ ہو۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی اور قاضی عیاض نے روایت کیا ہے۔
’’قاضی عیاض علیہ الرحمۃ اپنی کتاب ’’الشِّفا‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ امام اسحاق بن ابراہیم فقیہ بیان کرتے ہیں : وہ چیز جو آج بھی ہر حج کرنے والے شخص کی شان(یعنی طریقہ) ہے کہ جب وہ مدینہ منورہ میں حاضر ہو تو جس طرح مسجد نبوی ﷺ میں نماز کا قصد کرے (لازماً) اسی طرح حضورنبی اکرم ﷺ کے روضہ انور سے، منبر مبارک سے، قبر انور سے، مجلس مبارک سے، آپ ﷺ کے دست اقدس سے مَس شدہ اشیاء سے، اور ان چیزوں سے جنہیں حضورنبی اکرم ﷺ کے قدمین مبارک کا بوسہ لینے کا شرف حاصل ہوا، اور اس ستون سے جس کے ساتھ ٹیک لگا کر آپ ﷺ خطبہ ارشاد فرماتے تھے، اور جس پر حضرت جبریل امین علیہ السلام وحی لے کر حاضر ہوتے تھے، اور ان (تمام) مقامات جن کا قصد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ مسلمین نے کیا ہے (وہ بھی بالالتزام اور رغبت قلبی کے ساتھ ان )سے برکت حاصل کرے، اور ان تمام چیزوں کو صمیم قلب سے (بابرکت) اور صحیح تر جانے (اور ان سے حصولِ تبرک و توسّل کرے)۔‘‘
14۔ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الْقُرْشِيِّ رضی الله عنه یَقُوْلُ : کَانَ عِنْدَنَا رَجُلٌ بِالْمَدِيْنَةِ إِذْ رَأَی مُنْکَرًا لَا یُمْکِنُهُ أَنْ یُغَيِّرَهُ أَتَی الْقَبْرَ فَقَالَ :
أَیَا قَبْرَ النَّبِيِّ وَصَاحِبَيْهِ
أَلَا یَا غَوْثَنَا لَوْ تَعْلَمُوْنَا
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ۔
14 : أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 3 / 495، الرقم : 4177۔
’’حضرت ابو اسحاق قرشی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یہاں مدینہ منورہ میں ہمارے پاس ایک آدمی تھا جب وہ کوئی ایسی برائی دیکھتا جسے وہ اپنے ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا تو وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی قبر انور کے پاس آتا اور (آپ ﷺ کی بارگاہ میں یوں) عرض کرتا :
’’اے قبرِ نبی (سرورِ دوعالم ﷺ کی قبر مبارک) اور ( اپنی قبور میں آرام فرما) آپ ﷺ کے دونوں رفقائ! اور اے ہمارے مددگار (اور ہمارے آقا و مولا ﷺ ) آپ ہماری (اس ناگفتہ بہ حالتِ زار پر) نظر کرم فرمائیں۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
15۔ عَنْ یَزِيْدَ بْنِ أَبِي سَعِيْدٍ الْمَقْبُرِيِّ قَالَ : قَدِمْتُ عَلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيْزِ رضی الله عنه إِذْ کَانَ خَلِيْفَةً بِالشَّامِ فَلَمَّا وَدَّعْتُهُ قَالَ : إِنَّ لِي إِلَيْکَ حَاجَةً إِذْ أَتَيْتَ الْمَدِيْنَةَ سَتَرَی قَبْرَ النَّبِيِّ ﷺ فَأَقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَامَ۔ وَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ : أَخْبَرَنِي فـُلَانٌ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيْزِ رضی الله عنه کَانَ یُبْرِدُ إِلَيْهِ الْبَرِيْدَ مِنَ الشَّامِ۔
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالْقَاضِي عِیَاضٌ۔
وفي روایۃ : عَنْ حَاتِمِ بْنِ وَرْدَانَ قَالَ : کَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيْزِ رضی الله عنه یُوَجِّهُ بِالْبَرِيْدِ قَاصِدًا إِلَی الْمَدِيْنَةِ لِیُقْرِئُ عَنْهُ النَّبِيَّ ﷺ السَّلَامَ۔ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ۔
15 : أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 3 / 491۔492، الرقم : 4166۔4167، والقاضي عیاض في الشفا، 1 / 585، الرقم : 1472، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 65 / 204، وابن حزم في المحلی، 9 / 516، والسیوطي في الدر المنثور، 1 / 570۔
’’حضرت یزید بن ابو سعید مقبری علیہ الرحمہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب وہ شام کے خلیفہ تھے، تو (وقتِ رخصت) جب میں نے انہیں الوداع کہنے لگا تو انہوں نے فرمایا : مجھے آپ سے ایک کام ہے، اور وہ یہ کہ جب آپ مدینہ منورہ جائیں اور (دور سے) حضورنبی اکرم ﷺ کے روضۂ اقدس کی زیارت کرتے ہی آپ ﷺ کی بارگاہ میں میری طرف سے سلام عرض کرنا۔ اور حضرت عبد اللہ بن جعفر بیان کرتے ہیں کہ مجھے ایک ثقہ شخص نے بتایا کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ ملک شام سے حضرت سلیمان بن سحیم رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کرتے تھے (کہ میری طرف سے روضۂ انور پر حاضر ہو کر خصوصی سلام عرض کریں)۔‘‘
اس روایت کو امام بیہقی اور قاضی عیاض نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں حضرت حاتم بن مردان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ کے روضہ اقدس پر سلام عرض کرنے کے لئے خصوصی قاصد مدینہ منورہ روانہ فرمایا کرتے تھے۔‘‘ اس روایت کو امام بیہقی نے ذکر کیا ہے۔
16۔ قال الغزالي رَحِمَهُ الله : کل من یتبرک بمشاھدته في حیاته یتبرک بزیارته بعد وفاته۔
16 : الغزالي في إحیاء علوم الدین، 2 / 247۔
’’امام غزالی رَحِمَهُ اللہ فرماتے ہیںکہ ہر وہ شخص کہ زندگی میں جس کی زیارت سے برکت حاصل کی جاسکتی ہے، وفات کے بعد بھی اس کی زیارت سے برکت حاصل کی جاسکتی ہے۔‘‘
17۔ کرہ مالک رَحِمَهُ الله أن یقال : زرنا قبر النبي ﷺ وقال أبو عمران رحمه الله : إنما کره مالک أن یقال : طواف الزیارۃ، وزرنا قبر النبي ﷺ ، لاستعمال الناس ذلک بینهم بعضهم لبعض، فکَرِه تسویۃ النبي ﷺ مع الناس بهذا اللفظ، وأحب أن یخص بأن یقال : سلمنا علی النبي ﷺ
17 : أخرجه القاضي عیاض في الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ : 584۔
’’حضرت امام مالک رَحِمَهُ اللہ اسے مکروہ جانتے ہیں کہ کوئی یہ کہے ہم نے قبر انور کی زیارت کی ہے۔ ابو عمران رَحِمَهُ اللہ کہتے ہیں کہ امام مالک رَحِمَهُ اللہ نے طواف زیارت اور زیارت قبر نبی ﷺ کو اس لئے مکروہ کہا کہ عام لوگ ایک دوسرے کے لئے باہمی استعمال کرتے ہیں اور حضور نبی اکرم ﷺ کی عام لوگوں کے ساتھ ایسے لفظوں میں بھی برابری کرنا مکروہ ہے۔ لهٰذا مستحب یہ ہے کہ خاص طور پر یوں کہا جائے کہ ہم نے حضور نبی اکرم ﷺ پر سلام عرض کیا۔‘‘
18۔ قال ابن أبي فدیک رَحِمَهُ الله : سمعت بعض من أدرکت یقول : بلغنا أنه من وقف عند قبر النبي ﷺ فتلا هذه الآیۃ : {إِنَّ اللهَ وَمَلَائِکَتَهُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیماً} [الأحزاب، 33 : 56] ـ قال : صلی الله علیک یا محمد، من یقولها سبعین مرۃ ناداه ملک : صلی الله علیک یا فلان، ولم تسقط له حاجۃ۔
18 : أخرجه القاضي عیاض في الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ : 585۔
’’ابن ابی فدیک رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے بعض ان علماء سے جن سے ملا ہوں، سنا ہے : وہ فرماتے تھے کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ جو شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی قبر انور کے پاس کھڑا ہوا یہ آیہ کریمہ پڑھے : {إِنَّ اللهَ وَمَلَائِکَتَهُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِيِّ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیماً} [الأحزاب، 33 : 56] پھر کہے : صَلَی اللهُ عَلَيْکَ یَا مُحَمَّدُ اور اسے ستر مرتبہ کہے تو فرشتہ اسے صدا دیتا ہے کہ اے فلاں شخص تجھ پر اللہ عزوجل کی رحمت ہو تیری کوئی حاجت نظر انداز نہ ہو گی۔‘‘
19۔ قال مالک رَحِمَهُ الله في روایۃ ابن وهب رَحِمَهُ الله : إذا سلم علی النبي ﷺ ، ودعا، یقف ووجهه إلی القبر الشریف لا إلی القبلۃ، ویدنو، ویسلم، ولا یمس القبر بیده۔
19 : أخرجه القاضي عیاض في الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ : 586۔
’’امام مالک رَحِمَهُ اللہ نے ابن ابی وہب رَحِمَهُ اللہ کی روایت میں فرمایا۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ پر سلام عرض کرو اور دعا مانگو تو اس طرح کھڑا ہو کہ(زائر کا) منہ قبر شریف کی طرف ہو نہ کہ قبلہ کی جانب۔ اور قریب ہوکر سلام عرض کرو اور(بتقاضائے ادب و احترام) آپ ﷺ کی قبر مبارک کو اپنے ہاتھ سے نہ چھوؤ۔‘‘
20۔ قال النووی : اعلم أنّ زیارۃ قبر الرسول ﷺ من أھمّ القربات وأنجح المساعي۔۔۔ إِلی أن قال : ثم یأتي القبر الکریم فیستدبر القبلۃ، ویستقبل جدار القبر، عاض الطرف في مقام الھیبۃ والإِجلال فیقول : السّلام علیک یا رسول الله۔۔۔ إِلی أن قال : ویتوسّل به في حق نفسه ویستشفع به إِلی ربه سبحانه وتعالیٰ۔
20 : النووي في المجموع، 8 / 202۔
’’امام نوویؒ قبر رسول ﷺ کی زیارت کے بارے بیان کرتے ہیں کہ : بے شک حضور نبی اکرم ﷺ کی قبر انور کی زیارت تمام قربتوں سے بڑھ کر اہم ترین قربت ہے اور تمام کوششوں سے بڑھ کر کامیاب ترین کوشش ہے۔۔۔(امام نووی آدابِ زیارت بیان کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں : ) اس کے بعد زائر آپ ﷺ کی قبرِ انور کے پاس آئے، قبلہ کی طرف پشت کرکے کھڑا ہو اور قبرِ انور کی دیوار اس کے سامنے ہو اور اپنی نگاہ کو مقام ہیبت اور جلال پر مرکوز کرکے یوں کہے : السّلام علیک یارسول اللہ ’’یا رسول اللہ! آپ ﷺ پر سلامتی ہو۔‘‘ پھر (زائر) حضور نبی اکرم ﷺ کا اپنی جان کے لئے وسیلہ پکڑے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ ﷺ کو وسیلہ بنا کر پیش کرے۔‘‘
21۔ قال ابن حبیب رَحِمَهُ الله : ویقول إذا دخلْتَ مسجد الرسول : {بسم الله، وَ سَلَامٌ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا مِنْ رَّبِّنَا وَصَلَّی اللهُ وَمَلٰئِکُتُهٗ عَلٰی مُحَمَّدٍ اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ ذُنُوْبِي وَافْتَحْ لِي اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ وَجَنَّتِکَ وَاحْفِظْنِي مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ} ثم اقصِدْ إلی الروضۃ، وهي ما بین القبر والمنبر فارکَعْ فیها رکعتین قبل وقوفک بالقبر تحمد الله فیهما وتسأله تمام ما خرجت إلیه والعونَ علیه۔ وإن کانت رکعتان في غیر الروضۃ أجزأتاک، وفي الروضۃ أفضل۔ وقد قال : علیه السلام ما بین منبري روضۃ من ریاض الجنۃ، ومنبري علی ترعۃ من ترع الجنۃ۔
21 : أخرجه القاضي عیاض في الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ : 587۔
’’ابن حبیب رَحِمَهُ اللہ نے کہا کہ جب مسجد نبوی میں داخل ہو تو کہو۔’’اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع(کرتا ہوں)، اور سلامتی ہو حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس پر، سلامتی ہو ہم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے، اور اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے درود بھیجیں محمد ﷺ پر، اے اللہ! میرے گناہ بخش دے اور میرے لیے اپنی جنت اور رحمت کے دروازے کھول دے اور مجھے شیطان مردود سے محفوظ رکھ‘‘ اس کے بعد روضہ اطہر کی طرف متوجہ ہو(ریاض الجنہ میں حاضر ہو)جو قبر و منبر کے درمیان ہے۔ وہاں پہلے دو رکعت (تحیۃ المسجد) پڑھے یہ مواجہ شریف میں کھڑے ہونے سے پہلے ہے۔ ان میں اللہ تعالیٰ کی حمد کرے پھر اپنی وہ تمام حاجتیں خدا سے مانگے جس کے لئے نکلا ہے اور اس پر اس سے مدد مانگے۔ اگر یہ دو رکعتیں روضہ شریف کے علاوہ کسی اور جگہ مسجد میں ہوں تو مضائقہ نہیں۔ مگر روضہ شریف میں افضل ہے کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے گھر اور منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغیچہ (روضہ) ہے۔‘‘
22۔ قال الإمام القسطلاني رَحِمَهُ الله : اعلم أن زیارۃ قبره الشریف من أعظم القربات، وأرجی الطاعات، والسبیل إلی أعلی الدرجات، ومن اعتقد غیر هذا فقد انخلع من ربقۃ الإسلام، وخالف الله ورسوله وجماعۃ العلماء الأعلام۔ وقال القاضي عیاض رَحِمَهُ الله : إنها سنۃ من سنن المسلمین مجمع علیها، وفضیلۃ مرغب فیها۔
22 : أخرجه الإمام القسطلاني في المواھب اللّدنّیّۃ بِالْمنحِ الْمحمّدیّۃ، 3 / 403۔
’’امام قسطلانی رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ یہ بات جان لو کہ حضورنبی اکرم ﷺ کی قبر شریف کی زیارت سب سے بڑی عبادت اور ایسی اطاعت ہے جس کی قبولیت کی زیادہ امید ہے نیز یہ بلند درجات کی طرف (لے جانے کا) ایک راستہ ہے پس جس نے اس کے علاوہ عقیدہ اختیار کیا اس نے اسلام کا پٹہ اپنا گردن سے اتار دیا اور اللہ تعالیٰ اس کے رسول ﷺ اور بلند مرتبہ علماء کرام کی جماعت کی مخالفت کی۔ حضرت قاضی عیاض رَحِمَهُ اللہ فرماتے ہیں یہ (یعنی زیارت روزہ رسول ﷺ )مسلمانوں کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے جس پر سب کا اتفاق ہے اور ایک ایسی فضیلت ہے جس کی ترغیب دی گئی ہے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved