1۔ اِنَّآ اَرْسَلْنٰـکَ بِالْحَقِّ بَشِيْراً وَّنَذِيْراً وَّلَا تُسْئَلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِيْمِo
(البقرۃ، 2 : 119)
’’(اے محبوبِ مکرّم!) بے شک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اہلِ دوزخ کے بارے میں آپ سے پرسش نہیں کی جائے گیo‘‘
2۔ فَکَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ م بِشَھِيْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآءِ شَھِيْدًاo
(النساء، 4 : 41)
’’پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گےo‘‘
3۔ لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْکُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌo
(التوبۃ، 9 : 128)
’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ( ﷺ ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزومند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیںo‘‘
4۔ لَعَمْرُکَ اِنَّهُمْ لَفِيْ سَکْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَo
(الحجر، 15 : 72)
’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قَسم، بے شک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیںo‘‘
5۔ سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰـرَکْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰـتِنَا ط اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُo
(الإسرائ، 17 : 1)
’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہےo‘‘
6۔ عَسٰٓی اَنْ يَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo
(الإسرائ، 17 : 79)
’’یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا (یعنی وہ مقامِ شفاعتِ عظمیٰ جہاں جملہ اوّلین و آخرین آپ کی طرف رجوع اور آپ کی حمد کریں گے)o‘‘
7۔ طٰهٰo مَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓیo
(طه، 20 : 1، 2)
’’طاہا، (حقیقی معنی اللہ اور رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں)o
(اے محبوبِ مکرّم!) ہم نے آپ پر قرآن (اس لیے) نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑجائیںo‘‘
8۔ وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَo
(الأنبیاء، 21 : 107)
’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کرo‘‘
9۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ۔
(الأحزاب، 33 : 21)
’’فی الحقیقت تمہارے لئے رسول اللہ ( ﷺ کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے۔‘‘
10۔ یٰٓـاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِيْرًاo وَّ دَاعِیًا اِلَی اللهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِيْرًاo
(الأحزاب، 33 : 45، 46)
’’اے نبِیّ (مکرّم) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہےo اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)o‘‘
11۔ اِنَّ اللهَ وَمَلٰـئِکَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ ط یٰـاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيْمًاo
(الأحزاب، 33 : 56)
’’بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبيِّ (مکرمّ ﷺ ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo‘‘
12۔ یٰسٓo وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِيْمِoاِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَo
(یٰس، 36 : 1-3)
’’یا سین (حقیقی معنی اللہ اور رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں)o حکمت سے معمور قرآن کی قَسمo بے شک آپ ضرور رسولوں میں سے ہیںo‘‘
13۔ وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰیo مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰیo
(النجم، 53 : 1-2)
’’قسم ہے روشن ستارے (محمد ﷺ ) کی جب وہ (چشم زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترےo تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (یعنی تمہیںاپنے فیضِ صحبت سے صحابی بنانے والے رسول ﷺ ) نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکےo‘‘
14۔ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍo
(القلم، 68 : 4)
’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)o‘‘
15۔ یٰـٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُo قُمِ الَّيْلَ اِلاَّ قَلِيْلاًo
(المزمل، 73 : 1-2)
’’اے کملی کی جھرمٹ والے(حبیب!)o آپ رات کو (نماز میں) قیام فرمایا کریں مگر تھوڑی دیر (کے لیے)o‘‘
16۔ لَآ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِo وَ اَنْتَ حِلٌّم بِهٰذَا الْبَلَدِo وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَo
(البلد، 90 : 1-3)
’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوںo
(اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیںo
(اے حبیبِ مکرّم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم علیہما السلام) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئیo‘‘
17۔ وَالضُّحٰیo وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰیo مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰیo وَ لَـلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰیo وَلَسَوْفَ یُعْطِيْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰیo
(الضحی، 93 : 1-5)
’’قَسم ہے چاشت کے وقت کی (جب آفتاب بلند ہو کر اپنا نور پھیلاتا ہے)o اور قَسم ہے رات کی جب وہ چھا جائےo آپ کے رب نے (جب سے آپ کو منتخب فرمایا ہے) آپ کو نہیں چھوڑا اور نہ ہی (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہوا ہےo اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہےo اور آپ کا رب عنقریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گےo‘‘
18۔ اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَo وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَo الَّذِيْٓ اَنْقَضَ ظَهْرَکَo وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَo
(الم نشرح، 94 : 1-4)
’’کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لیے) کشادہ نہیں فرما دیاo اور ہم نے آپ کا (غمِ امت کا وہ) بار آپ سے اتار دیاo جو آپ کی پشتِ (مبارک) پر گراں ہو رہا تھاo اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیاo‘‘
19۔ اِنَّآ اَعْطَيْنٰـکَ الْکَوْثَرَo فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْo اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُo
(الکوثر، 108 : 1-3)
’’بے شک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہےo پس آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کریںاور قربانی دیا کریں (یہ ہدیۂ تشکرّہے)o بے شک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہو گاo‘‘
1۔ عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ لِحَسَّانَ : إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ لَا یَزَالُ یُؤَيِّدُکَ مَا نَافَحْتَ عَنِ اللهِ وَرَسُوْلِهِ، وَقَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ ، یَقُوْلُ : ھَجَاھُمْ حَسَّانُ، فَشَفَی وَاشْتَفَی۔ قَالَ حَسَّانُ :
ھَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَأَجَبْتُ عَنْهُ
وَعِنْدَ اللهِ فِي ذَاکَ الْجَزَاءُ
ھَجَوْتَ مُحَمَّدًا بَرًّا حَنِيْفًا
رَسُوْلَ اللهِ شِيْمَتُهُ الْوَفَاءُ
فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي
لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاءُ
مَتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَھَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : المناقب، باب : من أحب أن لا یسب نسبه، 3 / 1299، الرقم : 3338، وفي کتاب : المغازي، باب : حدیث الإفک، 4 / 1523، الرقم : 3914، وفي کتاب : الأدب، باب : ھجاء المشرکین، 5 / 2278، الرقم : 5798، ومسلم في الصحیح، کتاب : فضائل الصحابۃ، باب : فضائل حسان بن ثابت رضی الله عنه، 4 / 1934۔ 1935، الرقم : 2489۔2490، وابن حبان في الصحیح، 13 / 103، الرقم : 5787۔
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو (حضرت حسان سے) یہ فرماتے سنا : (اے حسان) جب تک تم اللہ عزوجل اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ان کا دفاع کرتے رہو گے روح القدس (جبرائیل ں) تمہاری تائید کرتے رہیں گے، نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : میںنے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ حسان نے کفارِ قریش کی ہجو کرکے مسلمانوں کو شفا دی (یعنی ان کا دل ٹھنڈا کردیا) اور اپنے آپ کو شفا دی (یعنی اپنا دل ٹھنڈا کیا) حضرت حسان نے (کفار کی ہجو میں) کہا :
’’تم نے محمد مصطفی ﷺ کی ہجو کی، تو میں نے آپ ﷺ کی طرف سے جواب دیا ہے اور اس کی اصل جزا اللہ عزوجل ہی کے پاس ہے۔ تم نے محمد مصطفی ﷺ کی ہجو کی، جو نیک اور ادیانِ باطلہ سے اعراض کرنے والے ہیں، وہ اللہ عزوجل کے (سچے) رسول ہیں اور ان کی خصلت وفا کرنا ہے۔ بلا شبہ میرا باپ، میرے اجداد اور میری عزت (ہمارا سب کچھ)، محمد مصطفی ﷺ کی عزت و ناموس کے دفاع کے لئے تمہارے خلاف ڈھال ہیں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
2۔ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَکْوَعِ رضی الله عنه قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ إِلَی خَيْبَرَ فَسِرْنَا لَيْـلًا، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ لِعَامِرٍ : یَا عَامِرُ، أَلَا تُسْمِعُنَا مِنْ هُنَيْهَاتِکَ، وَکَانَ عَامِرٌ رَجُـلًا شَاعِرًا، فَنَزَلَ یَحْدُوْ بِالْقَوْمِ یَقُوْلُ :
اَللَّهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا
وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا
فَاغْفِرْ فِدَآءً لَکَ مَا أَبْقَيْنَا
وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا
وَأَلْقِیَنْ سَکِيْنَةً عَلَيْنَا
إِنَّا إِذَا صِيْحَ بِنَا أَبَيْنَا
وَبِالصِّیَاحِ عَوَّلُوْا عَلَيْنَا
فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ هَذَا السَّائِقُ؟ قَالُوْا : عَامِرُ بْنُ الْأَکْوَعِ قَالَ : یَرْحَمُهُ اللهُ۔ قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : وَجَبَتْ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : المغازي، باب : غزوۃ خیبر، 4 / 1537، الرقم : 3960، وفي کتاب : الأدب، باب : مایجوز من الشعر والرجز والحداء وما یکره منه، 5 / 2277، الرقم : 5796، ومسلم في الصحیح، کتاب : الجھاد والسیر، باب : غزوۃ خیبر، 3 / 1427، الرقم : 1802، والبیھقي في السنن الکبری،10 / 227، الرقم : 20823، والطبراني في المعجم الکبیر، 7 / 32، الرقم : 6294، والمقدسي في أحادیث الشعر، 1 / 101، الرقم : 5۔
’’حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ خیبر کی جانب نکلے۔ ہم رات کے وقت سفر کر رہے تھے کہ ہم میں سے ایک آدمی نے حضرت عامر رضی اللہ عنہ سے کہا : اے عامر! آپ ہمیں اپنے شعر کیوں نہیں سناتے؟ حضرت عامر شاعر تھے۔ چنانچہ وہ نیچے اتر آئے اور لوگوں کے سامنے یوں حدی خوانی کرنے لگے :
’’اے اللہ تعالیٰ! اگر تیری مدد و نصرت ہمارے شاملِ حال نہ ہوتی تو نہ ہم ہدایت یافتہ ہوتے، اور نہ ہی صدقہ کرتے اور نہ ہی نماز ادا کرتے۔ پس تو ہم پر سکینہ نازل فرما اور جب دشمنوں سے ہمارا سامنا ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ، اور ہم پر سکینہ نازل فرما، اور اگر دشمن ہم پر چلائے یا ہم پر حملہ آور ہو تو ہم اس کا انکار کریں (اور اس کا مقابلہ کریں نہ کہ اس کے آگے ہتھیار پھینک دیں)۔‘‘
تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ حدی خوانی کرنے والا کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا : عامر بن اکوع ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے۔ ہم میں سے ایک شخص (حضرت عمر) کہنے لگے کہ ان کے لئے (شہادت اور جنت) واجب ہو گئی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
3۔ عَنِ الْبَرَاءِ رضی الله عنه قَالَ لهُ رَجُلٌ : یَا أَبَا عُمَارَةَ، وَلَّيْتُمْ یَوْمَ حُنَيْنٍ؟ قَالَ : لاَ وَاللهِ، مَا وَلَّی النَّبِيُّ ﷺ ، وَلَـکِنْ وَلَّی سَرَعَانُ النَّاسِ، فَلَقِیَھُمْ ھَوَازِنُ بِالنَّبْلِ، وَالنَّبِيُّ ﷺ عَلَی بَغْلَتِهِ الْبَيْضَاءِ، وَأَبُوْ سُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ رضی الله عنه آخِذٌ بِلِجَامِھَا، وَالنَّبِيُّ ﷺ یَقُوْلُ :
أَنَا النَّبِيُّ لاَ کَذِبْ
أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
3 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الجهاد والسیر، باب : بغلۃ النبي ﷺ البیضائ، 3 / 1054، الرقم : 2719، ومسلم في الصحیح، کتاب : الجهاد والسیر، باب : في غزوۃ حنین، 3 / 1400۔1401، الرقم : 1776، والترمذي في السنن، کتاب : الجهاد، باب : ما جاء في الثبات عند القتال، 4 / 199، الرقم : 1688، وقال أبو عیسی : وفي الباب عن علي وابن عمر رضی الله عنهم وھذا حدیث حسن صحیح، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 530، الرقم : 33583، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 280۔281، 289، 304، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 188، 191، الرقم : 8629، 8638، 6 / 155، الرقم : 10441، وابن حبان في الصحیح، 11 / 90، الرقم : 4770، 13 / 84، الرقم : 5771، وابن الجارود في المنتقی، 1 / 267، الرقم : 1066، والبغوي في شرح السنۃ، 11 / 64، الرقم : 2706، 12 / 372۔
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے کسی شخص نے دریافت کیا : اے ابو عمارہ! کیا غزوئہ حنین میں آپ لوگوں نے پیٹھ دکھائی؟ انہوں نے فرمایا : نہیں، خدا کی قسم! حضور نبی اکرم ﷺ نے پیٹھ نہیں دکھائی، ہاں بعض جلدباز لوگ بھاگ نکلے تو اہلِ ہوازن نے انہیں تیروں کی باڑ پر رکھ لیا جبکہ اس موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ اپنے سفید خچر پر جلوہ افروز تھے جس کی لگام حضرت ابو سفیان بن حارث نے تھام رکھی تھی اور حضور نبی اکرم ﷺ فرما رہے تھے :
’’میں نبی برحق ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں اور میں عبد المطلب (جیسے سردار) کا لختِ جگر ہوں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
4۔ عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنھا قَالَتْ : اِسْتَأْذَنَ حَسَّانُ النَّبِيَّ ﷺ فِي ھِجَائِ الْمُشْرِکِيْنَ قَالَ : کَيْفَ بِنَسَبِي؟ فَقَالَ حَسَّانُ لَأَسُلَّنَّکَ مِنْھُمْ کَمَا تُسَلُّ الشَّعَرَةُ مِنَ الْعَجِيْنِ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ۔
وفي روایۃ : عن الشَّعْبِيِّ قال : اسْتَأْذَنَ حَسَّانُ النَّبِيَّ ﷺ فِي قُرَيْشٍ قَالَ : کَيْفَ تَصْنَعُ بِنَسَبِي فِيْھِمْ؟ قَالَ : أَسُلُّکَ مِنْھُمْ کَمَا تُسَلُّ الشَّعَرَةُ مِنَ الْعَجِيْنِ۔
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔
4 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : المناقب، باب : من أحب أن لا یسب نسبه، 3 / 1299، الرقم : 3338، وفي کتاب : المغازي، باب : حدیث الإفک، 4 / 1523، الرقم : 3914، وفي کتاب : الأدب، باب : ھجاء المشرکین، 5 / 2278، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 5 / 273، الرقم : 26018، وأبو یعلی في المسند، 7 / 341، الرقم : 4377، وابن حبان في الصحیح، 16 / 95، الرقم : 7145، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 297، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 298، الرقم : 862، وابن سلیمان في مسند عائشۃ رضي الله عنها، 1 / 75، الرقم : 60۔
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے مشرکین کی ہجو کرنے کی اجازت طلب کی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ میرے نسب کا کیا ہو گا؟‘‘ تو انہوں نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) ’’میں آپ کے نسب مبارک کو ان (مشرکین) سے ایسے نکال لوں گا، جیسے آٹے سے بال نکالا جاتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
’’اور امام شعبی کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے قریش (کی مذمت) بیان کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : ان میں موجود میرے نسب کا کیا کرو گے؟ تو انہوں نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میں آپ کے نسب کو ان سے ایسے نکال لوں گا جیسے آٹے سے بال نکالا جاتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنِ الْبَرَاءِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ لِحَسَّانَ : اهْجُھُمْ أَوْ ھَاجِھِمْ وَجِبْرِيْلُ مَعَکَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
وفي روایۃ للبخاري : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : یَوْمَ قُرَيْظَةَ لِحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه : اھْجُ الْمُشْرِکِيْنَ، فَإِنَّ جِبْرِيْلَ مَعَکَ۔
5 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : بدء الخلق، باب : ذکر الملائکۃ، 3 / 1176، الرقم : 3041، ومسلم في الصحیح، کتاب : فضائل الصحابۃ رضی الله عنهم، باب : فضائل حسان بن ثابت رضی الله عنه، 4 / 1933، الرقم : 2486، والنسائي في السنن الکبری، 3 / 493، الرقم : 6024۔
’’حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے فرمایا : مشرکین کی ہجو کرو (یعنی ان کی مذمت میں اشعار پڑھو) اور حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی (اس کام میں) تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
’’اور بخاری کی ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے قریظہ کے روز حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ’’ مشرکین کی ہجو (یعنی مذمت) کرو یقینا جبرائیل علیہ السلام بھی (میری ناموس کے دفاع میں) تمہارے ساتھ شریک ہیں۔‘‘
6۔ عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ رضی الله عنه أَنَّ حَسَّانَ رضی الله عنه قَالَ فِي حَلْقَةٍ فِيْھِمْ أَبُوْ هُرَيْرَةَ رضی الله عنه : أَنْشُدُکَ اللهَ یَا أَبَا ھُرَيْرَةَ، أَسَمِعْتَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : أَجِبْ عَنِّي أَيَّدَکَ اللهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ؟ فَقَالَ : اَللَّھُمَّ، نَعَمْ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالطَّبَرَانِيُّ۔
6 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : فضائل الصحابۃ، باب : فضائل حسان بن ثابت رضی الله عنه، 4 / 1933، الرقم : 2485، وأبو داود في السنن، کتاب : الأدب، باب : ما جاء في الشعر، 4 / 304، الرقم : 5014، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 269، الرقم : 7632، 5 / 222، الرقم : 21989، وعبد الرزاق في المصنف، 1 / 439، الرقم : 1716، 11 / 267، الرقم : 20510، والطبراني في المعجم الکبیر، 4 / 40۔41، الرقم : 3584۔3586۔
’’حضرت ابن مسیّب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے ایک ایسے حلقہ میں جہاں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، ان سے دریافت کیا : اے ابوہریرہ! میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : (اے حسان! ) میری طرف سے (کفار و مشرکین کو) جواب دو، اللہ تعالیٰ روح القدس (یعنی حضرت جبرائیل ں) کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے گا؟ تو انہوں نے جواب دیا : ہاں، اللہ کی قسم! میں نے سنا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، احمد، عبد الرزاق اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
7۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ عُمَرَ رضی الله عنه مَرَّ بِحَسَّانَ رضی الله عنه وَھُوَ یُنْشِدُ الشِّعْرَ فِي الْمَسْجِدِ فَلَحَظَ إِلَيْهِ فَقَالَ : قَدْ کُنْتُ أُنْشِدُ وَفِيْهِ مَنْ ھُوَ خَيْرٌ مِنْکَ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَی أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه فَقَالَ : أَنْشُدُکَ اللهَ أَسَمِعْتَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : أَجِبْ عَنِّي، اَللَّھُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ قَالَ : اَللَّھُمَّ، نَعَمْ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ۔
7 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : بدء الخلق، باب : ذکر الملائکۃ، 3 / 1176، الرقم : 3040، ومسلم في الصحیح، کتاب : فضائل الصحابۃ، باب : فضائل حسان بن ثابت رضی الله عنه، 4 / 1932، الرقم : 2485، وأبو داود في السنن، کتاب : الأدب، باب : ماجاء في الشعر، 4 / 303، الرقم : 5013، والنسائي في السنن، کتاب : المساجد،باب : الرخصۃ في إنشاد الشعر الحسن في المسجد، 2 / 48، الرقم : 716، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 222، الرقم : 21986، وابن حبان في الصحیح، 4 / 532، الرقم : 1653۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، درآنحالیکہ وہ مسجد میں شعر پڑھ رہے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گھور کر ان کی طرف دیکھا تو حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے کہا : میں مسجد میں اس وقت بھی شعر پڑھتا تھا جب مسجد میں آپ سے افضل شخص (یعنی حضور نبی اکرم ﷺ خود ظاہرًا بھی) موجود تھے، پھر انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف مڑ کر دیکھا (جو کہ وہاں موجود تھے) اور کہا : (اے ابوہریرہ!) میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں کہ کیا تم نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : (اے حسان!) میری طرف سے (مشرکین کو) جواب دو۔ اے اللہ! اس کی روح القدس (حضرت جبریل علیہ السلام) کے ذریعہ سے تائید فرما؟ تو انہوں نے کہا : ہاں اللہ کی قسم! سنا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
8۔ عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنھا أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : اھْجُوْا قُرَيْشًا فَإِنَّهُ أَشَدُّ عَلَيْھَا مِنْ رَشْقٍ بِالنَّبْلِ، فَأَرْسَلَ إِلَی ابْنِ رَوَاحَةَ فَقَالَ : اھْجُھُمْ فَھَجَاھُمْ، فَلَمْ یُرْضِ، فَأَرْسَلَ إِلَی کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَی حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ، قَالَ حَسَّانُ رضی الله عنه : قَدْ آنَ لَکُمْ أَنْ تُرْسِلُوْا إِلَی ھَذَا الْأَسَدِ الضَّارِبِ بِذَنْبِهِ، ثُمَّ أَدْلَعَ لِسَانَهُ، فَجَعَلَ یُحَرِّکُهُ، فَقَالَ : وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَأَفْرِیَنَّھُمْ بِلِسَانِي فَرْيَ الْأَدِيْمِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَا تَعْجَلْ، فَإِنَّ أَبَا بَکْرٍ أَعْلَمُ قُرَيْشٍ بِأَنْسَابِھَا، وَإِنَّ لِي فِيْھِمْ نَسَبًا حَتَّی یُلَخِّصَ لَکَ نَسَبِي، فَأَتَاهُ حَسَّانُ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، قَدْ لَخَّصَ لِي نَسَبَکَ۔ وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، لَأَسُلَّنَّکَ مِنْھُمْ کَمَا تُسَلُّ الشَّعَرَةُ مِنَ الْعَجِيْنِ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالطَّبَرِيُّ۔
8 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : فضائل الصحابۃ، باب : فضائل حسان بن ثابت رضی الله عنه، 4 / 1935، الرقم : 2490، والطبراني في المعجم الکبیر، 4 / 38، الرقم : 3582، والبیھقي في السنن الکبری، 10 / 238، الرقم : 20895، والطبري في تهذیب الآثار، 2 / 629، الرقم : 929، والمقدسي في أحادیث الشعر، 1 / 64، الرقم : 21، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 12 / 393۔
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قریش کی ہجو کرو، کیونکہ ان (گستاخوں ) پر ہجو تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ شاق گزرتی ہے پھر آپ ﷺ نے حضرت ابن رواحہ کی طرف پیغام بھیجا کہ کفار قریش کی ہجو کرو، انہوں نے کفار قریش کی ہجو کی، وہ آپ کو پسند نہیں آئی، پھر آپ نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا، پھر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا جب حضرت حسان آپ ﷺ کی خدمت میں آئے تو انہوں نے عرض کیا : اب وقت آگیا ہے آپ نے اس شیر کی طرف پیغام بھیجا ہے جو اپنی دم سے مارتا ہے پھر اپنی زبان نکال کر اس کو ہلانے لگے پھر عرض کیا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! میں اپنی زبان سے انہیں اس طرح چیر پھاڑ کر رکھ دوں گا جس طرح چمڑے کو پھاڑتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جلدی نہ کرو، یقینا ابو بکر قریش کے نسب کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں اور ان میں میرا نسب بھی ہے (تم ان کے پاس جاؤ) تاکہ ابو بکر میرا نسب ان سے الگ کردیں۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے پھر واپس لوٹے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! ابو بکر نے میرے لئے آپ کا نسب الگ کر دیاہے اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں (ان کی ھجو کرتے ہوئے)آپ کو ان میں سے اس طرح نکال لوں گا جس طرح گندھے ہوئے آٹے سے بال نکال لیا جاتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، طبرانی اور طبری نے روایت کیا ہے۔
9۔ عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَضَعُ لِحَسَّانَ مِنْبَرًا فِي الْمَسْجِدِ، یَقُوْمُ عَلَيْهِ قَائِمًا، یُفَاخِرُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَوْ قَالَ : یُنَافِحُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ۔ وَ یَقُوْلُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ اللهَ یُؤَيِّدُ حَسَّانَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ مَا یُفَاخِرُ أَوْ یُنَافِحُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔
9 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الأدب، باب : ما جاء في إنشاد الشعر، 5 / 138، الرقم : 2846، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 72، الرقم : 24481، وأبو یعلی في المسند، 8 / 189، الرقم : 4746، والطبراني في المعجم الکبیر، 4 / 37، الرقم : 3580، والحاکم في المستدرک، 3 / 554۔ 555، الرقم : 6058۔6059، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 298، والخطیب البغدادي في موضح أوھام الجمع والتفریق، 2 / 423، الرقم : 427، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 1 / 123۔
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا : حضور نبی اکرم ﷺ مسجد نبوی میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے منبر رکھتے تھے جس پر وہ کھڑے ہو کر حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف سے (مشرکین کے مقابلہ میں) فخر یا دفاع کرتے تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ فرماتے : بے شک اللہ تعالیٰ روح القدس کے ذریعے حسان کی مدد فرماتا رہے گا۔ جب تک وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے فخر یا دفاع کرتا رہے گا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ابو عیسٰی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
10۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَخَلَ مَکَّةَ فِي عُمْرَةِ الْقَضَاءِ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ رضی الله عنه بَيْنَ یَدَيْهِ یَمْشِي وَھُوَ یَقُوْلُ :
خَلُّوْا بَنِي الْکُفَّارِ عَنْ سَبِيْلِهِ
الْیَوْمَ نَضْرِبْکُمْ عَلَی تَنْزِيْلِهِ
ضَرْبًا یَزِيْلُ الْھَامَ عَنْ مَقِيْلِهِ
وَیُذْھِلُ الْخَلِيْلَ عَنْ خَلِيْلِهِ
فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : یَا ابْنَ رَوَاحَةَ، بَيْنَ یَدَي رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَفِي حَرَمِ اللهِ تَقُوْلُ الشِّعْرَ؟ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ : خَلِّ عَنْهُ یَا عُمَرُ، فَلَھِيَ أَسْرَعُ فِيْھِمْ مِنْ نَضْحِ النَّبْلِ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَالْبَغَوِيُّ، وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : ھَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔ وَقَالَ الْبَغَوِيُّ : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ۔
10 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الأدب، باب : ما جاء في إنشاد الشعر، 5 / 139، الرقم : 2847، والنسائي في السنن، کتاب : مناسک الحج، باب : إنشاد الشعر في الحرم والمشي بین یدي الإمام، 5 / 202، الرقم : 2873، وفي السنن الکبری، 2 / 383، الرقم : 3856، والبغوي في شرح السنۃ، 12 / 374۔375، الرقم : 3404۔3405، وقال : إسناده صحیح، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 502، والذهبي في سیر أعلام النبلاء، 1 / 235، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 13 / 151، والقسطلاني في المواهب اللدنیۃ، 1 / 297۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عمرہ قضاء کے موقع پر حضورنبی اکرم ﷺ مکہ مکرمہ میں اس شان سے داخل ہوئے کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے آگے آگے چل رہے تھے اور یہ اشعار پڑھ رہے تھے :
’’کافروں کے بیٹو! حضور نبی اکرم ﷺ کے راستہ سے ہٹ جاؤ۔ آج ان کے آنے پر ہم تمہاری گردنیں ماریں گے۔ ایسی ضرب جو کھوپڑیوں کو گردن سے جدا کردے اور دوست کو دوست سے الگ کردے۔‘‘
’’اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے عبد اللہ بن رواحہ! رسول اللہ ﷺ کے سامنے اور اللہ تعالیٰ کے حرم میں شعر کہتے ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے عمر! اسے چھوڑ دو! یہ اشعار اِن (دشمنوں) کے حق میں تیروں سے تیز تر اثر کرتے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی اور بغوی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ امام بغوی نے فرمایا کہ اس کی سند صحیح ہے۔
11۔ عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ رَوَاحَةَ : لَوْحَرَکْتَ بِنَا الرِّکَابَ فَقَالَ : قَدْ تَرَکْتُ قَوْلِي۔ قَالَ لَهُ عُمَرُ رضی الله عنه : أَسْمِعْ وَأَطِعْ قَالَ :
اَللَّھُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اھْتَدَيْنَا
وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلاَ صَلَّيْنَا
فَأَنْزِلَنْ سَکِيْنَةً عَلَيْنَا
وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا
فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَللَّھُمَّ ارْحَمْهُ، فَقَالَ عُمَرُ رضی الله عنه : وَجَبَتْ۔
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ سَعْدٍ۔
11 : أخرجه النسائي في السنن الکبری، 5 / 69، الرقم : 8250، وفي فضائل الصحابۃ، 1 / 44، الرقم : 146، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6 / 395، الرقم : 32327، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 527، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 1 / 381، الرقم : 264، والحسیني في البیان والتعریف، 1 / 146، الرقم : 389، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 28 / 104، والذھبي في سیر أعلام النبلاء، 1 / 236۔
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا : کاش! (حدی خوانی کرکے) تو ہمارے ساتھ ہماری سواری میں تحرک پیدا کرے! انہوں نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میں نے شعر کہنا چھوڑ دیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کہا : شعر سناؤ اور حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت بجا لاؤ تو انہوں نے یہ شعر پڑھے :
’’اے اللہ تعالیٰ! اگر تیری مدد و نصرت ہمارے شاملِ حال نہ ہوتی تو نہ ہم ہدایت یافتہ ہوتے، اور نہ ہی صدقہ کرتے اور نہ ہی نماز ادا کرتے۔ پس تو ہم پر سکینہ نازل فرما اور جب دشمنوں سے ہمارا سامنا ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔‘‘
’’پس حضور نبی اکرم ﷺ نے یہ اشعار سن کر فرمایا : اے اللہ! اس پر رحم فرما، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (حضور نبی اکرم ﷺ کے اس قول کی بدولت اس پر) جنت واجب ہوگئی ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام نسائی، ابن ابی شیبہ اور ابن سعد سے روایت کیا ہے۔
12۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَرَّ بِبَعْضِ الْمَدِيْنَةِ، فَإِذَا ھُوَ بِجَوَارٍ یَضْرِبْنَ بِدُفِّھِنَّ وَیَتَغَنَّيْنَ وَیَقُلْنَ :
نَحْنُ جَوَارٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ
یَا حَبَّذَا مُحَمَّدٌ مِنْ جَارٍ
فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : یَعْلَمُ اللهُ إِنِّي لَأُحِبُّکُنَّ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه۔
وفي روایۃ : فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : اَللَّھُمَّ بَارِکْ فِيْھِنَّ۔
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَأَبُوْ یَعْلَی وَالنَّسَائِيُّ۔
12 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : النکاح، باب : الغناء والدف، 1 / 612، الرقم : 1899، والنسائي في عمل الیوم واللیلۃ، 1 / 190، الرقم : 229، وأبو یعلی في المسند، 6 / 134، الرقم : 3409، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 3 / 120، والمقدسي في أحادیث الشعر، 1 / 75، الرقم : 26، والهیثمي في مجمع الزوائد، 10 / 42، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 261۔
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ کی گلیوں سے گزرے تو چند لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور گا کر کہہ رہی تھیں :
’’ہم بنو نجار کی بچیاں کتنی خوش نصیب ہیں کہ محمد مصطفی ﷺ (جیسی ہستی) ہماری پڑوسی ہے۔‘‘
تو حضور نبی اکرم ﷺ نے (ان کی نعت سن کر) فرمایا : (میرا ) اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بھی تم سے بے حد محبت رکھتا ہوں۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے اللہ! انہیں برکت عطا فرما۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو نعیم، ابو یعلی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
13۔ عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَةَ رضی الله عنه قَالَ : أَنْشَدَ النَّبِيَّ ﷺ کَعْبُ بْنُ زُھَيْرٍ ’’بَانَتْ سُعَادُ‘‘ فِي مَسْجِدِهِ بِالْمَدِيْنَةِ فَلَمَّا بَلَغَ قَوْلَهُ :
إِنَّ الرَّسُوْلَ لَنُوْرٌ یُسْتَضَاء بِهِ
وَصَارِمٌ مِنْ سُیُوْفِ اللهِ مَسْلُوْلُ
أَشَارَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِکُمِّهِ إِلَی الْخَلْقِ لِیَسْمَعُوْا مِنْهُ … الحدیث۔
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْھَقِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ۔
وفي روایۃ : عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا انْتَھَی خَبَرُ قَتْلِ ابْنِ خَطْلٍ إِلَی کَعْبِ بْنِ زُھَيْرِ بْنِ أَبِي سَلْمَی وَکَانَ بَلَغَهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَوْعَدَهُ بِمَا أَوْعَدَهُ ابْنَ خَطْلٍ فَقِيْلَ لِکَعْبٍ إِنْ لَمْ تُدْرِکْ نَفْسَکَ قُتِلْتَ، فَقَدِمَ الْمَدِيْنَةَ فَسَأَلَ عَنْ أَرَقِّ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَدُلَّ عَلَی أَبِي بَکْرٍ رضی الله عنه وَأَخْبَرَهُ خَبَرَهُ فَمَشَی أَبُوْ بَکْرٍ وَکَعْبٌ عَلَی إِثْرِهِ حَتَّی صَارَ بَيْنَ یَدَي رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ یَعْنِي أَبَا بَکْرٍ : اَلرَّجُلُ یُبَایِعُکَ فَمَدَّ النَّبِيُّ ﷺ یَدَهَ فَمَدَّ کَعْبٌ یَدَهُ فَبَایَعَهُ وَسَفَرَ عَنْ وَجْھِهِ فَأَنْشَدَهُ :
نُبِّئْتُ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ أَوْعَدَنِي
وَالْعَفْوُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ مَأْمُوْلُ
إِنَّ الرَّسُوْلَ لَنُوْرٌ یُسْتَضَاءُ بِهِ
مُھَنَّدٌ مِنْ سُیُوْفِ اللهِ مَسْلُوْلُ
فَکَسَاهُ النَّبِيُّ ﷺ بُرْدَةً لَهُ فَاشْتَرَاھَا مُعَاوِیَةُ رضی الله عنه مِنْ وَلَدِهِ بِمَالٍ فَھِيَ الَّتِي تَلْبَسُھَا الْخُلَفَاء فِي الْأَعْیَادِ۔
رَوَاهُ ابْنُ قَانِعٍ وَالْعَسْقَـلَانِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ فِي الْبَدَایَةِ، وَقَالَ : قُلْتُ : وَرَدَ فِي بَعْضِ الرِّوَایَاتِ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ أَعْطَی بُرْدَتَهُ حِيْنَ أَنْشَدَهُ الْقَصِيْدَةَ … وَھَکَذَا الْحَافِظُ أَبُو الْحَسَنِ ابْنُ اْلأَثِيْرِ فِي الْغَابَةِ قَالَ : ھِيَ الْبُرْدَةُ الَّتِي عِنْدَ الْخُلَفَاءِ، قُلْتُ : وَھَذَا مِنَ الْأُمُوْرِ الْمَشْھُوْرَةِ جِدًّا۔
13 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 670۔ 673، الرقم : 6477۔ 6479، والبیهقي في السنن الکبری، 10 / 243، الرقم : 77، والطبراني في المعجم الکبیر، 19 / 177۔178، الرقم : 403، وابن قانع في معجم الصحابۃ، 2 / 381، والعسقلاني في الإصابۃ، 5 / 594، وابن هشام في السیرۃ النبویۃ، 5 / 191، والکلاعي في الاکتفائ، 2 / 268، وابن کثیر في البدایۃ والنهایۃ (السیرۃ)، 4 / 373۔
’’حضرت موسیٰ بن عقبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ نے اپنے مشہور قصیدے ’’بانت سعاد‘‘ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی مسجد نبوی میں مدح کی اور جب اپنے اس شعر پر پہنچا :
’’بیشک (یہ) رسولِ مکرم ﷺ وہ نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور آپ ﷺ (کفر و ظلمت کے علمبرداروں کے خلاف) اللہ تعالیٰ کی تیزدھار تلواروں میں سے ایک عظیم تیغِ آبدار ہیں۔‘‘
’’حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے دستِ اقدس سے لوگوں کی طرف اشارہ کیا کہ وہ انہیں (یعنی کعب بن زہیر) کو (غور سے) سنیں۔‘‘ اسے امام حاکم، بیہقی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
’’اور حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ جب حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ کے پاس (قبول اسلام سے قبل،گستاخِ رسول) ابن خطل کے قتل کی خبر پہنچی اور اسے یہ خبر بھی پہنچ چکی تھی کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے بھی وہی دھمکی دی ہے جو آپ ﷺ نے ابن خطل کو دی تھی تو کعب سے کہا گیا کہ اگر تو بھی حضور نبی اکرم ﷺ کی ہجو سے باز نہیں آئے گا تو قتل کر دیا جائے گا۔ اس نے حضور نبی اکرم ﷺ کے سب سے زیادہ نرم دل صحابی کے بارے میں معلومات کیں، تو اسے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں بتایا گیا۔ وہ ان کے پاس گیا اور انہیں اپنی (ندامت و توبہ کی) ساری بات بتا دی، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ چپکے سے چلے (تاکہ کوئی صحابی راستے میں ہی اسے پہچان کر قتل نہ کر دے) یہاں تک کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے پہنچ گئے، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) یہ ایک آدمی ہے جو آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہے سو حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنا دستِ اقدس آگے بڑھایا تو حضرت کعب بن زہیر نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر آپ ﷺ کی بیعت کر لی پھر اپنے چہرے سے نقاب ہٹا لیا اور اپنا وہ قصیدہ پڑھا جس میں ہے :
’’مجھے خبر دی گئی کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے دھمکی دی ہے اور رسول اللہ ﷺ کے ہاں عفو و درگزر کی (زیادہ) امید کی جاتی ہے۔
’’بیشک (یہ) رسولِ مکرم ﷺ وہ نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور آپ ﷺ (کفر و ظلمت کے علمبرداروں کے خلاف) اللہ تعالیٰ کی تیزدھار تلواروں میں سے ایک عظیم تیغِ آبدار ہیں۔‘‘
’’پس حضور نبی اکرم ﷺ نے (خوش ہو کر) اسے اپنی چادر پہنائی جسے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کی اولاد سے مال کے بدلہ میں خرید لیا اور یہی وہ چادر ہے جسے (بعد میں) خلفاء عیدوں (اور اہم تہواروں کے موقع) پر پہنا کرتے تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن قانع اور امام عسقلانی نے روایت کیا ہے اور امام ابن کثیر نے ’’البدایہ‘‘ میں روایت کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ میں کہتا ہوں کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ ’’حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی چادر مبارک ان کو اس وقت عطا فرمائی جب انہوں نے اپنے قصیدے کے ذریعے آپ ﷺ کی مدح فرمائی … اور اسی طرح حافظ ابو الحسن ابن الاثیر نے ’’أُسُد الغابۃ‘‘ میں بیان کیا ہے کہ یہ وہی چادر ہے جو خلفا کے پاس رہی اور یہ بہت ہی مشہور واقعہ ہے۔‘‘
14۔ عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ سَرِيْعٍ رضی الله عنه قَالَ : قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي قَدْ مَدَحْتُ بِمَدْحَةٍ وَمَدَحْتُکَ بِأُخْرَی۔ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : ھَاتِ وَابْدَأْ بِمَدْحَةِ اللهِ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْھَقِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ۔
14 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 24، الرقم : 15711، والطبراني في المعجم الکبیر، 1 / 287، الرقم : 843، والبیھقي في شعب الإیمان، 4 / 89، الرقم : 4365، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 126، الرقم : 342، والحسیني في البیان والتعریف، 2 / 252، الرقم : 1636، وقال : أخرجه البغوي، وابن عدي في الکامل، 5 / 200۔
’’حضرت اسود بن سریع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا : یا رسول اللہ! بے شک میں نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی ہے اور آپ ﷺ کی نعت بیان کی ہے۔ پس آپ ﷺ نے فرمایا لائو (مجھے بھی سناؤ) اور ابتداء اللہ تعالیٰ کی حمد سے کرو۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، طبرانی، بیہقی اور بخاری نے ’’الأدب المفرد‘‘ میں روایت کیا ہے۔
15۔ عَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ ﷺ : إِنَّ اللهَ عزوجل قَدْ أَنْزَلَ فِي الشِّعْرِ مَا أَنْزَلَ، فَقَالَ : إِنَّ الْمُؤْمِنَ یُجَاھِدُ بِسَيْفِهِ وَلِسَانِهِ وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهِ، لَکَأَنَّ مَا تَرْمُوْنَھُمْ بِهِ نَضْحُ النَّبْلِ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبَغَوِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ۔
15 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 387، الرقم : 27218، 3 / 456، وابن حبان في الصحیح، 13 / 102، الرقم : 5786، 11 / 5، الرقم : 4707، والطبراني في المعجم الکبیر، 19 / 75، الرقم : 151۔153، والبیهقي في السنن الکبری، 10 / 239، والبخاري في التاریخ الکبیر، 5 / 304، والبغوي في شرح السنۃ، 12 / 378، الرقم : 3409، وابن عبد البر في الاستیعاب، 3 / 1325، والمزي في تهذیب الکمال، 24 / 195، والحسیني في البیان والتعریف، 1 / 216، الرقم : 566۔
’’حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا : بیشک اللہ تبارک و تعالیٰ نے شعر کے بارے میں نازل کیا جو نازل کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : بیشک مومن اپنی تلوار اور زبان دونوں کے ساتھ جہاد کرتا ہے اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! گویا جو الفاظ تم ان (کفار و مشرکین)کی مذمت میں کہتے ہو وہ (ان کے لئے) بمنزلہ تیر برسانے کے ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد، ابن حبان، بغوی اور بخاری نے ’التاریخ الکبیر‘ میں روایت کیا ہے۔
16۔ عَنْ خُرَيْمِ بْنِ أَوْسِ بْنِ حَارِثَةَ بْنِ لَامٍ رضی الله عنه قَالَ : کُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنهما : یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي أُرِيْدُ أَنْ أَمْدَحَکَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : هَاتِ لَا یَفْضُضِ اللهُ فَاکَ فَأَنْشَأَ الْعَبَّاسُ رضی الله عنه یَقُوْلُ :
وَأَنْتَ لَمَّا وُلِدْتَ أَشْرَقَتِ
الْأَرْضُ وَضَاءَتْ بِنُوْرِکَ الْأُفُقُ
فَنَحْنُ فِي الضِّیَاءِ وَفِي
النُّوْرِ وَسُبُلُ الرَّشَادِ نَخْتَرِقُ
رَوَاهُ الطَّبَرَانِي وَالْحَاکِمُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ۔
16 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 4 / 213، الرقم : 4167، والحاکم في المستدرک، 3 / 369، الرقم : 5417، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 364، والذھبي في سیر أعلام النبلاء، 2 / 102، وابن الجوزي في صفوۃ الصفوۃ، 1 / 53، وابن عبد البر في الاستیعاب، 2 / 447، الرقم : 664، والعسقلاني في الإصابۃ، 2 / 274، الرقم : 2247، والهیثمي في مجمع الزوائد، 8 / 217۔
’’حضرت خریم بن اوس بن حارثہ بن لام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے خدمتِ اقدس میں موجود تھے تو حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہما نے آپ ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا : یا رسول اللہ! میں آپ کی مدح و نعت پڑھنا چاہتا ہوں تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : لاؤ مجھے سناؤ اللہ تعالیٰ تمہارے دانت صحیح و سالم رکھے (یعنی تم اسی طرح کا عمدہ کلام پڑھتے رہو) تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ پڑھنا شروع کیا :
’’اور آپ وہ ذات ہیں کہ جب آپ کی ولادت باسعادت ہوئی تو (آپ کے نور سے) ساری زمین چمک اٹھی اور آپ کے نور سے اُفقِ عالم روشن ہو گیا پس ہم ہیں اور ہدایت کے راستے ہیں اور ہم آپ کی عطا کردہ روشنی اور آپ ہی کے نور میں ان (ہدایت کی راہوں) پر گامزن ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی، حاکم اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
17۔ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الْبَرَّادِ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآیَةُ : {وَالشُّعَرَاءُ یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُوْنَ} [الشعراء، 26 : 224] جَاءَ عَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ وَکَعْبُ بْنُ مَالِکٍ وَحَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ رضی الله عنهم إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَهُمْ یَبْکُوْنَ فَقَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَنْزَلَ اللهُ هَذِهِ الآیَةَ وَهُوَ یَعْلَمُ أَنَّا شُعَرَاءُ فَقَالَ : إِقْرَأُوْا مَا بَعْدَهَا : {إِلَّا الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ} [الشعراء، 26 : 227] أَنْتُمْ {وَانْتَصَرُوْا} أَنْتُمْ۔
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَالطَّبَرِيُّ۔
17 : أخرجه ابن أبي شیبۃ في المصنف، 5 / 277، الرقم : 26051، وابن أبي حاتم في تفسیره، 9 / 2834۔2835، والطبري في جامع البیان، 19 / 129۔130، والسیوطي في الدر المنثور، 6 / 334، والعسقلاني في فتح الباری، 10 / 539، والعیني في عمدۃ القاري، 22 / 181۔
’’حضرت حسن براد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ جب قرآن پاک کی یہ آیت نازل ہوئی : ’’اور شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں۔‘‘ تو حضرت عبد اللہ بن ابی رواحہ، حضرت کعب بن مالک اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہم تینوں حضورنبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس حال میں کہ وہ گریہ کناں تھے اور عرض کرنے لگے : یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے (شعراء کے بارے میں) یہ آیت نازل فرمائی ہے اور وہ جانتا ہے کہ ہم بھی شاعر ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسکے بعد والی آیت پڑھو کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’سوائے ان (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا : اس آیت سے مراد تم لوگ ہو اور پھر (آیت کے اگلے حصہ) : ’’اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد (ظالموں سے بزبانِ شعر) انتقام لیا۔‘‘ تلاوت کر کے فرمایا : اس سے مراد بھی تم لوگ ہی ہو۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ، ابن ابی حاتم اور طبری نے روایت کیا ہے۔
18۔ عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَهُ : وَإِيَّاکَ یَا سَيِّدَ الشُّعَرَاءِ۔ رَوَاهُ ابْنُ أَبِي الدُّنْیَا۔
18 : أخرجه ابن أبي الدنیا في الإشراف في منازل الأشراف، 1 / 244، الرقم : 296، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 28 / 93۔
’’حضرت ہشام بن حسان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے (حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا : اور (سنو!) اے شاعروں کے سردار!‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی دنیا نے روایت کیا ہے۔
19۔ عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ یَحْمِي أَعْرَاضَ الْمُؤْمِنِيْنَ؟ قَالَ کَعْبٌ : أَنَا، قَالَ ابْنُ رَوَاحَةَ : أَنَا، قَالَ : إِنَّکَ لَتُحْسِنُ الشِّعْرَ۔ قَالَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ رضی الله عنه : أَنَا۔ إِذْ قَالَ : أُھْجُھُمْ، فَإِنَّهُ سَیُعِيْنُکَ عَلَيْھِمْ رُوْحُ الْقُدُسِ۔ رَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ۔
19 : أخرجه الطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 297، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 416، والسیوطي في الدر المنثور، 6 / 590۔
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مومنوں کی عزتوں کی حفاظت کون کرے گا؟ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!)، میں، اور حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے بھی عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میں (حفاظت کروں گا)۔ آپ ﷺ نے فرمایا : بے شک تو عمدہ شعر کہنے والا ہے۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میں (بھی حفاظت کروں گا)۔ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے انہیں فرمایا : تم مشرکین کی ہجو کرو اور اس کام میں روح القدس (حضرت جبرائیل) علیہ السلام تمہاری مدد کرے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام طحاوی نے بیان کیا ہے۔
20۔ عَنْ عُرْوَةَ أَنَّ حَکِيْمَ بْنَ حِزَامٍ خَرَجَ إِلَی الْیَمَنِ فَاشْتَرَی حُلَّةً ذِي یَزَنٍ، فَقَدِمَ بِھَا الْمَدِيْنَةَ عَلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَأَھْدَاھَا لَهُ فَرَدَّھَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَقَالَ : إِنَّا لَا نَقْبَلُ هَدْیَةَ مُشْرِکٍ فَبَاعَھَا حَکِيْمٌ فَأَمَرَ بِھَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَاشْتُرِیَتْ لَهُ فَلَبِسَھَا ثُمَّ دَخَلَ فِيْھَا الْمَسْجِدَ فَقَالَ حَکِيْمٌ : فَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ فِيْھَا لَکَأَنَّهُ الْقَمَرُ لَيْلَةَ الْبَدْرِ فَمَا مَلَکْتُ نَفْسِي حِيْنَ رَأَيْتُهُ کَذَلِکَ أَنْ قُلْتُ :
مَا یَنْظُرُ الْحُکَّامُ بِالْحُکْمِ بَعْدَ مَا
بَدَا وَاضِحٌ ذُوْ غُرَّةٍ وَحَجُوْلُ
إِذَا وَاضَخُوْهُ الْمَجْدَ أَرْبَی عَلَيْهِمْ
بِمُسْتَفْرَغِ مَاء الذِّنَابِ سَجِيْلُ
فَضَحِکَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ۔
رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ نَحْوَهُ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ۔
21 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 3 / 193، 202، الرقم : 3094، 3125، والحاکم في المستدرک، 3 / 551، الرقم : 6050، والطبري في تهذیب الآثار، 2 / 671، الرقم : 987، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 8 / 73، 15 / 101۔ 102۔
’’حضرت عروہ سے روایت ہے کہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ (قبولِ اسلام سے پہلے بغرض تجارت) یمن کی طرف گئے۔ وہاں سے انہوں نے ایک نہایت دلربا اور جاذب نظر لباس خریدا۔ مدینہ منورہ واپس آکر وہ لباس حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں تحفتاً پیش کیا۔ آپ ﷺ نے یہ لباس قبول کرنے سے انکار فرمایا اور یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ ہم مشرک کا تحفہ قبول نہیں کرتے۔ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے اسے فروخت کرنے کا (عندیہ دیا) تو آپ ﷺ نے اسے اپنے لئے خریدنے کا حکم فرمایا۔ وہ لباس آپ ﷺ کے لئے خرید لیا گیا۔ جب آپ ﷺ نے اُسے زیبِ تن فرما کر مسجد میں تشریف لائے اور حضرت حکیم نے آپ ﷺ کو اس لباس میں دیکھا تو وہ بے ساختہ کہہ اٹھے : میں نے اس لباس میں آپ ﷺ سے زیادہ حسین جچتا ہوا انسان کبھی نہیں دیکھا، آپ تو چودھویں کا چاند دکھائی دیتے ہیں اور بے قابو ہو کر بے ساختہ یہ اشعار پڑھنے لگے :
’’جب روشن، چمکتے دمکتے اور گورے مکھڑے والے (محمد مصطفی ﷺ ) جلوہ افروز ہوتے ہیں تو (حسن و قبح کا) حکم لگانے والے (حسن مصطفی ﷺ میں کھو کر) اپنا (منصب) حکم بھول جاتے ہیں۔ جب لوگوں نے ان کے ساتھ عظمت اور بزرگی میں مقابلہ کرنا چاہا تو وہ ان سب پر (عطاؤں اور کرم نوازیوں سے بھرے) بڑے بڑے ڈولوں کے ساتھ سبقت لے گئے۔‘‘
اس حدیث کو امام طبری، طبرانی اور اسی طرح حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
1۔ قَالَ عُرْوَةَ رضی الله عنه : کَانَتْ عَائِشَةُ رضي الله عنها تَکْرَهُ أَنْ یُّسَبَّ عِنْدَھَا حَسَّانُ وَتَقُوْلُ : فَإِنَّهُ قَالَ :
فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي
لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاءُ
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : المغازي، باب : حدیث الإفک، 4 / 1518، الرقم : 3910، ومسلم في الصحیح، کتاب : التوبۃ، باب : في حدیث الإفک وقبول توبۃ القاذف، 4 / 2137، الرقم : 2770، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 296، الرقم : 8931، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 197، وأبو یعلی في المسند، 8 / 341، الرقم : 4933۔
’’حضرت عروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس بات کو (سخت) ناپسند فرماتی تھیں کہ ان کے سامنے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا جائے۔ فرماتی تھیں (انہیں برا بھلا مت کہو) انہوں نے (حضور نبی اکرم ﷺ کی شان میں) یہ نعت پڑھی ہے :
’’بلاشبہ میرا باپ، میرے اجداد اور میری عزت (ہمارا سب کچھ)، محمد مصطفی ﷺ کی عزت و ناموس کے دفاع کے لئے تمہارے خلاف ڈھال ہیں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2۔ عَنْ ھِشَامٍ رضی الله عنه عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : ذَھَبْتُ أَسُبُّ حَسَّانَ عِنْدَ عَائِشَةَ رضي الله عنها، فَقَالَتْ : لَا تَسُبَّهُ، فَإِنَّهُ کَانَ یُنَافِحُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : المغازي، باب، حدیث الإفک، 4 / 1523، الرقم : 3914، وفي کتاب : الأدب، باب : ھجاء المشرکین، 5 / 2278، الرقم : 5798، ومسلم في الصحیح، کتاب : فضائل الصحابۃ، باب : فضائل حسان بن ثابت رضی الله عنه، 4 / 1933، الرقم : 2487۔
’’حضرت ہشام رضی اللہ عنہ نے اپنے والد (حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما) سے راویت کیا کہ انہوں نے فرمایا : میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے لگا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : انہیں برا بھلا نہ کہو وہ (اپنی شاعری کے ذریعے) رسول اللہ ﷺ کا کفار کے مقابلہ میں دفاع کیا کرتے تھے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
3۔ عَنْ مَسْرُوْقٍ قَالَ : کُنْتُ عِنْدَ عَائِشَةَ رضي الله عنها فَدَخَلَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ رضی الله عنه فَأَمَرَتْ فَأُلْقِيَ لَهُ وِسَادَةٌ … الحدیث۔ رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ۔
3-4 : أخرجه الطبري في جامع البیان، 18 / 88، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 3 / 273، والسیوطي في الدر المنثور، 6 / 158۔
’’حضرت مسروق سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں موجود تھا تو اتنے میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے (ان کی تکریم کے لئے) حکم دیا کے اُن کے لئے تکیہ رکھا جائے (حضرت حسان رضی اللہ عنہ چونکہ اشعار کے ذریعے حضور نبی اکرم ﷺ کا دفاع کرتے تھے، اس لئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے انہیں یہ عزت و تکریم بخشی)۔‘‘اس روایت کو امام طبری اور ابن کثیر نے بیان کیا ہے۔
4۔ وفي روایۃ : عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيْرِيْنَ أَنَّ عَائِشَةَ رضي الله عنها کَانَتْ تَأْذَنُ لِحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه وَتَدْعُوْ لَهُ بِالْوِسَادَةِ وَتَقُوْلُ : لَا تُؤْذُوْا حَسَّانَ فَإِنَّهُ کَانَ یَنْصُرُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ بِلِسَانِهِ۔ ذَکَرَهُ السَّیُوْطِيُّ۔
’’ایک اور روایت میں امام محمد بن سیرین علیہ الرحمہ سے مروی ہے کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا گھر میں آنے کی (خصوصی) اجازت دے دیتی تھیں اور ان کے لئے تکیہ لگانے کا اہتمام کرتی تھیں اور تاکیداً فرماتیں کہ انہیں تنگ نہ کیا جائے کیونکہ وہ اپنی زبان سے (شان مصطفی ﷺ میں اشعار کہہ کر) حضور نبی اکرم ﷺ کی مدد کیا کرتے تھے۔‘‘ اسے امام سیوطی نے ذکر کیا ہے۔
5۔ عَنْ کَعْبٍ الْأَحْبَارِ رضی الله عنه قَالَ : أَيْ بُنَيَّ، فَکُلَّمَا ذَکَرْتَ اللهَ فَاذْکُرْ إِلَی جَنْبِهِ اسْمَ مُحَمَّدٍ ﷺ ، فَإِنِّي رَأَيْتُ اسْمَهُ مَکْتُوْبًا عَلَی سَاقِ الْعَرْشِ، وَأَنَا بَيْنَ الرُّوْحِ وَالطِّيْنِ، کَمَا أَنِّي طُفْتُ السَّمَاوَاتِ، فَلَمْ أَرَ فِي السَّمَاوَاتِ مَوْضِعًا إِلَّا رَأَيْتُ اسْمَ مُحَمَّدٍ ﷺ مَکْتُوْبًا عَلَيْهِ وَأَنَّ رَبِّي أَسْکَنَنِيَ الْجَنَّةَ، فَلَمْ أَرَ فِي الْجَنَّةِ قَصْرًا وَلَا غُرْفَةً إِلَّا اسْمَ مُحَمَّدٍ ﷺ مَکْتُوْبًا عَلَيْهِ، وَلَقَدْ رَأَيْتُ اسْمَ مُحَمَّدٍ ﷺ مَکْتُوْبًا عَلَی نُحُوْرِ الْعِيْنِ، وَعَلَی وَرَقِ قَصَبِ آجَامِ الْجَنَّةِ، وَعَلَی وَرَقِ شَجَرَةِ طُوْبَی، وَعَلَی وَرَقِ سِدْرَةِ الْمُنْتَھَی، وَعَلَی أَطْرَافِ الْحُجُبِ، وَبَيْنَ أَعْیُنِ الْمَـلَائِکَةِ، فَأَکْثِرْ ذِکْرَهُ، فَإِنَّ الْمَـلَائِکَةَ تَذْکُرُهُ فِي کُلِّ سَاعَاتِھَا۔
رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَالسَّیُوْطِيُّ۔
5 : أخرجه ابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 23 / 281، والسیوطي في الخصائص الکبری، 1 / 12۔
’’حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے(اپنی اولاد سے) فرمایا : اے میرے بیٹے، تو جب کبھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے تو اس کے ساتھ حضور نبی اکرم ﷺ کے نام کا بھی ذکر کرو، پس بے شک میں نے محمد مصطفی ﷺ کا اسم گرامی عرش کے پایوں پر لکھا ہوا پایا، درآنحالیکہ میں روح اور مٹی کے درمیانی مرحلہ میں تھا، جیسا کہ (روح پھونکے جانے کے بعد) میں نے تمام آسمانوں کا طواف کیا اور کوئی جگہ ان آسمانوں میں ایسی نہ پائی جہاں میں نے اسم ’’محمد ﷺ ‘‘ لکھا ہوا نہ دیکھا ہو، بے شک میں حورعین کے گلوں پر، جنت کے محلات کے بانسوں کے پتوں پر، طوبیٰ درخت کے پتوں پر، سدرۃ المنتہیٰ کے پتوں پر، دربانوں کی آنکھوں پر، اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان بھی اسم ’’محمد ﷺ ‘‘ لکھا ہوا دیکھا، پس تم بھی کثرت سے ان کا ذکر کیا کرو، بے شک ملائکہ ہر گھڑی ان کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن عساکر اور سیوطی نے نقل کیا ہے۔
6۔ عَنْ بَرِيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : أَعَانَ جِبْرِيْلُ علیه السلام حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ رضی الله عنه عَلَی مَدْحِهِ النَّبِيَّ ﷺ بِسَبْعِيْنَ بَيْتًا۔
رَوَاهُ الْفَاکِھِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالْمِزِّيُّ۔ وَقَالَ ابْنُ عَسَاکِرَ : ھَذَا الْإِسْنَادُ وَھُوَ الصَّحِيْحُ۔
6 : أخرجه الفاکھي في أخبار مکۃ، 1 / 306، الرقم : 631، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 12 / 406، والمزي في تھذیب الکمال، 6 / 21، والخزرجي في خلاصۃ تهذیب تهذیب الکمال، 1 / 75، الرقم : 11، والسیوطي في الدرالمنثور، 6 / 337۔
’’حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی حضور نبی اکرم ﷺ کی مدح کے سلسلہ میں ستر اشعار کے ساتھ مدد فرمائی۔‘‘
اس حدیث کو امام فاکہی، ابن عساکر اور مزی نے روایت کیا ہے۔ امام ابن عساکر نے فرمایا کہ اس کی اسناد صحیح ہے۔
7۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما {وَالشُّعَرَاءُ} قَالَ : اَلْمُشْرِکُوْنَ مِنْهُمُ الَّذِيْنَ کَانُوْا یَهْجُوْنَ النَّبِيَّ ﷺ {یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُوْنَ} غُوَاةُ الْجِنِّ {فِي کُلِّ وَادٍ يَّهِيْمُوْنَ} فِي کُلِّ فَنٍّ مِنَ الْکَـلَامِ، یَأْخُذُوْنَ ثُمَّ اسْتُثْنِيَ فَقَالَ : {إِلَّا الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ} یَعْنِي حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ وَعَبْدَ اللهِ بْنَ رَوَاحَةَ وَکَعَبَ بْنَ مَالِکٍ رضی الله عنهم کَانُوْا یَذُبُّوْنَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَصْحَابِهِ هَجَاءَ الْمُشْرِکِيْنَ۔
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَالسَّیُوْطِيُّ۔
7 : أخرجه ابن أبي حاتم في تفسیره، 9 / 2834، والزیلعي في تخریج الأحادیث والآثار، 2 / 480، والسیوطي في الدر المنثور، 6 / 334۔
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آیت (وَالشُّعَرَاءُ۔۔۔) سے وہ مشرک شاعر مقصود ہیں جو حضور نبی اکرم ﷺ اور آپ ﷺ رفقائے کار کی مذمت کرنے اور (ہجو کرنے) میں مصروف رہتے تھے، اور آیت مبارکہ - {شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں} - سے یہ مراد ہے کہ جن لوگوں کو جنات نے بہکایا ہو {اور وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہوں} اسی طرح وہ اپنی تاویلیں ہر فن اور کلام میں گھڑتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں استثناء کرتے ہوئے فرمایا : {سوائے ان (شعراء) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے} اور اِس سے مراد حضرت حسان بن ثابت، حضرت عبد اللہ بن رواحہ، اور حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہم (و دیگر نعت خواں شامل) ہیں جو کہ مشرکین مکہ کے خلاف حضور نبی اکرم ﷺ اور انکے اصحاب کا دفاع کیا کرتے تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی حاتم اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved